Sunday, 9 February 2025

اصول فقہ»احکام کے درجات


دین کا ضروری علم نہ ہونا 'عذر' نہیں بلکہ 'جرم' ہے۔


واضح رہے کہ جیسے زندگی کے ہر شعبہ میں دینی احکام پر چلنا لازم ہے، ایسے ہی دینی احکام سیکھنا بھی لازم ہے؛ لہذا جس عبادت یا معاملہ سے کسی کا واسطہ پڑتا ہے، اس کے ضروری مسائل سیکھنا اس پر فرض ہوجاتا ہے، یہی محمل ہے اس حدیث کا جس میں نبی کریمﷺ نے علم سیکھنا ہر مسلمان پر فرض قرار دیا ہے۔


اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حلال یا حرام کا علم نہ ہونا، یا کسی مسئلہ کا علم نہ ہونا، یہ 'عذر' نہیں بلکہ 'جرم' ہے۔


تاہم کچھ مسائل جن کا تعلق الفاظِ کفر یا عقوبات یا کفار کے ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے بعض خصوصی احوال سے ہے، ان میں جہل کی وجہ سے حکم پر فرق آتا ہے، جو کہ فقہاء نے اپنے مواقع پر تصریح کے ساتھ بیان کیے ہیں۔


الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 42):


"قال العلامي في فصوله: من فرائض الإسلام تعلمه ما يحتاج إليه العبد في إقامة دينه وإخلاص عمله لله تعالى ومعاشرة عباده. وفرض على كل مكلف ومكلفة بعد تعلمه علم الدين والهداية تعلم علم الوضوء والغسل والصلاة والصوم، وعلم الزكاة لمن له نصاب، والحج لمن وجب عليه والبيوع على التجار ليحترزوا عن الشبهات والمكروهات في سائر المعاملات. وكذا أهل الحرف، وكل من اشتغل بشيء يفرض عليه علمه وحكمه ليمتنع عن الحرام فيه اهـ.


مطلب في فرض الكفاية وفرض العين:


وفي تبيين المحارم: لا شك في فرضية علم الفرائض الخمس وعلم الإخلاص؛ لأن صحة العمل موقوفة عليه وعلم الحلال والحرام وعلم الرياء؛ لأن العابد محروم من ثواب عمله بالرياء، وعلم الحسد والعجب إذ هما يأكلان العمل كما تأكل النار الحطب، وعلم البيع والشراء والنكاح والطلاق لمن أراد الدخول في هذه الأشياء وعلم الألفاظ المحرمة أو المكفرة، ولعمري هذا من أهم المهمات في هذا الزمان؛ لأنك تسمع كثيرا من العوام يتكلمون بما يكفر وهم عنها غافلون، والاحتياط أن يجدد الجاهل إيمانه كل يوم ويجدد نكاح امرأته عند شاهدين في كل شهر مرة أو مرتين، إذ الخطأ وإن لم يصدر من الرجل فهو من النساء كثير."


الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 297):


"(قوله: لا جاهلًا إلخ) هو على سبيل اللف والنشر المشوش. والظاهر أن الجهل إنما ينفي كونه كبيرة لا أصل الحرمة إذ لا عذر بالجهل بالأحكام في دار الإسلام، أفاده ط."


تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (5 / 257):


أما قبل البيع فلا يسقط به لأن إسقاط الحق قبل وجوبه لا يصح وبعده يسقط بالإسقاط علم بالسقوط، أو لم يعلم؛ لأنه لا يعذر بالجهل بالأحكام في دار الإسلام


البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2 / 282):


"فإنّ الجهل بالأحكام في دار الإسلام ليس بمعتبر."


شرح القواعد الفقهية (1 / 482):


"الجهل بالأحكام في دار الإسلام ليس عذرًا "، فمن باشر عملًا مدنيًا أو جنائيًا، ثم أراد التخلص من المسؤولية بحجة جهله الحكم الشرعي المرتب على هذا الفعل فجهله لايعفيه من النتائج المدنية _ أي المالية _ مطلقًا. أما النتائج الجزائية فللجهل فيها إذا تحقق تأثيره ضمن حدود تعرف في مواطنها من مباحث العقوبات.


وهذه أيضًا قاعدة تتبناها النظريات القانونية الحديثة، فإن من المقرر فيها أن الجهل بالقانون ليس عذرا، لأن الرعية مكلفة أن تعلم به بعد إعلانه، وإلا لتذرع كل إنسان بالجهل للتخلص من طائلة القانون.


ويستثنى من هذه القاعدة ما إذا تكلم الإنسان بما يكفر جاهلا أنه مكفر، فإنه لايحكم عليه بالكفر."


فقط واللہ اعلم









۱۔ سنت کا لغوی معنیٰ:

خاص طریقہ، ضابطہ، طرز، وغیرہ۔

سنت کا اصطلاحی معنیٰ محدثین کے نزدیک سنت:

ہر وہ قول، فعل، تقریر اور صفت ہے (چاہے پیدائشی ہو یا بعد میں اپنائی ہوئی ہو) جس کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف کی جائے، برابر ہے کہ وہ رسالت ملنے سے پہلے ہو یا بعد میں۔

فقہاء کے نزدیک سنت کی تعریف یہ ہے کہ:

ہر وہ فعل جس کو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے عبادت کی حیثیت سے ہمیشہ کیا ہو اور کبھی کبھار  اس کو چھوڑا بھی ہو۔ 


سنت کی پھر دو قسمیں ہیں :


سنت مؤکدہ وہ سنت نماز ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیشہ مداومت کے ساتھ پڑھی ہے، اور کبھی بھی بلا کسی شدید عذر کے اسے چھوڑا نہیں ہے، جب کہ سنت غیر مؤکدہ وہ سنت نماز ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی پڑھی ہے اور کبھی بلا کسی عذر کے چھوڑی بھی ہے۔


۲۔ "فرض" اسے کہتے ہیں جو کسی قطعی دلیل مثلًا: قرآن کریم کی کسی واضح آیت یا متواتر حدیث سے ثابت ہو، نیز فرض کا منکر کافر ہے۔


۳۔"واجب"وہ حکم کہلاتا ہے جو  ظنی دلیل سے ثابت شدہ ہو، نیز فرض کا منکر کافر ہوجاتا ہے، واجب کے انکار پر کفر کا حکم نہیں لگتا، البتہ اس کا ترک کرنے والا فاسق کہلاتا ہے۔


۴۔ مستحب کا معنیٰ ہے وہ عمل جو رسول اللہ ﷺ یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہو، لیکن اس پر رسول اللہ ﷺ یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پابندی نہ فرمائی ہو، کبھی وہ عمل کیا ہو اور کبھی چھوڑ دیا ہو۔


۵۔ حرام وہ ہے جس سے شرعا سختی سے روکا گیا ہو  دلیل قطعی کے ساتھ۔


 ۶۔"مکروہ" ناپسندیدہ کو کہتے ہیں، اورفقہاء نے اس کی دوقسمیں لکھی ہیں: مکروہِ تحریمی : "تحریمی" کا مطلب جو حرام سے قریب ہو۔ یعنی  "مکروہِ تحریمی": شرعاً وہ ناپسندیدہ امر ہے جو حرام سے قریب ہو، اور اس کا کرنے والا عتاب (اللہ اور اس کے رسول کے غصہ وناراضی) کا مستحق ہو۔


مکروہِ تنزیہی :" مکروہِ تنزیہی": وہ ہے جو حلال سے قریب ہو۔


۷۔ مباح: جس کام کا کرنا اور نہ کرنا دونوں حکم کے اعتبار سے برابر ہوں یعنی اس کے کرنے میں نہ ثواب ہے اور نہ ہی ترک میں کوئی گناہ۔ اشیاء میں اصل حکم اباحت ہی کا ہے ۔


حوالہ

فتاوی شامی میں ہے:


"(ومستحبه) ويسمى مندوبًا وأدبًا وفضيلة، وهو ما فعله النبي صلى الله عليه وسلم مرةً وتركه أخرى، وما أحبه السلف."


(جلد۱، ص: ۱۲۳، ط: سعید )


البحرالرائق میں ہے :


"والمكروه في هذا الباب نوعان أحدهما ما كره تحريما وهو المحمل عند إطلاقهم الكراهة كما ذكره في فتح القدير من كتاب الزكاة وذكر أنه في رتبة الواجب لا يثبت إلا بما يثبت به الواجب يعني بالنهي الظني الثبوت وأن الواجب يثبت بالأمر الظني الثبوت ثانيهما المكروه تنزيها ومرجعه إلى ما تركه أولى وكثيرا ما يطلقونه كما ذكره العلامة الحلبي في مسألة مسح العرق فحينئذ إذا ذكروا مكروها فلا بد من النظر في دليله فإن كان نهيا ظنيا يحكم بكراهة التحريم إلا لصارف للنهي عن التحريم إلى الندب فإن لم يكن الدليل نهيا بل كان مفيدا للترك الغير الجازم فهي تنزيهية".


(جلد ۴، ص:۱۰۶، سعید)


وفیہ ایضاً:


"أن الفرض ما ثبت بدليل قطعي لا شبهة فيه، قال فخر الإسلام في أصوله: الحكم إما أن يكون ثابتاً بدليل مقطوع به أو لا، والأول هو الفرض، والثاني إما أن يستحق تاركه العقاب أو لا، والأول هو الواجب إلخ ثم قال : وأما الفرض فحكمه اللزوم علماً بالعقل وتصديقاً بالقلب، وهو الإسلام، وعملاً بالبدن، وهو من أركان الشرائع، ويكفر جاحده، ويفسق تاركه بلا عذر، وأما حكم الوجوب فلزومه عملاً بمنزلة الفرض لا علماً على اليقين؛ لما في دليله من الشبهة حتى لايكفر جاحده، ويفسق تاركه، وهكذا في غير ما كتاب من كتب الأصول كالمغني والمنتخب والتنقيح والتلويح والتحرير والمنار وغيرها".


(جلد۱، ص:۴۹، ط: سعید)


فتاویٰ شامی میں ہے:


’’ولهذا كانت السنة المؤكدة قريبة من الواجب في لحوق الإثم، كما في البحر ويستوجب تاركها التضليل واللوم، كما في التحرير، أي على سبيل الإصرار بلا عذر.‘‘


(جلد۲ ، ص:۱۲، ط: سعید)


فتاویٰ شامی میں ہے:


"تركه لايوجب إساءةً ولا عتابًا كترك سنة الزوائد، لكن فعله أفضل."


(جلد۱، ص:۴۷۷، ط: سعید)


تلخیص الاصول میں ہے:


"الحرام: هو ما ثبت بدليل قطعي دلالةً وثبوتاً مع الشدة في المنع وهو في مقابلة الفرض من المأمورات عند الحنفية."


(جلد۱ ص:۲۸، ط: مرکز المخطوطات والتراث)



قال في التنوير وشرحه:

والمباح: ما أجيز للمكلفين فعله وتركه بلا استحقاق ثواب وعقاب .... (كل مكروه) أي: كراهة تحريم (حرام) أي: كالحرام في العقوبة بالنار (عند محمد) وأما المكروه كراهة تنزيه فإلى الحل أقرب اتفاقًا (وعندهما) وهو الصحيح المختار، ومثله البدعة والشبهة (إلى الحرام أقرب).


وفي الرد:بيان ذلك أن أدلة السمعية أربعة: الأول: قطعي الثبوت والدلالة..... الثاني: قطعي الثبوت، ظني الدلالة.....الثالث: عكسه .....الرابع: ظنيهما...فبالأوّل يثبت الافتراض والتحريم، وبالثاني والثالث الإيجاب وكراهة تحريم، وبالرابع يثبت السنة والاستحباب، ثم ذكر بعد أسطر عن «التلويح»: ما كان تركه أولى فمع المنع عن الفعل بدليل قطعي حرام، وبظني مكروه تحريمًا، وبدون منع مكروه تنزيهًا، وهذا على رأى محمد، وعلى رأيهما ما تركه أولى فمع المنع حرام، وبدونه مكروه، تنزيهًا لو إلى الحل أقرب، وتحريمًا لو إلى الحرام أقرب اه.

(رد المحتار، كتاب الحظر والإباحة: 9/556، 557، رشيدية)


"اعلم أن المشروعات أربعة أقسام: فرض وواجب وسنة ونفل....والسنة نوعان: سنة الهدى، وتركها يوجب إساءة،.. وسنة الزوائد، وتركها لا يوجب ذلك .... فالنفل ما رود به دليل ندب عمومًا أو خصوصًا، ولم يواظب عليه النبي صلي الله عليه وسلم ولذا كان دون سنة الزوائد، كما صرّح به في التنقيح".

(رد المحتار، كتاب الطهارة، مطلب في السنة وتعريفها: 1/330، رشيدية)


فقط والله اعلم



فرض کے لغوی معنی کاٹنے کے ہیں۔ اس کے ایک معنی لازم قرار دینے اور ایک معنی معین و مقرر کرنے کے بھی ہیں۔

حوالہ

الفَرْضُ: القَطْعُ، ويأتي بِمَعنى الإِلْزامِ، فيُقال: فرَضَ عَلَيْهِ الأَمْرَ، أيْ: أوْجَبَهُ وأَلْزَمَهُ بِهِ، ويأتي بِمعنى التَّقْدِيرِ.


القرآن:

حج کے مہینے متعین ہیں، پس جس نے (احرام باندھ کر خود پر) فرض(لازم) کرلیا ان(مہینوں) میں حج کو تو...

[سورۃ البقرۃ:197]

یہ ایک سورت ہے، جو ہم نے نازل کی ہے، اور ہم نے جس(کے احکام) کو فرض (مقرر) کیا ہے۔

[النور:1]



فرض وہ بات ہے جو اللہ نے مقرر-لازم-طے فرمائی ہو:

القرآن:

بےشک (اے پیغمبر!) جس (ذات) نے فرض(ذمہ ٹھہرائی) ہے تم پر قرآن(پڑھ کر سنانے) کی۔۔۔

[القصص:85]

نبی کیلئے اس کام میں اعتراض کی کوئی بات نہیں ہوتی جو اللہ نے اس کیلئے فرض(طے) کردیا ہے۔۔۔

[الاحزاب:38]


۔۔۔یقیناً ہمیں معلوم ہے جو ہم نے فرض(لازم) کیا ہے۔۔۔

[الاحزاب:50]


یقیناً فرض(مقرر)کردیا ہے اللہ نے تمہارے لئے نکلنے کا طریقہ تمہاری (فضول/ناجائز)قسموں سے۔۔۔

[التحریم:2]


لہٰذا جس نے ﴿جان لینے کے بعد﴾ فرض کا انکار کیا-یا مذاق اڑایا-﴿یا مخالفت کی﴾﴿یا اسے ترک کیا﴾ تو اس نے کفر کیا اور جس نے اس میں کمی-کوتاہی کی تو اس نے کبیرہ گناہ کیا۔

[حوالہ سورۃ الانعام:49، الاحقاف:20، البقرۃ:99، الکافرون]

﴿بیھقی:19739﴾




فرض :

وہ کام جس کا کرنا ضروری ہو اور اس کا ترک کرنا لازماً منع ہو اس کا ثبوت بھی قطعی ہو اور اس کے فعل کے لزوم پر دلالت بھی قطعی ہو، اس کا انکار کفر اور اور اس کا ترک کرنے والا عذاب کا مستحق ہو خواہ دائما ترک کیا جائے یا احیاناً (کبھی کبھی)۔

[رد المختار: ج 1 ص 186]


شرعی اصطلاح میں فرض وہ حکم شرعی ہوتا جو دلیل قطعی (قرآنی حکم اور حدیث متواتر) سے ثابت ہو، یعنی ایسی دلیل جس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ وہ حکم جو قطعی اور یقینی دلیل سے ثابت ہو اور اس میں میں کوئی دوسرا احتمال نہ ہو اس کا منکر کافر ہوتا اور بغیر عذر چھوڑنے والا فاسق ہوتا ہے۔

[زبدۃ الفقہ: جلد اول صفحہ 72]

جو دلیل قطعی سے ثابت ہو یعنی ایسی دلیل جس میں کوئی شُبہ نہ ہو۔

[فتاویٰ فقیہ ملت: ج1،ص203]



قطعی دلیل:

مثلا نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ۔ وہ بنیادی ارکان ہیں جن کا ادا کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے اور ادا کرنے والا ثواب کا مستحق ہوتا ہے۔ قرآن مجید قطعی الثبوت ہے اور اس کی لزوم پر دلالت بھی قطعی ہے کیونکہ نماز اور زکوۃ کا تارک عذاب کا مستحق ہے۔



اسلامی فقہ میں فرض کی اصطلاح حرام کے بالعکس ہے۔ اگر کوئی مسلمان ان کی فرضیت کا انکار کرے تو وہ کافر ہو جاتا ہے جبکہ بلا شرعی عذر ترک کرنے والا فاسق اور سزا کا مستحق ہوتا ہے۔




بلحاظ تکلیف فرض کی دو قسم ہے:

فرض کفایہ:

جس میں عامل کی بجائے عمل مطلوب ہوتا ہے، اگر کسی کے جانب سے یہ فرض ادا ہو جائے تو سب کے ذمہ سے عمل کی فرضیت ساقط ہو جاتی ہے۔ جیسے: نمازِ جنازہ، امر بالمعروف، علومِ شرعیہ میں مہارت وغیرہ۔

[وقار الفتاوی: ج 2، ص 57]

فرض عین:

جس میں عامل مطلوب ہوتا ہے۔ جس کا کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے اور جس پر وہ لازم ہے اسی کے ادا کرنے سے ادا ہو گا دوسرے کے کرنے سے اس کے ذمہ سے نہیں اترتا۔

[زبدۃ الفقہ: جلد اول صفحہ 72]

جیسے:

پانچ وقت کی نماز، روزہ، اسطاعت رکھنے والوں پر زکوۃ اور حج وغیرہ۔




فرض کفایہ اور فرض عین سے کیا مراد ہے؟


فرض عین:


فرض عین سے مراد وہ فرض ہے جس کا ادا کرنا ہر عاقل بالغ پر ضروری ہے، جیسے پنجگانہ نماز اور دیگر فرض شدہ احکام۔


فرض کفایہ:


فرض کفایہ سے مراد وہ فرض ہےجس کو  ایک دو مسلمان ادا کرلیں تو سب مسلمانوں کے ذمے  سے فرض ساقط ہوجائےگا، اور اگر  ایک آدمی بھی ادا  نہ کرے  تو سب مسلمان گناہ گار ہوں،  جیسے غسل میت، اور نماز جنازہ۔


فتاوی شامی میں ہے:


"فرض عين: أي فرض ثابت على كل واحد من المكلفين بعينه كما أشار إليه في شرح التحرير حيث فرق بينه وبين فرض الكفاية، بأن الثاني متحتم مقصود حصوله من غير نظر بالذات إلى فاعله بخلاف الأول فإنه منظور بالذات إلى فاعله حيث قصد حصوله من عين مخصوصة، كالمفروض على النبي - صلى الله عليه وسلم - دون أمته، أو من كل عين عين: أي واحد واحد من المكلفين. اهـ. والظاهر أن الإضافة فيهما من إضافة الاسم إلى صفته: كمسجد الجامع، وحبة الحمقاء: أي فرض متعين: أي ثابت على كل مكلف بعينه، وفرض الكفاية: معناه فرض ذو كفاية: أي يكتفى بحصوله من أي فاعل كان تأمل." 


(كتاب الصلوة، ج:1، ص:538، ط:ایچ ایم سعید)


فقط واللہ اعلم




















































واجب کے لغوی معانی:

(1)ثابت/لازم، (2)مناسب/موزوں، (3)مستحق، (4)زمین پر گرنا کے ہیں۔

القرآن:

...پھر جب "گِرجائیں" ان(اونٹوں) کے پہلو تو ان(کے گوشت)میں سے کھاؤ...

[سورۃ الحج:36]



عمل کے لحاظ سے واجب اور فرض میں فرق نہیں، لیکن ثبوت اور حکم کے اعتبار سے واجب وہ ہے جو دلیلِ ظِنّی(غیرقطعی) سے ثابت شدہ ہو، لہٰذا واجب کے انکار پر کفر کا حکم نہیں لگتا، البتہ اس کا ترک کرنے والا قابلِ سزا ہوتا ہے اور فاسق کہلاتا ہے۔

[البحر الرائق» ج4/ص106]

[منحة الخالق» ج1/ ص49]




واجب کا کرنا ضروری ہو اور اس کا ترک کرنا لازماً منع ہو اور ان دونوں میں سے کوئی ایک چیز قطعی ہو یعنی اس کا ثبوت قطعی ہو اور لزوم پر (لازم ہونے پر)دلیل ظنی ہو یا ثبوت ظنی ہو اور لزوم پر دلیل قطعی ہو اور اس کا انکار نہ ہو اور اس کا ترک کرنے والا عذاب کا مستحق ہو خواہ دائما ترک کرے یا احیاناً(کبھی کبھی)۔

[رد المختار: ج 1 ص 187]


شریعت اسلامی کی اصطلاح میں واجب وہ حکم شرعی ہے جو دلیل ظنی سے ثابت ہو، یعنی جس کی دلیل میں دوسرا ضعیف احتمال بھی ہو جس کا منکر کافر نہیں ہوتا بلکہ فاسق ہو جاتا ہے یہ عمل کے اعتبار سے فرض کے برابر ہے اس لیے اس کو فرض عملی بھی کہتے ہیں۔

[زبدۃ الفقہ: جلد 1 صفحہ 72]

جبکہ اس کی ادائیگی کا شرع نے لازمی مطالبہ بھی کیا ہو۔ مثلا نمازِ عشاء کے وتر۔


اسلامی فقہ میں واجب کی اصطلاح مکروہ تحریمی کے بالعکس ہے۔ واجب کے بجا لانے پر ثواب اور چھوڑنے پر سزا ملتی ہے، البتہ فرض کے انکار سے کفر لازم آتا ہے اور واجب کے انکار سے کفر لازم نہیں آتا۔


جس واجب کا ثبوت قطعی اور لزوم پر دلیل ظنی ہو جیسے جماعت سے نماز پڑھنے کے وجوب پر یہ آیت دلالت کرتی ہے:

وارکعوا مع الرکعین

اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔

(سورۃ البقرہ :43)

اس کا ثبوت قطعی ہے کیونکہ قرآن مجید کی یہ آیت قطعی ہے، اور اس کی لزوم پر دلالت ظنی ہے کیونکہ رکوع کا معنیٰ نماز پڑھنا بھی ہے، اور رکوع کا معنیٰ اللہ سے ڈرنا اور خشوع بھی ہے۔

اور جس واجب کا ثبوت ظنی ہو اور لزوم پر دلالت قطعی ہو جیسے نماز میں سورة فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے لیکن اس کا ثبوت ظنی ہے، کیونکہ اس کا ثبوت اس حدیث سے ہے: 

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ، رسول الله ﷺ سے مروی ہیں 

وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا

ترجمہ:

اور جب وہ(امام) قرأت کرے تو تم خاموش رہو۔

[صحیح مسلم:404، سنن ابن ماجه:846، سنن أبي داود:604، سنن النسائي:921، تفاسیرسورۃ الاعراف:204]

تاہم یہ حدیث خبر واحد ہے اور اس کا ثبوت ظنی ہے لیکن اس کا لزوم قطعی ہے۔


واجب کی ایک تعریف یہ بھی ہے جس کام کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بطور عبادت دائما کیا ہو اور اس کے تارک پر آپ نے انکار کیا ہو یا اس کے ترک پر وعید فرمائی ہو۔

[البحرالرائق ج 1 ص 17۔ فتح القدیر ج 2 ص 39 بیروت]

اس کی مثال بھی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ہے، کیونکہ آپ نے بطور عبادت ہمیشہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھی ہے اور اس کے ترک پر انکار اور وعید فرمائی ہے۔





واجب (Wajib) کی تعریف اور شرعی حیثیت: 

واجب کا لفظ عربی زبان سے ہے، جس کا معنیٰ "لازم" یا "ضروری" ہوتا ہے۔ شرعی اصطلاح میں واجب ایک ایسا عمل ہے جسے انجام دینا ضروری سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کی فرضیت کے دلائل "ظنی" (یعنی احتمالی) ہوتے ہیں، جبکہ فرض "قطعی دلائل" (قرآن یا متواتر حدیث) سے ثابت ہوتا ہے۔ فقہ حنفی میں واجب اور فرض میں یہ بنیادی فرق ہے۔


اہم نکات:

1. فرض اور واجب میں فرق:  

   - فرض: قطعی دلیل (قرآن یا متواتر حدیث) سے ثابت ہو۔ اس کا انکار کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہو سکتا ہے۔  

   - واجب: ظنی دلیل (احاد حدیث یا اجتہاد) سے ثابت ہو۔ اس کا انکار کرنے والا گنہگار ہوتا ہے، لیکن کافر نہیں۔  


2. دیگر مکاتب فکر میں تصور:  

   - شافعی، مالکی اور حنبلی مکاتب فکر میں "واجب" اور "فرض" کو ایک ہی درجہ دیا جاتا ہے۔  

   - حنفی فقہ میں یہ تفصیل خاص اہمیت رکھتی ہے۔  


3. واجب کی مثالیں:  

   - وتر کی نماز (حنفی مسلک کے مطابق)۔  

   - قربانی (Eid al-Adha پر استطاعت رکھنے والوں کے لیے)۔  

   - نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا (بعض فقہا کے نزدیک)۔  


4. واجب ترک کرنے کا حکم:  

   - جان بوجھ کر واجب ترک کرنا گناہ ہے، لیکن فرض کی طرح سخت نہیں۔  

   - اگر بھولے یا مجبوری سے چھوٹ جائے تو توبہ اور قضا (اگر ممکن ہو) ضروری ہے۔  


5. عملی زندگی میں اطلاق:  

   - واجب کو فرض کے قریب ہی اہمیت دی جاتی ہے، لیکن اس کا ثبوت زیادہ لچکدار ہوتا ہے۔  

   - مثال: نماز عیدین کو بعض فقہا واجب قرار دیتے ہیں۔  


خلاصہ:  

واجب شریعت کا ایک اہم حکم ہے جو فرض سے کم اور سنت مؤکدہ سے زیادہ ضروری ہوتا ہے۔ اس کی پابندی کرنا ضروری ہے، لیکن اس کی نوعیت فقہی مکتبہ فکر پر منحصر ہو سکتی ہے۔ عام طور پر مسلمانوں کو اپنے فقہی مسلک کے مطابق واجبات کی پابندی کرنی چاہیے۔


