Tuesday, 20 July 2021

روضہ رسول ﷺ کہ جگہ ساری جگہوں سے افضل ہے

عام مومن كی بھی ایسی فضيلت ہے تو نبی ﷺ کا مقام کیا ہوگا؟
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی ﷲ عنھما فرماتے ہیں کہ رسول ﷲ ﷺ نے خانہ کعبہ کی طرف دیکھ کرفرمایا:
"مَرْحَبًا بِكِ مِنْ بَيْتٍ مَا أَعْظَمَكِ، وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ، وَلَلْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللهِ حُرْمَةً مِنْكِ"‘‘۔
آداب عرض ہو تیرے عظمت بھرے گھر کو، اور تیری عظیم حرمت کو، اور(جبکہ) ﷲ تعالیٰ کے نزدیک مومن کی حرمت وعظمت تجھ سے زیادہ ہے‘‘۔
[شعب الإيمان للبیھقی: ج۵، ص۴۶۵، رقم الحدیث ۳۷۲۵]





حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا: " (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اﷲ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے۔
[سنن ابن ماجه: کتاب الفتن، باب حُرْمَةِ دَمِ الْمُؤْمِنِ وَمَالِهِ، ج۵، رقم الحدیث ۳۹۳۱]




حضرت عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما فرماتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف لائے، بلند آواز سے پکارا اور فرمایا: "اے اسلام لانے والے زبانی لوگوں کی جماعت ان کے دلوں تک ایمان نہیں پہنچا ہے! مسلمانوں کو تکلیف مت دو، ان کو عار مت دلاؤ اور ان کے عیب نہ تلاش کرو، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب ڈھونڈتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کا عیب ڈھونڈتا ہے، اور اللہ تعالیٰ جس کے عیب ڈھونڈتا ہے، اسے رسوا و ذلیل کر دیتا ہے، اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہو"۔ (راوی نافع)کہتےہیں: "ایک دن ابن عمر رضی الله عنہما نے خانہ کعبہ کی طرف دیکھ کر کہا: کعبہ! تم کتنی عظمت والے ہو! اور تمہاری حرمت کتنی عظیم ہے، لیکن اللہ کی نظر میں مومن (کامل)کی حرمت تجھ سے زیادہ عظیم ہے"۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف حسین بن واقد کی روایت سے جانتے ہیں۔ اسحاق بن ابراہیم سمر قندی نے بھی حسین بن واقد سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔ ابوبرزہ اسلمی رضی الله عنہ کے واسطہ سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی حدیث مروی ہے ‘‘۔
[سنن الترمذی: كتاب البر والصلة عن رسول الله ﷺ ، باب مَا جَاءَ فِي تَعْظِيمِ الْمُؤْمِنِ، ج۳، ص ۵۵۴-۵۵۵، رقم الحدیث ۲۰۳۲]
صحيح الترغيب والترهيب:2339، سلسلة الأحاديث الصحيحة:‌‌3420







حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کو دیکھ کر ارشاد فرمایا : نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے (اے کعبہ!) تو کس قدر پاکیزہ ہے ، تیری خوشبو کس قدر عمدہ ہے اور تو کتنا زیادہ قابل احترام ہے ؛ ( لیکن ) مومن کی عزت و احترام تجھ سے زیادہ ہے ، اللہ تعالی نے تجھ کو قابل احترام بنایا ہے اور( اسی طرح ) مومن کے مال، خون اور عزت کو بھی قابل احترام بنایا ہے اور اسی احترام کی وجہ سے اس بات کو بھی حرام قرار دیا ہے کہ ہم مومن کے بارے میں ذرا بھی بد گمانی کریں۔
[المعجم الكبير للطبراني: ‌‌بَابُ العین،  ‌‌طَاوُسٌ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، حدیث نمبر 10966]
[الجامع - ابن وهب:225]



عبدالرزاق ابن جریج سے، وہ فرماتے ہیں کہ مجھے خبر دی عمر بن عطاء بن وراز نے، ان سے عکرمہ ابن عباس کے غلام نے کہ انہوں حضرت ابن عباسؓ کو فرماتے سنا:
يُدْفَنُ كُلُّ إِنْسَانٍ فِي التُّرْبَةِ الَّتِي خُلِقَ مِنْهَا۔
دفن کیا جاتا ہے ہر انسان اسی مٹی میں جس سے وہ پیدا کیا گیا‘‘۔
[مصنف عبد الرزاق: باب يدفن فی التربة التی منها خلق، ج۳، ص۵۱۵، رقم الحدیث ۶۵۳۱]

بالکل یہی بات (بمضمون و معنیٰ) رسول ﷲ ﷺ سے بھی منقول ہے:
حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں: نبی اکرم ﷺ قبر کے پاس (رکھی ہوئی) ایک میت کے پاس سے گزرے، آپ ﷺ نے پوچھا، یہ کس کی قبر ہے؟ صحابہ رضی ﷲعنہم نے جواب دیا: یا رسول ﷲ ﷺ! یہ فلاں حبشی کی قبر ہے۔ تو رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:
لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ سِيقَ مِنْ أَرْضِهِ وَسَمَائِهِ إِلَى تُرْبَتِهِ الَّتِي مِنْهَا خُلِقَ۔
ﷲ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ ﷲ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ ﷲ کی زمین اور آسمان سے اس کو اس مٹی کی طرف بھیج دیا گیا ہے، جس سے اس کو پیدا کیا گیا ہے‘‘۔
[المستدرك على الصحيحين، للحاکم : کتاب الجنائز، ج۱، ص۵۱۶، رقم الحدیث ۱۳۵۶]





نوٹ:
اسی لئے ائمہ کرام نے رسول اللہ ﷺ کی فضیلت کے سبب روضہ رسول کی "مٹی" کو ساری زمین بلکہ ساری مخلوقات سے افضل مانا ہے۔ مزید کسی دلیل وتفصیل کی حاجت نہیں عقلمند مومن کیلئے۔ لیکن اطمینانِ قلب کیلئے مزید دلائل اور ائمہ کرام کے حوالہ جات پیشِ کئے جا رہے ہیں:

علامہ جوزی رحمہ اللہ نے " الوفاء " میں أمّ المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے حدیث مبارکہ روایت کی ہے کہ آپ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں : جب آقا ﷺ کا وصال ہوا تو لوگوں میں اختلاف رائے ہوا کہ آپ ﷺ کی تدفین کہاں کی جائے حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجھہ نے فرمایا : اللہ تعالی کے نزدیک سب سے مکرم جگہ وہی ہے جہاں ﷺ کا وصال ہوا ہے.

امام یحییؒ فرماتے ہیں جب رسول ﷺ کے دفن کی جگہ پر لوگوں میں اختلاف رائے ہوا تو حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجھہ نے فرمایا : اللہ تعالی کے نزدیک سب سے مکرم جگہ وہی ہے جہاں آپ ﷺ کا وصال ہوا ہے تو اس بات پر سب راضی ہو گئے. میں کہتا ہوں یہی قول قبر رسول ﷺم کی تفضیل کی دلیل ہے کیونکہ سب صحابی اس پر خاموش رہے اور وہیں پر آپ ﷺ کو دفن کرنے میں مشغول ہو گئے.

سیدنا ابو بکر صدیقؓ سے پوچھا گیا اے یار غار رسول! بتائیں رسول اللہ ﷺ کو کہاں دفن کیا جائے تو آپؓ نے فرمایا: جہاں آپ نے وصال فرمایا، بے شک اللہ تعالی نے سب پاکیزہ جگہ پر ہی آپ ﷺ کی روح مبارکہ قبض کی ہے.

" مسند ابو یعلی " میں حدیث کے یہ الفاظ ہیں :
"میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: "اللہ تعالی ہر نبی کی روح وہیں قبض کرتا ہے جو جگہ اسےسب سے زیادہ محبوب ہو"۔

تو میں یہ کہتا ہوں کہ رسول کو بھی وہی جگہ زیادہ پسند ہو گی جو اللہ تعالی کو زیادہ پسند ہو گی کیونکہ حب رسول حب الٰہی کے تابع ہوتی ہے اور جو جگہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو سب سے زیادہ پسند ہو وہ سب سے افضل کیوں نہیں ہو گی ؟

امام حصکفیؒ فرماتے ہیں : مکہ مکرمہ مدینہ منورہ سے افضل ہے مگر نبی ﷺ کے اعضاءِ مقدسہ کے ساتھ جو جگہ ملی ہوئی ہے وہ ہر شئی سے افضل ہے یہاں تک کہ عرش اور کرسی سے بھی افضل ہے۔
[در المختار 2/257 دار الكتب العلميۃ]

امام محمد بن احمد رحمھما اللہ علیش مالکی فرماتے ہیں :
اعضاءِ مقدسہ کے جو جگی ملی ہوئی ہے اس کے علاوہ باقی جگہوں کی تفضیل میں اختلاف ہے لیکن نبی ﷺ کے اعضاء مقدسہ کے ساتھ جو جگہ ملی ہوئی ہے وہ ہر چیز سے افضل ہے یہاں تک کہ عرش، کرسی، لوح و قلم اور بیت معمور سے بھی افضل ہے۔
[منھج الجلیل 3/133 دار الفکر]

امام رحیبانیؒ فرماتے ہیں نبی ﷺ کی قبر انور کی جگی ساری زمین سے افضل ہے کیونکہ آپ ﷺ کا جسد مبارک اسی جگہ کی مٹی سے بنا ہے اور آپ ﷺ ساری بشریت سے افضل ہیں تو آپ ﷺ کی نسبت سے وہ مٹی بھی سب سے افضل ہو گی اور اگر یہ نسبت نہ ہو تو کعبہ شریف اس مٹی سے کعبہ افضل ہے

پھر فرماتے ہیں : ابو وفاء علی بن عقیلؒ لکھتے ہیں : مجرد حجرہ مبارک سے کعبہ شریف افضل ہے لیکن چونکہ نبی ﷺ کا جسم مبارک اس میں ہے تو اللہ کی قسم اب نہ کعبہ نہ عرش نہ اس کو اٹھانے والے فرشتے اور نہ ہی جنت اس سے افضل ہو سکتی ہے اور اگر ساری مخلوق کو حجرہ شریف کے ساتھ تولہ جائے تو بھی وزنی ہو گا.
[مطالب اولی النھی 2/384 المکتب الاسلامی]


=========================================================================

(2) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ : " مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي " . رواه البخاري

ترجمہ:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: کہ میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے۔

تشريح:
یہ حصہ جنت ہی کا حصہ ہے اور دنیا کے فنا ہونے کے بعد جنت ہی کا ایک حصہ بن کر رہ جاۓ گا، اس لیے یہ کسی تاویل کے بغیر (دنیا میں موجود) جنّت کا ایک باغ ہے. اس حدیث میں ہے کہ "میرا منبر میرے حوض پر ہے" یعنی حوض یہیں پر ہوگا، منبر سے شام تک اس کی پہلائی ہوگی، اس لیے وہ منبر اب بھی حوض ہی پر ہے اور قیامت کے دن مشاہدہ میں آجاۓ گا. حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے ایک روایت کی تخریج کی ہے جس میں ((بیت)) یعنی گھر کے بجاۓ ((قبر)) ہی کا لفظ ہے، گویا عالم تقدیر میں جو کچھ تھا اس کی آپ نے پہلے ہی خبر دیدی تھی۔




سیدنا حضرت علی المرتضیٰ ؓ نے فرمایا:
أَنَّهُ لَيْسَ فِي الْأَرْضِ بُقْعَةٌ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ‌بُقْعَةٍ ‌قَبَضَ ‌فِيهَا ‌نَفْسَ ‌نَبِيِّهِ صلّى الله عليه وسلّم۔
[وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى، امام السمهوديؒ (م911ھ) : ج1/ ص35 ، دار الكتب العلمية - بيروت
ترجمہ:
زمین میں کوئی خطہ ایسا نہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس خطہ سے زیادہ معزز ہو جس میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح قبض فرمائی۔


فضائلِ مدینہ واہلِ مدینہ:؛
حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص مدینہ منورہ کی سختیوں اور مصیبتوں پر صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑے گا قیامت کے روز میں اس شخص کے حق میں گواہی دوں گا یا اس کی شفاعت کروں گا۔‘‘
[صحیح مسلم: کتاب الحج، باب الترغيب فی سکنی المدينة والصبر علی لاوائها، حدیث نمبر 1377]

اہل مدینہ سے برائی کرنا تو درکنار برائی کا ارادہ کرنے والے کو بھی جہنم کی وعید سنائی گئی ہے:
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص اس شہر والوں (یعنی اہل مدینہ) کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے گا ﷲ تعالیٰ اسے (دوزخ میں) اس طرح پگھلائے گا جیسا کہ نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔‘‘
[صحیح مسلم: کتاب الحج، باب من أراد أهل المدينة بسوء أذا به اﷲ، حدیث نمبر 1386]

رسول اللہ ﷺ کے شہر دلنواز مدینہ منورہ کے رہنے والوں کا ادب و احترام بھی آپ ﷺ کی نسبت وتعلق کی وجہ سے لازم ہے، جو ایسا نہیں کرے گا وہ جہنم کا ایندھن بنے گا:
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ایمان سمٹ کر مدینہ طیبہ میں اس طرح داخل ہو جائے گا جس طرح سانپ اپنے بل میں داخل ہوتا ہے۔
[سنن ابن ماجه: 3111 کتاب المناسک، باب فضل المدينة]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنِ اسْتَطَاعَ أَنْ يَمُوتَ بِالْمَدِينَةِ فَلْيَمُتْ بِهَا ، فَإِنِّي أَشْفَعُ لِمَنْ يَمُوتُ بِهَا "
حضرت ابن عمرؓ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص تم میں سے مدینہ میں مرنے کی طاقت رکھتا ہو وہ ایسا کرے کیونکہ جو مدینہ میں مرے گا میں ﷲ کے سامنے اس کی شہادت دوں گا۔
[سنن ابن ماجه: 3112 کتاب المناسک، باب فضل المدينة]


اسلاف ائمہ کرام کا عقیدہ:
امام مالکؓ(المتوفی: ۱۷۹ھ) فرماتے ہیں کہ جو مدینہ کو مکہ پر افضلیت کا قائل ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ میں کسی ایسی جگہ کو نہیں جانتا جہاں کسی معروف نبی کی قبر ہو سوائے مدینہ کے۔ لیکن مدینہ ایسی جگہ ہے جہاں معروف نبی کی قبر ہے تو یہ وجہ ہے مدینہ کے مکہ پر افضل ہونے کی‘‘۔
[التمهيد لما فی الموطأ من المعانی والأسانيد: ج۲، ص۲۸۹]

ابن عبدالبر القرطبی المالكیؒ(المتوفی: ۴۶۳ھ) فرماتے ہیں کہ:
مکہ میں تمام جگہوں سے افضل کعبۃ ﷲ ہے اور اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی ﷲ عنہا کا گھر ہے۔ البتہ اِن تمام جگہوں سے افضل وہ مٹی ہے جو نبی کریم ﷺ کے جسد اطہر سے مس ہے، حتیٰ کہ عرش سے بھی افضل ہے‘‘۔
[البجيرمی على الخطيب: ج۱، ص۱۰۱]



چونکہ عرش و کرسی بھی مخلوق ہے اور تمام مخلوقات میں افضل حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات مبارکہ ہے اس لیے کوئی اشکال نہیں کہ آپ ﷺ کی قبرِ انور کا وہ حصہ جو آپ ﷺ کے جسدِ اقدس سے ملا ہوا ہے وہ عرش و کرسی سے بھی افضل ہے۔ اس پر اجماع امت ہے اور اجماع نص قطعی ہوتا ہے۔




ابو وفاء علی بن عقیل حنبلیؒ(المتوفی: ۵۱۳ھ)لکھتے ہیں:
مجرد حجرہ مبارک سے کعبہ شریف افضل ہے لیکن چونکہ نبی کریم ﷺ کا جسم مبارک اس میں ہے تو اللہ کی قسم اب نہ کعبہ نہ عرش نہ اس کو اٹھانے والے فرشتے اور نہ ہی جنت اس سے افضل ہو سکتی ہے اور اگر ساری مخلوق کو حجرہ شریف کے ساتھ تولہ جائے تو بھی وزنی ہو گا‘‘۔
[كتاب الفنون لابن عقيل بحوالہ؛ بدائع الفوائد لابن القیم :ج۳، ص۶۵۵؛ الروض المربع شرح زاد المستقنع: ص۲۶۹؛ الإنصاف فی معرفة الراجح من الخلاف: ج۳، ص۵۶۲]







اس عقیدہ پر اجماع:
اس بات پر علماء کا اجماع ہے زمین کا جو حصہ رسول اللہ ﷺ کے جسم اطہر سے لگا ہوا ہے وہ ساری زمین سے افضل ہے .


