Tuesday, 23 April 2013

صحابہ کرامؓ کے بارے میں جدید فرقہ اہلحدیث اور ان کے علماء کا نقطۂ نظر

ہمارا مسلک : اہلِ سنّت والجماعت
ہماری دعوت : اتباعِ کتاب و سنّت
ہمارا نعرہ : اتحادِ امت
ہماری کوشش : احیاءِ توحید و سنّت اور خاتمۂ شرک و بدعت
ہمارا مقصد : اشاعتِ معروفات و ازالۂ منکرات
منجانب : مجلس تحفظ سنّت و دفاعِ صحابہؓ ، آندھراپردیش
نوٹ : اس اشتہار کا مکمل احترام فرمائیے ، نیچے گرنے سے یا کسی بھی بے احترامی سے بچائیے ، اس میں آیاتِ قرآنیہ اور احدیثِ مبارکہ تحریر ہیں اس کو پڑھئیے اور چھاپ کر دوسروں تک پہونچاکر ثوابِ دارین حاصل کیجئے.

محترم اسلامی بھائیو! اہلِ سنّت والجماعت کا ہر دور میں اس عقیدہ پر کامل اتفاق رہا ہے کہ پوری انسانیت میں انبیاءِ کرام علیھم السلام کے بعد صحابہ کرامؓ سب سے افضل ہیں. قرآنِ پاک میں الله پاک نے کی آیتوں میں صحابہ کرامؓ کی تعریف فرمائی. حضور اکرمؐ نے بیشمار احادیث میں صحابہ کرامؓ  کے فضائل بیان فرماۓ. ایک حدیث میں آپؐ نے پوری امّت کو تاکید فرمائی  کہ اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي.... میرے صحابہؓ کے بارے میں الله سے ڈرو،  میرے بعد ان کو نشانہ ملامت مت بناؤ، جس نے ان سے محبت کی اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی  (ترمذی) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ سے محبت نبی سے محبت سے اور صحابہ سے دشمنی نبی سے دشمنی ہے. دوسری حدیث شریف میں آپؐ نے صحابہ کرامؓ  کے بارے میں فرمایا : أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ....الخ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے تم جس کی پیروی کروگے ہدایت پاؤگے.(مشکوٰة: ص554). قرآن و سنّت کی روشنی میں اہلِ سنّت والجماعت کے نزدیک صحابہؓ معیارِ حق ہیں، ان کے اقوال و افعال حجت ہیں، اور ان کو برا بھلا کہنے والا زندیق ہے. صحابہ کرامؓ کے ذریعہ پوری امت تک قرآن و حدیث کا علم پہنچا. صحابہ کرامؓ ہی دین اسلام کے کامل ومکمل ترجمان ہیں وار الله و رسولؐ کے سچے عاشق اور مطيع و فرمانبردار ہیں.

کتاب و سنّت کی گواہی، سلفِ صالحین اور پوری امت کے برخلاف ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ زمانہ کے اہل حدیث غیر مقلدین حضرات صحابہ کرامؓ کے بارے میں بے خوفی کے ساتھ زبان درازی کرتے اور ناشائستہ کلمات زبان و قلم سے نکالتے چلے جاتے ہیں، جن کی چند مثالیں یہاں پیش کی جاتی ہیں :

ایک بڑے غیر مقلد عالم ..... لکھتے ہیں :
"ومنه يعلم ان من الصحابة من هو فاسق كالوليد ومثله يقال في حق معاوية وعمرو مغيرة و سمرة".(نزل الأبرار : ٢/٩٤)
ترجمہ : اس سے معلوم ہوا کہ کچھ صحابہ فاسق ہیں جیسا کہ ولید (بن عقبہ) اور اسی کے مثل کہا جاۓ گا، معاویہ (بن ابی سفیان) ، عمرو (بن عاص)، مغیرہ (بن شعبہ) اور سمرہ (بن جندب) کے حق میں (کہ وہ بھی فاسق ہیں).


دوسرے غیر مقلد عالم ..... تحریر کرتے ہیں :
سیدنا علیؓ کے خودساختہ حکمرانا عبوری دور کو خلافتِ راشدہ میں شمار کرنا صریحاً دینی بددیانتی ہے، مگر اغیار نے جس چاپکدستی سے آنجنابؓ کی نام نہاد خلافت کو خلافتِ حقہ ثابت کرنے کے لیے دنیاۓ سبائیت سے درآمد کردہ مواد سے جو کچھ تاریخ کے صفحات میں قلمبند کیا ہے اس کا حقیقت سے قطعی کوئی تعلق یا واسطہ نہیں. (خلافتِ راشدہ : ٥٥-٥٦)

مشہور غیر مقلد عالم ..... کا کہنا ہے :
"ولا يلتزمون ذكر الخلفاء ولا ذكر سلطان الوقت لكونه بدعه" (هدية المہدی : ١/١١٠)
ترجمہ : (اہل حدیث خطبہ جمعہ میں) خلفاءِ راشدینؓ اور بادشاہِ وقت کا ذکر کا التزام نہیں کرتے، کیونکہ یہ بدعت ہے.

یہی غیر مقلد صاحب دوسری جگہ لکھتے ہیں :
یہ ممکن ہے کہ اولیاءِ کرامؒ کو دوسری وجوہ سے ایسی افضلیت حاصل ہو جو صحابی کو حاصل نہ ہو، جیسا کہ ابن سیرین سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ ہمارے امام مہدی ابوبکرؓ و عمرؓ سے افضل ہیں.(هدية المہدی : ١/٩٠)


موجودہ جماعت اہل حدیث کے ایک صاحب قلم ......... خلیفۂ راشد حضرت علیؓ کے متعلق لکھتے ہیں :
" آپ کو امت نے اپنا خلیفہ منتخب نہیں کیا تھا، آپ دنیاۓ سبائیت کے منتخب خلیفہ تھے، اسی لئے آپ کی خودساختہ خلافت کا چارپانچ سالہ امت کے لیے عذابِ خداوندی تھا، جس میں ایک لاکھ سے زیادہ فرزندانِ توحید خوں میں تڑپ تڑپ کر ختم ہوگئے."(صدیقہ کائنات : ٢٢٨)

حضرت امام حسنؓ و امام حسینؓ کو صحابی کہنا سبائیت کی ترجمانی یا تقلید کی خرابی ہے، غیر مقلد انھیں زمرۂ صحابہؓ سے نکال سکتے ہیں!
"حضرات حسنین کو زمرۂ صحابہؓ میں شمار کرنا صریحاً سبائیت کی ترجمانی ہے یا اندھا دھند تقلید کی خرابی".(سیدنا حسن بن علی:٢٣)

