Saturday, 25 December 2021

جرابوں پر مسح کی شرائط

’’خفین‘‘ پر مسح کرنا جائز ہے اور ’’خفین‘‘ ایسے موزے کو کہتے ہیں جو پورے چمڑے کے ہوں، اسی طرح ”مجلد“ یعنی وہ موزے جن کے اوپر اور نچلے حصے میں چمڑا ہو ، اور ”منعل“ یعنی وہ موزے جن کے صرف نچلے حصے میں چمڑا ہو ان تینوں پر مسح کرنا جائز ہے۔

اسی طرح ایسی جرابیں جن میں تین شرطیں پائی جائیں تو ان پر بھی مسح کرنا جائز ہے، وہ شرائط یہ ہیں:

(1) ایسے گاڑھے (موٹے) ہوں کہ ان میں پانی نہ چھنے یعنی اگر ان پر پانی ڈالا جائے تو پاؤں تک نہ پہنچے.

(2) اتنے مضبوط ہوں کہ بغیر جوتوں کے بھی اس میں ایک فرسخ (تین میل) پیدل چلنا ممکن ہو.

(3) وہ کسی چیز سے باندھے بغیر اپنی موٹائی اور سختی کی وجہ سے پنڈلی پر خود قائم رہ سکیں، اور یہ کھڑا رہنا کپڑے کی تنگی اور چستی کی وجہ سے نہ ہو ۔

ان کے علاوہ باقی اونی، سوتی یا نائلون کی مروجہ جرابوں پر مسح کرنا ائمہ متبوعین میں سے کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں ہے۔

واضح رہے کہ قرآن کریم میں جو وضو کا طریقہ بیان ہوا ہے ان میں اصل حکم پاؤں دھونے کا ہے، لیکن چمڑے کے موزوں پر مسح کرنے کی باجماعِ امت اجازت دی گئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے موزوں پر مسح کرنا اور آں حضرت ﷺ کا اس کی اجازت دینا ایسے تواتر سے ثابت ہے جس کا انکار ممکن نہیں ہے، اور چمڑے کے یہ موزے جنہیں ’’خفین‘‘ کہا جاتا ہے اس کے بارے میں تواتر موجود ہے، لہذا اس پر تو بلاشک وشبہ مسح جائز ہے، اور جو موزے اتنے ثخین(موٹے) ہوں کہ وہ اپنی خصوصیات اور اوصاف میں چمڑے کے ہم پایہ ہوگئے ہوں (جن کی شرائط ماقبل میں گزریں) ایسے موزوں پر فقہاء نے مسح کی اجازت دی ہے، اور فقہاء نے یہ شرائط بھی تابعین کے فتوے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل سے اخذ کی ہیں، چناچہ مصنف ابن ابی شیبہ میں روایات ہے کہ حضرت سعید ابن المسیب اور حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”جرابوں پر مسح جائز ہے بشر ط یہ کہ وہ موٹی ہوں“۔

"عن قتادة، عن سعيد بن المسيب، والحسن أنهما قالا: «يمسح على الجوربين إذا كانا صفيقين»".
(مصنف ابن أبي شيبة (1/ 171) برقم:1976)

اور ”صفیق“ اس کپڑے کو کہا جاتا ہے جو خوب مضبوط اور دبیز ہو. اور حضرت حسن بصری اور حضرت سعید ابن المسیب رحمہ اللہ دونوں جلیل القدر تابعین میں سے ہیں،انہوں نے صحابہ کرام کا عمل دیکھ کر ہی یہ فتوی دیا ہے۔

اور اسی موٹائی کی وضاحت کرتے ہوئے فقہاء نے جرابوں پر مسح کرنے کے لیے مذکورہ شرائط ذکر کی ہیں، ایسے موزے چوں کہ چمڑے کے اوصاف کے حامل ہوتے ہیں، اس لیے ان کو بھی اکثر فقہاء نے ”مسح علی الخفین“ کی احادیث کی ”دلالۃ النص“ اور مذکورہ آثار صحابہ کی بنا پر ”خفین“ کے حکم میں داخل کرلیا ہے، چناچہ علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ فتح القدیر میں تحریر فرماتے ہیں:

فتح القدير للكمال ابن الهمام (1/ 157):
" لا شك أن المسح على الخف على خلاف القياس فلايصلح إلحاق غيره به إلا إذا كان بطريق الدلالة وهو أن يكون في معناه، ومعناه الساتر لمحل الفرض الذي هو بصدد متابعة المشي فيه في السفر وغيره للقطع بأن تعليق المسح بالخف ليس لصورته الخاصة بل لمعناه للزوم الحرج في النزع المتكرر في أوقات الصلاة خصوصا مع آداب السير".

کاسانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر جرابیں پتلی اور اتنی باریک ہوں کہ ان میں سے پانی رس جائے تو سب کا اس بات پر اجماع ہے کہ ان پر مسح کرنا جائز نہیں "انتہی
"بدائع الصنائع" (1/10)

اسی طرح ابن قطان الفاسی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سب کا اس بات پر اجماع ہے کہ : اگر جرابیں موٹی نہ ہوں تو ان پر مسح کرنا جائز نہیں ہے" انتہی
"الإقناع في مسائل الإجماع" ( مسئلہ نمبر:  351)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کیا جرابوں پر موزوں کی طرح مسح کرنا جائز ہے؟
تو انہوں نے کہا:
"جرابوں پر مسح کرنا  اس وقت جائز ہے جب انہیں پہن کر چلنا ممکن ہو، چاہے جرابوں کے تلوے چمڑے کے ہوں یا نہیں" انتہی
"مجموع الفتاوى" (21/213)




Tuesday, 21 December 2021

تہلیل - یعنی اللہ کا ذکر کرنے - مراد لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ کہنے - کے معنی، تشریح اور فضائل

 Islamic Affirmation:

A lullaby type remembrance with cheer and acclamation.

تَھلِیل - یعنی خوشی اور جلال کا نعرہ۔
یعنی لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ کہنا۔

لَا = نہیں ہے
إِلَهَ = کوئی خدا-معبود (عبادت یعنی سجدہ-نیاز-پکارے جانے وغیرہ کے قابل)
إِلَّا ‌اللَّهُ = سوائے اللہ کے۔

Monday, 20 December 2021

کامیابی کیا ہے؟ کامیابی کا معیار

کامْیابی (کام+یابی) (مقصد ومراد+حاصل ہونا)

عربی الفاظ: (۱)فوز، (۲)فلاح، (۳)ظفر

فوز(جیت)کے معنیٰ سلامتی کے ساتھ خیر حاصل کرلینے کے ہیں۔
[حوالہ سورۃ النساء:13]

فلاح(اچھا نتیجہ پانا)کے معنیٰ کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے: (1)دُنیاوی-ادنیٰ-فانی اور (2)اُخروی۔اعلیٰ-دائمی۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو اور وہ ہے بقاء، مالداری اور عزت۔
[سورۃ المومنون:1]

ظفر(فتح)کے معنیٰ ناخن گاڑ دینے-کامیاب ہونے کے ہیں۔
[سورۃ الفتح:24]

اصول:

جب بھی دنیا کی مذمت کی گئی تو وہاں (نافرمانی کرکے) آخرت کو نقصان پہنچا کر  حاصل کردہ دنیا ہے۔



کامیابی کی دو اقسام:
(1)ادنیٰ-وقتی (2)اعلیٰ-دائمی


قرآن مجید نے زندگی کا وسیع تصور پیش کیا ہے۔ اس کے نزدیک زندگی کے دو مرحلے ہیں:
ایک دنیوی، دوسرا آخروی۔ دنیوی زندگی ادنیٰ اور فانی ہے اور اخروی زندگی اعلیٰ اور دائمی۔ دنیوی زندگی دار العمل ہے اور اخروی زندگی دار الجزاء۔ دنیا میں ہر شخص آزمائش کی حالت میں ہے۔ مال دار بھی، غریب بھی، حاکم بھی، محکوم بھی، صحت مند بھی، مریض بھی۔ یہاں جو اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارے گا مرنے کے بعد اخروی زندگی میں اس کا اجر پائے گا۔ قرآن کہتا ہے کہ حقیقی کامیابی اخروی زندگی کی کامیابی ہے۔



اللہ کی نظر میں کامیاب لوگوں کے اوصاف یہ بیان کیے گئے ہیں:

﴿۱﴾ وہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے:
القرآن:
اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے وعدہ کیا ہے ان باغات کا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اور ان پاکیزہ مکانات کا جو سدا بہار باغات میں ہوں گے۔ اور اللہ کی طرف سے خوشنودی تو سب سے بڑی چیز ہے۔ (جو جنت والوں کو نصیب ہوگی) یہی تو زبردست کامیابی ہے۔
[سورۃ التوبۃ:72]

حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’اس شخص نے فلاح(کامیابی) پائی جس کے دل کو اللہ نے ایمان کے لیے خالص کر دیا ، اس کے دل کو (حسد و بغض وغیرہ سے) سلامت رکھا ، اس کی زبان کو سچا بنایا ، اس کے نفس کو مطمئن بنایا ، اس کی طبیعت کو مستقیم بنایا ، اس کے کانوں کو غور سے (حق) سننے والا اور اس کی آنکھ کو (دلائل) دیکھنے والا بنایا ، کان اس چیز کے لیے جسے دل محفوظ رکھتا ہے ، قیف ہیں اور آنکھ محل قرار و ثبات ہے ، اور اس شخص نے فلاح پائی جس نے اپنے دل کو محافظ بنایا ۔‘‘
[مسند أحمد:21310، مسند الشاميين للطبراني:1141، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء:5/ 216، الطب النبوي لأبي نعيم الأصفهاني:93، الفردوس بمأثور الخطاب-الديلمي:4597، مشكاة المصابيح:5200]
وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ
[مجمع الزوائد:17721, التيسير بشرح الجامع الصغير:2/ 193]


غیراللہ پر ایمان کا انجام:
الحدیث:
حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا الْمُبَارَكُ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: أَخْبَرَنِي عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبْصَرَ عَلَى عَضُدِ رَجُلٍ حَلْقَةً، أُرَاهُ قَالَ مِنْ صُفْرٍ، فَقَالَ: " وَيْحَكَ مَا هَذِهِ؟ " قَالَ: مِنَ الْوَاهِنَةِ؟ قَالَ: " أَمَا إِنَّهَا لَا تَزِيدُكَ إِلَّا وَهْنًا انْبِذْهَا عَنْكَ؛ فَإِنَّكَ لَوْ مِتَّ وَهِيَ عَلَيْكَ ‌مَا ‌أَفْلَحْتَ ‌أَبَدًا۔
ترجمہ:
حضرت عمران ؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے ایک آدمی کے بازو میں پیتل (تانبے) کا ایک کڑا دیکھا، نبی ﷺ نے فرمایا: ارے بھئی! اس نے بتایا کہ یہ بیماری کی وجہ سے ہے، نبی ﷺ نے فرمایا اس سے تمہاری کمزوری میں مزید اضافہ ہی ہوگا، اسے اتار کر پھینکو، اگر تم اس حال میں مرگئے کہ یہ تمہارے ہاتھ میں ہو، تو تم کبھی کامیاب نہ ہوگے۔
[مسند أحمد:20000(سنن ابن ماجه:3531)، جامع المسانيد لابن الجوزي:5858، جامع المسانيد والسنن-ابن كثير:7948]


‏‏‏‏‏‏


﴿۲﴾ اللہ کی طرف سے جو احکام اللہ کا پیغمبر پیش کرتا ہے، وہ لوگ اس پر چلتے ہیں:

