Saturday, 30 March 2013

شیطان کا تعارف، کام، ارادے وخواہش، اولاد اور مددگار



علوم قرآن والتفسیر کے امام الراغب الاصفہانیؒ(م502ھ) لکھتے ہیں:

شطن
اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنیٰ دور ہونے کے ہیں۔ اور بئر شَطُونٌ (یعنی بہت گہرا کنواں) ، اور شطنت الدار(یعنی گھر کا دور ہونا)، اور غربة شَطُونٌ (یعنی بطن سے دوری) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں۔
بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنیٰ غصہ سے جلنے سوختہ ہوجانے کے ہیں۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت:۔
وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ 
اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا۔
[سورۃ الرحمن:15]
سے معلوم ہوتا ہے۔
ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سرکش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے۔
قرآن میں ہے:۔
شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ
شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو
[سورۃ الأنعام:112]

[المفردات في غريب القرآن: صفحہ454]






ابلیس ( ب ل س )
الابلاس (افعال) کے معنیٰ سخت نا امیدی کے باعث غمگین ہونے کے ہیں ۔ ابلیس وہ مایوس ہونے کی وجہ سے مغمون ہوا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسی سے ابلیس مشتق ہے۔
قرآن میں ہے:
وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ
اور جس دن قیامت بر پا ہوگی گنہگار مایوس مغموم ہوجائیں گے۔
[سورۃ الروم:12]
أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ
تو ہم نے ان کو نا گہاں پکڑلیا اور وہ اس میں وقت مایوس ہوکر رہ گئے۔
[سورۃ الأنعام:44]
وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ
اور بیشتر تو وہ مینہ کے اترنے سے پہلے ناامید ہو رہے تھے۔
[سورۃ الروم:49]
اور عام طور پر غم اور مایوسی کی وجہ سے انسان خاموش رہتا ہے اور اسے کچھ سوجھائی نہیں دیتا اس لئے ابلس فلان کے معنیٰ خاموشی اور دلیل سے عاجز ہونے کے ہیں۔
[المفردات في غريب القرآن: صفحہ143]







شیطان کو کسی کی یادداشت میں خلل ڈالنے کا اختیار حاصل ہے جس کے ذریعہ وہ کسی کو کسی اہم بات سے بھلا دیتا ہے اور غافل کردیتاہے ۔جیسا کہ اس نے حضرت موسی علیہ السلام کو خضر علیہ السلام سے ملنے کی جگہ بھلادیا جبکہ وہاں پہ بھنی ہوئ مچھلی تھیلہ سے باہر نکل کر پانی کو چیرتے ہوئے نظر سے اوجھل ہوگئی۔
[سورۃ الانعام 68]

شیطان کی خصوصیات اور اس کی قوتیں:

اس کا سر شاخوں شگوفوں والا ہے
[صافات:65]
شیطان اللہ کی بات ماننے سے روک سکتا ہے جیسا کہ اس نے حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ کیا
[البقرہ:36]
مفلسی سے ڈراتا ہے اور فحش کام کا حکم دیتا ہے
[البقرہ:268]
باولا بنا ڈالتا ہے
[البقرہ:275]
قدم ڈگمگا دیتا ہے
[آل عمران:155]
اپنے دوستوں[پرستاروں، اولیاء] کو ڈراتا ہے۔
[آل عمران:175]
وعدہ کرتا ہے اور امید دلاتا ہے
[النساء:120]
انسان کے برے اعمال کو مزین کرتا ہے
[الانعام:43]
شیطان بھلانے کی صلاحیت رکھتاہے
[الانعام:68]
وسوسہ ڈالتا ہے
[الاعراف:20]
اکساتا ہے
[المائدہ:200]
نجاست [شرک] میں مبتلا کرتا ہے
[الانفال:11]
اپنے رب کا ناشکرا ہے
[بنی اسرائیل 27]
لوگوں کو ناشکرا بننے کا حکم دیتا ہے
[الحشر:16]
شیطان رحمن کا نافرمان ہے
[مریم:44]
دھوکے باز ہے
[الفرقان:29]
شیطان اپنی تدبیر سے کسی کا قتل کروا سکتاہے جیسا کہ حضرت موسی علیہ السلام اپنے ہاتھ سے ہوئے قتل کو عمل شیطان کہا [قصص 15]جھوٹی توقعات کے ذریعہ ارتدا کا راستہ آسان کرتاہے
[محمد:25]
مسلط ہوجاتا ہے
[المجادلہ:19]
باغی ہے
[النساء:117]
جعل سازوں پہ اترتا ہے[افاک اثیم]
[الشعراء:222]
شیطان اپنے ولیوں کو جھگڑنے کیلئے وحی کرتاہے [دل میں بات ڈالتاہے ]
[الانعام:121]




منصب نبوت اور شیطان کا تعلق:
ہر نبی کے دشمن شیاطین الانس والجن رہے ہیں 
[سورۃ الانعام 112]

تمام نبیوں اور رسولوں کی تمنائوں میں شیطان نے ملاوٹ کرنے کی کوشش کی
[سورۃ الحج 52]

شیطانی اعمال
شراب جوا اور پانسہ شیطان کے عمل میں سے ہے۔
[سورۃ المائدہ 90]
نجوی شیطان کی طرف سے ہوتا ہے
[مجادلہ 10]

شیطان کی دلی خواہش
شیطان کی دلی خواہش ہے کہ وہ لوگوں کو گمراہ کر ڈالے
[النساء:60]
اس کی دلی خواہش ہے کہ وہ انسانوں کے درمیاں عداوت اور بغض ڈال دے
[المائدہ:91]


شیطان پرستی کا انجام
شیطان بے ایمان لوگوں کا ولی ہوتا ہے۔
[الاعراف:27]
جو شیطان کو اپنا ولی بنائے گا گھاٹے کا شکار ہوگا۔
[النساء:119]
لوگ شیطان کے رفیق بن جاتے ہیں، اور وہ برارفیق ثابت ہوتا ہے
[النساء:38]
کھلا ہوا دشمن ہے
[الاعراف:22]

شیطان کی اپنی جماعت ہے اور وہ جماعت گھاٹا اٹھانے والی جماعت ہے
[المجادلہ:19]

جو شیطان کی اتباع کریگا تو وہ اسے فحش اور منکر کا حکم دیگا۔
[النور:21]

شرک کرنے سے انسان شیطان کا ولی ہوجاتا ہے
[مریم:45]

تدارک
اللہ تعالی نے بنی نوع آدم سے شیطان کی عبادت نہ کرنے کا عہد لیا ہے
[یسین 60]
شیطان کی عبادت کا مطلب شیطان کے کہے پہ چلنا ہے
[قمر]

اے میرے بیٹے شیطان کی عبادت نہ کرنا
[مریم:44]

قرآن کی تلاوت سے قبل تعوذ پڑھنے کا حکم ہے
[النحل:98]
اسے تعوذ سے بیر ہے۔

مریم علیہ السلام کی ماں نے اللہ کی پناہ طلب کی مریم کیلئے اور ان کی ذریت کیلئے
[آل عمران:36]
اللہ کی پناہ ضروری ہے۔

شیطان کے خطوات کی اتباع سے منع کیا گیا ہے
[البقرہ:168]

جو رحمن کے ذکر سے غافل ہوتا ہے اللہ تعالی اس پہ شیطان کو مسلط کردیتا ہے اور وہ اس کا رفیق بن جاتا ہے
[الزخرف:36]
رحمن کا ذکر معاون ہے۔

شیطان کے اولیاء سے قتال کا حکم ہے
[النساء:76]

تاروں سے شیاطین کو رجم کیا جاتا ہے
[الملک:5]








شیطانی تہذیب کا جبر اور اصلاحِ معاشرہ


 

                اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی ہر تخلیق کو عمدہ ترین طریقہ پر پیدا کیا۔ کائنات کا ایک ایک ذرّہ اوراس میں کارفرما قوتیں اور طبعی و فطری قوانین اللہ احسن الخالقین کے احکامات میں بندھے ہوئے ہیں۔ ہاں اس کی سب سے اشرف واحسن تخلیق جس کو اس نے اپنے ہاتھ سے تخلیق کرنے ”خلقتُ بِیَدِی“ کا شرف بخشا اسے ضرور یہ چھوٹ ملی کہ ”اِما شاکِرًا واِمّا کفورًا“ چاہے تو اطاعت کرے اور چاہے روگردانی کرے اور اللہ کی کائنات میں فساد پیدا کرے۔ اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ فساد چاہے وہ کائنات میں ہو اور چاہے انسانی معاشرہ میں وہ اللہ کو پسند نہیں ہے۔ اپنی کائنات میں اطاعت اور اصلاح کو اللہ پسند فرماتے ہیں اسی کے لئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے انبیاء کرام کا سلسلہ جاری فرمایا؛ مگر چونکہ یہ دنیا دارالامتحان اور آزمائش اور کشمکش کا میدان ہے یہاں پر بدی کی قوتوں کو شیطان اور اس کے حمایتیوں کی طرف سے قوت پہنچانے کی چھوٹ بھی اللہ عادل ومنصف نے دے رکھی ہے۔ انسانی تاریخ کے ہر دور میں بلکہ اگر غور کریں تو قصہٴ ہبوط آدم میں تو ملاء اعلیٰ میں بھی شیطانی قوتوں کو اللہ تعالیٰ کے عادل ہونے کی صفت کے تحت آزادی ملی ہوئی ہے کہ وہ کائنات میں ہرممکن طریقہ سے فساد پھیلائیں اور وہ آدم و ہوا کے ہبوط سے لے کر ہابیل و قابیل سے ہوکر آج تک ہر لمحے سرگرم فساد ہے۔ اس کا کام ہی ہے کہ اللہ کے بندوں کو اوپر سے، نیچے سے، دائیں سے، بائیں سے، آگے سے، پیچھے سے، ہر طرف سے بہکائے اور اللہ کے راستہ سے ہٹاکر بغاوت کا راستہ اپنانے پر اکسائے اور نتیجتاً اللہ کی دنیا میں ہر طرح کا فساد فکری فساد، عملی فساد، اخلاقی فساد، جنسی فساد برپا کردے۔ چونکہ جن و انسان کے علاوہ کائنات میں کسی کو بھی ”ارادہ“ کی آزادی حاصل نہیں ہے اس لئے شیطانی طاقتوں اور وساوس کا ان پر زور چل ہی نہیں سکتا صرف انسان ہی ہر لحظہ اس خطرناک ازلی دشمن کی زد پر ہے اور نتائج بھی سامنے ہیں۔

                اسلام جب اور جہاں مکمل طورپر نافذ ہوتا ہے وہاں شیطانی قوتوں کو کچل کر رکھا جاتا ہے یہ کام حکومت اپنے تمام اداروں کے ساتھ مل کر کرتی ہے۔ مگر جب سے دنیا میں یہ فریضے ”امر بالمعروف و نہی عن المنکر“ ”نیکیوں کا حکم اور برائیوں سے روکنے“ ادا کرنا برائے نام اور لولا، لنگڑا ہوگیا ہے شیطانی قوتوں کا ہر طرف غلبہ ہوگیا ہے۔ دنیا کی مومن اور غیرمومن آبادی کی اکثریت کے قلوب واذہان شیطانی افکار سے مرعوب ہیں اور ان سے شیطانی اعمال ظاہر ہوکر فساد فی الارض کا باعث ہورہے ہیں۔ تاریخ انسانی کااتنا ہمہ گیر اور طاقتور فکری بگاڑ کبھی نہیں ہوا ہوگا جتنا ۳۰۰ سال قبل امت مسلمہ کے داخلی انتشار اور فکری ضعف کی بناء پر اور مغرب کے مسخ شدہ مذہبی عقائد کے رد عمل کے طور پر خدا کے انکار یا معاذ اللہ خدا کی تذلیل اور کائنات سے خدا کی ”بیدخلی“ جیسے شیطانی افکار کے اظہار کے طور پر ہوا۔ جب عوام کی یہ فکر بنائی گئی کہ مذہب استیصال کا ذریعہ ہے یہ لوگوں کو بے وقوف بناکر کم عقل بناتا ہے اور انسان کی ترقی کے لئے مذہب نہیں عقل کی ضرورت ہے اور انسانی زندگی کے معاملات میں اِلٰہی ہدایت اور رہنمائی کا کوئی مقام نہیں ہے۔ اس فلسفہ کے تحت وجود میں آنے والے معاشرہ اور ممالک نے دنیا میں بظاہر جو چمک دمک اور ٹکنالوجی کی ترقی کی اس نے مذہب پسند طبقہ تک پر بھی محسوس یا غیرمحسوس طریقہ پر یہ اثر چھوڑا کہ مذہب چند عبادات یا اللہ سے تعلق کی چند رسومات کا نام تو ہوسکتا ہے مگر وہ تمام انسانی معاملات اور معاشرہ کی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتا۔ وہ اِس کا اہل نہیں ہے؛ بلکہ الٹا اس کی پابندی سے انسانی ترقی رک جائے گی؟ اب دنیا بھر میں عوام کی اکثریت عملاً اِسی فلسفہ کو طوعاً اور کرہاً جانتی ہے اور عمل کرتی ہے۔ خدا کے بجائے مادہ انسان کا مطلوب و مقصود ہے۔ خدا پرستی کی جگہ مادہ پرستی نے لے لی ہے اور انسانی سماج اور حکومتی اداروں کے جبر اور مجبوریوں میں ایسا پس رہا ہے کہ وہ چاہ کر بھی معاشرہ میں پھیلے فساد کے ماحول کے خلاف نہیں چل پارہا ہے۔ وہ شرک کو برا سمجھتا ہے مگر عملاً شرک کرتاہے وہ ظلم کو برا سمجھتا ہے، قتل ، زنا ، رشوت، بے حیائی، عریانی کو برا سمجھتا ہے مگر باہر نہیں نکل سکتا؛ کیونکہ برائی بہت ہمہ گیر ہے اس نے سماج کے ہر ادارہ انسان، خاندان، محلہ، شہر، حکومت، پولیس، اساتذہ، قانون ساز عدلیہ سب کو چنگل میں جکڑ رکھا ہے۔ اتنے سخت حالات میں فکری، معاشرتی، اخلاقی اصلاح کی بات کرنا ایک ناممکن کام ہی لگتا ہے۔ خصوصاً ان حالات میں جب کہ اہل اقتدار اوراہل فکر اصحاب خود ہی برائیوں کا حکم دے رہے ہوں اور بھلائیوں سے روک رہے ہوں تب کامیابی کی کیا صورت نظر آتی ہے؟ اور شاید یہ بھی ایک شیطانی وسوسہ ہی ہے کہ مومن جو کچھ فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ادا کرسکتا ہو اسے بھی نہ ادا کرے جبکہ شریعت نے مومنین مصلحین کا اجر ان کے کام کے نتائج سے مشروط نہیں کیاہے بلکہ کام کی کمیت اور کیفیت سے مشروط کیا ہے تو یہ طے ہے کہ معاشرہ کی فکری اور عملی اصلاح کا کام جس قدر بھی منظم اور موثر انداز میں ہوسکے ہونا ضروری ہے۔کہ کم سے کم ”معذرَةً“ اِلیٰ ربکم ولعلہم یتقون کے مصداق آخرت کی پکڑ اور دنیا کے عمومی عذاب سے بچا جاسکے۔

                آج کی دنیا میں انسانی فکر بنانے کا ہر ادارہ عملاً اللہ سے بغاوت یا دوری ہی بنانے کا کام کررہا ہے۔ گھر، ماں، باپ، گھر کا ماحول، محلہ، اسکول، ٹی وی، اخبار، دوست و احباب سب کسی فکر کے حامل ہیں۔ آنکھ کھولتے ہی بچہ ٹی وی دیکھتا ہے جس کی بنیاد ہی حرص، ہوس، زرپرستی اور بے حیائی پر ہے اُس کے بعداسکول کا ماحول وہاں پروان چڑھنے والی ذہنیت جو انہیں پہلے دن سے ہی پڑھ لکھ کر اونچا عہدہ حاصل کرنے کا مقصد تھماتی ہے اور دوستوں کی دنیا جوانی کے مخصوص مزاج کی بدولت انہیں اور زیادہ مادہ پرست اور انسانیت سے دور کرتا جاتاہے۔ آج کے کھلے پن، صارفیت پسند تہذیب، روشن خیالی کے دور میں سماج کی لگام چند سرمایہ داروں کے پاس مرتکز ہوتی جارہی ہے جن کے پاس صرف ایک مقصد ہے انسانوں کو خواہشات کا غلام بناکر ان کی جیب سے زیادہ سے زیادہ پیسہ نکالنا اور بس۔ اس ہمہ گیر فساد کے ماحول میں کوئی بھی شارٹ کٹ اور پیوندکاری مطلوبہ اصلاح نہیں حاصل کرسکتی کیونکہ قوت کے سرچشموں پر شیطانی فکر رکھنے والوں کا غلبہ ہے اور وہ اصلاح کی کسی بھی سنجیدہ کوشش کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ایسے میں امت مسلمہ کو اپنا منصب خیر امت دوبارہ زندہ کرناہوگا تاکہ انسانیت کے گلستاں میں پھر بہار آئے، پھر توحید و انصاف، امن ومحبت کا دور دورہ ہو۔

                فکری تبدیلی کے بغیر کوئی بھی عملی تبدیلی یا اصلاح ممکن نہیں ہے۔ قرآنِ پاک تمام انسانیت کی تعمیری تبدیلی کا نسخہ ہے۔ اس کی تعلیمات کو گھر گھر، محلہ محلہ، مسجد مسجد شروع کیے بغیرکسی بھی عملی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔ اعمال افکار کے کنٹرول میں ہوتے ہیں۔ قرآن کے ذریعہ فکرسازی کئے بغیر خصوصاً نوجوانوں (لڑکے لڑکیوں) اور خواتین میں کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت قرآن پڑھنا ہی نہیں جانتی اور جوجانتی ہے وہ اس کے پیغام رشد وہدایت سے بے خبر ہے۔ اگر ہم بے لاگ طریقہ سے جائزہ لیں تو ہم دیکھیں گے کہ شہر یاآبادی کی سیکڑوں مساجد میں کہیں بھی قرآن کی تعلیمات کی تفہیم اور تذکیر کا اہتمام نہیں ہے تو گھروں کا کیا حال ہوگا؟ جبکہ شیطانی فکر کی ہمہ گیری کا حال بھی ہمارے سامنے ہے تو قرآن کے افکار کو عام کئے بغیر کسی اصلاح کی بات کرتے رہیں۔ کیا یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ممکن ہوا؟ کیا بعد کے ادوار میں قرآنی فکر عام کئے بغیر کوئی پائیدار تبدیلی ممکن ہوئی؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قطعی طور پر آگاہ کردیا ہے کہ ”اس امت کی اخیر کی اصلاح بھی اسی کے ذریعہ ممکن ہے جس کے ذریعہ امت کے ابتداء کی ہوئی تھی یعنی قرآن حکیم“ حضرت علی ابن ابی طالب بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ”عنقریب کچھ فتنہ برپا ہونگے میں نے پوچھا ان سے نکلنے کا راستہ کیا ہے آپ نے جواب دیا کتاب اللہ۔ جس میں تم سے پہلے کے لوگوں کی سرگذشت ہے تمہارے بعد کے لوگوں کی خبر ہے تمہارے باہمی اختلاف کا فیصلہ ہے جو قولِ فیصل ہے ہنسی مذاق نہیں ہے یہ وہ کتاب ہے جسے جس زورآور نے چھوڑا اللہ نے اس کی کمرتوڑ دی جس نے اس کے علاوہ کہیں اورہدایت طلب کی اللہ نے اسے گمراہ کردیا یہ اللہ کی مضبوط رسّی ہے۔ یہ وہ کتاب ہے کہ اس سے خواہشات میں کجی نہیں پیدا ہوتی․․ (بروایت ترمذی باب فضائل القرآن، دارمی اور ابن ابی شیبہ)

                اور جب حضرت حذیفہ بن یمان نے آپ سے پوچھا کہ کیااس وقت ہم جس چیز سے ہمکنار ہیں اس کے بعدکوئی شر آنے والا ہے جس سے ہمیں بچنا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ”اے حذیفہ تو کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھام رکھ اس کا علم حاصل کر اور جو کچھ اُس میں ہے اس کی پیروی اختیار کر“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہ بات دہرائی۔

                سماج کے ہر طبقہ کے لئے مساجد مساجد قرآنی تعلیمات کو عام کرنے (مستدرک حاکم) کا نظم اصلاح کی کسی بھی کوشش کی بنیاد کا پتھر ہے۔ اس کے لئے محلہ، گھر، مسجد، مکتب، اسکول، کالج، ہاسٹل، لائبریری، Audio-Visual ہر ذریعہ کا سہارا لینا ہوگا۔ نوجوانوں کے لئے شبینہ قرآن کلاس اور طلباء کے لئے سمر قرآن کلاں Summer Quran Clan کے نتائج حیرت انگیز ہوسکتے ہیں۔

                (۲) ذرائع تفریح کا میدان فکری تیاری کے لئے بہت وسیع ہے۔ ملکی طور پر نہ سہی مگر کل ملاکر انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعہ صحت مند تفریحی مواد طلباء وطالبات اور نوجوانوں و عام عوام تک پہنچانا ضروری ہے۔ اس کے نہ ہونے کی صورت میں امت مسلمہ کی اکثریت ذریعہ تفریح کے عوامی ذرائع کا شکار ہوکر خلافِ اسلام انکار واعمال کا شکار ہورہا ہے۔ ذریعہ تفریح کے ذریعہ سب سے زیادہ نوجوان نسل کا ذہن متاثر کیاجارہا ہے۔ ہر گاؤں یا شہر کی مرکزی آبادی میں ایک اسلامی اطلاعاتی یا ثقافتی مرکز کا قیام جہاں Computer ہو اور آڈیو ویڈیو C.D.S کا ذخیرہ بھی ہو اس کو Cable کے ذریعہ نشر بھی کروایا جاسکتا ہے۔ اور گھروں کے لئے بھی دیا جاسکتا ہے۔ اس کا مرکزی نظم کسی بھی معتبر ادارہ کے سپرد کیاجاسکتاہے۔

(۳)         ملکی اور علاقائی ثقافی اجتماعات

                ملک کے کونے کونے میں علاقائی زبانوں میں ثقافتی اجتماعات منعقد ہوں، جن میں ادب، تاریخ، طنزومزاح اور کھیل کود کے اجتماعات منعقد کرائے جائیں اور ان کو صحت مند ذرائع تفریح کے ذریعہ اصلاح کے لئے تیار کیا جائے؛ بلکہ بگاڑ کی نوبت ہی نہ آنے دی جائے۔ نئی نسل کو کرکے بتایا جائے کہ واقعتا اسلام ایک مکمل نظام ہے۔

                (۴) امر بالمعروف ونہی عن المنکر: ملت میں یہ کام کیسے ہو اس پر کافی اختلاف رہا ہے، مگر کم از کم معاشرتی روک ٹوک کا اخلاقی نظام بنانا ضروری ہے۔ اصلاً یہ کام اقتدار کا ہے، مگر اس وقت تو اقتدار اشاعت منکرات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ایسے میں کم سے کم ”نصیحت“ اور ”تذکیر“ کے ذریعہ اس بنیادی فریضہ کی ادائیگی کی شکل عمل میں لانی ضروری ہے، جو محلہ اور گاؤں میں ایک ”اجتماعی، مربیّ“ کا رول ادا کرسکے۔ اور آبادی میں منکرات کے پھیلاؤ پر نظر رکھے۔

                (۵) حکومت کے ذریعہ زنا، بے حیائی، قتل، لوٹ مار، نشہ آور ادویہ کی فروخت اور فحش لٹریچر اور پروگراموں کے خلاف غیرمسلم بھائیوں کے ساتھ مل کر مہم چلانی چاہئے، تاکہ نیکی اور بھلائی کا عام ماحول بن سکے۔

$ $ $

---------------------------------


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے صدقہ فطر کی حفاظت پر مقرر فرمایا۔ پھر ایک شخص آیا اور دونوں ہاتھوں سے (کھجوریں) سمیٹنے لگا۔ میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کروں گا۔ پھر انہوں نے یہ پورا قصہ بیان کیا (مفصل حدیث اس سے پہلے کتاب الوکالۃ میں گزر چکی ہے) (جو صدقہ فطر چرانے آیا تھا) اس نے کہا کہ جب تم رات کو اپنے بستر پر سونے کے لیے جاؤ تو آیت الکرسی پڑھ لیا کرو، پھر صبح تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری حفاظت کرنے والا ایک فرشتہ مقرر ہو جائے گا اور شیطان تمہارے پاس بھی نہ آ سکے گا۔ (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات آپ سے بیان کی تو) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے تمہیں یہ ٹھیک بات بتائی ہے اگرچہ وہ بڑا جھوٹا ہے، وہ شیطان تھا۔
[صحيح البخاري:5010]




وَإِذا لَقُوا الَّذينَ ءامَنوا قالوا ءامَنّا وَإِذا خَلَوا إِلىٰ شَيٰطينِهِم قالوا إِنّا مَعَكُم إِنَّما نَحنُ مُستَهزِءونَ {2:14}

اور جب ملاقات کرتے ہیں مسلمانوں سے تو کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے ہیں اور جب تنہا ہوتے ہیں اپنے شیطانوں کے پاس [۲۱] تو کہتےہیں کہ بیشک ہم تمہارے ساتھ ہیں [۲۲] ہم تو ہنسی کرتے ہیں [۲۳] (یعنی مسلمانوں سے )