قاضی عیاضؒ مالکی (م544ھ) فرماتے ہیں :
وَلَا خِلَاف أن مَوْضع قَبْرِه أفْضَل ‌بِقَاع ‌الْأَرْض
اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ حضور نبی رحمت ﷺ کی قبرِ انور کی جگہ ساری زمین سے افضل ہے۔
[الشفاء بتعریف حقوق مصطفی ﷺ : 2ج/ ص91، دار الفكر]


اس پر علامہ خفاجیؒ نے تعلیق لکھی کہ بلکہ [آپ کی قبر مبارک کی جگہ یا مٹی] آسمان، عرش، کعبہ سے بھی افضل ہے۔ اور اس کے مثل امام سبکیؒ(م756ھ) نے بھی نقل کیا‘‘۔
[الشفا بتعريف حقوق المصطفىٰ للقاضی عياض: ج۱، ص۶۸۳؛ نسيم الرياض فی شرح شفاء القاضی عياض: ج۳، ص۵۳۱؛ الضياء الشمسی على الفتح القدسی شرح ورد السحر للبكری: ج۲، ۲۴۱؛ سلسلة المحاضرات العلمية والتربوية: ج۱، ص۸۵]




امام ابن الملقنؒ (م804ھ)بھی اس پر اجماع نقل کرتے ہیں:
وقام الإجماع على أن ‌قبره ‌أفضل ‌بقاع ‌الأرض كلها۔
[التوضيح لشرح الجامع الصحيح:9/ 249]


امام نوویؒ دوسرے مقام پر قاضی عیاضؒ سے نقل کرتے ہیں: 
رسول ﷲ ﷺ کے جسد ِاطہر سے ملی ہوئی جگہ بالاجماع افضل ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ باقی مدینہ اور مکہ میں کون افضل ہے تو اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ حضرت عمرؓ اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم اور امام مالکؒ اور اکثر مدینہ والوں کے نزدیک مدینہ افضل ہے اور مکہ والوں اور امام شافعیؒ اور بعض مالکیوں کے نزدیک مکہ افضل ہے‘‘۔
[فتح المنعم شرح صحيح مسلم: ج۵، ص ۴۶۸]


امام نوویؒ یہ بھی فرماتے ہیں کہ: یہ بات واضح ہوگئی کہ جمہورعلماء کے نزدیک آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے اعضاء ِ مقدسہ کے ساتھ جو جگہ ملی ہوئی ہے وہ تمام زمین وآسمان سے افضل ہے، جیسا کہ مکہ اور مدینہ تمام زمین سے افضل ہیں۔ اس پرعلماء کرام کا اجماع ہے، اس میں سے کسی کو بھی اختلاف نہیں ہے۔ مکہ ومدینہ کی افضلیت کے بارے میں جو اختلاف ہے وہ کعبہ کو چھوڑ کر ہے کہ کعبہ مدینہ سے افضل ہے سوائے مدینہ کی اس جگہ کے جو نبی کریم ﷺ اعضاء مبارکہ کو مس ہو رہی ہے‘‘۔
[مواهب الجليل فی شرح مختصر خليل: کتاب الأیمان، فَرْعٌ فِي نَاذِرِ زِيَارَتِهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْمَدِينَةُ أَفْضَلُ، ثُمَّ مَكَّةُ، ج۴، ص۵۳۳]


عبد الرحمٰن بالقرافی المالكیؒ(م684ھ) فرماتے ہیں:
یہ بات بعض علماء پر مخفی رہی ہے کہ انہوں نے اعضاءِ مقدسہ کے ساتھ جو جگہ ملی ہوئی ہے اس کی افضلیت پر جو اجماع نقل ہوتا چلا آرہا ہے اس کا انکار کیا۔ اور جو لوگ اس بات کا انکار کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جگہ کی فضیلت اس وجہ سے ہے کیونکہ یہاں پر اعمال (عبادات) کرنے سے ثواب زیادہ حاصل ہوتا ہے۔ اور جہاں تک بات نبی کریم ﷺ کی قبر مبارک کی ہے تو وہاں پر تو عمل (عبادت) کرنا حرام ہے اور نبی کریم ﷺ کی قبر پرعمل (عبادت) کرنا تو بُت پرستی ہے‘‘۔
آگے فرماتے ہیں:
’’اصل میں یہ بات ان لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ کسی جگہ کی فضیلت کا مدار صرف کثرتِ ثواب پر نہیں ہوتا بلکہ کسی جگہ کی فضیلت کثرتِ ثواب پر بھی منحصر ہوسکتا ہے اور اس کی کوئی دوسری وجہ بھی ہوسکتی ہے۔ جہاں تک بات نبی کریم ﷺ کی قبر مبارک کو فضیلت دینے کی ہے، تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہاں کثرتِ ثواب ہے بلکہ اس کی وجہ دوسری ہے۔ کیونکہ اگر کسی جگہ کی فضیلت کی وجہ کثرتِ ثواب لی جائے تو پھر قرآن کریم کے مصحف کی جو جلد ہوتی ہے وہ بھی افضل نہ ہوئی اور نہ ہی قرآن کریم کا نسخہ افضل ہوا کیونکہ قرآن کریم کی جلد اور نسخہ پر تو عمل محال ہے لہٰذا اس پر تو عمل کا مدار نہیں ہے، اور یہ اجماع کے بھی مخالف ہے۔ البتہ کسی چیز کو فضیلت دینا کسی کے قرب وجواد کی بنا پر تو یہ بات مسلم ہے۔ البتہ فضیلت کثرتِ ثواب کی بنا پر نہیں ہوسکتی یہ بھی ممنوع ہے، جیساکہ ہم پیچھے بیان کرچکے ہیں‘‘۔
[وفاء الوفا باخبار دار المصطفی: الباب الثانی، الفصل الأول فی تفضيلها على غيرها من البلاد، مكة أفضل أم المدينة، ج۱، ص۲۹-۳۰]




شیخ تاج الدین الفاکھیؒ(م734ھ) فرماتے ہیں کہ علماء کا اس بات پر اتفاق(اجماع) ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے اعضاءِ مقدسہ کے ساتھ جو جگہ ملی ہوئی ہے وہ ہر شئے سے افضل ہے یہاں تک کہ کعبہ شریف سے بھی افضل ہے‘‘۔
[وفاء الوفا باخبار دار المصطفی: الباب الثانی، الفصل الأول فی تفضيلها على غيرها من البلاد، مكة أفضل أم المدينة، ج۱، ص۲۸]




امام محمد العبدری الفاسی المالكی الشہير بابن الحاجؒ(م737ھ) لکھتے ہیں:
کیا تو نہیں جانتا کہ اجماع واقع ہوا ہے کہ جس جگہ آپ ﷺ کا جسد ِاقدس مس ہے وہ تمام کائنات کی جگہوں سے افضل ہے، حتیٰ کہ کعبہ وغیرہ سے بھی افضل ہے‘‘۔
[المدخل لابن الحاج: ص۲۵۷]










امام تقی الدين السبكی الشافعیؒ(م756ھ) لکھتے ہیں:
قاضی عیاضؒ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ رسول ﷲ ﷺ کے جسد ِاطہر سے جو جگہ ملی ہوئی ہے وہ تمام زمین سے افضل ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ شافعیہ، حنفیہ اور حنابلہ مکہ کو افضل قراردیتے ہیں البتہ مالکیہ مدینہ کو افضل قراردیتے ہیں، یہ اختلاف قبرِ مبارک کو چھوڑکر ہے جس پر تمام جماعتوں کا اجماع ہے‘‘۔ 
[فتاوى السبكی: ج۱، ص۲۷۹]




امام زين الدين أبو بكر بن الحسين بن عمر العثمانی المراغی الشافعیؒ(م816ھ) فرماتے ہیں:
اس پر اجماع ہے کہ وہ جگہ جو نبی اکرم ﷺ کے اعضاءِ مبارکہ کے ساتھ مس ہے وہ تمام زمین سے افضل ہے، حتیٰ کہ کعبہ سے بھی جیسا کہ امام قاضی عیاضؒ اور ابن عساکرؒ نے کہا ہے‘‘۔
[تحقيق النصرة بتلخيص معالم دار الهجرة: ص۱۰۴]



شیخ محمد البرنسی الفاسی بزروق المالکیؒ(م899ھ) فرماتے ہیں:
ابن وہبؒ(م261ھ) اور ابن حبیبؒ(م238ھ) فرماتے ہیں کہ مکہ اور مدینہ کی افضلیت میں لوگوں کا اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک مکہ افضل ہے اور بعض مدینہ کی افضلیت کے قائل ہیں۔ اس کے برعکس اس بات پر اجماع امت ہے کہ رسول ﷲ ﷺ کے اعضاءِ مقدسہ کے ساتھ جو جگہ ملی ہوئی ہے وہ ہر شئے سے افضل ہے۔ شیخ البرنسی فرماتے ہیں: اس بات کا تقاضہ یہ ہے کہ جس طرح حضور ﷺ کی قبرمبارک افضل ہے بالکل اسی طرح مکہ اور مدینہ میں جو آپ ﷺ کا گھر ہے اس کا بھی یہی حکم ہونا چاہیئے کہ وہ بھی کعبہ سے افضل ہو، لیکن اس بارے میں علماء کرام نے تصریح نہیں فرمائی ہے، البتہ قبر مبارک کی افضلیت  کے بارے میں تو تمام علماء نے صراحتاً فرمایا ہے لیکن گھر کے بارے میں نہیں‘‘۔
[شرح زروق على متن الرسالة: ص ۹۹۲]



فقہ شافعی کےعظیم مفسر، محدث ومورخ علامہ شمس الدین سخاویؒ(م902ھ) فرماتے ہیں:
وہ ٹکڑا جو نبی پاک ﷺ کے جسد اطہر کے ساتھ ضم ہے اس کی افضلیت پر اجماع ہے حتیٰ کہ کعبہ سے بھی افضل ہے جو اصل شہر مدینہ [سوائے اس حصے کے جہاں نبی ﷺ مدفون ہیں اس] سے فضیلت میں زیادہ ہے۔ بلکہ عرش سے بھی زیادہ۔ اس کی تصریح علمائے حنابلہ میں سے ابن عقیلؒ نے کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیاء کی مقیم گاہیں اور روح اشرف ہیں زمین و آسمان کی تمام چیزوں سے۔اور ان کی قبریں بھی افضل ہیں‘‘۔
[التحفة اللطيفة فی تاريخ المدينة الشريفة السخاوی: ج۱، ص۴۲]



فقہ شافعی کےعظیم مفسر، محدث، فقیہ ومورخ امام جلال الدین سیوطیؒ(م911ھ) "وَبِأَن الْبقْعَة الَّتِي دفن فِيهَا أفضل من الْكَعْبَة وَالْعرش" کا باب رقم کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
آپ ﷺ کی قبرِ اطہر سب روئے زمین سے افضل ہے اور اس بات پر امت کا اجماع ہے، بلکہ کعبہ سے بھی افضل ہے۔ امام ابن عقیل حنبلیؒ فرماتے ہیں کہ قبرِ اطہرعرش معلیٰ سے بھی افضل ہے‘‘۔
[الخصائص الكبرى للإمام السيوطی: ج۲، ص۳۵۱]



نور الدين أبو الحسن السمهودی الشافعیؒ(م911ھ) "وفاء الوفا باخبار دار المصطفی" میں طویل بحث میں فرماتے ہیں:
اس بات پر اجماعِ امت ہے کہ رسول ﷲ ﷺ کے اعضاءِ مقدسہ کے ساتھ جو جگہ ملی ہوئی ہے وہ ہر شئے سے افضل ہے یہاں تک کہ عرش سے بھی افضل ہے۔ اس اجماع کو قاضی عیاضؒ، قاضی ابو الولید الباجیؒ، خطیب ابن جملہؒ، ابو یمن ابن عساکرؒ اور دیگر علماء نے نقل کیا ہے اور اس مقدس مکان کی کعبہ شریف پر افضل ہونے کی صراحت کی ہے بلکہ امام تاج الدین سبکیؒ نے ابن عقیل حنبلیؒ سے نقل کیا ہے کہ یہ جگہ عرش سے بھی افضل ہے‘‘۔
[وفاء الوفا باخبار دار المصطفی: الباب الثانی، الفصل الأول فی تفضيلها على غيرها من البلاد، مكة أفضل أم المدينة، ج۱، ص۲۸]




امام أبى بكر بن عبد الملك القسطلانی القتيبی المصری الشافعیؒ(م923ھ) فرماتے ہیں:
اور اس پر اجماع ہے کہ وہ مقام جو أعضاءِ الشريفة  سے ملے ہوئے ہیں نبی ﷺ کے، وہ افضل ہیں باقی زمین سے حتیٰ کہ کعبه سے بھی جیسا کہ ابن عساکرؒ، الباجیؒ اور قاضی عیاضؒ نے کہا بلکہ التاج السبکیؒ کہتے ہیں کہ  السيد السمهودیؒ نے کتاب میں ابن عقیل حنبلیؒ سے نقل کیا ہے کہ یہ تو عرش سے بھی افضل ہے اور الفاكهانیؒ نے صراحت کی ہے کہ سات آسمانوں سے بھی افضل ہے‘‘۔
[المواهب اللدنية بالمنح المحمدية: ج۴، ص۶۰۲]




إمام الحطاب الرُّعينی المالكیؒ(م954ھ) فرماتے ہیں:
مشہور یہ ہے کہ مکہ مدینہ سے افضل ہے۔ اجماع کے بعد نبی کریم ﷺ کی قبر مبارک تمام زمین سے افضل ہے۔ شیخ زروقؒ شرح رسالہ میں فرماتے ہیں: اس بات کا تقاضہ یہ ہے کہ جس طرح نبی کریم ﷺ کی قبرِ مبارک افضل ہے بالکل اسی طرح مکہ اور مدینہ میں جو آپ ﷺ کا گھر ہے وہ بھی کعبہ سے افضل ہونا چاہیئے، لیکن اس بارے میں علماء کرام نے تصریح نہیں فرمائی ہے، البتہ قبر مبارک کی افضلیت  کے بارے میں تو تمام علماء نے صراحتاً فرمایا ہے لیکن گھر کے بارے میں نہیں۔ شیخ السمهودیؒ تاریخِ مدینہ میں فرماتے ہیں: اس بات پر اجماع امت ہے کہ رسول ﷲ ﷺ کے اعضاء ِمقدسہ کے ساتھ جو جگہ ملی ہوئی ہے وہ ہر شئے سے افضل ہے یہاں تک کہ عرش سے بھی افضل ہے۔ اس اجماع کو قاضی عیاضؒ ، قاضی ابو الولید الباجیؒ اور دیگر علماء نے نقل کیا ہے اور اس مقدس مکان کی کعبہ شریف پر افضل ہونے کی صراحت کی ہے بلکہ امام تاج الدین سبکیؒ نے ابن عقیل حنبلیؒ سے نقل کیا ہے کہ یہ جگہ عرش سے بھی افضل ہے۔ شیخ تاج الدین الفاکھیؒ فرماتے ہیں کہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے اعضاءِ مقدسہ کے ساتھ جو جگہ ملی ہوئی ہے وہ ہر شئے سے افضل ہے یہاں تک کہ کعبہ شریف سے بھی افضل ہے۔ امام نوویؒ فرماتے ہیں: یہ بات واضح ہوگئی کہ جمہورعلماء کے نزدیک آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے اعضاء ِمقدسہ کے ساتھ جو جگہ ملی ہوئی ہے وہ تمام زمین وآسمان سے افضل ہے، جیسا کہ مکہ اور مدینہ تمام زمین سے افضل ہیں۔ اس پر علماء کرام کا اجماع ہے، اس میں سے کسی کو بھی اختلاف نہیں ہے۔ مکہ ومدینہ کی افضلیت کے بارے میں جو اختلاف ہے وہ کعبہ کو چھوڑ کر ہے کہ کعبہ مدینہ سے افضل ہے سوائے مدینہ کی اس جگہ کے جو نبی کریم ﷺ اعضاء مبارکہ کو مس ہورہی ہے‘‘۔
[مواهب الجليل فی شرح مختصر خليل: کتاب الأیمان، فَرْعٌ فِي نَاذِرِ زِيَارَتِهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْمَدِينَةُ أَفْضَلُ، ثُمَّ مَكَّةُ، ج۴، ص۵۳۳]


علامہ ابن حجر ہیتمی الشافعیؒ(م973ھ)لکھتے ہیں کہ:
اور یہ کہ حرم کعبہ میرے اور اخبارِ صحیحہ صریحہ سے جمہور کے نزدیک تمام زمین سے افضل ہے اور جو چند دلیلیں اس کے معارض ہیں ان میں سے بعض ضعیف ہیں اور بعض موضوع مثلاً حاشیہ میں جو دلیل ہے "إنها أي المدينة أحب البلاد إلى الله تعالى" یہ بالاتفاق موضوع ہے ۔ لیکن اس طرح کی خبریں مکہ [کی فضیلت] کے بارے میں بلااختلاف درست ہیں سوائے اس مٹی کی فضیلت کے جو نبی کریم ﷺ کے اعضائے مقدسہ کے ساتھ مس ہے حتیٰ کہ عرش سے بھی۔ یہ فضیلت اجماع سے ثابت ہے‘‘۔
[تحفة المحتاج: ج۵، ص۱۱۲]







شيخ شمس الدین الرملی المصری الشافعیؒ(م1004ھ) أسنى المطالب کے حاشیہ میں نقل کرتے ہیں کہ:
مکہ ومدینہ کی افضلیت کے بارے میں بعض لوگوں نے مکہ کو افضل قراردیا اور بعض نے مدینہ کو تو یہ جو اختلاف ہے یہ نبی کریم ﷺ کی قبر مبارک کو چھوڑ کر ہے۔ البتہ جہاں تک نبی کریم ﷺ کی قبر مبارک کی بات ہے تو وہ بالاجماع افضل ہے۔ قاضی عیاضؒ نے اس کو نقل کیا ہے اور ابن قاضی شہبہ کہتے ہیں کہ میرے شیخ اور والد فرماتے ہیں کہ اس کی دلیل یہ ہے کہ کعبہ شریف یقینی طور پر تمام مدینہ سے افضل ہے سوائے مدینہ شریف کی وہ جگہ جہاں نبی ﷺ کی قبر شریف ہے اور حضرت خدیجہ رضی اﷲعنہا کا گھر مکہ میں مسجد حرام کے بعد سب سے افضل ہے۔ محب طبری فرماتے ہیں کہ امام نوویؒ نے اسی کو اختیار کیا ہے اور فرمایا ہے کہ مکہ کا پڑوس اختیار کرنا افضل ہے سوائے اس کے کہ کسی ناجائز اور گناہ کے کام میں پڑنے کا اندیشہ نہ ہو۔ جہاں تک یہ بات ہے کہ نبی کریم ﷺ کی قبر مبارک اجماعی طور پر افضل ہے تو اس کے بارے میں ہمارے شیخ فرماتے ہیں کہ وہ تمام آسمانوں سے عرش، کرسی اور جنت سے افضل ہے‘‘۔
[أسنى المطالب فی شرح روض الطالب وبهامشه حاشية الرملی تجريد الشوبری: ج۵، ص۴۳۵]




ملا علی قاری حنفیؒ(م1014ھ) فرماتے ہیں: یہ اس بات پر تو اتفاق اور اجماع ہے کہ اللہ نے مکہ اور مدینہ کو افضل بنایا اور شرف و تعظیم سے مالا مال کیا ہے۔ لیکن پھر اس میں اختلاف ہے کہ ان دونوں میں زیادہ افضل کون ہے۔ بعض نے کہا مکہ مدینے سے افضل ہے اور یہ آئمہ ثلاثہ کا مذہب ہے اور بعض صحابہ سے مروی ہے۔ اور بعض نے کہا مدینہ مکے سے افضل ہے اور یہ قول ہے بعض مالکی اور شافعی علماء کا اور بعض نے کہا دونوں کے درمیان توازن ہے۔ پھر فرمایا لیکن یہ اختلاف قبر مبارک کو خارج بحث کرکے ہے کیونکہ جمہور نے فرمایا جہاں آنحضرت ﷺ کے اعضاءِ شریفہ ضم زمین ہیں وہ ٹکڑا اجماع کے مطابق تمام زمین سے افضل ہے حتیٰ کہ کعبہ اور عرش سے بھی‘‘۔
[المسلك المتقسط فی المنسك المتوسط: ص۲۸۷-۲۸۸]




امام زين العابدين الحدادی المناوی القاهری الشافعیؒ(م1031ھ)فرماتے ہیں کہ:
مکہ ومدینہ کی افضلیت کے بارے میں جو اختلاف ہے وہ کعبہ کو چھوڑ کر ہے کہ کعبہ مدینہ سے افضل ہے سوائے مدینہ کی اس جگہ کو چھوڑ کر جو نبی کریم ﷺ اعضاء مبارکہ کو مس ہورہی ہے، کیونکہ وہ کعبہ سے افضل ہے۔ قاضی عیاضؒ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے‘‘۔
[فيض القدير شرح الجامع الصغير: ج 6 ص 264]




اس بات پر امت کا اجماع ہے کہ آپ ﷺ کی قبر شریف روئے زمین میں سب سے افضل ہے‘‘۔ اس کے حاشیہ میں امام عبد الرحمٰن بن محمد بن سليمان أفندی المالكیؒ(م1078ھ)لکھتے ہیں:
’’نبی کریم ﷺ کی قبر مبارک کی زیارت تمام مستحبات میں سب سے زیادہ افضل ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ قبرِ مبارک کی زیارت واجبات میں سے ہے۔ حج کے موقع پر ابتداء کہاں سے کی جائے تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر حج فرض ہو تو پہلے حج کیا جائے پھر بعد میں جاکر زیارتِ روضۂ رسول ﷺ کی جائے اور اگر حج نفل ہو تو اس میں (حاجی کو) اختیار ہے کہ چاہے تو پہلے جاکر زیارت کرے پھرحج کرلے یا پھر پہلے حج کرلے بعد میں زیارت کرے۔ اور وہ جگہ جو نبی کریم ﷺ کے اعضاءِ شریفہ سے مس ہے وہ کعبہ، کرسی اور ﷲ کےعرش سے بھی افضل ہے‘‘۔
[مجمع الأنهر فی شرح ملتقى الأبحر: ج۱، ص۳۱۲]



امام محمد الزرقانی المالكیؒ(م1122ھ)لکھتے ہیں:
اور اس پر اجماع ہے کہ وہ مقام جو أعضاءِ الشريفة  سے ملے ہوئے ہیں ﷺ کے  وہ افضل ہیں باقی زمین سے حتیٰ کہ کعبه سے بھی جیسا کہ ابن عساکر اور الباجی اور قاضی عیاض نے کہا بلکہ التاج السبکی کہتے ہیں کہ  السيد السمهودی نے کتاب میں ابن عقیل حنبلی سے نقل کیا ہے کہ یہ تو عرش سے بھی افضل ہے اورالفاكهانی نے صراحت کی ہے کہ سات آسمانوں سے بھی افضل ہے‘‘۔
[شرح الزرقانی على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية: الفصل الثانی فی زيارة قبره الشريف ومسجده المنيف، ج۱۲، ص۲۳۴]


إمام النفراوی الأزهری المالكیؒ(م1126ھ) فرماتے ہیں کہ:
ابن عبد السلام فرماتے ہیں کسی چیز کو فضیلت دینا اس بات پر مبنی ہے کہ کہاں پرعمل کرنے سے ثواب زیادہ ملتا ہے، اور جو اختلاف ہے مکہ ومدینہ کے بارے میں ہے وہ یہ ہے کہ کہاں پر ثواب زیادہ ملتا ہے، وہ اختلاف نبی کریم ﷺ کی قبر مبارک کو چھوڑ کر ہے اس لیے کہ اس کی افضلیت پر اجماع نقل ہوتا آیا ہے۔ اس کی افضلیت پر اجماع قائم ہے کہ وہ تمام زمین وآسمان وعرش اور کعبہ سے افضل ہے جیسا کہ امام سبکی نے اس کو نقل کیا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ وہ نبی کریم ﷺ کے اعضاءِ مبارکہ جو کہ تمام مخلوقات میں سب سے افضل ہے اس کو مس ہورہی ہے، اوریہاں پر فضیلت کا معنیٰ یہ ہوسکتا ہے کہ حرمت کے اعتبارسے قبر مبارک عظیم ہے۔ اس کی وہ وجہ نہیں ہے جو ابن عبدالسلام نے بیان فرمائی ہے کہ کہاں پر ثواب زیادہ ملتا ہے اور کہاں پر کم، اس اعتبار سے اس کی افضلیت نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ دوسری ہے‘‘۔
[الفواكه الدوانی على رسالة ابن أبی زيد القيروانی: ج۱، ص۴۲۲]





فقہ حنفی کے عظیم فقیہ النفس محدث وقت علامہ محمد امین عمر بن عبدالعزیز ابن عابدین الشامی الدمشقیؒ(م1252ھ) فرماتے ہیں:
اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں کہ قبرَ مقدس اور وہ جگہ جس سے آپ ﷺ کے اعضاءِ مبارکہ مس کیے ہوئے ہیں یہ روئے زمین کے سب مقامات سے افضل ہے اور اس پر امت مسلمہ کا اجماع ہے۔ حضرت قاضی عیاضؒ نے قبرمبارک کے کعبۃ اللہ پر افضل ہونے میں امت کا اجماع نقل فرمایا ہے۔ امام ابن عقیل حنبلیؒ سے نقل کیا گیا ہے کہ یہ جگہ عرشِ معلیٰ سے بھی افضل ہے اور رؤسأبکریون نے بھی اس بات پر امام ابن عقیلؒ کی موافقت کی ہے۔ امام تاج الفاکھی ؒ نے بھی اس بات کی تصریح کی ہے کہ قبرمبارک کی جگہ آسمان زمین کے سب مقامات سے زیادہ مقدس ومطہرہے کیونکہ یہ جگہ خود نبی کریم ﷺ کو مس کیے ہوئے ہے اس طرح علمائے کرام کی جماعت انبیاء کرام ؑ کے خمیر کی جگہ اور مدفن کو اعلیٰ و اشرف بتاتی ہے‘‘۔ [ردالمختار علیٰ الدر المختارشرح تنویرالأبصار: ج ۴، ص ۵۳]



شیخ احمد بن محمد الحضراویؒ(م1327ھ)فرماتے ہیں:
اس بات پر اجماع امت ہے کہ رسول ﷲ ﷺ کے اعضاء ِمقدسہ کے ساتھ جو جگہ ملی ہوئی ہے وہ ہر شئے سے افضل ہے یہاں تک کہ عرش سے بھی افضل ہے۔ اس اجماع کو قاضی عیاض المالکیؒ(م544ھ)، قاضی ابوالولید الباجی المالکیؒ(م474ھ)، امام ابو القاسم ابن عساکر الشافعیؒ(م571ھ) اور دیگر علماء نے نقل کیا ہے اور اس مقدس مکان کی کعبہ شریف پر افضل ہونے کی صراحت کی ہے بلکہ امام تاج الدین سبکیؒ(م756ھ) نے ابن عقیل حنبلیؒ(م513ھ)سے نقل کیا ہے کہ یہ جگہ عرش سے بھی افضل ہے۔ اور الفاكهانیؒ(م734ھ) نے صراحت کی ہے کہ سات آسمانوں سے بھی افضل ہے‘‘۔ 
[إزالة الدهش والوله عن المتحير فی صحة حديث ماء زمزم لما شرب له للمحمد بن إدريس القادری، تخريج : محمد ناصر الدين الألبانی:  ص43]












إمام النوویؒ(م676ھ)صحیح مسلم کی حدیث کہ رسول ﷲﷺ نے فرمایا:
میں اولادِ آدم کا سردار ہوں گا، قیامت کے دن اور سب سے پہلے میری قبر پھٹے گی اور سب سے پہلے میں شفاعت کروں گا اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول ہوگی"
کے بارے میں فرماتے ہیں:
اس حدیث سے یہ نکلا کہ آپ ﷺ تمام مخلوقات سے افضل ہیں کیونکہ اہلِ سنت کے نزدیک آدمی ملائکہ سے افضل ہیں اور دوسری حدیث میں جو آتا ہے پیغمبروں میں ایک دوسرے پر بزرگی نہ دو اس کا جواب یہ ہے کہ شاید یہ حدیث اس سے پہلے کی ہے، بعد اس کے آپ ﷺ کو معلوم ہوا کہ آپ ﷺ سب سے افضل ہیں‘‘۔
[صحیح مسلم: کتاب الفضائل، باب تَفْضِيلِ نَبِيِّنَا صلى الله عليه وسلم عَلَى جَمِيعِ الْخَلاَئِقِ، ج۶، حاشیہ رقم الحدیث ۲۲۷۸]



امام ابن القیم حنبلیؒ(م751ھ) فرماتے ہیں:
ابن عقیل حنبلیؒ نے کہا کہ سائل نے پوچھا کہ نبی کریم ﷺ کا حجرہ افضل ہے یا کعبہ؟ جواب دیا اگر تمہارا ارادہ خالی حجرہ ہے تو پھر کعبہ افضل ہے اور اگر تمہاری مراد وہ ہے جو اس میں ہے [یعنی روضۃ الرسول ﷺ جہاں پر مدفون ہیں] تو پھر اللہ کی قسم نہ عرش افضل ہے، نہ اس کے تھامنے والے فرشتے، نہ جنت عدن، اور نہ ہی پوری دنیا۔ اگر حجرے کا وزن جسد کے ساتھ کیا جائے تو وہ تمام کائنات اور جو کچھ اس میں ہے اس سے بھی افضل ہوگا‘‘۔
[بدائع الفوائد :ج۱، ص۱۰۶۵]


امام بدرالدین الزرکشی الشافعیؒ(م794ھ) فرماتے ہیں:
حضور اکرم ﷺ کے اعضاءِ مقدسہ کے ساتھ جو جگہ ملی ہوئی ہے وہ "مجاورت" کی وجہ سے افضل ہے، اسی وجہ سے محدث(بےوضو) کا قرآن پاک کی جلد کو چھونا جائز نہیں ہے‘‘۔
[وفاء الوفا باخبار دار المصطفی: الباب الثانی، الفصل الأول فی تفضيلها على غيرها من البلاد، مكة أفضل أم المدينة، ج۱، ص۲۹]





حافظ ابن حجرعسقلانی الشافعیؒ(م852ھ) لکھتے ہیں:
شيخ أبی بكر ابهری البغدادی المالكیؒ(م375ھ) فرماتے ہیں کہ مدینہ مکہ سے افضل ہے اور دلیل اس کی یہ دیتے ہیں کہ  نبی کریم ﷺ کی پیدائش مدینہ کی مٹی سے ہوئی ہے، کیونکہ آپ ﷺ تمام مخلوقات میں سب سے افضل ہیں لہٰذا وہ مٹی بھی تمام مٹی سے افضل ہوئی، اس میں کسی کا اختلاف نہیں‘‘۔
[فتح الباری شرح صحيح البخاری: ج۱۳، ص۳۲۰]



شیخ المحقق كَمَال الدين ابن إمام الكاملية الشافعیؒ(م874ھ) سورۃ الصف کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:
صحیح بات یہ ہے کہ انبیاءؑ کی جگہیں اور ان کی روحیں ما سواء تمام زمین و آسمان سے اشرف ہیں، اور جو اختلاف ہے وہ ان جگہوں کے علاوہ میں ہے جیسا کہ شیخ الاسلام بلقینیؒ نے فرمایا ہے‘‘۔
[وفاء الوفا باخبار دار المصطفی: الباب الثانی، الفصل الأول فی تفضيلها على غيرها من البلاد، مكة أفضل أم المدينة، ج۱، ص۲۹]




علاء الدين أبو الحسن علی بن سليمان المرداوی الدمشقی الصالحی الحنبلیؒ(م885ھ)فرماتے ہیں:
صحیح مذہب کے مطابق مدینہ مکہ سے افضل ہے، اور زیادہ تر اصحاب اور قاضی عیاض اور ان کے شاگردوں نے اسی کی تائید فرمائی ہے اور اس کو ابوطالب کی روایت سے لیا گیا ہے کہ ان سے مکہ کا پڑوس اختیار کرنے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے تو مدینہ کے بارے میں فرمایا ہے کہ تو مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ ابن حامد وغیرہ نے اسی کو اختیار کیا ہے کہ مدینہ افضل ہے۔ اور ابن عقیل حنبلیؒ کتاب الفنون میں فرماتے ہیں: مجرد حجرۂ مبارک سے کعبہ شریف افضل ہے لیکن چونکہ نبی کریم ﷺ کا جسم مبارک اس میں ہے تو اللہ کی قسم! اب نہ کعبہ، نہ عرش، نہ اس کو اٹھانے والے فرشتے، اور نہ ہی جنت اس سے افضل ہو سکتی ہے۔ اور اگر ساری مخلوق کو حجرہ شریف کے ساتھ تولہ جائے تو بھی وزنی ہو گا۔ قبر کی مٹی پر علماء کا جو کلام ہے اس میں بھی اختلاف ہے، بعض اس کو افضل قراردیتے ہیں اور بعض نہیں۔ شیخ تقی الدین فرماتے ہیں: میں نہیں جانتا کہ کسی نے قبر کی مٹی کو کعبہ سے افضل قراردیا ہو سوائے قاضی عیاض کے، ان سے پہلے اس معاملے میں کسی نے پہل نہیں کی۔ الارشاد اور دوسری کتابوں میں کہا گیا ہے کہ اختلاف کی وجہ وہاں سکونت اختیار کرنے میں ہے، البتہ قبر کی مٹی کی افضلیت کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ اور نمازوں کی افضلیت کے بارے میں تو مکہ افضل ہے‘‘۔
[الإنصاف فی معرفة الراجح من الخلاف للمرداوی: ج۳، ص۵۶۲]





امام شمس الدين الشامی الشافعیؒ(م942ھ) فرماتے ہیں:
امام سبکیؒ اور قاضی عیاضؒ کے قول کے مطابق اس کے خلاف کوئی نہیں کہ نبی ﷺ کی قبر مبارک تمام زمین سے افضل ہے۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے نبی ﷺ تمام مخلوقات میں سب سے افضل ہیں اور مخلوقات میں ﷲ تعالیٰ کے نزدیک آپ ﷺ سے زیادہ عزت دار کوئی نہیں ہے، نہ ہی آسمانوں میں اور نہ ہی زمین میں، اور یہ بات میں نے باب اوّل میں خصائص میں بھی فرمائی ہے‘‘۔
[سبل الهدى والرشاد فی سيرة خير العباد: ج۱۲، ۳۵۳]




قطب الدين محمد بن علاء الدين علی بن أحمد النهروانی حنفیؒ(م988ھ) لکھتے ہیں: آپ ﷺ کی قبر شریف روئے زمین میں سب سے افضل ہے اور ﷲ تعالیٰ کے نزدیک آپ ﷺ تمام مخلوقات میں سب سے افضل واکرم ہیں۔ کیونکہ آپ ﷺ تمام مخلوقات میں سب سے افضل ہیں لہٰذا وہ مٹی بھی تمام مٹی سے افضل ہوئی‘‘۔
[تاريخ المدينة لقطب الدين النهروانی: ص۱۸۶]




نور الدین بن برہان الدین حلبی الشافعیؒ(م1043ھ) فرماتے ہیں:
جہاں تک مدینہ کے مقابلے میں مکہ کی افضلیت کی بحث ہے تو اس سے مراد اس جگہ کے علاوہ مدینہ کے دوسرے حصے ہیں جہاں آنحضرت ﷺ آرام فرما رہے ہیں کیونکہ جہاں تک مزار مبارک کی جگہ کا تعلق ہے تو اس پرعلماء کا اتفاق ہے کہ وہ روئے زمین کا سب سے افضل حصہ ہے بلکہ یہاں تک کہ عرش اور کرسی سے بھی زیادہ افضل جگہ ہے‘‘۔
[سیرۃ حلبیہ [اردو]: ج ۲ ص ۸۵]



امام منصوربن ادریس بہوتی حنبلیؒ(م1051ھ)لکھتے ہیں:
مجرد حجرہ مبارک سے کعبہ شریف افضل ہے لیکن چونکہ نبی کریم ﷺ کا جسم مبارک اس میں ہے تو اللہ کی قسم! اب نہ کعبہ نہ عرش نہ اس کو اٹھانے والے فرشتے اور نہ ہی جنت اس سے افضل ہو سکتی ہے اور اگر ساری مخلوق کو حجرہ شریف کے ساتھ تولہ جائے تو بھی وزنی ہو گا‘‘۔
[شرح منتهى الإرادات: ج۱، ص۵۲۷-۵۶۸]



علامہ حصفکی حنفیؒ(م1088ھ)فرماتے ہیں کہ:
ہمارے نزدیک مدینہ سے بڑھ کر کوئی مقدس جگہ نہیں البتہ مکہ مدینے سے افضل ہے الا یہ کہ اگر نبی ﷺ کے اعضاء [اس مٹی سے] مس ہوں تو مدینہ [کی مٹی] بلکل افضل ہے حتیٰ کہ کعبہ، عرش اور کرسی سے بھی اور ہمارے نزدیک روضۃ الرسول ﷺ مندوب ہے۔ بلکہ واجب ہے جس کی استطاعت ہو‘‘۔
[الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار: ص ۱۷۵]


امام محمد بن عبد الله الخرشی المالكیؒ(م1101ھ)فرماتے ہیں:
ائمہ کرام کے درمیان جو افضلیت کا معاملہ ہے، اس میں امام مالک اور اکثر اہل مدینہ کے نزدیک مدینہ مکہ سے افضل ہے۔ امام شافعی، امام ابوحنیفہ، امام احمد کے بارے میں مشہور ہے کہ ان سب کے نزدیک مکہ مدینہ سے افضل ہے۔ یہ جو اختلاف ہے یہ قبرِ مبارک کو چھوڑکرہے کیونکہ نبی مصطفیٰ ﷺ کے اعضاءِ شریفہ سے ضم زمین تمام زمین وآسمان سے افضل ہے‘‘۔
[شرح مختصر خليل للخرشی: ج۳، ص۱۰۷]




امام محمد بن عبد الله الخرشی المالكیؒ(م1101ھ) فرماتے ہیں:
صرف وہ جگہ جو رسول ﷲ ﷺ کے اعضاءِ شریفہ سے مس ہے، وہ تمام زمین میں ہر چیز سے افضل ہے، یہاں تک کہ کعبہ، آسمان، عرش، کرسی، لوح و قلم اور بیت المعمور سے بھی افضل ہے، اس میں پوری قبر مراد نہیں۔ اس کے علاوہ کعبہ تمام مدینہ سے افضل ہے، اس پر اتفاق ہے۔ اور جمہور نے مسجد حرام اور مسجد نبوی ﷺ کو کعبہ کے بعد افضل قراردیا ہے اور پھر حضور ﷺ کی قبر کا بقیہ حصہ افضل ہے پھر مدینہ افضل ہے‘‘۔
[شرح مختصر خليل للخرشی: ج۳، ص۱۰۷]



