تمہیدِ اصولِ ہدایت»
القرآن:
اور جو شخص اپنے سامنے ہدایت واضح ہونے کے بعد بھی (1)رسول کی مخالفت کرے، اور (2)مومنوں(خصوصاً صحابہ کی جماعت/اکثریت) کے راستے کے سوا کسی اور راستے کی پیروی کرے، اس(شاذ/اقلیتی) کو ہم اسی راہ کے حوالے کردیں گے جو اس نے خود اپنائی ہے، اور اسے دوزخ میں جھونکیں گے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔
[سورۃ النساء:115]
تفسیر:
اس آیت سے علمائے کرام، بالخصوص امام شافعی نے اجماع(اتفاق) کی حجیت پر استدلال کیا ہے یعنی جس مسئلے پر پوری امت مسلمہ متفق رہی ہو وہ یقینی طور پر برحق ہوتا ہے اور اس کی مخالفت جائز نہیں۔
امت بحیثیت مجموعی خطاء سے معصوم ہے۔
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ: بےشک اللہ تعالیٰ میری امت کو یا (راوی نے) کہا کہ محمد صلى الله عليه وسلم کی اُمت کو گمراہی پر مجتمع نہیں کرے گا۔
[صحیح الترمذي»حدیث نمبر:2167، صحيح الكتب التسعة وزوائده:5646]
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ: میری امت کسی گمراہی پر جمع (متفق) نہیں ہوگی، بس تم سوادِ اعظم (یعنی سب سے بڑی جماعت) کا اتباع کرو، کیونکہ جو شخص الگ راستہ اختیار کرے گا جہنم میں جا رہے گا۔
[الصحيحة:1331، حاکم:391-396، اللالکائي:154]
مزید تفصیل ملاحظہ فرمائیں: