القربان (نیاز) ہر وہ چیز جس سے اللہ کی قرب جوئی کی جائے۔ اور عرف میں قربان یعنی ذبیحۃ آتا ہے، اس کی جمع قرابین ہے۔ قرآن میں ہے
إِذْ قَرَّبا قُرْباناً [سورۃ المائدة:27]:
ان دونوں نے خدا کی جناب میں کچھ "نیازیں" چڑھائیں۔
حَتَّى يَأْتِيَنا بِقُرْبانٍ
[سورۃ آل عمران:183]
جب تک کوئی پیغمبر ہمارے پاس ایسی نیاز لے کر آئے۔
قربانی کی اہمیت:
قربانی ایک عظیم الشان عبادت ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے شروع ہوئی اور اُمتِ محمدیہ علی صاحبہا السلام تک مشروع چلی آرہی ہے، ہر مذہب وملت کا اس پر عمل رہا ہے۔ قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد ہے:
قربانی کاعمل اگرچہ ہر امت میں جاری رہا ہے لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں خصوصی اہمیت اختیار کر گیا، اسی وجہ سے اسے ’’سنتِ ابراہیمی‘‘ کہا گیا ہے۔ کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے محض خدا کی رضامندی کے لیے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربانی کیلئے پیش کیا تھا۔ اسی عمل کی یاد میں ہر سال مسلمان قربانیاں کرتے ہیں۔
اس قربانی سے ایک اطاعت شعار مسلمان کو یہ سبق ملتا ہے کہ وہ رب کی فرمانبرداری اور اطاعت میں ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہے اورمال ومتاع کی محبت کو چھوڑ کرخالص اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا کرے۔ نیز قربانی کرتے وقت یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہئے کہ قربانی کی طرح دیگر تمام عبادات میں مقصود رضاء الٰہی رہے، غیر کےلیے عبادت کا شائبہ تک دل میں نہ رہے۔ گویا مسلمان کی زندگی اس آیت کی عملی تفسیر بن جائے.
’’اِنَّ صَلاَتِی وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔‘‘
ترجمہ:
میری نماز، میری قربانی، میرا جینا، میرامرنا، سب اللہ کی رضا مندی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔
[سورۃ انعام:162]
قربانی کی اہمیت اس بات سے بھی واضح ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ہمیشگی فرمائی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں۔
’’اَقَامَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِیْنَۃِ عَشَرَ سِنِیْنَ یُضَحِّیْ‘‘۔
ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ میں دس سال قیام فرمایا (اس قیام کے دوران) آپ قربانی کرتے رہے۔
[جامع الترمذی: ج 1، ص:409، ابواب الاضاحی]
قربانی کے فضائل:
کئی احادیث میں قربانی کے فضائل وارد ہیں، چند یہ ہیں:
(1):عَنْ زَیْدِ ابْنِ اَرْقَمَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَارَسُوْلَ اللہِ! مَا ھٰذِہِ الاَضَاحِیُّ قَالَ سُنَّۃُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاہِیْمَ عَلَیْہِ السَّلاَم قَالُوْا فَمَا لَنَا فِیْھَا یَارَسُوْلَ اللہِ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ حَسَنَۃٌ قَالُوْا فَالصُّوْفُ یَارَسُوْلَ اللہِ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ مِنَ الصُّوْفِ حَسَنَۃٌ۔
ترجمہ:
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا:یارسول اللہ!یہ قربانی کیا ہے؟(یعنی قربانی کی حیثیت کیا ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت (اور طریقہ) ہے۔صحابہ رضی اللہ عنہم نےعرض کیا کہ ہمیں اس قربانی کے کرنے میں کیا ملے گا؟ فرمایا ہر بال کےبدلے میں ایک نیکی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے (پھر سوال کیا) یا رسول اللہ!اون (کے بدلے میں کیا ملے گا) فرمایا:اون کے ہر بال کے بدلے میں نیکی ملے گی۔
[سنن ابن ماجہ: ص 226، باب ثواب الاضحیٰ]
(2) ’’عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَاعَمِلَ آدَمِیٌ مِنْ عَمَلٍ یَوْ مَ النَّحْرِ اَحَبَّ اِلَی اللہِ مِنْ اِھْرَاقِ الدَّمِ اَنَّہْ لَیَتَأ تِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِقُرُوْنِھَا وَاَشْعَارِھَا وَاَظْلاَفِھَا وَاِنَّ الدَّمَّ یَقَعُ مِنَ اللہِ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ یَّقَعَ مِنَ الْاَرْضِ فَطِیْبُوْا بِھَا نَفْساً‘‘۔
ترجمہ:
عید الاضحیٰ کے دن کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نز دیک قربانی کا خون بہانے سے محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے بالوں، سینگوں اور کھروں سمیت آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کےہاں شرفِ قبولیت حاصل کر لیتا ہے، لہذا تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔
[جامع ترمذی: ج1ص275 باب ما جاء فی فضل الاضحیہ]
(3) ’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا اُنْفِقَتِ الْوَرَقُ فِیْ شَئْیٍ اَفْضَلُ مِنْ نَحِیْرَۃٍ فِیْ یَوْ مِ الْعِیْدِ۔‘‘
ترجمہ:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:کسی خرچ کی فضیلت اللہ تعا لیٰ کے نزدیک بہ نسبت اس خرچ کے جو بقرہ عید والے دن قربانی پر کیا جا ئے ہرگز نہیں۔
[سنن الدارقطنی: ص774باب الذبائح ، سنن الکبریٰ للبیہقی: ج9 ص 261]
القرآن:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ ، وَعَنْ الْحَارِثِ الأَعْوَرِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ زُهَيْرٌ : أَحْسَبُهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنَّه قَالَ : " هَاتُوا رُبْعَ الْعُشُورِ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمٌ ، وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ شَيْءٌ حَتَّى تَتِمَّ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ ، فَإِذَا كَانَتْ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ ، فَمَا زَادَ فَعَلَى حِسَابِ ذَلِكَ۔۔۔
[مصنف ابن أبي شيبة » كِتَابُ الزَّكَاةِ » مَنْ قَالَ لَيْسَ فِي أَقَلَّ مِنْ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ ... رقم الحديث: 9644(9948)]
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ عَلِيٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ : " لَيْسَ فِي أَقَلَّ مِنْ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ شَيْءٌ " .
ترجمہ:
قربانی کے جانور:
تابعی خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز(م101ھ) نے (اپنے دورِ خلافت میں حکام عمال کو یہ حکم نامہ) لکھا: «کہ تم لیا کرو، بھینسوں کا صدقہ، جیسا کہ تم لیتے ہو گائے کا»۔
[کتاب الأموال-امام ابن زنجويه (م251ھ) » حدیث نمبر 1493]
نوٹ:
یہاں صدقہ سے مراد عرفِ عام کی خیرات نہیں، بلکہ شرعی اصطلاح کے مطابق مال کی زکاۃ نکالنا ہے، لہٰذا گائے احکام بھینس پر بھی قیاس کرکے وہی احکام جاری کئے گئے۔ اسی لئے امام ابن زنجویہ نے اس حکم کو اپنی کتاب الاموال میں نقل کیا ہے۔
(2) سُئِلَ عَطَاءٌ الْخُرَاسَانِيُّ عَنْ صَدَقَةِ الْجَوَامِيسِ، فَقَالَ: «هِيَ بِمَنْزِلَةِ الْبَقَرِ»
ترجمہ:
تابعی امام عطاء خراسانی(م135ھ) سے سوال کیا(فتویٰ لیا) گیا بھینسوں کے صدقہ(زکوٰۃ) کے متعلق، تو آپ نے فرمایا: «یہ(بھینس) گائے کے درجہ میں ہے»۔
[کتاب الأموال-امام ابن زنجويه(م251ھ) » حدیث نمبر 1494]
(3) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، أنَّہُ کَانَ یقول : الجوامیس بمنزلۃ البقر۔
ترجمہ:
(6)حافظ عبدالقہار نائب مفتی جماعت غرباء اہلحدیث کراچی کا فتویٰ:
[سنن أبي داود:2797، صحیح مسلم:1963، سنن النسائي:4378، سنن ابن ماجه:3141، مسند ابن الجعد:2612، مسند أحمد:14348، المنتقى لابن الجارود (904) ، مسند أبو يعلى (2324) ، صحيح ابن خزيمة (2918) ، مستخرج أبي عوانة:7842، شرح السنة للبغوي:1115، والطحاوي في "شرح المشكل" (5722) ، السنن الكبرى للبيهقي:10164، 19057، 19128 من طرق عن زهير بن معاوية، بهذا الإسناد.]
الترمذي (904)، الطيالسي (1904)۔]
خصی جانور کی قربانی پسندیدہ ہے:
وهو في "مسند أحمد" (15022) من طريق إبراهيم بن سعد.
قوله: مُوجَئين، وفي الرواية التي شرح عليها الخطابي: مُوجَيين: يريد مَنزوعَي الأنثيين، والوِجاء: الخصاء، يقال: وجأت الدابة فهي موجوءة: إذا خصيتها.
قال الخطابي: وفي هذا دليل على أن الخصيَّ في الضحايا غير مكروه.]
[صحيح لغيره، وهذا سند فيه ضعف لاضطراب عبد الله بن محمد بن عقيل فيه.
فرواه عنه سفيان الثوري، واختلف عليه فيه:
فرواه وكيع - كما في هذه الرواية - وعبد الرزاق كما في الرواية (25886) ، وعبد الله بن وهب كما عند الطحاوي في "شرح معاني الآثار" 4 / 177، والفريابي كما عند البيهقي في "السنن" 9 / 267، وأبو حذيفة كما عند البيهقي كذلك في "السنن" 9 / 273، والحسين بن دينار، كما عند البيهقي 9 / 287، ستتهم عن سفيان، عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن أبي سلمة، عن عائشة أو أبي هريرة -على الشك-. وعندهم ما خلا وكيعٍ زيادة: " فيذبح أحدهما عن أمته ممن أقر له بالتوحيد، وشهد له بالبلاغ. ويذبح الآخر عن محمد وآل محمد".
قلنا: وسترد هذه الزيادة برقم (25843) و (25886) .
ورواه إسحاق بن يوسف الأزرق - كما في الرواية (25901) - عن سفيان، فقال: عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة أن عائشة ...
ورواه حماد بن سلمة - كما عند عبد بن حميد (1146) ، وأبي يعلى (1792) ، والطحاوي في "شرح معاني الآثار" 4 / 177، والبيهقي في "السنن" 9 / 268 - عن عبد الله بن محمد بن عقيل، فقال: عن عبد الرحمن بن جابر ابن عبد الله، قال: حدثني أبي أن رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فجعله من حديث جابر.
ورواه مبارك بن فضالة - كما ذكر الدارقطني في "العلل" 5 / الورقة 148، فقال: عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن جابر.
ورواه شريك وزهير بن محمد وعبيد الله بن عمرو كما سيرد على التوالي 6 / 8 و391 و392، فقالوا: عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن علي بن حسين، عن أبي رافع، به. فجعله من حديث أبي رافع.
ورواه معمر - فيما ذكر الدارقطني في "العلل" عن أبي عقيل مرسلاً.
وقد نبه على اضطراب ابن عقيل فيه الدارقطني في " العلل "، وابن أبي حاتم في "العلل" 2 / 39 - 40.
وسيرد (25843) و (25886) .
وقد ثبت أنه صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضحَّى بكبشين أقرنين أملحين من حديث أنس، وقد سلف برقم (11960) .
وسلف أنه ضحى بكبش عن محمد وآل محمد وعن أمة محمد بإسنادٍ صحيح برقم (24491) .
وانظر لزاماً حديث أبي سعيد الخدري السالف برقم (11051) .
قال السندي: قوله: أملحين: ما غلب بياضه.]
[الطبراني في "الكبير" (920) و (921) من طريقين عن عبد الله ابن محمد بن عقيل، به.
وأورده الهيثمي في "مجمع الزوائد" 4/21، وقال: رواه أحمد وإسناده حسن!
وأخرج الطبراني في "الكبير" (957) ، وفي "الأوسط" (246) من طريق المعتمر بن أبي رافع، عن أبيه، قال. ذبح رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كبشاً ثم قال: "هذا عنِّي وعن أُمتي". ووقع في مطبوع "الكبير" زيادة مقحمة، هي قوله: "عن جده"، ومعتمر بن أبي رافع هذا يقال في اسمه أيضاً: مغيرة، وهو مجهول، لكن له بهذا اللفظ شواهد يتقوَّى بها، انظر حديث أبي سعيد الخدري السالف برقم (11051) والتعليق عليه.
وأخرجه البزار (3867) "زوائد"، والحاكم 2/391 من طريق أبي عامر، بهذا الإسناد. قال الحاكم: هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه، فتعقَّبه الذهبي بقوله: زهير ذو مناكير، وابن عقيل ليس بالقوي، وتحرف زهير في كلام الذهبي في المطبوع إلى سهيل.
وأخرجه الطبراني في "الكبير" (923) من طريق أبي حذيفة، عن زهير بن محمد، به.
قال السندي: قوله: "مَوْجِيَّين" هو تثنية مَوْجي كمَرْميٍّ، أصله: مَوْجوءٌ، بهمزة في آخره، فجُعِل كمرمىٍّ تخفيفاً، وجاء على الأصل أيضاً من وَجَأَه: إذا دَقَّ أُنثَيَي الفحل، فقوله: خَصِيَّين، كالتفسير له، والله تعالى أعلم.]
[وأخرجه ابن أبي شيبة في "مسنده"، وكذا أحمد بن منيع كما في "إتحاف الخيرة" (6497) و (6498) عن يزيد بن هارون، بهذا الإسناد - إلا أن ابن منيع لم يذكر "مَوجيَّينِ".
وأخرجه أحمد بن منيع، وأبو يعلى الموصلي كما في "الإتحاف" (6499) و (6500) و (6501) من طرق عن حجاج بن أرطاة، به - ولم يذكر فيه "موجيَّين".
وأخرجه أيضاً دون هذا الحرف ابن أبي شيبة، وعنه أبو يعلى كما في "الإتحاف" (6496) و (6500) عن علي بن مسهر، عن ابن أبي ليلى -وهو محمد بن عبد الرحمن- عن الحَكَم، عن عباد بن أبي الدرداء، عن أبيه.
وأخرجه كذلك البيهقي 9/272 من طريق علي بن مسهر، به. قال البوصيري في "إتحاف الخيرة" 7/72: مدار هذه الأسانيد إما على الحجّاج بن أرطاة، أو محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى، وهما ضعيفان.
وفي الباب عن أبي رافع، سيأتي في "المسند" 6/8.
وعن عائشة أو أبي هريرة، سيأتي 6/136 و220 و225.
وعن جابر عند عبد بن حميد (1146) ، وأبي داود (2795) ، والطحاوي 4/177، والبيهقي 9/287. لكن مدار أسانيد هذه الشواهد الثلاثة على عبد الله ابن محمد بن عقيل، وهو ليِّن الحديث سيئ الحفظ.
وقد ثبت من غير وجه عن أنس بن مالك: أن النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كان يضحِّي بكبشين أَقرنين أملَحين. انظر ما سلف برقم (11960) .
ولإباحة التضحية بالجَذَع، انظر حديث أبي هريرة السالف برقم (9739) ، وحديث أنس بن مالك السالف برقم (12120) .
قوله: "مَوْجِيَّيْن": قال السندي: تثنية المَوْجي كمَرمي، وهو المدقوق خصيته، وأصله الهمز لكنه خفف.]
عن أبى طلحة قال: ضحى النبى - صلى الله عليه وسلم - بكبشين أملحين فقال عند الأول عن محمد وعن آل محمد وقال عند الثانى عمن آمن بى وصدقنى من أمتى (الطبرانى) [كنز العمال 12695]
أخرجه الطبرانى (5/106، رقم 4736) .