حضرت حسینؓ کی کوفہ روانگی بچکانہ حرکت، سفر کی مشقتوں کو جھیلنا ان کے بس کا روگ نہیں تھا (جس نے اسلام کے لیے جان دیدی کیا وہ سفر کی مشقت برداشت نہیں کرسکتا؟)
"حقیقت یہ ہے کہ مکہ سے روانگی تک خروج کے ارادہ کو کسی نے کوئی اہمیت نہ دی، اس پرامن سلطنت کے اندر اس ایک آدمی کی اس قسم کی حرکات سنجیدہ لوگوں کے نزدیک ایک بچکانہ حرکت تھی، جن لوگوں نے آپ کو روکا ان لوگوں کا مقصد یہ تھا کہ گھر سے نکل کر شدائدِ سفر کی تکلف ایک شہزادے کے بس کا روگ نہیں ہونگی". (واقعہ کربلا : ٧)

نواسۂ رسولؐ حضرت حسینؓ کا سفر اسلام کی سربلندی کے لئے نہیں تھا بلکہ خلافت کی حرص میں تھا:
"آپ اعلاۓ كلمة الحق کے نظریہ کے تحت عازم کوفہ نہیں ہوۓ تھے، بلکہ حصولِ خلافت کے لیے آپ نے یہ سفر اختیار کیا تھا". (واقعہ کربلا : ١٨)

درویشِ امت حضرت ابوذر غفاریؓ کمیونسٹ نظریہ سے متاثر تھے:
علامہ اقبال کا ایک شعر ہے: مٹایا کیسر و قصرىٰ کی استبداد کو کس نے؛ وہ کیا تھا زور حیدر، فقر بوذر، صدق سلیمانی.
اس شعر پر حکیم صاحب تنقید کرتے ہوۓ لکھتے ہیں: "(اس شعر میں) دوسرے نمبر پر حضرت ابوذر غفاری کا نام ہے جو ابن سبا کے کمیونسٹ نظریہ سے متاثر ہوکر ہر کھاتے پیتے مسلمان کے پیچھے لٹھ لیکر بھاگ اٹھتے تھے". (خلافتِ راشدہ:١٣٤)

صحابہؓ مشت زنی کیا کرتے تھے العياذ بالله:
بعض اهلِ علم نقل ایں استمناء از صحابہ نزد غیبت از اھل خود کردہ اند
ترجمہ : صحابہ جب اہل و عیال سے جب دور ہوتے تو صحابہ کرام بھی مشت زنی کیا کرتے تھے.(عرف الجادی : ص ٢٠٧)



خلفاۓ راشدینؓ الله و نبیؓ کے احکام کی خلاف ورزی کرتے تھے:
برادران! حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان غنی، حضرت علی رضی الله عنہم قطعاً اپنی اپنی خلافت کے زمانہ میں دونوں معنی کے لحاظ سے أولو الأمر تھے ..... اور آگے لکھتے ہیں .... "لیکن باوجود اس کے نہ تو کسی ایک  صحابی نے ان کی تقلید کی اور نہ کوئی ان کی طرف منسوب ہوا؛ بلکہ ان کے اقوال کی خلاف ورزی کی، جب وہ فرمانِ الله اور فرمانِ رسول کے خلاف نظر آۓ".(طریق محمدی:٢٦١)






خطبہ جمعہ میں خلفاء الراشدین کا ذکر کرنا بدعت ہے۔ (ھدیة المہدی ص110)


حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کا حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو خلیفہ ثانی مقرر کرنا اصل اسلام کے خلاف تھا۔(طریق محمدی ص83)


حضرت عمرؓ معمولی اور موٹے موٹے مسائل میں غلطی کرتے تھے:
"حنفی بھائیو! ذرا کلیجہ پر ہاتھ رکھ کر ایمانداری سے بتلاؤ کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ علم و فقہ میں بڑھے ہوۓ تھا یا حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ خليفة المسلمين. امیر المؤمنينؓ! پس آؤ سنو! بہت سے صاف صاف موٹے موٹے مسائل ایسے ہیں حضرت فاروق اعظم نے ان میں غلطی کی ہے.(طریق محمدی:٧٨)




  • فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے صاف صاف موٹے مسائل میں غلطی کی۔(طریق محمدی ص54)
  • روز مرہ کے مسائل حضرت عمررضی اﷲ عنہ سے مخفی رہے ۔(طریق محمدی ص55)





==========
ان لوگوں کا تراویح کو بدعت عمری کہنا اور حضرت عثمان غنیؓ کے جاری کردہ اذان ثانی کو بدعت عثمانی قرار دینا، سب کو معلوم ہے، جب کہ ہرشخص جانتا ہے کہ بدعت بدترین گناہ اور دین میں زیادتی کی مذموم کوشش ہے، کیا اس سے حضرت عمرؓ وحضرت عثمانؓ بے خبر تھے؟ اور کیا ان سے اس کا ارتکاب ہوسکتا تھا؟ 

==========

  • ہم نے عمررضی اﷲ عنہ کا کلمہ نہیں پڑھا جو ان کی بات مانیں۔(فتاوی ثنائیہ جلد2ص252)
  • حضرت عمررضی اﷲ عنہ کے بہت سے مسائل حدیث رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف تھے ۔(فتاوی ثنائیہ جلد2ص252)
  • حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا فعل نہ قابل حجت ہے نہ واجب العمل۔(فتاوی ثنائیہ جلد2ص252)
  • متعہ سے اگر حضرت عمررضی اﷲ عنہ منع نہ کرتے تو کوئی زانی نہ ہوتا۔(لغات الحدیث جلد4ص186)
  • حضرت عمررضی اﷲ عنہ کا فتوی حجت نہیں۔(فتاوی ستاریہ جلد2ص65)
  • اجتہاد عمررضی اﷲ عنہ حدیث رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف تھا۔(تیسیر الباری جلد7ص170)
  • حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا عمل قابل حجت نہیں۔(فتاوی ثنائیہ جلد 2ص233)
  • حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اور حضر عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کے سامنے دو آیات اور کئی احادیث کو پیش کیا گیا مگر انہوں نے مصلحت کی وجہ سے نہ مانا۔(تنویر آلافاق ص108)
  • حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی سمجھ معتبر نہیں۔(شمع محمدی ص19)
  • حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کا قول حجت نہیں۔(تیسیر الباری جلد7ص165)
  • حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اور حضر عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کے سامنے دو آیات اور کئی احادیث کو پیش کیا گیا مگر انہوں نے مصلحت کی وجہ سے نہ مانا۔(تنویر آلافاق ص108)
  • اذان عثمانی رضی اﷲ عنہ بدعت ہے اور کسی طرح جائز نہیں۔فتاوی ستاریہ جلد3ص85,86,87)
  • حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی خودساختہ خلافت کا چار، پانچ سالہ دور امت کےلئے عذاب خداوندی تھا ۔(صدیقہ کائنات ص237)
  • حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی وفات کے بعد امت نے سکھ کا سانس لیا۔(صدیقہ کائنات ص237)
  • آپ رضی اﷲ عنہ دنیائے سبائيت ( شیعت) کے منتخب خلیفہ تھے۔(صدیقہ کائنات ص237)
  • نبی علیہ السلام کی زندگی ہی میں آپ (علی رضی اﷲعنہ) حصول خلافت کے خیال کو اپنے دل میں پروان چڑھانے میں مشغول تھے۔(صدیقہ کائنات ص237)
  • حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا تین طلاقوں کو تین کہنے کا فیصلہ غصہ کی بنیاد تھا ۔(تنویر آلافاق فی مسئلة الطلاق ص103)
  • خلفاء الراشدین نے قرآن و سنت کے خلاف فیصلے دئيے اور امت نے اس کو رد کر دیا۔(تنویر آلافاق فی مسئلة الطلاق ص107)
  • حضرت معاويہ رضی اﷲ عنہ اور عمر رضی اﷲ عنہ کے مناقب بیان کرنا جائز نہیں ہیں۔(لغات الحدیث جلد2ص36)
  • معاويہ رضی اﷲ عنہ اور عمروبن عاص رضی اﷲ عنہ شریر تھے ۔(لغات الحدیث جلد 2ص36)
  • اسلام کا سارا کام معاويہ رضی اﷲ عنہ نے خراب کیا۔(لغات الحدیث جلد3ص104)

