Wednesday, 15 May 2024

مصیبت: عذاب یا آزمائش


مصیبت کیا ہے؟

مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے، اس کے بعد عرف میں ہر (اچانک پہنچنے والے) حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے۔

چنانچہ قرآن پاک میں ہے:

أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها

[سورۃ آل عمران:165]

(بھلا یہ) کیا بات ہے کہ (جب) احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ (جنگ بدر میں) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انھیں پہنچ چکی تھی۔


فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ

[سورۃ النساء:62]

تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے۔


وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ

[سورۃ آل عمران:166]

اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی۔


وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ

[سورۃ الشوری:30]

اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے۔


اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیر و شر دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

چنانچہ قرآن میں ہے:

إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ

[سورۃ التوبة:50]

اے پیغمبر! اگر تم کو آسائش حاصل ہوتی ہے تو ان کی بری لگتی ہے اور اگر مصیبت پہنچتی ہے۔۔۔


وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ

[سورۃ النساء:73]

اور اگر تمہیں پہنچے کوئی فضل اللہ سے۔۔۔


فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ

[سورۃ النور:43]

تو جس پر چاہتا ہے اس(بارش) کو پہنچا دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔


فَإِذا أَصابَ بِهِ مَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ

[سورۃ الروم:48]

پھر جب وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اس(بارش کو)پہنچا دیتا ہے۔


بعض نے کہا ہے کہ جب اصاب کا لفظ خیر کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے تو یہ صوب بمعنی بارش سے مشتق ہوتا ہے، اور جب برے معنیٰ میں آتا ہے تو یہ معنیٰ (اصاب السمھم) کے محاورہ سے ماخوذ ہوتے ہیں مگر ان دونوں معانی کی اصل ایک ہی ہے۔

[مفردات القرآن-امام راغب الاصفھانی:]


مصیبت ۔۔۔ پہنچنے والی»

القرآن:

تمہیں جو کوئی اچھائی پہنچتی ہے تو وہ محض اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور جو کوئی برائی پہنچتی ہے، تو وہ تمہارے اپنے سبب سے ہوتی ہے، اور (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں لوگوں کے پاس رسول بنا کر بھیجا ہے، اور اللہ (اس بات کی) گواہی دینے کے لیے کافی ہے۔

[سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 79]

تشریح:

یہ آیت توحید (اللہ کے خدائی میں ایک-تنہا ہونے) کے تصور اور اس خیال کو اجاگر کر رہی ہے کہ اللہ ہی تمام خیر و برکت کا سرچشمہ ہے۔ یہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہمارے راستے میں آنے والی کوئی بھی خیر یا برکت اللہ کی رحمت اور فضل کا نتیجہ ہیں، جب کہ کوئی برائی یا مشکلات ہمارے اپنے اعمال اور انتخاب کا نتیجہ ہیں۔

خلاصہ یہ کہ یہ آیت ہمیں سکھا رہی ہے:

- ہم اللہ کی نعمتوں اور فضل کو پہچانیں اور اس کا اعتراف کریں۔

- ہم اپنے اعمال اور فیصلوں کی ذمہ داری لیں۔

- اپنی زندگی کی ہر بھلائی کے لئے ہم عاجز اور شکر گزار بنیں۔

- اپنی غلطیوں سے سیکھیں اور ان کی معافی مانگیں۔

یہ آیت اللہ کے ساتھ ہمارے تعلق کی یاد دہانی کے طور پر کام کرتی ہے اور ہمیں شکر گزاری، عاجزی اور جوابدہی کی زندگی گزارنے کی ترغیب دیتی ہے۔

تفسیر:

ان آیتوں میں دو حقیقتیں بیان فرمائی گئی ہیں، ایک یہ کہ اس کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کے حکم سے ہوتا ہے، کسی کو کوئی فائدہ پہنچے تو وہ بھی اللہ کے حکم سے پہنچتا ہے، اور نقصان پہنچے تو وہ بھی اسی کے حکم سے ہوتا ہے، دوسری حقیقت یہ بیان کی گئی ہے کہ کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچانے کا حکم اللہ تعالیٰ کب اور کس بناء پر دیتے ہیں، اس کے بارے میں (آیت : 79) نے یہ بتایا ہے کہ جہاں تک کسی کو فائدہ پہنچنے کا تعلق ہے اس کا حقیقی سبب صرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے، کیونکہ کسی بھی مخلوق کا اللہ تعالیٰ پر کوئی اجارہ نہیں آتا کہ وہ اسے ضرور فائدہ پہنچائے، اور اگر اس فائدہ کا کوئی ظاہری سبب اس شخص کا کوئی عمل نظر آتا بھی ہو تو اس عمل کی توفیق اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہی فضل ہے، اور اس شخص کا کوئی ذاتی استحقاق نہیں ہے، دوسری طرف اگر انسان کو کوئی نقصان پہنچے تو اگرچہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم ہی سے ہوتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ یہ حکم اسی وقت فرماتے ہیں جب اس شخص نے اپنے اختیاری عمل سے کوئی غلطی کی ہو، اب منافقین کا معاملہ یہ تھا کہ جب انہیں کوئی فائدہ پہنچتا تو اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ؛ لیکن کوئی نقصان ہوجاتا تو اسے آنحضرت ﷺ کے ذمے لگا دیتے تھے، اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ جو نقصان کی ذمہ داری آنحضرت ﷺ پر عائد کررہے ہیں اگر اس سے مراد یہ ہے کہ یہ نقصان آنحضرت کے حکم سے ہوا ہے، تو یہ بات بالکل غلط ہے ؛ کیونکہ اس کائنات میں تمام کام اللہ ہی کے حکم سے ہوتے ہیں کسی اور حکم سے نہیں اور اگر ان کا مطلب یہ ہے کہ (معاذاللہ) آنحضرت ﷺ کی کوئی غلطی اس کا سبب بنی ہے تو یہ بات بھی غلط ہے، ہر انسان کو خود اس کے اپنے کسی عمل کی وجہ سے نقصان پہنچتا ہے، آنحضرت ﷺ کو تو رسول بناکر بھیجا گیا ہے لہذا نہ تو کائنات میں واقع ہونے والے کسی تکوینی واقعے کی ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے اور نہ آپ فرائض رسالت میں کسی کوتاہی کے مرتکب ہوسکتے ہیں، جس کا خمیازہ آپ کی امت کو بھگتنا پڑے۔











مصیبت کی دو اقسام»

(1)بداعمالیوں کا نتیجہ۔

[حوالہ سورۃ الشورى:30]

(2)مومن کیلئے گناہوں سے بخشش یا اعلیٰ درجات، یا بےحساب اجر کا سبب بننے والی آزمائش۔

[حوالہ سورۃ البقرۃ:155-156]










القرآن:

کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ وہ ہر سال ایک دو مرتبہ کسی آزمائش میں مبتلا ہوتے ہیں، (104) پھر بھی نہ وہ توبہ کرتے ہیں، اور نہ کوئی سبق حاصل کرتے ہیں؟

[سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 126]


تفسیر:

(104) منافقین پر ہر سال کوئی نہ کوئی مصیبت پڑتی رہتی تھی۔ کبھی ان کی خواہش اور منصوبوں کے خلاف مسلمانوں کو فتح نصیب ہوجاتی، کبھی ان میں سے کسی کا راز کھل جاتا، کبھی کوئی بیماری آجاتی، کبھی فقر و فاقہ میں مبتلا ہوجاتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ مصیبتیں ان کو متنبہ کرنے کے لیے کافی ہونی چاہیے تھیں، لیکن یہ لوگ کوئی سبق نہیں لیتے۔


(1)مصیبت، اعمال کا نتیجہ»

اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کیے ہوئے کاموں کی وجہ سے پہنچتی ہے، اور بہت سے کاموں سے تو وہ درگزر ہی کرتا ہے۔

[القرآن»سورۃ نمبر 42 الشورى،آیت نمبر 30]

تشریح:

یہ آیت کہہ رہی ہے کہ ہم پر جو مصیبتیں آتی ہیں وہ ہمارے اپنے اعمال اور فیصلوں کا نتیجہ ہیں۔ تاہم، اللہ رحم کرنے والا ہے اور بہت کچھ معاف کرتا رہتا ہے لہٰذا وہ ہمارے اکثر غلطیوں وکوتاہیوں کے نتائج فوراً نہیں دکھاتا کہ اپنی نعمتیں رزق صحت امن چھین لے، بلکہ وہ انتظار میں رہتا ہے کہ بندہ معافی وکفارہ ادا کرکے سچی توبہ کرلے اور محبوب بن جائے۔

خلاصہ یہ کہ یہ آیت ہمیں اپنے اعمال کی ذمہ داری قبول کرنے اور یہ تسلیم کرنے کی تعلیم دے رہی ہے کہ ہمارے انتخاب کے نتائج ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہیں۔ یہ آیت ایک ہی وقت میں یہ امید و حوصلہ دیتی ہے اور ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اللہ رحم اور معاف کرنے والوں کیلئے رحم اور معاف کرنے والا بھی ہے۔




القرآن:

لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی، اس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا۔ (20) تاکہ انہوں نے جو کام کیے ہیں اللہ ان میں سے کچھ کا مزہ انہیں چکھائے، شاید وہ باز آجائیں۔

[سورۃ نمبر 30 الروم، آیت نمبر 41]

تفسیر:

(20)آیت کریمہ یہ سبق دے رہی ہے کہ عام مصیبتوں کے وقت چاہے ظاہری اسباب کے ماتحت وجود میں آئی ہوں، اپنے گناہوں پر استغفار اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔







القرآن:

اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) خوف سے اور (کبھی) بھوک سے (کبھی) مال و جان اور پھلوں میں کمی کر کے اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں ان کو خوشخبری سنا دو۔

یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ“ ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 155-156]

تفسیر:

اس فقرے میں پہلے تو اس حقیقت کا اظہار ہے کہ چونکہ ہم سب اللہ کی ملکیت میں ہیں اس لئے اسے ہمارے بارے میں ہر فیصلہ کرنے کا اختیار ہے اور چونکہ ہم اس کے ہیں اور کوئی بھی اپنی چیز کا برا نہیں چاہتا، اس لئے ہمارے بارے میں اس کا ہر فیصلہ خود ہماری مصلحت میں ہوگا، چاہے فی الحال ہمیں وہ مصلحت سمجھ میں نہ آرہی ہو، دوسری طرف اس حقیقت کا اظہار ہے کہ ایک دن ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کے پاس اسی جگہ جانا ہے جہاں ہمارا کوئی عزیز یا دوست گیا ہے، لہذا یہ جدائی عارضی ہے ہمیشہ کے لئے نہیں ہے اور جب ہم اس کے پاس لوٹ کرجائیں گے تو ہمیں اس صدمے یا تکلیف پر انشاء اللہ ثواب بھی ملنا ہے، جب یہ اعتقاد دل میں ہو تو اسی کا نام صبر ہے، خواہ اس کے ساتھ ساتھ بےاختیار آنسو بھی نکل رہے ہوں۔


تشریح:

یہ آیت اس بات کی وضاحت کر رہی ہے:

1. اللہ مومنوں کو مختلف مصیبتوں سے آزمائے گا، بشمول:

     - خوف (مستقبل سے)

     - بھوک (موجود حالت سے)

     - مال کے نقصان(چوری،ڈوبنے،آگ لگنے سے)

     - جانوں کے ضیاع (بیماری،موت وغیرہ)

     - پھلوں کا نقصان (ہر چیز کے نتیجہ سے)

2. یہ امتحان (صابر) مومن کو دوسروں سے ممتاز کرنے کا ذریعہ ہیں۔

3. صبر کرنے والے وہ ہیں جو مصیبت کے وقت کہتے ہیں:

     - "بے شک ہم اللہ کے ہیں" (انا للہ)، یعنی ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہم سب تیرے "بندے" ہیں اور سب کچھ تیرا ہی ہے جو آپ نے واپس لیا۔

     - "اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں" (و انا الیہ راجعون)، یعنی ہم اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہوئے کہ ہمیں بھی بےاختیار آپ کے پاس لوٹنا (اور سب کے ساتھ ملنا) ہے۔


یہ آیت ایک یاد دہانی کے طور پر کام کرتی ہے کہ زندگی کے چیلنجز ہمارے سفر کا ایک حصہ ہیں، اور ان پر ہمارا ردعمل ہمارے کردار اور ایمان کا تعین کرتا ہے۔ صبر کرنے والے وہ ہیں جو ثابت قدم رہتے ہیں، اللہ کی تدبیر planning پر بھروسہ کرتے ہیں، اور زندگی کے تمام پہلوؤں پر اس کی حاکمیت وملکیت کو تسلیم کرتے ہیں۔


آزمائشوں کا مقصد» محبت وسچائی کا امتحان:

- "اور ہم آپ کو ضرور آزمائیں گے" » 

اللہ اس بات پر زور دے رہا ہے کہ آزمائش مومن کی زندگی کا ایک ناگزیر حصہ ہے۔

- "خوف کی چیز سے" » 

اس میں کوئی بھی انجان خوف، نقصان کا خوف، یا کسی کے اعمال کے نتائج کا خوف شامل ہے۔

