خشوع کا مطلب:
خشوع سے مراد ایسا قلبی سکون اور انکساری ہے جو اللہ تعالی کی عظمت اور اس کے سامنے اپنی حقارت کے علم سے پیدا ہوتی ہے اور خضوع کا لفظ بھی تقریبا خشوع کے ہم معنیٰ ہے؛ لیکن اصل کے اعتبار سے خشوع کا لفظ آواز اور نگاہ کی پستی اور تذلل کے لیے بولا جاتا ہے جب کہ وہ مصنوعی نہ ہو؛ بلکہ قلبی خوف اور تواضع کا نتیجہ ہو اور خضوع کا لفظ بدن کی تواضع اور انکساری کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے:
[معارف القرآن، سورہ بقرہ، آیت نمبر:45]
فضیلتِ خشوعِ نماز:
(1) اسحاق بن سعید بن عمرو بن سعید بن عاص سے روایت ہے کہ میں حضرت عثمان ؓ کے پاس حاضر تھا آپ نے وضو کے لئے پانی منگوا کر فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ:
مَا مِنَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ تَحْضُرُهُ صَلَاةٌ مَكْتُوبَةٌ فَيُحْسِنُ وُضُوءَهَا وخشوعها وركوعها، إِلَّا كَانَتْ كَفَّارَةً لِمَا قَبْلَهَا مِنَ الذُّنُوبِ مَا لَمْ يُؤْتِ كَبِيرَةً وَذَلِكَ الدَّهْرَ كُلَّهُ
ترجمہ:
جو مسلمان فرض نماز کا وقت پائے اور اچھی طرح وضو کرے اور خشوع سے نماز ادا کرے تو وہ نماز اس کے تمام پچھلے گناہوں کے لئے کفارہ ہوجائے گی بشرطیکہ اس سے کسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ ہوا ہو اور یہ سلسلہ ہمیشہ قائم رہے گا۔
[صحیح مسلم:228(543) ]
"(مَا لَمْ يُؤْتِ كَبِيرَةً) یعنی جب تک کوئی شخص بڑا گناہ نہ کرے، اس پر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا اطلاق ہوتا ہے: 'پھر اگر وہ فتنہ میں ڈالے جائیں تو اس میں پڑ جاتے ہیں'۔ گویا گناہ کرنے والا اپنی طرف سے یہ گناہ کرتا ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں سوائے بڑے گناہوں کے، کیونکہ ان کی معافی صرف توبہ یا اللہ کی رحمت سے ہی ممکن ہے۔
(وَذَلِكَ الدَّهْرَ كُلَّهُ) یعنی نماز کی وجہ سے گناہوں کا مٹانا تمام زمانوں میں جاری رہتا ہے، یہ کسی خاص زمانے تک محدود نہیں ہے۔ لہٰذا 'الدهر' کا ظرفیت (زمانے کے اظہار) کے طور پر منصوب ہونا۔"
چنانچہ علامہ المناوی لکھتے ہیں:
"کوئی بھی مسلمان شخص جس کے پاس فرض نماز آئے" یعنی جس پر نماز فرض ہو اور اس کا وقت داخل ہو جائے۔ قاضی کہتے ہیں: "مَكْتُوبَةٌ" سے مراد فرض نماز ہے، "کتابا" سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے فرض کیا، یہ "کتابت" سے مجازی معنوں میں ہے، کیونکہ جب حاکم کسی پر کچھ لکھ دیتا ہے تو وہ حکم اور لازم کرنے کے معنی میں ہوتا ہے۔ "پھر اس کا وضو، خشوع اور رکوع اچھی طرح ادا کرے" یعنی نماز کے تمام ارکان کو مکمل طریقے سے ادا کرے، فرض اور سنت دونوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے۔ قاضی کہتے ہیں: وضو کو اچھا کرنے سے مراد اس کے فرائض و سنن کو پورا کرنا ہے، اور نماز میں خشوع سے مراد عاجزی کے ساتھ اعضاء کو جھکا کر (عبادت کرنا) ہے، یعنی ہر رکن کو زیادہ عاجزی اور خشوع کے ساتھ ادا کرنا۔ رکوع کا خاص طور پر ذکر دیگر ارکان پر تنبیہ اور اس کی ترغیب کے لیے ہے، کیونکہ یہ مسلمانوں کی نماز کی خاص علامتوں میں سے ہے۔ "تو وہ نماز" اس نماز سے پہلے کے گناہوں کا "کفارہ بن جاتی ہے، جب تک کہ کوئی کبیرہ گناہ نہ کیا گیا ہو" یعنی جب تک کوئی کبیرہ گناہ سرزد نہ ہوا ہو۔ امام مسلم کی روایت کے الفاظ "مَا لَمْ يُؤْتِ" میں تاء کی زیر کے ساتھ ہے جو فاعل کے اعتبار سے ہے، جبکہ زیادہ تر روایات میں "مَا لَمْ يُؤْتِ" مفعول کے اعتبار سے ہیں، جہاں فاعل وہ ہوتا ہے جو عمل کرتا ہے یا اس کی ترغیب دیتا ہے یا اسے ممکن بناتا ہے، جیسا کہ قاضی نے ذکر کیا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ نماز صغیرہ گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے نہ کہ کبیرہ گناہوں کا، کیونکہ وہ اس سے معاف نہیں ہوتے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جب تک کوئی کبیرہ گناہ نہ ہو تو تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں، بلکہ اگر کوئی کبیرہ گناہ موجود ہو تو (صغیرہ) معاف ہو جاتے ہیں۔ "اور یہ (کفارہ) پوری زندگی کے لیے ہوتا ہے۔" قاضی کہتے ہیں: اشارہ تکفیر (گناہ مٹانے) کی طرف ہے، یعنی اگر کوئی شخص ہر روز صغیرہ گناہ کرتا رہے اور فرائض اسی طرح ادا کرتا رہے تو ہر فرض نماز اس سے پہلے کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے۔ یا پھر اشارہ "ما قبلها" (اس سے پہلے) کی طرف ہے، یعنی فرض نماز اس سے پہلے کے گناہوں کا کفارہ ہے، خواہ پوری زندگی کے گناہ ہی کیوں نہ ہوں۔ "الدهر" ظرف (زمانہ) کے طور پر منصوب ہے اور "كله" اس کی تاکید ہے۔ اگر اس کے پاس کئی کفارے جمع ہو جائیں، جیسے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا، آمين کہنے میں موافقت، عاشوراء کا روزہ اور اس جیسے دیگر اعمال، اور کوئی صغیرہ گناہ نہ ملے جس کا یہ کفارہ ہو، تو امید ہے کہ اس سے کبیرہ گناہوں میں تخفیف ہو جائے گی، اور اگر کوئی کبیرہ گناہ نہ ہو تو اس سے درجات بلند ہوں گے۔
(م) یہ حدیث طہارت کے باب میں ہے، "حضرت عثمان" بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اور امام بخاری کے الفاظ کے ساتھ یہ لفظ صدر المناوی کے بقول منفرد ہیں۔
[فیض القدیر للمناوی:8003]
(2)حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ: میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے:
خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اللَّهُ تَعَالَى، مَنْ أَحْسَنَ وُضُوءَهُنَّ وَصَلَّاهُنَّ لِوَقْتِهِنَّ وَأَتَمَّ رُكُوعَهُنَّ وَخُشُوعَهُنَّ كَانَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَيْسَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ، إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ.