فرض اور واجب میں فرق:


واضح رہے کہ  فرض اور واجب دونوں ”مامورات“ کی قسمیں ہیں، ان میں سے ہرایک کی دوحیثیتیں ہیں :


1۔ایک حیثیت ان کے عمل کی ہے، اور عمل کے وجوب اور لزوم میں فرض اور واجب دونوں کے درجات برابر ہیں، یعنی فرض اور واجب دونوں پر عمل کرنا لازم اور ضروری ہے، اسی وجہ سے  فرض  کے لیے  کبھی واجب ، اور واجب  کے لیے کبھی  فرض کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے ؛کیوں کہ معنوی اعتبار سے دونوں میں بہت قربت اور عمل دونوں ہی پر ضروری ہے، دونوں کو چھوڑنا گناہ ہے


2۔ دوسری حیثیت ان کے اعتقاد کی ہے، اس اعتبار سے ان کے درجات میں فرق ہے وہ اس طرح کہ : 


فرض:  اسے کہتے ہیں جو کسی قطعی اور یقینی  دلیل  سے ثابت ہو، اور اس کی دلالت بھی قطعی ہو، جیسے   قرآن کریم کی  کوئی  واضح آیت یا متواتر حدیث۔فرض  کا انکار کرنے والا کافر ہوجاتا ہے۔


جب کہ  واجب :  ظنی دلیل سے ثابت شدہ عمل کو کہا جاتا ہے ، یعنی یا تو  وہ ایسے ذریعہ سے ثابت ہو جو قطعی نہیں ہے ، یا ذریعۂ ثبوت تو یقینی ہو، لیکن اس میں ایک سے زیادہ معنوں کی گنجائش ہو،    واجب کے انکار پر کفر کا حکم نہیں لگتا، البتہ اس کو کسی عذر کے بغیر  چھوڑنے  والا فاسق کہلاتاہے۔


اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ فرض اور واجب میں درجے کے اعتبارسے  فرض کا درجہ واجب سے بڑھا ہوا ہے، لیکن واجب پر عمل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔



🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰

فرض اور واجب میں فرق:


شریعت کے احکام کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں: ایک قسم کا نام ’’مامورات‘‘ ہے، جبکہ دوسری قسم کو ’’منہیات‘‘ کہتے ہیں۔ مامورات ان احکامات کو کہا جاتا ہے جن میں کسی کام کے ’’کرنے‘‘ کا حکم دیا گیا ہو اور منہیات اُن احکامات کو کہتے ہیں جن میں کسی کام سے ’’بچنے‘‘ کا حکم دیا گیا ہو،  پھر احکامات خواہ وہ مامورات کے قبیل سے ہوں یا منہیات کے قبیل سے، درجات اور مراتب کے لحاظ سے یکساں نہیں ہیں، بلکہ مختلف مراتب اور درجات میں تقسیم ہیں۔


لہذا صورت مسئولہ میں فرض اور واجب دونوں ”مامورات“ کی قسمیں ہیں، ان میں عمل کے لحاظ سے فرق نہیں ہے، بلکہ فرض اور واجب دونوں پر عمل کرنا لازم اور ضروری ہے، اسی وجہ سے  فرض  لیے  کبھی واجب ، اور واجب  کے لیے کبھی  فرض کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے ؛کیوں کہ معنوی اعتبار سے دونوں میں بہت قربت اور عمل دونوں ہی پر ضروری ہے، دونوں کو چھوڑنا گناہ ہے، البتہ اعتقاد کے اعتبار سے  ان دونوں میں اصطلاحی فرق ہے، وہ یہ کہ : 


فرض:  اسے کہتے ہیں جو کسی قطعی اور یقنی  دلیل  سے ثابت ہو، اور اس کی دلالت بھی قطعی ہو، جیسے   قرآن کریم کی  کوئی  واضح آیت یا متواتر حدیث۔فرض  کا انکار کرنے والا کافر ہوجاتا ہے۔


جب کہ  واجب :  ظنی دلیل سے ثابت شدہ عمل کو کہا جاتا ہے ، یعنی یا تو  وہ ایسے ذریعہ سے ثابت ہو جو قطعی نہیں ہے ، یا ذریعۂ ثبوت تو یقینی ہو، لیکن اس میں ایک سے زیادہ معنوں کی گنجائش ہو،    واجب کے انکار پر کفر کا حکم نہیں لگتا، البتہ اس کو کسی عذر کے بغیر  چھوڑنے  والا فاسق کہلاتا ہے۔


منحة الخالق    میں ہے :


"أن الفرض ما ثبت بدليل قطعي لا شبهة فيه، قال فخر الإسلام في أصوله: الحكم إما أن يكون ثابتاً بدليل مقطوع به أو لا، والأول هو الفرض، والثاني إما أن يستحق تاركه العقاب أو لا، والأول هو الواجب إلخ ثم قال : وأما الفرض فحكمه اللزوم علماً بالعقل وتصديقاً بالقلب، وهو الإسلام، وعملاً بالبدن، وهو من أركان الشرائع، ويكفر جاحده، ويفسق تاركه بلا عذر، وأما حكم الوجوب فلزومه عملاً بمنزلة الفرض لا علماً على اليقين؛ لما في دليله من الشبهة حتى لايكفر جاحده، ويفسق تاركه، وهكذا في غير ما كتاب من كتب الأصول كالمغني والمنتخب والتنقيح والتلويح والتحرير والمنار وغيرها ،وفي التصريح ثم استعمال الفرض فيما ثبت بظني والواجب فيما ثبت بقطعي شائع مستفيض كقولهم الوتر واجب فرض وتعديل الأركان فرض ونحو ذلك يسمى فرضا عمليا وكقولهم الزكاة واجبة والصلاة واجبة ونحو ذلك فلفظ الواجب أيضا يقع على ما هو فرض علما وعملا كصلاة الفجر وعلى ظني هو في قوة الفرض في العمل كالوتر عند أبي حنيفة حتى يمنع تذكره صحة الفجر كتذكر العشاء وعلى ظني هو دون الفرض في العمل وفوق السنة كتعيين الفاتحة حتى لا تفسد الصلاة بتركها لكن يجب سجدة السهو."


(منحة الخالق علي البحر الرائق، (1/ 49) كتاب الصلاة، ط: دارالكتاب الاسلامي)


فقط والله اعلم


🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰

(١)ارکانِ اسلام پانچ ہیں: کلمہ، نماز، روزہ، حج، زکات، پھر ہرہر رکن سے متعلق بہت سے فرائض اور شروط ہیں جو کتبِ فقہ کے متعلقہ ابواب میں موجود ہیں، وہاں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔


(۲) عملاً دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے؛ البتہ اعتقاد کے اعتبار سے فرق ہے وہ یہ کہ ایک (فرض) کا انکار کفر ہے دوسرے (واجب) کا فسق وضلالت۔


(۳) جو قطعی الثبوت والدلالت نص سے ثابت ہو وہ فرض ہے جو قطعی الثبوت ظنی الدلالة یا ظنی الثبوت قطعی الدلالة نص سے ثابت ہو وہ واجب ہے۔ (شامی : ۱/۹۵، بیروت)




🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰

احناف اور امام احمد سے ایک روایت کے علاوہ تمام علمائے اصول اس بات کے قائل ہیں کہ فرض اور واجب دونوں مترادف ہیں۔


فرض یا واجب : اس عمل کو کہتے ہیں جسے شریعت نے لازمی طور پر کرنے کا حکم اس طرح دیا ہو کہ کرنے والے کو ثواب ملے اور نہ کرنے والا سزا کا مستحق ہو۔ چاہے اس عمل کا لازم ہونا دلیل قطعی سے ثابت ہو یا دلیل ظنی سے، دونوں کی وجہ سے حکم میں کوئی فرق نہیں آتا، نہ ہی اس کی وجہ سے نتائج میں کوئی فرق آتا ہے۔


جبکہ احناف یہ کہتے ہیں کہ: فرض اور واجب میں فرق ہے، چنانچہ ان کے ہاں فرض وہ ہے جو دلیل قطعی سے ثابت ہو، اور واجب وہ ہے جو دلیل ظنی سے ثابت ہو۔


جیسے کہ علامہ شیرازی کی " اللمع في أصول الفقه " صفحہ: 23میں ہے کہ: "واجب ، فرض اور مکتوب دونوں کا حکم ایک ہی ہے، یعنی جس کام کو ترک کرنے سے سزا ملتی ہو۔

جب کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد کہتے ہیں کہ: واجب وہ عمل ہے جو کہ اجتہادی دلیل سے ثابت ہو، جیسے احناف کے ہاں وتر اور قربانی کا معاملہ ہے۔ جبکہ فرض اس عمل کو کہتے ہیں کہ جو قطعی دلیل سے ثابت ہو، جیسے پانچ نمازیں، فرض زکاۃ وغیرہ ۔ لیکن یہ غلط ہے؛ کیونکہ کسی چیز کا نام رکھنے کے لیے شریعت، لغت اور استعمال کو دیکھا جاتا ہے، اور ان میں سے کہیں بھی یہ بات نہیں ہے کہ اجتہادی دلیل سے ثابت ہونے عمل اور قطعی دلیل سے ثابت ہونے والے عمل میں فرق ہو گا!" ختم شد


اسی طرح "قواطع الأدلة في الأصول" (1 / 131) میں ہے کہ:

"ہمارے ہاں فرض اور واجب ایک ہی ہیں، جبکہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں نے یہ دعوی کیا ہے کہ: فرض وہ ہے جو قطعی دلیل سے ثابت ہو، جبکہ واجب وہ ہے جو ظنی دلیل سے ثابت ہو۔" ختم شد


اسی طرح علامہ آمدی رحمہ اللہ کی "الإحكام في أصول الأحكام" (1 / 99) میں ہے کہ:

"ہمارے شافعی فقہائے کرام کے ہاں فرض اور واجب میں کوئی فرق نہیں ہے۔۔۔ جبکہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں نے لفظ فرض کو ایسے عمل کے لیے خاص کیا ہے جو قطعی دلیل سے ثابت ہو، اور واجب اس کے لیے خاص کیا ہے جو ظنی دلیل سے ثابت ہو ۔۔۔ جبکہ راجح وہی بات ہے جو ہمارے فقہائے کرام نے کی ہے کہ کسی حکم کے ثابت ہونے کے لیے استعمال ہونے والا طریقہ کہ جس کی بنیاد پر قطعی اور ظنی کا فیصلہ ہو بذات خود اس اختلاف کا موجب نہیں ہے۔" ختم شد

اسی طرح مزید کے لیے آپ علامہ زرکشی کی کتاب: "البحر المحيط في أصول الفقه" (1/240-244) کا بھی مطالعہ کریں۔


جمہور اہل علم اور امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ کے درمیان اس مسئلے کا اختلاف لفظی اختلاف سے زیادہ کچھ نہیں ہے؛ کیونکہ اس اختلاف کی وجہ سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا؛ اس لیے کہ تمام کے تمام اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ کوئی عمل فرض ہو یا واجب ہر دو صورت میں اس کا تارک اپنے آپ کو اللہ تعالی کی سزا کا مستحق بناتا ہے۔


یہ بات تمام کے تمام اہل علم کے درمیان متفقہ ہے، اور فقہی احکامات میں اسی بات کی ضرورت ہوتی ہے۔


واللہ اعلم





















سوال

کیا واجب کا مقدمہ واجب اور حرام کا مقدمہ حرام ہوتا ہے؟


جواب

واجب کا مقدمہ واجب اور حرام کا مقدمہ حرام ہوتا ہے۔


حدیث شریف میں ہے:


"عن عقبة قال سمعتُ رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وَسلَّم یَقولُ من علم الرّمی ثم ترکه فلیس منا."


ظاہر ہے کہ تیر اندازی کوئی عبادت مقصود فی الدین نہیں مگر چونکہ بوقت حاجت ایک واجب یعنی اعلاء کلمۃ اللہ کا مقدمہ ہے، اس لئے اس کے ترک پر وعید فرمائی اس سے ثابت ہوا کہ مقدمہ واجب کا واجب ہوتا ہے۔


ہاں البتہ جس چیز کو حرام یاجرم قراردیاجاتا ہے جتنے افعال یاامور اس حرام یاجرم کے وسائل اور ذرائع ہوں بوجہ اعانت جرم کے وہ بھی حرام اور جرم ہوجاتے ہیں ، گوخصوصیت کے ساتھ ان افعال یاامور کو نام بنام جرم نہ شمارکیاگیاہو،مثلاًاستحصال بالجبر(یعنی زبردستی کسی کا مال وغیرہ لینا)جرم ہے توجتنی صورتیں اس جبر کی ہوں گی مثلاً ڈرانا،دھمکانا،کوٹھری میں بندکردینا وغیرہ وغیرہ سب جرم ہوں گے، گویہ سب امورجداجدا  دفعات جرم کے تصریحاً نہ گنے گئے ہوں ،اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی امر منجملہ جرائم ایسا ہو جس کو خصوصیت کے ساتھ بھی روکا گیا ہو اور اِس طرز سے بھی اس کی ممانعت ثابت ہو۔


"الجامع الصحيح للمسلم" میں ہے:


"(1919) حدثنا ‌محمد بن رمح بن المهاجر ، أخبرنا ‌الليث ، عن ‌الحارث بن يعقوب ، عن ‌عبد الرحمن بن شماسة: « أن فقيما اللخمي قال ‌لعقبة بن عامر : تختلف بين هذين الغرضين وأنت كبير يشق عليك. قال عقبة: لولا كلام سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم لم أعانه، قال الحارث: فقلت لابن شماسة: وما ذاك؟ قال: إنه قال: من ‌علم ‌الرمي ‌ثم ‌تركه فليس منا، أو قد عصى .»"


(الجامع الصحيح «صحيح مسلم، لابي الحسين مسلم بن الحجاج بن مسلم القشيري النيسابوري، ج:6، ص:52، رقم 1919، ط: دار الطباعة العامرة - تركيا)


"التقرير والتحبيرشرح التحریر" میں ہے:


"وبه يتم دليلنا فيقال ترك الحرام الذي هو واجب ‌مقدمة للواجب ومقدمة الواجب واجب."


(التقرير والتحبيرلابن أمير الحاج (ت ٨٧٩) على تحرير الكمال بن الهمام (ت ٨٦١) في علم الأصول، الجامع بين اصطلاحَي الحنفية والشافعية، ج:2، ص:145، ط: دار الكتب العلمية ببيروت)


وفیہ ایضاً


"‌لأن ‌ما ‌لا ‌يتم ‌الواجب إلا به فهو واجب."


(التقرير والتحبيرلابن أمير الحاج (ت ٨٧٩) على تحرير الكمال بن الهمام (ت ٨٦١) في علم الأصول، الجامع بين اصطلاحَي الحنفية والشافعية، ج:1، ص:326، ط: دار الكتب العلمية ببيروت)


"فيض الباري على صحيح البخاري" میں ہے:


"قوله: (الظهر خمسا) ويلزم فيه القعود على الرابعة عندنا، وإلا تتحول فريضته نفلا ولا حاجة إليه على مذهب الشافعية. والمسألة اجتهادية ليست فيها نصوص لأحد.


ولنا: تفقه قوي، وهو أن الصلاة في الدين المحمدي ثنائية، ورباعية، وثلاثية، ومعلوم أن مثنوية الصلاة ورباعيتها، لا تتقوم إلا بالقعدة، فكونها ثنائية أو غيرها من متواترات الدين. وقد علمت أنها تتوقف على القعدة فلا بد أن تكون فريضة كما قيل: إن ‌مقدمة ‌الواجب ‌واجب. ولذا قال الحنفية: إن ما دون الركعة محل للرفض بخلاف الركعة التامة، فإنها من متواترات الدين بمعنى كونها أمرا معتدا بها فلا تكون محلا للرفض؛ لأنه يوجب نقض المتواتر."


(فيض الباري على صحيح البخاري لمحمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري الهندي ثم الديوبندي (ت ١٣٥٣هـ)، ج:٢، ص:٤٣، ر:403،ط: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)


فتوح الغيب في الكشف عن قناع الريب"میں ہے:


"لأن الإخلاص واجب في كل عبادة، سواء كانت فرضاً أو تطوعاً، ولا يلزم من ذلك وجوب الأداء، فعلى هذا من شرع في الحج والعمرة وجب عليه إتمامهما.قوله: (الأمر بإتمامهما أمر بأدائهما) بناءً على أن ‌مقدمة ‌الواجب ‌واجب."


(فتوح الغيب في الكشف عن قناع الريب (حاشية الطيبي على الكشاف) لشرف الدين الحسين بن عبد الله الطيبي (ت ٧٤٣ هـ)، ج:3، ص:272، ط: جائزة دبي الدولية للقرآن الكريم)


"البحر المحيط في أصول الفقه" میں ہے:


"‌لأن ‌ما ‌لا ‌يتم ‌الواجب إلا به فهو واجب."


(البحر المحيط في أصول الفقه لابی عبد الله بدر الدين محمد بن عبد الله بن بهادر الزركشي (ت ٧٩٤هـ)، ج:1، ص:316، ط: دار الكتبي)


البنایۃ میں ہے:


" لأن مالا یتم الواجب إلا بہ فہو واجب ."


(البناية شرح الهدايةلمحمود بن أحمد بن موسى بن أحمد بن الحسين المعروف بـ «بدر الدين العينى» الحنفى (ت ٨٥٥ هـ)ج:1، ص:164، ط: دار الكتب العلمية - بيروت،)


"حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح" میں ہے:


"وأیضا فإنه یتوصل به لإقامة الواجب علی وجهه وما لا یقام الواجب إلا به فهو واجب."