[كشف الأستار » كِتَابُ الْجِهَادِ » بَابُ النَّهْيِ عَنْ إِخْصَاءِ الْبَهَائِمِ ... رقم الحديث: 1595]
(مصنف عبدالرزاق ج:۴ ص:۵۳۵، مراسیل ابی داوٴد ص:۱۹، سننِ کبریٰ بیہقی ج:۱۰ ص:۷،
[عن ابن عمر: المعجم الأوسط للطبراني:9715(9480)]
[موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني » كِتَابُ الضَّحَايَا وَمَا يُجْزِئُ مِنْهَا » بَابُ : الرَّجُلِ يَذْبَحُ أُضْحِيَتَهُ قَبْلَ أَنْ ... رقم الحديث: 576]
وأخرجه مالك في "الموطأ" 2/484، ومن طريقه الشافعي (586) (السنن المأثورة) ، والبيهقي في "السنن" 9/263، وفي "المعرفة" (18881) ، وابن الأثير في "أسد الغابة" 4/318 عن يحيى بن سعيد، به.
السنن الكبرى للبيهقي » كِتَابُ الضَّحَايَا » بَابُ مَنْ قَالَ الْأَضْحَى يَوْمُ النَّحْرِ وَيَوْمَيْنِ ... رقم الحديث: 17718(19254)]
[أخرجه أبو مصعب الزهري، 1388 في المناسك؛ وأبو مصعب الزهري، 2138 في الضحايا؛ والجامع لابن زياد، 17 في الضحايا، كلهم عن مالك به.]
[أحكام القرآن الكريم للطحاوي » كِتَابُ الْحَجُّ وَالْمَنَاسِكَ » تأويل قَوْلِهِ تَعَالَى : /30 وَاذْكُرُوا اللَّهَ ... رقم الحديث: 1165]
عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ : " النَّحْرُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ " .
(فتاوی علی زئی ج2 ص181)
هذا حديث موضوع۔ (یعنی) یہ حدیث من گھڑت ہے۔
[العلل لابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) : رقم الحديث: 1571 (العلل الحدیث لابن ابی حاتم (المتوفى: 327هـ) :1594(4/493)]
سوال: ہمارے علاقہ کے ایک جدید تعلیم یافتہ استاذ نے نیا فتنہ شروع کررکھا ہے کہ جانور کی قربانی صرف حاجی حج کے موقع پر مکہ معظمہ میں کرسکتا ہے، اس کے علاوہ اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں، ہر سال مسلمان عیدالاضحیٰ کے موقع پر فریضۂ حج کی ادائیگی کے بغیر جو دنیا کے مختلف حصوں میں قربانی کرتے ہیں اس کا کوئی جواز نہیں، بلکہ یہ بدعت ہے۔ اس کے اس پروپیگنڈہ نے کئی ضعیف الاعتقاد لوگوں کو گمراہ کررکھا ہے۔ نیز بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلمان ایامِ عید میں لاکھوں جانوروں کا خون بہا کر اربوں روپے کا نقصان کرتے ہیں، اس کے بجائے اگر یہی روپے نادار افراد پر صرف کئے جائیں، مساجد وغیرہ کی تعمیر پر یا رفاہ عامہ کے کاموں میں لگا دیئے جائیں تو پوری امت کا کتنا نفع ہو؟ ان حالات میں ہم نے آپ کی طرف رجوع کرنا مناسب سمجھا، آپ مفصل فتویٰ صادر فرمائیں کہ:
(۱) قربانی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
(۲) رسول ﷲ ﷺ نے حج کے علاوہ بھی کبھی قربانی کی ہے؟
(۳) صحابۂ کرام، تابعین و تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین کا قربانی کے سلسلے میں کیا معمول رہا ہے؟
(۴) کیا صدقہ و خیرات قربانی کے قائم مقام ہوسکتا ہے؟
(ابو احسان کوثر نیازی، رحیم یار خان۔ عبدالقادر، کوٹلی پائیں، مانسہرہ۔ دیگرمتعدد سائلین) جواب: اس دور کے فتنوں میں سے ایک بہت بڑا فتنہ یہ ہے کہ مغرب سے مرعوب بلکہ ذہنی غلامی کا شکار ایک طبقہ دین اسلام کے یقینی طور پر ثابت شدہ احکام و شعائر کو مسلمانوں کی مادی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ سمجھ کر ان میں قطع و بیونت اور ردوبدل کے در پے رہتا ہے اور جہاں اس سے بھی کام بنتا نہیں دیکھتا تو سرے سے انکار کر بیٹھتا ہے، یوں امت مسلمہ کے درد اور خیرخواہی کے پردوں میں الحاد کا بہت بڑا دروازہ کھل جاتا ہے اور جاہل عوام احکام اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہوکر گمراہ ہوجاتے ہیں اور بعض اوقات ایمان ہی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
ایسے حالات میں عوام پر لازم ہے کہ وہ دینی مسائل میں جدید تعلیم یافتہ مغرب زدہ طبقہ… جو دین کی مبادیات سے بھی جاہل ہے… کی بے سروپا باتوں پر کان دھرنے کے بجائے مستند علماء سے مضبوط تعلق قائم کریں اور احکام اسلام کے بارے میں ان سے رہنمائی حاصل کریں کہ یہ انہی کا منصب ہے۔
ایک مسلمان کا مطمح نظر بہرکیف احکام الٰہیہ کی بجا آوری ہے، خواہ کسی حکم کی علت اس کی عقل کی ڈبیا میں آئے یا نہ آئے۔ بس اتنا کافی ہے کہ وہ حکم اور عمل قابل قبول دلیل سے ثابت ہو۔
قربانی ایک مستقل واجب عبادت بلکہ شعائر اسلام میں سے ہے، رسول ﷲ ﷺ نے مدینہ منورہ کے دس سالہ قیام میں ہر سال قربانی فرمائی، حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم، تابعین و تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین و اسلاف رحمہم اﷲ تعالیٰ غرض پوری امت کا متوارث و مسلسل عمل بھی قربانی کرنے کا ہے، آج تک کسی نے نہ اسے حج اور مکہ معظمہ کے ساتھ خاص سمجھا ہے اور نہ صدقہ و خیرات کو اس کے قائم مقام سمجھا ہے۔ قربانی کے بارے میں جتنی آیات و احادیث ہیں وہ سب جانوروں کا خون بہانے سے متعلق ہیں، نہ کہ صدقہ و خیرات سے متعلق۔ نیز ان میں حج اور مکہ معظمہ کی کوئی تخصیص نہیں، بطورِ نمونہ چند آیات و احادیث ملاحظہ ہوں:
(۱)وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکاً لِّیَذْکُرُوْا اسْمَ اﷲِ عَلیٰ مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ۔(سورۂ حج: آیت ۳۴) ترجمہ: ہم نے (جتنے اہل شرائع گزرے ہیں ان میں سے) ہر امت کے لیے قربانی کرنا اس غرض سے مقرر کیا تھا کہ وہ ان مخصوص چوپائوں پر اﷲ کا نام لیں جو اس نے ان کو عطا فرمائے ہیں۔
امام ابن کثیرؒ و امام رازیؒ وغیرہ مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں تصریح فرمائی ہے کہ خون بہا کر جانوروں کی قربانی کا دستور شروع دن سے ہی تمام اَدیان و مذاہب میں چلا آ رہا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر:۳/۲۲۷، تفسیر کبیر۳/ ۳۴)
(۲)وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکاً ھُمْ نَاسِکُوْہُ۔ (سورۂ حج: آیت۶۷) ترجمہ: ہم نے ہر امت کے لیے ذبح کرنے کا طریقہ مقرر کیا ہے کہ وہ اس طریقہ پر ذبح کیا کرتے تھے۔
(۳)فَصَلِّ لِرَّبِکَ وَاْنَحْر۔(سورۂ کوثر۔ آیت:۲)
ترجمہ: سو آپ اپنے پروردگار کی نماز پڑھئے اور (اسی کے نام کی) قربانی کیجئے۔ (۴)عن ابی ہریرۃؓ قال قال رسول اﷲ ﷺ: من وجد سعۃً فلم یضح فلا یقربن مصّلانا۔ (ابن ماجہ: ص۲۲۶)
ترجمہ: رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ پھٹکے۔
(۵)عن ابن عمرؓ قال: أقام رسول اﷲ ﷺ بالمدینۃ عشر سنین یضحی۔ (ترمذی:۱/۱۸۲)
ترجمہ: حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصۂ قیام میں آپ مسلسل قربانی فرماتے رہے۔
ان آیات و احادیث سے مندرجہ ذیل امور ثابت ہوئے:
(۱) صاحبِ نصاب پر قربانی واجب ہے اور استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والے پر رسول ﷲ ﷺ نے سخت ناراضی کا اظہار فرمایا، حتیٰ کہ اس کا عیدگاہ کے قریب آنا بھی پسند نہ فرمایا۔ (۲) رسول ﷲ ﷺ نے مدینہ منورہ کے ۱۰ سال میں ہر سال قربانی فرمائی، حالانکہ حج آپ نے صرف آخری سال فرمایا۔ معلوم ہوا کہ قربانی نہ حج کے ساتھ خاص ہے اور نہ مکہ معظمہ کے ساتھ، ورنہ آپ ﷺ مدینہ منورہ میں ۹ سال قربانی کیوں فرماتے؟
(۳) قربانی سے مقصد محض ناداروں کی مدد نہیں جو صدقہ و خیرات سے پورا ہوجائے، بلکہ قربانی میں مقصود جانور کا خون بہانا ہے، یہ عبادت اسی خاص طریقہ سے ادا ہوگی، محض صدقہ و خیرات کرنے سے نہ یہ عبادت ادا ہوگی، نہ اس کے مطلوبہ فوائد وثمرات حاصل ہوں گے، ورنہ رسول ﷲ ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے دور میں غربت و افلاس دورِ حاضر کی نسبت زیادہ تھا، اگر جانور ذبح کرنا مستقل عبادت نہ ہوتی تو وہ حضرات جانور ذبح کرنے کے بجائے ناداروں کے لیے چندہ جمع کرتے یا اتنی رقم رفاہ عامہ کے کاموں میں صرف فرماتے۔
قربانی کے بجائے صدقہ و خیرات کا مشورہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی نادان یہ مشورہ دے کہ آج سے نماز، روزہ کے بجائے اتنا صدقہ کردیا جائے، ظاہر ہے کہ اس سے نماز، روزہ کی عبادت ادا نہ ہوگی، اسی طرح صدقہ و خیرات سے قربانی کی مستقل عبادت بھی ادا نہ ہوگی۔
درحقیقت قربانی حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس عظیم الشان عمل کی یادگار ہے جس میں انہوں نے اپنے لختِ جگر کو ذبح کرنے کے لیے لٹا دیا تھااور ہونہار فرزند حضرت اسماعیل علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بلاچوں وچرا حکمِ الٰہی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرکے ذبح ہونے کے لیے اپنی گردن پیش کردی تھی، مگر اﷲ تعالیٰ نے اپنا فضل فرما کر دنبے کو فدیہ بنادیا تھا۔ اس پر ذبح کرکے ہی عمل ہوسکتا ہے، محض صدقہ و خیرات سے اس عمل کی یاد تازہ نہیں ہوسکتی۔
نیز حافظ ابن کثیرؒ اور امام رازیؒ نے حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما، حضرت عطاءؒ، حضرت مجاہدؒ، حضرت عکرمہؒ، حضرت حسن بصریؒ، حضرت قتادہؒ، حضرت محمد بن کعب قرظیؒ، حضرت ضحاک رحمہم ﷲ تعالیٰ و غیرہم کا قول نقل کیا ہے کہ مشرکین عرب غیراﷲ کے نام پر جانور ذبح کیا کرتے تھے، اس لیے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ آپ اپنے رب کے نام پر جانور ذبح کریں۔ (تفسیر ابن کثیر: ص۷۲۴، ج۴) اس بناپر جانور ذبح کرکے ہی اس حکم الٰہی کو پورا کیا جاسکتا ہے، صدقہ و خیرات اس کا بدل نہیں ہوسکتا۔ اﷲ تعالیٰ ملحدین کی تحریف سے دین کی حفاظت فرمائیں اور مسلمانوں کو مستند علماء کرام سے دین حق کی رہنمائی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ واﷲ العاصم من جمیع الفتن وھوالموفق لما یحب و یرضیٰ۔ قربانی سے کیا سبق حاصل کیا جائے؟
(۱) قربانی حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جس عظیم الشان عمل کی یادگار ہے، اس کا دل و دماغ میں استحضار کیا جائے اور اس حقیقت کو سوچا جائے کہ یہ سب کچھ محض اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل اور اس کی رضا جوئی کے لیے تھا۔ اور یہ جذبہ ہونا چاہیے کہ اگر بیٹے ہی کو ذبح کرنے کا حکم باقی رہتا تو ہم بخوشی اس کی تعمیل کرتے۔ ہر والد کا جذبہ یہ ہو کہ میں ضرور اپنے لخت ِجگر کو قربان کرتا اور ہر بیٹے کا جذبہ یہ ہو کہ میں قربان ہونے کے لیے بدل و جان راضی ہوتا اور یہ عزم ہونا چاہیے کہ اگر یہ حکم آج نازل ہوجائے تو ہم اس میں ذرا بھی کوتاہی نہیں کریں گے۔
(۲) قربانی کی اصل روح اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی محبت میں اپنی تمام نفسانی خواہشات کو قربان کردے۔ جانور ذبح کرکے قربانی دینے کے حکم میں یہی حکمت پوشیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں تمام خواہشات نفسانیہ کو ایک ایک کرکے ذبح کرو۔ اگر کوئی شخص جانور کی قربانی تو بڑے شوق سے کرتا ہے مگر خواہش نفس اور گناہوں کو نہیں چھوڑتا، نہ اس کی فکر ہے تو اگرچہ واجب تو اس کے ذمّہ سے ساقط ہوگیا، مگر قربانی کی حقیقت و روح سے محروم رہا، اس لیے قربانی کی ظاہری صورت کے ساتھ ساتھ اس کی حقیقت کو حاصل کرنے کا عزم، کوشش اور دُعابھی جاری رہنا چاہیے۔
(۳) حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صرف ایک جانور کی قربانی نہیں کی، بلکہ پوری زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزارا، جو حکم بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا فوراً تعمیل کی۔ جان، مال، ماں باپ، وطن و مکان، لخت جگر غرض سب کچھ اللہ تعالیٰ کے راستے میں قربان فرمایا۔ ہمیں بھی اپنے اندر یہی جذبہ پیدا کرنا چاہیے کہ دین کا جو تقاضا بھی سامنے آئے اور اللہ تعالیٰ کا جو حکم بھی سامنے آئے اس پر عمل کریں گے۔ اپنے اعزہ و احباب، بیوی بچوں، ماں باپ، خاندان، قوم کسی چیز کو بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلے میں ترجیح نہیں دیں گے۔
سارا جہاں ناراض ہو پروا نہ چاہیے
مدنظر تو مرضیٔ جاناناں چاہیے
بس اس نظر سے دیکھ کر تو کر یہ فیصلہ
کیا کیا کرنا چاہیے کیا کیا نہ چاہیے
(۴) اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرما کر دنبے کو حضرت اسمٰعیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فدیہ بنادیا اور اس کی بناپر اب بیٹے کی قربانی کا حکم نہیں ہے، مگر جہاد فی سبیل اللہ میں اپنی جان اور اولاد کو قربان کرنے کا حکم تو ہمیشہ کیلیے ہے۔ جہاد تو قیامت تک جاری رہے گا، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار جہاد کا حکم فرمایا ہے اور آج یہ حکم پوری تاکید کے ساتھ امت مسلمہ کی طرف متوجہ ہے۔ کیا کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کی اس آواز پر لبیک کہے اور دنیا بھر کی مظلوم مائوں، بہنوں کی سسکیوں پر کان دھرنے اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے اللہ تعالیٰ کے راستے میں جان کی بازی لگانے کی تڑپ دل میں پیدا کرے؟؟؟
مذکورہ شرائط کا پورے وقت میں پایا جانا ضروری نہیں:
مذکورہ شرائط کا قربانی کے پورے وقت میں پایا جانا ضروری نہیں، بلکہ وقت وجوب کے آخری جزومیں بھی اگر یہ شرطیں پائی گئیں تو اس پر قربانی واجب ہے۔ یعنی اگر ۱۲ ذی الحجہ کی شام میں غروب آفتاب سے ذرا پہلے کوئی کافر مسلمان ہوگیا، یا مسافر وطن پہنچ گیا، یا غلام آزاد ہوگیا، یا بچہ بالغ ہوگیا، مجنون کو صحت ہوگئی، یا فقیر صاحب نصاب بن گیا تو ان پر قربانی واجب ہوگئی، اس میں مردوزن کا حکم یکساں ہے۔
فلسفہٴ قربانی اور ملحدین کے شکوک وشبہات
عَنْ عَلِيٍّ , وَعَمَّارٍ , " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَجْهَرُ فِي الْمَكْتُوبَاتِ بِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ , وَكَانَ يَقْنُتُ فِي الْفَجْرِ , وَكَانَ يُكَبِّرُ يَوْمَ عَرَفَةَ صَلاةَ الْغَدَاةِ , وَيَقْطَعُهَا صَلاةَ الْعَصْرِ آخِرَ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ " .
[سنن الدارقطني » كِتَابُ الْعِيدَيْنِ ۔۔۔ رقم الحديث: 1523(1718)]
قربانی کے سلسلے میں امت کا تعامل
حقائق، مسلّمات اور غلط فہمیاں
(۲)
(۶) تعدد وتکرار کی بحث
راقم کا مقالہ تحقیق الکلام فی بیان السبب لوجوب الاحکام سے تعدد وتکرار وجوب کی بحث یہاں نقل کی جاتی ہے۔
احناف کے نزدیک یہ اصول طے شدہ ہے ان الامر لا یقتضی التکرار ولا یحتملہ کہ امر بالذات نہ مقتضی تکرار ہے اورنہ محتمل تکرار۔ دوسری طرف خطاب الٰہی جس پر صیغہٴ امر دال ہے وہ موجود علی الدوام ہے اور بندوں کے احساس سے غائب وپوشیدہ ہے پس ضروری ہوا کہ عبادت بدنی ومالی کی ادائیگی کو کسی ایسے امر کے ساتھ مربوط کیا جائے جس میں تکرار پایا جاتا ہو تاکہ اس کے تکرار سے یہ سمجھا جائے کہ خطاب الٰہی گویا از سر نو بندوں کی طرف متوجہ ہورہا ہے۔
وما تکرر من العبادات فباسبابہا لا بالاوامر. جواب سوال یرد علینا: وہو ان الامر اذا لم یقتض التکرار ولم یحتملہ فبأی وجہٍ تتکرر العبادات مثل الصلاة والصیام وغیر ذلک، فیقول ان ما تکرر من العبادات لیس بالاوامر بل بالاسباب لان تکرار السبب یدل علی تکرار المسبب (نورالانوار:۳۵).
قولہ لیس بالاوامر والا لاستغرقت العبادات الاوقات کلہا لدوام الامر (حاشیہ)
چنانچہ شارعِ حکیم کے کلامِ اضافی سے استدلال کرتے ہوئے ائمہ مجتہدین نے ملک نصاب کو وجوب زکوٰة کیلئے اور رأس موصوف بالولایة والموٴنة کو وجوبِ صدقہ کیلئے سبب قرار دیا؛ کیونکہ ملکیت میں باعتبار نصاب کے اور موٴنت و ولایت میں باعتبار رأس کے تعدد وتکرار پایا جاتا ہے اور جب ”ملک نصاب“ اور ”رأس یمونہ ویلی علیہ“ کو سبب قرار دیدیا تو وقت وجوبِ اداء کو شرط کہا گیا (اگرچہ وقت کے تکرار سے حکم میں تکرار بھی مسلّم ہے مگر دو چیزوں کا ایک نام تجویزکرنا غیر مناسب معلوم ہوا) اور نماز، روزہ اور قربانی میں اوقات وایام مخصوصہ کو سبب قرار دیا کہ وقت میں تکرار کا ہونا مشاہد ویقینی ہے۔
اور حج زندگی میں فقط ایک مرتبہ ہے اس لئے حج کی اضافت بیت اللہ کی طرف کی گئی جو غیر متکرر ہے اور استطاعت (قدرت علی الزاد والراحلہ) کو باوجودیکہ وجوبِ حج اس پر موقوف ہے یعنی نفس وجوب کی شرط ہے اور وجوب ہی چونکہ مفضی الی الاداء ہوتا ہے اس اعتبار سے استطاعت کو سبب کہا جاسکتا ہے مگر چونکہ اس میں تکرار کا بھی تحقق ہوتا ہے اس لئے سبب (بالمعنی الاصطلاحی) قرار نہیں دیاگیا۔
وفی الذخیرة: وقد رتب اللّٰہ سبحانہ وتعالٰی وجوب الحج علی الاستطاعة وترتیب الحکم علی الوصف یشعر بسببیّة ذلک الوصف لذلک الحکم، کقولنا: زنی فرجم، وسہا فسجد، وسرق فقطع، فتکون الاستطاعة سببا لوجوبہ (حاشیہ چلپی علی التبیین: ۲/۲۳۶) والمال لیس بسبب فیہ ولکنہ معتبر لیتیسر بہ الوصول الی مواضع اداء ارکانہ (مبسوط، کتاب الحج)
غرض جس شئی کو سبب قرار دیا جارہا ہے اس میں تعدد وتکرار کا خاص معنی ملحوظ ہے اسی وجہ سے واجبات کی نسبت اسباب کی طرف ہوا کرتی ہے فالواجبات تضاف الی اسبابہا (مبسوط:۲/۴) قطع نظر اس سے کہ وہ سبب فی معنی العلة ہے یا سبب فی معنی الشرط ۔
اب فقہاء کا کلام ملاحظہ فرمائیے:
(۱) اعلم ان الصلاة فرضت لاوقاتہا، قال اللّٰہ تعالٰی: اقم الصلوٰة لدلوک الشمس ولہذا تکرر وجوبہا بتکرار الوقت وتودّی فی مواقیتہا (مبسوط:۱/۱۴۱).
(۲) وسبب الاوّل الشہر ولہذا یضاف الیہ ویتکرر بتکررہ (ہدایہ:۱/۲۱۱ کتاب الصوم)
(۳) فشہود جزء منہ سبب لکلہ ثم کل یوم سبب وجوب ادائہ، غایة الامر انہ تکرر سبب وجوب صوم الیوم باعتبار خصوصہ کما فی الفتح (شامی:۳/۳۳۳)
(۴) ولان سببہ البیت وانہ لا یتعدد فلا یتکرر الوجوب (ہدایہ: ۲۳۲)
(۵) وقد علم ان السبب اذا لم یتکرر لا یتکرر المسبب وانما کان سببہ البیت لاضافتہ، الیہ یقال حج البیت، والاضافة دلیل السببیة (بنایہ:۴/۶)
(۶) وسبب وجوب الحج ما اشار الیہ اللّٰہ تعالٰی فی قولہ وللّٰہ علی الناس حج البیت فالواجبات تضاف الی اسبابہا ولہذا لا یجب فی العمر الا مرة واحدة لان سببہ وہو البیت غیر متکرر، والاصل فیہ حدیث الاقرع بن حابس.... والوقت فیہ شرط الاداء ولیس بسبب ولہذا لایتکرر بتکرر الوقت (مبسوط:۲/۴)
(۷) الاضافة ای اضافة الصدقة الی الفطر باعتبار انہ وقتہ ای وقت الوجوب فکانت اضافتہ مجازیة وہذا یتعدد بتعدد الرأس مع اتحاد الیوم ای لاجل تعدد الصدقة بتعدد الرأس ان لم یتعدد الفطر فعلم ان الرأس ہو السبب فی الیوم (بنایہ: ۳/۵۷۲)
(۸)... ولانہ یتضاعف بتضاعف الروٴس فعلم ان السبب ہو الرأس وانما یعمل فی وقت مخصوص وہو وقت الفطر ولہذا یضاف الیہ فیقال صدقة الفطر والاضافة فی الاصل وان کان الی السبب فقد یضاف الی الشرط مجازا فان الاضافة تحتمل الاستعارة فاما التضاعف بتضاعف الروٴس لایحتمل الاستعمارة (مبسوط:۲/۱۰۱)
(۹) النصاب انما یکون سببا باعتبار صفة النماء فان الواجب جزء من فضل المال قال اللہ تعالٰی: یسئلونک ماذا ینفقون فل العفو ای الفضل، فصار السبب النصاب النامی ولہذا یضاف الی النصاب والی السائمة یقال زکاة السائمة وزکوٰة التجارة والدلیل علیہ ان الواجب یتضاعف بتضاعف النصاب فان قیل الزکوٰة تتکرر فی النصاب الواحد بتکرر الحول ثم الحول شرط ولیس بسبب الخ (دیکھئے مبسوط:۲/۱۵۰)