ترجمہ:
اللہ تعالیٰ نے پانچ نماز فرض کی ہیں، جو شخص ان کے لیے اچھی طرح وضو کرے گا، اور انہیں ان کے وقت پر ادا کرے گا، ان کے رکوع اور خشوع کو پورا کرے گا تو اللہ تعالیٰ کا اس سے وعدہ ہے کہ اسے بخش دے گا، اور جو ایسا نہیں کرے گا تو اللہ کا اس سے کوئی وعدہ نہیں چاہے تو اس کو بخش دے، چاہے تو عذاب دے۔
[سنن ابوداؤد:425، (تحفة الأشراف: ٥١٠١) سنن النسائي:462، سنن ابن ماجہ:1401، مسند احمد:22704، تعظيم قدر الصلاة-للمروزي:1034، المعجم الأوسط-للطبراني:4655، 9311، السنن الكبرى للبيهقي:3166-6500، شرح السنة للبغوي:978]
وضاحت:
یعنی ان سے غلطی ہوئی ہے نہ کہ انہوں نے جان بوجھ کر جھوٹ کہا ہے (اور یہ ابومحمد کا اجتہادی فتویٰ تھا جس کی تردید عبادہ نے اس حدیث سے کی)
علامہ مناوی لکھتے ہیں:
(پانچ نمازیں) یہ مبتدا ہے اور (اللہ عز و جل نے انہیں فرض کیا) یہ 'نمازوں' کی صفت ہے، اور اس کے بعد والی شرطیہ جملہ اس کی خبر ہے، یعنی یہ قول کہ (جس شخص نے ان کا وضو اچھی طرح کیا) یعنی اسے مکمل کیا، (اور انہیں ان کے اوقات میں ادا کیا) یعنی ان کے مقررہ اوقات میں، (اور ان کے رکوع و سجود کو پورا کیا) یعنی انہیں پوری طرح اطمینان کے ساتھ ادا کیا، (اور ان کا خشوع) اپنے دل اور اعضا کے ساتھ (تو اس کے لیے اللہ پر) فضل و کرم سے (یہ عہد ہے کہ اسے بخش دے گا) یہ ایک ایسی جملہ ہے جس کا مبتدا محذوف ہے یا یہ 'عہد' کی صفت ہے یا اس کی بدل، اور یہ امان اور پختہ وعدہ ہے۔ (اور جس نے ایسا نہیں کیا) تو (اس کے لیے اللہ پر کوئی عہد نہیں، اگر وہ چاہے تو اسے بخش دے) فضل سے، (اور اگر چاہے تو عذاب دے) انصاف سے۔ (دارقطنی نے اسے عبادة بن الصامت رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے) اور الفاظ ابو داود کے ہیں۔
[التیسیر بشرح الجامع الصغیر-للمناوی: ۱/ ۵۱۹]
(پانچ نمازیں) طیبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ مبتدا ہے اور (اللہ عز و جل نے انہیں فرض کیا) یہ 'نمازوں' کی صفت ہے اور اس کے بعد والی شرطیہ جملہ خبر ہے، یعنی یہ قول کہ (جس نے ان کا وضو اچھی طرح کیا) یعنی اسے سنتوں اور آداب کے ساتھ مکمل کیا، (اور انہیں ان کے وقت پر پڑھا) یعنی ان کے معلوم اوقات میں، اور شاید مراد وقت کے اول میں ادا کرنا ہے، (اور ان کے رکوع و سجود کو پورا کیا) یعنی انہیں پوری طرح اطمینان کے ساتھ ادا کیا اور ان کے واردشدہ اذکار کا حق ادا کیا، (اور ان کا خشوع) اپنے دل اور اعضا کے ساتھ (تو اس کے لیے اللہ پر) فضل و کرم سے (یہ عہد ہے کہ اسے بخش دے گا) یہ یا تو محذوف مبتدا والی جملہ ہے یا 'عہد' کی صفت ہے یا 'عہد' کی بدل ہے، اور یہ امان اور پختہ عہد و میثاق ہے، اور اللہ کا عہد یقیناً واقع ہونے والا ہے، {بیشک اللہ وعدہ کے خلاف نہیں کرتا}۔
طیبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اور قول (کہ اسے بخش دے گا) میں 'یاء' محذوف ہے، کیونکہ 'عہد' 'وعدہ' کے معنی میں ہے، جیسے کہا جاتا ہے کہ اس نے فلاں چیز کا وعدہ کیا۔ (اور جس نے ایسا نہیں کیا) مذکورہ طریقے پر (تو اس کے لیے اللہ پر کوئی عہد نہیں، اگر وہ چاہے تو اسے بخش دے) چھوڑی ہوئی نمازوں کو اور درگزر کرے، یہ فضل سے ہوگا، (اور اگر چاہے تو عذاب دے) انصاف سے۔ قاضی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اللہ کے مؤمن کو اس کے عمل پر ثواب دینے کے وعدہ کی مثال اس پختہ اور خلاف نہ ہونے والے عہد سے دی گئی ہے، اور ترک کرنے والے کے معاملہ کو اس کی مشیت پر چھوڑ دیا گیا ہے، یہ عفو کی گنجائش اور اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ پر کوئی چیز واجب نہیں، اور کریموں کا شیوہ وعدہ کو پورا کرنا اور وعید (سزا کے وعدہ) میں نرمی برتنا ہوتا ہے۔
(دارقطنی نے اسے عبادة بن الصامت رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے) اور الفاظ ابو داود کے ہیں۔ مصنف (مناوی) کے اس طرز عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابو داود نے اسے ستہ (چھ کتب حدیث) میں سے صرف اپنی سند سے بیان کیا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے، بلکہ صدر مناوی وغیرہ نے اسے ترمذی اور نسائی سے بھی منسوب کیا ہے۔
[فیض القدیر-للمناوی:3946]
حضرت عمرو بن عببہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«إِذَا تَوَضَّأَ الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ فَتَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ؛ تَنَاثَرَتِ الْخَطَايَا مِنْ فِيهِ وَمِنْخَرِهِ , فَإِذَا غَسَلَ رِجْلَيْهِ؛ تَنَاثَرَتِ الْخَطَايَا مِنْ أَظَافِرِ رِجْلَيْهِ , فَإِذَا قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ مقبل فِيهِمَا بقلبه وَطَرْفِهِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ؛ خَرَجَ مِنَ الذُّنُوبِ كَمَا وَلَدَتْهُ أُمُّهُ»
ترجمہ:
"جب کوئی مومن بندہ وضو کرتا ہے اور کلی کرتا ہے اور ناک میں پانی ڈالتا ہے تو اس کے منہ اور نتھنے سے خطائیں جھڑ جاتی ہیں، اور جب وہ اپنے پاؤں دھوتا ہے تو اس کے پاؤں کے ناخنوں سے خطائیں جھڑ جاتی ہیں، پھر جب وہ دو رکعت نماز پڑھتا ہے اور اس میں اپنی دل اور توجہ اللہ عزوجل کی طرف لگائے رکھتا ہے تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے (آج ہی) جنا ہو۔"
[مسند الشاميين للطبراني:1320]
حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«مَا مِنْ أَحَدٍ يَتَوَضَّأُ فَيُحْسِنُ الْوُضُوءَ، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ مقبل بقلبه وَوَجْهِهِ عَلَيْهِمَا، إِلَّا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ»
ترجمہ:
جو شخص اچھی طرح وضو کرے، پھر پورے دل کی حاضری(خشوع) اور چہرے کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھے تو اس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے۔
حضرت عقبہ کی یہ روایت سن کر حضرت عمر نے فرمایا کہ اس سے زیادہ بات حضور ﷺ نے فرمائی تھی، شاید تم دیر سے آئے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ جو شخص وضو کرے اور پھر یہ کلمات کہے:" میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں " تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں جس سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔
[مصنف ابن ابی شیبہ:21، صحیح مسلم:234]
تشریح:
"اصول (شرح مسلم) میں یوں ہے: 'مُقْبِلٌ' یعنی وہ (اللہ کی طرف) متوجہ ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو الفاظ ('مقبل بقلبه وطرفه') کے ذریعے خشوع و خضوع کی تمام قسمیں جمع فرما دیں، کیونکہ (بعض) علماء کے قول کے مطابق خُضوع اعضاء (جسم) کے ساتھ ہوتا ہے اور خشوع دل کے ساتھ ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: 'یہ کتنی عمدہ بات ہے' یعنی یہ کلمہ، یا فائدہ، یا بشارت، یا عبادت۔ اور اس کی عمدگی کئی پہلوؤں سے ہے: ان میں سے یہ کہ یہ آسان اور سہل ہے، ہر شخص بغیر مشقت کے اس پر قادر ہے۔ اور ان میں سے یہ کہ اس کا اجر عظیم ہے۔ واللہ اعلم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان 'جِئْتُ آنِفًا' یعنی قریباً (ابھی ابھی) آیا ہوں۔ اور یہ 'آنیفاً' مد کے ساتھ مشہور زبان (قریش) پر ہے، اور قصر کے ساتھ ایک صحیح زبان (بولی) پر بھی ہے جس کے مطابق سات قراءتوں میں پڑھا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے...
[شرح مسلم للنووي: 3/121]
نماز میں ثواب کم ہونے کا بیان
حضرت عمار بن یاسر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے:
إِنَّ الرَّجُلَ لَيَنْصَرِفُ وَمَا كُتِبَ لَهُ إِلَّا عُشْرُ صَلَاتِهِ تُسْعُهَا ثُمْنُهَا سُبْعُهَا سُدْسُهَا خُمْسُهَا رُبْعُهَا ثُلُثُهَا نِصْفُهَا.
ترجمہ:
آدمی (نماز پڑھ کر) لوٹتا ہے تو اسے اپنی نماز کے ثواب کا صرف دسواں، نواں، آٹھواں، ساتواں، چھٹا، پانچواں، چوتھا، تیسرا اور آدھا ہی حصہ ملتا ہے۔
[سنن ابوداؤد:796،سنن النسائی:612]
وضاحت:
جب نماز کے شرائط، ارکان یا خشوع و خضوع میں کسی طرح کی کمی ہوتی ہے تو پوری نماز کا ثواب نہیں لکھا جاتا بلکہ ثواب کم ہوجاتا ہے، بلکہ کبھی وہ نماز الٹ کر پڑھنے والے کے منھ پر مار دی جاتی ہے۔
نماز میں خشوع:
حضرت فضل بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الصَّلَاةُ مَثْنَى مَثْنَى تَشَهَّدُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ وَتَخَشَّعُ وَتَضَرَّعُ وَتَمَسْكَنُ وَتَذَرَّعُ وَتُقْنِعُ يَدَيْكَ، يَقُولُ: تَرْفَعُهُمَا إِلَى رَبِّكَ مُسْتَقْبِلًا بِبُطُونِهِمَا وَجْهَكَ، وَتَقُولُ: يَا رَبِّ يَا رَبِّ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَهُوَ كَذَا وَكَذَا۔
ترجمہ:
نماز دو دو رکعت ہے اور ہر دو رکعت کے بعد تشہد ہے، نماز خشوع وخضوع، مسکنت اور گریہ وزاری کا اظہار ہے، اور تم اپنے دونوں ہاتھ اٹھاؤ۔ یعنی تم اپنے دونوں ہاتھ اپنے رب کے سامنے اٹھاؤ اس حال میں کہ ہتھیلیاں تمہارے منہ کی طرف ہوں اور کہہ: اے رب! اے رب! اور جس نے ایسا نہیں کیا وہ ایسا ایسا ہے۔
[الترمذي:385، ابوداؤد:1296، ابن ماجہ:277]
القرآن:
الله نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے، ایک ایسی کتاب جس کے مضامین ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں، جس کی باتیں بار بار دہرائی گئی ہیں۔ وہ لوگ جن کے دلوں میں اپنے پروردگار کا رعب ہے ان کی کھالیں اس سے کانپ اٹھتی ہیں، پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہو کر الله کی یاد کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ یہ الله کی ہدایت ہے جس کے ذریعے وہ جس کو چاہتا ہے راہ راست پر لے آتا ہے، اور جسے الله راستے سے بھٹکا دے، اسے کوئی راستے پر لانے والا نہیں۔
[سورۃ الزمر:23]
حضرت مطرف اپنے والد ماجد سے روایت کرتے ہیں:
’’میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ اقدس سے رونے کی آواز اس طرح آرہی تھی جیسے چکی کے چلنے کی آواز ہوتی ہے۔‘‘
[أبوداود:904، نسائي:1214]
ساری نماز اطمینان اور تعدیلِ ارکان سے ادا کرنا۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور اس نے نماز پڑھی، رسول اللہ ﷺ مسجد کے ایک گوشے میں تشریف فرما تھے، اس نے آ کر آپ کو سلام کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: اور تم پر بھی سلام ہو، جاؤ دوبارہ نماز پڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی ، وہ واپس گیا اور اس نے پھر سے نماز پڑھی، پھر آ کر نبی اکرم ﷺ کو سلام کیا، آپ ﷺ نے پھر فرمایا: اور تم پر بھی سلام ہو، جاؤ پھر سے نماز پڑھو، تم نے ابھی بھی نماز نہیں پڑھی ، آخر تیسری مرتبہ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے نماز کا طریقہ سکھا دیجئیے، آپ ﷺ نے فرمایا: جب تم نماز کا ارادہ کرو تو کامل وضو کرو، پھر قبلے کی طرف منہ کرو، اور الله أكبر کہو، پھر قرآن سے جو تمہیں آسان ہو پڑھو، پھر رکوع میں جاؤ یہاں تک کہ پورا اطمینان ہوجائے، پھر رکوع سے اپنا سر اٹھاؤ، اور پورے اطمینان کے ساتھ قیام کرو، پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ سجدہ میں مطمئن ہوجاؤ، پھر سجدے سے اپنا سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے بیٹھ جاؤ، پھر اسی طرح اپنی ساری نماز میں کرو۔
[سنن ابن ماجہ:1060]
تخریج:
[صحیح البخاری:6251-6667، صحیح مسلم:397، سنن ابوداود:856، سنن الترمذی:2692، سنن النسائی:885-1054-1314]
حاشیہ (بیل) لگے ہوئے کپڑے میں نماز پڑھنا اور اس کے نقش و نگار کو دیکھنا مکروہ(ناجائز) ہے۔
حضرت عروہ ام المؤمنین عائشہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ایک چادر میں نماز پڑھی۔ جس میں نقش و نگار تھے۔ آپ ﷺ نے انہیں ایک مرتبہ دیکھا۔ پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ میری یہ چادر ابوجہم (عامر بن حذیفہ) کے پاس لے جاؤ اور ان کی انبجانیہ والی چادر لے آؤ، کیونکہ اس چادر نے ابھی نماز سے مجھ کو غافل کردیا۔ اور ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے روایت کی، انہوں نے عائشہ ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں نماز میں اس کے نقش و نگار دیکھ رہا تھا، پس میں ڈرا کہ کہیں یہ مجھے فتنہ(آزمائش یعنی غفلت)میں نہ ڈال دے۔
[صحيح البخاري:373، سنن ابوداؤد:915، صحیح ابن حبان:2338، السنن الكبرى للبيهقي:3535-3872، مسند اسحاق بن راھویہ:1027، مسند احمد:24190-25445]
أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، نا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمِيصَةٌ لَهَا عَلَمٌ فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إلى علمها فِي الصَّلَاةِ فَلَمَّا صَلَّى كَرِهَهَا قَالَ وَأَخَذَهَا اذْهَبُوا بِهَا إِلَى أَبِي جَهْمٍ وَائْتُونِي بِالْأَنْبِجَانِيِّ
ترجمہ:
"ہمیں وَکِیع نے خبر دی، انہوں نے ہِشام سے، وہ اپنے والد (عروہ) سے، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چادر (یا چوغہ) تھی جس پر (بناوٹ یا نقش کا) ایک نشان تھا۔ گویا میں اب بھی نماز میں اس کے نشان (کی طرف آپ کی نگاہ) دیکھ رہی ہوں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تو آپ کو وہ (چادر) ناپسند ہوئی (یا اس سے آپ نے تنفر محسوس کیا)۔ (راوی نے) کہا: اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (اتار کر پکڑا اور) فرمایا: اسے لے جاؤ اور ابو جہم (بن حذیفہ) کے پاس پہنچا دو اور میرے لیے انبجانی (سادہ، بغیر کسی نقش و نگار والی موٹی چادر) لے آؤ۔"
[مسند اسحاق بن راھویہ:873]
فَإِنَّهَا أَلْهَتْنِي آنِفًا عَنْ صَلَاتِي.
"کیونکہ اس (نقش والی چادر) نے ابھی میرے نماز سے (میری توجہ) بٹا دی تھی۔"
[مسند احمد:25635]
نماز میں خشوع پیدا کرنے کا طریقہ:
انسان نماز شروع کرنے سے پہلے یہ سوچ لے کہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوں بالکل اس طرح جیسے کہ قیامت کے دن میری اللہ کی بارگاہ میں پیشی ہوگی، پھر نماز میں ہر ایک رکن کو خوب اطمینان اور سکون سے ادا کرے، سنتوں اور مستحبات کا خیال رکھے، جو الفاظ بھی پڑھے ان کو خوب دھیان اور غور سے پڑھے، اگر عربی سے واقف ہو تو ہر لفظ کے معنیٰ کو ذہن میں رکھے، ورنہ کم از کم نماز میں پڑھی جانے والی تسبیحات اور مختصر سورتوں کا ترجمہ یاد کرے اور نماز میں اس کا استحضار رکھے، (ویسے بھی اہلِ ایمان کو چاہیے کہ دین کی بنیادی چیزوں مثلاً چھوٹی سورتوں،اذکار،کلمے اور دعاؤں کاترجمہ یاد کریں)، نیز ہر نماز کو اپنی زندگی کی آخری نماز سمجھے، خود سے کوئی خیال نہ آنے دے،اگر کبھی خیال بھٹک جاۓ تو پھر نماز میں دوبارہ اسی طرح متوجہ ہوجاۓ، باقی غیر اختیاری وساوس اور خیالات انسانی قدرت میں نہیں، انسان بس اسی کا مکلف ہے۔
اگر اس کے مطابق عمل کیا جاۓ گا تو ان شاء اللہ کامل نماز کا ثواب ملے گا اور رفتہ رفتہ خشوع کی حقیقت بھی بفضلِ خدا میسر آجاۓ گی۔
حوالہ
ورنہ(ایسے دھیان میں رکھ کہ)وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
صَلِّ صَلَاةَ مُوَدِّع، فَإِنَّكَ إِنْ كُنْتَ لَا تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ
ترجمہ:
نماز اس طرح پڑھا کرو جیسے کہ (تم ابھی دنیا سے) الوداع ہونے والے ہو، بےشک اگر تو اس(اللہ)کو نہیں دیکھ رہا وہ تو تجھے دیکھتا ہے۔
نماز کو سمجھ کر ادا کریں:-
نماز کے الفاظ اور افعال کا معنی اور مفہوم ذہن میں اجاگر رکھنا:
امام غزالی رحمہ اللہ نے فرمایا:
"یہ بات واضح رہے کہ شیطان کا ایک ہتھکنڈا یہ بھی ہے کہ نماز میں انسان کو آخرت کی یاد میں مشغول کر دے اور پھر آپ آخرت کی سختیوں سے بچنے کیلیے نیکیاں کرنے کی منصوبہ بندی نماز میں ہی شروع کر دے اس طرح آپ نماز میں جو کچھ کہہ رہے ہیں اسے سمجھ نہیں پائیں گے، لہذا یہ بات ذہن نشین کر لو کہ جو کام بھی آپ کو نماز کے دوران کی جانے والی تلاوت اور اذکار کے مفہوم سے دور کرے وہ وسوسہ ہی ہے"۔
[إحیاء علوم الدین: (1/150)]
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"دورانِ نماز ذہن کو اِدھر اُدھر جانے سے بچانے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ : انسان نماز میں جو کچھ کہہ رہا ہے یا کر رہا ہے اس کے معنی اور مفہوم کو ذہن میں رکھے اور جن مقاصد کیلیے نماز کے افعال اور اقوال شریعت نے نماز میں رکھے ہیں ان پہ غور و فکر کرے، مثلاً: حالتِ رکوع میں یہ غرض و غایت ذہن میں رکھے کہ رکوع اللہ تعالی کی عظمت کا قولی اور فعلی ہر دو اعتبار سے اعتراف ہے؛ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (رکوع میں پروردگار کی عظمت بیان کرو) نیز رکوع کرتے ہوئے اللہ تعالی کیلیے جھک جانا اللہ تعالی کی تعظیم ہے، اسی طرح رکوع کی تسبیح " سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْمُ" [پاک ہے میرا رب وہ عظمت والا ہے]میں اللہ تعالی کی قولی، فعلی اور قلبی تعظیم ہے"۔
[فتاوى نور على الدرب (8/2)]
امام ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس وقت رکوع اور سجدہ کر کے انسان اپنے پروردگار کے سامنے اپنے آپ کو ذلیل اور ہیچ ثابت کر دیتا ہے اور اپنے پروردگار کو جاہ وجلال، کبریا، عظمت اور بلند صفات سے متصف کرتا ہے تو اس کی زبان حال یہ کہہ رہی ہوتی ہے کہ: عاجزی اور انکساری میری صفت ہے، جبکہ بلندی ، عظمت اور کبریائی تیری صفت ہے۔ اسی لیے حالتِ رکوع میں یہ کہنے کی تلقین کی گئی: " سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْمُ " [پاک ہے میرا رب وہ عظمت والا ہے]اور سجدے کی حالت میں " سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى" [پاک ہے میرا رب وہ بلند و بالا ہے]اور بسا اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع اور سجدے میں یہ بھی کہا کرتے تھے: سُبْحَانَ ذِيْ الْجَبَرُوْتِ وَالْمَلَكُوْتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ (پاک ہے وہ ذات جو بادشاہی، جبروت، کبریا اور عظمت والی ہے۔)"
[ماخوذ: الخشوع في الصلاة: ص41-43]
الخشوع کے معنیٰ ضواعۃ یعنی عاجزی کرنے اور جھک جانے کے ہیں۔ مگر زیادہ تر خشوع کا لفظ جوارح(اعضاء)، اور ضراعت کا لفظ قلب کی عاجزی پر بولا جاتا ہے۔
اسی لئے ایک روایت میں ہے :
إذا ضرع القلب خَشِعَتِ الجوارح.
