Sunday, 21 November 2021

تحمید - اللہ کی تعریف بیان کرنے - اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ کہنے - کے معنی، تشریح اور فضائل

Islamic Affirmation:

 

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ (سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں)

تحمید کہتے ہیں حمد بیان کرنے کو، یعنی الله کی تعریف(تعارف وپہچان) بیان کرنے کو۔

جیسے:

پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا:

تمام تعریفیں الله کیلئے جو کھلاتا ہے اور اسے کھلایا نہیں جاتا، جس نے ہم پر احسان کیا، ہمیں گمراہی سے ہدایت دی اور ہمیں کھلایا پلایا اور ننگے پن سے کپڑا پہنایا اور اندھے پن کے بدلہ روشنی بخشی اور اپنی بہت سے مخلوق پر ہمیں بڑی فضیلت دی اور ہمیں اچھی آزمائش میں مبتلا کیا۔

تمام تعریفیں الله کیلئے نہ میرے رب کو الوداع کہتے ہوۓ اور نہ بدلہ دیتے ہوۓ اور نہ ناشکری اور اس سے بےپرواہی کرتے ہوۓ۔

‏[حاکم:2003]



الله پاک کے آخری پیغمبر محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا:
وَكُلُّ تَحْمِيدَةٍ صَدَقَةٌ
ترجمہ:

۔۔۔ ہر تحمید (یعنی سبحان الله کہنا) بھی صدقہ(نیکی)ہے۔۔۔
[صحیح مسلم:720(2329)]



نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَأُ الْمِيزَانَ

ترجمہ:

اور الحمدلله کہنا اعمال نامہ کو نیکیوں سے بھردیتا ہے۔

[صحیح مسلم:223(556)۔باب فضل الوضوء]




روزانہ تحمید کہنے کی تعداد اور فضیلت:

الله کے آخری پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا:

وَاحْمَدِي اللَّهَ مِائَةَ مَرَّةٍ۔۔۔وَخَيْرٌ مِنْ مِائَةِ بَدَنَةٍ

۔۔۔اور کہا کرو 100 بار الحمدلله...اور(یہ) 100 جانور قربان کرنے سے بہتر ہیں۔۔۔

[احمد:26911]



وَمَنْ حَمِدَ اللَّهَ مِائَةً بِالْغَدَاةِ وَمِائَةً بِالْعَشِيِّ كَانَ كَمَنْ حَمَلَ عَلَى مِائَةِ فَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ غَزَا مِائَةَ غَزْوَةٍ

ترجمہ:

اور جو تعریف کہے الله کی 100 مرتبہ صبح کو اور 100 مرتبہ شام کو بھی تو گویا اس نے فی سبیل اللہ غازیوں کی سواریوں کے لیے 100 گھوڑے فراہم کئے...یا...اس نے 100 جہاد کئے۔۔۔

[ترمذی:3471]

مرنے سے پہلے زندگی بھر کے بغیرمانگے عطا کئے گئے اللہ کے انعامات کا شکر ادا کرلو۔۔۔بےشک جنت میں داخلہ اللہ کی رحمت(رضا) ہی سے ہوگا، لیکن اعمال ہی (1)قیامت کے حساب، (2)جہنم کے عذاب اور (3)جنت میں سب سے نیچے پیچھے ہونے کی دائمی ندامت سے بچانے کا وسیلہ ہیں۔۔



تعریف کی قرآنی وضاحت:

القرآن:

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں (کیونکہ) وہ پالنہار ہے سارے جہانوں کا۔

[سورۃ الفاتحہ:1]


تفسیر:

اگر آپ کسی عمارت کی تعریف کریں تو در حقیقت وہ اس کے بنانے والے کی تعریف ہوتی ہے، لہذا اس کائنات میں جس کسی چیز کی تعریف کی جائے وہ بالآخر اللہ تعالیٰ ہی کی تعریف ہے ؛ کیونکہ وہ چیز اسی کی بنائی ہوئی ہے، تمام جہانوں کا پروردگار کہہ کر اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے، انسانوں کا جہان ہو یا جانوروں کا، سب کی تخلیق اور پرورش اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے اور ان جہانوں میں جو کوئی چیز قابل تعریف ہے وہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور شان ربوبیت کی وجہ سے ہے۔



تمام تعریفیں اللہ کی ہیں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور اندھیریاں اور روشنی بنائیَ پھر بھی جن لوگوں کفر اپنا لیا ہے وہ دوسروں کو (خدائی میں) اپنے پروردگار کے برابر قرار دے رہے ہیں۔

[سورۃ الانعام:1]





اور کہو کہ : تمام تعریفیں اللہ کی ہیں جس نے نہ کوئی بیٹا بنایا، نہ اس کی سلطنت میں کوئی شریک ہے، اور نہ اسے عاجزی(بےبسی) سے بچانے کے لیے کوئی حمایتی درکار ہے۔  اور اس کی ایسی بڑائی بیان کرو جیسی بڑائی بیان کرنے کا اسے حق حاصل ہے۔

[سورۃ الاسراء:111]

تفسیر:

بہت سے انکار کرنے والوں کا یہ خیال تھا کہ جس ذات کا نہ کوئی بیٹا ہو اور نہ اس کی سلطنت میں کوئی شریک ہو، وہ تو بڑی کمزور ذات ہوگی، اس آیت نے واضح فرمادیا کہ اولاد اور مددگاروں کی حاجت اس کو ہوتی ہے جو کمزور ہو، اور اللہ تعالیٰ کی ذات اتنی قوی ہے کہ اسے کمزوری دور کرنے کے لئے نہ کسی اولاد کی ضرورت ہے نہ کسی مددگار کی حاجت۔


تمام تعریفیں اللہ کی ہیں جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی، اور اس میں کسی قسم کی کوئی خامی نہیں رکھی۔

[سورۃ الکھف:1]




اور کہہ دو کہ : تمام تعریفیں اللہ کی ہیں، وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے گا، پھر تم انہیں پہچان بھی لو گے۔  اور تمہارا پروردگار تمہارے کاموں سے بیخبر نہیں ہے۔

[سورۃ النمل:93]

تفسیر:

39: اللہ تعالیٰ اپنے آخری پیغمبر ﷺ کی حقانیت اور اپنی قدرت کی بہت سی نشانیاں دنیا میں دکھاتا رہا ہے، مثلاً: بہت سی پیشگی خبریں جو آپ نے وحی کی بنیاد پر دی تھیں، وہ لوگوں نے کھلی آنکھوں پر پوری ہوتی ہوئی دیکھیں، جیسا کہ سورة روم کے شروع میں اس کی ایک مثال آنے والی ہے۔ یہاں اس قسم کی نشانیاں بھی مراد ہوسکتی ہیں، اور قیامت بھی مراد ہوسکتی ہے کہ اس وقت قیامت کے منکر بھی اسے پہچان لیں گے، لیکن اس وقت کا پہچاننا فائدہ مند نہیں ہوگا، کیونکہ ایمان لانے کا وقت گذر چکا ہوگا۔



تمام تر تعریف اس اللہ کی ہے جس کی صفت یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے، اور آخرت میں بھی تعریف اسی کی ہے، اور وہی ہے جو حکمت کا مالک ہے، مکمل طور پر باخبر۔

[سورۃ سبا:1]



تمام تر تعریف اللہ کی ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، جس نے ان فرشتوں کو پیغام لے جانے کے لیے مقرر کیا ہے، جو دو دو، تین تین اور چار چار پروں والے ہیں۔ وہ پیدائش میں جتنا چاہتا ہے اضافہ کردیتا ہے۔  بیشک اللہ ہر چیز کی قدرت رکھنے والا ہے۔

[سورۃ فاطر:1]

تفسیر:

پچھلے جملے کی مناسبت سے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جن فرشتوں کی پروں کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہتا ہے، اضافہ کردیتا ہے، چنانچہ حضرت جبرئیل ؑ کے چھ سو پروں کی تعداد حدیث میں آئی ہے، لیکن الفاظ عام ہیں، اور ہر تخلیق کو شامل ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ جس کی تخلیق میں چاہتا ہے، کسی خاص وصف کا اضافہ فرما دیتا ہے۔


وہی سدا زندہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس لیے اس کو اس طرح پکارو کہ تمہاری تابع داری خالص اسی کے لیے ہو۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔

[سورۃ غافر:65]



اللہ نے ایک مثال یہ دی ہے کہ ایک (غلام) شخص ہے جس کی ملکیت میں کئی لوگ شریک ہیں جن کے درمیان آپس میں کھینچ تان بھی ہے اور دوسرا (غلام) شخص وہ ہے جو پورے کا پورا ایک ہی آدمی کی ملکیت ہے۔ کیا ان دونوں کی حالت ایسی جیسی ہوسکتی ہے ؟ الحمدللہ (اس مثال سے بات بالکل واضح ہوگئی) لیکن ان میں سے اکثر لوگ سمجھتے نہیں۔