پس اگر نصاب اور رأس کے بجائے وقت کو سبب قرار دیاجاتا تو تکرارِ وقت سے وجوب ضرور مکرر ہوتا لیکن متعدد وجوب نہ ہوتا۔ اوراگرایامِ حج سے وجوبِ اداء کا تعلق ہوتاتو ہر سال حج کرنا ضروری ہوجاتا جیسے قربانی۔
اما حدیث الاقرع بن حابس رضى الله تعالى عنه فہو ماروی ابو ہریرة رضى الله تعالى عنه ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال ایہا الناس قد فرض اللّٰہ علیکم الحج فحجوا فقال الاقرع بن حابس رضى الله تعالى عنه أکلّ عام یا رسول اللّٰہ فسکت حتی قالہا ثلثا فقال لو قلتُ نعم لوجب ولما استطعتم. والمنعی لو قلت ”نعم“ لتقرر الوجوب کل عام علی ما ہو المستفاد من الامر قلنا لا بل معناہ لصار الوقت سببا لانہ علیہ الصلاة والسلام کان صاحب الشرع والیہ نصب الشرائع (تلویح:۴۲۱)
اور جب وقت کو سبب وجوب قرار دیا جاتا تو وجوب اداء مختص بالوقت ہوکر متکرر ہوتا۔
قربانی کے سبب وجوب کے بارے میں فقہاء کا اختلاف اور بالآخر وقت کی سببیت پر سب کا متفق ہونا سببیت کے خاص معنی کے لحاظ سے ہے، اور اِس معنی کے اعتبار سے وجوبِ اضحیہ کا سبب نہ غنا ویسار ہے اورنہ ہی رأس یمونہ ویلی علیہ ہے۔ ورنہ متعدد قربانی واجب ہوتی جیسے زکوٰة وصدقة الفطر، البتہ ایام نحر کی آمد سے وجوب مکرر ہوتا رہتا ہے اس لئے وجوب اداء یعنی وجوب اضحیہ کا سبب وقت کو قرار دیاگیا ہے۔
ان سبب وجوب الاضحیة الوقت وہو ایام النحر والغنٰی شرط الوجوب .... الا یری انہ لایقال اضحیة المال ولا مال الاضحیة فلا یکون المال سببا (تکلمة فتح القدیر)
ولان سبب الوجوب ہناک رأس یمونہ ویلی علیہ وقد وجد فی الولد الصغیر ولیس السبب الرأس ہہنا الا یری انہ یجب بدونہ وکذا لایجب بسبب العبد (بدائع: ۵/۶۵ کتاب الاضحیة)
واعلم ان عبارة البعض تفید ترجیح کون السبب ہو الرأس کصاحب الکافی حیث قال وسببہا الرأس کما فی صدقة الفطر وقیل: الیوم، وعبارة الدر تفید عکس ذلک. ومنہم من جزم بان السبب ہو الیوم قال للاضافة لقولہم یوم الاضحٰی ولتکررہا بتکررہ (فتح المعین علی شرح الکنز لملا مسکین: ۳/۳۷۶)
(۱۰) ثم ہہنا تکرر وجوب الاضحیة بتکرر الوقت ظاہر (تکملہ فتح القدیر: ۹/۵۰۶)
یہی وجہ ہے کہ مولانا عبدالحئی لکھنوی رحمة الله عليه نے وجوب صدقة الفطر میں رأس کیلئے سبب کا لفظ استعمال کیا اور قربانی میں مال کیلئے نہیں کیا۔
قلنا سبب وجوب الفطرة رأس ای نفس یمونہ ای یتولیہ ویکفلہ فیجب الصدقة علی الرأس ... ولکن الاضحیة علی المال فان لم یکن لہ مال لایجب علیہ فافہم (عمدة الرعایہ:۴/۳۸)
لیکن قربانی کے وجوب فی الذمہ کی علت بہرحال غنا ویسار ہے اس میں فقہاء کا کوئی اختلاف نہیں ہے (کما ستعلم ان شاء اللّٰہ) اس لحاظ سے اگر کسی فقیہ کے کلام میں بسبب الغنا کا لفظ آیا ہے تو وہ سبب فی معنی العلة ہے۔ (دیکھئے: تبیین الحقائق:۶/۴۷۸).
الحاصل وقت کو سبب قرار دینا تکرارِ وجوبِ اداء کیلئے ہے۔
(۷) تواتر وتعامل کے خلاف دئیے گئے فتاویٰ میں تعارضات
وقت مخصوص کی آمد سے نفس وجوب کے ثبوت کی بنیاد پر دئیے گئے فتاویٰ میں اصولی وفقہی متعدد غلطیوں کے علاوہ جن کی طر ف راقم نے اپنے مضمون ”تعقب الفرید علی تخصیص الوجوب بصبح العید“ میں نشان دہی کی ہے یہاں آپ کو ان فتاویٰ کے درمیان تعارضات دکھائے جاتے ہیں۔ توارث وتعامل کے معارض ہونے کے ساتھ فتاویٰ کا آپس میں متعارض ہونا اہل علم خود فیصلہ کریں یہ کس بات کی علامت ہے۔
پہلے ان فتاویٰ کی بنیادی عبارتیں پیش کی جاتی ہیں پھر تعارضات ملاحظہ فرمائیں گے۔
(الف) دارالعلوم کراچی کے مفتی عصمت اللہ صاحب کے فتویٰ کی بنیادی عبارت:
”الجواب“ قربانی کے نفس وجوب کا سبب وقت ہے جو کہ یوم النحر کے طلوع صبح صادق سے شروع ہوکر بارہویں تاریخ کے غروب آفتاب تک ہے اور غِنٰی یعنی مالک نصاب ہونا یہ شرط وجوب ہے۔“....
”اگر یوم النحر ہوچکاہے تو نفس وجوب ہوگیا۔ اب دیگر شرائط کے پائے جانے کی صورت میں خود قربانی کرے یا اس کی اجازت سے دوسرا کوئی آدمی کرے دونوں صورتوں میں یہ قربانی شرعاً اداء ہوجائے گی۔“
قال العبد: حاصل یہ کہ نفس وجوب کا سبب پورا وقت ہے اور غِنٰی کو شرط وجوب یعنی صرف وجوب اداء کی شرط مانا گیا، پھر آگے چل کر وقت خاص کے جزء اوّل کو متعین طریقہ پر سبب مانا ”اگر یوم النحر ہوچکا یعنی صبح صادق ہوگئی تو نفس وجوب ہوگیا۔“ بہرحال بارہویں کے غروب کے بعد نفس وجوب نہیں ہے۔
(ب) مفتی عمر فاروق صاحب لندن کے فتویٰ کی بنیادی عبارت:
ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ مالدار شخص اپنی قربانی وکیل کے معرفت کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ مالدار پر قربانی واجب ہوچکی ہو اور مالدار پر قربانی دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق سے واجب ہوتی ہے۔ اب جو مالدار شخص جہاں رہتا ہو وہاں قربانی کا وقت شروع نہ ہوا ہو یعنی وہاں دسویں تاریخ کی صبح صادق نہ ہوئی ہوتو چاہے وکیل جہاں رہتا ہے وہاں دسویں تاریخ کی صبح صادق ہوچکی ہو وکیل کے لئے اپنے مقام پر اصل مالک کی طرف سے اس کی قربانی کرنی صحیح نہیں...
