Thursday, 27 November 2025

خیر کے کاموں میں سبقت(جلدی) کرنا۔

 نیکی میں سبقت(جلدی) کرنا۔

القرآن:

اور ہر گروہ کی ایک سمت ہے جس کی طرف وہ رخ کرتا ہے، *لہذا تم نیک کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔* تم جہاں بھی ہوگے الله تم سب کو (اپنے پاس) لے آئے گا۔ یقینا الله ہر چیز پر قادر ہے۔

[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 148]

القرآن:

اور (اے رسول محمد ! ﷺ ہم نے تم پر بھی حق پر مشتمل کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان کی نگہبان ہے۔ لہذا ان لوگوں کے درمیان اسی حکم کے مطابق فیصلہ کرو جو الله نے نازل کیا ہے، اور جو حق بات تمہارے پاس آگئی ہے اسے چھوڑ کر ان کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو۔ تم میں سے ہر ایک (امت) کے لیے ہم نے ایک (الگ) شریعت اور طریقہ مقرر کیا ہے۔ اور اگر الله چاہتا تو تم سب کو ایک امت بنا دیتا، لیکن (الگ شریعتیں اس لیے دیں) تاکہ جو کچھ اس نے تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے۔ *لہٰذا نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔* الله ہی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ اس وقت وہ تمہیں وہ باتیں بتائے گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔

[سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 48]



القرآن:
کیا یہ لوگ اس خیال میں ہیں کہ ہم ان کو جو دولت اور اولاد دیے جارہے ہیں۔ تو ان کو بھلائیاں پہنچانے میں جلدی دکھا رہے ہیں ؟ (21) نہیں، بلکہ ان کو حقیقت کا شعور نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے پروردگار کے رعب سے ڈرے رہتے ہیں۔ اور جو اپنے پروردگار کی آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔ اور جو اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہیں مانتے۔ اور وہ جو عمل بھی کرتے ہیں، اسے کرتے وقت ان کے دل اس بات سے سہمے ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے پروردگار کے پاس واپس جانا ہے۔ وہ ہیں جو بھلائیاں حاصل کرنے میں جلدی دکھا رہے ہیں، اور وہ ہیں جو ان کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
[سورۃ نمبر 23 المؤمنون،آیت نمبر 55-61]
تفسیر:
(21)بہت سے کفار اپنے حق پر ہونے کی یہ دلیل دیتے تھے کہ ہمیں الله تعالیٰ نے بہت سامال و دولت دے رکھا ہے، ہماری اولاد بھی خوشحال ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ الله تعالیٰ ہم سے خوش ہے، اور ہمیں آئندہ بھی خوشحال رکھے گا، اگر ناراض ہوتا تو یہ مال اور اولاد ہمیں میسر نہ ہوتا، یہ آیت ان کا جواب دے رہی ہے اور وہ یہ کہ دنیا میں مال و دولت مل جانا الله تعالیٰ کی رضا مندی کی دلیل نہیں ہے ؛ کیونکہ وہ کافروں اور نافرمانوں کو بھی رزق دیتا ہے اس کے بجائے وہ ان لوگوں سے خوش ہے، اور ان کا انجام بہتر کرے گا جن کے حالات آیت نمبر : 57 تا 60 میں بیان فرمائے گئے ہیں۔
تفسیر:
(22)یعنی نیک عمل کرتے ہوئے بھی ان کے دل میں کوئی بڑائی نہیں آتی، بلکہ وہ سہمے رہتے ہیں کہ اس عمل میں کوئی ایسی کوتاہی نہ رہ گئی ہو جو الله تعالیٰ کی ناراضی کا سبب بن جائے۔


















































القرآن:
الله نے توبہ قبول کرنے کی جو ذمہ داری لی ہے وہ ان لوگوں کے لیے جو نادانی سے کوئی برائی کر ڈالتے ہیں، پھر جلدی ہی توبہ کرلیتے ہیں۔ چنانچہ الله ان کی توبہ قبول کرلیتا ہے، اور الله ہر بات کو خوب جاننے والا بھی ہے، حکمت والا بھی۔
[سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 17]



















نیک کام جاری رکھنا۔ نیکی چھوڑنے میں جلدی نہ کرنا۔
القرآن:
ایسی ہی اونچی شان ہے الله کی، جو سلطنت کا حقیقی مالک ہے۔ اور (اے پیغمبر) جب قرآن وحی کے ذریعے نازل ہورہا ہو تو اس کے مکمل ہونے سے پہلے قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کرو۔ (47) اور یہ دعا کرتے رہا کرو کہ : میرے پروردگار ! مجھے علم میں اور ترقی عطا فرما۔ (48)
[سورۃ نمبر 20 طه، آیت نمبر 114]