جو اس رسول یعنی نبی امی کے پیچھے چلیں جس کا ذکر وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پائیں گے (75) جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دے گا، برائیوں سے روکے گا، اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور گندی چیزوں کو حرام قرار دے گا، اور ان پر سے وہ بوجھ اور گلے کے وہ طوق اتار دے گا جو ان پر لدے ہوئے تھے۔ (76) چنانچہ جو لوگ اس (نبی) پر ایمان لائیں گے اس کی تعظیم کریں گے اس کی مدد کریں گے، اور اس کے ساتھ جو نور اتارا گیا ہے اس کے پیچھے چلیں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔
[سورۃ الاعراف:157]
75:: حضرت موسیٰ ؑ کی قوم بنی اسرائیل کو ان کی وفات کے بعد بھی صدیوں تک باقی رہنا تھا اور حضرت موسیٰ ؑ نے دنیا اور آخرت کی بھلائی کی جو دعا کی تھی وہ بنی اسرائیل کی اگلی نسلوں کے لئے بھی تھی، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کرتے وقت یہ بھی واضح فرمادیا کہ بنی اسرائیل کے جو لوگ نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے زمانے میں موجود ہوں گے، ان کو دنیا اور آخرت کی بھلائی اسی صورت میں مل سکے گی جب وہ آنحضرت ﷺ پر ایمان لاکر ان کی پیروی کریں، آنحضرت ﷺ کا ذکر فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آپ کی کچھ صفات بھی بیان فرمائیں، جن میں سے پہلی صفت یہ ہے کہ آپ نبی ہونے کے ساتھ رسول بھی ہوں گے، عام طور سے رسول کا لفظ ایسے پیغمبر کے لئے بولا جاتا ہے جو نئی شریعت لے کر آئے، لہذا اس لفظ سے اشارہ کردیا گیا کہ آنحضرت ﷺ نئی شریعت لے کر آئیں گے، جس میں کچھ فروعی احکام تورات کے احکام سے مختلف بھی ہوسکتے ہیں اور بنی اسرائیل کو اس وقت یہ نہ کہنا چاہیے کہ یہ تو ہماری شریعت سے مختلف احکام بیان کررہے ہیں، اس لئے ان پر کیسے ایمان لائیں ؟ چنانچہ پہلے سے بتایا جارہا ہے کہ ہر دور کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں اور جو رسول نئی شریعت لے کر آتے ہیں ان کے فروعی احکام پہلے احکام سے مختلف ہوسکتے ہیں، آنحضرت ﷺ کی دوسری صفت یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ آپ امی ہوں گے، یعنی لکھتے پڑھتے نہیں ہوں گے، عام طور سے بنی اسرائیل امی نہیں تھے ؛ بلکہ نسلی عربوں کو امی کہا جاتا تھا (2: 78۔ 3: 20۔ 2: 63) اور خود یہودی عرب نسل کے لوگوں کے لئے کسی قدر حقارت کے پیرائے میں استعمال کرتے تھے (دیکھئے سورة آل عمران 3: 75) اس لئے اس لفظ سے یہ اشارہ بھی دے دیا گیا کہ وہ بنی اسرائیل کے بجائے عربوں کی نسل سے مبعوث ہوں گے، آپ کی تیسری صفت یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ آپ کا ذکر مبارک تورات اور انجیل دونوں میں موجود ہوگا، اس سے ان بشارتوں کی طرف اشارہ ہے جو آپ کی تشریف آوری سے متعلق ان مقدس کتابوں میں دی گئی تھیں، آج بھی بہت سی تحریفات کے باوجود بائبل میں متعدد بشارتیں موجود ہیں، تفصیل کے لئے دیکھئے حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی ؒ کی کتاب اظہار الحق کا اردو ترجمہ بائبل سے قرآن تک مرتبہ راقم الحروف۔ 76: اس سے ان سخت احکام کی طرف اشارہ ہے جو یہودیوں پر عائد کیے گئے تھے۔ ان میں سے کچھ احکام تو خود تورات میں تھے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے اس وقت یہودیوں کو ان کا پابند کیا تھا۔ بعض سخت احکام ان کی نافرمانیوں کی سزا کے طور پر نافذ کیے گئے تھے جس کا ذکر سورة نساء (160:4) میں گذرا ہے اور بہت سے احکام یہودی علماء نے اپنی طرف سے گھڑ لیے تھے۔ شاید ”بوجھ“ سے پہلی اور دوسری قسم کی طرف اور گلے کے طوق سے تیسری قسم کے احکام کی طرف اشارہ ہو۔ بتایا جا رہا ہے کہ آنحضرت ﷺ ان احکام کو منسوخ کر کے ایک آسان اور معتد شریعت لائیں گے۔

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«مَا آمَنَ بِي مَنْ بَاتَ شَبْعَانًا وَجَارُهُ جَائِعٌ إِلَى جَنْبِهِ وَهُوَ يَعْلَمُ بِهِ»
ترجمہ:
ایسا شخص مجھ پر ایمان لانے والا نہیں ہوسکتا جو خود تو پیٹ بھر کر رات بسر کرے لیکن اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا رہے اور یہ شخص پڑوسی کے بھوکا ہونے سے باخبر بھی ہو۔
[المعجم الكبير للطبراني:751، الفردوس بمأثور الخطاب-الديلمي:8447، صحيح الترغيب والترهيب:2561، صحيح الجامع الصغير:5505]
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا ‌آمَنَ ‌بِي ‌مَنْ أَمْسَى وَهُوَ شَبْعَانُ وَجَارُهُ جَائِعٌ»
[البر والصلة للحسين بن حرب:264]

حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«مَا ‌آمَنَ ‌بِي ‌مَنْ لَمْ يُحِبَّنِي , وَمَا أَحَبَّنِي مَنْ لَمْ يُحِبَّ الْأَنْصَارَ»
ترجمہ:
ایسا شخص مجھ پر ایمان لانے والا نہیں ہوسکتا جو مجھ سے محبت نہ رکھے، اور وہ مجھ سے محبت نہیں رکھتا جو انصار (صحابہ) سے محبت نہ رکھے۔
[الشريعة للآجري:1132، سنن الدارقطني:222]




﴿۳﴾ وہ اللہ کی ناراضگی یعنی جہنم سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں:

جس کسی شخص سے اس دن وہ عذاب ہٹا دیا گیا، اس پر اللہ نے بڑا رحم کیا، اور یہی واضح کامیابی ہے۔
[سورۃ الانعام:16]