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کسی شخص کے ذمہ قربانی واجب ہونے کے بعد اس کی ادائیگی جائز اور صحیح ہونے کے لئے جس جگہ پر قربانی کا جانور ہو وہاں قربانی کا وقت شروع ہوجانے کے بعد باقی رہنا ضروری ہے چاہے اصل مالک (موکل) کے مقام میں قربانی کا وقت ختم ہوگیاہو۔
قال العبد: حاصل یہ کہ مالدار پر نفس وجوب یوم النحر کی صبح صادق سے ہوتی ہے یعنی جزء اوّل متعین ہے اور نفس وجوب کے بعد اداء کے لئے وقت اضحیہ کا رہنا ضروری ہے۔ چاہے من علیہ الاضحیہ کے یہاں وقت نہ ہو۔
(ج) حضرت مفتی محمد تقی صاحب عثمانی مدظلہ العالی کی تائیدی تحریر کی عبارت:
”نیز احتیاط اس میں ہے کہ جب قربانی کسی ملک میں کی جائے تو جس شخص کی طرف سے قربانی کی جارہی ہے اس کے ملک میں بھی ایامِ اضحیہ ختم نہ ہوئے ہوں۔“
قال العبد: گویا صحت اضحیہ کیلئے دونوں جگہ وقت اضحیہ کا رہنا بہتر ہے لیکن اگر من علیہ الاضحیہ کے اعتبار سے وقت ختم ہوگیا اور مکان ذبح اضحیہ میں وقت موجود ہے تب بھی قربانی ادا ہوجائے گی۔
(د) مفتی شبیر احمد مرادآبادی کے فتویٰ کی بنیادی عبارت:
الجواب... لہٰذا سب سے پہلے اول شرط یعنی دونوں جگہ قربانی کے زمانہ کا آنا لازم ہے، پھر شرط ثانی یعنی زمانہٴ قربانی میں مسلمان کا مالک نصاب ہونا۔ ان دونوں شرطوں کے ایک ساتھ پائے جانے کے بعد تیسری کا مسئلہ سامنے آتا ہے۔....
اب اصل مسئلہ کا جواب یہ ہے کہ مکان اضحیہ کا اعتبار کرنا اس وقت درست ہے کہ جب مالک اضحیہ کے یہاں رط یعنی سبب وجوب جو کہ قربانی کے ایام (دسویں ذی الحجہ سے لے کر بارہویں ذی الحجہ کا درمیانی زمانہ) دونوں جگہ پایا جانا لازم ہے۔....
قال العبد: یعنی من علیہ الاضحیہ (موکل) اور مکان اضحیہ دونوں جگہ وقت نحر کا ہونا ضروری ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ مالک اضحیہ کے یہاں وقت اگر شروع ہی نہیں ہوا یا وقت ختم ہوگیا تو خواہ مکان اضحیہ میں وقت موجود ہو قربانی کا اعتبار نہیں ہوگا۔
(ھ) مفتی اسماعیل صاحب بھڈکودروی کے جواب میں مفتی شبیر صاحب کے خط کا ایک جملہ:
”نیز مقام اضحیہ کا یوں بھی اعتبار ہوجاتا ہے کہ اگر مالک اور مضحی کے یہاں بارہویں ذی الحجہ ہو اور جہاں قربانی کی جارہی ہے وہاں تیرہویں ذی الحجہ ہوتو مقام اضحیہ کا اعتبار کرکے قربانی کو صحیح قرار دیا جائے گا اس لئے کہ سبب وجوب دونوں جگہ پایا جاچکا ہے۔
قال العبد: حاصل یہ کہ من علیہ الاضحیہ کے یہاں وقت ہو او رمکان اضحیہ میں وقت چاہے نہ ہو تب بھی قربانی صحیح ہوجائے گی۔
(و) حضرت مفتی احمد صاحب خانپوری مدظلہ العالی کے فتوی کی عبارت:
فقہاء کرام نے قربانی کا سبب وجوب ایام نحر یعنی قربانی کے دنوں کا ہونا بتلایا ہے۔ وسببہا الوقت وہو ایام النحر ..... اب اگر کوئی شخص جس پر قربانی واجب ہوتی ہے جب تک قربانی کے دن نہیں آئیں گے وہاں تک اس پر قربانی واجب نہیں ہوگی۔
... جس جانور کو بطور قربانی ذبح کرکے واجب ادا کیا جارہا ہے اس کے لئے بھی شریعت کی طرف سے ضروری قرار دیاگیا ہے کہ وہ جانور قربانی کے دنوں اور وقت میں ذبح کیا جائے۔ اگر کوئی شخص اپنی قربانی کا جانور ایسے دن اور وقت میں ذبح کررہا ہے جو قربانی کے دن نہیں ہیں تو اس طرح ذبح کرنے سے قربانی ادا نہیں ہوگی۔ .... اس پورے مسئلہ کا خلاصہ یہ ہے کہ قربانی کا جانور ذبح کیا جارہا ہو اس وقت قربانی کا دن اور وقت ہونا ضروری ہے۔ (۲۳/ذی قعدہ ۱۴۲۵ھ)
فتاویٰ کی ان عبارتوں کو مدنظر رکھئے اور ملاحظہ فرمائیے
پہلا تعارض: ایک طرف یہ لکھاجارہا ہے کہ ایامِ نحر از اول تا آخر یعنی پورا وقت سبب وجوب ہے اور سبب وجوب سے بقولہم نفس وجوب مراد ہے تو مطلب یہ ہوا کہ نفس وجوب پورے وقت میں کبھی بھی ہوسکتا ہے۔ جزء اوّل متعین نہیں ہے۔ اور آگے پھر لکھتے ہیں کہ وقت کے جزء اوّل سے وجوب ہوجاتا ہے یعنی نفس وجوب وقت کے جزء اوّل کے آنے کے ساتھ خاص کرلیا ہے۔
دوسرا تعارض: ایک جانب یہ لکھا گیا ہے کہ وقت سے قربانی واجب ہونے کے بعد قربانی کا جانور ذبح کیا جارہا ہو اُس وقت قربانی کا دن اور وقت ہونا ضروری ہے۔ چاہے اصل مالک کے مقام میں قربانی کا وقت ختم ہوگیا ہو۔ گویا دونوں جگہ وقت کا رہنا ضروری نہیں۔ بلکہ صرف مکان اضحیہ میں وقت کا رہنا ضروری ہے۔ دوسری جانب مفتی شبیر صاحب کے فتوی کی یہ عبارت دیکھئے ”کہ دونوں جگہ قربانی کے ایام (دسویں ذی الحجہ سے لے کر بارہویں کے درمیانی زمانہ) پایا جانا لازم ہے۔“ گویا جس طرح من علیہ الاضحیہ کے یہاں وقت نہ ہوا ہو تو قربانی درست نہیں اسی طرح اگر وقت من علیہ الاضحیہ کے یہاں ختم ہوگیا ہوتو بھی مکان اضحیہ میں قربانی درست نہیں ہے۔
تیسرا تعارض: ایک طرف تو یہ طے ہے کہ وجوب اضحیہ کے بعد ذبح اضحیہ کی صحت کے لئے وقت اضحیہ کا ہونا ضروری ہے۔ جیساکہ ان فتاویٰ میں بھی ہے مگر دوسری جانب مفتی شبیر احمد صاحب نے مفتی اسماعیل صاحب بھڈکودروی کے استفسار کا جو جواب دیا ہے اس میں ہے کہ من علیہ الاضحیہ کے یہاں ۱۲ویں ذی الحجہ ہو اور مکان اضحیہ میں ۱۳ (تیرہویں) ذی الحجہ ہو تب بھی قربانی درست ہوجائے گی۔ گویا سبب وجوب کے بعد ذبح اضحیہ کے لئے وقت کا باقی رہنا ضروری نہیں ہے۔ مفتی شبیر صاحب کا یہ قول شرع کے خلاف اور جدید موقف کے قائلین کے بھی خلاف ہے حتی کہ خود ان کا فتوی جو ندائے شاہی میں شائع ہوا ہے اس کے بھی خلاف ہورہا ہے۔
چوتھا تعارض: ایک طرف ابتدائے وقت میں من علیہ الاضحیہ کا اعتبار کیا کہ مکانِ اضحیہ میں باوجود وقت ہوجانے کے کہتے ہیں کہ جب تک من علیہ الاضحیہ کے یہاں وقت نہ ہوجائے قربانی درست نہیں ہوگی۔
مگر دیکھئے دوسری طرف انتہائے وقت میں مکان اضحیہ کا اعتبار کررہے ہیں۔ چاہے من علیہ الاضحیہ کے حق میں وقت نہ رہا ہو۔ یہ عجیب بات ہے۔