  • صحابی رضی اﷲ عنہم کا قول حجت نہیں ہے ۔(فتاوی نذیریہ جلد1ص340)
  • موقوفات (اقوال و افعال) صحابہ رضی اﷲ عنہم حجت نہیں۔(رسالہ عبد المنان ص14-81-84-85-59)
  • متاخرین علماءصحابہ رضی اﷲ عنہم سے افضل ہو سکتے ہیں(ھدیة المہدی ص90)
  • صحابہ رضی اﷲ عنہم اور فقہا رحمہ اﷲ کے اقوال گمراہ کن ہیں۔(فتاوی ثنائیہ جلد2ص247)
  • اقوال صحابہ رضی اﷲ عنہم حجت نہیں۔(عرف الجادی ص44-58-80-101-207)
  • صحابہ رضی اﷲ عنہم کی فہم معتبر نہیں۔(الروضة الندیہ ص98)
  • حضرت مغیرہ رضی اﷲ عنہ کی3/4 دیانتداری کوچ کر گئی ۔(لغات الحدیث جلد3ص160)




نوٹ: طوالت کے خوف سے بعض جگہ مفہوم ذکر کیا گیا ہے۔

حضورؐ کی بات بھی بغیر وحی کے حجت اور دلیل نہیں:
"سنئے جناب! بزرگوں کی، مجتہدوں اور اماموں کی راۓ، قیاس، اجتہاد، استنباط اور ان کے اقوال تو کہاں شریعتِ اسلام میں، تو خود پیغمبر الله صلی الله علیہ وسلم بھی اپنی طرف سے بغیر وحی کے اپنی طرف سے کچھ فرمائیں تو وہ بھی حجت نہیں".(طریق محمدی:٥٧) 

صحابہ کرامؓ کو برا بولنے والے سرکار دوعالمؐ کے ارشاد کی روشنی میں اور حضورؐ کا ارشاد مبارک کہ صحابہؓ کو برا بولنے والوں کے ساتھ مسلمانوں کا کیا رویہ ہونا چاہیے؟

صحابہ کرامؓ کو برا کہنے والے کا کوئی عمل الله کے ہاں قبول نہیں؛ نہ فرض نہ نفل:
حضورؐ نے فرمایا کہ الله نے مجھے منتخب کیا اور میرے لیے میرے ساتھیوں کا انتخاب فرمایا، ان میں سے میرے کچھ وزراء بناۓ، مددگار اور قرابت دار بناۓ، بس جو انھیں برا کہے اس پر الله کی، الله کے فرشتوں کی، اور تمام انسانوں کی لعنت ہو، قیمت کے دن نہ اس کا فرض قبول کیا جاۓ گا، نہ نفل".(المعجم الکبیر: ١٧ / ١٤٠)

صحابہ کرامؓ کو برا کہنے والوں کے ساتھ ہمارا کیا طرزِ عمل ہونا چاہیے؟

الله نے میرے لیے ساتھیوں کا انتخاب فرمایا اور انھیں میرے صحابہ، مددگار اور قرابت دار بنایا، ان کے بعد کچھ ایسے لوگ آئیں گے جو انھیں برا کہیں گے، ان میں نقائص اور کمی نکالیں گے، اگر تم ایسے لوگوں کو پاؤ تو نہ ان کے ساتھ نکاح کا رشتہ رکھو، نہ ان کے ساتھ کھاؤ پیو، نہ ان کے ساتھ نماز پڑھو اور نہ ان کے جنازہ کی نماز پڑھو.(جامع الاحادیث : ٧/ ٤٣١، مظاھر الحق : ٥/ ٥٨)

صحابہؓ کو برا کہنے والوں پر لعنت بھیجنے کا حکم:
آںحضورؐ نے فرمایا : جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے اصحاب کے بے بارے میں برا کہہ رہے ہیں تو کہو الله تمہارے شر پر لعنت کرے.(ترمذی شریف: كِتَاب الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حدیث نمبر : ٣٨٠١)
مسلمانو! فرقہ اہل حدیث قرآن و حدیث پر عمل کا دھوکہ دیکر اس کی آڑ میں صحابہ کرامؓ کو برا کہنے اور ان مقدس شخصیات کو مجروح کرنے کا کام کر رہا ہے، حالانکہ نبیؐ نے ان کی اتباع کا حکم دیا ہے اور انھیں راہِ ہدایت کے ستارے قرار دیا ہے، لیکن یہ بدنصیب کہتے ہیں کہ صحابہؓ کے کام اور ان کی باتیں شریعت کا حصہ نہیں، ان کی اتباع کی ضرورت نہیں، جب کہ یہ اپنے مولویوں کی بات کو صحابہؓ کی بات سے بھی زیادہ اہمیت دیتے ہوۓ ان کی بات نہ ماننے والے کو گمراہ کہنے لگتے ہیں، اب بھلا بتائیے ان بدنصیبوں کی بات مانی جاۓ گی یا حضور پرنورؐ کی؟؟؟ یہ یہودیوں کی ایک بڑی سازش ہے؛ کیونکہ امت اور نبیؐ کے درمیان واسطہ یہی جماعت صحابہؓ ہے؛ اگر ان کو ہی ناقابلِ اعتبار کردیا گیا تو پھر دین کی عمارت ہی گرجاۓ گی، فرقہ اہلحدیث کے ماننے والوں سے بھی درخواست ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور الله کے لیے امت کو گمراہ نہ کریں، ١٤٠٠/سو سال تک صحابہؓ، تابعینؒ، تبع تابعینؒ، امت کے علماء، مشائخ اور اولیاء الله جس راہ پر چل کر الله کے مقرب بنے ہیں آج کی پندرھویں صدی کا مسلمان بھی اس راہ پر چل کر الله کا مقرب اور مقبول بندہ بن سکتا ہے، اس کو نۓ دین یا نئی تشریحات کی بلکل ضرورت نہیں، یہ گمراہی ہے. (اس تحریر کا مقصد صرف حق بات کی طرف توجہ دلانا ہے اور بری سے روکنا ہے. اگر موجودہ غیر مقلدین اہلِ حدیث احباب اوپر پیش کی گئی باتوں کا انکار کرتے ہیں اور اہلِ حدیث جماعت کے ان علماء کی ان تحریروں کو گمراہی سمجھتے ہیں تو ان سے عرض ہے کہ اہلِ سنّت والجماعت علماء کی کتابوں کے خلاف وہ جس طرح پروپگنڈہ کررہے ہیں اسی طرح ان کتابوں کے خلاف بھی جلسے اور بیانات کریں، ان کے خلاف کتابیں اور اشتہارات چھاپ کر اپنی برأت کا ثبوت دیں.