یعنی کفر و اعتقاد دین کے معاملے میں ہم بالکل تمہارے ساتھ ہیں تم سے کسی حالت میں جدا نہیں ہو سکتے۔

یعنی ظاہر ی موافقت جو ہم مسلمانوں سے کرتے ہیں اس سے یہ نہ سمجھنا کہ ہم واقعی میں اُن کے موافق ہیں ہم تو اُن سے تمسخر کرتے ہیں اور اُن کی بیوقوفی سب پر ظاہر کرتے ہیں کہ باوجودیکہ ہمارے افعال ہمارے اقوال کے مخالف ہیں مگر وہ اپنی بیوقوفی سے صرف ہماری زبانی باتوں پر ہم کو مسلمان سمجھ کر ہمارے مال اور اولاد پر ہاتھ نہیں ڈالتے اور مال غنیمت میں ہم کو شریک کر لیتے ہیں اور اپنی اولاد سے ہمارا نکاح کر دیتے ہیں اور ہم اُن کے راز کی باتیں اڑا لاتے ہیں اور وہ اس پر بھی ہمارے فریب کو نہیں سمجھتے۔

شیاطین (یعنی شریر لوگ) مراد ان سے یا تو وہ کفار ہیں جو اپنے کفر کو سب پر ظاہر کرتے تھے یا وہ منافقین مراد ہیں جو ان میں رئیس سمجھے جاتے تھے۔

 

فَأَزَلَّهُمَا الشَّيطٰنُ عَنها فَأَخرَجَهُما مِمّا كانا فيهِ ۖ وَقُلنَا اهبِطوا بَعضُكُم لِبَعضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُم فِى الأَرضِ مُستَقَرٌّ وَمَتٰعٌ إِلىٰ حينٍ {2:36}

پھر ہلا دیا انکو شیطان نے اس جگہ سے پھر نکالا انکو اس عزت و راحت سے کہ جس میں تھے [۵۷] اور ہم نے کہاتم سب اترو تم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے [۵۸] اور تمہارے واسطے زمین میں ٹھکانا ہے اور نفع اٹھانا ہے ایک وقت تک [۵۹]

اس خطا کی سزا میں حضرت آدمؑؐ اور حوا اور جو اولاد پیدا ہونے والی تھی سب کی نسبت یہ حکم ہوا کہ بہشت سے زمین پر جا کر رہو باہم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے جس کی وجہ سے تکلیفیں پیش آئیں گی ۔ بہشت دارالعصیان اور دارالعداوۃ نہیں ان امور کے مناسب دار دنیا ہے جو تمہارے امتحان کے لئے بنایا گیا ہے۔

یعنی دنیا میں ہمیشہ نہ رہو گے بلکہ ایک وقت معین تک وہاں رہو گے اور وہاں کی چیزوں سے بہرہ مند ہو گے اور پھر ہمارے ہی روبرو آؤ گے اور وہ وقت معین ہر ہر شخص کی نسبت تو اس کی موت کا وقت ہے اور تمام عالم کے حق میں قیامت کا۔

کہتے ہیں کہ حضرت آدمؑ اور حوا بہشت میں رہنے لگے اور شیطان کو اس کی عزت کی جگہ سے نکال دیا شیطان کو اور حسد بڑھا بالآخر مور اور سانپ سے مل کر بہشت میں گیا اور بی بی حوا کو طرح طرح سے ایسا پھسلایا اور بہکایا کہ انہوں نے وہ درخت کھا لیا اور حضرت آدمؐ کو بھی کھلایا اور ان کو یقین دلا دیا تھا کہ اس کے کھانے سے اللہ کے ہمیشہ کو مقرب ہو جاؤ گے اور حق تعالیٰ نے جو ممانعت فرمائی تھی اس کی تو جہیہ گھڑ دی۔ آئندہ یہ قصہ مفصل آئے گا۔


 

وَاتَّبَعوا ما تَتلُوا الشَّيٰطينُ عَلىٰ مُلكِ سُلَيمٰنَ ۖ وَما كَفَرَ سُلَيمٰنُ وَلٰكِنَّ الشَّيٰطينَ كَفَروا يُعَلِّمونَ النّاسَ السِّحرَ وَما أُنزِلَ عَلَى المَلَكَينِ بِبابِلَ هٰروتَ وَمٰروتَ ۚ وَما يُعَلِّمانِ مِن أَحَدٍ حَتّىٰ يَقولا إِنَّما نَحنُ فِتنَةٌ فَلا تَكفُر ۖ فَيَتَعَلَّمونَ مِنهُما ما يُفَرِّقونَ بِهِ بَينَ المَرءِ وَزَوجِهِ ۚ وَما هُم بِضارّينَ بِهِ مِن أَحَدٍ إِلّا بِإِذنِ اللَّهِ ۚ وَيَتَعَلَّمونَ ما يَضُرُّهُم وَلا يَنفَعُهُم ۚ وَلَقَد عَلِموا لَمَنِ اشتَرىٰهُ ما لَهُ فِى الءاخِرَةِ مِن خَلٰقٍ ۚ وَلَبِئسَ ما شَرَوا بِهِ أَنفُسَهُم ۚ لَو كانوا يَعلَمونَ {2:102}

اور پیچھے ہو لئے اس علم کے جو پڑتے تھے شیطان سلیمان کی بادشاہت کے وقت [۱۴۸] اور کفر نہیں کیا سلیمان نے لیکن شیطانوں نے کفر کیا کہ سکھلاتے تھے لوگوں کو جادو اور اس علم کے پیچھے ہو لئے جو اترا دو فرشتوں پر شہر بابل میں جن کا نام ہاروت اور ماروت ہے اور نہیں سکھاتے تھے وہ دونوں فرشتے کسی کو جب تک یہ نہ کہدیتے کہ ہم تو آزمائش کے لئے ہیں سو تو کافر مت ہو پھر ان سے سیکھتے وہ جادو جس سے جدائی ڈالتے ہیں مرد میں اور اسکی عورت میں اور وہ اس سے نقصان نہیں کر سکتے کس کا بغیر حکم اللہ کے اور سیکھتے ہیں وہ چیز جو نقصان کرے ان کا اور فائدہ نہ کرے اور وہ خوب جان چکے ہیں کہ جس نے اختیار کیا جادو کو نہیں اس کے لئے آخرت میں کچھ حصہ اور بہت ہی بری چیز ہے جسکے بدلے بیچا انہوں نے اپنے آپکو اگر ان کو سمجھ ہوتی

یعنی ان احمقوں نے کتاب الہٰی تو پس پشت ڈالی اور شیطانوں سے جادو سیکھا اور اسکی متابعت کرنے لگے۔

 

يٰأَيُّهَا النّاسُ كُلوا مِمّا فِى الأَرضِ حَلٰلًا طَيِّبًا وَلا تَتَّبِعوا خُطُوٰتِ الشَّيطٰنِ ۚ إِنَّهُ لَكُم عَدُوٌّ مُبينٌ {2:168}

اے لوگو کھاؤ زمین کی چیزوں میں سے حلال پاکیزہ اور پیروی نہ کرو شیطان کی [۲۳۸] بیشک وہ تمہارا دشمن ہے صریح

اہل عرب بت پرستی کرتے تھے اور بتوں کے نام پر سانڈ بھی چھوڑتے تھے اور اُن جانوروں سے نفع اٹھانا حرام سمجھتے تھے اور یہ بھی ایک طرح کا شرک ہے کیونکہ تحلیل و تحریم کا منصب اللہ کے سوا کسی کو نہیں اس بارہ میں کسی کی بات ماننی گویا اس کو اللہ کا شریک بنانا ہے اس لئے پہلی آیات میں شرک کی خرابی بیان فرما کر اب تحریم حلال سے ممانعت کی جاتی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو کچھ زمین میں پیدا ہوتا ہے اس میں سے کھاؤ بشرطیکہ وہ شرعًا حلال و طیب ہو نہ تو فی نفسہ حرام ہو جیسے مردار اور خنزیر اور { مَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللہِ } (جن جانوروں پر اللہ کے سوا کسی کا نام پکارا جائے اور اس کی قربت مقصود ان جانوروں کے ذبح سے ہو) اور نہ کسی امر عارضی سے اُس میں حرمت آ گئ ہو جیسے غصب چوری رشوت سود کا مال کہ ان سب سے اجتناب ضروری ہے اور شیطان کی پیروی ہر گز نہ کرو کہ جس کو چاہا حرام کر لیا جیسے بتوں کے نام کے سانڈ وغیرہ اور جس کو چاہا حلال کر لیا جیسے { مَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللہِ } وغیرہ۔



 

يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا ادخُلوا فِى السِّلمِ كافَّةً وَلا تَتَّبِعوا خُطُوٰتِ الشَّيطٰنِ ۚ إِنَّهُ لَكُم عَدُوٌّ مُبينٌ {2:208}

اے ایمان والو داخل ہو جاؤ اسلام میں پورے [۲۲۸] اور مت چلو قدموں پر شیطان کے بیشک وہ تمہارا صریح دشمن ہے [۳۲۹]

پہلی آیت میں مومن مخلص کی مدح فرمائی تھی جس سے نفاق کا ابطال منظور تھا اب فرماتے ہیں کہ اسلام کو پورا پورا قبول کرو یعنی ظاہر اور باطن اور عقیدہ اور عمل میں صرف احکام اسلام کا اتباع کرو یہ نہ ہو کہ اپنی عقل یا کسی دوسرے کے کہنے سے کوئی حکم تسلیم کر لو یا کوئی عمل کرنے لگو سو اس سے بدعت کا قلع قمع مقصود ہے کیونکہ بدعت کی حقیقت یہی ہے کہ کسی عقیدہ یا کسی عمل کو کسی وجہ سے مستحسن سمجھ کر اپنی طرف سے دین میں شمار کر لیا جائے مثلًا نماز اور روزہ جو کہ افضل عبادات ہیں اگر بدون حکم شریعت کوئی اپنی طرف سے مقرر کرنے لگے جیسے عید کے دن عیدگاہ میں نوافل کو پڑھنا یا ہزارہ روزہ رکھنا یہ بدعت ہو گا خلاصہ ان آیات کا یہ ہوا کہ اخلاص کے ساتھ ایمان لاؤ اور بدعات سے بچتے رہو چند حضرات یہود سے مشرف با اسلام ہو ئے مگر احکام اسلام کے ساتھ احکام تورات کی بھی رعایت کرنی چاہتے تھے مثلًا ہفتہ کے دن کو معظم سمجھنا اور اونٹ کے گوشت اور دودھ کو حرام ماننا اور تورات کی تلاوت کرنا اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس سے بدعت کا انسداد کامل فرمایا گیا۔

کہ اپنے وسوسہ سے بےاصل چیزوں کو تمہارے دلنشیں کر دیتا ہے اور دین میں بدعات کو شامل کرا کر تمہارے دین کو خراب کرتا ہے اور تم اس کو پسند کرتے ہو۔

 

الشَّيطٰنُ يَعِدُكُمُ الفَقرَ وَيَأمُرُكُم بِالفَحشاءِ ۖ وَاللَّهُ يَعِدُكُم مَغفِرَةً مِنهُ وَفَضلًا ۗ وَاللَّهُ وٰسِعٌ عَليمٌ {2:268}

شیطان وعدہ دیتا ہے تم کو تنگدستی کا اور حکم کرتا ہے بے حیائی کا اور اللہ وعدہ دیتا ہے تم کو اپنی بخشش اور فضل کا اور اللہ بہت کشائش والا ہے سب کچھ جانتا ہے [۴۳۶]

جب کسی کے دل میں خیال آئے کہ اگر خیرات کروں گا تو مفلس رہ جاؤں گا اور حق تعالیٰ کی تاکید سن کر بھی یہی ہمت ہو اور دل چاہے کہ اپنا مال خرچ نہ کرے اور وعدہ الہٰی سے اعراض کر کے وعدہ شیطانی پر طبیعت کو میلان اور اعتماد ہو تو اس کو یقین کر لینا چاہیئے کہ یہ مضمون شیطان کی طرف سے ہے یہ نہ کہے کہ "شیطان کی تو ہم نے کبھی صورت بھی نہیں دیکھی حکم کرنا تو درکنار رہا" اور اگر یہ خیال آوے کہ صدقہ خیرات سے گناہ بخشے جاویں گے اور مال میں بھی ترقی اور برکت ہو گی تو جان لیوے کہ یہ مضمون اللہ کی طرف سے آیا ہے اور خدا کا شکر کرے اور اللہ کے خزانے میں کمی نہیں سب کے ظاہر و باطن، عمل کو خوب جانتا ہے۔





الَّذينَ يَأكُلونَ الرِّبوٰا۟ لا يَقومونَ إِلّا كَما يَقومُ الَّذى يَتَخَبَّطُهُ الشَّيطٰنُ مِنَ المَسِّ ۚ ذٰلِكَ بِأَنَّهُم قالوا إِنَّمَا البَيعُ مِثلُ الرِّبوٰا۟ ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ البَيعَ وَحَرَّمَ الرِّبوٰا۟ ۚ فَمَن جاءَهُ مَوعِظَةٌ مِن رَبِّهِ فَانتَهىٰ فَلَهُ ما سَلَفَ وَأَمرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَن عادَ فَأُولٰئِكَ أَصحٰبُ النّارِ ۖ هُم فيها خٰلِدونَ {2:275}

جو لوگ کھاتےہیں سود نہیں اٹھیں گے قیامت کو مگر جس طرح اٹھتا ہے وہ شخص کہ جس کے حواس کھو دیے ہوں جن نے لپٹ کر یہ حالت انکی اس واسطے ہو گی کہ انہوں نے کہا کہ سوداگری بھی تو ایسی ہی ہے جیسے سود لینا حالانکہ اللہ نے حلال کیا ہے سوداگری اور حرام کیا ہے سود کو [۴۴۴] پھر جس کو پہنچی نصیحت اپنے رب کی طرف سے اور وہ باز آ گیا تو اس کے واسطے ہے جو پہلے ہو چکا اور معاملہ اس کا اللہ کے حوالہ ہے اور جو کوئی پھر سود لیوے تو وہی لوگ ہیں دوزخ والے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے [۴۴۵]

یعنی ربٰو کھانے والے قیامت کو قبروں سے ایسے اٹھیں گے جیسے آسیب زدہ اور مجنون اور یہ حالت اس واسطے ہو گی کہ انہوں نے حلال و حرام کو یکساں کر دیا اور صرف اس وجہ سےکہ دونوں میں نفع مقصود ہوتا ہے دونوں کو حلال کہا حالانکہ بیع اور ربٰو میں بڑا فرق ہے کہ بیع کو حق تعالیٰ نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام ۔ فائدہ بیع میں جو نفع ہوتا ہے وہ مال کے مقابلہ میں ہوتا ہے جیسےکسی نے ایک درہم کی قیمت کا کپڑا دو درہم کو فروخت کیا اور سود وہ ہوتا ہے جس میں نفع بلا عوض ہو جیسے ایک درہم سے دو درہم خرید لیوے اول صورت میں چونکہ کپڑا اور درہم دو جدی جدی قسم کی چیزیں ہیں اور نفع اور غرض ہر ایک کی دوسرے سے علیحدہ ہے اس لئے ان میں فی نفسہ موازنہ اور مساوات غیر ممکن ہے۔ بضرورت خرید و فروخت موازنہ کرنے کی کوئی صورت اپنی اپنی ضرورت اور حاجت کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی اور ضرورت اور رغبت ہر ایک کی ازحد مختلف ہوتی ہے کسی کو ایک درہم کی اتنی حاجت ہوتی ہے اور دس روپیہ کی قیمت کے کپڑے کی بھی اس قدر نہیں ہوتی اور کسی کو ایک کپڑے کی جو بازار میں ایک درہم کا شمار ہوتا ہے اتنی حاجت ہو سکتی ہے کہ دس درہم کی بھی اتنی احتیاج اور رغبت نہیں ہوتی تو اب ایک کپڑے کو درہم میں کوئی خریدے گا تو اس میں سود یعنی نفع خالی عن العوض نہیں اور اگر بالفرض اسی کپڑے کو ایک ہزار درہم کو خریدے گا تو سود نہیں ہو سکتا کیونکہ فی حد ذاتہ تو ان میں موازنہ اور مساوات ہو ہی نہیں سکتی اس کے لئے اگر پیمانہ ہے تو اپنی اپنی رغبت اور ضرورت اور اس میں اتنا تفاوت ہے کہ خدا کی پناہ، تو سود متعین ہو تو کیونکر ہو اور ایک درہم کو دو درہم کے عوض فروخت کرے گا تو یہاں فی نفسہ مساوات ہو سکتی ہے جس کے باعث ایک درہم کے مقابلہ میں معین ہوگا اور دوسرا درہم خالی عن العوض ہو کر سود ہو گا اور شرعًا یہ معاملہ حرام ہو گا۔

یعنی سود کی حرمت سے پہلے تم نے جو سود لیا دنیا میں اس کو مالک کی طرف واپس کرنے کا حکم نہیں دیا جاتا یعنی تم کو اس سے مطالبہ کا حق نہیں اور آخرت میں حق تعالیٰ کو اختیار ہے چاہے اپنی رحمت سے اس کو بخش دے لیکن حرمت کے بعد بھی اگر کوئی باز نہ آیا بلکہ برابر سود لئے گیا تو وہ دوزخی ہے اور خدا تعالیٰ کے حکم کے سامنے اپنی عقلی دلیلوں کو پیش کرنے کی سزا وہی سزا ہے جو فرمائی۔






 

فَلَمّا وَضَعَتها قالَت رَبِّ إِنّى وَضَعتُها أُنثىٰ وَاللَّهُ أَعلَمُ بِما وَضَعَت وَلَيسَ الذَّكَرُ كَالأُنثىٰ ۖ وَإِنّى سَمَّيتُها مَريَمَ وَإِنّى أُعيذُها بِكَ وَذُرِّيَّتَها مِنَ الشَّيطٰنِ الرَّجيمِ {3:36}

پھر جب اس کو جنا بولی اے رب میں نے تو اس کو لڑکی جنی [۵۴] اور اللہ کو خوب معلوم ہے جو کچھ اس نے جنا اور بیٹا نہ ہو جیسی وہ بیٹی [۵۵] اور میں نے اس کا نام رکھا مریم اور میں تیری پناہ میں دیتی ہوں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے [۵۶]

یہ درمیان میں بطور جملہ معترضہ حق تعالیٰ کا کلام ہے۔ یعنی اسے معلوم نہیں کیا چیز جنی۔ اس لڑکی کی قدروقیمت کو خدا ہی جانتا ہے جس طرح کے بیٹے کی اسے خواہش تھی وہ اس بیٹی کو کہاں پہنچ سکتا تھا۔ یہ بیٹی بذات خود مبارک و مسعود ہے اور اس کے وجود میں ایک عظیم الشان مبارک و مسعود بیٹے کا وجود منطوی ہے۔

یہ حسرت و افسوس سے کہا، کیونکہ خلاف توقع پیش آیا۔ اور لڑکی قبول کرنے کا دستور نہ تھا۔

حق تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی۔ حدیث میں ہے کہ آدمی کے بچہ کو ، ولادت کے وقت جب ماں سے جدا ہو کر زمین پر آ رہتا ہے، شیطان مس کرتا ہے۔ مگر عیسٰیؑ و مریم مستثنیٰ ہیں۔ اس کا مطلب دوسری احادیث کے ملانے سے یہ ہوا کہ بچہ اصل فطرت صحیحہ پر پیدا کیا جاتا ہے جس کا ظہور بڑے ہو کر عقل و تمیز آنے کے بعد ہوگا۔ لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی اثرات کے سامنے بسا اوقات اصل فطرۃ دب جاتی ہے جس کو حدیث میں { فاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانَہٖ وَ یُنَصِّرانِہ ٖ} سے تعبیر کیا ہے پھر جس طرح ایمان و طاعت کا بیج اس کے جوہر فطرت میں غیر مرئی طور پر رکھ دیا گیا ۔ حالانکہ اس وقت اس کو ایمان تو کیا، موٹی موٹی محسوسات کا ادراک و شعور بھی نہیں تھا۔ اسی طرح خارجی اثراندازی کی ابتداء بھی ولادت کے بعد ایک قسم کے مس شیطانی سے غیر محسوس طور پر ہو گئ۔ ضروری نہیں کہ ہر شخص اس مس شیطانی کا اثر قبول کرے یا قبول کر لے تو آئندہ چل کر وہ برابر باقی رہے۔ تمام انبیاءؑ کی عصمت کا تکفل چونکہ حق تعالیٰ نے کیا ہے اس لئے اگر فرض کرو ابتدائے ولادت میں یہ صورت ان کو پیش آئی ہو اور مریم و عیسٰیؑ کی طرح اس ضابطہ سے مستثنیٰ نہ ہوں تو اس میں پھر بھی کوئی شبہ نہیں کہ ان مقدس و معصوم بندوں پر شیطان کی اس حرکت کا کوئی مضر اثر قطعًا نہیں پڑ سکتا۔ فرق صرف اتنا ہوگا کہ مریم و عیسٰیؑ کو کسی مصلحت سے یہ صورت سرے سے پیش ہی نہ آئی ہو۔ اوروں کو پیش آئی مگر کوئی اثر نہ ہوا۔ اس قسم کے جزئی امتیازات فضیلت کلی ثابت کرنے کا موجب نہیں ہو سکتے۔ حدیث میں ہے کہ دو بچیاں کچھ اشعار گا رہی تھیں۔ حضور نے ادھر سے منہ پھیر لیا۔ ابوبکرؓ آئے مگر لڑکیاں بدستور مشغول رہیں اس کے بعد عمرؓ آئے، لڑکیاں اٹھ کر بھاگ گئیں، حضور نے فرمایا کہ "عمرؓ جس راستہ پر چلتا ہے شیطان وہ رستہ چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے"۔ کیا اس سے کوئی خوش فہم مطلب لے سکتا ہے کہ رسول اللہ حضرت عمرؓ کو اپنے سے افضل ثابت کر رہے ہیں۔ ہاں ابوہریرہؓ کا مس شیطان کی حدیث کو آیت ہذا کی تفسیر بنانا بظاہر چسپاں نہیں ہوتا الا یہ کہ آیت { وَ اِنِّیْٓ اُعِیْذُ ھَابِکَ } الخ میں واؤ عطف کو ترتیب کے لئے نہ سمجھا جائے۔ یا حدیث میں استثناء سے صرف مسیحؑ کے مریم سے پیدا ہونے کا واقعہ مراد ہو۔ مریم و مسیحؑ الگ الگ مراد نہ ہوں ۔ چنانچہ بخاری کی ایک روایت میں صرف حضرت عیسٰیؑ کے ذکر پر اکتفاء کیا ہے۔ واللہ اعلم۔

 

إِنَّ الَّذينَ تَوَلَّوا مِنكُم يَومَ التَقَى الجَمعانِ إِنَّمَا استَزَلَّهُمُ الشَّيطٰنُ بِبَعضِ ما كَسَبوا ۖ وَلَقَد عَفَا اللَّهُ عَنهُم ۗ إِنَّ اللَّهَ غَفورٌ حَليمٌ {3:155}

جو لوگ تم میں سے ہٹ گئے جس دن لڑیں دو فوجیں سو انکو بہکا دیا شیطان نے ان کے گناہ کی شامت سے اور ان کو بخش چکا اللہ اللہ بخشنے والا ہے تحمل کرنے والا[۲۳۹]

مخلصین سے بھی بعض اوقات کوئی چھوٹا بڑا گناہ سرزد ہو جاتا ہے اور جس طرح ایک طاعت سے دوسری طاعت کی توفیق بڑھتی ہے ایک گناہ کی نحوست سے شیطان کو موقع ملتا ہے کہ دوسری غلطیوں اور لغزشوں کی طرف آمادہ کرے۔ جنگ احد میں بھی جو مخلص مسلمان ہٹ گئے تھے، کسی پچھلے گناہ کی شامت سے شیطان نے بہکا کر ان کا قدم ڈگمگا دیا۔ چنانچہ ایک گناہ تو یہ ہی تھا کہ تیر اندزوں کی بڑی تعداد نے نبی کریم کے حکم کی پابندی نہ کی مگر خدا کا فضل دیکھو کہ اس کی سزا میں کوئی تباہ کن شکست نہیں دی بلکہ ان حضرات پر اب کوئی گناہ بھی نہیں رہا، حق تعالی کلیۃً ان کی تقصیر معاف فرما چکا ہے، کسی کو طعن و ملامت کا حق نہیں۔

 

إِنَّما ذٰلِكُمُ الشَّيطٰنُ يُخَوِّفُ أَولِياءَهُ فَلا تَخافوهُم وَخافونِ إِن كُنتُم مُؤمِنينَ {3:175}

یہ جو ہے سو شیطان ہے کہ ڈراتا ہے اپنے دوستوں سے سو تم ان سے مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو [۲۶۶]

یعنی جو ادھر سے آ کر مرعوب کن خبریں پھیلاتا ہے وہ شیطان ہے یا شیطان کے اغواء سے ایسا کر رہا ہے جس کی غرض یہ ہے کہ اپنے چیلے چانٹوں اور بھائی بندوں کا رعب تم پربٹھلا کر خوفزدہ کر دے، سو تم اگر ایمان رکھتے وہ (اور ضرور رکھتے ہو جس کا ثبوت عملًا دے چکے) تو ان شیطانوں سے اصلًا مت ڈرو صرف مجھ سے ڈرتے رہو کہ ؂ ہر کہ تر سید از حق و تقویٰ گزید تر سید ازو جن و انس و ہر کہ دید۔


 

