یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
ہماری کوشش : احیاءِ توحید و سنّت اور خاتمۂ شرک و بدعت
ہمارا مقصد : اشاعتِ معروفات و ازالۂ منکرات
منجانب : مجلس تحفظ سنّت و دفاعِ صحابہؓ ، آندھراپردیش
نوٹ : اس اشتہار کا مکمل احترام فرمائیے ، نیچے گرنے سے یا کسی بھی بے احترامی سے بچائیے ، اس میں آیاتِ قرآنیہ اور احدیثِ مبارکہ تحریر ہیں اس کو پڑھئیے اور چھاپ کر دوسروں تک پہونچاکر ثوابِ دارین حاصل کیجئے.
محترم اسلامی بھائیو! اہلِ سنّت والجماعت کا ہر دور میں اس عقیدہ پر کامل اتفاق رہا ہے کہ پوری انسانیت میں انبیاءِ کرام علیھم السلام کے بعد صحابہ کرامؓ سب سے افضل ہیں. قرآنِ پاک میں الله پاک نے کی آیتوں میں صحابہ کرامؓ کی تعریف فرمائی. حضور اکرمؐ نے بیشمار احادیث میں صحابہ کرامؓ کے فضائل بیان فرماۓ. ایک حدیث میں آپؐ نے پوری امّت کو تاکید فرمائی کہ اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي.... میرے صحابہؓ کے بارے میں الله سے ڈرو، میرے بعد ان کو نشانہ ملامت مت بناؤ، جس نے ان سے محبت کی اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی (ترمذی) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ سے محبت نبی سے محبت سے اور صحابہ سے دشمنی نبی سے دشمنی ہے. دوسری حدیث شریف میں آپؐ نے صحابہ کرامؓ کے بارے میں فرمایا : أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ....الخ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے تم جس کی پیروی کروگے ہدایت پاؤگے.(مشکوٰة: ص554). قرآن و سنّت کی روشنی میں اہلِ سنّت والجماعت کے نزدیک صحابہؓ معیارِ حق ہیں، ان کے اقوال و افعال حجت ہیں، اور ان کو برا بھلا کہنے والا زندیق ہے. صحابہ کرامؓ کے ذریعہ پوری امت تک قرآن و حدیث کا علم پہنچا. صحابہ کرامؓ ہی دین اسلام کے کامل ومکمل ترجمان ہیں وار الله و رسولؐ کے سچے عاشق اور مطيع و فرمانبردار ہیں.
کتاب و سنّت کی گواہی، سلفِ صالحین اور پوری امت کے برخلاف ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ زمانہ کے اہل حدیث غیر مقلدین حضرات صحابہ کرامؓ کے بارے میں بے خوفی کے ساتھ زبان درازی کرتے اور ناشائستہ کلمات زبان و قلم سے نکالتے چلے جاتے ہیں، جن کی چند مثالیں یہاں پیش کی جاتی ہیں :
ایک بڑے غیر مقلد عالم ..... لکھتے ہیں :
"ومنه يعلم ان من الصحابة من هو فاسق كالوليد ومثله يقال في حق معاوية وعمرو مغيرة و سمرة".(نزل الأبرار : ٢/٩٤)
ترجمہ : اس سے معلوم ہوا کہ کچھ صحابہ فاسق ہیں جیسا کہ ولید (بن عقبہ) اور اسی کے مثل کہا جاۓ گا، معاویہ (بن ابی سفیان) ، عمرو (بن عاص)، مغیرہ (بن شعبہ) اور سمرہ (بن جندب) کے حق میں (کہ وہ بھی فاسق ہیں).
دوسرے غیر مقلد عالم ..... تحریر کرتے ہیں :
سیدنا علیؓ کے خودساختہ حکمرانا عبوری دور کو خلافتِ راشدہ میں شمار کرنا صریحاً دینی بددیانتی ہے، مگر اغیار نے جس چاپکدستی سے آنجنابؓ کی نام نہاد خلافت کو خلافتِ حقہ ثابت کرنے کے لیے دنیاۓ سبائیت سے درآمد کردہ مواد سے جو کچھ تاریخ کے صفحات میں قلمبند کیا ہے اس کا حقیقت سے قطعی کوئی تعلق یا واسطہ نہیں. (خلافتِ راشدہ : ٥٥-٥٦)
مشہور غیر مقلد عالم ..... کا کہنا ہے :
"ولا يلتزمون ذكر الخلفاء ولا ذكر سلطان الوقت لكونه بدعه" (هدية المہدی : ١/١١٠)
ترجمہ : (اہل حدیث خطبہ جمعہ میں) خلفاءِ راشدینؓ اور بادشاہِ وقت کا ذکر کا التزام نہیں کرتے، کیونکہ یہ بدعت ہے.
یہی غیر مقلد صاحب دوسری جگہ لکھتے ہیں :
یہ ممکن ہے کہ اولیاءِ کرامؒ کو دوسری وجوہ سے ایسی افضلیت حاصل ہو جو صحابی کو حاصل نہ ہو، جیسا کہ ابن سیرین سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ ہمارے امام مہدی ابوبکرؓ و عمرؓ سے افضل ہیں.(هدية المہدی : ١/٩٠)
موجودہ جماعت اہل حدیث کے ایک صاحب قلم ......... خلیفۂ راشد حضرت علیؓ کے متعلق لکھتے ہیں :
" آپ کو امت نے اپنا خلیفہ منتخب نہیں کیا تھا، آپ دنیاۓ سبائیت کے منتخب خلیفہ تھے، اسی لئے آپ کی خودساختہ خلافت کا چارپانچ سالہ امت کے لیے عذابِ خداوندی تھا، جس میں ایک لاکھ سے زیادہ فرزندانِ توحید خوں میں تڑپ تڑپ کر ختم ہوگئے."(صدیقہ کائنات : ٢٢٨)
حضرت امام حسنؓ و امام حسینؓ کو صحابی کہنا سبائیت کی ترجمانی یا تقلید کی خرابی ہے، غیر مقلد انھیں زمرۂ صحابہؓ سے نکال سکتے ہیں!
"حضرات حسنین کو زمرۂ صحابہؓ میں شمار کرنا صریحاً سبائیت کی ترجمانی ہے یا اندھا دھند تقلید کی خرابی".(سیدنا حسن بن علی:٢٣)
حضرت حسینؓ کی کوفہ روانگی بچکانہ حرکت، سفر کی مشقتوں کو جھیلنا ان کے بس کا روگ نہیں تھا (جس نے اسلام کے لیے جان دیدی کیا وہ سفر کی مشقت برداشت نہیں کرسکتا؟)
"حقیقت یہ ہے کہ مکہ سے روانگی تک خروج کے ارادہ کو کسی نے کوئی اہمیت نہ دی، اس پرامن سلطنت کے اندر اس ایک آدمی کی اس قسم کی حرکات سنجیدہ لوگوں کے نزدیک ایک بچکانہ حرکت تھی، جن لوگوں نے آپ کو روکا ان لوگوں کا مقصد یہ تھا کہ گھر سے نکل کر شدائدِ سفر کی تکلف ایک شہزادے کے بس کا روگ نہیں ہونگی". (واقعہ کربلا : ٧)
نواسۂ رسولؐ حضرت حسینؓ کا سفر اسلام کی سربلندی کے لئے نہیں تھا بلکہ خلافت کی حرص میں تھا:
"آپ اعلاۓ كلمة الحق کے نظریہ کے تحت عازم کوفہ نہیں ہوۓ تھے، بلکہ حصولِ خلافت کے لیے آپ نے یہ سفر اختیار کیا تھا". (واقعہ کربلا : ١٨)
درویشِ امت حضرت ابوذر غفاریؓ کمیونسٹ نظریہ سے متاثر تھے:
علامہ اقبال کا ایک شعر ہے: مٹایا کیسر و قصرىٰ کی استبداد کو کس نے؛ وہ کیا تھا زور حیدر، فقر بوذر، صدق سلیمانی.
اس شعر پر حکیم صاحب تنقید کرتے ہوۓ لکھتے ہیں: "(اس شعر میں) دوسرے نمبر پر حضرت ابوذر غفاری کا نام ہے جو ابن سبا کے کمیونسٹ نظریہ سے متاثر ہوکر ہر کھاتے پیتے مسلمان کے پیچھے لٹھ لیکر بھاگ اٹھتے تھے". (خلافتِ راشدہ:١٣٤)
صحابہؓ مشت زنی کیا کرتے تھے العياذ بالله:
بعض اهلِ علم نقل ایں استمناء از صحابہ نزد غیبت از اھل خود کردہ اند
ترجمہ : صحابہ جب اہل و عیال سے جب دور ہوتے تو صحابہ کرام بھی مشت زنی کیا کرتے تھے.(عرف الجادی : ص ٢٠٧)
خلفاۓ راشدینؓ الله و نبیؓ کے احکام کی خلاف ورزی کرتے تھے:
برادران! حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان غنی، حضرت علی رضی الله عنہم قطعاً اپنی اپنی خلافت کے زمانہ میں دونوں معنی کے لحاظ سے أولو الأمر تھے ..... اور آگے لکھتے ہیں .... "لیکن باوجود اس کے نہ تو کسی ایک صحابی نے ان کی تقلید کی اور نہ کوئی ان کی طرف منسوب ہوا؛ بلکہ ان کے اقوال کی خلاف ورزی کی، جب وہ فرمانِ الله اور فرمانِ رسول کے خلاف نظر آۓ".(طریق محمدی:٢٦١)
خطبہ جمعہ میں خلفاء الراشدین کا ذکر کرنا بدعت ہے۔ (ھدیة المہدی ص110)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کا حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو خلیفہ ثانی مقرر کرنا اصل اسلام کے خلاف تھا۔(طریق محمدی ص83)
حضرت عمرؓ معمولی اور موٹے موٹے مسائل میں غلطی کرتے تھے:
"حنفی بھائیو! ذرا کلیجہ پر ہاتھ رکھ کر ایمانداری سے بتلاؤ کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ علم و فقہ میں بڑھے ہوۓ تھا یا حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ خليفة المسلمين. امیر المؤمنينؓ! پس آؤ سنو! بہت سے صاف صاف موٹے موٹے مسائل ایسے ہیں حضرت فاروق اعظم نے ان میں غلطی کی ہے.(طریق محمدی:٧٨)
فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے صاف صاف موٹے مسائل میں غلطی کی۔(طریق محمدی ص54)
روز مرہ کے مسائل حضرت عمررضی اﷲ عنہ سے مخفی رہے ۔(طریق محمدی ص55)
========== ان لوگوں کا تراویح کو بدعت عمری کہنا اور حضرت عثمان غنیؓ کے جاری کردہ اذان ثانی کو بدعت عثمانی قرار دینا، سب کو معلوم ہے، جب کہ ہرشخص جانتا ہے کہ بدعت بدترین گناہ اور دین میں زیادتی کی مذموم کوشش ہے، کیا اس سے حضرت عمرؓ وحضرت عثمانؓ بے خبر تھے؟ اور کیا ان سے اس کا ارتکاب ہوسکتا تھا؟
==========
ہم نے عمررضی اﷲ عنہ کا کلمہ نہیں پڑھا جو ان کی بات مانیں۔(فتاوی ثنائیہ جلد2ص252)
حضرت عمررضی اﷲ عنہ کے بہت سے مسائل حدیث رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف تھے ۔(فتاوی ثنائیہ جلد2ص252)
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا فعل نہ قابل حجت ہے نہ واجب العمل۔(فتاوی ثنائیہ جلد2ص252)
متعہ سے اگر حضرت عمررضی اﷲ عنہ منع نہ کرتے تو کوئی زانی نہ ہوتا۔(لغات الحدیث جلد4ص186)
حضرت عمررضی اﷲ عنہ کا فتوی حجت نہیں۔(فتاوی ستاریہ جلد2ص65)
اجتہاد عمررضی اﷲ عنہ حدیث رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف تھا۔(تیسیر الباری جلد7ص170)
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا عمل قابل حجت نہیں۔(فتاوی ثنائیہ جلد 2ص233)
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اور حضر عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کے سامنے دو آیات اور کئی احادیث کو پیش کیا گیا مگر انہوں نے مصلحت کی وجہ سے نہ مانا۔(تنویر آلافاق ص108)
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی سمجھ معتبر نہیں۔(شمع محمدی ص19)
حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کا قول حجت نہیں۔(تیسیر الباری جلد7ص165)
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اور حضر عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کے سامنے دو آیات اور کئی احادیث کو پیش کیا گیا مگر انہوں نے مصلحت کی وجہ سے نہ مانا۔(تنویر آلافاق ص108)
اذان عثمانی رضی اﷲ عنہ بدعت ہے اور کسی طرح جائز نہیں۔( فتاوی ستاریہ جلد3ص85,86,87)
حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی خودساختہ خلافت کا چار، پانچ سالہ دور امت کےلئے عذاب خداوندی تھا ۔(صدیقہ کائنات ص237)
حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی وفات کے بعد امت نے سکھ کا سانس لیا۔(صدیقہ کائنات ص237)
آپ رضی اﷲ عنہ دنیائے سبائيت ( شیعت) کے منتخب خلیفہ تھے۔(صدیقہ کائنات ص237)
نبی علیہ السلام کی زندگی ہی میں آپ (علی رضی اﷲعنہ) حصول خلافت کے خیال کو اپنے دل میں پروان چڑھانے میں مشغول تھے۔(صدیقہ کائنات ص237)
حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا تین طلاقوں کو تین کہنے کا فیصلہ غصہ کی بنیاد تھا ۔(تنویر آلافاق فی مسئلة الطلاق ص103)
خلفاء الراشدین نے قرآن و سنت کے خلاف فیصلے دئيے اور امت نے اس کو رد کر دیا۔(تنویر آلافاق فی مسئلة الطلاق ص107)
حضرت معاويہ رضی اﷲ عنہ اور عمر رضی اﷲ عنہ کے مناقب بیان کرنا جائز نہیں ہیں۔(لغات الحدیث جلد2ص36)
معاويہ رضی اﷲ عنہ اور عمروبن عاص رضی اﷲ عنہ شریر تھے ۔(لغات الحدیث جلد 2ص36)
اسلام کا سارا کام معاويہ رضی اﷲ عنہ نے خراب کیا۔(لغات الحدیث جلد3ص104)
صحابی رضی اﷲ عنہم کا قول حجت نہیں ہے ۔(فتاوی نذیریہ جلد1ص340)
موقوفات (اقوال و افعال) صحابہ رضی اﷲ عنہم حجت نہیں۔(رسالہ عبد المنان ص14-81-84-85-59)
متاخرین علماءصحابہ رضی اﷲ عنہم سے افضل ہو سکتے ہیں(ھدیة المہدی ص90)
صحابہ رضی اﷲ عنہم اور فقہا رحمہ اﷲ کے اقوال گمراہ کن ہیں۔(فتاوی ثنائیہ جلد2ص247)
صحابہ رضی اﷲ عنہم کی فہم معتبر نہیں۔(الروضة الندیہ ص98)
حضرت مغیرہ رضی اﷲ عنہ کی3/4 دیانتداری کوچ کر گئی ۔(لغات الحدیث جلد3ص160)
نوٹ: طوالت کے خوف سے بعض جگہ مفہوم ذکر کیا گیا ہے۔ حضورؐ کی بات بھی بغیر وحی کے حجت اور دلیل نہیں:
"سنئے جناب! بزرگوں کی، مجتہدوں اور اماموں کی راۓ، قیاس، اجتہاد، استنباط اور ان کے اقوال تو کہاں شریعتِ اسلام میں، تو خود پیغمبر الله صلی الله علیہ وسلم بھی اپنی طرف سے بغیر وحی کے اپنی طرف سے کچھ فرمائیں تو وہ بھی حجت نہیں".(طریق محمدی:٥٧)
صحابہ کرامؓ کو برا بولنے والے سرکار دوعالمؐ کے ارشاد کی روشنی میں اور حضورؐ کا ارشاد مبارک کہ صحابہؓ کو برا بولنے والوں کے ساتھ مسلمانوں کا کیا رویہ ہونا چاہیے؟
صحابہ کرامؓ کو برا کہنے والے کا کوئی عمل الله کے ہاں قبول نہیں؛ نہ فرض نہ نفل:
حضورؐ نے فرمایا کہ الله نے مجھے منتخب کیا اور میرے لیے میرے ساتھیوں کا انتخاب فرمایا، ان میں سے میرے کچھ وزراء بناۓ، مددگار اور قرابت دار بناۓ، بس جو انھیں برا کہے اس پر الله کی، الله کے فرشتوں کی، اور تمام انسانوں کی لعنت ہو، قیمت کے دن نہ اس کا فرض قبول کیا جاۓ گا، نہ نفل".(المعجم الکبیر: ١٧ / ١٤٠)
صحابہ کرامؓ کو برا کہنے والوں کے ساتھ ہمارا کیا طرزِ عمل ہونا چاہیے؟
الله نے میرے لیے ساتھیوں کا انتخاب فرمایا اور انھیں میرے صحابہ، مددگار اور قرابت دار بنایا، ان کے بعد کچھ ایسے لوگ آئیں گے جو انھیں برا کہیں گے، ان میں نقائص اور کمی نکالیں گے، اگر تم ایسے لوگوں کو پاؤ تو نہ ان کے ساتھ نکاح کا رشتہ رکھو، نہ ان کے ساتھ کھاؤ پیو، نہ ان کے ساتھ نماز پڑھو اور نہ ان کے جنازہ کی نماز پڑھو.(جامع الاحادیث : ٧/ ٤٣١، مظاھر الحق : ٥/ ٥٨)
مسلمانو! فرقہ اہل حدیث قرآن و حدیث پر عمل کا دھوکہ دیکر اس کی آڑ میں صحابہ کرامؓ کو برا کہنے اور ان مقدس شخصیات کو مجروح کرنے کا کام کر رہا ہے، حالانکہ نبیؐ نے ان کی اتباع کا حکم دیا ہے اور انھیں راہِ ہدایت کے ستارے قرار دیا ہے، لیکن یہ بدنصیب کہتے ہیں کہ صحابہؓ کے کام اور ان کی باتیں شریعت کا حصہ نہیں، ان کی اتباع کی ضرورت نہیں، جب کہ یہ اپنے مولویوں کی بات کو صحابہؓ کی بات سے بھی زیادہ اہمیت دیتے ہوۓ ان کی بات نہ ماننے والے کو گمراہ کہنے لگتے ہیں، اب بھلا بتائیے ان بدنصیبوں کی بات مانی جاۓ گی یا حضور پرنورؐ کی؟؟؟ یہ یہودیوں کی ایک بڑی سازش ہے؛ کیونکہ امت اور نبیؐ کے درمیان واسطہ یہی جماعت صحابہؓ ہے؛ اگر ان کو ہی ناقابلِ اعتبار کردیا گیا تو پھر دین کی عمارت ہی گرجاۓ گی، فرقہ اہلحدیث کے ماننے والوں سے بھی درخواست ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور الله کے لیے امت کو گمراہ نہ کریں، ١٤٠٠/سو سال تک صحابہؓ، تابعینؒ، تبع تابعینؒ، امت کے علماء، مشائخ اور اولیاء الله جس راہ پر چل کر الله کے مقرب بنے ہیں آج کی پندرھویں صدی کا مسلمان بھی اس راہ پر چل کر الله کا مقرب اور مقبول بندہ بن سکتا ہے، اس کو نۓ دین یا نئی تشریحات کی بلکل ضرورت نہیں، یہ گمراہی ہے. (اس تحریر کا مقصد صرف حق بات کی طرف توجہ دلانا ہے اور بری سے روکنا ہے. اگر موجودہ غیر مقلدین اہلِ حدیث احباب اوپر پیش کی گئی باتوں کا انکار کرتے ہیں اور اہلِ حدیث جماعت کے ان علماء کی ان تحریروں کو گمراہی سمجھتے ہیں تو ان سے عرض ہے کہ اہلِ سنّت والجماعت علماء کی کتابوں کے خلاف وہ جس طرح پروپگنڈہ کررہے ہیں اسی طرح ان کتابوں کے خلاف بھی جلسے اور بیانات کریں، ان کے خلاف کتابیں اور اشتہارات چھاپ کر اپنی برأت کا ثبوت دیں. معیاِرِ حق، ایمان و ہدایت : ایمان و فہمِ صحابہ کرامؓ
یہ لفظ (مسواک) اس لکڑی پر بولا جاتا ہے جس کے ساتھ مسواک کی جاتی ہے اور بذات خود مسواک کرنے پر بھی۔ مراد اس لکڑی سے دانتوں کو "رگڑنا" ہے یا اس کے جیسی ہر سخت چیز سے کہ جس سے دانتوں کو صاف کیا جا سکے ۔ اور بہترین لکڑی کہ جس سے مسواک کی جائے پیلو کی لکڑی ہے کہ جو حجاز سے برآمد کی جاتی ہے۔ کیونکہ اس کے خواص میں سے یہ بھی ہے کہ یہ مسوڑھوں کو مضبوط کرتی ہے اور دانتوں کے امراض میں حائل ہوجاتی ہے۔ نیز نظام انہظام کو مضبوط کرتی ہے اور پیشاب میں روانی پیدا کرتی ہے۔
مسواک کو مسلم دنیا میں بہت اہمیت دی جاتی ہے تاہم 5000 ق م میں بھی اس کے استعمال سے متعلق شواہد پائے گئے ہیں۔ زیادہ تر نیم، کیکر، زیتون کے درختوں کی ٹہنیاں (Twigs) مسواک کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔
جدید تحقیق بتاتی ہے کہ صرف منہ کی صفائی پر ہی پورے جسم کی تندرستی اور صحت کا انحصار ہے۔ منہ (Oral Caviy) ایک Gateway کے طور پر کام کرتا ہے۔ ہر چیز جو ہم کھاتے اور پیتے ہیں سب سے پہلے اسے منہ سے گذر کر معدہ میں جا کر پھر آنتوں سے خون میں جذب ہونا ہوتا ہے اور منہ کے اندر کی جھلی پورے نظام میں مختلف خصوصیات کے ساتھ Continue ہوتی ہے۔ اس جھلی پر کچھ جراثیم ایسے ہوتے ہیں جو منہ کی صحت کے ضامن ہوتے ہیں جنہیں Normal Microbial Flora کہا جاتا ہے۔ بیماری کے دوران جب ہم Antibiotic کھاتے ہیں تو اس کا اثر بیماری پیدا کرنے والے جراثیم کے ساتھ ساتھ اس نارمل Flora پر بھی ہوتا ہے۔ دانتوں میں کیڑا لگنا بھی ایسے ہی ایک جرثومہ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اگر ایک دن دانت صاف نہ کئے جائیں تو خوراک کے اجزاء کی ایک باریک تہہ دانتوں اور مسوڑھوں پر جم جاتی ہے۔ یہ جرثومہ اس تہہ میں Activate ہو کر Acid بنا دیتا ہے جو دانت کے decay کا باعث بن کر ایک کھوڑ بن جاتا ہے جسے عرف عام میں کیڑا لگنا کہتے ہیں۔
WHO کی ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 5 بلین لوگوں کو دانتوں میں کیڑا لگنے کا مرض لاحق ہے۔ ایک ایسی ہی رپورٹ کے مطابق منہ کی بیماریاں جیسے دانتوں کا کیڑا لگنا، مسوڑھوں کی خرابی اور منہ کے کیسز ایک Global Health Issue کے طور پر ابھر کر سامنے آرہا ہے۔
مسواک کا حکم:
سنتِ مؤکدہ ہے۔ بعض فقہاء نے مستحب کہا ہے لیکن اس پر فتویٰ نہیں دیا جاتا۔
[الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 113)]
یوں تو مسواک کرنا متفقہ طور پر تمام علماء کرام کے نزدیک سنت ہے مگر حنفیہ کے نزدیک خاص طور پر وضو کے لیے امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وضوء اور نماز کے وقت مسواک کرنا مسنون ہے، نیز نماز فجر اور نماز ظہر سے پہلے بھی مسواک کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے، مسواک کرنے میں بڑی خیر و برکت اور بہت فضیلت ہے۔ چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ مسواک کرنے کی فضیلت میں چالیس احادیث وارد ہوئی ہیں، پھر نہ صرف یہ کہ مسواک کرنا ثواب کا باعث ہے بلکہ اس سے جسمانی طور پر بہت سے فائدے حاصل ہوتے ہیں چنانچہ مسواک کرنے سے منہ پاک و صاف رہتا ہے ، منہ کے اندر بدبو پیدا نہیں ہوتی، دانت سفید و چمک دار ہوتے ہیں، مسوڑھوں میں قوت پیدا ہوتی ہے اور دانت مضبوط ہو جاتے ہیں۔
ویسے تو ہر حال میں مسواک کرنا مستحب اور بہتر ہے مگر بعض حالتوں میں اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے مثلاً وضو کرنے کے وقت، قرآن شریف پڑھنے کے لیے، دانتوں پر زردی اور میل چڑھ جانے کے وقت اور سونے، چپ رہنے، بھوک لگنے یا بدبو دار چیز کھانے کے سبب منہ کا مزہ بگڑ جانے کی حالت میں مسواک زیادہ مستحب اور اولیٰ ہے۔
مسواک کرنے کے کچھ آداب و طریقے ہیں چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ کسی مجلس و مجمع میں اس طرح مسواک کرنا کہ منہ سے رال ٹپکتی ہو مکروہ ہے خصوصاً علماء اور بزرگوں کے قریب اس طرح مسواک کرنا مناسب نہیں ہے۔
مسواک کڑوے درخت مثلاً نیم وغیرہ کی ہونی چاہئے، پیلو کے درخت کی مسواک زیادہ بہتر ہے چنانچہ احادیث میں بھی پیلو کی مسواک کا ذکر آیا ہے نیز حضرت امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مستحب یہ ہے کہ پیلو کی مسواک کی جائے مسواک کا سرا چھنگلیا کی طرف ہونا چاہئے اور مسواک کی لمبائی ایک بالشت کے برابر ہونی چاہئے، مسواک دانتوں کی چوڑائی پر کرنی چاہئے لمبائی پر مسواک نہ کی جائے کیونکہ اس طرح مسواک کرنے سے مسوڑھے چھل جاتے ہیں۔
مسواک کرنے کے وقت کے بارے میں اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ جب وضو شروع کیا جائے تو کلی کے وقت مسواک کرنی چاہئے مگر بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ وضو کرنے سے پہلے ہی مسواک کر لینی چاہئے، نیز مسواک کرنے میں مستحب ہے کہ مسواک دائیں طرف سے شروع کی جائے۔
اگر کسی آدمی کے پاس مسواک نہ ہو یا دانت ٹوٹے ہوئے ہوں تو ایسی حالت میں انگلی سے دانت یا مسوڑھوں کو صاف کرنا چاہئے یا اسی طرح مسواک کو نرم کرنے کے لیے اگر کوئی پتھر نہ ملے اور ایسی شکل میں مسواک کرنا ممکن نہ ہو تو دانت کو ایسی چیزوں سے صاف کر لیا جائے جو منہ کی بد مزگی کو دور کردیں جیسے موٹا کپڑا اور منجن وغیرہ یا صرف انگلی ہی سے صاف کر لے۔
احادیث مبارکہ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا دس چیزیں سنت ہیں مونچھیں کتروانا، داڑھی بڑھانا، مسواک کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، ناخنوں کا کاٹنا، جوڑ دھونا، بغل کے بال اکھیڑنا، زیر ناف بال صاف کرنا، پانی سے استنجا کرنا مصعب راوی بیان کرتے ہیں کہ دسویں چیز میں بھول گیا شاید وہ کلی کرنا ہو۔
[صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 604 (7743) - وضو کا بیان : فطر تی خصلتوں کے بیان میں]
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا مسواک (کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ) منہ کو صاف کرنے والی ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے راضی رہتا ہے۔
[سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 5 (19936) - پاکی کا بیان : باب فضیلت مسواک]
"حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " وہ نماز جس کے لیے مسواک کی گئی (یعنی وضو کے وقت) اس نماز پر جس کے لیے مسواک نہیں کی گئی ستر درجے کی فضیلت رکھتی ہے۔"
(احمد، بیہقی:164)
تشریح :
اس حدیث سے بھی مسواک کی فضیلت کا اظہار ہو رہا ہے کہ مسواک کی وجہ سے نماز کے مراتب و درجات کی کمی پیشی ہوتی ہے ، چنانچہ فرمایا جا رہا ہے کہ اگر کسی آدمی نے ایک نماز تو اس طرح پڑھی کہ اس نے اس نماز کے لیے وضو کے وقت مسواک اور ایک نماز اس طرح پڑھی کہ اس کے لیے وضو کے وقت مسواک نہیں کی تو پہلے نماز جس کے لیے مسواک کی گئی ہے اس نماز کے مقابلہ میں جس کے لیے مسواک نہیں کی گئی فضیلت اور ثواب کی زیادتی ستر درجہ زیادہ ہوگی" گویا دوسری نماز کے مقابلہ میں پہلی نماز کا ثواب ستر گناہ زیادہ ملے گیا۔
[مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 366 (36765)]
١) ابو النعمان، حماد بن زید، غیلان بن جریر، ابوبردہ، اپنے والد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا تو آپ کو دیکھا کہ مسواک آپ کے دست مبارک میں ہے اور منہ میں (اس طرح) مسواک فرما رہے ہیں کہ اع اع کی آواز نکلتی ہے، جیسے (کوئی) قے کرتا ہے۔
[صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 242 - وضو کا بیان : مسواک کرنے کا بیان اور ابن عباس نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس رات گزاری تو آپ نے مسواک کیا]
٢) عثمان بن ابی شیبہ، جریر، منصور، ابووائل، حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو (سوکر تہجد کے لیے) اٹھتے تو (سب سے پہلے) اپنے منہ کو مسواک سے صاف کرتے تھے۔ [صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 243 - وضو کا بیان : مسواک کرنے کا بیان اور ابن عباس نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس رات گزاری تو آپ نے مسواک کیا]
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات اور دن میں سو کر اٹھتے تو وضو کر نے سے پہلے مسواک کرتے۔" (مسند احمد بن حنبل ، سنن ابوداؤد)
تشریح :
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دن میں بھی قیلولہ کے وقت آرام فرماتے تھے، چنانچہ دن میں تھوڑا بہت سو لینا اور قیلولہ کے وقت آرام کرنا سنت ہے کیونکہ اس کی وجہ سے رات میں اللہ کی عبادت کے لیے اٹھنے میں آسانی ہوتی ہے جیسے کہ سحری کھا لینے سے روزہ آسان ہو جاتا ہے۔
نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سو کر اٹھنے کے بعد مسواک کرنا سنت موکدہ ہے کیونکہ سونے کی وجہ سے منہ میں تغیر پیدا ہو جاتا ہے اور بو میں فرق آجاتا ہے اس لیے مسواک کرنے سے منہ صاف ہو جاتا ہے۔
اب اس میں احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر وضوء کے لیے دوبارہ مسواک کرتے تھے یا نہیں؟ ہو سکتا ہے کہ اسی مسواک پر اکتفا فرماتے ہوں اور وضوء کے وقت دوبارہ مسواک کرتے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وضو کے ارادہ کے وقت یا وضو میں کلی کرتے وقت دوبارہ مسواک کرتے ہوں۔ وا اللہ اعلم۔
[مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 360(36759)]
٣) علی، حرمی بن عمارہ، شعبہ، ابوبکر بن منکدر، عمرو بن سلیم انصاری نے کہا کہ میں ابوسعید خدری پر گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ کے دن ہر بالغ پر غسل کرنا واجب ہے اور یہ کہ مسواک کرے، اور میسر ہونے پر خوشبو لگائے، عمرو بن سلیم نے بیان کیا کہ غسل کے متعلق میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ واجب ہے، لیکن مسواک کرنا، اور خوشبو لگانا، تو اس کے متعلق اللہ تعالیٰ زیادہ جانتا ہے کہ واجب ہے یا نہیں، مگر حدیث میں اسی طرح ہے، ابوعبداللہ (بخاری) نے کہا کہ وہ (ابوبکر بن منکدر) محمد بن منکدر کے بھائی ہیں اور ابوبکر کا نام معلوم نہیں ہوسکا۔ اور ان سے بکیر بن اشج اور سعید بن ابی ہلال اور متعدد لوگوں نے روایت کی ہے اور محمد بن منکدر کے بھائی ہیں اور ابوبکر کا نام معلوم نہیں ہوسکا۔ اور ان سے بکیر بن اشج اور سعید بن ابی ہلال اور متعدد لوگوں نے روایت کی ہے اور محمد بن منکدر کی کنیت ابوبکر اور ابوعبداللہ تھی۔
[صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 839 - جمعہ کا بیان : جمعہ کے دن خوشبولگانے کا بیان]
٤) عبداللہ بن یوسف، مالک، ابوالزناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں اپنی امت کیلئے شاق نہ جانتا، تو انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیتا۔
[صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 846 - جمعہ کا بیان : جمعہ کے دن مسواک کرنے کا بیان، اور ابوسعید نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ مسواک کرے]
[صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2119 (6830) - آرزو کرنے کا بیان : لفظ لو (اگر) کے استعمال کے جائز ہونے کا بیان]
حکم کرتے ان کو مسواک کر نے کا ہر وضو کے ساتھ۔
[موطا امام مالک:جلد اول:حدیث نمبر 132 (34791) - مستحاضہ کا بیان : مسواک کر نے کا بیان]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنا ہے میں سونے سے پہلے بھی مسواک کرتا ہوں سو کر اٹھنے کے بعد بھی کھانے سے پہلے بھی اور کھانے کے بعد بھی مسواک کرتا ہوں۔
[مسند احمد:جلد چہارم:حدیث نمبر 2006 (54926)]
حضرت ابوامامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مسواک کیا کرو اس لیے کہ مسواک منہ کو صاف کرنے والی اور پروردگار کو راضی کرنے والی ہے۔ جب بھی میرے پاس جبرائیل آئے مجھے مسواک کا کہا حتی کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ مسواک مجھ پر اور میری امت پر فرض ہو جائے گی اور اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا خوف نہ ہوتا تو میں مسواک کو اپنی امت پر فرض کر دیتا اور میں اتنا مسواک کرتا ہوں کہ مجھے خطرہ ہونے لگتا ہے کہیں میرے مسوڑھے چھل نہ جائیں ۔
[سنن ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر 289 (30212) - پاکی کا بیان : مسواک کے بارے میں]
تشریح :
مسواک کی اہمیت اور اس کی فضیلت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لاتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسواک کرنے کا حکم دیتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم کی بنا پر کثرت سے مسواک کرتے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہی فرما رہے ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے بار بار حکم اور اس شدت سے تاکید کی بناء پر مسواک اتنی کثرت سے استعمال کرتا ہوں کہ مجھے یہ ڈر ہے کہ مسواک کی زیادتی سے کہیں میرا منہ نہ چھیل جائے۔
[مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 363 (36762)]
