Sunday, 25 February 2024

قیام اللیل اور رات کی مسنون نفلی اعمال وعبادتیں

نماز، تلاوت قرآن، اور ذکر الہی جیسی دیگر عبادات میں رات گزارنا یا رات کا کچھ حصہ گزارنا چاہے ایک لمحہ ہی ہو ، نیز یہ شرط نہیں ہے کہ رات کا اکثر حصہ عبادت میں گزاریں۔
[الموسوعة الفقهية الكويتية: 34/ 117]


قیام اللیل کی تعریف:
قیام اللیل کا لغوی معنیٰ "رات کو کھڑے ہونا" ہے۔ شرعی اصطلاح میں یہ رات کے وقت تہجد یا دیگر نمازیں پڑھنے، قرآن پاک کی تلاوت کرنے، ذکر و اذکار اور دعا کرنے کو کہا جاتا ہے۔ یہ عبادت عموماً تہجد کی نماز کے ساتھ منسلک ہے، جو رات کے آخری تہائی حصے میں ادا کی جاتی ہے۔
حوالہ
مراقی الفلاح میں ہے کہ:
” ومعنی القیام أن یکون مشتغلا معظم اللیل بطاعة ، وقیل: بساعة منہ، یقرأ أو یسمع القرآن أوالحدیث أو یسبح أو یصلی علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔
ترجمہ:
قیام اللیل کا مطلب یہ ہے کہ رات کا بڑا حصہ اطاعت گزاری میں مشغول رہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ : رات کی کسی گھڑی میں قرآن پڑھے، یا حدیث سنے یا نوافل پڑھے یا نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر درود پڑھے۔"
[مراقی الفلاح مع حاشیة الطحطاوی، ص ۴۰۱، مطبوعہ: دار الکتب العلمیة بیروت]


اور شامی (۲: ۴۶۹ ، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) میں ہے:
”وفی الإمداد: ویحصل القیام بالصلاة نفلا فرادی من غیر عدد مخصوص، وبقراء ة القرآن والأحادیث وسماعھا، وبالتسبیح والثناء والصلاة والسلام علی النبي صلی اللہ علیہ وسلم الحاصل ذلک في معظم اللیل، وقیل: بساعة منہ۔

اور (ص۴۶۷) میں ہے:
لأن التہجد إزالة النوم بتکلف مثل: تأثم أي: تحفظ عن الإثم، نعم صلاة اللیل وقیام اللیل أعم من التہجد۔


حوالہ
شامی (۲: ۴۶۷، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) میں ہے:
لأن التہجد إزالة النوم بتکلف مثل: تأثم أي: تحفظ عن الإثم، نعم صلاة اللیل وقیام اللیل أعم من التہجد۔

اور موسوعہ فقہیہ (۳۴: ۱۱۸) میں ہے:
”والصلة بین قیام اللیل والتہجد أن قیام اللیل أعم من التہجد“۔


---

1. تہجد نماز کے دلائل:

وَمِنَ الَّيۡلِ فَتَهَجَّدۡ بِهٖ ۔۔۔
ترجمہ:
اور رات کے کچھ حصے میں تہجد پڑھا کرو۔۔۔
[سورۃ الإسراء:79]

﴿قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا﴾﴿نِصْفَهُ أَوِ انقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا﴾﴿أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا﴾
ترجمہ:
"رات کو کھڑے رہو مگر تھوڑی (دیر)، آدھی رات یا اس سے کچھ کم کر لو، یا اس سے کچھ بڑھا دو اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔"
[سورة المزمل:2-6]

﴿وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا﴾
ترجمہ:
"اور وہ لوگ اپنے رب کے سامنے سجدہ کرتے اور کھڑے رہتے ہوئے راتیں گزارتے ہیں۔"
[سورة الفرقان:64]

﴿كَانُوا قَلِيلًا مِّنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ﴾ کے﴿وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ﴾
ترجمہ:
"وہ رات کو تھوڑا ہی سوتے تھے، اور صبح کے وقت استغفار کرتے تھے۔"
[سورة الذاریات:17-18]

- حدیث: رسول اللہ ﷺ جب رات کو تہجد(نماز) کیلئے کھڑے ہوتے تو یہ دعا پڑھتے: «اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَوَاتِ وَرَبَّ الْأَرْضِ ...»



---

2. تلاوتِ قرآن:


رات کو قرآن پڑھنا بھی قیام اللیل میں شامل ہے۔ 
دلیلِ قرآن:
  ﴿وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا﴾
  ترجمہ: "اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔"
[سورة المزمل:4]

- حدیث: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «مَنْ قَرَأَ بِعَشْرِ آیَاتٍ لَمْ یُکْتَبْ مِنَ الْغَافِلِینَ»


ترجمہ:
"جو شخص پڑھے دس آیات﴿رات میں﴾، اسے غافلوں میں شمار نہیں کیا جائے گا۔"
[المعجم الاوسط للطبرانی:7678 (مسند الدارمی:3647-3648)]

اور جس نے رات میں سو آیات پڑھیں،نہیں وہ لکھا جاۓ گا غافلین میں۔

---

3. ذکر و اذکار:


رات کو اللہ کا ذکر کرنا، تسبیحات پڑھنا اور استغفار کرنا بھی قیام اللیل ہے۔ 
دلیلِ قرآن:
  ﴿وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ﴾
ترجمہ:
"اور صبح کے وقت وہ استغفار کرتے تھے۔"
[سورة الذاریات:18]

حدیث:
نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: رب تعالیٰ اپنے بندے سے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری نصف حصے کے درمیان میں ہوتا ہے، تو اگر تم ان لوگوں میں سے ہو سکو جو رات کے اس حصے میں اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو تم بھی اس ذکر میں شامل ہو کر ان لوگوں میں سے ہوجاؤ۔
[ترمذي:3579، ابوداؤد:1277]



---

4. دعا و مناجات:


رات کے آخری حصے میں اللہ سے دعا کرنا بھی قیام اللیل کا حصہ ہے۔ 
دلیل:

- حدیث: حضرت عمرو بن عبسہ سلمی ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! رات کے کس حصے میں دعا زیادہ قبول ہوتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:  رات کے آخری حصے میں، اس وقت جتنی نماز چاہو پڑھو۔۔۔


[ترمذی:3579](مسلم:832، نسائی:585 ابن ماجہ:1364)

---

5. رات کی فرض نمازیں:


مغرب، عشاء نماز بھی قیام اللیل ہیں۔
دلیل:
اور (اے پیغمبر) نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر (فجر اور عصر کی) اور رات کے کچھ حصوں میں (مغرب، عشاء، تہجد کی) ۔۔۔
[سورۃ هود:114]
جس نے عشاء نماز باجماعت پڑھی گویا کہ اس نے آدھی رات عبادت کی
اور
جس نے صبح کی نماز باجماعت پڑھی گویا کہ اس نے ساری رات نماز پڑھی.
[صحیح مسلم:656، صحیح ابن حبان:2059]

---

6. اوابین نماز۔


دلیل:
إذا زالت الأفياء وراحت الأرواح فاطلبوا إلى الله حوائجكم فإنها ساعة الأوابين۔ وإنه كان للأوابين غفورا».
ترجمہ:
جب سائے ڈھلنے لگیں، (گرمی کی تپش سے) روحوں کو سکون ملنے لگے اس وقت اللہ سے اپنی حوائج (ضروریات ) کو طلب کرو، بیشک یہ اوابین (یعنی خدا کی طرف رجوع کرنے والوں) کی گھڑی ہے۔۔۔۔اور اللہ تعالیٰ اوابین کے لیے بخشش فرمانے والے ہیں۔(سورۃ الاسراء:25)
[شعب الایمان للبیہقی:3073 بروایت علی ؓ]
[الاحادیث المختارۃ:173، بروایت ابن ابی اوفیٰ]

حضرت عبداللہ ابن عمرو ؓ سے روایت ہے:
«مَنْ رَكَعَ بَعْدَ الْمَغْرِبِ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، كَانَ كَالْمُعَقِّبِ غَزْوَةً بَعْدَ غَزْوَةٍ»
ترجمہ:
جس آدمی نے مغرب کے بعد دو رکعتیں پڑھیں گویا اس نے ایک غزوہ کے بعد، دوسرا غزوہ کیا۔
[مصنف ابن أبى شيبة:5933، شرح السنة للبغوي:897، جامع الاحادیث-الیسوطی:39847]
اور حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ:
«إِنَّ الْمَلائِكَةَ لَتَحُفُّ بِالَّذِينَ يُصَلُّونَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ إِلَى الْعِشَاءِ، وَهِيَ صَلاةُ الأَوَّابِينَ»
ترجمہ:
مغرب اور عشاء کے درمیان صلوۃ الاوابین پڑھنے والوں کو فرشتے اپنے پروں تلے ڈھانپ لیتے ہیں۔
[شرح السنة للبغوي:897، جامع الاحادیث-الیسوطی:38576]
اور حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«مَنْ صَلَّى بَعْدَ الْمَغْرِبِ عِشْرِينَ رَكْعَةً بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ»
ترجمہ:
جس نے نماز پڑھیں مغرب کے بعد دس رکعت تو اللہ بنائے گا اس کیلئے جنت میں ایک گھر۔
[ترمذی:435، ابن ماجہ:1373، بغوي:897]
----