- "اور بھوک سے" » 

بھوک اور پیاس جسمانی ضروریات ہیں جو تکلیف اور آزمائش کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔

- "اور مال کے نقصان سے" » 

مال اور مادی چیزوں کو چھین لیا جا سکتا ہے، ان سے لگاؤ کا امتحان۔

- "اور جان سے" » 

اپنے پیاروں یا اپنی جان کا کھو جانا ایمان کا آخری امتحان ہے۔

- "اور پھل سے" »

پھل کسی کی محنت اور کوششوں کے صلہ کی علامت ہیں۔ ان کا نقصان ثابت قدمی کا امتحان ہو سکتا ہے۔


امتحان کا مقصد:


- "مگر صابرین کو خوشخبری سنا دو" »

آزمائش کا مقصد صبر اور ثابت قدم رہنے والوں کی شناخت اور اجر دینا ہے۔

- "جو، جب ان پر کوئی آفت آتی ہے"»

اس سے مراد وہ لمحہ ہے جب مومن پر کوئی آفت یا مصیبت آتی ہے۔

- "تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے ہیں" »

صبر کرنے والے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے بندے ہیں اور سب کچھ اسی کا ہے۔

- "اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں"»

وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی آخری واپسی اللہ کی طرف ہے، اور یہ کہ یہ زندگی عارضی ہے۔


صبر کا صلہ:

- "صبر کرنے والوں کو بشارت دو"»

صبر کرنے والوں کو آخرت میں خوشخبری اور اجر ملے گا۔

- "وہ لوگ جن پر جب کوئی آفت آتی ہے تو..."»

صبر کرنے والوں کی پہچان آفات پر ان کے ردعمل سے ہوتی ہے۔


خلاصہ یہ کہ یہ آیت وضاحت کرتی ہے کہ آزمائش زندگی کا ایک ناگزیر حصہ ہے، اور یہ کہ آزمائش کا مقصد صبر اور ثابت قدم رہنے والوں کو پہچاننا اور ان کا بدلہ دینا ہے۔ صبر کرنے والے اللہ کی حاکمیت وملکیت کو تسلیم کرتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی زندگی عارضی ہے اور انکی آخری واپسی اسی کی طرف ہے۔ انہیں آخرت میں بشارتیں اور انعامات ملیں گے۔

















کوئی مصیبت اللہ کے علم وقدرت سے باہر نہیں۔

القرآن:

کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین میں نازل ہوتی یا تمہاری جانوں کو لاحق ہوتی ہو، مگر وہ ایک کتاب میں اس وقت سے درج ہے جب ہم نے ان جانوں کو پیدا بھی نہیں کیا تھا، (17) یقین جانو یہ بات اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔

[سورۃ نمبر 57 الحديد، آیت نمبر 22]

تفسیر:

(17) کتاب سے مراد یہاں لوح محفوظ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قیامت تک ہونے والے تمام واقعات پہلے سے لکھے ہوئے ہیں۔


مختصر تشریح:

یہ آیت اس بات کی وضاحت کر رہی ہے کہ:


1. دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے، بشمول تباہی اور حادثات کے، اس کے واقع ہونے سے پہلے ہی کتاب (لوحِ محفوظ) میں درج ہیں۔

2. یہ کتاب (تمام مخلوق کی پیدائش سے پہلے) اللہ کے پاس ہے اور اس میں ہر چیز کی تقدیر موجود ہے۔

3. آیت اس بات پر زور دیتی ہے کہ اللہ کے لیے ایسا کرنا مشکل نہیں ہے۔ یہ اس کے لیے بغیر مشقت کے اور آسان ہے۔


اس آیت کو اکثر اسلام میں قدر (تقدیر) کے تصور کی یاد دہانی کے طور پر تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ زندگی میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہوتا ہے اور یہ کہ اللہ نے پہلے ہی اسے مقرر کر رکھا ہے۔ یہ فہم مومنین کو مشکل کے وقت سکون اور تسلی دے سکتی ہے، کیونکہ وہ اللہ کی حکمت اور منصوبہ پر بھروسہ کرتے ہیں۔




تفصیلی تشریح:

یہ آیت (قرآن 57:22) اللہ کی طرف سے ایک گہرا پیغام ہے، جو تقدیر اور قسمت کی فطرت پر روشنی ڈالتی ہے۔ یہاں ایک تفصیلی تجزیہ ہے:


تقدیر کا کتاب

- "کوئی آفت نہیں آتی"»