وَالَّذينَ يُنفِقونَ أَموٰلَهُم رِئاءَ النّاسِ وَلا يُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَلا بِاليَومِ الءاخِرِ ۗ وَمَن يَكُنِ الشَّيطٰنُ لَهُ قَرينًا فَساءَ قَرينًا {4:38}

اور وہ لوگ جو کہ خرچ کرتے ہیں اپنے مال لوگوں کے دکھانے کو اور ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور نہ قیامت کے دن پر اور جس کا ساتھی ہوا شیطان تو وہ بہت برا ساتھی ہے [۷۳]

اور وہ خود پسند متکبر وہ لوگ ہیں کہ اپنا مال لوگوں کےدکھانے کو خرچ کرتے ہیں۔ یعنی اللہ کے لئے خرچ کرنے میں تو خود بھی بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخل کی ترغیب دیتے ہیں لیکن لوگوں کے دکھانے کو اپنا مال خرچ کرتے رہتے ہیں اور ان کو نہ اللہ پر ایمان ہے نہ قیامت کے دن پر کہ حصول رضائے حق تعالیٰ اور تحصیل ثواب اخروی ان کو مقصود ہو۔ اور اللہ کے یہاں مقبول اور پسندیدہ یہ ہے کہ ان حقداروں کو دیا جائے جن کا اول ذکر ہو چکا اور دینے میں اللہ کی خوشنودی اور آخرت کے ثواب کی توقع ہو اس سے معلوم ہو گیا کہ اللہ کی راہ میں جیسا بخل کرنا برا ہے ویسا ہی لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرنا برا ہے اور ایسا کام وہی کرتے ہیں جن کا رفیق شیطان ہے جو ان کو ایسے کام پر آمادہ کرتا ہے۔






 

أَلَم تَرَ إِلَى الَّذينَ يَزعُمونَ أَنَّهُم ءامَنوا بِما أُنزِلَ إِلَيكَ وَما أُنزِلَ مِن قَبلِكَ يُريدونَ أَن يَتَحاكَموا إِلَى الطّٰغوتِ وَقَد أُمِروا أَن يَكفُروا بِهِ وَيُريدُ الشَّيطٰنُ أَن يُضِلَّهُم ضَلٰلًا بَعيدًا {4:60}

کیا تو نے نہ دیکھا ان کو جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ایمان لائے ہیں اس پر جو اترا تیری طرف اور جو اترا تجھ سے پہلے چاہتے ہیں کہ قضیہ لے جائیں شیطان کی طرف اور حکم ہو چکا ہے انکو کہ اس کو نہ مانیں اور چاہتا ہےشیطان کہ ان کو بہلا کر دور جا ڈالے [۱۰۶]

یہود فیصل خصومات میں رعایت و رشوت کے عادی تھے اس لئے جو لوگ جھوٹے اور منافق اور خاین ہوتے وہ اپنا معاملہ یہودیوں کے عالموں کے پاس لے جانا پسند کرتے کہ وہ خاطر کریں گے اور آپ کے پاس ایسے لوگ اپنا معاملہ لانا پسند نہ کرتے کہ آپ حق کی رعایت کریں گے اور کسی کی اصلًا رعایت نہ کریں گے سو مدینے میں ایک یہودی اور ایک منافق کہ ظاہر میں مسلمان تھا کسی امر میں دونوں جھگڑ پڑے یہودی جو سچا تھا اس نے کہا کہ چل محمد کے پاس اور منافق جو جھوٹا تھا اس نےکہا کہ چل کعب بن اشرف کے پاس جو یہودیوں میں عالم اور سردار تھا۔ آخر دونوں آپ کی خدمت میں جھگڑا لے کر آئے تو آپ نے یہودی کا حق ثابت فرمایا منافق جو باہر نکلا تو کہنے لگا کہ اچھا حضرت عمرؓ کے پاس چلو جو وہ فیصلہ کر دیں وہی منظور اور رسول اللہ کے فیصلہ پر راضی نہ ہوا غالبًا یہ سمجھا ہو گا کہ میں مدعی اسلام ہوں اس لئے یہودی کے مقابلہ میں میری رعایت کریں گے اور حضرت عمرؓ آپ کے حکم سےمدینہ میں جھگڑے فیصل کیا کرتے تھے چنانچہ وہ دونوں حضرت عمرؓ کے پاس آئے جب حضرت عمرؓ نے یہ جھگڑا سنا اور یہودی کے بیان سے ان کو یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ قضیہ آپ کی خدمت میں جا چکا ہے اور آپ اس معاملہ میں یہودی کو سچا اور غالب کر چکے ہیں تو حضرت عمرؓ نے اس منافق کو قتل کر دیا اور فرمایا کہ جو کوئی ایسے قاضی کے فیصلہ کو نہ مانے اس کا فیصلہ یہی ہے اس کے وارث حضرت کی خدمت میں آئے اور حضرت عمرؓ پر قتل کا دعویٰ کیا اور قسمیں کھانے لگے کہ حضرت عمرؓکے پاس تو صرف اس وجہ سے گئے تھے کہ شاید وہ اس معاملہ میں باہم صلح کرا دیں یہ وجہ نہ تھی کہ حضرت کے فیصلہ سے انکار تھا۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ ان آیات میں اصل حقیقت ظاہر فرما دی گئ اور حضرت عمرؓ کا لقب فاروق فرمایا۔


 

الَّذينَ ءامَنوا يُقٰتِلونَ فى سَبيلِ اللَّهِ ۖ وَالَّذينَ كَفَروا يُقٰتِلونَ فى سَبيلِ الطّٰغوتِ فَقٰتِلوا أَولِياءَ الشَّيطٰنِ ۖ إِنَّ كَيدَ الشَّيطٰنِ كانَ ضَعيفًا {4:76}

جو لوگ ایمان والے ہیں سو لڑتے ہیں اللہ کی راہ میں اور جو کافر ہیں سو لڑتے ہیں شیطان کی راہ میں سو لڑو تم شیطان کے حمایتیوں سے بیشک فریب شیطان کا سست ہے [۱۲۱]

یعنی جب یہ بات ظاہر ہے کہ مسلمان اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور کافر لوگ شیطان کی راہ میں سو پھر تو مسلمانوں کو شیطان کے دوستوں یعنی کافروں کے ساتھ لڑنا بلاتامل ضروری ہوا اللہ تعالیٰ ان کا مددگار ہے۔ کسی قسم کا تردد نہ چاہئے اور سمجھ لو کہ شیطان کا حیلہ اور فریب کمزور ہے مسلمانوں پر نہ چل سکے گا۔ اس سے مقصود مسلمانوں کو جہاد پر ترغیب دلانا اور ہمت بندھانا ہے جس کا ذکر آیات آئندہ میں بالتصریح آتا ہے۔





 

وَإِذا جاءَهُم أَمرٌ مِنَ الأَمنِ أَوِ الخَوفِ أَذاعوا بِهِ ۖ وَلَو رَدّوهُ إِلَى الرَّسولِ وَإِلىٰ أُولِى الأَمرِ مِنهُم لَعَلِمَهُ الَّذينَ يَستَنبِطونَهُ مِنهُم ۗ وَلَولا فَضلُ اللَّهِ عَلَيكُم وَرَحمَتُهُ لَاتَّبَعتُمُ الشَّيطٰنَ إِلّا قَليلًا {4:83}

اور جب ان کے پاس پہنچتی ہے کوئی خبر امن کی یا ڈر کی تو اسکو مشہور کر دیتے ہیں [۱۳۳] اور اگر اسکو پہنچا دیتے رسول تک اور اپنے حکموں تک تو تحقیق کرتے اس کو جو ان میں تحقیق کرنے والے ہیں اس کی [۱۳۴] اور اگر نہ ہوتا فضل اللہ کا تم پر اور اس کی مہربانی تو البتہ تم پیچھے ہو لیتے شیطان کے مگر تھوڑے [۱۳۵]

یعنی کہیں سے کچھ خبر آئے تو چاہئے کہ اول پہنچائیں سردار تک اور اس کے نائبوں تک جب وہ اس خبر کو تحقیق اور تسلیم کر لیویں تو ان کےکہنے کےموافق اس کو کہیں نقل کریں اور اس پر عمل کریں۔ {فائدہ} حضرت نے ایک شخص کو ایک قوم کے یہاں زکوٰۃ لینے کو بھیجا وہ قوم اس کے استقبال کو باہر نکلی اس نے خیال کیا کہ میرےمارنے آئے ہیں لوٹ کو مدینہ میں آ گیا اور مشہور کر دیا کہ فلاں قوم مرتد ہو گئ تمام شہر میں شہرت ہو گئ آخر کو غلط نکلی۔

یعنی اگر اللہ اپنے فضل سے تمہاری اصلاح اور تربیت کے لئے احکام نہ بھیجتا اور تم کو وقتًا فوقتًا حسب ضرورت ہدایت اور تنبیہ نہ فرماتا رہتا جیسا کہ اس موقع پر رسول اور سرداروں کی طرف رجوع کرنے کو فرمایا تو تم گمراہ ہو جاتے مگر چند خواص جو کامل العقل اور کامل الایمان ہیں۔ ان تنبیہات کو اللہ تعالیٰ کا انعام سمجھو اور شکر کرو اور پوری تعمیل کرو۔

یعنی ان منافقوں اور کم سمجھ مسلمانوں کی ایک خرابی یہ ہے کہ جب کوئی بات امن کی پیش آتی ہے مثلًا رسول اللہ کا کسی سے صلح کا قصد فرمانا یا لشکر اسلام کی فتح کی خبر سننا یا کوئی خبر خوفناک سن لیتے ہیں جیسے دشمنوں کا کہیں جمع ہونا یا مسلمانوں کی شکست کی خبر آنا تو ان کو بلا تحقیق کئے مشہور کرنے لگتے ہیں اور اس میں اکثر فساد و نقصان مسلمانوں کو پیش آ جاتا ہے۔ منافق ضرر رسانی کی غرض سے اور کم سمجھ مسلمان کم فہمی کی وجہ سے ایسا کرتے تھے۔




 

إِن يَدعونَ مِن دونِهِ إِلّا إِنٰثًا وَإِن يَدعونَ إِلّا شَيطٰنًا مَريدًا {4:117}

اللہ کے سوا نہیں پکارتے مگر عورتوں کو اور نہیں پکارتے مگر شیطان سرکش کو

 

وَلَأُضِلَّنَّهُم وَلَأُمَنِّيَنَّهُم وَلَءامُرَنَّهُم فَلَيُبَتِّكُنَّ ءاذانَ الأَنعٰمِ وَلَءامُرَنَّهُم فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلقَ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيطٰنَ وَلِيًّا مِن دونِ اللَّهِ فَقَد خَسِرَ خُسرانًا مُبينًا {4:119}

اور انکو بہکاؤں گا اور انکو امیدیں دلاؤں گا اور انکو سکھلاؤں گا کہ چیریں جانوروں کے کان اور انکو سکھلاؤں گا کہ بدلیں صورتیں بنائی ہوئی اللہ کی [۱۷۷] اور جو کوئی بناوے شیطان کو دوست اللہ کو چھوڑ کر تو وہ پڑا صریح نقصان میں

یعنی جو لوگ میرے حصہ میں آئیں گے ان کو طریق حق سے گمراہ کروں گا اور ان کو حیات دنیوی اور خواہشات دنیوی کے حصول کی قیامت اور حساب و کتاب امور اخروی کے نہ ہونے کی آرزو دلاؤں گا اور اس بات کی تعلیم دوں گا کہ جانوروں کے کان چیر کر بتوں کے نام پر ان کو چھوڑیں گے اور اللہ کی پیدا کی ہوئی صورتوں کو اور اس کی مقرر کی ہوئی باتوں کو بدل ڈالیں گے۔ {فائدہ} کافروں کا دستور تھا گائے بکری اونٹ کا بچہ بت کے نام کا کر دیتے اور اس کا کان چیر کر یا اس کےکان میں نشانی ڈال کر چھوڑ دیتے اور صورت بدلنا جیسے خوجہ کرنا یا بدن کو سوئی سے گود کر تل بنانا یا نیلا داغ دینا یا بچوں کے سر پر چوٹیاں رکھنی کسی کے نام کی۔ مسلمانوں کو ان کاموں سے بچنا ضرور ہے داڑھی منڈوانا بھی اسی تغیر میں داخل ہے اور اللہ کے جتنے احکام ہیں کسی میں تغیر کرنا بہت سخت بات ہے جو چیز اس نے حلال کر دی اس کو حرام کرنا یا حرام کو حلال کرنا اسلام سے نکال دیتا ہے تو جو کوئی ان باتوں میں مبتلا ہو اس کو یقین کر لینا چاہئے کہ میں شیطان کے مقررہ حصہ میں داخل ہوں جس کا ذکر گذرا۔

 

يَعِدُهُم وَيُمَنّيهِم ۖ وَما يَعِدُهُمُ الشَّيطٰنُ إِلّا غُرورًا {4:120}

انکو وعدہ دیتا ہے اور انکو امیدیں دلاتا ہے اور جو کچھ وعدہ دیتا ہے انکو شیطان سو سب فریب ہے۔

 

يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِنَّمَا الخَمرُ وَالمَيسِرُ وَالأَنصابُ وَالأَزلٰمُ رِجسٌ مِن عَمَلِ الشَّيطٰنِ فَاجتَنِبوهُ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ {5:90}

اے ایمان والو یہ جو ہے شراب اور جوا اور بت اور پانسے [۲۲۳] سب گندے کام ہیں شیطان کے سو ان سے بچتے رہو تاکہ تم نجات پاؤ [۲۲۴]

اس آیت سے پہلے بھی بعض آیات خمر (شراب) کے بارہ میں نازل ہو چکی تھیں۔ اول یہ آیت نازل ہوئی۔ { یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِؕ قُلْ فِیْھِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ اِثْمُھُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا } (بقرہ رکوع ۲۷) گو اس سے نہایت واضح اشارہ تحریم خمر کی طرف کیا جا رہا تھا مگر چونکہ صاف طور پر اس کے چھوڑنے کا حکم نہ تھا اس لئےحضرت عمرؓ نے سن کر کہا { اللّٰھم بَیِّنْ لَنَا بَیَانًا شافیًا } اس کے بعد دوسری آیت آئی { یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکٰرٰی } (نساء رکوع ۶) اس میں بھی تحریم خمر کی تصریح نہ تھی گو نشہ کی حالت میں نماز کی ممانعت ہوئی اور یہ قرینہ اسی کا ذکر تھا کہ غالبًا یہ چیز عنقریب کلیۃً حرام ہونے والی ہے۔ مگر چونکہ عرب میں شراب کا رواج انتہا کو پہنچ چکا تھا اور اس کا دفعۃً چھڑا دینا مخاطبین کے لحاظ سےسہل نہ تھا اس لئے نہایت حکیمانہ تدریج سے اولًا قلوب میں اس کی نفرت بٹھلائی گئ اور آہستہ آہستہ حکم تحریم سے مانوس کیا گیا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے اس دوسری آیت کو سن کر پھر وہ ہی لفط کہے { اللّٰھم بَیِّنْ لَنَا بَیَانًا شافیًا } آخرکار "مائدہ" کی یہ آیتیں جو اس وقت ہمارےسامنے ہیں { یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا } سے {ف َھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ } تک نازل کی گئیں۔ جس میں صاف صاف بت پرستی کی طرح اس گندی چیز سےبھی اجتناب کرنے کی ہدایت تھی۔ چنانچہ حضرت عمرؓ { فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ } سنتے ہی چلا اٹھے { اِنْتَھَیْنَا اِنْتَھَیْنَا } لوگوں نےشراب کے مٹکے توڑ ڈالے، خم خانے برباد کر دیے۔ مدینہ کی گلی کوچوں میں شراب پانی کی طرح بہتی پھرتی تھی۔ سارا عرب اس گندی شراب کو چھوڑ کر معرفت ربانی اور محبت و اطاعت نبوی کی شراب طہور سے مخمور ہو گیا اور ام الخبائث کے مقابلہ پر حضور کا یہ جہاد ایسا کامیاب ہوا جس کی نظیر تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ خدا کی قدرت دیکھو کہ جس چیز کو قرآن کریم نے اتنا پہلےاتنی شدت سے روکا تھا آج سب سے بڑےشراب خوار ملک امریکہ وغیرہ اس کی خرابیوں اور نقصانات کو محسوس کر کے اس کے مٹا دینے پر تلے ہوئےہیں فللہ الحمد و المنتہ۔

"انصاب" و "ازلام" کی تفسیر اسی سورت کی ابتداء میں { وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَاَنْ تَسْتَقْسِمُوْابِالْاَزْلَامِ } کے تحت میں گذر چکی۔


 

إِنَّما يُريدُ الشَّيطٰنُ أَن يوقِعَ بَينَكُمُ العَدٰوَةَ وَالبَغضاءَ فِى الخَمرِ وَالمَيسِرِ وَيَصُدَّكُم عَن ذِكرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلوٰةِ ۖ فَهَل أَنتُم مُنتَهونَ {5:91}

شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ ڈالے تم میں دشمنی اور بیر بذریعہ شراب اور جوئے کے اور روکےتم کو اللہ کی یاد سے اور نماز سے سو اب بھی تم باز آؤ گے [۲۲۵]

شراب پی کر جب عقل جاتی رہتی ہے تو بعض اوقات شرابی پاگل ہو کر آپس میں لڑ پڑتے ہیں حتیٰ کہ نشہ اترنےکے بعد بھی بعض دفعہ لڑائی کا اثر باقی رہتا ہے اور باہمی عداوتیں قائم ہو جاتی ہیں۔ یہ ہی حال بلکہ کچھ بڑھ کر جوئے کا ہے اس میں ہارجیت پر سخت جھگڑے اور فساد برپا ہوتے ہیں۔ جس سے شیطان کو اودھم مچانے کا خوب موقع ملتا ہے۔ یہ تو ظاہری خرابی ہوئی او رباطنی نقصان یہ ہے کہ ان چیزوں میں مشغول ہو کو انسان خدا کی یاد اور عبادت الہٰی سے بالکل غافل ہو جاتا ہے اس کی دلیل مشاہدہ اور تجربہ ہے۔ شطرنج کھیلنے والوں ہی کو دیکھ لو۔ نماز تو کیا کھانے پینے اور گھر بارکی بھی خبر نہیں رہتی۔ جب یہ چیز اس قدر ظاہری و باطنی نقصانات پر مشتمل ہے تو کیا ایک مسلمان اتنا سن کر بھی باز نہ آئے گا۔



 

فَلَولا إِذ جاءَهُم بَأسُنا تَضَرَّعوا وَلٰكِن قَسَت قُلوبُهُم وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيطٰنُ ما كانوا يَعمَلونَ {6:43}

پھر کیوں نہ گڑگڑائے جب آیا ان پر عذاب ہمارا لیکن سخت ہو گئے دل انکے اور بھلے کر دکھلائے ان کو شیطان نے جو کام وہ کر رہے تھے

 

وَإِذا رَأَيتَ الَّذينَ يَخوضونَ فى ءايٰتِنا فَأَعرِض عَنهُم حَتّىٰ يَخوضوا فى حَديثٍ غَيرِهِ ۚ وَإِمّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيطٰنُ فَلا تَقعُد بَعدَ الذِّكرىٰ مَعَ القَومِ الظّٰلِمينَ {6:68}

اور جب تو دیکھے ان لوگوں کہ کہ جھگڑتے ہیں ہماری آیتوں میں تو ان سے کنارہ کر یہاں تک کہ مشغول ہو جاویں کسی اور بات میں اور اگر بھلا دے تجھ کو شیطان تو مت بیٹھ یاد آجانے کے بعد ظالموں کےساتھ [۸۰]

یعنی جو لوگ آیات اللہ پر طعن و استہزاء اور ناحق کی نکتہ چینی میں مشغول ہو کر اپنے کو مستحق عذاب بنا رہے ہیں تم ان سے خلط ملط نہ کرو کہیں تم بھی ان کے زمرہ میں داخل ہو کر مورد عذاب نہ بن جاؤ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا ہے { اِنَّکُمْ اِذًا مِّثْلُھُمْ } ایک مومن کی غیرت کا تقاضا یہ ہونا چاہیئے کہ ایسی مجلس سے بیزار ہو کر کنارہ کرے اور کبھی بھول کر شریک ہو گیا تو یاد آنے کے بعد فورًا وہاں سے اٹھ جائے۔ اسی میں اپنی عاقبت کی درستی، دین کی سلامتی اور طعن و استہزاء کرنے والوں کے لئے عملی نصیحت اور تنبیہ ہے۔

 

قُل أَنَدعوا مِن دونِ اللَّهِ ما لا يَنفَعُنا وَلا يَضُرُّنا وَنُرَدُّ عَلىٰ أَعقابِنا بَعدَ إِذ هَدىٰنَا اللَّهُ كَالَّذِى استَهوَتهُ الشَّيٰطينُ فِى الأَرضِ حَيرانَ لَهُ أَصحٰبٌ يَدعونَهُ إِلَى الهُدَى ائتِنا ۗ قُل إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الهُدىٰ ۖ وَأُمِرنا لِنُسلِمَ لِرَبِّ العٰلَمينَ {6:71}

تو کہہ دے کیا ہم پکاریں اللہ کےسوا ان کو جو نہ نفع پہنچا سکیں ہم کو اور نہ نقصان اور کیا پھر جاویں ہم الٹے پاؤں اسکے بعد کہ اللہ سیدھی راہ دکھا چکا ہم کو مثل اس شخص کے کہ رستہ بھلا دیا ہو اسکو جنوں نے جنگل میں جبکہ وہ حیران ہے اس کے رفیق بلاتے ہیں اسکو رستہ کی طرف کہ چلا آ ہمارے پاس [۸۶] تو کہہ دے کہ اللہ نے جو راہ بتلائی وہی سیدھی راہ ہے [۸۷] اور ہم کو حکم ہوا ہے کہ تابع رہیں پروردگار عالم کے

ہم سے یہ امید مت رکھو کہ اسے چھوڑ کر ہم شیطان کی بتلائی ہوئی راہوں پر چلیں گے۔

یعنی مسلمان کی شان یہ ہے کہ گمراہوں کو نصیحت کر کے سیدھی راہ پر لائے اور جو خدا سے بھاگ کر غیر اللہ کی چوکھٹ پر سر رکھے ہوئے ہیں ان کو خدائے واحد کےسامنے سر بسجود کرنے کی فکر کرے۔ اس سے یہ توقع رکھنا فضول ہے کہ وہ خدا کےسوا کسی ایسی ہستی کے آگے سر جھکائے گا جس کے قبضہ میں نہ نفع ہے نہ نقصان۔ یا اہل باطل کی صحبت میں رہ کر توحید و ایمان کی صاف سڑک چھوڑ دے گا اور شرک کی بھول بھلیاں کی طرف الٹے پاؤں پھرے گا۔ اگر معاذ اللہ ایسا ہو تو اس کی مثال اس مسافر کی سی ہو گی جو اپنے راہ جاننے والے رفقاء کے ساتھ جنگل میں سفر کر رہا تھا کہ ناگاہ غول بیابانی (خبیث جنات) نے اسے بہکا کر راستہ سے الگ کر دیا۔ وہ چاروں طرف بھٹکتا پھرتا ہے اور اس کےرفقاء ازراہ خیر خواہی اسے آوازیں دے رہے ہیں کہ ادھر آؤ راستہ اس طرف ہے۔ مگر وہ حیران و مخبوط الحواس ہو کر نہ کچھ سمجھتا ہے نہ ادھر آتا ہے۔ اسی طرح سمجھ لو کہ مسافر آخرت کے لئےسیدھی راہ اسلام و توحید کی ہے اور جن کی رفاقت و معیت میں یہ سفر طے ہوتا ہے وہ پیغمبر اور اس کے متبعین ہیں۔ جب یہ بدبخت شیاطین و مضلین کے پنجہ میں پھنس کر صحرائے ضلالت میں بھٹکتا پھرتا ہے اس کے ہادی اور رفقاء ازراہ ہمدردی جادۂ حق کی طرف بلا رہے ہیں مگر یہ نہ کچھ سنتا ہے نہ سمجھتا ہے۔ تو اے گروہ اشرار کیا تمہاری یہ غرض ہے کہ ہم اپنی ایسی مثال بنا لیں یہ آیت ان مشرکین کے جواب میں اتری ہے جنہوں نے مسلمانوں سے ترک اسلام کی درخواست کی تھی۔

 

وَكَذٰلِكَ جَعَلنا لِكُلِّ نَبِىٍّ عَدُوًّا شَيٰطينَ الإِنسِ وَالجِنِّ يوحى بَعضُهُم إِلىٰ بَعضٍ زُخرُفَ القَولِ غُرورًا ۚ وَلَو شاءَ رَبُّكَ ما فَعَلوهُ ۖ فَذَرهُم وَما يَفتَرونَ {6:112}

اور اسی طرح کر دیا ہم نے [۱۵۶] ہر نبی کے لئے دشمن شریر آدمیوں کو اور جنوں کو جو کہ سکھلاتے ہیں ایک دوسرے کو ملمع کی ہوئی باتیں فریب دینے کے لئے اور اگر تیرا رب چاہتا تو وہ لوگ یہ کام نہ کرتے سو تو چھوڑ دے وہ جانیں اور انکا جھوٹ [۱۵۷]

چونکہ خدا کی حکمت بالغہ تکوینًا اسی کو مقتضی ہے کہ نظام عالم کو جب تک قائم رکھنا منظور ہے خیرو شر کی قوتوں میں سے کوئی قوت بھی بالکل مجبور اور نیست و نابود نہ ہو۔ اس لئے نیکی بدی اور ہدایت و ضلالت کی حریفانہ جنگ ہمیشہ سے قائم رہی ہے۔ جس طرح آج یہ مشرکین و معاندین آپ کو بیہود فرمائشوں سے دق کرتے اور بانواع حیل لوگوں کو جادہ حق سے ڈگمگانا چاہتے ہیں اسی طرح ہر پیغمبر کے مقابل شیطانی قوتیں کام کرتی رہی ہیں کہ پیغمبروں کو ان کے پاک مقصد (ہدایت خلق اللہ) میں کامیاب نہ ہونے دیں۔ اسی غرض فاسد کے لئے شیاطین الجن اور شیاطین الانس باہم تعاون کرتے اور ایک دوسرے کو فریب دہی اور ملمع سازی کی چکنی چپڑی باتیں سکھاتے ہیں اور ان کی یہ عارضی آزادی اسی عام حکمت اور نظام تکوینی کے ماتحت ہے جو تخلیق عالم میں حق تعالیٰ نے مرعی رکھی ہے اس لئے آپ اعداء اللہ کی فتنہ پردازی اور مغویانہ فریب دہی سے زیادہ فکر و غم میں نہ پڑیں۔ ان سے اور ان کے کذب و افتراء سے قطع نظر کر کے معاملہ خدا کے سپرد کیجئے۔

یعنی پیدا کر دیا ہم نے۔


 

وَلا تَأكُلوا مِمّا لَم يُذكَرِ اسمُ اللَّهِ عَلَيهِ وَإِنَّهُ لَفِسقٌ ۗ وَإِنَّ الشَّيٰطينَ لَيوحونَ إِلىٰ أَولِيائِهِم لِيُجٰدِلوكُم ۖ وَإِن أَطَعتُموهُم إِنَّكُم لَمُشرِكونَ {6:121}

اور اس میں سے نہ کھاؤ جس پر نام نہیں لیا گیا اللہ کا [۱۶۵] اور یہ کھانا گناہ ہے اور شیطان دل میں ڈالتے ہیں اپنے رفیقوں کے تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم نے انکا کہا مانا تو تم بھی مشرک ہوئے [۱۶۶]

یعنی نہ حقیقتًا نہ حکمًا۔ حنفیہ متروک التسمیہ عمدًا کے مسئلہ میں ذکر حکمی کا دعویٰ کرتے ہیں۔

یعنی شرک فقط یہ ہی نہیں کہ کسی کو سوائے خدا کے پوجے۔ بلکہ شرک حکم میں بھی ہےکسی چیز کی تحلیل و تحریم میں مستند شرعی کو چھوڑ کر محض آراء و اہواء کا تابع ہو جائے۔ جیسا کہ { اِتَّخَذُ وْٓا اَحْبَارَھُمْ وَ رُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ } کی تفسیر میں مرفوعًا منقول ہے کہ اہل کتاب نے وحی الہٰی کو چھوڑ کر صرف احبار و رہبان ہی پر تحلیل و تحریم کا مدرا رکھ چھوڑا تھا۔



فَوَسوَسَ لَهُمَا الشَّيطٰنُ لِيُبدِىَ لَهُما ما وۥرِىَ عَنهُما مِن سَوءٰتِهِما وَقالَ ما نَهىٰكُما رَبُّكُما عَن هٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلّا أَن تَكونا مَلَكَينِ أَو تَكونا مِنَ الخٰلِدينَ {7:20}

پھر بہکایا ان کو شیطان نے تاکہ کھول دے ان پر وہ چیز کہ انکی نظر سے پوشیدہ تھی انکی شرمگاہوں سے اور وہ بولا کہ تم کو نہیں روکا تمہارے رب نے اس درخت سے مگر اسی لئے کہ کبھی تم ہو جاؤ فرشتہ یا ہو جاؤ ہمیشہ رہنے والے۔

 




فَدَلّىٰهُما بِغُرورٍ ۚ فَلَمّا ذاقَا الشَّجَرَةَ بَدَت لَهُما سَوءٰتُهُما وَطَفِقا يَخصِفانِ عَلَيهِما مِن وَرَقِ الجَنَّةِ ۖ وَنادىٰهُما رَبُّهُما أَلَم أَنهَكُما عَن تِلكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُل لَكُما إِنَّ الشَّيطٰنَ لَكُما عَدُوٌّ مُبينٌ {7:22}

پھر مائل کر لیا انکو فریب سے [۱۸] پھر جب چکھا ان دونوں نے درخت کو تو کھل گئیں ان پر شرمگاہیں انکی [۱۹] اور لگے جوڑنے اپنے اوپر بہشت کے پتے [۲۰] اور پکارا انکو انکے رب نے کیا میں نے منع نہ کیا تھا تم کو اس درخت سے اور نہ کہہ دیا تھا تم کو کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے

یعنی عدول حکمی کرا کر لباس بہشتی ان پر سے اتروا دیا۔ کیونکہ جنتی لباس حقیقت میں لباس تقویٰ کی ایک محسوس صورت ہوتی ہے کسی ممنوع کے ارتکاب سے جس قدر لباس تقویٰ میں رخنہ پڑے گا اسی قدر جنتی لباس سے محرومی ہو گی۔ غرض شیطان نے کوشش کی کہ عصیان کرا کر آدمؑ کے بدن سے بطریق مجازات جنت کا خلعت فاخرہ اتروا دے۔ یہ میرا خیال ہے۔ لیکن حضرت شاہ صاحبؒ نے نزع لباس کو اکل شجرۃ کے ایک طبعی اثر کے طور پر لیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ "حاجت استنجا اور حاجت شہوت جنت میں نہ تھی ان کے بدن پر کپڑے تھے جو کبھی اترتے نہ تھے کیونکہ حاجت اتارنے کی نہ ہوتی تھی۔ آدمؑ و حواؑ اپنے اعضاء سے واقف نہ تھے جب یہ گناہ ہوا تو لوازم بشری پیدا ہوئے اپنی حاجت سے خبردار ہوئے اور اپنے اعضاء دیکھے" گویا اس درخت کے کھانے سے جو پردہ انسانی کمزوریوں پر تھا وہ اٹھ گیا { سوأۃ } کے لغوی معنی میں بہت وسعت ہے قابیل ہابیل کے قصہ میں { سَوْءَۃَ اَخِیْہِ } فرمایا اور حدیث میں ہے { اِحْدیٰ سَوْءَ تِکَ یا مقداد } اب تک آدمؑ کی نظر میں صرف اپنی سادگی اور معصومیت تھی اور ابلیس کی نظر میں صرف اس کی خلقی کمزوریاں تھیں لیکن اکل شجرۃ کے بعد آدمؑ کو اپنی کمزوریاں پیش نظر ہو گئیں اور جب اس غلطی کے بعد انہوں نے توبہ و انابت اختیار کی تو ابلیس لعین کو ان کے اعلیٰ کمال اور انتہائی نجابت و شرافت کا مشاہدہ ہو گیا۔ اس نےسمجھ لیا کہ یہ مخلوق لغزش کھا کر بھی میری مار کھانے والی نہیں۔ { اِنَّ عِبَادِیْ لیس لَکَ علیھم سُلْطَانٌ } شاید اسی لحاظ سے تورات میں ابن قیتبہ صاحب معارف کی نقل کے موافق اس درخت کو "شجرۃ علم الخیر والشر" سے موسوم کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔

آدمؑ و حواؑ شیطان کی قسموں سے متاثر ہوئے کہ خدا کا نام لے کر کون جھوٹ بولنے کی جرأت کر سکتا ہے۔ شاید وہ سمجھے کہ وہ واقعی اس کے کھانے سے فرشتے بن جائیں گے یا پھر کبھی فنا نہ ہوں گے۔ اور حق تعالیٰ نے جو نہی فرمائی تھی، اس کی تعلیل یا تاویل کر لی ہو گی۔ لیکن غالبًا { فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ } اور { اِنَّ ھٰذَا عَدُوٌّ لَّکَ وَلِزَوْجِکَ فَلَا یُخْرِجَنَّکُمَا مِنَ الْجَنَّۃِ فَتَشْقٰی } وغیرہ سے نسیان ہوا، اور یہ بھی خیال نہ رہا کہ جب وہ مسجود ملائکہ بنائے جا چکے، پھر ملک بننے کی کیا ضرورت رہی۔ { فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْلَہٗ عَزْمًا } (طہٰ رکوع ۶) واضح ہو کہ امر و نہی کبھی تو تشریعًا ہوتے ہیں اور کبھی شفقتًا اس کو یوں سمجھو کہ مثلًا ایک تو ریل میں بدون ٹکٹ سفر کرنے کی ممانعت ہے، یہ تو قانونی حیثیت رکھتی ہے جس کا اثر کمپنی کے حقوق پر پڑتا ہے اور ایک جو گاڑیوں میں لکھا ہوتا ہے کہ "مت تھوکو اس سے بیماری پھیلتی ہے" یہ نہی شفقتًا ہے جیسا کہ بیماری پھیلنے کی تعلیل سےظاہر ہے۔ اسی طرح خدا کے اوامر و نواہی بعض تشریعی ہیں جن کی خلاف ورزی کرنے والا قانونی مجرم سمجھا جاتا ہے اور جن کا ارتکاب کرنا ان حقوق کے منافی ہے جن کی حفاظت کرنا تشریع کا منشاء تھا۔ دوسرے وہ اوامر و نواہی ہیں جن کا منشاء تشریع نہیں محض شفقت ہے جیسا کہ طب نبوی وغیرہ کی بہت سی احادیث میں علماء نے تصریح کی ہے۔ شاید آدمؑ نےاکل شجرۃ کی ممانعت کو نہی شفقت سمجھا، اسی لئے شیطان کی وسوسہ اندازی کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنے کو زیادہ بھاری خیال نہ کیا مگر چونکہ انبیاءؑ کی چھوٹی سی لغزش بھی ان کے مرتبہ قرب کے لحاظ سےعظیم و ثقیل بن جاتی ہے اس لئے اپنی غلطی کا ظاہری نقصان اٹھانے کے علاوہ مدت دراز تک توبہ و استغفار میں مشغول گریہ و بکا رہے۔ آخرکار "ثم اجتباہ ربہ فتاب علیہ وھدی" کے نتیجہ پر پہنچ گئے ؂بود آدم دیدہ نور قدیم۔ موے دریدہ بود کوہ عظیم۔

یعنی برہنہ ہو کر شرمائے اور پتوں سے بدن ڈھانپنے لگے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ آدمی پیدائش کے وقت ننگا ہوتا ہے مگر فطری حیا مانع ہے کہ ننگا رہے۔


 

يٰبَنى ءادَمَ لا يَفتِنَنَّكُمُ الشَّيطٰنُ كَما أَخرَجَ أَبَوَيكُم مِنَ الجَنَّةِ يَنزِعُ عَنهُما لِباسَهُما لِيُرِيَهُما سَوءٰتِهِما ۗ إِنَّهُ يَرىٰكُم هُوَ وَقَبيلُهُ مِن حَيثُ لا تَرَونَهُم ۗ إِنّا جَعَلنَا الشَّيٰطينَ أَولِياءَ لِلَّذينَ لا يُؤمِنونَ {7:27}

اے اولاد آدم کی نہ بہکائے تم کو شیطان جیسا کہ اس نے نکال دیا تمہارے ماں باپ کو بہشت سے اتروائے ان سے ان کے کپڑے [۲۶] تاکہ دکھلائے انکو شرمگاہیں انکی وہ دیکھتا ہے تم کو اور اسکی قوم جہاں سے تم انکو نہیں دیکھتے [۲۷] ہم نےکر دیا شیطانوں کو رفیق ان لوگوں کا جو ایمان نہیں لاتے [۲۸]

یعنی جب انہوں نے اپنی بےایمانی سے خود شیاطین کی رفاقت کو اپنے لئے پسند کر لیا۔ جیسا کہ چند آیات کے بعد آ رہا ہے { اِنَّھُمُ اتَّخَذُوا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ مُّھْتَدُوْنَ } تو ہم نے بھی اس انتخاب میں مزاحمت نہیں کی۔ جس کو انہوں نے اپنا رفیق بنانا چاہا اسی کو رفیق بنا دیا گیا۔

اخراج و نزاع کی اضافت ان کے سبب کی طرف کی گئ۔ یعنی آدمؑ و حواؑ کو جنت سے علیحدہ کرنے اور کپڑے اتارے جانے کا سبب وہ ہوا ، اب تم اس کے فریب میں مت آؤ اور اس کی مکاریوں سے ہشیار رہو۔

یعنی جو دشمن ہم کو اس طرح دیکھ رہا ہو کہ ہماری نظر اس پر نہ پڑے اس کا حملہ سخت خطرناک اور مدافعت سخت دشوار ہوتی ہے۔ اس لئے تم کو بہت مستعد و بیدار رہنا چاہیئے۔ ایسے دشمن کا علاج یہ ہی ہے کہ ہم کسی ایسی ہستی کی پناہ میں آجائیں جو اسے دیکھتی ہے پر وہ اسے نہیں دیکھتا۔ { لَا تُدْرِکُہُ الْاَ بْصَارُ وَھُوْیُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَ ھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ } (تنبیہ) { اِنَّہُ یَرٰکُمْ ھُوَ وَ قَبِیْلُہٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَھُمْ } قضیہ ملطلقہ ہے دائمہ نہیں۔ یعنی بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ وہ ہم کو دیکھتے ہیں اور ہم ان کو نہیں دیکھتے۔ اس کہنےسے یہ لازم نہیں آتا کہ کسی وقت بھی کوئی شخص کسی صورت میں ان کو نہ دیکھ سکے۔ پس آیت سے "رویت جن" کی بالکلیہ نفی پر استدلال کرنا کوتاہ نظری ہے۔


 

فَريقًا هَدىٰ وَفَريقًا حَقَّ عَلَيهِمُ الضَّلٰلَةُ ۗ إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيٰطينَ أَولِياءَ مِن دونِ اللَّهِ وَيَحسَبونَ أَنَّهُم مُهتَدونَ {7:30}

ایک فرقہ کو ہدایت کی اور ایک فرقہ پر مقرر ہو چکی گمراہی انہوں نے بنایا شیطانوں کو رفیق اللہ کو چھوڑ کر اور سمجھتے ہیں کہ وہ ہدایت پر ہیں [۳۳]

یعنی جن پر گمراہی مقرر ہو چکی، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خدا کو چھوڑ کرشیطانوں کو اپنا دوست اور رفیق ٹھہرا لیا ہے۔ اور تماشا یہ ہے کہ اس صریح گمراہی کے باوجود سمجھتے یہ ہیں کہ ہم خوب ٹھیک چل رہے ہیں اور مذہبی حیثیت سےجو روش اور طرز عمل ہم نے اختیار کر لیا ہے وہ ہی درست ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا۔ { اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا } (کہف رکوع ۱۳) (تنبیہ) آیت کےعموم سے ظاہر ہوا کہ کافر معاند کی طرح کافر مخطی بھی جو واقع اپنی غلط فہمی سے باطل کو حق سمجھ رہا ہو { فَرِیْقًا حَقَّ عَلَیْھِمُ الضَّلٰلَۃُ } میں داخل ہے، خواہ یہ غلط فہمی پوری طرح غور و فکر نہ کرنے کی وجہ سے ہو، یا اس لئے کہ گو اس نے بظاہر پوری قوت غور و فکر میں صرف کر دی، لیکن ایسےصریح اور واضح حقائق تک نہ پہنچنا خود بتلاتا ہے کہ فی الحقیقت اس سے قوت فکر و استدلال کے استعمال میں کوتاہی ہوئی ہے۔ گویا جن چیزوں پر ایمان لانا مدار نجات ہے وہ اس قدر روشن اور واضح ہیں کہ ان کے انکار کی بجز عناد یا قصور فکر و تامل کے اور کوئی صورت نہیں۔ بہرحال کفر شرعی ایک ایسا سنکھیا(زہر) ہے جو جان بوجھ کر یا غلط فہمی سےکسی طرح بھی کھایا جائے انسان کو ہلاک کرنے کے لئے کافی ہے۔ "اہل السنت والجماعت" کا مذہب یہ ہی ہے اور "روح المعانی" میں جو بعض کا اختلاف اس مسئلہ میں نقل کیا ہے، اس بعض سے مراد جاحظ و عنبری ہیں جو اہل السنت و الجماعت میں داخل نہیں بلکہ باوجود "معتزلی" کہلائے جانے کے خود معتزلی کو بھی ان کے اسلام میں کلام ہے۔ اسی لئے صاحب روح المعانی نے ان کا مذہب نقل کرنے کے بعد لکھ دیا۔ "وللہ تعالیٰ الحجۃ البالغۃ والتزام ان کل کافر معاند بعد البعثت و ظہور امر الحق کفار علی علم اھ"


 

وَاتلُ عَلَيهِم نَبَأَ الَّذى ءاتَينٰهُ ءايٰتِنا فَانسَلَخَ مِنها فَأَتبَعَهُ الشَّيطٰنُ فَكانَ مِنَ الغاوينَ {7:175}

اور سنا دے ان کو حال اس شخص کا جسکو ہم نے دی تھیں اپنی آیتیں پھر وہ انکو چھوڑ نکلا پھر اس کے پیچھےلگا شیطان تو وہ ہو گیا گمراہوں میں

 

وَإِمّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيطٰنِ نَزغٌ فَاستَعِذ بِاللَّهِ ۚ إِنَّهُ سَميعٌ عَليمٌ {7:200}

اور اگر ابھارے تجھ کو شیطان کی چھیڑ تو پناہ مانگ اللہ سے وہی ہےسننے والا جاننے والا [۲۳۵]

{ خُذِالْعَفْو } کے کئ معنی کئے گئے ہیں۔ اکثر کا حاصل یہ ہے کہ سخت گیری اور تند خوئی سے پرہیز کیا جائے اسی کو مترجم محققؒ نے درگذر کی عادت سے تعبیر فرمایا ہے۔ گذشتہ آیات میں بت پرستوں کی جو تحمیق و تجہیل کی گئ تھی، بہت ممکن تھا کہ جاہل مشرکین اس پر برہم ہو کر کوئی ناشائستہ حرکت کرتے یا برا لفظ زبان سے نکالتے، اس لئے ہدایت فرما دی کہ عفوودرگذر کی عادت رکھو نصیحت کرنے سے مت رکو معقول بات کہتے رہو اور جاہلوں سے کنارہ کرو۔ یعنی ان کی جہالت آمیز حرکتوں پر روز روز الجھنے کی ضرورت نہیں۔ جب وقت آئے گا ذرا سی دیر میں ان کا سب حساب بےباق ہو جائے گا۔ اور اگر کسی وقت بمقتضائے بشریت ان کی کسی نالائق حرکت پر غصہ آجائے اور شیطان لعین چاہے کہ دور سے چھیڑ چھاڑ کر کے آپ کو ایسے معاملہ پر آمادہ کر دے جو خلاف مصلحت ہو یا آپ کے خلق عظیم اور حلم و متانت کے شایاں نہ ہو تو آپ فورًا اللہ سے پناہ طلب کیجئے آپ کی عصمت و وجاہت کے سامنے اس کا کوئی کید نہیں چل سکے گا۔ کیونکہ خداوند قدیر جو ہر مستعیذ کی بات سننے والا اور ہر حالت کا جاننے والا ہے، اسی نے آپ کی صیانت کا تکفل فرمایا ہے۔

 

إِنَّ الَّذينَ اتَّقَوا إِذا مَسَّهُم طٰئِفٌ مِنَ الشَّيطٰنِ تَذَكَّروا فَإِذا هُم مُبصِرونَ {7:201}

جن کے دل میں ڈر ہے جہاں پڑ گیا ان پر شیطان کا گذر چونک گئے پھر اسی وقت ان کو سوجھ آ جاتی ہے۔


 

إِذ يُغَشّيكُمُ النُّعاسَ أَمَنَةً مِنهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيكُم مِنَ السَّماءِ ماءً لِيُطَهِّرَكُم بِهِ وَيُذهِبَ عَنكُم رِجزَ الشَّيطٰنِ وَلِيَربِطَ عَلىٰ قُلوبِكُم وَيُثَبِّتَ بِهِ الأَقدامَ {8:11}

جس وقت کہ ڈالدی اس نے تم پر اونگھ اپنی طرف سے تسکین کے واسطے اور اتارا تم پر آسمان سے پانی کہ اس سے تم کو پاک کر دے اور دور کر دے تم سے شیطان کی نجاست اور مضبوط کر دے تمہارے دلوں کو اور جما دے اس سے تمہارے قدم [۶]

"بدر" کا معرکہ فی الحقیقت مسلمانوں کے لئے بہت ہی سخت آزمائش اور عظیم الشان امتحان کا موقع تھا۔ وہ تعداد میں تھوڑے تھے، بے سروسامان تھے، فوجی مقابلہ کے لئے تیار ہو کر نہ نکلے، مقابلہ پر ان سے تگنی تعداد کا لشکر تھا۔ جو پورے سازوسامان سے کبروغرور کے نشہ میں سرشار ہو کر نکلا تھا۔ مسلمانوں اور کافروں کی یہ پہلی ہی قابل ذکر ٹکر تھی پھر صورت ایسی پیش آئی کہ کفار نے پہلے سے اچھی جگہ اور پانی وغیرہ پر قبضہ کر لیا۔ مسلمان نشیب میں تھے ریت بہت زیادہ تھی جس میں چلتے ہوئے پاؤں دھنستے تھے۔ گردو غبار نے الگ پریشان کر رکھا تھا۔ پانی نہ ملنے سے ایک طرف غسل و وضو کی تکلیف دوسری طرف تشنگی ستار رہی تھی۔ یہ چیزیں دیکھ کر مسلمان ڈرے کہ بعض آثار شکست کے ہیں۔ شیطان نے دلوں میں وسوسہ ڈالا کہ اگر واقعی تم خدا کے مقبول بندے ہوتے تو ضرور تائید ایزدی تمہاری طرف ہوتی اور ایسی پریشان کن اور یاس انگیز صورت حال پیش نہ آتی۔ اس وقت حق تعالیٰ نے ذات کاملہ سے زور کا مینہ برسایا جس سے میدان کی ریت جم گئ غسل و وضو کرنے اور پینے کے لئے پانی کی افراط ہوگئ گردوغبار سے نجات ملی۔ کفار کا لشکر جس جگہ تھا وہاں کیچڑ اور پھسلن سے چلنا پھرنا دشوار ہو گیا۔ جب یہ ظاہری پریشانیاں دور ہوئیں تو حق تعالیٰ نے مسلمانوں پر ایک قسم کی غنودگی طاری کر دی۔ آنکھ کھلی تو دلوں سے سارا خوف و ہراس جاتا رہا۔ بعض روایات میں ہے کہ حضور اور ابوبکر صدیقؓ رات بھر "عریش" میں مشغول دعا رہے اخیر میں حضور پر خفیف سی غنودگی طاری ہوئی جب اس سے چونکے تو فرمایا خوش ہو جاؤ کہ جبریل تمہاری مدد کو آ رہے ہیں۔ عریش سے باہر تشریف لائے تو { سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرْ } زبان مبارک پر جاری تھا۔ بہرحال اس باران رحمت نے بدن کو احداث سے اور دلوں کو شیطان کے وساوس سے پاک کر دیا۔ ادھر ریت کے جم جانے سے ظاہری طور پر قدم جم گئے اور اندر سے ڈر نکل کر دل مضوط ہو گئے۔

 

وَإِذ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيطٰنُ أَعمٰلَهُم وَقالَ لا غالِبَ لَكُمُ اليَومَ مِنَ النّاسِ وَإِنّى جارٌ لَكُم ۖ فَلَمّا تَراءَتِ الفِئَتانِ نَكَصَ عَلىٰ عَقِبَيهِ وَقالَ إِنّى بَريءٌ مِنكُم إِنّى أَرىٰ ما لا تَرَونَ إِنّى أَخافُ اللَّهَ ۚ وَاللَّهُ شَديدُ العِقابِ {8:48}

اور جس وقت خوشنما کر دیا شیطان نے انکی نظروں میں ان کے عملوں کو اور بولا کہ کوئی بھی غالب نہ ہوگا تم پر آج کے دن لوگوں میں سے اور میں تمہارا حمایتی ہوں پھر جب سامنے ہوئیں دونوں فوجیں تو وہ الٹا پھرا اپنی ایڑیوں پر اور بولا میں تمہارے ساتھ نہیں ہو ں میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے میں ڈرتا ہوں اللہ سے اور اللہ کا عذاب سخت ہے [۵۶]

