Wednesday, 30 October 2024

سلام کرنے کے فضائل، مسائل، آداب واحکام


السلم والسلامۃ
کے معنیٰ ظاہری اور باطنی آفات سے پاک اور محفوظ رہنے کے ہیں۔
قرآن میں ہے :
بِقَلْبٍ سَلِيم
[سورۃ الشعراء:89]
پاک دل (لے کر آیا وہ بچ جائیگا)
یعنی وہ دل جو دغا اور کھوٹ سے پاک ہو تو یہ سلامت باطن کے متعلق ہے اور ظاہری عیوب سے سلامتی کے متعلق فرمایا:
مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها
[سورۃ البقرة:71]
اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو۔
لہٰذا 
سلم یسلم سلامۃ وسلاما کے معنیٰ سلامت رہنے اور سلمۃ اللہ (تفعیل) کے معنیٰ سلامت رکھنے کے ہیں۔جیسے فرمایا:
وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ
[سورۃ الأنفال:43]
لیکن خدا نے (تمہیں) اس سے بچالیا۔
اسی طرح فرمایا:
ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ
[سورۃ الحجر:46]
ان میں سلامتی اور (خاطر جمع) سے داخل ہوجاؤ۔
اسی طرح فرمایا:
اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا
[سورۃ هود:48]
ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ ۔۔۔ اترآؤ۔
اور حقیقی سلامتی تو جنت ہی میں حاصل ہوگی جہاں بقاء ہے فنا نہیں ، غنا ہے احتیاج نہیں ، عزت ہے ذلت نہیں ، صحت ہے بیماری نہیں۔ چناچہ اہل جنت کے متعلق فرمایا:
لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ
[سورۃ الأنعام:127]
ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے۔
اسی طرح فرمایا:
وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ
[سورۃ يونس:25]
اور خدا سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے۔
اسی طرح فرمایا:
يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ
[سورۃ المائدة:16]
جس سے اللہ اپنی رضامندی پر چلنے والوں کو نجات کے رستے دکھاتا ہے۔
ان تمام آیات میں سلام بمعنی سلامتی کے ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں السلام اسمائے حسنیٰ سے ہے، اور یہی معنیٰ آیت:
لَهُمْ دارُ السَّلامِ
[سورۃ الأنعام:127]
ان کیلئے سلامتی کا گھر ہے۔
میں بیان کئے گئے ہیں ۔
اور آیت:۔
السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ
[سورۃ الحشر:23]
سلامتی، امن دینے والا، نگہبان۔
میں بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وصف کلام کے ساتھ موصوف ہونے کے معنیٰ یہ ہیں کہ جو عیوب و آفات اور مخلوق کو لاحق ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے پاک ہے۔ اور آیت :
سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ
[سورۃ يس:58]
پروردگار مہربان کی طرف سے سلام (کہا جائیگا)
اسی طرح فرمایا:
سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ
[سورۃ الرعد/ 24]
(اور کہیں گے) تم رحمت ہو (یہ) تمہاری ثابت قدمی کا بدلہ ہے ۔
اسی طرح فرمایا:
سلام علی آل ياسین
«2»
الیاسین پر سلام
اور اس مفہوم کی دیگر آیات میں سلام علیٰ آیا ہے تو ان لوگوں کی جانب سے تو سلامتی بذریعہ قول مراد ہے یعنی سلام علی ٰ الخ کے ساتھ دعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے سلامتی بالفعل مراد ہے یعنی جنت عطا فرمانا۔ جہاں کہ حقیقی سلامتی حاصل ہوگی۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں اور آیت:
وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً
[سورۃ الفرقان:63]
اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں۔
میں قالوا سلاما کے معنیٰ ہیں ہم تم سے سلامتی چاہتے ہیں۔ تو اس صورت میں سلاما منصوب اور بعض نے قالوا سلاما کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ اچھی بات کہتے ہیں تو اس صورت میں یہ مصدر مخذوف (یعنی قولا) کی صورت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ:
 إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ
[سورۃ الذاریات:25]
جب وہ ان کے پاس آئے تو سلام کہا ۔ انہوں نے بھی (جواب میں) سلام کہا۔
میں دوسری سلام پر رفع اس لئے ہے کہ یہ باب دعا سے ہے اور صیغہ دعا میں رفع زیادہ بلیغ ہے گویا اس میں حضرت ابراہیم نے اس ادب کو ملحوظ رکھا ہے جس کا آیت :
وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها
[سورۃ النساء:86]
اور جب تم کوئی دعا دے تو (جواب میں) تم اس سے بہتر (کلمات) سے (اسے) دعا دو۔
میں حکم دیا گیا ہے اور ایک قرآت میں سلم ہے تو یہ اس بنا پر ہے کہ سلام سلم (صلح) کو چاہتا تھا اور حضرت ابراہیم السلام ان سے خوف محسوس کرچکے تھے جب انہیں سلام کہتے ہوئے ۔ ستاتو اس کو پیغام صلح پر محمول کیا اور جواب میں سلام کہہ کر اس بات پر متنبہ کی کہ جیسے تم نے پیغام صلح قبول ہو ۔ اور آیت کریمہ:
لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً
[سورۃ الواقعة:25-26]
وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے اور نہ گالی گلوچ ہاں ان کا کلام سلام سلام (ہوگا)
کے معنی یہ ہیں کہ یہ بات صرف بذیعہ قول نہیں ہوگی، بلکہ قولا اور فعلا دونوں طرح ہوگی۔ اسی طرح آیت:
فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ
[سورۃ الواقعة:91]
تو (کہا جائیگا کہ) تم پر پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام میں بھی سلام دونوں معنی پر محمول ہوسکتا ہے اور آیت:
وَقُلْ سَلامٌ
[سورۃ الزخرف:89]
اور سلام کہدو۔
میں بظاہر تو سلام کہنے کا حکم ہے لیکن فی الحققیت ان کے شر سے سلامتی کی دعا کرنے کا حکم ہے، اور آیاتّ سلام جیسے:
سلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ
[سورۃ الصافات:79]
(یعنی) تمام جہان میں نوح (علیہ السلام) پر سلام
موسیٰ اور ہارون پر سلام ۔ ۔ سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ
[سورۃ الصافات:120]
ابراہیم پر سلام ۔ سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ
[سورۃ الصافات:109]
میں اس بات پر تنبیہ ہی کہ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء ابراہیم کو اس قدر بلند مرتبہ عطا کیا تھا کہ لوگ ہمیشہ ان کی تعریف کرتے اور ان کے لئے سلامتی کے ساتھ دعا کرتے رہیں گے اور فرمایا :
فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ
[سورة النور:61]
اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے (گھر والوں) کو سلام کیا کرو ۔ یعنی تم ایک دوسرے کو سلام کہا کرو ۔

[مفردات القرآن -امام الراغب الاصفھاني]




نبی ﷺ نے فرمایا:
سلام الله تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، جسے الله نے زمین میں رکھا ہے؛ لہٰذا تم آپس میں سلام کو خوب عام کرو۔
[الأدب المفرد (امام) بخاری:  حدیث:#989(925)]
﴿تفیسر سورۃ الحشر:22﴾

السلام یعنی وہ ذات جو تمام عیبوں سے اور تمام نقائص سے پاک ہو اور اپنے وجود،۔خوبیوں اور کاموں میں کامل ہو۔
[تفسیر ابن کثیر:3/ 479 سورۃ الحشر:23]
یا
وہ ذات جس سے حفاظت و عافیت کی امید رکھی جائے۔
[تفسیر روح المعانی:14/ 63]



