بعض اوقات ”عدالت“ کا ”مساوات“ سے مغالطہ کیا جاتا ہے اور تصور کیا جاتا ہے کہ عدالت کے معنیٰ یہ ہیں کہ مساوات کی رعایت کی جائے، جبکہ ایسا نہیں ہے۔
عدالت میں ہرگز مساوات شرط نہیں ہے بلکہ حق اور ترجیحات کو مدنظر رکھا جانا چاہئے۔
مثال کے طور پر ایک جماعت کے شاگردوں میں عدالت یہ نہیں ہے کہ سب کو مساوی نمبر دئے جائیں اور دو مزدوروں کے در میان یہ عدالت نہیں ہے کہ دونوں کو مساوی مزدوری دی جائے۔ بلکہ عدالت یہ ہے کہ ہر شاگرد کو اس کی لیاقت اور صلاحیت کے مطابق نمبر دئے جائیں اور ہر مزدور کو اس کی محنت کے مطابق مزدوری دی جائے۔
اسی طرح مرد وعورت کی بناوٹ، صلاحیت وخوبیاں مختلف ہونے کے سبب حقوق برابر نہیں۔
عالم فطرت میں بھی وسیع معنی میں عدالت کا مفہوم یہی ہے۔ اگر ایک وہیل مچھلی کا دل جس کا وزن تقریباً ایک ٹن ہوتا ہے، ایک چڑیا کے دل کے برابر ہوتا تو یہ عدالت نہیں تھی۔ اگر ایک مضبوط لمبے درخت کی جڑ ایک چھوٹے سے پودے کی جڑ کے برابر ہو تو یہ عدالت نہیں ہے بلکہ عین ظلم ہے۔
عدالت کے معنیٰ یہ ہیں کہ ہر مخلوق اپنے حق، استعداد اور صلاحیت کے مطابق اپنا حصہ حاصل کرے۔
عدل کی حقیقت اور اس کی صورتیں
أَفَمَن كانَ مُؤمِنًا كَمَن كانَ فاسِقًا ۚ
لا يَستَوۥنَ {32:18} |
بھلا جو مومن ہو وہ اس شخص کی
طرح ہوسکتا ہے جو نافرمان ہو؟ دونوں برابر نہیں ہو سکتے |
بھلا ایک جو ہے ایمان پر
برابر ہے اسکے جو نافرمان ہے نہیں برابر ہوتے [۲۱] |
اگر ایک ایماندار اور بے
ایمان کا انجام برابر ہو جائے تو سمجھو خدا کے ہاں بالکل اندھیر ہے (العیاذ
باللہ)۔ |
لا يَستَوى أَصحٰبُ النّارِ وَأَصحٰبُ الجَنَّةِ ۚ أَصحٰبُ الجَنَّةِ هُمُ الفائِزونَ {59:20} |
اہل دوزخ اور اہل بہشت برابر نہیں۔ اہل بہشت تو کامیابی حاصل کرنے والے ہیں |
برابر نہیں دوزخ والے اور بہشت والے بہشت والے جو ہیں وہی ہیں مراد پانے والے [۳۷] |
یعنی چاہیئے کہ آدمی اپنے کو بہشت کا مستحق ثابت کرے جس کا راستہ قرآن کریم کی ہدایات کے سامنے جھکنے کے سوا کچھ نہیں۔ |
وَما يَستَوِى
الأَحياءُ وَلَا الأَموٰتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُسمِعُ مَن يَشاءُ ۖ وَما أَنتَ
بِمُسمِعٍ مَن فِى القُبورِ {35:22} |
اور نہ زندے اور مردے برابر
ہوسکتے ہیں۔ خدا جس کو چاہتا ہے سنا دیتا ہے۔ اور تم ان کو جو قبروں میں مدفون
ہیں نہیں سنا سکتے |
اور برابر نہیں جیتے اور نہ
مردے [۲۹] اللہ سناتا ہے جس کو چاہے اور
تو نہیں سنانے والا قبر میں پڑے ہوؤں کو |
یعنی مومن جس کو اللہ نے دل کی
آنکھیں دی ہیں، حق کے اجالے اور وحی الہٰی کی روشنی میں بے کھٹکے راستہ قطع کرتا
ہوا جنت کے باغوں اور رحمت الہٰی کے سایہ میں جا پہنچتا ہے۔ کیا اس کی برابری وہ
کافر کر سکے گا جو دل کا اندھا اوہام و اہواء کی اندھیریوں میں بھٹکتا ہوا جہنم
کی آگ اور اس کی جھلس دینے والی لوؤں کی طرف بے تحاشا چلا جا رہا ہے۔ ہر گز نہیں
۔ ایسا ہو تو یوں سمجھو کہ مردہ اور زندہ برابر ہو گیا۔ فی الحقیقت مومن و کافر
میں اس سے بھی زیادہ تفاوت ہے جو ایک زندہ تندرست آدمی اور مردہ لاش میں ہوتا
ہے، اصلی اور دائمی زندگی صرف روح ایمان سے ملتی ہے۔ بدون اس کے انسان کو ہزار
مردوں سے بدتر سمجھنا چاہئے۔ |
وَلا تَستَوِى
الحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادفَع بِالَّتى هِىَ أَحسَنُ فَإِذَا الَّذى
بَينَكَ وَبَينَهُ عَدٰوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِىٌّ حَميمٌ {41:34} |