*کامیابی»جہنم سے آزادی۔*
اللہ کے آخری پیغمبر محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جس شخص نے وضو کیا پھر کہا: ﴿اے اللہ تو اپنی تعریف کے ساتھ پاک ہے، تیرے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں، میں تجھ سے بخشش طلب کرتا ہوں، اور تیری طرف لوٹتا ہوں۔﴾ تو اسے (جہنم سے) آزاد لوگوں میں"لکھ"دیا جاتا ہے۔ اور ایک مہر لگا دی جاتی ہے جو قیامت تک نہیں توڑی جاتی۔
[الصحيحة:2333، حاكم:2027]






﴿۴﴾ وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں اور ان کے احکام بجالاتے ہیں :

اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کریں، اللہ سے ڈریں، اور اس کی نافرمانی سے بچیں تو وہی لوگ کامیاب ہیں۔
[سورۃ النور:52]



﴿۵﴾ وہ ایمان لانے کے ساتھ نیک اعمال بھی کرتے ہیں :

(یہ دوسری زندگی) اس دن (ہوگی) جب اللہ تمہیں روز حشر میں اکٹھا کرے گا۔ وہ ایسا دن ہوگا جس میں کچھ لوگ دوسروں کو حسرت میں ڈال دیں گے۔ (1) اور جو شخص اللہ پر ایمان لایا ہوگا، اور اس نے نیک عمل کیے ہوں گے، اللہ اس کے گناہوں کو معاف کردے گا، اور اس کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔
[سورۃ التغابن: 9]
1: قرآن کریم نے یہاں تغابن کا لفظ استعمال فرمایا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو نقصان یا حسرت میں مبتلا کریں، قیامت کے دن کو تغابن کا دن اس لئے کہا گیا ہے کہ اس دن جو لوگ جنت میں جائیں گے دوزخی لوگ انہیں دیکھ کر حسرت کریں گے کہ کاش ہم نے دنیا میں ان جنتیوں جیسے عمل کئے ہوتے تو آج ہم بھی جنت کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے، حضرت شاہ عبدالقادر صاحب ؒ نے اس کا ترجمہ ہار جیت کا دن کیا ہے، جو مفہوم کو اختصار کے ساتھ واضح کردیتا ہے۔



﴿۶﴾ اللہ تعالی نے انھیں جو کچھ مال و دولت سے نوازا ہے اس میں دوسرے انسانوں کا حق پہچانتے ہیں، اسے سینت سینت کر نہیں رکھتے، بلکہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں :

لہذا تم رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو بھی (17) جو لوگ اللہ کی خوشنودی چاہتے ہیں، ان کے لیے یہ بہتر ہے، اور وہی ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔
[سورۃ الروم:38]
17: پچھلی آیت میں بتایا گیا تھا کہ رزق تمام تر اللہ تعالیٰ کی عطا ہے، اس لئے جو کچھ اس نے عطا فرمایا ہے وہ اسی کے حکم اور ہدایت کے مطابق خرچ ہونا چاہیے، لہذا اس میں غریبوں مسکینوں اور رشتہ داروں کے جو حقوق اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں وہ ان کو دینا ضروری ہے، اور دیتے وقت یہ اندیشہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس سے مال میں کمی آجائے گی، کیونکہ جیسا کہ پچھلی آیت میں فرمایا گیا رزق کی کشادگی اور تنگی اللہ تعالیٰ ہی کے قبضے میں ہے وہ تمہیں حقوق کی ادائیگی کے بعد محروم نہیں فرمائے گا، چنانچہ آج تک نہیں دیکھا گیا کہ حقوق ادا کرنے کے نتیجے میں کوئی مفلس ہوگیا ہو۔





﴿۷﴾ وہ شیطان کے بہکاوے میں نہیں آتے اور غلط کاموں میں نہیں پھنستے:

اے ایمان والو ! شراب، جوا، بتوں کے تھان اور جوے کے تیرے (62) یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں، لہذا ان سے بچو، تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔
[سورۃ المائدۃ:90]
62: بتوں کے تھان سے مراد وہ قربان گاہ ہے جو بتوں کے سامنے بنادی جاتی تھی اور لوگ بتوں کے نام پر وہاں جانور وغیرہ قربان کیا کرتے تھے۔ اور جوے کے تیروں کی تشریح اسی سورت کے شروع میں آیت نمبر 3 کے تحت حاشیہ نمبر 6 میں گذر چکی ہے۔