قریش اپنی قوت و جمعیت پر مغرور تھے ، لیکن بنی کنانہ سے ان کی چھیڑ چھاڑ رہتی تھی۔ خطرہ یہ ہوا کہ کہیں بنی کنانہ کامیابی کے راستہ میں آڑے نہ آ جائیں۔ فورًا شیطان ان کی پیٹھ ٹھونکنے اور ہمت بڑھانے کے لئے کنانہ کے سردار اعظم سراقہ بن مالک کی صورت میں اپنی ذریت کی فوج لے کر نمودار ہوا اور ابو جہل وغیرہ کو اطمینان دلایا کہ ہم سب تمہاری مدد و حمایت پر ہیں۔ کنانہ کی طرف سے بےفکر رہو۔ میں تمہارےساتھ ہوں۔ جب بدر میں زور کا رن پڑا اور شیطان کو جبریل وغیرہ فرشتے نظر آئے تو ابوجہل کے ہاتھ میں سے ہاتھ چھڑا کر الٹے پاؤں بھاگا۔ ابوجہل نے کہا سراقہ! عین وقت پر دغا دے کر کہاں جاتے ہو کہنے لگا میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ مجھے وہ چیزیں دکھائی دے رہی ہیں جو تم کو نظر نہیں آتیں ۔ (یعنی فرشتے) خدا کے (یعنی اس خدائی فوج کے) ڈر سے میرا دل بیٹھا جاتا ہے۔ اب ٹھہرنے کی ہمت نہیں۔ کہیں کسی سخت عذاب اور آفت میں نہ پکڑا جاؤں قتادہ کہتے ہیں کہ ملعون نے جھوٹ بولا اس کے دل میں خدا کا ڈر نہ تھا۔ ہاں وہ جانتا تھا کہ اب قریش کا لشکر ہلاکت میں گھر چکا ہے۔ کوئی قوت بچا نہیں سکتی۔ یہ اس کی قدیم عادت ہے کہ اپنے متبعین کو دھوکہ دےکر اور ہلاکت میں پھنسا کر عین وقت پر کھسک جایا کرتا ہے۔ اسی کے موافق یہاں بھی کیا۔ { یَعِدُھُمْ وَیُمَنِّیْھِمْ ؕ وَمَا یَعِدُھُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا } (نساء رکوع۱۸) { کَمَثَلِ الشَّیْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اکْفُرْ فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّنْکَ اِنِّیْٓ اَخَافُ اللہَ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ } (الحشر رکوع۲) { وَقَالَ الشَّیْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللہَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُّکُمْ فَاَخْلَفْتُکُمْ ؕ وَمَا کَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّآ اَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ فَلَا تَلُوْ مُوْ نِیْ وَلُوْمُوْآ اَنْفُسَکُمْ ؕ مَا اَنَابِمُصْرِخِکُمْ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ ؕ اِنِّیْ کَفَرْتُ بِمَآ اَشْرَکْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ ؕ اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ } (ابراہیم رکوع۴)

 


قالَ يٰبُنَىَّ لا تَقصُص رُءياكَ عَلىٰ إِخوَتِكَ فَيَكيدوا لَكَ كَيدًا ۖ إِنَّ الشَّيطٰنَ لِلإِنسٰنِ عَدُوٌّ مُبينٌ {12:5}

کہا اے بیٹے مت بیان کرنا خواب اپنا اپنے بھائیوں کے آگے پھر وہ بنائیں گے تیرے واسطے کچھ فریب البتہ شیطان ہے انسان کا صریح دشمن [۵]

یعنی شیطان ہر وقت انسان کی گھات میں لگا ہے۔ وسوسہ اندازی کر کے بھائیوں کو تیرے خلاف اکسا دے گا۔ کیونکہ خواب کی تعبیر بہت ظاہر تھی ، اور یوسفؑ کے بھائیوں کو جو بہرحال خاندان نبوت میں سے تھے ، ایسے واضح خواب کا سمجھ لینا کچھ مشکل نہ تھے کہ گیارہ ستارے گیارہ بھائی ہیں اور چاند سورج ماں باپ ہیں گویا یہ سب کسی وقت یوسفؑ کی عظمت شان کے سامنے سر جھکائیں گے۔ برادران یوسفؑ: چنانچہ آخر سورت میں { یٰٓاَبَتَ ھٰذَا تَاْوِیْلُ رُءْیَایَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَھَا رَبِّیْ حَقًّا } کہہ کر اسی طرف اشارہ کیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوبؑ خواب سے پیشتر ہی یہ محسوس کرتے تھے کہ یوسفؑ کے ساتھ باپ کی خصوصی محبت کو دیکھ کر اس کے علاقی بھائی دل ہی دل میں کڑھتے ہیں ۔ اب انہوں نے خیال کیا کہ اگر کہیں یہ خواب سن پائے تو شیطان حسد کی آگ ان کے دلوں میں بھڑکا دے گا اور جوش حسد میں آنکھیں بند کر کے ممکن ہے وہ کوئی ایسی حرکت کر گذریں جو یوسفؑ کی اذیت اور خود ان کی رسوائی اور بد انجامی کو موجب ہو۔ اس لئے آپ نے یوسفؑ کو منع فرما دیا کہ اپنا خواب بھائیوں کے روبرو ظاہر نہ کریں۔ یوسفؑ کا ایک حقیقی بھائی "بنیامین" تھا۔ اس کے سامنے ذکر کرنے کی بھی اجازت نہیں دی، گو اس سے برائی کا کچھ اندیشہ نہ تھا، لیکن یہ ممکن تھا کہ وہ سن کر بے احتیاطی سے دوسروں کے سامنے تذکرہ کر دے۔ اور اس طرح یہ خبر لوگوں میں شائع ہو جائے (تنبیہ) حافظ ابن تیمیہؒ نے ایک مستقل رسالہ میں لکھا ہے کہ قرآن لغت ، اور عقلی اعتبارات میں سے کوئی چیز اس خیال کی تائید نہیں کرتی کہ برادران یوسفؑ انبیاء تھے ، نہ رسول کریم نے اس کی خبر دی نہ صحابہؓ میں کوئی اس کا قائل تھا بھلا عقوق والدین ، قطع رحم ، مسلمان بھائی کے قتل پر اقدام کرنا ، اس کو غلام بنا کر بیچ ڈالنا اور بلاد کفر کی طرف بھیج دینا ، پھر صریح جھوٹ اور حیلے بنانا ، وغیرہ ایسی حرکات شنیعہ کیا کسی نبی کی طرف (خواہ قبل از بعثت ہی سہی) منسوب کی جا سکتی ہیں (العیاذ باللہ) جن لوگوں نے برادران یوسفؑ کی نبوت کا خیال ظاہر کیا ہے ، ان کے پاس لفظ "اسباط" کے سوا کوئی دلیل نہیں۔ حالانکہ "اسباط" خاص صلبی اولاد کو نہیں بلکہ اقوام و امم کو کہتے ہیں۔ اور بنی اسرائیل کی اسباط پر تقسیم حضرت موسٰیؑ کے عہد میں ہوئی۔

 

وَقالَ لِلَّذى ظَنَّ أَنَّهُ ناجٍ مِنهُمَا اذكُرنى عِندَ رَبِّكَ فَأَنسىٰهُ الشَّيطٰنُ ذِكرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِى السِّجنِ بِضعَ سِنينَ {12:42}

اور کہہ دیا یوسف نے اسکو جسکو گمان کیا تھا کہ بچے گا ان دونوں میں میرا ذکر کرنا اپنے خاوند (مالک) کے پاس [۶۴] سو بھلا دیا اسکو شیطان نے ذکر کرنا اپنے خاوند (مالک) سے پھر رہا قید میں کئ برس [۶۵]

یعنی شیطان نے چھوٹنے والے قیدی کے دل میں مختلف خیالات و وساوس ڈال کر ایسا غافل کیا کہ اسے بادشاہ کے سامنے اپنے محسن بزرگ (یوسفؑ) کا تذکرہ کرنا یاد ہی نہ رہا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یوسفؑ کو کئ سال اور قید میں رہنا پڑا۔ مدت دراز کے بعد جب بادشاہ نے ایک خواب دیکھا اور اس کی تعبیر کسی کی سمجھ میں نہ آئی تب اس شخص کو یوسفؑ یاد آئے جیسا کہ آگے آتا ہے ۔ { وَقَالَ الَّذِیْ نَجَا مِنْھُمَا وَادَّکَرَ بَعْدَ اُمَّۃٍ } الخ بھلانے کی نسبت شیطان کی طرف اس لئے کی گئ کہ وہ القائے وساوس وغیرہ کا ذریعہ ہے جو سبب بنتا ہے نسیان کا ۔ حضرت موسٰیؑ کے رفیق سفر نے کہا تھا۔ { وَمَا اَنْسَانِیْہُ اِلَّا الشَّیْطَانُ اَنْ اَذْکُرَہٗ } (کہف رکوع۹) لیکن ہر ایک شر میں حق تعالیٰ کوئی خیر کا پہلو رکھ دیتا ہے ۔ یہاں بھی گو اس نسیان کا نتیجہ تطویل قید کی صورت میں ظاہر ہوا۔ تاہم حضرت شاہ صاحبؒ کی نکتہ آفرینی کے موافق اس میں یہ تنبیہ ہو گئی کہ ایک پیغمبر کا دل ظاہری اسباب پر نہیں ٹھہرنا چاہئے ۔ بلکہ ابن جریر اور بغوی وغیرہ نے بعض سلف سے نقل کیا ہے کہ وہ { فَاَنْسٰہُ الشَّیْطٰنُ ذِکْرَ رَبِّہٖ } کی ضمیر یوسفؑ کی طرف راجع کرتے ہیں ۔ گویا { اُذْکُرْنِیْ عِنْدَ رَبِّکَ } کہنا ایک طرح کی غفلت تھی جو یوسفؑ کو عارض ہوئی۔ انہوں نے قیدی کو کہا کہ اپنے رب سے میرا ذکر کرنا ۔ حالانکہ چاہئے تھا کہ سب ظاہری سہارے چھوڑ کر وہ خود اپنے رب سے فریاد کرتے ۔ بے شک کشف شدائد کے وقت مخلوق سے ظاہری استعانت اور اسباب کے مباشرت مطلقًا حرام نہیں ہے ۔ لیکن ابرار کی حسنات مقربین کی سیئات بن جاتی ہیں۔ جو بات عامۃ الناس بے کھٹکے کر سکتے ہیں انبیاء علیہم السلام کے منصب عالی کے اعتبار سے وہ ہی بات ایک قسم کی تقصیر بن جاتی ہے۔ امتحان و ابتلاء کے موقع پر انبیاء کی شان رفیع اسی کو مقتضی ہے کہ رخصت پر نظر نہ کریں ، انتہائی عزیمت کی راہ چلیں۔ چونکہ حضرت یوسفؑ کا { اُذْکُرْنِیْ عِنْدَ رَبِّکَ } کہنا عزیمت کے خلاف تھا ، اس لئے عتاب آمیز تنبیہ ہوئی کہ کئ سال تک مزید قید اٹھانی پڑی اور اسی لئے "انساء" کی نسبت شیطان کی طرف کی گئ۔ واللہ اعلم بالصواب۔ زیادہ تفصیل روح المعانی میں ہے۔

یہاں ظن یقین کے معنی میں ہے جیسے { اَلَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُلَا قُوْرَبِّھِمْ } میں۔ یعنی یوسفؑ کو دونوں میں سے جس شخص کی بابت یقین تھا کہ بری ہو جائے گا جب وہ قید خانہ سے نکلا تو فرمایا اپنے بادشاہ کی خدمت میں میرا بھی ذکر کرنا کہ ایک ایسا شخص بے قصور قید خانہ میں برسوں سے پڑا ہے۔ مبالغہ کی ضرورت نہیں ۔ میری جو حالت تم نے مشاہدہ کی ہے بلا کم و کاست کہدینا۔

 

وَرَفَعَ أَبَوَيهِ عَلَى العَرشِ وَخَرّوا لَهُ سُجَّدًا ۖ وَقالَ يٰأَبَتِ هٰذا تَأويلُ رُءيٰىَ مِن قَبلُ قَد جَعَلَها رَبّى حَقًّا ۖ وَقَد أَحسَنَ بى إِذ أَخرَجَنى مِنَ السِّجنِ وَجاءَ بِكُم مِنَ البَدوِ مِن بَعدِ أَن نَزَغَ الشَّيطٰنُ بَينى وَبَينَ إِخوَتى ۚ إِنَّ رَبّى لَطيفٌ لِما يَشاءُ ۚ إِنَّهُ هُوَ العَليمُ الحَكيمُ {12:100}

اور اونچا بٹھایا اپنے ماں باپ کو تخت پر اور سب گرے اس کے آگے سجدہ میں [۱۴۲] اور کہا اے باپ یہ بیان ہے میرے اس پہلے خواب کا اس کو میرے رب نے سچ کر دیا [۱۴۳] اور اس نے انعام کیا مجھ پر جب مجھ کو نکالا قید خانہ سے اور تم کو لے آیا گاؤں سے بعد اس کے کہ جھگڑا ڈال چکا تھا شیطان مجھ میں اور میرے بھائیوں میں میرا رب تدبیر سے کرتا ہے جو چاہتا ہے بیشک وہی ہے خبردار حکمت والا [۱۴۴]

یوسفؑ نے اپنی طرف سے والدین کی تعظیم کی ، تخت پر بٹھلایا لیکن خدا کو یوسفؑ کی جو تعظیم کرانی تھی اسے یوسفؑ کب روک سکتے تھے۔ اس وقت کےدستور کے موافق ماں باپ اور سب بھائی یوسفؑ کے آگے سجدہ میں گر پڑے ۔ یہ سجدہ تعظیمی تھا جو بقول حافظ عمادالدین ابن کثیر آدم کے زمانہ سے مسیحؑ کے عہد تک جائز رہا۔ البتہ شریعت محمدیہ نے ممنوع و حرام قرار دیا۔ جیسا کہ احادیث کثیرہ اس پر شاہد ہیں ۔ بلکہ حضرت شاہ عبدالقادرؒ نے { وَاَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلہِ } الخ سے حرمت کا اشارہ نکالا ہے بعض مفسرین نے اس جگہ سجدہ کے معنی متبادر مراد نہیں لئے۔ محض جھک جانے کے معنی لئے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ سجدہ یوسفؑ کو نہ تھا بلکہ یوسفؑ کی عزت و عظمت دیکھ کر سب نے خدا کے سامنے سجدہ شکر ادا کیا۔ اس تقدیر پر { وَخَرُّوْالَہٗ } میں لام سببیۃ ہو گا۔ یعنی یوسفؑ کے عروج و اقتدار کے سبب سے خدا کے آگے سجدہ میں گر پڑے (تنبیہ) تعظیم اور عبادت دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ غیر اللہ کی تعظیم کلیۃً ممنوع نہیں ، البتہ غیر اللہ کی عبادت شرک جلی ہے ۔ جس کی اجازت ایک لمحہ کے لئے بھی کبھی نہیں ہوئی ، نہ ہو سکتی ہے ، "سجود و عبادت" یعنی غیر اللہ کو کسی درجہ میں نفع و ضرر کا مستقل مالک سمجھ کر سجدہ کرنا شرک جلی ہے۔ جس کی اجازت کبھی کسی ملت سماوی میں نہیں ہوئی۔ ہاں "سجود تعظیم" یعنی عقیدہ مذکورہ بالا سے خالی ہو کر محض تعظیم و تکریم کے طور پر سر بسجود ہونا شرائع سابقہ میں جائز تھا۔ شریعت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والتسلیم نے اس کی بھی جڑ کاٹ دی ۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے "حجۃ اللہ البالغہ" میں اقسام شرک پر جو دقیق بحث کی ہے اسے دیکھنا چاہئے۔

یعنی میرا اس میں کچھ دخل نہیں ۔ خواب کی تعبیر پوری ہونی تھی وہ خدا نے پوری کر دکھائی۔

خدا تعالیٰ کے احسانات ذکر فرمائے اور اس کی تدبیر لطیف کی طرف توجہ دلائی کہ کس طرح مجھ کو قید سے نکال کر ملک کا حاکم و مختار بنا دیا۔ اور اس جھگڑے کے بعد جو شیطان نے ہم بھائیوں میں ڈال دیا تھا جبکہ کوئی امید دوبارہ ملنے کی نہ رہی تھی ، کیسے اسباب ہمارے ملاپ کے فراہم کر دیے ۔ اس موقع پر اپنی مصائب و تکالیف کا کچھ ذکر نہ کیا نہ کوئی حرف شکایت زبان پر لائے ، بلکہ بھائیوں کے واقعہ کی طرف بھی ایسے عنوان سے اشارہ کیا کہ کسی فریق کی زیادتی یا تقصیر ظاہر نہ ہونے پائے۔ مبادا بھائی سن کر محجوب ہوں ۔ اللہ اکبر ، یہ اخلاق پیغمبروں کے سوا کس میں ہوتے ہیں۔

 

وَقالَ الشَّيطٰنُ لَمّا قُضِىَ الأَمرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُم وَعدَ الحَقِّ وَوَعَدتُكُم فَأَخلَفتُكُم ۖ وَما كانَ لِىَ عَلَيكُم مِن سُلطٰنٍ إِلّا أَن دَعَوتُكُم فَاستَجَبتُم لى ۖ فَلا تَلومونى وَلوموا أَنفُسَكُم ۖ ما أَنا۠ بِمُصرِخِكُم وَما أَنتُم بِمُصرِخِىَّ ۖ إِنّى كَفَرتُ بِما أَشرَكتُمونِ مِن قَبلُ ۗ إِنَّ الظّٰلِمينَ لَهُم عَذابٌ أَليمٌ {14:22}

اور بولا شیطان جب فیصل ہو چکا سب کام بیشک اللہ نے تم کو دیا تھا سچا وعدہ اور میں نے تم سے وعدہ کیا پھر (سو) جھوٹا کیا اور میری تم پر کچھ حکومت نہ تھی مگر یہ کہ میں نے بلایا تم کو پھر تم نے مان لیا میری بات کو سو الزام نہ دو مجھ کو اور الزام دو اپنے آپ کو نہ میں تمہاری فریاد کو پہنچوں نہ تم میری فریاد کو پہنچو میں منکر ہوں (مجھ کو قبول نہیں) جو تم نے مجھ کو شریک بنایا تھا اس سے پہلے البتہ جو ظالم ہیں انکے لئے ہے عذاب دردناک [۳۶]

یعنی حساب کتاب کے بعد جب جنتیوں کے جنت میں اور دوزخیوں کے دوزخ میں جانے کا فیصلہ ہو چکے اس وقت کفار دوزخ میں جا کر یا داخل ہونے سے پہلے ابلیس لعین کو الزام دیں گے کہ مردود تو نے دنیا میں ہماری راہ ماری اور اس مصیبت میں گرفتار کرایا۔ اب کوئی تدبیر مثلاً سفارش وغیرہ کا انتظام کر تا عذاب الہٰی سے رہائی ملے۔ تب ابلیس ان کےسامنے لیکچر دے گا جس کا حاصل یہ ہے کہ بیشک حق تعالیٰ نے صادق القول پیغمبروں کے توسط سے ثواب و عقاب اور دوزخ و جنت کے متعلق سچے وعدے کئے تھے جن کی سچائی دنیا میں دلائل و براہین سے ثابت تھی اور آج مشاہدے سے ظاہر ہے۔ میں نے اس کے بالمقابل جھوٹی باتیں کہیں اور جھوٹے وعدے کئے۔ جن کا جھوٹ ہونا وہاں بھی ادنیٰ فکر و تامل سےواضح ہو سکتا تھا اور یہاں تو آنکھ کے سامنے ہے ۔ میرے پاس نہ حجت و برہان کی قوت تھی نہ ایسی طاقت رکھتا تھا کہ زبردستی تم کو ایک جھوٹی بات کے مناننے پر مجبور کر دیتا ، بلاشبہ میں نے بدی میں تحریک کی اور تم کو اپنے مشن کی طرف بلایا تم جھپٹ کر خوشی سے آئے اور میں نے جدھر شہ دی ادھر ہی اپنی رضا ء و رغبت سے چل پڑے اگر میں نے اغواء کیا تھا تو تم ایسے اندھے کیوں بن گئے کہ نہ دلیل سنی نہ دعوے کو پرکھا آنکھیں بند کر کے پیچھے ہو لئے ۔ انصاف یہ ہے کہ مجھ سے زیادہ تم اپنے نفسوں پر ملامت کرو۔ میرا جرم اغواء بجائے خود رہا۔ لیکن مجھے مجرم گردان کر تم کیسے بری ہو سکتے ہو۔ آج تم کو مدد دینا تو درکنار ، خود تم سے مدد لینا بھی ممکن نہیں۔ ہم اور تم دونوں اپنے اپنے جرم کے موافق سزا میں پکڑے ہوئے ہیں۔ کوئی ایک دوسرے کی فریاد کو نہیں پہنچ سکتا تم نے اپنی حماقت سے دنیا میں مجھ کو خدائی کا شریک ٹھہرایا (یعنی بعض تو براہ راست شیطان کی عبادت کرنے لگے اور بہتوں نے اس کی باتوں کو ایسی طرح مانا اور اس کے احکام کے سامنے اس طرح تسلیم و انقیاد خم کیا جو خدائی احکام کے آگے کرنا چاہئے تھا) بہرحال اپنے جہل و غباوت سے جو شرک تم نے کیا تھا س وقت میں اس سے منکر اور بیزار ہوں۔ یا { بِمَااَشْرَکْتُمُوْنِیْ } میں بائے سببیت لے کر یہ مطلب ہو کہ تم نے مجھ کو خدائی کا رتبہ دیا اس سبب سے میں بھی کافر بنا ۔ اگر میری بات کوئی نہ پوچھتا تو میں کفر و طغیان کے اس درجہ میں کہاں پہنچتا ۔ اب ہر ایک ظالم اور مشرک کو اپنے کئے کی سزا دردناک عذاب کی صورت میں بھگتنا چاہئے ۔ شور مچانے اور الزام دینے سے کچھ حاصل نہیں۔ گذشتہ آیت میں ضعفاء و مستکبرین (عوام و لیڈروں) کی گفتگو نقل کی گئ تھی، اسی کی مناسبت سے یہاں دوزخیوں کے مہا لیڈر (ابلیس لعین) کی تقریر نقل فرمائی۔ چونکہ عوام کا الزام اور ان کی استدعاء دونوں جگہ یکساں تھی شاید اسی لئے شیطان کی گفتگو کے وقت اس کا ذکر ضروری نہیں معلوم ہوا۔ واللہ اعلم۔ مقصود ان مکالمات کے نقل کرنے سے یہ ہے کہ لوگ اس افراتفری کا تصور کر کے شیاطین الانس والجن کے اتباع سے باز رہیں۔

 

وَحَفِظنٰها مِن كُلِّ شَيطٰنٍ رَجيمٍ {15:17}

اور محفوظ رکھا ہم نے اسکو ہر شیطان مردود سے





 

تَاللَّهِ لَقَد أَرسَلنا إِلىٰ أُمَمٍ مِن قَبلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيطٰنُ أَعمٰلَهُم فَهُوَ وَلِيُّهُمُ اليَومَ وَلَهُم عَذابٌ أَليمٌ {16:63}

قسم اللہ کی ہم نے رسول بھیجے مختلف فرقوں میں تجھ سے پہلے پھر اچھے کر کے دکھلائے انکو شیطان نے ان کے کام سو وہی رفیق ان کا ہے آج اور ان کے واسطے عذاب دردناک ہے [۹۳]

کفار مکہ کی گستاخیوں اور لغو و بیہودہ دعاوی کا ذکر کر کے پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تسلی دیتے ہیں کہ آپ ان کی حرکتوں سے دلگیر اور رنجیدہ نہ ہوں۔ ہم نے آپ سے پہلے بھی مختلف امتوں کی طرف پیغمبر بھیجے ہیں لیکن ہمیشہ یہ ہی ہوا کیا کہ شیطان لعین مکذبین کو ان کے عمل اچھے کر کے دکھلاتا رہا۔ اور وہ برابر شرارت میں بڑھتے رہے ۔ آج وہ سب خدائی عذاب کے نیچے ہیں اور شیطان جو ان کا رفیق ہے کچھ کام نہیں آتا ۔ نہ ان کی فریاد کو پہنچ سکتا ہے۔ یہ ہی انجام آپ کے مکذبین کا ہو گا۔ بعض نے { فَھُوَ وَلِیُّھُمُ الْیَوْمَ } کا یہ مطلب لیا ہے کہ شیطان جس نے اگلوں کو بہکایا تھا وہ ہی آج ان (کفار مکہ) کا رفیق بنا ہوا ہے۔ لہذا جو حشر ان کا ہوا ان کا بھی ہو گا۔

 

فَإِذا قَرَأتَ القُرءانَ فَاستَعِذ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيطٰنِ الرَّجيمِ {16:98}

سو جب تو پڑھنے لگے قرآن تو پناہ لے اللہ کی شیطان مردود سے [۱۶۴]

حدیث میں ہے { خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَہٗ } (تم میں بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھلائے) معلوم ہوا کہ مومن کےلئےقرأت قرآن بہترین کام ہے۔ اور پچھلی آیات میں دو مرتبہ بہتر کاموں پر اجر ملنے کا ذکر تھا اس لئے یہاں قرأت قرآن کے بعض آداب کی تعلیم فرماتے ہیں تا کہ آدمی بے احتیاطی سے اس بہتر کام کا اجر ضائع نہ کر بیٹھے ۔ شیطان کی کوشش ہمیشہ یہ رہتی ہےکہ لوگوں کو نیک کاموں سے روکے خصوصًا قرأت قرآن جیسے کام کو جو تمام نیکیوں کا سرچشمہ ہے ۔ کب ٹھنڈے دل سے گوارا کر سکتا ہے ۔ ضرور اس کی کوشش ہو گی کہ مومن کو اس سے باز رکھے ، اور اس میں کامیاب نہ ہو تو ایسی آفات میں مبتلا کر دے جو قرأت قرآن کا حقیقی فائدہ حاصل ہونے سے مانع ہوں۔ ان سب مغویانہ تدبیروں اور پیش آنے والی خرابیوں سے حفاظت کا یہ ہی طریقہ ہو سکتا ہےکہ جب مومن قرآت قرآن کا ارادہ کرے ، پہلے صدق دل سے حق تعالیٰ پر بھروسہ کرے اور شیطان مردود کی زد سے بھاگ کر خداوند قدوس کی پناہ میں آ جائے ۔ اصلی استعاذہ (پناہ میں آنا) تو دل سے ہے ۔ مگر زبان و دل کو موافق کرنے کے لئے مشروع ہے کے ابتدائے قرأت میں زبان سے بھی { اَعُوذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْم } پڑھے۔

