امام محمد المھدی الفاسی المالکیؒ(م1109ھ)لکھتے ہیں:
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ(المتوفی: ۷۲۸ھ) کا مؤقف:
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں: ’’أَمَّا نَفْسُ مُحَمَّدٍ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا خَلَقَ اللَّهُ خَلْقًا أَكْرَمَ عَلَيْهِ
مِنْهُ۔ وَأَمَّا نَفْسُ التُّرَابِ فَلَيْسَ هُوَ أَفْضَلَ مِنْ الْكَعْبَةِ
البيت الْحَرَامِ بَلْ الْكَعْبَةُ أَفْضَلُ مِنْهُ وَلَا يُعْرَفُ أَحَدٌ مِنْ
الْعُلَمَاءِ فَضَّلَ تُرَابَ الْقَبْرِ عَلَى الْكَعْبَةِ إلَّا الْقَاضِي
عِيَاضٌ وَلَمْ يَسْبِقْهُ أَحَدٌ إلَيْهِ وَلَا وَافَقَهُ أَحَدٌ عَلَيْهِ۔
وَاَللَّهُ أَعْلَمُ‘‘۔ ’’محمد ﷺکی ذات مبارکہ
تمام مخلوقات میں معززواکرم ہے۔ لیکن آپﷺکے جسداطہرسے
مس مٹی کعبہ اورمسجدالحرام سے افضل نہیں ہےبلکہ کعبہ افضل ہے۔ علماء میں کوئی بھی
ایسا نہیں جس نے قبرکی مٹی کوکعبہ سے افضل قراردیاہوسوائے قاضی عیاض کے، آپ سے
پہلے کسی نےبھی اس بات کوبیان نہیں کیااورناہی کسی نے اس معاملے میں قاضی عیاض کی
موافقت کی ہے‘‘۔ (مجموع الفتاوى: ج۲۷، ص۳۸)
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ کامقام ومرتبہ اوردینی خدمات کے ہم سب
معترف ہیں، خاص طورپرآپؒ نے شیعوں اورتاتاریوں کے خلاف دین کی بہت خدمت کی ہے۔
لیکن ہم سب اس بات سے بھی اچھی طرح باخبرہیں کہ ابن تیمیہؒ نے بہت سے اجماعی مسائل
میں پوری امت مسلمہ سے اختلاف کیاہے جس میں تین طلاقوں کامسئلہ قابل ذکرہے۔
الجواب: ہم یہ نہیں گہیں گے کہ ابن تیمیہؒ کا مؤقف ۱۰۰ فیصدغلط ہے،
کیونکہ انہوں نے اپنے علم کے مطابق بات کی ہے۔ ابن تیمیہؒ کایہ کہناکہ قاضی عیاضؒ
سے پہلے کسی نے یہ بات بیان نہیں کی اوراس معاملے میں کسی نے ان کی موافقت نہیں
کی، ٹھیک نہیں ہےکیونکہ قاضی عیاضؒ سے پہلے ابن عبدالبرالمالكی ؒاورامام ابن عقیل
حنبلی نے بھی بالکل یہی بات بیان کی ہے جن کے حوالے ہم اوپرپیش کرچکے ہیں۔ اورقاضی
عیاضؒ بھی کوئی عام سی شخصیت نہیں ہیں کہ کسی ایک شخص نے کہا ہواور انہوں نے اسے ’’لاخلاف‘‘کے
الفاظ سے بطور اجماع نقل کر دیا ہواورعلماء امت نےبھی اسے اجماع مان لیاہو۔ ہاں
اگر اس مسئلےکے خلاف علماءکےاقوال موجود ہوتے تو ہم یہ کہہ سکتے تھے کہ قاضی عیاضؒ
کو اجماع کے دعویٰ میں غلطی ہوئی ہے لیکن ہمیں ایسا کہیں نظرنہیں آتابلکہ علماء
نےہردورمیں اس مسئلے اوردعویٰ اجماع کومن عن تسلیم کیاہے۔ لہٰذا یہاں یہ تسلیم
کیئے بغیرچارہ ہی نہیں کہ ابن تیمیہؒ سےاس مسئلے کوبیان کرنےمیں غلطی ہوئی ہے۔
’’وَقَدْ ثَبَتَ فِي الصَّحِيحِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: {أَحَبُّ الْبِقَاعِ إلَى اللَّهِ
الْمَسَاجِدُ} فَلَيْسَ فِي الْبِقَاعِ أَفْضَلُ مِنْهَا وَلَيْسَتْ مَسَاكِنُ
الْأَنْبِيَاءِ لَا أَحْيَاءً وَلَا أَمْوَاتًا بِأَفْضَلَ مِنْ الْمَسَاجِدِ۔
هَذَا هُوَ الثَّابِتُ بِنَصِّ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
وَاتِّفَاقِ عُلَمَاءِ أُمَّتِهِ۔ وَمَا ذَكَرَهُ بَعْضُهُمْ مِنْ أَنَّ قُبُورَ
الْأَنْبِيَاءِ وَالصَّالِحِينَ أَفْضَلُ مِنْ الْمَسَاجِدِ وَأَنَّ الدُّعَاءَ
عِنْدَهَا أَفْضَلُ مِنْ الدُّعَاءِ فِي الْمَسَاجِدِ حَتَّى فِي الْمَسْجِدِ
الْحَرَامِ وَالْمَسْجِدِ النَّبَوِيِّ۔ فَقَوْلٌ يُعْلَمُ بُطْلَانُهُ
بِالِاضْطِرَارِ مِنْ دِينِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
وَيُعْلَمُ إجْمَاعُ عُلَمَاءِ الْأُمَّةِ عَلَى بُطْلَانِهِ إجْمَاعًا
ضَرُورِيًّا كَإِجْمَاعِهِمْ عَلَى أَنَّ الِاعْتِكَافَ فِي الْمَسَاجِدِ أَفْضَلُ
مِنْهُ عِنْدَ الْقُبُورِ‘‘۔ ’’اورصحیح حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ نبیﷺنے فرمایا"اﷲ
کو مسجدیں بہت زیادہ محبوب ہیں"توپھرکوئی اورجگہ مسجد سے افضل نہیں ہوسکتی، اوراس
میں انبیاءؑکی جگہیں بھی شامل ہیں اس وقت بھی جب انبیاءؑ دنیامیں موجود تھی اور اب
بھی جب وہ دنیاسے جاچکے ہیں۔ اوریہ بات نص رسولﷺسے ثابت ہے
اورعلماءکے اتفاق سے بھی ثابت ہے۔ جوبعض حضرات نے ذکرکیاہے کہ انبیاءؑاورنیک لوگوں
کی قبریں مسجدوں سے افضل ہوتی ہیں اوران کے پاس دعاکرنامسجدوں میں دعاکرنے سے افضل
ہے، یہاں تک کہ مسجد حرام اورمسجدنبوی میں دعاکرنےسے بھی افضل ہے۔ اگران کی اس بات
کولے لیاجائے تواس سے دین میں بگاڑپیداہوجائےگا، اوران کی اس بات کے باطل ہونے
پرتوعلماءکااجماع ہے کہ مسجدوں میں دعامانگنے سے قبرکے پاس دعامانگلناافضل
ہے۔ اسی طرح علماءکااس بات پربھی اجماع ہے کہ مسجدمیں اعتکاف کرناقبروں کےپاس
اعتکاف کرنے سے افضل ہے‘‘۔ (مجموع الفتاوى: ج۲۷، ص ۲۶۰)
الجواب: یہاں بھی ابن تیمیہؒ نے اصل مسئلے کےمطابق بات نہیں کی کیونکہ
اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ انبیاءؑکی قبروں کومساجد پرافضلیت حاصل ہےیاانبیاءؑکی
قبروں پراعتکاف کرنااوردعائیں مانگنامساجدمیں اعتکاف کرنے اوردعائیں مانگنے سے
زیادہ افضل ہے۔ کیونکہ قبروں پراعتکاف کرنے اوردعائیں مانگنےکے عمل کوتوسب ہی غلط
سمجھتےہیں توپھراس میں افضلیت والی بات کہاں سے آگئی۔ یہاں بات صرف اس مٹی کی
ہےجورسول اﷲﷺکے جسد اطہرسے
مس ہے، جس مٹی سے اﷲتبارک وتعالیٰ نے آپ کوتخلیق دیاہے۔ ہمارے نزدیک جب آپﷺکی ذات مبارکہ
تمام مخلوقات سے افضل ہے توپھروہ مٹی بھی افضل ہوئی جس سے آپﷺکی تخلیق
ہوئی۔
’’أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْرِ الْفَقِيهُ، وَأَحْمَدُ بْنُ
مُحَمَّدٍ الْعَنَزِيُّ، قَالا: ثنا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ،
ثنا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِيُّ، ثنا عَبْدُ الْعَزِيرِ بْنُ
مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ أَبِي يَحْيَى مَوْلَى
الأَسْلَمِيِّينَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ،
قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجِنَازَةٍ
عِنْدَ قَبْرٍ فَقَالَ: "قَبْرُ مَنْ هَذَا؟"، فَقَالُوا: فُلانٌ
الْحَبَشِيُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ سِيقَ
مِنْ أَرْضِهِ وَسَمَائِهِ إِلَى تُرْبَتِهِ الَّتِي مِنْهَا خُلِقَ"۔ هَذَا
حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ‘‘۔ ’’حضرت ابوسعیدخدری رضی اﷲعنہ فرماتے ہیں: نبی
اکرمﷺقبرکے پاس
(رکھی ہوئی) ایک میت کے پاس سے گزرے، آپﷺنےپوچھا،
یہ کس کی قبرہے؟ صحابہ رضی اﷲعنہم نےجواب دیا: یارسول اﷲﷺ! یہ فلاں
حبشی کی قبرہے۔ تورسول اﷲﷺ نے فرمایا:
اﷲکے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اﷲکے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اﷲکی زمین
اورآسمان سے اس کواس مٹی کی طرف بھیج دیاگیاہے، جس سے اس کوپیداکیاگیاہے‘‘۔
(المستدرك على الصحيحين، للحاکم : کتاب الجنائز، ج۱، ص۵۱۶، رقم الحدیث ۱۳۵۶)
دوسری بات یہ کہ اگرنص رسولﷺسے مساجدکامحبوب ہونا ثابت ہےتواس طرح
توپھرنص قرآن سے تمام انسانوں کابہت سی مخلوقات سے افضل ہونا بھی ثابت ہے،
نص رسولﷺسے نبی کریمﷺکاتمام انسانوں
سے افضل ہونا بھی ثابت ہے، نص رسولﷺسے اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مومن مسلمان کی
حرمت وعظمت کعبہ سے زیادہ ہونا بھی ثابت ہے۔
جیساکہ قرآن مجیدمیں ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’وَلَقَدْ كَرَّمْنَا
بَنِيْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰهُمْ مِّنَ
الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰهُمْ عَلٰي كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلً‘‘۔
’’اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو جنگل اور دریا میں سواری دی اور
پاکیزہ روزی عطا کی اوراپنی بہت سی مخلوقات(بڑی مخلوق) پر فضیلت دی‘‘۔ [سورۃ
الاسرا: ۷۰]
’’حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ
جُدْعَانَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ
صلى الله عليه وسلم "أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ
فَخْرَ وَبِيَدِي لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلاَ فَخْرَ وَمَا مِنْ نَبِيٍّ يَوْمَئِذٍ
آدَمُ فَمَنْ سِوَاهُ إِلاَّ تَحْتَ لِوَائِي وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ
عَنْهُ الأَرْضُ وَلاَ فَخْرَ"۔ قَالَ أَبُو عِيسَى وَفِي الْحَدِيثِ
قِصَّةٌ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ۔ وَقَدْ رُوِيَ بِهَذَا الإِسْنَادِ عَنْ أَبِي
نَضْرَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‘‘۔ ’’نبی
کریم ﷺ نے ارشاد
فرمایا: میں تمام
اولاد آدم کا سردار ہوں،لیکن مجھے اس پر فخر نہیں ہے‘‘۔ (جامع الترمذی: کتاب
المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ج۱، رقم الحدیث ۳۶۱۵)
’’أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو
إِسْمَاعِيلُ بْنُ نُجَيْدٍ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ
بْنِ سَوَارٍ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ
عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا شِبْلُ بْنُ عَبَّادٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ،
عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا نَظَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْكَعْبَةَ، فَقَالَ: "مَرْحَبًا بِكِ
مِنْ بَيْتٍ مَا أَعْظَمَكِ، وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ، وَلَلْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ
عِنْدَ اللهِ حُرْمَةً مِنْكِ"‘‘۔ ’’حضرت عبد اللہ بن
عمر رضی اﷲ عنھما فرماتےہیں کہ رسول اﷲﷺ نے خانہ کعبہ کی طرف دیکھ کرفرمایااﷲ تعالیٰ
کے نزدیک مومن کی حرمت وعظمت تجھ سے زیادہ ہے‘‘۔ (شعب الإيمان للبیہقی: ج۵، ص۴۶۵،
رقم الحدیث ۳۷۲۵)
’’وَمَا ذَكَرَهُ بَعْضُهُمْ مِنْ الْإِجْمَاعِ عَلَى تَفْضِيلِ
قَبْرٍ مِنْ الْقُبُورِ عَلَى الْمَسَاجِدِ كُلِّهَا۔ فَقَوْلٌ مُحْدَثٌ فِي
الْإِسْلَامِ؛ لَمْ يُعْرَفْ عَنْ أَحَدٍ مِنْ السَّلَفِ وَلَكِنْ ذَكَرَهُ بَعْضُ
الْمُتَأَخِّرِينَ فَأَخَذَهُ عَنْهُ آخَرُ وَظَنَّهُ إجْمَاعًا؛ لِكَوْنِ
أَجْسَادِ الْأَنْبِيَاءِ أَنْفُسِهَا أَفْضَلَ مِنْ الْمَسَاجِدِ۔ فَقَوْلُهُمْ
يَعُمُّ الْمُؤْمِنِينَ كُلَّهُمْ فَأَبْدَانُهُمْ أَفْضَلُ مَنْ كُلِّ تُرَابٍ
فِي الْأَرْضِ وَلَا يَلْزَمُ مَنْ كَوْنِ أَبْدَانِهِمْ أَفْضَلَ أَنْ تَكُونَ
مَسَاكِنُهُمْ أَحْيَاءً وَأَمْوَاتًا أَفْضَلَ؛ بَلْ قَدْ عُلِمَ بِالِاضْطِرَارِ
مِنْ دِينِهِمْ أَنَّ مَسَاجِدَهُمْ أَفْضَلُ مِنْ مَسَاكِنِهِمْ‘‘۔ ’’بعض لوگوں
نےجوقبروں کومسجدوں پرفضیلت دینے پرجواجماع نقل کیاہے، یہ ایک ایسا قول ہے جواسلام
میں ایجاد کیاگیاہے۔یہ سلف صالحین میں سے کسی سے منقول نہیں ہےلیکن اس کومتاخرین
نے ذکرکردیااوران کے بعدوالے اسے نقل کرتے گئےاوراس طرح اس کوانہوں نے اجماع گمان
کرلیا۔ جولوگ قبرکی مٹی افضل مانتے ہیں ان کی دلیل کے مطابق اگرانبیاءؑکے جسم
مسجدوں سے افضل ہیں توپھروہ جس جگہ موجودرہے ہوں وہ بھی افضل قرارپائے گی اوریہ
ایک ایسا قول ہے جومومنین وغیرہ سب کوشامل ہے کیونکہ بہرحال ہرمومن کاجسم خالی مٹی
سے توافضل ہےلیکن اس سے یہ بات لازم نہیں ہوتی کہ کسی کااگرجسم افضل ہوتواس کامطلب
یہ نہیں کہ وہ جس جگہ موجودہویادنیاسے چلاگیاہووہ جگہ بھی افضل قرارپائےگی بلکہ ان
کے مذہب کی کمزوری سے تویہ نظرآتاہے کہ مساجد ہی بہرحال افضل ہیں‘‘۔(مجموع
الفتاوى: ج۲۷، ص ۲۶۱)
الجواب: ابن تیمیہؒ کی یہ بات بالکل صحیح ہےکہ سلف صالحین سے اس اجماع
کاکوئی ثبوت نہیں ملتاہےلیکن متاخرین کی ایک بڑی جماعت نے اس اجماع کونقل کیاہے
اوربعدوالوں نے اسے قبول کرتے ہوئے اجماع ہی گمان کیاہے۔ اگربعدوالوں نے اس اجماع
کی مخالفت کی ہوتی تب توابن تیمیہؒ کامؤقف بالکل صحیح ہوتالیکن بعدآنے والوں میں
سے ہرطبقہ کے علماءنے اس اجماع کی ہمایت کی ہےاوراس عقیدہ کواپنی کتابوں میں نقل
کرتے ہوئے اس کی مکمل تائیدکی ہے، جوکہ اس عقیدہ کے برحق ہونے کی سب سے بڑی دلیل
ہے۔ کیونکہ یہ پوری امت کسی بھی دورمیں ایک سیکنڈکے لئے بھی گمراہی پرجمع نہیں
ہوسکتی۔
’’حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنِي
مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ، ثنا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ،
عَنْ مَرْزُوقٍ مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ
عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَنْ
تَجْتَمِعَ أُمَّتِي عَلَى الضَّلَالَةِ أَبَدًا، فَعَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ
فَإِنَّ يَدَ اللهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ»‘‘۔ ’’میری امت کبهی
گمراہی پرجمع نہیں ہوگی پس تمہارے لئے جماعت ہے کیونکہ اﷲکاہاتھ جماعت
پرہے‘‘۔ (المعجم الكبير للطبرانی: ج۱۲، ص۴۴۷، رقم الحدیث ۱۳۶۲۳)
اس اجماع کی مثال بالکل اسی طرح ہے جیسے ابن صلاحؒ نے بخاری کی اصح
الکتب بعد کتاب اللہ پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔ یہی اشکال وہاں بھی توکیاجاسکتاہے
لیکن وہاں دعویٰ قبول کیاجاتاہے۔ ہوسکتاہےابن تیمیہؒ نے اپنے زمانے تک ممکن ہے یہ
بات درست کہی ہو لیكن عجیب بات ہے کہ جمہور علماءنے خود ان کی موافقت نہیں کی حتیٰ
کہ ان کے معاصرعلامہ سبکیؒ نے بھی نہیں کی۔ جبکہ قاضی عیاض ؒکے اجماع کے دعویٰ کو
علماء امت نے تواترکے ساتھ قبول کیا ہے اور خود بھی اس اجماع کواپنی کتابوں میں
نقل کیا ہے۔ امام سبکی، امام خفاجی، امام حصفکی، امام سخاوی، ابو عبد اللہ علیش
المالکی، ملا علی القاری، علامہ ابن عابدین، رحمت اللہ سندی مکی، ابن حجر ہیثمی،
شمس رملی، مناوی رحمہم اﷲتعالیٰ اوران جیسے لوگوں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے
یہی بات نقل کی ہے اور ان میں سے بعض نے خود اجماع کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ ایسی صورت
میں یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ابن تیمیہؒ سے اس سلسلے میں اجتہادی خطا ہوئی ہے۔ تیسری،
چوتھی اور پانچویں شقیں اجماع کی موجودگی میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ زیادہ سے
زیادہ یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی اس عقیدہ پر اجماع کے وجود کے انکار کی وجہ
سے یقین نہ رکھے تو وہ گمراہ نہیں ہوگا۔ لیکن یہ نتیجہ کیسے نکل آیا کہ جو یہ
عقیدہ رکھے وہ گمراہ ہو جائے گا؟
اگرچند لمحوں کے لئے ابن تیمیہؒ کے مؤقف کوصحیح تسلیم کرلیاجائے تب
بھی سوال یہ پیداہوتا ہے کہ ابن تیمیہؒ کے اس نظریہ سے کیا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ
جو یہ عقیدہ رکھے گا وہ گمراہ وبدعقیدہ ہوگا اور یہ عقیدہ اللہ تعالیٰ کی توہین
(مکفر) ہے؟ اگرایساہی ہے پھرتوابن تیمیہؒ کوچاہیئے تھاکہ قاضی عیاضؒ اوران جیسے