7. وتر نماز۔


«وِتْرُ اللَّيْلِ  كَوِتْرِ النَّهَارِ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ ثَلَاثًا»
ترجمہ:
رات کے وتر دن کے وتر تین (رکعت) مغرب نماز کی طرح ہیں۔
[طبرانی:9419]

وَمَا كَانَ بَعْدَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ فَهُوَ مِنَ اللَّيْلِ۔
جو شخص وتر پڑھے بغیر سو جائے یا بھول جائے تو تب یاد آجائے تب پڑھ لے۔
[ترمذی:465]
اور عشاء کے بعد جو بھی نماز پڑھی جاۓ وہ بھی رات کی نماز ہے۔
[طبرانی:787]

---


8. تراویح نماز۔


اس نماز کو ﴿قيام الليل في رمضان﴾ یعنی خاص رمضان میں رات کا قیام فرمایا گیا ہے۔ اور چونکہ ہر چار رکعت کے درمیان "راحت-آرام" لیا جاتا، لہٰذا اسے صحابہ اور ائمہ تراویح نماز کہتے۔
دلیل:

- حدیث: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «مَنْ قَامَ لَیْلَةَ الْقَدْرِ إِیمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ»


ترجمہ:
"جو شخص شب قدر میں ایمان اور احتساب کے ساتھ کھڑا ہو، اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔"
[بخاری:1901]

حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول الله ﷺ رمضان میں 20رکعت نماز (تراویح)اور وتر پڑھتے۔
[مصنف ابن أبي شيبة:7692(7902)، المنتخب من مسند عبد بن حميد:653، جزء من حديث النعالي:33، المعجم الكبير للطبراني:12102، المعجم الأوسط للطبراني:798، السنن الكبرى للبيهقي:4677(4291)، مسند عبد بن حميد:653]

حضرت جابر سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نکلے رات کو رمضان میں پس نماز پڑھائی 24رکعت(4فرض اور 20تراویح)...اور 3 وتر بھی۔
[التاسع من المشیخة البغدادیة ،امام ابی طاہر سلفی: حدیث#27]

لفظ ترویحات:
أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ " أَمَرَ رَجُلًا أَنْ يُصَلِّيَ، بِالنَّاسِ ‌خَمْسَ ‌تَرْوِيحَاتٍ عِشْرِينَ رَكْعَةً۔
ترجمہ :
حضرت ابو الحسناؒ سے مروی ہے کہ حضرت عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ ؓ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو پانچ ترویحات (یعنی) بیس رکعات پڑھایا کرے۔
[الشريعة للآجري:1240، الإبانة الكبرى-ابن بطة:82، مصنف ابن ابی شیبہ:2/393، سنن الکبری للبیھقی:4621، مسند امام زید:155]

امام نووی رحمہ اللہ تعالی (م676هـ) کہتے ہیں:
فی مذاھب العلماء فی عدد رکعات التراویح مذھبنا انھا عشرون رکعة بعشر تسلیمات غیر الوتر وذالک خمس ترویحات والترویحة اربع رکعات بتسلیمتین
ترجمہ:
علماء کرام کے اجماع(اتفاق) میں نماز تراویح سنت ہیں ، اور ہمارے مذہب میں یہ دس سلام کے ساتھ دو دو رکعت کرکے بیس(20) رکعات ہیں ، ان کی ادائيگی باجماعت اور انفرادی دونوں صورتوں میں جائز ہیں۔ اور ان دونوں میں افضل کیا ہے؟ ... (صحیح قول کے مطابق) ساتھیوں کے اتفاق سے جماعت افضل ہے۔
[المجموع شرح مھذب:3/ 526]

---


9. توبہ و استغفار:


رات کو گناہوں سے توبہ کرنا اور اللہ سے معافی مانگنا بھی قیام اللیل کا حصہ ہے۔ 
دلیل:
"اور سحری کے وقت وہ استغفار کرتے تھے۔"
[سورة الذاریات:18]

- حدیث: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ہر دن۔۔۔اور۔۔۔ہر رات 70 بار الله سے استغفار کیا، اسے نہیں لکھا جاۓگا غافلين میں۔

---

10. علم و تفکر:


رات کو دینی علم حاصل کرنا، قرآن و حدیث پر غور وفکر کرنا بھی قیام اللیل ہے۔ 
دلیلِ قرآن:
"وہ لوگ کھڑے، بیٹھے اور لیٹے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں۔۔۔"
[سورة آل عمران:191]

---

11۔ عام نفلی عبادات:
رات کو دین کی دعوت دینا، وصیت کرنا، طواف، صدقہ، صلہ رحمی، یا کسی مصیبت زدہ کی مدد کرنا غرض کسی بھی نیک کام کیلئے رات کو جاگنا بھی قیام اللیل کی روح کے مطابق ہے۔ 
دلیل:
کہا(حضرت نوح نے کہ)اے رب! میں بلاتا رہا اپنی قوم کو رات اور دن۔ پھر نہیں بڑھا انہیں میرے بلانے سے مگر بھاگنا ہی۔
[سورۃ نوح:5-6]

