Tuesday, 24 December 2013

نا أهل (نا سمجھ) کو علم دینے کی مثال...

القرآن:
اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ كُفْرًا وَّنِفَاقًا وَّاَجْدَرُ اَلَّا يَعْلَمُوْا حُدُوْدَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ ۭوَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ  
[سورۃ التوبہ:97]
ترجمہ:
گنوار (دیہاتی) بہت سخت ہیں کفر میں اور نفاق میں اور اسی لائق ہیں کہ نہ سیکھیں وہ قاعدے جو نازل کیے اللہ نے اپنے رسول پر ، اور اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے۔


تفسیر ابن کثیر:- دیہات، صحرا اور شہر ہر جگہ انسانی فطرت یکساں ہے اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ دیہاتیوں اور صحرا نشین بدؤں میں کفار و منافق بھی ہیں اور مومن مسلمان بھی ہیں ۔ لیکن کافروں اور منافقوں کا کفر و نفاق نہایت سخت ہے۔ ان میں اس بات کی مطلقاً اہلیت نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ان حدوں کا علم حاصل کریں جو اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل فرمائی ہیں ۔ چنانچہ ایک اعرابی حضرت زید بن صوحان کے پاس بیٹھا ہوا تھا اس وقت یہ اس مجلس میں لوگوں کو کچھ بیان فرما رہے تھے۔ نہاوند والے دن انکا ہاتھ کٹ گیا تھا۔ اعرابی بول اٹھا کہ آپ کی باتوں سے تو آپ کی محبت میرے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ لیکن آپ کا یہ کٹا ہوا ہاتھ مجھے اور ہی شبہ میں ڈالتا ہے۔ آپ نے فرمایا اس سے تمہیں کیا شک ہوا یہ تو بایاں ہاتھ ہے۔ تو اعرابی نے کہا واللہ مجھے نہیں معلوم کہ دایاں ہاتھ کاٹتے ہیں یا بایاں؟ انہوں نے فرمایا اللہ عزوجل نے سچ فرمایا کہ اعراب بڑے ہی سخت کفر ونفاق والے اور اللہ کی حدوں کے بالکل ہی نہ جاننے والے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے"جو بادیہ نشین ہوا اس نے غلط و جفا کی۔ اور جو شکار کے پیچھے پڑ گیا اس نے غفلت کی۔ اور جو بادشاہ کے پاس پہنچا وہ فتنے میں پڑا"۔ ابو داؤد ترمذی اور نسانی میں بھی یہ حدیث ہے۔ امام ترمذی اسے حسن غریب کہتے ہیں چونکہ صحرا نشینوں میں عموماً سختی اور بدخلقی ہوتی ہے، اللہ عزوجل نے ان میں سے کسی کو اپنی رسالت کے ساتھ ممتاز نہیں فرمایا بلکہ رسول ہمیشہ شہری لوگ ہوتے رہے۔ جیسے فرمان اللہ ہے۔ (آیت وما ارسلنا من قبلک الا رجلا نوحی الیھم من اھل القری) ہم نے تجھ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے سب انسان مرد تھے جن کی طرف ہم وحی نازل فرماتے تھے وہ سب متمدن بستیوں کے لوگ تھے۔ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ہدیہ پیش کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ہدیہ سے کئی گناہ زیادہ انعام دیا جب جا کر بمشکل تمام راضی ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب سے میں نے قصد کیا ہے کہ سوائے قریشی، ثقفی، انصاری یا دوسی کے کسی کا تحفہ قبول نہ کروں گا۔ یہ اس لئے کہ یہ چاروں شہروں کے رہنے والے تھے۔ مکہ، طائف، مدینہ اور یمن کے لوگ تھے، پس یہ فطرتاً ان بادیہ نشینوں کی نسبت نرم اخلاق اور دور اندیش لوگ تھے، ان میں اعراب جیسی سختی اور کھردرا پن نہ تھا۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ ایمان و علم عطا فرمائے جانے کا اہل کون ہے؟ وہ اپنے بندوں میں ایمان و کفر، علم وجہل، نفاق و اسلام کی تقسیم میں باحکمت ہے۔ اس کے زبردست علم کی وجہ سے اس کے کاموں کی بازپرس اس سے کوئی نہیں کر سکتا۔ اور اس حکمت کی وجہ سے اس کا کوئی کام بےجا نہیں ہوتا۔ ان بادیہ نشینوں میں وہ بھی ہیں جو اللہ کی راہ کے خرچ کو ناحق اور تاوان اور اپنا صریح نقصان جانتے ہیں اور ہر وقت اسی کے منتظر رہتے ہیں کہ تم مسلمانوں پر کب بلا و مصیبت آئے، کب تم حوادث و آفات میں گھر جاؤ لیکن ان کی یہ بد خواہی انہی کے آگے آئے گی، انہی پر برائی کا زوال آئے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعاؤں کا سننے والا ہے۔ اور خوب جانتا ہے کہ مستحق امداد کون ہے اور ذلت کے لائق کون ہے۔ دعاؤں کے طلبگار متبع ہیں، مبتدع نہیں اعراب کی اس قوم کو بیان فرما کر اب ان میں سے بھلے لوگوں کا حال بیان ہو رہا ہے وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں آخرت کو مانتے ہیں ۔ راہ حق میں خرچ کر کے اللہ کی قربت تلاش کرتے ہیں، ساتھ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں لیتے ہیں ۔ بیشک ان کو اللہ کی قربت حاصل ہے۔ اللہ انہیں اپنی رحمتیں عطا کر دے گا۔ وہ بڑا ہی غفور و رحیم ہے۔ 

