Friday 10 January 2014

محبت رسول اللہ ﷺ کی علامات




محبت رسول الله ﷺ کی علامات:
محبتِ رسول ﷺ کا تقاضا#1»
سنت پر عمل اور بدعت سے اجتناب کرنا:
القرآن:
(اے پیغمبر ﷺ! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع(پیچھے چلا)کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خاطر تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اور اللہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔
[سورۃ آلِ عمران:31]

امام نسفیؒ (م710ھ) لکھتے ہیں:
لہٰذا جو دعویٰ کرے اس(نبی)کی محبت کا، اور(عملاً)مخالفت کرے اس کے رسول کے سنّت کی، تو وہ جھوٹا ہے اور الله کی کتاب اس کو جھٹلا رہی ہے۔





مردہ سنتوں کو زندہ کرنا
خصوصاً دل کو ہمیشہ بدخواہی سے صاف رکھنا:
حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے بیٹے! اگر تجھ سے ہو سکے تو اپنی صبح و شام اس حالت میں کر کہ تیرے دل میں کسی کے لیے(ناحق)کوئی برائی نہ ہو تو ایسا کر۔ پھر فرمایا: اے بیٹے! یہ میری سنت ہے اور جس نے میری سنت کو زندہ کیا گویا کہ اس نے مجھ سے محبت کی جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔
[سنن الترمذي:2678، مسند أبي يعلى:3624، المعجم الصغير للطبراني:856]
تفسیر سورۃ الحشر:10










صحابہ سے محبت:
حضرت عبداللہ بن مغفلؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرنا اور انکو حدف ملامت نہ بنانا اس لئے کہ جس نے ان سے محبت کی اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض کی اس نے مجھ سے بغض کیا اور جس نے انہیں ایذاء (تکلیف) پہنچائی گویا اس نے مجھے ایذاء دی اور جس نے مجھے اذیت دی گویا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کو اذیت دی اور جس نے اللہ تعالیٰ کو اذیت دی اللہ تعالیٰ عنقریب اسے اپنے عذاب میں گرفتار کرے گا۔
[ترمذی:3862]
تفسیر سورۃ الاحزاب:57،الفتح:29،الحشر:10




انصار صحابہ سے خصوصی محبت رکھنا۔
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو مجھ سے محبت رکھتا ہے وہ (مہاجر صحابہ کی نصرت کرنے والے مدینہ کے) انصار (صحابہ) سے محبت رکھے، اور جو مجھ سے بغض رکھتا ہے وہ ان سے بغض رکھےگا، نہیں محبت رکھتا ان (انصار) سے سوائے منافق کے ، اور نہیں بغض رکھتا ان (انصار) سے سوائے مومن کے ، جو ان سے محبت رکھے گا الله ان کو محبوب رکھے گا ، جو ان سے بغض رکھے گا الله اس سے بغض رکھے گا۔
[کتاب الشريعة،امام الآجري(م360ھ) حدیث#1134]





خصوصاً 4 خلفاء رسول سے محبت:
حضرت عبداللہ  بن عمرؓ نے رسول الله ﷺ کا ارشاد نقل فرمایا ہے کہ : بیشک الله نے فرض کی ہے تم پر محبت ابوبکر، عمر، عثمان اور علی  (رضی الله عنھم) کی، جیسا کہ فرض کی تم پر نماز، روزے، حج اور زکات. پھر جس نے بغض رکھا کسی ایک سے، تو نہ اس کی نماز ہے، نہ حج اور نہ زکات. اور وہ اٹھایا جاۓگا قیامت کے دن اپنی قبر سے آگ (جہنم) کی طرف۔
[الجامع العلوم-امام احمد(م241ھ): ج4.ص348]
جامع الاحادیث-السیوطی:39320





تقاضائے محبتِ رسول»
(1)سچ بولنا، (2)امانت داری (3)اور پڑوسی سے حسن سلوک کرنا۔
حضرت عبد الرحمن بن ابی قُراد سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو چاہے کہ وہ الله اور اسکے رسول ﷺ سے محبت کرے تو اسے چاہئے کہ: جب بات کرے تو سچ کہے، اور جب امانت(عہدہ، راز)دی جائے تو اسے درستگی سے ادا کرے، اور اپنے(گھر،سفر وغیرہ کے)پڑوسیوں سے بہترین سلوک کرے۔
[مکارم الاخلاق-امام ابن ابی الدنیا(م281ھ)»» حدیث#266]
قرآنی گواہی-سورۃ آل عمران:31


عن عبد الرحمن بن أبي قراد أن النبي صلى الله عليه وسلم توضأ يوما فجعل أصحابه يتمسحون بوضوئه فقال لهم النبي صلى الله عليه و سلم : " ما يحملكم على هذا ؟ " قالوا : حب الله ورسوله . فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " من سره أن يحب الله ورسوله أويحبه الله ورسوله فليصدق حديثه إذا حدث وليؤد أمانته إذا اؤتمن وليحسن جوار من جاوره "۔
[مشکاۃ المصابیح:4990 حسن]


























علامتِ محبتِ رسول#7» فقر پر صبر۔
ایک آدمی نے نبی ﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: جو کہہ رہے ہو اس کے بارے میں سوچ سمجھ لو۔، اس نے پھر کہا: اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتا ہوں، آپ نے فرمایا: جو کہہ رہے ہو اس کے بارے میں سوچ سمجھ لو، اس نے پھر کہا: اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتا ہوں، اسی طرح تین دفعہ کہا تو آپ نے فرمایا: اگر تم مجھ سے واقعی محبت کرتے ہو تو فقر ومسکینی کا ٹاٹ تیار رکھو، اس لیے کہ جو شخص مجھ سے محبت رکھے گا اس کی طرف فقر اتنی تیزی سے جاتا ہے کہ اتنا تیز سیلاب کا پانی بھی اپنے بہاؤ کے رخ پر نہیں جاتا۔
[ترمذی:2350]
تفسیر الثعالبی»سورۃ آل عمران:31






تقاضائے محبتِ رسول#8»عربیوں سے محبت کرنا۔
حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
قریش سے محبت کرنا ایمان اور ان سے بغض کفر ہے، جس نے عرب سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے۔ان سے بغض رکھا تو اس نے مجھ سے بغض رکھا۔
[مسند-البزار(م292ھ)» حدیث#6997]
اشارۃً سورۃ فصلت:44، سورۃ قریش:1









***********************

محبتِ رسول ﷺ کا تقاضا#2»
الله کے بعد سب سے زیادہ نبی سے محبت یہ ہے کہ، دین کو غالب کرنے کی جدوجہد کرنا:
القرآن:
(اے پیغمبر ! مسلمانوں سے) کہہ دو کہ : اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، اور تمہارا خاندان، اور وہ مال و دولت جو تم نے کمایا ہے اور وہ کاروبار جس کے مندا ہونے کا تمہیں اندیشہ ہے، اور وہ رہائشی مکان جو تمہیں پسند ہیں، تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے، اور اس کے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں۔ تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرما دے۔ اور اللہ نافرمان لوگوں کو منزل تک نہیں پہنچاتا۔
[سورۃ التوبۃ:24]


یعنی اگر اللہ و رسول کے احکام کا امتثال اور ہجرت یا جہاد کرنے سے یہ خیال مانع ہو کہ کنبہ برادری چھوٹ جائے گی اموال تلف ہوں گے ، تجارت مندی پڑ جائے گی یا بند ہو جائے گی۔ آرام کے مکانوں سے نکل کر بے آرام ہونا پڑے گا تو پھر اللہ کی طرف سے حکم سزا کا انتظار کرو۔ جو اس تن آسانی اور دنیا طلبی پر آنے والا ہے ۔ جو لوگ مشرکین کی موالات یا دنیوی خواہشات میں پھنس کر احکام الہٰیہ کی تعمیل نہ کریں ان کو حقیقی کامیابی کا راستہ نہیں مل سکتا۔ حدیث میں ہے کہ جب تم بیلوں کی دم پکڑ کر کھیتی باڑی پر راضی ہو جاؤ گے اور جہاد چھوڑ بیٹھو گے تو اللہ تم پر ایسی ذلت مسلط کر دے گا جس سے کبھی نکل نہ سکو گے یہاں تک کہ پھر اپنے دین (جہاد فی سبیل اللہ) کی طرف واپس آؤ۔
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . ح وحَدَّثَنَا آدَمُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ " .
ترجمہ :
”تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد، اس کی اولاد اورتمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں “۔

ایمان کیسا ہو؟؟؟
وَإِذا قيلَ لَهُم ءامِنوا كَما ءامَنَ النّاسُ قالوا أَنُؤمِنُ كَما ءامَنَ السُّفَهاءُ ۗ أَلا إِنَّهُم هُمُ السُّفَهاءُ وَلٰكِن لا يَعلَمونَ {2:13}
اور جب کہا جاتا ہے ان کو ایمان لاؤ جس طرح ایمان لائے سب لوگ تو کہتے ہیں [۱۸] کیا ہم ایمان لائیں جس طرح ایمان لائے بیوقوف [۱۹] جان لو وہی ہیں بیوقوف لیکن نہیں جانتے [۲۰]
And when it said unto them: believe even as mankind have believed, they say: shall we believe even as the fools have believed? Lo! verily it is they who are the fools; and yet they know not.
فساد فی الارض: یعنی اپنے دلوں میں یہ کہتے ہیں یا آپس میں یا اُن ضعفائے مسلمین سے جو کسی وجہ سے اُن کے رازدار بن رہے تھے ۔
سفہاء کہا سچے مسلمانوں کو کہ احکام خدا وندی پر دل سے ایسے فدا تھے کہ لوگوں کی مخالفت اور اسکے نتائج بد سے اور انقلاب زمانہ کی مضرات گوناں گوں سے اپنا بچاؤ نہ کرتے تھے بخلاف منافقین کے کہ مسلمان و کفار سب سے ظاہر بنا رکھا تھا اور اغراض نفسانی کے سبب آخرت کاکچھ فکر نہ تھا مصلحت بینی اس درجہ غالب تھی کہ ایمان و پابندی احکام شرع کی ضرورت نہ سمجھتے تھے فقط دعویٰ زبانی اور ضروری اعمال بمجبوری ادا کرلینے پر قناعت تھے۔
منافقین ہی بےوقوف ہیں: یعنی بیوقوف حقیقت میں منافقین ہی ہیں کہ مصالح و اغراض دینوی پادر ہوا کی وجہ سے آخرت کا خیال نہ کیا فانی کو لینا اور باقی کو چھوڑنا کس قدر حماقت ہے اور مخلوقات سے ڈرنا کہ جن سے ہزار طرح اپنا بچاؤ کر سکتے ہیں اور علام الغیوب سے نہ ڈرنا کہ جہاں کسی طرح کوئی امر پیش ہی نہ جا سکے کتنی جہالت ہے اور صلح کل کیسے کہ جس میں احکم الحاکمین اور اس کے مقبول بندوں سے مخالفت کی جاتی ہے ۔ مگر منفافقین اس درجہ بیوقوف ہیں کہ ایسی موٹی بات بھی نہیں سمجھتے۔







حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ حَاتِمٍ الْأَنْصَارِيُّ الْبَصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، قَالَ : قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ , قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَا بُنَيَّ " إِنْ قَدَرْتَ أَنْ تُصْبِحَ وَتُمْسِيَ لَيْسَ فِي قَلْبِكَ غِشٌّ لِأَحَدٍ فَافْعَلْ ، ثُمَّ قَالَ لِي : يَا بُنَيَّ وَذَلِكَ مِنْ سُنَّتِي ، وَمَنْ أَحْيَا سُنَّتِي فَقَدْ أَحَبَّنِي ، وَمَنْ أَحَبَّنِي كَانَ مَعِي فِي الْجَنَّةِ " .
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الوَجْهِ.
حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اے بیٹے! اگر تجھ سے ہو سکے تو اپنی صبح و شام اس حالت میں کر کہ تیرے دل میں کسی کے لیے کوئی برائی نہ ہو پس تو ایسا کر۔ پھر فرمایا اے بیٹے! یہ میری سنت ہے اور جس نے میری سنت کو زندہ کیا گویا کہ اس نے مجھ سے محبت کی جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔
[ترمذى :2678، أبي يعلى:3624، المعجم الصغير للطبراني:856، المعجم الأوسط للطبراني:5991، كنز العمال:19981، جامع الأحاديث:25836]
تشریح : 
اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت اور آپ ﷺ کے طریقہ کو پسند کرنا اور اسے محبوب رکھنا رسول اللہ ﷺ سے محبت رکھنے کا سبب اور جنت میں آپ ﷺ کی رفاقت جیسی نعمت عظیم کے حصول کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا یہ سوچنے کی بات ہے کہ جب آپ ﷺ کی سنت کو پسند کرنے پر یہ خوشخبری ہے تو سنت نبوی ﷺ پر عمل کرنا کتنی بڑی سعادت و خوش بختی کی بات ہوگی۔ ذرا غور کرنا چاہئے کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کو پسند کرنے والوں کا کتنا بڑا مرتبہ ہے وہ یہ ہے کہ انہیں جنت میں رسول اللہ ﷺ کی رفاقت و معیت کا شرف حاصل ہوگا، حقیقت یہ ہے کہ دونوں جہان کی تمام نعمتیں اگر ایک طرف ہوں اور دوسری طرف یہ نعمت ہو تو یقینًا سعادت و خوشی کے اعتبار سے یہ نعمت بڑھ جائے گی، اللہ تعالیٰ ہم سب کو آپ ﷺ کی مقدّس سنت کو محبوب رکھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم سب اس نعمت سے بہرہ ور ہو سکیں۔ (آمین)۔
تنبیہ:
محمد رسول اللہ کا اور جو لوگ اسکے ساتھ ہیں زورآور ہیں کافروں پر نرم دل ہیں آپس میں۔۔۔
[سورۃ الفتح:29]
نرم خُو کفار سے حسنِ سلوک:
القرآن :
اللہ تم کو منع نہیں کرتا اُن لوگوں سے جو لڑے نہیں تم سے دین پر اور نکالا نہیں تم کو تمہارے گھروں سے کہ اُن سے کرو بھلائی اور انصاف کا سلوک بیشک اللہ چاہتا ہے انصاف والوں کو۔
[سورۃ الممتحنۃ:8]
تو نہ پائے گا کسی قوم کو جو یقین رکھتے ہوں اللہ پر اور پچھلے دن پر کہ (دلی)دوستی کریں ایسوں سے جو مخالف ہوئے اللہ کے اور اُسکے رسول کے خواہ وہ اپنے باپ ہوں یا اپنے بیٹے یا اپنے بھائی یا اپنے گھرانے کے۔۔۔
[سورۃ المجادلۃ:22]



************************
(2) اصحاب رسول ﷺ سے محبت رکھنا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ أَبِي رَائِطَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي , اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي ، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي ، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ ، وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ " . قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ .
حضرت عبداللہ بن مغفلؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرنا اور انکو حدف ملامت نہ بنانا اس لئے کہ جس نے ان سے محبت کی اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض کی اس نے مجھ سے بغض کیا اور جس نے انہیں ایذاء (تکلیف) پہنچائی گویا اس نے مجھے ایذاء دی اور جس نے مجھے اذیت دی گویا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کو اذیت دی اور جس نے اللہ تعالیٰ کو اذیت دی اللہ تعالیٰ عنقریب اسے اپنے عذاب میں گرفتار کرے گا۔
[أخرجه أحمد (16803+20549+20578) ، والبخارى فى التاريخ الكبير (5/131) ، والترمذى (5/696، رقم 3862) وقال: غريب. وأبو نعيم فى الحلية (8/287) ، والبيهقى فى شعب الإيمان (2/191، رقم 1511) . وأخرجه أيضًا: ابن حبان (16/244، رقم 7256) ، والديلمى (1/146، رقم: 525) .]

تشریح : 
اللہ سے ڈرو" یہ الفاظ آپ ﷺ نے تاکیدومبالغہ کے لئے دوبار ارشاد فرمائے صحابہ کے حق میں اللہ سے ڈرنے کا مفہوم یہ ہے کہ ان کی عزت وتوقیر کی جائے ۔ ان کی عظمت وفضیلت کو ہر حالت میں ملحوظ رکھا جائے اور صحبت رسول کا جو بلند ترین مقام ان کو حاصل ہے اس کا حق ادا کیا جائے ۔ " نشانہ ملامت نہ بناؤ " کا مطلب یہ ہے کہ ان کی طرف بدگوئی کے تیر مت پھینکو ، ان کی عظمت کے منافی کوئی بات زبان سے نہ نکالو ، ان کی عیب جوئی اور نکتہ چینی سے پرہیز کرو۔ " میری وجہ سے ان کو دوست رکھتا ہے " کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ ان کو دوست رکھنے والا اس سبب سے دوست رکھتا ہم کہ میں ان کو دوست رکھتا ہوں ، یا یہ مطلب ہے کہ ان کو دوست رکھنے والا اس سبب سے دوست رکھتا ہے ۔ کہ میں ان کو دوست رکھتا ہوں یہ مطلب اگلے جملہ کے سیاق میں زیادہ موزوں ہے ، بہرحال اس ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ میرے صحابہ کو دوست رکھنے والا مجھ کو دوست رکھنے والا ہے اور میرے صحابہ کو دشمن رکھنے والا مجھ کو دشمن رکھنے والا ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ مالکیہ کا یہ مسلک حق ہے کہ جس شخص نے صحابہ کو برا کہا وہ دنیا میں واجب القتل قرار پاتا ہے ۔ علماء نے لکھا ہے کہ کسی ذات سے محبت کے صحیح وصادق ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ محبت محبوب کی ذات سے گزر کر اس کے متعلقین تک پہنچ جائے ، پس حق تعالیٰ سے محبت کی علامت یہ ہے کہ اس کے رسول سے بھی محبت ہو اور رسول سے محبت کی علامت یہ ہے کہ اس کے آل واصحاب سے بھی محبت ہو۔ " جب اللہ اس کو پکڑے گا " کا یہ مطلب ہے کہ جو شخص اپنے اس جذبہ وعمل کے ذریہ یہ ظاہر کرے گا کہ گویا وہ اللہ کی اذیت پہنچانے کے لئے پے درپے ہے تو وہ شخص اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکے گا یعنی آخرت میں تو وہ عذاب اللہ وندی میں گرفتار ہوگا ہی اس دنیا میں بھی اس کو عذاب بھگتنا پڑ سکتا ہے ۔ اس اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ حدیث شائد اس ارشاد اللہ وندی سے ماخوذ ہے :
ان الذین یؤذون اللہ ورسولہ لعنہم اللہ فی الدنیا والاخرۃ واعدلہم عذابا مہینا{33:57}والذین یؤذون المؤمنین والمؤمنت بغیر ما اکتسبوا فقد الحتملوا بہتانا واثما مبینا{33:58}
بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو ایذاء دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر دنیا وآخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے اور جو لوگ ایمان والے مردوں کو اور ایمان لانے والی عورتوں کو بدون اس کے کہ انہوں نے کچھ کیا ہو ایذاء پہنچاتے ہیں تو وہ لوگ بہتان اور صریح گناہ بار لیتے ہیں ۔"
... قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ : اعْلَمْ رَحِمَكَ اللَّهُ : مَنْ أَحَبَّ أَبَا بَكْرٍ فَقَدْ أَقَامَ الدِّينَ ، وَمَنْ أَحَبَّ عُمَرَ فَقَدْ أَوْضَحَ السَّبِيلَ ، وَمَنْ أَحَبَّ عُثْمَانَ فَقَدِ اسْتَنَارَ بِنُورِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ، وَمَنْ أَحَبَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فَقَدِ اسْتَمْسِكْ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى ، وَمَنْ قَالَ الْحُسْنَى فِي أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ بَرِئَ مِنَ النِّفَاقِ .





اہل بیت اور مخصوص صحابہ میں سے خصوصی محبت:
نا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ زُهَيْرِ بْنِ الأَقْمَرِ ، قَالَ : بَيْنَمَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ يَخْطُبُ بَعْدَمَا قُتِلَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، إِذْ قَامَ رَجُلٌ مِنَ الأَزْدِ آدَمُ طُوَالٌ ، فَقَالَ : لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاضِعَهُ فِي حَبْوَتِهِ يَقُولُ : " مَنْ أَحَبَّنِي فَلْيُحِبَّهُ ، فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ " , وَلَوْلا عَزْمَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا حَدَّثْتُكُمْ " .

زہیر بن اقمر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ شہادت حضرت علیؓ کے بعد سیدنا حسنؓ تقریر فرما رہے تھے کہ قبیلہ ازد کا ایک گندم گوں طویل قد کا آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت علیؓ کو اپنی گود میں رکھا ہوا تھا اور فرما رہے تھے کہ جو مجھ سے محبت کرتا ہے اسے چاہئے کہ اس سے بھی محبت کرے اور حاضرین غائبین تک یہ پیغام پہنچا دیں اور اگر نبی کریم ﷺ نے پختگی کے ساتھ یہ بات نہ فرمائی ہوتی تو میں تم سے کبھی بیان نہ کرتا۔
[أخرجه ابن أبى شيبة (32188)، جامع الاحادیث:42776+45339 ، كنز العمال 37652.]





حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي عَوْفٍ أَبِي الْحَجَّافِ وَكَانَ مَرْضِيًّا ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ أَحَبَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ فَقَدْ أَحَبَّنِي ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِي " .
[سنن ابن ماجه » كِتَاب ابْنُ مَاجَهْ » أَبْوَابُ فِي فَضَائِلِ أَصَحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ... » بَاب فَضْلِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ ابْنَيْ عَلِيِّ ...رقم الحديث: 140]
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرات حسنینؓ (حسنؓ و حسینؓ) کے متعلق فرمایا جو ان دونوں سے محبت کرتا ہے در حقیقت وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور جو ان دونوں سے بغض رکھتا ہے درحقیقت وہ مجھ سے بغض رکھتا ہے۔
[أحمد:7876، ابن ماجة:143، أبي يعلى:6215، طبراني:2645+2648،
وأخرجه النسائي في "الكبرى" (8112) من طريق أبي نعيم، عن سفيان، بهذا الإسناد.]




























حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ ، أَخْبَرَنِي أَخِي مُوسَى بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِ حَسَنٍ , وَحُسَيْنٍ , فَقَالَ : " مَنْ أَحَبَّنِي وَأَحَبَّ هَذَيْنِ , وَأَبَاهُمَا , وَأُمَّهُمَا كَانَ مَعِي فِي دَرَجَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ " . قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ .
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو مجھ سے محبت رکھتا ہے اور محبت رکھے ان دونوں (حسنؓ و حسینؓ) سے  اور ان دونوں کے ابو (علیؓ) اور ان دونوں کی امی (فاطمہؓ) سے بھی ، وہ ہوگا میرے ساتھ میرے درجے میں قیمت کے دن.
[أخرجه الترمذى (5/641، رقم 3733) ، وعبد الله فى زوائده على المسند (1/77، رقم 576) ، والضياء (2/44، رقم 421) ،جامع الاحادیث(32339)،  كنز العمال 37616]




حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ واللہ! اللہ جس مومن کو پیدا کرتا ہے اور وہ میرے متعلق سنتا ہے یا مجھے دیکھتا ہے تو مجھ سے محبت کرنے لگتا ہے راوی نے پوچھا کہ اے ابوہریرہ آپ کو اس کا علم کیسے ہوا؟ فرمایا دراصل میری والدہ مشرک عورت تھیں میں انہیں اسلام کی طرف دعوت دیتا تھا لیکن وہ ہمیشہ انکار کردیتی تھیں ایک دن میں نے انہیں دعوت دی تو میرے کانوں کو نبی کریم ﷺ کے متعلق ایسی بات سننا پڑی جو مجھے ناگوار گذری میں روتا ہوا نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یارسول اللہ میں اپنی والدہ کو اسلام کی طرف دعوت دیتا تھا اور وہ ہمیشہ انکار کردیتی تھیں آج میں نے انہیں دعوت دی تو میرے کانوں کو آپ کے متعلق ایسی بات سننا پڑی جو مجھے ناگوار گذری آپ اللہ سے دعا کر دیجئے کہ وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ماں کو ہدایت عطاء فرما دے۔ نبی کریم ﷺ نے دعا فرما دی کہ اے اللہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ماں کو ہدایت عطاء فرما میں دوڑتا ہوا نکلا تاکہ اپنی والدہ کو نبی کریم ﷺ کی دعا کی بشارت دوں جب میں گھر کے دروازے پر پہنچا تو وہ اندر سے بند تھا مجھے پانی گرنے کی آواز آئی اور پاؤں کی آہٹ محسوس ہوئی والدہ نے اندر سے کہا کہ ابوہریرہ تھوڑی دیر رکے رہوتھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا تو وہ اپنی قمیض پہن چکی تھیں اور جلدی سے دوپٹہ اوڑھ لیا تھا مجھے دیکھتے ہی کہنے لگیں انی اشہد ان لا الہ الا اللہ و ان محمدا عبدہ و رسولہ یہ سنتے ہی میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں دوبارہ خوشی کے آنسو لئے حاضر ہوا جیسے پہلے غم کے مارے رو رہا تھا اور عرض کیا یا رسول اللہ! مبارک ہو اللہ نے آپ کی دعا قبول کرلی اور ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت نصیب فرما دی۔ پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ سے دعا کر دیجئے کہ وہ مومن بندوں کے دل میں میری اور میری والدہ کی محبت پیدا فرما دے اور ان کی محبت ان دونوں کے دلوں میں ڈال دے چنانچہ نبی کریم ﷺ نے دعا فرما دی کہ اے اللہ اپنے مومن بندوں کے دل میں اپنے اس بندے اور اس کی والدہ کی محبت پیدا فرما اور ان کی محبت ان کے دلوں میں پیدا فرما اس کے بعد اللہ نے جو مومن بھی پیدا کیا اور وہ میرے بارے سنتا یا مجھے دیکھتا ہے یا میری والدہ کو دیکھتا ہے تو وہ مجھ سے محبت کرنے لگتا ہے۔




 وَأَنْبَأَنَا ابْنُ عُفَيْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ ، قَالَ : حَدَّثَنِي الْعَوْفِيُّ الْقَاضِي ، عَنْ أَبِيهِ ، وَالْحَسَنُ بْنُ عُمَارَةَ جَمِيعًا ، عَنْ جَدِّهِ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ أَحَبَّنِي فَبِحُبِّي أَحَبَّ الأَنْصَارَ ، وَمَنْ أَبْغَضَنِي ، فَبِبُغْضِي أَبْغَضَ الأَنْصَارَ ، لا يُحِبُّهُمْ مُنَافِقٌ ، وَلا يُبْغِضُهُمْ مُؤْمِنٌ ، مَنْ أَحَبَّهُمْ أَحَبَّهُ اللَّهُ ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ أَبْغَضَهُ اللَّهُ ، النَّاسُ دِثَارٌ وَالأَنْصَارُ شِعَارٌ ، وَلَوْ سَلَكَتِ الأَنْصَارُ وَادِيًا وَسَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا ، لَسَلَكْتُ وَادِيَ الأَنْصَارِ ، وَلَوْلا الْهِجْرَةُ لَكُنْتُ رَجُلا مِنَ الأَنْصَارِ ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلأَنْصَارِ ، وَلأَبْنَاءِ الأَنْصَارِ ، وَلأَبْنَاءِ أَبْنَاءِ الأَنْصَارِ ، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اخْتَارَ دَارَهُمْ دَارًا لإِعْزَازِ دِينِهِ ، وَلِنَبِيِّهِ أَنْصَارًا ، وَاللَّهِ مَا شُرِعَ لِلَّهِ مِنْ شَرِيعَةٍ ، وَلا سُنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ سُنَّةٍ ، وَلا فُرِضَ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ فَرِيضَةٍ ، وَلا جُمِعَ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ جُمُعَةٍ ، وَلا ازْدَحَمَتْ مَنَاكِبُ الرِّجَالِ فِي الصَّلاةِ إِلا فِي دُورِهِمْ ، وَبَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ وَبِأَسْيَافِهِمْ " .
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو مجھ سے محبت رکھتا ہے وہ (مہاجر صحابہ کی نصرت کرنے والے مدینہ کے) انصار (صحابہ) سے محبت رکھے ، اور جو مجھ سے بغض رکھتا ہے وہ ان سے بغض رکھےگا ، نہیں محبت رکھتا ان (انصار) سے منافق ، اور نہیں بغض رکھتا ان (انصار) سے مومن ، جو ان سے محبت رکھے گا الله ان کو محبوب رکھے گا ، جو ان سے بغض رکھے گا الله اس سے بغض رکھے گا ، ...




حضرت علىؓ سے مروى ہے كہ نبى كريمﷺ نے فرمايا:
اپنى اولاد كو تين خصلتیں سكھاؤ:
اپنے نبى كى محبت، اور نبى ﷺ كے اھل بيت كى محبت، اور قرآن مجيد كى تلاوت، كيونكہ قرآن مجيد كے حافظ اس روز اللہ تعالى كے سائے ميں انبياء اور اصفياء كے ساتھ ہوں گے جس دن كوئى سايہ نہيں ہوگا۔
[جامع الاحادیث:961، أخرجه الديلمى (1/1/24) كما فى الضعيفة للألبانى (5/181، رقم 2162) . قال المناوى (1/226) : ضعيف لأن فيه صالح بن أبى الأسود له مناكير، وجعفر بن الصادق، قال فى الكشاف عن القطان: فى النفس منه شىء انتهى. والحديث موضوع كما قال الغمارى فى المغير (ص 12) .]




******************************************
(3) فقر (تنگ-دستی) کا اس پر تیزی سے آنا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ نَبْهَانَ بْنِ صَفْوَانَ الثَّقَفِيُّ الْبَصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ أَسْلَمَ ، حَدَّثَنَا شَدَّادٌ أَبُو طَلْحَةَ الرَّاسِبِيُّ ، عَنْ أَبِي الْوَازِعِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ ، فَقَالَ : " انْظُرْ مَاذَا تَقُولُ ؟ " قَالَ : وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ ، فَقَالَ : " انْظُرْ مَاذَا تَقُولُ ؟ " قَالَ : وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ , ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ، فَقَالَ : " إِنْ كُنْتَ تُحِبُّنِي فَأَعِدَّ لِلْفَقْرِ تِجْفَافًا , فَإِنَّ الْفَقْرَ أَسْرَعُ إِلَى مَنْ يُحِبُّنِي مِنَ السَّيْلِ إِلَى مُنْتَهَاهُ " , حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ شَدَّادٍ أَبِي طَلْحَةَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ , قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ ، وَأَبُو الْوَازِعِ الرَّاسِبِيُّ اسْمُهُ : جَابِرُ بْنُ عَمْرٍو وَهُوَ بَصْرِيٌّ .

