لفظ "حکمت" قرآن پاک میں بیس بار آیا ہے ، اور خدا تعالی نے اس آسمانی کتاب میں 91 مرتبہ "حکمت" کی صفت کے ساتھ اپنی تعریف کی ہے۔ (صفت "حکیم" قرآن میں 36 مرتبہ صفت "علیم" کے ساتھ، 47 مرتبہ صفت " عزیز " کے ساتھ، چار مرتبہ صفت "خبیر" کے ساتھ اور ایک ایک صفت "تواب"، "حامد"، "علی" اور "وصی" کے ساتھ آئی ہے۔)
حکمت (Hikmah) ایک عربی اصطلاح ہے جس کا لفظی معنی "دانائی"، "عقل مندی"، یا "گہری سمجھ" ہے۔ اسلامی تعلیمات میں حکمت کو انتہائی اہمیت حاصل ہے، اور یہ قرآن و حدیث میں بار بار بیان ہوئی ہے۔ حکمت صرف علم تک محدود نہیں بلکہ اس کا تعلق علم کے صحیح استعمال، عمل کی درستگی، اور حق کی پہچان سے ہے۔ ذیل میں حکمت کی تعریف، اقسام، اور اس کے دلائل کو تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے۔
---
1. حکمت کی تعریف اور اہمیت:
- قرآن کی روشنی میں:
قرآن مجید میں حکمت کو "خیر کثیر" (بہت بڑی بھلائی) قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا﴾ (البقرہ: 269)
"اللہ جسے چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جسے حکمت دی گئی، اُسے بہت بڑی بھلائی دی گئی۔"
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ حکمت اللہ کی طرف سے ایک خاص عطیہ ہے جو انسان کو اعلیٰ بصیرت اور فہم عطا کرتی ہے۔
- حدیث کی روشنی میں:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"حکمت مومن کی گمشدہ متاع ہے، جہاں سے ملے اُسے لے لے۔" (ترمذی)
یہ حدیث حکمت کی تلاش اور اس کے حصول کی ترغیب دیتی ہے۔
---
2. حکمت کی اقسام:
1. علمی حکمت: حقائق کو سمجھنے اور ان کی گہرائی تک پہنچنے کی صلاحیت۔
2. عملی حکمت: علم کو صحیح طریقے سے زندگی میں لاگو کرنا، مثلاً عدل، صبر، اور اعتدال۔
3. اخلاقی حکمت: اچھے اور برے کی تمیز، جیسے سچ بولنا، دھوکہ نہ دینا۔
---
3. حکمت کے دلائل اور مثالیں:
الف۔ قرآن سے دلائل:
1. حکمت کی دعوت:
قرآن نے انبیاء کو "حکمت" سے متصف کیا ہے۔ ارشاد ہے:
﴿ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ﴾ (النحل: 125)
"اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ۔"
اس آیت میں تبلیغ کے لیے حکمت کو بنیادی ذریعہ بتایا گیا ہے۔
2. حکمت والی کتاب:
قرآن کو "کتاب حکیم" کہا گیا ہے، جیسے سورہ لقمان میں اللہ فرماتا ہے:
﴿وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ﴾ (لقمان: 12)
"ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی۔"
لقمان کی حکمت کی مثالیں ان کے بیٹے کو دی گئی نصیحتوں میں نظر آتی ہیں، جیسے شرک نہ کرنا، والدین کے ساتھ احسان، اور تواضع۔
ب۔ حدیث سے دلائل:
1. حکمت کی فضیلت:
نبی ﷺ نے فرمایا:
"اللہ جس کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے، اُسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے۔"(بخاری)
یہاں "دین کی سمجھ" سے مراد حکمت ہے۔
2. حکمت اور عمل:
ایک اور حدیث میں ہے:
"علم بغیر عمل کے بے فائدہ ہے، اور عمل بغیر اخلاص کے قبول نہیں ہوتا۔"
یہ حدیث حکمت کے عملی پہلو کو واضح کرتی ہے۔
ج۔ تاریخی اور عملی مثالیں:
1. حضرت سلیمان علیہ السلام:
اُن کی حکمت کی مثال ان کا فیصلہ ہے جب دو عورتوں کے جھگڑے میں اُنہوں نے بچے کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا حکم دیا، پھر اصلی ماں کے جذبات کو پہچان لیا (الأنبیاء: 78-79)۔
2. حضرت امام غزالی رحمہ اللہ:
اُن کی کتاب "احیاء علوم الدین" میں حکمت کو علم، عمل، اور تزکیہ نفس کا مجموعہ بتایا گیا ہے۔
---
4. حکمت کے حصول کے ذرائع:
1. اللہ سے دعا:
﴿رَبِّ هَبْ لِي حُكْمًا﴾ (الشعراء: 83) — حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا۔
2. علم حاصل کرنا: قرآن و حدیث کا گہرا مطالعہ۔
3. تجربہ اور مشاہدہ: زندگی کے واقعات سے سبق لینا۔
4. اخلاص اور تقویٰ: نیک نیتی اور اللہ کا خوف۔
---
5. حکمت کے فوائد:
- معاشرتی تنازعات کا حل۔
- نفس کی اصلاح اور روحانی ترقی۔
- اللہ کی رضا اور آخرت میں کامیابی۔
---
نتیجہ:
حکمت صرف علم نہیں، بلکہ علم، عمل، اور اخلاص کا حسین امتزاج ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہے جو انسان کو صحیح راستہ دکھاتی ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کی اہمیت کو بار بار اجاگر کیا گیا ہے، اور اس کے حصول کے لیے دعا، علم، اور تجربہ کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ حکمت کی روشنی میں ہی انسان دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔
حِکْمَت یہ ہے کہ کب، کہاں، کتنا اور کیسے کچھ کہنا/کرنا چاہئے اور کیا نہ کہنا/کرنا چاہئے۔
القرآن:
اپنے رب کے راستے کی طرف لوگوں کو حکمت کے ساتھ۔۔۔
[سورۃ النحل:125]
القرآن:
اور ہم نے لقمان کو(بھی)حکمت عطا کی تھی۔۔۔
[سورۃ لقمان:12]
وہ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کردیتا ہے، اور جسے دانائی عطا ہوگئی اسے وافر مقدار میں بھلائی مل گئی۔ اور نصیحت وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جو سمجھ کے مالک ہیں۔
[سورۃ البقرۃ:269]
حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«رأس الحكمة مخافة الله» .
اللہ کا خوف حکمت کی جڑ ہے۔
[تفسير ابن ابي حاتم:2831، المنثور (٢/ ٢٢٥) وإتحاف (٨/ ٤٤٨، ٩/ ٢١١) والمغني عن حمل الأسفار (٤/ ١٥٨) وشهاب (٥٥، ١١٦) والكنز (٥٨٧٣) والخفاء (١/ ٣٥٢، ٥٠٧)]
حضرت انس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
خشية الله رأس كل حكمة والورع سيد العمل.