(حاشیة الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ص:425، ط: دارالکتاب دیوبند )


"الوجيز في أصول الفقه الإسلامي"میں ہے:


"‌‌مقدمة الواجب:


ونختم الكلام على الواجب بمسألة أصولية هامة يطلق عليها الأصوليون اصطلاح مقدمة الواجب، أو يعبرون عنها بعبارة "ما لا يتم الواجب إلا به فهو واجب"، وقبل بيان هذه المسألة نقدم تمهيدا لها في بيان أقسامها. 


‌‌أقسام مقدمة الواجب:


المقدمة إما أن تكون ‌مقدمة ‌وجوب وهي التي يتعلق بها التكليف بالواجب، أي شغل الذمة به، كدخول الوقت بالنسبة للصلاة، فهو مقدمة لوجوب الواجب في ذمة المكلف، وكالاستطاعة لوجوب الحج، وحولان الحول لوجوب الزكاة.


وإما أن تكون مقدمة وجود وهي التي يتوقف عليها وجود الواجب بشكل صحيح، أي صحة تفريغ الذمة من الواجب، إما من جهة الشرع، كالوضوء بالنسبة للصلاة، فلا توجد الصلاة الصحيحة إلا بوجود الوضوء، والعدد بالنسبة لصلاة الجمعة، وإما من جهة العقل، كالسير وقطع المسافة للحج .


كما تكون المقدمة إما سببا للواجب، كالبلوغ ودخول الوقت للصلاة والصوم، والصيغة للعتق الواجب بنذر أو كفارة، والاعتداء والقتل للضمان والقصاص، وإما أن تكون شرطا للواجب كالعقل للتكليف بالواجب، والقدرة للحج، والطهارة للصلاة . 


ثانيا:‌‌ حكم مقدمة الواجب:


اتفق العلماء على أن مقدمة الوجوب ليست واجبة على المكلف لأنها ليست في مقدوره، مثل دخول الوقت والاستطاعة وحولان الحول .


أما مقدمة الوجود فهي نوعان، نوع لا يقدر المكلف على فعله فلا يجب عليه، كحضور العدد في صلاة الجمعة، ونوع يقدر المكلف على فعله، مثل صيام جزء من الليل حتى يكون صوم النهار الواجب صحيحا، ومثل غسل جزء من الرأس، حتى يكون غسل الوجه الواجب في الوضوء صحيحا، فهذا النوع واجب باتفاق العلماء (1)، وهو المقصود من مقدمة الواجب، وقاعدة "ما لا يتم الواجب إلا به فهو واجب".


لكنهم اختلفوا في دليل الإيجاب، هل هو نفس دليل الواجب الأصلي، أم هو بدليل جديد؟ أي هل إيجاب الواجب يدل على إيجاب مقدمته أم لا يدل عليها، ولا بد من إيجاب جديد ، اختلفوا على عدة مذاهب نذكر اثنين منها:


الأول: مذهب الجمهور وهو أن دليل الواجب يدل على وجوب المقدمة، سواء أكانت سببا أم شرطا، لأن التكليف بالواجب بدون التكليف بمقدمته يؤدي إلى التكليف بالمحال، وهو ممنوع، وأن السعي إلى تحصيل أسباب الواجب واجب، وأن السعي في تحصيل أسباب الحرام حرام، باتفاق، فكان دليل الواجب دليلا للمقدمة.


الثاني: وهو عكس الأول، وهو أن مقدمة الواجب لا تجب بإيجاب الواجب، وإنما تحتاج إلى إيجاب جديد، لأنه لو وجبت المقدمة بدليل الواجب الأول لوجب التصريح بها، مع أن المقدمة لا يصرح بها، أو لكانت واردة في ذهن المخاطب مع أنه كثيرا ما يغفل عنها، فإثبات إيجاب المقدمة لشيء لا يقتضيه الخطاب فيكون باطلا .


وهناك آراء أخرى تفرق بين السبب والشرط، وبين الشرط الشرعي والشرط العقلي وغيره، وذلك أن عدم المشروط عند عدم الشرط إن كان منشؤه الشرع فهو شرط شرعي، كالطهارة بالنسبة للصلاة، وإن كان منشؤه العقل فهو شرط عقلي، مثل ترك ضد من أضداد المأمور به، كالأكل بالنسبة للصلاة، وإن كان منشؤه العادة فهو شرط عادي، كنصب السلم بالنسبة لصعود السطح، وغسل جزء من الرأس بالنسبة لغسل الوجه، فإن غسل الوجه لا ينفك عادة عن غسل جزء من الرأس.


وتفصيل هذا الموضوع دقيق ولا طائل تحته، ولذا نكتفي بهذا الجزء منه، قال الآمدي: وبالجملة فالمسألة وعرة، والطرق ضيقة فليقنع بمثل هذا في المضيق.


فائدة: يقول القرافي رحمه الله تعالى: "الوسيلة إلى أفضل المقاصد أفضل الوسائل، وإلى أقبح المقاصد أقبح الوسائل، وإلى ما هو متوسط متوسطة."


(الوجيز في أصول الفقه الإسلامي (المدخل - المصادر - الحكم الشرعي)للأستاذ الدكتور محمد مصطفى الزحيلي، ج:1، ص:131، ط: دار الخير للطباعة والنشر)


"الهداية في شرح بداية المبتدي"میں ہے:


"لأن الأصل أن ‌سبب ‌الحرام ‌حرام."


(الهداية في شرح بداية المبتدي،لعلي بن أبي بكر بن عبد الجليل الفرغاني المرغيناني، أبو الحسن برهان الدين (ت ٥٩٣هـ)، ج:4، ش:374، ط: دار احياء التراث العربي - بيروت)


فتاوی شامی میں ہے:


"وماکان سببا لمحظور محظور... ونظیره کراهة بیع المعازف لان المعصیة تقام بها عینها."


(ردالمحتارعلی الدر المختار، ج:4، ص:268، ط:ایچ ایم سعید) 


"المهذب في علم أصول الفقه المقارن" میں ہے:


"المسألة السابعة: في ‌مقدمة ‌الحرام:


‌مقدمة ‌الحرام تنقسم إلى ثلاثة أقسام:


الأول: ما كان من أجزاء الحرام فهذا محرم بالتأكيد، مثاله: الإيلاج والإخراج في عملية الزنا، فإنه لا فرق - هنا - بين المقدمة والحرام، فإن حكمهما واحد؛ حيث إنه لا فرق بين أن يقولالشارع: " لا تزن " أو أن يقول: " لا تولج ".


الثاني: ما كان من أسباب الحرام فهذا حرام مثل: محادثة الأجنبيات بشهوة " لأن ذلك سبب في الوقوع في الزنا.


الثالث: ما كان من ضرورات الحرام مثل: اختلاط أخته بعدد منالأجنبيات عنه في بلدة صغيرة، وعسر تمييزها من بينهن، فهنا يحرمنكاح الجميع ضرورة، حتى لا يوصل به هذا إلى نكاح أخته."


(المهذب في علم أصول الفقه المقارن لعبد الكريم بن علي بن محمد النملة، ج:1، ص:295، ط: مكتبة الرشد - الرياض)


امداد الفتاوی میں ہے:


"سنسکرت سیکھنا


سوال (۲۳۳۶) :  قدیم  ۴/ ۷۲-   کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں : کہ آج کل آریہ مذہب والوں کا زور شور ہے اور قرآن پاک اور حدیث شریف پر طرح طرح کے  اعتراض بے جا کرتے ہیں ، اور مسلمانوں کو بہکاتے ہیں ، اور علمائے ربّانی اگر چہ جوابات تحقیقی ان کو دیتے ہیں ؛ لیکن اس زمانہ میں جواب الزامی زیادہ نافع اور مسکت خصم اور اہل زمانہ کے نزدیک باوقعت ہوتا ہے۔ اور جواب الزامی تاوقتیکہ ان کے مذہب سے پوری واقفیت نہ ہو ممکن نہیں ، اور ان کے مذہب کی کتب وید وغیرہ زبان سنسکرت میں ہیں ؛ اس لئے اگر بدیں ضرورت زبان سنسکرت کسی ایسے شخص سے جو دیندار اور معتمد ومعتبر ہوں اور پڑھنے والے بھی علوم دین سے واقف ہوں سیکھی جائے تو جائز ہے یا نہیں ؟ بینوا توجروا۔