حضرت عبداللہ بن مغفلؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا اللہ کی قسم میں آپ سے محبت کرتا ہوں آپ نے فرمایا: سوچو کیا کہہ رہے ہو۔ وہ کہنے لگا: اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ اس نے تین مرتبہ یہ بات کہی، آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تو مجھ سے محبت کرتا ہے تو فقر کے لئے تیار ہو جا کیونکہ(نبوی طریقہ میں مسکینی اختیار کرنا بھی شامل ہے، تو)جو مجھ سے محبت کرتا ہے تو اس کی طرف فقر اس سیلاب سے بھی تیز رفتاری سے آتا ہے جو اپنے بہاؤ کی طرف تیزی سے چلتا ہے.
[أخرجه الترمذى (4/576، رقم 2350) ، والبيهقى فى شعب الإيمان (2/173، رقم 1471) . وأخرجه أيضًا: ابن حبان (7/185، رقم 2922) ، جامع الأحاديث:380+5591، كنز العمال 17102]
وأخرجه الطبرانى فى الأوسط (7/160، رقم 7157) . وقال المنذرى (4/94) ، والهيثمى (10/314) : إسناده جيد.]


الراوي: عبد الله بن المغفل المحدث: ابن حبان المصدر: صحيح ابن حبان - الصفحة أو الرقم: 2922
خلاصة حكم المحدث: أخرجه في صحيحه

الراوي: عبدالله بن مغفل المحدث: السيوطي المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 2674
خلاصة حكم المحدث: حسن [ ثم تراجع الشيخ وصححه في " السلسلة الصحيحة " رقم : 2827 والنصيحة : ص14 ]

الراوي: أبو سعيد الخدري المحدث: الألباني المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 2828
خلاصة حكم المحدث: رجاله ثقات

الراوي: كعب بن عجرة المحدث: الهيثمي المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 10/316
خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد

الراوي: كعب بن عجرة المحدث: الألباني المصدر: صحيح الترغيب - الصفحة أو الرقم: 3271
خلاصة حكم المحدث: حسن






تشریح :
محبوب کے احکام و نبوی اسوۂ حسنہ (القرآن: سورۃ الاحزاب:21) کے مطابق حرام چھوڑتے صرف حلال روزی پر قناعت، پھر اس میں سے زکوات و حج کی ادائیگی اور غیر موکّدہ سنتوں کو بھی اختیار کرنا وغیرہ.
تجفاف" کے معنی ہیں " پاکھر" اور پاکھر اس آہنی جھول کو کہتے ہیں جو میدان جنگ میں ہاتھی گھوڑے پر ڈالی جاتی ہے تاکہ ان کا جسم زخمی ہونے سے بچا رہے جیسا کہ زرہ ، سوار سپاہی کے جسم کو نیز و تلوار وغیرہ کے زخم سے محفوظ رکھتی ہیں۔ یہاں حدیث میں" پاکھر" کے ذریعہ " صبر و استقامت" کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ جس طرح پاکھر ہاتھی گھوڑے کے جسم کو چھپاتا ہے۔ اسی طرح صبر و استقامت اختیار کرنا، فقر و فاقہ کی زندگی کا سرپوش بنتا ہے حاصل یہ کہ صبر و استقامت کی راہ پر بہر صورت گامزن رہو، خصوصا اس وقت جب کہ فقر و افلاس تمہاری زندگی کو گھیر لے تاکہ تمہیں مراتب و درجات کی بلندی و رفعت نصیب ہو۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص حضور ﷺ کی محبت سے پوری طرح سرشار ہوتا ہے اس کو فقر و فاقہ کا جلد پہنچنا اور اس پر دنیاوی آفات و بلاؤں اور سختیوں کا کثرت سے نازل ہونا ایک یقینی امر ہے کیونکہ منقول ہے کہ دنیا میں جن لوگوں کو سب سے زیادہ آفات شدائد کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ انبیاء ہیں ان کے بعد درجہ بدرجہ ان لوگوں کا نمبر آتا ہے جو عقیدہ و عمل کے اعتبار سے اعلیٰ مرتبہ کے ہوتے ہیں پس حضور ﷺ بھی انہی انبیاء میں سے تھے لہٰذا آپ ﷺ نے اس شخص پر واضح فرمایا کہ اگر واقعتا تم میری محبت رکھو گے تو میرے تئیں تمہاری محبت جس درجہ کی ہو گی اسی درجہ کی دنیاوی سختیوں اور پریشانیوں کا تمہیں سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ یہ اصول ہے:
الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ.
{یعنی جو شخص جس کو دوست رکھتا ہے اسی جیسی حالت (یعنی تقویٰ یا فجور) میں رہتا ہے}
حضرت شیخ عبدالحق فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے اپنے اس ارشاد " فقر کے لئے پاکھر تیار کرلو " کے ذریعہ بطور کنایہ اس امر کی تلقین فرمائی کہ فقر و فاقہ کے وقت صبر کی راہ پر چلنے کے لئے تیار رہو کیونکہ یہ صبر ہی ہے جو فقر افلاس کی آفتوں اور صعوبتوں کو برداشت کرنے کی طاقت بہم پہنچاتا ہے، دینی و دنیاوی ہلاکت تباہی سے محفوظ رکھتا ہے ، جزع و فزع اور شکوہ شکایت کی راہ سے دور رکھتا ہے اور غضب الٰہی سے بچاتا ہے حضرت شیخ آگے فرماتے ہیں کہ " اس حدیث سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ فقر و فاقہ کی زندگی اختیار کئے بغیر اور حضور ﷺ کے طرز حیات پر عمل پیرا ہوئے بغیر آپ ﷺ کی محبت کا دعویٰ بالکل ناروا اور جھوٹ ہے۔ کیونکہ حقیقت میں اسوہ نبوی کی اتباع اور حضور ﷺ کی محبت دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں اور محبوب کی اتباع وپیروری کے بغیر محبت کا دعویٰ درست ہو ہی نہیں سکتا، ان المحب لمن یحب مطیع، تاہم واضح رہے کہ حب نبی کا یہ سب سے اعلی مرتبہ ہے کہ کسی مسلمان کا حضور ﷺ کے اسوہ حیات کی کامل اتباع کو اپنا شیوہ بنا لینا اس بات کی علامت ہے کہ وہ حضور ﷺ کے تئیں دعویٰ محبت میں بالکل سچا اور درجہ کمال کا حامل ہے۔ اگرچہ " محبت" کی حقیقت و ماہیت یہ ہے کہ انسان کا کسی کی طرف اندر سے کھنچنا اور اس کے دل کا اس محبوب کی خوبیوں ، اس کی ذات وصفات کی تحسین اور اس کی شکل وصورت اور عادات واطوار کی تعریف وتوصیف سے معمور ہو جانا کہ وہ اپنے محبوب کو سب سے اچھا دیکھنے اور سب سے اچھا جاننے لگے۔ مگر جیسا کہ پہلے بتایا گیا تکمیل محبت کا انحصار، محبوب کی کامل اتباع اور پیروی پر ہے، اگر باطنی تعلق ومحبت کے ساتھ عمل واتباع کی دولت بھی نصیب ہو تو اصل اور کامل محبت وہی کہلائے گی ورنہ محض دل میں محبت کا ہونا اور زبان سے اس کا اعتراف واقرار بھی کرنا، مگر عمل واتباع کی راہ میں غفلت و کوتاہی کا شکار ہونا، محبت کے ناقص ہونے کی دلیل ہے، جیسا کہ عمل کے بغیر ایمان درجہ تکمیل تک نہیں پہنچاتا۔