دیگرمحدثین کوگمراہ وبدعقیدہ قراردیتے۔ کیا ابن تیمیہؒ نے قاضی عیاض ؒاوردیگرائمہ
کرام کوگمراہ وبدعقیدہ قراردیا؟ اگر نہیں تو کیا وجہ ہے کہ علماء دیوبند یہ عقیدہ
رکھنے پر گمراہ وبدعقیدہ قرارپائیں گے؟ اسی کو میں نے یوں پوچھا تھا کہ یہ عقیدہ
کیا ہے؟ کفر؟ فسق؟ یا ناجائز؟
سمير بن خليل المالكی کااشکال:
’’فإن قيل: إن التفضيل ليس للبقعة ذاتها، بل لمن حلَّ فيها، أما هي
فكمثلها من البقاع‘‘۔ ’’اگریہ اعتراض کیاجائے کہ یہاں پرجوقبرکی جگہ ہے اس کوبذاتِ
خودافضلیت حاصل نہیں ہے بلکہ اس وجہ سے حاصل ہے جوخوداس جگہ میں موجودہیں اوریہی
حال ان تمام جگہوں کاہےجواس کے مشابہ ہیں‘‘۔
’’فالجواب: هذا باطل أيضاً، فإن تفضيل الأزمنة والأمكنة والأشخاص لا
يخضع لقياس، بل هو أمر توقيفي، فالله تعالى فضل بعضها على بعض، ففضل رمضان على
سائر الشهور، وفضل الجمعة ويوم عرفة على سائر الأيام، وفضل المساجد الثلاثة على
سائر البقاع، ومنها بيوت الأنبياء ومساكنهم التي يأوون إليها۔ وقد كان النبي صلى
الله عليه وسلم يتحنث في غار حراء، ولم يصيره ذلك أفضل من الكعبة ولا المساجد، لا
في وقت تحنثه فيه ولا بعد ذلك۔ ويلزم من تفضيل القبر على الكرسي والعرش، تفضيل
المخلوق على الخالق، فإن الأول إن كان قد ضمن جسد المصطفى، فالعرش الرحمن عليه
استوى، وصح عن ابن عباس رضي الله عنهما أن الكرسي موضع القدمين‘‘۔ ’’الجواب: کسی
زمانہ کوکسی مکان کواورشخص کوفضیلت بخشنااس میں قیاس کادخل نہیں ہے بلکہ یہ ایک
توقیفی معاملہ ہےجواﷲتعالیٰ ہی کے سپردہے اوراﷲتعالیٰ جس چیزکوجب چاہے فضیلت
دےاورجس چیزکوچاہے نہ دےاس میں قیاس کادخل نہیں ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ
نے بعض کوبعض پرفضیلت دی، رمضان کو تمام مہینوں پرفضیلت دی، جمعہ اوریوم عرفہ
کوبقیہ ایّام پرفضیلت دی، اسی طرح تین مسجدوں کا زمین کے تمام خطوں پرفضیلت دی
اورزمین کے تمام خطوں میں انبیاءؑکے گھربھی شامل ہیں اوران کی قیام گاہیں سب شامل
ہوگئیں جہاں پروہ موجودہیں۔ نبی کریمﷺتوغارحراء میں بھی عبادت کیاکرتے تھے لیکن غارحراءتوکعبہ
سےافضل نہیں ہےاورنہ ہی کسی دوسری مسجد سےاورنہ ہی وہ وقت افضل ہوگاجس میں آپﷺ غارحراءمیں
جاکرعبادت کیاکرتے تھےاورنہ ہی اس کے بعدوالاوقت۔ اگرقبرکوکرسی پراورعرش پرفضیلت
دی جائے توپھراس صورت میں تومخلوق کوخالق پرفضیلت دینا لازم آتاہے۔ کیونکہ اگرنبی
کریمﷺکی قبرکی
مٹی آپﷺکے جسد اطہرسے
مس ہے تواﷲتعالیٰا اپنےعرش پرمستوی ہےاورحضرت ابن عباس رضی اﷲعنہ سے ثابت ہے کہ کرسی
اﷲتعالیٰ کے دوقدموں کی جگہ ہے‘‘۔ (الرد على من فضل قبر النبی على عرش الرحمن)
شیخ سمير بن خليل المالكی کے اشکال کاجواب ابن عقیل حنبلیؒ اورابن
القیم حنبلیؒ نےنہایت خوبصورتی سے دیاہے: ’’قال ابن عقيل: سألني سائل أيما
أفضل حجرة النبي أم الكعبة؟ فقلت: إن أردت مجرد الحجرة فالكعبة
أفضل، وإن أردت وهو فيها فلا والله ولا العرش وحملته ولا جنه عدن ولا الأفلاك
الدائرة لأن بالحجرة جسدا لو وزن بالكونين لرجح‘‘۔ ’’ابن عقیل حنبلی نے کہا
کہ سائل نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حجرہ افضل ہے یا کعبہ؟ جواب
دیا اگر تمہارا ارادہ خالی حجرہ ہے تو تو پھر کعبہ افضل ہےاور اگر تمہاری
مراد وہ ہے جو اس میں ہے [یعنی روضۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم جہاں پر مدفون ہیں]
تو پھر اللہ کی قسم نہ عرش افضل ہے نہ اس کے تھامنے والے فرشتے نہ جنت عدن اور نہ
ہی پوری دنیا۔ اگر حجرے کا وزن جسد کے ساتھ کیا جائے تو وہ تمام کائنات اور جو
کچھ اس میں ہے اس سے بھی افضل ہوگا‘‘۔ (بدائع الفوائد :ج۳، ص۶۵۵)
اس عبارت سے یہ بات صراحت سے ثابت ہے کہ اگر خالی حجرہ کی بات کی جائے
تو پھر کعبہ افضل ہے لیکن اگر جسدِ اطہر کے ساتھ بات کی جائے تو پھر قبرکی مٹی
افضل ہے، کیونکہ نبی کریمﷺ کونین سے
افضل ہیں۔ جن حضرات نے اس موضوع پر لکھا ہے انہوں نے بھی نبی کریمﷺ کی فضیلت
کی بات کی ہے نہ کہ صرف قبر مبارک کی۔ حالانکہ ان علماء کی مراد صرف مٹی کامس
ہوناہرگز نہیں ہےبلکہ قبر کا وہ حصہ بمعہ جسدِ اطہر مراد ہے۔ اسی لئے امام سخاویؒ
نے آخر میں اس بات کی وضاحت فرمادی کہ انبیاءؑ کی جگہیں اورارواح زمین وآسمان
سے افضل ہیں۔ ابن عقیلؒ اور امام بہوتی حنبلیؒ نے حجرہ اور کعبہ میں تقابل کیا ہے
اور یہ تقابل انہوں نے وزنا ًکیا ہے۔
یہی بات ابن عقیلؒ نے بھی کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ تو ہر ذی شعورجانتا
ہے کہ نبی اکرم ﷺ افضل المخلوقات
ہیں اور کعبہ کے مقابلے میں آپ زیادہ افضل ہیں۔ آپ کے صرف جسد ِاطہرکو وزن کیا جائے
تو کعبہ سے افضل ہوگا۔ تو جسد ِاطہرسمیت حجرہ کا افضل ہونا تو ظاہر سی بات ہے۔ تو
جب یہ ایک عام بات ہے تو اسے ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ابن عقیلؒ اور امام بہوتی ؒنے بھی تمام علماء کی
طرح تقابل حجرہ اور کعبہ میں ہی کیا ہے اور نبی ﷺ کی موجودگی
کا ذکر کر کے آپ سے حجرہ کا تعلق ذکر کیا ہے۔ یعنی اگر نبیﷺ کو ہٹا دیا
جائے تو کعبہ افضل ہے اور اگر نبی ﷺ موجود ہوں تو حجرہ افضل ہے۔ کیوں افضل ہے؟
آپ کے اس میں حلول یا وجود کی وجہ سے۔ اسی بات کو دیگرعلماء نے یوں کہا ہے: وہ قبر
افضل ہے جو ملی ہوئی ہے آپ کے اعضاء سے۔یہاں بھی آپ سمیت فضیلت نہیں دی جا رہی
بلکہ آپ کی موجودگی میں فضیلت دی جا رہی ہے۔ فرق دونوں میں باریک سا ہے۔ اور اگر
بالفرض کوئی بضد ہی ہو کہ نہیں ابن عقیلؒ نے نبی ﷺ سمیت وزن
کی ہی بات کی ہے تو پھر میں یہ کہوں گا کہ ابن عقیلؒ نے بات کی بھی مکمل حجرہ کی ہے
اور ہماری بات قبر، بقعہ، تراب کے بارے میں چل رہی ہے اور دونوں میں عموم و خصوص
مطلق کی نسبت ہے۔ لہٰذا موضوع مختلف ہونے سے اس بات کو زیادہ سے زیادہ باہر نکالا
جا سکتا ہے اور کچھ نہیں۔
روضہٴ رسول ﷺ - کتاب وسنت کی روشنی میں
یقینا مکان کی شہرت و شرافت ، خاصیات و خصوصیات اور عظمت و عقیدت کا دارومدار صاحب مکان پر موقوف ہوتی ہے، مسجد اس لیے احب البِقاء اور قابل احترام ہے کہ وہ خانہ خدا اور مرکز ذکر الٰہی ہے، مئے خانہ اس لیے برا ہے کہ وہ برائیوں کا اڈہ ہے، کیا خانہ کعبہ کا تقابل کسی اور خانہ خدا سے کیا جاسکتا ہے؟ نہیں، کیونکہ وہ صرف خانہ نہیں بلکہ تجلی ربانی کا مرکز ہے، وہ صرف ایک گھر نہیں بلکہ پہلی عبادت گاہ ہے، وہ صرف مرکز اسلام ہی نہیں بلکہ مرکز نزول وحی بھی ہے۔
مدینہ منورہ کی حیثیت ہجرت گاہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بننے سے پہلے ایک زرعتی شہر سے زیادہ نہیں تھی اور ہجرت گاہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم بننے کے بعد اس کی عظمت وعزت میں چار چاند لگ گئے، اس شہر کو پہلے یثرب کہا جاتا تھا، لیکن جب اسے قیام گاہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے طور پر چن لیا گیا تو اس کا نام ”مدینہ“ پڑگیااورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نورانیت سے ”منورہ“ بن گیا، اور پھر آنجناب کی توجہات کی وجہ سے مدینہ کی مختلف فضیلتیں امت کے سامنے آئیں، مدینہ کے ساتھ الرسول لگایا جائے تو الگ فضیلت، الطیبہ بڑھایا جائے تو الگ فضیلت، دارالہجرة کہا جائے تو مستقل فضیلت، حرم رسول اللہ کہا جائے تو الگ فضیلت بلکہ شرف و سعادت کی ایک مستند ترین بات یہ ہے کہ اللہ نے مدینہ کا نام طابہ اور طیبہ رکھا، کہتے ہیں کہ کثرت اسماء، کثرت شرافت کو لازم کرتی ہے، صاحب وفاء الوفاء نے مدینہ کے ۹۶ نام شمار کیے ہیں۔