کیونکہ جب وقت کی آمد سے نفس وجوب کا تحقق مان رہے ہیں تو وقت کے گذر جانے سے قطعاً نفس وجوب بھی زائل ہوجائیگا۔ اس لئے ابتداء میں اگر من علیہ الاضحیہ کا اعتبار کرتے ہیں تو اختتام میں بھی اسی کااعتبار ضروری ہے اوراگرانتہاء میں مکان اضحیہ کا اعتبار اس لئے کررہے ہیں کہ وقت سے نفس وجوب ہوچکا اور نفس وجوب متحقق ہونے کے بعد باوجود وقت گذرنے کے ختم بھی نہیں ہوا۔ (شاید اسی وجہ سے مفتی شبیر احمد صاحب نے تیرہویں کو قربانی کے جواز کا فتوی دے دیا ہے) تو پھر میں پوچھتا ہوں کہ اگر من علیہ الاضحیہ پر سال گذر گیا اور وہ سال بھر صاحب نصاب رہا جیساکہ عموماً ہوا کرتا ہے تواب دوسری صبح یوم النحر کی آمد سے نفس وجوب کا تحقق چہ معنی دارد۔ پس یقین کرلیجئے کہ نفس وجوب وقت معین سے نہیں ہے۔
پانچواں تخالف: دیکھئے فتوی میں یہ لکھا ہے کہ ”مالدار پر قربانی دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق سے واجب ہوتی ہے“ اور وقت کو شرعاً سبب وجوب قرار دیاگیا ہے مگر اس سے یہ سمجھا جارہا ہے کہ غنی پر طلوع صبح نحر سے پہلے نفس وجوب نہیں ہوتا۔
حالانکہ جب آپ نے مکلف کو یوم النحر کی آمد سے قبل شرعاً غنی تسلیم کیا (جیسا کہ لفظ غنی اورمالدار صراحتاً مذکور ہے) تو غنا یعنی ملک نصاب کی وجہ سے شرعاً اس شخص کا ذمہ مشغول بالواجب تو ہوگیا کیونکہ غناء ویسار قربانی کے نفس وجوب کی علت ہے جیساکہ وجوب زکاة میں علت ہے (دیکھئے مقالہ ”نورالسنی لمن یجب علیہ الاضحیة بالغنی“ دارالعلوم شمارہ شوال وذیقعدہ ۱۴۲۹ھ میں) لہٰذا اصل وجوب تو ثابت ہوچکا اب وقت کی آمد پر جس وجوب کا تحقق ہوگا وہ اصطلاح فقہ میں وجوب اداء ہے اس لئے یہ عبارت کہ ”مالدار پر دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق سے قربانی واجب ہوگی۔“ یہ وجوب ادا کی تعبیر ہے۔
پس فتویٰ کا یہ لفظ یعنی غنی دلالت کررہا ہے کہ شرعاً نفس وجوب ہوچکا ہے اور نظریہ اس کے خلاف قائم کیاگیا کہ مالدار پر نفس وجوب وقت سے پہلے نہیں ہوگا یہ دونوں کیسے صحیح ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا وہ تعارض جس کے رفع کی درخواست مفتی اسماعیل صاحب بھڈکودروی دامت برکاتہم نے اپنے خط میں فرمائی ہے اُس رفع کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں ہے کہ جو فتاوی اصول اور تعامل امت کے مطابق دئیے گئے ہیں اس کو یعنی المعتبر مکان الاضحیہ کے ضابطہ علی الاطلاق کو تسلیم کیا جائے اور جو فتاوی یا تحریر اس کے خلاف واقع ہورہے ہیں اُن سب سے رجوع کیا جائے تاکہ عام مسلمانوں کی تشویش باقی نہ رہے۔
(۸) اعتبار مکان اضحیہ کا ایک روشن نمونہ
شروع میں کہاگیا ہے کہ امت کا تعامل اصول کی روشنی میں چلا آرہا ہے اس کا ایک بہترین نمونہ بالکل ماضی قریب کا ایک ایسی شخصیت کے حوالہ سے پیش کیا جاتا ہے جس کے سامنے اہل بصیرت کے قلوب بھی جھکے ہوئے ہیں اور جس کے گرد علماء ومشائخ کا مجمع رہا کرتا تھا۔ اس واقعہ میں المعتبر مکان الاضحیہ کا مستحکم عملی ثبوت جدید موقف کے قائلین کے لئے کحل البصر ہے۔ ملاحظہ ہو۔
تاریخ روانگی: ۱۳/ذی الحجہ ۱۳۹۱ھ ۲۹/جنوری ۱۹۷۲/
از شیخ الحدیث رحمة الله عليه بنام مولانا یوسف متالا (مدظلہ العالی)
آج ۱۲/ذی الحجہ کو ظہر کے قریب ڈاک کا انبار پہنچا ... ڈاک کے پلندہ میں میرے موجودہ کاتب مولوی حبیب اللہ نے پہلے ہی آپ کا نام لے لیا۔ فوراً خط سنا۔ معلوم ہوا کہ ۱۹/جنوری کا چلا ہوا آج ۲۹/ کو یعنی ۱۲/ذی الحجہ کی ظہر کے قریب پہنچا۔ اُس وقت میں تو گھبراگیا اورمولوی نصیرالدین صاحب نے نہایت اطمینان سے جواب دیدیا کہ اب تو وقت نہیں رہا تاہم انھوں نے میری پریشانی دیکھ کر متعدد دوستوں کو جانوروں کی تلاش میں بھیجوایا۔ میری تو ظہر کے بعد کی نیند اُڑگئی۔
دو گھنٹے کے بعد معلوم ہوا کہ دیہات کے لوگ جو اپنے جانور اِدھر اُدھر سے لاتے ہیں وہ ۱۲/ذی الحجہ کے دس گیارہ بجے سے واپس ہونا شروع ہوجاتے ہیں اس لئے کہ دیہات والوں کے لئے شہروں میں جانوروں کا رکھنا بھی مشکل ہوتا ہے اور یہاں کے گھاس وغیرہ کا خرچ بھی زیادہ ہوجاتا ہے۔
میں نے دوبارہ زور باندھے کہ شیخ انعام اللہ صاحب کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے وہ عصر کے بعد ایک بھینس خریدکر لائے جو گراں بھی تھی اور لوگوں کی نگاہوں میں زیادہ پسند بھی نہ تھی مگر چونکہ وقت آخری تھا اس لئے اس کو ذبح فوراً کرایا۔
اللہ کے بندے قربانی کا معاملہ توایسا لاابالی کا نہیں تھا۔ جن دوستوں نے میرا یا اپنا حصہ میرے یہاں کرانا چاہا شروع ذی قعدہ سے ان کے خطوط آنا شروع ہوگئے تھے۔ بعض دوستوں کے اصرار پر بہت عمدہ بکرے بھی میں نے ذی قعدہ میں خرید کر ان ہی کے پاس چھوڑ دئیے تھے۔ تقسیم سے پہلے تو میرا یہ معمول تھا کہ شعبان یا رمضان میں بقرات خرید کر سرساوہ، شیخ پورہ، وغیرہ کے احباب ہی کے ذریعہ سے خریدتا تھا اور ان ہی کے یہاں چھوڑ دیتا تھا کہ ۹/ذی الحجہ کو پہنچادیں۔ مگر بعض مجبوریوں کی وجہ سے (اب اس کا معمول) نہیں رہا پھر بھی اخیر ذی قعدہ ورنہ زائد سے زائد شروع ذی الحجہ میں خریدوالیتا ہوں کہ اطمینان سے اچھا جانور اچھے نرخ میں مل جاتا ہے۔ تمہارا یہ جانور گراں تو بہت ملا۔ مگر اللہ کا احسان کہ قربانی وقت پر ہوگئی۔ یہ بھی تمہارے اخلاص کی برکت ہے۔ اگر مولوی حبیب اللہ تمہارا نام نہ لیتے تو یہ خط سننے کی نوبت بھی نہ آتی اور بقیہ ڈاک کے ساتھ کل ۱۳/ذی الحجہ کو سنتا۔ صرف تمہارے رفع انتظار کے لئے لکھواتا ہوں کہ قربانی ادا ہوگئی۔ اللہ کا شکر ہے۔
مفتی اسماعیل کچھولوی رمضان کی قضا میں شروع ذی الحجہ سے پہلے سے آئے ہوئے ہیں۔ ان ہی کے متبرک ہاتھوں نے آپ کی قربانی کو ذبح کیا۔ فقط والسلام
(حضرت شیخ الحدیث)
بقلم حبیب اللہ چمپارنی شب ۱۳/ذی الحجہ (محبت نامے/ص۲۵۷/۲)
***
------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 11 ، جلد: 94 ذيقعده – ذى الحجة 1431 ھ مطابق نومبر 2010 ء
No comments:
Post a Comment