آپ عموماً فقر وفاقہ کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے، صحابہ کرام کے سامنے آپ کی خانگی زندگی کا منظر آجاتا تو فرط محبت سے آبدیدہ ہوجاتے ایک بار حضرت عمرؓ کا شانۂ نبوت میں تشریف لے گئے، تو دیکھا کہ آپ چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں جس پر کوئی بستر نہیں ہے، جسم مبارک پر تہبند کے سوا کچھ نہیں پہلو میں بدھیاں پڑ گئی ہیں، توشہ ٔخانہ میں مٹھی بھر جو کے سوا اورکچھ نہیں، آنکھوں سے بے ساختہ آنسو نکل آئے، ارشاد ہوا کہ عمرؓ کیوں روتے ہو؟ کیوں نہ رؤں آپ کی یہ حالت ہے، اور قیصروکسریٰ دنیا کے مزے اُڑارہے ہیں، فرمایا کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ ہمارے لئے آخرت اوران کے لئے دنیا ہو۔                

   (مسلم، بَاب فِي الْإِيلَاءِ وَاعْتِزَالِ النِّسَاءِ وَتَخْيِيرِهِنَّ،حدیث نمبر:۲۷۰۴)

آپ کے وصال کے بعد صحابہ کرامؓ کو جب آپ کی یہ حالت یاد آتی تھی تو آنکھوں سے آنسو نکل پڑتے تھے، ایک بار حضرت ابوہریرہ ؓکے سامنے چپاتیاں آئیں تو دیکھ کر روپڑے کہ آپ نے اپنی آنکھوں سے چپاتی نہیں دیکھی۔

( ابن ماجہ، کتاب الاطعمہ، باب الرقاق،حدیث نمبر:۳۳۲۹)

ایک دن حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے اپنے دوستوں کو گوشت روٹی کھلایا تو رو پڑے اور کہا کہ رسول اللہ کا وصال بھی ہوگیا اورآپ نے پیٹ بھر جو کی روٹی کبھی نہیں کھائی۔              

    (ترمذی ،باب ماجاء فی عیش النبی ،حدیث نمبر:)

اگر آپ کسی چیز سے متمتع نہ ہوسکتے تو صحابہ کرام ؓ اس سے متمتع ہونا پسند نہ کرتے ،آپ کا وصال ہوا تو آپ کے کفن کے لئے ایک حلہ خریدا گیا ؛لیکن بعد کو آپ دوسرے کپڑوں میں کفنائے گئے، اوریہ حلہ حضرت عبداللہ بن ابی بکر نے اس خیال سے لے لیا کہ اس کو اپنے کفن کے لئے محفوظ رکھیں گے؛ لیکن پھر کہا کہ جب خدا کی مرضی نہ ہوئی کہ وہ رسول اللہ  کا کفن ہو تو میرا کیوں ہو، یہ کہہ کے اس کو فروخت کرکے اس کی قیمت صدقہ کردی۔

(مسلم ،کتاب الجنائز، باب فی کفن المیت،حدیث نمبر:۱۵۶۴)

غزوہ تبوک سخت گرمیوں کے زمانہ میں واقع ہوا تھا ،حضرت ابو خثیمہؓ ایک صحابی تھےجو اس غزوہ میں شریک نہ ہوسکے تھے ،ایک دن وہ گھر میں آئے تو دیکھا کہ بی بیوں نے ان کی آسائش کے لئے نہایت سامان کیا ہے، بالاخانے پر چھڑکاؤ کیا ہے، پانی سرد کیا ہے، عمدہ کھانا تیار کیا ہے ؛لیکن وہ یہ تمام سامانِ عیش دیکھ کر بولے، رسول اللہ  اس لو اور گرمی میں کھلے ہوئے میدان میں ہوں، اورابو خثمیہ سایہ، سرد پانی، عمدہ غذا، اورخوبصورت عورتوں کے ساتھ لطف اُٹھائے ،خدا کی قسم یہ انصاف نہیں ہے میں ہرگز بالاخانہ پر نہ آؤں گا؛ چنانچہ اسی وقت زادِراہ لیا اور تبوک کی طرف روانہ ہوگئے۔

(اسد الغابہ،مالك بن قيس بن خيثمة،۲/۴۶۶،۴۶۷)

وصال کے بعد آپ یاد آتے تو صحابہ بے اختیار روپڑتے،ایک دن حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا، جمعرات کا دن اورجمعرات کادن کس قدر سخت تھا، اس کے بعد اس قدر روئے کہ زمین  کی کنکریاں آنسوؤں سے تر ہوگئیں، حضرت سعید بن جبیرؓ نے پوچھا جمعرات کا دن کیا؟ بولے اس دن آپ کے مرض الموت میں اشتداد ہوا تھا۔

(مسلم، کتاب الوصیۃ ،بَاب تَرْكِ الْوَصِيَّةِ لِمَنْ لَيْسَ لَهُ شَيْءٌ يُوصِي فِيهِ،حدیث نمبر:۳۰۸۹)

آپ کی مبارک صحبتوں کی یاد آتی تو صحابہ کرام کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوجاتے، ایک بار حضرت ابوبکرؓ اورحضرت عباسؓ انصار کی ایک مجلس میں گئے، تو دیکھا کہ سب لوگ رو رہے ہیں، سبب پوچھا تو بولے کہ ہم کو آپ کی مجلس یاد آگئی ۔

(بخاری ،کتاب المناقب، بَاب قَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اقْبَلُوا مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَتَجَاوَزُوا عَنْ مُسِيئِهِمْ،حدیث نمبر:۳۵۱۵)