اور بھلائی اور برائی برابر
نہیں ہوسکتی۔ تو (سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو بہت اچھا ہو (ایسا کرنے
سے تم دیکھو گے) کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمہارا گرم جوش دوست ہے |
اور برابر نہیں نیکی اور نہ
بدی جواب میں وہ کہہ جو اس سے بہتر ہو پھر تو دیکھ لے کہ تجھ میں اور جس میں
دشمنی تھی گویا دوستدار ہے قرابت والا [۴۸] |
ان آیات میں ایک سچے داعی الی
اللہ کو جس حسن اخلاق کی ضرورت ہے۔ اس کی تعلیم دیتے ہیں۔ یعنی خوب سمجھ لو
نیکی، بدی کے اور بدی نیکی کے برابر نہیں ہو سکتیں۔ دونوں کی تاثیر جداگانہ ہے،
بلکہ ایک نیکی دوسری نیکی سے اور ایک بدی دوسری بدی سے اثر میں بڑھ کر ہوتی ہے۔
لہذا ایک مومن قانت اور خصوصًا ایک داعی الی اللہ کا مسلک یہ ہونا چاہئے کہ
برائی کا جواب برائی سے نہ دے بلکہ جہاں تک گنجائش ہو ۔ برائی کے مقابلہ میں
بھلائی سے پیش آئے۔ اگر کوئی سخت بات کہے یا برا معاملہ کرے تو اس کے مقابل وہ
طرز عمل اختیار کرنا چاہیئے جو اس سے بہتر ہو۔ مثلًا غصہ کے جواب میں بردباری،
گالی کے جواب میں تہذیب اور شائستگی اور سختی کے جواب میں نرمی اور مہربانی سے
پیش آئے۔ اس طرز عمل کے نتیجہ میں تم دیکھ لو گے کہ سخت سے سخت دشمن بھی ڈھیلا
پڑ جائے گا۔ اور گو دل سے دوست نہ بنے تاہم ایک وقت آئے گا جب وہ ظاہر میں ایک
گہرے اور گرمجوش دوست کی طرح تم سے برتاؤ کرنے لگے گا۔ بلکہ ممکن ہے کہ کچھ دنوں
بعد سچے دل سے دوست بن جائے اور دشمنی و عداوت کے خیالات یکسر قلب سے نکل جائیں۔
کما قال { عَسَی اللہُ اَنْ یَّجْعَلَ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ عَادَ
یْتُمْ مِّنْھُمْ مَّوَدَّۃً } (سورہ ممتحنہ رکوع۲) ہاں کسی شخص کی طبعیت کی افتاد
ہی سانپ بچھو کی طرح ہو کہ کوئی نرم خوئی اور خوش اخلاقی اس پر اثر نہ کرے وہ
دوسری بات ہے مگر ایسے افراد بہت کم ہوتے ہیں۔ بہرحال دعوۃ الی اللہ کے منصب پر
فائز ہونے والوں کو بہت زیادہ صبر و استقلال اور حسن خلق کی ضرورت ہے۔ |
وَما لَكُم أَلّا تُنفِقوا فى سَبيلِ اللَّهِ
وَلِلَّهِ ميرٰثُ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ ۚ لا يَستَوى
مِنكُم مَن أَنفَقَ مِن قَبلِ الفَتحِ وَقٰتَلَ ۚ أُولٰئِكَ أَعظَمُ دَرَجَةً
مِنَ الَّذينَ أَنفَقوا مِن بَعدُ وَقٰتَلوا ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الحُسنىٰ
ۚ وَاللَّهُ بِما تَعمَلونَ خَبيرٌ {57:10} |
اور تم کو کیا ہوا ہے کہ خدا
کے رستے میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ آسمانوں اور زمین کی وراثت خدا ہی کی ہے۔ جس
شخص نے تم میں سے فتح (مکہ) سے پہلے خرچ کیا اور لڑائی کی وہ (اور جس نے یہ کام
پیچھے کئے وہ) برابر نہیں۔ ان کا درجہ ان لوگوں سے کہیں بڑھ کر ہے جنہوں نے بعد
میں خرچ (اموال) اور (کفار سے) جہاد وقتال کیا۔ اور خدا نے سب سے (ثواب) نیک
(کا) وعدہ تو کیا ہے۔ اور جو کام تم کرتے ہو خدا ان سے واقف ہے |
اور تم کو کیا ہوا ہے کہ خرچ
نہیں کرتے اللہ کی راہ میں اور اللہ ہی کو بچ رہتی ہر شے آسمانوں میں اور زمین
میں [۱۶] برابر نہیں تم میں جس نے کہ
خرچ کیا فتح مکہ سے پہلے [۱۷] اور
لڑائی کی اُن لوگوں کا درجہ بڑا ہے اُن سے جو کہ خرچ کریں اُسکے بعد اور لڑائی
کریں اور سب سے وعدہ کیا ہے اللہ نے خوبی کا [۱۸] اور اللہ کو خبر ہے جو کچھ تم
کرتے ہو [۱۹] |
یعنی یوں تو اللہ کے راستہ
میں کسی وقت بھی خرچ کیا جائے اور جہاد کیا جائے وہ اچھا ہے خدا اس کا بہترین
