Monday, 7 June 2021

روحِ شریعت : بزرگوں پر اعتماد

عقیدت کا عقیدہ:

کسی امتی پر اللہ کی طرف سے احکامِ شریعت نہیں اترتے اور جس آخری نبیؐ پر آخری شریعت اترچکی، ان سے صحابہ کرامؓ کے بعد کوئی بلاواسطہ اماموںؒ کے شریعت نہیں جان سکتا، اور جن مسلم اماموںؒ کے علم و سمجھ، عمل و صداقت پر امت مسلمہ متفق ہو، اس جماعت سے نہ نکلنا چاہیے.

[حجة الله البالغة]


القرآن:

۔۔۔۔(دکھا ہمیں ان لوگوں کا) راستہ جن پر تیرا انعام ہوا۔۔۔

[سورۃ الفاتحہ:7]

۔۔۔انعام کیا اللہ نے نبیوں، اور صدیق، اور شہید، اور نیک لوگوں پر۔۔۔

[سورۃ النساء:69]


۔۔۔اور پیچھے چل اس کے راستہ پر جو رجوع کرے میری طرف۔۔۔

[سورۃ لقمان:15]


۔۔۔اور تم میں جو صاحبِ اختیار ہیں ان کی بھی (اطاعت کرو)....

[سورۃ النساء:59]




سلفِ صالحین پر اعتماد:



(1) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النَّضْرِ الْأَزْدِيُّ، ثنا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، ثنا زَائِدَةُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: «‌لَا ‌يُقَلِّدَنَّ أَحَدُكُمْ دِينَهُ رَجُلًا، فَإِنْ آمَنَ آمَنَ وَإِنْ كَفَرَ كَفَرَ، وَإِنْ كُنْتُمْ لَا بُدَّ مُقْتَدِينَ فَاقْتَدُوا بِالْمَيِّتِ، فَإِنَّ الْحَيَّ لَا يُؤْمَنُ عَلَيْهِ الْفِتْنَةُ» 
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا : خبردار! کوئی شخص اپنے دین میں کسی کی اس طرح تقلید نہ کرے کہ اگر وہ ایمان لاۓ تو یہ بھی ایمان لاۓ، اور اگر وہ کفر کرے تو یہ بھی کفر کرے. پس اگر مقلد ہونا ناگزیر (لازمی) ہو ، تو تقلید کرو (گزشتہ نیک) مردہ لوگوں کی (یعنی اصحابِ رسول کی اقتدا کرو) اور ترک کردو (تقلید) زندہ لوگوں کی، کیونکہ (موجود) زندہ لوگ محفوظ نہیں فتنہ(آزمائش) سے.
[المعجم الكبير للطبراني:8764، مجمع الزوائد:850 وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ.]

نوٹ:
(1) ایمان و کفر میں تقلید سے منع کیا گیا ہے، عملی واجتہادی مسائل میں مجتہد امام کی تقلید سے نہیں۔ (2) مردہ سے مراد سلفِ صالحین یعنی گذرے ہوئے نیک لوگ ہیں۔ جو ہدایت پر مرے وہ قابلِ تقلید ہے۔ (3) اور زندہ لوگوں کا گمراہی میں پڑنا ابھی بھی ممکن ہے، لہٰذا ان کی تقلید جائز نہیں۔


(2) حضرت عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن مجید چار لوگوں سے سیکھو: ابن مسعود، ابی بن کعب، معاذ بن جبل، اور سالم مولی ابی حذیفہ سے“۔

[صحیح بخاری:3758+3760+3806+3808+4999، صحیح مسلم:2464، سنن ترمذي:3810]

مطلب یہ ہے کہ یہ چار صحابہ خاص طور پر قرآن کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کرنے، یاد کرنے، بہتر طریقے سے ادا کرنے میں ممتاز تھے۔




علی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر میں بغیر مشورہ کے ان میں سے کسی کو امیر بناتا تو ام عبد کے بیٹے (عبداللہ بن مسعود) کو امیر بناتا ۔
[سنن الترمذي:3808]
علی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر میں بغیر مشورہ کے کسی کو امیر بناتا تو ام عبد کے بیٹے (عبداللہ بن مسعود) کو امیر بناتا۔
[سنن الترمذي:3809]
حضرت حذیفہؓ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے فرمایا : " میں نہیں جانتا کہ میں تم میں کب تک رہوں گا (یعنی کتنے دنوں تک زندہ رہوں گا) تو تم ان دونوں کی پیروی کرنا جو میرے بعد ہوں گے (اور آپ نے ابوبکر و عمرؓ کی طرف اشارہ کیا اور عمارؓ کی روش پر چلنا اور ابن مسعودؓ جو تم سے (حدیث) بیان کریں اسے سچ جاننا۔
[سنن الترمذي:3799، صحيح ابن حبان:6902]






عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: خَطَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ النَّاسَ بِالْجَابِيَةِ وَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، مَنْ أَرَادَ أَنْ يَسْأَلَ عَنِ الْقُرْآنِ فَلْيَأْتِ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ، وَمَنْ أَرَادَ أَنْ ‌يَسْأَلَ ‌عَنِ ‌الْفَرَائِضِ فَلْيَأْتِ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ، وَمَنْ أَرَادَ أَنْ يَسْأَلَ عَنِ الْفِقْهِ فَلْيَأْتِ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، وَمَنْ أَرَادَ أَنْ يَسْأَلَ عَنِ الْمَالِ فَلْيَأْتِنِي ; فَإِنَّ اللَّهَ جَعَلَنِي لَهُ وَالِيًا وَقَاسِمًا ".
ترجمہ :
''حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے جابیہ کے مقام پر خطبہ دیا اور فرمایا: اے لوگو! جو شخص قرآن کے بارے میں پو‌چھنا ‌چاہتا ہو وہ ابی بن کعب کے پاس جائے، جو فرائض کے احکام کے بارے میں پو‌چھنا ‌چاہتا ہے وہ زید بن ثابت کے پاس جائے، اور جو شخص فقہ کے بارے میں پو‌چھنا ‌چاہے وہ معاذ بن جبل کے پاس جائے، اور جو شخص مال کے بارے میں سوال کرنا ‌چاہے وہ میرے پاس آ جائے، اس لئے کہ اللہ نے مجھے اس کا والی اور تقسیم کنندہ بنایا ہے۔''
[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد:567، الأموال للقاسم بن سلام:548، سنن سعيد بن منصور:2319، مصنف ابن  أبي شيبة:32896، المعجم الأوسط:3783، المستدرك على الصحيحين للحاكم:5191، السنن الكبرى للبيهقي:12189]

اس خطبے میں حضرت عمرؓ نے لوگوں کو عام طور پر یہ ہدایت فرمائی ہے کہ تفسر، فرائض اور فقہ کے معاملات میں ان ممتاز علماء سے رجوع کرکے ان سے معلومات حاصل کیا کریں تاکہ احکام پر عمل ہو سکے، اور ظاہر ہے کہ ہر شخص دلائل سمجھنے کا اہل نہیں ہوتا اس لئے یہ حکم دونوں صورتوں کو شامل ہے کہ جو لوگ دلائل سمجھنے کے اہل ہوں (یعنی تفصیل سے سمجھنے کو علماء کے ہاں تفصیلی تعلیم حاصل کرنے کو مدرسہ اختیار کرے، جیسے اصحابِ صفہ والے صحابہ تعلیم دین کے لئے اپنے گھر و کاروبار سے فارغ اس صفہ (چبوترہ) اختیار کے ہوتے تھا) وہ ان علماء سے دلائل بھی سیکھیں اور جو (دنیوی کاروبار و مصروفیت کے سبب تفصیلی تعلیم کے) اہل نہ ہوں وہ محض ان کے اقوال پر اعتماد کرکے ان کے بتائے ہوئے مسائل پر عمل کریں۔ جس کا نام تقلید ہے۔

































علمی سلسلہ/شجرہ ہو:

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

«تَسْمَعُونَ وَيُسْمَعُ مِنْكُمْ وَيُسْمَعُ مِمَّنْ سَمِعَ مِنْكُمْ»

ترجمہ:

تم مجھ سے سن رہے ہو، اور تم سے بھی سنا جائے گا، پھر تم سے سننے والوں سے بھی سنا جائے گا۔
[ابوداؤد:3659 احمد:2945]


مستند عالم کون؟

یعنی، جس عالم کے اساتذہ نے نبی کے شاگردوں سے سیکھا۔ ایسے علماء کے پاس علمی شجرہ بھی محفوظ ہوتا ہے جس طرح لوگ اپنا نسبی(خاندانی)شجرہ رکھتے ہیں۔


علم کیا ہے؟

حافظ ابن عبدالبرؒ (م46) امام اوزاعیؒ (م157ھسے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے شاگرد بقیہ بن الولید(م197ھ) سے فرمایا:

يَا بَقِيَّةُ، الْعِلْمُ مَا جَاءَ عَنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا لَمْ يَجِئْ عَنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَيْسَ بِعِلْمٍ

ترجمہ:

اے بقیہ! علم تو وہی ہے جو رسول اللہ  کے اصحابِ کرام سے منقول Transmittedہو  اور جو ان سے منقول نہیں وہ علم نہیں۔

[جامع بیان العلم:1067+1420+1421، فتح الباري شرح صحيح البخاري:ج13 ص291، سلسلة الآثار الصحيحة:322]



امام شعبیؒ (م103ھ) فرماتے ہیں :

«مَا حَدَّثُوكَ عَنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشُدَّ عَلَيْهِ يَدَكَ وَمَا حَدَّثُوكَ مِنْ رَأْيِهِمْ فَبُلْ عَلَيْهِ»

ترجمہ: جو باتیں تمہارے سامنے لوگ صحابۂ کرام کی جانب سے نقل فرمائیں تو انہیں اختیار کرلو اور جو باتیں اصولِ شرع کے خلاف اپنی طرف سے کہیں انہیں بے زاری کے ساتھ ٹھکرادو۔

[الإبانة الكبرى لابن بطة:607، المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقي:814+1898، جامع بیان العلم:1066]






بزرگوں(سلفِ صالحین) پر اعتماد کرنا ہی اصل شریعت ہے:

اپنے اسلاف پر اعتماد کرنا اور ان کے ساتھ حسنِ ظن کا معاملہ رکھنا وہ دولت ہے، جس کے صدقے میں آج دین اپنی صحیح شکل میں ہمارے ہاتھ میں محفوظ ہے. اسی بات کو حضرت شاہ ولی الله محدث دہلویؒ نے بیان فرمایا: کسی امتی پر اللہ کی طرف سے احکامِ شریعت نہیں اترتے اور جس آخری نبیؐ پر آخری شریعت اترچکی، ان سے صحابہ کرامؓ کے بعد کوئی بلاواسطہ اماموںؒ کے شریعت نہیں جان سکتا، اور جن مسلم اماموںؒ کے علم و سمجھ، عمل و صداقت پر امت مسلمہ متفق ہو، اس جماعت سے نہ نکلنا چاہیے.
[حجة الله البالغة]




شریعت کی پہچان میں تمام امت نے بالاتفاق "سلف" (یعنی گذرے ہوئے بزرگوں) پر اعتماد کیا ہے، چناچہ تابعین نے صحابہِ کرام پر اور تبع تابعین نے تابعینؒ پر اعتماد کیا اسی طرح بعد والے علماء اپنے متقدمین(گزشتہ نیک لوگوں) پر اعتبار کرتے آۓ. اور عقلِ سلیم بھی اسی کو اچھا سمجھتی ہے کیونکہ شریعت بغیر نقل اور استنباط کہ معلوم نہیں ہوسکتی اور نقل اس وقت صحیح ہوگی جب بعد والے پہلے والوں سے اتصال (متصل-و-مسلسل) لیتے چلے آئیں.
[عقدالجید:٣٦]




اور (تبع تابعین) صحابہِ کرامؓ اور تابعینؒ کے اقوال سے استدلال کیا کرتے تھے، کیونکہ وہ یہ جانتے تھے کہ یہ اقوال یا تو احادیث ہیں جو منقول ہیں رسول الله صلے الله علیہ وسلم سے جن کو مختصر کرکے موقوف بنالیا ہے، یا یہ اقوال حکمِ منصوص (قرآن و سنّت) سے حضراتِ صحابہؓ و تابعینؒ کے استنباط (نکالے گۓ) ہیں، یا ان کی راویوں سے بطورِ اجتہاد لئے گۓ ہیں، اور حضراتِ صحابہؓ و تابعینؒ ان سب باتوں میں ان لوگوں سے بہتر ہیں جو ان کے بعد ہوتے، صحت تک پہنچنے میں اور زمانہ کے اعتبار پیشتر اور علم کے لحاظ سے بڑھ کر ہیں. اس لئے ان کے اقوال پر عمل کرنا متعین ہوا.
[الانصاف: ٢٠-٢١]




مذاهب اربعہ کے بارے میں حضـرت شـاه صاحب رحمة الله عليه کا حکم وفیصلہ پڑهتے ہیں: ۰
حضرت شاه صاحب رحمة الله عليه نے باب اس عنوان سے قائم کیا ، یعنی مذاهب اربعہ کولینے ان پرعمل کرنے کی تاکید اور مذاهب اربعہ کو چهوڑنے اور ان سے نکلنے کی تشدید کے بیان میں:
پهر حضرت شاه صاحب رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ خوب جان لو کہ ان چاروں مذاهب{ حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، } کواخذ کرنے ( ان کولینے اوران پرعمل کرنے ) میں بڑی عظیم مصلحت ہے ، اوران چارمذاهب سے اعراض کرنے میں یعنی مذاهب اربعہ کو چهوڑنے میں بڑا فساد ہے ، اورهم اس کوکئ وجوهات سے بیان کرتے ہیں :
١) ایک یہ کہ امت نے اجماع واتفاق کرلیا ہے اس بات پرکہ شریعت کے معلوم کرنے میں سلف پراعتماد کریں ، پس تابعین نے (شریعت کی معرفت میں ) صحابه کرام پراعتماد کیا ، اورتبع تابعین نے تابعین پراعتماد کیا ، اوراسی طرح ہرطبقے ( اورہرزمانہ ) میں علماء نے اپنے اگلوں پراعتماد کیا ، اورعقل بهی اس ( طرزعمل ) کی حسن وخوبصورتی پردلالت کرتی ہے ، اس لیئے کہ شریعت کی معرفت وپہچان نہیں ہوسکتی مگرنقل اوراستنباط کے ساتهہ ، اور نقل درست وصحیح نہیں ہوسکتی مگراس طرح کہ هرطبقہ پہلوں ( سلف ) سے اتصال کے ساتهہ اخذ (حاصل ) کرے ، اور استنباط میں ضروری ہے کہ متقدمین ( پہلوں ) کی مذاهب کو پہچانے ، تاکہ ان کے اقوال سے نکل کر خارق اجماع یعنی اجماع کو توڑنے والا نہ ہوجائے ، اوراس پربنیاد رکهے اوراس بارے میں جوپہلے گذر چکے ( یعنی سلف صالحین )ان سے استعانت کرے ،
اس لیئے تمام صناعتیں جیسے صرف ، اورنحو ، اورطب ، اورشعر ، اور لوہاری کا کام ، اوربڑهئ ( فرنیچر کا کام ) ، اورسناری ( وغیره جتنے بهی فنون ہیں ) حاصل نہیں ہوسکتے ، مگران (فنون وامور) کے ماہرلوگوں کی صحبت کولازم پکڑنے سے ، اوربغیر( ماہرلوگوں کی صحبت ) کے ان (فنون وامور) کا حاصل ہوجانا واقع نہیں ہے نادر اوربعید ہے اگرچہ عقلا جائزہے ،
اور جب سلف کے اقوال پر (شریعت کی معرفت میں ) میں اعتماد متعین ہوگیا ، تواب ضروری ہے کہ ان کے وه اقوال جن پراعتماد کیا جاتا ہے وه صحیح سند کے ساتهہ مَروی هوں ، یا کتب مشہوره میں جمع (ومحفوظ ) ہوں ، اورجو محتملات ہیں ان میں راجح کوبیان کردیا جائے ، اورعموم کو بعض مقامات پرخاص کیاجائے ، اوربعض مواضع میں مطلق کومقید کیاجائے ، اورمختلف فیہ میں جمع کیاجائے ، اوراحکام کی علتیں بیان کی جائیں ، ورنہ ( اگر یہ صفات نہ هو ) تواس پراعتماد صحیح نہیں ہے ، اوراس اخیرزمانے میں کوئ مذهب اس صفت کے ساتهہ ( متصف ) نہیں ہے ، سوائے ان مذاهب اربعہ کے ،
ہاں مذهب امامية اور زيدية بهى ہیں لیکن وه اہل بدعت ہیں ان کے اقوال پراعتماد جائزنہیں هے
٢) رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا " اتبعوا السوادالأعظم" سواد اعظم (بڑی جماعت) کی اتباع کرو، اور جب ان مذاہب اربعہ کے علاوہ باقی سچے مذاہب مفقود ہوگئے توان مذاہب کا اتباع سواد اعظم کا اتباع ہے اور ان سے خروج سواد اعظم سے خروج ہے۰
٣) جب زمانہ طویل وبعید ہوگیا ، اورامانات ضائع ہوگئے ، توپهراس حال میں علماء سُوء ( برے علماء ) ظالم قاضیوں میں سےاوراپنے خواہشات کے پیروکار مفتیان کے اقوال پراعتماد جائزنہیں ہے ، یہاں تک کہ وه (علماء سُوء ) اپنے اقوال کو صريحا یا دلالة بعض سلف کی طرف منسوب کریں جوصدق وديانت وامانت کے ساتهہ مشہور ہیں ،اوراسی طرح اس شخص کے قول پربهی اعتماد جائزنہیں ہے جس کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ آیا اس میں اجتہاد کی شرائط جمع تهیں یا نہیں ؟ الخ
{عقدالجيد في أحكام الإجتهاد والتقليد: ص 39-40، الناشر دارالفتح }



No comments:

Post a Comment