یہ الله کا ذکر ہے۔۔۔لہٰذا جو بندہ السلام علیکم کہتا ہے وہ الله کے نام کے ذکر کے ساتھ اسی الله سے سلامتی بھی طلب کرتا ہے۔
[بدائع الفوائد: ۲؍۱۴۳]
کہ الله تعالیٰ تم سب(کی جان، مال واولاد اور عزت و آبرو)کا محافظ ومددگار رہے۔
[عمدۃ القاری :۱۵؍۳۵۱]

شر سے سلامتی کی ضرورت کے تین مواقع»
القرآن:
اور اس پر سلام ہے جس دن وہ(یحییٰ)پیدا ہوا اور جس دن وہ مرے اور جس دن وہ زندھ کرکے اٹھایا جائے گا۔
[سورۃ مریم:15]




السلام الله کے(اچھے)ناموں میں سے ایک نام ہے۔
[طبرانی:10391، تفیسر سورۃ الحشر:22]

اگر آپ اللہ کی صفات(خوبیوں)کا جائزہ لیں گے تو ہر صفت میں سلامتی کا مفہوم پائیں گے۔
مثلاً:
الله کی صفتِ حیات:
موت،نیند اور اونگھ سے سلامت ہے.
صفتِ قدرت:
تھکن اور پریشانی سے محفوظ ہے۔
صفتِ علم:
نِسیان(بھول چوک)اور غوروفکر سے سالم ہے۔
صفتِ کلام:
جھوٹ اور ظلم سے پاک ہے۔
صفتِ غِنا:
دوسروں کے سامنے کسی بھی درجے میں محتاجگی سے سالم ہے۔






سلام کا آغاز»
جب الله تعالیٰ نے حضرت آدم کو پیدا فرمایا تو اُن سے کہا: جاؤ اور فرشتوں کی بیٹھی ہوئی اس جماعت کو سلام کرو اور سنو کہ وہ تمہیں کیا جواب دیتی ہے وہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا جوابِ سلام ہوگا؛ چناں چہ حضرت آدم گئے اور کہا: ’’السلام علیکم‘‘ فرشتوں نے جواب دیا ’’السلام علیک ورحمۃ اللہ‘‘.
نبی ﷺ نے فرمایا:
فرشتوں نے حضرت آدم کے سلام کے جواب میں ’’ورحمۃ اللہ‘‘ کا اضافہ کیا۔
[بخاری:6227]




حضرت عبد اللہ ابن عمرو سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول الله ﷺ سے دریافت کیا کہ:
اہلِ اسلام کی کون سی خصلت بہتر ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
(1)کھانا کھلانا اور (2)ہر شناسا(پہچاننے والے) اور ناشناسا کو سلام کرنا۔
[صحیح البخاری، کتاب الایمان، باب اطعام الطعام، حدیث#12]

القرآن:
اور یہ لوگ جب (اے نبی!)آپ کے پاس آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو آپ ان کو سلام علیکم کہیے۔
[سورۃ الانعام:54]

سلام کرنا بھی صدقہ و نیکی ہے۔

حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
۔۔۔تَسْلِيمُهُ عَلَى مَنْ لَقِيَ صَدَقَةٌ۔۔۔
ترجمہ:
۔۔۔اس کا اپنے ملاقاتی سے سلام کرلینا بھی صدقہ ہے۔۔۔
[صحیح مسلم:720، سنن ابوداؤد:5243]



کس کے دل میں تکبر نہیں؟
تکبر کا علاج کیا ہے؟
حضرت عبدالله بن مسعودؓ سے روایت ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
اَلْبَادِئُ بِالْاِسْلَامِ بَرِيْءٌ مِّنَ الْكِبٍرِ.
ترجمہ:
سلام میں پہل کرنے والا بری ہے تکبر سے۔
[شعب الإيمان، لإمام البيهقي: حديث#8407]
الآداب للبیہقی:206

تشریح:

اس سے مراد ایسے دو شخص ہیں جو آپس میں ملیں،اور دونوں کی حیثیت یکساں نوعیت کی ہو۔ مثلا: دونوں پیدل ہوں یا دونوں سوار ہوں؛ تو ان میں سے جو شخص"پہلے"سلام کرے گا، وہ گویا ظاہر کرے گا کہ الله تعالیٰ نے اس کو تکبر سے پاک رکھا ہے۔
[حاشیۃ الطیبی:9/25]






صلہ رحمی کا پہلا اور ادنیٰ درجہ»سلام کرتے رہنا۔
حضرت ابن عباس، حضرت ابوطفیل، حضرت انس بن مالک، حضرت سعید بن عامر سے روایت ہے کہ
الله کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
بُلُّوا أَرْحَامَكُمْ وَلَوْ بِالسَّلَامِ
ترجمہ:
صلہ رحمی کو تروتازہ رکھو اگرچہ سلام کے ذریعہ ہو۔
[الجامع الصغیر:5149، الصحيحة:1777]
تفسیر سورۃ الرعد:21-25



دینِ محبت:
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
تم جب تک ایمان نہ لاؤگے جنت میں داخل نہ ہوسکو گے،اور تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ تم(الله کی رضا وخوشنودی کے لیے)آپس میں محبت نہ کرو، اور کیا میں تمہیں ایسا ذریعہ نہ بتاؤں جس پر تم عمل کرو تو آپس میں محبت کرنے لگو؟ آپس میں سلام کا چلن عام کرو۔
[صحیح مسلم:54،کتاب الإیمان]

معلوم ہوا کہ ایمان جس پر داخلۂ جنت کی بشارت اور وعدہ ہے، وہ صرف کلمہ پڑھ لینے کا اور عقیدہ کا نام نہیں ہے؛ بلکہ اتنی وسیع حقیقت ہے کہ اہلِ ایمان کی باہمی محبت ومودت بھی اس کی لازمی شرط ہے اور رسول الله ﷺ نے بڑے اہتمام کے ساتھ بتلایا ہے کہ ایک دوسرے کو سلام کرنے اور اس کا جواب دینے سے، یہ محبت ومودت دلوں میں پیدا ہوتی ہے۔
[معارف الحدیث: ۶؍۱۵۳]




تین آسان کاموں پر جنت:
حضرت عبد الله بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لوگو! رحمن کی عبادت کرو اور بندگانِ خدا کو کھانا کھلاؤ اور سلام کو خوب پھیلاؤ، تم جنت میں پہنچ جاؤ گے سلامتی کے ساتھ۔
[ترمذی:1856]
احمد:6587 دارمی:2126
الأدب المفرد(امام)بخاری:981
صحیح ابن حبان:489




سلام کرنا»حلاوتِ ایمانی کا ذریعہ:
حضرت عمار بن یاسر سے روایت ہے:
جس نے تین باتوں کو جمع کرلیا،اس نے ایمان کو جمع(مکمل)کرلیا۔
(اور دوسری روایت میں ہے۔)
وہ ایمان کی مٹھاس پائے گا:
(1)اپنی ذات کے بارے میں انصاف کرنا
{یعنی اپنے خلاف انصاف ہو تو پہلے اپنی خوداحتسابی قبول کرنا}،
(2)دنیا میں سلام پھیلانا،
(3)تنگ دستی کے باوجود (کچھ نہ کچھ راہِ الٰہی میں) خرچ کرنا۔
[شرح السنۃ: 12/ 261، زاد المعاد:2/ 371]


گھر والوں کو سلام کرنا خیر وبرکت کا سبب ہے:

خادمِ رسول حضرت انس نے فرمایا کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
بیٹے! جب تم اپنے گھروالوں سے ملو تو سلام کیا کرو، وہ سلام تم پر اور تمہارے گھر والوں پر خیروبرکت اور نزولِ رحمت کا باعث ہوگا۔
[جامع ترمذی»حدیث#2698]

گھر اور اہل اولاد میں بےبرکتی کی وجہ اور شکایت کا حل، ان کو دعائے سلامتی،رحمت وبرکت میں ہمیشہ شامل رکھنا اور انہیں ایسا کرنے کی نصیحت کرتے رہنا ہے۔




گھر میں داخل ہوتے وقت سلام کرنے کی فضیلت:

رسول الله ﷺ نے فرمایا:
تین لوگ، اللہ تعالیٰ کی ضمانت وحفاظت میں ہوتے ہیں؛ اگر وہ زندہ ہیں تو اللہ کفایت فرماتا ہے اور وفات پاگئے تو جنت میں داخل ہوں گے: (ان میں سے ایک) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں میں سلام کرکے داخل ہوتے ہیں۔
[الأدب المفرد:1028]

جب تم لوگ اپنے گھروں میں جاؤ تو گھر والوں کو سلام کرلیا کرو اور الله کا نام لے لیا کرو؛ کیون کہ جو کوئی بوقتِ دخول، سلام کرلیتا ہے اور کھانے سے پہلے بسم الله پڑھ لیتا ہے تو شیطان اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے: چلو بھائی یہاں سونے اور کھانے کو کچھ نہیں ملے گا۔۔۔اور اگر داخل ہوتے ہوئے سلام نہیں کرتا اور کھاتے وقت بسم اللہ نہیں پڑھتا، تو شیطان اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے:
چلو سونے اور کھانے کا انتظام ہوگیا۔
[شرح ابن بطال:7/ 14]







مخصوص شخصیت سے خصوصی سلام کرنے جانا۔


حضرت علی نےفرمایا:
عالم کے تم پر بہت سارے حقوق ہیں، ان میں سے یہ بھی ہے کہ تم عالم کے ساتھ خصوصی سلام کیا کرو، اسکے پاس بیٹھا کرو، اس کے سامنے ہاتھ یا آنکھ سے اشارہ مت کرو، اسکی مجلس میں کسی سے سرگوشی(کانوں میں بات)مت کرو، اسکے کپڑے مت پکڑو، جب وہ اکتا جاۓ تو اسکے پاس مزید مت بیٹھو، اسکی ہمیشہ صحبت سے کنارہ مت اختیار کرو...مومن عالم کا اجر روزےدار قاریِ قرآن، غازی فی سبیل الله سے کہیں زیادہ ہے
[کنزالعمال:5/461]








کامل ایمان کس کا؟
کامل ایمان بنانے کاطریقہ:
حضرت عمار بن یاسر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ثلاث من كن فيه فقد استكمل الإيمان: الإنفاق من الإقتار وأن ينفق وهو يحسن بالله الظن ، والإنصاف من نفسك ألا تذهب بالرجل إلى السلطان حتى تنصفه، وبذل السلام للعالم
ترجمہ:
تین عادتیں جس کے پاس ہوں اس کا ایمان مکمل ہو گیا: (1)کفایت شعاری سے خرچ کرنا، اور اللہ سے اچھا گمان رکھتے ہوئے ﴿تنگی میں بھی﴾ خرچ کرنا ﴿کہ وہ بدلہ دے گا﴾، اپنے سے زیادہ لوگوں کے ساتھ انصاف کرے حتی کہ کسی کو مجبور نہ کریں کہ وہ اپنے حقوق کے نفاذ کے لیے کسی حکمران کا سہارا لے، اور سارے جہان کو سلام عام کرنا۔ 
[جامع الاحادیث:40683، شعب الإيمان للبيهقي:11239]



یا فرمایا:
ثلاث من كمال الإيمان الإنفاق من الإقتار والإنصاف من نفسك وبذل السلام للعالم.
ترجمہ:
3باتیں ایمان کی تکمیل ہیں:
تھوڑے میں سے کچھ خرچ کرنا، اپنی جان سے انصاف کرنا(یعنی خود کو ہر نافرمانی سے بچانا)، اور عالم کو سلام پھیلانا۔
[جامع الاحادیث:40683، رواہ ابن جرير، وابن عساكر، كنز العمال:1397]

یا حضرت عمار نے (خود) فرمایا:
ثَلاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ بِهِنَّ حَلاوَةَ الإِيمَانِ: الإِنْفَاقُ مِنَ الإِقْتَارِ، وَإِنْصَافُ النَّاسِ مِنْ نَفْسِكَ، وَبَذْلُ السَّلامِ لِلْعَالَمِ. 
ترجمہ:
تین عادتیں جن کے پاس ہوں گی ان میں ایمان کی مٹھاس پائی جائے گی: (1)کفایت شعاری سے خرچ کرنا، (2)اپنے مفس سے زیادہ لوگوں کے ساتھ انصاف کا سلوک کرنا، (3) اور دنیا میں سلام (کے تحفے کی) سخاوت کرنا۔
[شرح السنة للبغوي:١/٥٢، حديث#٢٤]


یا فرمایا:
«ثلاثة من جمعهنّ فقد جمع الإيمان: الإنفاق من الإقتار، والإنصاف من النّفس، وبذل السّلام للعالم».
ترجمہ:
جس نے تین چیزوں کو جمع کیا اس نے ایمان کو جمع کیا: (1) کفایت شعاری سے خرچ کرنا،(2) اور (خود کو نافرمانی سے بچا کر) اپنے نفس کے ساتھ انصاف کرنا، (3)اور دنیا میں سلامتی پھیلانا۔
[شعب الإيمان للبيهقي-ت زغلول: حديث#49]



القرآن:
اے (زبانی/کمزور) ایمان والو! (کامل اور سچا) ایمان لاؤ...
[قرآن،سورۃ النساء:136]












سلام میں پہل کرنے کے فضائل:
حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
إنَّ ًاَوْلَى النَّاسِ بِاللهِ مَنْ بَدَأَهُمْ بِالسَّلَامِ.
ترجمہ:
لوگوں میں الله کے قرب(نزدیکی) کا سب سے زیادہ مستحق وہ شخص ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔
[ترمذی:2694، ابوداؤد:5197]
تشریح:
کیوں کہ پہلے سلام کرنے سے، اس کی زبان پر، لفظ سلام پہلے آیا، جو الله کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے اور جواب دینے والے کی زبان پر لفظ سلام بعد میں آیا؛ لہٰذا رحمت ومغفرت کے مستحق تو دونوں ہوئے؛ لیکن پہلا زیادہ ہوا۔
[فیض القدیر:2/441]




حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سے پوچھا گیا:
دو شخص ایک دوسرے سے ملیں تو ان میں سے سلام کی ابتداء کون کرے؟
آپ نے فرمایا:
پہل وہ کرے جو دونوں میں اللہ سے زیادہ قریب ہے۔
[ترمذی: 2695]

تشریح:
یعنی جو بندہ نیک ہوتا ہے، وہ سلام میں پہل کرتا ہے؛ پس یہ سلام میں پہل کرنے کی فضیلت ہوئی، اس کی پہل اس کے نیک بندہ ہونے کی دلیل ہے، پس زہے نصیب۔
[تحفۃ الالمعی شرح ترمذی:6/ 475]