بدلہ دنیا یا آخرت میں دیگا، لیکن جن مقدور والوں نے "فتح مکہ" یا
"حدیبیہ" سے پہلے خرچ کیا اور جہاد کیا، وہ بڑے درجے لے اڑے، بعد والے
مسلمان ان کو نہیں پہنچ سکتے کیونکہ وہ وقت تھا کہ حق کے ماننے والے اور اس پر
لڑنیوالے اقل قلیل تھے۔ اور دنیا کافروں اور باطل پرستوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس
وقت اسلام کو جانی اور مالی قربانیوں کی ضرورت زیادہ تھی اور مجاہدین کو بظاہر
اسباب اموال و غنائم وغیرہ کی توقعات بہت کم۔ ایسے حالات میں ایمان لانا اور خدا
کے راستہ میں جان و مال لٹا دینا بڑے اولوالعزم اور پہاڑ سے زیادہ ثابت قدم
انسانوں کا کام ہے۔ فرضی اللہ عنہم و رضواعنہ ورزقنا اللہ اتباعہم وحبہم۔ اٰمین۔ |
یعنی اللہ کو سب خبر ہے کہ کس
کا عمل کس درجہ کا ہے اور اس میں اخلاص کا وزن کتنا ہے اپنے اسی علم کے موافق ہر
ایک سے معاملہ کرے گا۔ |
یعنی مالک فنا ہو جاتا ہے اور
ملک اللہ کا بچ رہتا ہے اور ویسے تو ہمیشہ اسی کا مال تھا۔ پھر اس کے مال میں سے
اس کے حکم کے موافق خرچ کرنا بھاری کیوں معلوم ہو؟ خوشی اور اختیار سے نہ دوگے
تو بے اختیار اسی کے پاس پہنچے گا۔ بندگی کا اقتضاء یہ ہے کہ خوشدلی سے پیش کرے
اور اس کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے فقروافلاس سے نہ ڈرے، کیونکہ زمین و آسمان کے
خزانوں کا مالک اللہ ہے۔ کیا اس کے راستہ میں خوشدلی سے خرچ کرنے والا بھوکا
رہیگا؟ { وَلَا تَخْشَ مِنْ ذِی الْعَرْشِ اِقْلَالَا }۔ |
اور بعض نے فتح سے مراد صلح
حدیبیہ لی ہے۔ اور بعض روایات سے اسی کی تائید ہوتی ہے۔ |
أَمَّن هُوَ قٰنِتٌ ءاناءَ الَّيلِ ساجِدًا
وَقائِمًا يَحذَرُ الءاخِرَةَ وَيَرجوا رَحمَةَ رَبِّهِ ۗ قُل هَل يَستَوِى الَّذينَ يَعلَمونَ وَالَّذينَ لا
يَعلَمونَ ۗ إِنَّما يَتَذَكَّرُ أُولُوا الأَلبٰبِ {39:9} |
(بھلا مشرک اچھا ہے) یا وہ جو رات کے وقتوں
میں زمین پر پیشانی رکھ کر اور کھڑے ہو کر عبادت کرتا اور آخرت سے ڈرتا اور اپنے
پروردگار کی رحمت کی امید رکھتا ہے۔ کہو بھلا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو نہیں
رکھتے دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ (اور) نصیحت تو وہی پکڑتے ہیں جو عقلمند ہیں |
بھلا ایک جو بندگی میں لگا
ہوا ہے رات کی گھڑیوں میں سجدے کرتا ہوا اور کھڑا ہو اخطرہ رکھتا ہے آخرت کا اور
امید رکھتا ہے اپنے رب کی مہربانی کی تو کہہ کوئی برابر ہوتے ہیں سمجھ والے اور
بے سمجھ سوچتے وہی ہیں جن کو عقل ہے [۲۰] |
یعنی جو بندہ رات کی نیند اور
آرام چھوڑ کر اللہ کی عبادت میں لگا۔ کبھی اس کے سامنے دست بستہ کھڑا رہا، کبھی
سجدہ میں گرا۔ ایک طرف آخرت کا خوف اس کے دل کو بیقرار کئے ہوئے ہے اور دوسری
طرف اللہ کی رحمت نے ڈھارس بندھا رکھی ہے۔ کیا یہ سعید بندہ اور وہ بدبخت انسان
جس کا ذکر اوپر ہوا کہ مصیبت کے وقت خدا کو پکارتا ہے اور جہاں مصیبت کی گھڑی
ٹلی خدا کو چھوڑ بیٹھا، دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ ایسا ہوتا تو یوں
کہو کہ ایک عالم اور جاہل یا سمجھدار اور بیوقوف میں کچھ فرق نہ رہا۔ مگر اس بات
کو بھی وہ ہی سوچتے سمجھتے ہیں جن کو اللہ نے عقل دی ہے۔ |
ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلًا فيهِ شُرَكاءُ
مُتَشٰكِسونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِرَجُلٍ هَل يَستَوِيانِ
مَثَلًا ۚ الحَمدُ لِلَّهِ ۚ بَل أَكثَرُهُم لا يَعلَمونَ {39:29} |