الجواب: اس کی تعلیم وتعلّم کافی نفسہٖ جائز ہونا تو بوجہ عدم مانع جواز کے ظاہر ہے ، اور قاعدہ مقررہ ہے کہ جوا مر جائز کسی امر مستحسن یا واجب کا مقدمہ وموقوف علیہ ہو وہ بھی مستحسن یا واجب ہوتا ہے ، اور مصلحتِ مذکورہ سوال کے استحسان یا ضرورت میں کوئی کلام وخفا نہیں ؛ لہٰذا اس زبان کی تحصیل ایسی حالت  میں بلاشبہ مستحسن یا ضروری ہے علی الکفایہ، اسی بناء پر ہمارے علماء متکلمین نے یونانی فلسفہ کو حاصل کیا، اور علم کلام بطرز معقول مدون فرمایا،یؤیدہٗ مارواہ مسلم عن حذیفۃؓ قال: کان الناس یسألون رسول اللّٰہ ﷺ عن الخیر وکنت أسئلہ عن الشر مخافۃ أن یدرکنی۔ الحدیث ،  قلت: وإدراک الشر للمسلمین کإدراکہ لنفسہ،البتہ بعض روایات ایسے امور میں بعض ایسے عوارض خارجیہ کی وجہ سے جو کہ معلّم یا صحبت ناجنس یا فسادنیت وسوء استعمال یا احتمال افتنان یا اشتغال بمالا یعنی کی جہت سے ہوں ، قبح لغیرہ محتمل ہوسکتا ہے۔ قیود مصرّحہ سوال سے ان سب کا احتمال مرتفع ہے؛ لہٰذا کوئی مفسدہ بھی مصالح مذکورہ کے معارض نہیں ۔ پس جواز واستحسانِ ضرورت بحالہ باقی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ۵؍صفر ۱۳۲۴؁ھ ۔"


(امداد الفتاوی ج:4، ص:72، ط:  مکتبہ دارلعلوم کراچی ) 


امدادالاحکام میں ہے:


"بیع سلم بالفلوس جائز ہے یا نہیں؟ 


سوال:۔ ایک مسئلہ کے جواب کا خواستگار ہوں، بارہا لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ بیع سلم فی الفلوس جائز ہے یا نہیں؟ میں آج تک اس کا جواب نہ دے سکا۔ حضور سے اس کا جواب چاہتا ہوں، انگریزی سکہ کے ایک روپیہ دے کر انگریزی سکّہ کے بیس آنہ پیس پر بیع سلم کرنا درست ہے یا نہیں؟ دلائل کی ضرورت نہیں صرف حکم کافی ہے۔ 


الجواب:قال فی الدّر:ویصح فیما أسکن ضبط صفته کجودته ورداء ته ومعرفت قدرہ کمکیل وموزون و خرج بقوله مثمن الدراهم والدنانیر لانها أثمان فلم یجز فیها السلم خلافا لمالک وعددی متقارب کجوز وبیض وفلس الخ۔۔۔


قال الشامی:قیل وفیه خلاف محمد لمنعه بیع الفلس بالفلسین(فھو ثمن عندہ) إلاَّ أن ظاهر الروایة عنه کقولهما وبیان الفرق فی النهر وغیرہ اھ۔(ج؍۴،ص؍۳۱۵)اس سے معلوم ہوا کہ پیسوں میں سلم جائز ہے جبکہ شرائط سلم کی رعایت کی جائے۔ واللہ اعلم :حرّرہ الاحقر ظفراحمد عفی عنہ ،   ۷؍جمادی الاولیٰ ۴۶ ؁ھ 


لیکن جہاں ربوا لینے کے لئے اس کو حیلہ قرار دیا گیا ہو وہاں باقاعدہ مقدمۃ الحرام حرام اس کو ناجائز کہا جائے گا،  جواز اس صورت میں ہے کہ اتفاقًا ہوجائے اور اس میں افضاء الی ترویج الرباء کا احتمال نہ ہو۔"


(امدادالاحکام، ج:3، ص:440،  ط:مکتبہ دار العلوم کراچی )


 فقط واللہ اعلم 



مستحب کو واجب کا درجہ دینے کا حکم


 امر  مستحب و مندوب کو واجب کا درجہ  دینااس وقت  بدعت ہےکہ جب مستحب پر عمل کرنے کو ایسا لازم سمجھا جائےکہ نہ کرنے والے کو ملامت کی جائے اور رخصت پر عمل کرنے کو درست نہ سمجھا جائے ، اور  یہ ضابطہ  ملا علی قاری رحمہ اللہ کی کتاب مرقاۃ  المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح  ،اورعلامہ شاطبی مالکی کی کتاب الاعتصام للشاطبی اور  دیگر کتب  شروح حدیث وغیرہ میں  مختلف الفاظ کے ساتھ موجود ہے۔


مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح  میں ہے"


"قال الطيبي: وفيه أن ‌من ‌أصر ‌على أمر مندوب، وجعله عزما، ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال فكيف من أصر على بدعة أو منكر؟."


(کتاب الصلوۃ باب الدعاء فی التشھد      (      31/3)ط مکتبہ التجاریہ  مکہ مکرمہ)


الاعتصام للشاطبی میں ہے:


"ومنها: التزام الكيفيات والهيئات المعينة، كالذكر بهيئة الاجتماع على صوت واحد، واتخاذ يوم ولادة النبي صلى الله عليه وسلم عيدا، وما أشبه ذلك ،ومنها: التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته."


(الباب الاول فی تعریف البدع وبیان معناھا،51/1،ط:دار ابن الجوزی السعودیہ)


مجمع بحار الانوار میں ہے:


"لا يجعل أحدكم للشيطان شيئا من صلاته يرى أن لا ينصرف إلا عن يمينه، فيه من أصر على مندوب ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان منه»الإضلال، فكيف بمن أصر على البدعة."


(بحث حرف الجیم ،365/1،ط:دائرالمعارف العثمانیہ)


فيض القدير شرح الجامع الصغیرمیں ہے:


"وإذا كان ‌من ‌أصر ‌على مندوب ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان فكيف بمن أصر على بدعة فينبغي الأخذ بالرخصة الشرعية فإن الأخذ بالعزيمة في موضع الرخصة تنطع كمن ترك التيمم عند العجز عن استعمال الماء فيفضي به استعماله إلى حصول الضرر."


(حرف الھمزہ ،293/2،ط:المکتبہ التجاریہ مصر)


التعليق الممجد على موطأ محمد میں ہے:


"من ‌أصر ‌على مندوب والتزمه التزاما هجر ما عداه يأثم."


(ابواب الصلوۃ ،باب الانفتال فی الصلوۃ،35/2،ط:دار القلم دمشق)


فقط واللہ اعلم 




فرائض ذمہ باقی رہتے ہوئے نوافل کی ادئیگی کا حکم:


لما حضر ابابکر نالموت دعا عمر فقال:اتق اللہ یا عمر واعلم ان له عملا بالنھار لایقبله با للیل وعملاً باللیل لایقبله بالنھار واعلم انه لايقبل نافلة حتي تؤدی الفریضة ۔

ترجمہ:

حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی نزع کا وقت ہوا تو آپ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو بلواکر ارشاد فرمایا: اے عمر!اللہ تعالی سے ڈرنا،اور جان لو کہ اللہ کے کچھ کام دن میں ہیں کہ انہیں اگر رات میں کرو تو قبول نہیں فرمائے گا اورکچھ کام دن میں ہیں کہ انہیں اگر دن میں کرو تو قبول نہیں فرمائے گا اور خبردار رہو کہ کوئی نفل قبول نہیں ہوتا جب تک فرض ادا نہ کرلیا جائے۔


(حلیة الاولیاء،جلد:1،صفحہ:36،باب ذکر المھاجرین)


 امام ابو نعیم کے علاوہ دیگر محدثین کرام نے بھی اس حدیث کو اپنی کتابوں میں نقل فرمایا ہے جیسے عثمان بن ابی شیبہ نے اپنی سنن میں،امام حناد نے فوائد میں،امام ابن جریر نے تہذیب الآثار میں روایت کیا ہے۔


اور بھی احادیث ہیں جن کو ہمارے علما نے اس ضابطہ کی اصل بتایا ہے ۔آقاﷺ نے ارشاد فرمایا: اربع فرضھن اللہ فی الاسلام فمن جاء بثلاث لم یغنین عنه شیٔا حتی یاتی بھن جمعیا: الصلوۃ، والزکوة وصيام رمضان وحج البیت۔


ترجمہ: چار چیزیں اللہ تعالی نے اسلام میں فرض کی ہیں تو جو ان میں سے تین ادا کرے وہ اسے کچھ کام نہ دیں جب تک وہ پوری چاروں نہ بجا لاے۔ وہ چار چیزیں یہ ہیں:نماز،زکوة،روزه  رمضان اور حج کعبہ۔(مسند احمد بن حنبل،جلد:4،صفحہ:201)


حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:  ”امرنا  باقام الصلوة وایتاء الزکوٰۃ ومن لم یزک فلا صلوة له“۔


ترجمہ:ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم نماز قائم کریں اور زکوة ادا کریں اور زکوة نہ دیں اس کی نماز بھی مقبول نہیں ہے۔ (مجمع الزوائد ،ج:3،ص:62)


حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ فتوح الغیب میں ارشاد فرماتے ہیں: فان اشتغل بالسنن والنوافل قبل الفرائض لم یقبل منه واھین۔


ترجمہ: یعنی جو کوئی فرض چھوڑ کر سنت و نفل میں مشغول ہوگا تو یہ سنت و نفل قبول نہیں ہوں گے اور وہ خوار کیا جائے گا۔


(فتوح الغیب،صفحہ:273)