امام محمد المھدی الفاسی المالکیؒ(م1109ھ)لکھتے ہیں:
’’آسمان زمین سے افضل ہے، لیکن زمین کا وہ ٹکڑا جس کے ساتھ نبی کریم ﷺ کے اعضاءِ شریفہ مس ہیں وہ آسمانوں پر عرش، کرسی، جنت، لوح وقلم، بیت المعمور اور معصوم ومکرم فرشتوں کی قیام گاہوں سے بھی افضل ہے‘‘۔
[مطالع المسرات شرح دلائل الخیرات[اردو]: ص۶۹۷]





امام سليمان البجيرمی المصری الشافعیؒ(المتوفی: ۱۲۲۱ھ) لکھتے ہیں کہ:
امام الرملی حاشیہ میں فرماتے ہیں: حرم کی جتنی بھی زمین ہے وہ مکہ کی تمام سرزمین سے افضل ہے ان احادیث صحیحہ کی بنیاد پر جس میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے۔ اور ابن عبدالبرؒ وغیرہ نے بھی یہی فرمایا ہے کہ مکہ میں تمام جگہوں سے افضل کعبۃ ﷲ ہے اور اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اﷲعنہا کا گھر ہے۔ البتہ اِن تمام جگہوں سے افضل وہ مٹی ہے جو نبی کریم ﷺ کے جسدِ اطہر سے مس ہے، حتیٰ کہ عرش سے بھی افضل ہے‘‘۔
[البجيرمی على الخطيب: ج۱، ص۱۰۱]



شیخ مصطفىٰ بن سعد بن عبده السيوطی الرحيبانى الدمشقی الحنبلیؒ(م1243ھ) فرماتے ہیں:
نبی کریم ﷺ کی قبر انور کی جگہ ساری زمین سے افضل ہے کیونکہ آپ ﷺ کا جسد ِمبارک اسی جگہ کی مٹی سے بنا ہے اور آپ ﷺ ساری بشریت سے افضل ہیں تو آپ ﷺ کی نسبت سے وہ مٹی بھی سب سے افضل ہو گی اور اگر یہ نسبت نہ ہو تو کعبہ شریف اس مٹی سے افضل ہے‘‘۔ آگے فرماتے ہیں: ’’ابو وفاء علی بن عقیلؒ لکھتے ہیں مجرد حجرہ مبارک سے کعبہ شریف افضل ہے لیکن چونکہ نبی کریم ﷺ کا جسم مبارک اس میں ہے تو اللہ کی قسم اب نہ کعبہ نہ عرش نہ اس کو اٹھانے والے فرشتے اور نہ ہی جنت اس سے افضل ہو سکتی ہے اور اگر ساری مخلوق کو حجرہ شریف کے ساتھ تولہ جائے تو بھی وزنی ہو گا‘‘۔
[مطالب أولی النهى فی شرح غاية المنتهى: فَرْعٌ مَوْضِعُ قَبْرِهِ أَفْضَلُ بِقَاعِ الْأَرْضِ، ج۲، ص۳۸۴]



غیرمقلد عالم امام شوکانیؒ(م1250ھ)لکھتے ہیں:
قاضی عیاض المالکیؒ فرماتے ہیں: کہ نبی ﷺ کی قبر مبارک تمام زمین سے افضل ہے، جیساکہ مکہ اور مدینہ تمام زمین سے افضل ہیں۔ اور قاضی عیاضؒ نے اس پر پوری امت کے اتفاق کا دعویٰ کیا ہے  کہ کیونکہ نبی ﷺ کو اسی مٹی سے بنایا گیا اس لیے وہ سب سے افضل ہے‘‘۔
[نيل الأوطار شرح منتقى الأخبار: ج۵، ص۳۳]



عظیم مفسر، محدث، فقیہ اور مشہور عربی تفسیر روح المعانی کے مؤلف امام شہاب الدین محمود آلوسی بغدادی الشافعیؒ(م1270ھ)فرماتے ہیں:
بےشک تمام زمانے اور مقامات میں اپنی ذات کے اعتبار سے کسی کو کسی پر فضیلت حاصل نہیں ہے، مگر وہ مقام الگ ہے جس میں اچھے اعمال وغیرہ کیے جائیں یا زمین کی وہ جگہ جو آپ ﷺ کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔ یہ قبر اطہر زمین وآسمان کے سب خطوں سے افضل ہے یہاں تک بھی کہا گیا ہے اور میں(علامہ آلوسیؒ) بھی اس کا قائل ہوں کہ قبرِ اطہر عرشِ معلیٰ سے بھی افضل ہے‘‘۔
[تفسیر روح المعانی: 13/ 111، سورۃ الدخان، آیت 1-14]

’’امام محمود آلوسی بغدادی الشافعیؒ لکھتے ہیں:
اور حق جاننے کیلئے تجھے اس بات کا تجسس و تتبع کافی ہے جو اصحابِ رسول اللہ ﷺ نے رسول کریم ﷺ کی قبر کے بارے میں کیا اور وہ روئے زمین پر سب سے افضل قبر ہے بلکہ عرش سے بھی افضل ہے‘‘۔
[تفسیر روح المعانی: ج۱۵، سورۃ الکھف، آیت ۱۲، ص۲۳۹]



شیخ محمد بن احمد علیش مالکیؒ(م1299ھ) قاضی عیاضؒ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے ابن حبیب سے ابن وھب کے ذریعہ سے نقل کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ امام الباجی نے اس مسئلے میں توقف کیا ہے جو کہ اشارہ ہے کہ اعضاء ِمقدسہ سے جو جگہ ملی ہوئی ہے اس کے علاوہ باقی جگہوں کی تفضیل میں اختلاف ہے، لیکن حضور نبی رحمت ﷺ کے اعضاءِ مقدسہ کے ساتھ جو جگہ ملی ہوئی ہے وہ ہر چیز سے افضل ہے، یہاں تک کہ عرش، کرسی، لوح و قلم اور بیت المعمور سے بھی افضل ہے‘‘۔
[منح الجليل شرح مختصر الخليل: ج۳، ص۱۳۳]





مشہور غیر مقلد عالم مترجم صحاح ستہ علامہ وحید الزمان صدیقی حمتللہعلیہ (المتوفی: ۱۳۳۸ھ)لکھتے ہیں: ’’سلف نے اختلاف کیاہے کہ دونوں شہروں میں کون سا افضل ہے، جمہور علماء اس طرف گئے ہیں کہ مکہ افضل ہے اور یہی قول ہے شافعیؒ ، ابن وہبؒ ، مطرف اور ابن حبیبؒ کا اور یہی مذہب ہے ابو حنیفہؒ اور اصحابِ ابو حنیفہؒ کا اور اسی کو اختیار کیا ہے۔ ابن عبد البرؒ اور ابن رشدؒ اور ابن عرفہؒ اور حضرت عمرؓ اور ایک جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم نے اور اکثر اہلِ مدینہ اور امام مالکؒ اور ان کے اصحاب کا قول یہ ہے کہ مدینہ افضل ہے۔ بعض شوافع نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے اور جانبین کی طرف دلائل بہت ہیں یہاں تک کہ ابن ابی حمزہؒ نے کہا کہ دونوں شہر برابر ہیں اور سیوطیؒ نے کہا کہ صحیح یہ ہے کہ اس مسئلے میں توقف کرے کیونکہ دلائل ایک دوسرے کے معارض ہیں اور نفس مائل ہوتا ہے مدینہ منورہ کی تفضیل کی طرف۔ پھر کیا ہے جب صاحب ِعقل اور صاحبِ علم تامل کرے تو معلوم ہوتا ہے کہ مکہ کو جو فضیلت ملی ہے اس قدر یا اس سے بہتر مدینہ کو بھی ملی ہے۔ بلکہ سیوطیؒ نے خصائص میں جزم کیا ہے مدینہ کے افضل ہونے کا اور محل خلاف اس مقام کے سوا ہے جہاں پر آنحضرت ﷺ کا جسد مبارک مدفون ہے اتنا ٹکڑا تو زمین اور آسمان سے بھی افضل ہے، اسی طرح جس مقام پر کعبہ ہے وہ مدینہ سے افضل ہے۔ (زرقانی)‘‘۔
[مؤطا امام مالکؒ مترجم: کتاب الجامع، مدنیہ کی فضیلت کا بیان، ص۵۹۹]


مشہور سعودی عالم اور استادِ حرم علوی بن عباس المالکیؒ کے بیٹے سید محمد علوی المالکیؒ(م1425ھ) لکھتے ہیں:
آپ ﷺ کی قبر شریف روئے زمین میں سب سے افضل ہے اور ﷲ تعالیٰ کے نزدیک آپ ﷺ تمام مخلوقات میں سب سے افضل اور اکرم ہیں۔ کیونکہ آپ ﷺ تمام مخلوقات میں سب سے افضل ہیں، لہٰذا وہ مٹی بھی تمام مٹی سے افضل ہوئی‘‘۔
[منهج السلف فی فهم النصوص بين النظرية والتطبيق: ص64]











حضرت عمرؓ حجرِ اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دیا اور فرمایا "میں خوب جانتا ہوں کہ تو صرف ایک پتھر ہے، نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع۔ اگر رسول اللہ ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے میں نہ دیکھتا تو میں بھی کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا‘‘۔
[صحیح البخاری: کتاب الحج، باب مَا ذُكِرَ فِي الْحَجَرِ الأَسْوَدِ، ج۲، رقم الحدیث ۱۵۹۷]

ہم سب یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ حجراسودکعبہ کے اندرنسب ہے، اس کامطلب حجراسودکعبہ میں نسب باقی اینٹوں اوردرودیوارکی طرح کعبہ کا حصہ ہے۔ اوربقول انجنیئرصاحب اوران کے حواریوں کےکعبہ ﷲ کا گھرہے۔ اس کے باوجود بھی حضرت عمرؓ نے حجر اسود(یعنی کعبہ کےحصہ کو)صرف اس لیے بوسہ دیاکہ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے اسے بوسہ دیا تھا۔
کیا حضرت عمرؓ کو یہ بات معلوم نہیں تھی کہ حجر اسود کعبہ کا حصہ ہے اور کعبہ ﷲ تبارک وتعالیٰ کا گھر ہے؟ لہٰذا ﷲ تبارک وتعالیٰ کا گھر تو رسول ﷲ ﷺ سے بھی افضل ہوا۔ حضرت عمررضی اﷲعنہ حجراسودکوبوسہ دیتے ہوئےیہ بھی توکہہ سکتے تھے کہ’’ کیونکہ تواﷲکےگھرمیں نسب ہے اس لئے میں تجھے بوسہ دیتاہوں‘‘، لیکن آپؓ نے ایسانہیں فرمایابلکہ آپؓ نے بوسہ دینے کی وجہ رسول اﷲﷺ کابوسہ دینابتائی کیونکہ آپؓ یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اﷲتعالیٰ جہت ومکان کی قیدسے منزہ ومبرہ ہے۔ اوراﷲتبارک وتعالیٰ نے کعبۃ اﷲکومجازاًاپناگھرنتایاہے۔ اس کے برعکس رسول اﷲﷺکی ذات مبارکہ اس کائنات میں سب سے افضل ہے۔
قارئین کرام! ذرا غور فرمائیں کہ حضرت عمرؓ نے حجر اسود کو بوسہ دینے کا سبب رسول ﷲ ﷺ کا بوسہ دینا ہی بتایا حالانکہ آپ ﷺ نے حجر اسود کا بوسہ غالباً صرف ایک ہی بار لیا تھا، لہٰذا حجر اسود قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لیے افضل ترین پتھربن گیا تو پھر وہ مٹی جو رسول ﷲ ﷺ کے جسدِ اطہرسے قیامت تک کے لیے مس ہے بھلا وہ کعبہ سے افضل کیسے نہ ہوئی؟




حمید بن عبدالرحمٰن نے کہا کہ میں نے معاویہؓ سے سنا۔ وہ خطبہ میں فرما رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرے اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے اور میں تو محض تقسیم کرنے والا ہوں، دینے والا تو اللہ ہی ہے اور یہ امت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی اور جو شخص ان کی مخالفت کرے گا، انہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ اللہ کا حکم ( قیامت ) آ جائے ( اور یہ عالم فنا ہو جائے )‘‘۔
[صحيح البخاری :كتاب العلم،باب مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، رقم الحديث:۷۱]


اجماع کی حجیت: کے بارے میں امام بخاریؒ صحیح بخاری میں پورا باب نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’بَابُ مَا ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَضَّ عَلَى اتِّفَاقِ أَهْلِ العِلْمِ، وَمَا أَجْمَعَ عَلَيْهِ الحَرَمَانِ مَكَّةُ، وَالمَدِينَةُ، وَمَا كَانَ بِهَا مِنْ مَشَاهِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالمُهَاجِرِينَ، وَالأَنْصَارِ، وَمُصَلَّى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالمِنْبَرِ وَالقَبْرِ‘‘۔
’’باب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان، اور مدینہ میں جو نبی ﷺ اور مہاجرین انصار کے متبرک مقامات ہیں اور نبی ﷺ کے نمازگاہ اور منبر اور قبر کا بیان‘‘۔
[صحیح البخاری: كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، ج۹، ص۲۷۹]





امام مالکؒ نے اہلِ مدینہ کا اجماع بھی حجت قراردیا ہے۔ امام بخاریؒ کے کلام سے یہ نکلتا ہے کہ اہلِ مکہ اور اہلِ مدینہ دونوں کا اجماع بھی حجت ہے، امام بخاریؒ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اہلِ مدینہ اور اہلِ مکہ کا اجماع حجت ہے بلکہ ان کا مطلب یہ ہے کہ اختلاف کے وقت اس جانب کو ترجیح ہوگی جس پر اہل مکہ اور مدینہ اتفاق کریں‘‘۔
[فتح الباری شرح صحيح البخاری: كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، قَوْلُهُ بَابُ مَا ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَضَّ،ج۱۲، ص۳۰۶]


اس اجماع کے دعویدار صرف حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی ائمہ دین ہی نہیں بلکہ غیرمقلد عالم علامہ شوکانیؒ اور وحیدالزمان صدیقی صاحب بھی ان میں شامل ہیں اور امت مسلمہ کی ۱۰۰۰ سالہ تاریخ میں سوائے ابن تیمیہؒ کے کسی اور سے اس اجماع کی مخالفت ثابت نہیں۔ اجماع کے اس دعوے کو علماءِ امت نے قبول بھی کیا ہے اور اجماع قرار دیا ہے۔ انہوں نے اسے یہ نہیں کہا کہ یہ زورِ بیان میں اجماع قرار دیا گیا ہے، نہ ہی انہوں نے اس کا انکار کیا ہے۔

شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ(المتوفی: ۷۲۸ھ)  کا مؤقف:

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں: ’’أَمَّا نَفْسُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا خَلَقَ اللَّهُ خَلْقًا أَكْرَمَ عَلَيْهِ مِنْهُ۔ وَأَمَّا نَفْسُ التُّرَابِ فَلَيْسَ هُوَ أَفْضَلَ مِنْ الْكَعْبَةِ البيت الْحَرَامِ بَلْ الْكَعْبَةُ أَفْضَلُ مِنْهُ وَلَا يُعْرَفُ أَحَدٌ مِنْ الْعُلَمَاءِ فَضَّلَ تُرَابَ الْقَبْرِ عَلَى الْكَعْبَةِ إلَّا الْقَاضِي عِيَاضٌ وَلَمْ يَسْبِقْهُ أَحَدٌ إلَيْهِ وَلَا وَافَقَهُ أَحَدٌ عَلَيْهِ۔ وَاَللَّهُ أَعْلَمُ‘‘۔ ’’محمد کی ذات مبارکہ تمام مخلوقات میں معززواکرم ہے۔ لیکن آپکے جسداطہرسے مس مٹی کعبہ اورمسجدالحرام سے افضل نہیں ہےبلکہ کعبہ افضل ہے۔ علماء میں کوئی بھی ایسا نہیں جس نے قبرکی مٹی کوکعبہ سے افضل قراردیاہوسوائے قاضی عیاض کے، آپ سے پہلے کسی نےبھی اس بات کوبیان نہیں کیااورناہی کسی نے اس معاملے میں قاضی عیاض کی موافقت کی ہے‘‘۔ (مجموع الفتاوى: ج۲۷، ص۳۸)

شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ کامقام ومرتبہ اوردینی خدمات کے ہم سب معترف ہیں، خاص طورپرآپؒ نے شیعوں اورتاتاریوں کے خلاف دین کی بہت خدمت کی ہے۔ لیکن ہم سب اس بات سے بھی اچھی طرح باخبرہیں کہ ابن تیمیہؒ نے بہت سے اجماعی مسائل میں پوری امت مسلمہ سے اختلاف کیاہے جس میں تین طلاقوں کامسئلہ قابل ذکرہے۔

الجواب: ہم یہ نہیں گہیں گے کہ ابن تیمیہؒ کا مؤقف ۱۰۰ فیصدغلط ہے، کیونکہ انہوں نے اپنے علم کے مطابق بات کی ہے۔ ابن تیمیہؒ کایہ کہناکہ قاضی عیاضؒ سے پہلے کسی نے یہ بات بیان نہیں کی اوراس معاملے میں کسی نے ان کی موافقت نہیں کی، ٹھیک نہیں ہےکیونکہ قاضی عیاضؒ سے پہلے ابن عبدالبرالمالكی ؒاورامام ابن عقیل حنبلی نے بھی بالکل یہی بات بیان کی ہے جن کے حوالے ہم اوپرپیش کرچکے ہیں۔ اورقاضی عیاضؒ بھی کوئی عام سی شخصیت نہیں ہیں کہ کسی ایک شخص نے کہا ہواور انہوں نے اسے ’’لاخلاف‘‘کے الفاظ سے بطور اجماع نقل کر دیا ہواورعلماء امت نےبھی اسے اجماع مان لیاہو۔ ہاں اگر اس مسئلےکے خلاف علماءکےاقوال موجود ہوتے تو ہم یہ کہہ سکتے تھے کہ قاضی عیاضؒ کو اجماع کے دعویٰ میں غلطی ہوئی ہے لیکن ہمیں ایسا کہیں نظرنہیں آتابلکہ علماء نےہردورمیں اس مسئلے اوردعویٰ اجماع کومن عن تسلیم کیاہے۔ لہٰذا یہاں یہ تسلیم کیئے بغیرچارہ ہی نہیں کہ ابن تیمیہؒ سےاس مسئلے کوبیان کرنےمیں غلطی ہوئی ہے۔