تفسیر:
(47) جب حضرت جبرئیل ؑ قرآن کریم کی آیتیں وحی کے ذریعے آنحضرت ﷺ پر نازل کرتے، تو آپ اس ڈر سے کہ کہیں بھول نہ جائیں، ساتھ ساتھ ان آیتوں کو دہراتے رہتے تھے جس سے ظاہر ہے کہ آپ کو سخت مشقت ہوتی تھی۔ اس آیت میں آپ سے فرمایا گیا ہے کہ آپ کو یہ محنت اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ الله تعالیٰ خود ہی قرآن کریم کو آپ کے سینہ مبارک میں محفوظ فرما دے گا۔ یہی بات سورة قیامہ : 16 تا 18 میں بھی فرمائی گئی ہے۔
(48) آنحضرت ﷺ کو اس دعا کی تلقین فرما کر یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ علم ایک ایسا سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں، اور انسان کو علم کے کسی بھی درجے پر قناعت کر کے نہیں بیٹھنا چاہیے، بلکہ ہر وقت علم میں ترقی کی کوشش اور دعا کرتے رہنا چاہیے۔ اس دعا میں یاد داشت کی قوت کی دعا بھی شامل ہے، اور معلومات کی زیادتی اور ان کی صحیح سمجھ کی بھی۔

القرآن:
(اے پیغمبر) تم اس قرآن کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو ہلایا نہ کرو۔
[سورۃ نمبر 75 القيامة، آیت نمبر 16]

تفسیر:
(6)یہ ایک جملہ معترضہ ہے جس کا پس منظر یہ ہے کہ جب حضور اقدس ﷺ پر قرآن کریم نازل ہوتا تو آپ اس کے الفاظ ساتھ ساتھ دہراتے جاتے تھے، تاکہ آپ انہیں بھول نہ جائیں۔ ان آیات میں آنحضرت ﷺ سے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ زبان مبارک سے الفاظ کو دہرانے کی مشقت نہ اٹھائیں، کیونکہ ہم نے ذمہ داری لے لی ہے کہ ہم انہیں آپ کو یاد بھی کرائیں گے، اور ان کی تشریح بھی آپ کے قلب مبارک میں واضح کردیں گے۔







گناہ اور دشمنی کے کاموں میں جلدی کرنا جائز نہیں۔
القرآن:
اور یتیموں کو جانچتے رہو، یہاں تک کہ جب وہ نکاح کے لائق عمر کو پہنچ جائیں، تو اگر تم یہ محسوس کرو کہ ان میں سمجھ داری آچکی ہے تو ان کے مال انہی کے حوالے کردو۔ اور یہ مال فضول خرچی کر کے اور یہ سوچ کر جلدی جلدی نہ کھا بیٹھو کہ وہ کہیں بڑے نہ ہوجائیں۔ اور (یتیموں کے سرپرستوں میں سے) جو خود مال دار ہو وہ تو اپنے آپ کو (یتیم کا مال کھانے سے) بالکل پاک رکھے، ہاں اگر وہ خود محتاج ہو تو معروف طریق کار کو ملحوظ رکھتے ہوئے کھالے۔ پھر جب تم ان کے مال انہیں دو تو ان پر گواہ بنا لو، اور الله حساب لینے کے لیے کافی ہے۔
[سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 6]
















عذاب کیلئے جلدی کرنا۔

القرآن:
صالح نے کہا : میری قوم کے لوگو ! اچھائی سے پہلے برائی کو کیوں جلدی مانگتے ہو۔ (22) تم الله سے معافی کیوں نہیں مانگتے تاکہ تم پر رحم فرمایا جائے ؟
[سورۃ نمبر 27 النمل، آیت نمبر 46]
تفسیر:
)22) اچھائی سے مراد ایمان ہے اور برائی سے مراد عذاب، مطلب یہ ہے کہ چاہیے تو یہ تھا کہ تم ایمان لا کر اچھائی حاصل کرتے، لیکن ایمان لانے کے بجائے تم نے عذاب جلدی لانے کا مطالبہ شروع کردیا۔

القرآن:
اور یہ لوگ تم سے عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں، اگر (عذاب کا) ایک معین وقت نہ ہوتا تو ان پر ضرور عذاب آجاتا اور وہ آئے گا ضرور (مگر) اتنا اچانک کہ ان کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔
[سورۃ نمبر 29 العنكبوت،آیت نمبر 53]

