Tuesday, 27 May 2025

ابراھیمی مذاہب یا ادیان اور ابراہیمی ہاوس کی حقیقت


ابراہیم نہ یہودی تھے، نہ نصرانی، بلکہ وہ تو سیدھے سیدھے مسلمان تھے، اور شرک کرنے والوں میں کبھی شامل نہیں ہوئے۔ ابراہیم کے ساتھ تعلق کے سب سے زیادہ حق دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی، نیز یہ نبی (آخر الزماں ﷺ اور وہ لوگ ہیں جو (ان پر) ایمان لائے ہیں، اور اللہ مومنوں کا کارساز ہے۔

[سورۃ آل عمران، آیت نمبر 67-68]

اے اہل کتاب(یہود ونصاریٰ!) تم ابراہیم کے بارے میں کیوں بحث کرتے ہو حالانکہ تورات اور انجیل ان کے بعد ہی تو نازل ہوئی تھیں، کیا تمہیں اتنی بھی سمجھ نہیں ہے؟ دیکھو ! یہ تم ہی تو ہو جنہوں نے ان معاملات میں اپنی سی بحث کرلی ہے جن کا تمہیں کچھ نہ کچھ علم تھا۔ (26) اب ان معاملات میں کیوں بحث کرتے ہو جن کا تمہیں سرے سے کوئی علم ہی نہیں ہے ؟ اللہ جانتا ہے، اور تم نہیں جانتے۔

[سورۃ آل عمران، آیت نمبر 65-66]

تفسیر:

(26)یہودی کہا کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم ؑ یہودی تھے اور عیسائی کہتے تھے کہ وہ عیسائی تھے، اول تو قرآن کریم نے فرمایا کہ یہ دونوں مذہب تورات اور انجیل کے نزول کے بعد وجود میں آئے، جبکہ حضرت ابرہیم ؑ بہت پہلے گزر چکے تھے، لہذا یہ انتہائی احمقانہ بات ہے کہ انہیں یہودی یا عیسائی کہا جائے، اس کے بعد قرآن کریم نے فرمایا کہ جب تمہارے وہ دلائل جو کسی نہ کسی صحیح حقیقت پر مبنی تھے، تمہارے دعوؤں کو ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں، تو حضرت ابراہیم ؑ کے بارے میں یہ بےبنیاد اور جاہلانہ بات کیسے تمہارے دعوے کو ثابت کرسکتی ہے، مثلاً تمہیں یہ معلوم تھا کہ حضرت عیسیٰ ؑ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے اور اس کی بنیاد پر تم نے ان کی خدائی کی دلیل پیش کرکے بحث کی مگر کامیاب نہ ہوسکے ؛ کیونکہ بغیر باپ کے پیدا ہونا کسی کی خدائی کی دلیل نہیں ہوسکتا، حضرت آدم ؑ تو ماں باپ دونوں کے بغیر پیدا ہوئے تھے مگر انکو تم بھی خدا یا خدا کا بیٹا نہیں مانتے، جب تمہاری وہ دلیلیں بھی کام نہ آسکیں جو اس صحیح واقعے پر مبنی تھیں تو سراسر جاہلانہ بات کہ حضرت ابراہیم ؑ نصرانی یا یہودی تھے کیسے تمہارے لئے کارآمد ہوسکتی ہے ؟





Saturday, 24 May 2025

جہنم کا بیان

 جہنم۔۔۔بھڑکتی ہوئی "آگ" ہے۔

[سورۃ النساء:55]

اللہ کے غضب اور عذاب کا

[النساء:93]

طے شدہ(وعدہ گاہ) ہے

[الحجر:43]

برا ٹھکانہ

[البقرۃ:204]

بدترین مکان

[الفرقان:34]

قیدخانہ ہے

[الاسراء:8]

تکبر(حق کا انکار)کرنے والوں کیلئے

[النحل؛29]

اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے(مرنے)والے

[الجن:23]

جس سے بچنے کیلئے کوئی راہِ فرار نہیں ملے گی۔

[النساء:121]

جس میں وہ(مجرم)نہ مریں گے اور نہ جئیں گے

[طٌہٰ:74]

اور نہ ہی عذاب ہلکا کیا جائے گا

[فاطر:36]

یقیناً اسکا عذاب(وہ تباہی)ہے جو لازم ہوجانے-چمٹ کر رہ جانے والا ہے

[الفرقان:65]

Wednesday, 21 May 2025

نکاح میں"عمر"کے حد مقرر کرنے کا شرعی حکم

واضح رہے کہ شریعت میں نکاح کیلئے "عمر" کی حد(قید) نہیں لگائی گئی، اور دین مکمل ہوچکا اس میں کسی اضافے یا کمی کی گنجائش نہیں، اور انسانی عقل سے تجویز کردہ باتوں میں اختلاف ناگزیر ہے، لہٰذا انسانی عقل سے نازل شدہ حکم اور علمِ الٰہی کی ہدایت کو بدلنا نہ صرف دین سے بغاوت ہے بلکہ یہ دین میں تحریف و تبدیلی کرنا اور دین میں فساد وفتنہ پھیلانا ہے۔


لہٰذا کسی بھی عمر میں شادی کرائی جاسکتی ہے، البتہ بلوغت سے پہلے لڑکے/ لڑکی خود سے شادی نہیں کرسکتے، بلکہ ولی کو ان کی شادی کرانے کا حق ہوتا ہے۔

نابالغ کی(شادی اور)طلاق کا حکم:

چنانچہ قرآن پاک میں ہے:

{وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ}

ترجمہ:

اور تمہاری عورتوں میں سے جو ماہواری آنے سے مایوس ہوچکی ہوں اگر تمہیں (ان کی عدت کے بارے میں) شک ہو تو (یاد رکھو کہ) ان کی عدت تین مہینے ہے، اور ان عورتوں کی (عدت) بھی (یہی ہے) جنہیں ابھی ماہواری آئی ہی نہیں۔۔۔

[سورۃ الطارق:4]


پس اس آیت کے ذیل میں امام جصاص رحمہ اللہ (م370ھ) لکھتے ہیں:

"فحكم بصحة طلاق الصغيرة التي لم تحض, والطلاق لا يقع إلا في نكاح صحيح, فتضمنت الآية جواز تزويج الصغيرة.ويدل عليه أن النبي صلى الله عليه وسلم تزوج عائشة وهي بنت ست سنين۔"

ترجمہ:

"(اس آیت ميں) اس بچی جس کو ابھی حیض نہ آیا ہو اس کی طلاق کی درستگی کا حکم دیا گیا ہے اور طلاق صرف نکاح صحیح کے دوران ہوتی ہے، پس یہ آیت اس کو حکم کو بھی متضمن ہے کہ چھوٹی بچی کا نکاح کرانا درست ہے، اور اس بات پر بھی دلالت کر رہی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس وقت شادی کی جب وہ چھ سال کی تھیں۔"

[احکام القرآن للجصاص» سورہ آلِ عمران ،ج:،ص:69،ط:دار الکتب العلمیہ]


پس اگر لڑکی صحت مند ہو، شوہر کے قابل ہو تو رخصتی میں شرعاً کوئی حرج نہیں اور اس کا تعین لڑکی کے ولی اور سرپرست جو کہ لڑکی کے انتہائی خیر خواہ اور ذمہ دار ہیں ان کا کام ہے ،دوسرے لوگوں کو اس پر اعتراض کرنا اور اس قسم کی باتوں کو موضوع سخن بنانے کا کوئی حق نہیں ہے۔