Wednesday, 27 November 2024

غائبانہ نمازِجنازہ کی شرعی حیثیت

 

غائبانہ نمازِجنازہ کی شرعی حیثیت»
قرآن مجید میں نمازِجنازہ کے بارے میں کوئی واضح حکم نہیں ہے، تو "غائبانہ" نمازِجنازہ کا بھی نہیں۔ تاہم، قرآن مجید میں وفات کے بعد میت کے لیے دعا کرنے کا حکم ہے۔ لہٰذا جب کوئی شخص مر جائے تو اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے استغفار کرنا اصل(بنیادی حکم) ہے۔
[قرآنی حوالہ» سورہ ابراھیم:41 الحشر:7 نوح:28 غافر:7 محمد:19]

نمازِ جنازہ کیلئے میت کا سامنے ہونا شرط ہے، لہٰذا احناف اور مالکیہ کے نزدیک "غائبانہ" نمازِ جنازہ جائز نہیں۔

امام شافعی اور امام احمد ابن حنبل رحمہما اللہ تعالیٰ کے نزدیک جائز ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی نمازِ جنازہ پڑھائی، جبکہ وہ سرزمینِ عرب میں نہ تھے۔
حوالہ
جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
...مَاتَ بِغَيْرِ أَرْضِكُمْ...
ترجمہ:
...ان کی موت تمہارے زمین سے باہر ہوگئی ہے...
[سنن ابن ماجہ:1537]
نوٹ:
لیکن اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو دوسری زمین(ملک) میں ہو اور یہ یقین ہو کہ اس کی نمازِ جنازہ ادا نہیں ہوئی تو غائبانہ پڑھنا چاہئے۔ کیونکہ یہ فرض کفایہ ہے۔
لہٰذا
حنفیہ ومالکیہ کی دلیل یہ ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت نجاشی شاہ حبشہ رضی اللہ عنہ کی نمازِ جنازہ پڑھی تھی
لیکن وہاں درحقیقت تمام حجابات اٹھا دیئے گئے تھے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے "معجزہ" کے طور پر نجاشی کا جنازہ کردیا گیا تھا تو ایسی صورت میں وہ غائبانہ نمازِ جنازہ نہ تھی۔
حوالہ
...وَهُمْ لَا يَظُنُّونَ  إِلَاّ أَنَّ جِنَازَتَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ.
ترجمہ:
۔۔۔اور وہ یہ گمان کر رہے تھے کہ اس کا جنازہ آپ کے آگے ہے۔
[صحیح ابن حبان:7212(3102)]
تفصیل کے لیے دلائل کے ساتھ ابوداوٴد شریف کی شرح بذل المجہود ملاحظہ کرلیں۔

اور یہ بات بھی قابلِ لحاظ ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں بے شمار واقعاتِ وفات پیش آئے بہت سے صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کی شہادت و وفات کے واقعات ہوئے مگر ثابت نہیں کہ نماز جنازہ غائبانہ کا معمول اور عادتِ شریفہ رہی ہو۔

خود نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دنیا سے پردہ فرمایا تو حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم دور دراز علاقوں میں مقیم تھے مگر ثابت نہیں کہ انھوں نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی ہو۔

خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے عہد مبارک میں بھی غائبانہ نماز جنازہ کا معمول کہیں منقول(نقل شدہ وثابت) نہیں ملتا۔

خلاصہ:
(1)اکیلا شخص یعنی بغیرجماعت کسی کیلئے غائبانہ نمازِجنازہ پڑھنا خلافِ سنت ہے۔ اگر جماعت میں شریک نہ ہوسکے تو دعائے بخشش کرنا چاہئے۔
(2)جنازہ "حاضر" ہو تو "جماعت" سے نمازِجنازہ پڑھنا سنت ہے۔
(3)اور غائبانہ نمازِجنازہ خاص نجاشی کیلئے ثابت ہے، لہٰذا یہ سنتِ خاصہ ہے، سنتِ عامہ(عادت وشریعت) نہیں۔
🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰
ایصالِ ثواب کیا، کیسے، کب اور کیوں؟

No comments:

Post a Comment