’’وَقَدْ ثَبَتَ فِي الصَّحِيحِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: {أَحَبُّ الْبِقَاعِ إلَى اللَّهِ الْمَسَاجِدُ} فَلَيْسَ فِي الْبِقَاعِ أَفْضَلُ مِنْهَا وَلَيْسَتْ مَسَاكِنُ الْأَنْبِيَاءِ لَا أَحْيَاءً وَلَا أَمْوَاتًا بِأَفْضَلَ مِنْ الْمَسَاجِدِ۔ هَذَا هُوَ الثَّابِتُ بِنَصِّ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاتِّفَاقِ عُلَمَاءِ أُمَّتِهِ۔ وَمَا ذَكَرَهُ بَعْضُهُمْ مِنْ أَنَّ قُبُورَ الْأَنْبِيَاءِ وَالصَّالِحِينَ أَفْضَلُ مِنْ الْمَسَاجِدِ وَأَنَّ الدُّعَاءَ عِنْدَهَا أَفْضَلُ مِنْ الدُّعَاءِ فِي الْمَسَاجِدِ حَتَّى فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْمَسْجِدِ النَّبَوِيِّ۔ فَقَوْلٌ يُعْلَمُ بُطْلَانُهُ بِالِاضْطِرَارِ مِنْ دِينِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُعْلَمُ إجْمَاعُ عُلَمَاءِ الْأُمَّةِ عَلَى بُطْلَانِهِ إجْمَاعًا ضَرُورِيًّا كَإِجْمَاعِهِمْ عَلَى أَنَّ الِاعْتِكَافَ فِي الْمَسَاجِدِ أَفْضَلُ مِنْهُ عِنْدَ الْقُبُورِ‘‘۔ ’’اورصحیح حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ نبینے فرمایا"اﷲ کو مسجدیں بہت زیادہ محبوب ہیں"توپھرکوئی اورجگہ مسجد سے افضل نہیں ہوسکتی، اوراس میں انبیاءؑکی جگہیں بھی شامل ہیں اس وقت بھی جب انبیاءؑ دنیامیں موجود تھی اور اب بھی جب وہ دنیاسے جاچکے ہیں۔ اوریہ بات نص رسولسے ثابت ہے اورعلماءکے اتفاق سے بھی ثابت ہے۔ جوبعض حضرات نے ذکرکیاہے کہ انبیاءؑاورنیک لوگوں کی قبریں مسجدوں سے افضل ہوتی ہیں اوران کے پاس دعاکرنامسجدوں میں دعاکرنے سے افضل ہے، یہاں تک کہ مسجد حرام اورمسجدنبوی میں دعاکرنےسے بھی افضل ہے۔ اگران کی اس بات کولے لیاجائے تواس سے دین میں بگاڑپیداہوجائےگا، اوران کی اس بات کے باطل ہونے پرتوعلماءکااجماع  ہے کہ مسجدوں میں دعامانگنے سے قبرکے پاس دعامانگلناافضل ہے۔ اسی طرح علماءکااس بات پربھی اجماع ہے کہ مسجدمیں اعتکاف کرناقبروں کےپاس اعتکاف کرنے سے افضل ہے‘‘۔ (مجموع الفتاوى: ج۲۷، ص ۲۶۰)

الجواب: یہاں بھی ابن تیمیہؒ نے اصل مسئلے کےمطابق بات نہیں کی کیونکہ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ انبیاءؑکی قبروں کومساجد پرافضلیت حاصل ہےیاانبیاءؑکی قبروں پراعتکاف کرنااوردعائیں مانگنامساجدمیں اعتکاف کرنے اوردعائیں مانگنے سے زیادہ افضل ہے۔ کیونکہ قبروں پراعتکاف کرنے اوردعائیں مانگنےکے عمل کوتوسب ہی غلط سمجھتےہیں توپھراس میں افضلیت والی بات کہاں سے آگئی۔ یہاں بات صرف اس مٹی کی ہےجورسول اﷲکے جسد اطہرسے مس ہے، جس مٹی سے اﷲتبارک وتعالیٰ نے آپ کوتخلیق دیاہے۔ ہمارے نزدیک جب آپکی ذات مبارکہ تمام مخلوقات سے افضل ہے توپھروہ مٹی بھی افضل ہوئی جس سے آپکی تخلیق ہوئی۔

’’أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْرِ الْفَقِيهُ، وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنَزِيُّ، قَالا: ثنا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، ثنا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِيُّ، ثنا عَبْدُ الْعَزِيرِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ أَبِي يَحْيَى مَوْلَى الأَسْلَمِيِّينَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجِنَازَةٍ عِنْدَ قَبْرٍ فَقَالَ: "قَبْرُ مَنْ هَذَا؟"، فَقَالُوا: فُلانٌ الْحَبَشِيُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ سِيقَ مِنْ أَرْضِهِ وَسَمَائِهِ إِلَى تُرْبَتِهِ الَّتِي مِنْهَا خُلِقَ"۔ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ‘‘۔ ’’حضرت ابوسعیدخدری رضی اﷲعنہ فرماتے ہیں: نبی اکرمقبرکے پاس (رکھی ہوئی) ایک میت کے پاس سے گزرے، آپنےپوچھا، یہ کس کی قبرہے؟ صحابہ رضی اﷲعنہم نےجواب دیا: یارسول اﷲ! یہ فلاں حبشی کی قبرہے۔ تورسول اﷲ نے فرمایا: اﷲکے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اﷲکے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اﷲکی زمین اورآسمان سے اس کواس مٹی کی طرف بھیج دیاگیاہے، جس سے اس کوپیداکیاگیاہے‘‘۔ (المستدرك على الصحيحين، للحاکم : کتاب الجنائز، ج۱، ص۵۱۶، رقم الحدیث ۱۳۵۶)

دوسری بات یہ کہ اگرنص رسولسے مساجدکامحبوب ہونا ثابت ہےتواس طرح توپھرنص قرآن سے تمام انسانوں کابہت سی مخلوقات سے افضل ہونا بھی ثابت ہے،  نص رسولسے نبی کریمکاتمام انسانوں سے افضل ہونا بھی ثابت ہے، نص رسولسے اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مومن  مسلمان کی حرمت وعظمت کعبہ سے زیادہ ہونا بھی ثابت ہے۔

جیساکہ قرآن مجیدمیں ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰهُمْ عَلٰي كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلً‘‘۔ ’’اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو جنگل اور دریا میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی اوراپنی بہت سی مخلوقات(بڑی مخلوق) پر فضیلت دی‘‘۔ [سورۃ الاسرا: ۷۰]

’’حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ جُدْعَانَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم "أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ فَخْرَ وَبِيَدِي لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلاَ فَخْرَ وَمَا مِنْ نَبِيٍّ يَوْمَئِذٍ آدَمُ فَمَنْ سِوَاهُ إِلاَّ تَحْتَ لِوَائِي وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الأَرْضُ وَلاَ فَخْرَ‏"۔‏ قَالَ أَبُو عِيسَى وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ۔‏ وَقَدْ رُوِيَ بِهَذَا الإِسْنَادِ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‘‘۔  ’’نبی کریم نے ارشاد فرمایا:  میں تمام اولاد آدم کا سردار ہوں،لیکن مجھے اس پر فخر نہیں ہے‘‘۔ (جامع الترمذی: کتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ج۱، رقم الحدیث ۳۶۱۵)

’’أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو إِسْمَاعِيلُ بْنُ نُجَيْدٍ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَوَارٍ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا شِبْلُ بْنُ عَبَّادٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا نَظَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْكَعْبَةَ، فَقَالَ: "مَرْحَبًا بِكِ مِنْ بَيْتٍ مَا أَعْظَمَكِ، وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ، وَلَلْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللهِ حُرْمَةً مِنْكِ"‘‘۔ ’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما فرماتےہیں کہ رسول اﷲ نے خانہ کعبہ کی طرف دیکھ کرفرمایااﷲ تعالیٰ کے نزدیک مومن کی حرمت وعظمت تجھ سے زیادہ ہے‘‘۔ (شعب الإيمان للبیہقی: ج۵، ص۴۶۵، رقم الحدیث ۳۷۲۵)

’’وَمَا ذَكَرَهُ بَعْضُهُمْ مِنْ الْإِجْمَاعِ عَلَى تَفْضِيلِ قَبْرٍ مِنْ الْقُبُورِ عَلَى الْمَسَاجِدِ كُلِّهَا۔ فَقَوْلٌ مُحْدَثٌ فِي الْإِسْلَامِ؛ لَمْ يُعْرَفْ عَنْ أَحَدٍ مِنْ السَّلَفِ وَلَكِنْ ذَكَرَهُ بَعْضُ الْمُتَأَخِّرِينَ فَأَخَذَهُ عَنْهُ آخَرُ وَظَنَّهُ إجْمَاعًا؛ لِكَوْنِ أَجْسَادِ الْأَنْبِيَاءِ أَنْفُسِهَا أَفْضَلَ مِنْ الْمَسَاجِدِ۔ فَقَوْلُهُمْ يَعُمُّ الْمُؤْمِنِينَ كُلَّهُمْ فَأَبْدَانُهُمْ أَفْضَلُ مَنْ كُلِّ تُرَابٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا يَلْزَمُ مَنْ كَوْنِ أَبْدَانِهِمْ أَفْضَلَ أَنْ تَكُونَ مَسَاكِنُهُمْ أَحْيَاءً وَأَمْوَاتًا أَفْضَلَ؛ بَلْ قَدْ عُلِمَ بِالِاضْطِرَارِ مِنْ دِينِهِمْ أَنَّ مَسَاجِدَهُمْ أَفْضَلُ مِنْ مَسَاكِنِهِمْ‘‘۔ ’’بعض لوگوں نےجوقبروں کومسجدوں پرفضیلت دینے پرجواجماع نقل کیاہے، یہ ایک ایسا قول ہے جواسلام میں ایجاد کیاگیاہے۔یہ سلف صالحین میں سے کسی سے منقول نہیں ہےلیکن اس کومتاخرین نے ذکرکردیااوران کے بعدوالے اسے نقل کرتے گئےاوراس طرح اس کوانہوں نے اجماع گمان کرلیا۔ جولوگ قبرکی مٹی افضل مانتے ہیں ان کی دلیل کے مطابق اگرانبیاءؑکے جسم مسجدوں سے افضل ہیں توپھروہ جس جگہ موجودرہے ہوں وہ بھی افضل قرارپائے گی اوریہ ایک ایسا قول ہے جومومنین وغیرہ سب کوشامل ہے کیونکہ بہرحال ہرمومن کاجسم خالی مٹی سے توافضل ہےلیکن اس سے یہ بات لازم نہیں ہوتی کہ کسی کااگرجسم افضل ہوتواس کامطلب یہ نہیں کہ وہ جس جگہ موجودہویادنیاسے چلاگیاہووہ جگہ بھی افضل قرارپائےگی بلکہ ان کے مذہب کی کمزوری سے تویہ نظرآتاہے کہ مساجد ہی بہرحال افضل ہیں‘‘۔(مجموع الفتاوى: ج۲۷، ص ۲۶۱)

الجواب: ابن تیمیہؒ کی یہ بات بالکل صحیح ہےکہ سلف صالحین سے اس اجماع کاکوئی ثبوت نہیں ملتاہےلیکن متاخرین کی ایک بڑی جماعت نے اس اجماع کونقل کیاہے اوربعدوالوں نے اسے قبول کرتے ہوئے اجماع ہی گمان کیاہے۔ اگربعدوالوں نے اس اجماع کی مخالفت کی ہوتی تب توابن تیمیہؒ کامؤقف بالکل صحیح ہوتالیکن بعدآنے والوں میں سے ہرطبقہ کے علماءنے اس اجماع کی ہمایت کی ہےاوراس عقیدہ کواپنی کتابوں میں نقل کرتے ہوئے اس کی مکمل تائیدکی ہے، جوکہ اس عقیدہ کے برحق ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ کیونکہ یہ پوری امت کسی بھی دورمیں ایک سیکنڈکے لئے بھی گمراہی پرجمع نہیں ہوسکتی۔

’’حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ، ثنا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مَرْزُوقٍ مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَنْ تَجْتَمِعَ أُمَّتِي عَلَى الضَّلَالَةِ أَبَدًا، فَعَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ فَإِنَّ يَدَ اللهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ»‘‘۔ ’’میری امت کبهی گمراہی پرجمع نہیں ہوگی پس تمہارے لئے جماعت ہے کیونکہ اﷲکاہاتھ جماعت پرہے‘‘۔ (المعجم الكبير للطبرانی: ج۱۲، ص۴۴۷، رقم الحدیث ۱۳۶۲۳)

اس اجماع کی مثال بالکل اسی طرح ہے جیسے ابن صلاحؒ نے بخاری کی اصح الکتب بعد کتاب اللہ پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔ یہی اشکال وہاں بھی توکیاجاسکتاہے لیکن وہاں دعویٰ قبول کیاجاتاہے۔ ہوسکتاہےابن تیمیہؒ نے اپنے زمانے تک ممکن ہے یہ بات درست کہی ہو لیكن عجیب بات ہے کہ جمہور علماءنے خود ان کی موافقت نہیں کی حتیٰ کہ ان کے معاصرعلامہ سبکیؒ نے بھی نہیں کی۔ جبکہ قاضی عیاض ؒکے اجماع کے دعویٰ کو علماء امت نے تواترکے ساتھ قبول کیا ہے اور خود بھی اس اجماع کواپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ امام سبکی، امام خفاجی، امام حصفکی، امام سخاوی، ابو عبد اللہ علیش المالکی، ملا علی القاری، علامہ ابن عابدین، رحمت اللہ سندی مکی، ابن حجر ہیثمی، شمس رملی، مناوی رحمہم اﷲتعالیٰ اوران جیسے لوگوں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے یہی بات نقل کی ہے اور ان میں سے بعض نے خود اجماع کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ ایسی صورت میں یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ابن تیمیہؒ سے اس سلسلے میں اجتہادی خطا ہوئی ہے۔ تیسری، چوتھی اور پانچویں شقیں اجماع کی موجودگی میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی اس عقیدہ پر اجماع کے وجود کے انکار کی وجہ سے یقین نہ رکھے تو وہ گمراہ نہیں ہوگا۔ لیکن یہ نتیجہ کیسے نکل آیا کہ جو یہ عقیدہ رکھے وہ گمراہ ہو جائے گا؟

اگرچند لمحوں کے لئے ابن تیمیہؒ کے مؤقف کوصحیح تسلیم کرلیاجائے تب بھی سوال یہ پیداہوتا ہے کہ ابن تیمیہؒ کے اس نظریہ سے کیا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو یہ عقیدہ رکھے گا وہ گمراہ وبدعقیدہ ہوگا اور یہ عقیدہ اللہ تعالیٰ کی توہین (مکفر) ہے؟ اگرایساہی ہے پھرتوابن تیمیہؒ کوچاہیئے تھاکہ قاضی عیاضؒ اوران جیسے دیگرمحدثین کوگمراہ وبدعقیدہ قراردیتے۔ کیا ابن تیمیہؒ نے قاضی عیاض ؒاوردیگرائمہ کرام کوگمراہ وبدعقیدہ قراردیا؟ اگر نہیں تو کیا وجہ ہے کہ علماء دیوبند یہ عقیدہ رکھنے پر گمراہ وبدعقیدہ قرارپائیں گے؟ اسی کو میں نے یوں پوچھا تھا کہ یہ عقیدہ کیا ہے؟ کفر؟ فسق؟ یا ناجائز؟

سمير بن خليل المالكی کااشکال:

’’فإن قيل: إن التفضيل ليس للبقعة ذاتها، بل لمن حلَّ فيها، أما هي فكمثلها من البقاع‘‘۔ ’’اگریہ اعتراض کیاجائے کہ یہاں پرجوقبرکی جگہ ہے اس کوبذاتِ خودافضلیت حاصل نہیں ہے بلکہ اس وجہ سے حاصل ہے جوخوداس جگہ میں موجودہیں اوریہی حال ان تمام جگہوں کاہےجواس کے مشابہ ہیں‘‘۔

’’فالجواب: هذا باطل أيضاً، فإن تفضيل الأزمنة والأمكنة والأشخاص لا يخضع لقياس، بل هو أمر توقيفي، فالله تعالى فضل بعضها على بعض، ففضل رمضان على سائر الشهور، وفضل الجمعة ويوم عرفة على سائر الأيام، وفضل المساجد الثلاثة على سائر البقاع، ومنها بيوت الأنبياء ومساكنهم التي يأوون إليها۔ وقد كان النبي صلى الله عليه وسلم يتحنث في غار حراء، ولم يصيره ذلك أفضل من الكعبة ولا المساجد، لا في وقت تحنثه فيه ولا بعد ذلك۔ ويلزم من تفضيل القبر على الكرسي والعرش، تفضيل المخلوق على الخالق، فإن الأول إن كان قد ضمن جسد المصطفى، فالعرش الرحمن عليه استوى، وصح عن ابن عباس رضي الله عنهما أن الكرسي موضع القدمين‘‘۔ ’’الجواب: کسی زمانہ کوکسی مکان کواورشخص کوفضیلت بخشنااس میں قیاس کادخل نہیں ہے بلکہ یہ ایک توقیفی معاملہ ہےجواﷲتعالیٰ ہی کے سپردہے اوراﷲتعالیٰ جس چیزکوجب چاہے فضیلت دےاورجس چیزکوچاہے نہ دےاس میں قیاس کادخل نہیں ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے بعض کوبعض پرفضیلت دی، رمضان کو تمام مہینوں پرفضیلت دی، جمعہ اوریوم عرفہ کوبقیہ ایّام پرفضیلت دی، اسی طرح تین مسجدوں کا زمین کے تمام خطوں پرفضیلت دی اورزمین کے تمام خطوں میں انبیاءؑکے گھربھی شامل ہیں اوران کی قیام گاہیں سب شامل ہوگئیں جہاں پروہ موجودہیں۔ نبی کریمتوغارحراء میں بھی عبادت کیاکرتے تھے لیکن غارحراءتوکعبہ سےافضل نہیں ہےاورنہ ہی کسی دوسری مسجد سےاورنہ ہی وہ وقت افضل ہوگاجس میں آپ غارحراءمیں جاکرعبادت کیاکرتے تھےاورنہ ہی اس کے بعدوالاوقت۔ اگرقبرکوکرسی پراورعرش پرفضیلت دی جائے توپھراس صورت میں تومخلوق کوخالق پرفضیلت دینا لازم آتاہے۔ کیونکہ اگرنبی کریمکی قبرکی مٹی آپکے جسد اطہرسے مس ہے تواﷲتعالیٰا اپنےعرش پرمستوی ہےاورحضرت ابن عباس رضی اﷲعنہ سے ثابت ہے کہ کرسی اﷲتعالیٰ کے دوقدموں کی جگہ ہے‘‘۔ (الرد على من فضل قبر النبی على عرش الرحمن)