ترجمہ:
اللہ تعالیٰ کا ڈر ہر حکمت کی بنیاد ہے اور ورع(تقویٰ) تمام اعمال کا سردار ہے۔
[القضاعى:41، والديلمى:2964، جامع الاحادیث-للسيوطي:11906، کنزالعمال:5872]
لفظی تشریح اور مفہوم:
1. خَشْيَةُ اللهِ رَأْسُ كُلِّ حِكْمَةٍ:
- خَشْيَةُ اللهِ: اللہ کا خوف (ایسا خوف جو عظمت و جلال کے ساتھ معرفت پر مبنی ہو)۔
- رَأْسُ كُلِّ حِكْمَةٍ: تمام حکمتوں کی بنیاد یا سرچشمہ۔
- مفہوم: حقیقی حکمت اور دانائی کا نقطہ آغاز اللہ تعالیٰ کا خوف ہے۔ یہ خوف انسان کو غلط راستوں سے بچاتا ہے اور اسے حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔
2. وَالْوَرَعُ سَيِّدُ الْعَمَلِ:
- الْوَرَعُ: پرہیزگاری، یعنی حرام کے ساتھ ساتھ مشتبہ چیزوں سے بھی بچنا۔
- سَيِّدُ الْعَمَلِ: اعمال کا سردار یا سب سے افضل عمل۔
- مفہوم: نیک اعمال کی اصل روح اور ان کی فضیلت کا معیار "ورع" (پرہیزگاری) ہے۔ یہ وہ خوبی ہے جو اعمال کو خلوص اور تقویٰ سے ہمکنار کرتی ہے۔
---
تفصیلی تشریح اور اہم نکات:
1. خَشْيَةُ اللهِ (اللہ کا خوف):
- حکمت کی بنیاد کیوں؟
- اللہ کا خوف انسان کو گناہوں سے روکتا ہے، جس کے نتیجے میں دل صاف ہوتا ہے اور حکمت (دین و دنیا کی صحیح سمجھ) پیدا ہوتی ہے۔
- قرآن میں ارشاد ہے: "بے شک اللہ کے بندوں میں سے صرف علماء ہی اس سے ڈرتے ہیں" (فاطر: 28)۔ علماء کی یہ خشیت ہی انہیں حقیقی دانائی عطا کرتی ہے۔
- خشیت اور خوف میں فرق:
- خوف (Fear): عذاب یا نقصان کا ڈر۔
- خشیت (Reverential Fear): اللہ کی عظمت اور اس کی ناراضی کا احساس، جو محبت اور تعظیم کے ساتھ ہو۔
- علماء کی آراء:
- امام غزالی: "خشیت وہ نور ہے جو دل کو روشن کرتا ہے، جس سے بندہ حق و باطل میں تمیز کرتا ہے۔"
- ابن قیم: "جس کے دل میں خشیت نہیں، اس کا علم بے نور ہوتا ہے۔"
2. الْوَرَعُ (پرہیزگاری):
- ورع کی تعریف:
- حرام کاموں سے بچنے کے ساتھ ساتھ مشتبہ (شبہات) چیزوں سے بھی اجتناب کرنا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جو شخص شک والی چیزوں سے بچ گیا، اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا"۔ (صحیح بخاری)۔
- اعمال کا سردار کیوں؟
- ورع کے بغیر اعمال ظاہری ہوتے ہیں، لیکن ورع انہیں دل کی گہرائیوں سے جوڑتا ہے۔
- مثال: ایک شخص روزہ رکھے لیکن حرام کمائی کھائے، تو اس کا روزہ ورع کے بغیر ناقص ہے۔
- قرآن و حدیث میں ورع:
- سورۃ الحشر (9): "جو کوئی اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا ہو اور نفس کو بری خواہشات سے روکتا ہو، اس کی جنت ہی ٹھکانا ہے۔"
- حدیث: "ورع اختیار کرو، تم سب سے بڑے عبادت گزار بن جاؤ گے" (سنن الترمذی)۔
---
3. حدیث کی سند اور درجہ:
- یہ حدیث الْمُعْجَمُ الْأَوْسَطُ لِلطَّبَرَانِیْ (حدیث نمبر 6805) میں مروی ہے۔
- بعض علماء نے اسے "ضعیف" قرار دیا ہے، لیکن اس کا مفہوم قرآن و سنت کے مطابق ہے، اس لیے اس پر عمل کرنا جائز ہے۔ امام نووی جیسے علماء نے ضعیف احادیث کو فضائل اعمال میں قبول کیا ہے۔
---
عملی تطبیق:
1. خشیتِ الٰہی پیدا کرنے کے طریقے:
- قرآن کی تلاوت اور اس کی آیات پر غوروفکر۔
- موت اور آخرت کو یاد رکھنا۔
- صالحین کی صحبت اختیار کرنا۔
2. ورع کی تربیت:
- مشتبہ چیزوں سے بچنا، چاہے وہ حلال ہی کیوں نہ ہوں۔
- ہر عمل سے پہلے "نیت" کو خالص کرنا۔
- معمولی گناہوں کو حقیر نہ سمجھنا۔
---
علماء کے اقوال:
- امام ابن رجب حنبلی:
-"ورع تقویٰ کی انتہا ہے، جب بندہ حرام کے علاوہ حلال میں بھی احتیاط کرنے لگے۔"
- شیخ عبدالقادر جیلانی:
"خشیت دل کا وہ نور ہے جو بندے کو اس کی منزل تک پہنچاتا ہے۔"
---
نتیجہ:
یہ حدیث دو بنیادی صفات (خشیتِ الٰہی اور ورع) کو انسان کی کامیابی کی کنجی قرار دیتی ہے۔ خشیتِ الٰہی سے حکمت اور بصیرت ملتی ہے، جبکہ ورع اعمال کو زندہ اور مقبول بناتا ہے۔ ان دونوں کو اپنا کر انسان دنیا و آخرت میں سرخرو ہو سکتا ہے۔
حکیم لقمان نے فرمایا:
الصمت حكمة، وقليلٌ فاعِلُه
خاموشی حکمت(دانائی) ہے، لیکن اسکے کرنے والے انتہائی کم ہیں۔
[موسوعة التفسير المأثور:63124، تفسير يحيى بن سلام ٢/ ٧٤٨]
تشریح:
۔۔۔ خدا خوفی ہوئی تو گالی سے بچے گا غیبت سے دور رہے گا چغلخوری نہیں کرے گا، تقویٰ ہوا تو پنجوقتہ نماز کی پابندی سے اور کئی برائیاں چھوٹ جائیں گی، ایک نیکی دوسری نیکی کو کھینچتی ہے جیسے ایک برائی سے دوسری معصیت جہنم لیتی ہے۔
زھد»دنیا سے بے رغبتی کا بیان
حضرت ابوخلاد ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا رَأَيْتُمُ الرَّجُلَ قَدْ أُعْطِيَ زُهْدًا فِي الدُّنْيَا، وَقِلَّةَ مَنْطِقٍ، فَاقْتَرِبُوا مِنْهُ فَإِنَّهُ يُلْقِي الْحِكْمَةَ.
ترجمہ:
جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جو دنیا کی طرف سے بےرغبت ہے، اور کم گو بھی ہو تو اس سے قربت(قریبی تعلق) اختیار کرو، کیونکہ وہ حکمت و دانائی کی بات بتائے گا۔
[سنن ابن ماجہ:4101]
اس حدیث میں دو اہم صفات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:
1. زُہْد فِي الدُّنْیَا:
دنیا سے بے رغبتی اور اللہ پر توکل۔
2. قِلَّۃُ الْمَنْطِق:
فضول باتوں سے پرہیز اور ضرورت کے وقت ہی گفتگو کرنا۔
---
تفصیلی تشریح اور اہم نکات:
1. زہد (دنیا سے بے رغبتی):
- تعریف:
زہد کا مطلب دنیاوی لذتوں اور مال و متاع سے دل کا نہ لگنا ہے، نہ کہ انہیں حرام سمجھنا یا ترک کر دینا۔ امام احمد بن حنبل کے مطابق، زاہد وہ ہے جو مال میں اضافے پر خوش نہ ہو اور کمی پر غمگین نہ ہو ۔
- *قرآنی تناظر:
قرآن میں دنیا کو "فانی" اور آخرت کو "باقی" قرار دیا گیا ہے (سورۃ العنکبوت: 64)۔ زہد کا مقصد دل کو آخرت کی تیاری میں لگانا ہے۔
- علماء کی آراء:
- سفیان ثوری:
زہد کا مطلب موت کو یاد رکھنا اور لمبی عمر کی امید نہ رکھنا ہے ۔
- حسن بصری:
زاہد وہ ہے جو دوسروں کو اپنے سے بہتر سمجھے ۔
2. قِلَّۃُ الْمَنْطِق (کم بولنا):
- فضول گفتگو سے پرہیز:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "خاموشی حکمت کی پہلی سیڑھی ہے"۔ کم بولنے والا شخص لغو باتوں سے بچتا ہے اور اپنی توانائی کو مفید کاموں میں صرف کرتا ہے ۔
- حکمت کی نشانی:
حدیث میں اس صفت کو "حکمت" سے جوڑا گیا ہے، کیونکہ کم بولنے والا شخص سوچ سمجھ کر بات کرتا ہے اور اس کے الفاظ میں وزن ہوتا ہے ۔
3. حکمت کی منتقلی:
- علماء سے قربت:
حدیث میں ایسے افراد کے قریب رہنے کی تاکید کی گئی ہے، کیونکہ ان کی گفتگو اور عمل سے دل میں نور اور حکمت پیدا ہوتی ہے۔ یہ لوگ اللہ کے ذکر اور آخرت کی فکر میں مشغول رہتے ہیں ۔
- عملی مثال:
صحابی رسول حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی زندگی زہد اور کم گفتگی کی روشن مثال ہے۔ انہوں نے دنیاوی مال و متاع سے دور رہ کر لوگوں کو سادگی اور تقویٰ کی تعلیم دی ۔
---
حدیث کی سند اور درجہ:
- یہ حدیث سنن ابن ماجہ (حدیث نمبر 4101) میں موجود ہے، لیکن اس کی سند کو "ضعیف" قرار دیا گیا ہے ۔
- ضعیف حدیث کا حکم:
اگرچہ سند کمزور ہے، لیکن اس کا مفہوم دیگر صحیح احادیث اور قرآنی تعلیمات کے مطابق ہے، جیسے سورۃ لقمان میں حکمت کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
---
عملی تطبیق:
1. دنیا سے محبت کم کرنا:
ضرورت کے مطابق دنیا استعمال کریں، لیکن دل کو اس سے نہ لگائیں۔
2. گفتگو میں احتیاط:
ہر بات پر تبصرہ کرنے کے بجائے سوچ سمجھ کر بولنا۔
3. صالحین کی صحبت:
ایسے لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا جو زہد اور علم کی روشنی رکھتے ہوں ۔
---
نتیجہ:
یہ حدیث مسلمانوں کو سادگی، توکل، اور مفید گفتگو کی ترغیب دیتی ہے۔ اس کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ دنیاوی لالچ اور فضول باتوں سے دوری اختیار کرنے والے افراد کے پاس رہنا چاہیے، کیونکہ وہ دل کی صفائی اور حکمت کی دولت عطا کرتے ہیں۔
حکمت بھری احادیث قرآن و سنت کا ایک اہم حصہ ہیں جو زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ ذیل میں کچھ منتخب احادیث پیش کی جاتی ہیں جو حکمت اور دانائی سے بھرپور ہیں:
---
۱. حکمت کی تلاش مومن کا فریضہ
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"حکمت و دانائی کی بات مومن کا گمشدہ سرمایہ ہے، جہاں بھی اس کو پائے وہی اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے"۔