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ! جبرئیل امین علیہ السلام نے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے میں اس دفعہ بڑی تاخیر کر دی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تاخیر کیوں نہ کریں جبکہ میرے ارد گرد تم لوگ مسواک نہیں کرتے، اپنے ناخن نہیں کاٹتے، اپنی مونچھیں نہیں تراشتے، اور اپنی انگلیوں کی جڑوں کو صاف نہیں کرتے۔
[مسند احمد:جلد دوم:حدیث نمبر 332 (48171)]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر مجھ کو مومنین کے دشواری میں پڑ جانے کا خوف نہ ہوتا تو میں نماز عشاء میں تاخیر کرنے اور ہر نماز کے لیے مسواک کرنے کا حکم دیتا۔
[سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 46 (14739) - پاکی کا بیان : مسواک کا بیان]
مسواک کرنا بالاتفاق علماء کرام کے نزدیک سنت ہے، بلکہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے تو اسے واجب کہا ہے، حضرت شاہ اسحق صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس سے بھی بڑھ کر یہ بات کہی ہے کہ اگر کوئی آدمی مسواک کو قصدا چھوڑ دے تو اس کی نماز باطل ہوگی
[مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 357 (36756)]
ابوسلمہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوزید کو دیکھا کہ وہ (نماز کے انتظار) بیٹھے رہتے تھے اور مسواک ان کے کان پر اس جگہ رکھی رہتی تھی جہاں کاتب کے کان پر قلم رکھا رہتا ہے وہ جب بھی نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو مسواک کرتے۔
[سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 47 (14740) - پاکی کا بیان : مسواک کا بیان]
جب زید نماز کے لئے مسجد میں آتے تو مسواک ان کے کان پر ایسے ہوتی جیسے کاتب کا قلم کان پر ہوتا ہے اور اس وقت تک نماز نہ پڑھتے جب تک مسواک نہ کر لیتے پھر اسے اسی جگہ رکھ لیتے۔
[جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 23 (25724)- طہارت جو مروی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے : مسواک کے بارے میں]
اور جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو مسواک کرتے تھے۔
[مسند احمد:جلد ہفتم:حدیث نمبر 225 (62534)]
تشریح :
قلم کے لفظ سے اس مسواک کی لمبائی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے.
٭… حضرت عطاء ابن ابی رباح رحمة الله علیہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابتدا میں مسواک کی لمبائی ایک بالشت ہونی چاہیے، لیکن بعد میں کم ہو جانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
(سنن کبریٰ:40/1)
٭…حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله تعالیٰ عنہ سے مسواک پکڑنے کا مسنون طریقہ مروی ہے کہ مسواک دائیں ہاتھ میں اس طرح سے پکڑی جائے کہ انگوٹھا اور چھوٹی انگلی مسواک کے نیچے او رباقی انگلیاں اوپر ہوں۔
٭… حضرت ابوہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین کانوں پر مسواک رکھتے اور ہر نماز کے وقت مسواک کرتے تھے۔
( بذل المجہود:3/1)
٥) اسماعیل، سلیمان بن بلال، ہشام بن عروہ، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ عبدالرحمن بن ابی بکر آئے، اور ان کے پاس ایک مسواک تھی جو وہ کیا کرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسواک کو دیکھا تو میں نے ان سے کہا کہ اے عبدالرحمن مجھے یہ مسواک دے دو، انہوں نے مسواک مجھے دے دی، تو میں نے اسے توڑ ڈالا اور چبا ڈالا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس استعمال کیا، اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے سینہ سے ٹیک لگائے ہوئے تھے۔
[صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 849 - جمعہ کا بیان : دوسرے کی مسواک سے مسواک کرنے کا بیان]
٦) ابن ابی مریم نافع ابن ابی ملیکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ میرے (عائشہ کے) گھر میں میری باری کے دن میرے سینہ اور میری گردن کے درمیان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے رحلت فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے میرا اور ان کا لعاب دہن ملا دیا (واقعہ یہ ہے) عبدالرحمن ایک مسواک لائے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چبا نہ سکے تو میں نے اس کو چبا کر اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسواک کی۔
[صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 351 - جہاد اور سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ازواج مطہرات کے مکانوں اور ان مکانوں کا انہی کی طرف منسوب کرنے کا بیان]
تشریح:
بعض علماء نے لکھا ہے کہ جب وقت نزع قریب ہو تو مریض کے لیے مستحب ہے کہ وہ مسواک کرے۔
[مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 51 (37948)]
٧) قتیبہ، جریر، منصور، مجاہد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں اور عروہ بن زبیر مسجد میں داخل ہوتے دیکھا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے پاس بیٹھے ہیں اور لوگ چاشت کی نماز پڑھ رہے ہیں، تو ہم نے ان سے لوگوں کی نماز کے متعلق پوچھا انہوں نے فرمایا کہ یہ بدعت ہے، پھر ان سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کئے؟ انہوں نے بتلایا چار، پہلا عمرہ رجب میں نے کیا تھا ہم لوگوں نے ان کی بات کا رد کرنا نامناسب سمجھا، تو ہم نے ام المومنین عائشہ کے مسواک کرنے کی آواز سنی عروہ نے پکارا اور کہا یا ام المومنین کیا آپ نہیں سن رہی ہیں جو ابوعبدالرحمن کہہ رہے ہیں انہوں نے کہا کیا کہہ رہے ہو؟ عروہ نے بیان کیا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کیے پہلا عمرہ رجب میں کیا حضرت عائشہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ابوعبدالرحمن پر رحم کرے آپ نے کوئی عمرہ بھی ایسا نہیں کیا جس میں ابوعبدالرحمن شریک نہ ہوئے ہوں اور آپ نے رجب میں کوئی عمرہ نہیں کیا۔
[صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1674 - عمرہ کا بیان : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کئے؟]
٨) کیا تم میں صاحب مسواک (یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نہیں ہے؟ علقمہ نے کہا ہاں (ہیں)
[صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 949 - انبیاء علیہم السلام کا بیان : حضرت عمار و حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہما کے فضائل کا بیان]
کیا تم میں تکیہ اور مسواک والے یعنی ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہیں ہیں؟
[صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1216 (5927) - اجازت لینے کا بیان : کسی کو تکیہ دئیے جانے کا بیان۔]
٩) اور میں گویا آپ کو مسواک کرتے دیکھ رہا تھا، جو آپ کے ہونٹوں میں دبائے ہوئے تھے،
[صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1830 (6541)- مرتدوں اور دشمنوں سے توبہ کرانا : مرتد مرد اور مرتد عورت کا حکم اور ان سے توبہ کرانے کا بیان]
حضرت ابوموسی اشعری سے روایت ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک پر مسواک کا ایک سرا تھا۔
[صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 592 (7731) - وضو کا بیان : مسواک کرنے کے بیان میں]
١٠) حضرت شریح سے روایت ہے کہ میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سوال کیا جب نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآئے وسلم گھر میں داخل ہوتے تو کون سے کام سے ابتداء فرماتے تو انہوں نے فرمایا مسواک سے۔
[صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 590 (7729) - وضو کا بیان : مسواک کرنے کے بیان میں]
حضرت علامہ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہر آدمی کے لیے یہ تاکید ہے کہ وہ جب گھر میں داخل ہو تو اسے چاہئے کہ وہ سب سے پہلے مسواک کرے کیونکہ اس سے منہ میں بہت زیادہ خوشبو پیدا ہو جاتی ہے جس سے گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک میں اضافہ ہوتا ہے۔
[مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 355 (36754)]
١١) نصر بن علی ابی صخر بن جویریہ نافع ابن عمر حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ میں مسواک کر رہا ہوں دو آدمیوں نے مجھے کھینچا ان میں سے ایک دوسرے سے بڑا تھا میں نے وہ مسواک ان میں سے چھوٹے کو دے دی تو مجھے کہا گیا کہ بڑے کو دو تو میں نے وہ مسواک بڑے کو دے دی۔
[ صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1436 (13066) - خواب اور اسکی تعبیر کے بیان میں : نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے خوابوں کے بیان میں]
اور فرمایا کہ مجھے جبریل علیہ السلام نے حکم دیا ہے کہ میں یہ مسواک کسی بڑے آدمی کو دوں ۔
[مسند احمد:جلد سوم:حدیث نمبر 1733(52047)]
تشریح :
اس حدیث سے مسواک کی بزرگی اور فضیلت کا اظہار ہو رہا ہے اس لیے کہ اسے بڑے کو دینے کا حکم کیا جانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ ایک افضل اور بہترین چیز ہے جب ہی تو بڑے کو جو چھوٹے سے افضل و اعلیٰ تھا، دئیے جانے کا حکم کیا گیا۔
اس حدیث نے اس طرف بھی اشارہ کر دیا کہ کھانا وغیرہ دینے، خوشبو لگانے یا ایسی ہی دوسری چیزوں میں ابتداء بڑے سے ہی کرنی چاہئے۔
[مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 362 (36761)]
١٢) حضرت عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روزہ کی حالت میں مسواک کرتے ہوئے دیکھا ہے
[سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 599 (17051) - روزوں کا بیان : روزہ کی حالت میں مسواک کرنا]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا روزہ دار کی بہترین خصلت مسواک کرنا ہے ۔
[سنن ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر 1678 (31601)- روزوں کا بیان : روزہ دار کے لئے مسواک کرنا اور سرمہ لگانا ۔]
حضرت عامر سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت صیام میں اتنی مرتبہ مسواک کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ میں شمار نہیں کر سکتا۔
[مسند احمد:جلد ششم:حدیث نمبر 1529 (61225)]
١٣) حفص بن عمر، مسلم بن ابراہیم ، شعبة، اشعث بن سلیم، والد، مسروق، عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے تمام امور میں دائیں طرف سے ابتداء کرنے کو حتی الامکان پسند فرماتے تھے پاکیزگی حاصل کرنے میں، کنگھا کرنے میں، جوتا پہننے میں، مسلم بن ابراہیم کہتے ہیں کہ مسواک کرنے میں، اور انہوں نے اس کا ذکر نہیں کیا کہ اپنے تمام امور میں۔ امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ شعبہ نے اس حدیث کو معاذ سے روایت کیا ہے اور اس میں مسواک کا تذکرہ نہیں کیا۔
[سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 748 (18817) - لباس کا بیان : جوتا پہننے کا بیان]
تشریح
اس حدیث میں اچھے کاموں کو داہنے ہاتھ سے شروع کرنے کی اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بارے میں اسے پسند فرماتے اور عزیز رکھتے تھے کہ جہاں تک اپنا بس چلے تمام کام داہنے ہاتھ سے انجام دیئے جائیں چنانچہ لفظ ما استطاع (حتی الامکان) سے اسی محافظت اور تاکید کی طرف اشارہ ہے۔
" طہارت" دائیں طرف سے شروع کرنے کی یہ شکل تھی کہ وضو میں دایاں ہاتھ اور دایاں پیر پہلے دھوتے تھے اور بایاں ہاتھ و بایاں پیر بعد میں دھوتے تھے، اسی طرح نہانے کے وقت دائیں جانب پہلے دھوتے اور بائیں جانب بعد میں دھوتے تھے۔
بہر حال اس حدیث میں تین چیزیں ذکر کی گئی ہیں، جو مثال کے طور ہیں ورنہ تو ہر وہ چیز جو از قبیل بزرگی ہوتی تھی اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں ہاتھ سے شروع کرتے تھے، جیسے کپڑے پہننا، ازار زیب تن کرنا، موزہ پہننا، مسجد میں داخل ہونا، مسواک کرنا، بیت الخلاء سے باہر آنا ( یعنی بیت الخلاء سے پہلے دایاں پیر باہر نکالتے تھے، سرمہ لگانا ، ناخن کتروانا، بغل کے بال صاف کرنا، لب کے بال کتروانا، سرمنڈوانا، زیر ناف بال صاف کرنا، مصافحہ کرنا، کھانا پینا اور کسی چیز کا لینا دینا وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح جو چیز از قبیل بزرگی نہیں ہیں ان کو بائیں طرف سے شروع کرنا مستحب ہے، مثلاً بیت الخلاء (یعنی بیت الخلاء میں پہلے بایاں پیر رکھنا، بازار میں جانا، مسجد سے نکلنا ، ناک سنکنا، تھوکنا، استنجاء کرنا اور کپڑے اور جوتے اتارنا یا ایسے ہی دوسرے کام، ان کاموں کو بائیں طرف سے شروع کرنے میں ایک لطیف اور پر حقیقت نکتہ بھی ہے یہ کہ ایسی چیزوں کی ابتداء بائیں طرف سے کرنے کی وجہ دائیں طرف کی تکریم و احترام کا مظاہرہ ہوتا ہے مثلا ًجب کوئی آدمی مسجد سے نکلتے وقت پہلے بایاں قدم باہر نکالے گا تو دائیں قدم کی تکریم ہوئی بایں طور کہ دایاں قدم محترم جگہ میں باقی رہا۔ اسی پر دوسری چیزوں کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے، یہی وجہ کہ انسان کے ہمراہ جو دو فرشتے ہوتے ہیں ان میں سے دائیں ہاتھ کا فرشتہ دائیں طرف کی فضیلت و احترام کی بناء پر بائیں ہاتھ کے فرشتے پر شرف و فضیلت رکھتا ہے، نیز اسی نقطہ کے پیش نظر کہا جاتا ہے کہ دائیں طرف کا ہمسایہ بائیں طرف کے ہمسایہ پر مقدم ہے۔
[مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 377 (36776)]
١٤) حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ پیلو کی مسواک چن رہے تھے، ان کی پنڈلیاں پتلی تھیں، جب ہواچلتی تو وہ لڑ کھڑانے لگتے تھے، لوگ یہ دیکھ کر ہنسنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم کیوں ہنس رہے ہو؟ لوگوں نے کہا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! ان کی پتلی پتلی پنڈلیاں دیکھ کر، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یہ دونوں پنڈلیاں میزان عمل میں احد پہاڑ سے بھی زیادہ وزنی ہیں۔
[مسند احمد:جلد دوم:حدیث نمبر 2052 (49891)]
اگرچہ پیلو کی ایک مسواک ہی ہو۔
[سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 482 (32250) - فیصلوں کا بیان : جھوٹی قسم کھا کر مال حاصل کرنا]
اگرچہ تر مسواک کی خاطر ہو۔
[سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 483 (32251)]
١٥) عبیداللہ بن سباق سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جمعہ کو فرمایا کہ یہ وہ دن ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے عید کا دن کہا ہے تو غسل کرو اور جس کے پاس خوشبو ہو تو آج کے دن خوشبو لگانا نقصان نہیں ہے اور لازم کرلو تم مسواک کو ۔
[موطا امام مالک:جلد اول:حدیث نمبر 130 (34789) - مستحاضہ کا بیان : مسواک کر نے کا بیان]
١٦) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو رکعتیں پڑھنے کے بعد مسواک فرمایا کرتے تھے۔
[مسند احمد:جلد دوم:حدیث نمبر 44 (47883)]
١٧) حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو دو تین مرتبہ مسواک فرماتے تھے...
[مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 3513 (68542)]
[مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 2546 (67575)]
ابوالسوار اپنے ماموں سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ کچھ لوگ آپ کے پیچھے چل رہے ہیں میں بھی ان میں شامل ہوگیا اچانک لوگ دوڑنے لگے اور کچھ لوگ پیچھے رہ گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے قریب پہنچ کر کسی ٹہنی ، سرکنڈے ، مسواک یا کسی اور چیز کے ساتھ ہلکی سی ضرب لگائی جو ان کے پاس تھی ، لیکن بخدا! مجھے اس سے کوئی تکلیف نہیں ہوئی رات ہوئی تو میں نے سوچا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جو مارا ہے وہ یقینا کسی ایسی بات پر ہوگا جو اللہ نے انہیں میرے متعلق بتا دی ہوگی پھر میرے دل میں خیال آیا کہ صبح کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری دوں ، ادھر حضرت جبریل علیہ السلام یہ وحی لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے کہ آپ راعی ہیں لہٰذا اپنی رعیت کے سینگ نہ توڑیں ۔
جب ہم نماز فجر سے فارغ ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاء کرتے ہوئے فرمایا اے اللہ ! کچھ لوگ میرے پیچھے چلتے ہیں اور مجھے یہ اچھا نہیں لگتا کہ کوئی میرے پیچھے چلے اے اللہ ! میں نے جسے مارا ہو یا سخت سست کہا ہو اسے اس کے لئے کفارہ اور باعث اجر بنا دے یا یہ فرمایا باعث مغفرت و رحمت بنا دے یا جیسے بھی فرمایا۔
١٨) حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسواک کرنے اور دھونے کی غرض سے مجھ کو مسواک دیتے مگر پہلے میں وہ خود مسواک (حصول برکت کی خاطر) استعمال کرتیں اور اس کے بعد دھو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لوٹا دیتی۔
[سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 51 (14744) - پاکی کا بیان : مسواک دھونے کا بیان]
تشریح
یہ حدیث اس بات کے لیے دلیل ہے کہ مسواک کرنے کے بعد اس کو دھونا مستحب ہے، حضرت ابن ہمام رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ مستحب یہ ہے کہ تین مرتبہ مسواک کی جائے اور ہر مرتبہ اسے پانی سے دھو لیا جائے تاکہ اس کا میل کچل دور ہوتا رہے اور یہ کہ مسواک نرم ہونی چاہئے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسواک لے کر دھونے سے پہلے اپنے منہ میں اس لیے پھیرتی تھیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی لعاب مبارک کی برکت حاصل ہو، پھر اسے دھو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیتی تھیں تاکہ مسواک پوری طرح نہ کی ہو تو اسے مکمل کر لیں۔
یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ کسی دوسرے کی مسواک اس کی رضا مندی سے استعمال کر لینا مکروہ نہیں ہے، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صالحین اور بزرگوں کے لعاب وغیرہ سے برکت حاصل کرنا اچھی بات ہے۔
جدید ریسرچ کیا کہتی ہے؟
احادیث مبارکہ کے بعد اب ہم دور جدید کی ریسرچ کی طرف آتے ہیں۔ 2003ء کی ایک سائنسی تحقیق جس کا موضوع ’’مسواک اور ٹوتھ برش کی افادیت‘‘ تھا اور یہ تحقیق ایک Comparative Study تھی۔ نتائج واضح طور پر مسواک استعمال کرنے والوں کے حق میں تھے۔
ڈاکٹر عتیبی نے سعودی عرب میں ایک Research کی جس میں انہوں نے مسواک کا اثر سارے جسم پر نوٹ کیا۔ انہوں نے مسواک کی انسان کے دفاعی نظام پر ایک مثبت اثر اندازی نوٹ کی۔ ڈاکٹر رامی محمد دیبی جنہوں نے 17 سال مسواک پر ریسرچ میں گذارے۔ انہوں نے اس کے ہزار ہا Benefits نوٹ کئے اور حیرت انگیز انکشافات کئے حتی کہ انہوں نے ایک پوری Theory پیش کر دی جسے Miswak Medical Theory کا نام دیا گیا۔
اسی طرح حال ہی میں ایک Study جو King Saud University سعودی عرب کے ڈاکٹروں نے کی جس کی سربراہی ڈاکٹر خالد الماس نے کی انہوں نے بھی مسواک اور ٹوتھ برش استعمال کرنے والوں میں افادیت کے لحاظ سے فرق نوٹ کیا۔ Study میں بتایا گیا کہ بار بار مسواک کرنا تازہ Silica پیدا کرتا ہے جو دانتوں کی چمک میں اضافہ کرتا ہے یہ بھی بتایا گیا کہ مسواک کرنے سے ایک ایسا عنصر خون میں شامل ہوتا ہے جس سے دانت کے درد کو آرام ملتا ہے۔ اس کے علاوہ دانتوں اور مسوڑھوں میں سوزش Infection دل کی بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کم وزن بچوں کا پیدا ہونا بھی دوران حمل منہ میں مسوڑھوں کی سوزش کی وجہ سے ہے۔
==============================================
وضو کرتے وقت مسواک کرنا سنتِ موکدہ ہے اور مسواک بانس، انار اور ریحان کے علاوہ کسی اور درخت کی ہونی چاہئے؛ خصوصاً کڑوے درخت کی، زیادہ اولیٰ پیلو کے درخت کی ہے؛ پھر زیتون کے درخت کی ہے؛ الغرض مسواک درخت کی ہونا ضروری ہے؛ اگر کسی وقت کسی درخت کی مسواک میسر نہ ہو تو اُنگلی سے دانت صاف کرکے منہ کی بدبو زائل کردے؛ اس طرح بھی سنت ادا ہوجاتی ہے؛ بہرحال اصل سنت درخت کی مسواک ہے، وہ میسر نہ ہو یا دانت نہ ہوں یا دانت یا مسوڑے کی خرابی کی وجہ سے مسواک سے تکلیف ہوتی ہو تو ضرورۃ ہاتھ کی انگلیوں یاموٹے کھردرے کپڑے یا منجن، ٹوتھ پیسٹ یا برش سے مسواک کا کام لیا جاسکتا ہے؛ مگرمسواک کے ہوتے ہوئے مذکورہ چیزیں مسواک کی سنت ادا کرنے کے لئے کافی نہیں اور مسواک کی سنت کا پورا اجرحاصل نہ ہوگا؛ گرچہ صفائی تو ہوجائیگی۔ مسواک کے سلسلہ میں بہتر ہے کہ نرم ہو، لکڑی میں جوڑ نہ ہو، انگلی کے بقدر موٹی ہو، ایک بالشت لمبی ہو، پپلو کی ہو، یاکسی کڑوی لکڑی کی ہو، مسواک کا طریقہ یہ ہے کہ دانت کے اوپری حصہ پربھی کیا جائے اور نچلے حصہ پر اور ڈاڑھوں پربھی، دائیں جانب سے مسواک کی ابتداء کرے، کم سے کم تین بار اوپر تین بار نیچے پانی کے ساتھ مسواک پھیرنی چاہیے، مسواک چوڑائی میں یعنی دائیں حصہ سے بائیں حصہ کی طرف کرنی چاہیے، طول میں مسواک کرنا بہتر نہیں کہ اس سے مسوڑھے زخمی ہوسکتے ہیں، مستحب ہے کہ مسواک کودائیں ہاتھ سے پکڑا جائے اور مسنون طریقہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی کو مسواک کے نیچے حصہ میں اور انگوٹھے کو اگلے حصہ میں مسواک کے نیچے اور باقی تینوں انگلیوں کومسواک کے اوپر رکھ کرمسواک کی جائے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہی طریقہ مروی ہے، لیٹی ہوئی حالت میں مسواک کرنا مکروہ ہے؛ اسی طرح اگر قئی کا اندیشہ ہو تو مسواک نہیں کرنی چاہیے، مسواک کے بارے میں یہ تمام تفصیلات مشہور فقیہ علامہ ابن نجیم مصری رحمۃ اللہ علیہ نے (البحر الرائق شرح كنز الدقائق) میں تحریر فرمائی ہے۔
مسواک کے بارے میں یہ تمام تفصیلات مشہور فقیہ علامہ ابن نجیم مصری رحمۃ اللہ علیہ نے (البحر الرائق شرح كنز الدقائق) میں تحریر فرمائی ہے۔
==============================================
مسواک کرنا سنت ہے، اور اس کے بہت سے فضائل احادیث میں وارد ہیں، مسواک میں مستحب یہ ہے کہ اس کی لمبائی ایک بالشت اور چوڑائی چھوٹی انگلی کی موٹائی کے برابر ہو ، استعمال کے بعد چھوٹی ہوجائے تو ایک مشت ہونے کے بعد چھوڑ دے، اور مسواک کو دائیں ہاتھ میں پکڑنا مستحب ہے اور پکڑنے کا طریقہ یہ ہے کہ مسواک کو ہاتھ کی انگلیوں اور انگوٹھے کے پوروں سے اس طرح پکڑا جائے کہ چھوٹی انگلی(چھنگلی) اور انگوٹھا نیچے کی جانب رہے اور بقیہ انگلیاں اُوپر کی طرف ہوں، اور انگوٹھے کو مسواک کے برش والے حصے کی جانب رکھے اور چھنگلی کی پشت کو دوسری جانب کے آخر میں اوردوسری انگلیاں ان کے درمیان میں اُوپر کی جانب رہیں۔
(ہندیہ1/7)
مسواک کرنے کی کیفیت یہ ہے کہ دانتوں اور تالو پر مسواک کی جائے اور داہنی طرف کے دانتوں سے ابتدا ہو، اس کی صورت یہ ہے کہ پہلے مسواک اوپر کے جبڑے میں داہنی طرف کی جائے، پھر اوپر کی بائیں جانب، اس کے بعد نیچے کے جبڑے میں داہنی طرف اور پھر بائیں طرف کرنا چاہیے۔(کبیری)، اور بعض علماءنے یہ طریقہ لکھا ہے کہ :پہلے دائیں جانب اوپر نیچے مسواک کرے، پھر بائیں جانب اوپر نیچے، پھر ان دانتوں پر مسواک کرے جو داہنی اور بائیں جانب کے درمیان ہیں(شرح السنۃ)، اور کم از کم تین مرتبہ اوپر اور تین مرتبہ نیچے، تین بار پانی لے کر مسواک کی جائے۔
مسواک چوڑائی میں یعنی دائیں سے بائیں طرف کرنی چاہیے، طول (لمبائی) میں مسواک کرنا بہتر نہیں، اس لیے کہ اس سے مسوڑھوں کے زخمی ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے، بعض حضرات فرماتے ہیں دونوں طرح کرسکتے ہیں، ان دونوں میں تطبیق یوں دی گئی ہے کہ دانتوں میں چوڑائی میں کی جائے اور زبان پر لمبائی میں کی جائے۔
(شامی۔1/114)
’حجۃ اللّٰہ البالغہ‘‘ میں حضرت شاہ ولی اللہ ؒنے لکھا ہے کہ آدمی کے لیے مناسب ہے کہ مسواک کو منہ کی انتہائی اور آخری حصوں تک پہنچائے؛ تاکہ سینہ اور حلق کا بلغم ختم ہوجائے۔ اور خوب اچھی طرح مسواک کرنے سے قلاح جو منہ کی ایک بیماری ہے دور ہوجاتی ہے، آواز صاف اور منہ کی بو عمدہ ہوجاتی ہے۔
(حجۃ اللّٰہ البالغہ : 1/310)۔
فقط واللہ اعلم
ملاعلی قاری فرماتے ہیں کہ مسواک میں ستر فوائد ہیں، ان میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی برکت سے موت کے وقت کلمہ یاد آجاتا ہے، اس کے برعکس افیون میں ستر نقصانات ہیں، ان میں سے کم تر نقصان یہ ہے کہ موت کے وقت کلمہ یاد نہیں آتا۔ (مرقاة المفاتیح:3/2)
مسواک کے اخروی فوائد ٭…رب کی خوش نودی کا ذریعہ ہے۔ ٭… فرشتے اس سے خوش ہوتے ہیں۔ ٭…اتباع نبی صلی الله علیہ وسلم ہے۔ ٭… نماز کے ثواب کو بڑھاتی ہے۔ ٭… شیطانی وسوسے دور ہو جاتے ہیں۔ ٭… قبر میں مونس ہے۔ ٭…اس کی برکت سے قبر وسیع ہو جاتی ہے۔ ٭… موت کے وقت کلمہ یاد دلاتی ہے۔ ٭… جسم سے روح سہولت سے نکلتی ہے۔ ٭…فرشتے مصافحہ کرتے ہیں۔ ٭… قلب کی پاکیزگی ہوتی ہے۔ ٭…مسواک کرنے والے کے لیے حاملین عرش استغفار کرتے ہیں۔ ٭…مسواک کرنے والے کے لیے انبیا علیہم السلام بھی استغفار کرتے ہیں۔ ٭… مسواک کے ساتھ وضو کرکے نماز کو جائیں فرشتے پیچھے چلتے ہیں۔ ٭…شیطان اس کی وجہ سے دور اور ناخوش ہوتا ہے۔ ٭…مسواک کا اہتمام کرنے والا پل صراط سے بجلی کی طرح گزرے گا۔ ٭…اطاعت خداوندی پر ہمت اور قوت نصیب ہوتی ہے۔ ٭…نزع میں جلدی ہوتی ہے۔ ٭… جنت کے دروازے اس کے لیے کھل جاتے ہیں۔ ٭…دوزخ کے دروازے اس پر بند کر دیے جاتے ہیں۔ ٭… ملک الموت اس کی روح نکالنے کے لیے اسی صورت میں آتے ہیں جس طرح اولیاء الله اور انبیاء علیہ السلام کے پاس آتے۔ ٭…دنیا سے رخصت ہوتے وقت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے حوض کوثر کی رحیق مختوم پینے کا شرف حاصل ہوتا ہے۔
مسواک کے دنیوی فوائد ٭…منھ کی پاکیزگی۔ ٭…موت کے علاوہ ہر مرض کی شفا۔ ٭…نگاہ کی روشنی بڑھاتی ہے۔ ٭…مسوڑھوں کو مضبوط کرتی ہے۔ ٭…بلغم کو دور کرتی ہے۔ ٭…جسم کو تن درست رکھتی ہے۔ ٭…حافظہ کو قوی کرتی ہے۔ ٭… بال اُگاتی ہے۔ ٭… جسم کارنگ نکھارتی ہے۔ ٭… اس پر مداومت سے غربت دور ہوتی ہے۔ ٭… زبان کی فصاحت ودانش بڑھتی ہے۔ ٭… کھانا ہضم کرتی ہے ۔ ٭…منی کی افزائش ہوتی ہے۔ ٭…بڑھاپا جلد آنے نہیں دیتی۔ ٭… کمر کو قوی کرتی ہے۔ ٭… عقل کو تیز کرتی ہے۔ ٭… چہرہ کو بارونق بناتی ہے۔ ٭… درد سر کو دور کرتی ہے۔ ٭… فاضل رطوبات کا ازالہ واخراج کر دیتی ہے۔ ٭…داڑھ کے درد کو دفع کرتی ہے۔ ٭…دانتوں کو چمک دار بناتی ہے۔ ٭…اس کی برکت سے حصول رضا میں آسانی ہوتی ہے۔ ٭…کثرت اولاد کا باعث ہے۔ ٭… قضائے حوائج میں سہولت اورمدد دیتی ہے۔
(بحوالہ انوار الباری:109-189/6)
الله تعالیٰ تمام مسلمانوں کو دیگر سنتوں کے ساتھ مسواک کی سنت کو بھی زندہ کرنے کی توفیق نصیب فرمائے # نقشِ قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے الله سے ملاتے ہیں سنت کے راستے