سلام میں پہل کرنا 99 رحمتوں کا ذریعہ ہے:
حضرت عمر بن خطابؓ مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
إذا التقى الرجلانِ المسلمانِ ، فسلَّمَ أحدُهما على صاحبِه ، فإنَّ أحبَّهُما إلى اللهِ أحسنُهما بِشْرًا بصاحبِه ، فإذا تصافحا نزلت عليهما مائةُ رحمةٍ ، للبَادي منهما تسعونَ وللمصافحِ عَشَرَةٌ۔
ترجمہ:
جب دو مسلمانوں کی آپس میں ملاقات ہوتی ہے اور ان میں سے ایک، دوسرے کو سلام کرتا ہے تو اللہ کے نزدیک ان میں محبوب ترین وہ ہوتا ہے جو مسکراتے ہوئے ملتا ہے۔ پھر جب دونوں مصافحہ(ہاتھ ملایا) کرتے ہیں تو ان پر سو رحمتیں اترتی ہیں۔
[الترغیب والترھیب، لإمام المنذري: 4118]
(یعنی نوے رحمتیں سلام میں پہل کرنے والے کو ملتی ہیں اور دس سلام کا جواب دینے والے کو ملتی ہیں)





حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
((لَا يَحِلُّ لِمُؤْمِنٍ أنْ يَهُْجرَ مُؤْمِنًا فَوْقَ َثَلَاث،ٍ فَإنْ مَرَّتْ بِهٖ ثَلَاثٌ فَلْيَلْقَهٗ فَلْيُسَلِّمْ عَلَيْه،ِ فَإنْ رَدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ فَقَدِ اشْتَرَكَا فِي الْأَجْرِ، وَإنْ لَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ فَقَدْ بَاءَ بِالْإِثْمِ)) زاد أحمدُ ((وَخَرَّجَ الْمُسَلِّمَ مِنَ الْهِجْرَةِ))۔
ترجمہ:
کسی مومن کے لئے حلال نہیں کہ وہ کسی مومن کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے، اگر تین دن گذر جائیں تو اس سے ملاقات کرے اور اس کو سلام کرے، اگر وہ اس کے سلام کا جواب دے گا تو دونوں اجر میں شریک ہو جائیں گے، اور اگر اس کو جواب نہ دے گا تو جواب نہ دینے والا گنہگار ہوگا۔
[ابوداؤد:4912]

تو جس نے چھوڑے رکھا تین دن سے زیادہ پھر مرا تو داخل ہوگا آگ میں۔
[ابوداؤد:4914]
اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں "ابتدا" کرے۔
[ترمذی:1932]





سلام کے آداب
(1)مسلمانوں میں سلام کو عام کرنا چاہئے۔

اَفشُوا السَلامَ بَینَکُم۔
ترجمہ:
آپس میں سلام کا رواج دو۔
[ابوداؤد:5193]




حضرت براء بن عاذب فرماتے ہیں: اللہ کے نبی ﷺ نے ہمیں سات چیزوں کا حکم دیا: (ان میں سے ایک ہے کہ) ۔۔۔ سلام کو پھیلانا.
[بخاری:6235]



انجانے مسلمان کو بھی سلام کرنا۔

حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
۔۔۔اور یہ کہ انسان صرف جان پہچان کے لوگوں کو سلام کرے گا۔
[صحیح ابن خزیمہ:1326]



جتنا بھی ملو سلام کرو۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
جب دو مسلمان ساتھ جا رہے ہوں اور چلتے چلتے دونوں کے درمیان درخت یا پتھر یا کچا مکان حائل ہو جائے تو (پھر ساتھ ہوجانے پر بہتر ہے کہ) دونوں ایک دوسرے کو(دوبارہ)سلام کریں۔
[شعب الايمان،للبيهقي:8471]



سلام اور راستے کے حقوق:

نبی ﷺ انصار کے کچھ لوگوں کے پاس سے گذرے، وہ راستے پر بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا:
اگر تمہارے لیے راستہ پر بیٹھنے کی مجبوری ہو تو (1)سلام کا جواب دو، (2)مظلوم کی مدد کرو اور(3)(راہگیروں کو)راستہ کی رہنمائی کرو۔
[سنن الترمذی» حدیث#2726]

(4)(غیر محرم سے)نگاہ کو نیچی رکھنا، (5)اذیت پہنچانے سے بچنا (6)نیکی کا حکم کرنا اور بری باتوں سے روکنا۔
[صحیح البخاری»2465]




مُردوں کو بھی سلام کرنا۔
حضرت ابن عباسؓ (اور بعض دوسری روایات میں حضرت ابو ہریرہؓ بھی) نبی ﷺ سے مروی ہیں کہ :
"مَا مِنْ رَجُلٍ يَمُرُّ بِقَبْرِ رَجُلٍ كَانَ يَعْرِفُهُ فِي الدُّنْيَا ، فَيُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِلا عَرَفَهُ وَرَدَّ عَلَيْهِ"
ترجمہ:
جو شخص بھی اپنے کسی جاننے والے(مسلمان)کی قبر پر گزرتا ہے اور وہ اسے سلام کرتا ہے تو وہ میت(اسکے اندازِسلام و کلام اور لب و لہجے کو)پہچان لیتی ہے اور اسے سلام کا جواب بھی دیتی ہے.
[کتاب الروح ، لابن القیم : ص 12؛ الستذکار: رقم الحديث: 55]
إسناده ‌صحيح
[الأحكام الصغرى-عبد الحق الإشبيلي1/ 345، كفاية النبيه في شرح التنبيه-ابن الرفعة:5/163، عمدة القاري شرح صحيح البخاري-بدر الدين العيني:8/69، عون المعبود وحاشية ابن القيم:3/261]
عن أبى هريرة وسنده ‌جيد
[جامع الأحاديث-السيوطي:20632، فتاوى نور على الدرب لابن باز بعناية الشويعر:14/477]
الجامع الصغیر:7742




(2)مکمل سلام کرنا افضل ہے:
ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا:
السلام علیکم،
آپ نے فرمایا:دس۔
پھر دوسرے شخص نے آکر کہا:
السلام علیکم ورحمة الله،
آپ نے فرمایا: بیس۔
پھر تیسرے شخص نے آکر کہا:
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ،
آپ نے فرمایا: تیس(نیکیاں).
[ابوداؤد:5195]






(3)مُردوں والا سلام نہ کرنا۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
"عَلَيْكَ السَّلَام"نہ کہو، اس لئے کہ علیک السلام مُردوں کا سلام ہے۔
[ابوداؤد:4084]






(4)سلام میں صرف انگلیوں یا ہاتھ سے اشارہ کرنا جائز نہیں
نبی ﷺ نے فرمایا:
وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے علاوہ(کسی قوم)کی مشابہت اختیار کرے(لہٰذا)تم یہود ونصاریٰ کا طریقہ اختیار مت کرو،اس لیے کہ یہود کا سلام انگلیوں سے اشارہ کرنا ہے اور نصاریٰ کا سلام ہاتھ سے"اشارہ"کرنا ہے۔
[ترمذی:2695]
یعنی تلفظ کے بجائے صرف اشارہ سے سلام کرنا جائز نہیں۔





(4)اہل کتاب کو سلام میں پہل نہ کرنا۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
یہود اور نصاریٰ (یعنی عیسائیوں) کو سلام میں پہل نہ کرو۔
[مسلم:2167]


جب تمہیں اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) سلام کریں تو(ان کو جواب میں)صرف "وَعَلَیْکُمْ" کہو۔
[بخاری:6258]




حضرت اسامہ بن زید فرماتے ہیں:
نبی ﷺ کا گذر ایک مجلس سے ہوا جس میں مسلمان اور یہودی مخلوط(باہم ساتھ)تھے٬تو(اس صورتحال میں) آپ نے ان کو سلام کیا۔
[بخاری:6254]