شیخ سمير بن خليل المالكی کے اشکال کاجواب ابن عقیل حنبلیؒ اورابن القیم حنبلیؒ  نےنہایت خوبصورتی سے دیاہے: ’’قال ابن عقيل: سألني سائل أيما أفضل حجرة النبي أم الكعبة؟ فقلت: إن أردت مجرد الحجرة فالكعبة أفضل، وإن أردت وهو فيها فلا والله ولا العرش وحملته ولا جنه عدن ولا الأفلاك الدائرة لأن بالحجرة جسدا لو وزن بالكونين لرجح‘‘۔ ’’ابن عقیل حنبلی نے کہا کہ سائل نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حجرہ افضل ہے یا کعبہ؟ جواب دیا اگر تمہارا ارادہ خالی حجرہ ہے تو تو پھر کعبہ افضل ہےاور اگر تمہاری مراد وہ ہے جو اس میں ہے [یعنی روضۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم جہاں پر مدفون ہیں] تو پھر اللہ کی قسم نہ عرش افضل ہے نہ اس کے تھامنے والے فرشتے نہ جنت عدن اور نہ ہی پوری دنیا۔ اگر حجرے کا وزن جسد کے ساتھ کیا جائے تو وہ تمام کائنات اور جو کچھ اس میں ہے اس سے بھی افضل ہوگا‘‘۔ (بدائع الفوائد :ج۳، ص۶۵۵)

اس عبارت سے یہ بات صراحت سے ثابت ہے کہ اگر خالی حجرہ کی بات کی جائے تو پھر کعبہ افضل ہے لیکن اگر جسدِ اطہر کے ساتھ بات کی جائے تو پھر قبرکی مٹی افضل ہے، کیونکہ نبی کریم کونین سے افضل ہیں۔ جن حضرات نے اس موضوع پر لکھا ہے انہوں نے بھی نبی کریم کی فضیلت کی بات کی ہے نہ کہ صرف قبر مبارک کی۔ حالانکہ ان علماء کی مراد صرف مٹی کامس ہوناہرگز نہیں ہےبلکہ قبر کا وہ حصہ بمعہ جسدِ اطہر مراد ہے۔ اسی لئے امام سخاویؒ نے آخر میں اس بات کی وضاحت فرمادی کہ انبیاءؑ کی جگہیں اورارواح زمین وآسمان سے افضل ہیں۔ ابن عقیلؒ اور امام بہوتی حنبلیؒ نے حجرہ اور کعبہ میں تقابل کیا ہے اور یہ تقابل انہوں نے وزنا ًکیا ہے۔

یہی بات ابن عقیلؒ نے بھی کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ تو ہر ذی شعورجانتا ہے کہ نبی اکرم افضل المخلوقات ہیں اور کعبہ کے مقابلے میں آپ زیادہ افضل ہیں۔ آپ کے صرف جسد ِاطہرکو وزن کیا جائے تو کعبہ سے افضل ہوگا۔ تو جسد ِاطہرسمیت حجرہ کا افضل ہونا تو ظاہر سی بات ہے۔ تو جب یہ ایک عام بات ہے تو اسے ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ابن عقیلؒ اور امام بہوتی ؒنے بھی تمام علماء کی طرح تقابل حجرہ اور کعبہ میں ہی کیا ہے اور نبی
کی موجودگی کا ذکر کر کے آپ سے حجرہ کا تعلق ذکر کیا ہے۔ یعنی اگر نبی کو ہٹا دیا جائے تو کعبہ افضل ہے اور اگر نبی موجود ہوں تو حجرہ افضل ہے۔ کیوں افضل ہے؟ آپ کے اس میں حلول یا وجود کی وجہ سے۔ اسی بات کو دیگرعلماء نے یوں کہا ہے: وہ قبر افضل ہے جو ملی ہوئی ہے آپ کے اعضاء سے۔یہاں بھی آپ سمیت فضیلت نہیں دی جا رہی بلکہ آپ کی موجودگی میں فضیلت دی جا رہی ہے۔ فرق دونوں میں باریک سا ہے۔ اور اگر بالفرض کوئی بضد ہی ہو کہ نہیں ابن عقیلؒ نے نبی سمیت وزن کی ہی بات کی ہے تو پھر میں یہ کہوں گا کہ ابن عقیلؒ نے بات کی بھی مکمل حجرہ کی ہے اور ہماری بات قبر، بقعہ، تراب کے بارے میں چل رہی ہے اور دونوں میں عموم و خصوص مطلق کی نسبت ہے۔ لہٰذا موضوع مختلف ہونے سے اس بات کو زیادہ سے زیادہ باہر نکالا جا سکتا ہے اور کچھ نہیں۔



 

 

روضہٴ رسول ﷺ - کتاب وسنت کی روشنی میں

 


 

یقینا مکان کی شہرت و شرافت ، خاصیات و خصوصیات اور عظمت و عقیدت کا دارومدار صاحب مکان پر موقوف ہوتی ہے، مسجد اس لیے احب البِقاء اور قابل احترام ہے کہ وہ خانہ خدا اور مرکز ذکر الٰہی ہے، مئے خانہ اس لیے برا ہے کہ وہ برائیوں کا اڈہ ہے، کیا خانہ کعبہ کا تقابل کسی اور خانہ خدا سے کیا جاسکتا ہے؟ نہیں، کیونکہ وہ صرف خانہ نہیں بلکہ تجلی ربانی کا مرکز ہے، وہ صرف ایک گھر نہیں بلکہ پہلی عبادت گاہ ہے، وہ صرف مرکز اسلام ہی نہیں بلکہ مرکز نزول وحی بھی ہے۔

مدینہ منورہ کی حیثیت ہجرت گاہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بننے سے پہلے ایک زرعتی شہر سے زیادہ نہیں تھی اور ہجرت گاہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم بننے کے بعد اس کی عظمت وعزت میں چار چاند لگ گئے، اس شہر کو پہلے یثرب کہا جاتا تھا، لیکن جب اسے قیام گاہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے طور پر چن لیا گیا تو اس کا نام ”مدینہ“ پڑگیااورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نورانیت سے ”منورہ“ بن گیا، اور پھر آنجناب کی توجہات کی وجہ سے مدینہ کی مختلف فضیلتیں امت کے سامنے آئیں، مدینہ کے ساتھ الرسول لگایا جائے تو الگ فضیلت، الطیبہ بڑھایا جائے تو الگ فضیلت، دارالہجرة کہا جائے تو مستقل فضیلت، حرم رسول اللہ کہا جائے تو الگ فضیلت بلکہ شرف و سعادت کی ایک مستند ترین بات یہ ہے کہ اللہ نے مدینہ کا نام طابہ اور طیبہ رکھا، کہتے ہیں کہ کثرت اسماء، کثرت شرافت کو لازم کرتی ہے، صاحب وفاء الوفاء نے مدینہ کے ۹۶ نام شمار کیے ہیں۔

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو وہاں کی آب و ہوا صحت بخش ہوگئی، وہاں کی سکونت دنیا و عقبیٰ کی بھلائی کا سبب بن گئی، وہاں کی تکلیف و مصیبت پر صبر کرنا، شفاعت نبی کا ذریعہ بن گیا، وہاں کے پھل، سبزی اور اشیاء خوردونوش حتی کہ صاع و مد میں برکت ہونے لگی، وہاں طاعون اور دجال کا داخلہ ممنوع ہوگیا، اہل مدینہ کے ساتھ مکرو فریب کرنے والے کو نمک کی طرح پگھلنے کی وعید سنائی گئی، وہاں جینے مرنے کے فضائل بیان کیے گئے ، اس شہر مدینہ کے میوہ جات میں ہی نہیں، بلکہ شہر پاک کی خاک پاک میں تاثیرِ شفا ودیعت کردی گئی، وہاں کے باشندوں کے ساتھ تکریم و تعظیم کی وصیت کی گئی اور اخیر میں تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان کردیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو بزرگی دی اور اس کو حرام قرار دیا، اور میں نے مدینہ کو بزرگی دی ہے، اور مدینہ کے دونوں کناروں کے درمیان کی بزرگی کا تقاضہ یہ ہے کہ نہ تو اس میں خونریزی کی جائے، نہ وہاں جنگ کے لیے ہتھیار اٹھایا جائے اور نہ اس کے درخت کے پتے جھاڑے جائیں(مسلم باب فضل المدینہ: ۱۳۷۴)

اگرچہ حرم مکہ اور حرم مدینہ کے درمیان فقہی اعتبار سے فرق ہے، لیکن تعظیم و تکریم اور عزت و شرف کے اعتبار سے مکہ اور مدینہ کا حرمین شریفین ہونا متفق علیہ بات ہے، پھر مدینے کو نبوی قیامگاہ ہونے کی وجہ سے جس طرح غلبہ حاصل ہوا اور جس طرح انصار مدینہ اور مہاجرین نے مشرق سے مغرب تک پورے عالم کو اپنے زیر اثر کیا، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، بلکہ یہ اس حدیث کی کھلی تفسیر تھی جس میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا: مجھے ایک ایسی بستی کی طرف ہجرت کا حکم دیا گیا ہے، جو تمام بستیوں پر غالب رہے گی۔ (بخاری باب فضل المدینہ: ۱۸۷۱)

 بہرحال اس طویل تفصیل کے بعد ایک اہم سوال یہ ہوتا ہے کہ آخر وہ یثرب، مدینہ منورہ کیوں بنا، وہاں کی خاک، حضور کی آمد کے بعد خاک پاک کیوں بنی اور اس خاک پاک کی عزت و آبرو میں ایسا اضافہ کیوں ہوا کہ

خورشید بھی گیا تو ادھر سر کے بل گیا

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے بھی وہاں لوگ جیتے اور مرتے تھے؛ لیکن سرکار دو عالم کی آمد کے بعد وہاں کا جینا عبادت اور وہاں کا مرنا عبادت کیوں بنا، وہاں کے ذرات آفتاب و ماہتاب کیوں بنے، لوگوں نے وہاں کی خاک کوسرمہٴ چشم بنانے میں فخر کیوں محسوس کیا؟ الغرض اس طرح کے جتنے سوالات ہوسکتے ہیں، ان کا ایک ہی جواب ہے اور اس جواب کے سوا، اور کوئی جواب ہوبھی نہیں سکتا، وہ یہ کہ اب وہ صرف یثرب نہیں بلکہ مدینة الرسول بن گیا، اس رسول کا شہر بن گیا جس کے لیے پوری کائنات بنائی اور سجائی گئی، جس پر خود خالق کائنات اور معصوم فرشتے درود وسلام بھیجتے ہیں، وہ اس رسول کا شہر بن گیا جس کے سامنے حضرت جبرئیل علیہ السلام بھی باادب بیٹھتے ہیں، وہ اس رسول کا شہر بن گیا جس کو حالت بیداری میں دیدار الٰہی کا شرف حاصل ہوا، وہ اس رسول کا شہر بن گیا جو صرف نبی نہیں بلکہ خاتم النّبیین ہونے کے ساتھ رحمة للعالمین بھی ہے، وہ اس رسول کا شہر بن گیا جس کی شان والا تبار میں گستاخی موجبِ کفر ہونے کے ساتھ ساتھ موجبِ قتل بھی ہے، اور جس کی اطاعت کے بغیر خدا کی اطاعت بے کار ہے، وہ اس رسول کا شہر بن گیا جن کے بارے میں ایک شاعر نے حقیقت پسندانہ شعر کہنے کی کوشش کی ہے۔#

رُخِ مصطفی ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا کوئی آئینہ

نہ ہماری بزم خیال میں ہے اور نہ دکان آئینہ ساز میں

اختصار کی کوشش کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ صرف اس لیے ہوا کہ وہاں سرکار دوعالم، فخر موجودات، محسن کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس نے مستقل سکونت اختیار کرلی، جس کی ایک ادنی صحبت بھی ہزار سالوں کی عبادت سے افضل ہے، ایک واقعہ پڑھیے، جو سیرت کا مشہور واقعہ ہے، غزوہ حنین میں مسلمانوں کو بہت زیادہ مال غنیمت ہاتھ آیا تھا، جس کے حقدار انصار مدینہ بھی تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تالیفِ قلب کی مصلحت کے پیشِ نظر سارا مال قبائلِ قریش میں تقسیم فرما دیا، انصار مدینہ پر اس کابڑا گہرا اثر ہوااور دل میں ایسی کبیدگی پیدا ہوگئی کہ کچھ لوگوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ رسول اللہ اپنی قوم سے مل گئے، جب حضور کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے درد انگیز تقریر فرمائی اور ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا:

ألَا ترضون یا معشر الأنصار أن یذہب الناس بالشاة والبعیر و ترجعون برسول اللّٰہ إلی رحالکم فوالذي نفس محمد بیدہ لما تنقلبون بہ خیر مما ینقلبون بہ (زادالمعاد: ۳/۴۱۶)

ترجمہ: اے جماعت انصار! کیا تم اس پر راضی نہیں ہوسکتے کہ لوگ اونٹ اور بکریاں لے کرجائیں اور تم رسول اللہ کو اپنے یہاں لے جاؤ، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے، یقینا تم جو لے کر جاؤ گے وہ اس سے ہزار درجے بہتر ہے، جسے وہ لوگ لے کر جائیں گے۔

غور کریں، انصار مدینہ کو خوش کرنے کے لیے مال و زر بھی دیا جاسکتا تھا اور وہ اسی کے متمنی تھے کیونکہ وہ اس کے حقدار تھے؛ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ایسی بے نظیر ، لاثانی اور روحانی و نورانی ذات تھی کہ آپ نے انہیں ”رسول اللہ“ ہی عنایت فرما دیا، انصار مدینہ کے تو نصیب ہی چمک اٹھے، ان کے نصیبہ ور ہونے میں کیا کوئی کلام بھی ہوسکتا ہے، سچ ہے ہر چیز میں خیر کا پہلو بھی ہوتا ہے، انصار کی یہ ناراضگی و کبیدگی کتنی سودمند ثابت ہوئی، کوئی انصار سے ہی پوچھے، اور یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے آپ کو محمد نہ کہنا بلکہ رسول اللہ کہنا ایک ایسی لطیف تعبیر ہے جسے اہل دل ہی سمجھ سکتے ہیں، روایتوں میں آتا ہے، انصار مدینہ یہ سن کر اتنا روئے کہ ان کی ڈاڑھیاں تر ہوگئیں اور سب نے بیک زبان کہا کہ ہم دل و جان سے اس سودے پر راضی ہیں، اب ہمیں کچھ نہیں چاہیے کیونکہ ہمیں لازوال دولت مل گئی۔

رضینا برسول اللّٰہ  قسما وحظا (زاد المعاد: ۳/۴۱۶)

آپ علیہ السلام اپنی زندگی میں جس طرح تمام مسلمانوں کے لیے محبت و احترام کا قبلہ و کعبہ تھے اپنی وفات کے بعد بھی آپ کا روضہٴ اقدس دنیا کے تمام مسلمانوں کے لیے محبت و احترام کا قبلہ و کعبہ ہے، یہ ہمارے ایمان کا اٹوٹ حصہ ہے۔

روضہٴ رسول کا مقام

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی قبر میں، بلکہ جملہ انبیاء کرام کا اپنی قبروں میں زندہ ہونا، جمہورِ امت کے متفقہ مسائل میں سے ہے اگرچہ حیات کی نوعیت میں فرق ہے ، اس لیے مدینہ منورہ کی سرزمین کا وہ حصہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد اطہر اور اعضاء مبارکہ سے مس کررہا ہے، وہ پورے روئے زمین میں افضل ترین حصہ ہے، بلکہ قاضی عیاض مالکی نے اس پر اجماع نقل کیاہے کہ یہ حصہ کعبہ سے بھی افضل ہے۔

روضہٴ رسول کی زیارت کے فضائل

(۱)            سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی۔

تشریح: شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں: اس خصوصیت کی کوئی خاص وجہ ہے، کیونکہ جہاں تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا تعلق ہے اس نعمت سے ہر مسلمان کو نوازا جائے گا، اور آپ کی یہ کرم فرمائی اور مومن نوازی جملہ مسلمانوں کے لیے عام ہے، لیکن یہاں پر شفاعت سے مراد خاص شفاعت ہے جو درجہ خاص کے حصول کا ذریعہ ہوگی، ان کے علاوہ غیر زائرین کا اپنے زیادتی اعمال اور کثرتِ فضائل کے باوجود اس درجہ پر پہنچنا میسر نہ ہوگا۔

آگے لکھتے ہیں:

اس کے علاوہ زائر کے لیے یہ بشارت بھی ہے کہ وہ دینِ اسلام پر مرے گا، یہ بھی سیّدِانام علیہ الصلوٰة والسلام کی برکت کے طفیل ہوگا، وہ اس طرح کہ شفاعت کے لیے دین اسلام پر مرنا ضروری ہے۔ (جذب القلوب الی دیار المحبوب: ۲۵۸)

مولانا ظفر احمد تھانوی لکھتے ہیں: زائر کے لیے شفاعت کی جو بشارت ہے کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی فضیلت ہوسکتی ہے۔

و أيُّ فضیلة أعلیٰ و أسنی من وجوب شفاعتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لمن زارہ (اعلاء السنن:۲:۱۰ ص: ۴۹۸)

(۲)           حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے حج کیا اور اس کے بعد میری قبر کی زیارت کی میری وفات کے بعد تو وہ (زیارت کی سعادت حاصل کرنے میں ) انہیں لوگوں کی طرح ہے جنہوں نے میری حیات میں میری زیارت کی (شعب الایمان: فضل الحج والعمرة: ۳۸۵۷)

مولانا منظور نعمانی اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی قبر مبارک میں بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام کا اپنی منور قبور میں زندہ ہونا جمہورِ امت کے مسلّمات میں سے ہے، اگرچہ حیات کی نوعیت میں اختلاف ہے، اور روایات اور خواص امت کے تجربات سے یہ بھی ثابت ہے کہ جو امتی قبر پر حاضر ہوکر سلام عرض کرتے ہیں، آپ ان کا سلام سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں، ایسی صورت میں بعد وفات آپ کی قبر پر حاضر ہونا اور سلام عرض کرنا ایک طرح سے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے اور بالمشافہ سلام کا شرف حاصل کرنے ہی کی ایک صورت ہے اور بلاشبہ ایسی سعادت ہے کہ اہل ایمان ہر قیمت پر اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں “(معارف الحدیث: ۴/۴۵۸)

(۳)           جس شخص نے مکہ کا قصد کیا اور پھر میری زیارت اور میری مسجد میں شرف حاضری کے حصول کا قصد کیا تو اس کے دو مقبول حج لکھے جاتے ہیں (جذب القلوب: ۲۶۱)

روضہٴ اقدس کی زیارت کے فضائل کے سلسلہ میں یہ تین روایتیں بطور نمونہ کے لکھی گئی ہیں، تفصیل کے لیے شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی جذب القلوب کا مطالعہ کریں، جس میں انہوں نے اختصار کے ساتھ تیرہ روایات کو جمع کیا ہے، اگرچہ بعض روایات پر کلام بھی کیا گیا ہے، جن کے بارے میں مولانا منظور نعمانی صاحب کا تبصرہ ایک وقیع تبصرہ ہے، لکھتے ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کے جن منافع اور برکات و مصالح کا اوپر ذکر کیاگیا ہے، اگر اس کو پیش نظر رکھ کے ان احادیث پر غور کیا جائے جو اس زیارت کی ترغیب میں مروی ہیں تو خواہ سند کے لحاظ سے ان پر کلام کیا جاسکے لیکن معنوی لحاظ سے وہ دین کے پورے فکری اور عملی نظام کے ساتھ بالکل مرتبط اور ہم آہنگ نظر آئیں گی اور ذہنِ سلیم اس پر مطمئن ہوجائے گا کہ قبر مبارک کی یہ زیارت، صاحبِ قبر کی ذاتِ اقدس کے ساتھ ایمانی تعلق اور محبت و توقیر میں اضافہ اور دینی ترقی کا خاص وسیلہ ہے، یقین ہے کہ ہر خوش نصیب، صاحبِ ایمان بندہ جسے اللہ تعالیٰ نے زیارت کی سعادت سے بہرہ ور فرمایا ہے اس کی شہادت دے سکے گا۔

                                                                                                                                                                                          ( معارف الحدیث: ج: ۴ ص: ۴۵۹)

روضہٴ رسول کی زیارت کا حکم

الأنبیاء أحیاء في قبورہم (مسند أبي یعلی: ۳۴۲۵)

انبیاء چونکہ اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں، موت ان کے لیے مُزِیلِ حیات نہیں ہوتی؛ بلکہ ساتر ِحیات ہوتی ہے، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی قبر اطہر میں باحیات ہیں؛اس لیے زیارت قبر اطہر کے فضائل بیان کیے گئے ہیں، انہیں روایات کے پیش نظر احناف کے یہاں زیارت روضہ اقدس کا حکم قریب بہ واجب ہے، جمہور کے نزدیک مستحب ہے اور بعض مالکیہ اور بعض ظاہریہ کے نزدیک واجب ہے اور ابن تیمیہ زیارت قبر اطہر کو غیر مشروع کہتے ہیں۔

و قد اختلف فیہا أقوال أہل العلم، فذہب الجمہور إلی أنہا مندوبة وذہب بعض المالکیة وبعض الظاہریة إلی أنہا واجبة وقالت الحنیفة: إنہا قریبة من الواجبات، و ذہب ابن تیمیة الحنبلي، إلی أنہا غیر مشروعة (حاشیة إعلاء السنن: ۱۰/۴۹۹)

ملا علی قاری نے شرح الشفاء میں قاضی عیاض مالکی کے حوالے سے لکھا ہے:

زیارة قبرہ علیہ السلام سنة من سنن المسلمین مجمع علیہا أي مجتمع علی کونہا سنة و فضیلة مرغب فیہا

یعنی قبر اطہر کی زیارت مسلمانوں کی متفق علیہ سنت ہے اور اس کی ایسی فضیلت ہے جس کی رغبت ہر مسلمان کو کرنی چاہیے (شرح الشفاء: ۲/۱۵۰)

لہٰذا ہر صاحب استطاعت شخص کی یہ خواہش ہونی چاہیے کہ اسے جب بھی موقع ملے گا وہ روضہٴ اقدس کی زیارت کرے گا اور جو لوگ حج کرنے جاتے ہیں، انہیں روضہٴ اقدس کی زیارت بھی کرنی چاہیے، اگرچہ روضہٴ اقدس کی زیارت حج کا کوئی رکن یا جز نہیں ہے؛ لیکن شروع سے امت کا یہ تعامل چلا آرہا ہے کہ خاص کر دور دراز علاقوں کے مسلمان جب حج کو جاتے ہیں تو روضہ پاک کی زیارت اور وہاں درود و سلام کی سعادت ضرور حاصل کرتے ہیں اور کسی سے اس کا انکار منقول نہیں ہے، تو یہ اجماع کے درجہ میں ہے، اعلاء السنن کے حاشیہ میں ہے:

لم یزل دأب المسلمین القاصدین للحج في جمیع الأزمان علی تباین الدیار و اختلاف المذاہب، الوصول الی المدینة المشرفة لقصد زیارتہ صلی اللہ علیہ وسلم ویُعَدُّ أنَّ ذلک من أفضل الأعمال، و لم ینقل أن أحدا أنکر علیہم ذلک فکان إجماعاً (إعلاء السنن: ۱۰/۴۹۹)

اور جن لوگوں نے زیارت قبر اطہر کو ممنوع ومکروہ لکھا ہے ان کے بارے میں ملا علی قاری لکھتے ہیں کہ

الأحادیث فی ہذا الباب کثیرة، وفضائل الزیارة شہیرة، و من أنکرہا؛ إنما أنکر ما فیہا من بدع نکیرة غالبہا کبیرة

یعنی باب زیارت کی روایات بہت زیادہ ہیں، اس کے فضائل مشہور ہیں اور جس نے بھی اس کا انکار کیا ہے حقیقت میں اس نے ان بدعات و منکرات کا انکار کیا ہے، جن میں سے اکثر گناہ کبیرہ تک پہنچ جاتے ہیں (مرقاة المفاتیح، رقم الحدیث: ۲۷۵۶، باب حرم المدینہ)

البتہ حاجیوں کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ پہلے حج مکمل کرلیں پھر زیارت کے لیے مدینہ منوّرہ جائیں، کیونکہ حج فرض ہے اور زیارت روضہ اقدس قریب بہ واجب ہے اور حق اللہ کی تقدیم مناسب بات ہے، البتہ حضرت حسن نے امام ابوحنیفہ سے بڑی اچھی بات نقل کی ہے کہ اگر حج فرض ہو تو حاجی کے لیے بہتر یہ ہے کہ پہلے حج کرے پھر زیارت کرے، اگرچہ زیارت کی تقدیم میں کوئی گناہ نہیں، وہ بھی جائز ہے، اور اگر حج نفل ہو تو اسے اختیار ہے، جس سے چاہے آغاز کرے (دیکھیے: فتح القدیر: ۳/۱۷۹ کتاب الحج)

روضہٴ اقدس کی زیارت کے لیے سفر کا شرعی حکم

ابن تیمیہ رحمہ اللہ قبر اطہر کی زیارت کے لیے سفر کو ناجائز کہتے ہیں وہ فرماتے ہیں: کہ مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے کی نیت سے سفر کرے پھر روضہ اقدس کی زیارت کرے، مستقل طور سے روضہٴ اقدس کی نیت سے سفر نہ کرے؛ لیکن جمہور امت کے نزدیک قبر اطہر کی زیارت کے لیے سفر کرنا نہ صرف جائز ہے؛بلکہ اہم عبادتوں میں سے ہے اور بڑا کارثواب ہے؛ کیونکہ روضہٴ اقدس کی زیارت کی فضیلت کے بارے میں روایات بہ کثرت وارد ہیں، دوسری بات یہ کہ پوری امت کا یہ تعامل چلا آرہا ہے کہ ہر حاجی مکہ کا ایک لاکھ نمازوں کا ثواب چھوڑ کر چار سو میل طویل سفر کرکے مدینہ جاتا ہے، ظاہر ہے کہ حجاج صرف مسجد نبوی کی زیارت کے لیے نہیں جاتے؛بلکہ ان کا مقصود روضہ اقدس پر حاضری ہوتی ہے اور تعامل ایک مستقل دلیل ہے، چنانچہ ابن ہمام لکھتے ہیں۔

والأولی فیما یقع عند العبد الضیعف تجرید النیة لزیارة قبر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلّم و یوافق ظاہر ما ذکرناہ من قولہ علیہ الصلوٰة والسلام، لا تعملہ حاجة الا زیارتی

یعنی میرے نزدیک بہتر یہ ہے کہ خالص زیارت کی نیت کرے؛کیونکہ حدیث لا تعملہ حاجة الا زیارتی (کہ میری زیارت کے سوا کوئی حاجت اس کو نہ لائی ہو) کے ظاہر کے موافق ہے (فتح القدیر: ۳/۱۸۰)

اور شیخ الحدیث مولانا خلیل احمد سہارنپوری نے یہی علماء دیوبند کا مسلک نقل کیا ہے:

عندنا و عند مشائخنا زیارة قبر سید المرسلین (روحی فداہ) من أعظم القربات و أہم المثوبات و أنجح لنیل الدرجات بل قریبة من الواجبات، وإن کان حصولہ بشدّ الرحال و بذل المہج و الأموال و ینوی وقت الارتحال زیارة علیہ الف الف تحیة و سلام و ینوی معہا زیارة مسجدہ صلی اللہ علیہ وسلم

یعنی ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک زیارت قبر سید المرسلین (ہماری جان آپ پر قربان) اعلیٰ درجہ کی قربت اور نہایت ثواب اور سبب حصول درجات ہے؛بلکہ واجب کے قریب ہے، گو شدِّ رحال اور بذل جان و مال سے نصیب ہو اور سفر کے وقت آپ کی زیارت کی نیت کرے اور ساتھ میں مسجد نبوی وغیرہ کی نیت کرے۔ (المہند علی المفند: ۲۷)

روضہٴ اقدس پر دعاء مغفرت کی درخواست

چونکہ سرکار دو عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر اطہر میں باحیات ہیں؛اس لیے جیسے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ان سے دعاء مغفرت کی درخواست کرنا، سفارش کی درخواست کرنا اور استمداد جائز تھا، ویسے دنیا سے رخصت فرما جانے کے بعد بھی روضہ اقدس پر حاضر ہوکر درخواست کرنا جائز ہے؛ لہٰذا روضہٴ اقدس پر حاضری دینے والے یہ درخواست کرسکتے ہیں کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم سراپا گنہگار ہیں آپ بارگاہ خداوندی میں ہماری مغفرت کے لیے دعا فرما دیں۔مفتی شفیع صاحب عثمانی نے آیت: و لو انہم اذ ظلموا انفسہم جاء وک فاستغفروا اللّٰہ واستغفر لہم الرسول لوجدوا اللّٰہ توّابا رحیما (النساء: ۶۴)کے ذریعہ اس مسئلہ کے جواز پر استدلال کیا ہے ۔

وہ لکھتے ہیں:

”یہ آیت اگرچہ خاص واقعہ منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ہے؛ لیکن اس کے الفاظ سے ایک عام ضابطہ نکل آیا کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوجائے اور آپ اس کے لیے دعائے مغفرت کردیں، اس کی مغفرت ضرور ہوجائے گی، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری جیسے آپ کی دنیوی حیات کے زمانہ میں ہوسکتی تھی اسی طرح آج بھی روضہٴ اقدس پر حاضری اسی حکم میں ہے“ (معارف القرآن: ۲/۴۵۹)

اسی سلسلہ کا ایک واقعہ پڑھیے: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کرکے فارغ ہوئے تو اس کے تین روز بعد ایک گاؤں والا آیا اور قبر شریف کے پاس آکر گرگیا،اور زار زار روتے ہوئے آیت : ولو انہم اذ ظلموا انفسہم الخ کا حوالہ دے کر عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں وعدہ فرمایا ہے کہ اگر گنہگار، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوجائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے دعائے مغفرت کردیں تو اس کی مغفرت ہوجائے گی، اس لیے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں، کہ آپ میرے لیے مغفرت کی دعا کریں، اس وقت جو لوگ حاضر تھے، ان کا بیان ہے کہ اس کے جواب میں روضہٴ اقدس کے اندر سے آواز آئی: ”قد غفرلک“ یعنی تیری مغفرت کردی گئی (البحر المحیط فی التفسیر: ۳/۶۹۴)

مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

”مگر انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کے سماع میں کسی کو خلاف (اختلاف) نہیں، اسی وجہ سے ان کو مستثنیٰ کیا ہے اور دلیل جواز یہ ہے کہ فقہاء نے بعد سلام کے وقت ِزیارت قبر مبارک کے شفاعت مغفرت کا عرض کرنا لکھا ہے؛ پس یہ جواز کے واسطے کافی ہے“ (فتاویٰ رشیدیہ: ۱۳۴، ادارہ اسلامیات لاہور)

روضہٴ اقدس پر درود و سلام

حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو کوئی بھی مجھ پر سلام بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ میری روح مجھ پر واپس کردیتے ہیں، یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دے دیتا ہوں (ابوداؤد، رقم الحدیث: ۲۰۴۱، باب زیارة القبور)

اس روایت میں اگرچہ روضہٴ اقدس کی قید نہیں ہے؛لیکن سنن ابوداؤد کے مصنف نے یہ روایت باب زیارة القبور کے تحت ذکر کی ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہاں حضور پر سلام سے مراد زیارت روضہ اقدس کے وقت سلام کرنا ہے؛ چنانچہ اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے، جو شعب الایمان میں نقل کی گئی ہے، اس کے الفاظ ہیں:

ما من عبد یسلّم علی عند قبري (شعب الإیمان: ۳۸۵۹، باب فضل الحج والعمرة)

اور درود کے سلسلہ میں روایات بھی بکثرت وارد ہیں، دیکھیے: (القول البدیع فی الصلوٰة علی الحبیب الشفیع)

بہرحال اللہ نے ایسا نظام بنایا ہے کہ آپ روضہٴ اقدس کے پاس سلام کریں تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں اور اس کے سلام کا جواب و علیک السلام کے ذریعہ دیتے ہیں، گویا ایک اعتبار سے روضہٴ اقدس پر سلام کرنے سے ہم کلامی کاشرف حاصل ہوتاہے، اگر یہ نعمت ساری دنیا بلکہ اس دنیا جیسی چار پانچ دنیا خرچ کرکے بھی حاصل ہو تو ایک امتی کے حق میں ارزاں اور سستی ہے۔

حضرت شاہ صاحب کا مشاہدہ

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی( م: ۱۱۷۶ھ) قدس سرہ نے اپنی کتاب حجة اللہ البالغہ میں مذکورہ حدیث کے تحت گفتگو کی ہے، خلاصہ درج ذیل ہے:

”روح پاک جو مشاہدہ حق میں مشغول ہے اور جس کا کسی طرف التفاف باقی نہیں رہا، باذن الٰہی وہ سلام پیش کرنے والے کی طرف ملتفت ہوتی ہے اور جواب دیتی ہے، یعنی روح پاک سے سلام کرنے والے کو فیض پہنچتا ہے، شاہ صاحب فرماتے ہیں: میں نے ۱۱۴۴ھ میں جب میرا قیام مدینہ منورہ میں تھا، اس بات کا بار بار مشاہدہ کیا ہے یعنی روح نبوی سے فیض پایا ہے (رحمة اللہ الواسعہ: ۴/۳۴۵)

علامہ سخاوی نے اپنی مایہ ناز کتاب: القول البدیع میں روضہٴ اقدس پر کئے جانے والے سلام کے تعلق سے کئی واقعات نقل کیے ہیں، چند ملاحظہ فرمائیں:

سلیمان ابن سحیمسے منقول ہے کہ میں نے خواب میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی، میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول جو لوگ آپ کے روضے پر حاضر ہوتے ہیں اور آپ پر سلام کرتے ہیں، آپ اس کو سمجھتے ہیں؟ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں سمجھتا ہوں، اور ان کے سلام کا جواب بھی دیتا ہوں۔

ابراہیم بن شیبان کہتے ہیں کہ میں نے حج کیا پھر فراغت کے بعد مدینہ آیا، اور روضہٴ اقدس پر حاضر ہوکر سلام کیا، تو میں نے حجرہٴ شریف کے اندر سے ”وعلیک السلام“ کی آواز سنی (القول البدیع فی الصلوٰة علی الحبیب الشفیع: ۱/۱۶۵، مکتبہ شاملہ)

حضرت رفاعی کا ایک واقعہ

سید احمد کبیر رفاعی رحمہ اللہ جو حضرت غوث پاک کے معاصر ہیں، انہوں نے ۵۵۵ھ میں جب حج کیا اور روضہٴ اقدس پر حاضر ہوئے تو عرض کیا: السلام علیک یا جدّي (دادا جان السلام علیک) جواب مسموع ہوا وعلیک السلام یا ولدی (بیٹا! وعلیک السلام) اس پر ان کو وجد ہوا اور بے اختیار یہ اشعار زبان پر جاری ہوئے۔

في حالة البعد روحی کنت أرسلہا

تقبل الأرض عني و ہي نائبتي

و ہذہ نوبة الأشباح قد حضرت

فامدد یمینک کي تحظی بہا شفتی

جب ہم دور تھے تو اپنی روح کو اپنا نائب بناکر بھیج دیا کرتے تھے وہ روضہٴ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر زمین بوس ہوجایا کرتی تھی، اب جسم کی باری آتی ہے، ذرا اپناد ست مبارک بڑھائیے؛ تاکہ میرا لب اس سے بہرہ ور ہوسکے اور ہونٹوں کو (بوسہ) کی دولت نصیب ہوجائے۔

 علامہ جلال الدین السیوطینے نقل کیا ہے کہ روضہٴ اقدس کے اندر سے ایک نہایت نورانی ہاتھ ظاہر ہوا (جس کے روبرو آفتاب بھی ماند تھا) وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک تھا، انہو ں نے دوڑ کر بوسہ دیا اور بے ہوش ہوگئے، بس ہاتھ غائب ہوگیا، مگر کیفیت یہ ہوئی کہ تمام مسجد نبوی میں نور ہی نور پھیل گیا، ایسا نور کہ اس کے سامنے آفتاب کی بھی حقیقت نہ تھی، اور واقعی آفتاب کی، اس نور کے سامنے کیا حقیقت ہوتی، ایک بزرگ سے جو کہ اس واقعہ میں حاضر تھے کسی نے پوچھا کہ آپ کو رشک تو بہت ہوا ہوگا، فرمایا ہم تو کیا اس وقت ملائکہ کو بھی رشک تھا کہ ہمیں بھی یہ دولت نصیب ہوتی (دیکھئے خطبات حکیم الامت: ۱۴/۲۰۲)

