ذیل میں ہم اس کامیاب اور طائفہ منصورہ کی صفات ذکر کرتے ہیں :
ان صفات کے متعلق بہت سی احادیث صحیحہ نبی ﷺ سے ثابت ہیں جن میں چند ایک یہ ہیں :
امیر معاویہؓ بیان کرتے ہيں کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوۓ سنا :
( میری امت میں سے ایک گروہ ایسا ہو گا جو کہ اللہ تعالی کے احکام پر عمل کرتا رہے گا جو بھی انہیں ذلیل کرنے یا انکی مخالفت کرے گا وہ انہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا حتی کہ اللہ تعالی کا حکم (قیامت) آ جاۓ کا اور وہ لوگ اس پر قائم ہوں گے )
[صحيح البخاري:71]
اور عمربن خطابؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :
( ہمیشہ ہی میری امت میں سے ایک گروہ حق پر قائم رہے گا حتی کہ قیامت قائم ہو جاۓ گی)
[مسند أبي داود الطيالسي:38، التاريخ الكبير للبخاري:4647 (ت الدباسي والنحال)]
اور مغیرۃ بن شعبہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوۓ سنا :
( میری امت میں ایک قوم لوگوں پر غالب رہیں گے حتی کہ قیامت قائم ہو جاۓ گی )
[صحيح البخاري:7459]
اور عمران بن حصینؓ بیان کرتےہیں کہ رسول مکرم ﷺ نے فرمایا :
( میری امت میں سے ایک گروہ حق پر لڑتا رہے گا ، جو اپنے دشمن پر غالب رہے گا ، حتی ان میں سے آخری شخص مسیح الدجال سے لڑائی کرے گا۔ )
[سنن أبي داود:2484]
ان مندرجہ بالا احادیث سے چند ایک امور اخذ کیۓ جا سکتے ہیں :
پہلا :
نبی ﷺ کے اس فرمان ( میری امت میں سے ہمیشہ ہی ) میں اس بات کی دلیل ہے کہ امت میں سے ایک گروہ ہے نہ کہ ساری کی ساری امت ، اور اس میں اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ اس کے علاوہ بھی گروہ اور فرقے ہوں گے ۔
دوسرا :
نبی ﷺ کا یہ فرمان ( جو ان کی مخالفت کرے گا وہ انہیں کوئ نقصان نہیں دے سکے گا ) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ طائفہ منصورہ کے علاوہ اور بھی فرقے ہوں گے جو کہ دینی معاملات میں اس کی مخالفت کريں گے ۔
اور اسی طرح یہ اس حدیث افتراق کے مدلول کے موافق ہے کہ بہترفرقے فرقہ ناجیہ کے حق پر ہونے کے باوجود اس کی مخالفت کریں گے ۔
تیسرا :
دونوں حدییثوں میں اھل حق کے لۓ خوشخبری ہے ، طائفہ منصورہ والی حديث انہیں دنیا میں مدد اور کامیابی کی خوشخبری دیتی ہے ۔
چوتھا :
نبی ﷺ کے اس فرمان (حتی کہ اللہ تعالی کا امر آجاۓ) سے مراد یہ ہے کہ وہ ہوا آجاۓ جو کہ ہر مومن مرد وعورت کی روح کو قبض کر لے ، تو اس سے اس حدیث (میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ ہی حق پر قائم رہے گا حتی کا قیامت آجاۓ) کی نفی نہی ہوتی کیونکہ اس کا معنی یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ہی حق پر قائم رہیں گے حتی کہ یہ ہوا قرب قیامت اور قیامت کی نشانیوں کے ظہور کے وقت ان کی روحیں قبض کرلے گی ۔
طائفہ منصورہ کی صفات :
اوپر بیان کی گئ احادیث اور دوسری روایات سے طائفہ منصورہ کی مندرجہ ذیل صفات اخذ کی جاسکتی ہیں :
1 – کہ یہ گروہ حق پر ہے۔ تو حديث میں یہ وارد ہے کہ وہ حق پر ہیں۔
اور یہ گروہ اللہ تعالی کے امر پر ہے ۔
اور یہ گروہ اس امر پر ہے ۔
اور یہ گروہ اس دین پر ہے ۔
تو یہ سب الفاظ اس بات اور دلالت پر مجتمع ہیں کہ یہی لوگ دین صحیح اوراستقامت پر ہیں جس دین کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رسول بنا کر بھیجے گۓ ہیں ۔
2 – یہ گروہ اللہ تعالی کے امر کو قائم کۓ ہوۓ ہے ۔
اور ان کا اللہ تعالی کے امر کو قائم کرنے کا معنی یہ ہے کہ :
ا – وہ دعوت الی اللہ کے حامل ہونے کی بنا پر سب لوگوں میں متمیز ہیں ۔
ب – اور یہ کہ وہ اس اہم کام (امر بالمعروف اور نہی عن المنکر) کو قائم رکھے ہوۓ ہیں ۔
3 - کہ یہ گروہ قیامت تک ظاہر رہیں گے :
احادیث میں اس گروہ کو اس وصف سے نوازا گیا ہے کہ (وہ ہمیشہ ہی ظاہر رہیں گے حتی کہ قیامت قائم ہو جاۓ گی اور وہ ظاہر ہوں گے)
اور (ان کا حق پر ظاہر ہونا)
یا (قیامت تک ظاہر ہوں گے)
یا (جو ان سے دشمنی کرے گا اس پر ظاہر ہوں گۓ)
یہ ظہور اس پر مشتمل ہے کہ :
وضوح اور بیان کے معنی میں ہے تو وہ جانے پہچانے اور ظاہر ہیں ۔
اس معنی میں کہ وہ حق پر ثابت اور دین میں استقامت اور اللہ تعالی کے امرکو قائم کيۓ ہو ۓ اور اللہ تعالی کے دشمنوں سے جھاد جاری رکھے ہوۓ ہيں۔
اور ظہور غلبہ کے معنی میں ہے ۔
3 - یہ گروہ صبر و تحمل کا مالک اور اس میں سب پر غالب ہے ۔
ابو ثعلبہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :
(تمہار پیچھے صبر والے ایام آرہے ہیں ، اس میں ایسا صبر ہو جس طرح کہ انگارہ پکڑ کر صبر کیا جاۓ)۔
طائفہ منصورہ والے کون لوگ ہیں ؟
امام بخاریؒ تعالی کا قول ہے کہ : وہ اہل علم ہیں ۔
اور بہت سارے علماء نے یہ ذکر کیا ہے کہ طائفہ منصورہ سے مراد اھل حدیث ہیں ۔
اور امام نوویؒ تعالی کہتے ہیں کہ یہ گروہ مومن لوگوں کی انواع میں پیھلا ہوا ہے : ان میں سے کچھ تو بہادری کے ساتھ لڑنے والے ہیں ، اور ان میں سے فقھاء بھی ہیں ، اور اسی طرح ان میں محدثین بھی ہیں ، اور ان میں عابد وزاھد لوگ بھی ہیں ، اور ان میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے بھی ہیں ، اور اسی طرح ان میں اور بھی انواع ہیں ۔
[شرح النووي على مسلم: ج١٣/ص ٦٧]
اور ان کا یہ بھی قول ہے کہ : یہ جائز ہے کہ یہ طائفہ اور گروہ مومنوں کی متعدد انواع میں ہو ، ان میں قتال وحرب کے ماہر اور فقیہ اور محدث اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل کرنے والے ، اور زاھد اور عابد شامل ہيں۔
اور حافظ ابن حجرؒ تعالی کا کہنا ہے کہ : ( انہوں نے اس مسئلہ میں تفصیل بیان کرتے ہوۓ کہا ہے ) یہ لازم نہیں کہ وہ کسی ایک ملک میں ہی جمع ہوں بلکہ یہ جائز ہے کہ وہ دنیا کے کسی ایک خطہ میں جمع ہوں جائيں ، اور دنیا کے مختلف خطوں میں بھی ہو سکتے ہیں ، اور یہ بھی ہے کہ وہ کسی ایک ملک میں بھی جمع ہوجائيں ، اور یا پھر مختلف ممالک میں ، اور یہ بھی ہے کہ ساری زمیں ہی ان سے خالی ہوجاۓ اور صرف ایک ہی گروہ ایک ہی ملک میں رہ جاۓ تو جب یہ بھی ختم ہوجاۓ تو اللہ تعالی کا حکم آجاۓ گا۔
[فتح الباري لابن حجر:13/ 76]
تو علماء کرام کی کلام کا ماحاصل یہ ہے کہ یہ کسی ایک گروپ کے ساتھ معین نہیں اور نہ ہی کسی ایک ملک کے ساتھ محدد ہے ، اگرچہ ان کی آخری جگہ شام ہوگی جہاں پر دجال سے لڑيں گے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے ۔
اور اس میں کوئ شک و شبہ نہیں جو لوگ علم شریعت کے میں عقیدہ اور فقہ اور حدیث و تفسیر کی تعلیم و تعلم اور اس پر عمل کرنے اوراس کی دعوت دینے ميں مشغول ہیں یہ لوگ بدرجہ اولی طائفہ منصورہ کی صفات کے مستحق ہیں اور یہ ہی دعوت و جھاد اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور اہل بدعات کے رد میں اولی اور آگے ہیں ، تو ان سب میں یہ ضروری ہے کہ وہ علم صحیح جو کہ وحی سے ماخوذ ہے لیا جاۓ ۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں بھی ان میں سے کرے ، اور اللہ تعالی ہمارے نبی محمد ﷺ پر رحمتیں نازل فرماۓ آمین ۔
واللہ تعالی اعلم .
No comments:
Post a Comment