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو وہاں کی آب و ہوا صحت بخش ہوگئی، وہاں کی سکونت دنیا و عقبیٰ کی بھلائی کا سبب بن گئی، وہاں کی تکلیف و مصیبت پر صبر کرنا، شفاعت نبی کا ذریعہ بن گیا، وہاں کے پھل، سبزی اور اشیاء خوردونوش حتی کہ صاع و مد میں برکت ہونے لگی، وہاں طاعون اور دجال کا داخلہ ممنوع ہوگیا، اہل مدینہ کے ساتھ مکرو فریب کرنے والے کو نمک کی طرح پگھلنے کی وعید سنائی گئی، وہاں جینے مرنے کے فضائل بیان کیے گئے ، اس شہر مدینہ کے میوہ جات میں ہی نہیں، بلکہ شہر پاک کی خاک پاک میں تاثیرِ شفا ودیعت کردی گئی، وہاں کے باشندوں کے ساتھ تکریم و تعظیم کی وصیت کی گئی اور اخیر میں تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان کردیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو بزرگی دی اور اس کو حرام قرار دیا، اور میں نے مدینہ کو بزرگی دی ہے، اور مدینہ کے دونوں کناروں کے درمیان کی بزرگی کا تقاضہ یہ ہے کہ نہ تو اس میں خونریزی کی جائے، نہ وہاں جنگ کے لیے ہتھیار اٹھایا جائے اور نہ اس کے درخت کے پتے جھاڑے جائیں(مسلم باب فضل المدینہ: ۱۳۷۴)
اگرچہ حرم مکہ اور حرم مدینہ کے درمیان فقہی اعتبار سے فرق ہے، لیکن تعظیم و تکریم اور عزت و شرف کے اعتبار سے مکہ اور مدینہ کا حرمین شریفین ہونا متفق علیہ بات ہے، پھر مدینے کو نبوی قیامگاہ ہونے کی وجہ سے جس طرح غلبہ حاصل ہوا اور جس طرح انصار مدینہ اور مہاجرین نے مشرق سے مغرب تک پورے عالم کو اپنے زیر اثر کیا، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، بلکہ یہ اس حدیث کی کھلی تفسیر تھی جس میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا: مجھے ایک ایسی بستی کی طرف ہجرت کا حکم دیا گیا ہے، جو تمام بستیوں پر غالب رہے گی۔ (بخاری باب فضل المدینہ: ۱۸۷۱)
بہرحال اس طویل تفصیل کے بعد ایک اہم سوال یہ ہوتا ہے کہ آخر وہ یثرب، مدینہ منورہ کیوں بنا، وہاں کی خاک، حضور کی آمد کے بعد خاک پاک کیوں بنی اور اس خاک پاک کی عزت و آبرو میں ایسا اضافہ کیوں ہوا کہ
خورشید بھی گیا تو ادھر سر کے بل گیا
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے بھی وہاں لوگ جیتے اور مرتے تھے؛ لیکن سرکار دو عالم کی آمد کے بعد وہاں کا جینا عبادت اور وہاں کا مرنا عبادت کیوں بنا، وہاں کے ذرات آفتاب و ماہتاب کیوں بنے، لوگوں نے وہاں کی خاک کوسرمہٴ چشم بنانے میں فخر کیوں محسوس کیا؟ الغرض اس طرح کے جتنے سوالات ہوسکتے ہیں، ان کا ایک ہی جواب ہے اور اس جواب کے سوا، اور کوئی جواب ہوبھی نہیں سکتا، وہ یہ کہ اب وہ صرف یثرب نہیں بلکہ مدینة الرسول بن گیا، اس رسول کا شہر بن گیا جس کے لیے پوری کائنات بنائی اور سجائی گئی، جس پر خود خالق کائنات اور معصوم فرشتے درود وسلام بھیجتے ہیں، وہ اس رسول کا شہر بن گیا جس کے سامنے حضرت جبرئیل علیہ السلام بھی باادب بیٹھتے ہیں، وہ اس رسول کا شہر بن گیا جس کو حالت بیداری میں دیدار الٰہی کا شرف حاصل ہوا، وہ اس رسول کا شہر بن گیا جو صرف نبی نہیں بلکہ خاتم النّبیین ہونے کے ساتھ رحمة للعالمین بھی ہے، وہ اس رسول کا شہر بن گیا جس کی شان والا تبار میں گستاخی موجبِ کفر ہونے کے ساتھ ساتھ موجبِ قتل بھی ہے، اور جس کی اطاعت کے بغیر خدا کی اطاعت بے کار ہے، وہ اس رسول کا شہر بن گیا جن کے بارے میں ایک شاعر نے حقیقت پسندانہ شعر کہنے کی کوشش کی ہے۔#
رُخِ مصطفی ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا کوئی آئینہ
نہ ہماری بزم خیال میں ہے اور نہ دکان آئینہ ساز میں
اختصار کی کوشش کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ صرف اس لیے ہوا کہ وہاں سرکار دوعالم، فخر موجودات، محسن کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس نے مستقل سکونت اختیار کرلی، جس کی ایک ادنی صحبت بھی ہزار سالوں کی عبادت سے افضل ہے، ایک واقعہ پڑھیے، جو سیرت کا مشہور واقعہ ہے، غزوہ حنین میں مسلمانوں کو بہت زیادہ مال غنیمت ہاتھ آیا تھا، جس کے حقدار انصار مدینہ بھی تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تالیفِ قلب کی مصلحت کے پیشِ نظر سارا مال قبائلِ قریش میں تقسیم فرما دیا، انصار مدینہ پر اس کابڑا گہرا اثر ہوااور دل میں ایسی کبیدگی پیدا ہوگئی کہ کچھ لوگوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ رسول اللہ اپنی قوم سے مل گئے، جب حضور کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے درد انگیز تقریر فرمائی اور ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا:
ألَا ترضون یا معشر الأنصار أن یذہب الناس بالشاة والبعیر و ترجعون برسول اللّٰہ إلی رحالکم فوالذي نفس محمد بیدہ لما تنقلبون بہ خیر مما ینقلبون بہ․ (زادالمعاد: ۳/۴۱۶)
ترجمہ: اے جماعت انصار! کیا تم اس پر راضی نہیں ہوسکتے کہ لوگ اونٹ اور بکریاں لے کرجائیں اور تم رسول اللہ کو اپنے یہاں لے جاؤ، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے، یقینا تم جو لے کر جاؤ گے وہ اس سے ہزار درجے بہتر ہے، جسے وہ لوگ لے کر جائیں گے۔
غور کریں، انصار مدینہ کو خوش کرنے کے لیے مال و زر بھی دیا جاسکتا تھا اور وہ اسی کے متمنی تھے کیونکہ وہ اس کے حقدار تھے؛ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ایسی بے نظیر ، لاثانی اور روحانی و نورانی ذات تھی کہ آپ نے انہیں ”رسول اللہ“ ہی عنایت فرما دیا، انصار مدینہ کے تو نصیب ہی چمک اٹھے، ان کے نصیبہ ور ہونے میں کیا کوئی کلام بھی ہوسکتا ہے، سچ ہے ہر چیز میں خیر کا پہلو بھی ہوتا ہے، انصار کی یہ ناراضگی و کبیدگی کتنی سودمند ثابت ہوئی، کوئی انصار سے ہی پوچھے، اور یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے آپ کو محمد نہ کہنا بلکہ رسول اللہ کہنا ایک ایسی لطیف تعبیر ہے جسے اہل دل ہی سمجھ سکتے ہیں، روایتوں میں آتا ہے، انصار مدینہ یہ سن کر اتنا روئے کہ ان کی ڈاڑھیاں تر ہوگئیں اور سب نے بیک زبان کہا کہ ہم دل و جان سے اس سودے پر راضی ہیں، اب ہمیں کچھ نہیں چاہیے کیونکہ ہمیں لازوال دولت مل گئی۔
رضینا برسول اللّٰہ ﷺ قسما وحظا (زاد المعاد: ۳/۴۱۶)
آپ علیہ السلام اپنی زندگی میں جس طرح تمام مسلمانوں کے لیے محبت و احترام کا قبلہ و کعبہ تھے اپنی وفات کے بعد بھی آپ کا روضہٴ اقدس دنیا کے تمام مسلمانوں کے لیے محبت و احترام کا قبلہ و کعبہ ہے، یہ ہمارے ایمان کا اٹوٹ حصہ ہے۔
روضہٴ رسول کا مقام
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی قبر میں، بلکہ جملہ انبیاء کرام کا اپنی قبروں میں زندہ ہونا، جمہورِ امت کے متفقہ مسائل میں سے ہے اگرچہ حیات کی نوعیت میں فرق ہے ، اس لیے مدینہ منورہ کی سرزمین کا وہ حصہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد اطہر اور اعضاء مبارکہ سے مس کررہا ہے، وہ پورے روئے زمین میں افضل ترین حصہ ہے، بلکہ قاضی عیاض مالکی نے اس پر اجماع نقل کیاہے کہ یہ حصہ کعبہ سے بھی افضل ہے۔
روضہٴ رسول کی زیارت کے فضائل
(۱) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی۔
تشریح: شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں: اس خصوصیت کی کوئی خاص وجہ ہے، کیونکہ جہاں تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا تعلق ہے اس نعمت سے ہر مسلمان کو نوازا جائے گا، اور آپ کی یہ کرم فرمائی اور مومن نوازی جملہ مسلمانوں کے لیے عام ہے، لیکن یہاں پر شفاعت سے مراد خاص شفاعت ہے جو درجہ خاص کے حصول کا ذریعہ ہوگی، ان کے علاوہ غیر زائرین کا اپنے زیادتی اعمال اور کثرتِ فضائل کے باوجود اس درجہ پر پہنچنا میسر نہ ہوگا۔
