Saturday, 25 December 2021

جرابوں پر مسح کی شرائط

’’خفین‘‘ پر مسح کرنا جائز ہے اور ’’خفین‘‘ ایسے موزے کو کہتے ہیں جو پورے چمڑے کے ہوں، اسی طرح ”مجلد“ یعنی وہ موزے جن کے اوپر اور نچلے حصے میں چمڑا ہو ، اور ”منعل“ یعنی وہ موزے جن کے صرف نچلے حصے میں چمڑا ہو ان تینوں پر مسح کرنا جائز ہے۔

اسی طرح ایسی جرابیں جن میں تین شرطیں پائی جائیں تو ان پر بھی مسح کرنا جائز ہے، وہ شرائط یہ ہیں:

(1) ایسے گاڑھے (موٹے) ہوں کہ ان میں پانی نہ چھنے یعنی اگر ان پر پانی ڈالا جائے تو پاؤں تک نہ پہنچے.

(2) اتنے مضبوط ہوں کہ بغیر جوتوں کے بھی اس میں ایک فرسخ (تین میل) پیدل چلنا ممکن ہو.

(3) وہ کسی چیز سے باندھے بغیر اپنی موٹائی اور سختی کی وجہ سے پنڈلی پر خود قائم رہ سکیں، اور یہ کھڑا رہنا کپڑے کی تنگی اور چستی کی وجہ سے نہ ہو ۔

ان کے علاوہ باقی اونی، سوتی یا نائلون کی مروجہ جرابوں پر مسح کرنا ائمہ متبوعین میں سے کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں ہے۔

واضح رہے کہ قرآن کریم میں جو وضو کا طریقہ بیان ہوا ہے ان میں اصل حکم پاؤں دھونے کا ہے، لیکن چمڑے کے موزوں پر مسح کرنے کی باجماعِ امت اجازت دی گئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے موزوں پر مسح کرنا اور آں حضرت ﷺ کا اس کی اجازت دینا ایسے تواتر سے ثابت ہے جس کا انکار ممکن نہیں ہے، اور چمڑے کے یہ موزے جنہیں ’’خفین‘‘ کہا جاتا ہے اس کے بارے میں تواتر موجود ہے، لہذا اس پر تو بلاشک وشبہ مسح جائز ہے، اور جو موزے اتنے ثخین(موٹے) ہوں کہ وہ اپنی خصوصیات اور اوصاف میں چمڑے کے ہم پایہ ہوگئے ہوں (جن کی شرائط ماقبل میں گزریں) ایسے موزوں پر فقہاء نے مسح کی اجازت دی ہے، اور فقہاء نے یہ شرائط بھی تابعین کے فتوے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل سے اخذ کی ہیں، چناچہ مصنف ابن ابی شیبہ میں روایات ہے کہ حضرت سعید ابن المسیب اور حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”جرابوں پر مسح جائز ہے بشر ط یہ کہ وہ موٹی ہوں“۔

"عن قتادة، عن سعيد بن المسيب، والحسن أنهما قالا: «يمسح على الجوربين إذا كانا صفيقين»". (مصنف ابن أبي شيبة (1/ 171) برقم:1976)
اور ”صفیق“ اس کپڑے کو کہا جاتا ہے جو خوب مضبوط اور دبیز ہو. اور حضرت حسن بصری اور حضرت سعید ابن المسیب رحمہ اللہ دونوں جلیل القدر تابعین میں سے ہیں،انہوں نے صحابہ کرام کا عمل دیکھ کر ہی یہ فتوی دیا ہے۔

اور اسی موٹائی کی وضاحت کرتے ہوئے فقہاء نے جرابوں پر مسح کرنے کے لیے مذکورہ شرائط ذکر کی ہیں، ایسے موزے چوں کہ چمڑے کے اوصاف کے حامل ہوتے ہیں، اس لیے ان کو بھی اکثر فقہاء نے ”مسح علی الخفین“ کی احادیث کی ”دلالۃ النص“ اور مذکورہ آثار صحابہ کی بنا پر ”خفین“ کے حکم میں داخل کرلیا ہے، چناچہ علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ فتح القدیر میں تحریر فرماتے ہیں:

فتح القدير للكمال ابن الهمام (1/ 157):
" لا شك أن المسح على الخف على خلاف القياس فلايصلح إلحاق غيره به إلا إذا كان بطريق الدلالة وهو أن يكون في معناه، ومعناه الساتر لمحل الفرض الذي هو بصدد متابعة المشي فيه في السفر وغيره للقطع بأن تعليق المسح بالخف ليس لصورته الخاصة بل لمعناه للزوم الحرج في النزع المتكرر في أوقات الصلاة خصوصا مع آداب السير".

کاسانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر جرابیں پتلی اور اتنی باریک ہوں کہ ان میں سے پانی رس جائے تو سب کا اس بات پر اجماع ہے کہ ان پر مسح کرنا جائز نہیں "انتہی
"بدائع الصنائع" (1/10)

اسی طرح ابن قطان الفاسی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سب کا اس بات پر اجماع ہے کہ : اگر جرابیں موٹی نہ ہوں تو ان پر مسح کرنا جائز نہیں ہے" انتہی
"الإقناع في مسائل الإجماع" ( مسئلہ نمبر:  351)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کیا جرابوں پر موزوں کی طرح مسح کرنا جائز ہے؟
تو انہوں نے کہا:
"جرابوں پر مسح کرنا  اس وقت جائز ہے جب انہیں پہن کر چلنا ممکن ہو، چاہے جرابوں کے تلوے چمڑے کے ہوں یا نہیں" انتہی
"مجموع الفتاوى" (21/213)



ائمہ اربعہ (چاروں اماموں) کا اتفاق:
فقہ حنفی :
لَا ‌يَجُوزُ ‌الْمَسْحُ ‌عَلَى ‌الْجَوْرَبِ الرَّقِيقِ مِنْ غَزْلٍ أَوْ شَعْرٍ بِلَا خِلَافٍ۔
[البحر الرائق شرح كنز الدقائق-ابن نجيم : ج 1 ص 192 الناشر: دار الكتاب الإسلامي]
سوت اور بالوں کی باریک جرابوں پر بغیر کسی اختلاف کے مسح کرنا جائز نہیں۔