دن بھر روزے اور رات بھر عبادت کرنے سے جو مقام حاصل ہوتا ہے وہ مقام انسانا ھے اخلاق سے بھی حاصل کرلیتا ہے۔
[مسند احمد:25537]
فلانی عورت رات کو تہجد اور دن میں (نفلی)روزہ رکھتی ہے، نیک عمل کرتی اور صدقہ دیتی ہے لیکن وہ اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو تکلیف دیتی ہے۔ تو آپ ﷺ فرمایا: اس عورت میں کوئی خیر نہیں، اور یہ جہنمیوں میں سے ہے۔
[الادب المفرد-للبخاری:119]

جس مسلمان مرد کے مالی معاملہ میں کوئی بات قابلِ وصیت ہو تو اسے چاہیے کہ تین راتیں بھی نہ گزرنے پائیں مگر اسکے پاس وصیت "لکھی" ہونی چاہیے۔
[مسلم:1627]

جس بستی میں کسی شخص نے ایسی حالت میں صبح کی کہ وہ رات بھر بھوکا رہا تو اس بستی والوں سے اللہ کی حفاظت ونگرانی کا وعدہ ختم۔
[مصنف ابن ابی شیبہ:48]
ایسا شخص مجھ پر ایمان لانے والا نہیں ہوسکتا جو خود تو پیٹ بھر کر رات بسر کرے اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا رہے جبکہ یہ شخص پڑوسی سے بھوکا ہونے سے باخبر بھی ہو۔
[طبرانی:751]

باوضو سونا۔
[ابوداؤد:5042]
پاکی کی حالت میں سونا
[طبرانی:13620]
تین چیزیں ایمان میں سے ہیں:(1)کسی شخص پر سردی کی ٹھنڈی رات میں غسل فرض ہو جائے اور وہ غسل کرنے کیلئے اس حال میں اٹھ کھڑا ہو کہ اسے اللہ کے علاؤہ کوئی اور دیکھنے والا نہ ہو۔۔۔
[شعب الایمان:52]

دشمن سے ملی ہوئی سرحد پر ایک دن اور رات کا پہرہ دینا ایک ماہ کے روزوں اور قیام اللیل سے بہتر ہے،۔۔۔
[مسلم:5047(1913)]


ہر بھلائی صدقہ ہے۔
[صحیح بخاری:6021، صحیح مسلم:2328(1005)، ابوداؤد:4947]

---

فقہی نکات:
امام ابن تیمیہ حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"قیام اللیل ہر اس عمل کو کہتے ہیں جس سے بندہ رات کو اللہ کا قرب حاصل کرے، خواہ وہ نماز ہو، ذکر ہو، تلاوت ہو یا دعا۔"
[مجموع الفتاوی-امام ابن تیمیہ: 22/272]


قیام اللیل فی رمضان سے مراد نمازِ تراویح ہے۔ اور صلاة اللیل سے مراد نوافل ہیں، اور نوافل میں سب سے افضل نمازِ تہجد ہے۔

حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

أَفْضَلُ الصَلَاةِ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ  صَلَاةُ اللَّيْلِ ۔

ترجمہ:

فرض نماز کے بعد سب سے بہتر نماز رات کی نماز(تہجد) ہے۔

[مسلم:1163، ترمذی:438، نسائی:1613، ابوداؤد:2429، ابن ماجہ:1742، دارمی:1500، ابن حبان:2563، ابن خزیمہ:1134، بیھقی:8206، ابویعلی:6395]

---

خلاصہ:

قیام اللیل سے مراد خاص تہجد اور رمضان میں تراویح ہے، اور عام طور پر رات کی ہر وہ عبادت جو اللہ کی رضا کے لیے کی جائے، خواہ وہ نماز، تلاوت، ذکر، دعا، علم یا خدمتِ خلق کی شکل میں ہو، قیام اللیل کہلاتی ہے۔ یہ تمام اعمال قرآن و حدیث میں مذکور ہیں اور ان کی فضیلت متعدد دلائل سے ثابت ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو راتوں کو زندہ کرنے والے بندوں میں شامل فرمائے۔ آمین!




رات کی مسنون عبادتیں

نبی ﷺ نے فرمایا:

جس نے عشاء نماز باجماعت پڑھی گویا کہ اس نے آدھی رات عبادت کی

اور

جس نے صبح کی نماز باجماعت پڑھی گویا کہ اس نے ساری رات قیام کیا(یعنی عبادت کیلئے کھڑا رہا)۔

[صحیح مسلم: حديث#656]

صحیح ابن حبان:2059

تفسیر بغوی:6/94، سورۃ فرقان:64