آگے لکھتے ہیں:
اس کے علاوہ زائر کے لیے یہ بشارت بھی ہے کہ وہ دینِ اسلام پر مرے گا، یہ بھی سیّدِانام علیہ الصلوٰة والسلام کی برکت کے طفیل ہوگا، وہ اس طرح کہ شفاعت کے لیے دین اسلام پر مرنا ضروری ہے۔ (جذب القلوب الی دیار المحبوب: ۲۵۸)
مولانا ظفر احمد تھانوی لکھتے ہیں: زائر کے لیے شفاعت کی جو بشارت ہے کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی فضیلت ہوسکتی ہے۔
و أيُّ فضیلة أعلیٰ و أسنی من وجوب شفاعتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لمن زارہ (اعلاء السنن:۲:۱۰ ص: ۴۹۸)
(۲) حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے حج کیا اور اس کے بعد میری قبر کی زیارت کی میری وفات کے بعد تو وہ (زیارت کی سعادت حاصل کرنے میں ) انہیں لوگوں کی طرح ہے جنہوں نے میری حیات میں میری زیارت کی (شعب الایمان: فضل الحج والعمرة: ۳۸۵۷)
مولانا منظور نعمانی اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی قبر مبارک میں بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام کا اپنی منور قبور میں زندہ ہونا جمہورِ امت کے مسلّمات میں سے ہے، اگرچہ حیات کی نوعیت میں اختلاف ہے، اور روایات اور خواص امت کے تجربات سے یہ بھی ثابت ہے کہ جو امتی قبر پر حاضر ہوکر سلام عرض کرتے ہیں، آپ ان کا سلام سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں، ایسی صورت میں بعد وفات آپ کی قبر پر حاضر ہونا اور سلام عرض کرنا ایک طرح سے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے اور بالمشافہ سلام کا شرف حاصل کرنے ہی کی ایک صورت ہے اور بلاشبہ ایسی سعادت ہے کہ اہل ایمان ہر قیمت پر اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں “(معارف الحدیث: ۴/۴۵۸)
(۳) جس شخص نے مکہ کا قصد کیا اور پھر میری زیارت اور میری مسجد میں شرف حاضری کے حصول کا قصد کیا تو اس کے دو مقبول حج لکھے جاتے ہیں (جذب القلوب: ۲۶۱)
روضہٴ اقدس کی زیارت کے فضائل کے سلسلہ میں یہ تین روایتیں بطور نمونہ کے لکھی گئی ہیں، تفصیل کے لیے شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی جذب القلوب کا مطالعہ کریں، جس میں انہوں نے اختصار کے ساتھ تیرہ روایات کو جمع کیا ہے، اگرچہ بعض روایات پر کلام بھی کیا گیا ہے، جن کے بارے میں مولانا منظور نعمانی صاحب کا تبصرہ ایک وقیع تبصرہ ہے، لکھتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کے جن منافع اور برکات و مصالح کا اوپر ذکر کیاگیا ہے، اگر اس کو پیش نظر رکھ کے ان احادیث پر غور کیا جائے جو اس زیارت کی ترغیب میں مروی ہیں تو خواہ سند کے لحاظ سے ان پر کلام کیا جاسکے لیکن معنوی لحاظ سے وہ دین کے پورے فکری اور عملی نظام کے ساتھ بالکل مرتبط اور ہم آہنگ نظر آئیں گی اور ذہنِ سلیم اس پر مطمئن ہوجائے گا کہ قبر مبارک کی یہ زیارت، صاحبِ قبر کی ذاتِ اقدس کے ساتھ ایمانی تعلق اور محبت و توقیر میں اضافہ اور دینی ترقی کا خاص وسیلہ ہے، یقین ہے کہ ہر خوش نصیب، صاحبِ ایمان بندہ جسے اللہ تعالیٰ نے زیارت کی سعادت سے بہرہ ور فرمایا ہے اس کی شہادت دے سکے گا۔
( معارف الحدیث: ج: ۴ ص: ۴۵۹)
روضہٴ رسول کی زیارت کا حکم
الأنبیاء أحیاء في قبورہم (مسند أبي یعلی: ۳۴۲۵)
انبیاء چونکہ اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں، موت ان کے لیے مُزِیلِ حیات نہیں ہوتی؛ بلکہ ساتر ِحیات ہوتی ہے، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی قبر اطہر میں باحیات ہیں؛اس لیے زیارت قبر اطہر کے فضائل بیان کیے گئے ہیں، انہیں روایات کے پیش نظر احناف کے یہاں زیارت روضہ اقدس کا حکم قریب بہ واجب ہے، جمہور کے نزدیک مستحب ہے اور بعض مالکیہ اور بعض ظاہریہ کے نزدیک واجب ہے اور ابن تیمیہ زیارت قبر اطہر کو غیر مشروع کہتے ہیں۔
و قد اختلف فیہا أقوال أہل العلم، فذہب الجمہور إلی أنہا مندوبة وذہب بعض المالکیة وبعض الظاہریة إلی أنہا واجبة وقالت الحنیفة: إنہا قریبة من الواجبات، و ذہب ابن تیمیة الحنبلي، إلی أنہا غیر مشروعة (حاشیة إعلاء السنن: ۱۰/۴۹۹)
ملا علی قاری نے شرح الشفاء میں قاضی عیاض مالکی کے حوالے سے لکھا ہے:
زیارة قبرہ علیہ السلام سنة من سنن المسلمین مجمع علیہا أي مجتمع علی کونہا سنة و فضیلة مرغب فیہا․
یعنی قبر اطہر کی زیارت مسلمانوں کی متفق علیہ سنت ہے اور اس کی ایسی فضیلت ہے جس کی رغبت ہر مسلمان کو کرنی چاہیے (شرح الشفاء: ۲/۱۵۰)
لہٰذا ہر صاحب استطاعت شخص کی یہ خواہش ہونی چاہیے کہ اسے جب بھی موقع ملے گا وہ روضہٴ اقدس کی زیارت کرے گا اور جو لوگ حج کرنے جاتے ہیں، انہیں روضہٴ اقدس کی زیارت بھی کرنی چاہیے، اگرچہ روضہٴ اقدس کی زیارت حج کا کوئی رکن یا جز نہیں ہے؛ لیکن شروع سے امت کا یہ تعامل چلا آرہا ہے کہ خاص کر دور دراز علاقوں کے مسلمان جب حج کو جاتے ہیں تو روضہ پاک کی زیارت اور وہاں درود و سلام کی سعادت ضرور حاصل کرتے ہیں اور کسی سے اس کا انکار منقول نہیں ہے، تو یہ اجماع کے درجہ میں ہے، اعلاء السنن کے حاشیہ میں ہے:
لم یزل دأب المسلمین القاصدین للحج في جمیع الأزمان علی تباین الدیار و اختلاف المذاہب، الوصول الی المدینة المشرفة لقصد زیارتہ صلی اللہ علیہ وسلم ویُعَدُّ أنَّ ذلک من أفضل الأعمال، و لم ینقل أن أحدا أنکر علیہم ذلک فکان إجماعاً (إعلاء السنن: ۱۰/۴۹۹)
اور جن لوگوں نے زیارت قبر اطہر کو ممنوع ومکروہ لکھا ہے ان کے بارے میں ملا علی قاری لکھتے ہیں کہ
الأحادیث فی ہذا الباب کثیرة، وفضائل الزیارة شہیرة، و من أنکرہا؛ إنما أنکر ما فیہا من بدع نکیرة غالبہا کبیرة․
یعنی باب زیارت کی روایات بہت زیادہ ہیں، اس کے فضائل مشہور ہیں اور جس نے بھی اس کا انکار کیا ہے حقیقت میں اس نے ان بدعات و منکرات کا انکار کیا ہے، جن میں سے اکثر گناہ کبیرہ تک پہنچ جاتے ہیں (مرقاة المفاتیح، رقم الحدیث: ۲۷۵۶، باب حرم المدینہ)
البتہ حاجیوں کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ پہلے حج مکمل کرلیں پھر زیارت کے لیے مدینہ منوّرہ جائیں، کیونکہ حج فرض ہے اور زیارت روضہ اقدس قریب بہ واجب ہے اور حق اللہ کی تقدیم مناسب بات ہے، البتہ حضرت حسن نے امام ابوحنیفہ سے بڑی اچھی بات نقل کی ہے کہ اگر حج فرض ہو تو حاجی کے لیے بہتر یہ ہے کہ پہلے حج کرے پھر زیارت کرے، اگرچہ زیارت کی تقدیم میں کوئی گناہ نہیں، وہ بھی جائز ہے، اور اگر حج نفل ہو تو اسے اختیار ہے، جس سے چاہے آغاز کرے (دیکھیے: فتح القدیر: ۳/۱۷۹ کتاب الحج)
روضہٴ اقدس کی زیارت کے لیے سفر کا شرعی حکم
ابن تیمیہ رحمہ اللہ قبر اطہر کی زیارت کے لیے سفر کو ناجائز کہتے ہیں وہ فرماتے ہیں: کہ مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے کی نیت سے سفر کرے پھر روضہ اقدس کی زیارت کرے، مستقل طور سے روضہٴ اقدس کی نیت سے سفر نہ کرے؛ لیکن جمہور امت کے نزدیک قبر اطہر کی زیارت کے لیے سفر کرنا نہ صرف جائز ہے؛بلکہ اہم عبادتوں میں سے ہے اور بڑا کارثواب ہے؛ کیونکہ روضہٴ اقدس کی زیارت کی فضیلت کے بارے میں روایات بہ کثرت وارد ہیں، دوسری بات یہ کہ پوری امت کا یہ تعامل چلا آرہا ہے کہ ہر حاجی مکہ کا ایک لاکھ نمازوں کا ثواب چھوڑ کر چار سو میل طویل سفر کرکے مدینہ جاتا ہے، ظاہر ہے کہ حجاج صرف مسجد نبوی کی زیارت کے لیے نہیں جاتے؛بلکہ ان کا مقصود روضہ اقدس پر حاضری ہوتی ہے اور تعامل ایک مستقل دلیل ہے، چنانچہ ابن ہمام لکھتے ہیں۔