خدا ایک مثال بیان کرتا ہے کہ
ایک شخص ہے جس میں کئی (آدمی) شریک ہیں۔ (مختلف المزاج اور) بدخو اور ایک آدمی
خاص ایک شخص کا (غلام) ہے۔ بھلا دونوں کی حالت برابر ہے۔ (نہیں) الحمدلله بلکہ
یہ اکثر لوگ نہیں جانتے |
اللہ نے بتلائی ایک مثل ایک
مرد ہے کہ اس میں شریک ہیں کئ ضدی اور ایک مرد ہے پورا ایک شخص کا کیا برابر
ہوتی ہیں دونوں مثل [۴۶] سب
خوبی اللہ کے لئے ہے پر وہ بہت لوگ سمجھ نہیں رکھتے [۴۷] |
یعنی سب خوبی اللہ کے لئے ہے
کہ کیسے اعلیٰ مطالب و حقائق کو کیسی صاف اور دلنشین امثال و شواہد سے سمجھا
دیتے ہیں مگر اس پر بھی بہت بدنصیب ایسے ہیں جو ان واضح مثالوں کے سمجھنے کی
توفیق نہیں پاتے۔ |
یعنی کئ حصہ دار ایک غلام یا
نوکر میں شریک ہیں اور ہر حصہ دار اتفاق سے کج خلق، بے مروت اور سخت ضدی واقع
ہوا ہے، چاہتا ہے کہ غلام تنہا اس کے کام میں لگا رہے دوسرے شرکاء سے سروکار نہ
رکھے اس کھینچ تان میں ظاہر ہے غلام سخت پریشان اور پراگندہ دل ہو گا۔ برخلاف اس
کے جو غلام پورا ایک کا ہو، اسے ایک طرح کی یکسوئی اور طمانیت حاصل ہو گی اور کئ
آقاؤں کو خوش رکھنے کی کشمکش میں گرفتار نہ ہو گا۔ اب ظاہر ہے کہ یہ دونوں غلام
برابر نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح مشرک اور موحد کو سمجھ لو۔ مشرک کا دل کئ طرف بٹا
ہوا ہے اور کتنے ہی جھوٹے معبودوں کو خوش رکھنے کی فکر میں رہتا ہے۔ اس کے
برخلاف موحد کی کل توجہات خیالات اور دوادوش کا ایک مرکز ہے۔ وہ پوری دلجمعی کے
ساتھ اس کے خوش رکھنے کی فکر میں ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کی خوشنودی کے بعد کسی
کی خوشنودی کی ضرورت نہیں۔ اکثر مفسرین نے اس مثال کی تقریر اسی طرح کی ہے ۔مگر
حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ "ایک غلام جو کئ کا ہو کوئی اس کو اپنا نہ
سمجھے، تو اس کی پوری خبر نہ لے اور ایک غلام جو سارا ایک کا ہو، وہ اس کو اپنا
سمجھے اور پوری خبر لے یہ مثال ہے ان کی جو ایک رب کے بندے ہیں، اور جو کئ رب کے
بندے ہیں"۔ |
وَما يَستَوِى
الأَعمىٰ وَالبَصيرُ وَالَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَلَا المُسيءُ
ۚ قَليلًا ما تَتَذَكَّرونَ {40:58} |
اور اندھا اور آنکھ والا
برابر نہیں۔ اور نہ ایمان لانے والے نیکوکار اور نہ بدکار (برابر ہیں) (حقیقت یہ
ہے کہ) تم بہت کم غور کرتے ہو |
اور برابر نہیں اندھا اور
آنکھوں والا اور نہ ایماندار جو بھلے کام کرتے ہیں اور نہ بدکار تم بہت کم سوچ
کرتے ہو [۷۹] |
یعنی ایک اندھا جسے حق کا
سیدھا راستہ نہیں سوجھتا، اور ایک آنکھوں والا جو نہایت بصیرت کے ساتھ صراط
مستقیم کو دیکھتا اور سمجھتا ہے، کیا دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ یا ایک نیکوکار
مومن اور کافر بدکار کا انجام یکساں ہو سکتا ہے؟ اگر ایسا نہیں تو ضرور ایک دن
چاہئے جب ان کا باہمی فرق کھلے۔ اور دونوں کے علم و عمل کے ثمرات اپنی اکمل ترین
صورت میں ظاہر ہوں۔ مگر افسوس کہ تم اتنا بھی نہیں سوچتے۔ |
قُل لا يَستَوِى
الخَبيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَو أَعجَبَكَ كَثرَةُ الخَبيثِ ۚ فَاتَّقُوا اللَّهَ
يٰأُولِى الأَلبٰبِ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ {5:100} |
کہہ دو کہ ناپاک چیزیں اور
پاک چیزیں برابر نہیں ہوتیں گو ناپاک چیزوں کی کثرت تمہیں خوش ہی لگے تو عقل
والو خدا سے ڈرتے رہو تاکہ رستگاری حاصل کرو |
تو کہہ دے کہ برابر نہیں