معیاِرِ حق، ایمان و ہدایت : ایمان و فہمِ صحابہ کرامؓ





Tuesday, 16 April 2013

مسواک کے فضائل، اوقات اور طریقہ کار


یہ لفظ (مسواک) اس لکڑی پر بولا جاتا ہے جس کے ساتھ مسواک کی جاتی ہے اور بذات خود مسواک کرنے پر بھی۔ مراد اس لکڑی سے دانتوں کو "رگڑنا" ہے یا اس کے جیسی ہر سخت چیز سے کہ جس سے دانتوں کو صاف کیا جا سکے ۔ اور بہترین لکڑی کہ جس سے مسواک کی جائے پیلو کی لکڑی ہے کہ جو حجاز سے برآمد کی جاتی ہے۔ کیونکہ اس کے خواص میں سے یہ بھی ہے کہ یہ مسوڑھوں کو مضبوط کرتی ہے اور دانتوں کے امراض میں حائل ہوجاتی ہے۔ نیز نظام انہظام کو مضبوط کرتی ہے اور پیشاب میں روانی پیدا کرتی ہے۔

مسواک کو مسلم دنیا میں بہت اہمیت دی جاتی ہے تاہم 5000 ق م میں بھی اس کے استعمال سے متعلق شواہد پائے گئے ہیں۔ زیادہ تر نیم، کیکر، زیتون کے درختوں کی ٹہنیاں (Twigs) مسواک کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔


Sunday, 7 April 2013

ایسا بھی زمانہ آۓ گا ... نبوی پیشگوئیاں


قیامت کی چھوٹی علامت»
امت کے بعض لوگ اللہ کے حرام کو عملاً حلال کریں گے۔

حَدَّثَنَا آدَمُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الْمَقْبُرِيُّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ ، لَا يُبَالِي الْمَرْءُ مَا أَخَذَ مِنْهُ ، أَمِنَ الْحَلَالِ أَمْ مِنَ الْحَرَامِ ؟ " .
[صحيح البخاري » كِتَاب : الْبُيُوعِ » بَاب : مَنْ لَمْ يُبَالِ مِنْ حَيْثُ كَسَبَ الْمَالَ ... رقم الحديث: 1928]

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ: لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا جب آدمی اس کی پرواہ نہیں کرے گا حلال یا حرام کس ذریعے سے اس نے مال حاصل کیا ہے۔
[صحیح بخاری: حدیث نمبر 2059، کتاب:-خرید وفروخت کے بیان، باب:-اس شخص کا بیان کہ جس کو کچھ پروا نہ ہو کہ کہاں سے مال حاصل کیا ہے ؟]
[صحیح بخاری: حدیث نمبر 2083، کتاب:-خرید وفروخت کے بیان، باب:-اللہ تعالیٰ کا قول، کہ اے ایمان والو! سود کئی گنا کرکے نہ کھاو]
[سنن نسائی: حدیث نمبر 4454(4459)، کتاب:-خرید و فروخت کے مسائل و احکام، باب:-آمدنی میں شبہات سے بچنے سے متعلق احادیث شریفہ]
[سنن دارمی: حدیث نمبر ، کتاب:-خرید وفروخت کا بیان، باب:-سود کھانے والے کی شدید مذمت ہے]

تشریح : 
 قیامت کے قریبی زمانہ میں جہاں عام گمراہی کی وجہ سے افکار واعمال کی اور بہت سی خرابیاں پیدا ہونگی وہیں ایک بڑی خرابی بھی پیدا ہوگی کہ لوگ حلال وحرام مال کے درمیان تمیز کرنا چھوڑ دینگے جس کو جو بھی مال ملے گا اور جس ذریعہ سے بھی ملے گا اسے یہ دیکھے بغیر کہ یہ حلال ہے یا حرام ہضم کر جائے گا اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ یہ پیش گوئی آج کے زمانہ پر پوری طرح منطبق ہے آج ایسے کتنے لوگ ہیں جو حلال وحرام مال کے درمیان تمیز کرتے ہیں ہر شخص مال و زر بٹورنے کی ہوس میں مبتلا ہے مال حلال ہے یا حرام ہے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی بس ہاتھ لگنا چاہئے کسی نے سچ کہا ہے
(ہرچہ آمد بدہان شاں خورند و آنچہ آمد بزبان شان گفتند)
یہ اس دور کی عام وبا ہے جس سے کوئی طبقہ اور کوئی جماعت محفوظ نہیں ہے۔

القرآن:
اب کیا یہ (کافر) لوگ قیامت ہی کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ یکایک ان پر آن پڑے ؟ (اگر ایسا ہے) تو اس کی علامتیں تو آچکی ہیں۔ پھر جب وہ آہی جائے گی تو اس وقت ان کے لیے نصیحت ماننے کا موقع کہاں سے آئے گا؟
[سورۃ نمبر 47 محمد، آیت نمبر 18]
یعنی
قرآن کی نصیحتیں، گذشتہ اقوام کی عبرتناک مثالیں اور جنت و دوزخ کے وعدہ اور وعید سب سن چکے اب ماننے کے لیے کس وقت کا انتظار ہے، یہی کہ قیامت کی گھڑی ان کے سر پر اچانک آکھڑی ہو؟ سو قیامت کی کئی نشانیاں تو آچکیں، اور جب خود قیامت آکھڑی ہوگی، اس وقت ان کے لیے سمجھ حاصل کرنے اور ماننے کا موقع کہاں باقی رہے گا۔ یعنی وہ سمجھنا اور ماننا بیکار ہے کیونکہ اس پر نجات نہیں ہو سکتی۔
حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں: "بڑی نشانی قیامت کی ہمارے نبی ﷺ کا پیدا ہونا ہے۔ سب نبی خاتم النبیین کی راہ دیکھتے تھے۔ جب وہ آچکے (مقصودِ تخلیقِ عالم کا حاصل ہو چکا) اب قیامت ہی باقی ہے۔"
حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا (میں اور قیامت اس طرح ہیں) گویا میں قیامت سے اتنا آگے نکل آیا ہوں جتنا بیچ کی انگلی شہادت کی انگلی سے آگے نکلی ہوئی ہے۔