[سورۃ الزمر:29]

تفسیر:

جو غلام کئی آدمیوں کی مشترک ملکیت میں ہو، اور وہ کئی آدمی بھی آپس میں جھگڑتے رہتے ہوں، وہ ہمیشہ پریشانی کا شکار رہتا ہے کہ کس کا کہنا مانوں، اور کس کا نہ مانوں، اس کے برخلاف جو غلام کسی ایک ہی آقا کی ملکیت میں ہو، اسے یہ پریشانی پیش نہیں آتی، وہ یکسو ہو کر اپنے آقا کی اطاعت کرسکتا ہے۔ اسی طرح جو شخص توحید(یعنی ایک خدا) کا قائل ہے، وہ ہمیشہ یکسو ہو کر اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتا ہے، اور اسی کی عبادت کرتا ہے، اس کے برخلاف جن لوگوں نے کئی کئی خدا گھڑ رکھے ہیں، وہ کبھی ایک جھوٹے دیوتا کا سہارا لیتے ہیں، کبھی دوسرے کا، اور انہیں یکسوئی میسر نہیں آتی۔ اس طرح یہ مثال توحید کی دلیل بھی ہے اور اس کی حکمت بھی۔


(


اللہ کی خوبیاں:




حمد کی لفظی معنیٰ:

امام الراغب الاصفھانی(م502ھ)لکھتے ہیں:
حمد کے معنیٰ اللہ تعالیٰ کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری(intentionally) طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف(Qualities) پر بھی جو پیدائشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چنانچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قد وقامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے۔ لیکن حمد صرف افعال اختیاریہ(intentional actions) پر ہوتی ہے، نہ کہ اوصاف اضطراریہ(unintentional Qualities) پر۔ اور شکر تو صرف کسی کے "احسان" کی وجہ سے اس کی تعریف کرنے کو کہتے ہیں۔ لہذا ہر شکر حمد ہے، مگر ہر شکر حمد نہیں ہے۔ اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے۔

اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد ﷺ صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت سے قابلِ تعریف خصلتیں رکھتا ہو، نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں۔

اور آیت کریمہ:- إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [سورۃ هود:73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے۔ میں حمید بمعنیٰ محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [سورۃ الصف:6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتا ہوں۔ اس میں لفظ احمد سے الله کے رسول محمد ﷺ کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح پیغمبر ﷺ کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور پیغمبر عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد (صیغہ تفضیل) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آخری پیغمبر ﷺ حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں۔

اور آیت کریمہ:- مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [سورۃ الفتح:29] محمد ﷺ الله کے پیغمبر ہیں۔ میں لفظ محمد ﷺ کو من وجہ پیغمبر ﷺ کا نام ہے لیکن اس میں پیغمبر ﷺ کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشاره پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [سورۃ مریم:7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام یحییٰ بمعنیٰ حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پر مذ کور ہے ۔



ہر حال میں اللہ کی تعریف کہنے کی فضیلت:
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
‌«‌أَوَّلُ ‌مَنْ ‌يُدْعَى ‌إِلَى ‌الْجَنَّةِ الَّذِينَ يَحْمَدُونَ اللَّهَ عَلَى السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ»

سب سے پہلے بلایا جاۓ گا جنت کی طرف قیامت کے دن ان لوگوں کو جو خوشی اور غمی(ہر حال)میں الله کی تعریف کرنے والے ہوں گے۔
[الصبر والثواب-امام ابن ابي الدنیا: حدیث#109]
صحیح
[حاکم:1851]
تفسیر-امام الثعلبي»سورۃ النساء:163
تفسیر-امام البغوي»سورۃ التوبۃ:112

تمام تعریفیں الله کیلئے بےحساب اور درود وسلام الله کے رسول پر اور تمام علماء پر بےشمار کہ جن سے ہم تک یہ خیر و بھلائی کی تعلیم پہنچیں۔

اور سلامتی ہو ان تمام مومن اور مسلمان مردوں اور عورتوں پر جو ہدایت کے پیچھے چلے۔











No comments:

Post a Comment