جب دل میں فروتنی ہو تو اسی کا اثر جوارح پر ظاہر ہوجاتا ہے۔
قرآن میں ہے:
وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً
[الإسراء:109]
اور اس سے ان کو اور زیادہ عاجزی پید اہوتی ہے۔
الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ
[المؤمنون:2]
جو نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں۔
وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ
[الأنبیاء:90]
اور ہمارے آگے عاجزی کیا کرتے تھے۔
وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ
[طه:108]
آوازیں پست ہوجائیں گے۔
ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی۔
أَبْصارُها خاشِعَةٌ
[النازعات:9]
یہ ان کی نظروں کے مضطرب ہونے سے کنایہ ہے۔ جیسا کہ زمین وآسمان کے متعلق بطور کنایہ کے فرمایا۔
إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا
[الواقعة:4]
جب زمین بھونچال سے لرزنے لگے۔
وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها
[الزلزلة:1]
جب زمین بھونچال سے ہلا دی جائے گی۔
يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً
[الطور:9- 10]
جس دن آسمان لرزنے لگے کپکپا کر۔ اور پہاڑ اڑانے لگیں ( اون ہوکر )
[المفردات في غريب القرآن-للراغب:1/ 283]
القرآن:
۔۔۔اور یہ(نماز) بہت بھاری ہے سوائے ان (لوگوں) کے جو خشوع رکھتے ہیں...
[سورۃ البقرۃ:45]
نماز میں خشوع کی نشانیاں:
(1)حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ "خشوع دل میں ہے، اور دائیں بائیں توجہ نہ کرے﴿اپنی نماز میں﴾۔
[تعظيم قدر الصلاة-للمروزي:139]
اور یہ کہ تو مسلمان بھائی کے سامنے اپنا شانہ جھکا دے (یعنی اس کے ساتھ نرمی اور تواضع سے پیش آئے)
[﴿السنن الكبرى للبيهقي:3518﴾]
(ا) مجاہد بیان کرتے ہیں کہ ابن زبیر ؓ جب نماز میں کھڑے ہوتے تو اس طرح ہوجاتے گویا کوئی لکڑی ہے اور فرماتے کہ سیدنا ابوبکر ؓ بھی ایسے ہی کرتے تھے اور اسی کو نماز میں خشوع و خضوع کرنا کہتے ہیں۔
[فضائل الصحابہ-لأحمد:230]
(ب) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نماز میں قرار اختیار کرو یعنی نماز میں سکون سے کھڑے رہو۔
[مصنف ابن أبي شيبة:7246]
[السنن الكبرى للبيهقي:3522]
نماز میں خشوع کا بیان۔
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک (رح) نے ابوالزناد سے بیان کیا، انہوں نے اعرج سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ؛
کیا تم سمجھتے ہو کہ میرا منہ ادھر (قبلہ کی طرف) ہے۔ اللہ کی قسم تمہارا رکوع اور تمہارا خشوع مجھ سے کچھ چھپا ہوا نہیں ہے، میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں۔
[صحیح بخاری:741]
(2) عَن أبي هُرَيْرَة رَضِي الله عَنهُ أَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم رأى رجلا يعبث بلحيته فِي الصَّلَاة فَقَالَ (لو خشع قلبه لخشعت جوارحه)۔
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو نماز میں اپنی داڑھی سے کھیل رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر اس کا دل خشوع اختیار کرتا تو اس کے اعضاء بھی عاجز خشوع اختیار کرتے"۔
[نوادر الاصول للحکیم ترمذی:3/210، جامع الأحاديث للسيوطي:19019، كنزالعمال:5891]
القرآن:
ان ایمان والوں نے یقینا فلاح پالی ہے۔ جو اپنی نماز میں خشوع(دل سے جھکنے) والے ہیں۔
[سورۃ المؤمنون:1-2 ﴿تفسير البغوي:1477، تفسير السمرقندي:2/473، تفسير الثعلبي:7/38،تفسير ابن غطية:4/136، تفسیر القرطبی:12/103، الدر المنثور-للسیوطی:6/85﴾]
شواھد الحدیث بالآثار:
(2) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، ثنا الوليد بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: رَأَى حُذَيْفَةُ بْنُ الْيَمَانِ رَجُلًا يُصَلِّي يَعْبَثُ بِلِحْيَتِهِ فَقَالَ: لو خشع قَلْبُ هَذَا سَكَنَتْ جَوَارِحُهُ "۔
ترجمہ:
اسحاق نے ہمیں حدیث بیان کی، انہوں نے ولید بن مسلم سے روایت کی، وہ ثور بن یزید سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا جو نماز پڑھ رہا تھا اور اپنی داڑھی سے کھیل رہا تھا، تو انہوں نے کہا: "اگر اس شخص کا دل عاجز ہوتا (خشوع میں ہوتا) تو اس کے اعضاء ساکن ہو جاتے"۔
[تعظیم قدر الصلاة للمروزي: 150]
(3) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ رَجُلٍ، قَالَ: رَأَى ابْنُ الْمُسَيِّبِ رَجُلًا يَعْبَثُ بِلِحْيَتِهِ فِي الصَّلَاةِ فَقَالَ: لو خشع قَلْبُهُ خشعت جَوَانِحُهُ. قَالَ إِسْحَاقُ: قِيلَ لِابْنِ عُلَيَّةَ: جَوَارِحُهُ؟ فَقَالَ: لَا.
ترجمہ:
اسحاق نے ہمیں حدیث بیان کی، انہوں نے اسماعیل بن ابراہیم سے روایت کی، وہ معمر سے روایت کرتے ہیں، وہ ایک شخص سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے ایک شخص کو دیکھا جو نماز میں اپنی داڑھی سے کھیل رہا تھا تو انہوں نے کہا: "اگر اس کا دل عاجز ہوتا (خشوع میں ہوتا) تو اس کے اعضاء عاجز ہو جاتے"۔ اسحاق نے کہا: ابن علیہ سے پوچھا گیا: (کیا یہ لفظ) "جوارحہ" ہے؟ تو انہوں نے کہا: نہیں (بلکہ "جوانحہ" ہے)۔
[تعظیم قدر الصلاة للمروزي:151]
تخریج:
[مصنف عبد الرزاق:3308، مصنف ابن ابی شیبہ:6787، السنن الكبرى للبيهقي:3550، شرح السنة للبغوي:3/261]
نوٹ:
پہلی روایت حکیم ترمذی نے"نوادر الأصول" میں سلیمان بن عمر (ضعیف راوی) کے طریق سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی ہے۔ دوسری روایت میں یہی اثر حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جبکہ تیسری روایت میں یہ قول تابعی بزرگ سعید بن المسیب رحمہ اللہ کا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکمت آمیز جملہ اگرچہ مختلف اسناد سے مروی ہے، لیکن علماء نے اسے ایک ضعیف راوی (سلیمان بن عمر) کی وجہ سے حدیث نبوی کے بجائے صحابی یا تابعی کے قول کے طور پر ہی قابلِ حجت سمجھا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نماز میں اعضاء کی بے قراری دل میں خشوع کی کمی کی علامت ہے۔
تشریح:
امام مجاہد نے اللہ پاک کے فرمان {فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ} (سورۃ الشرح:۷) کے بارے میں فرمایا:
جب تو ﴿اپنے دنیوی کاموں سے﴾ فارغ ہو جائے تو اپنی نماز میں مشغول ہو جا۔
{وَإِلَى رَبِّكَ فَارْغَبْ} (سورۃ الشرح:۸)
اور اپنی ﴿نیت اور رغبت﴾ اپنے رب ہی کی طرف رکھ۔
مجاہد نے اللہ کے فرمان {وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ} (سورۃ البقرۃ:238) کے بارے میں کہا:
قنوت (یعنی اطاعت گزاری) سے مراد (نماز میں) ٹھہراؤ، خشوع، نظر جھکانا، اور اللہ کے خوف سے عاجزی اختیار کرنا ہے۔
[شرح السنة للبغوي:3/262]
امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
خشوع کبھی تو دل کے عمل سے ہوتا ہے جیسے خوف، اور کبھی جسم کے عمل سے جیسے سکون۔ بعض کہتے ہیں کہ دونوں کا اعتبار ضروری ہے، یہ بات فخر رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر(الرازی) میں نقل کی ہے۔ اور دوسروں نے کہا ہے کہ یہ ایک ایسا معنیٰ ہے جو نفس میں قائم ہوتا ہے جس سے اعضاء میں ایک ایسا سکون ظاہر ہوتا ہے جو عبادت کے مقصد کے موافق ہو۔ اور اس بات پر دلیل کہ یہ دل کا عمل ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ "خشوع دل میں ہے"۔ ﴿الْخُشُوعُ فِي الْقَلْبِ﴾ جسے حاکم نے روایت کیا ہے۔ رہی یہ حدیث کہ "اگر اس (شخص) کا دل خشوع اختیار کر لیتا تو اس کے (بھی) اعضاء خشوع اختیار کر لیتے"، تو اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ظاہر باطن کی علامت ہے۔ اور اسی اعتبار سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، جس پر قبلہ کے ابواب میں "امام کا لوگوں کو نماز پوری کرنے کی نصیحت" کے باب میں پہلے گفتگو ہو چکی ہے۔ اور اس میں انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کو بھی کچھ اختلاف کے ساتھ دوسرے طریقے سے ذکر کیا گیا ہے۔
[فتح الباری: ۲/۲۲۵]
علامہ المناوی لکھتے ہیں:
"(اگر اس شخص کا دل خشوع اختیار کر لیتا) جس شخص کی نماز میں یہ (بے ادبی سے) کھیل کود ہو رہی ہو، یعنی اگر اس کا دل (اللہ کے خوف سے) نرم ہو جاتا اور مطمئن ہو جاتا (تو اس کے اعضاء بھی خشوع اختیار کر لیتے) کیونکہ رعایا حاکم کے حکم کے تابع ہوتی ہے، اور دل بادشاہ ہے جبکہ (دوسرے) اعضاء اس کے سپاہی ہیں۔"
[التیسیر بشرح الجامع الصغیر للمناوی: 2/308]
(اگر اس شخص کا دل عاجز ہوتا) جو نماز میں اس حال میں پڑھتا ہے کہ اپنی نماز میں کھیل رہا ہوتا ہے، یعنی (وہ) عاجز ہوتا اور مطمئن ہوتا۔ اسی سے "خشعۃ" ہے، یعنی نشیبی زمین کے لیے جو پستی میں ہو، اور خشوع نرمی اور اطاعت کا نام ہے۔ اسی سے ہے "خشعت بقولہا" جب اس کا قول نرم ہو جائے۔ زمخشری نے اس کا ذکر کیا ہے۔
(اس کے اعضاء عاجز ہو گئے) کیونکہ رعایا حاکم کے حکم کے تابع ہوتی ہے، اور اللہ نے جسموں اور روحوں کے درمیان ایک ربانی ربط اور روحانی تعلق رکھا ہے، لہٰذا ہر ایک کا دوسرے سے تعلق ہے، وہ اس سے متاثر ہوتا ہے۔ پس جب دل عاجز ہو جاتا ہے تو اس کا اثر اعضاء پر پڑتا ہے، سو وہ عاجز ہو جاتے ہیں، روح پاکیزہ ہو جاتی ہے اور نفس تزکیہ پاتا ہے۔ اور جب دل اطاعت میں خلوص اختیار کر لیتا ہے تو اعضاء اپنے مفادات میں لگ جاتے ہیں۔ حرالی کہتے ہیں: خشوع دل کے سکون اور اعضاء کے سکون کا نام ہے، اور اس کے ذریعے اچھے طور طریقے، معاملات میں نرمی اور دنیا کے مال و منصب میں اللہ کا بندے کو خلیفہ بنانا حاصل ہوتا ہے۔
بعض کہتے ہیں: خشوع یہ ہے کہ دل کو یہ باور کروایا جائے کہ بندہ اپنے رب کے سامنے کھڑا ہے، پس باطن سکون پکڑتا ہے اور اس وقت غیروں کی طرف دیکھنے اور ظاہری اعمال و اذکار میں حکم کے خلاف کرنے سے باز آجاتا ہے۔
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نماز کی صحت کے لیے خشوع شرط نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کو نماز دہرانے کا حکم نہیں دیا بلکہ اس طرف توجہ دلائی کہ نماز میں خشوع اختیار کرنا نماز کے کمالات میں سے ہے، لہٰذا یہ مستحب ہے۔ امام نووی نے وجوب نہ ہونے پر اجماع نقل کیا ہے، لیکن شرح التقریب میں ہے کہ اس پر نظر ثانی ہے، کیونکہ متعدد علماء کے اقوال میں اس کے وجوب کا تقاضا ہے۔
(حکیم ترمذی نے) نوادر میں صالح بن محمد سے، وہ سلیمان بن عمر سے، وہ ابن عجلان سے، وہ مقبری سے، (وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو نماز میں اپنی داڑھی سے کھیل رہا تھا، تو آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی۔ زین عراقی شرح ترمذی میں کہتے ہیں: سلیمان بن عمر، یہ ابو داؤد نخعی ہیں، جن کے ضعف پر اتفاق ہے۔ یہ حدیث صرف ابن مسیب سے ہی معروف ہے۔ مغنی میں ہے: اس کی سند ضعیف ہے، اور معروف یہ ہے کہ یہ سعید (بن مسیب) کا قول ہے۔ ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں روایت کی ہے، اس میں ایک غیر معروف راوی ہے۔ ان کے فرزند نے کہا: اس میں سلیمان بن عمرو ہے، جو مجمعاً ضعیف ہیں۔ زیلعی کہتے ہیں: ابن عدی نے کہا: ان کا (راویوں کا) اس پر اجماع ہے کہ وہ حدیث گھڑتا تھا۔
[فیض القدیر للمناوی: 7447]
نماز میں آسمان کی طرف دیکھنے کی کراہت کا بیان
حضرت جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«لينتهين أَقْوَامٌ يَرْفَعُونَ أَبْصَارَهُمْ إِلَى السَّمَاءِ فِي الصَّلَاةِ، أَوْ لَا تَرْجِعُ إِلَيْهِمْ»
ترجمہ:
لوگ نماز میں آسمان کی طرف نظریں اٹھانے سے باز آجائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی نظریں واپس لوٹائی ہی نہ جائیں۔
[مسند احمد:21042، صحیح مسلم:428، الطبرانی:1845-1848، البیھقی:3538]
حدیثِ ابن عمر۔
[ابن ماجہ:1043، الطبراني:13139، صحیح ابن حبان:2281]
حدیثِ ابوھریرہ
[مسند احمد:8408-8802-، السنن الکبریٰ للنسائی:1108، مسند البزار:10069]
حدیثِ انس بن مالک
[صحیح بخاری:750]
تشریح:
"(لينتهين) میں لام حذف شدہ قسم کا جواب ہے (یعنی کچھ لوگ نماز میں اپنی نظریں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں یا ان کی نظریں واپس نہیں آئیں گی) اور 'یا' کا لفظ انتخاب کے لیے ہے جو درحقیقت ایک قسم کی دھمکی ہے، یہ خبر دراصل امر (حکم) کے معنی میں ہے۔ یعنی تمہارا نظر اٹھانے سے باز آنا ضروری ہے ورنہ نظر اٹھاتے ہی تمہاری نظریں اچک لی جائیں گی، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {تقاتلونهم أو يسلمون} یعنی دونوں میں سے ایک بات ضرور ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح خشوع کے کمال میں خلل پڑتا ہے۔ پہلے گزر چکا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز میں آسمان کی طرف نظر اٹھاتے تھے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی: {والذین ھم فی صلاتھم خاشعون} تو آپ نے ایسا کرنا ترک کر دیا۔
حرالی نے کہا: اس کی وجہ یہ ہے کہ دلوں کی پوشیدگی (غیب) مصلی کی توجہ کا خاص مرکز ہے اور آسمان دعا کرنے والے کی توجہ کا خاص مرکز ہے۔ لہٰذا مصلی اپنے دل کے غیب (باطن) کی طرف رجوع کرے نہ کہ اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھائے، اور دعا کرنے والا آسمان کی طرف متوجہ ہو اور اپنے ہاتھ اٹھائے حتیٰ کہ اپنے بغلوں کی سفیدی نظر آئے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔
ابن حجر نے کہا: اس (نظر اٹھانے) کے مراد میں اختلاف ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ وعید (ڈرانا) ہے اور اس قول کے مطابق یہ فعل حرام ہے۔ ابن حزم نے شدت اختیار کرتے ہوئے اس سے نماز کو باطل قرار دیا ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آسمان سے مصلی پر اترنے والے فرشتوں کے نور سے آنکھوں کے ضائع ہونے کا خوف ہے۔
(احمد، مسلم، ابوداؤد، نسائی، ترمذی نے جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے)۔
[فیض القدیر للمناوی:7734]
"(لوگ ضرور باز آجائیں اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھانے سے نماز میں دعا کے وقت ورنہ ان کی آنکھیں چھین لی جائیں گی) 'تخطفن' میں فاء کھلی ہے اور یہ مجہول کے صیغے میں ہے۔ یعنی صورت حال دو میں سے ایک امر سے خالی نہیں: یا تو اس (نظر اٹھانے) سے باز آنا، یا اندھا ہو جانا۔
بیضاوی نے کہا: 'یا لتخطفن' کا عطف 'لينتهين' پر ہے۔ رفع (نظر اٹھانے) سے باز آنا اور اس کے نقیض کے لازم (یعنی اندھا پن) کے درمیان تردید ہے۔ معنی یہ ہے کہ: قسم ہے اللہ کی! یا تو تم نظر اٹھانے سے باز آجاؤ گے یا تمہاری (نگاہیں) چھین لی جائیں گی، کیونکہ یہ عمل اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے جگہ کی بلندی کا وہم پیدا کرتا ہے۔
پھر یہ ممکن ہے کہ یہ خطف (چھین لینا) حسی (مادی) ہو یا معنوی، اور دونوں مراد لینے میں کوئی مانع نہیں۔ نیز یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے اندھے پن کے ذریعے ان (آنکھوں) کے فائدہ مند ہونے کے ختم ہونے کی طرف اشارہ ہو یا ان کی جڑ سے اکھیڑ لینے کی طرف۔
'المطامح' میں ہے: خطف کا دوسرا معنی (یعنی جڑ سے اکھاڑ لینا) اولیٰ ہے۔
اس حدیث اور اس سے پہلی حدیث میں سخت ممانعت اور شدید وعید ہے۔ علماء نے اسے ناپسندیدگی پر محمول کیا ہے نہ کہ حرمت پر، کیونکہ حرمت پر اجماع نہیں ہے۔ رہی نماز کے علاوہ مثلاً دعا وغیرہ میں آسمان کی طرف نظر اٹھانے کی بات، تو اکثر علماء نے اس کی اجازت دی ہے، کیونکہ آسمان دعا کرنے والوں کی قبلہ ہے جیسا کہ کعبہ نماز پڑھنے والوں کی قبلہ ہے۔
(مسلم اور نسائی نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے) البخاری نے اسے روایت نہیں کیا۔
[فیض القدیر للمناوی:7735]
نماز میں نظر نیچے/میں کی طرف/سجدے کی جگہ رکھنا۔
(1)ابن عون سے ابن سیرین کی پہلی سند:
ہم سے حدیث بیان کی ھشیم نے، وہ عبداللہ بن عون، محمد (بن سیرین) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز پڑھتے تو اپنا سر آسمان کی طرف اٹھا کر ادھر ادھر دیکھتے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی:
{تحقیق وہ مومن کامیاب ہوگئے جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔}
(المؤمنون:1-2)
تو آپ ﷺ نے اپنا سر جھکالیا۔
[مصنف ابن ابی شیبہ:6322(6380)]
دوسری سند:
احمد بن یونس نے ہمیں حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں ابو شہاب نے حدیث بیان کی، وہ ابن عون سے، وہ ابن سیرین سے روایت کرتے ہیں کہ:
"رسول اللہ ﷺ جب نماز میں کھڑے ہوتے تو اس طرح اور اس طرح (یعنی دائیں بائیں) دیکھتے، پھر جب یہ آیت نازل ہوئی:
{بے شک فلاح پا گئے ایمان والے، جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں}
(المؤمنون: 2)
تو آپ ﷺ اس طرح دیکھنے لگے"، اور ابو شہاب نے کہا: "اپنی نظر زمین کی طرف جھکائے ہوئے۔"
[المراسيل لأبي داؤد:45]
تیسری سند:
علی بن سعید نے ہمیں حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں حبرہ بن لخم اسکندرانے نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں عبداللہ بن وہب نے حدیث بیان کی، وہ جریر بن حازم سے، وہ ابن عون سے، وہ محمد بن سیرین سے، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں دائیں اور بائیں طرف التفات فرماتے تھے، پھر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی:
{بے شک فلاح پا گئے ایمان والے، جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں}
(المؤمنون:1-2)
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز میں) خشوع اختیار فرمانے لگے، پھر آپ نہ دائیں طرف التفات فرماتے تھے نہ بائیں طرف۔"
(مصنف نے کہا:) ابن عون سے یہ حدیث صرف جریر بن حازم نے روایت کی ہے، اور جریر سے صرف عبداللہ بن وہب نے روایت کی ہے۔ اسے (آخر میں) صرف حبرہ بن لخم نے (اپنی سند کے ساتھ) روایت کیا ہے۔
[المعجم الأوسط للطبراني:4082]
چوتھی سند:
ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ الحافظ نے ہمیں خبر دی، انہوں نے کہا: ہمیں ابو العباس محمد بن یعقوب نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں احمد بن عبدالجبار نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں یونس بن بکیر نے حدیث بیان کی، وہ عبداللہ بن عون سے، وہ محمد (بن سیرین) سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تو اپنا سر آسمان کی طرف اٹھاتے، آپ کی آنکھیں گھومتیں، آپ یہاں اور وہاں دیکھتے، تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی:
{بے شک فلاح پا گئے ایمان والے، جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں}
(المؤمنون: 2)
(اس کے بعد) ابن عون نے (بیان کرتے ہوئے) اپنا سر جھکا لیا اور زمین کی طرف نگاہ کی۔"اور یہی روایت ابو زید سعید بن اوس سے، وہ ابن عون سے، وہ ابن سیرین سے، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مُوْصَل (متصل سند کے ساتھ) بھی مروی ہے، لیکن صحیح (روایت) وہی ہے جو مُرْسَل ہے۔
السنن الكبرى للبيهقي:3539]
پانچوین سند:
ابو سہل احمد بن محمد بن ابراہیم مہرانی اور ابو نصر بن قتادہ نے ہمیں خبر دی، ان دونوں نے کہا: ہمیں ابو علی حامد بن الرفاء ہروی نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں محمد بن یونس نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں سعید ابو زید انصاری نے حدیث بیان کی، پھر انہوں نے یہی (پچھلی) حدیث ذکر کی، سوائے اس کے کہ انہوں نے کہا:
"آپ ﷺ نماز میں (دائیں بائیں) التفات فرماتے تھے، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:
{بے شک فلاح پا گئے ایمان والے، جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں}
(المؤمنون:1-2)
تو آپ ﷺ نے (نماز میں) اپنا سر جھکا لیا"، اور ابو زید نے ہمیں (اس کیفیت کی) وضاحت بیان کی۔
[السنن الكبرى للبيهقي:3540]
(2)ایوب سے ابن سیرین کی پہلی سند:
معمر سے، وہ ایوب سے، وہ محمد بن سیرین سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز پڑھ رہے ہوتے تھے تو اپنے سر ﴿اپنی نظروں﴾ کو آسمان کی طرف اٹھالیتے۔ جب آیت:
{جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں}
(المؤمنون:2)
نازل ہوئی تو آپ ﷺ سر جھکا کر نماز پڑھتے۔
[مصنف عَبْدُ الرَّزَّاقِ:3262]
ابن سیرین (رح) یہ پسند کرتے تھے کہ نمازی کی نظر اپنی جائے نماز سے تجاوز نہ کرے۔
[البيهقي:3541]
دوسری سند:
ہمیں ابن عبد الاعلیٰ نے بیان کیا، کہا: ہمیں معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، کہا: میں نے خالد سے سنا، وہ محمد بن سیرین سے بیان کرتے ہیں، کہا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تو آسمان کی طرف دیکھتے، پھر یہ آیت نازل ہوئی:
(جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں)۔
(المؤمنون:2)
پس اس کے بعد آپ ﷺ نے اپنا رخ اس جگہ کی طرف کر لیا جہاں سجدہ کرتے تھے۔"
[تفسیر طبری:8/19 سورۃ المؤمنون:1-2]
تیسری سند:
ابو سعید احمد بن یعقوب ثقفی نے مجھ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں ابو شعیب حرانی نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا: مجھ سے میرے والد نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں اسماعیل بن علیہ نے حدیث بیان کی، وہ ایوب سے، وہ محمد بن سیرین سے، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تو آپ کی نگاہ آسمان کی طرف اٹھتی تھی، پھر یہ آیت نازل ہوئی:
{جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں}
(المؤمنون: 2)
تو آپ ﷺ نے (نماز میں) اپنا سر جھکا لیا۔
(مصنف امام حاکم نے کہا:) "یہ حدیث شیخین (بخاری و مسلم) کے شرط پر صحیح ہے، اگرچہ اس میں محمد (بن سیرین) کے حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے، کیونکہ یہ ان سے کبھی مرسل طور پر بھی بیان کی گئی ہے (یعنی سند میں ابوہریرہ کا ذکر نہیں)، اور ان دونوں (بخاری و مسلم) نے اسے اپنی صحیحین میں درج نہیں کیا ہے۔"
[الحاكم:3483]
اور اس (حدیث) کو حماد بن زید نے ایوب سے مرسلاً (یعنی ابوہریرہ کا ذکر کیے بغیر) روایت کیا ہے، اور یہی (روایت) محفوظ (درست) ہے۔
[البيهقي:3542]
(3)سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! نماز میں میں اپنی نظر کہاں رکھوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
عند موضع سجودك يَا أَنَسُ
اے انس! اپنے سجدے کی جگہ پر نظر رکھا کر۔
میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ تو مشکل ہے، میں اس طرح نہیں کرسکتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: فرض نماز میں اس طرح کرلیا کر۔
[السنن الكبرى للبيهقي:3544، جامع الأحاديث-للسيوطي:25654، كنزالعمال:20099]
ہمیں علی بن عبادان نے خبر دی، انہوں نے کہا: ہمیں احمد بن عبید نے بتلایا، انہوں نے کہا: ہمیں یحییٰ بن محمد حنائی نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا: ہمیں فضیل بن حسین نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا: ہمیں علیلہ بن بدر نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا: ہمیں عنطوانہ نے حدیث سنائی، وہ حسن (بصری) سے، وہ حضرت انس (بن مالک) رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَنَسُ اجْعَلْ بصرك حيث تسجد
"اے انس! اپنی نگاہ (نماز میں) اسی جگہ رکھو جہاں تم سجدہ کرتے ہو۔"
اور ہمیں مجاہد اور قتادہ (رحمہما اللہ) سے یہ (بات) روایت کی گئی ہے کہ وہ دونوں نماز میں آنکھیں بند کرنا ناپسند کرتے تھے، اور اس بارے میں ایک مسند حدیث (بھی) روایت کی گئی ہے (مگر) وہ کوئی (قابلِ اعتبار) چیز نہیں ہے۔
[السنن الكبرى للبيهقي:3545، جامع الأحاديث-للسيوطي:25644، كنزالعمال:20098]
(4)حضرت ابو قلابہ جرمی (رح) بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کے چند صحابہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی نماز بیان کی، اس میں آپ کے قیام، رکوع اور سجود کو بیان کیا۔
امیرالمومنین عمر بن عبدالعزیز (رح) کی نماز آپ ﷺ کے مشابہ تھی۔ سلیمان (رح) کہتے ہیں: میں نے عمر کی نماز کا اندازہ لگایا۔ وہ اپنی نظر سجدے والی جگہ پر لگائے رکھتے تھے۔
[السنن الكبرى للبيهقي:3543]
نماز میں کنکریوں کو ہٹانے اور برابر کرنے کی کراہت کا بیان، اگر ضروری ہو تو ایک بار ہٹانے میں کوئی مضائقہ نہیں.
حضرت ابوسلمہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے معیقیب بن ابی فاطمہ ؓ نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کو فرمایا جو سجدے کی جگہ سے مٹی﴿کنکریاں﴾ برابر کیا کرتا تھا کہ: اگر ضروری ہو تو ایک بار کرنا جائز ہے۔
[بخاری:1207، مسلم:546 ﴿ابن ماجة:1026، ابوداؤد:946، ترمذی:380﴾]
سعید بن مسیب کے واسطے سے ہمیں روایت بیان کی گئی کہ انہوں نے (دوران نماز) ایک شخص کو کنکریوں کے ساتھ کھیلتے دیکھا تو فرمایا: اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے دیگر اعضا بھی خشوع کرتے۔
[الزهد-لابن المبارك:1188، مصنف عبد الرزاق:3309، ، البيهقي:3545]
ام المؤمنین ام سلمہ بنت ابی امیہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں لوگوں کا حال یہ تھا کہ جب مصلی نماز پڑھنے کھڑا ہوتا تو اس کی نگاہ اس کے قدموں کی جگہ سے آگے نہ بڑھتی، پھر جب رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی، تو لوگوں کا حال یہ ہوا کہ جب کوئی ان میں سے نماز پڑھتا تو اس کی نگاہ پیشانی رکھنے کے مقام سے آگے نہ بڑھتی، پھر ابوبکر ؓ کی وفات کے بعد عمر ؓ کا زمانہ آیا تو لوگوں کا حال یہ تھا کہ ان میں سے کوئی نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوتا تو اس کی نگاہ قبلہ کے سوا کسی اور طرف نہ جاتی تھی، پھر عثمان ؓ کا زمانہ آیا اور مسلمانوں میں فتنہ برپا ہوا تو لوگوں نے دائیں بائیں مڑنا شروع کردیا۔
[سنن ابن ماجة:1634]
تشریح:
اس کا قول(لَمْ يَعْدُ) 'عَدَا' سے ہے، یعنی انہوں نے (اپنی نظر کو) تجاوز نہیں کیا۔ مراد یہ ہے کہ وہ لوگ نہایت خشوع کی حالت پر تھے۔ لیکن بہت سے فقہاء کا پسندیدہ یہی ہے کہ نمازی اپنے سجدہ کی جگہ کی طرف دیکھے، اور یہ (روایت اس کے) خلاف پر دلالت کرتی ہے۔ اور اس کے قول "پس لوگ (ایسا کرنے لگے)..." کا مطلب یہ ہے کہ ان سے یہ حالت (یعنی سجدہ گاہ سے نظر نہ ہٹانا) تدریجاً زائل ہو گئی۔
[شرح سنن ابن ماجہ للسیوطی:1/499]
نمازی کو سلام کیا جائے تو وہ کیسے جواب دے؟
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا نُسَلِّمُ فِي الصَّلَاةِ فَقِيلَ لَنَا: إِنَّ فِي الصَّلَاةِ لَشُغْلًا.
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ ہم نماز میں سلام کیا کرتے تھے، پھر ہمیں ارشاد ہوا کہ نماز میں خود ایک مشغولیت ہے۔
[سنن ابن ماجہ:1019 (تحفة الأشراف: 9525، ومصباح الزجاجة:365]
تخریج:
[صحیح البخاری:1201-1216-3875، صحیح مسلم:538، سنن ابوداؤد داود:923]
وضاحت:
جس میں نمازی کو مصروف رہنا چاہیے، اور دوسرا کام نہیں کرنا چاہیے، وہ کام جس میں نمازی کو مصروف رہنا چاہیے اللہ تعالیٰ کی یاد ہے، اور اس سے خشوع کے ساتھ دل لگانا۔
نمازی بلغم کس طرف تھوکے؟
حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے شبث بن ربعی کو اپنے آگے تھوکتے ہوئے دیکھا تو کہا: شبث! اپنے آگے نہ تھوکو، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ اس سے منع فرماتے تھے، اور کہتے تھے: آدمی جب نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو جب تک وہ نماز پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ہوتا ہے، یہاں تک کہ نماز پڑھ کر لوٹ جائے، یا اسے برا حدث ہوجائے۔
[سنن ابن ماجہ:1023]
تخریج:
[تحفة الأشراف:3349، ومصباح الزجاجة:366) (حسن)]
وضاحت:
برے حدث سے مراد کوئی نیا امر اور نئی بات، جو خشوع کے خلاف ہو جیسے سامنے تھوکنا، یا اس سے مراد ہوا خارج ہونا ہے جس سے انسان کی پاکی ختم ہوجاتی ہے۔
قرآن پڑھنے میں خشوع:
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الضَّرِيرُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ مُجَمِّعٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ صَوْتًا بِالْقُرْآنِ الَّذِي إِذَا سَمِعْتُمُوهُ يَقْرَأُ حَسِبْتُمُوهُ يَخْشَى اللَّهَ.