القرآن:
کہو کہ : مجھے اپنے پروردگار کی طرف سے ایک روشن دلیل مل چکی ہے جس پر میں قائم ہوں، اور تم نے اسے جھٹلا دیا ہے، جس چیز کے جلدی آنے کا تم مطالبہ کر رہے ہو وہ میرے پاس موجود نہیں ہے۔ (22) حکم الله کے سوا کسی کا نہیں چلتا۔ وہ حق بات بیان کردیتا ہے، اور وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔
[سورۃ نمبر 6 الأنعام، آیت نمبر 57]
تفسیر:
(22) یہ آیات کفار کے اس مطالبے کے جواب میں نازل ہوئی ہیں کہ جس عذاب سے آنحضرت ﷺ ہمیں ڈرا رہے ہیں وہ ہم پر فوراً کیوں نازل نہیں ہوتا، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ عذاب نازل کرنے کا صحیح وقت اور مناسب طریقہ طے کرنے کا مکمل اختیار الله تعالیٰ کو ہے جس کا فیصلہ وہ اپنی حکمت سے کرتا ہے۔

القرآن:
کہو کہ : جس چیز کی تم جلدی مچا رہے ہو، اگر وہ میرے پاس ہوتی تو میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ ہوچکا ہوگا۔ اور الله ظالموں کو خوب جانتا ہے۔
[سورۃ نمبر 6 الأنعام، آیت نمبر 58]

القرآن:
اور اگر الله (ان کافر) لوگوں کو برائی (یعنی عذاب) کا نشانہ بنانے میں بھی اتنی ہی جلدی کرتا جتنی جلدی وہ اچھائیاں مانگنے میں مچاتے ہیں تو ان کی مہلت تمام کردی گئی ہوتی (5)۔ (لیکن ایسی جلد بازی ہماری حکمت کے خلاف ہے) لہذا جو لوگ ہم سے (آٓخرت میں) ملنے کی توقع نہیں رکھتے، ہم انہیں اس حال پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے پھریں۔
[سورۃ نمبر 10 يونس، آیت نمبر 11]
تفسیر:
(5) یہ دراصل کفار عرب کے ایک سوال کا جواب ہے، جب انہیں کفر کے نتیجے میں عذاب الٰہی سے ڈرایا جاتا تھا تو وہ کہتے تھے کہ اگر یہ بات سچ ہے تو وہ عذاب ابھی کیوں نہیں آجاتا ؟ الله تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ یہ لوگ عذاب آنے کے لئے اس طرح جلدی مچا رہے ہیں جیسے وہ کوئی اچھی چیز ہو، لیکن اگر الله تعالیٰ ان کی خواہش کے مطابق ابھی عذاب نازل کردے تو ان کو سوچنے سمجھنے کی جو مہلت دی گئی ہے وہ ختم ہوجائے گی، اور پھر ان کا ایمان لانا معتبر بھی نہیں ہوگا، لہذا الله تعالیٰ ان کے اس مطالبے کو اپنی حکمت کی بناء پر پورا نہیں کر رہا ہے ؛ بلکہ فی الحال ان کو اپنے حال پر چھوڑدیا ہے، تاکہ جو لوگ سرکش ہیں وہ گمراہی میں بھٹکتے رہیں اور ان پر حجت تمام ہوجائے، اور جو سمجھ سے کام لینا چاہتے ہوں، انہیں راہ راست پر آنے کا موقع مل جائے۔

القرآن:
کیا جب وہ عذاب آہی پڑے گا، تب اسے مانو گے ؟ (اس وقت تو تم سے یہ کہا جائے گا کہ) اب مانے ؟ حالانکہ تم ہی (اس کا انکار کر کے) اس کی جلدی مچایا کرتے تھے۔
[سورۃ نمبر 10 يونس، آیت نمبر 51]



