حقیقی شان بیان کرنا گستاخی نہیں۔
القرآن:
مسیح کبھی اس بات کو عار نہیں سمجھ سکتے کہ وہ اللہ کے بندے ہوں، اور نہ مقرب فرشتے (اس میں کوئی عار سمجھتے ہیں) اور جو شخص اپنے پروردگار کی بندگی میں عار سمجھے، اور تکبر کا مظاہرہ کرے تو (وہ اچھی طرح سمجھ لے کہ) اللہ ان سب کو اپنے پاس جمع کرے گا۔
[سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 172]
تفسیر:
نجران کے وفد نے کہا: اے محمد ﷺ! آپ ہمارے آقا (عیسیٰ مسیح) پر عیب لگاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: میں کیا کہتا ہوں؟ وفد والوں نے کہا: آپ ان کو اللہ کا بندہ اور رسول کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اللہ کا بندہ ہونا عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے باعث عار نہیں۔
[تفسير امام البغوي: حديث#735 (جلد1 صفحه726)]
نوٹ:
(1)اللہ کی شان انبیاء بلکہ تمام مخلوق سے بھی بلند ہے، لہٰذا اللہ کے مقابلے میں کسی کی شان کو اللہ سے بلند یا برابر نہ رکھنا بلکہ چھوٹا/کم رکھتے بندہ کہنا کہلوانا حق ہے، اس بات پر کوئی پیغمبر یا فرشتہ ہرگز عار محسوس نہیں کرتا بلکہ خوشی وفخر محسوس کرتا یے۔
(2)اگر حقیقی شان بیان کرنا گستاخی نہیں، جو ایسا سمجھے وہ نادان ہے۔
دیگر مثالیں:
*(2)پیغمبر کو "بشر"(انسان) ماننا:*
اللہ نے خود پیغمبر کو حکم فرمایا کہ "کہدیجئے! میں تم جیسا بشر ہوں..."
[حوالہ سورۃ الکھف:100، فصلت:6]
*(3)پیغمبر کو "امی" کہنا-ماننا۔*
[حوالہ سورۃ الاعراف:157-158، الجمعہ:2]
(4)کہدیجئے! میں مالک نہیں اپنے لئے بھی کسی نفع کا اور نہ کسی نقصان کا مگر جو چاہے اللہ...
[سورۃ الاعراف:188]
(5)کہو کہ : میں پیغمبروں میں کوئی انوکھا پیغمبر نہیں ہوں، مجھے معلوم نہیں ہے کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور نہ یہ معلوم ہے کہ تمہارے ساتھ کیا ہوگا ؟ میں کسی اور چیز کی نہیں، صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھے بھیجی جاتی ہے۔ اور میں تو صرف ایک واضح انداز سے خبردار کرنے والا ہوں۔
[سورۃ الأحقاف، آیت نمبر 9]
(6)(اے پیغمبر) حقیقت یہ ہے کہ تم جس کو خود چاہو ہدایت تک نہیں پہنچا سکتے، بلکہ اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت تک پہنچا دیتا ہے، اور ہدایت قبول کرنے والوں کو وہی خوب جانتا ہے۔
[سورۃ القصص ،آیت نمبر 56]
(7)(اے نبی) تم ان کے لیے استغفار کرو یا نہ کرو، اگر تم ان کے لیے ستر مرتبہ استغفار کرو گے تب بھی اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کا رویہ اپنایا ہے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت تک نہیں پہنچاتا۔
[سورۃ التوبة ،آیت نمبر 80]
(8)اور یہود و نصاری تم سے اس وقت تک ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک تم ان کے مذہب کی پیروی نہیں کرو گے۔ کہہ دو کہ حقیقی ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے۔ اور تمہارے پاس (وحی کے ذریعے) جو علم آگیا ہے اگر کہیں تم نے اس کے بعد بھی ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی کرلی تو تمہیں اللہ سے بچانے کے لیے نہ کوئی حمایتی ملے گا نہ کوئی مددگار۔
[سورۃ البقرة، آیت نمبر 120]
(9)اور اگر (بالفرض) یہ پیغمبر کچھ (جھوٹی) باتیں بنا کر ہماری طرف منسوب کردیتے۔ تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑ تے۔ پھر ہم ان کی شہ رگ کاٹ دیتے۔ پھر تم میں سے کوئی نہ ہوتا جو ان کے بچاؤ کے لیے آڑے آسکتا۔
[سورۃ الحاقة، آیت نمبر 44-47]
(10)یہ بات کسی نبی کے شایان شان نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی رہیں جب تک کہ وہ زمین میں (دشمنوں کا) خون اچھی طرح نہ بہا چکا ہو (جس سے ان کا رعب پوری طرح ٹوٹ جائے) تم دنیا کا سازوسامان چاہتے ہو اور اللہ (تمہارے لیے) آخرت (کی بھلائی) چاہتا ہے اور اللہ صاحب اقتدار بھی ہے، صاحب حکمت بھی۔ اگر اللہ کی طرف سے ایک لکھا ہوا حکم پہلے نہ آچکا ہوتا تو جو راستہ تم نے اختیار کیا، اس کی وجہ سے تم پر کوئی بڑی سزا آجاتی۔
[سورۃ الأنفال ،آیت نمبر 67-68]
No comments:
Post a Comment