ترجمہ:
جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگوں میں سب سے عمدہ آواز میں قرآن پڑھنے والا وہ ہے کہ جب تم اس کی قراءت سنو تو تمہیں ایسا لگے کہ وہ اللہ سے ڈرتا ہے۔ [سنن ابن ماجہ:1339]
وضاحت:
یعنی درد انگیز آواز سے پڑھتا ہو، اور اس پر رقت طاری ہوجاتی ہو۔
تشریح:
اور (اس سلسلے میں) کہا گیا ہے: ہر برتن میں سے اس کے اندر کی چیز رس جاتی ہے۔ اس (حدیث) میں ظاہری حالات سے باطن کی کیفیت پر استدلال کی جازت پر دلالت ہے۔ واللہ اعلم۔ (انجاح)
[شرح سنن ابن ماجة للسيوطي:1339]
خوش آوازی سے قرآن پڑھنا۔
عبدالرحمٰن بن سائب کہتے ہیں کہ ہمارے پاس سعد بن ابی وقاص ؓ آئے، وہ نابینا ہوگئے تھے، میں نے ان کو سلام کیا، تو انہوں نے کہا: تم کون ہو؟ میں نے انہیں (اپنے بارے میں) بتایا: تو انہوں نے کہا: بھتیجے! تمہیں مبارک ہو، مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم قرآن اچھی آواز سے پڑھتے ہو، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:
یہ قرآن غم کے ساتھ اترا ہے لہٰذا جب تم قرآن پڑھو، تو رؤو، اگر رو نہ سکو تو بہ تکلف رؤو، اور قرآن پڑھتے وقت اسے اچھی آواز کے ساتھ پڑھو، جو قرآن کو اچھی آواز سے نہ پڑھے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
[سنن ابن ماجہ:1337، ابوداؤد:1469]
تخریج:
[تحفة الأشراف:3900، ومصباح الزجاجة:469]
وضاحت:
حدیث میں تغنى کا لفظ ہے، اور تغنى کا معنی گانا ہے، قرآن میں تغنى نہیں ہوسکتی، لہذا تغنى سے یہ مراد ہوگا کہ باریک آواز سے درد کے ساتھ اس کو پڑھنا بایں طور کہ پڑھنے والے پر اور سننے والے سب پر اثر ہو، اور دلوں میں اللہ کا خوف اور خشوع پیدا ہو، اور تجوید کے قواعد کی رعایت باقی رہے، کلمات اور حروف میں کمی اور بیشی نہ ہو، سفیان بن عیینہ نے کہا: تغنی بالقرآن کا یہ معنی ہے کہ قرآن کو دولت لازوال سمجھے، اور دنیا داروں سے غنی یعنی بےپرواہ رہے۔
اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ کہتے ہیں کہ امراء میں سے کسی امیر نے مجھے ابن عباس ؓ کے پاس نماز استسقاء کے متعلق پوچھنے کے لیے بھیجا، تو ابن عباس ؓ نے کہا: امیر نے مجھ سے خود کیوں نہیں پوچھ لیا؟ پھر بتایا کہ رسول اللہ ﷺ عاجزی کے ساتھ سادہ لباس میں، خشوع خضوع کے ساتھ، آہستہ رفتار سے، گڑگڑاتے ہوئے (عید گاہ کی طرف) روانہ ہوئے، پھر آپ ﷺ نے نماز عید کی طرح دو رکعت نماز پڑھائی، اور اس طرح خطبہ نہیں دیا جیسے تم دیتے ہو۔
[ابن ماجہ:1266، ابوداؤد:1165، الترمذی:558-559، النسائی:1507-1509-1522]
پہلے دنیا سے (خشوع کا) علم اٹھ جانے کا بیان۔
(1)حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«أَوَّلُ شَيْءٍ يرفع مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ الخشوع حَتَّى لَا تَرَى فِيهَا خَاشِعًا».
ترجمہ:
"اس امت سے سب سے پہلے جو چیز اٹھائی جائے گی وہ خشوع ہے، یہاں تک کہ تو اس(نماز) میں کوئی خشوع اختیار کرنے والا نہیں دیکھے گا"۔
[الترغيب والترهيب للمنذري:773، الجامع الصغير:4334، کنزالعمال:5890]
اس(حدیث) کی سند حسن(اچھی) ہے۔
[الترغيب والترهيب للمنذري:773، مجمع الزوائد:2813]
اسے طبراني(1579) نے مسند الشاميين میں روایت کیا ہے۔
[جامع الأحاديث-للسيوطي:9622، صَحِيح الْجَامِع:2569، صَحِيح التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيب: 542]
تشریح:
"(لوگوں سے سب سے پہلے جو چیز اٹھائی جائے گی وہ ہے خشوع) یعنی ایمان کا خشوع جو عبادت کی روح ہے۔ اور یہ خوف یا سکون یا وہ معنی ہے جو دل میں قائم ہوتا ہے پھر اس سے اعضاء و جوارح کا سکون ظاہر ہوتا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ خشوع کو لازم پکڑو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں خاشع ہی پیدا کیا ہے، پس اس حالت سے ہٹو مت جس پر اس نے تمہیں پیدا کیا۔ بے شک خشوع حیا کی حالت ہے اور حیا سراسر خیر ہے۔
(شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے)// (اچھی سند کے ساتھ) //
[التيسير بشرح الجامع الصغير-للمناوي:1/391]
(2)ہم سے بیان کیا بشر نے، کہا: ہم سے روایت کی یزید نے، کہا: ہم سے روایت کی سعید نے، قتادہ سے (اس آیت کے بارے میں) اللہ کا فرمان: "کیا ایمان والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر کے لیے ڈر(جھک) جائیں ..." وغیرہ۔ ہمیں ذکر کیا گیا کہ شداد بن اوس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لوگوں سے سب سے پہلی چیز جو اٹھائی جائے گی وہ خشوع ہے"۔
ہم سے بیان کیا ابن عبد الاعلیٰ نے، کہا: ہم سے روایت کی ابن ثور نے، معمر سے، وہ قتادہ سے روایت کرتے ہیں، کہا: شداد بن اوس رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: لوگوں سے سب سے پہلے خشوع اٹھایا جائے گا۔
حوالہ
حدثنا بشر، قال: ثنا يزيد، قال: ثنا سعيد، عن قتادة، قوله: (أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ ... ) الآية. ذُكر لنا أن شدّاد بن أوس كان يروي عن رسول الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم، قال: "إن أوَّل مَا يرفع من الناس الخشوع".
حدثنا ابن عبد الأعلى، قال: ثنا ابن ثور، عن معمر، عن قتادة، قال: كان شدّاد بن أوس يقول: أوّل ما يرفع من الناس الخشوع.
[تفسير الطبري:23/ 18، تفسير الثعلبي:9/ 240، تفسير ابن عطية:5/ 264، تفسير ابن كثير:8/ 53، تفسير الثعالبي:5/386, الدر المنثور-للسیوطي:8/ 59]
[الطبرانی:7183، مجمع الزوائد: 2814، جامع الأحاديث-للسيوطي:9640، کنزالعمال:5889، صحيح الجامع الصغير:2576، صحيح الترغيب:544]
تشریح:
(سب سے پہلے لوگوں سے جو چیز اٹھا لی جائے گی وہ خشوع ہے) یعنی ایمان والا خشوع، جو عبادت کی روح ہے۔ یہ خوف، سکون یا وہ معنی ہے جو نفس میں قائم ہوتا ہے اور جس سے اعضاء و جوارح کا سکون ظاہر ہوتا ہے جو عبادت کے مقصد کے مناسب ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے گفتگو فرماتے اور ہم آپ سے گفتگو کرتے، لیکن جب نماز کا وقت آجاتا تو گویا آپ ہمیں پہچانتے ہی نہیں اور نہ ہم آپ کو پہچانتے (یعنی یکسو ہو کر نماز کی تیاری میں مصروف ہوجاتے)۔
خشوعِ ایمان اور خشوعِ نفاق کا فرق: دونوں میں فرق یہ ہے کہ پہلا خشوع دل کا اللہ کے لیے تعظیم، وقار، ہیبت اور حیا کے ساتھ جھک جانا ہے۔ جبکہ دوسرا (یعنی خشوعِ نفاق) بناوٹ اور تکلف کے ساتھ ظاہری اعضاء پر نمودار ہوتا ہے جبکہ دل خاشع نہیں ہوتا۔
(شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے) امام زین الدین عراقی شرح ترمذی میں فرماتے ہیں، اور ان کی بات ہیثمی نے بھی نقل کی ہے کہ: اس کی سند میں عمران القطان ہیں، جنہیں ابن معین اور نسائی نے ضعیف قرار دیا ہے، جبکہ امام احمد نے انہیں ثقہ کہا ہے۔
[فیض القدیر للمناوی: 2821]
(3)حضرت عبادہ بن صامت ؓ نے فرمایا:
بِأَوَّلِ عِلْمٍ يُرْفَعُ مِنَ النَّاسِ الْخُشُوعُ يُوشِكُ أَنْ تَدْخُلَ مَسْجِدَ جَمَاعَةٍ فَلَا تَرَى فِيهِ رَجُلًا خَاشِعًا.
ترجمہ:
پہلے پہل لوگوں سے اٹھا لیا جانے والا علم، خشوع ہے۔ عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ تم جامع مسجد کے اندر جاؤ گے لیکن وہاں تمہیں کوئی (صحیح معنوں میں) خشوع اپنانے والا شخص دکھائی نہ دے گا۔
[الدارمي:296(290)، الترمذي:2653، الحاكم:338، جامع الأصول:5872]





No comments:
Post a Comment