ناپاک اور پاک اگرچہ تجھ کو بھلی لگے ناپاک کی کثرت سو ڈرتے رہو اللہ سے اے
عقلمندو تاکہ تمہاری نجات ہو [۲۴۰] |
اس رکوع سے پہلے رکوع میں
فرمایا تھا کہ طیبات کو حرام مت ٹھہراؤ بلکہ ان سے اعتدال کےساتھ تمتع کرو۔
"اس مضمون کی تکمیل کے بعد خمر وغیرہ چند ناپاک اور خبیث چیزوں کی حرمت
بیان فرمائی۔ اسی سلسلے میں محرم کے شکار کو حرام کیا یعنی جس طرح خمر، میتہ
وغیرہ خبیث چیزیں ہیں اسی طرح محرم کےشکار کو سمجھو ۔ محرم کی مناسبت سےچند ضمنی
چیزوں کا بیان فرمانے کے بعد اب متنبہ فرماتے ہیں کہ طیب اور خبیث یکساں نہیں ہو
سکتے۔ تھوری چیز اگر طیب و حلال ہو وہ بہت سی خبیث و حرام چیز سے بہتر ہے عقلمند
کو چاہئے کہ ہمیشہ طیب و حلال کو اختیار کرے گندی اور خراب چیزوں کی طرف خواہ
دیکھنے میں کتنی ہی زیادہ ہوں اور بھلی لگیں نظر نہ اٹھائے۔ |
مَثَلُ الفَريقَينِ كَالأَعمىٰ وَالأَصَمِّ وَالبَصيرِ وَالسَّميعِ ۚ هَل يَستَوِيانِ مَثَلًا ۚ أَفَلا تَذَكَّرونَ {11:24} |
دونوں فرقوں (یعنی کافرومومن) کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اندھا بہرا ہو اور ایک دیکھتا سنتا۔ بھلا دونوں کا حال یکساں ہوسکتا ہے؟ پھر تم سوچتے کیوں نہیں؟ |
مثال ان دونوں فرقوں کی جیسے ایک تو اندھا اور بہرا اور دوسرا دیکھتا اور سنتا کیا برابر ہے دونوں کا حال پھر کیا تم غور نہیں کرتے [۳۵] |
یعنی منکرین تو اندھے بہرےہیں جیسا کہ دو تین آیت پہلے فرمایا تھا { مَاکَانُوْا یَسْتَطِیْعُوْنَ السَّمْعَ وَمَا کَانُوْا یُبْصِرُوْنَ } پھر جسے نہ خود نظر آئے نہ دوسرے کی سن سکے ، اس کا آغاز و انجام کیسے ان روشن ضمیر ایمانداروں کے برابر ہو سکتا ہے جو بصیرت کی آنکھوں سے حق و باطل اور بھلے برے میں تمیز کرتے اور اپنے ہادیوں کی باتیں بگوش ہوش سنتے ہیں۔ غور کرو کہ دونوں کا انجام یکساں کس طرح ہو سکتا ہے ؟ آگے حضرت نوحؑ کی قوم کا قصہ اسی مضمون کی تائید میں پیش کرتے ہیں۔ |
لا يَستَوِى
القٰعِدونَ مِنَ المُؤمِنينَ غَيرُ أُولِى الضَّرَرِ وَالمُجٰهِدونَ فى سَبيلِ
اللَّهِ بِأَموٰلِهِم وَأَنفُسِهِم ۚ فَضَّلَ اللَّهُ المُجٰهِدينَ بِأَموٰلِهِم
وَأَنفُسِهِم عَلَى القٰعِدينَ دَرَجَةً ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الحُسنىٰ ۚ
وَفَضَّلَ اللَّهُ المُجٰهِدينَ عَلَى القٰعِدينَ أَجرًا عَظيمًا {4:95} |
جو مسلمان (گھروں میں) بیٹھ
رہتے (اور لڑنے سے جی چراتے) ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے وہ اور جو خدا کی راہ
میں اپنے مال اور جان سے لڑتے ہیں وہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے خدا نے مال اور
جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے اور (گو)
نیک وعدہ سب سے ہے لیکن اجر عظیم کے لحاظ سے خدا نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ
رہنے والوں پر کہیں فضیلت بخشی ہے |
برابر نہیں بیٹھ رہنے والے
مسلمان جن کو کوئی عذر نہیں اور وہ مسلمان جو لڑنے والے ہیں اللہ کی راہ میں
اپنے مال سے اور جان سے اللہ نے بڑھا دیا لڑنے والوں کا اپنے مال اور جان سے
بیٹھ رہنے والوں پر درجہ اور ہر ایک سے وعدہ کیا اللہ نے بھلائی کا اور زیادہ
کیا اللہ نے لڑنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں سے اجر عظیم میں |
أَجَعَلتُم سِقايَةَ الحاجِّ وَعِمارَةَ
المَسجِدِ الحَرامِ كَمَن ءامَنَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ وَجٰهَدَ فى