Friday, 5 April 2013

احادیث میں ابدال کا بیان


علامہ سیوطیؒ(م911ھ) نے [اپنی کتاب ’’الخیر الدال علی وجوب القطب والابدال‘‘ میں] تقریباً بیس(20) کتب وروات سے ایسی حدیثیں نقل کی ہیں جن سے ابدال وغیرہ کا ثبوت ہوتا ہے، اور تمام حدیثوں کو صحیح وحسن فرمایا ہے۔
[دلائل السلوک: ۹۳]

علامہ سیوطیؒ(م911ھ) کی کتاب [الحاوی للفتاوی] میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت میں ہے کہ حضرت مغیرہ ابن شعبہؓ کے غلام کے بارے میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ ان سات میں سے ایک ہے۔ جن کے ذریعے اللہ تعالی زمین والوں کو محفوظ رکھتے ہیں۔
[الحاوی للفتاوی: ۲/۲۴۹]


یہ ہستیاں معصوم عن الخطاء نہیں ہوتی ہیں، البتہ اللہ تعالیٰ ان کو بشری کمزوریوں سے (توبہ کے سبب) پاک کردیتے ہیں، عالم کی وجود وبقاء کے لیے جو امور من جانب اللہ ان کے سپرد ہوتے ہیں وہ اس کو بجا لاتے ہیں، کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں کرتے۔ یہاں چند مقبول احادیث پیش کی جاتی ہیں:

حدیث:1

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
«سَتَكُونُ فِتْنَةٌ يُحَصَّلُ النَّاسُ مِنْهَا كَمَا يُحَصَّلُ الذَّهَبُ فِي الْمَعْدِنِ، فَلَا تَسُبُّوا أَهْلَ ‌الشَّامِ، وَسَبُّوا ظَلَمَتَهُمْ، فَإِنَّ فِيهِمُ ‌الْأَبْدَالُ، وَسَيُرْسِلُ اللَّهُ إِلَيْهِمْ سَيْبًا مِنَ السَّمَاءِ فَيُغْرِقُهُمْ حَتَّى لَوْ قَاتَلَتْهُمُ الثَّعَالِبُ غَلَبَتْهُمْ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ عِنْدَ ذَلِكَ رَجُلًا مِنْ عِتْرَةِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي اثْنَيْ عَشَرَ أَلْفًا إِنْ قَلُّوا، وَخَمْسَةَ عَشْرَ أَلْفًا إِنْ كَثُرُوا، أَمَارَتُهُمْ أَوْ عَلَامَتُهُمْ أَمِتْ أَمِتْ عَلَى ثَلَاثِ رَايَاتٍ يُقَاتِلُهُمْ أَهْلُ سَبْعِ رَايَاتٍ لَيْسَ مِنْ صَاحِبِ رَايَةٍ إِلَّا وَهُوَ يَطْمَعُ بِالْمُلْكِ، فَيَقْتَتِلُونَ وَيُهْزَمُونَ، ثُمَّ يَظْهَرُ الْهَاشِمِيُّ فَيَرُدُّ اللَّهُ إِلَى النَّاسِ إِلْفَتَهُمْ وَنِعْمَتَهُمْ، فَيَكُونُونَ عَلَى ذَلِكَ حَتَّى يَخْرُجَ الدَّجَّالُ»۔
هَذَا حَدِيثٌ ‌صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخْرِجَاهُ "
ترجمہ:
عنقریب فتنہ نمودار ہوگا۔ لوگ اس سے ایسے کندن بن کر نکلیں گے جیسے سونا بھٹی میں کندن بنتا ہے۔ تم اہل شام کو بُرا بھلا نہ کہو بلکہ ان پر ظلم کرنے والوں کو بُرا بھلا کہو کیونکہ اہل شام میں ابدال ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ان پر آسمان سے بارش نازل کرے گا اور ان کو غرق کر دے گا۔ اگر لومڑیوں جیسے مکار لوگ بھی ان سے لڑیں گے تو وہ ان پر غالب آ جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان میں سے ایک شخص کو کم از کم بارہ ہزار اور زیادہ سے زیادہ پندرہ ہزار لوگوں میں بھیجے گا۔ ان کی علامت أمِت أمِت ہو گی ۔ وہ تین جھنڈوں پر ہوں گے۔ ان سے سات جھنڈوں والے لڑائی کریں گے۔ ہر جھنڈے والا بادشاہت کا طمع کرتا ہو گا۔ وہ لڑیں گے اور شکست کھائیں گے، پھر ہاشمی غالب آ جائے گا اور اللہ تعالیٰ لوگوں کی طرف ان کی الفت اور محبت و مودّت لوٹا دے گا۔ وہ دجّال کے نکلنے تک یونہی رہیں گے۔
اس حدیث کی اسناد صحیح ہے، اور اسے نہیں بیان کیا ان دونوں نے۔
[المستدرك على الصحيحين-امام الحاكم(م405ھ) : ‌‌كِتَابُ الْفِتَنِ وَالْمَلَاحِمِ ، حدیث نمبر :8658]




حدیث:2

حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، حَدَّثَنِي شُرَيْحٌ يَعْنِي ابْنَ عُبَيْدٍ ، قَالَ : ذُكِرَ أَهْلُ الشَّامِ عِنْدَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ بِالْعِرَاقِ ، فَقَالُوا : الْعَنْهُمْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ، قَالَ : لَا ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " الْأَبْدَالُ يَكُونُونَ بِالشَّامِ ، وَهُمْ أَرْبَعُونَ رَجُلًا ، كُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ أَبْدَلَ اللَّهُ مَكَانَهُ رَجُلًا ، يُسْقَى بِهِمْ الْغَيْثُ ، وَيُنْتَصَرُ بِهِمْ عَلَى الْأَعْدَاءِ ، وَيُصْرَفُ عَنْ أَهْلِ الشَّامِ بِهِمْ الْعَذَابُ " .