﴿۸﴾ وہ اپنے نفس کی پاکی پر توجہ دیتے ہیں، اسے گناہوں سے آلودہ نہیں کرتے اور اللہ کی نافرمانی سے ڈرتے ہیں:

فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نامراد وہ ہوگا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے۔
[سورۃ الشمس:9۔10]
2: نفس کو پاکیزہ بنانے کا مطلب یہی ہے کہ انسان کے دل میں جو اچھی خواہشات اور اچھے جذبات پیدا ہوتے ہیں، انہیں ابھار کر اس پر عمل کرے اور جو بری خواہشات اور جذبات پیدا ہوتے ہیں انہیں دبائے اسی طرح مسلسل مشق کرتے رہنے سے نفس پاکیزہ ہو کر وہ نفس مطمئنہ بن جاتا ہے۔ جس کا ذکر سورة الفجر کی آخری آیتوں میں گذرا ہے۔



﴿۹﴾ وہ خود نیک بنے رہنے پر اکتفا نہیں کرتے، بلکہ دوسروں کو بھی بھلائی کی طرف دعوت دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں :

اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جس کے افراد (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کی تلقین کریں، اور برائی سے روکیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔
[سورۃ آل عمران:104]

قرآن مجید ایک بات یہ بھی کہتا ہے کہ آخرت میں کام یاب ہونے والوں کو جنت میں جو نعمتیں دی جائیں گی وہ ابدی ہوں گی۔ وہ ہمیشہ ان سے شاد کام ہوں گے۔







الحدیث:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مجھ پر دس آیتیں نازل ہوئی ہیں جو ان پر عمل کرتا رہے گا، وہ جنت میں جائے گا، پھر آپ نے «قد أفلح المؤمنون» (سورۃ المومنون: ١- ١٠) سے شروع کر کے دس آیتیں مکمل تلاوت فرمائیں۔
[سنن الترمذي:3173][مصنف عبد الرزاق - ت الأعظمي:6038]
«هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»
[المستدرك على الصحيحين للحاكم:1961+3479]

وہ دس آیات:
ان ایمان والوں نے یقینا فلاح پالی ہے۔ جو اپنی نماز میں دل سے جھکنے والے ہیں۔ (1اور جو لغو چیزوں سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ (2اور جو زکوٰۃ پر عمل کرنے والے ہیں۔ (3اور جو اپنی شرمگاہوں کی (اور سب سے) حفاظت کرتے ہیں۔ (4سوائے اپنی بیویوں اور ان کنیزوں کے جو ان کی ملکیت میں آچکی ہوں۔ (5) کیونکہ ایسے لوگ قابل ملامت نہیں ہیں۔ ہاں جو اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہیں تو ایسے لوگ حد سے گزرے ہوئے ہیں۔ (6اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس رکھنے والے ہیں۔ اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس رکھنے والے ہیں۔ یہ ہیں وہ وارث۔



1: یہ خشوع کا ترجمہ ہے۔ عربی میں خضوع کے معنی ہیں ظاہری اعضاء کو جھکانا، اور خشوع کے معنی ہیں دل کو عاجزی کے ساتھ نماز کی طرف متوجہ رکھنا۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ انسان نماز میں جو کچھ زبان سے پڑھ رہا ہو، اس کی طرف دھیان رکھے، اور اگر غیر اختیاری طور پر کوئی خیال آجائے تو وہ معاف ہے، لیکن جونہی یاد آئے، دوبارہ نماز کے الفاظ کی طرف متوجہ ہوجانا چاہیے۔
2: لغو کا مطلب ہے بیکار مشغلہ جس میں نہ دنیا کا کوئی فائدہ ہو، نہ آخرت کا
3: زکوٰۃ کے لفظی معنی ہیں کسی چیز کو پاک صاف کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر جو فریضہ عائد کیا ہے کہ وہ اپنے مال میں سے کچھ حصہ غریبوں کے لیے نکالیں، اسے زکوٰۃ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس سے ان کا باقی مال بھی پاک صاف ہوجاتا ہے، اور ان کے دلوں کو بھی پاکی حاصل ہوتی ہے۔ یہاں زکوٰۃ سے مراد وہ مالی فریضہ بھی ہوسکتا ہے۔ اور اس کے دوسرے معنی بھی مراد ہوسکتے ہیں۔ یعنی اپنے آپ کو برے اعمال اور اخلاق سے پاک صاف کرنا۔ اس کو تزکیہ بھی کہتے ہیں۔ قرآن کریم نے یہاں زکوٰۃ کے ساتھ ادا کرنے کے بجائے زکوٰۃ پر عمل کرنے والے کا جو لفظ استعمال فرمایا ہے، اس کی وجہ سے بہت سے مفسرین نے یہاں دوسرے معنی کو ترجیح دی ہے۔
4: یعنی اس بات سے حفاظت کرتے ہیں کہ اپنی جنسی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے کوئی ناجائز طریقہ اختیار کیا جائے۔
5: اس سے مراد وہ کنیزیں ہیں جو شرعی احکام کے مطابق کسی کی ملکیت میں آئی ہوں لیکن آج کل ایسی کنیزوں کا کوئی وجود نہیں رہا۔
6: یعنی بیوی اور شرعی کنیز کے سوا کسی اور طریقے سے اپنی جنسی خواہش پوری کرنے کی کوشش کرنا حرام ہے۔
7: نمازوں کی نگرانی میں یہ بات بھی داخل ہے کہ نماز کی پوری پابندی کی جائے، اور یہ بھی کہ ان کو صحیح طریقے سے آداب اور شرائط کے ساتھ ادا کیا جائے۔







الحدیث:
حضرت ابن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ وَرُزِقَ کَفَافًا وَقَنَّعَهُ اللَّهُ بِمَا آتَاهُ
ترجمہ:
وہ شحض کامیاب ہوا جس نے (1)اسلام قبول کیا اور (2)اسے بقدرِ کفایت رزق عطا کیا گیا اور (3)اللہ نے اپنے عطا کردہ مال پر اسے قناعت عطاء کردی۔
[صحیح مسلم:2426(1054)]
القرآن:
جو شخص نیک اعمال کرے گا مرد ہو یا عورت وہ مومن بھی ہوگا تو ہم اس کو (دنیا میں) پاک (اور آرام کی) زندگی سے زندہ رکھیں گے اور (آخرت میں) اُن کے اعمال کا نہایت اچھا صلہ دیں گے۔
[تفسير ابن كثير:سورة النحل (16) : آية 97]


عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ:‏‏‏‏ لِمَالِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلِحَسَبِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَجَمَالِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلِدِينِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ.
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے اور تو دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر، اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی (یعنی اخیر میں تجھ کو ندامت ہوگی) ۔
[صحيح البخاري:4802، صحيح مسلم:1466، السنن الكبرى للنسائي:5318]






Sunday, 19 December 2021

کالا لباس اور شیعہ کتابیں


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کالے رنگ کی چادر اوڑھنا اور سیاہ عمامہ باندھنا ثابت ہے، البتہ مکمل کالا لباس پہننا ثابت نہیں، تاہم سیاہ لباس پہننے کی ممانعت کے حوالہ سے کوئی روایت بھی نہیں ملی، اس لیے فی نفسہ کالا لباس پہننا مرد و عورت دونوں کے لیے جائز ہے، لیکن اس زمانے میں خاص طور پر محرم کے مہینے میں کالے رنگ کا لباس پہننا روافض کا شعار بن چکا ہے، اس لیے جن ایام میں یہ لوگ سیاہ لباس پہنتے ہیں اس دوران اس طبقے کے ساتھ مشابہت سے بچنے کے لیے سیاہ لباس سے اجتناب لازم ہے، نیز فوتگی یا کسی غم کے موقع پر اظہارِ غم کے طور پر سیاہ لباس زیب تن کرنا بے اصل و بدعت ہے، جس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

واللہ اعلم






















حضرت علی نے فرمایا کہ کالے کپڑے نہ پہننا کیونکہ یہ فرعون کا لباس تھا۔

حضرت علی کا یہ ارشاد صرف شیعی کتابوں میں ملتا ہے یا اس کی سند میں کوئی نہ کوئی شیعہ راوی ضرور ہے؛ اس لیے جب تک اس کی صحیح سند نہ مل جائے، اِس کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔ اور کالا کپڑے سے متعلق شرعی وضاحت یہ ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کالی چادر اوڑھنا اور سیاہ عمامہ باندھنا ثابت ہے ؛ البتہ مکمل کالا لباس پہننا ثابت نہیں تاہم کسی روایت میں مکمل کالے لباس کی ممانعت بھی نہیں آئی ہے ؛ اس لیے فی نفسہ کالا لبا س پہننا جائز ہے؛ البتہ محرم میں چوں کہ شیعہ لوگ کالا لباس بہ طور اظہار غم وماتم پہنتے ہیں؛ اس لیے اس مہینہ میں ان کی مشابہت سے بچنے کے لیے کالے لباس سے بچنا ضروری ہوگا۔ اسی طرح جن علاقوں میں کسی کی وفات پر یا کسی غم کے اظہار کے موقعہ پر کالا لباس پہننے کا رواج ہو، وہاں عام دنوں میں بھی مکمل کالے لباس سے گریز کرنا چاہیے۔