سَبيلِ اللَّهِ ۚ لا يَستَوۥنَ عِندَ
اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ لا يَهدِى القَومَ الظّٰلِمينَ {9:19} |
کیا تم نے حاجیوں کو پانی
پلانا اور مسجد محترم یعنی (خانہٴ کعبہ) کو آباد کرنا اس شخص کے اعمال جیسا خیال
کیا ہے جو خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور خدا کی راہ میں جہاد کرتا ہے۔
یہ لوگ خدا کے نزدیک برابر نہیں ہیں۔ اور خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا |
کیا تم نے کر دیا حاجیوں کا
پانی پلانا اور مسجد الحرام کا بسانا برابر اس کے جو یقین لایا اللہ پر اور آخرت
کےدن پر اور لڑا اللہ کی راہ میں یہ برابر نہیں ہیں اللہ کے نزدیک اور اللہ رستہ
نہیں دیتا ظالم لوگوں کو [۱۸] |
مشرکین مکہ کو اس پر بڑا فخر
و ناز تھا کہ ہم حاجیوں کی خدمت کرتے انہیں پانی پلاتے کھانا کپڑا دیتے اور مسجد
حرام کی مرمت یا کسوۃ کعبہ یا تیل بتی وغیرہ کا انتظام کرتے ہیں۔ اگر مسلمان
اپنے جہاد و ہجرت وغیرہ پر نازاں ہیں تو ہمارے پاس عبادات کا یہ ذخیرہ موجود ہے
۔ ایک زمانہ میں حضرت عباسؓ نے بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مقابلہ میں اسی
طرح کی بحث کی تھی ، بلکہ صحیح مسلم میں ہے کہ ایک دفعہ چند مسلمان آپس میں جھگڑ
رہے تھے ۔ کوئی کہتا تھا کہ میرےنزدیک اسلام لانے کے بعد حاجیوں کو پانی پلانے
سے زیادہ کوئی عبادت نہیں ۔ دوسرے نے کہا میرے خیال میں اسلام کے بعد بہترین عمل
مسجد حرام کی خدمت ہے (مثلاً جھاڑو دینا روشنی وغیرہ کرنا) تیسرا بولا کہ جہاد
فی سبیل اللہ تمام عبادات و اعمال سے افضل و اشرف ہے ۔ حضرت عمرؓ نے ان کو ڈانٹا
کہ تم "جمعہ" کے وقت منبر رسول اللہ ﷺ
کے پاس
بیٹھ کر
اس طرح
بحثیں کر رہے ہو ۔ ذرا صبر کرو۔ جب حضور جمعہ سے فارغ ہو جائیں گے آپ سے یہ چیز
دریافت کر لی جائے گی ۔ چنانچہ جمعہ کے بعد حضور سے سوال کیا تو یہ آیات نازل
ہوئیں۔ { اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَ عِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ
الْحَرَامِ } الخ یعنی حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد حرام کا ظاہری طور پر
بسانا ایمان باللہ اور جہاد فی سبیل اللہ میں سےکسی ایک کے برابر بھی نہیں ہو
سکتا (افضل ہونا تو کجا؟) یہاں جہاد کے ساتھ ایمان باللہ کا ذکر یا تو اس لئے
کیا کہ مشرکین کے فخرو غرور کا جواب بھی ہو جائے کہ تمام عبادات کی روح ایمان باللہ
ہے ، اس روح کے بدون پانی پلانا یا مسجد حرام کی خدمت کرنا محض مردہ عمل ہے تو
یہ بے جان اور مردہ عمل ایک زندہ جاوید عمل کی برابری کیسے کر سکتا ہے۔ { وَمَا
یَسْتَوِی الْاَحْیَاءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ } (فاطر رکوع۳) اور اگر صرف مومنین کے اعمال
کا باہمی موازنہ کرنا ہے تو ایمان باللہ کا ذکر جہاد فی سبیل اللہ کی تمہید کے
طور پر ہو گا۔ اصل مقصود جہاد وغیرہ عزائم اعمال کی افضلیت کو بیان فرمانا ہے ۔
ایمان کے ذکر سے تنبیہ فرما دی کہ جہاد فی سبیل اللہ ہو یا کوئی عمل ایمان کے
بغیر ہیچ اور لاشے محض ہے ۔ ان عزائم اعمال (جہاد و ہجرت وغیرہ) کا تقویم بھی
ایمان باللہ سے ہوتا ہے اور اس نکتہ کو وہ ہی لوگ سمجھتے ہیں جو فہم سلیم رکھتے
ہوں۔ ظالمین (بے موقع کام کرنے والوں) کی ان حقائق تک رسائی نہیں ہوتی۔ |
قُل مَن رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ قُلِ
اللَّهُ ۚ قُل أَفَاتَّخَذتُم مِن دونِهِ أَولِياءَ لا يَملِكونَ لِأَنفُسِهِم
نَفعًا وَلا ضَرًّا ۚ قُل هَل يَستَوِى
الأَعمىٰ وَالبَصيرُ أَم هَل تَستَوِى
الظُّلُمٰتُ وَالنّورُ ۗ أَم جَعَلوا لِلَّهِ شُرَكاءَ خَلَقوا كَخَلقِهِ
فَتَشٰبَهَ الخَلقُ عَلَيهِم ۚ قُلِ اللَّهُ خٰلِقُ كُلِّ شَيءٍ وَهُوَ الوٰحِدُ
القَهّٰرُ {13:16} |
ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور
زمین کا پروردگار کون ہے؟ (تم ہی ان کی طرف سے) کہہ دو کہ خدا۔ پھر (ان سے) کہو
کہ تم نے خدا کو چھوڑ کر ایسے لوگوں کو کیوں کارساز بنایا ہے جو خود اپنے نفع
ونقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتے (یہ بھی) پوچھو کیا اندھا اور آنکھوں والا
برابر ہیں؟ یا اندھیرا اور اُجالا برابر ہوسکتا ہے؟ بھلا ان لوگوں نے جن کو خدا
کا شریک مقرر کیا ہے۔ کیا انہوں نے خدا کی سی مخلوقات پیدا کی ہے جس کے سبب ان
کو مخلوقات مشتبہ ہوگئی ہے۔ کہہ دو کہ خدا ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور
وہ یکتا (اور) زبردست ہے |
پوچھ کون ہے رب آسمان اور
زمین کا کہدے اللہ ہے کہہ پھر کیا تم نے پکڑے ہیں اس کے سوا ایسے حمایتی جو مالک
نہیں اپنے بھلے اور برے کے [۲۷] کہہ
کیا برابر ہوتا ہے اندھا اور دیکھنے والا یا کہیں برابر ہے اندھیرا اور اجالا [۲۸]کیا ٹھہرائے ہیں انہوں نے
اللہ کے لئے شریک کہ انہوں نے کچھ پیدا کیا ہے جیسے پیدا کیا اللہ نے پھر مشتبہ
ہو گئ پیدائش انکی نظر میں کہہ اللہ ہے پیدا کرنے والا ہر چیز کا اور وہی ہے
اکیلا زبردست [۲۹] |
یعنی جیسی مخلوقات خدا تعالیٰ
نے پیدا کی ، کیا تمہارےدیوتاؤں نے ایسی کوئی چیز پیدا کی ہے جسے دیکھ کر ان پر
خدائی کا شبہ ہونے لگا۔ وہ تو ایک مکھی کا پر اور ایک مچھر کی ٹانگ بھی نہیں بنا
سکتے۔ بلکہ تمام چیزوں کی طرح خود بھی اسی اکیلے زبردست خدا کی مخلوق ہیں۔ پھر
ایسی عاجز و مجبور چیزوں کو خدائی کے تخت پر بٹھا دینا کس قدر گستاخی اور شوخ
چشمی ہے۔ |
یعنی جب ربوبیت کا اقرار صرف
خدا کے لئے کرتے ہو ، پھر مدد کے لئے دوسرے حمایتی کہاں سے تجویز کر لئے ۔
حالانکہ وہ برابر ذرہ نفع نقصان کا مستقل اختیار نہیں رکھتے۔ |
یعنی موحد و مشرک میں ایسا
فرق ہے جیسے بینا اور نابینا میں اور توحید و شرک کا مقابلہ ایسا سمجھو جیسے نور
کا ظلمت سے ۔ تو کیا ایک اندھا مشرک جو شرک کی اندھیریوں میں پڑا ٹامک ٹوئیاں
مار رہا ہو اس مقام پر پہنچ سکتا ہے جہاں ایک موحد کو پہنچنا ہے جو فہم و بصیرت
اور ایمان و عرفان کی روشنی میں فطرت انسانی کے صاف راستہ پر چل رہا ہے ؟ ہرگز
دونوں ایک نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتے۔ |
وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلَينِ
أَحَدُهُما أَبكَمُ لا يَقدِرُ عَلىٰ شَيءٍ وَهُوَ كَلٌّ عَلىٰ مَولىٰهُ أَينَما
يُوَجِّههُ لا يَأتِ بِخَيرٍ ۖ هَل يَستَوى
هُوَ وَمَن يَأمُرُ بِالعَدلِ ۙ وَهُوَ عَلىٰ صِرٰطٍ مُستَقيمٍ {16:76} |
اور خدا ایک اور مثال بیان
فرماتا ہے کہ دو آدمی ہیں ایک اُن میں سے گونگا (اور دوسرے کی ملک) ہے (بےاختیار
وناتوان) کہ کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا۔ اور اپنے مالک کو دوبھر ہو رہا ہے وہ
جہاں اُسے بھیجتا ہے (خیر سے کبھی) بھلائی نہیں لاتا۔ کیا ایسا (گونگا بہرا) اور
وہ شخص جو (سنتا بولتا اور) لوگوں کو انصاف کرنے کا حکم دیتا ہے اور خود سیدھے
راستے پر چل رہا ہے دونوں برابر ہیں؟ |
اور بتائی اللہ نے ایک دوسری
مثال دو مرد ہیں ایک گونگا [۱۱۹] کچھ
کام نہیں کر سکتا [۱۲۰] اور
وہ بھاری ہے اپنے صاحب (مالک) پر جس طرف اسکو بھیجے نہ کر کے لائے کچھ بھلائی [۱۲۱] کہیں برابر ہے وہ اور ایک وہ
شخص جو حکم کرتا ہے انصاف سے اور ہے سیدھی راہ پر [۱۲۲] |
یعنی مالک کے کسی کام کا نہیں
۔ جدھر اسے بھیجنا چاہے یا متوجہ کرے کچھ بھلائی اور فلاح نہ پہنچا سکے۔ |
کیونکہ نہ حواس رکھتا ہے نہ
عقل ، اور اپاہج ہے جو چل پھر بھی نہیں سکتا۔ |
گونگا ہے تو لازمی طور پر
بہرا بھی ہو گا۔ گویا نہ اپنی کہہ سکے نہ دوسرے کی سن سکے۔ |
یعنی خود سیدھی راہ پر قائم
رہ کر دوسروں کو بھی اعتدال و انصاف کے راستہ پر لے جا رہا ہے ۔ جب یہ دونوں شخص
برابر نہیں ہو سکتے تو ایک خود تراشیدہ پتھر کی مورتی کو (العیاذ باللہ) خدائی
کا درجہ کیونکر دیا جا سکتا ہے۔ یا ایک اندھا بہرا مشرک جو خدا کی پیدا کی ہوئی
روزی کھاتا ہے اور چھدام کا کام کر کے نہیں دیتا ، اس مومن قانت کی ہمسری کیسے
کر سکتا ہے جو خود سیدھی راہ پر ہو اور دوسروں کو اپنے ساتھ ترا لے جائے ۔ حضرت
شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں یعنی "خدا کی دو مخلوق ایک بت نکما نہ ہل سکے نہ چل
سکے جیسے گونگا غلام ، دوسرا رسول جو اللہ کی راہ بتا دے ہزاروں کو اور آپ بندگی
پر قائم ہے ، اس کے تابع ہونا بہتر یا اس کے "۔ |
وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلَينِ
أَحَدُهُما أَبكَمُ لا يَقدِرُ عَلىٰ شَيءٍ وَهُوَ كَلٌّ عَلىٰ مَولىٰهُ أَينَما
يُوَجِّههُ لا يَأتِ بِخَيرٍ ۖ هَل يَستَوى
هُوَ وَمَن يَأمُرُ بِالعَدلِ ۙ وَهُوَ عَلىٰ صِرٰطٍ مُستَقيمٍ {16:76} |
اور خدا ایک اور مثال بیان
فرماتا ہے کہ دو آدمی ہیں ایک اُن میں سے گونگا (اور دوسرے کی ملک) ہے (بےاختیار
وناتوان) کہ کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا۔ اور اپنے مالک کو دوبھر ہو رہا ہے وہ
جہاں اُسے بھیجتا ہے (خیر سے کبھی) بھلائی نہیں لاتا۔ کیا ایسا (گونگا بہرا) اور
وہ شخص جو (سنتا بولتا اور) لوگوں کو انصاف کرنے کا حکم دیتا ہے اور خود سیدھے
راستے پر چل رہا ہے دونوں برابر ہیں؟ |
اور بتائی اللہ نے ایک دوسری
مثال دو مرد ہیں ایک گونگا [۱۱۹] کچھ
کام نہیں کر سکتا [۱۲۰] اور
وہ بھاری ہے اپنے صاحب (مالک) پر جس طرف اسکو بھیجے نہ کر کے لائے کچھ بھلائی [۱۲۱] کہیں برابر ہے وہ اور ایک وہ
شخص جو حکم کرتا ہے انصاف سے اور ہے سیدھی راہ پر [۱۲۲] |
یعنی مالک کے کسی کام کا نہیں
۔ جدھر اسے بھیجنا چاہے یا متوجہ کرے کچھ بھلائی اور فلاح نہ پہنچا سکے۔ |
کیونکہ نہ حواس رکھتا ہے نہ
عقل ، اور اپاہج ہے جو چل پھر بھی نہیں سکتا۔ |
گونگا ہے تو لازمی طور پر
بہرا بھی ہو گا۔ گویا نہ اپنی کہہ سکے نہ دوسرے کی سن سکے۔ |
یعنی خود سیدھی راہ پر قائم
رہ کر دوسروں کو بھی اعتدال و انصاف کے راستہ پر لے جا رہا ہے ۔ جب یہ دونوں شخص
برابر نہیں ہو سکتے تو ایک خود تراشیدہ پتھر کی مورتی کو (العیاذ باللہ) خدائی
کا درجہ کیونکر دیا جا سکتا ہے۔ یا ایک اندھا بہرا مشرک جو خدا کی پیدا کی ہوئی
روزی کھاتا ہے اور چھدام کا کام کر کے نہیں دیتا ، اس مومن قانت کی ہمسری کیسے
کر سکتا ہے جو خود سیدھی راہ پر ہو اور دوسروں کو اپنے ساتھ ترا لے جائے ۔ حضرت
شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں یعنی "خدا کی دو مخلوق ایک بت نکما نہ ہل سکے نہ چل
سکے جیسے گونگا غلام ، دوسرا رسول جو اللہ کی راہ بتا دے ہزاروں کو اور آپ بندگی
پر قائم ہے ، اس کے تابع ہونا بہتر یا اس کے "۔ |