قال أبو حنيفة: ‌لا ‌يجوز ‌المسح ‌على ‌الجورب إلا أن يكون منعلا
فرمایا ابوحنیفہؒ نے: نہیں ہے جائز مسح جرنا جوراب پر مگر یہ کہ وہ ہو  منعل۔
[التجريد للقدوري(م428ھ) : ج 1 ص 326 مسئلہ 65، فرمان#1352]
”منعل“ یعنی وہ موزے جن کے صرف نچلے حصے میں چمڑا ہو۔

فقہ شافعی:
(‌وَإِنْ ‌لَبِسَ ‌جَوْرَبًا ‌جَازَ ‌الْمَسْحُ عَلَيْهِ بِشَرْطَيْنِ أَحَدُهُمَا أَنْ يَكُونَ صَفِيقًا لَا يَشِفُّ وَالثَّانِي أَنْ يَكُونَ مُنَعَّلًا فَإِنْ اخْتَلَّ أَحَدُ الشَّرْطَيْنِ لم يجز المسح عليه).
[المجموع شرح المهذب-النووي: ج 1 ص 499]
ایسی جرابیں جن میں درج ذیل دو شرطیں پائی جائیں ان پر مسح جائز ہے ورنہ جائز نہیں نمبر 1: سخت اور اتنی موٹی ہوں کہ پانی کو )فوراً(جذب نہ کریں۔
نمبر 2 : منعل ہو یعنی جس کے نیچے چمڑا لگا ہوا ہو۔

فقہ مالکی :
وَمثل ‌الْخُف ‌فِي ‌الْجَوَاز ‌والجورب وَهُوَ مَا كَانَ من قطن أَو كتَّان أَو صوف كسى ظَاهره بِالْجلدِ
فَإِن لم يجلد فَلَا يَصح الْمسْح عَلَيْهِ
[الخلاصة الفقهية على مذهب السادة المالكية: ج 1 ص 37 (ص43 دار الكتب العلمية)]
روئی ، السی اور اون کی مجلد (یعنی جس کے اوپر نیچے چمڑا لگا ہوا ہو) جراب مسح کے جواز میں موزے کی طرح ہے اگر مجلد نہ ہو تو اس پر مسح کرنا جائز نہیں۔

فقہ حنبلی :
‌يجوز ‌المسح ‌عليهما ‌إذا ‌ثبت بنفسه وأمكن متابعة المشي فيه وإلا فلا۔
[الشرح الكبير على متن المقنع: ج 1 ص 30 (ج1 ص149 ط المنار) (1/ 381 ت التركي)]
جرابوں پر مسح صرف اس صورت میں جائز ہے جس میں درج ذیل دو شرطیں ہوں: نمبر 1 : بغیر باندھنے کے ٹھہری رہیں۔
نمبر2 : ان میں(بغیر جوتی کے)مسلسل چلنا ممکن بھی ہو ورنہ مسح کرنا جائز نہیں۔ 

مزید تفصیل لے لیے ”فقہی مقالات“ (حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم) جلد 2 ص:9 تا 24 کا مطالعہ مفید رہے گا۔



زمانہ جس قدر خیرالقرون سے دور ہوتا جارہا ہے اتنا ہی فتنوں کی تعداد اور افزائش میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ہر روزایک نیا فتنہ سر اٹھاتا ہے اور عوام الناس کو اپنے نئے اعتقاد ،افکار اور اعمال کی طرف دعوت دیتاہے۔ اپنی خواہشات نفسانی کے پیش نظر قرآن وسنت کی وہ تشریح کرتا ہے جو ان کے خود ساختہ مذہب واعمال کے مطابق ہو۔عوام چونکہ ان کے مکروفریب سے ناواقف ہوتے ہیں ۔لہذا ان کے دام میں پھنس جاتے ہیں اور بعض اوقات اپنے ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔
ان فتنوں میں سے ایک بڑا اور اہم فتنہ غیرمقلدیت کا ہے،جن کا کام امت کے معمول بہا اعتقادات اور اعمال کے مقابلے میں نئے اعتقادات اور اعمال مارکیٹ میں متعارف کروانا ہے۔یہ فرقہ دعوی تو عمل بالحدیث کا کرتاہے لیکن در حقیقت عامل علیٰ حدیث النفس ہے۔انہوں نے اپنا سارا زور فروعی مسائل پر لگایاا اور اس حد تک گئے کہ مستحب ،اولیٰ وغیر اولیٰ کے اختلاف کو خِلاف کا جامہ پہنا تے ہوئے اہل السنۃ والجماعۃ کے اکثر مسائل کو قرآن وسنت کے خلاف قرار دیا۔ من جملہ ان مسائل میں سے ایک مسئلہ جرابوں پر مسح کرنا بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں احکامِ وضوبیان فرماتے ہوئے فرمایا :
یاایھاالذین امنوا۔۔ وارجلکم الی الکعبین
[سورۃ المائدہ :آیت6]
قرآن مجید کی اس آیت کا تقاضایہ تھا کہ وضو میں ہمیشہ پاؤں دھوئے جائیں۔ کسی بھی صورت میں ان پر مسح جائز نہ ہو، لیکن موزوں پر مسح حضورﷺ کے اتنی قولی ،فعلی اور تقریری احادیث سے ثابت ہے جومعنیً متواتر یا کم از کم مشہور کے درجے تک پہنچی ہوئی ہیں۔ ان روایات کی وجہ سے پوری امت کا اس پر اجماع ہے کہ قرآن مجید کی مذکورہ آیت میں پاؤں دھونے کا حکم تب ہے جب موزےنہ پہنے ہوں اور اگر موزے پہنے ہوں تو تب دوران وضو ان پر مسح کرنا جائز ہوگا ۔