 

إِنَّ المُبَذِّرينَ كانوا إِخوٰنَ الشَّيٰطينِ ۖ وَكانَ الشَّيطٰنُ لِرَبِّهِ كَفورًا {17:27}

بےشک اڑانے والے بھائی ہیں شیطانوں کے اور شیطان ہے اپنے رب کا ناشکر [۳۹]

یعنی مال خدا کی بڑی نعمت ہے جس سے عبادت میں دلجمعی ہو ، بہت سی اسلامی خدمات اور نیکیاں کمانے کا موقع ملے ، اس کو بیجا اڑانا ناشکری ہے جو شیطان کی تحریک و اغواء سے وقوع میں آتی ہے اور آدمی ناشکری کر کے شیطان کے مشابہ ہو جاتا ہے ۔ جس طرح شیطان نے خدا کی بخشی ہوئی قوتوں کو عصیان و اضلال میں خرچ کیا ۔ اس نے بھی حق تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت کو نافرمانی میں اڑایا۔


 

وَقُل لِعِبادى يَقولُوا الَّتى هِىَ أَحسَنُ ۚ إِنَّ الشَّيطٰنَ يَنزَغُ بَينَهُم ۚ إِنَّ الشَّيطٰنَ كانَ لِلإِنسٰنِ عَدُوًّا مُبينًا {17:53}

اور کہہ دے میرے بندوں کہ بات وہی کہیں جو بہتر ہو شیطان جھڑپ کرواتا ہے ان میں شیطان ہے انسان کا دشمن صریح [۸۰]

مشرکین کی جہالت اور طعن و تمسخر کو سن کر ممکن تھا کوئی مسلمان نصیحت و فہمائش کرتے وقت تنگدلی برتنے لگے اور سختی پر اتر آئے اس لئے مسلمانوں کو نصیحت فرمائی کہ مذاکرہ میں کوئی سخت دل آزار اور اشتعال انگیر پہلو اختیار نہ کریں۔ کیونہ اس سے بجائے فائدہ کے نقصان ہوتا ہے۔ شیطان دوسرے کو ابھار کر لڑائی کرا دیتا ہے۔ پھر مخاطب کے دل میں ایسی ضد و عداوت قائم ہو جاتی ہے کہ سمجھتا ہو تب بھی نہ سمجھے۔


 

وَاستَفزِز مَنِ استَطَعتَ مِنهُم بِصَوتِكَ وَأَجلِب عَلَيهِم بِخَيلِكَ وَرَجِلِكَ وَشارِكهُم فِى الأَموٰلِ وَالأَولٰدِ وَعِدهُم ۚ وَما يَعِدُهُمُ الشَّيطٰنُ إِلّا غُرورًا {17:64}

اور گھبرا لے ان میں جس کو تو گھبرا سکے اپنی آواز سے [۹۹] اور لے آ ان پر اپنے سوار اور پیادے [۱۰۰] اور ساجھا کر ان سے مال اور اولاد میں [۱۰۱] اور وعدے دے انکو اور کچھ نہیں وعدہ دیتا انکو شیطان مگر دغابازی [۱۰۲]

یعنی دل میں ارمان نہ رکھ ، ان کو ہر طرح ابھار ، کہ مال و اولاد میں تیرا حصہ لگائیں ، یعنی یہ چیزیں ناجائز طریقہ سے حاصل کریں اور ناجائز کاموں میں صرف کریں۔

یعنی شیطان جو سبز باغ دکھاتا ہے اس سے فریب کھانا احمق کا کام ہے اس کے سب وعدے دغابازی اور فریب سے ہیں۔ چنانچہ وہ خود اقرار کر ے گا۔ { وَوَعَدْ تُّکُمْ فَاَخْلَقْتُکُمْ } (ابراہیم رکوع۴)۔

یعنی وہ آواز جو خدا کے عصیان کی طرف بلاتی ہو ، مراد اس سے وسوسہ ڈالنا ہے اور مزامیر (باجا گاجا) بھی اس میں داخل ہو سکتا ہے۔

یعنی ساری طاقت صرف کر ڈال ! اور پوری قوت سے لشکر کشی کر ! خدا کی معصیت میں لڑنے والے سب شیطان کے سوار اور پیادے ہیں۔ جن ہوں یا انس۔

 

قالَ أَرَءَيتَ إِذ أَوَينا إِلَى الصَّخرَةِ فَإِنّى نَسيتُ الحوتَ وَما أَنسىٰنيهُ إِلَّا الشَّيطٰنُ أَن أَذكُرَهُ ۚ وَاتَّخَذَ سَبيلَهُ فِى البَحرِ عَجَبًا {18:63}

بولا وہ دیکھا تو نے جب ہم نے جگہ پکڑی اس پتھر کے پاس سو میں بھول گیا مچھلی اور یہ مجھ کو بھلا دیا شیطان ہی نے کہ اس کا ذکر کروں [۸۴] اور اس نے کر لیا اپنا رستہ دریا میں عجیب طرح

یعنی مطلب کی بات بھول جانا اور عین موقع یادداشت پر ذہول ہونا۔ شیطان کی وسوسہ اندازی سے ہوا۔

 

يٰأَبَتِ لا تَعبُدِ الشَّيطٰنَ ۖ إِنَّ الشَّيطٰنَ كانَ لِلرَّحمٰنِ عَصِيًّا {19:44}

اے باپ میرے مت پوج شیطان کو بیشک شیطان ہے رحمٰن کا نافرمان [۵۲]

بتوں کو پوجنا شیطان کےاغواء سے ہوتا ہے اور شیطان اس حرکت کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے بتوں کی پرستش گویا شیطان کی پرستش ہوئی۔ اور نافرمان کی پرستش رحمٰن کی انتہائی نافرمانی ہے۔ شاید لفظ "عصٰی" میں ادھر بھی توجہ دلائی ہو کہ شیطان کی پہلی نافرمانی کا اظہار اس وقت ہوا تھا جب تمہارے باپ آدم کے سامنے سر بسجود ہونے کا حکم دیا گیا ، لہذا اولاد آدم کے لئے ڈوب مرنے کا مقام ے کہ رحمٰن کو چھوڑ کر اپنے اس قدیم ازلی دشمن کو معبود بنا لیں۔

 

يٰأَبَتِ إِنّى أَخافُ أَن يَمَسَّكَ عَذابٌ مِنَ الرَّحمٰنِ فَتَكونَ لِلشَّيطٰنِ وَلِيًّا {19:45}

اے باپ میرے میں ڈرتا ہوں کہیں آ لگے تجھ کو ایک آفت رحمٰن سے پھر تو ہو جائے شیطان کا ساتھی [۵۳]

یعنی رحمٰن کی رحمت عظیمہ تو چاہتی ہے کہ تمام بندوں پر شفقت و مہربانی ہو ، لیکن تیری بد اعمالیوں کی شامت سے ڈر ہے کہ ایسے حلیم و مہربان خدا کو غصہ نے آ جائے اور تجھ پر کوئی سخت آفت نازل نہ کر دے جس میں پھنس کر تو ہمیشہ کے لئے شیطان کا ساتھی بن جائے۔ یعنی کفر و شرک کی مزاولت سے آئندہ ایمان و توبہ کی توفیق نصیب نہ ہو اور اولیاء الشیطان کے گروہ میں شامل کر کے دائمی عذاب میں دھکیل دیا جائے عمومًا مفسرین نے یہ ہی معنی لئے ہیں ۔ مگر حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "یعنی کفر کے وبال سے کچھ آفت آئے اور تو مدد مانگنے لگے شیطان سے یعنی بتوں سے ، اکثر لوگ ایسے ہی وقت شرک کرتے ہیں "۔ واللہ اعلم۔

 

فَوَرَبِّكَ لَنَحشُرَنَّهُم وَالشَّيٰطينَ ثُمَّ لَنُحضِرَنَّهُم حَولَ جَهَنَّمَ جِثِيًّا {19:68}

سو قسم ہے تیرے رب کی ہم گھیر بلائیں گے انکو اور شیطانوں کو [۸۳] پھر سامنے لائیں گے گرد دوزخ کے گھٹنوں پر گرے ہوئے [۸۴]

یعنی یہ منکرین ان شیاطین کی معیت میں قیامت کے دن خدا کے سامنے حاضر کئے جائیں گے جو اغواء کر کے انہیں گمراہ کرتے تھے ہر مجرم کا شیطان اس کے ساتھ پکڑا ہوا آئے گا۔

یعنی مارے دہشت کے کھڑے سے گر پڑیں گے اور چین سے بیٹھ بھی نہ سکیں گے۔ یہ ہی ہوا گھٹنوں پر گرنا۔

 

أَلَم تَرَ أَنّا أَرسَلنَا الشَّيٰطينَ عَلَى الكٰفِرينَ تَؤُزُّهُم أَزًّا {19:83}

تو نے نہیں دیکھا کہ ہم نے چھوڑ رکھے ہیں شیطان منکروں پر اچھالتے ہیں انکو ابھار کر

 

فَوَسوَسَ إِلَيهِ الشَّيطٰنُ قالَ يٰـٔادَمُ هَل أَدُلُّكَ عَلىٰ شَجَرَةِ الخُلدِ وَمُلكٍ لا يَبلىٰ {20:120}

پھر جی میں ڈالا اُسکے شیطان نے کہا اے آدم میں بتاؤں تجھ کو درخت سدا زندہ رہنے کا اور بادشاہی جو پرانی نہ ہو [۱۲۳]

یعنی ایسا درخت بتاؤں جس کےکھانےسےکبھی موت نہ آئے اور لازوال بادشاہت ملے۔

 

وَمِنَ الشَّيٰطينِ مَن يَغوصونَ لَهُ وَيَعمَلونَ عَمَلًا دونَ ذٰلِكَ ۖ وَكُنّا لَهُم حٰفِظينَ {21:82}

اور تابع کئے کتنے شیطان جو غوطہ لگاتے اُسکے واسطے اور بہت سے کام بناتے اسکے سوائے [۹۸] اور ہم نے اُنکو تھام رکھا تھا [۹۹]

یعنی ہم نے اپنے اقتدار کامل سے ان شیاطین کو سلیمانؑ کی قید میں اس طرح تھام رکھا تھا کہ جو چاہتے ان سے بیگار لیتے تھے اور وہ کوئی ضرر سلیمانؑ کو نہیں پہنچا سکتے تھے ۔ ورنہ آدمی کی کیا بساط ہے کہ ایسی مخلوق کو اپنے قبضہ میں کر لے اور زنجیروں میں جکڑ کر رکھ چھوڑے۔ { وَاٰخَرِیْنَ مُقَرَّنِیْنَ فِی الاَصْفَادِ } (صٓ رکوع۳)

شیاطین سے مراد سرکش جن ہیں ، ان سے حضرت سلیمانؑ دریا میں غوطہ لگواتے تا موتی اور جواہر اس کی تہ میں سے نکالیں اور عمارات میں بھاری کام کرواتے اور حوض کے برابر تانبے کے لگن اور بڑی عظیم الشان دیگیں جو اپنی جگہ سے ہل نہ سکیں بنوا کر اٹھواتے تھے اور سخت سخت کام ان سے لیتے ۔ معلوم ہوتا ہےکہ جس قسم کے حیرت انگیز کام اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے مادی قوتوں سے کرائے ہیں اس وقت مخفی اور روحی قوتوں سےکرائے جاتے تھے۔

 

وَمِنَ النّاسِ مَن يُجٰدِلُ فِى اللَّهِ بِغَيرِ عِلمٍ وَيَتَّبِعُ كُلَّ شَيطٰنٍ مَريدٍ {22:3}

اور بعضے لوگ وہ ہیں جو جھگڑتے ہیں اللہ کی بات میں بیخبری سے [۲] اور پیروی کرتا ہے ہر شیطان سرکش کی [۳]

یعنی جن یا آدمیوں میں کا جو شیطان اس کو اپنی طرف بلائے یہ فورًا اسی کے پیچھے چل پڑتا ہے گویا گمراہ ہونے کی ایسی کامل استعداد رکھتا ہے کہ کوئی شیطان کسی طرف پکارے یہ اس پر لبیک کہنے کے لئے تیار رہتا ہے۔

یعنی اللہ تعالیٰ جن باتوں کی خبر دیتا ہے ان میں یہ لوگ جھگڑتے اور کج بحثیاں کرتے ہیں اور جہل و بے خبری سے عجیب احمقانہ شبہات پھیلاتے ہیں۔ چنانچہ قیامت ، بعث بعد الموت اور جزاء و سزا و غیرہ پر ان کا بڑا اعتراض یہ ہے کہ جب آدمی مر کر گل سڑ گیا اور ہڈیاں تک ریزہ ریزہ ہو گئیں تو یہ کیسے سمجھ میں آئے کہ وہ پھر زندہ ہو کر اپنی اصلی حالت پر لوٹ آئے گا۔

 

وَما أَرسَلنا مِن قَبلِكَ مِن رَسولٍ وَلا نَبِىٍّ إِلّا إِذا تَمَنّىٰ أَلقَى الشَّيطٰنُ فى أُمنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّهُ ما يُلقِى الشَّيطٰنُ ثُمَّ يُحكِمُ اللَّهُ ءايٰتِهِ ۗ وَاللَّهُ عَليمٌ حَكيمٌ {22:52}

اور جو رسول بھیجا ہم نے تجھ سے پہلے یا نبی سو جب لگا خیال باندھنے شیطان نے ملا دیا اُسکے خیال میں پھر اللہ مٹا دیتا ہے شیطان کا ملایا ہوا پھر پکی کر دیتا ہے اپنی باتیں اور اللہ سب خبر رکھتا ہے حکمتوں والا [۸۶]

آیت کی تفسیر میں اختلاف ہے۔ مترجم محقق قدس اللہ روحہ نے اپنے پیشرو حضرت شاہ عبدالقادرؒ کی روش اختیار فرمائی ہے جس کی طرف حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہٗ نے بھی "حجۃ اللہ البالغہ" کے آخر میں اشارہ کیا ہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ "موضح القران" میں لکھتے ہیں"نبی کو ایک حکم (یا ایک خبر) اللہ کی طرف سے آتی ہے۔ اس میں ہرگز ذرہ بھر تفاوت نہیں ہو سکتا ۔اور ایک اپنے دل کا خیال (اور رائے کا اجتہاد) ہے وہ کبھی ٹھیک پڑتا ہے کبھی نہیں۔ جیسےحضرت نے خواب میں دیکھا (اور نبی کا خواب وحی ہوتا ہے) کہ آپ مدینہ سے مکہ تشریف لے گئے اور عمرہ کیا ۔خیال میں آیا کہ شاید امسال ایسا ہو گا (چنانچہ عمرہ کی نیت سے سفر شروع کیا۔ لیکن درمیان میں احرام کھولنا پڑا) اور اگلے سال خواب کی تعبیر پوری ہوئی ۔ یا وعدہ ہوا کہ کافروں پر غلبہ ہو گا۔ خیال آیا کہ اب کی لڑائی میں ۔ اس میں نہ ہوا، بعد کو ہوا۔ پھر اللہ جتلا دیتا ہے کہ جتنا حکم یا وعدہ تھا اس میں سرِ مو تفاوت نہیں۔"ہاں نبی کے ذاتی خیال و اجتہاد میں تفاوت ہو سکتا ہے گو نبی اصل پیشین گوئی کے ساتھ ملا کر اپنے ذاتی خیال کی اشاعت نہیں کرتا بلکہ دونوں کو الگ رکھتا ہے۔ باقی اس صورت میں "القاء" کی نسبت شیطان کی طرف ویسی ہو گی جیسے { وَمَا اَنْسَانِیْہ اِلَّا الشیطانُ اَنْ اَذْکُرَہٗ } میں "اِنْساء" کی نسبت اس کی طرف کی گئ ہے۔ واللہ اعلم۔ احقر کے نزدیک بہتریں اور سہل ترین تفسیر وہ ہے جس کی مختصر اصل سلف سے منقول ہے۔ یعنی "تمنّٰی" کو بمعنی قرات و تلاوت یا تحدیث کے اور "اُنیست" کو بمعنی متلؤ یا حدیث کے لیا جائے ۔ مطلب یہ ہے کہ قدیم سے یہ عادت رہی ہے کہ جب کوئی نبی یا رسول کوئی بات بیان کرتا یا اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا ہے۔ شیطان اس بیان کی ہوئی بات یا آیت میں طرح طرح کے شبہات ڈال دیتا ہے۔ یعنی بعض باتوں کے متعلق بہت لوگوں کے دلوں میں وسوسہ اندازی کر کے شکوک و شبہات پیدا کر دیتا ہے۔ مثلًا نبی نے آیت { حُرِّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ } الخ پڑھ کر سنائی ، شیطان نے شبہ ڈالا کہ دیکھو اپنا مارا ہوا تو حلال اور اللہ کا مارا ہوا حرام کہتے ہیں۔ یا آپ نے { اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ حَصَبُ جَھَنَّمَ } پڑھا ۔اس نے شبہ ڈالا کہ { مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ } میں حضرت مسیح و عزیر اور ملائکۃ اللہ بھی شامل ہیں۔ یا آپ نےحضرت مسیح کے متعلق پڑھا { کَلِمَۃٌ اَلْقَاھَا اِلٰی مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِنْہُ } شیطان نے سمجھایا کہ اس سے حضرت مسیحؑ کی ابنیت و اولوہیت ثابت ہوتی ہے۔ اس القاء شیطان کے ابطال رد میں پیغمبر اللہ تعالیٰ کی وہ آیات سناتے ہیں جو بالکل صاف اور محکم ہوں اور ایسی پکی باتیں بتلاتے ہیں جن کو سن کر شک و شبہ کی قطعًا گنجائش نہ رہے۔ آیات محکمات سے شیطانی شبہات کا علاج: گویا "متشابہات" کی ظاہری سطح کو لے کر شیطان جو اغواء کر تا ہے " آیات محکمات" اس کی جڑ کاٹ دیتی ہیں جنہیں سن کر تمام شکوک و شبہات ایک دم کافور ہو جاتے ہیں۔ یہ دو قسم کی آیتیں کیوں اتاری جاتی ہیں؟ شیطان کو اتنی وسوسہ اندازی اور تصرف کا موقع کیوں دیا جاتا ہے؟ اور آیات کا جو احکام بعد کو کیا جاتا ہے ابتداء ہی سے کیوں نہیں کر دیا جاتا؟ یہ سب امور حق تعالیٰ کی غیر محدود علم و حکمت سے ناشی ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو علمًا و عملًا دارامتحان بنایا ہے ۔ چنانچہ اس قسم کی کارروائی میں بندوں کی جانچ ہے کہ کون شخص اپنے دل کی بیماری یا سختی کی وجہ سے پادر ہوا شکوک و شبہات کی دلدل میں پھنس کر رہ جاتا ہے اور کون سمجھدار آدمی اپنے علم و تحقیق کی قوت سے ایمان و اخبات کے مقام بلند پر پہنچ کر دم لیتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آدمی نیک نیتی اور ایمانداری سے سمجھنا چاہے تو اللہ تعالیٰ دستگیری فرما کر اس کو سیدھی راہ پر قائم فرما دیتے ہیں ۔ رہے منکریں و مشککین ان کو قیامت تک اطمینان حاصل نہیں ہو سکتا ؂ ہر چہ گیرد علتی علت شود۔ ہماری اس تقریر میں دور تک کئ آیتوں کا مطلب بیان ہو گا۔ سمجھدار آدمی اس کے اجزا کو آیات کے اجزاء پر بے تکلف منطبق کر سکتا ہے۔ یہ آیات جیسا کہ ہم نے سورہ " آل عمران" کے شروع میں بیان کیا تھا۔ { ھُوَ الَّذِیْ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ مِنْہُ اٰیَاتٌ مُحْکماتٌ } الخ سے بہت مشابہ ہیں۔ چنانچہ { اِلَّا اِذَا تَمنّی اَلْقَی الشَیْطَانُ فِی اُمْنِیَّتِہٖ } میں "متشابہات" کا اور { ثُمَّ یُحْکِمُ اللہُ اٰیَاتِہٖ } میں "محکمات" کا ذکر ہوا ۔ اور { لِیَجْعَلَ مَا یُلْقِی الشیْطَانُ فِتْنَۃً } الخ میں زائغین کی دو قسمیں مذکور ہوئیں۔ جن میں { اَلَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَرَضٌ } کا کام ابتغاء تاویل ، اور { اَلْقَاسِیَۃِ قُلُوْبُھُمْ } کی غرض ابتغاء فتنہ ہے آگے { لِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا لْعِلْمَ } الخ کو آیۃ {وَالرَّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ } الخ کی جگہ سمجھو اور وہاں جو دعا { رَبَّنَا لَا تزغ قُلُوبَنَا بَعْدَ اذ ھَدَیْتَنَا } سے کی تھی یہاں اس کی اجابت کا ذکر { اِنَّ اللہَ لَھَادِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْم } میں کیا گیا۔ اور { رَبَّنَا اِنَّکَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوْمٍ لَّا رَیْبَ فِیْہِ } کے مناسب۔ { وَلَا یَزَالُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ مِرْیَۃٍ مِنْہُ حَتّٰی تَاتِیَھُمُ السَّاعَۃُ } الی قولہ ۔ { یَحْکُمُ بَیْنَھُمْ } ہوئی (تنبیہ) آیت حاضرہ کے تحت میں مفسرین نے جو قصہ "غرانیق" کا ذکر کیا ہے اس پر بحث کا یہاں موقع نہیں ۔ شاید سورہ نجم میں کچھ لکھنے کی نوبت آئے ۔ ہم نے شرح صحیح مسلم میں بہت بسط سے اس پر کلام کیا ہے۔ بہرحال آیت کا مطلب سلف کی تفیسر کے موافق بلکل صاف ہے گویا یہ تفصیل اس کی ہوئی جو اوپر { وَالَّذِیْنَ سَعَوْا فِیْ اٰ یَا تِنَا مُعَاجِزِیْنَ } میں ابطال آیات اللہ کی سعی کا ذکر تھا۔

 

لِيَجعَلَ ما يُلقِى الشَّيطٰنُ فِتنَةً لِلَّذينَ فى قُلوبِهِم مَرَضٌ وَالقاسِيَةِ قُلوبُهُم ۗ وَإِنَّ الظّٰلِمينَ لَفى شِقاقٍ بَعيدٍ {22:53}

اس واسطے کہ جو کچھ شیطان نے ملایا اس سے جانچے اُنکو کہ جنکے دل میں روگ ہیں اور جنکے دل سخت ہیں اور گنہگار تو ہیں مخالفت میں دور جا پڑے

 

وَقُل رَبِّ أَعوذُ بِكَ مِن هَمَزٰتِ الشَّيٰطينِ {23:97}

اور کہہ اے رب میں تیری پناہ چاہتا ہوں شیطان کی چھیڑ سے [۹۹]

پہلے شیاطین الانس کے ساتھ برتاؤ کرنے کا طریقہ بتلایا تھا۔ لیکن شیاطین الجن اس طریقہ سے متاثر نہیں ہو سکتے کوئی تدبیر یا نرمی ان کو رام نہیں کر سکتی۔ اس کا علاج صرف استعاذہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ جانا، تا وہ قادر مطلق ان کی چھیڑ خانی اور شر سے محفوظ رکھے۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ شیطان کی چھیڑ یہ ہی کہ دین کے سوال و جواب میں بے موقع غصہ چڑھے اور لڑائی ہو پڑے۔ اسی پر فرمایا کہ برے کا جواب دے اس سے بہتر۔


 

يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّبِعوا خُطُوٰتِ الشَّيطٰنِ ۚ وَمَن يَتَّبِع خُطُوٰتِ الشَّيطٰنِ فَإِنَّهُ يَأمُرُ بِالفَحشاءِ وَالمُنكَرِ ۚ وَلَولا فَضلُ اللَّهِ عَلَيكُم وَرَحمَتُهُ ما زَكىٰ مِنكُم مِن أَحَدٍ أَبَدًا وَلٰكِنَّ اللَّهَ يُزَكّى مَن يَشاءُ ۗ وَاللَّهُ سَميعٌ عَليمٌ {24:21}

اے ایمان والو نہ چلو قدموں پر شیطان کے اور جو کوئی چلے گا قدموں پر شیطان کےسو وہ تو یہی بتلائے گا بیحائی اور بری بات [۲۹] اور اگر نہ ہوتا اللہ کا فضل تم پر اور اس کی رحمت تو نہ سنورتا تم میں ایک شخص بھی کبھی و لیکن اللہ سنوارتا ہے جس کو چاہے اور اللہ سب کچھ سنتا جانتا ہے [۳۰]

یعنی شیطان تو سب کو بگاڑ کر چھوڑتا ایک کو بھی سیدھے راستہ پر نہ رہنے دیتا۔ یہ تو خدا کا فضل اور اس کی رحمت ہے کہ وہ اپنے مخلص بندوں کی دستگیری فرما کر بہتیروں کو محفوظ رکھتا ہے اور بعض کو مبتلا ہو جانے کے بعد توبہ کی توفیق دے کر درست کر دیتا ہے۔ یہ بات اسی خدائے واحد کے اختیار میں ہے اور وہ ہی اپنے علم محیط اور حکمت کاملہ سے جانتا ہے کہ کون بندہ سنوارے جانے کے قابل ہے اور کس کی توبہ قبول ہونی چاہئے۔ وہ سب کی توبہ وغیرہ کو سنتا اور ان کی قلبی کیفیات سے پوری طرح آگاہ ہے۔