والأولی فیما یقع عند العبد الضیعف تجرید النیة لزیارة قبر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلّم و یوافق ظاہر ما ذکرناہ من قولہ علیہ الصلوٰة والسلام، لا تعملہ حاجة الا زیارتی
یعنی میرے نزدیک بہتر یہ ہے کہ خالص زیارت کی نیت کرے؛کیونکہ حدیث لا تعملہ حاجة الا زیارتی (کہ میری زیارت کے سوا کوئی حاجت اس کو نہ لائی ہو) کے ظاہر کے موافق ہے (فتح القدیر: ۳/۱۸۰)
اور شیخ الحدیث مولانا خلیل احمد سہارنپوری نے یہی علماء دیوبند کا مسلک نقل کیا ہے:
عندنا و عند مشائخنا زیارة قبر سید المرسلین (روحی فداہ) من أعظم القربات و أہم المثوبات و أنجح لنیل الدرجات بل قریبة من الواجبات، وإن کان حصولہ بشدّ الرحال و بذل المہج و الأموال و ینوی وقت الارتحال زیارة علیہ الف الف تحیة و سلام و ینوی معہا زیارة مسجدہ صلی اللہ علیہ وسلم
یعنی ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک زیارت قبر سید المرسلین (ہماری جان آپ پر قربان) اعلیٰ درجہ کی قربت اور نہایت ثواب اور سبب حصول درجات ہے؛بلکہ واجب کے قریب ہے، گو شدِّ رحال اور بذل جان و مال سے نصیب ہو اور سفر کے وقت آپ کی زیارت کی نیت کرے اور ساتھ میں مسجد نبوی وغیرہ کی نیت کرے۔ (المہند علی المفند: ۲۷)
روضہٴ اقدس پر دعاء مغفرت کی درخواست
چونکہ سرکار دو عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر اطہر میں باحیات ہیں؛اس لیے جیسے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ان سے دعاء مغفرت کی درخواست کرنا، سفارش کی درخواست کرنا اور استمداد جائز تھا، ویسے دنیا سے رخصت فرما جانے کے بعد بھی روضہ اقدس پر حاضر ہوکر درخواست کرنا جائز ہے؛ لہٰذا روضہٴ اقدس پر حاضری دینے والے یہ درخواست کرسکتے ہیں کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم سراپا گنہگار ہیں آپ بارگاہ خداوندی میں ہماری مغفرت کے لیے دعا فرما دیں۔مفتی شفیع صاحب عثمانی نے آیت: و لو انہم اذ ظلموا انفسہم جاء وک فاستغفروا اللّٰہ واستغفر لہم الرسول لوجدوا اللّٰہ توّابا رحیما (النساء: ۶۴)کے ذریعہ اس مسئلہ کے جواز پر استدلال کیا ہے ۔
وہ لکھتے ہیں:
”یہ آیت اگرچہ خاص واقعہ منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ہے؛ لیکن اس کے الفاظ سے ایک عام ضابطہ نکل آیا کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوجائے اور آپ اس کے لیے دعائے مغفرت کردیں، اس کی مغفرت ضرور ہوجائے گی، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری جیسے آپ کی دنیوی حیات کے زمانہ میں ہوسکتی تھی اسی طرح آج بھی روضہٴ اقدس پر حاضری اسی حکم میں ہے“ (معارف القرآن: ۲/۴۵۹)
اسی سلسلہ کا ایک واقعہ پڑھیے: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کرکے فارغ ہوئے تو اس کے تین روز بعد ایک گاؤں والا آیا اور قبر شریف کے پاس آکر گرگیا،اور زار زار روتے ہوئے آیت : ولو انہم اذ ظلموا انفسہم الخ کا حوالہ دے کر عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں وعدہ فرمایا ہے کہ اگر گنہگار، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوجائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے دعائے مغفرت کردیں تو اس کی مغفرت ہوجائے گی، اس لیے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں، کہ آپ میرے لیے مغفرت کی دعا کریں، اس وقت جو لوگ حاضر تھے، ان کا بیان ہے کہ اس کے جواب میں روضہٴ اقدس کے اندر سے آواز آئی: ”قد غفرلک“ یعنی تیری مغفرت کردی گئی (البحر المحیط فی التفسیر: ۳/۶۹۴)
مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”مگر انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کے سماع میں کسی کو خلاف (اختلاف) نہیں، اسی وجہ سے ان کو مستثنیٰ کیا ہے اور دلیل جواز یہ ہے کہ فقہاء نے بعد سلام کے وقت ِزیارت قبر مبارک کے شفاعت مغفرت کا عرض کرنا لکھا ہے؛ پس یہ جواز کے واسطے کافی ہے“ (فتاویٰ رشیدیہ: ۱۳۴، ادارہ اسلامیات لاہور)
روضہٴ اقدس پر درود و سلام
حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو کوئی بھی مجھ پر سلام بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ میری روح مجھ پر واپس کردیتے ہیں، یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دے دیتا ہوں (ابوداؤد، رقم الحدیث: ۲۰۴۱، باب زیارة القبور)
اس روایت میں اگرچہ روضہٴ اقدس کی قید نہیں ہے؛لیکن سنن ابوداؤد کے مصنف نے یہ روایت باب زیارة القبور کے تحت ذکر کی ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہاں حضور پر سلام سے مراد زیارت روضہ اقدس کے وقت سلام کرنا ہے؛ چنانچہ اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے، جو شعب الایمان میں نقل کی گئی ہے، اس کے الفاظ ہیں:
ما من عبد یسلّم علی عند قبري (شعب الإیمان: ۳۸۵۹، باب فضل الحج والعمرة)
اور درود کے سلسلہ میں روایات بھی بکثرت وارد ہیں، دیکھیے: (القول البدیع فی الصلوٰة علی الحبیب الشفیع)
بہرحال اللہ نے ایسا نظام بنایا ہے کہ آپ روضہٴ اقدس کے پاس سلام کریں تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں اور اس کے سلام کا جواب و علیک السلام کے ذریعہ دیتے ہیں، گویا ایک اعتبار سے روضہٴ اقدس پر سلام کرنے سے ہم کلامی کاشرف حاصل ہوتاہے، اگر یہ نعمت ساری دنیا بلکہ اس دنیا جیسی چار پانچ دنیا خرچ کرکے بھی حاصل ہو تو ایک امتی کے حق میں ارزاں اور سستی ہے۔
حضرت شاہ صاحب کا مشاہدہ
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی( م: ۱۱۷۶ھ) قدس سرہ نے اپنی کتاب حجة اللہ البالغہ میں مذکورہ حدیث کے تحت گفتگو کی ہے، خلاصہ درج ذیل ہے:
”روح پاک جو مشاہدہ حق میں مشغول ہے اور جس کا کسی طرف التفاف باقی نہیں رہا، باذن الٰہی وہ سلام پیش کرنے والے کی طرف ملتفت ہوتی ہے اور جواب دیتی ہے، یعنی روح پاک سے سلام کرنے والے کو فیض پہنچتا ہے، شاہ صاحب فرماتے ہیں: میں نے ۱۱۴۴ھ میں جب میرا قیام مدینہ منورہ میں تھا، اس بات کا بار بار مشاہدہ کیا ہے یعنی روح نبوی سے فیض پایا ہے (رحمة اللہ الواسعہ: ۴/۳۴۵)
علامہ سخاوی نے اپنی مایہ ناز کتاب: القول البدیع میں روضہٴ اقدس پر کئے جانے والے سلام کے تعلق سے کئی واقعات نقل کیے ہیں، چند ملاحظہ فرمائیں:
سلیمان ابن سحیمسے منقول ہے کہ میں نے خواب میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی، میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول جو لوگ آپ کے روضے پر حاضر ہوتے ہیں اور آپ پر سلام کرتے ہیں، آپ اس کو سمجھتے ہیں؟ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں سمجھتا ہوں، اور ان کے سلام کا جواب بھی دیتا ہوں۔
ابراہیم بن شیبان کہتے ہیں کہ میں نے حج کیا پھر فراغت کے بعد مدینہ آیا، اور روضہٴ اقدس پر حاضر ہوکر سلام کیا، تو میں نے حجرہٴ شریف کے اندر سے ”وعلیک السلام“ کی آواز سنی (القول البدیع فی الصلوٰة علی الحبیب الشفیع: ۱/۱۶۵، مکتبہ شاملہ)
حضرت رفاعی کا ایک واقعہ
سید احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ جو حضرت غوث پاک کے معاصر ہیں، انہوں نے ۵۵۵ھ میں جب حج کیا اور روضہٴ اقدس پر حاضر ہوئے تو عرض کیا: السلام علیک یا جدّي (دادا جان السلام علیک) جواب مسموع ہوا وعلیک السلام یا ولدی (بیٹا! وعلیک السلام) اس پر ان کو وجد ہوا اور بے اختیار یہ اشعار زبان پر جاری ہوئے۔
في حالة البعد روحی کنت أرسلہا
تقبل الأرض عني و ہي نائبتي
و ہذہ نوبة الأشباح قد حضرت