شیخ محقق علامہ شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالی علیہ نے اسی فتوح الغیب کی مذکورہ عبارت کی تشریح میں ارشاد فرمایا کہ: ترک آں چہ لازم و ضروری است واہتمام با آں چہ نہ ضروری است از فائدہ در عقل و خرد دور است چہ دفع ضرر اہم است بر عاقل از جلب نفع بلکہ بحقیقت نفع دریں صورت منتفی است


ترجمہ:لازم و ضروری چیز کا ترک اور جو ضروری نہیں ہے اس کا اہتمام عقل و خرد میں فائدہ سے کوسوں دور ہے کیوں کہ ایک عاقل کے یہاں حصول نفع سے دفع ضرر اہم ہے بلکہ اس صورت میں تو نفع ہی منتفی ہے ۔


شیخ شہاب الدین سہروردی رحمہ اللہ تعالی علیہ عوارف المعارف شریف میں لکھتے ہیں:کہ حضرت خواص رضی اللہ تعالی نے فرمایا : بلغنا ان اللہ لایقبل نافلة حتی یؤدی فریضة،یقول اللہ تعالی مثلکم کمثل العبد السوء بداء بالھدایة قبل قضاء الدین۔


ترجمہ:یعنی ہمیں یہ خبر پہنچی کہ اللہ عزوجل کوئی نفل قبول نہیں فرماتا یہاں تک کہ فرض ادا کیا جائے۔اللہ تعالی ایسے لوگوں سے ارشاد فرماتا ہے:کہ تمہاری مثال اس برے بندے کی طرح ہےجو قرض ادا کرنے سےپہلے تحفہ پیش کرے۔

(عوارف المعارف شریف،صفحہ:168)


سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کے بارے میں چند مثالیں بھی پیش فرمائی ہیں جو فرائض کو ترک کرکے نوافل کا اہتمام کرتا ہے۔فرماتے ہیں: کہ جس آدمی کو سلطان طلب کرے وہ وہاں نہ جاۓ اس کے غلاموں کے پاس جاۓ اس کی مثال ایسی ہے،،۔


حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالہ سے آپ فتوح الغیب میں نقل فرماتے ہیں کہ جس عورت کا حمل عین وقت پر ساقط ہوجاے تو اس کا نقصان گویا دگنا ہے کہ تکلیف بھی جھیلی اور بچہ بھی گیا۔یہ  مثال اس نفل خیرات کرنے والے کی ہے جو فرض ادا نہیں کرتا۔

(فتوح الغیب،صفحہ: 273)



حلال اور حرام كى تعريف:


حرام وہ ہے جس كا ارتكاب كرنے والے كو سزا ملے اور اس كے تارك كو ثواب ملے، اگر وہ اسے ترك كرنے ميں اللہ تعالى كى نہى پر عمل كرتا ہے.


اور حلال وہ ہے جس پر عمل كرنے ميں كوئى گناہ نہ ہو اسى طرح اس كے ترك كرنے پر گناہ نہ ہو، ليكن اگر اس حلال فعل كو سرانجام دينے ميں اللہ تعالى كى اطاعت پر تقويت حاصل كرنا مقصد ہو تو اس نيت كى وہ سے اسے ثواب ملے گا.


حلال اور حرام كرنا اللہ تعالى كا حق ہے، كچھ لوگ ايسے ہيں جنہوں نے اللہ تعالى كى حرام كردہ بعض اشياء كو حلال كر ليا، اور كچھ لوگ ايسے ہيں جنہوں نے اللہ تعالى كى حلال كردہ بعض اشياء كو حرام كرديا، اور اسى طرح كچھ لوگ ايسے بھى ہيں جنہوں نے ايسى عبادات ايجاد كر ليں جو اللہ نے مشروع نہيں كيں بلكہ ان سے روكا ہے.


اصل دين يہ ہے كہ حلال وہى ہے جو اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے حلال كيا، اور حرام وہ ہے جو اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے حرام كيا ہے، اور دين وہ ہے جو اللہ اور اس كے رسول نے مشروع كيا، كسى ايك كو بھى حق حاصل نہيں كہ وہ صراط مستقيم جس كو دے كر اللہ تعالى نے اپنے رسول كو مبعوث كيا سے باہر نكل سكے.


اللہ تعالى كا فرمان ہے:


اور يہ كہ ميرا يہ دين ميرا راستہ ہے جو مستقيم ہے سو اس راہ پر چلو اور دوسرى راہوں پر مت چلو كہ وہ راہيں تم كو اللہ كى راہوں سے جدا كر دينگى، اس كا تم كو اللہ تعالى نے تاكيدى حكم ديا ہے، تا كہ تم پرہيزگارى اختيار كرو۔

[سورۃ الانعام :153]


اللہ سبحانہ و تعالى نے سورۃ الانعام اور الاعراف وغيرہ ميں مشركين كى مذمت كى كيونكہ انہوں نے وہ اشياء حرام كر ليں تھيں جو اللہ نے حرام نہيں كيں، مثلا بحيرۃ اور سائبۃ وغيرہ اور جو اللہ تعالى نے حرام كيا تھا انہوں نے اسے حلال كر ليا مثلا اپنى اولاد كو قتل كرنا، اور انہوں نے وہ دين بنا ليا جس كا اللہ نے حكم نہيں ديا تھا.


اللہ تعالى كا فرمان ہے:


كيا ان لوگوں نے ( اللہ كے ) شريك ( مقرر كر ركھے ) ہيں جنہوں نے ان كے ليے ايسے احكام دين مقرر كر ديئے ہيں جو اللہ كے فرمائے ہوئے نہيں ہيں .


اور اس ميں كچھ ايسى اشياء جو حرام تھيں جيسا كہ شرك اور فاحشات انہوں نے اسے عبادات بنا ليا تھا مثلا ننگے بيت اللہ كا طواف كرنا وغيرہ.


واللہ اعلم .



سنت کی تعریف:

سنت سے مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ طریقہ ہے جو آپ کے قول، فعل، یا تقریر (خاموشی کی صورت میں منظوری) سے ثابت ہو۔ مثال کے طور پر وضو میں بِسمِ اللہ پڑھنا اور اعضاء کو تین مرتبہ دھونا سنت کے زمرے میں آتا ہے۔ سنت پر عمل کرنے پر اجر ملتا ہے، جبکہ اسے ترک کرنے پر ملامت ہوتی ہے ۔


---


سنت کی اقسام:

1. سنتِ قولی:

   نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات، جیسے احادیث میں بیان ہونے والے اقوال ۔  

2. سنتِ فعلی:

   آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی طریقے، جیسے نماز پڑھنے کا طریقہ یا روزے رکھنے کی کیفیت ۔  

3. سنتِ تقریری:

   صحابہ کرام کے کسی عمل پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی یا منظوری، جسے تقریری سنت کہا جاتا ہے ۔  


---


سنت کی شرعی حیثیت:

- سنت قرآن کی تشریح اور تکمیل کا ذریعہ ہے۔ قرآن کو سمجھنے کے لیے سنت کا ہونا ضروری ہے ۔  

- سنت پر عمل کرنا اللہ اور رسول کی اطاعت کی علامت ہے، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے:  

 "مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ"

(جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی) ۔  

[سورۃ النساء:80]


---


سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ:

1. سنت مؤکدہ:

   وہ سنت جس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ مداومت کی ہو، جیسے فجر اور ظہر کی سنتیں۔ اسے ترک کرنے والا گنہگار اور فاسق قرار پاتا ہے ۔  

2. سنت غیر مؤکدہ:

   جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کیا اور کبھی چھوڑ دیا۔ اس پر عمل کرنے پر ثواب ملتا ہے، لیکن ترک کرنے پر گناہ نہیں، جیسے عصر اور عشاء کی سنتیں ۔  


---


سنت اور بدعت میں فرق:

- سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ثابت شدہ طریقے ہیں، جبکہ "بدعت" وہ عمل ہے جو دین میں نئے طریقے ایجاد کرے۔ بدعت کو سنت سمجھنا گمراہی ہے ۔  


---


سنت کی اہمیت:

- سنت پر عمل کرنے والے اللہ کے نزدیک محبوب ہوتے ہیں اور شفاعت کے مستحق بنتے ہیں ۔  

- آج کے دور میں سنتوں کو نظرانداز کرنا اور بدعات کو اپنانا مسلم معاشرے کا بڑا چیلنج ہے ۔  


---


سنت اور مستحب میں فرق:

- سنت: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مستقل عمل، جسے ترک کرنا ناپسندیدہ ہے۔  

- مستحب: وہ عمل جو کبھی کیا گیا ہو، لیکن اس پر مداومت نہ ہو۔ اس کا ترک گناہ نہیں، جیسے نفلی روزے ۔  


---


نوٹ:

سنت کی پیروی کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے، کیونکہ یہ دین کا بنیادی ماخذ ہے۔ بدعات سے بچنے اور سنت کو سمجھنے کے لیے قرآن و حدیث کا گہرا مطالعہ ضروری ہے۔











No comments:

Post a Comment