یعنی شیطان کی چالوں سے ہشیار رہا کرو۔ مسلمان کا یہ کام نہیں ہونا چاہئے کہ شیاطین الانس و الجن کے قدم بقدم چلنے لگے۔ ان ملعونوں کا تو مشن ہی یہ ہے کہ لوگوں کو بے حیائی اور برائی کی طرف لے جائیں تم جان بوجھ کر کیوں ان کے بھرّے میں آتے ہو۔ دیکھ لو شیطان نے ذرا سا چرکہ لگا کر کتنا بڑا طوفان کھڑا کر دیا اور کئی سیدھے سادھے مسلمان کس طرح اس کے قدم پر چل پڑے۔

 

لَقَد أَضَلَّنى عَنِ الذِّكرِ بَعدَ إِذ جاءَنى ۗ وَكانَ الشَّيطٰنُ لِلإِنسٰنِ خَذولًا {25:29}

اس نے تو بہکا دیا مجھ کو نصیحت سے مجھ تک پہنچ چکنے کے پیچھے (بعد) اور ہے شیطان آدمی کو وقت پر دغا دینے والا [۴۱]

یعنی پیغمبر کی نصیحت مجھ کو پہنچ چکی تھی۔ جو ہدایت کے لئے کافی تھی، اور امکان تھا کہ میرے دل میں گھر کر لے۔ مگر اس کمبخت کی دوستی نے تباہ کیا اور دل کو ادھر متوجہ نہ ہونے دیا۔ بیشک شیطان بڑا دغاباز ہے۔ آدمی کو عین وقت پر دھوکا دیتا اور بری طرح رسوا کرتا ہے۔


 

وَما تَنَزَّلَت بِهِ الشَّيٰطينُ {26:210}

اور اس قرآن کو نہیں لیکر اترے شیطان

 

هَل أُنَبِّئُكُم عَلىٰ مَن تَنَزَّلُ الشَّيٰطينُ {26:221}

میں بتلاؤں تم کو کس پر اترتے ہیں شیطان

 

وَجَدتُها وَقَومَها يَسجُدونَ لِلشَّمسِ مِن دونِ اللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيطٰنُ أَعمٰلَهُم فَصَدَّهُم عَنِ السَّبيلِ فَهُم لا يَهتَدونَ {27:24}

میں نے پایا کہ وہ اور اسکی قوم سجدہ کرتے ہیں سورج کو اللہ کے سوائے اور بھلے دکھلا رکھے ہیں ان کو شیطان نے انکے کام پھر روک دیا ہے انکو رستہ سے سو وہ راہ نہیں پاتے [۳۲]

یعنی وہ قوم مشرک آفتاب پرست ہے شیطان نے ان کی راہ مار دی، اور مشرکانہ رسوم و اطوار کو ان کی نظر میں خوبصورت بنا دیا۔ اسی لئے وہ راہ ہدایت نہیں پاتے۔ ہدہد نے یہ کہہ کر گویا سلیمانؑ کو اس قوم پر جہاد کرنے کی ترغیب دی۔

 

وَدَخَلَ المَدينَةَ عَلىٰ حينِ غَفلَةٍ مِن أَهلِها فَوَجَدَ فيها رَجُلَينِ يَقتَتِلانِ هٰذا مِن شيعَتِهِ وَهٰذا مِن عَدُوِّهِ ۖ فَاستَغٰثَهُ الَّذى مِن شيعَتِهِ عَلَى الَّذى مِن عَدُوِّهِ فَوَكَزَهُ موسىٰ فَقَضىٰ عَلَيهِ ۖ قالَ هٰذا مِن عَمَلِ الشَّيطٰنِ ۖ إِنَّهُ عَدُوٌّ مُضِلٌّ مُبينٌ {28:15}

اور آیا شہر کے اندر جس وقت بیخبر ہوئے تھے وہاں کے لوگ [۲۰] پھر پائے اس نے دو مرد لڑتے ہوئے یہ ایک اسکے رفیقوں میں اور یہ دوسرا اسکے دشمنوں میں پھر فریاد کی اس سے اس نے جو تھا اس کے رفیقوں میں اس کی جو تھا اس کے دشمنوں میں پھر مکا مارا اسکو موسٰی نے پھر اسکو تمام کر دیا بولا یہ ہوا شیطان کے کام سے بیشک وہ دشمن ہے بہکانے والا صریح

یعنی حضرت موسٰیؑ جوان ہو کر ایک روز شہر میں پہنچے جس وقت لوگ غافل پڑے سو رہے تھے شاید رات کا وقت ہو گا یا دوپہر ہو گی۔

 

وَعادًا وَثَمودَا۟ وَقَد تَبَيَّنَ لَكُم مِن مَسٰكِنِهِم ۖ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيطٰنُ أَعمٰلَهُم فَصَدَّهُم عَنِ السَّبيلِ وَكانوا مُستَبصِرينَ {29:38}

اور ہلاک کیا عاد کو اور ثمود کو اور تم پر حال کھل چکا ہے ان کے گھروں سے [۵۶] اور فریفتہ کیا انکو شیطان نے ان کے کاموں پر پھر روک دیا ان کو راہ سے اور تھے ہوشیار [۵۷]

یعنی ان کی بستیوں کے کھنڈر تم دیکھ چکے ہو۔ ان سے عبرت حاصل کرو۔

یعنی دنیا کے کام میں ہشیار تھے اور اپنے نزدیک عقلمند تھے، پر شیطان کے بہکائے سے نہ بچ سکے۔

 

وَإِذا قيلَ لَهُمُ اتَّبِعوا ما أَنزَلَ اللَّهُ قالوا بَل نَتَّبِعُ ما وَجَدنا عَلَيهِ ءاباءَنا ۚ أَوَلَو كانَ الشَّيطٰنُ يَدعوهُم إِلىٰ عَذابِ السَّعيرِ {31:21}

اور جب ان کو کہیے چلو اس حکم پر جو اتارا اللہ نے کہیں نہیں ہم تو چلیں گے اس پر جس پر پایا ہم نے اپنے باپ دادوں کو بھلا اور جو شیطان بلاتا ہو ان کو دوزخ کے عذاب کی طرف تو بھی [۲۹]

یعنی اگر شیطان تمہاے باپ دادوں کو دوزخ کی طرف لئے جا رہا ہو، تب بھی تم ان کے پیچھے چلو گے؟ اور جہاں وہ گریں گے وہیں گرو گے؟

 

إِنَّ الشَّيطٰنَ لَكُم عَدُوٌّ فَاتَّخِذوهُ عَدُوًّا ۚ إِنَّما يَدعوا حِزبَهُ لِيَكونوا مِن أَصحٰبِ السَّعيرِ {35:6}

تحقیق شیطان تمہارا دشمن ہے سو تم بھی سمجھ رکھو اس کو دشمن وہ تو بلاتا ہے اپنے گروہ کو اسی واسطے کے ہوں دوزخ والوں میں [۹]

یعنی قیامت آنی ہے اور یقینًا سب کو اللہ تعالیٰ کی بڑی عدالت میں حاضر ہونا ہے۔ اس دنیا کی ٹیپ ٹاپ اور فانی عیش و بہار پر نہ پھولو۔ اور اس مشہور دغاباز شیطان کے دھوکہ میں مت آؤ۔ وہ تمہارا ازلی دشمن ہے۔ کبھی اچھا مشورہ نہ دے گا۔ یہ ہی کوشش کرے گا کہ اپنے ساتھ تم کو بھی دوزخ میں پہنچا کر چھوڑے طرح طرح کی باتیں بنا کر خدا اور آخرت کی طرف سے غافل کرتا رہے گا۔ چاہئے کہ تم دشمن کو دشمن سمجھو اس کی بات نہ مانو۔ اس پرثابت کر دو کہ ہم تیری مکاری کے جال میں پھنسنے والے نہیں۔ خوب سمجھتے ہیں کہ تو دوستی کے لباس میں بھی دشمنی کرتا ہے۔

 

أَلَم أَعهَد إِلَيكُم يٰبَنى ءادَمَ أَن لا تَعبُدُوا الشَّيطٰنَ ۖ إِنَّهُ لَكُم عَدُوٌّ مُبينٌ {36:60}

میں نے نہ کہہ رکھا تھا تم کو اے آدم کی اولاد کہ نہ پوجیو شیطان کو وہ کھلا دشمن ہے تمہارا

 

وَحِفظًا مِن كُلِّ شَيطٰنٍ مارِدٍ {37:7}

اور بچاؤ بنایا ہر شیطان سر کش سے [۷]

یعنی تاروں سے آسمان کی زینت و آرائش ہے۔ اور بعض تاروں کے ذریعہ سے جو ٹوٹتے ہیں شیطانوں کو روکنے اور دفع کرنے کا کام بھی لیا جاتا ہے یہ ٹوٹنے والے ستارے کیا ہیں۔ آیا کواکب نوریہ کے علاوہ کوئی مستقل نوع کواکب کی ہے یا کواکب نوریہ کی شعاعوں ہی سے ہوا متکیّف ہو کر ایک طرح کی آتش سوزاں پیدا ہو جاتی ہے یا خود کواکب کے اجزاء ٹوٹ کر گرتے ہیں؟ اس میں علماء و حکماء کے مختلف اقوال ہیں۔ بہرحال ان کی حقیقت کچھ ہی کیوں نہ ہو، رجم شیاطین کا کام بھی ان سے لیا جاتا ہے اسکی کچھ تفصیل سورہ "حجر" کے فوائد میں گذر چکی ملاحظہ کر لیجائے۔

 

طَلعُها كَأَنَّهُ رُءوسُ الشَّيٰطينِ {37:65}

اس کا خوشہ جیسے سر شیطان کے [۴۰]

یعنی سخت بدنما شیطان کی صورت، یا شیاطین کہا سانپوں کو۔ یعنی اس کا خوشہ سانپ کے سر کی طرح ہو گا جیسے ہمارے ہاں ایک درخت کو اسی تشبیہ سے "ناگ پھن" کہتے ہیں۔

 

وَالشَّيٰطينَ كُلَّ بَنّاءٍ وَغَوّاصٍ {38:37}

اور تابع کر دیے شیطان سارے عمارت بنانے والے اور غوطہ لگانے والے [۳۷]

یعنی جن ان کے حکم سے بڑی بڑی عمارتیں بنانے اور موتی وغیرہ نکالنے کے لئے دریاؤں میں غوطے لگاتے تھے۔ ہوا اور جنات کے تابع کرنے کے متعلق پہلے سورۂ "سبا" وغیرہ میں کچھ تفصیل گذر چکی ہے۔

 

وَاذكُر عَبدَنا أَيّوبَ إِذ نادىٰ رَبَّهُ أَنّى مَسَّنِىَ الشَّيطٰنُ بِنُصبٍ وَعَذابٍ {38:41}

اور یاد کر ہمارے بندے ایوب کو جب اس نے پکارا اپنے رب کہ مجھ کو لگا دی شیطان نے ایذاء اور تکلیف [۴۱]

قرآن کریم کے تتبع سے ظاہر ہوتا ہے کہ جن امور میں کوئی پہلو شر یا ایذاء کا یا کسی مقصد صحیح کے فوت ہونے کا ہو ان کو شیطان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ جیسے موسٰیؑ کے قصہ میں آیا { وَمَااَنْسَانیہُ اِلَّاالشَّیْطَانُ اَنْ اَذْکُرَہٗ } (کہف رکوع۹) کیونکہ اکثر اس قسم کی چیزوں کا سبب قریب یا بعید کسی درجہ میں شیطان ہوتا ہے۔ اسی قاعدہ سے حضرت ایوبؑ نے اپنی بیماری یا تکلیف یا آزار کی نسبت شیطان کی طرف کی گویا تواضعًا و تاوّبًا یہ ظاہر کیا کہ ضرور مجھ سے کوئی تساہل یا کوئی غلطی اپنے درجہ کے موافق صادر ہوئی ہے جس کے نتیجہ میں یہ آزار پیچھے لگا۔ یا حالت مرض و شدت میں شیطان القاء وساوس کی کوشش کرتا ہو گا اور یہ اس کی مدافعت میں تعب و تکلیف اٹھاتے ہوں گے۔ اس کو نصب وعذاب سے تعبیر فرمایا۔ واللہ اعلم۔ (تنبیہ) حضرت ایوبؑ کا قصہ سورہ "انبیاء" میں گذر چکا۔ وہاں ملاحظہ کر لیا جائے۔ مگر واضح رہے کہ قصہ گویوں نے حضرت ایوبؑ کی بیماری کے متعلق جو افسانے بیان کئے ہیں اس میں مبالغہ بہت ہے۔ ایسا مرض جو عام طور پر لوگوں کے حق میں تنفر اور استقذار کا موجب ہو انبیاء علیہم السلام کی وجاہت کے منافی ہے کما قالی تعالی { وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اٰذَوْمُوْسٰی فَبَرَّأَہُ اللہُ مِمَّا قَالُوْ وَکَانَ عِنْدَاللہِ وَجِیْھًا } (احزاب رکوع۹) لہذا اسی قدر بیان قبول کرنا چاہئے جو منصب نبوت کے منافی نہ ہو۔

 

وَإِمّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيطٰنِ نَزغٌ فَاستَعِذ بِاللَّهِ ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّميعُ العَليمُ {41:36}

اور جو کبھی چوک لگے تجھ کو شیطان کے چوک لگانے سے تو پناہ پکڑ اللہ کی بیشک وہی ہے سننے والا جاننے والا [۵۰]

یعنی ایسے شیطان کے مقابلہ میں نرمی اور عفو و درگذر سے کام نہیں چلتا۔ بس اس سے بچنے کی ایک ہی تدبیر ہے کہ خداوند قدوس کی پناہ میں آجاؤ۔ یہ وہ مضبوط قلعہ ہے جہاں شیطان کی رسائی نہیں اگر تم واقعی اخلاص و تضرّع سے اللہ کو پکارو گے، وہ ضرور تم کو پنادہ دے گا۔ کیونکہ وہ ہر ایک کی پکار سنتا ہے اور خوب جانتا ہے کہ کس نے کتنے اخلاص و تضرّع سے اسکو پکارا ہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ اس آیت کا پہلی آیت سے ربط ظاہر کرنے کی غرض سے لکھتے ہیں۔ "یعنی کبھی بے اختیار غصہ چڑھ آئے تو یہ شیطان کا دخل ہے" وہ نہیں چاہتا کہ تم حسن اخلاق پر کاربند ہو کر دعوت الی اللہ کے مقصد میں کامیابی حاصل کرو۔

 

وَمَن يَعشُ عَن ذِكرِ الرَّحمٰنِ نُقَيِّض لَهُ شَيطٰنًا فَهُوَ لَهُ قَرينٌ {43:36}

اور جو کوئی آنکھیں چرائے رحمٰن کی یاد سے ہم اُس پر مقرر کر دیں ایک شیطان پھر وہ رہے اسکا ساتھی [۳۳]

یعنی جو شخص سچی نصیحت اور یاد الٰہی سے اعراض کرتا رہتا ہے اس پر ایک شیطان خصوصی طور سے مسلط کر دیا جاتا ہے جو ہر وقت اغواء کرتا اور اسکے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈالتا ہے۔ یہ شیطان دوزخ تک اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔

 

وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيطٰنُ ۖ إِنَّهُ لَكُم عَدُوٌّ مُبينٌ {43:62}

اور نہ روک دے تم کو شیطان وہ تو تمہارا دشمن ہے صریح [۵۷]

یعنی قیامت کے آنے میں شک نہ کرو۔ اور جو سیدھی راہ ایمان و توحید کی بتلا رہا ہوں اس پر چلے آؤ۔ مبادا تمہارا ازلی دشمن شیطان تم کو اس راستہ سے روک دے۔

 

إِنَّ الَّذينَ ارتَدّوا عَلىٰ أَدبٰرِهِم مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُمُ الهُدَى ۙ الشَّيطٰنُ سَوَّلَ لَهُم وَأَملىٰ لَهُم {47:25}

بیشک جو لوگ الٹے پھر گئے اپنی پیٹھ پر بعد اسکے کہ ظاہر ہو چکی ان پر سیدھی راہ شیطان نے بات بنائی انکے دل میں اور دیر کے وعدے کئے [۳۹]

یعنی منافقین اسلام کا اقرار کرنے اور اسکی سچائی ظاہر ہو چکنے کے بعد وقت آنے پر اپنے قول و قرار سے پھرے جاتے ہیں۔ اور جہاد میں شرکت نہیں کرتے۔ شیطان نے انکو یہ بات سمجھا دی ہے کہ لڑائی میں نہ جائیں گے تو دیر تک زندہ رہیں گے۔ خواہ مخواہ جا کر مرنے سے کیا فائدہ۔ اور نہ معلوم کیا کچھ سمجھاتا اور دور دراز کے لمبے چوڑے وعدے دیتا ہے۔ { وَمَا یَعِدُھُمُ الشَّیْطَانُ اَلَّا غُرُوْرًا } ۔

 

إِنَّمَا النَّجوىٰ مِنَ الشَّيطٰنِ لِيَحزُنَ الَّذينَ ءامَنوا وَلَيسَ بِضارِّهِم شَيـًٔا إِلّا بِإِذنِ اللَّهِ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَليَتَوَكَّلِ المُؤمِنونَ {58:10}

یہ جو ہے کانا پھوسی سو شیطان کا کام ہے تاکہ دلگیر کرے ایمان والوں کو اور وہ اُن کا کچھ نہ بگاڑے گا بدون اللہ کے حکم کے اور اللہ پر چاہئے کہ بھروسہ کریں ایمان والے [۱۹]

یعنی منافقین کی کانا پھوسی (سرگوشی) اسی غرض سے تھی کہ ذرا مسلمان رنجیدہ اور دلگیر ہوں اور گھبرا جائیں کہ نہ معلوم یہ لوگ ہماری نسبت کیا منصوبے سوچ رہے ہوں گے۔ یہ کام شیطان ان سے کرا رہا تھا۔ مگر مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ شیطان ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اس کے قبضہ میں کیا چیز ہے۔ نفع نقصان سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کا حکم نہ ہو تو کتنے ہی مشورے کرلیں اور منصوبے گانٹھ لیں، تمہارا بال بینکا نہ ہوگا۔ لہٰذا تم کو غمگین و دلگیر ہونے کے بجائے اپنے اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیئے۔ (تنبیہ) احادیث میں ممانعت آئی ہے کہ مجلس میں ایک آدمی کو چھوڑ کر دو شخص کانا پھوسی کرنے لگیں۔ کیونکہ وہ تیسرا غمگین ہو گا۔ یہ مسئلہ بھی ایک طرح آیۃ ھٰذا کے تحت میں داخل ہوسکتا ہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں۔ "مجلس میں دو شخص کان میں بات کریں تو دیکھنے والے کو غم ہو کہ مجھ سے کیا حرکت ہوئی جو یہ چھپ کر کہتے ہیں"۔

 

استَحوَذَ عَلَيهِمُ الشَّيطٰنُ فَأَنسىٰهُم ذِكرَ اللَّهِ ۚ أُولٰئِكَ حِزبُ الشَّيطٰنِ ۚ أَلا إِنَّ حِزبَ الشَّيطٰنِ هُمُ الخٰسِرونَ {58:19}

قابو کر لیا ہے اُن پر شیطان نے پھر بھلا دی اُنکو اللہ کی یاد [۳۵] وہ لوگ ہیں گروہ شیطان کا سنتا ہے جو گروہ ہے شیطان کا وہی خراب ہوتے ہیں [۳۶]

شیطانی لشکر کا انجام یقیناً خراب ہے۔ نہ دنیا میں ان کے منصوبے آخری کامیابی کا منہ دیکھ سکتے ہیں نہ آخرت میں عذاب شدید سے نجات پانے کی کوئی سبیل ہے۔

شیطان جس پر پوری طرح قابو کر لے اس کا دل و دماغ اسی طرح مسخ ہوجاتا ہے اسے کچھ یاد نہیں رہتا کہ خدا بھی کوئی چیز ہے۔ بھلا اللہ کی عظمت اور بزرگی و مرتبہ کو و ہ کیا سمجھے۔ شاید محشر میں بھی جھوٹ پر قدرت دے کر اس کی بیحیائی اور حماقت کا اعلان کرنا ہو کہ اس ممسوخ کو اتنی سمجھ نہیں کہ اللہ کے آگے میرا جھوٹ کیا چلے گا۔


 

كَمَثَلِ الشَّيطٰنِ إِذ قالَ لِلإِنسٰنِ اكفُر فَلَمّا كَفَرَ قالَ إِنّى بَريءٌ مِنكَ إِنّى أَخافُ اللَّهَ رَبَّ العٰلَمينَ {59:16}

جیسے قصہ شیطان کا جب کہے انسان کو تو منکر ہو پھر جب وہ منکر ہو گیا کہے میں الگ ہوں تجھ سے میں ڈرتا ہوں اللہ سے جو رب ہے سارے جہان کا

 

وَلَقَد زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنيا بِمَصٰبيحَ وَجَعَلنٰها رُجومًا لِلشَّيٰطينِ ۖ وَأَعتَدنا لَهُم عَذابَ السَّعيرِ {67:5}

اور ہم نے رونق دی سب سے ورلے آسمان کو چراغوں سے [۸] اور اُن سے کر رکھی ہے ہم نے پھینک مار شیطانوں کے واسطے [۹] اور رکھا ہے اُنکے واسطے عذاب دہکتی آگ کا [۱۰]

یعنی آسمان کی طرف دیکھو! رات کے وقت ستاروں کی جگمگاہٹ سے کیسی رونق و شان معلوم ہوتی ہے۔ یہ قدرتی چراغ ہیں جن سے دنیاکے بہت سے منافع وابستہ ہیں۔

یہ مضمون سورۃ "حجر" وغیرہ میں کئ جگہ بہت تفصیل سے گذر چکا ہے۔

یعنی دنیا میں شہاب پھینکے جاتے ہیں اور آخرت میں اُن کے لئےدوزخ کی آگ تیار ہے۔

 

وَما هُوَ بِقَولِ شَيطٰنٍ رَجيمٍ {81:25}

اور یہ کہا ہوا نہیں کسی شیطان مردود کا [۱۹]

بھلا شیطان ایسی نیکی اور پرہیزگاری کی باتیں کیوں سکھلانے لگا جس میں سراسر بنی آدم کا فائدہ اور خود اس ملعون کی تقبیح و مذمت ہو۔

 

================================

۱۔ نمازی کے آگے سے گزرنے والا:۔
حضرت ابوسعید خدریؓ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم میں سے کوئی شخص سترہ کی جانب نماز پڑھ رہا ہو اور کوئی بندہ تمھارے اور سترہ کے درمیان سے گزرنا چاہے تو تم اس کو روکو، اگر وہ نہ رکے تو اس سے لڑائی کرو کیونکہ "وہ شیطان ہے"
[بخاری، کتاب الصلاۃ، باب یردالمصلی من مر بین یدیہ، حدیث: ۵۰۹]

تشریح 
" قتل" کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حقیقۃً ایسے آدمی کو موت کے گھاٹ اتار دینا چاہئے بلکہ قتل سے مراد یہ ہے کہ چونکہ نمازی کے آگے سے گزرنا بہت برا ہے اس لیے اگر کوئی آدمی نمازی کے آگے سے گزرنا چاہے تو اسے پوری طاقت و قوت کے ساتھ گزرنے سے روک کر اسے اتنی بڑی غلطی کے ارتکاب سے بچایا جائے۔ 
قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ ایسے آدمی کو کسی ایسی چیز کے ذریعے روکا جائے جس کا استعمال اس روکنے کے سلسلے میں جائز ہو اور اس روک تھام میں اگر گزرنے ولا آدمی مر جائے تو علماء کے نزدیک متفقہ طور پر اس کا قصاص نہیں ہوگا۔ ہاں دیت کے واجب ہونے میں علماء کے ہاں اختلاف ہے چنانچہ بعض علماء فرماتے ہیں کہ ایسی شکل میں دیت واجب ہوگی اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ واجب نہیں ہوگی۔


حدیث میں ایسے آدمی کو شیطان کہا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ شیطان نے چونکہ اس آدمی کو بہکا کر اس غلط کام کو کرنے پر مجبور کیا لہٰذا وہ آدمی اس شیطانی کام کر نے کی بناء پر بمنزلہ شیطان کے ہوا۔ 
یا اس سے مراد یہ ہے کہ ایسا غلط کام کرنے والا آدمی انسانوں کا شیطان ہے اس لیے کہ شیطان کے معنی سر کش کے ہیں خواہ انسانوں میں سے ہو یا جنات میں سے ہو اسی لیے شریر النفس آدمی کو شیطان انس کہا جاتا ہے۔


۲۔ کالا کتا:۔
حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ( مدینہ کے ) کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دے دیا تھا چنانچہ ( ہم مدینہ اور اطراف مدینہ کے کتوں کو مار ڈالتے تھے ) یہاں تک کہ جو عورت جنگل سے آتی اور اس کا کتا اس کے ساتھ ہوتا تو ہم اس کو بھی ختم کر دیتے تھے ، پھر بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عام کتوں کو مار ڈالنے سے منع فرما دیا اور یہ حکم دیا کے خالص سیاہ کتے کو جو دو نقطوں والا ہو مار ڈالنا تمہارے لئے ضروری ہے کیونکہ وہ شیطان ہے ۔ "
[صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب قدر ما یستر المصلی، حدیث: ۵۱۰]


تشریح 
علماء نے لکھا ہے کہ کتوں کو مار ڈالنے کا حکم صرف مدینہ منورہ کے ساتھ مخصوص تھا کیونکہ وہ شہر مقدس محض اسی اعتبار سے تقدیس کا حامل نہیں تھا کہ اس میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اقامت پذیر تھے بلکہ اس اعتبار سے بھی اس کو پاکیزگی کی عظمت حاصل تھی کہ وہ وحی کے نازل ہونے اور ملائکہ کی آمد و رفت کی جگہ تھا ، لہذا یہ بات بالکل موزوں اور مناسب تھی کہ اس کی سر زمین کو کتوں کے وجود سے پاک رکھا جاتا ۔ 
عورتوں کی تخصیص یا تو اس وجہ سے ہے کہ جو عورتیں جنگل میں بود وباش رکھتی تھیں ان کو ( مویشیوں وغیرہ کی حفاظت کے لئے ) کتوں کی زیادہ ضرورت ہوتی تھی ، اور جب وہ شہر میں آتیں تو اس وقت بھی ان کا کتا ان کے ہمراہ ہوتا تھا ۔ 
یا یہ کہا جائے کہ یہاں عورت کی قید محض اتفاقی ہے اور مراد یہ ہے کہ ان کتوں کو بھی زندہ نہیں چھوڑا جاتا تھا جو جنگل سے شہر آ جاتے تھے خواہ وہ کسی عورت کے ساتھ آتے یا کسی مرد وغیرہ کے ساتھ ۔ 
" جو دو نقطوں والا ہو ' یعنی وہ کالا بھجنگ کتا جس کی دونوں آنکھوں پر دو سفید نقطے ( ٹپکے ) ہوتے ہیں ۔ اس قسم کا کتا چونکہ انتہائی شریر اور لوگوں کے لئے سخت تکلیف اور ایذاء پہنچانے والا ہوتا ہے اس لئے اس کو " شیطان " فرمایا گیا ہے ۔ 
اس کو " شیطان " کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایسا کتا نہ نگہبانی کے کام کا ہوتا ہے اور نہ شکار پکڑنے کے مصرف کا ، چنانچہ اسی سبب سے حضرات امام احمد و اسحق نے یہ کہا ہے کہ سیاہ کتے کا پکڑا ہوا شکار حلال نہیں کیونکہ وہ شیطان ہے ۔ 
حضرت امام نووی فرماتے ہں کہ عقور یعنی کٹ کھنے کتے کو مار ڈالنے پر تو علمار کا اتفاق ہے اگرچہ وہ سیاہ رنگ کا نہ ہو لیکن اس کتے کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں جو نقصان و ضرر پہنچانے والا نہ ہو ۔ 
امام حرمین کہتے ہیں کہ کتوں کو مار ڈالنے کے حکم کی اصل صورت حال یہ ہے کہ پہلے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قسم کے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا تھا ، بعد میں اس حکم کی عمومیت منسوخ کر کے اس کے صرف یک رنگ سیاہ کتے تک محدود کر دیا گیا اور پھر آخری طور پر ان تمام کتوں کو مار ڈالنے کی ممانعت نافذ ہوئی جو نقصان و ضرر پہنچانے والے نہ ہوں ، یہاں تک کہ یک رنگ سیاہ کتے کو بھی اس حکم میں شامل کر دیا گیا اگر اس سے نقصان و ضرر پہنچنے کا خطرہ نہ ہو تو اس کو بھی ختم نہ کیا جائے ۔ 
" اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ( سارے کتوں کے یا مدینہ کے ) کتوں کے مار ڈالنے کا حکم دیا ، لیکن شکاری کتوں اور بکریوں کی حفاظت کرنے والے کتوں اور مویشیوں کی حفاظت کرنے والے کتوں کو مستثنی رکھا ۔ " ( بخاری ومسلم )








۳۔ غیر محرموں کے سامنے زیب و زینت کا اظہار کرنے والی عورت:۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عورت شیطان کی صورت میں آتی جاتی ہے، جب تم میں سے کوئی ایک کسی عورت کو دیکھے تو وہ اپنے اہل کو آئے ۔ یہ عمل اس کے دل میں داخل شدہ خیالات کو ختم کردے گا۔
[صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب ندب من رأی امراۃ فوقعت فی نفسہ أن یأتی أھلہ، حدیث: ۱۴۰۳]

۴۔ عشقیہ اشعار پڑھنے والا:۔
حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ "عرج" نامی جگہ سے گزر رہے تھے کہ اچانک ایک شاعر سامنے آیا۔ وہ شعر گوئی کررہا تھا، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: شیطان کو پکڑ یا اس شیطان کو روکو، تم میں سے اگر کوئی شخص اپنے پیٹ کو پیپ کے ساتھ بھر لے جو اس کی آنتوں کو کاٹ کے رکھ دے ، یہ اس کے لیے اشعار یاد کرنے سے بہتر ہے۔
[مسلم ، کتاب الشعر، بابٌ، حدیث: ۲۲۵۹]



 

۵۔ تنہا سفر کرنے والا:۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"ایک سوار شیطان ہے، دوسوار شیطان ہیں اور تین افراد ہوں تو قافلہ ہے۔"
[جامع الترمذی، ابواب الجہاد عن رسول اللہﷺ ، باب ماجاء فی کراھیۃ أن یسافر الرجل وحدہ، حدیث: ۱۶۷۴]
تشریح :
تین سوار سوار ہیں کا مطلب یہ ہے کہ تین سوار اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کو سوار کہا جائے کیونکہ وہ شیطان کی فریب کاریوں سے محفوظ رہتے ہیں ۔ گویا اس طرح ایک یا دو سوار کو سفر کرنے سے منع کیا گیا ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ سفر میں کم سے کم تین ساتھیوں کا ہونا ضروری ہے اس لئے کہ تنہا سفر کرنے میں ایک نقصان تو یہ ہے کہ جماعت فوت ہو جاتی ہے اور دوسرے یہ کہ اگر اس کو کوئی ضرورت وحادثہ پیش آجائے تو اس کا کوئی مددگار نہیں ہوتا اور وہ ہر معاملے میں درماندہ رہتا ہے ، اسی طرح اگر محض دو ساتھی سفر کریں تو اس صورت میں اگر خدانخواستہ یہ بات پیش آجائے کہ ایک ساتھی بیمار ہو جائے یا مر جائے تو دوسرا ساتھی سخت مضطر اور پریشان ہو گا اور یہ چیز شیطان کی خوشی کا باعث ہے یا یہ مراد ہے کہ اگر کوئی شخص تنہا سفر کرے یا سفر کے دو ہی ساتھی ہوں تو شیطان کو بڑی آسانی کے ساتھ یہ موقع ملتا ہے کہ وہ ان کو گمراہ کرے اور برائی میں مبتلا کرے ، اسی بات کو زیادہ سے زیادہ اہمیت کے ساتھ بیان کرنے کے لئے ایک سوار یا دو سوار کو شیطان فرما دیا گیا ہے ۔ بہر حال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ سفر میں کم سے کم تین آدمی ہونے چاہئیں تاکہ اول تو وہ جماعت سے نماز ادا کریں اور دوسرے یہ کہ اگر ایک شخص کو دوران سفر کسی ضرورت سے کہیں جانا پڑے تو دو باقی رہیں اور آپس میں ایک دوسرے کی دلبستگی واطمینان کا ذریعہ بنیں اور اگر اس شخص کے آنے میں تاخیر ہو جائے تو ان دونوں میں سے ایک اس کی خبر لینے اور تاخیر کا سبب جاننے کے لئے چلا جائے اور دوسرا سامان وغیرہ کی دیکھ بھال کرتا رہے ۔



۶۔ کبوتر اور اس کے پیچھے بھاگنے والا:۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کبوتری کے پیچھے بھاگتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:

"شیطان ، شیطانہ کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔

[ابوداؤد، کتاب الأدب، باب فی اللعب بالحمام، حدیث: ۴۹۴۰]

 

تشریح
اس شخص کو شیطان اس لئے فرمایا کہ وہ حق سے بعد اختیار کئے ہوئے تھا اور لایعنی و بے مقصد کام میں مشغول تھا اور ان کبوتروں کو اس بنا پر شیطان فرمایا کہ انہوں نے اس شخص کو بازی اور لہو و لعب میں مشغول کر کے ذکر الہٰی اور دین و دنیا کے دوسرے کاموں سے باز رکھا ، اس سے معلوم ہوا کہ کبوتر بازی حرام ہے اور نووی نے لکھا ہے کہ انڈے سے بچے حاصل کرنے کے لئے دل کو بہلانے کی خاطر اور نامہ بری کے مقصد سے کبوتروں کو پالنا بلا کراہت جائز ہے لیکن ان کو اڑانا مکروہ ہے ۔


۷۔ گانا سننے اور گنگنانے والا:۔، ۸۔ رقص کرنے اور دیکھنے والا:۔
ایک حبشی عورت رقص کررہی تھی اور گاناگا رہی تھی ۔ اچانک عمر رضی اللہ عنہ کا وہاں سے گزر ہوا تو تمام لوگ وہاں سے بھاگ گئے۔ یہ منظر دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: " میں جنوں اور انسانوں کے شیطانوں کو عمرؓ کی ہیبت کی وجہ سے بھاگتا دیکھ رہا ہوں۔
[جامع الترمذی، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر بن الخطاب، حدیث: ۳۶۹۱]

۹۔ خلوت کے راز افشاء کرنے والے مردوعورت:۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "شاید کہ تم میں سے کوئی ایک اس کو لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہو جو اس نے اپنی بیوی کے ساتھ کیا ہوتا ہے اور شایدکہ تم (عورتوں )میں سے کوئی ایک بھی ایسا کرتی ہے۔ تو ایک سیاہ رنگ کی عورت کھڑی ہوئی اور کہنے لگی: "اے اللہ کے رسول ﷺ! مرد بھی اور عورتیں بھی ایسا کرتی ہیں ۔" تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "ان کی مثال اس شیطان کی طرح ہے جو شیطانہ سے راستہ میں اپنی حاجت کو پورا کرے اور لوگ دیکھ رہے ہوں۔
[مصنف ابن ابی شیبہ ۳۹/۴، مسند احمد ، حدیث: ۲۷۰۳۶]




١٠ - نماز میں وسوسہ ڈالنے والا شیطان
مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 73
" حضرت عثمان ابن ابی العاص ( عثمان بن ابی العاص کی کنیت ابوعبداللہ ہے قبیلہ ثقیف سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے تقفی کہلاتے ہیں آپ قبیلہ ثقیتف کے وفد کے ہمراہ دربار رسالت میں حاضر ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر اسلام قبول کر کے ہدایت سے مشرف ہوئے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے قبیلہ کا امیر مقرر کر دیا تھا وفات نبوی کے بعد جب اہل طائف ارتداد کی طرف مائل ہونے لگے تو عثمان بن ابی العاص ہی کی ذات تھی جس نے ان کو ارتداد سے باز رکھا آپ نے بصرہ میں ٥١ھ میں وفات پائی۔) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے اور میری نماز اور میری قرات کے درمیان شیطان حائل ہو جاتا ہے اور ان چیزوں میں شبہ ڈالتا رہتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ وہ شیطان ہے جس کو خنزب کہا جاتا ہے۔ پس جب تمہیں اس کا احساس ہو ( کہ شیطان وسو اس و شبہات میں مبتلا کرے گا) تو تم اس (شیطان مردود) سے اللہ کی پناہ مانگو اور بائیں طرف تین دفعہ تھتکار دو۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق) میں نے اسی طرح کیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کے وسو اس و شبہات سے محفوظ رکھا۔" (صحیح مسلم)

تشریح
نماز ہی وہ سب سے اہم عبادت ہے جس میں اللہ کے نیک بندوں کا بہکانے اور ورغلانے کے لیے شیطان اپنی سعی و کوشش سب سے زیادہ صرف کرتا ہے یہ شیطان کی تخریب کاری ہوتی ہے۔ جو عام لوگوں کو نماز کے دوران پوری ذہنی یکسوئی سے محروم رکھتی ہے اور جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نماز کی نیت باندھتے ہیں دل و دماغ میں دنیا بھر کے خیالات کا اجتماع ہونا شروع ہو جاتا ہے وہ باتیں جو کبھی یاد نہیں آتیں نماز ہی کے دوران ذہن میں کلبلانے لگتی ہیں۔ شیطان طرح طرح کے وسوسے اور خیالات پیدا کرتا رہتا ہے، کبھی تو یہ پھونک دیتا ہے کہ نماز مکمل نہیں ہوئی ہے بلکہ ایک رکعت یا دو رکعت چھوٹ گئی ہے، کبھی یہ وہم گزار دیتا ہے کہ نماز صحیح نہیں ہوئی ہے۔ فلاں رکن ترک ہوگیا ہے۔ قرات میں فلاں آیت چھوٹ گئی ہے۔ اس وسوسہ اندازی سے شیطان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنی نماز کا سلسہ منقطع کر دے اور نیت توڑ دے شیطان کی اس تخریب کاری سے محفوظ رہنے کا طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ جب شیطانی اثر سے اس طرح کے واہمے اور شکوک پیدا ہوں تو اپنی نماز کا سلسلہ منقطع نہ کرو، نیت نہ توڑو، بلکہ نماز پوری کرو اور شیطان سے کہو کہ ہاں میں غلطی کر رہا ہوں، نماز میری درست نہیں ہو رہی ہے لیکن میں نماز پڑھوں گا اور تیرے کہنے پر عمل نہیں کروں گا ۔ علماء لکھتے ہیں کہ یہ طریقہ شیطانی اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے بہت ہی کارگر ہے۔ اس لیے کہ اس طرح شیطان نمازی سے مایوس ہو جاتا ہے اور جب وہ یہ جان لیتا ہے کہ یہ میرے قبضے میں آنے والا نہیں ہے تو اس کے پاس سے ہٹ جاتا ہے۔ لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ حکم اس وقت ہے جب کہ نمازی کو یقین ہے کہ میں نماز ٹھیک پڑھ رہا ہوں، نماز کے ارکان و افعال اور قرات میں کوئی کوتاہی یا غلطی واقع نہیں ہو رہی ہے اور اگر واقعی اس کی نماز میں کوئی کوتاہی واقع ہو رہی ہے یا ارکان کی ادائیگی میں غلطی ہو رہی ہے اور اس کا احساس ہو رہا ہے تو اس غلطی و کوتاہی کو دور کرنا اور نماز کی صحت و درستی کی طرف متوجہ ہونا ضروری ہے۔ دراصل اس حکم ( کہ شیطانی خلل اندازی سے صرف نظر کر کے اپنی پوری کرو) کا بنیادی مقصد اس طرف متوجہ کرنا ہے کہ شیطان سے چوکنا رہو، اس کو اثر انداز ہونے کا موقع نہ دو، اپنے دل و دماغ کو اتنا پاکیزہ اور مجلی رکھو کہ شیطانی وسوسوں اور واہموں کو راہ نہ ملے۔ نماز اس قدر ذہنی یکسوئی توجہ اور حضور قلب کے ساتھ پڑھو کہ شیطان تمہارے پاس آنے کا ارادہ ہی نہ کرے اس حکم کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ غیر درست عمل کو درست نہ کرو اور سہل انگاری دکھاؤ۔



١١ - 
وضو کا شیطان
مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 394
" اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
" وضو کا ایک شیطان ہے جسے " ولہان" کہا جاتا ہے لہٰذا پانی کے وسوسہ سے بچو"
(جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)
اور امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور محدثین کے نزدیک اس کی سند قوی نہیں ہے اس لیے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ خارجہ (ایک عالم) کے علاوہ کسی نے اس کی سند بیان کی ہو اور وہ (خارجہ) ہمارے محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں۔"
تشریح
" ولھان" کے معنی ہیں عقل کا جاتے رہنا اور متحیر ہونا۔ یہ نام اس شیطان کا اس لیے ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کر کے انہیں متحیّر اور بے عقل کر دیتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وضو کرنے والا اس چکر میں پھنس کر وہم میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ وہ جب وضو کرتا ہے تو یہ وسوسے اس کے دل میں پیدا ہوتے رہتے ہیں کہ نامعلوم فلاں عضو پر ٹھیک سے پانی پہنچا ہے یا نہیں ؟ فلاں عضو کو ایک مرتبہ دھویا ہے یا دو مرتبہ؟
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " پانی کے وسوسہ سے بچو " یعنی وضو کے وقت پانی استعمال کرنے میں جب اس قسم کے وسوسے اور وہم پیدا ہوں تو انہیں قائم نہ رہنے دو بلکہ انہیں اپنے دل سے باہر نکال پھینکو تاکہ حدود سنت سے تجاوز نہ کر سکو، کیونکہ اس شیطان کا مقصد تو یہی ہوتا ہے کہ وضو کرنے والا ان وسوسوں اور اوہام میں مبتلاء ہو کر اعضاء وضو کو تین مرتبہ سے بھی زیادہ دھو ڈالے یا ضرورت سے زیادہ پانی خرچ کرے جس کی بنا پر وہ مسنون طریقہ سے ہٹ جائے۔




١٢ - جن اور شیطان
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 56
" حضرت سائب ( جو حضرت ہشام ابن زہرہ کے ازاد کردہ غلام تھے اور تابعی ہیں ) کہتے ہیں کہ ( ایک دن ) ہم حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے گھر گئے ، چنانچہ جب کہ ہم وہاں بیٹھے ہوئے تھے اچانک ہم نے ان ( ابوسعید ) کے تخت کے نیچے ایک سرسراہٹ سنی ہم نے دیکھا تو وہاں ایک سانپ تھا ، میں اس کو مارنے کے لئے جھپٹا، مگر حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نماز پڑھ چکے تو انہوں نے مکان کے ایک کمرے کی طرف اشارہ کر کے پوچھا کہ " کیا تم نے اس کمرے کو دیکھا ہے ؟ " میں نے کہا کہ " ہاں ! " پھر حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ " اس کمرے میں ہمارے خاندان کا ایک نوجوان رہا کرتا تھا جس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی ۔ " حضرت ابوسعید نے کہا کہ " ہم سب لوگ ( یعنی وہ نوجوان بھی ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوہ خندق میں گئے ، ( جس کا محاذ مدینہ کے مضافات میں قائم کیا گیا تھا ) ( روزانہ ) دوپہر کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ( گھر جانے کی ) اجازت مانگ لیا کرتا تھا ( کیونکہ دلہن کی محبت اس کو اس پر مجبور کرتی تھی ) چنانچہ ( اجازت ملنے پر ) وہ اپنے اہل خانہ کے پاس چلا جاتا ( اور رات گھر میں گزار کر صبح کے وقت پھر مجاہدین میں شامل ہو جاتا ) ایک دن حسب معمول ، اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اس کو اجازت دیتے ہوئے ) فرمایا کہ اپنے ہتھیار اپنے ساتھ رکھو ، کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں بنو قریظہ تم پر حملہ نہ کر دیں ( بنو قریظہ مدینہ میں یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا جو اس موقع پر قریش مکہ کا حلیف بن کر مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک تھا اس نوجوان نے ہتھیار لے لئے اور ( اپنے گھر کو ) روانہ ہو گیا) جب وہ اپنے گھر کے سامنے پہنچا تو ) کیا دیکھتا ہے کہ اس کی بیوی ( گھر کے ) دونوں دروازوں ( یعنی اندر اور باہر کے دروازے ) کے درمیان کھڑی ہے ، نوجوان نے عورت کو مار ڈالنے کے لئے اس کی طرف نیزہ اٹھایا کیونکہ ( یہ دیکھ کر کہ اس کی بیوی باہر کھڑی ہے ) اس کو بڑی غیرت آئی لیکن عورت نے ( جبھی ) اس سے کہا کہ " اپنے نیزے کو اپنے پاس روک لو اور ذرا گھر میں جا کر دیکھو کہ کیا چیز میرے باہر نکلنے کا سبب ہوئی ہے ۔ " ( یہ سن کر ) وہ نوجوان گھر میں داخل ہوا ، وہاں یکبارگی اس کی نظر ایک بڑے سانپ پر پڑی جو بستر پر کنڈلی مارے پڑا تھا ۔ نوجوان نیزہ لے کر سانپ پر جھپٹا اور اس کو نیزہ میں پرو لیا پھر اندر سے نکل کر باہر آیا اور نیزے کو گھر کے صحن میں گاڑ دیا ، سانپ نے تڑپ کر نوجوان پر حملہ کیا ، پھر یہ معلوم نہ ہو سکا کہ دونوں میں سے پہلے کون مرا ، سانپ یا نوجوان ؟ ( یعنی وہ دونوں اس طرح ساتھ مرے کہ یہ بھی پتہ نہ چل سکا کہ پہلے کس کی موت واقع ہوئی ) ۔
حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ ماجرا بیان کر کے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ اس نوجوان کو ہمارے لئے زندہ کر دے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے ساتھی اور رفیق کے لئے مغفرت طلب کرو ۔ " اور پھر فرمایا کہ ۔ " ( مدینہ کے ان گھروں میں " عوامر " یعنی جنات رہتے ہیں ( جن میں مؤمن بھی ہیں اور کافر بھی ) لہٰذا جب تم ان میں سے کسی کو ( سانپ کی صورت میں ) دیکھو تو تین بار یا تین دن اس پر تنگی اختیار کرو پھر اگر وہ چلا جائے تو فبہا ورنہ اس کو مار ڈالو کیونکہ ( اس صورت میں یہی سمجھا جائے گا کہ ) وہ ( جنات میں کا ) کافر ہے ۔ " پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا کہ ۔ " جاؤ اپنے ساتھی کی تکفین و تدفین کرو ۔ "
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " مدینہ میں ( کچھ ) جن ہیں ( اور ان میں وہ بھی ہیں ) جو مسلمان ہو گئے ہیں ان میں سے جب تم کسی کو ( سانپ کی صورت میں ) دیکھو تو تین دن اس کو خبردار کرو ، پھر تین دن کے بعد بھی اگر وہ دکھائی دے تو اس کو مار ڈالو کہ وہ شیطان ہے ۔ " ( مسلم )

تشریح:

" آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے ۔ " علماء نے لکھا ہے کہ صحابہ کی یہ روش نہیں تھی کہ وہ اس طرح کی کوئی استدعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کریں ۔ اس موقع پر ان لوگوں کا خیال یہ تھا کہ نوجوان حقیقت میں مرا نہیں ہے بلکہ زہر کے اثر سے بیہوش ہو گیا ہے ۔ اس خیال سے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دعا کی استدعا کی تھی۔
" مغفرت طلب کرو ۔ " اس ارشاد سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ اس کو زندہ کرنے کی دعا کی درخواست کیوں کرتے ہو کیونکہ وہ تو اپنی راہ پر چل کر موت کی گود میں پہنچ گیا ہے جس کے حق میں زندگی کی دعا قطعا فائدہ مند نہیں ہے ، اب تو اس کے حق میں سب سے مفید چیز یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کی مغفرت اور بخشش کی درخواست کرو ۔
" اس پر تنگی اختیار کرو یا اس کو خبردار کرو ۔ " کا مطلب یہ ہے کہ جب سانپ نظر آئے تو اس سے کہو کہ تو تنگی اور گھیرے میں ہے اب نہ نکلنا اگر پھر نکلے گا تو ہم تجھ پر حملہ کریں گے اور تجھ کو مار ڈالیں گے ، آگے تو جان ۔
ایک روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ منقول ہے کہ سانپ کو دیکھ کر یہ کہا جائے
انشدکم بالعہد الذی اخذ علیکم سلیمان بن داؤد علیماالسلام لا تاذونا ولا تظہروا لنا ۔
" میں تجھ کو اس عہد کی قسم دیتا ہوں جو حضرت سلیمان بن داؤد علیہما السلام نے تجھ سے لیا تھا کہ ہم کو ایذاء نہ دے اور ہمارے سامنے مت آ ۔ "
" وہ شیطان ہے ۔ " یعنی خبردار کر دینے کے بعد بھی وہ غائب ہوا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ مسلمان جن نہیں ہے بلکہ یا تو کافر جن ہے یہ حقیقت میں سانپ ہے اور یا ابلیس کی ذریات میں سے ہے اس صورت میں اس کو فورا مار ڈالنا چاہئے ۔ اس کو " شیطان " اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ آگاہی کے بعد بھی نظروں سے غائب نہ ہو کر اس نے اپنے آپ کو سرکش ثابت کیا ہے اور عام بات کہ جو بھی سرکش ہوتا ہے خواہ وہ جنات میں کا ہو یا آدمیوں میں کا اور یا جانوروں میں کا اس کو شیطان کہا جاتا ہے ۔

١٣ - جرس اور مزامیر :

مشکوۃ شریف:جلد سوم:حدیث نمبر 1004
اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " جرس ( یعنی گھنگرو اور گھنٹی ) مزامیر (بانسریاں) شیطان ( یعنی شیطانی باجہ ) ہے ۔ " (مسلم )
تشریح :
" مزامیر " دراصل " مزمار " کی جمع ہے اور مزمار " بانسری " کو کہتے ہیں جو بجائی جاتی ہے ، نیز " زمر " اور " تزمیر " بانسری کے ساتھ گانے کو کہتے ہیں ۔ مزامیر بلفظ جمع اس لئے فرمایا گیا ہے کہ اس کی آواز میں اس طرح کا تسلسل ہوتا ہے کہ وہ منقطع نہیں ہوتی گویا اس آواز کی ہر لے اور ہر سلسلہ ایک مزمار ہے ۔ نیز " جرس " کو مزامیر شیطان اس وجہ سے فرمایا گیا ہے کہ وہ انسان کو ذکر واستغراق اور مشغولیت عبادت سے باز رکھتا ہے ۔






No comments:

Post a Comment