ترجمہ:
شریح بن عبید سے مروی ہے کہ امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ عراق میں تھے اور ان کے سامنے اہلِ شام کا تذکرہ ہونے لگا، لوگوں نے کہا: امیر المومنین! آپ ان پر لعنت کریں، انہوں نے کہا: نہیں، نہیں، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ شام میں چالیس آدمی ابدال کے مرتبہ سے شرف یاب ہوں گے، ان میں سے جب ایک فوت ہوگا، تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرے کو لے آئے گا، ان کی وساطت سے بارش طلب کی جائے گی اور دشمن کے مقابلہ میں ان کے ذریعے مدد حاصل کی جائے گی اور ان کے سبب اہل شام سے عذاب ٹلیں گے۔
[مسند-احمد:896]
[فضائل الصحابة-امام أحمد بن حنبل(م241ھ)» حدیث#1727]





بعض محدثین نے اس روایت کو کمزور قرار دیا ہے انقباع کے سبب، کہ شریحؒ نے حضرت علیؓ کو کبھی پایا ہی نہیں، کبھی ملاقات ہی نہیں کی۔
[المطالب العالية محققا:13 /368]

رجاله رجال الصحيح غير شُريح، وهو ثقة۔
اس روایت کے راوی صحیح کے واری ہیں سوائے شریح کے، اور قابلِ اعتماد ہے۔
[القول المسدد-المِدراسي: ص 110، المطالب العالية محققا:13 /368، جامع الأحاديث-السيوطي:10097]

لیکن اس حدیث کو صفوان بن عبداللہ بن امیہ بن خلف الجمعی نے علی رضی اللہ عنہ سے موقوفا (صحیح سند سے) روایت کیا ہے۔
[الأحاديث المختارة-امام ضياء الدين المقدسي(م643ھ) » حدیث#484]

وسنده صحيح۔
[كنز العمال-المتقي الهندي:حدیث#34607]



تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1الأبدال يكونون بالشام وهم أربعون رجلا كلما مات رجل أبدل الله مكانه رجلا يسقى بهم الغيث وينتصر بهم على الأعداء ويصرف عن أهل الشام بهم العذابعلي بن أبي طالبمسند أحمد بن حنبل874898أحمد بن حنبل241
2الأبدال يكونون بالشام وهم أربعون رجلا كلما مات رجل أبدل الله مكانه رجلا يسقى بهم الغيث وينتصر بهم على الأعداء ويصرف عن أهل الشام بهم العذابعلي بن أبي طالبالأحاديث المختارة448---الضياء المقدسي643
3الأبدال يكونون بالشامعلي بن أبي طالبإتحاف المهرة13617---ابن حجر العسقلاني852
4الأبدال بالشام بهم يرحم الله جميع أهل الأرض وينصرهم على الأعداء كلما هلك منهم رجل أخلف الله مكانه رجلاعلي بن أبي طالبفضائل الشام لابن السمعاني2121عبد الكريم بن محمد السمعاني562
5الأبدال يكونون بالشام وهم أربعون رجلا كلما مات رجل أبدل الله مكانه رجلا فيسقى بهم الغيث وينتصر بهم على الأعداء ويصرف عن أهل الشام بهم العذابعلي بن أبي طالبتاريخ دمشق لابن عساكر613---ابن عساكر الدمشقي571
6الأبدال بالشام يكونون وهم أربعون رجلا بهم تسقون الغيث وبهم تنصرون على أعدائكم ويصرف عن أهل الأرض البلاء والغرقعلي بن أبي طالبتاريخ دمشق لابن عساكر6141 : 289ابن عساكر الدمشقي571
7الأبدال بالشام والنجباء بالكوفةعلي بن أبي طالبتاريخ دمشق لابن عساكر6281 : 296ابن عساكر الدمشقي571
8الأبدال من الشام والنجباء من أهل مصر والأخيار من أهل العراقعلي بن أبي طالبتاريخ دمشق لابن عساكر630---ابن عساكر الدمشقي571
9الأبدال يكونون بالشام وهم أربعون رجلا كلما مات رجل أبدل الله مكانه رجلا يسقى بهم الغيث وينتصر بهم على الأعداء ويصرف عن أهل الشام بهم العذابعلي بن أبي طالبفضائل الصحابة لأحمد بن حنبل15271727أحمد بن حنبل241
10الأبدال قال هم ستون رجلا قلت يا رسول الله جلهم لي قال ليسوا بالمتنطعين ولا بالمبتدعين ولا بالمتنعمين لم ينالوا ما نالوا بكثرة صيام ولا صلاة ولا صدقة ولكن بسخاء النفس وسلامة القلوب والنصيحة لأئمتهم إنهم يا علي في أمتي أقل من الكبريت الأحمرعلي بن أبي طالبالأولياء لابن أبي الدنيا88ابن أبي الدنيا281



تشریح:

ابدال کی واحد بدل ہے، اور چونکہ ان میں سے جو فوت ہوگا اللہ اس کی جگہ دوسرا بدل دے گا، اسی لئے انہیں ابدال کہتے ہیں۔

امام الراغب الاصفہانیؒ(م502ھ)لکھتے ہیں:
والأَبْدَال: قوم صالحون يجعلهم الله مكان آخرين مثلهم ماضين .
وحقيقته: هم الذين بدلوا أحوالهم الذميمة بأحوالهم الحميدة، وهم المشار إليهم بقوله تعالى: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [سورۃ الفرقان:70]
ترجمہ:
ابدال: وہ پاکیزہ لوگ ہیں کہ جب کوئی شخص ان میں سے مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوسرے کو اس کا قائم مقام فرمادیتے ہیں؟ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں جہنوں نے صفاتِ ذمیمہ(بری عادتوں) کی بجائے صفاتِ حسنہ(اچھی عادتوں) کو اختیار کرلیا ہو۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جنکی طرف آیت:
إِلّا مَن تابَ وَءامَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صٰلِحًا فَأُولٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّـٔاتِهِم حَسَنٰتٍ ۗ وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا {25:70} 
ترجمہ :
مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اچھے کام کئے تو ایسے لوگوں کے گناہوں کو خدا نیکیوں سے بدل دے گا۔ اور خدا تو بخشنے والا مہربان ہے .
[سورۃ الفرقان:70]
[المفردات في غريب القرآن: صفحہ 112 الناشر: دار القلم، الدار الشامية - دمشق بيروت]


ایک دوسری حدیث میں حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«‌خِيَارُ ‌أُمَّتِي ‌فِي كُلِّ قَرْنٍ خَمْسُمِائَةٍ , وَالْأَبْدَالُ أَرْبَعُونَ , فَلَا الْخَمْسُمِائَةٍ يَنْقُصُونَ وَلَا الْأَرْبَعُونَ , كُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ أَبْدَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنَ الْخَمْسِمِائَةِ مَكَانَهُ , وَأَدْخَلَ مِنَ الْأَرْبَعِينَ مَكَانَهُمْ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ دُلَّنَا عَلَى أَعْمَالِهِمْ. قَالَ: «يَعْفُونَ عَمَّنْ ظَلَمَهُمْ , وَيُحْسِنُونَ إِلَى مَنْ أَسَاءَ إِلَيْهِمْ , وَيَتَوَاسُونَ فِيمَا آتَاهُمُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ»
ترجمہ :
خیار امت (امت کے وہ نیک ترین لوگ جو اس امت میں ہمیشہ موجود رہتے ہیں) کی تعداد (500) ہے اور ابدال چالیس کی تعداد میں رہتے ہیں نہ پانچ سو کی تعداد کم ہوتی ہے اور نہ چالیس کی جب کوئی ابدال مرجاتا ہے تو اس کی جگہ اللہ تعالیٰ پانچ سو خیارِ امت میں سے کسی ایک کو مقرر کردیتا ہے یہ سن کر صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ان کے اعمال کے بارے میں بتادیجیے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کو معاف کردیتے ہیں جو ان پر ظلم کرتا ہے، اس شخص کے ساتھ بھی نیک سلوک کرتے ہیں جو ان کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو جو کچھ بھی دیتا ہے اس کے ذریعہ وہ فقراء مساکین کی خبرگیری کرتے ہیں۔
[حلية الأولياء-امام ابي نعيم(م430ھ) : ج1 / ص8]
[الفردوس بمأثور الخطاب-امام الديلمي (م509ھ) : حدیث نمبر 2871]

