Monday, 10 June 2024

اللہ کیلئے "تواضع" کی حقیقت وفضیلت

تواضع یہ نہیں کہ۔۔۔

(1)باطل-ناحق-حرام (شرط/صلح) کو تسلیم کیا جائے۔

[حوالہ»سورۃ الکافرون]

(2)کسی گناہ پر کبھی غصہ نہ کیا جائے۔

[حوالہ»بخاری:704،ترمذی:1973+2133]

(3)یا کسی ایسی مصیبت میں خود پڑا جائے کہ جسے جھیلنے کی طاقت نہ ہو۔

[حوالہ»ترمذی:2254، ابن ماجہ:4016]

(4)یا لوگوں کے آگے سر جھکائے بیٹھنے کا دکھلاوا کیا جائے۔

بلکہ

تواضع تو یہ ہے کہ۔۔۔

(1)اللہ کے حکم اور حکمت کے آگے سر تسلیم خم کیا جائے۔

[طبرانی:12939،الصحیحہ:538]

(2)دبائے جانے والے، کمزور، جن کی کوئی پرواہ نہیں کرتا، آزمائش والے، فضیلت والے مومن،عالم،حافظ کو خود سے افضل سمجھ کر اللہ کیلئے ان کا ساتھ دیا جائے، دعائیں لی جائیں۔

[طحاوی:7075، الصحیحہ:2877]

(3)اور اپنے کسی کمال وخوبی کے سبب کسی پر فخر نہ کرے، غرور وگھمنڈ نہ کرے، نہ اترائے، نہ شیخی بگھاڑے، محض رب کا انعام واحسان سمجھ کر اللہ کا شکر کیا جائے۔

[تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی»سورۃ النحل:23]




پیغمبرانہ تواضع

القرآن:

اور میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میرا نفس بالکل پاک صاف ہے، واقعہ یہ ہے کہ نفس تو برائی کی تلقین کرتا ہی رہتا ہے، ہاں میرا رب رحم فرمادے تو بات اور ہے (کہ اس صورت میں نفس کا کوئی داؤ نہیں چلتا) بیشک میرا رب بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔

[سورۃ نمبر 12 يوسف، آیت نمبر 53]

تفسیر:

حضرت یوسف ؑ کی تواضع اور عبدیت کا کمال دیکھئے کہ اس موقع پر جب ان کی بےگناہی خود ان عورتوں کے اعتراف سے ثابت ہوگئی، تب بھی اس پر اپنی بڑائی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے یہ فرما رہے ہیں کہ میں اس انتہائی خطرناک جال سے جو بچا ہوں اس میں میرا کوئی کمال نہیں نفس تو میرے پاس بھی ہے جو انسان کو برائی کی تلقین کرتا رہتا ہے، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا رحم و کرم ہے کہ وہ جس کو چاہتا ہے اس کے فریب سے بچا لیتا ہے، البتہ دوسرے دلائل سے یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ رحم و کرم اسی پر ہوتا ہے جو گناہ سے بچنے کے لئے اپنی سی کوشش کر گزرے، جیسے حضرت یوسف ؑ نے دروازے تک بھاگ کر کی تھی اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے رجوع کرکے اس سے پناہ مانگے۔







القرآن:

(اے پیغمبر) درگزر کا رویہ اپناؤ، اور (لوگوں کو) نیکی کا حکم دو ، اور جاہلوں کی طرف دھیان نہ دو۔

[سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 199]






القرآن:

اور تم ان چیزوں کی طرف ہرگز آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھو جو ہم نے ان (کافروں) میں سے مختلف لوگوں کو مزے اڑانے کے لیے دے رکھی ہیں، اور نہ ان لوگوں پر اپنا دل کڑھاؤ، اور جو لوگ ایمان لے آئے ہیں، ان کے لیے اپنی شفقت کا بازو پھیلا دو۔

[سورۃ نمبر 15 الحجر، آیت نمبر 88]







القرآن:

اور زمین پر اکڑ کر مت چلو۔ نہ تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ بلندی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتے ہو۔

[سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 37]


تفسیر:

اکڑ کر چلنے کے لیے ایک تو کچھ لوگ زمین پر زور زور سے پاؤں مار کر چلتے ہیں۔ دوسرے سینہ تان کر چلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پہلی صورت کے لیے کہا گیا ہے کہ پاؤں چاہے کتنے زور سے مار لو، تم زمین کو پھاڑ نہیں سکتے، اور دوسری صورت کے لیے فرمایا گیا ہے کہ سینہ تان کر اپنا قد اونچا کرنے کی کتنی ہی کوشش کرلو، تمہاری لمبائی پہاڑوں سے زیادہ نہیں ہوسکتی، اور اگر لمبا قد ہی فضیلت اور بڑائی کا معیار ہوتا تو پہاڑوں کو تم سے افضل ہونا چاہیے تھا۔











القرآن:

اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی اس غرض کے لیے مقرر کی ہے کہ وہ ان مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں عطا فرمائے ہیں۔ لہذا تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، چنانچہ تم اسی کی فرمانبرداری کرو، اور خوشخبردی سنا دو ان لوگوں کو جن کے دل اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔

[سورۃ نمبر 22 الحج، آیت نمبر 34]








القرآن:

اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) خطاب کرتے ہیں تو وہ سلامتی کی بات کہتے ہیں۔

[سورۃ نمبر 25 الفرقان، آیت نمبر 63]

تفسیر:

یعنی ان کی بدکلامی اور گالی گفتار کا جواب برے الفاظ میں دینے کے بجائے شریفانہ انداز میں دیتے ہیں۔







القرآن:

اور جو مومن تمہارے پیچھے چلیں، ان کے لیے انکساری کے ساتھ اپنی شفقت کا بازو جھکا دو۔

[سورۃ نمبر 26 الشعراء، آیت نمبر 215]





القرآن:

اور لوگوں کے سامنے (غرور سے) اپنے گال مت پھلاؤ، اور زمین پر اتراتے ہوئے مت چلو۔ یقین جانو اللہ کسی اترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا۔

اور اپنی چال میں اعتدال اختیار کرو (11) اور اپنی آواز آہستہ رکھو (12) بیشک سب سے بری آواز گدھوں کی آواز ہے۔

[سورۃ نمبر 31 لقمان، آیت نمبر 18+19]

تفسیر:

11: یعنی انسان کو درمیانی رفتار سے چلنا چاہیے، رفتار نہ اتنی تیز ہو کہ بھاگنے کے قریب پہنچ جائے اور نہ اتنی آہستہ کہ سستی میں داخل ہوجائے، یہاں تک کہ جب کوئی شخص جماعت سے نماز پڑھنے جارہا ہو تو اس کو بھی آنحضرت ﷺ نے بھاگنے سے منع فرما کر وقار اور سکون کے ساتھ چلنے کی تاکید فرمائی ہے۔

 12: آواز آہستہ رکھنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ انسان اتنا آہستہ بولے کہ سننے والے کو دقت پیش آئے، بلکہ مراد یہ ہے کہ جن کو سنانا مقصود ہے ان تک تو آواز وضاحت کے ساتھ پہنچ جائے، لیکن اس سے زیادہ چیخ چیخ کر بولنا اسلامی آداب کے خلاف ہے، یہاں تک کہ کوئی شخص درس دے رہا ہو، یا وعظ کررہا ہو تو اس کی آواز اتنی ہی بلند ہونی چاہیے جتنی اس کے مخاطبوں کو سننے سمجھنے کے لئے ضرورت ہے، اس سے زیادہ آواز بڑھانے کو بھی اس آیت کے تحت بزرگوں نے منع فرمایا ہے، اس حکم پر خاص طور سے ان حضرات کو غور کرنے کی ضرورت ہے جو بلا ضرورت اسپیکر کا استعمال کرکے لوگوں کے لئے تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔














No comments:

Post a Comment