فامدد یمینک کي تحظی بہا شفتی
جب ہم دور تھے تو اپنی روح کو اپنا نائب بناکر بھیج دیا کرتے تھے وہ روضہٴ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر زمین بوس ہوجایا کرتی تھی، اب جسم کی باری آتی ہے، ذرا اپناد ست مبارک بڑھائیے؛ تاکہ میرا لب اس سے بہرہ ور ہوسکے اور ہونٹوں کو (بوسہ) کی دولت نصیب ہوجائے۔
علامہ جلال الدین السیوطینے نقل کیا ہے کہ روضہٴ اقدس کے اندر سے ایک نہایت نورانی ہاتھ ظاہر ہوا (جس کے روبرو آفتاب بھی ماند تھا) وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک تھا، انہو ں نے دوڑ کر بوسہ دیا اور بے ہوش ہوگئے، بس ہاتھ غائب ہوگیا، مگر کیفیت یہ ہوئی کہ تمام مسجد نبوی میں نور ہی نور پھیل گیا، ایسا نور کہ اس کے سامنے آفتاب کی بھی حقیقت نہ تھی، اور واقعی آفتاب کی، اس نور کے سامنے کیا حقیقت ہوتی، ایک بزرگ سے جو کہ اس واقعہ میں حاضر تھے کسی نے پوچھا کہ آپ کو رشک تو بہت ہوا ہوگا، فرمایا ہم تو کیا اس وقت ملائکہ کو بھی رشک تھا کہ ہمیں بھی یہ دولت نصیب ہوتی (دیکھئے خطبات حکیم الامت: ۱۴/۲۰۲)
اگرچہ بعض ظاہر پرست اور تصوف سے دلچسپی نہ رکھنے والے علماء نے اس واقعہ کا انکار کیا ہے؛ لیکن محققین علماء نے اس واقعہ کی صحت پر شبہ نہیں کیا ہے، ہمارے اکابر میں حضرت تھانوی نے اشرف الجواب میں اسی طرح مفتی عبدالرحیم لاجپوری نے فتاویٰ رحیمیہ میں اس واقعہ کو علامہ جلال الدین سیوطی کا رسالہ ”شرف مختم“ کے حوالے سے سند کے ساتھ نقل کیا، اور علاّمہ صفوری الشافعی (م: ۸۹۴ھ) نے تو ان اشعار کو نقل کرکے لکھا ہے:
ولا إنکار في ذلک فإنَّ إنکار ذلک یوٴدّي إلی سوء الخاتمة والعیاذ باللہ و إن کرامات الأولیاء حق ، والنبی صلی اللہ علیہ وسلم حي في قبرہ سمیع بصیر منعم فی قبرہ (نزہة المجالس و منتخب النفائس: ۱/۱۹۰)
روضہٴ اقدس پر درود افضل ہے یا سلام؟
علامہ باجی کی رائے یہ ہے کہ درود افضل ہے، علامہ سخاوی کہتے ہیں کہ روضہٴ اقدس کے پاس کھڑے ہوکر سلام پڑھنا افضل ہے؛ کیونکہ حدیث میں ”مامن مسلم یسلم عليَّ عند قبری“ وارد ہواہے۔
لیعلم أنَّ السَّلام علیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عند قبرہ أفضل من الصلوٰة و قال الباجي یدعو بلفظ الصلوٰة والظاہر الأول (القول البدیع: ۱/۲۱۴)
شیخ الحدیث مولانا زکریا لکھتے ہیں:
لیکن اس ناکارہ کے نزدیک صلاة کا لفظ (یعنی درود) بھی کثرت سے روایات میں ذکرکیا گیا ہے؛اس لیے بندہ کے خیال میں اگر ہر جگہ درود و سلام دونوں کو جمع کیاجائے تو زیادہ بہتر ہے، یعنی بجائے السلام علیک یا رسول اللہ، ”السلام علیک یا نبی اللہ“ کے الصلوٰة والسلام علیک یا رسول اللہ الصلوٰة والسلام علیک یا نبی اللہ۔ اس صورت میں علامہ باجی اور علامہ سخاوی دونو ں کے قول پر عمل ہوجائے گا (فضائل درود شریف: ۲۴)
جب تک مدینہ میں قیام ہو خوب سلام عرض کیجیے
مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
جب تک مدینہ منورہ میں قیام ہو کثرت سے روضہٴ اقدس کے سامنے حاضر ہوکر سلام عرض کیا کرے، خصوصاً پانچ نمازوں کے بعد (زبدہ)
مسئلہ: اگر کسی وقت خاص مواجہ شریف پر حاضری کا موقع نہ ملے تو روضہ اقدس کے کسی طرف بھی کھڑے ہوکر یا مسجد نبوی میں کسی جگہ بھی سلام عرض کرسکتا ہے، اگرچہ اس کی وہ فضیلت نہیں جو سامنے حاضر ہوکر سلام عرض کرنے کی ہے۔
مسئلہ: عورتوں کو بھی روضہٴ اقدس کی زیارت اور مواجہ شریف میں حاضر ہوکر سلام عرض کرنا چاہیے، البتہ ان کے لیے بہتر ہے کہ رات کے وقت حاضر ہوں، اور جب زیادہ ازدہام ہو تو کچھ فاصلہ ہی سے سلام عرض کردیں ۔ (جواہر الفقہ: ۴/۱۷۶)
روضہٴ اقدس پر حاضری کے آداب
جب روضہ اقدس پر حاضری کا ارادہ ہو تو خوب طہارت و نظافت کا اہتمام کرنا چاہیے، مناسب یہ ہے کہ غسل کرلے اور اچھا سا لباس زیب تن کرکے بالوں میں کنگھا کرلے، خوشبو اور سرمہ کا اہتمام ہو، اپنی قیام گاہ سے باہر نکل کر پہلے کچھ صدقہ کریں، وقار کے ساتھ ڈرے سہمے کہ کہیں کوئی بے ادبی یا گستاخی نہ ہوجائے، قدم اٹھاتے ہوئے مسجد نبوی تک آئیں، آسانی ہو تو باب جبرئیل سے مسجد میں داخل ہونے کی کوشش کرے، اور داہنا قدم رکھتے ہوئے :
بسم اللّٰہ والصلاة والسلام علی رسول اللّٰہ اللہم اغفرلی ذنوبي، وافتح لی أبواب رحمتک․ پڑھ لے اور اعتکاف کی نیت کرلے، اگر سہولت ہو تو سیدھے ریاض الجنة پہنچ کر محراب میں یا اس کے محاذ میں یا جہاں آسانی سے ہوسکے، دو رکعت تحیة المسجد پڑھے، نماز سے فارغ ہوکر اپنے ہوش و حواس درست کرے، تاکہ سستی و غفلت نہ کرے، اس کا استحضار کرے یہ دربار کس کا ہے، محبوب رب العالمین کا، شفیع المذنبین کا، رحمة للعالمین کا، یہ سوچے کہ یہاں تو مقرب فرشتے حضرت جبرئیل اور حضرت میکائیل وغیرہ سلام کو آتے ہیں، اور روضہ اقدس کی جانب نہایت سکون و وقار کے ساتھ بڑھے اور مواجہ شریف پر پہنچنے کی کوشش کرے، جالی مبارک میں تین جھروکے ہیں، اندر کی طرف حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی مبارک قبروں کا سامنا ہوتا ہے، ان جالیوں کی دیوار سے تین چار ہاتھ کے فاصلہ پر کھڑے ہونا چاہیے یا جہاں جگہ مل جائے، زیادہ قریب ہونا بے ادبی ہے، آنکھیں پرنم ہوں، دل دھڑک رہا ہو، نگاہیں نیچی ہوں، ادھر ادھر دیکھنا، اندر جھانکنا، سخت بے ادبی ہے، پاؤں ساکن اور باوقار رکھنا چاہیے۔
مکی مد نی ہا شمی مطلبی
آدم کے لیے فخر یہ عالی نسبی
آہستہ قدم، نیچی نگاہ، پست ہو آواز
خوابیدہ یہاں روح رسول عربی
اب یہ تصور کرے کہ چہرہ انور اس وقت میرے سامنے اور سرکار دو عالم کو میری حاضری کی خبر ہے، پھر ذوق و شوق سے صلاة و سلام کا نذرانہ پیش کرے، مخصوص سلام یاد ہو تو وہ پڑھے ورنہ الصلاة والسلام علیک یا رسول اللہ، والصلوٰة والسلام علیک یا نبی اللہ پڑھے، اگر دوسرے لوگوں نے سلام پہنچانے کی درخواست کی ہو ان کا سلام پہنچا دینا چاہیے، پھر اللہ سے دعائیں مانگنی چاہیں اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاء مغفرت سے درخواست کرنی چاہیے، پھر تقریباً ایک ہاتھ دائیں طر ف ہٹ کر، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر سلام پڑھنا چاہیے پھر تقریباً ایک ہاتھ بائیں ہٹ کر حضرت عمررضی اللہ عنہ پر سلام پڑھنا چاہیے، اس کے بعد پھر پہلی جگہ یعنی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آجائے، اور خوب دعائیں کرے، اور حضرات شیخین کے لیے بھی دعائیں مانگنی چاہیے، پھر عزیز و اقارب ، دوست و احباب اور جنہوں نے دعا کی درخواست کی ہے، ان کے لیے بھی دعائیں مانگے، پھر تمام مسلمانان عالم کی خیر و بھلائی کی دعا کرکے دعا ختم کرے، تفصیل کے لیے دیکھیے ۔(فتح القدیر: ۳/۱۸۰، کتاب الحج، شرح الشفاء لملا علی قاری: ۲/۱۶۱، فصل فیما یلزم من دخل المسجد، وفاء الوفاء: ۴/۲۱۵، الفصل الرابع فی آداب الزیارة ، معلم الحجاج: ۱۹۳)
روضہٴ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب و احترام ، چند آیات
علامہ جلال الدین سیوطینے الخصائص الکبری میں روضہٴ رسول کے مقام و مرتبہ اور ادب و احترام پر قرآن کریم کی چار آیات کے ذریعہ استدلال کیا ہے، ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:
(۱) اے ایمان والوں اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ سننے اور جاننے والے ہیں (الحجرات: ۱)
(۲) اے ایمان والو! اپنی آوازیں اونچی نہ کرو، نبی کی آواز سے، اور ان کے حضور بات چلاّکر نہ کہو، جیسے ایک دوسرے کے سامنے چلاّتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال اکارت نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو (الحجرات: ۲)
(۳)بے شک وہ لوگ رسول اللہ کے پاس اپنی آوازیں پست کرتے ہیں، وہ لوگ ایسے ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے، ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے (الحجرات: ۳)
(۴) بے شک وہ لوگ جو آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں، اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ ان کے پاس تشریف لاتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا، اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے (الحجرات: ۵)
ان آیات کو لکھنے کے بعد آگے لکھتے ہیں:
قال جماعة: ”و یکرہ رفع الصوت عند قبرہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم؛ لأن حرمتہ میتا کحرمتہ حیا․
روضہٴ اقدس پر آواز بلند کرنا، چلانا مکروہ ہے، کیونکہ آپ کا ادب و احترام بعد وفات اس طرح ہے جس طرح آپ کی زندگی میں تھا۔
آگے ایک واقعہ نقل کیاہے: ابن حمید سے روایت ہے کہ ابوجعفر المنصور نے امام مالک رحمة اللہ علیہ سے مسجد نبوی میں مناظرہ کیا، اس وقت ابوجعفر خلیفہ کے ساتھ پانچ سو شمشیر بند موجود تھے، امام مالک نے ابوجعفر سے فرمایا: اے امیر المومنین اس مسجد میں اپنی آواز اونچی نہ کرو؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ادب سکھلایا ہے، لاترفعوا اصواتکم (الحجرات) اور ان مسلمانوں کی تعریف کی گئی ہے جو آواز پست رکھتے ہیں: ان الذین یغضون اصواتہم (الحجرات) او ربے ادب لوگوں کی مذمت فرمائی ہے، ارشاد ہے: ان الذین ینادونک من وراء الحجرات (الحجرات)
و إن حرمة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میتا کحرمتہ حیا فاستکان لہ الخلیفہ․
بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام بعد وصال بھی ایسا ہے جیسا کہ حیات مبارکہ میں تھا یہ سن کر خلیفہ ابوجعفر نے عاجزی اختیار کی (الخصائص الکبری: ۲/۴۴۵، مطبوعہ دارالکتب بیروت)
روضہٴ رسول کی حفاظت کا ایک واقعہ
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس وہ ذات تھی جس کی حفاظت، بحالت زندگی، اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر فرشتوں کے ذریعہ کی جاتی تھی، چاہے وہ مکہ میں آپ کے قتل کا منصوبہ ہو یا یہودیوں کی بستی میں پتھر گرانے یا زہر کھلانے کا واقعہ ہو، ہر موقع پر من جانب اللہ آپ کی حفاظت کی گئی، دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد تاریخ میں ایک واقعہ ایسا بھی پیش آیا کہ دو خبیث الفطرت یہودیوں نے قبر اطہر سے نعش مبارک نکالنے کا غلیظ منصوبہ بنایا تھا؛لیکن یہاں بھی نصرت الٰہی مانع بن گئی۔ اختصار کے ساتھ واقعہ ملاحظہ فرمائیں:
ابن العماد حنبلی (م: ۱۰۸۹ھ) نے اپنی کتاب شذرات الذہب میں اس واقعہ کو نقل کیاہے: واقعہ ۵۵۷ھ کا ہے، راقم الحروف نے مضمون کو الفاظ کا جامہ پہنانے کی کوشش کی ہے۔
مشہور مجاہد فی سبیل اللہ اور بزرگ امیر المومنین سلطان نور الدین محمود زنگی ایک رات امور مملکت کی انجام دہی اور عبادات و وظائف سے فراغت کے بعد جیسے ہی سوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی اور حضور کے ساتھ دو اور چہرے نظر آنے لگے، جن پر نحوست کے آثار تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلطان نور الدین کو متوجہ کرتے ہوئے کہا:
یا محمود انقذنی من ہذین الشخصین
مجھے ان دو شیطان صفت لوگوں سے نجات دلاؤ، سلطان نور الدین نے اپنے وزیر جمال الدین موصلی کو فوراً بلایا، امیر المومنین نے اپنا خواب بیان کیا، وزیر نے کہا: ایسا لگتا ہے کہ مدینہ میں کوئی حادثہ ہونے والا ہے، ہمیں بلاتاخیر مدینہ جانا چاہیے، چنانچہ امیر المومنین نے فوراً کوچ کا اعلان کیا، اور تیس نامور قسم کے افراد پر مشتمل ایک قافلے کی ہمراہی میں انتہائی سبک رفتار سواریوں پر مدینہ منورہ کی جانب چل پڑے، اور تقریباً سولہ روز کی مسافت کے بعد آپ مدینہ پہنچ گئے، امیر المومنین نے مدینہ کے گورنر سے رسمی گفتگو کے بعد اپنی آمد کا مقصد بتایا؛چنانچہ باہمی مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیاگیا کہ مدینہ کے ہر ہر فرد کو خواہ چھوٹاہو یا بڑا، بوڑھا ہو یا جوان ، مرد ہو یا عورت، ہر کسی کو شاہی دعوت نامہ دیا جائے، کہ امیر المومنین دارالخلافہ دمشق سے روضہ رسول کی زیارت کے لے تشریف لائے ہیں، زیارت کے بعد امیر المومنین کی طرف سے تمام اہل مدینہ کی ضیافت کا اہتمام کیا گیاہے، اس کے بعد امیر المومنین اپنے ہاتھوں ہدایا بھی تقسیم کریں گے، ہر فرد کا حاضر ہونا ناگزیر ہے۔
چنانچہ ایسا ہی کیا گیا، ہر شخص کو ہدیہ دیتے وقت امیر المومنین اس کے چہرے کو بغور دیکھتے تھے، تمام لوگ فارغ ہوگئے؛ لیکن وہ دونوں چہرے نظر نہ آئے، امیر المومنین حد درجہ پریشان ہوئے، اور گورنر سے پوچھا: کیا کوئی باقی تو نہیں ہے، گورنر نے بتایا کہ سوائے دو شخصوں کے باقی سب نے شرکت کی ہے، دو بزرگ ہیں جو اندلس سے آئے ہوئے ہیں، وہ عبادت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ گوشہ نشین بھی ہیں، مالدار بھی ہیں؛ اس لیے عموماً کسی سے ملتے جلتے نہیں ہیں؛اس لیے ہم نے انہیں مدعو بھی نہیں کیا کہ انہیں خلل ہوگا۔
امیر المومنین کو سخت غصہ آیا اور فوراً انہیں بلانے کا حکم دیا، وہ دونوں آئے ، سلطان نور الدین کی حیرت کی انتہاء نہ رہی کہ خواب میں جن دو چہروں کو دیکھا تھا وہ منحوس چہرے انہیں دو آدمیوں کے تھے، امیر المونین نے پوچھا تم کون ہو اور یہاں کیوں آئے ہو؟ انہو ں نے کہا ہم حج کے لیے آئے تھے، پھر مدینہ آئے تو اب یہاں سے جانے کو جی نہیں کرتا، امیر المومنین نے کہا: سچ سچ بتاؤ ورنہ تمہیں عبرتناک سزا دی جائے گی، ان دونو ں نے گھبراہٹ کے عالم میں حقیقت حال بتائی کہ ہم دونوں یہودی ہیں، اور ہمیں ایک مقصد کے لیے بھیجا گیا ہے کہ کسی طرح ہم تمہارے رسول کا جسم اطہر ان کے روضہ سے نکال کر اسلام مخالف طاقتوں تک پہنچا دیں، جب روضہ میں رسول ہی نہیں ہوں گے تو مسلمانوں کے حوصلے پست ہوجائیں گے، انہیں شکست دینا آسان ہوگا، چنانچہ ہم جسم اطہر کو چوری کرنے کے لیے آئے ہیں۔
امیر المومنین ان مکاروں کو لے کر ان کے کمرے میں پہنچے، اور ہر چیز کا باریکی سے جائزہ لیا؛لیکن کچھ نظر نہیں آیا، کمرے سے نکلتے وقت اپنے پاؤں کے نیچے پڑی ہوئی چٹائی کو ہٹایا، تو سب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ نیچے ایک بڑا سوراخ نظر آیا، جس میں ایک شخص آرام سے اتر سکتا تھا، سلطان نور الدین نیچے اتر گئے، نیچے ایک بہت بڑی سرنگ تھی ، آپ اندر چلتے گئے، اورجب سرنگ کے کنارے پہنچے تو انگشت بدنداں دیکھتے رہ گئے، کہ اس کا آخری سرا روضہ اقدس کی دیوار تک پہنچ چکا ہے؛بلکہ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ امیر المومنین کو آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک بھی دکھائی دئیے، اس کے بعد ان دونوں نام نہاد بزرگوں کو عبرتناک سزا دلوائی، انہیں قتل کرا دیا، اور اس کے بعد روضہ اقدس کے چاروں طرف سیسہ پلائی ہوئی فولادی اور آہنی دیواریں تعمیر کروائیں تاکہ آئندہ کوئی ایسا ناپاک اقدام نہ کرسکے۔
(شذرات الذہب فيأخبار من ذہب: ۶/۳۸۰، المکتبة الشاملة)
بارگاہ ایزدی میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں روضہٴ رسول کی زیارت کی سعاد ت سے بار بار سرفراز فرمائے؛کیونکہ یہ زیارت ایسی لازوال نعمت ہے جس کی کثرت ، انسان کے لیے سب سے بڑے شرف و سعادت کی باعث ہے۔
یا ربّ صلّ وسلّم دائما أبدا
علی حبیبک خیر الخلق کلّہم
$ $ $