«لعن» یعنی کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کردینا اور دھتکار دینا۔
خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق کے اثر پذیر ہونے سے محروم ہوجائے اور آخرت میں عقوبت(سزا) کا مستحق قرار پائے۔
اور انسان کی طرف سے کسی پر لعنت بھیجنے کے معنیٰ بددعا کے ہوتے ہیں۔ قرآن میں ہے:
أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ
[سورۃ هود:18]
سن رکھو کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔
[المفردات فی غریب القرآن: ص741]

احادیث اور فقہی تفاسیر کے مطابق، لعنت کرنے کی ممانعت اور اس کی اجازت کے درمیان فرق "عمومی لعنت" اور "خاص حالات میں لعنت" کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ ذیل میں اس کی وضاحت کی گئی ہے:
---
1. عام حالات میں لعنت کی ممانعت:
قرآن و حدیث میں مسلمانوں کو بددعا، گالی گلوچ، یا کسی بھی مخلوق کو لعنت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر:
- رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "مومن طعنہ دینے والا، لعنت کرنے والا، فحش گو، اور بدزبان نہیں ہوتا"۔[ترمذی:1977]
- ایک اور حدیث میں ہے: "مومن کو لعنت کرنے والا نہیں ہونا چاہیے"۔[ترمذی:2019]
یہ ممانعت اس لیے ہے کہ لعنت کرنا انسان کی فطری رحم دلی اور اخلاقی بلندی کے منافی ہے، نیز یہ معاشرے میں انتشار کا سبب بنتا ہے۔
---
2. ظالموں یا کافروں پر لعنت کی اجازت:
بعض خاص حالات میں، جن افراد یا گروہوں نے اسلام کے خلاف کھلم کھلا دشمنی کی ہو اور ان کے کفر یا ظلم پر یقین ہو، ان کے لیے لعنت جائز ہے۔ مثال کے طور پر:
- قرآن میں کافروں پر لعنت: کا ذکر ہے: {فَلَعْنَةُ اللَّـهِ عَلَى الْكَافِرِينَ}(تو لعنت ہو اللہ کی کافروں پر۔) (البقرة: 89)۔
- احادیث میں فرعون، ابوجہل، یا شراب پینے والے جیسے معین افراد پر لعنت کی گئی ہے ۔
- فقہاء کے مطابق، "عام صفاتِ مذمومہ" (جیسے کفر، ظلم) والوں پر لعنت کرنا جائز ہے، بشرطیکہ یہ کسی معین شخص کے لیے نہ ہو جس کے بارے میں یقین نہ ہو کہ وہ کفر پر مرا۔
---
3. دونوں حکموں میں تطبیق کیسے؟
- عمومی اصول: مومن کو اپنی عادت میں لعنت کرنے والا نہیں بننا چاہیے، کیونکہ یہ اس کے اخلاقی مرتبے کو گراتا ہے اور اس کی دعاؤں کے اثر کو کم کرتا ہے ۔
- استثناء: صرف ان ہی معاملات میں لعنت کی اجازت ہے جنہیں شریعت نے واضح طور پر "ملعون" قرار دیا ہو، جیسے کافر، ظالم، یا وہ لوگ جو اللہ اور رسول کے احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہیں ۔
---
4. لعنت کرنے کے نتائج:
- اگر کوئی شخص کسی بےقصور پر لعنت کرے تو وہ لعنت اسی پر لوٹ آتی ہے ۔
- حدیث میں آیا ہے: "جس نے کسی مومن کو لعنت دی، تو یہ اسے قتل کرنے کے برابر ہے" ۔
---
5. خلاصہ:
- ممانعت کا مقصد: مومن کے اخلاق کو پاکیزہ رکھنا اور معاشرتی تعلقات کو بہتر بنانا۔
- اجازت کا مقصد: صرف ان موارد میں جہاں شریعت نے واضح حکم دیا ہو، اور یہ "عمومی برائی" کے خلاف اعلانِ بیزاری ہو۔
اس لیے حدیث "لَا يَنْبَغِي لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يَكُونَ لَعَّانًا"(مومن کو لعنت کرنے والا نہیں ہونا چاہیے) [ترمذی:2019] میں "عمومی عادت" کی ممانعت ہے، جبکہ ظالموں یا کافروں پر لعنت ایک "شرعی حکم" کے تحت ہے، نہ کہ ذاتی غصے یا عادت کے طور پر۔












قرآن کی لعنت، بعض قرآن پڑھنے والوں پر»
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
رب تال للقرآن والقرآن يلعنه۔
ترجمہ:
بہت سے قرآن کی تلاوت کرنے والے( ایسے ہوتے ہیں کہ وہ قرآن پڑھ رہے ہوتے ہیں) حالانکہ قرآن ان پر لعنت کر رہا ہوتا ہے۔
[احیاء علوم الدین-امام غزالی» (274/1، ط: دار المعرفۃ)]
تشریح:
بعض اسلاف نے فرمایا کہ ایک بندہ جب قرآن کریم کی کوئی سورۃ شروع کرتا ہے، تو قرآن کریم اس کے لیے رحمت کی دعا کرتا ہے، یہاں تک وہ بندہ اس کی قرأت سے فارغ ہوجاتا ہے، اور ایک بندہ جب قرآن کریم کی کوئی سورۃ شروع کرتا ہے، تو قرآن کریم اس پر لعنت کرتا ہے، یہاں تک وہ بندہ اس کی قرأت سے فارغ ہوجاتا ہے، تو کہا گیا کہ یہ کیسے ہوتا ہے؟ تو جواب میں فرمایا: جب قرآن کریم کی حلال کردہ چیزوں کو حلال جانے اور حرام کردہ چیزوں کو حرام جانے، یعنی جب اس کے اوامر و احکام کو پورا کرے اور اس کی منع کردہ چیزوں سے اپنے آپ کو روکے، تو قرآن کریم اس کے لیے رحمت کی دعا کرتا ہے، ورنہ لعنت کرتا ہے۔
بعض علمائے کرام نے فرمایا: بندہ (بسا اوقات )تلاوت کرتا ہے، تو اپنے اوپر لعنت کرتا ہے، حالانکہ اس کو اس کا پتہ نہیں ہوتا ہے، (کیونکہ) وہ آیت پڑھتا ہے: "الا لعنةالله على الظالمين" (خبردار ظالموں پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔) حالانکہ وہ خود اپنے اوپر یا دوسروں پر ظلم کرتا ہے، وہ آیت پڑھتا ہے: "الا لعنةالله على الكاذبين" (خبردار جھوٹوں پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔) حالانکہ وہ خود جھوٹوں میں سے ہوتا ہے۔
[اتحاف السادة المتقين بشرح إحياء علوم الدين » (469/4، ط: مؤسسۃ التاریخ الاسلامی)]
حضرت عائشہ نے فرمایا:
كم من قارئ يقرأ القرآن والقرآن يلعنه يقرأ ألا لعنة الله على الظالمين، وهو ظالم.
ترجمہ:
کتنے ہی قرآن کریم پڑھنے والے ایسے ہیں، جو قرآن کریم پڑھتے ہیں، حالانکہ قرآن کریم ان پر لعنت کرتا ہے، وہ پڑھتا ہے: ﴿خبردار! ظالموں پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔ (سورۃ ھود:18.الاعراف:44)﴾ حالانکہ وہ خود ظالم ہوتا ہے۔
[المدخل-لابن الحاج» ج:٢،ص:٢٩٥،ط:دار التراث]
مہران بن میمون (جو کہ تابعی ہیں) کا قول امام ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے:
إن الرجل ليصلي ويلعن نفسه في قراءته فيقول: ألا لعنة الله على الظالمين وإنه لظالم۔
ترجمہ:
یقیناً آدمی نماز پڑھتا ہے اور قرأت میں اپنے آپ پر لعنت کرتا ہے، کیونکہ وہ قرآن مجید کی آیت پڑھتا ہے: "الا لعنة الله على الظالمين" ﴿خبردار! ظالموں پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔ (سورۃ ھود:18.الاعراف:44)﴾ حالانکہ وہ خود ظالم ہوتا ہے۔
[تفسير-لابن أبي حاتم» حدیث نمبر:8484]
[تقریب التھذیب:7049 (ص: 585، ط: دار الیسر)]
دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (3 / 213) دوسرا ایڈیشن ، میں ہے کہ:
مسلمان کو قرآن کریم پر عمل کے بغیر پڑھنے سے خبردار کیا گیا ہے؛ کیونکہ کچھ اللہ کے بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جو قرآن بھی پڑھتے ہیں اور ایسے کام بھی کرتے ہیں جن سے قران کریم روکتا ہے، مثلاً: قرآن کریم سودی لین دین سے روکتا ہے لیکن وہ پھر بھی سودی لین دین کرتا ہے، قرآن کریم ظلم سے روکتا ہے لیکن پھر بھی وہ ظلم کرتا ہے، اسی طرح قرآن کریم غیبت سے روکتا ہے لیکن وہ پھر بھی غیبت کرتا ہے، اسی طرح قرآن کریم کے دیگر احکامات اور ممنوعہ اعمال کا معاملہ ہے۔ اللہ تعالی عمل کی توفیق دے۔
قرآن کریم میں ایسی چیزیں جو اس شخص کی مذمت اور لعنت کا تقاضا کرتی ہیں، مثلاً: وہ شخص قرآن کریم بھی پڑھتا ہے لیکن اس کے احکامات کی مخالفت کرتا ہے، یا ممنوعہ کاموں کا ارتکاب کرتا ہے، وہ شخص اللہ کی کتاب بھی پڑھتا ہے لیکن قرآن کریم کے احکامات اور ممنوعات کا خیال نہیں کرتا جس کی وجہ سے وہ برا بھلا کہلائے جانے کا حقدار ٹھہرتا ہے۔
اگر یہ روایت نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے صحیح ثابت ہو جائے تو اس کا صحیح ترین معنی یہی ہو گا۔"
[مجموع فتاوى ابن باز : 26 / 61]
No comments:
Post a Comment