وَقَالَ عَلِيٌّ :" حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا يَعْرِفُونَ، أَتُحِبُّونَ أَنْ يُكَذَّبَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ "، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ مَعْرُوفِ بْنِ خَرَّبُوذٍ، عَنْأَبِي الطُّفَيْلِ، عَنْ عَلِيٍّ بِذَلِكَ .
ترجمہ :
حضرت سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ لوگوں سے وہی حدیث بیان کرو جس کو وہ سمجھ سکیں کیا تم اس بات کو اچھا سمجھتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی جائے؟
[صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 129 - علم کا بیان : جس شخص نے ایک قوم کو چھوڑ کر دوسری قوم کو علم (کی تعلیم) کے لئے مخصوص کرلیا، یہ خیال کر کے کہ یہ لوگ بغیر تخصیص کے پورے طور پر نہ سمجھیں گے، تو اس مصلحت سے اس کا یہ فعل مستحسن ہے]
تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1حدثوا الناس بما يعرفون ودعوا ما ينكرونعلي بن أبي طالبكتاب العلم168---أبو طاهر السلفي576

Friday, 13 December 2013

تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ ...


خواہش پرست کا عبرتناک انجام:
القرآن : بھلا دیکھ تو جس نے ٹھہرا لیا اپنا حاکم اپنی خواہش کو اور راہ سے بچلا دیا اسکو اللہ نے جانتا بوجھتا اور مہر لگا دی اسکے کان پر اوردل پر اور ڈالدی اسکی آنکھ پر اندھیری پھر کون راہ پر لائے اسکو اللہ کے سوائے سو کیا تم غور نہیں کرتے. (سورہ الجاثیہ: ٢٣﴾
التفسیر: یعنی اللہ جانتا تھا کہ اسکی استعداد خراب ہے اور اسی قابل ہے کہ سیدھی راہ سے اِدھر اُدھر بھٹکتا پھرے۔ یا یہ مطلب ہے کہ وہ بدبخت علم رکھنے کے باوجود اور سمجھنے بوجھنے کے بعد گمراہ ہوا۔
جو شخص محض خواہش نفس کو اپنا حاکم اور معبود ٹھہرا لے، جدھر اسکی خواہش لے چلے ادھر ہی چل پڑے اور حق و ناحق کے جانچنے کا معیار اسکے پاس یہ ہی خواہش نفس رہ جائے، نہ دل سچی بات کوسمجھتا ہے، نہ آنکھ سے بصیرت کی روشنی نظر آتی ہے ۔ ظاہر ہے اللہ جسکو اس کی کرتوت کی بدولت ایسی حالت پر پہنچا دے، کونسی طاقت ہے جو اسکے بعد اسے راہ پر لے آئے۔