اس سے مراد دنیا میں آنے والی کوئی بھی آفت، مصیبت یا تباہی ہے۔

- "زمین پر" »

اس میں قدرتی آفات، جنگیں، قحط اور دیگر عالمی واقعات شامل ہیں۔

- "یا آپ کے اندر" »

اس میں ذاتی جدوجہد، بیماریاں اور انفرادی مشکلات شامل ہیں۔

- "سوائے اس کے کہ یہ ایک کتاب میں ہے"»

جو کچھ ہوتا ہے وہ ایک کتاب یعنی لوحِ محفوظ میں درج ہوتا ہے، تقدیر کے رجسٹر میں۔

- "اس سے پہلے کہ ہم اسے وجود میں لائیں"»

یہ رجسٹر واقعات کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے لکھا جاچکا ہے، یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہر چیز پہلے سے طے شدہ ہے۔


_اللہ کی تدبیر کی آسانی_

’’بے شک یہ اللہ کے لیے آسان ہے‘‘»

یہ آیت اس بات پر زور دیتی ہے کہ ہر چیز کی تقدیر لکھنا اور اس پر عمل کرنا اللہ کے لیے آسان ہے۔

- (يسير) کا مطلب ہے "آسان" یا "بےمشقت"، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اللہ کی قدرت اور علم اصلی،قطعی اور لامحدود ہے۔


_مضمرات اور تشریحات_

- اس آیت کو اکثر اسلام میں تقدیر کے تصور کی یاد دہانی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

- اس سے پتہ چلتا ہے کہ زندگی میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے، جسے اللہ نے مقرر کیا ہے۔

- مومنوں کو یہ جان کر سکون ملتا ہے کہ اللہ کا منصوبہ حکیمانہ، منصفانہ اور اٹل ہے، چاہے وہ واقعات کے پیچھے وجوہات کو نہ سمجھیں۔

- یہ سمجھ قبولیت، توکل، اور اللہ کی مرضی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔


خلاصہ یہ کہ یہ آیت بتاتی ہے کہ تمام واقعات، چھوٹے یا بڑے، پہلے سے طے شدہ ہیں اور ان کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے ایک کتاب میں درج ہیں۔ یہ اللہ کی لامحدود طاقت، علم اور حکمت کا ثبوت ہے، جو اس کے لیے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا آسان بناتا ہے۔ یہ سمجھ مومنوں کے لیے اللہ کے منصوبے پر تسلی اور بھروسہ لا سکتی ہے۔



جیساکہ اللہ نے اپنے پیغمبر کے ذریعہ یہ سکھلایا ہے کہ:

اور اگر تمہیں اللہ کوئی تکلیف پہنچا دے تو اس کے سوا کوئی نہیں ہے جو اسے دور کردے، اور اگر وہ تمہیں کوئی بھلائی پہنچانے کا ارادہ کرلے تو کوئی نہیں ہے جو اس کے فضل کا رخ پھیر دے۔ وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے پہنچا دیتا ہے، اور وہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔

[سورۃ نمبر 10 يونس، آیت نمبر 107]

تشریح:

یہ آیت اس بات کی وضاحت کر رہی ہے کہ:


1. اگر اللہ کسی کو آزمانے یا مصیبت میں ڈالنے کا انتخاب کرے تو اللہ کے سوا کوئی اس مصیبت کو روک یا دور نہیں کر سکتا، لہٰذا اسی ایک کو غائبانہ مدد کیلئے پکارا جائے۔

2. اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ کسی کو بھلائی یا نعمت عطا کرنا چاہتا ہے تو کوئی اس کے احسان کو روک یا رد نہیں کر سکتا۔

3. اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنی رحمتوں اور برکتوں سے نوازتا ہے، جو اس کی حاکمیت اور فضل کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

4. آیت کا اختتام اللہ کی بخشش کرنے والے (الغفور) اور رحم کرنے والے (الرحیم) کی صفات پر زور دیتے ہوئے، اس کی شفقت اور مہربانی کو اجاگر کرتے ہوئے ہوتا ہے۔


خلاصہ:

یہ آیت اللہ کی قدرت، حاکمیت اور فضل کی یاد دہانی دلاتی ہے، مومنوں کو اس کے منصوبے پر بھروسہ کرنے، اسی سے امیدیں وابستہ رکھتے غائبانہ پکارنے اور اس کی مرضی کے تابع ہونے کی ترغیب دیتی ہے۔


No comments:

Post a Comment