اگرچہ بعض ظاہر پرست اور تصوف سے دلچسپی نہ رکھنے والے علماء نے اس واقعہ کا انکار کیا ہے؛ لیکن محققین علماء نے اس واقعہ کی صحت پر شبہ نہیں کیا ہے، ہمارے اکابر میں حضرت تھانوی نے اشرف الجواب میں اسی طرح مفتی عبدالرحیم لاجپوری نے فتاویٰ رحیمیہ میں اس واقعہ کو علامہ جلال الدین سیوطی کا رسالہ ”شرف مختم“ کے حوالے سے سند کے ساتھ نقل کیا، اور علاّمہ صفوری الشافعی (م: ۸۹۴ھ) نے تو ان اشعار کو نقل کرکے لکھا ہے:

ولا إنکار في ذلک فإنَّ إنکار ذلک یوٴدّي إلی سوء الخاتمة والعیاذ باللہ و إن کرامات الأولیاء حق ، والنبی صلی اللہ علیہ وسلم حي في قبرہ سمیع بصیر منعم فی قبرہ (نزہة المجالس و منتخب النفائس: ۱/۱۹۰)

روضہٴ اقدس پر درود افضل ہے یا سلام؟

علامہ باجی کی رائے یہ ہے کہ درود افضل ہے، علامہ سخاوی کہتے ہیں کہ روضہٴ اقدس کے پاس کھڑے ہوکر سلام پڑھنا افضل ہے؛ کیونکہ حدیث میں ”مامن مسلم یسلم عليَّ عند قبری“ وارد ہواہے۔

لیعلم أنَّ السَّلام علیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عند قبرہ أفضل من الصلوٰة و قال الباجي یدعو بلفظ الصلوٰة والظاہر الأول (القول البدیع: ۱/۲۱۴)

شیخ الحدیث مولانا زکریا  لکھتے ہیں:

لیکن اس ناکارہ کے نزدیک صلاة کا لفظ (یعنی درود) بھی کثرت سے روایات میں ذکرکیا گیا ہے؛اس لیے بندہ کے خیال میں اگر ہر جگہ درود و سلام دونوں کو جمع کیاجائے تو زیادہ بہتر ہے، یعنی بجائے السلام علیک یا رسول اللہ، ”السلام علیک یا نبی اللہ“ کے الصلوٰة والسلام علیک یا رسول اللہ الصلوٰة والسلام علیک یا نبی اللہ۔ اس صورت میں علامہ باجی اور علامہ سخاوی دونو ں کے قول پر عمل ہوجائے گا (فضائل درود شریف: ۲۴)

جب تک مدینہ میں قیام ہو خوب سلام عرض کیجیے

مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

جب تک مدینہ منورہ میں قیام ہو کثرت سے روضہٴ اقدس کے سامنے حاضر ہوکر سلام عرض کیا کرے، خصوصاً پانچ نمازوں کے بعد (زبدہ)

مسئلہ: اگر کسی وقت خاص مواجہ شریف پر حاضری کا موقع نہ ملے تو روضہ اقدس کے کسی طرف بھی کھڑے ہوکر یا مسجد نبوی میں کسی جگہ بھی سلام عرض کرسکتا ہے، اگرچہ اس کی وہ فضیلت نہیں جو سامنے حاضر ہوکر سلام عرض کرنے کی ہے۔

مسئلہ: عورتوں کو بھی روضہٴ اقدس کی زیارت اور مواجہ شریف میں حاضر ہوکر سلام عرض کرنا چاہیے، البتہ ان کے لیے بہتر ہے کہ رات کے وقت حاضر ہوں، اور جب زیادہ ازدہام ہو تو کچھ فاصلہ ہی سے سلام عرض کردیں ۔ (جواہر الفقہ: ۴/۱۷۶)

روضہٴ اقدس پر حاضری کے آداب

جب روضہ اقدس پر حاضری کا ارادہ ہو تو خوب طہارت و نظافت کا اہتمام کرنا چاہیے، مناسب یہ ہے کہ غسل کرلے اور اچھا سا لباس زیب تن کرکے بالوں میں کنگھا کرلے، خوشبو اور سرمہ کا اہتمام ہو، اپنی قیام گاہ سے باہر نکل کر پہلے کچھ صدقہ کریں، وقار کے ساتھ ڈرے سہمے کہ کہیں کوئی بے ادبی یا گستاخی نہ ہوجائے، قدم اٹھاتے ہوئے مسجد نبوی تک آئیں، آسانی ہو تو باب جبرئیل سے مسجد میں داخل ہونے کی کوشش کرے، اور داہنا قدم رکھتے ہوئے :

بسم اللّٰہ والصلاة والسلام علی رسول اللّٰہ اللہم اغفرلی ذنوبي، وافتح لی أبواب رحمتک پڑھ لے اور اعتکاف کی نیت کرلے، اگر سہولت ہو تو سیدھے ریاض الجنة پہنچ کر محراب میں یا اس کے محاذ میں یا جہاں آسانی سے ہوسکے، دو رکعت تحیة المسجد پڑھے، نماز سے فارغ ہوکر اپنے ہوش و حواس درست کرے، تاکہ سستی و غفلت نہ کرے، اس کا استحضار کرے یہ دربار کس کا ہے، محبوب رب العالمین کا، شفیع المذنبین کا، رحمة للعالمین کا، یہ سوچے کہ یہاں تو مقرب فرشتے حضرت جبرئیل اور حضرت میکائیل وغیرہ سلام کو آتے ہیں، اور روضہ اقدس کی جانب نہایت سکون و وقار کے ساتھ بڑھے اور مواجہ شریف پر پہنچنے کی کوشش کرے، جالی مبارک میں تین جھروکے ہیں، اندر کی طرف حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی مبارک قبروں کا سامنا ہوتا ہے، ان جالیوں کی دیوار سے تین چار ہاتھ کے فاصلہ پر کھڑے ہونا چاہیے یا جہاں جگہ مل جائے، زیادہ قریب ہونا بے ادبی ہے، آنکھیں پرنم ہوں، دل دھڑک رہا ہو، نگاہیں نیچی ہوں، ادھر ادھر دیکھنا، اندر جھانکنا، سخت بے ادبی ہے، پاؤں ساکن اور باوقار رکھنا چاہیے۔

مکی   مد   نی   ہا   شمی   مطلبی

آدم کے لیے فخر یہ عالی نسبی

آہستہ قدم، نیچی نگاہ، پست ہو آواز

خوابیدہ یہاں روح رسول عربی

اب یہ تصور کرے کہ چہرہ انور اس وقت میرے سامنے اور سرکار دو عالم کو میری حاضری کی خبر ہے، پھر ذوق و شوق سے صلاة و سلام کا نذرانہ پیش کرے، مخصوص سلام یاد ہو تو وہ پڑھے ورنہ الصلاة والسلام علیک یا رسول اللہ، والصلوٰة والسلام علیک یا نبی اللہ پڑھے، اگر دوسرے لوگوں نے سلام پہنچانے کی درخواست کی ہو ان کا سلام پہنچا دینا چاہیے، پھر اللہ سے دعائیں مانگنی چاہیں اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاء مغفرت سے درخواست کرنی چاہیے، پھر تقریباً ایک ہاتھ دائیں طر ف ہٹ کر، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر سلام پڑھنا چاہیے پھر تقریباً ایک ہاتھ بائیں ہٹ کر حضرت عمررضی اللہ عنہ پر سلام پڑھنا چاہیے، اس کے بعد پھر پہلی جگہ یعنی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آجائے، اور خوب دعائیں کرے، اور حضرات شیخین کے لیے بھی دعائیں مانگنی چاہیے، پھر عزیز و اقارب ، دوست و احباب اور جنہوں نے دعا کی درخواست کی ہے، ان کے لیے بھی دعائیں مانگے، پھر تمام مسلمانان عالم کی خیر و بھلائی کی دعا کرکے دعا ختم کرے، تفصیل کے لیے دیکھیے ۔(فتح القدیر: ۳/۱۸۰، کتاب الحج، شرح الشفاء لملا علی قاری: ۲/۱۶۱، فصل فیما یلزم من دخل المسجد، وفاء الوفاء: ۴/۲۱۵، الفصل الرابع فی آداب الزیارة ، معلم الحجاج: ۱۹۳)

روضہٴ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب و احترام ، چند آیات

علامہ جلال الدین سیوطینے الخصائص الکبری میں روضہٴ رسول کے مقام و مرتبہ اور ادب و احترام پر قرآن کریم کی چار آیات کے ذریعہ استدلال کیا ہے، ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:

(۱) اے ایمان والوں اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ سننے اور جاننے والے ہیں (الحجرات: ۱)

(۲) اے ایمان والو! اپنی آوازیں اونچی نہ کرو، نبی کی آواز سے، اور ان کے حضور بات چلاّکر نہ کہو، جیسے ایک دوسرے کے سامنے چلاّتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال اکارت نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو (الحجرات: ۲)

(۳)بے شک وہ لوگ رسول اللہ کے پاس اپنی آوازیں پست کرتے ہیں، وہ لوگ ایسے ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے، ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے (الحجرات: ۳)

(۴) بے شک وہ لوگ جو آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں، اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ ان کے پاس تشریف لاتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا، اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے (الحجرات: ۵)

ان آیات کو لکھنے کے بعد آگے لکھتے ہیں:

قال جماعة: ”و یکرہ رفع الصوت عند قبرہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم؛ لأن حرمتہ میتا کحرمتہ حیا

روضہٴ اقدس پر آواز بلند کرنا، چلانا مکروہ ہے، کیونکہ آپ کا ادب و احترام بعد وفات اس طرح ہے جس طرح آپ کی زندگی میں تھا۔

آگے ایک واقعہ نقل کیاہے: ابن حمید سے روایت ہے کہ ابوجعفر المنصور نے امام مالک رحمة اللہ علیہ سے مسجد نبوی میں مناظرہ کیا، اس وقت ابوجعفر خلیفہ کے ساتھ پانچ سو شمشیر بند موجود تھے، امام مالک نے ابوجعفر سے فرمایا: اے امیر المومنین اس مسجد میں اپنی آواز اونچی نہ کرو؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ادب سکھلایا ہے، لاترفعوا اصواتکم (الحجرات) اور ان مسلمانوں کی تعریف کی گئی ہے جو آواز پست رکھتے ہیں: ان الذین یغضون اصواتہم (الحجرات) او ربے ادب لوگوں کی مذمت فرمائی ہے، ارشاد ہے: ان الذین ینادونک من وراء الحجرات (الحجرات)

و إن حرمة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میتا کحرمتہ حیا فاستکان لہ الخلیفہ

بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام بعد وصال بھی ایسا ہے جیسا کہ حیات مبارکہ میں تھا یہ سن کر خلیفہ ابوجعفر نے عاجزی اختیار کی (الخصائص الکبری: ۲/۴۴۵، مطبوعہ دارالکتب بیروت)

روضہٴ رسول کی حفاظت کا ایک واقعہ

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس وہ ذات تھی جس کی حفاظت، بحالت زندگی، اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر فرشتوں کے ذریعہ کی جاتی تھی، چاہے وہ مکہ میں آپ کے قتل کا منصوبہ ہو یا یہودیوں کی بستی میں پتھر گرانے یا زہر کھلانے کا واقعہ ہو، ہر موقع پر من جانب اللہ آپ کی حفاظت کی گئی، دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد تاریخ میں ایک واقعہ ایسا بھی پیش آیا کہ دو خبیث الفطرت یہودیوں نے قبر اطہر سے نعش مبارک نکالنے کا غلیظ منصوبہ بنایا تھا؛لیکن یہاں بھی نصرت الٰہی مانع بن گئی۔ اختصار کے ساتھ واقعہ ملاحظہ فرمائیں:

ابن العماد حنبلی (م: ۱۰۸۹ھ) نے اپنی کتاب شذرات الذہب میں اس واقعہ کو نقل کیاہے: واقعہ ۵۵۷ھ کا ہے، راقم الحروف نے مضمون کو الفاظ کا جامہ پہنانے کی کوشش کی ہے۔

مشہور مجاہد فی سبیل اللہ اور بزرگ امیر المومنین سلطان نور الدین محمود زنگی ایک رات امور مملکت کی انجام دہی اور عبادات و وظائف سے فراغت کے بعد جیسے ہی سوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی اور حضور کے ساتھ دو اور چہرے نظر آنے لگے، جن پر نحوست کے آثار تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلطان نور الدین کو متوجہ کرتے ہوئے کہا:

یا محمود انقذنی من ہذین الشخصین

مجھے ان دو شیطان صفت لوگوں سے نجات دلاؤ، سلطان نور الدین نے اپنے وزیر جمال الدین موصلی کو فوراً بلایا، امیر المومنین نے اپنا خواب بیان کیا، وزیر نے کہا: ایسا لگتا ہے کہ مدینہ میں کوئی حادثہ ہونے والا ہے، ہمیں بلاتاخیر مدینہ جانا چاہیے، چنانچہ امیر المومنین نے فوراً کوچ کا اعلان کیا، اور تیس نامور قسم کے افراد پر مشتمل ایک قافلے کی ہمراہی میں انتہائی سبک رفتار سواریوں پر مدینہ منورہ کی جانب چل پڑے، اور تقریباً سولہ روز کی مسافت کے بعد آپ مدینہ پہنچ گئے، امیر المومنین نے مدینہ کے گورنر سے رسمی گفتگو کے بعد اپنی آمد کا مقصد بتایا؛چنانچہ باہمی مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیاگیا کہ مدینہ کے ہر ہر فرد کو خواہ چھوٹاہو یا بڑا، بوڑھا ہو یا جوان ، مرد ہو یا عورت، ہر کسی کو شاہی دعوت نامہ دیا جائے، کہ امیر المومنین دارالخلافہ دمشق سے روضہ رسول کی زیارت کے لے تشریف لائے ہیں، زیارت کے بعد امیر المومنین کی طرف سے تمام اہل مدینہ کی ضیافت کا اہتمام کیا گیاہے، اس کے بعد امیر المومنین اپنے ہاتھوں ہدایا بھی تقسیم کریں گے، ہر فرد کا حاضر ہونا ناگزیر ہے۔

چنانچہ ایسا ہی کیا گیا، ہر شخص کو ہدیہ دیتے وقت امیر المومنین اس کے چہرے کو بغور دیکھتے تھے، تمام لوگ فارغ ہوگئے؛ لیکن وہ دونوں چہرے نظر نہ آئے، امیر المومنین حد درجہ پریشان ہوئے، اور گورنر سے پوچھا: کیا کوئی باقی تو نہیں ہے، گورنر نے بتایا کہ سوائے دو شخصوں کے باقی سب نے شرکت کی ہے، دو بزرگ ہیں جو اندلس سے آئے ہوئے ہیں، وہ عبادت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ گوشہ نشین بھی ہیں، مالدار بھی ہیں؛ اس لیے عموماً کسی سے ملتے جلتے نہیں ہیں؛اس لیے ہم نے انہیں مدعو بھی نہیں کیا کہ انہیں خلل ہوگا۔

امیر المومنین کو سخت غصہ آیا اور فوراً انہیں بلانے کا حکم دیا، وہ دونوں آئے ، سلطان نور الدین کی حیرت کی انتہاء نہ رہی کہ خواب میں جن دو چہروں کو دیکھا تھا وہ منحوس چہرے انہیں دو آدمیوں کے تھے، امیر المونین نے پوچھا تم کون ہو اور یہاں کیوں آئے ہو؟ انہو ں نے کہا ہم حج کے لیے آئے تھے، پھر مدینہ آئے تو اب یہاں سے جانے کو جی نہیں کرتا، امیر المومنین نے کہا: سچ سچ بتاؤ ورنہ تمہیں عبرتناک سزا دی جائے گی، ان دونو ں نے گھبراہٹ کے عالم میں حقیقت حال بتائی کہ ہم دونوں یہودی ہیں، اور ہمیں ایک مقصد کے لیے بھیجا گیا ہے کہ کسی طرح ہم تمہارے رسول کا جسم اطہر ان کے روضہ سے نکال کر اسلام مخالف طاقتوں تک پہنچا دیں، جب روضہ میں رسول ہی نہیں ہوں گے تو مسلمانوں کے حوصلے پست ہوجائیں گے، انہیں شکست دینا آسان ہوگا، چنانچہ ہم جسم اطہر کو چوری کرنے کے لیے آئے ہیں۔

امیر المومنین ان مکاروں کو لے کر ان کے کمرے میں پہنچے، اور ہر چیز کا باریکی سے جائزہ لیا؛لیکن کچھ نظر نہیں آیا، کمرے سے نکلتے وقت اپنے پاؤں کے نیچے پڑی ہوئی چٹائی کو ہٹایا، تو سب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ نیچے ایک بڑا سوراخ نظر آیا، جس میں ایک شخص آرام سے اتر سکتا تھا، سلطان نور الدین نیچے اتر گئے، نیچے ایک بہت بڑی سرنگ تھی ، آپ اندر چلتے گئے، اورجب سرنگ کے کنارے پہنچے تو انگشت بدنداں دیکھتے رہ گئے، کہ اس کا آخری سرا روضہ اقدس کی دیوار تک پہنچ چکا ہے؛بلکہ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ امیر المومنین کو آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک بھی دکھائی دئیے، اس کے بعد ان دونوں نام نہاد بزرگوں کو عبرتناک سزا دلوائی، انہیں قتل کرا دیا، اور اس کے بعد روضہ اقدس کے چاروں طرف سیسہ پلائی ہوئی فولادی اور آہنی دیواریں تعمیر کروائیں تاکہ آئندہ کوئی ایسا ناپاک اقدام نہ کرسکے۔

 (شذرات الذہب فيأخبار من ذہب: ۶/۳۸۰، المکتبة الشاملة)

بارگاہ ایزدی میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں روضہٴ رسول کی زیارت کی سعاد ت سے بار بار سرفراز فرمائے؛کیونکہ یہ زیارت ایسی لازوال نعمت ہے جس کی کثرت ، انسان کے لیے سب سے بڑے شرف و سعادت کی باعث ہے۔

یا ربّ صلّ وسلّم دائما أبدا

علی حبیبک خیر الخلق کلّہم

$ $ $