شریعت کی روشنی میں مہنگائی کی وجوہات واَسباب
’’عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرؓ، قَالَ: اَقْبَلَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللہِ ﷺ، فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ الْمُـہَاجِرِیْنَ! خَمْسٌ إِذَا ابْتُلِیتُمْ بِہِنَّ، وَاَعُوْذُ بِاللہِ اَنْ تُدْرِکُوْہُنَّ، لَمْ تَظْہَرِ الْفَاحِشَۃُ فِيْ قَوْمٍ قَطُّ، حَتّٰی یُعْلِنُوْا بِہَا إِلَّا فَشَا فِیْہِمُ الطَّاعُوْنُ وَالْاَوْجَاعُ، الَّتِيْ لَمْ تَکُنْ مَضَتْ فِيْ اَسْلَافِہِمُ الَّذِیْنَ مَضَوْا، وَلَمْ یَنْقُصُوْا الْمِکْیَالَ وَالْمِـیْزَانَ، إِلَّا اُخِذُوْا بِالسِّنِیْنَ، وَشِدَّۃِ الْمَـئُوْنَۃِ، وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَیْہِمْ، وَلَمْ یَمْنَعُوْا زَکَاۃَ اَمْوَالِہِمْ إِلَّا مُنِعُوْا الْقَطْرَ مِنَ السَّمَاءِ، وَلَوْلَا الْبَہَائِمُ لَمْ یُمْطَرُوْا، وَلَمْ یَنْقُضُوْا عَہْدَ اللہِ، وَعَہْدَ رَسُوْلِہٖ إِلَّا سَلَّطَ اللہُ عَلَیْہِمْ عَدُوًّا مِنْ غَیْرِہِمْ، فَاَخَذُوْا بَعْضَ مَا فِيْ اَیْدِیْہِمْ وَمَا لَمْ تَحْکُمْ اَئِمَّتُہُمْ بِکِتَابِ اللہِ، وَیَتَخَیَّرُوْا مِمَّا اَنْزَلَ اللہُ إِلَّا جَعَلَ اللہُ بَاْسَہُمْ بَیْنَہُمْ۔‘‘
ترجمہ:
’’حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا: اے مہاجرین کی جماعت! پانچ باتیں ہیں جب تم ان میں مبتلا ہوجاؤ گے، اور میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ تم اس میں مبتلا ہو، (وہ پانچ باتیں یہ ہیں: پہلی یہ کہ جب کسی قوم میں علانیہ فحش (فسق و فجور اور زناکاری) ہونے لگ جائے، تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو ان سے پہلے کے لوگوں میں نہ تھیں۔ دوسری یہ کہ جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قحط، معاشی تنگی اور اپنے حکمرانوں کی ظلم و زیادتی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تیسری یہ کہ جب لوگ اپنے مالوں کی زکاۃ ادا نہیں کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش کو روک دیتا ہے، اور اگر زمین پر چوپائے نہ ہوتے تو آسمان سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا۔ چوتھی یہ کہ جب لوگ اللہ اور اس کے رسول کے عہد و پیمان کو توڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے علاوہ لوگوں میں سے کسی دشمن کو مسلط کردیتا ہے، وہ جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے چھین لیتا ہے۔ پانچویں یہ کہ جب ان کے حکمران اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، اور اللہ نے جو نازل کیا ہے اس کو اختیار نہیں کرتے، تو اللہ تعالیٰ ان میں پھوٹ اور اختلاف ڈال دیتا ہے۔ ‘‘
(سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث: ۴۰۱۹)
’’حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ، حَدَّثَنَا أبِیْ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا بَکَّارٌ قَالَ: سَمِعْتُ وَہْبًا یَقُوْلُ: إِنَّ الرَّبَّ تَبَارَکَ وَتَعَالَی قَالَ فِي بَعْضِ مَا یَقُوْلُ لِبَنِیْ إِسْرَائِیلَ: إِنِّيْ إِذَا اُطِعْتُ رَضِیْتُ، وَإِذَا رَضِیْتُ بَارَکْتُ، وَلَیْسَ لِبَرَکَتِيْ نِہَایَۃٌ، وَإِنِّيْ إِذَا عُصِیْتُ غَضِبْتُ، وَإِذَا غَضِبْتُ لَعَنْتُ، وَلَعْنَتِيْ تَبْلُغُ السَّابِعَ مِنَ الْوَلَدِ۔‘‘
ترجمہ:
’’امام احمد ؒ نے وہب ؒ سے نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے فرمایا: جب میری اطاعت کی جاتی ہے تو میں راضی ہوتا ہوں، اور جب میں راضی ہوتا ہوں تو برکت عطا کرتا ہوں، اور میری برکت کی کوئی انتہا نہیں، اور جب میری نافرمانی کی جاتی ہے، تو میں غضب ناک ہوتا ہوں، تو میں لعنت کرتا ہوں، اور میری لعنت کا اثر سات پشتوں تک رہتا ہے۔ ‘‘
(کتاب الزہد لاحمد بن حنبل، رقم الحدیث: ۲۸۹)
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’لا یَزِیْدُ فِیْ الْعُمْرِ إِلَّا الْبِرُّ، وَلَا یَرُدُّ الْقَدَرَ إِلَّا الدُّعَاءُ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیُحْرَمُ الرِّزْقَ بِالذَّنْبِ یُصِیْبُہُ۔‘‘
ترجمہ:
’’نیکی ہی عمر کو بڑھاتی ہے، اور تقدیر کو دعا کے علاوہ کوئی چیز نہیں ٹال سکتی، اور کبھی آدمی اپنے گناہ کی وجہ سے ملنے والے رزق سے محروم ہو جاتا ہے۔ ‘‘
(سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث: ۴۰۲۲)
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم : ...... وَلَا مَنَعُوْا الزَّکَاۃَ إِلَّا حُبِسَ عَنْہُمُ الْقَطْرُ۔‘‘
ترجمہ:
’’نہیں روکا کسی قوم نے زکوٰۃ کو، مگر روک لیا اللہ تعالیٰ نے ان سے بارش کو۔‘‘
(المعجم الکبیر للطبرانی، رقم الحدیث: ۱۰۹۹۲)
مذکورہ احادیث مبارکہ سے قحط سالی، بارشوں کا بروقت نہ ہونا، مہنگائی کا ہو جانا، اور رزق میں کمی ہو جانے کے اسباب یہ معلوم ہوئے:
1: ناپ تول میں کمی
2: زکوٰۃ ادا نہ کرنا
3: زنا کرنا۔
4: مطلق اللہ کی نافرمانی اور گناہ کرنا۔
5: قرآن وسنت کے خلاف فیصلے کرنا۔
مہنگائی کا علاج
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ لکھتے ہیں:
’’ذکر کردہ تفصیل سے موجودہ دور کی مشکلات کے اسباب متعین ہو چکے، تو علاج اس کا اُن اسباب کا ازالہ ہے، یعنی: ایمان کی درستی، تمام معاصی سے توبہ واستغفار کرنا، خصوصاً حقوق العباد میں کوتاہی کرنے سے، اور زکوٰۃ ادا نہ کرنے سے، اور زنا اور اس کے مقدمات سے کہ وہ بھی بحکم زنا ہی ہیں، جیسے: بُری نگاہ کرنا، نامحرم سے باتیں بقصدِ لذت کرنا، اس کی آواز سے لذت حاصل کرنا، خصوصاً گانے بجانے سے، چنانچہ حق تعالیٰ نے صریحاً اس کو علاج فرمایا ہے کہ اپنے پروردگار کے روبرو (اعمالِ سیاہ سے) استغفار کرو، پھر (اعمال صالح سے) اس کی طرف متوجہ ہو، وہ تم پر بارش کو بڑی کثرت سے بھیجے گا۔ اب اکثر لوگ بجائے ان اسبابِ اصلیہ کے اسبابِ طبیعیہ کو مؤثر سمجھ کر علاجِ مذکور کی طرف توجہ نہیں کرتے، اور صرف حکایت، شکایت، یا رائے زنی، وپیشین گوئی، یا تخمینی کا شُغل رکھتے ہیں، جو محض اضاعتِ وقت ہے۔ ہم اسبابِ طبیعیہ کے منکر نہیں، مگر اس کا درجہ اسبابِ اصلیہ کے سامنے ایسا ہے جیسے: کسی باغی کو بحکمِ شاہی گولی سے ہلاک کیا گیا۔ دوسرا دیکھنے والا اصلی سبب، یعنی: قہرِ سلطانی کو سبب نہ کہے، اور طبعی سبب، یعنی: صرف گولی کو سبب کہے، حالانکہ اس طبعی سبب کے استعمال کا سبب وہی سببِ اصلی ہے، مگر جو شخص اس کو نہ سمجھے گا وہ بغاوت سے پرہیز نہیں کرے گا، گولی کا توڑ تجویز کرے گا جو کہ اس کی قدرت سے خارج ہے، سو کیا یہ غلطی نہیں ہو گی؟ یہی حالت ہم لوگوں کی ہے۔‘‘ (سال بھر کے مسنون اعمال، مہنگائی اور قحط کے اسباب، ص: ۴۰- ۴۱)
حضرت مولانا محمد یوسف کاندہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک ملفوظ
اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں معاشی اعتبار سے تنگی پیدا نہ ہو تو اس کا حل شریعت میں بہت واضح انداز میں بیان کر دیا گیا ہے، اس بات کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے تو حضرت مولانا محمد یوسف کاندہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک ملفوظ ملاحظہ فرمالیا جائے، تا کہ بات کو آگے لے کر چلنا آسان ہوسکے:
حضرت مولانا یوسف صاحبؒ کے زمانے کا قصہ ہے کہ ان کے زمانے میں مہنگائی بہت بڑھ گئی، کچھ لوگ مولانا کے پاس آئے اور مہنگائی کی شکایت کی اور کہا کہ کیا ہم حکومت کے سامنے مظاہرے کرکے اپنی بات پیش کریں؟ حضرت ؒنے ان سے فرمایا : مظاہرے کرنا اہلِ باطل کا طریقہ ہے۔ پھر سمجھایا کہ
دیکھو! انسان اور چیزیں، دونوں اللہ تعالیٰ کے نزدیک ترازو کے دو پلڑوں کی طرح ہیں، جب انسان کی قیمت اللہ تعالیٰ کے یہاں ایمان اور اعمالِ صالحہ کی وجہ سے بڑھ جاتی ہے تو چیزوں کی قیمت والا پلڑا خودبخود ہلکا ہوکر اُوپر اٹھ جاتا ہے اور مہنگائی میں کمی آجاتی ہے۔ اور جب انسان کی قیمت اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کے گناہوں اور معصیتوں کی کثرت کی وجہ سے کم ہوجاتی ہے تو چیزوں والا پلڑا وزنی ہوجاتا ہے اور چیزوں کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں، لہٰذا ! تم پر ایمان اور اعمالِ صالحہ کی محنت ضروری ہے، تاکہ اللہ پاک کے یہاں تمہاری قیمت بڑھ جائے اور چیزوں کی قیمت گرجائے۔
پھر فرمایا: لوگ فقر سے ڈراتے ہیں، حالانکہ یہ شیطان کا کام ہے: ’’اَلشَّیْطَانُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ‘‘ اس لیے تم لوگ جانے انجانے میں شیطانی لشکر اور ایجنٹ مت بنو۔ اللہ کی قسم ! اگر کسی کی روزی سمندر کی گہرائیوں میں کسی بند پتھر میں بھی ہوگی تو وہ پھٹے گا اور اس کا رزق اس کو پہنچ کر رہے گا۔ مہنگائی اُس رزق کو روک نہیں سکتی جو تمہارے لیے اللہ پاک نے لکھ دی ہے۔
اس ملفوظ سے معلوم ہوا کہ سب سے پہلے تو ہم اللہ سے اپنا معاملہ سیدھا کر لیں، یعنی: فرائض کا اہتمام کریں، سنت زندگی کو سامنے رکھ کر زندگی گزاریں، حرام اور منکرات سے اپنے کو بچائیں، تو ان شاء اللہ جب اللہ سے معاملہ سیدھا ہو جائے گا تو ہمارے حالات بھی درست ہو جائیں گے۔
اللہ سے حالات درست کرنے کے لیے ایک عمل اللہ تعالیٰ کے ہی رازق ہونے کا یقین رکھنا ہے کہ ہر ہر ذی روح کا رزق اس کے ذمے ہے، جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
ترجمہ: ’’ لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! گرانی (مہنگائی) بڑھ گئی ہے، لہٰذا آپ (کوئی مناسب)نرخ مقرر فرما دیجیے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نرخ مقرر کرنے والا تو اللہ ہی ہے، (میں نہیں) وہی روزی تنگ کرنے والا اور روزی میں اضافہ کرنے والا، روزی مہیا کرنے والا ہے، اور میری خواہش ہے کہ جب اللہ سے ملوں، تو مجھ سے کسی جانی و مالی ظلم و زیادتی کا کوئی مطالبہ کرنے والا نہ ہو (اس لیے میں بھاؤ مقرر کرنے کے حق میں نہیں ہوں)۔‘‘(سنن ابی داود، رقم الحدیث:۳۴۵۱)
حضرت ابو حازم ؒکے پاس کچھ لوگ آئے اور عرض کیا:
ترجمہ: ’’اے ابو حازم! تم دیکھتے نہیں کہ مہنگائی کس قدر بڑھ گئی ہے؟ (ہمیں اِن حالات میں کیا کرنا چاہیے؟) ابو حازم ؒ نے جواب دیا کہ تمہیں غم میں ڈالنے والی چیز کیا ہے؟ (اس بات پر یقین رکھو کہ) بے شک وہ ذات جو ہمیں کشادگی والے حالات میں رزق دیتی تھی وہی ذات اب تنگی اور مہنگائی والے حالات میں رزق دے گی (اس لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، بس اس کی نافرمانی سے بچتے ہوئے اس کی فرمانبرداری میں لگے رہو) ۔ ‘‘ (حلیۃ الاولیاء، ج: ۳، ص:۲۳۹)
حضرت ابو العباس سلمی ؒ کہتے ہیں کہ میں حضرت بشر بن حارث کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
’’إِذَا اہْتَمَمْتَ لِغَلَاءِ السِّعْرِ، فَاذْکُرِ الْمَـوْتَ، فَإِنَّہٗ یُذْہِبُ عَنْکَ ہَمَّ الْغَلَاءِ۔‘‘ (حلیۃ الاولیاء، ج: ۸، ص:۳۴۷)
ترجمہ: ’’جب تمہیں مہنگائی کا حد سے بڑھ جانا فکر میں ڈالے تو تم اپنی موت کو یاد کر لیا کرو، یہ (موت کا غم اور فکر) تم سے مہنگائی کا غم دور کر دے گا۔‘‘
دوسرا عمل توبہ و استغفار کرنے کا ہے، اور تیسرا: اپنے روزگار کے حصول میں چاہے وہ تجارت کے ذریعے ہو، یا شرکت و مضاربت کے ذریعے، اجارے کا معاملہ ہو یا مزارعت کا، ہر ذریعۂ معاش میں شریعت کے بیان کردہ راہنما اصولوں کو سامنے رکھیں، اور مہنگائی کے حالات میں صحابہ کرام ؓ کے طرزِ عمل اور ارشادات وفرمودات کے مطابق اپنا عمل بنائیں، ذیل میں مختصر ان اُمور پر کچھ روشنی ڈالی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ واستغفار کرنا
دنیا کے تمام مصائب اور مسائل سے خلاصی کا سب سے پہلا حل یہی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے گناہوں کا اقرار کرے، سچے دل سے ان پر ندامت کا اظہار کرے، اور اللہ سے معافی مانگتے ہوئے آئندہ ان کے ترک کا عزمِ مصمم کرے، تو اس سے اللہ اپنے بندوں سے خوش ہوکر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائیں گے، جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام کی زبانی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ إِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا یُرْسِلِ السَّمَائَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَیُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنَّاتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ أَنْہَارًا۔‘‘ (النوح: ۱۰ -۱۲)
ترجمہ:
’’ اور (اس سمجھانے میں ) میں نے (ان سے یہ ) کہا کہ تم اپنے پروردگار سے گناہ بخشواؤ، بیشک وہ بڑابخشنے والا ہے، تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا، اور تمہاری مال اور اولاد سے مدد کرے گا، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور نہریں جاری کرے گا۔‘‘
تجارت کے اسلامی اصولوں کی پابندی
انسانی زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح خرید و فروخت کے میدان میں بھی اسلام کے ذکر کردہ اصول اتنے شاندار ہیں کہ ان کو اپنا لینے کی صورت میں معاشی میدان میں مہنگائی جیسی مصیبت سے عافیت حاصل کی جاسکتی ہے، ذیل میں اسلامی تجارت کے بعض اصول ذکر کیے جاتے ہیں:
دھوکہ دہی سے بچنا
موجودہ دور میں اکثر تجارتوں کی بنیاد ہی دھوکہ دہی پر مشتمل ہوتی ہے۔اشیائے خوردونوش ہوںیالباس اور آرائش وزیبائش کی خریداری، تاجر پیشہ حضرات فریب دینے سے باز نہیں رہتے۔ سامان کا عیب پوشیدہ رکھ کر معمولی مقدار کے منافع کی جگہ کئی گنا منافع لے لیا جاتا ہے، تجارت کی منڈی میں اسے ہاتھ کی صفائی اور فن تصور کیا جاتا ہے، حالانکہ اسلام نے اس حرکت سے بڑی سختی سے روکا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
’’...... مَنْ غَشَّ، فَلَیْسَ مِنِّيْ۔‘‘
(صحیح مسلم، الرقم: ۲۸۴)
’’جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ سے گزرتے ہوئے ایک ڈھیر اناج کا دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس کے اندر ڈالا تو انگلیوں پر تری آ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اے اناج کے مالک!یہ کیا ہے؟ وہ بولا: پانی پڑ گیا تھا یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تو نے اس بھیگے اناج کو اوپر کیوں نہ رکھا کہ لوگ دیکھ لیتے، جو شخص فریب کرے، دھوکہ دے، وہ مجھ سے کچھ تعلق نہیں رکھتا۔‘‘
خریداری کے ارادے کے بغیر قیمت لگانے کی ممانعت
آپ کسی دوکان پر جائیں، کبھی مشاہدہ ہوگا کہ اس دوکان پر آپ کے علاوہ دیگر کئی لوگ بھی پہنچتے ہیں اور جس چیز کو آپ خریدنا چاہتے ہیں، وہ افراد خریدار بن کر اس کی قیمت بڑھانے لگتے ہیں، اس عمل کو شریعت کی اصطلاح میں ’’نجش‘‘ کہتے ہیں۔ درحقیقت یہ دوکانداروں کی سازش ہوتی ہے، تاکہ آپ مطلوب سامان کو زیادہ قیمت دے کر خرید لیں، حالانکہ اس حرکت سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:
’’نَہَی (النبي صلی اللہ علیہ وسلم) عَنِ النَّجْشِ۔‘‘
(سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث: ۲۱۷۳)
ترجمہ:
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعِ نجش سے منع فرمایا ہے ۔‘‘
’’بیع نجش ‘‘ یہ ہوتی ہے کہ آدمی بیچنے والے سے سازش کر کے مال کی قیمت بڑھا دے، اس حال میں کہ خود اس کا خریدنا منظور نہ ہو، تاکہ دوسرے خریدار دھوکہ کھائیں اور قیمت بڑھا کر اس مال کو خرید لیں، اس زمانہ میں نیلام میں اکثر لوگ ایسا کیا کرتے ہیں اور اس فعل کو گناہ نہیں سمجھتے، جب کہ یہ کام حرام اور ناجائز ہے، اور ایسی سازش کے نتیجے میں اگر خریدار اس مال کی اتنی قیمت دیدے جتنی حقیقت میں اس مال کی نہیں بنتی تو اس کو اختیار ہے کہ وہ اس بیع کو فسخ کر دے، اور سامان واپس کر کے اپنا پیسہ لے لے۔
بازار میں پہنچنے سے پہلے قافلہ والوں کے سامان کو خریدنے کی ممانعت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’لَا تَلَقَّوُا الرُّکْبَانَ لِلْبَیْعِ، وَلَا یَبِعْ بَعْضُکُمْ عَلَی بَیْعِ بَعْضٍ، وَلَا تَنَاجَشُوْا، وَلَایَبِیْعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ۔‘‘
(سنن النسائی، رقم الحدیث: ۴۵۰۱)
ترجمہ:
’’تجارتی قافلے سے (مال) خریدنے کے لیے (شہر، یا منڈی وغیرہ سے) باہر نکل کر نہ ملو، اور تم میں سے کوئی دوسرے کی بیع پر بیع نہ کرے، نہ بھاؤ پر بھاؤ بڑھانے کا کام کرو اور نہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان بیچے۔‘‘
علمائے کرام اس ممانعت کی حکمت یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ فعل بازار میں اس خاص سامان کی قلت کا سبب بنتا ہے اور وہ چیز مہنگی ہوجاتی ہے۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ :
’’نَہٰی رَسُوْلُ اللہِ عَنْ تَلَقِّی الْجَلْبِ، حَتَّی یَدْخُلَ بِہَا السُّوقَ؟‘‘ (سنن النسائی، رقم : ۴۵۰۳)
ترجمہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ آگے جا کر قافلے سے ملا جائے، یہاں تک کہ وہ خود بازار آئے (اور وہاں کا نرخ (بھاؤ) معلوم کر لے)۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ’’اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم :’’نَہٰی اَنْ یَّبِیْعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ، وَإِنْ کَانَ اَبَاہُ اَوْ اَخَاہُ۔‘‘ (سنن النسائی، رقم : ۴۴۹۷)
’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ: شہری دیہاتی کا سامان بیچے، اگرچہ وہ اس کا باپ یا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے ایک دوسری حدیث میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’دَعُوْا النَّاسَ یَرْزُقُ اللہُ بَعْضَہُمْ مِنْ بَعْضٍ۔‘‘ (سنن النسائی، رقم الحدیث: ۴۵۰۰)
ترجمہ: ’’ لوگوں کو چھوڑ دو، اللہ تعالیٰ ان میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ رزق (روزی) فراہم کرتا ہے۔‘‘
ذخیرہ اندوزی کی ممانعت
سابقہ سطور میں گزراکہ مہنگائی کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ضرورت کی اشیاء کی ذخیرہ اندوزی بھی ہے کہ تجار بھلے وقتوں میں کسی چیز کو خرید کر اپنے پاس اس انتظار میں روک لیں کہ جب وہ چیز بازار میں مہنگی ہو جائے گی تو اسے فروخت کریں گے، واضح رہے کہ شریعت نے تاجروں کو اس سے روکا ہے۔ حضرت معمر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا:
’’لَا یَحْتَکِرُ إِلَّا خَاطِئٌ۔‘‘ (سنن الترمذی، رقم الحدیث: ۱۲۶۷)
ترجمہ: ’’گنہگار ہی احتکار (ذخیرہ اندوزی)کرتا ہے۔‘‘
حصولِ برکت والے اسباب کو اختیار کرنا
بلاشبہ شریعتِ اسلامیہ نے حصولِ برکت کے بہت سے آداب وذرائع متعین کیے ہیں، جن کو بروئے کار لاکر ایک انسان برکت جیسی نعمت سے محظوظ ہوسکتا ہے۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ اگر آج بھی برکتوں کا نزول ہو تو ملک، صوبہ اور شہر غربت و افلاس اور مہنگائی جیسی مصیبتوں سے محفوظ ہوجائے گا اور ہر شخص آرام و سکون کی زندگی بسر کرنے لگے گا اور برکت کی وجہ سے اس کے مال ودولت ہی اس کے لیے کافی ہوں گے اور در در ہاتھ پھیلانے سے محفوظ ہوگا، لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ جن افعال کو شریعت میں باعثِ برکت قرار دیا گیا ہے، ان کی پابندی کریں اور ان کی انجام دہی کی کوششیں کریں، مثلاً: حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’الْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ، مَا لَمْ یَفْتَرِقَا، فَإِنْ صَدَقَا وَبَیَّنَا بُورِکَ فِيْ بَیْعِہِمَا، وَإِنْ کَذَبَا، وَکَتَمَا مُحِقَ بَرَکَۃُ بَیْعِہِمَا۔‘‘ (سنن النسائی، رقم الحدیث: ۴۴۶۲)
ترجمہ: ’’بیچنے اور خریدنے والے .......... اگر سچ بولیں گے اور (عیب و ہنر کو)صاف صاف بیان کر دیں گے تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ہو گی، اور اگر جھوٹ بولیں گے اور عیب کو چھپائیں گے تو ان کی خرید و فروخت کی برکت جاتی رہے گی۔‘‘
مہنگی اشیاء کا بدل استعمال کرنا
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں مکے کے اندر کسی موقعے سے زبیب (کشمش)کی قیمت بڑھ گئی۔ لوگوں نے خط لکھ کر کوفے میں موجود حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے اس کا شکوہ کیا، تو انہوں نے یہ رائے تجویز فرمائی کہ تم لوگ کشمش کے بدلے کھجور استعمال کیا کرو، کیونکہ جب تم ایسا کروگے تو مانگ کی کمی سے کشمش کی قیمت گرجائے گی اور وہ سستی ہوجائے گی۔ (اگر سستی نہ بھی ہوتو کھجور اس کا بہترین متبادل ہے۔)
’’عن رزین بن الْأعْرَج مولی لآل الْعَبَّاس قَالَ: غَلَا علینا الزَّبِیبُ بِمَکَّۃ، فکتَبْنا إِلٰی علي بن اَبي طَالب بِالْکُوفَۃِ اَن الزَّبِیب قد غلا علینا، فَکتب:اَن أرخصوہ بِالتَّمْرِ۔‘‘ (تاریخ ابن معین، ج:۳، ص:۱۱۳، رقم الحدیث: ۴۷۱)
مہنگی اشیاء کا استعمال ہی ترک کر دینا
ایک بار حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ سے کہا گیا کہ گوشت کی قیمت میں حد درجہ اضافہ ہوگیا۔ حضرت ابراہیم بن ادہم ؒ نے ان کی بات سننے کے بعد کہا: اگر اس کا بھاؤ چڑھ گیاہے تو کم کردو۔ لوگوں نے کہا: ہم تو ضرورت مند ہیں، گوشت ہمارے پاس کہاں ہے کہ ہم اس کی قیمت کم کردیں؟ ابراہیم بن ادہمؒ نے کہا کہ: دراصل میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ اس کا استعمال کم کردو، یعنی:تم اس کو خریدنا ہی چھوڑ دو، کیونکہ جب اس کا استعمال کم ہوجائے گا تو اس کی قیمت بذاتِ خود کم ہوجائے گی۔
’’قِیْلَ لِإِبْرَاہِیْمَ بْنِ اَدْہَمَ:إِنَّ اللَّحْمَ غَلَا، قَالَ: فَاَرْخِصُوہُ، اَيْ: لَاتَشْتَرُوہُ۔‘‘
(حلیۃ الاولیاء، ج: ۸، ص:۳۲)