(۱)محدث کبیر امام ابن منذرؒ حضرت حسن بصری ؒ سے نقل فرماتے ہیں:
حدثنی سبعون من اصحاب رسول اللہ  انہ مسح علی الخفین
ترجمہ:
حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ستر صحابہ سے سنا کہ حضور ﷺ نے موزوں پر مسح فرمایا۔
[الاوسط لابن المنذر ج1ص430]



:2قد صرح جمع من الحفاظ بان المسح علی الخفین متواتروجمع بعضھم رواتہ فجاوزالثمانین ومنھم العشرة
ترجمہ:
حدیث کے حفاظ کی ایک بڑی جماعت نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ خفین پر مسح کا حکم متواتر ہے۔ بعض حضرات نے خفین کے مسح کی روایت کرنے والے صحابہ کرامؓ کی تعداد کو جمع کیا تو ان کی تعداد 80سے بھی زیادہ تھی، جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل تھے۔
[فتح الباری : کتاب الوضوء، باب المسح علی الخفین]

(۳حضرت ملاعلی قاریؒ مشکوٰة کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں:
قال الحسن البصری ادرکت سبعین نفراًمن الصحابة یرون المسح علی الخفین ولٰہذا قال ابوحنیفة ماقلت بالمسح حتیٰ جاءنی فیہ مثل ضوءالنھار۔
ترجمہ: حضرت حسن بصریؒ نے فرمایا میں نے ستر ایسے صحابہ کو پایا جو خفین پر مسح کے قائل تھے۔ امام ابوحنیفہ ؒ نے اسی وجہ سے فرمایا کہ میں خفین پر مسح کا اس وقت تک قائل نہ ہواجب تک میرے پاس اس کے دلائل اس حد تک واضح وروشن نہ ہوئے جس طرح دن کی روشنی ہوتی ہے۔
[المرقاة شرح مشکوٰۃ: ج2ص77]

موزوں پر مسح کے جواز اورعدم جواز کے اعتبار سے اصولی طورپر اس کی تین قسمیں بنتی ہیں۔
(۱حقیقی خفین :(چمڑے کے موزے )ان پر باجماع امت مسح کرنا جائز ہے۔
(۲حکمی خفین :(وہ موزے جو چمڑے کے نہ ہوں لیکن موٹے ہونے کی بناءپر ان میں اوصاف چمڑے کے موزوں ہوں) ایسے موزوں پر مسح کے بارے میں فقہاءکا اختلاف ہے، جمہور فقہاء کا فتوی انہی موزوں پر جواز کا ہے۔
(۳)غیر حقیقی غیرحکمی خفین:(مروجہ اونی ،سوتی یانائیلون کی جرابیں)ایسی جرابوں کے بارے میں جمہور امت کا اتفاق ہے کہ مسح جائز نہیں۔

(۱ملک العلماءامام علاءالدین ابوبکر بن سعودالکاسانی الحنفی تحریر فرماتے ہیں:
فان کانا رقیقن یشفان الماءلایجوز المسح علیھا باجماع
ترجمہ: اگر موزے اتنے پتلے ہوں کہ ان میں سے پانی چھن جاتا ہو تو ان پر بالاجماع مسح جائز نہیں۔
[بدائع الصنائع ج1ص83کتا ب الطہارة]

(۲امام ابو محمد عبداللہ بن احمد بن قدامہ المقدسی الحنبلی نے اپنی کتاب ”المغنی“میں مسئلہ”مسح علی الجوربین“کے تحت فرمایا ہے:
لایجوز المسح علیہ الا ان یکون مما یثبت بنفسہ ویمکن متابعة المشی فیہ واما الرقیق فلیس بساتر۔
ترجمہ:
کپڑے کے موزے پر مسح جائز نہیں۔ ہاں اگر موزے اتنے مضبوط ہوں کہ پنڈلی پر خود سے ٹھہرے رہیں اور ان کو پہن کر مسلسل اور غیرمعمولی چلنا ممکن ہو ۔جہاں تک پتلے موزوں کا معاملہ ہے (جن میں مذکورہ شرائط نہ ہوں)تو وہ پاؤں کے لئے ساتر نہیں۔
[المغنی لابن قدامہ ج1ص377مسئلہ85]
ہر مسئلے کی طرح لامذہب فرقہ غیرمقلدین نے جمہور امت کے اجماع اور تعامل سے ہٹ کر اپنا ایک نیا اور امتیازی موقف اختیار کیا ہے ۔اور مروجہ اونی ،سوتی یا نائیلون وغیرہ کی جرابوں کو موزوں کی مماثل قرار دے کر ان پر بھی مسح کو جائز کہا۔
[نماز نبوی ص77]
اپنے اس موقف پر چند ان ضعیف روایات کا سہارا لیا جواصول جرح وتعدیل کے اعتبار سے قابل استدلال نہیں۔



غیر مقلدین کے مستدلات اور ان کا جائزہ
(۱)عن مغیرة بن شعبة قال توضاالنبی  ومسح علی الجوربین والنعلین
[سنن ابی داود ج1ص33باب المسح علی الجوربین]
اس حدیث کے ذیل میں غیرمقلد عالم مولوی عبدالرحمان مبارک پوری نے مختلف ائمہ کے اقوال نقل کرکے اس کو ضعیف اور ناقابل استدلال ٹھہرایا ہے۔چنانچہ لکھا ہے (۱) ضعفہ کثیر من ائمة الحدیث ترجمہ: حدیث کے کافی سارے اماموں نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔(۲) امام مسلم بن الحجاج فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے راوی ابوقیس اودی اور ہزیل بن شرحبیل نے حدیث کے بقیہ تمام راویوں کی مخالفت کی ہے باقی رواة نے موزوں پر مسح کو نقل کیا ہے ۔لہذا ابوقیس اور ہذیل جیسے راویوں کی وجہ سے قرآن کو نہیں چھوڑا جاسکتا۔
(تحفة الاحوذی ج1ص 346,347باب ماجاءفی المسح علی الجوربین)

(۳امام بیہقی ؒ نے اس حدیث کو منکر کہا ہے (سنن البیہقی ج1ص290 کتاب الطہارة ،باب کیف المسح علی الخفین)
عبدالرحمن مبارکپوری حدیث کے ضعف پر ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال نقل کرنے کے بعد حدیث کے بارے میں اپنا موقف سناتے ہیں کہ ”میرے نزدیک اس حدیث کا ضعیف قرار دینا مقدم ہے امام ترمذی ؒ کے حسن صحیح کہنے پر
(تحفة الاحوذی ج1ص347)

دوسری دلیل:
عن ابی موسیٰ ان رسول اللہ  توضا ومسح علی الجوربین والنعلین۔
(ابن ماجہ ج1ص186کتاب الطہارة باب ماجاءفی المسح علی الجوربین والنعلین)
یہ حدیث بھی غیرمقلدین کے لئے حجت نہیں بنتی۔ اس لئے کہ اس کی سند پر ائمہ جرح وتعدیل نے کافی بحث کی ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجرؒ نے اپنی کتاب تہذیب التہذیب میں امام یحییٰ بن معین کا قول نقل کیا ہے کہ اس حدیث کا راوی عیسیٰ بن سنان ضعیف الحدیث ہے۔
(تہذیب التہذیب ج8ص212)
امام الجرح والتعدیل حافظ شمس الدین الذہبی ؒاپنی کتاب میزان الاعتدال میں عیسیٰ بن سنان کے متعلق لکھتے ہیں کہ اما م احمد بن حنبل ؒ نے اس کے متعلق فرمایا کہ وہ ضعیف ہے ۔
(میزان الاعتدال ج5ص376)
مشہور غیرمقلد عالم عبدالرحمن مبارکپوری نے اپنی کتاب تحفۃ الاحوذی میں اس حدیث کی سند پر کلام کرتے ہوئے امام ابوداود کا قول نقل کیا ہے کہ ”یہ حدیث نہ متصل ہے اور نہ قوی ہے“ابوحازم نے حدیث کے راوی سفیان کے متعلق لکھا ہے کہ اس نے حدیث لکھی تو ہیں لیکن بطور استدلال پیش نہیں کی جاسکتیں۔
تیسری دلیل:
عن بلال ان رسول اللہ  یمسح علی الخفین والجوربین.
(طبرانی ج1ص350رقم1063)
یہ حدیث بھی بطور حجت پیش نہیں کی جاسکتی اس لئے کہ امام زیلعیؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند میں یزید بن زیاد ہے اور وہ ضعیف ہے ۔
(نصب الرایہ للزیلعی ج1ص185,186)
(۲)حافظ ابن حجر ؒفرماتے ہیں کہ یزید ضعیف تھا، آخری عمر میں اس کی حالت بدل گئی تھی اور وہ شیعہ تھا۔
(تقریب ج2ص365)

چوتھی دلیل:
عن ثوبان قال بعث رسول اللہ  سریة فاصابھم البرد فامرھم ان یمسحوا علی العمائم والتساخین۔
(ابوداود ج 1ص 19)
اس حدیث کے بارے میں عبدالرحمن مبارک پوری لکھتاہے کہ یہ حدیث منقطع ہے ۔امام ابن ابی حاتم کتاب المراسیل ص22پر امام احمدؒ کا قول نقل کرتے ہیں کہ حدیث کے راوی راشد بن سعد کا سماع ثوبان سے ثابت نہیں۔
(تحفة الاحوذی ج1ص330)
(۲)تساخین کے لغت میں تین معانی کئے گئے ہیں۔(۱)ہانڈیاں (۲)موزے(۳)علماءکے سر پر ڈالنے کا کپڑا
(المنجد ص474)
لہذا متعین طور پر اس کو صرف جرابوں پر حمل کرنا درست نہیں۔


مسح علی الجوربین کے بارے میں غیرمقلدین اکابر کی رائے
(۱)غیر مقلدین کے شیخ الکل میاں نذیر حسین دہلوی لکھتا ہے:”مذکورہ (اونی یا سوتی)جرابوں پر مسح جائز نہیں کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں اور مجوزین نے جن چیزوں سے استدلال کیا ہے اس میں خدشات ہیں
(فتاویٰ نذیریہ از نذیرحسین دہلوی ج1ص327)
(۲)دوسری جگہ لکھتا ہے ”خلاصہ یہ ہے کہ (باریک )جرابوں پر مسح کے جواز پر نہ قرآن سے کوئی دلیل ہے نہ سنت صحیحہ سے نہ قیاس سے۔
(۳)غیرمقلدین کے مشہور عالم ابوسعید شرف الدین دہلوی کا جرابوں پر مسح کے بارے میں فتویٰ: ”پھر یہ مسئلہ (جرابوں پر مسح)نہ قرآن سے ثابت ہے نہ احادیث مرفوعہ صحیحہ سے نہ اجماع سے نہ قیاس سے نہ چندصحابہ کے فعل سے اور غسل رجلین قرآن سے ثابت ہے ۔لہذا خف چرمی(موزوں)کے سوا جرابوں پر مسح ثابت نہیں۔“(زبیر علی زئی متروک مردود عند الجمہور نے اس مسئلہ پر اپنی فطرت سے مجبور ہو کر امت مسلمہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے جسے آئندہ شمارہ میں واضح کیا جائے گا۔)پتہ چلا کہ مسح علی الجوربین ایسا مسئلہ ہے جس کے جواز عدم جواز کے بارے میں غیرمقلدین کے خود آپس متفرق اقوال ہیں ۔لہذا ان ضعیف روایات کے بل بوتے پر پوری امت سے ہٹ کر ڈیڑھ اینٹ کی علیحدہ مسجد بنانا اورجمہور امت کے تعامل کو جو کہ قرآن وسنت وآثار صحابہ وتابعین ؒ کےعین موافق ہے، چھوڑنا ضد اور ہٹ دھرمی کے علاوہ کچھ نہیں۔اللہ سے دعاہے کہ ہمیں سنت صحیحہ کی اتباع کی توفیق نصیب. فرمائے۔آمین



Tuesday, 21 December 2021

تہلیل - یعنی اللہ کا ذکر کرنے - مراد لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ کہنے - کے معنی، تشریح اور فضائل

 Islamic Affirmation:

A lullaby type remembrance with cheer and acclamation.

تَھلِیل - یعنی خوشی اور جلال کا نعرہ۔
یعنی لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ کہنا۔

لَا = نہیں ہے
إِلَهَ = کوئی خدا-معبود (عبادت یعنی سجدہ-نیاز-پکارے جانے وغیرہ کے قابل)
إِلَّا ‌اللَّهُ = سوائے اللہ کے۔

Monday, 20 December 2021

کامیابی کیا ہے؟ کامیابی کا معیار

کامْیابی (کام+یابی) (مقصد ومراد+حاصل ہونا)

عربی الفاظ: (۱)فوز، (۲)فلاح، (۳)ظفر

فوز(جیت)کے معنیٰ سلامتی کے ساتھ خیر حاصل کرلینے کے ہیں۔
[حوالہ سورۃ النساء:13]

فلاح(اچھا نتیجہ پانا)کے معنیٰ کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے: (1)دُنیاوی-ادنیٰ-فانی اور (2)اُخروی۔اعلیٰ-دائمی۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو اور وہ ہے بقاء، مالداری اور عزت۔
[سورۃ المومنون:1]

ظفر(فتح)کے معنیٰ ناخن گاڑ دینے-کامیاب ہونے کے ہیں۔
[سورۃ الفتح:24]

اصول:

جب بھی دنیا کی مذمت کی گئی تو وہاں (نافرمانی کرکے) آخرت کو نقصان پہنچا کر  حاصل کردہ دنیا ہے۔



کامیابی کی دو اقسام:
(1)ادنیٰ-وقتی (2)اعلیٰ-دائمی


قرآن مجید نے زندگی کا وسیع تصور پیش کیا ہے۔ اس کے نزدیک زندگی کے دو مرحلے ہیں:
ایک دنیوی، دوسرا آخروی۔ دنیوی زندگی ادنیٰ اور فانی ہے اور اخروی زندگی اعلیٰ اور دائمی۔ دنیوی زندگی دار العمل ہے اور اخروی زندگی دار الجزاء۔ دنیا میں ہر شخص آزمائش کی حالت میں ہے۔ مال دار بھی، غریب بھی، حاکم بھی، محکوم بھی، صحت مند بھی، مریض بھی۔ یہاں جو اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارے گا مرنے کے بعد اخروی زندگی میں اس کا اجر پائے گا۔ قرآن کہتا ہے کہ حقیقی کامیابی اخروی زندگی کی کامیابی ہے۔



اللہ کی نظر میں کامیاب لوگوں کے اوصاف یہ بیان کیے گئے ہیں:

﴿۱﴾ وہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے:
القرآن:
اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے وعدہ کیا ہے ان باغات کا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اور ان پاکیزہ مکانات کا جو سدا بہار باغات میں ہوں گے۔ اور اللہ کی طرف سے خوشنودی تو سب سے بڑی چیز ہے۔ (جو جنت والوں کو نصیب ہوگی) یہی تو زبردست کامیابی ہے۔
[سورۃ التوبۃ:72]

حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’اس شخص نے فلاح(کامیابی) پائی جس کے دل کو اللہ نے ایمان کے لیے خالص کر دیا ، اس کے دل کو (حسد و بغض وغیرہ سے) سلامت رکھا ، اس کی زبان کو سچا بنایا ، اس کے نفس کو مطمئن بنایا ، اس کی طبیعت کو مستقیم بنایا ، اس کے کانوں کو غور سے (حق) سننے والا اور اس کی آنکھ کو (دلائل) دیکھنے والا بنایا ، کان اس چیز کے لیے جسے دل محفوظ رکھتا ہے ، قیف ہیں اور آنکھ محل قرار و ثبات ہے ، اور اس شخص نے فلاح پائی جس نے اپنے دل کو محافظ بنایا ۔‘‘
[مسند أحمد:21310، مسند الشاميين للطبراني:1141، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء:5/ 216، الطب النبوي لأبي نعيم الأصفهاني:93، الفردوس بمأثور الخطاب-الديلمي:4597، مشكاة المصابيح:5200]
وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ
[مجمع الزوائد:17721, التيسير بشرح الجامع الصغير:2/ 193]


غیراللہ پر ایمان کا انجام:
الحدیث:
حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا الْمُبَارَكُ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: أَخْبَرَنِي عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبْصَرَ عَلَى عَضُدِ رَجُلٍ حَلْقَةً، أُرَاهُ قَالَ مِنْ صُفْرٍ، فَقَالَ: " وَيْحَكَ مَا هَذِهِ؟ " قَالَ: مِنَ الْوَاهِنَةِ؟ قَالَ: " أَمَا إِنَّهَا لَا تَزِيدُكَ إِلَّا وَهْنًا انْبِذْهَا عَنْكَ؛ فَإِنَّكَ لَوْ مِتَّ وَهِيَ عَلَيْكَ ‌مَا ‌أَفْلَحْتَ ‌أَبَدًا۔
ترجمہ:
حضرت عمران ؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے ایک آدمی کے بازو میں پیتل (تانبے) کا ایک کڑا دیکھا، نبی ﷺ نے فرمایا: ارے بھئی! اس نے بتایا کہ یہ بیماری کی وجہ سے ہے، نبی ﷺ نے فرمایا اس سے تمہاری کمزوری میں مزید اضافہ ہی ہوگا، اسے اتار کر پھینکو، اگر تم اس حال میں مرگئے کہ یہ تمہارے ہاتھ میں ہو، تو تم کبھی کامیاب نہ ہوگے۔
[مسند أحمد:20000(سنن ابن ماجه:3531)، جامع المسانيد لابن الجوزي:5858، جامع المسانيد والسنن-ابن كثير:7948]


‏‏‏‏‏‏


﴿۲﴾ اللہ کی طرف سے جو احکام اللہ کا پیغمبر پیش کرتا ہے، وہ لوگ اس پر چلتے ہیں:

جو اس رسول یعنی نبی امی کے پیچھے چلیں جس کا ذکر وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پائیں گے (75) جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دے گا، برائیوں سے روکے گا، اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور گندی چیزوں کو حرام قرار دے گا، اور ان پر سے وہ بوجھ اور گلے کے وہ طوق اتار دے گا جو ان پر لدے ہوئے تھے۔ (76) چنانچہ جو لوگ اس (نبی) پر ایمان لائیں گے اس کی تعظیم کریں گے اس کی مدد کریں گے، اور اس کے ساتھ جو نور اتارا گیا ہے اس کے پیچھے چلیں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔
[سورۃ الاعراف:157]
75:: حضرت موسیٰ ؑ کی قوم بنی اسرائیل کو ان کی وفات کے بعد بھی صدیوں تک باقی رہنا تھا اور حضرت موسیٰ ؑ نے دنیا اور آخرت کی بھلائی کی جو دعا کی تھی وہ بنی اسرائیل کی اگلی نسلوں کے لئے بھی تھی، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کرتے وقت یہ بھی واضح فرمادیا کہ بنی اسرائیل کے جو لوگ نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے زمانے میں موجود ہوں گے، ان کو دنیا اور آخرت کی بھلائی اسی صورت میں مل سکے گی جب وہ آنحضرت ﷺ پر ایمان لاکر ان کی پیروی کریں، آنحضرت ﷺ کا ذکر فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آپ کی کچھ صفات بھی بیان فرمائیں، جن میں سے پہلی صفت یہ ہے کہ آپ نبی ہونے کے ساتھ رسول بھی ہوں گے، عام طور سے رسول کا لفظ ایسے پیغمبر کے لئے بولا جاتا ہے جو نئی شریعت لے کر آئے، لہذا اس لفظ سے اشارہ کردیا گیا کہ آنحضرت ﷺ نئی شریعت لے کر آئیں گے، جس میں کچھ فروعی احکام تورات کے احکام سے مختلف بھی ہوسکتے ہیں اور بنی اسرائیل کو اس وقت یہ نہ کہنا چاہیے کہ یہ تو ہماری شریعت سے مختلف احکام بیان کررہے ہیں، اس لئے ان پر کیسے ایمان لائیں ؟ چنانچہ پہلے سے بتایا جارہا ہے کہ ہر دور کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں اور جو رسول نئی شریعت لے کر آتے ہیں ان کے فروعی احکام پہلے احکام سے مختلف ہوسکتے ہیں، آنحضرت ﷺ کی دوسری صفت یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ آپ امی ہوں گے، یعنی لکھتے پڑھتے نہیں ہوں گے، عام طور سے بنی اسرائیل امی نہیں تھے ؛ بلکہ نسلی عربوں کو امی کہا جاتا تھا (2: 78۔ 3: 20۔ 2: 63) اور خود یہودی عرب نسل کے لوگوں کے لئے کسی قدر حقارت کے پیرائے میں استعمال کرتے تھے (دیکھئے سورة آل عمران 3: 75) اس لئے اس لفظ سے یہ اشارہ بھی دے دیا گیا کہ وہ بنی اسرائیل کے بجائے عربوں کی نسل سے مبعوث ہوں گے، آپ کی تیسری صفت یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ آپ کا ذکر مبارک تورات اور انجیل دونوں میں موجود ہوگا، اس سے ان بشارتوں کی طرف اشارہ ہے جو آپ کی تشریف آوری سے متعلق ان مقدس کتابوں میں دی گئی تھیں، آج بھی بہت سی تحریفات کے باوجود بائبل میں متعدد بشارتیں موجود ہیں، تفصیل کے لئے دیکھئے حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی ؒ کی کتاب اظہار الحق کا اردو ترجمہ بائبل سے قرآن تک مرتبہ راقم الحروف۔ 76: اس سے ان سخت احکام کی طرف اشارہ ہے جو یہودیوں پر عائد کیے گئے تھے۔ ان میں سے کچھ احکام تو خود تورات میں تھے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے اس وقت یہودیوں کو ان کا پابند کیا تھا۔ بعض سخت احکام ان کی نافرمانیوں کی سزا کے طور پر نافذ کیے گئے تھے جس کا ذکر سورة نساء (160:4) میں گذرا ہے اور بہت سے احکام یہودی علماء نے اپنی طرف سے گھڑ لیے تھے۔ شاید ”بوجھ“ سے پہلی اور دوسری قسم کی طرف اور گلے کے طوق سے تیسری قسم کے احکام کی طرف اشارہ ہو۔ بتایا جا رہا ہے کہ آنحضرت ﷺ ان احکام کو منسوخ کر کے ایک آسان اور معتد شریعت لائیں گے۔

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«مَا آمَنَ بِي مَنْ بَاتَ شَبْعَانًا وَجَارُهُ جَائِعٌ إِلَى جَنْبِهِ وَهُوَ يَعْلَمُ بِهِ»
ترجمہ:
ایسا شخص مجھ پر ایمان لانے والا نہیں ہوسکتا جو خود تو پیٹ بھر کر رات بسر کرے لیکن اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا رہے اور یہ شخص پڑوسی کے بھوکا ہونے سے باخبر بھی ہو۔
[المعجم الكبير للطبراني:751، الفردوس بمأثور الخطاب-الديلمي:8447، صحيح الترغيب والترهيب:2561، صحيح الجامع الصغير:5505]
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا ‌آمَنَ ‌بِي ‌مَنْ أَمْسَى وَهُوَ شَبْعَانُ وَجَارُهُ جَائِعٌ»
[البر والصلة للحسين بن حرب:264]

حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«مَا ‌آمَنَ ‌بِي ‌مَنْ لَمْ يُحِبَّنِي , وَمَا أَحَبَّنِي مَنْ لَمْ يُحِبَّ الْأَنْصَارَ»
ترجمہ:
ایسا شخص مجھ پر ایمان لانے والا نہیں ہوسکتا جو مجھ سے محبت نہ رکھے، اور وہ مجھ سے محبت نہیں رکھتا جو انصار (صحابہ) سے محبت نہ رکھے۔
[الشريعة للآجري:1132، سنن الدارقطني:222]




﴿۳﴾ وہ اللہ کی ناراضگی یعنی جہنم سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں:

جس کسی شخص سے اس دن وہ عذاب ہٹا دیا گیا، اس پر اللہ نے بڑا رحم کیا، اور یہی واضح کامیابی ہے۔
[سورۃ الانعام:16]

*کامیابی»جہنم سے آزادی۔*
اللہ کے آخری پیغمبر محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جس شخص نے وضو کیا پھر کہا: ﴿اے اللہ تو اپنی تعریف کے ساتھ پاک ہے، تیرے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں، میں تجھ سے بخشش طلب کرتا ہوں، اور تیری طرف لوٹتا ہوں۔﴾ تو اسے (جہنم سے) آزاد لوگوں میں"لکھ"دیا جاتا ہے۔ اور ایک مہر لگا دی جاتی ہے جو قیامت تک نہیں توڑی جاتی۔
[الصحيحة:2333، حاكم:2027]






﴿۴﴾ وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں اور ان کے احکام بجالاتے ہیں :

اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کریں، اللہ سے ڈریں، اور اس کی نافرمانی سے بچیں تو وہی لوگ کامیاب ہیں۔
[سورۃ النور:52]



﴿۵﴾ وہ ایمان لانے کے ساتھ نیک اعمال بھی کرتے ہیں :

(یہ دوسری زندگی) اس دن (ہوگی) جب اللہ تمہیں روز حشر میں اکٹھا کرے گا۔ وہ ایسا دن ہوگا جس میں کچھ لوگ دوسروں کو حسرت میں ڈال دیں گے۔ (1) اور جو شخص اللہ پر ایمان لایا ہوگا، اور اس نے نیک عمل کیے ہوں گے، اللہ اس کے گناہوں کو معاف کردے گا، اور اس کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔
[سورۃ التغابن: 9]
1: قرآن کریم نے یہاں تغابن کا لفظ استعمال فرمایا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو نقصان یا حسرت میں مبتلا کریں، قیامت کے دن کو تغابن کا دن اس لئے کہا گیا ہے کہ اس دن جو لوگ جنت میں جائیں گے دوزخی لوگ انہیں دیکھ کر حسرت کریں گے کہ کاش ہم نے دنیا میں ان جنتیوں جیسے عمل کئے ہوتے تو آج ہم بھی جنت کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے، حضرت شاہ عبدالقادر صاحب ؒ نے اس کا ترجمہ ہار جیت کا دن کیا ہے، جو مفہوم کو اختصار کے ساتھ واضح کردیتا ہے۔



﴿۶﴾ اللہ تعالی نے انھیں جو کچھ مال و دولت سے نوازا ہے اس میں دوسرے انسانوں کا حق پہچانتے ہیں، اسے سینت سینت کر نہیں رکھتے، بلکہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں :

لہذا تم رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو بھی (17) جو لوگ اللہ کی خوشنودی چاہتے ہیں، ان کے لیے یہ بہتر ہے، اور وہی ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔
[سورۃ الروم:38]
17: پچھلی آیت میں بتایا گیا تھا کہ رزق تمام تر اللہ تعالیٰ کی عطا ہے، اس لئے جو کچھ اس نے عطا فرمایا ہے وہ اسی کے حکم اور ہدایت کے مطابق خرچ ہونا چاہیے، لہذا اس میں غریبوں مسکینوں اور رشتہ داروں کے جو حقوق اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں وہ ان کو دینا ضروری ہے، اور دیتے وقت یہ اندیشہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس سے مال میں کمی آجائے گی، کیونکہ جیسا کہ پچھلی آیت میں فرمایا گیا رزق کی کشادگی اور تنگی اللہ تعالیٰ ہی کے قبضے میں ہے وہ تمہیں حقوق کی ادائیگی کے بعد محروم نہیں فرمائے گا، چنانچہ آج تک نہیں دیکھا گیا کہ حقوق ادا کرنے کے نتیجے میں کوئی مفلس ہوگیا ہو۔





﴿۷﴾ وہ شیطان کے بہکاوے میں نہیں آتے اور غلط کاموں میں نہیں پھنستے:

اے ایمان والو ! شراب، جوا، بتوں کے تھان اور جوے کے تیرے (62) یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں، لہذا ان سے بچو، تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔
[سورۃ المائدۃ:90]
62: بتوں کے تھان سے مراد وہ قربان گاہ ہے جو بتوں کے سامنے بنادی جاتی تھی اور لوگ بتوں کے نام پر وہاں جانور وغیرہ قربان کیا کرتے تھے۔ اور جوے کے تیروں کی تشریح اسی سورت کے شروع میں آیت نمبر 3 کے تحت حاشیہ نمبر 6 میں گذر چکی ہے۔



﴿۸﴾ وہ اپنے نفس کی پاکی پر توجہ دیتے ہیں، اسے گناہوں سے آلودہ نہیں کرتے اور اللہ کی نافرمانی سے ڈرتے ہیں:

فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نامراد وہ ہوگا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے۔
[سورۃ الشمس:9۔10]
2: نفس کو پاکیزہ بنانے کا مطلب یہی ہے کہ انسان کے دل میں جو اچھی خواہشات اور اچھے جذبات پیدا ہوتے ہیں، انہیں ابھار کر اس پر عمل کرے اور جو بری خواہشات اور جذبات پیدا ہوتے ہیں انہیں دبائے اسی طرح مسلسل مشق کرتے رہنے سے نفس پاکیزہ ہو کر وہ نفس مطمئنہ بن جاتا ہے۔ جس کا ذکر سورة الفجر کی آخری آیتوں میں گذرا ہے۔



﴿۹﴾ وہ خود نیک بنے رہنے پر اکتفا نہیں کرتے، بلکہ دوسروں کو بھی بھلائی کی طرف دعوت دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں :

اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جس کے افراد (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کی تلقین کریں، اور برائی سے روکیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔
[سورۃ آل عمران:104]

قرآن مجید ایک بات یہ بھی کہتا ہے کہ آخرت میں کام یاب ہونے والوں کو جنت میں جو نعمتیں دی جائیں گی وہ ابدی ہوں گی۔ وہ ہمیشہ ان سے شاد کام ہوں گے۔







الحدیث:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مجھ پر دس آیتیں نازل ہوئی ہیں جو ان پر عمل کرتا رہے گا، وہ جنت میں جائے گا، پھر آپ نے «قد أفلح المؤمنون» (سورۃ المومنون: ١- ١٠) سے شروع کر کے دس آیتیں مکمل تلاوت فرمائیں۔
[سنن الترمذي:3173][مصنف عبد الرزاق - ت الأعظمي:6038]
«هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»
[المستدرك على الصحيحين للحاكم:1961+3479]

وہ دس آیات:
ان ایمان والوں نے یقینا فلاح پالی ہے۔ جو اپنی نماز میں دل سے جھکنے والے ہیں۔ (1اور جو لغو چیزوں سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ (2اور جو زکوٰۃ پر عمل کرنے والے ہیں۔ (3اور جو اپنی شرمگاہوں کی (اور سب سے) حفاظت کرتے ہیں۔ (4سوائے اپنی بیویوں اور ان کنیزوں کے جو ان کی ملکیت میں آچکی ہوں۔ (5) کیونکہ ایسے لوگ قابل ملامت نہیں ہیں۔ ہاں جو اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہیں تو ایسے لوگ حد سے گزرے ہوئے ہیں۔ (6اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس رکھنے والے ہیں۔ اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس رکھنے والے ہیں۔ یہ ہیں وہ وارث۔



1: یہ خشوع کا ترجمہ ہے۔ عربی میں خضوع کے معنی ہیں ظاہری اعضاء کو جھکانا، اور خشوع کے معنی ہیں دل کو عاجزی کے ساتھ نماز کی طرف متوجہ رکھنا۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ انسان نماز میں جو کچھ زبان سے پڑھ رہا ہو، اس کی طرف دھیان رکھے، اور اگر غیر اختیاری طور پر کوئی خیال آجائے تو وہ معاف ہے، لیکن جونہی یاد آئے، دوبارہ نماز کے الفاظ کی طرف متوجہ ہوجانا چاہیے۔
2: لغو کا مطلب ہے بیکار مشغلہ جس میں نہ دنیا کا کوئی فائدہ ہو، نہ آخرت کا
3: زکوٰۃ کے لفظی معنی ہیں کسی چیز کو پاک صاف کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر جو فریضہ عائد کیا ہے کہ وہ اپنے مال میں سے کچھ حصہ غریبوں کے لیے نکالیں، اسے زکوٰۃ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس سے ان کا باقی مال بھی پاک صاف ہوجاتا ہے، اور ان کے دلوں کو بھی پاکی حاصل ہوتی ہے۔ یہاں زکوٰۃ سے مراد وہ مالی فریضہ بھی ہوسکتا ہے۔ اور اس کے دوسرے معنی بھی مراد ہوسکتے ہیں۔ یعنی اپنے آپ کو برے اعمال اور اخلاق سے پاک صاف کرنا۔ اس کو تزکیہ بھی کہتے ہیں۔ قرآن کریم نے یہاں زکوٰۃ کے ساتھ ادا کرنے کے بجائے زکوٰۃ پر عمل کرنے والے کا جو لفظ استعمال فرمایا ہے، اس کی وجہ سے بہت سے مفسرین نے یہاں دوسرے معنی کو ترجیح دی ہے۔
4: یعنی اس بات سے حفاظت کرتے ہیں کہ اپنی جنسی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے کوئی ناجائز طریقہ اختیار کیا جائے۔
5: اس سے مراد وہ کنیزیں ہیں جو شرعی احکام کے مطابق کسی کی ملکیت میں آئی ہوں لیکن آج کل ایسی کنیزوں کا کوئی وجود نہیں رہا۔
6: یعنی بیوی اور شرعی کنیز کے سوا کسی اور طریقے سے اپنی جنسی خواہش پوری کرنے کی کوشش کرنا حرام ہے۔
7: نمازوں کی نگرانی میں یہ بات بھی داخل ہے کہ نماز کی پوری پابندی کی جائے، اور یہ بھی کہ ان کو صحیح طریقے سے آداب اور شرائط کے ساتھ ادا کیا جائے۔







الحدیث:
حضرت ابن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ وَرُزِقَ کَفَافًا وَقَنَّعَهُ اللَّهُ بِمَا آتَاهُ
ترجمہ:
وہ شحض کامیاب ہوا جس نے (1)اسلام قبول کیا اور (2)اسے بقدرِ کفایت رزق عطا کیا گیا اور (3)اللہ نے اپنے عطا کردہ مال پر اسے قناعت عطاء کردی۔
[صحیح مسلم:2426(1054)]
القرآن:
جو شخص نیک اعمال کرے گا مرد ہو یا عورت وہ مومن بھی ہوگا تو ہم اس کو (دنیا میں) پاک (اور آرام کی) زندگی سے زندہ رکھیں گے اور (آخرت میں) اُن کے اعمال کا نہایت اچھا صلہ دیں گے۔
[تفسير ابن كثير:سورة النحل (16) : آية 97]


عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ:‏‏‏‏ لِمَالِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلِحَسَبِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَجَمَالِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلِدِينِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ.
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے اور تو دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر، اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی (یعنی اخیر میں تجھ کو ندامت ہوگی) ۔
[صحيح البخاري:4802، صحيح مسلم:1466، السنن الكبرى للنسائي:5318]