حوالہ

ویستحب الأبیض وکذا الأسود ؛ لأنہ شعار بني العباس، ودخل علیہ الصلاة والسلام مکة وعلی رأسہ عمامة سوداء …کما في الشرعة اھ من الملتقی وشرحہ
[رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، فصل في اللبس، ۹: ۵۰۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند]

قولہ: ”وندب لبس السواد“:؛ لأن محمداً ذکر في السیر الکبیر في باب الغنائم حدیثاً یدل علی أن لبس السواد مستحب۔
[رد المحتار، کتاب الخنثی، مسائل شتی، ۱۰: ۴۸۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند]

عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔
[سنن أبي داود، کتاب اللباس، باب في لبس الشہرة، ۲:۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱،ط: دار الفکر بیروت]

”من تشبہ بقوم“أي: من شبہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق أو الفجار الخ
[مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح، ۸:۲۲۲،ط:دار الکتب العلمیة بیروت]۔

واللہ تعالیٰ اعلم
ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :171798
تاریخ اجراء :Aug 7, 2019

سیاہ (کالے) رنگ کے کپڑے پہننے کا حکم

کالے رنگ کے کپڑے پہننا جائز ہے بشرطیکہ کسی خاص رسم یا عقیدہ یا سوگ کی بنیاد پرنہ ہو، علامہ شامیؒ نے تو کالے رنگ کا لباس پہننے کو مستحب قرار دیا ہے، کیوں کہ نبی ﷺ سے سیاہ (کالے ) رنگ کا لباس پہننا ثابت ہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ   فتح مکہ والے دن جب نبی ﷺ  مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر پر کالا عمامہ تھا۔ [ترمذی:2813] ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ ایک صبح گھر سے نکلے دراں حالیکہ آپ ﷺ پر  کالے بالوں کی چادر تھی۔ ایک اور روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے لیے سیاہ چادر بنائی تو آپ ﷺ نے اسے زیب تن فرمایا۔ غرض فی نفسہ کالے رنگ کے کپڑے پہننے میں تو کوئی حرج نہیں ہے البتہ آج کے دور میں مکمل کالا لباس  بعض اہل باطل کا شعار بن چکا ہے؛ اس لیے بہتر ہے کہ پورے کالے لباس سے جہاں تک ہوسکے احتیاط رکھیں،(خصوصاً جن دنوں میں وہ کالے لباس کا اہتمام کرتے ہیں ان دنوں میں تو بالکلیہ اجتناب کریں)؛  تاکہ ان کی مشابہت سے بچ جائیں، کیوں کہ فساق و فجار کی مشابہت اختیار کرنا شرعا ممنوع ہے۔

حوالہ جات

(1) حدثنا أحمد بن منيع، قال: حدثنا يحيى بن زكريا بن أبي زائدة قال: أخبرني أبي، عن مصعب بن شيبة، عن صفية بنت شيبة، عن عائشة، قالت: خرج النبي صلى الله عليه وسلم ذات غداة وعليه مرط من شعر أسود.هذا حديث حسن غريب صحيح".

[سنن الترمذي ت بشار (4/ 416): حدیث نمبر 2813 ، باب ما جاء في الثوب الأسود]


(2) حدثنا محمد بن كثير، أخبرنا همام، عن قتادة، عن مطرف، عن عائشة، رضي الله عنها، قالت: " صنعت لرسول الله صلى الله عليه وسلم بردة سوداء، فلبسها، فلما عرق فيها وجد ريح الصوف، فقذفها - قال: وأحسبه قال: - وكان تعجبه الريح الطيبة".وفي الحدیث جواز لبس السواد وهو متفق علیه.

[سنن أبي داود (4/ 54): حدیث نمبر 4074، باب في السواد]

[بذل المجهود، باب في السواد، دار البشائر الإسلامیة۱۲/۱۰۱، تحت رقم الحدیث۴۰۷۴، سهارنپور قدیم۵/۵۱]


(وندب لبس السواد)

 (قوله: وندب لبس السواد)؛ لأن محمداً ذكر في السير الكبير في باب الغنائم حديثاً يدل على أن لبس السواد مستحب".

[الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 755)]


"وفي التتارخانية: ولا تعذر في لبس السواد، وهي آثمة إلا الزوجة في حق زوجها فتعذر إلى ثلاثة أيام. قال في البحر: وظاهره منعها من السواد تأسفاً على موت زوجها فوق الثلاثة".

[الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 533)]

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200094

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن