Wednesday, 15 May 2024

مصیبت: عذاب یا آزمائش


مصیبت کیا ہے؟

مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے، اس کے بعد عرف میں ہر (اچانک پہنچنے والے) حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے۔

چنانچہ قرآن پاک میں ہے:

أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها

[سورۃ آل عمران:165]

(بھلا یہ) کیا بات ہے کہ (جب) احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ (جنگ بدر میں) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انھیں پہنچ چکی تھی۔


فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ

[سورۃ النساء:62]

تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے۔


وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ

[سورۃ آل عمران:166]

اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی۔


وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ

[سورۃ الشوری:30]

اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے۔


اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیر و شر دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

چنانچہ قرآن میں ہے:

إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ

[سورۃ التوبة:50]

اے پیغمبر! اگر تم کو آسائش حاصل ہوتی ہے تو ان کی بری لگتی ہے اور اگر مصیبت پہنچتی ہے۔۔۔


وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ

[سورۃ النساء:73]

اور اگر تمہیں پہنچے کوئی فضل اللہ سے۔۔۔


فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ

[سورۃ النور:43]

تو جس پر چاہتا ہے اس(بارش) کو پہنچا دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔


فَإِذا أَصابَ بِهِ مَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ

[سورۃ الروم:48]

پھر جب وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اس(بارش کو)پہنچا دیتا ہے۔


بعض نے کہا ہے کہ جب اصاب کا لفظ خیر کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے تو یہ صوب بمعنی بارش سے مشتق ہوتا ہے، اور جب برے معنیٰ میں آتا ہے تو یہ معنیٰ (اصاب السمھم) کے محاورہ سے ماخوذ ہوتے ہیں مگر ان دونوں معانی کی اصل ایک ہی ہے۔

[مفردات القرآن-امام راغب الاصفھانی:]


مصیبت ۔۔۔ پہنچنے والی»

القرآن:

تمہیں جو کوئی اچھائی پہنچتی ہے تو وہ محض اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور جو کوئی برائی پہنچتی ہے، تو وہ تمہارے اپنے سبب سے ہوتی ہے، اور (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں لوگوں کے پاس رسول بنا کر بھیجا ہے، اور اللہ (اس بات کی) گواہی دینے کے لیے کافی ہے۔

[سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 79]

تشریح:

یہ آیت توحید (اللہ کے خدائی میں ایک-تنہا ہونے) کے تصور اور اس خیال کو اجاگر کر رہی ہے کہ اللہ ہی تمام خیر و برکت کا سرچشمہ ہے۔ یہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہمارے راستے میں آنے والی کوئی بھی خیر یا برکت اللہ کی رحمت اور فضل کا نتیجہ ہیں، جب کہ کوئی برائی یا مشکلات ہمارے اپنے اعمال اور انتخاب کا نتیجہ ہیں۔

خلاصہ یہ کہ یہ آیت ہمیں سکھا رہی ہے:

- ہم اللہ کی نعمتوں اور فضل کو پہچانیں اور اس کا اعتراف کریں۔

- ہم اپنے اعمال اور فیصلوں کی ذمہ داری لیں۔

- اپنی زندگی کی ہر بھلائی کے لئے ہم عاجز اور شکر گزار بنیں۔

- اپنی غلطیوں سے سیکھیں اور ان کی معافی مانگیں۔

یہ آیت اللہ کے ساتھ ہمارے تعلق کی یاد دہانی کے طور پر کام کرتی ہے اور ہمیں شکر گزاری، عاجزی اور جوابدہی کی زندگی گزارنے کی ترغیب دیتی ہے۔

تفسیر:

ان آیتوں میں دو حقیقتیں بیان فرمائی گئی ہیں، ایک یہ کہ اس کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کے حکم سے ہوتا ہے، کسی کو کوئی فائدہ پہنچے تو وہ بھی اللہ کے حکم سے پہنچتا ہے، اور نقصان پہنچے تو وہ بھی اسی کے حکم سے ہوتا ہے، دوسری حقیقت یہ بیان کی گئی ہے کہ کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچانے کا حکم اللہ تعالیٰ کب اور کس بناء پر دیتے ہیں، اس کے بارے میں (آیت : 79) نے یہ بتایا ہے کہ جہاں تک کسی کو فائدہ پہنچنے کا تعلق ہے اس کا حقیقی سبب صرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے، کیونکہ کسی بھی مخلوق کا اللہ تعالیٰ پر کوئی اجارہ نہیں آتا کہ وہ اسے ضرور فائدہ پہنچائے، اور اگر اس فائدہ کا کوئی ظاہری سبب اس شخص کا کوئی عمل نظر آتا بھی ہو تو اس عمل کی توفیق اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہی فضل ہے، اور اس شخص کا کوئی ذاتی استحقاق نہیں ہے، دوسری طرف اگر انسان کو کوئی نقصان پہنچے تو اگرچہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم ہی سے ہوتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ یہ حکم اسی وقت فرماتے ہیں جب اس شخص نے اپنے اختیاری عمل سے کوئی غلطی کی ہو، اب منافقین کا معاملہ یہ تھا کہ جب انہیں کوئی فائدہ پہنچتا تو اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ؛ لیکن کوئی نقصان ہوجاتا تو اسے آنحضرت ﷺ کے ذمے لگا دیتے تھے، اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ جو نقصان کی ذمہ داری آنحضرت ﷺ پر عائد کررہے ہیں اگر اس سے مراد یہ ہے کہ یہ نقصان آنحضرت کے حکم سے ہوا ہے، تو یہ بات بالکل غلط ہے ؛ کیونکہ اس کائنات میں تمام کام اللہ ہی کے حکم سے ہوتے ہیں کسی اور حکم سے نہیں اور اگر ان کا مطلب یہ ہے کہ (معاذاللہ) آنحضرت ﷺ کی کوئی غلطی اس کا سبب بنی ہے تو یہ بات بھی غلط ہے، ہر انسان کو خود اس کے اپنے کسی عمل کی وجہ سے نقصان پہنچتا ہے، آنحضرت ﷺ کو تو رسول بناکر بھیجا گیا ہے لہذا نہ تو کائنات میں واقع ہونے والے کسی تکوینی واقعے کی ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے اور نہ آپ فرائض رسالت میں کسی کوتاہی کے مرتکب ہوسکتے ہیں، جس کا خمیازہ آپ کی امت کو بھگتنا پڑے۔









Tuesday, 14 May 2024

غصہ کے جائز اور ناجائز پہلو

 

*شرعی نقطہ نظر سے غصے کی اقسام اور ان کی حیثیت:

اللہ تعالیٰ نے انسان کو جذبات سے نوازا ہے، جن میں غصہ بھی شامل ہے۔ شرعی احکامات کی روشنی میں غصے کو دو بڑی اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے: *"جائز غصہ"* اور *"ناجائز غصہ"*۔ ذیل میں ان کی وضاحت اور دلائل پیش ہیں:


---


⬅️ *۱۔ جائز غصہ:

یہ وہ غصہ ہے جو *"حق کی خاطر"* یا *"منکرات کے خلاف"* اٹھایا جائے۔ اس کی کچھ مثالیں اور دلائل درج ہیں:  


- دینی غیرت اور منکرات کے خلاف ردعمل:  

  جب کوئی شخص شرعی حدود کو پامال ہوتے دیکھے تو اس پر غصہ آنا جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  

*"جو منکر دیکھے، اسے ہاتھ سے بدلے، اگر نہ سکے تو زبان سے، اور اگر وہ بھی نہ سکے تو دل سے (نفرت کرے)"*

[صحیح مسلم:49،سنن الترمذي:2172،.سنن ابوداؤد:1140، سنن النسائي:5008، سنن ابن ماجة:4013]

  مثال کے طور پر، کسی کو نماز چھوڑتے یا شراب پیتے دیکھ کر غصہ آنا۔  


- *ظلم کے خلاف احتجاج*:  

  قرآن میں متقین کی صفت یہ بیان ہوئی کہ وہ "غصہ کو پی جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہوتے ہیں" [سورۃ آل عمران:134]. یہاں *"غصہ پی جانا"* ظلم کو برداشت کرنے کے باوجود انتقام نہ لینا ہے، لیکن غصہ کا حق ہونا ضروری ہے۔  


- *ذاتی عزت یا دین کی حفاظت*:  

  علماء کے مطابق، "اللہ کے لیے غصہ اچھا ہے، جیسے: مجاہد کو کفار پر، یا والدین کو نافرمان اولاد پر غصہ آئے"۔


---


⬅️ *۲۔ ناجائز غصہ:*

یہ وہ غصہ ہے جو *"ذاتی مفاد، تکبر، یا بے جا ردعمل"* کی بنیاد پر ہو۔ اس کی وجوہات اور دلائل:  


- *ذاتی انا یا تکبر*:  

  امام غزالیؒ فرماتے ہیں: *"غصہ ہر برائی کی چابی ہے"*، خاص طور پر جب یہ تکبر یا خودپسندی سے جنم لے [احیاء العلوم]. مثال کے طور پر، کسی کی معمولی غلطی پر اپنی برتری جتانے کے لیے غصہ کرنا۔  


- *بے قابو ردعمل*:  

  قرآن میں غصے کو ضبط کرنے کی تلقین کی گئی ہے: *"جب غصہ ہو تو معاف کردیں"* [سورۃ الشورى:37]. نبی کریم ﷺ نے فرمایا: *"طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے"* [صحیح بخاری:6114].  


- *نقصان دہ رویے*:  

  غصے میں گالی گلوچ، لڑائی، یا طلاق جیسے الفاظ کہنا ناجائز ہے۔ حدیث میں آیا ہے: *"غصے کی حالت میں خاموش ہوجاؤ"*

[الأدب المفرد:245، مسند احمد:2136]


---


⬅️ *جائز اور ناجائز غصے میں فرق کی کلیدی نکات:*

جائز غصہ» وہ ہے جو (1)اللہ کی رضا کے لیے، (2)منکرات-اعلانیہ کی جانے والے گناہوں کے خلاف (3)ضبط اور اعتدال کے ساتھ ہو۔

ناجائز غصہ» وہ ہے جو (1)ذاتی مفاد یا انا کے لیے (2) بے جا تنقید یا تکبر (3) بے قابو اور نقصان دہ غصہ ہو۔


---


⬅️ *غصے کو کنٹرول کرنے کے شرعی طریقے:

۱. *اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھیں*: یہ غصہ کو فوری ٹھنڈا کرتا ہے [صحیح مسلم].  

۲. *وضو کریں یا پانی پیئیں*: نبی ﷺ نے غصہ کی حالت میں وضو کرنے کا حکم دیا۔ [سنن ابو داؤد].  

۳. *پوزیشن تبدیل کریں*: کھڑے ہوں تو بیٹھ جائیں، بیٹھے ہوں تو لیٹ جائیں [صحیح الجامع].  

۴. *معافی کی عادت*: اللہ کی ناراضگی سے بچنے کے لیے دوسروں کو معاف کرنا [سورۃ آل عمران:134].


---


📊 *نتیجہ:*

غصہ ایک فطری جذبہ ہے، لیکن اس کا جائز استعمال صرف *"حق کی حمایت"* یا *"شر کے خلاف"* ہونا چاہیے۔ ذاتی غصہ شیطان کا ہتھکنڈا ہے، جس سے بچنے کے لیے ضبط اور دعاؤں پر توجہ ضروری ہے۔