Monday, 22 March 2021

مساوات اور عدل میں فرق

بعض اوقات ”عدالت“ کا ”مساوات“ سے مغالطہ کیا جاتا ہے اور تصور کیا جاتا ہے کہ عدالت کے معنیٰ یہ ہیں کہ مساوات کی رعایت کی جائے، جبکہ ایسا نہیں ہے۔


عدالت میں ہرگز مساوات شرط نہیں ہے بلکہ حق اور ترجیحات کو مدنظر رکھا جانا چاہئے۔


مثال کے طور پر ایک جماعت کے شاگردوں میں عدالت یہ نہیں ہے کہ سب کو مساوی نمبر دئے جائیں اور دو مزدوروں کے در میان یہ عدالت نہیں ہے کہ دونوں کو مساوی مزدوری دی جائے۔ بلکہ عدالت یہ ہے کہ ہر شاگرد کو اس کی لیاقت اور صلاحیت کے مطابق نمبر دئے جائیں اور ہر مزدور کو اس کی محنت کے مطابق مزدوری دی جائے۔

اسی طرح مرد وعورت کی بناوٹ، صلاحیت وخوبیاں مختلف ہونے کے سبب حقوق برابر نہیں۔


عالم فطرت میں بھی وسیع معنی میں عدالت کا مفہوم یہی ہے۔ اگر ایک وہیل مچھلی کا دل جس کا وزن تقریباً ایک ٹن ہوتا ہے، ایک چڑیا کے دل کے برابر ہوتا تو یہ عدالت نہیں تھی۔ اگر ایک مضبوط لمبے درخت کی جڑ ایک چھوٹے سے پودے کی جڑ کے برابر ہو تو یہ عدالت نہیں ہے بلکہ عین ظلم ہے۔


عدالت کے معنیٰ یہ ہیں کہ ہر مخلوق اپنے حق، استعداد اور صلاحیت کے مطابق اپنا حصہ حاصل کرے۔



المساواۃ : 
برابری یا یکسانیت ، دونوں اطراف میں کوئی بھی قدر یکساں یا مشترک ہوں۔ مساوات ایسا ریاضیاتی بیان ہے جو دو تعبیروں کی برابری کا دعوی کرتا ہے۔

عربی زبان ميں مساوات کے معنی وزن، کیل یا مساحت کے لحاظ سے دو چیزوں کے ایک دوسرے کے برابر ہونے کے ہیں۔
التسویۃ کے معنی کسی چیز کو ہموار کرنے ہیں۔
اور آیت : ۔
الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ
[سورۃ الانفطار:7]
(وہی تو ہے) جس نے تجھ کو بنایا پھر تجھ کو برابر کیا پھر تجھ کو ٹھیک کیا۔
 میں سَوَّاكَ سے مراد یہ ہے کہ انسان کی خلقت کو اپنی حکمت کے تقاضے  کے مطابق اور صناعی کی پہچان بنایا۔

یعنی برابر بنایا اس (کی انگلیوں)کے پور پور(کناروں) کو۔
[حوالہ سورۃ القیامۃ:4]

اور اسے برابر برابر دو دو (جوڑے) ہاتھ ، پاؤں، آنکھ اور کان دیے۔۔۔۔۔اس نے ان میں سے ایک کو دوسرے سے لمبا نہیں بنایا۔
[تفسیر الماتريدي:10/446]
اور نہ ایسا کیا کہ بعض اعضاء کو سفید اور بعض کو سیاہ بنایا۔ اور سیدھا کھڑا ہو کر چلتا ہے۔ بہائم کی طرح جھک کر نہیں۔
[تفسیر النسفي:3/610]
اور ویسا ہی بنایا سارے(انسان)کو مناسب طور صحیح سالم اعضاء والا ۔۔۔۔ بہترین سانچے میں
[حوالہ سورۃ التین:4]

اور آیت : ۔
وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها
[سورۃ الشمس:7]
اور(قسم ہے انسان کے) نفس کی اور اس کی جس نے اس کے قویٰ کو برابر بنایا۔

اسی طرح آیت کریمہ : ۔
فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي
[سورۃ الحجر:29]
جب اس کو (صورتِ انسانیہ میں) درست کرلوں اور اس میں (اپنی بے بہا چیز یعنی) روح پھونک دوں۔
[مفردات القرآن، امام راغب اصفہانیؒ (م502ھ)]




انسانوں کی تخلیق اور خالق میں یکسانیت:
اے لوگو ! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا، اور اسی سے اس کی بیوی پیدا کی، اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں (دنیا میں) پھیلا دیئے۔ اور اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حقوق مانگتے ہو،(*) اور رشتہ داریوں (کی حق تلفی سے) ڈرو۔ یقین رکھو کہ اللہ تمہاری نگرانی کررہا ہے۔ [سورۃ النساء:1]
(*)
یعنی جب دنیا میں لوگ ایک دوسرے کے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں تو بکثرت یہ کہتے ہیں کہ خدا کے واسطے مجھے میرا حق دے دو ، آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب تم اپنے حقوق کے لیے اللہ کا واسطہ دیتے ہو تو دوسروں کا حق ادا کرنے میں بھی اللہ سے ڈرو اور لوگوں کے حقوق پورے پورے ادا کرو۔ 

اسلامی نظریہ مساوات کو مندرجہ ذیل بنیادی اصولوں سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے:

(1) تمام انسانوں کو ایک ہی ابدی و ازلی اور سب سے اعلی و برتر ذات اور ان سب کے پروردگار ہی نے پیدا کیاہے (جس میں تمام انسان برابر ہیں)۔
 
(2) تمام بنی نوع انسانی کا تعلق ایک ہی نسل سے ہے اور وہ ایک ہی بابا آدم اورحوا کی اولاد ہونے میں برابر کے شریک ہیں۔
 
(3) اللہ تعالٰی اپنی تمام مخلوقات کے ساتھ یکساں طور پر مہربان ہے۔ کسی بھی رنگ و نسل، عہد یا مذہب کے ساتھ اس کی رحمت خاص نہیں۔ ساری کائنات میں اس کی سلطنت اور بادشاہت ہے اور تمام انسان اس کی مخلوق ہیں۔
 
(4) تمام انسان اپنی پیدائش کے اعتبار سے اس معنی میں یکساں ہے کہ کسی کا اللہ تعالٰی کے اختیار میں سے کچھ بھی حصہ نہیں اور وہ سب یکساں طور پر مرنے والے ہیں کہ دنیا کی کوئی شئی وہ اپنے ہمراہ نہیں لے جاسکتے۔
 
(5) اللہ تعالٰی ہر فرد کا فیصلہ اسی کے اعمال اور کارناموں ہی کی بنیاد پر کرنے والا ہے۔



لیکن جب خوبیاں یکساں ومشترک نہ ہوں تو انکی قدر ونتائج میں مساوات نہیں رہتی۔

خوبيوں Qualities اور نتائج Results کے لحاظ سے سب برابر نہیں:
القرآن:
اور اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں ہوسکتے۔
[سورہ فاطر:19]
بھلا بتاؤ کہ جو شخص مومن ہو، کیا وہ اس شخص کے برابر ہوجائے جو فاسق ہے ؟ (ظاہر ہے کہ) وہ برابر نہیں ہوسکتے۔
[سورہ السجدہ:18]
كہہ ديجئے كيا وہ لوگ جو جانتے ہيں اور جو لوگ نہيں جانتے برابر ہيں؟
[سورۃ الزمر:9]
كہہ ديجئے كيا اندھا اور ديكھنے والا برابر ہو سكتے ہيں؟ يا كيا اندھيرے اور روشنى برابر ہو سكتے ہيں؟
[سورۃ الرعد:16]
اور اندھا اور بینائی رکھنے والا دونوں برابر نہیں ہوتے، اور نہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے، وہ اور بدکار برابر ہیں، (لیکن) تم لوگ بہت کم دھیان دیتے ہو.
[سورہ غافر:58]
ان دو گروہوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اندھا اور بہرا ہو، اور دوسرا دیکھتا بھی ہو، سنتا بھی ہو۔ کیا یہ دونوں اپنے حالات میں برابر ہوسکتے ہیں ؟ کیا پھر بھی تم عبرت حاصل نہیں کرتے ؟
[سورہ ھود:24]
جنت والے اور دوزخ والے برابر نہیں ہوسکتے۔ جنت والے ہی وہ ہیں جو کامیاب ہیں۔
[سورۃ الحشر:20]
اللہ ایک مثال دیتا ہے کہ ایک طرف ایک غلام ہے جو کسی کی ملکیت میں ہے، اس کو کسی چیز پر کوئی اختیار نہیں، اور دوسری طرف وہ شخص ہے جس کو ہم نے اپنے پاس سے عمدہ رزق عطا کیا ہے، اور وہ اس میں سے پوشیدہ طور پر بھی اور کھلے بندوں بھی خوب خرچ کرتا ہے۔ کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ ساری تعریفیں اللہ کی ہیں، لیکن ان میں سے اکثر لوگ (ایسی صاف بات بھی) نہیں جانتے۔
[سورہ النحل:76]
اللہ نے ایک مثال یہ دی ہے کہ ایک (غلام) شخص ہے جس کی ملکیت میں کئی لوگ شریک ہیں جن کے درمیان آپس میں کھینچ تان بھی ہے اور دوسرا (غلام) شخص وہ ہے جو پورے کا پورا ایک ہی آدمی کی ملکیت ہے۔ کیا ان دونوں کی حالت برابر ہوسکتی ہے؟ * الحمدللہ (اس مثال سے بات بالکل واضح ہوگئی) لیکن ان میں سے اکثر لوگ سمجھتے نہیں۔
[سورہ الزمر:29]
* جو غلام کئی آدمیوں کی مشترک ملکیت میں ہو، اور وہ کئی آدمی بھی آپس میں جھگڑتے رہتے ہوں، وہ ہمیشہ پریشانی کا شکار رہتا ہے کہ کس کا کہنا مانوں، اور کس کا نہ مانوں، اس کے برخلاف جو غلام کسی ایک ہی آقا کی ملکیت میں ہو، اسے یہ پریشانی پیش نہیں آتی، وہ یکسو ہو کر اپنے آقا کی اطاعت کرسکتا ہے۔ اسی طرح جو شخص توحید کا قائل ہے، وہ ہمیشہ یکسو ہو کر اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتا ہے، اور اسی کی عبادت کرتا ہے، اس کے برخلاف جن لوگوں نے کئی کئی خدا گھڑ رکھے ہیں، وہ کبھی ایک جھوٹے دیوتا کا سہارا لیتے ہیں، کبھی دوسرے کا، اور انہیں یکسوئی میسر نہیں آتی۔ اس طرح یہ مثال توحید کی دلیل بھی ہے اور اس کی حکمت بھی۔

القرآن:
بھلا (کیا ایسا شخص اس کے برابر ہوسکتا ہے) جو رات کی گھڑیوں میں عبادت کرتا ہے، کبھی سجدے میں، کبھی قیام میں، آخرت سے ڈرتا ہے، اور اپنے پروردگار کی رحمت کا امیدوار ہے ؟ کہو کہ : کیا وہ جو جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے سب برابر ہیں؟ * (مگر) نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔
[سورۃ الرعد:9]
* یعنی اگر آخرت کا حساب و کتاب نہ ہو تو اس کا نتیجہ یہی ہوگا کہ مومن کافر اور بدکار اور نیک سب برابر ہوجائیں گے، جو اللہ تعالیٰ کی حکمت اور انصاف سے ممکن نہیں۔


جن مسلمانوں کو کوئی معذوری لاحق نہ ہو اور وہ (جہاد میں جانے کے بجائے گھر میں) بیٹھ رہیں وہ اللہ کے راستے میں اپنے مال و جان سے جہاد کرنے والوں کے برابر نہیں ہیں۔ جو لوگ اپنے مال و جان سے جہاد کرتے ہیں ان کو اللہ نے بیٹھ رہنے والوں پر درجے میں فضیلت دی ہے۔ اور اللہ نے سب سے اچھائی کا وعدہ کر رکھا ہے۔ * اور اللہ نے مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر فضیلت دے کر بڑا ثواب بخشا ہے۔
[سورہ النساء:95]
* یہ اس حالت کا ذکر ہے جب جہاد ہر شخص کے ذمے فرض عین نہ ہو، ایسے میں جو لوگ جہاد میں جانے کے بجائے گھر میں بیٹھ گئے، اگرچہ ان پر کوئی گناہ نہیں ہے اور ان کے ایمان اور دوسرے نیک کاموں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان سے جنت کا وعدہ کیا ہوا ہے لیکن جو لوگ جہاد میں گئے ہیں ان کا درجہ گھر بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے، البتہ جہاں جہاد فرض عین ہوجائے یعنی مسلمانوں کا امیر تمام مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیدے یا جب کوئی دشمن مسلمانوں پر چڑھ آئے تو پھر گھر بیٹھنا حرام ہے۔

القرآن:
اور تمہارے لیے کونسی وجہ ہے کہ تم اللہ کے راستے میں خرچ نہ کرو، حالانکہ آسمانوں اور زمین کی ساری میراث اللہ ہی کے لیے ہے۔ تم میں سے جنہوں نے (مکہ کی) فتح سے پہلے خرچ کیا، اور لڑائی لڑی، وہ (بعد والوں کے) برابر نہیں ہیں۔ وہ درجے میں ان لوگوں سے بڑھے ہوئے ہیں جنہوں نے (فتح مکہ کے) بعد خرچ کیا، اور لڑائی لڑی۔ * یوں اللہ نے بھلائی کا وعدہ ان سب سے کر رکھا ہے، اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
[سورۃ الحديد :10]
* فتح مکہ (سن 8 ھ) سے پہلے مسلمانوں کی تعداد اور ان کے وسائل کم تھے اور دشمنیاں زیادہ، اس لئے اس زمانہ میں جن حضرات نے جہاد کیا اور اپنا مال اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کیا ان کی قربانیاں زیادہ تھیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ثواب میں بھی ان کا زیادہ بڑادرجہ رکھا ہے اور فتح مکہ کے بعد مسلمانوں کی تعداد اور وسائل میں بھی اضافہ ہوگیا تھا، اور دشمنیاں بھی کم ہوگئی تھیں، اس لئے جن حضرات نے فتح مکہ کے بعد جہاد اور صدقات وغیرہ میں حصہ لیا ان کو اتنی قربانی دینی نہیں پڑی، اس لئے ان کا درجہ وہاں تک نہیں پہنچا ؛ لیکن اگلے ہی فقرے میں اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرمادی ہے کہ بھلائی یعنی جنت کی نعمتیں دونوں ہی کو ملیں گی۔

القرآن:
(اے رسول ! لوگوں سے) کہہ دو کہ ناپاک اور پاکیزہ چیزیں برابر نہیں ہوتیں، چاہے تمہیں ناپاک چیزوں کی کثرت اچھی لگتی ہو۔ * لہذا اے عقل والو ! اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔
[سورہ المائدہ:100]
* اس آیت نے بتادیا ہے کہ دنیا میں بہت مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی ناپاک یا حرام چیز کا رواج اتنا بڑھ جاتا ہے کہ وہ وقت کا فیشن قرار پا جاتا ہے، اور فیشن پرست لوگ اسے اچھا سمجھنے لگتے ہیں، مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ صرف کسی چیز کے عام رواج کی وجہ سے اسے اختیار نہ کریں ؛ بلکہ یہ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی ہدایات کی روشنی میں وہ جائز یا پاک ہے یا نہیں۔

القرآن:
کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کے آباد رکھنے کو اس شخص کے (اعمال کے) برابر سمجھ رکھا ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا ہے، اور جس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا ہے۔ * اللہ کے نزدیک یہ سب برابر نہیں ہوسکتے۔ اور اللہ ظالم لوگوں کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا۔
[سورہ التوبه:19]
* اس آیت کریمہ نے یہ اصول بھی بتادیا ہے کہ تمام نیک کام ایک درجے کے نہیں ہوتے، اگر کوئی شخص فرائض تو ادا نہ کرے، اور نفلی عبادتوں میں لگا رہے تو یہ کوئی نیکی نہیں ہے، حاجیوں کو پانی پلانا بیشک ایک نیک کام ہے، مگر وہ نفلی حیثیت رکھتا ہے، اور مسجد حرام کی دیکھ بھال بھی بعض حیثیتوں سے فرض کفایہ اور بعض حیثیتوں سے نفلی عبادت ہے، اس کے مقابلے میں ایمان انسان کی نجات کے لئے بنیادی شرط ہے، اور جہاد کبھی فرض عین اور کبھی فرض کفایہ، لہذا کسی کو صرف ان خدمات کی وجہ سے کسی مومن پر فوقیت حاصل نہیں ہوسکتی۔

القرآن:
اور زندہ لوگ اور مردے برابر نہیں ہوسکتے، اور اللہ تو جس کو چاہتا ہے بات سنا دیتا ہے، اور تم ان کو بات نہیں سنا سکتے جو قبروں میں پڑے ہیں۔
[سورہ فاطر:22]
جن لوگوں نے ضد اور ہٹ دھرمی سے حق بات ماننے کے تمام دروازے اپنے اوپر بند کرلئے ہیں، ان کو پہلے اندھوں سے تشبیہ دی گئی ہے، اور ان کے کفر کو اندھیروں سے، اور اس کی سزا میں انہیں دوزخ کے جس عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا اس کو دھوپ سے۔ اس کے مقابلے میں حق پرستوں کو دیکھنے والوں سے، ان کے دین کو روشنی سے، اور جنت کی جو نعمتیں انہیں حاصل ہوں گی، ان کو سائے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ پھر فرمایا گیا ہے کہ جن لوگوں نے حق کو قبول کرنے کی صلاحیت ہی ختم کرلی ہے، وہ تو مردوں جیسے ہیں، اور مردوں کو آپ اپنی مرضی سے کچھ سنا نہیں سکتے۔ اس طرح آنحضرت ﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ اگر یہ لوگ حق کو قبول نہیں کر رہے تو آپ زیادہ رنجیدہ نہ ہوں اور آپ پر اس کی کوئی ذمہ داری بھی عائد نہیں ہوتی۔


القرآن:
اور اللہ نے تم میں سے کچھ لوگوں کو رزق کے معاملے میں دوسروں پر برتری دے رکھی ہے۔ اب جن لوگوں کو برتری دی گئی ہے وہ اپنا رزق اپنے غلاموں کو اس طرح نہیں لوٹا دیتے کہ وہ سب برابر ہوجائیں۔ (30) تو کیا یہ لوگ اللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں ؟ (31)
[سورۃ نمبر 16 النحل، آیت نمبر 71]

تفسیر:
(30)مطلب یہ ہے کہ تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں کرتا کہ اپنے غلام کو اپنی دولت اس طرح دیدے کہ وہ دولت میں اس کے برابر ہوجائے۔ اب تم خود مانتے ہو کہ جن دیوتاؤں کو تم نے اللہ کا شریک بنا رکھا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے مملوک یعنی غلام ہیں۔ پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ نے انہیں اپنی خدائی اس طرح دے دی ہو کہ انہیں اللہ کے برابر معبود بننے کا حق حاصل ہوگیا ہو۔
(31)یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کر کے یہ دعوی کرتے ہیں کہ فلاں نعمت اللہ نے نہیں، بلکہ ان کے گھڑے ہوئے دیوتاؤں نے دی ہے۔





مساوات کی اقسام:
مساوات کی دو اقسام قابلَ غور ہیں:
(۱) قانونی مساوات                                   (۲) معاشرتی مساوات

(۱) قانونی مساوات:
قانونی مساوات سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص مفلس ہو یا خوشحال، کالا ہو یا گورا، عالم ہو یا جاہل قانون سے بالا تر نہیں۔ اگر اس سے کوئی جرم سرزد ہوتا ہے تو اس کی حیثیت اور دولت کے بناء پر کوئی رعایت نہ برتی جائے، اللہ کے آخری رسول، محمد ﷺ نے اپنے آخری خطبے میں ارشاد فرمایا ہی کہ:
کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں اور کسی کالے کو گورے اور گورے کو کالے پر سوائے متقی کے۔
[مسند احمد:23489، المعجم الاوسط،الطبراني:4749، المعجم الكبير،الطبراني:16، شعب الايمان، البيهقي:4774]
[الصَّحِيحَة: 2700 صَحِيح التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيب: 296]
پرہیزگار کی برتری وفوقیت عدل ہے اور باقی رنگ ونسل میں مساوات ہے۔


ایک حدیث میں آپ علیہ السلام نے فرمایا:
”لا فضل لأحد علی أحدٍ إلا بدین وتقوی“․
(صحیح البخاری:1/234)
”کسی شخص کو کسی دوسرے شخص پر کوئی فضیلت نہیں مگر دین داری اور تقوی کی بناء پر“۔




(۲) معاشرتی مساوات:
معاشرتی مساوات کا مفہوم یہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں کسی کو اولیت حاصل نہیں ہے بزرگی اور عظمت کا معیار صرف تقوی ہے۔
بے شک خدا کے نزدیک سب سے زیادہ تم میں عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقوی والا ہے۔
بقول شاعر
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز




اسوة رسول اور مساوات:
رسول اللہ ﷺ کی نظر میں سب برابر تھے امیر، غریب، آقا غلام، صغیر و کبیر سب برابر تھے۔ عربی اور عجمی میں کوئی تفریق نہ تھی آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں ایسی پچاسوں مثالیں مل جائیں گی جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کا عمل ہر موقع پر مساویانہ رہا۔ حضور ﷺ کا یہ طریقہ تھا کہ مجلس میں کوئی چیز تقسیم فرماتے تو دائیں جانب سے شروع کرتے بعض اوقات یہ بھی ہوتا کہ دائیں جانب عام لوگ ہوتے اور بائیں جانب معززین بیٹھتے لیکن آپ ﷺ اپنا طریقہ کبھی بھی نہ بدلتے۔

رسول اللہ ﷺ کے مساویانہ رویہ کی مثال:
غزوہ بدر میں سواریاں کم تھیں۔ تین افراد کے حصے میں ایک سواری آئی لہذا صحابی باری باری اترتے۔ آپ ﷺ ان کے ساتھ پیدل چل رہے تھے۔ صحابہ رضہ حاضر ہوتے اور خواہش ظاہر کرتے کہ ہم آپ کے بدلے پیدل چل لیں۔ آپ ﷺ نے فرماتے: نہ تم مجھ سے زیادہ پیادہ پا نہ میں تم سے کم ثواب کا محتاج ہوں۔
غزوہ بدر میں آپ ﷺ کے چچا حضرت عباس بھی قیدی بن کر آئے۔ چونکہ وہ آپ سے قرابت داری رکھتے تھے اس لئے صحابہ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان کے فدیے کی رقم معاف کردی جائے۔ لیکن آپ نے اس بات کو پسند نہ فرمایا اور حکم دیا کہ ایک درہم بھی معاف نہ کرو۔
رسول اللہ ﷺ نے جو آخری خطبہ دیا اس میں معاشرے کے مختلف طبقات کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید کی ہے۔
قبیلہ مخزوم کی ایک عورت چوری کے الزام میں گرفتار ہوئی۔ اللہ کے نبی ﷺ نے اس کے باتھ کاٹ ڈالنے کا حکم دے دیا۔یہ فیصلہ لوگوں کو گوارہ نہ تھا ان کا خیال تھا کہ اس طرح خاندان کی بدنامی ہے۔ چنانچہ حضرت اسامہ رضہ کو جن سے حضور ﷺ بے انتہا محبت کرتے تھے سفارش کے لئے بھیجا گیا۔ آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا:
اسامہ تم کیا حضورِ خداوندی میں سفارش کرتے ہو۔ اس کے بعد آپ نے لوگوں کو جمع کرکے فرمایا:
پچھلی قومیں اسی طرح ہلاک ہوئیں جب ان میں کوئی معزز آدمی جرم کرتا تو نظر انداز کردیتے اور جب کوئی معمولی آدمی جرم کرتا تو اس کی سزا دیتے۔ اللہ کی قسم اگر حضور ﷺ کی بیٹی چوری کرتی تو اس کے ہاتھ بھی کاٹ دئیے جاتے۔



عدل کی حقیقت اور اس کی صورتیں


عدل، امانت ہی کی ایک صورت ہے، (تفسیر ابن کبیر، النساء، ذیل آیت:58) عدل غیر جانب داری کے ساتھ ہر صاحب حق کو اس کا حق پہنچانے کا نام ہے، عدل اسلام کا خصوصی امتیاز ہے ،جسے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے معاشرے میں قائم فرمایا،عدل انسانی معاشرے کی بقا کا ذریعہ ہے اور باہمی تعلقات میں استواری کی بنیاد ہے، علامہ رازی رحمة الله علیہ لکھتے ہیں:

”یدخل فیہ عدل الأمراء مع رعیتھم ، وعدل العلماء مع العوام بأن لا یحملوھم علی التعصبات الباطلة، بل یرشدونھم إلی اعتقادات وأعمال تنفعھم فی دنیاھم وأخراھم“.
(قوانین الوزارة، ص:48)

اس آیت میں حکام کو عوام کے ساتھ عدل کرنے کا حکم ہے، اوراسی آیت میں علمائے کرام کو عوام کے ساتھ عدل قائم کرنے کا حکم بھی شامل ہے، عوام کے ساتھ علماء کا عدل یہ ہے کہ علما عوام کو ناحق تعصبات پر نہ ابھاریں، بلکہ ہمیشہ انہیں ان اعمال کی طرف متوجہ رکھیں جو ان کے لیے دنیا و آخرت میں فائدہ مند ہو۔

اہل ِعلم نے عدل کی کئی اقسام بیان فرمائی ہیں، افعال میں عدل، اقوال میں عدل، اقتصادی امور میں عدل، خاندانی امور میں عدل، دشمنوں کے ساتھ عد ل، جسے اختصار کے ساتھ نقل کیا جاتا ہے۔

افعال میں عدل
ابو الحسن علی بن محمد بن حبیب الماوردی قوانین الوزراة میں لکھتے ہیں:
افعال میں عدل یہ ہے کہ سزا صرف جرم پر دی جاتی ہے، باز آنے والے کے لیے درگزر ہو، غصہ ایسا نہ ہوکہ خیروبھلائی سے محروم ہوجانا پڑے، اورکسی سے رضامندی ایسی نہ ہوکہ اس کی وجہ سے مجرمو ں پر ہاتھ نہ ڈالا جاسکے۔

گفتگو میں عدل
علامہ ماوردی نے فرمایا :گفت گو میں عدل یہ ہے کہ کسی صاحب منصب کے ساتھ اسی کی حیثیت کے ساتھ گفت گو کریں، عام آدمی کا رویہ نہ رکھیں، اسی طرح کسی عالم دین کے ساتھ جاہل کی طرح گفت گو نہ کریں، کسی کے متعلق تعریف اس کی بھلائی کے بقدر ہو اور کسی کی مذمت اس کے شر کے بقدر ہو، آپ کا کسی کو کسی امر میں شوق دلانا یا ڈرانا حقیقت کے مطابق ہو، بغیر کسی قسم کی زیادتی کے ہوتو یہ گفت گو میں عدل ہے۔
(قوانین الوزارة، ص: 48)

اقتصادی امور میں عدل
اقتصادی امور میں عدل یہ ہے کہ ناپ تول میں کوئی کوتاہی نہ ہو، مالی معاملات سود، جوّا قمار سے محفوظ ہوں، معاملات باطلہ اور فاسدہ کی روک تھام ہو، اشیائے خوردونوش میں ذخیرہ اندوزی نہ ہو، رشوت ستانی، ملاوٹ، دھوکہ سے مکمل اجتناب ہو، یہ اقتصادی امور میں عدل کہلائے گا۔

خاندانی امور میں عدل
صلہ رحمی کا اہتمام، اہل وعیال کے نفقہ کا انتظا م، اولاد میں ہدایا وعطیہ میں برابری ،ایک سے زائد بیویوں کی صورت میں برابری کرنا، اولاد کے لیے اتنا ترکہ چھوڑ جانا کہ وہ کسی کے محتاج نہ رہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”أن تدع ورثتک أغنیاء خیرمن أن تذرھم عالة یتکففون الناس․“
(صحیح البخاری، رقم الحدیث:5368)
”اپنے ورثا کو مال دار بنا کر چھوڑ جانا بہتر ہے اس سے کہ تم انہیں محتاج بنا کر چھوڑ جاؤ اور وہ لوگوں سے بھیک مانگتے پھریں“۔

دشمنوں کے ساتھ عدل
اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے ساتھ بھی عدل قائم کرنے کاحکم دیا ہے، فرمایا:
﴿وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی﴾․
(المائدة:8)
محض دشمن ہونے کی بنا پر ان کی جان ، مال، عصمت مباح نہیں ہوتی، محض کافر ہونے کے ناطے ان کے وہ حقوق جواسلام نے دیے ہیں،باطل نہیں ہوتے، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ذمیوں کے متعلق فرمایا:

”ألا من ظلم معاھداً أو انتقصہ أو کلّفہ فوق طاقتہ أو أخذ منہ شےئا بغیر طیب نفس فأنا حجیجہ یوم القیامة“․
(سنن أبي داود، رقم الحدیث:3052)

”جس شخص نے کسی ذمی کے ساتھ ظلم کیا یا اسے نقصان پہنچایا یااس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالا یا بلا رضامندی کے اس سے کوئی چیز لی تو قیامت کے دن میں اس کا مقدمہ لڑوں گا“۔


أَفَمَن كانَ مُؤمِنًا كَمَن كانَ فاسِقًا ۚ لا يَستَوۥنَ {32:18}

بھلا جو مومن ہو وہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو نافرمان ہو؟ دونوں برابر نہیں ہو سکتے

بھلا ایک جو ہے ایمان پر برابر ہے اسکے جو نافرمان ہے نہیں برابر ہوتے [۲۱]

اگر ایک ایماندار اور بے ایمان کا انجام برابر ہو جائے تو سمجھو خدا کے ہاں بالکل اندھیر ہے (العیاذ باللہ)۔

 

لا يَستَوى أَصحٰبُ النّارِ وَأَصحٰبُ الجَنَّةِ ۚ أَصحٰبُ الجَنَّةِ هُمُ الفائِزونَ {59:20}

اہل دوزخ اور اہل بہشت برابر نہیں۔ اہل بہشت تو کامیابی حاصل کرنے والے ہیں

برابر نہیں دوزخ والے اور بہشت والے بہشت والے جو ہیں وہی ہیں مراد پانے والے [۳۷]

یعنی چاہیئے کہ آدمی اپنے کو بہشت کا مستحق ثابت کرے جس کا راستہ قرآن کریم کی ہدایات کے سامنے جھکنے کے سوا کچھ نہیں۔

 

وَما يَستَوِى الأَحياءُ وَلَا الأَموٰتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُسمِعُ مَن يَشاءُ ۖ وَما أَنتَ بِمُسمِعٍ مَن فِى القُبورِ {35:22}

اور نہ زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں۔ خدا جس کو چاہتا ہے سنا دیتا ہے۔ اور تم ان کو جو قبروں میں مدفون ہیں نہیں سنا سکتے

اور برابر نہیں جیتے اور نہ مردے [۲۹] اللہ سناتا ہے جس کو چاہے اور تو نہیں سنانے والا قبر میں پڑے ہوؤں کو

یعنی مومن جس کو اللہ نے دل کی آنکھیں دی ہیں، حق کے اجالے اور وحی الہٰی کی روشنی میں بے کھٹکے راستہ قطع کرتا ہوا جنت کے باغوں اور رحمت الہٰی کے سایہ میں جا پہنچتا ہے۔ کیا اس کی برابری وہ کافر کر سکے گا جو دل کا اندھا اوہام و اہواء کی اندھیریوں میں بھٹکتا ہوا جہنم کی آگ اور اس کی جھلس دینے والی لوؤں کی طرف بے تحاشا چلا جا رہا ہے۔ ہر گز نہیں ۔ ایسا ہو تو یوں سمجھو کہ مردہ اور زندہ برابر ہو گیا۔ فی الحقیقت مومن و کافر میں اس سے بھی زیادہ تفاوت ہے جو ایک زندہ تندرست آدمی اور مردہ لاش میں ہوتا ہے، اصلی اور دائمی زندگی صرف روح ایمان سے ملتی ہے۔ بدون اس کے انسان کو ہزار مردوں سے بدتر سمجھنا چاہئے۔


وَلا تَستَوِى الحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادفَع بِالَّتى هِىَ أَحسَنُ فَإِذَا الَّذى بَينَكَ وَبَينَهُ عَدٰوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِىٌّ حَميمٌ {41:34}

اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی۔ تو (سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو بہت اچھا ہو (ایسا کرنے سے تم دیکھو گے) کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمہارا گرم جوش دوست ہے

اور برابر نہیں نیکی اور نہ بدی جواب میں وہ کہہ جو اس سے بہتر ہو پھر تو دیکھ لے کہ تجھ میں اور جس میں دشمنی تھی گویا دوستدار ہے قرابت والا [۴۸]

ان آیات میں ایک سچے داعی الی اللہ کو جس حسن اخلاق کی ضرورت ہے۔ اس کی تعلیم دیتے ہیں۔ یعنی خوب سمجھ لو نیکی، بدی کے اور بدی نیکی کے برابر نہیں ہو سکتیں۔ دونوں کی تاثیر جداگانہ ہے، بلکہ ایک نیکی دوسری نیکی سے اور ایک بدی دوسری بدی سے اثر میں بڑھ کر ہوتی ہے۔ لہذا ایک مومن قانت اور خصوصًا ایک داعی الی اللہ کا مسلک یہ ہونا چاہئے کہ برائی کا جواب برائی سے نہ دے بلکہ جہاں تک گنجائش ہو ۔ برائی کے مقابلہ میں بھلائی سے پیش آئے۔ اگر کوئی سخت بات کہے یا برا معاملہ کرے تو اس کے مقابل وہ طرز عمل اختیار کرنا چاہیئے جو اس سے بہتر ہو۔ مثلًا غصہ کے جواب میں بردباری، گالی کے جواب میں تہذیب اور شائستگی اور سختی کے جواب میں نرمی اور مہربانی سے پیش آئے۔ اس طرز عمل کے نتیجہ میں تم دیکھ لو گے کہ سخت سے سخت دشمن بھی ڈھیلا پڑ جائے گا۔ اور گو دل سے دوست نہ بنے تاہم ایک وقت آئے گا جب وہ ظاہر میں ایک گہرے اور گرمجوش دوست کی طرح تم سے برتاؤ کرنے لگے گا۔ بلکہ ممکن ہے کہ کچھ دنوں بعد سچے دل سے دوست بن جائے اور دشمنی و عداوت کے خیالات یکسر قلب سے نکل جائیں۔ کما قال { عَسَی اللہُ اَنْ یَّجْعَلَ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ عَادَ یْتُمْ مِّنْھُمْ مَّوَدَّۃً } (سورہ ممتحنہ رکوع۲) ہاں کسی شخص کی طبعیت کی افتاد ہی سانپ بچھو کی طرح ہو کہ کوئی نرم خوئی اور خوش اخلاقی اس پر اثر نہ کرے وہ دوسری بات ہے مگر ایسے افراد بہت کم ہوتے ہیں۔ بہرحال دعوۃ الی اللہ کے منصب پر فائز ہونے والوں کو بہت زیادہ صبر و استقلال اور حسن خلق کی ضرورت ہے۔

 

وَما لَكُم أَلّا تُنفِقوا فى سَبيلِ اللَّهِ وَلِلَّهِ ميرٰثُ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ ۚ لا يَستَوى مِنكُم مَن أَنفَقَ مِن قَبلِ الفَتحِ وَقٰتَلَ ۚ أُولٰئِكَ أَعظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذينَ أَنفَقوا مِن بَعدُ وَقٰتَلوا ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الحُسنىٰ ۚ وَاللَّهُ بِما تَعمَلونَ خَبيرٌ {57:10}

اور تم کو کیا ہوا ہے کہ خدا کے رستے میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ آسمانوں اور زمین کی وراثت خدا ہی کی ہے۔ جس شخص نے تم میں سے فتح (مکہ) سے پہلے خرچ کیا اور لڑائی کی وہ (اور جس نے یہ کام پیچھے کئے وہ) برابر نہیں۔ ان کا درجہ ان لوگوں سے کہیں بڑھ کر ہے جنہوں نے بعد میں خرچ (اموال) اور (کفار سے) جہاد وقتال کیا۔ اور خدا نے سب سے (ثواب) نیک (کا) وعدہ تو کیا ہے۔ اور جو کام تم کرتے ہو خدا ان سے واقف ہے

اور تم کو کیا ہوا ہے کہ خرچ نہیں کرتے اللہ کی راہ میں اور اللہ ہی کو بچ رہتی ہر شے آسمانوں میں اور زمین میں [۱۶] برابر نہیں تم میں جس نے کہ خرچ کیا فتح مکہ سے پہلے [۱۷] اور لڑائی کی اُن لوگوں کا درجہ بڑا ہے اُن سے جو کہ خرچ کریں اُسکے بعد اور لڑائی کریں اور سب سے وعدہ کیا ہے اللہ نے خوبی کا [۱۸] اور اللہ کو خبر ہے جو کچھ تم کرتے ہو [۱۹]

یعنی یوں تو اللہ کے راستہ میں کسی وقت بھی خرچ کیا جائے اور جہاد کیا جائے وہ اچھا ہے خدا اس کا بہترین بدلہ دنیا یا آخرت میں دیگا، لیکن جن مقدور والوں نے "فتح مکہ" یا "حدیبیہ" سے پہلے خرچ کیا اور جہاد کیا، وہ بڑے درجے لے اڑے، بعد والے مسلمان ان کو نہیں پہنچ سکتے کیونکہ وہ وقت تھا کہ حق کے ماننے والے اور اس پر لڑنیوالے اقل قلیل تھے۔ اور دنیا کافروں اور باطل پرستوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس وقت اسلام کو جانی اور مالی قربانیوں کی ضرورت زیادہ تھی اور مجاہدین کو بظاہر اسباب اموال و غنائم وغیرہ کی توقعات بہت کم۔ ایسے حالات میں ایمان لانا اور خدا کے راستہ میں جان و مال لٹا دینا بڑے اولوالعزم اور پہاڑ سے زیادہ ثابت قدم انسانوں کا کام ہے۔ فرضی اللہ عنہم و رضواعنہ ورزقنا اللہ اتباعہم وحبہم۔ اٰمین۔

یعنی اللہ کو سب خبر ہے کہ کس کا عمل کس درجہ کا ہے اور اس میں اخلاص کا وزن کتنا ہے اپنے اسی علم کے موافق ہر ایک سے معاملہ کرے گا۔

یعنی مالک فنا ہو جاتا ہے اور ملک اللہ کا بچ رہتا ہے اور ویسے تو ہمیشہ اسی کا مال تھا۔ پھر اس کے مال میں سے اس کے حکم کے موافق خرچ کرنا بھاری کیوں معلوم ہو؟ خوشی اور اختیار سے نہ دوگے تو بے اختیار اسی کے پاس پہنچے گا۔ بندگی کا اقتضاء یہ ہے کہ خوشدلی سے پیش کرے اور اس کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے فقروافلاس سے نہ ڈرے، کیونکہ زمین و آسمان کے خزانوں کا مالک اللہ ہے۔ کیا اس کے راستہ میں خوشدلی سے خرچ کرنے والا بھوکا رہیگا؟ { وَلَا تَخْشَ مِنْ ذِی الْعَرْشِ اِقْلَالَا }۔

اور بعض نے فتح سے مراد صلح حدیبیہ لی ہے۔ اور بعض روایات سے اسی کی تائید ہوتی ہے۔

 

أَمَّن هُوَ قٰنِتٌ ءاناءَ الَّيلِ ساجِدًا وَقائِمًا يَحذَرُ الءاخِرَةَ وَيَرجوا رَحمَةَ رَبِّهِ ۗ قُل هَل يَستَوِى الَّذينَ يَعلَمونَ وَالَّذينَ لا يَعلَمونَ ۗ إِنَّما يَتَذَكَّرُ أُولُوا الأَلبٰبِ {39:9}

(بھلا مشرک اچھا ہے) یا وہ جو رات کے وقتوں میں زمین پر پیشانی رکھ کر اور کھڑے ہو کر عبادت کرتا اور آخرت سے ڈرتا اور اپنے پروردگار کی رحمت کی امید رکھتا ہے۔ کہو بھلا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ (اور) نصیحت تو وہی پکڑتے ہیں جو عقلمند ہیں

بھلا ایک جو بندگی میں لگا ہوا ہے رات کی گھڑیوں میں سجدے کرتا ہوا اور کھڑا ہو اخطرہ رکھتا ہے آخرت کا اور امید رکھتا ہے اپنے رب کی مہربانی کی تو کہہ کوئی برابر ہوتے ہیں سمجھ والے اور بے سمجھ سوچتے وہی ہیں جن کو عقل ہے [۲۰]

یعنی جو بندہ رات کی نیند اور آرام چھوڑ کر اللہ کی عبادت میں لگا۔ کبھی اس کے سامنے دست بستہ کھڑا رہا، کبھی سجدہ میں گرا۔ ایک طرف آخرت کا خوف اس کے دل کو بیقرار کئے ہوئے ہے اور دوسری طرف اللہ کی رحمت نے ڈھارس بندھا رکھی ہے۔ کیا یہ سعید بندہ اور وہ بدبخت انسان جس کا ذکر اوپر ہوا کہ مصیبت کے وقت خدا کو پکارتا ہے اور جہاں مصیبت کی گھڑی ٹلی خدا کو چھوڑ بیٹھا، دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ ایسا ہوتا تو یوں کہو کہ ایک عالم اور جاہل یا سمجھدار اور بیوقوف میں کچھ فرق نہ رہا۔ مگر اس بات کو بھی وہ ہی سوچتے سمجھتے ہیں جن کو اللہ نے عقل دی ہے۔

 

ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلًا فيهِ شُرَكاءُ مُتَشٰكِسونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِرَجُلٍ هَل يَستَوِيانِ مَثَلًا ۚ الحَمدُ لِلَّهِ ۚ بَل أَكثَرُهُم لا يَعلَمونَ {39:29}

خدا ایک مثال بیان کرتا ہے کہ ایک شخص ہے جس میں کئی (آدمی) شریک ہیں۔ (مختلف المزاج اور) بدخو اور ایک آدمی خاص ایک شخص کا (غلام) ہے۔ بھلا دونوں کی حالت برابر ہے۔ (نہیں) الحمدلله بلکہ یہ اکثر لوگ نہیں جانتے

اللہ نے بتلائی ایک مثل ایک مرد ہے کہ اس میں شریک ہیں کئ ضدی اور ایک مرد ہے پورا ایک شخص کا کیا برابر ہوتی ہیں دونوں مثل [۴۶] سب خوبی اللہ کے لئے ہے پر وہ بہت لوگ سمجھ نہیں رکھتے [۴۷]

یعنی سب خوبی اللہ کے لئے ہے کہ کیسے اعلیٰ مطالب و حقائق کو کیسی صاف اور دلنشین امثال و شواہد سے سمجھا دیتے ہیں مگر اس پر بھی بہت بدنصیب ایسے ہیں جو ان واضح مثالوں کے سمجھنے کی توفیق نہیں پاتے۔

یعنی کئ حصہ دار ایک غلام یا نوکر میں شریک ہیں اور ہر حصہ دار اتفاق سے کج خلق، بے مروت اور سخت ضدی واقع ہوا ہے، چاہتا ہے کہ غلام تنہا اس کے کام میں لگا رہے دوسرے شرکاء سے سروکار نہ رکھے اس کھینچ تان میں ظاہر ہے غلام سخت پریشان اور پراگندہ دل ہو گا۔ برخلاف اس کے جو غلام پورا ایک کا ہو، اسے ایک طرح کی یکسوئی اور طمانیت حاصل ہو گی اور کئ آقاؤں کو خوش رکھنے کی کشمکش میں گرفتار نہ ہو گا۔ اب ظاہر ہے کہ یہ دونوں غلام برابر نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح مشرک اور موحد کو سمجھ لو۔ مشرک کا دل کئ طرف بٹا ہوا ہے اور کتنے ہی جھوٹے معبودوں کو خوش رکھنے کی فکر میں رہتا ہے۔ اس کے برخلاف موحد کی کل توجہات خیالات اور دوادوش کا ایک مرکز ہے۔ وہ پوری دلجمعی کے ساتھ اس کے خوش رکھنے کی فکر میں ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کی خوشنودی کے بعد کسی کی خوشنودی کی ضرورت نہیں۔ اکثر مفسرین نے اس مثال کی تقریر اسی طرح کی ہے ۔مگر حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ "ایک غلام جو کئ کا ہو کوئی اس کو اپنا نہ سمجھے، تو اس کی پوری خبر نہ لے اور ایک غلام جو سارا ایک کا ہو، وہ اس کو اپنا سمجھے اور پوری خبر لے یہ مثال ہے ان کی جو ایک رب کے بندے ہیں، اور جو کئ رب کے بندے ہیں"۔

 

وَما يَستَوِى الأَعمىٰ وَالبَصيرُ وَالَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَلَا المُسيءُ ۚ قَليلًا ما تَتَذَكَّرونَ {40:58}

اور اندھا اور آنکھ والا برابر نہیں۔ اور نہ ایمان لانے والے نیکوکار اور نہ بدکار (برابر ہیں) (حقیقت یہ ہے کہ) تم بہت کم غور کرتے ہو

اور برابر نہیں اندھا اور آنکھوں والا اور نہ ایماندار جو بھلے کام کرتے ہیں اور نہ بدکار تم بہت کم سوچ کرتے ہو [۷۹]

یعنی ایک اندھا جسے حق کا سیدھا راستہ نہیں سوجھتا، اور ایک آنکھوں والا جو نہایت بصیرت کے ساتھ صراط مستقیم کو دیکھتا اور سمجھتا ہے، کیا دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ یا ایک نیکوکار مومن اور کافر بدکار کا انجام یکساں ہو سکتا ہے؟ اگر ایسا نہیں تو ضرور ایک دن چاہئے جب ان کا باہمی فرق کھلے۔ اور دونوں کے علم و عمل کے ثمرات اپنی اکمل ترین صورت میں ظاہر ہوں۔ مگر افسوس کہ تم اتنا بھی نہیں سوچتے۔

 


قُل لا يَستَوِى الخَبيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَو أَعجَبَكَ كَثرَةُ الخَبيثِ ۚ فَاتَّقُوا اللَّهَ يٰأُولِى الأَلبٰبِ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ {5:100}

کہہ دو کہ ناپاک چیزیں اور پاک چیزیں برابر نہیں ہوتیں گو ناپاک چیزوں کی کثرت تمہیں خوش ہی لگے تو عقل والو خدا سے ڈرتے رہو تاکہ رستگاری حاصل کرو

تو کہہ دے کہ برابر نہیں ناپاک اور پاک اگرچہ تجھ کو بھلی لگے ناپاک کی کثرت سو ڈرتے رہو اللہ سے اے عقلمندو تاکہ تمہاری نجات ہو [۲۴۰]

اس رکوع سے پہلے رکوع میں فرمایا تھا کہ طیبات کو حرام مت ٹھہراؤ بلکہ ان سے اعتدال کےساتھ تمتع کرو۔ "اس مضمون کی تکمیل کے بعد خمر وغیرہ چند ناپاک اور خبیث چیزوں کی حرمت بیان فرمائی۔ اسی سلسلے میں محرم کے شکار کو حرام کیا یعنی جس طرح خمر، میتہ وغیرہ خبیث چیزیں ہیں اسی طرح محرم کےشکار کو سمجھو ۔ محرم کی مناسبت سےچند ضمنی چیزوں کا بیان فرمانے کے بعد اب متنبہ فرماتے ہیں کہ طیب اور خبیث یکساں نہیں ہو سکتے۔ تھوری چیز اگر طیب و حلال ہو وہ بہت سی خبیث و حرام چیز سے بہتر ہے عقلمند کو چاہئے کہ ہمیشہ طیب و حلال کو اختیار کرے گندی اور خراب چیزوں کی طرف خواہ دیکھنے میں کتنی ہی زیادہ ہوں اور بھلی لگیں نظر نہ اٹھائے۔

 

مَثَلُ الفَريقَينِ كَالأَعمىٰ وَالأَصَمِّ وَالبَصيرِ وَالسَّميعِ ۚ هَل يَستَوِيانِ مَثَلًا ۚ أَفَلا تَذَكَّرونَ {11:24}

دونوں فرقوں (یعنی کافرومومن) کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اندھا بہرا ہو اور ایک دیکھتا سنتا۔ بھلا دونوں کا حال یکساں ہوسکتا ہے؟ پھر تم سوچتے کیوں نہیں؟

مثال ان دونوں فرقوں کی جیسے ایک تو اندھا اور بہرا اور دوسرا دیکھتا اور سنتا کیا برابر ہے دونوں کا حال پھر کیا تم غور نہیں کرتے [۳۵]

یعنی منکرین تو اندھے بہرےہیں جیسا کہ دو تین آیت پہلے فرمایا تھا { مَاکَانُوْا یَسْتَطِیْعُوْنَ السَّمْعَ وَمَا کَانُوْا یُبْصِرُوْنَ } پھر جسے نہ خود نظر آئے نہ دوسرے کی سن سکے ، اس کا آغاز و انجام کیسے ان روشن ضمیر ایمانداروں کے برابر ہو سکتا ہے جو بصیرت کی آنکھوں سے حق و باطل اور بھلے برے میں تمیز کرتے اور اپنے ہادیوں کی باتیں بگوش ہوش سنتے ہیں۔ غور کرو کہ دونوں کا انجام یکساں کس طرح ہو سکتا ہے ؟ آگے حضرت نوحؑ کی قوم کا قصہ اسی مضمون کی تائید میں پیش کرتے ہیں۔


لا يَستَوِى القٰعِدونَ مِنَ المُؤمِنينَ غَيرُ أُولِى الضَّرَرِ وَالمُجٰهِدونَ فى سَبيلِ اللَّهِ بِأَموٰلِهِم وَأَنفُسِهِم ۚ فَضَّلَ اللَّهُ المُجٰهِدينَ بِأَموٰلِهِم وَأَنفُسِهِم عَلَى القٰعِدينَ دَرَجَةً ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الحُسنىٰ ۚ وَفَضَّلَ اللَّهُ المُجٰهِدينَ عَلَى القٰعِدينَ أَجرًا عَظيمًا {4:95}

جو مسلمان (گھروں میں) بیٹھ رہتے (اور لڑنے سے جی چراتے) ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے وہ اور جو خدا کی راہ میں اپنے مال اور جان سے لڑتے ہیں وہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے اور (گو) نیک وعدہ سب سے ہے لیکن اجر عظیم کے لحاظ سے خدا نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر کہیں فضیلت بخشی ہے

برابر نہیں بیٹھ رہنے والے مسلمان جن کو کوئی عذر نہیں اور وہ مسلمان جو لڑنے والے ہیں اللہ کی راہ میں اپنے مال سے اور جان سے اللہ نے بڑھا دیا لڑنے والوں کا اپنے مال اور جان سے بیٹھ رہنے والوں پر درجہ اور ہر ایک سے وعدہ کیا اللہ نے بھلائی کا اور زیادہ کیا اللہ نے لڑنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں سے اجر عظیم میں

أَجَعَلتُم سِقايَةَ الحاجِّ وَعِمارَةَ المَسجِدِ الحَرامِ كَمَن ءامَنَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ وَجٰهَدَ فى سَبيلِ اللَّهِ ۚ لا يَستَوۥنَ عِندَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ لا يَهدِى القَومَ الظّٰلِمينَ {9:19}

کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد محترم یعنی (خانہٴ کعبہ) کو آباد کرنا اس شخص کے اعمال جیسا خیال کیا ہے جو خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور خدا کی راہ میں جہاد کرتا ہے۔ یہ لوگ خدا کے نزدیک برابر نہیں ہیں۔ اور خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا

کیا تم نے کر دیا حاجیوں کا پانی پلانا اور مسجد الحرام کا بسانا برابر اس کے جو یقین لایا اللہ پر اور آخرت کےدن پر اور لڑا اللہ کی راہ میں یہ برابر نہیں ہیں اللہ کے نزدیک اور اللہ رستہ نہیں دیتا ظالم لوگوں کو [۱۸]

مشرکین مکہ کو اس پر بڑا فخر و ناز تھا کہ ہم حاجیوں کی خدمت کرتے انہیں پانی پلاتے کھانا کپڑا دیتے اور مسجد حرام کی مرمت یا کسوۃ کعبہ یا تیل بتی وغیرہ کا انتظام کرتے ہیں۔ اگر مسلمان اپنے جہاد و ہجرت وغیرہ پر نازاں ہیں تو ہمارے پاس عبادات کا یہ ذخیرہ موجود ہے ۔ ایک زمانہ میں حضرت عباسؓ نے بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مقابلہ میں اسی طرح کی بحث کی تھی ، بلکہ صحیح مسلم میں ہے کہ ایک دفعہ چند مسلمان آپس میں جھگڑ رہے تھے ۔ کوئی کہتا تھا کہ میرےنزدیک اسلام لانے کے بعد حاجیوں کو پانی پلانے سے زیادہ کوئی عبادت نہیں ۔ دوسرے نے کہا میرے خیال میں اسلام کے بعد بہترین عمل مسجد حرام کی خدمت ہے (مثلاً جھاڑو دینا روشنی وغیرہ کرنا) تیسرا بولا کہ جہاد فی سبیل اللہ تمام عبادات و اعمال سے افضل و اشرف ہے ۔ حضرت عمرؓ نے ان کو ڈانٹا کہ تم "جمعہ" کے وقت منبر رسول اللہ کے پاس بیٹھ کر اس طرح بحثیں کر رہے ہو ۔ ذرا صبر کرو۔ جب حضور جمعہ سے فارغ ہو جائیں گے آپ سے یہ چیز دریافت کر لی جائے گی ۔ چنانچہ جمعہ کے بعد حضور سے سوال کیا تو یہ آیات نازل ہوئیں۔ { اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَ عِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ } الخ یعنی حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد حرام کا ظاہری طور پر بسانا ایمان باللہ اور جہاد فی سبیل اللہ میں سےکسی ایک کے برابر بھی نہیں ہو سکتا (افضل ہونا تو کجا؟) یہاں جہاد کے ساتھ ایمان باللہ کا ذکر یا تو اس لئے کیا کہ مشرکین کے فخرو غرور کا جواب بھی ہو جائے کہ تمام عبادات کی روح ایمان باللہ ہے ، اس روح کے بدون پانی پلانا یا مسجد حرام کی خدمت کرنا محض مردہ عمل ہے تو یہ بے جان اور مردہ عمل ایک زندہ جاوید عمل کی برابری کیسے کر سکتا ہے۔ { وَمَا یَسْتَوِی الْاَحْیَاءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ } (فاطر رکوع۳) اور اگر صرف مومنین کے اعمال کا باہمی موازنہ کرنا ہے تو ایمان باللہ کا ذکر جہاد فی سبیل اللہ کی تمہید کے طور پر ہو گا۔ اصل مقصود جہاد وغیرہ عزائم اعمال کی افضلیت کو بیان فرمانا ہے ۔ ایمان کے ذکر سے تنبیہ فرما دی کہ جہاد فی سبیل اللہ ہو یا کوئی عمل ایمان کے بغیر ہیچ اور لاشے محض ہے ۔ ان عزائم اعمال (جہاد و ہجرت وغیرہ) کا تقویم بھی ایمان باللہ سے ہوتا ہے اور اس نکتہ کو وہ ہی لوگ سمجھتے ہیں جو فہم سلیم رکھتے ہوں۔ ظالمین (بے موقع کام کرنے والوں) کی ان حقائق تک رسائی نہیں ہوتی۔

  

قُل مَن رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ قُلِ اللَّهُ ۚ قُل أَفَاتَّخَذتُم مِن دونِهِ أَولِياءَ لا يَملِكونَ لِأَنفُسِهِم نَفعًا وَلا ضَرًّا ۚ قُل هَل يَستَوِى الأَعمىٰ وَالبَصيرُ أَم هَل تَستَوِى الظُّلُمٰتُ وَالنّورُ ۗ أَم جَعَلوا لِلَّهِ شُرَكاءَ خَلَقوا كَخَلقِهِ فَتَشٰبَهَ الخَلقُ عَلَيهِم ۚ قُلِ اللَّهُ خٰلِقُ كُلِّ شَيءٍ وَهُوَ الوٰحِدُ القَهّٰرُ {13:16}

ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کا پروردگار کون ہے؟ (تم ہی ان کی طرف سے) کہہ دو کہ خدا۔ پھر (ان سے) کہو کہ تم نے خدا کو چھوڑ کر ایسے لوگوں کو کیوں کارساز بنایا ہے جو خود اپنے نفع ونقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتے (یہ بھی) پوچھو کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہیں؟ یا اندھیرا اور اُجالا برابر ہوسکتا ہے؟ بھلا ان لوگوں نے جن کو خدا کا شریک مقرر کیا ہے۔ کیا انہوں نے خدا کی سی مخلوقات پیدا کی ہے جس کے سبب ان کو مخلوقات مشتبہ ہوگئی ہے۔ کہہ دو کہ خدا ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہ یکتا (اور) زبردست ہے

پوچھ کون ہے رب آسمان اور زمین کا کہدے اللہ ہے کہہ پھر کیا تم نے پکڑے ہیں اس کے سوا ایسے حمایتی جو مالک نہیں اپنے بھلے اور برے کے [۲۷] کہہ کیا برابر ہوتا ہے اندھا اور دیکھنے والا یا کہیں برابر ہے اندھیرا اور اجالا [۲۸]کیا ٹھہرائے ہیں انہوں نے اللہ کے لئے شریک کہ انہوں نے کچھ پیدا کیا ہے جیسے پیدا کیا اللہ نے پھر مشتبہ ہو گئ پیدائش انکی نظر میں کہہ اللہ ہے پیدا کرنے والا ہر چیز کا اور وہی ہے اکیلا زبردست [۲۹]

یعنی جیسی مخلوقات خدا تعالیٰ نے پیدا کی ، کیا تمہارےدیوتاؤں نے ایسی کوئی چیز پیدا کی ہے جسے دیکھ کر ان پر خدائی کا شبہ ہونے لگا۔ وہ تو ایک مکھی کا پر اور ایک مچھر کی ٹانگ بھی نہیں بنا سکتے۔ بلکہ تمام چیزوں کی طرح خود بھی اسی اکیلے زبردست خدا کی مخلوق ہیں۔ پھر ایسی عاجز و مجبور چیزوں کو خدائی کے تخت پر بٹھا دینا کس قدر گستاخی اور شوخ چشمی ہے۔

یعنی جب ربوبیت کا اقرار صرف خدا کے لئے کرتے ہو ، پھر مدد کے لئے دوسرے حمایتی کہاں سے تجویز کر لئے ۔ حالانکہ وہ برابر ذرہ نفع نقصان کا مستقل اختیار نہیں رکھتے۔

یعنی موحد و مشرک میں ایسا فرق ہے جیسے بینا اور نابینا میں اور توحید و شرک کا مقابلہ ایسا سمجھو جیسے نور کا ظلمت سے ۔ تو کیا ایک اندھا مشرک جو شرک کی اندھیریوں میں پڑا ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہو اس مقام پر پہنچ سکتا ہے جہاں ایک موحد کو پہنچنا ہے جو فہم و بصیرت اور ایمان و عرفان کی روشنی میں فطرت انسانی کے صاف راستہ پر چل رہا ہے ؟ ہرگز دونوں ایک نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتے۔

وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلَينِ أَحَدُهُما أَبكَمُ لا يَقدِرُ عَلىٰ شَيءٍ وَهُوَ كَلٌّ عَلىٰ مَولىٰهُ أَينَما يُوَجِّههُ لا يَأتِ بِخَيرٍ ۖ هَل يَستَوى هُوَ وَمَن يَأمُرُ بِالعَدلِ ۙ وَهُوَ عَلىٰ صِرٰطٍ مُستَقيمٍ {16:76}

اور خدا ایک اور مثال بیان فرماتا ہے کہ دو آدمی ہیں ایک اُن میں سے گونگا (اور دوسرے کی ملک) ہے (بےاختیار وناتوان) کہ کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا۔ اور اپنے مالک کو دوبھر ہو رہا ہے وہ جہاں اُسے بھیجتا ہے (خیر سے کبھی) بھلائی نہیں لاتا۔ کیا ایسا (گونگا بہرا) اور وہ شخص جو (سنتا بولتا اور) لوگوں کو انصاف کرنے کا حکم دیتا ہے اور خود سیدھے راستے پر چل رہا ہے دونوں برابر ہیں؟

اور بتائی اللہ نے ایک دوسری مثال دو مرد ہیں ایک گونگا [۱۱۹] کچھ کام نہیں کر سکتا [۱۲۰] اور وہ بھاری ہے اپنے صاحب (مالک) پر جس طرف اسکو بھیجے نہ کر کے لائے کچھ بھلائی [۱۲۱] کہیں برابر ہے وہ اور ایک وہ شخص جو حکم کرتا ہے انصاف سے اور ہے سیدھی راہ پر [۱۲۲]

یعنی مالک کے کسی کام کا نہیں ۔ جدھر اسے بھیجنا چاہے یا متوجہ کرے کچھ بھلائی اور فلاح نہ پہنچا سکے۔

کیونکہ نہ حواس رکھتا ہے نہ عقل ، اور اپاہج ہے جو چل پھر بھی نہیں سکتا۔

گونگا ہے تو لازمی طور پر بہرا بھی ہو گا۔ گویا نہ اپنی کہہ سکے نہ دوسرے کی سن سکے۔

یعنی خود سیدھی راہ پر قائم رہ کر دوسروں کو بھی اعتدال و انصاف کے راستہ پر لے جا رہا ہے ۔ جب یہ دونوں شخص برابر نہیں ہو سکتے تو ایک خود تراشیدہ پتھر کی مورتی کو (العیاذ باللہ) خدائی کا درجہ کیونکر دیا جا سکتا ہے۔ یا ایک اندھا بہرا مشرک جو خدا کی پیدا کی ہوئی روزی کھاتا ہے اور چھدام کا کام کر کے نہیں دیتا ، اس مومن قانت کی ہمسری کیسے کر سکتا ہے جو خود سیدھی راہ پر ہو اور دوسروں کو اپنے ساتھ ترا لے جائے ۔ حضرت شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں یعنی "خدا کی دو مخلوق ایک بت نکما نہ ہل سکے نہ چل سکے جیسے گونگا غلام ، دوسرا رسول جو اللہ کی راہ بتا دے ہزاروں کو اور آپ بندگی پر قائم ہے ، اس کے تابع ہونا بہتر یا اس کے "۔

  

وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلَينِ أَحَدُهُما أَبكَمُ لا يَقدِرُ عَلىٰ شَيءٍ وَهُوَ كَلٌّ عَلىٰ مَولىٰهُ أَينَما يُوَجِّههُ لا يَأتِ بِخَيرٍ ۖ هَل يَستَوى هُوَ وَمَن يَأمُرُ بِالعَدلِ ۙ وَهُوَ عَلىٰ صِرٰطٍ مُستَقيمٍ {16:76}

اور خدا ایک اور مثال بیان فرماتا ہے کہ دو آدمی ہیں ایک اُن میں سے گونگا (اور دوسرے کی ملک) ہے (بےاختیار وناتوان) کہ کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا۔ اور اپنے مالک کو دوبھر ہو رہا ہے وہ جہاں اُسے بھیجتا ہے (خیر سے کبھی) بھلائی نہیں لاتا۔ کیا ایسا (گونگا بہرا) اور وہ شخص جو (سنتا بولتا اور) لوگوں کو انصاف کرنے کا حکم دیتا ہے اور خود سیدھے راستے پر چل رہا ہے دونوں برابر ہیں؟