(5)سلام میں پہل کون کرے؟
نبی ﷺ سے پوچھا گیا کہ:
دو آدمی ملیں تو ان میں کون سلام میں پہل کرے؟
تو آپ نے فرمایا:
ان میں سے جو اللہ(کی رحمت)کے زیادہ قریب ہو.
[ترمذی:2694]

چھوٹا بڑے کو، اور گزرنے والا بیٹھے ہوئے کو،اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں۔
[بخاری:6234]


نبی ﷺ اس طرح (یعنی بچوں کو) سلام کیا کرتے تھے۔
[بخاری:6247]



عورتوں کو ہاتھ ملائے بغیر سلام کرنا۔

نبی ﷺ ۔۔۔ عورتوں کی جماعت سے گزرے، آپ نے انہیں "ہاتھ کے اشارے" سے سلام کیا۔
[ترمذی:2698]















نامحرم عورتوں کو سلام کرنا بہتر نہیں ہے، اور اگر نامحرم جوان عورت خود سلام کی ابتدا کرلے تو دل ہی دل میں جواب دے دیا جائے، زبان سےجواب نہ دیا جائے، ہاں اگر نامحرم عورت بوڑھی ہو تو زبان سے بھی سلام کا جواب دیا جاسکتا ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/369):

" ولايكلم الأجنبية إلا عجوزًا عطست أو سلمت؛ فيشمتها و يرد السلام عليها، وإلا لا، انتهى.

(قوله: وإلا لا) أي وإلا تكن عجوزًا بل شابةً لايشمتها، ولايرد السلام بلسانه. قال في الخانية: وكذا الرجل مع المرأة إذا التقيا يسلم الرجل أولًا، وإذا سلمت المرأة الأجنبية على رجل إن كانت عجوزًا رد الرجل عليها السلام بلسانه بصوت تسمع، وإن كانت شابةً رد عليها في نفسه".  فقط واللہ اعلم




بوڑھی عورت غیر محرم کو سلام کرسکتی ہے،اسی طرح سلام کا جواب دے سکتی ہے، جب کہ جوان عورت کسی نا محرم کو نہ خود سلام کرے اور نہ ہی سلام کا جواب دے۔

"قال المهلب: السلام على النساء جائز إلا على الشابات منهم؛ فإنه يخشى أن يكون فى مكالمتهن بذلك خائنة أعين أو نزعة شيطان، وفى ردهن من الفتنة مما خيف من ذلك أن يكون ذريعة يوقف عنه، إذ ليس ابتداؤه فريضة، وإنما الفريضة منه الرد، وأما المتجالات والعجائز فهو حسن، إذ ليس فيه خوف ذريعة، هذا قول قتادة، وإليه ذهب مالك وطائفة من العلماء. وقال الكوفيون: لايسلم الرجال على النساء إذا لم يكن منهن ذوات محارم. وقالوا: لما سقط عن النساء الأذان والاقامة والجهر بالقراءة فى الصلاة سقط عنهن رد السلام، فلايسلم عليهن. وقال ابن وهب: بلغنى عن ربيعة أنه قال: ليس على النساء التسليم على الرجال، ولا على الرجال التسليم على النساء، وحجة مالك ومن وافقه حديث سهل أنهم كانوا يسلمون على العجوز يوم الجمعة مع النبى عليه السلام ولم تكن ذات محرم منهم، وأيضًا حديث عائشة أن النبى بلغها سلام جبريل، وفى ذلك أعظم الأسوة والحجة".
[شرح ابن بطال على صحيح البخاري : ٩/ ٢٨-٢٩]






مخنث سے مصافحہ کرنا:

مخنث چوں کہ مرد کے حکم میں ہے، لہذا مرد کے لیے اس سے مصافحہ کرنے کی اجازت ہے، البتہ اگر فتنے کا باعث ہو یا وہ مخنث جس میں خواتین کی خصلت غالب ہو، اس سے مصافحہ کی اجازت نہیں؛ کیوں کہ وہ اجنبیہ خاتون کے حکم میں ہے۔

المبسوط للسرخسي میں ہے:

"وَالْكَلَامُ فِي الْمُخَنَّثِ عِنْدَنَا أَنَّهُ إذَا كَانَ مُخَنَّثًا فِي الرَّدَى مِنْ الْأَفْعَالِ فَهُوَ كَغَيْرِهِ مِنْ الرِّجَالِ، بَلْ مِنْ الْفُسَّاقِ يُنَحَّى عَنْ النِّسَاءِ، وَأَمَّا مَنْ كَانَ فِي أَعْضَائِهِ لِينٌ وَفِي لِسَانِهِ تَكَسُّرٌ بِأَصْلِ الْخِلْقَةِ وَلَايَشْتَهِي النِّسَاءَ وَلَايَكُونُ مُخَنَّثًا فِي الرَّدَى مِنْ الْأَفْعَالِ فَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ مَشَايِخِنَا فِي تَرْكِ مِثْلِهِ مَعَ النِّسَاءِ؛ لِمَا رُوِيَ «أَنَّ مُخَنَّثًا كَانَ يَدْخُلُ بَعْضَ بُيُوتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى سَمِعَ مِنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلِمَةً فَاحِشَةً»، «قَالَ لِعُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ: لَئِنْ فَتَحَ اللَّهُ الطَّائِفَ عَلَى رَسُولِهِ لَأَدُلَّنَّكَ عَلَى مَاوِيَةَ بِنْتِ غَيْلَانَ؛ فَإِنَّهَا تُقْبِلُ بِأَرْبَعٍ وَتُدْبِرُ بِثَمَانٍ، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا كُنْت أَعْلَمُ أَنَّهُ يَعْرِفُ مِثْلَ هَذَا أَخْرِجُوهُ»".
[المبسوط للسرخسي » كِتَابُ الِاسْتِحْسَانِ، وَالْعَبْدُ فِيمَا يَنْظُرُ مِنْ سَيِّدَتِهِ، ١٠ / ١٥٨، ط: دار المعرفة]


کلام سے پہلے سلام کرنا۔
حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
السَّلَامُ قَبْلَ الْكَلَامِ .
ترجمہ:
کلام سے پہلے سلام کیا کرو۔
[ترمذی:2699]










آخری سلام کی اہمیت
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
جب تم میں سے کوئی شخص مجلس میں پہنچے تو سلام کرے، پھر جب وہ اٹھنے کا ارادہ کرے تو چاہیے کہ سلام کرے، اس لیے کے پہلا سلام آخری سلام سے اولیٰ نہیں ہے۔
[ابوداؤد:5208]




(8)سونے والے کا لحاظ کرتے ہوئے آہستہ سلام کرنا۔
حضرت مقداد فرماتے ہیں:
۔۔۔پھر آپ ﷺ رات میں جب گھر تشریف لاتے تو اِس طرح سلام کرتے کہ سونے والا بیدار نہ ہو جائے اور بیدار آدمی سن لے۔۔۔
[مسلم:2055]


جھک کر سلام نہ کرنا۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏  يَا رَسُولَ اللَّهِ الرَّجُلُ مِنَّا يَلْقَى أَخَاهُ أَوْ صَدِيقَهُ أَيَنْحَنِي لَهُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَفَيَلْتَزِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَفَيَأْخُذُ بِيَدِهِ وَيُصَافِحُهُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ترجمہ:
حضرت انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ  ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسول! ہمارا آدمی اپنے بھائی سے یا اپنے دوست سے ملتا ہے تو کیا وہ اس کے سامنے جھکے؟ آپ نے فرمایا:  نہیں ، اس نے پوچھا: کیا وہ اس سے چمٹ جائے اور اس کا بوسہ لے؟ آپ نے فرمایا:  نہیں ، اس نے کہا: پھر تو وہ اس کا ہاتھ پکڑے اور مصافحہ کرے، آپ نے فرمایا:  ہاں   (بس اتنا ہی کافی ہے)۔
 امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
[سنن الترمذي:2728، سنن ابن ماجة:3702]

وضاحت:
اس حدیث سے کئی باتیں معلوم ہوئیں:
(١) ملاقات کے وقت کسی کے سامنے جھکنا منع ہے، اس لیے جھک کر کسی کا پاؤں چھونا ناجائز ہے.
(٢) اس حدیث میں معانقہ اور بوسے سے جو منع کیا گیا ہے، یہ ہر مرتبہ ملاقات کے وقت کرنے سے ہے، البتہ نئی سفر سے آ کر ملے تو معانقہ و بوسہ درست ہے.
(٣) «أفيأخذ بيده ويصافحه» سے یہ واضح ہے کہ مصافحہ ایک ہاتھ سے ہوگا، کیونکہ حدیث میں دونوں ہاتھ کے پکڑنے کے متعلق نہیں پوچھا گیا، بلکہ یہ پوچھا گیا ہے کہ  اس کے ہاتھ کو پکڑے اور مصافحہ کرے  معلوم ہوا کہ مصافحہ کا مسنون طریقہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا ہی ہے۔





کسی کام میں مشغول شخص کو سلام نہ کرنا (جائز ہے)۔
حضرت ابن مسعود جب حبشہ سے واپس آۓ خدمتِ نبوی میں تو آپ اس وقت نماز میں مشغول تھے، تو میں نے ان کو سلام کیا تو آپ نے نہیں جواب لوٹایا.
[طحاوی:کتاب الصلاۃ، باب الاشارۃ فی الصلاۃ، حدیث#2620]
(کیونکہ)
آپ نے فرمایا:
میں نماز میں مشغول تھا.
[بخاری: ابواب العمل فی الصلاۃ، باب لا یرد السلام فی الصلاۃ، حدیث#1216]



کن اوقات میں سلام نہیں کرنا چاہئے:

سلام کرتے وقت بعض مقامات ایسے ہیں کہ وہاں سلام کرنے سے منع کیا گیا ہے، اس کا خیال رکھنا چاہیے:

فقہاء اور شارحینِ حدیث نے اس پر تفصیل سے گفتگو کی ہے، علامہ حصکفی ؒ نے اس سلسلہ میں صدر الدین غزی رحمہ اللہ کے سات اشعار نقل کیے ہیں اور اس پر اپنے ایک شعر کا اضافہ کیا ہے، ان اشعار میں بڑی حد تک ان مواقع کو جمع کر لیا گیا ہے جہاں سلام نہیں کرنا چاہیے، ان اشعار میں جن لوگوں کا ذکر ہے، وہ یوں ہیں:

نماز، تلاوتِ قرآن مجید اور ذکر میں مصروف شخص، جو حدیث پڑھا رہا ہو، کوئی بھی خطبہ دے رہا ہو، مسائلِ فقہ کا تکرار و مذاکرہ، جو مقدمہ کے فیصلہ کے لیے بیٹھا ہو، اذان دے رہا ہو، اقامت کہہ رہا ہو، درس دے رہا ہو، اجنبی جوان عورت کو بھی سلام نہ کرنا چاہیے کہ اس میں فتنہ کا اندیشہ ہے، شطرنج کھیلنے والے اور اس مزاج و اخلاق کے لوگ جیسے جو لوگ جوا کھیلنے میں مشغول ہوں، جو اپنی بیوی کے ساتھ بے تکلف کیفیات میں ہو، کافر اور جس کا ستر کھلا ہوا ہو، جو پیشاب پائخانہ کی حالت میں ہو، اس شحص کو جو کھانے میں مشغول ہو، ہاں اگر کوئی شخص بھوکا ہو اور توقع ہو کہ سلام کی وجہ سے وہ شریک دسترخوان کر لے گا تو اس کو سلام کر سکتا ہے، گانے بجانے اور کبوتر بازی وغیرہ میں مشغول شخص کو بھی سلام نہیں کرنا چاہیے، اس کے علاوہ اور بھی کچھ صورتیں ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ کسی اہم کام میں مشغول ہوں کہ سلام کرنے سے ان کے کام میں خلل واقع ہو، یا جو لوگ فسق و فجور میں مصروف ہوں، یا جن کو سلام کرنا تقاضۂ حیا کے خلاف ہو یا جنہیں سلام کرنے میں فتنہ کا اندیشہ ہو، ایسے لوگوں کو اور غیرمسلموں کو پہل کر کے سلام نہ کرنا چاہیے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 618):

"وقد نظم الجلال الأسيوطي المواضع التي لا يجب فيها رد السلام ونقلها عنه الشارح في هامش الخزائن فقال:

رد السلام واجب إلا على ... من في الصلاة أو بأكل شغلا

أو شرب أو قراءة أو أدعيه ... أو ذكر أو في خطبة أو تلبيه

أو في قضاء حاجة الإنسان ... أو في إقامة أو الآذان

أو سلم الطفل أو السكران ... أو شابة يخشى بها افتتان

أو فاسق أو ناعس أو نائم ... أو حالة الجماع أو تحاكم

أو كان في الحمام أو مجنونا ... فواحد من بعدها عشرونا.

فتاوی شامی میں ہے: 

" یکره السلام علی العاجز عن الجواب حقیقةً کالمشغول بالأکل أو الاستفراغ، أو شرعاً کالمشغول بالصلاة وقراءة القرآن، ولو سلم لایستحق الجواب".

( کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا،۱/ ۶۱۷)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 415):

"(قوله: كآكل) ظاهره أن ذلك مخصوص بحال وضع اللقمة في الفم والمضغ، وأما قبل وبعد فلايكره؛ لعدم العجز، وبه صرح الشافعي، وفي وجيز الكردري: مر على قوم يأكلون إن كان محتاجاً وعرف أنهم يدعونه سلم وإلا فلا اهـ. وهذا يقضي بكراهة السلام على الآكل مطلقاً إلا فيما ذكره".

الفتاوى الهندية (5/ 325):

"السلام تحية الزائرين، والذين جلسوا في المسجد للقراءة والتسبيح أو لانتظار الصلاة ما جلسوا فيه لدخول الزائرين عليهم، فليس هذا أوان السلام فلا يسلم عليهم، ولهذا قالوا: لو سلم عليهم الداخل وسعهم أن لا يجيبوه، كذا في القنية.

يكره السلام عند قراءة القرآن جهراً، وكذا عند مذاكرة العلم، وعند الأذان والإقامة، والصحيح أنه لا يرد في هذه المواضع أيضاً، كذا في الغياثية."



کھانے کے دوران سلام کرنے کا حکم:
کھانا کھاتے وقت سلام نہیں کرنا چاہیے، یہ مسنون نہیں، اور اگر کوئی کرے تو اُس کا جواب دینا واجب نہیں، لیکن اگر جواب دے دے یا از خود  سلام کرلے تو کوئی حرج بھی نہیں ہے۔

فقہاء نے لکھا ہے کہ کھانا کھانے والے کو سلام کرنا مکروہ ہے، ہاں! اگر گزرنے والا کھانے کا محتاج ہو  اور اس کو یہ معلوم ہو کہ اس کو کھانے پر بلا لیا جائے گا تو ایسی صورت میں سلام کرنا مکروہ نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 415):
"(قوله: كآكل) ظاهره أن ذلك مخصوص بحال وضع اللقمة في الفم والمضغ، وأما قبل وبعد فلايكره؛ لعدم العجز، وبه صرح الشافعي، وفي وجيز الكردري: مر على قوم يأكلون إن كان محتاجاً وعرف أنهم يدعونه سلم وإلا فلا اهـ. وهذا يقضي بكراهة السلام على الآكل مطلقاً إلا فيما ذكره".


" یکره السلام علی العاجز عن الجواب حقیقةً کالمشغول بالأکل أو الاستفراغ، أو شرعاً کالمشغول بالصلاة وقراءة القرآن، ولو سلم لایستحق الجواب". 
(شامی، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا،۱/ ۶۱۷)

نیز فقہاءِ کرام نے یہ بھی لکھا ہے کہ کھانا کھانے والوں کو سلام کرنے کی صورت میں مروءۃً وہ سلام کرنے والے کو کھانے میں شامل کریں گے، اس لیے کھانے والے اگر بے تکلف جاننے والے ہوں یا اندازہ ہو کہ طیبِ نفس سے شامل کریں گے تو سلام کرے ورنہ انہیں سلام نہ کرے۔



کھانا کھانے میں مشغول افراد کے لیے عموماً سلام کا جواب دینے میں دقت ہوتی ہے؛ اس لیے فقہاء نے کھانا کھاتے ہوئے شخص کو سلام کرنا مکروہ لکھا ہے، اور کھانے والے پر سلام کا جواب دینا واجب نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

" يكره السلام على العاجز عن الجواب حقيقة كالمشغول بالأكل أو الاستفراغ أو شرعًا كالمشغول بالصلاة وقراءة القرآن، ولو سلم لايستحق الجواب ا هـ". (1/617)

البتہ اگر کھانا کھانے والے افراد کے لیے سلام کا جواب دینے میں کوئی دقت اور پریشانی نہ ہو اور وہ اس وجہ سے کسی تکلیف میں نہ پڑتے ہوں تو انہیں سلام کرنے کی گنجائش ہے، چنانچہ امدادالفتاویٰ میں ہے :

’’الجواب: علت کراہت سلام بر آکل عجز ا واز جواب نو شتہ اند ونزدمن علت دیگر احتمال تشویش یا اغتصاص بہ لقمہ ہم است، پس ہر کجا ہر دو علت مرتفع باشد کراہت ہم نبا شدوایں علت از قواعد فہمید ام نقل یاد ندارم ۔ ۳/ محرم ۱۳۳۲؁ ھ (تتمہ ثانیہ ص ۱۰۷)‘‘۔

ترجمہ:
" فقہاء کرام نے کھانے والے کو سلام کرنے کے مکروہ ہونے کی علت اس کا جواب دینے سے عاجز ہونا لکھا ہے۔اور میرے نزدیک اس کی دوسری علت اس کے تشویش میں مبتلا ہونے یا لقمہ کے حلق میں اٹک جانے کا احتمال ہے، پس جس جگہ یہ دونوں علتیں نہ ہوں وہاں کراہت بھی نہ ہوگی، اور یہ علت میں قواعد سے سمجھا ہوں ، اس کی کوئی نقل صریح میرے پاس نہیں ہے"۔ (4/280)


گھر میں داخل ہوتے وقت گھر والوں کو سلام کرنا۔
[ابوداؤد:5096]

القرآن:
اے ایمان والو ! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک اجازت نہ لے لو، اور ان میں بسنے والوں کو سلام نہ کرلو۔ یہی طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے، امید ہے کہ تم خیال رکھو گے۔
[سورۃ نمبر 24 النور، آیت نمبر 27]





اگر گھر خالی ہو تو اس طرح سلام کریں:
اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلىٰ عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِيْنَ.
[شامي:413]






سلام کرنا،مسلمان پر مسلمان کا ایک حق ہے:
حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
مسلمان پر، مسلمان کے(بنیادی)چھ حقوق ہیں:(1)جب کوئی مسلمان بیمار ہو تو دوسرا مسلمان اس کی مزاج پرسی کرے (2)جب کوئی مسلمان مرجائے تو(دوسرا مسلمان)اس کی نمازِ جنازہ میں شریک ہو(3)جب کوئی مسلمان کھانے پر بلائے تو اس کی دعوت قبول کرے (4)جب(کوئی مسلمان)ملے تو اس کو سلام کرے (5)جب کوئی مسلمان چھینکے (اور الحمد للہ کہے) تو اس کا جواب دے (یعنی یرحمک اللہ کہے) (6)خیر خواہی کر ے خواہ(دوسرا مسلمان)موجود ہو یا غائب۔
[صحیح مسلم:5651، کتاب السلام]
[بخاری:1240]




القرآن:
جب تمہیں کوئی سلام کرے تو(افضل یہ ہے کہ)تم اس سے بہتر(زیادہ مسنون الفاظ سے)سلام کرو یا(کم از کم انہی الفاظ سے)اس کا جواب دو۔
[سورة النساء:86]







غائبانہ سلام اور جواب بھیجنا۔
نبی ﷺ نے حضرت عائشہ سے فرمایا: حضرت جبرئیل تمہیں سلام عرض کرتے ہیں۔
[بخاری:6253]
تو آپ نے کہا:
وَعَلَيْكَ وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ.
[كتاب السنة،(أمام)أبي بكر بن الخلال:746]

ایک صحابی نے آپ ﷺ کی خدمت میں اپنے والد کا سلام عرض کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا:
عليك وعلى أبيك السلام.
[ابوداؤد:5231]






سلام یا صبح بخیر؟

الله کے نبی ﷺ کے صحابی فرماتے ہیں کہ ہم کہتے تھے زمانہ جاہلیت(کفر)میں کہ اچھی ہو تمہاری صبح(Good Morning)
پھر
جب ہم اسلام لاۓ تو"روک"دیا گیا ہمیں اس سے.
[سنن ابوداؤد:کتاب الادب، حديث#5227]

القرآن:
اے ایمان والو! نہ ہونا ان کی طرح جنہوں نے کفر کیا۔۔۔
[سورة آل عمران:156]





الوداعی سلام کی اہمیت
القرآن:
۔۔۔اور وہ(مومن لوگ-صحابہ) جب رسول کے ساتھ کسی اجتماعی کام (یعنی خندق کھودنے) میں شریک ہوتے ہیں تو ان سے اجازت لئے بغیر نہیں جاتے۔۔۔
[سورۃ النور:61]

الله حافظ کہنا جائز ہے۔
[حوالہ» سنن ابوداؤد:5228]

لیکن رخصت/وداع کے وقت رسول اللہ ﷺ نے یہ حکم فرمایا:

جب تم میں سے کوئی کسی مجلس میں پہنچے تو سلام کرے پھر اگر بیٹھنا چاہے تو بیٹھ جاۓ. پھر جب(جانے کیلئے)اٹھے تو"سلام"کرے کیونکہ پہلا سلام دوسرے کی بنسبت اہمیت نہیں رکھتا.
[ترمذی:2706]

جب تم گھر میں داخل ہو تو اپنے گھر والوں کو سلام کرو اور جب تم نکلو تو الوداع کرو اپنے گھر والوں کو سلام کےساتھ.
[جامع الاحادیث:1917]