[ترمذی:2687، ابن ماجہ:4169]
اس حدیث میں حکمت کو "گمشدہ مال" سے تشبیہ دی گئی ہے، جس کا مطلب ہے کہ مومن کو ہر جگہ سے علم حاصل کرنا چاہیے، چاہے وہ کافر یا منافق کے پاس ہی کیوں نہ ہو۔
---
۲. حکمت کی اہمیت
حضرت علی فرماتے ہیں:
"حکمت درخت ہے جو دل میں اُگتی ہے اور زبان پر پھل لاتی ہے"۔
یہ حدیث حکمت کے داخلی اور خارجی اثرات کو واضح کرتی ہے، جس میں دل کی پاکیزگی اور زبان کی سچائی شامل ہے۔
---
۳. حکمت اور عبادت کا موازنہ
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
"حکمت کی ایک بات سننا ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے"۔
[جامع الاحادیث-للسيوطي:15772]
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علم اور دانائی کی ایک مختصر سی بات بھی بے پناہ روحانی فوائد رکھتی ہے۔
---
۴. حکمت کا حصول اور تقسیم
ایک حدیث میں آیا ہے:
"حکمت بھری بات کہنا بہترین ہدیہ ہے۔ اگر کوئی مسلمان اسے سنے، اپنائے، اور اپنے بھائی تک پہنچائے، تو یہ امانت کی ادائیگی ہے"۔
[مسند الشھاب:1311، الزهد-لابن المبارك:1386]
یہ حدیث علم کو بانٹنے کی ترغیب دیتی ہے، لیکن اس کی سند کو "ضعیف" قرار دیا گیا ہے ۔
---
۵. حکمت اور عمل کی ضرورت
حضرت علی فرماتے ہیں:
"حکمت کا نور دل کو روشن کرتا ہے، اور عمل اسے مضبوط بناتا ہے"۔
اس میں نظریاتی اور عملی حکمت کے درمیان توازن کو اجاگر کیا گیا ہے۔
حضرت علی نے فرمایا:
عالم کی گفتگو تاریکیوں کیلئے پیغامِ رخصت اور اس(عالم)کی خاموشی خزانۂ علم وحکمت ہے۔
[اخلاق العلماء(امام)آجری:1/34]
---
۶. حکمت کی تقسیم
قرآن و حدیث کی روشنی میں حکمت تین اقسام پر مشتمل ہے:
۱. حکمت علمی: عقائد اور اخلاق کا علم ۔
۲. حکمت عملی: نیک اعمال اور تقویٰ۔
۳. حکمت حقیقی: دل کی نورانیت اور خوفِ خدا ۔
---
۷. حکمت اور انبیاء کا تعلق
قرآن پاک میں ارشاد ہے:
"اللہ حکمت جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے، اور جسے حکمت مل جائے، اُسے بہت بڑا خزانہ ملا"
[سورۃ البقرہ:269]
نبی کریم ﷺ کو بھی "کتاب و حکمت" کی تعلیم دی گئی، جو امت کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہے۔
[حوالہ سورۃ البقرۃ:129-151-231، آل عمران :79-164، النساء:54-113، المائدۃ:89 الاحزاب:34 الجمعہ:2]
---
۸. حکمت کے عملی مظاہر
سلیمان علیہ السلام کا واقعہ:
جب دو عورتوں کے درمیان بچے کے تنازعے کا فیصلہ کرنا تھا، تو آپ نے چھری منگوا کر بچے کو دو حصوں میں بانٹنے کا حکم دیا۔ اس سے حقیقی ماں کا جذباتی ردِ عمل سامنے آیا، اور آپ نے بچے کو اُس کے حوالے کر دیا۔[حوالہ»صحيح البخاري:6769] یہ حکمت عملی کی بہترین مثال ہے۔
---
۹. حکمت اور حسد کی ممانعت:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"حسد صرف دو چیزوں میں جائز ہے: ایک وہ شخص جسے اللہ نے مال دیا اور وہ اسے حق میں خرچ کرتا ہے، اور دوسرا وہ جسے حکمت﴿علمِ قرآن﴾ دی گئی اور وہ اس کے ذریعے فیصلہ کرتا ہے"۔
[صحيح البخاري:1409، 7141، 7316، صحيح مسلم:816،صحيح ابن حبان:832]
﴿صحيح البخاري:5026، بیھقي:7827، طبراني:13162﴾
یہ حدیث مثبت رقابت کی بھی ترغیب دیتی ہے۔
---
۱۰. حکمت کی بنیاد
حضرت انس سے فرمانِ رسول ﷺ مروی یے:
"خوفِ خدا ہر حکمت کی بنیاد ہے" ۔
یہ بات قرآن کے فرمان: "بے شک اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں" (سورۃ فاطر:28) کے عین مطابق ہے۔
[تفسیر ابن ابی حاتم:2824]
---
خلاصہ:
حکمت صرف علمی باتوں تک محدود نہیں، بلکہ یہ زندگی کے ہر موڑ پر درست فیصلوں، اخلاقی بلندی، اور اللہ سے قربت کا ذریعہ ہے۔ ان احادیث میں سے کچھ کی سند کمزور ہو سکتی ہے [مثلاً citation:1]، لیکن ان کے مفاہیم قرآن اور دیگر معتبر احادیث سے ہم آہنگ ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے مذکورہ مصادر کا مطالعہ مفید ہوگا۔
طریقۂ/عرصۂ حصولِ حکمت:
جس نے 40 دن الله کیلئے خالص کیے تو حکمت کے چشمے اس کے دل سے اس کی زبان پر ظاہر ہوں گے۔
[هناد بن السري في الزهد ٢/ ٣٥٧، جامع الأحاديث-للسيوطي:45421، كنزالعمال:5271، موسوعة التفسير المأثور:11002]
جس نے 40 دن دنیا سے بےرغبتی اختیار کی اور اخلاص سے عبادت کی،تو الله پاک اس کے دل سے اس کی زبان پر حکمت کے چشمے جاری کردےگا۔
[جامع الأحاديث-للسيوطي:22320، كنزالعمال:6193]
حکیمانہ احادیث:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ذیل میں کچھ مشہور اور مستند احادیثِ مبارکہ ان کے عربی متن، ترجمہ، حوالہ جات، اور مختصر تشریح کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں۔ نوٹ کریں کہ احادیث کی تعداد ہزاروں میں ہے، لیکن یہاں منتخب احادیث کو موضوعات کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے:
---
۱. علم کی حکمت:
عربی:
> "مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ"
ترجمہ:
"جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے راستہ اختیار کرتا ہے، اللہ اُس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے۔"
[صحیح مسلم:2699]
سبق:
علم کی تلاش ایک مقدس عمل ہے جو انسان کو اللہ اور اُس کی رضا کے قریب کرتا ہے۔
---
۲. اچھے اخلاق کی حکمت
عربی:
> "إِنَّ مِنْ أَكْمَلِ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا"
ترجمہ:
"ایمان میں سب سے کامل مومن وہ ہے جو اخلاق میں سب سے بہتر ہو۔"
[سنن ابی داؤد:4682]
سبق:
حقیقی ایمان نرمی، برداشت، اور اعلیٰ اخلاق میں ظاہر ہوتا ہے۔
---
۳. بولنے کی حکمت
عربی:
> "مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ"
ترجمہ:
"جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اُسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔"
[صحیح بخاری:6138]
سبق:
زبان کو قابو میں رکھیں—باتوں کا روحانی اور معاشرتی وزن ہوتا ہے۔
---
۴. شکرگزاری کی حکمت
عربی:
> "انْظُرُوا إِلَى مَنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَلَا تَنْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَكُمْ، فَهُوَ أَجْدَرُ أَنْ لَا تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ"
ترجمہ:
"دنیاوی معاملات میں اپنے سے نیچے والوں کو دیکھو، اُونچوں کو نہیں، تاکہ تم اللہ کی نعمتوں کو حقیر نہ سمجھو۔"
[صحیح مسلم:2963]
سبق:
شکرگزاری قلب کو مطمئن رکھتی ہے اور حسد سے بچاتی ہے۔
---
۵. بھائی چارے کی حکمت
عربی:
> "لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ"
ترجمہ:
"تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔"
[صحیح بخاری:13]
سبق:
ہمدردی اور بے غرضی اسلامی بھائی چارے کی بنیاد ہیں۔
---
۶. آزمائشوں کی حکمت
عربی:
> "عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ... إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ"
ترجمہ:
"مومن کا معاملہ عجیب ہے! ... اگر اُسے خوشی ملے تو شکر کرتا ہے، اور یہ اُس کے لیے بہتر ہے۔ اگر تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے، اور یہ بھی اُس کے لیے بہتر ہے۔"
[صحیح مسلم:2999]
سبق:
ہر حال—خوشی ہو یا مصیبت—اللہ سے قربت کا ذریعہ ہے۔
---
۷. اعمال کی حکمت:
عربی:
> "إِنَّ اللَّهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ، وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُمْ"
ترجمہ:
"اللہ تمہاری شکل و صورت یا مال کو نہیں دیکھتا، بلکہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔
[صحیح مسلم:2564]
سبق:
خلوص اور نیک اعمال ظاہری چیزوں سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔
---
۸. معافی کی حکمت
عربی:
> "رَحِمَ اللَّهُ رَجُلًا سَمْحًا إِذَا بَاعَ، وَإِذَا اشْتَرَى، وَإِذَا اقْتَضَى"
ترجمہ:
"اللہ اُس شخص پر رحم کرے جو فروخت کرتے، خریدتے یا قرض واپس لیتے وقت نرمی برتے۔"
[صحیح بخاری:2076]
سبق:
معاملات میں درگزر اور فراخ دلی حقیقی ایمان کی علامت ہے۔
---
۹. وقت کی حکمت
عربی:
> "نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ: الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ"
ترجمہ:
"دو نعمتیں ایسی ہیں جن کی قدر اکثر لوگ نہیں کرتے: صحت اور فرصت۔"
[صحیح بخاری:6412]
سبق:
وقت اور صحت کو عبادت اور نیکیوں میں استعمال کریں۔
---
۱۰. نیت کی حکمت
عربی:
> "إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ"
ترجمہ:
"اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔"
[صحیح بخاری:1]
سبق:
پاکیزہ نیت معمولی کاموں کو بھی عبادت بنا دیتی ہے۔
---
### کلیدی نکات:
یہ احادیث ﴿ایمان، اخلاق، اور روزمرہ زندگی﴾ میں توازن کی تعلیم دیتی ہیں۔ ان کے مطابق علم حاصل کریں، شکرگزار رہیں، انصاف کو قائم کریں، اور خلوص کو اپنا شعار بنائیں۔ ان تعلیمات کو اپنا کر ہم اپنی زندگیوں کو اللہ کی حکمت کے مطابق ڈھال سکتے ہیں۔
---
مزید مطالعہ کے لیے:
- صحیح بخاری اور صحیح مسلم: احادیث کے سب سے معتبر مجموعے۔
- ریاض الصالحین: روزمرہ زندگی سے متعلق 2000 سے زائد احادیث کا مجموعہ۔
- سنن ابی داؤد اور سنن الترمذی: فقہی احادیث پر مشتمل۔
تنبیہ:
کچھ احادیث کی سند میں اختلاف ہو سکتا ہے، اس لیے انہیں معتبر علماء یا مستند کتب سے تصدیق کرنا ضروری ہے۔
ایمان (سچا عقیدہ) اور نفاق (منافقت) کی حکمتیں» قرآن و سنت میں واضح طور پر بیان کی گئی ہیں۔ یہ دونوں حالات انسان کی آزادیِ ارادہ، آزمائش، اور اخروی جزا و سزا سے متعلق ہیں۔ ذیل میں ان کی حکمتوں کو قرآن کریم کی آیات اور احادیث مبارکہ کے حوالوں سے پیش کیا جاتا ہے:
---
1. ایمان (Iman) کی حکمتیں:
ایمان دل کی گہرائی سے اللہ، اُس کے رسولوں، اور آخرت پر یقین رکھنے کا نام ہے۔ یہ انسان کو روحانی طاقت، اطمینان، اور آخرت کی کامیابی عطا کرتا ہے۔
قرآن سے دلائل:
1. ہدایت اور نور:
﴿هُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ عَلَىٰ عَبْدِهِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ لِّيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ﴾ (سورۃ الحدید: 9)
"وہی ہے جو اپنے بندے پر واضح آیات نازل کرتا ہے تاکہ تمہیں تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکالے۔"
2. دل کی تسکین:
﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّهِ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ﴾ (سورۃ الرعد: 28)
"جو لوگ ایمان لائے اور اُن کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوتے ہیں۔ سن لو! اللہ کے ذکر سے دلوں کو سکون ملتا ہے۔"
3. جنت کی ضمانت:
﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾ (سورۃ البقرة: 82)
"جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے، وہی جنت والے ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔"
حدیث سے دلائل:
1. ایمان کی حلاوت:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "ذَاقَ طَعْمَ الْإِيمَانِ مَنْ رَضِيَ بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا" (صحيح مسلم: 34)
"اُس نے ایمان کی مٹھاس چکھ لی جو اللہ کو رب، اسلام کو دین، اور محمد ﷺ کو رسول مان لے۔"
2. ایمان کی شاخیں:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ شُعْبَةً، فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ" (صحيح مسلم: 35)
"ایمان کی ستر سے زائد شاخیں ہیں۔ سب سے افضل کلمہ توحید ہے، اور سب سے ادنی راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ہے۔"
---
2. نفاق (Nifaq) کی حکمتیں:
نفاق دل میں کفر چھپا کر ظاہر میں اسلام دکھانے کو کہتے ہیں۔ یہ روحانی بیماری اور آخرت میں عذاب کا سبب ہے۔
قرآن سے دلائل:
1. منافقین کی پہچان:
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ﴾ (سورۃ البقرة:8)
"بعض لوگ کہتے ہیں: ہم اللہ اور آخرت پر ایمان لائے، حالانکہ وہ مومن نہیں۔"
2. نفاق کی سزا:
﴿إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ﴾ (سورۃ النساء: 145)
"منافقین جہنم کے سب سے نیچے طبقے میں ہوں گے۔"
3. دل کی بیماری:
﴿فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا﴾ (سورۃ البقرة: 10)
"اُن کے دلوں میں بیماری ہے، تو اللہ نے اُن کی بیماری بڑھا دی۔"
حدیث سے دلائل:
1. نفاق کی علامتیں:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ" (صحيح البخاري: 33)
"منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بولے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو توڑے، اور امانت میں خیانت کرے۔"
2. نفاق کی خطرناکی:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا" (صحيح مسلم: 58)
"جس میں چار باتیں ہوں، وہ خالص منافق ہے۔"
---
3. ایمان اور نفاق کی مشترکہ حکمتیں:
1. آزادیِ ارادہ کا امتحان: اللہ نے انسان کو اختیار دیا کہ وہ ایمان یا نفاق چنے۔
2. دل کی اصلاح: ایمان دل کو جلاتا ہے، نفاق اُسے مردہ کرتا ہے۔
3. معاشرتی توازن: ایمان معاشرے کو مضبوط کرتا ہے، نفاق اُسے کمزور۔
---
4. قرآن و حدیث کی روشنی میں خلاصہ
| ایمان | نفاق | |--------------------|-------------------|
| دل کی روشنی | دل کی تاریکی |
| جنت کی راہ | جہنم کا راستہ |
| اللہ کی رضا | اللہ کی ناراضی |
قرآنی حکمت:
﴿فَمَن يُرِدِ اللَّهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ وَمَن يُرِدْ أَن يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا﴾ (سورۃ الأنعام: 125)
"جسے اللہ ہدایت دینا چاہے، اُس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے، اور جسے گمراہ کرنا چاہے، اُس کا سینہ تنگ کر دیتا ہے۔"
حدیث کی روشنی میں:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "إِنَّ الْعَبْدَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، فَيَدْخُلُهَا" (صحيح البخاري: 6594)
"بندہ جنت والے اعمال کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اُس اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے، پھر تقدیر اُس پر غالب آ جاتی ہے، اور وہ جہنم والے عمل کرتا ہے، تو داخل ہو جاتا ہے۔"
---
5. نتیجہ:
ایمان اور نفاق دونوں اللہ کی حکمتوں کے آئینہ دار ہیں۔ ایمان (1)روحانی ترقی، (2)اطمینان، اور (3)اخروی نجات کا ذریعہ ہے، جبکہ نفاق (1)دل کی بیماری، (2)معاشرتی فساد، اور (3)ابدی عذاب کا سبب۔ قرآن کا فرمان ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ﴾ (سورۃ التوبۃ: 119)
"اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔"
اللہ تعالیٰ ہمیں نفاق کے شر سے محفوظ رکھے اور خالص ایمان کی توفیق عطا فرمائے! آمین۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ذیل میں "چالیس منتخب احادیثِ حکمت" پیش کی جاتی ہیں جو زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہیں۔ یہ احادیث مستند مصادر سے لی گئی ہیں اور ان کے ساتھ حوالہ جات بھی درج کیے گئے ہیں:
---
### ۱. **علم کی فضیلت**
**حدیث**:
> "طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ"
**ترجمہ**: *"علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔"*
**ماخذ**: سنن ابن ماجہ (224)
---
### ۲. **اخلاق کی اہمیت**
**حدیث**:
> "إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ"
**ترجمہ**: *"میں اچھے اخلاق کو مکمل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔"*
**ماخذ**: موطا امام مالک (1605)
---
### ۳. **سچائی کا حکم**
**حدیث**:
> "عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ، فَإِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ"
**ترجمہ**: *"سچائی کو لازم پکڑو، کیونکہ سچ نیکی کی طرف لے جاتا ہے۔"*
**ماخذ**: صحیح بخاری (6094)
---
### ۴. **غیبت کی مذمت**
**حدیث**:
> "أَتَدْرُونَ مَا الْغِيبَةُ؟ ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ"
**ترجمہ**: *"غیبت اپنے بھائی کا اس چیز کا ذکر کرنا ہے جو اسے ناگوار ہو۔"*
**ماخذ**: صحیح مسلم (2589)
---
### ۵. **صلہ رحمی کی ترغیب**
**حدیث**:
> "مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ"
**ترجمہ**: *"جو روزی میں کشادگی چاہے، وہ رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرے۔"*
**ماخذ**: صحیح بخاری (5986)
---
### ۶. **توکل کی اہمیت**
**حدیث**:
> "لَوْ أَنَّكُمْ تَتَوَكَّلُونَ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ لَرَزَقَكُمْ كَمَا يَرْزُقُ الطَّيْرَ"
**ترجمہ**: *"اگر تم اللہ پر پورا بھروسہ کرو تو وہ تمہیں پرندوں کی طرح رزق دے گا۔"*
**ماخذ**: سنن الترمذی (2344)
---
### ۷. **نماز کی پابندی**
**حدیث**:
> "الصَّلَاةُ خَيْرُ مَوْضُوعٍ فَمَنِ اسْتَطَاعَ أَنْ يَسْتَكْثِرَ فَلْيَسْتَكْثِرْ"
**ترجمہ**: *"نماز بہترین عمل ہے، جو زیادہ پڑھ سکتا ہو، زیادہ پڑھے۔"*
**ماخذ**: سنن ابن ماجہ (277)
---
### ۸. **والدین کی اطاعت**
**حدیث**:
> "رِضَا الرَّبِّ فِي رِضَا الْوَالِدِ"
**ترجمہ**: *"اللہ کی رضا والدین کی رضا میں ہے۔"*
**ماخذ**: سنن الترمذی (1899)
---
### ۹. **نرمی کا حکم**
**حدیث**:
> "إِنَّ الرِّفْقَ لَا يَكُونُ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ"
**ترجمہ**: *"نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے، اسے خوبصورت بنا دیتی ہے۔"*
**ماخذ**: صحیح مسلم (2594)
---
### ۱۰. **حسد کی مذمت**
**حدیث**:
> "لَا تَحَاسَدُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَدَابَرُوا"
**ترجمہ**: *"حسد مت کرو، بغض مت رکھو، اور ایک دوسرے سے منہ مت پھیرو۔"*
**ماخذ**: صحیح بخاری (6065)
---
### ۱۱. **مسکین کی مدد**
**حدیث**:
> "مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً نَفَّسَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ"
**ترجمہ**: *"جو کسی مومن کی تکلیف دور کرے، اللہ قیامت میں اس کی تکلیف دور کرے گا۔"*
**ماخذ**: صحیح مسلم (2699)
---
### ۱۲. **سخی کی تعریف**
**حدیث**:
> "السَّخِيُّ قَرِيبٌ مِنَ اللَّهِ، قَرِيبٌ مِنَ النَّاسِ"
**ترجمہ**: *"سخی اللہ کے قریب ہوتا ہے اور لوگوں کے بھی قریب۔"*
**ماخذ**: سنن الترمذی (1965)
---
### ۱۳. **جھوٹ کی مذمت**
**حدیث**:
> "إِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ، فَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ"
**ترجمہ**: *"جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے۔"*
**ماخذ**: صحیح بخاری (6094)
---
### ۱۴. **صبر کی فضیلت**
**حدیث**:
> "مَا يُصِيبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ وَلَا وَصَبٍ إِلَّا كَفَّرَ اللَّهُ بِهِ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ"
**ترجمہ**: *"مسلمان کو جو تکلیف پہنچتی ہے، اللہ اس کے گناہ مٹا دیتا ہے۔"*
**ماخذ**: صحیح بخاری (5641)
---
### ۱۵. **دعا کی قبولیت**
**حدیث**:
> "ادْعُوا اللَّهَ وَأَنْتُمْ مُوقِنُونَ بِالْإِجَابَةِ"
**ترجمہ**: *"اللہ سے دعا کرو اور یقین رکھو کہ وہ قبول کرے گا۔"*
**ماخذ**: سنن الترمذی (3479)
---
### ۱۶. **علم کو پھیلانا**
**حدیث**:
> "بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً"
**ترجمہ**: *"میری طرف سے لوگوں تک پہنچاؤ، چاہے ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔"*
**ماخذ**: صحیح بخاری (3461)
---
### ۱۷. **مہمان نوازی**
**حدیث**:
> "مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ"
**ترجمہ**: *"جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ مہمان کی عزت کرے۔"*
**ماخذ**: صحیح بخاری (6138)
---
### ۱۸. **زکوٰۃ کی اہمیت**
**حدیث**:
> "بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ..."
**ترجمہ**: *"اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں..."*
**ماخذ**: صحیح بخاری (8)
---
### ۱۹. **حلال روزی**
**حدیث**:
> "طَلَبُ الْحَلَالِ فَرِيضَةٌ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ"
**ترجمہ**: *"حلال روزی کمانا فرض کے بعد فرض ہے۔"*
**ماخذ**: شعب الایمان للبیہقی (4932)
---
### ۲۰. **نیکی کی دعوت**
**حدیث**:
> "مَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِهِ"
**ترجمہ**: *"جو نیکی کی طرف راہنمائی کرے، اسے عمل کرنے والے جتنا اجر ملے گا۔"*
**ماخذ**: صحیح مسلم (1893)
---
### ۲۱. **غصہ پر قابو**
**حدیث**:
> "لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرَعَةِ، إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ"
**ترجمہ**: *"طاقتور وہ نہیں جو لوگوں کو پچھاڑ دے، بلکہ وہ جو غصے میں اپنے آپ پر قابو رکھے۔"*
**ماخذ**: صحیح بخاری (6114)
---
### ۲۲. **مسکراہٹ کی فضیلت**
**حدیث**:
> "تَبَسُّمُكَ فِي وَجْهِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ"
**ترجمہ**: *"اپنے بھائی کے چہرے پر مسکراہٹ بھی صدقہ ہے۔"*
**ماخذ**: سنن الترمذی (1956)
---
### ۲۳. **کمزور کی مدد**
**حدیث**:
> "مَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ كَانَ اللَّهُ فِي حَاجَتِهِ"
**ترجمہ**: *"جو اپنے بھائی کی حاجت پوری کرے، اللہ اس کی حاجت پوری کرتا ہے۔"*
**ماخذ**: صحیح بخاری (2442)
---
### ۲۴. **علماء کا احترام**
**حدیث**:
> "لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يُجِلَّ كَبِيرَنَا"
**ترجمہ**: *"وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے بڑوں کا احترام نہ کرے۔"*
**ماخذ**: سنن ابی داؤد (4943)
---
### ۲۵. **دوستی کا معیار**
**حدیث**:
> "الْمَرْءُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ"
**ترجمہ**: *"آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے۔"*
**ماخذ**: سنن ابی داؤد (4833)
---
### ۲۶. **وقت کی قدر**
**حدیث**:
> "نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ: الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ"
**ترجمہ**: *"دو نعمتیں جن کی قدر نہیں کی جاتی: صحت اور فرصت۔"*
**ماخذ**: صحیح بخاری (6412)
---
### ۲۷. **برے خیالوں سے بچاؤ**
**حدیث**:
> "إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ لِي عَنْ أُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَكَلَّمْ"
**ترجمہ**: *"اللہ نے میری امت کے دل کے خیالوں کو معاف کر دیا ہے، جب تک وہ عمل یا بات نہ کریں۔"*
**ماخذ**: صحیح بخاری (5269)
---
### ۲۸. **دعا کی قبولیت کا وقت**
**حدیث**:
> "الدُّعَاءُ لَا يُرَدُّ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ"
**ترجمہ**: *"اذان اور اقامت کے درمیان دعا رد نہیں ہوتی۔"*
**ماخذ**: سنن الترمذی (212)
---
### ۲۹. **کتابتِ علم**
**حدیث**:
> "قَيِّدُوا الْعِلْمَ بِالْكِتَابِ"
**ترجمہ**: *"علم کو لکھ کر محفوظ کرو۔"*
**ماخذ**: سنن الدارمی (588)
---
### ۳۰. **معاف کرنے کی فضیلت**
**حدیث**:
> "تَعَافَوْا تُرْفَعْ لَكُمُ الْأَعْمَالُ"
**ترجمہ**: *"آپس میں معاف کر دو، تمہارے اعمال بلند کیے جائیں گے۔"*
**ماخذ**: شعب الایمان للبیہقی (8663)
---
### ۳۱. **حسد سے بچاؤ**
**حدیث**:
> "لَا تَقْطَعُوا، وَلَا تَدَابَرُوا، وَلَا تَحَاسَدُوا"
**ترجمہ**: *"رشتے نہ توڑو، منہ نہ پھیرو، اور حسد نہ کرو۔"*
**ماخذ**: صحیح بخاری (6065)
---
### ۳۲. **نمازِ جمعہ کی اہمیت**
**حدیث**:
> "مَنْ تَرَكَ ثَلَاثَ جُمَعٍ تَهَاوُنًا طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قَلْبِهِ"
**ترجمہ**: *"جو تین جمعے سستی سے چھوڑے، اللہ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔"*
**ماخذ**: سنن ابی داؤد (1052)
---
### ۳۳. **صلح کی ترغیب**
**حدیث**:
> "الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا صُلْحًا حَرَّمَ حَلَالًا أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا"
**ترجمہ**: *"مسلمانوں کے درمیان صلح جائز ہے، سوائے اس صلح کے جو حلال کو حرام یا حرام کو حلال کر دے۔"*
**ماخذ**: سنن ابی داؤد (3594)
---
### ۳۴. **نیک مشورہ**
**حدیث**:
> "الدِّينُ النَّصِيحَةُ"
**ترجمہ**: *"دین خیرخواہی کا نام ہے۔"*
**ماخذ**: صحیح مسلم (55)
---
### ۳۵. **عمل کا دارومدار نیت پر**
**حدیث**:
> "إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ"
**ترجمہ**: *"اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔"*
**ماخذ**: صحیح بخاری (1)
---
### ۳۶. **مسجد کی تعمیر**
**حدیث**:
> "مَنْ بَنَى مَسْجِدًا لِلَّهِ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ"
**ترجمہ**: *"جو اللہ کے لیے مسجد بنائے، اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بناتا ہے۔"*
**ماخذ**: صحیح بخاری (450)
---
### ۳۷. **صدقہ کی فضیلت**
**حدیث**:
> "الصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِيئَةَ كَمَا يُطْفِئُ الْمَاءُ النَّارَ"
**ترجمہ**: *"صدقہ گناہوں کو ایسے مٹاتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔"*
**ماخذ**: سنن الترمذی (614)
---
### ۳۸. **علم کی حفاظت**
**حدیث**:
> "مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ فَكَتَمَهُ أُلْجِمَ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ"
**ترجمہ**: *"جو علم چھپائے، اس کے منہ میں آگ کی لگام ڈالی جائے گی۔"*
**ماخذ**: سنن ابی داؤد (3658)
---
### ۳۹. **کثرتِ ذکر**
**حدیث**:
> "أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرِ أَعْمَالِكُمْ؟ ذِكْرُ اللَّهِ تَعَالَى"
**ترجمہ**: *"کیا میں تمہیں تمہارے بہترین عمل نہ بتاؤں؟ اللہ کا ذکر۔"*
**ماخذ**: سنن الترمذی (3377)
---
### ۴۰. **امانت داری**
**حدیث**:
> "أَدِّ الْأَمَانَةَ إِلَى مَنِ ائْتَمَنَكَ، وَلَا تَخُنْ مَنْ خَانَكَ"
**ترجمہ**: *"امانت اُسے لوٹا دو جس نے تم پر بھروسہ کیا، اور خیانت کرنے والے سے بدلہ نہ لو۔"*
**ماخذ**: سنن ابی داؤد (3535)
---
### **آخری بات**:
یہ احادیث زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ ان پر عمل کرنا ہمارے ایمان، اخلاق، اور معاشرتی تعلقات کو مضبوط بناتا ہے۔ احادیث کی تصدیق کے لیے معتبر علماء یا مستند کتب سے رجوع کریں۔
عقل (Reason) اور نقل (Textual Evidence) کی حکمتیں قرآن و سنت کی روشنی میں درج ذیل ہیں:
---
1. عقل (عقلی استدلال) کی حکمتیں:
عقل اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ وہ صلاحیت ہے جو انسان کو حق و باطل میں تمیز کرنے، غور و فکر کرنے، اور شریعت کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔
قرآن سے دلائل:
1. عقل کی ترغیب:
﴿أَفَلَا تَعْقِلُونَ﴾ (البقرة:44)
"کیا تم عقل نہیں رکھتے؟"
2. تفکر کی اہمیت:
﴿إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ﴾ (آل عمران: 190)
"آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔"
3. علم کی بنیاد:
﴿قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ﴾ (الزمر: 9)
"کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں؟"
حدیث سے دلائل:
1. اجتہاد کی اجازت:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نے مُعَاذ بن جَبَل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے ہوئے فرمایا: "بِمَ تَقْضِي؟ قَالَ: بِكِتَابِ اللَّهِ، قَالَ: فَإِنْ لَمْ تَجِدْ؟ قَالَ: بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ، قَالَ: فَإِنْ لَمْ تَجِدْ؟ قَالَ: أَجْتَهِدُ رَأْيِي" (سنن أبي داود: 3592، صحیح)
"آپ کیسے فیصلہ کریں گے؟ کہا: اللہ کی کتاب سے، فرمایا: اگر نہ ملے؟ کہا: رسول اللہ کی سنت سے، فرمایا: اگر نہ ملے؟ کہا: اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔"
2. عقل کی تعریف:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نے ارشاد فرمایا:كَرَمُ الْمَرْءِ دِينُهُ، وَمُرُوءَتُهُ عَقْلُهُ، وَحَسَبُهُ خُلُقُهُ۔ (صحیح ابن حبان:734، حاکم:430)
آدمی کی شرافت اس کا دین ہے، اور اس کی مروت و انسانیت عقل (میں) ہے، اور حسب (خاندانی عزت) اس کے اخلاق ہیں۔
---
2. نقل (نصوصِ شرعیہ) کی حکمتیں:
نقل سے مراد قرآن، سنت، اور صحیح احادیث ہیں، جو شریعت کے بنیادی ماخذ ہیں۔
قرآن سے دلائل:
1. وحی کی اطاعت:
﴿وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ﴾ (النحل: 44)
"ہم نے تم پر ذکر (قرآن) نازل کیا تاکہ تم لوگوں کے لیے واضح کر دو۔"
2. سنت کی پیروی:
﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا﴾ (الحشر: 7)
"رسول تمہیں جو دیں، وہ لے لو، اور جس سے منع کریں، باز آ جاؤ۔"
حدیث سے دلائل:
1. قرآن و سنت کی اہمیت:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نے فرمایا: "تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّتِي" (موطأ مالک: 1661، صحیح)
"میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، جب تک تم اُنہیں تھامے رہو گے، گمراہ نہیں ہو گے: اللہ کی کتاب اور میری سنت۔"
2. حدیث کا درجہ:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ" (سنن أبي داؤد: 4604، صحیح)
"سن لو! مجھے کتاب (قرآن) دی گئی ہے اور اُس کے ساتھ اُس جیسی چیز (سنت) بھی۔"
---
3. عقل اور نقل کا باہمی تعلق:
| عقل | نقل |
|----------|----------|
| شریعت کو سمجھنے کا ذریعہ | شریعت کا بنیادی ماخذ |
| اجتہاد کی بنیاد | نص کی تشریح |
| محدود دائرہ کار | قطعی حجیت |
قرآنی حکمت:
﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ﴾ (النساء: 59)
"اگر کسی معاملے میں اختلاف ہو تو اُسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ۔"
حدیث کی روشنی میں:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يَكُونَ هَوَاهُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِهِ" (شعب الإيمان للبیہقی: 109، صحیح) "تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک اُس کی خواہشات میری لائی ہوئی چیز کے تابع نہ ہو جائیں۔"
---
4. خلاصہ:
1. عقل کی حکمتیں:
- حقائق کو سمجھنے، غور و فکر کرنے، اور اجتہاد کی صلاحیت۔
- اللہ کی نشانیوں پر تدبر۔
2. نقل کی حکمتیں:
- وحی کی حفاظت اور تشریح۔
- گمراہی سے بچاؤ اور سنت کی پیروی۔
3. تکمیلی رشتہ:
- عقل نقل کو سمجھنے کا ذریعہ ہے، اور نقل عقل کو راہنمائی فراہم کرتی ہے۔
- امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "العقل نور والشرع نور، ونور علی نور"
"عقل نور ہے اور شرع نور، اور نور پر نور۔
اللہ تعالیٰ ہمیں عقل و نقل کے درمیان اعتدال کی توفیق دے! آمین۔
کتاب (قرآن) اور آثار/روایات (حدیث و سنت) کی حکمتیں قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں
---
1. کتاب (قرآن مجید) کی حکمتیں:
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام اور انسانیت کے لیے مکمل ہدایت ہے۔ اس کی حکمتیں درج ذیل ہیں:
قرآن سے دلائل:
1. ہدایت اور رحمت:
﴿ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ﴾ (البقرة: 2)
"یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں، پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔"
2. حق و باطل کی تمیز:
﴿وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ﴾ (النحل: 89)
"ہم نے تم پر کتاب نازل کی جو ہر چیز کو واضح کرنے والی ہے۔"
3. حفظِ الٰہی:
﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾ (الحجر: 9)
"بے شک ہم نے ہی ذکر (قرآن) نازل کیا ہے، اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔"
حدیث سے دلائل:
1. قرآن کی فضیلت:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ" (صحيح البخاري: 5027)
"تم میں سے بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔"
2. قرآن کی شفاعت:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "اقْرَءُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لِأَصْحَابِهِ" (صحيح مسلم: 804)
"قرآن پڑھو، کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کی شفاعت کرے گا۔"
---
2. آثار/روایات (حدیث و سنت) کی حکمتیں:
حدیث و سنت رسول اللہ ﷺ کے اقوال، افعال، اور تقریرات ہیں، جو قرآن کی عملی تفسیر ہیں۔
قرآن سے دلائل:
1. اطاعتِ رسول:
﴿مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ﴾ (النساء: 80)
"جس نے رسول کی اطاعت کی، اُس نے اللہ کی اطاعت کی۔"
2. سنت کی اتباع:
﴿وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا﴾ (النور: 54)
"اگر تم اُس کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے۔"
3. وحی کی حیثیت:
﴿وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ﴾ (النجم: 3-4)
"وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتے، یہ تو صرف وحی ہے جو اُن کی طرف بھیجی جاتی ہے۔"
حدیث سے دلائل:
1. سنت کی اہمیت:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّتِي" (موطأ مالک: 1661، صحیح)
"میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، جب تک تم اُنہیں تھامے رہو گے، گمراہ نہیں ہو گے: اللہ کی کتاب اور میری سنت۔"
2. حدیث کی حجیت:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ" (سنن أبي داؤد: 4604، صحیح)
"سن لو! مجھے کتاب (قرآن) دی گئی ہے اور اُس کے ساتھ اُس جیسی چیز (سنت) بھی۔"
3. سنت کی پیروی:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي" (صحيح البخاري: 5063)
"جو میری سنت سے منہ موڑے، وہ مجھ سے نہیں۔"
---
3. قرآن و سنت کا باہمی تعلق:
| قرآن | سنت |
|-----------|----------|
| اللہ کا کلام، اصل مصدر | رسول اللہ ﷺ کی عملی تفسیر |
| اصولوں کی تفصیل | تطبیق اور عملی نمونہ |
| قیامت تک محفوظ | احادیث کی تدوین و تحقیق |
قرآنی حکمت:
﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (الأحزاب: 21)
"تمہارے لیے رسول اللہ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔"
نوٹ: یہ نمونہ کتاب و روایات سے ثابت ہوتا ہے۔
حدیث کی روشنی میں:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ، بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ" (الشريعة للآجري: 1166، جامع بيان العلم:1720)
"میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں، تم جس کی بھی پیروی کرو گے، ہدایت پاؤ گے۔"
نوٹ: صحابہ کی باتیں بھی روایات سے ثابت ہوتا ہے۔
---
4. نتیجہ:
قرآن اور سنت دونوں اسلام کے دو بنیادی ماخذ ہیں۔ قرآن "اصولی ہدایت" فراہم کرتا ہے، جبکہ سنت اُس کی "عملی تشریح" پیش کرتی ہے۔ جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"کل ما حكم به رسول الله ﷺ فهو مما فهمه من القرآن"
"رسول اللہ ﷺ کا ہر فیصلہ قرآن کی تفہیم پر مبنی ہے۔"
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و سنت کو مضبوطی سے تھامنے اور اُن کی حکمتوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے! آمین۔
تقلید (Taqleed) اور تحقیق (Tehqeeq) کی حکمتیں قرآن و سنت کی روشنی میں
---
### 1. تقلید کی تعریف اور حکمتیں:
"تقلید" سے مراد کسی معتبر فقہی مکتبِ فکر (مثلاً حنفی، شافعی) کی پیروی کرنا ہے، خاص طور پر جب خود اجتہاد کی صلاحیت نہ ہو۔
#### قرآن سے دلائل:
1. اہل علم کی پیروی:
﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ (النحل: 43)
"اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھو۔"
2. اتباعِ سلف:
﴿وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ﴾ (التوبہ: 100)
"پہلے پیش قدمی کرنے والے مہاجرین، انصار، اور جو نیکی کے ساتھ اُن کی پیروی کرنے والوں سے اللہ راضی"
#### حدیث سے دلائل:
1. اجماعِ امت کی اہمیت:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "عَلَيْكُمْ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ" (سنن ابن ماجہ: 3950، حسن)
"تم اکثریت (جماعت) کے ساتھ رہو۔"
2. صحابہ کی تقلید:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نے مُعَاذ بن جَبَل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے ہوئے فرمایا: "بِمَ تَقْضِي؟ قَالَ: بِكِتَابِ اللَّهِ، قَالَ: فَإِنْ لَمْ تَجِدْ؟ قَالَ: بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ، قَالَ: فَإِنْ لَمْ تَجِدْ؟ قَالَ: أَجْتَهِدُ رَأْيِي" (سنن أبي داود: 3592، صحیح)
"آپ کیسے فیصلہ کریں گے؟ کہا: اللہ کی کتاب سے، فرمایا: اگر نہ ملے؟ کہا: رسول اللہ کی سنت سے، فرمایا: اگر نہ ملے؟ کہا: اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔"
تقلید کی حکمتیں:
- اتحاد اور انضباط: مختلف فقہی مکاتبِ فکر (حنفی، شافعی وغیرہ) نے امت کو (ہر عوام-غیرماہر کے الگ الگ فکری) انتشار سے بچایا۔
- علمی تسلسل: سلف صالحین کی میراث کو محفوظ کیا۔
- عامۃ الناس کی سہولت: ہر فرد کے لیے اجتہاد ممکن نہیں، لہذا ماہرین پر اعتماد۔
---
### 2. تحقیق (اجتہاد) کی حکمتیں:
تحقیق: سے مراد قرآن و سنت سے براہِ راست استنباط کرنا ہے، جس کے لیے علمِ دین کی گہری سمجھ ضروری ہے۔
#### قرآن سے دلائل:
1. غور و فکر کی ترغیب:
﴿أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ﴾ (النساء: 82)
"کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟"
2. علم کی فضیلت:
﴿قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ﴾ (الزمر: 9)
"بتاؤ! کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں؟"
#### حدیث سے دلائل:
1. اجتہاد کی اجازت:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِنْ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ" (صحيح البخاري: 7352)
"جب حاکم اجتہاد کرے اور صحیح فیصلہ کرے تو اُس کے لیے دو اجر ہیں، اور اگر غلطی کرے تو ایک اجر۔"
2. علم کی تلاش:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "اطْلُبُوا الْعِلْمَ وَلَوْ بِالصِّين" (شعب الإيمان للبیہقی: 1663، مسند البزار:95)
"علم حاصل کرو، چاہے تمہیں چین جانا پڑے۔"
تحقیق کی حکمتیں:
- دین کی تجدید: نئے مسائل کے حل کے لیے اجتہاد ضروری ہے۔
- فکری آزادی: قرآن و سنت کو براہِ راست سمجھنے کا موقع۔
- علمی ترقی: فقہی ذخیرے کو وسعت دینا۔
---
### 3. تقلید اور تحقیق کا باہمی تعلق:
| تقلید | تحقیق |
|------------|------------|
| موجودہ علمی ورثے کی حفاظت | نئے مسائل کا حل |
| عوام کی سہولت | علماء کی ذمہ داری |
| اتحاد اور استحکام | تجدید اور ترقی |
قرآنی حکمت:
﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا﴾ (آل عمران: 103)
"اللہ کی رسی کو سب مل کر تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔"
حدیث کی روشنی میں:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "الْعُلَمَاءُ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ" (سنن أبي داود: 3641، صحیح)
"علماء انبیاء کے وارث ہیں۔"
نوٹ: انبیاء وعلماء کی اتباع کی مشروعیت، علمی ورثہ کی اتباع کرنے کے سبب ہے۔
---
### 4. تقلید اور تحقیق کے حدود:
1. تقلید کی شرائط:
- عالم کی صلاحیت پر اعتماد۔
- تقلید تعصب کی بجائے علم کی بنیاد پر ہو۔
2. تحقیق کی شرائط:
- قرآن، سنت، عربی زبان، اور اصولِ فقہ کی مکمل سمجھ۔
- موجودہ فقہی ذخیرے کا احترام۔
---
### 5. تاریخی مثالیں:
- امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ: اپنے استاد امام جعفر صادق رحمہ اللہ سے استفادہ کیا، لیکن نئے مسائل میں اجتہاد بھی کیا۔
- امام شافعی رحمہ اللہ: پہلے امام مالک کی تقلید کی، پھر اپنا مکتبِ فکر قائم کیا۔
---
### 6. نتیجہ:
تقلید اور تحقیق دونوں اسلام کے علمی نظام کا حصہ ہیں۔ "تقلید" عامۃ الناس کے لیے سہولت اور اتحاد کا ذریعہ ہے، جبکہ "تحقیق" دین اور زمانے کے تقاضوں کو ہم آہنگ کرتی ہے۔ دونوں کا مقصد قرآن و سنت کی صحیح پیروی ہے۔ جیسا کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"الْحَقُّ لَا يُعْلَمُ بِالرِّجَالِ، بَلِ الرِّجَالُ يُعْرَفُونَ بِالْحَقِّ"
"حق کو افراد سے نہیں پہچانا جاتا، بلکہ افراد کو حق سے پہچانا جاتا ہے۔"
اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور تقلید و تحقیق میں اعتدال کی توفیق دے! آمین۔
علم (Knowledge) اور جہالت (Ignorance) کی حکمتیں قرآن و سنت کی روشنی میں
---
### 1. علم کی فضیلت اور حکمتیں:
"علم" سے مراد وہ نور ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کیا ہے، جس کے ذریعے حق و باطل، حلال و حرام، اور نیک و بد کی تمیز ہوتی ہے۔
#### قرآن سے دلائل:
1. علم کی بلندی:
﴿يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ﴾ (المجادلة: 11)
"اللہ تم میں سے ایمان والوں اور علم والوں کے درجے بلند کرتا ہے۔"
2. علم کی برتری:
﴿قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ﴾ (الزمر: 9)
"کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں؟"
3. علم کی دعوت:
﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ (النحل: 43)
"اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھو۔"
#### حدیث سے دلائل :
1. علم کی طلب:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ" (سنن ابن ماجہ: 224، صحیح)
"علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔"
2. علماء کی فضیلت:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "العُلَمَاءُ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ" (سنن ابی داؤد: 3641، صحیح)
"علماء انبیاء کے وارث ہیں۔"
3. علم کا ثواب:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ" (صحیح مسلم: 2699)
"جو علم کی تلاش میں نکلے، اللہ اُس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے۔"
---
### 2. جہالت کی مذمت اور نتائج:
"جہالت" سے مراد دین یا دنیا کے حقائق کو نہ جاننا یا غلط عقائد پر عمل کرنا ہے، جو انسان کو گمراہی کی طرف لے جاتی ہے۔
#### قرآن سے دلائل:
1. جہالت کی تباہی:
﴿إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللَّهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ﴾ (النساء: 17)
"بے شک اللہ اُن کی توبہ قبول کرتا ہے جو جہالت کی وجہ سے برے کام کر بیٹھیں۔"
2. جہالت سے بچاؤ:
﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ﴾ (البقرة: 170)
"جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ احکام کی پیروی کرو، تو کہتے ہیں: ہم تو اپنے (مشرک)باپ دادا کے طریقے پر چلیں گے، چاہے وہ عقل و ہدایت سے محروم ہی کیوں نہ ہوں۔"
#### حدیث سے دلائل:
1. جہالت کی خطرناکی:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ النَّاسِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ" (صحیح بخاری: 100)
"اللہ علم کو لوگوں سے اُچک کر نہیں لے گا، بلکہ علماء کو اُٹھا کر علم ختم کر دے گا۔"
2. جاہلوں سے دوری:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقْبَضَ الْعِلْمُ، وَيَكْثُرَ الْجَهْلُ" (صحیح بخاری: 80)
"قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک علم اُٹھا نہ لیا جائے اور جہالت عام نہ ہو جائے۔"
---
### 3. علم اور جہالت کی حکمتیں
| *علم* | *جہالت* |
|---------- |------------|
| ہدایت اور روشنی | گمراہی اور تاریکی |
| اللہ کی رضا | اللہ کی ناراضی |
| معاشرتی ترقی | معاشرتی زوال |
| اخروی نجات | اخروی عذاب |
قرآنی حکمت:
﴿قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ﴾ (الرعد: 16)
"کیا اندھا اور بینا برابر ہو سکتے ہیں؟ یا کیا تاریکیاں اور روشنی یکساں ہو سکتی ہیں؟"
حدیث کی روشنی میں:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ" (صحیح بخاری: 71)
"جس کے ساتھ اللہ بھلائی چاہتا ہے، اُسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے"۔
---
### 4. نتیجہ:
علم انسان کو "اللہ کی قربت، معاشرتی انصاف، اور روحانی بلندی" کی طرف لے جاتا ہے، جبکہ جہالت "شیطانی وسوسوں، گمراہی، اور تباہی" کا سبب بنتی ہے۔ قرآن و سنت نے علم کو زندگی کا نور اور جہالت کو تاریکی قرار دیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے:
﴿فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ﴾ (محمد: 19)
"جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔"
اللہ تعالیٰ ہمیں علم نافع عطا فرمائے اور جہالت کے اندھیروں سے محفوظ رکھے! آمین۔
علماءِ کرام، مفتیانِ عظام اور پیر و شیوخِ تزکیہ کی حکمتیں قرآن و سنت کی روشنی میں
---
### 1. علماءِ کرام کی حکمتیں:
علماء دین کے محافظ، قرآن و حدیث کے شارح، اور امت کے رہنما ہیں۔ ان کی حکمتیں قرآن و سنت میں واضح ہیں:
#### قرآن سے دلائل:
1. علم کی فضیلت:
﴿يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ﴾ (المجادلة: 11)
"اللہ تم میں سے ایمان والوں اور علم والوں کے درجے بلند کرتا ہے۔"
2. علم کی اشاعت:
﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ (النحل: 43)
"اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھو۔"
#### حدیث سے دلائل:
1. علماء کی اہمیت:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "العُلَمَاءُ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ" (سنن ابی داؤد: 3641، صحیح)
"علماء انبیاء کے وارث ہیں۔"
2. علم کی دعوت:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ" (صحیح مسلم: 2699)
"جو علم کی تلاش میں نکلے، اللہ اُس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے۔"
---
### 2. مفتیانِ عظام کی حکمتیں:
مفتیانِ کرام شرعی مسائل کے حل اور فقہی رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔
#### قرآن سے دلائل:
1. شرعی احکام کی وضاحت:
﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ﴾ (النساء: 59)
"اگر کسی معاملے میں اختلاف ہو تو اُسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ۔"
2. فتویٰ کی ذمہ داری:
﴿وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَٰذَا حَلَالٌ وَهَٰذَا حَرَامٌ﴾ (النحل: 116)
"اپنی طرف سے حرام و حلال کا فیصلہ نہ کرو۔"
#### حدیث سے دلائل:
1. فتویٰ کی اہمیت:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "مَنْ أُفْتِيَ بِغَيْرِ عِلْمٍ كَانَ إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ" (سنن ابن ماجہ: 53، حسن)
"بغیر علم کے فتویٰ دینے والے کا گناہ اُس پر ہوگا۔"
2. فقہاء کی فضیلت:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ" (صحیح بخاری: 71)
"جس کے ساتھ اللہ بھلائی چاہتا ہے، اُسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔"
---
### 3. پیر و شیوخِ تزکیہ کی حکمتیں:
یہ بزرگ نفس کی تربیت اور روحانی پاکیزگی کے ذریعہ اللہ کی قربت کا راستہ دکھاتے ہیں۔
#### قرآن سے دلائل:
1. تزکیہ نفس کی اہمیت:
﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا * وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا﴾ (الشمس: 9-10)
"جس نے اپنے نفس کو پاک کیا، وہ کامیاب ہوا، اور جس نے اُسے آلودہ کیا، وہ ناکام ہوا۔"
2. اخلاص کی تعلیم:
﴿إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ﴾ (الشعراء: 89)
"سوائے اُس کے جو اللہ کے پاس پاک دل لے کر آیا۔"
#### حدیث سے دلائل:
1. تزکیہ کی ضرورت:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى أَجْسَادِكُمْ وَلَا إِلَى صُوَرِكُمْ، وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ" (صحیح مسلم: 2564)
"اللہ تمہارے جسم اور صورتوں کو نہیں، بلکہ دلوں کو دیکھتا ہے۔"
2. مرشد کی رہنمائی:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "الرَّاحِلُ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ تُظِلُّهُ الْمَلَائِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا" (سنن الترمذی: 2682، صحیح)
"علم کی تلاش میں نکلنے والے پر فرشتے اپنے پروں کا سایہ کرتے ہیں۔"
---
### 4. خلاصہ:
| **علماء** | **مفتیان** | **شیوخِ تزکیہ** |
|------------|-------------|-------------------|
| قرآن و حدیث کے شارح | شرعی مسائل کے حل کار | نفس کی تربیت کرنے والے |
| امت کی علمی رہنمائی | فقہی استنباط | روحانی پاکیزگی |
| سنت کی حفاظت | معاشرتی انصاف | اللہ کی قربت کا ذریعہ |
قرآنی حکمت:
﴿وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ﴾ (التوبہ: 122)
"تمام مومنوں کے لیے ممکن نہیں کہ (علم کے لیے) نکل کھڑے ہوں، تو کیوں نہ ہر گروہ میں سے کچھ لوگ نکل کھڑے ہوں تاکہ دین کی سمجھ حاصل کریں۔"
حدیث کی روشنی میں:
> رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ" (صحیح بخاری: 5027)
"تم میں سے بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔"
علماء، مفتیان، اور شیوخِ تزکیہ کا وجود امتِ مسلمہ کے لیے "علم، عدالت، اور روحانیت" کا ثلاثی نظام ہے۔ یہ تینوں طبقے قرآن و سنت کی روشنی میں امت کی رہنمائی کرتے ہیں، جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:
﴿وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ﴾ (آل عمران: 104)
"تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے۔"
اللہ تعالیٰ ہمیں ان کی پیروی کرنے اور دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔ آمین!
No comments:
Post a Comment