اور بتائی اللہ نے ایک دوسری مثال دو مرد ہیں ایک گونگا [۱۱۹] کچھ کام نہیں کر سکتا [۱۲۰] اور وہ بھاری ہے اپنے صاحب (مالک) پر جس طرف اسکو بھیجے نہ کر کے لائے کچھ بھلائی [۱۲۱] کہیں برابر ہے وہ اور ایک وہ شخص جو حکم کرتا ہے انصاف سے اور ہے سیدھی راہ پر [۱۲۲]

یعنی مالک کے کسی کام کا نہیں ۔ جدھر اسے بھیجنا چاہے یا متوجہ کرے کچھ بھلائی اور فلاح نہ پہنچا سکے۔

کیونکہ نہ حواس رکھتا ہے نہ عقل ، اور اپاہج ہے جو چل پھر بھی نہیں سکتا۔

گونگا ہے تو لازمی طور پر بہرا بھی ہو گا۔ گویا نہ اپنی کہہ سکے نہ دوسرے کی سن سکے۔

یعنی خود سیدھی راہ پر قائم رہ کر دوسروں کو بھی اعتدال و انصاف کے راستہ پر لے جا رہا ہے ۔ جب یہ دونوں شخص برابر نہیں ہو سکتے تو ایک خود تراشیدہ پتھر کی مورتی کو (العیاذ باللہ) خدائی کا درجہ کیونکر دیا جا سکتا ہے۔ یا ایک اندھا بہرا مشرک جو خدا کی پیدا کی ہوئی روزی کھاتا ہے اور چھدام کا کام کر کے نہیں دیتا ، اس مومن قانت کی ہمسری کیسے کر سکتا ہے جو خود سیدھی راہ پر ہو اور دوسروں کو اپنے ساتھ ترا لے جائے ۔ حضرت شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں یعنی "خدا کی دو مخلوق ایک بت نکما نہ ہل سکے نہ چل سکے جیسے گونگا غلام ، دوسرا رسول جو اللہ کی راہ بتا دے ہزاروں کو اور آپ بندگی پر قائم ہے ، اس کے تابع ہونا بہتر یا اس کے "۔

 



العدل: کے لفظ میں مساوات کے معنیٰ پائے جاتے ہیں اور معنیٰ اضافی کے اعتبار سے استعمال ہوتا ہے یعنی ایک دوسرے کے ہم وزن اور برابر ہوتا اور عدل عدل کے قریب قریب ایک ہی معنیٰ ہیں۔ لیکن عدل کا لفظ معنوی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے احکامِ شرعیہ چنانچہ اسی معنیٰ میں فرمایا:۔
أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [سورۃ المائدة:95] یعنی یا اس کے برابر روزے رکھنا۔
اور عدل وعدیل کے الفاظ ان چیزوں کے لیے بولے جاتے ہیں جن کا ادراک حواسِ ظاہرہ سے ہوتا ہے۔ جیسے:- وہ چیزیں جن کا تعلق ماپ تول یا وزن سے ہوتا ہے۔ پس عدل کے معنی دو چیزوں کا برابر ہونا کے ہیں۔ چنانچہ اسی معنیٰ میں مروی ہے:
بالعدل قامت السموت والارض
کہ عدل ہی سے آسمان و زمین قائم ہیں۔[ابوداؤد:٣٤١٠]
یعنی اگر عناصرِ اربعہ(یعنی ہوا، آگ ، مٹی اور پانی) جن سے کائنات نے ترکیب پائی ہے میں سے ایک عُنْصُر(یعنی اصل-مادّہ) میں بھی اس کی معینہ مقدار سے کمی یا بیشی ہوجائے تو نظامِ کائنات قائم نہیں رہ سکتا۔

العدل دو قسم پر ہے

(1)عدل مطلق

جو عقلا مستحسن ہوتا ہے یہ نہ تو کسی زمانہ میں منسوخ ہوا ہے اور نہ ہی کسی اعتبار سے تعدی کے ساتھ متصف ہوسکتا ہے۔ مثلا: کسی کے احسان کے بدلہ میں اس پر احسان کرنا اور جو تمہیں تکلف نہ دے اسے ایذا رسانی سے باز رہنا وغیرہ ۔

(2)عدل شرعی

جسے شریعت نے عدل کہا ہے اور یہ منسوخ بھی ہوسکتا ہے۔ جیسے: قصاص، جنایات کی دیت اور مال مرتد کی اصل وغیرہ ۔ چنانچہ آیات : ۔
فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [سورۃ البقرة:194]
پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے، واپس ہی تم اس پر کرو۔
وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [سورۃ الشوری:40]
اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے۔
میں زیادتی اور برائی کی سزا کا کام بھی زیادتی اور برائی ہی قرار دیا ہے۔
اور آیتِ کریمہ : ۔
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [سورۃ النحل:90]
اللہ تم کو انصاف اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے۔
میں عدل کے یہی معنیٰ مراد ہے کیونکہ کسی چیز کے برابر اس کا بدلہ دینے کا نام عدل یعنی نیکی کا بدلہ نیکی سے اور برائی کا بدلہ برائی سے اور نیکی کے مقابلہ میں زیادہ نیکی اور شر کے مقابلہ میں مسامحت سے کام لینے کا نام احسان ہے۔

اور لفظ عدل واحد جمع دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
جیسے: رجل عدل عادل ورجال عدل شاعر نے کہا ہے (الطویل) (303) فھم رضا وھم عدل وہ راضی رہنے والے اور عدال ہیں۔ دراصل عدل کا لفظ مصدر ہے. چنانچہ آیت:۔
وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [سورۃ الطلاق:2]
اور اپنے میں سے دو منصف مردوں کو گواہ بنالو۔
میں عدل کے معنی عدالہ ہیں۔ قرآن میں ہے:۔
وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [سورۃ الشوریٰ:15]
اور مجھے حکم ہوا کہ تم میں انصاف کروں۔
لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[سورۃ المائدة:8]
اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو ۔ انصاف کیا کرو۔
اور آیتِ کریمہ:۔
وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [سورۃ النساء:129]
اور تم خواہ کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہرگز برابری نہیں کرسکو گے۔
میں انسان کے طبعی (قلبی) میلان کی طرف اشارہ ہے کہ تمام بیویوں سے برابر وجہ کی محبت اس کی قدرت سے باہر ہے۔ اور آیت کریمہ:۔
فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [سورۃ النساء:3]
اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ سب عورتوں سے یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت کانی ہے۔
میں عدل سے نان ونفقہ اور ازواجی تعلقات میں برابری مراد ہے۔
اور آیت کریمہ:۔
أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [سورۃ المائدة:95]
اس کے برابر روزے رکھنا۔
میں عدل سے مراد یہ ہے کہ وہ روزے طعام سے فدیہ کے برابر ہوں کیونکہ فدیہ میں مساوات کے معنیٰ ملحوظ ہوں تو اسے بھی عدل کہہ دیا جاتا ہے اور (33) لا یقبل منہ صرف ولا عدل میں بعض نے کہا ہے کہ عدل کا لفظ فریضہ سے کنایہ ہے مگر اس کے اصل معنیٰ وہی ہیں جو ہم بیان کرچکے ہیں اور صرف کا لفظ نافلۃ سے اور یہ اصل فرض سے بڑھ کر کام کرنے کا نام ہے۔ لہٰذا یہ باہم تقابل کے اعتبار سے عدل اور احسان کے ہم مثل ہیں۔ اور لا یقبل منہ کے معنی یہ ہیں کہ اس کے پاس کسی قسم کی نیکی ہوگی جو قبول کی جائے اور یہ آیت:۔
بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [سورۃ الأنعام:1] کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ دوسروں کو خدا کی مثل اور نظیر قرار دیتے ہیں۔
لہٰذا یہ آیت:۔
هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [سورۃ النحل:100] کے ہم معنیٰ ہوگی۔ بعض نے اس کے معنیٰ یہ کئے ہیں کہ وہ افعالِ الہیہ کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ بعض نے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے عدول کرنا مراد لیا ہے۔
اور آیت کریمہ:۔
بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [سورۃ النمل:60] بلکہ یہ لوگ رستے سے الگ ہورہے ہیں۔
بھی اسی معنیٰ پر محمول ہوسکتی ہے۔ یعنی اس کے معنی یعدلون بِہ کے ہیں۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ عدل عن الحق سے مشتق ہو جس کے معنیٰ حق سے ہٹ جانا کے ہیں۔ ایام معتد لات معتدل زمانہ یعنی جب رات دن برابر ہوتے ہیں۔ عادل بین الامرین اس نے دو چیزوں کے درمیان موازنہ کیا۔ عادل الامر کسی معاملہ میں پھنس گیا اور کسی ایک جانب فیصلہ نہ کرسکا اور جب کسی شخص کی زندگی سے مایوسی ہوجائے تو اس کے متعلق کہا جاتا ہے : ۔ یعنی اب وہ زندہ نہیں رہ سکتا ۔