سلام کی دوسری قسم» سلامِ متاکرت
سلامِ متارکت کی پہلی مثال:
حضرت ابراہیم کا اپنے والد سے کہنا سلام علیک[سورۃ مریم: آیت ۴۷] کے متعلق امام ابن حجرؒ لکھتے ہیں:
حضرت ابراہیم ؑنے اپنے والد کو جو سلام کیا تھا وہ سلام تحیہ نہیں تھا؛ بلکہ اس کا مفہوم یہ تھا کہ آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچے، آپ مامون رہیں اور ایسا اس وجہ سے کہا کہ وہ حضرت ابراہیم کے باپ تھے۔
[فتح الباری شرح البخاری:۱۳ ؍۴۸]
ارشاد الساری شرح البخاری: ۱۳ ؍ ۲۵۹
سلام متارکت کی دوسری مثال»




رحمان کے بندوں کی تیسری خوبی بیان کرتے الله نے فرمایا:
اور جب ان سے جاہل لوگ(علمِ الٰہی کے خلاف جہالت کی)بات کرتے ہیں تو وہ ان سے سلام کہتے ہیں۔
[سورۃ الفرقان:63]

یعنی سلام سے مراد یہاں السلام علیکم’’کہنا‘‘ مراد نہیں ہے؛ بلکہ سلامتی کی بات(طریقہ) مراد ہے؛ کیوں کہ یہ تسلیم سے نہیں ہے؛ بلکہ تسلُّم سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں سلامت رہنا اور آیت کا مطلب ہوگا کہ وہ(عباد الرحمن)ایسی بات کہتے ہیں جو باعثِ سلامتی ہوتی ہے کہ کسی کو تکلیف نہیں پہنچتی اور انہیں کوئی گناہ نہیں ہوتا۔
[تفسیر(امام)قرطبی:۳؍ ۲۹۴]


سلام متارکت کی تیسری مثال»
القرآن:
اور جب وہ کوئی بےہودہ بات(کفار کا جھوٹا طعنہ)سنتے ہیں تو اسے ٹال جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ: ہمارے لیے ہمارے(اسلامی)اعمال ہیں، اور تمہارے لیے تمہارے(شرکیہ وشیطانی)اعمال۔ ہم تمہیں سلام کرتے(سلامتی کی بات کرتے)ہیں، ہم الجھنا نہیں چاہتے نادان لوگوں سے۔
[سورۃ القصص : آیت 55]

۔۔۔اور جب وہ بیہودہ بات سے گذرتے ہیں تو سلامتی سے گذرجاتے ہیں۔
[سورۃ الفرقان: آیت 72]


حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے:
سب سے بڑا بخیل وہ ہے، جو سلام کرنے میں بخل کرتا ہے۔۔۔
[الأدب المفرد(امام)بخاری:1015]

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے:
۔۔۔اور سلام میں بخل کرنے والا، بڑا بخیل ہے۔۔۔
[الأدب المفرد:1041]









سچی نبوی پیشنگوئی»اہلِ دین سے قربت میں رکاوٹ۔
خودپسندی کا فتنہ»صرف جان پہچان والوں سے(خودغرضی بھرا)سلام کرنا۔

حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ انسان مسجد کے پاس سے گذرے گا؛ لیکن مسجد میں نماز نہیں پڑھے گا۔
[مصنف عبد الرزاق:5140]

۔۔۔اور یہ کہ انسان صرف جان پہچان کے لوگوں کو سلام کرے گا۔
[صحیح ابن خزیمہ:1326]













سلامتی کی تعلیم دینے والے نبی کا حقِ سلام ادا کرنا۔



قبرِ اطہر  پر پڑھا جانے والا درود آپ ﷺ خود سنتے ہیں:
وقال أبو الشيخ في الكتاب ((الصلاة على النبي)) : حدثنا عبد الرحمن ابن أحمد الأعرج ، حدثنا الحسن بن الصباح حدثنا أبو معاوية ، حدثنا الأعمش ، عن أبي الصالح ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ ، قَالَ : " مَنْ صَلَّى عَلِيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُهُ ، وَمَنْ صَلَّى عَلِيَّ نَائِيًا عَنْهُ أَبْلَغْتُهُ " .
ترجمہ:
حافظ ابو الشیخ اصبہانیؒ فرماتے ہیں کہ ہم سے عبد الرحمن بن احمد العرجؒ نے بیان کیا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے الحسن بن الصباحؒ نے بیان کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے ابو معاویہؒ نے بیان کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے اعمشؒ نے بیان کیا۔ وہ ابو صالحؒ سے اور وہ حضرت ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ آنحضرت ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے میری قبر کے پاس دورد پڑھا تو میں اسے خود سنتا ہوں اور جس نے مجھ پر دور سے پڑھا تو وہ مجھے پہنچایا جاتا ہے ۔
حوالہ جات کتبِ متونِ حدیث:
[جلاء الأفهام-لابن قيم(م75ھ) : حديث نمبر 19 (صفحہ 54ت الأرنؤوط) (حدیث نمبر 33 ط عطاءات العلم)]
[صفة النبي وأجزاء أخرى جمع ضياء الدين المقدسي(م643ھ)حدیث نمبر 31]
[حياة الأنبياء في قبورهم للبيهقي(م458ھ):حدیث نمبر18، شُعَبِ الْاِیْمَانِ- ت زغلولحدیث نمبر1583]
[حديث أبي بكر بن خلاد النصيبي(م359ھ)حدیث نمبر 53]
[مجموع فيه مصنفات أبي جعفر ابن البختري(م339ھ): حدیث نمبر 735]

حوالہ جات کتبِ عقائد:
[الجلال السيوطي-شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور: صفحہ 236، الحبائك في أخبار الملائك:صفحہ 123]

حوالہ جات کتبِ شروحاتِ حدیث:
شرح المشكاة للطيبي:934، مرقاة المفاتيح-الملا على القاري:2/ 749
[شرح البخاري للسفيري:2/ 221]
أَي أخْبرت بِهِ على لِسَان بعض الْمَلَائِكَة لَان لروحه تعلقا بمقر بدنه الشريف وَحرَام على الارض ان تَأْكُل أجساد الانبياء فحاله كَحال النَّائِم-----قَالَ ابْن حجر اسناده جيد
ترجمہ:
یعنی اس کی خبر بعض فرشتوں نے دی، کیونکہ آپ کی روح آپ کے محترم جسم کے ٹھکانے سے لگی ہوئی ہے، اور زمین پر انبیاء کے اجسام کا کھانا حرام ہے، اس لیے اس کی حالت سونے والے کی سی ہے-----امام ابن حجر نے (فتح الباری میں) فرمایا کہ اس(حدیث کے گواہوں) کا سلسلہ عمدہ ہے۔
[التيسير بشرح الجامع الصغير-المناوي:2/ 428، فيض القدير-المناوي:8812]
[لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح-عبد الحق الدهلوي:3/ 71]
[دليل الفالحين لطرق رياض الصالحين-ابن علان:3]

نوٹ:
انبیاء کی زندگی کا ثبوت اپنی اپنی قبروں میں ہے، ہر جگہ نہیں۔ اگر رسول الله ﷺ ہر جگہ حاضر و ناظر یا دور سے ہر کسی کی پکار سنتے ہوتے تو درود فرشتوں کے ذریعہ پیش نہ کئے جاتے۔

[الدر المنثور في التفسير بالمأثور-السيوطي:6/ 654 سورة الأحزاب :56]
[التفسير المظهري:7/ 373، 10/ 225]

حوالہ جات کتبِ سیرت:
[كتاب الشفا بتعريف حقوق المصطفى: الجزء الثاني ، ص: 440 ]







No comments:

Post a Comment