القرآن:
اور یہ لوگ خوشحالی (کی میعاد ختم ہونے) سے پہلے تم سے بدحالی کی جلدی مچائے ہوئے ہیں (11) حالانکہ ان سے پہلے ایسے عذاب کے واقعات گزر چکے ہیں جس نے لوگوں کو رسوا کر ڈالا تھا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ لوگوں کے لیے ان کی زیادتی کے باوجود تمہارے رب کی ذات ایک معاف کرنے والی ذات ہے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا عذاب بڑا سخت ہے۔ (12)
[سورۃ نمبر 13 الرعد، آیت نمبر 6]
تفسیر:
(11) کفار مکہ آنحضرت ﷺ سے یہ مطالبہ کرتے تھے کہ اگر ہمارا دین غلط ہے تو الله تعالیٰ سے کہیے کہ ہم پر عذاب نازل کردے۔ یہاں ان کے اس بےہودہ مطالبہ کی طرف اشارہ ہے۔
(12) یعنی جو چھوٹے چھوٹے گناہ انسان سے نادانی میں سر زد ہوجائیں یا بڑے گناہ ہوں، مگر انسان ان سے توبہ کرلے تو الله تعالیٰ ان زیادتیوں کے باوجود اپنے بندوں کو معاف فرما دیتا ہے۔ لیکن کفر و شرک اور الله تعالیٰ کے ساتھ ضد اور عناد کا معاملہ ایسا ہے کہ اس پر الله تعالیٰ کا عذاب بھی بڑا سخت ہے۔ لہذا بندوں کو یہ سوچ کر بےفکر نہ ہونا چاہیے کہ الله تعالیٰ بڑا بخشنے والا ہے، اس لیے وہ ہماری ہر نافرمانی کو ضرور معاف فرما دے گا۔


القرآن:
الله کا حکم آن پہنچا ہے، لہذا اس کے لیے جلدی نہ مچاؤ (1)۔ جو شرک یہ لوگ کر رہے ہیں، وہ اس سے پاک اور بہت بالا و برتر ہے۔
[سورۃ نمبر 16 النحل، آیت نمبر 1]
تفسیر:
(1) عربی زبان کے اعتبار سے یہ انتہائی زور دار فقرہ ہے جس میں آئندہ ہونے والے کسی یقینی واقعے کو ماضی کے صیغے سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس کے زور دار اور تاثیر کو کسی اور زبان میں ادا کرنا بہت مشکل ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کفار سے یہ فرماتے تھے کہ کفر کا نتیجہ الله تعالیٰ کے عذاب کی صورت میں ظاہر ہوگا اور مسلمان غالب آئیں گے تو وہ مذاق اڑانے کے انداز میں کہا کرتے تھے کہ اگر عذاب آنا ہے تو الله تعالیٰ سے کہئے کہ اسے ابھی بھیج دے اس کا مقصد در حقیقت یہ تھا کہ عذاب کی یہ دھمکی اور مسلمانوں کی فتح کا وعدہ (معاذ الله) محض بناوٹی بات ہے، اس کی حقیقت کچھ نہیں۔ اس سورت کا آغاز ان کے اس طرز عمل کے مقابلے میں یہ فرما کر کیا گیا ہے کہ کافروں پر آنے والے جس عذاب اور مسلمانوں کے غلبے کی جس خبر کو تم ناممکن سمجھ رہے ہو وہ الله تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے۔ اور اتنا یقینی ہے کہ گویا آن ہی پہنچا ہے، لہذا اس کے آنے کی جلدی مچا کر اس کا مذاق نہ اڑاؤ، کیونکہ وہ تہارے سر پر کھڑا ہے۔ پھر اگلے فقرے میں اس عذاب کے یقینی ہونے کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ تم لوگ الله تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے ہو، حالانکہ الله تعالیٰ نہ صرف اس سے پاک بلکہ اس سے بہت بالا و برتر ہے لہذا اس کے ساتھ شرک کرنا اس کی توہین ہے، اور خالق کائنات کی توہین کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ توہین کرنے والے پر عذاب نازل ہو (تفسیر المہائمی 402:1)


القرآن:
جو شخص دنیا کے فوری فائدے ہی چاہتا ہے تو ہم جس کے لیے چاہتے ہیں جتنا چاہتے ہیں، اسے یہیں پر جلدی دے دیتے ہیں، (9) پھر اس کے لیے ہم نے جہنم رکھ چھوڑی ہے جس میں وہ ذلیل و خوار ہو کر داخل ہوگا۔
[سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 18]
تفسیر:
(9) یہ اس شخص کا ذکر ہے جس نے اپنی زندگی کا مقصد ہی دنیا کی بہتری کو بنا رکھا ہے اور آخرت پر یا تو ایمان نہیں، یا اس کی کوئی فکر نہیں، نیز اس قسم میں وہ شخص بھی داخل ہے جو کوئی نیکی کا کام دنیا کی دولت یا شہرت حاصل کرنے کے لئے کرتا ہے، الله تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے نہیں، الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو دنیا کے یہ فوائد ملنے کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے، نہ اس بات کی گارنٹی ہے کہ جتنے فائدے وہ چاہ رہے ہیں وہ سب مل جائیں، البتہ ان میں سے جن کو ہم مناسب سمجھتے ہیں دنیا میں دے دیتے ہیں، مگر آخرت میں ان کا انجام جہنم ہے۔






No comments:

Post a Comment