اور اس کی تصدیق قرآن کی اس آیت سے کی جاسکتی ہے:
«‌وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْضَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ»
[سورۃ آل عمران:134]
اور جو غصے کو پی جانے اور لوگوں کو معاف کردینے کے عادی ہیں۔ اللہ ایسے نیک لوگوں سے محبت کرتا ہے۔

ابدال کے احوال مخفی رہتے ہیں ان کا علم نہیں ہوتا، اس لیے قطعی طور پر کسی کے بارے میں ابدال کہنا مشکل ہے۔







ابدال کی خصوصی صفات وخوبیاں:
حضرت بکر بن خنیسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«‌عَلَامَةُ ‌أَبْدَالِ ‌أُمَّتِي أَنَّهُمْ لَا يَلْعَنُونَ شَيْئًا أَبَدًا»
ترجمہ:
میری امت کے ابدالوں کی علامت (جو انہیں دوسروں ممتاز بناتی ہے اور جس سے پہچانے جاسکتے ہیں وہ) یہ ہے کہ وہ لوگ کسی چیز (مخلوق) پر کبھی بھی لعنت نہیں کرتے۔
[کتاب الاولیاء-امام ابن ابی الدنیا (م281ھ) : حدیث نمبر 59]
[کتاب الصمت-امام ابن ابی الدنیا (م281ھ) : حدیث نمبر 373]
[جامع الأحاديث:14160, الجامع الصغير وزيادته:‌‌8159]
(کیونکہ لعنت تو اللہ کی رحمت سے نکلنے اور دور کرنا ہے اور یہ ابدال تو لوگوں کو اللہ کی طرف قریب کرنے والے ہوتے ہیں۔)
(التيسير بشرح الجامع الصغير-المناوي(م1031ھ):2/ 133، فيض القدير-المناوي:5449)
اس سے دور نہیں کرتے اور اس میں (یہ بات بھی معلوم ہوتی) ہے کہ کسی بھی چیز کو لعنت کرنا قابلِ تعریف نہیں اگرچہ وہ کافر ہو۔
(التنوير شرح الجامع الصغير-الصنعاني (م1182ھ))



حضرت حسن بصریؒ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إِنَّ بُدَلَاءَ ‌أُمَّتِي ‌لَمْ ‌يَدْخُلُوا ‌الْجَنَّةَ بِكَثْرَةِ صَلَاةٍ، وَلَا صَوْمٍ، وَلَا صَدَقَةٍ، وَلَكِنْ دَخَلُوهَا بِرَحْمَةِ اللَّهِ، وَسَخَاوَةِ الْأَنْفُسِ، وَسَلَامَةِ الصُّدُورِ»
ترجمہ:
میری امت کے ابدال (نفلی)نماز اور روزہ کی "کثرت" سے جنت میں داخل نہ ہوں گے لیکن وہ اللہ کی رحمت اور دلوں کی سخاوت اور سینوں کی سلامتی(صفائی)کی وجہ سے اس میں داخل ہوں گے۔
[کتاب الاولیاء-امام ابن ابی الدنیا (م281ھ) : حدیث نمبر 58]
[شعب الإيمان-امام البيهقي (م458ھ) : حدیث نمبر 10393]
تفسير الثعالبي(م875ھ) : سورة الحشر آیۃ 9

دوسری شاہد روایت:
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«إِنَّ أَبْدَالَ ‌أُمَّتِي ‌لَمْ ‌يَدْخُلُوا ‌الْجَنَّةَ بِالْأَعْمَالِ، وَلَكِنْ يَدْخُلُوهَا بِرَحْمَةِ اللَّهِ، وَسَخَاوَةِ النَّفْسِ، وَسَلَامَةِ الصَّدْرِ، وَالرَّحْمَةِ لِجَمِيعِ الْمُسْلِمِينَ»
ترجمہ:
میری امت کے ابدالوں کا جنت میں داخل (نفلی)اعمال کی وجہ سے نہیں ہوگا، لیکن وہ اللہ کی رحمت اور دلوں کی سخاوت اور سینوں کی سلامتی(صفائی) اور تمام مسلمانوں کے لیے رحمت کی وجہ سے (اس میں داخلا) ہوگا۔
[كرامات الأولياء-امام الحسن الخلال (م439ھ) : حدیث نمبر 5]
[شعب الإيمان-امام البيهقي (م458ھ) : حدیث نمبر 10394]
یہ حدیث حضرت انسؓ سے بھی مروی ہے۔
[الفردوس بمأثور الخطاب-امام الديلمي (م509ھ) : حدیث نمبر 884، زهر الفردوس:800]
[موجبات الجنة - امام ابن الفاخر(م564ھ) : حدیث نمبر 217]
[معجم-امام ابن عساكر(م571ھ) : حدیث نمبر 891]





حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
‌ثَلَاثٌ ‌مَنْ ‌كُنَّ فِيه، فهو مِنَ ‌الأَبْدَال الذين بِهِمْ قَوَامُ الدِّينِ وأَهْلِهِ؛ الرِّضَا بالقَضَاءِ، والصَّبْرُ عن مَحَارِمِ الله، والغَضَبُ فِي ذَاتِ اللهِ۔
ترجمہ:
تین باتیں جس شخص میں ہوں گی وہ ابدال میں سے ہوگا اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے اپنے آپ کو روک کر رکھنا اور اللہ عزوجل کی ذات کی وجہ سے غصہ کرنا۔
[الفردوس بمأثور الخطاب:2457، زهر الفردوس:1250، جامع الأحاديث:11188]



حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ابدالوں کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا:
«هُمْ سِتُّونَ رَجُلًا» ۔۔۔۔ «لَيْسُوا بِالْمُتَنَطِّعِينَ، وَلَا ‌بِالْمُبْتَدِعِينَ، وَلَا بِالْمُتَنَعِّمِينَ، لَمْ يَنَالُوا مَا نَالُوه بِكَثْرَةِ صِيَامٍ وَلَا صَلَاةٍ وَلَا صَدَقَةٍ، وَلَكِنْ بِسَخَاءِ الأنَّفْسِ، وَسَلَامَةِ الْقُلُوبِ، وَالنَّصِيحَةِ لِأَئِمَّتِهِمْ، إِنَّهُمْ يَا عَلِيُّ فِي أُمَّتِي أَقَلُّ مِنَ الْكِبْرِيتِ الْأَحمرِ»
ترجمہ:
ابدال ساٹھ(60) مرد ہیں۔۔۔۔ جو نہ زیادہ بولنے والے، نہ بدعت کا ارتکاب کرنے والے، نہ زیادہ گہرائی میں جانے والے، نہ عجب وتکبر کرنے والے ہیں۔ جو کچھ انھوں نے پایا وہ کثرتِ نماز اور کثرتِ روزہ اور کثرتِ صدقہ کی وجہ سے نہیں پایا، لیکن نفسوں کو سخاوت، دلوں کی سلامتی، اور اپنی اپنی جماعت کی خیرخواہی کی وجہ سے پایا۔ وہ لوگ اے علی! میری امت میں سرخ یاقوت سے بھی کم ہوں گے۔
[کتاب الاولیاء-امام ابن ابی الدنیا (م281ھ) : حدیث نمبر 8]
[كرامات الأولياء-امام الحسن الخلال (م439ھ) : حدیث نمبر 5]

تعداد کا اختلاف:
اتنی روایات سے ابدال اور انکی فضیلت سب میں متفقہ ہے۔ اور تعداد کا اختلاف مختلف نوعیت کی وجہ سے ہے۔ جیسے:
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الْبُدَلاءُ أَرْبَعُونَ ‌اثْنَانِ ‌وَعِشْرُونَ ‌بِالشَّامِ وَثَمَانِيَةَ عَشَرَ بِالْعِرَاقِ كُلَّمَا مَاتَ وَاحِدٌ مِنْهُمْ بَدَّلَ اللَّهُ مَكَانَهُ آخَرَ فَإِذَا حَلَّ الأَمْرُ قُبِضُوا كُلُّهُمْ۔
ترجمہ:
میری امت کے ابدال چالیس(40) مرد ہیں، بائیس(22) شام میں، اور اٹھارہ(18) عراق میں، جب کوئی ایک مرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ کوئی دوسرا بدل لے آئیں گے، جب حکم آئے گا تو سارے فوت ہوجائیں گے۔
[نوادر الأصول في أحاديث الرسول-الحکیم الترمذي(م320ھ) : ج1 ص261، الناشر: دار الجيل - بيروت]
[الأربعون في التصوف-امام السلمي (م412ھ) : حدیث نمبر 20]
[كرامات الأولياء-امام الحسن الخلال (م439ھ) : حدیث نمبر 2]
[المشيخة البغدادية-امام أبو طاهر السلفي (م576ھ) : حدیث نمبر 18+24]
[فضائل الشام-امام ابن رجب الحنبلي (م795ھ) : ج3 / ص217]

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«لَنْ تَخْلُوَ الْأَرْضُ مِنْ أَرْبَعِينَ رَجُلًا مِثْلَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلِ الرَّحْمَنِ، فَبِهِمْ يُسْقَوْنَ وَبِهِمْ يُنْصَرُونَ، مَا مَاتَ مِنْهُمْ أَحَدٌ إِلَّا أَبْدَلَ اللَّهُ مَكَانَهُ آخَرَ»
ترجمہ
رحمان کے خلیل (یعنی حضرت ابراھیمؑ) کی طرح چالیس(40) آدمیوں سے زمین کبھی خالی نہیں ہوگی، سو ان کی وجہ سے تمہیں سیراب کیا جائے گا، اور ان کی وجہ سے تمہاری مدد کی جائے گی، ان میں سے کوئی ایک نہ مرے گا مگر اللہ تعالیٰ اس کی جگہ کوئی دوسرا بدل لے آئیں گے۔
[المعجم الأوسط-امام الطبراني (م360ھ) : حدیث نمبر 4101]
وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ۔
[مجمع الزوائد-الهيثمي (م807ھ): 16674]
[الحاوي للفتاوي-السيوطي (م911ھ):ج2/ص296 دار الفكر, تفسیر الدر المنثور:1/765 سورۃ البقرۃ:251]








ابدالی خوبیاں پانے کا نسخہ:
ایک روایت میں ہے کہ:
جو ان پانچ(5) کلمات کو ہر نماز کے بعد کہے تو اسے ابدالوں میں لکھا جائے گا:
اللَّهُمَّ أَصْلِحْ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ، اللَّهُمَّ ارْحَمْ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ، اللَّهُمَّ فَرِّجْ عَنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأُمَّةِ مُحَمَّدٍ، وَلِجَمِيعِ مَنْ آمَنَ بِكَ.
ترجمہ:
اے الله! درست فرما امتِ محمد کو، اے الله! رحم فرما امتِ محمد پر، اے الله! تنگی دور فرما امتِ محمد سے، اے الله! بخش فرما امتِ محمد کو، اور(یہ)ان سب کیلئے ہوں جو ایمان لائیں تجھ پر۔
[تنبيه الغافلين بأحاديث سيد الأنبياء والمرسلين للسمرقندي: حديث890، صفحة 549]

حضرت معروف کرخیؒ(م200ھ) نے فرمایا:
جو کہے دن میں 10 مرتبہ (ان الفاظ سے) کہ:
اللَّهُمَّ أَصْلِحْ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ , اللَّهُمَّ فَرِّجْ عَنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ اللَّهُمَّ ارْحَمْ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ
تو اسے لکھا جائے گا ابدالوں میں سے۔
[حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، ٣٦٦/٨، رياضة الأبدان لأبي نعيم الأصبهاني:23، المقاصد الحسنة-السخاوي (م902ھ): ص46]

دوسری روایت میں:
تین(3) مرتبہ یوں الفاظ کہے:
«اللهم احفظ أمه مُحَمَّد [اللهم] ‌أرحم ‌أمة ‌مُحَمَّد اللهم عاف أمة مُحَمَّد اللهم أصلح أمة مُحَمَّد اللهم فرج عن أمة محمد [صلّى الله عليه وسلّم] »
[تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية:797 (ج18 / ص223) دار الكتب العلمية - بيروت]
[قرة العين بفتاوى علماء الحرمين-حسين المغربي (م1292ھ):ص380]

اور تیسری روایت میں بغیر تعداد بس ایک مرتبہ ہر روز کہنے یوں کہے:
اللَّهُمَّ ارْحَمْ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ۔
[المقاصد الحسنة-السخاوي (م902ھ): ص46، المواهب اللدنية-القسطلاني (م923ھ):2/417، شرح الزرقاني(م1122ھ): 7/485، كشف الخفاء-العجلوني (م1162ھ) ط القدسي:1/28، تخريج أحاديث إحياء-الزبيدي،(م1205ھ):5/2049 دار العاصمة للنشر - الرياض