 حافظ ابن حجر ؓ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ آپ کی بیماری کے زمانہ کا ہے جس میں انصار کو یہ خوف پیدا ہوا کہ اگر اس مرض میں آپ کا وصال ہوا تو پھر آپ کی مجلس میسر نہ ہوگی اس لئے وہ اس غم میں روپڑے۔

(فتح الباری،۱۱/۱۰۸)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ جب رسول اللہ  کا تذکرہ فرماتے تھے تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے تھے۔

(طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ)



سلام اس پر کہ جس نے:
عن عبد الله قال نام رسول الله ﷺ على حصير فقام وقد أثر في جنبه فقلنا يا رسول الله لو اتخذنا لك وطاء فقال ما لي وما للدنيا ما أنا في الدنيا إلا كراكب أستظل تحت شجرة ثم راح وتركها قال وفي الباب عن عمر وابن عباس قال أبو عيسى هذا حديث حسن صحيح 
(سنن ترمذي:2377)






















دنیا ادنیٰ اور فانی ہے، آخرت اعلیٰ اور باقی ہے۔
القرآن:
...کیا تم آخرت کے مقابلے میں دنیوی زندگی پر راضی ہوچکے ہو ؟ (اگر ایسا ہے) تو (یاد رکھو کہ) دنیوی زندی کا مزہ آخرت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، مگر تھوڑا۔
[سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 38]
القرآن:
۔۔۔ یہ (کافر) لوگ دنیوی زندگی پر مگن ہیں، حالانکہ آخرت کے مقابلے میں دنیوی زندگی کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں کہ وہ معمولی سی پونجی ہے۔
[سورۃ نمبر 13 الرعد، آیت نمبر 26]
تفسیر الدر المنثور








فرمانبردار-فقراء کی فضیلت اور احادیث مبارکہ:



مصیبت پر صبر کرنا:
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ , حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ , عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ , قَالَ : دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُوعَكُ , فَوَضَعْتُ يَدِي عَلَيْهِ , فَوَجَدْتُ حَرَّهُ بَيْنَ يَدَيَّ فَوْقَ اللِّحَافِ , فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَا أَشَدَّهَا عَلَيْكَ , قَالَ : " إِنَّا كَذَلِكَ يُضَعَّفُ لَنَا الْبَلَاءُ وَيُضَعَّفُ لَنَا الْأَجْرُ " , قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً ؟ قَالَ : " الْأَنْبِيَاءُ " , قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ , ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ : " ثُمَّ الصَّالِحُونَ , إِنْ كَانَ أَحَدُهُمْ لَيُبْتَلَى بِالْفَقْرِ حَتَّى مَا يَجِدُ أَحَدُهُمْ إِلَّا الْعَبَاءَةَ يُحَوِّيهَا , وَإِنْ كَانَ أَحَدُهُمْ لَيَفْرَحُ بِالْبَلَاءِ كَمَا يَفْرَحُ أَحَدُكُمْ بِالرَّخَاءِ " .
حضرت ابوسعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ کو شدید بخار ہو رہا تھا میں نے اپنا ہاتھ آپ پر رکھا تو چادر کے اوپر بھی (بخار کی) حرارت محسوس ہو رہی تھی میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ کو اتنا شدید بخار ہے۔ فرمایا ہمارے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے آزمائش بھی دگنی ہوتی ہے اور ثواب بھی دگنا ملتا ہے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول لوگوں میں سب سے زیادہ سخت آزمائش کن پر ہوتی ہے؟ فرمایا انبیاء کرام پر۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! ان کے بعد؟ فرمایا ان کے بعد نیک لوگوں پر بعض نیک لوگوں پر فقر کی ایسی آزمائش آتی ہے کہ اوڑھے ہوئے کمبل کے علاوہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا اور نیک لوگ آزمائش سے ایسے خوش ہوتے ہیں جیسے تم لوگ وسعت اور فراخی۔ 




فقیر کی فضیلت:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ , حَدَّثَنِي أَبِي , عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ , قَالَ : مَرَّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا تَقُولُونَ فِي هَذَا الرَّجُلِ ؟ " , قَالُوا : رَأْيَكَ فِي هَذَا , نَقُولُ : هَذَا مِنْ أَشْرَفِ النَّاسِ , هَذَا حَرِيٌّ إِنْ خَطَبَ أَنْ يُخَطَّبَ , وَإِنْ شَفَعَ أَنْ يُشَفَّعَ , وَإِنْ قَالَ , أَنْ يُسْمَعَ لِقَوْلِهِ , فَسَكَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَمَرَّ رَجُلٌ آخَرُ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا تَقُولُونَ فِي هَذَا " , قَالُوا : نَقُولُ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ : هَذَا مِنْ فُقَرَاءِ الْمُسْلِمِينَ , هَذَا حَرِيٌّ إِنْ خَطَبَ لَمْ يُنْكَحْ , وَإِنْ شَفَعَ لَا يُشَفَّعْ , وَإِنْ قَالَ لَا يُسْمَعْ لِقَوْلِهِ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَهَذَا خَيْرٌ مِنْ مِلْءِ الْأَرْضِ مِثْلَ هَذَا " .
حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ لوگوں نے کہا: جو آپ کی رائے ہے وہی ہماری رائے ہے، ہم تو سمجھتے ہیں کہ یہ شریف لوگوں میں سے ہے، یہ اس لائق ہے کہ اگر کہیں یہ نکاح کا پیغام بھیجے تو اسے قبول کیا جائے، اگر سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول کی جائے، اگر کوئی بات کہے تو اس کی بات سنی جائے، نبی اکرم ﷺ خاموش رہے، پھر ایک دوسرا شخص گزرا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ لوگوں نے جواب دیا: اللہ کی قسم! یہ تو مسلمانوں کے فقراء میں سے ہے، یہ اس لائق ہے کہ اگر کہیں نکاح کا پیغام دے تو اس کا پیغام قبول نہ کیا جائے، اگر کسی کی سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول نہ کی جائے، اور اگر کچھ کہے تو اس کی بات نہ سنی جائے، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: یہ اس پہلے جیسے زمین بھر آدمیوں سے بہتر ہے ۔



... عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ , قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ عَبْدَهُ الْمُؤْمِن , الْفَقِيرَ , الْمُتَعَفِّفَ أَبَا الْعِيَالِ " .[سنن ابن ماجه » كِتَاب الزُّهْدِ » بَاب فَضْلِ الْفُقَرَاءِ ... رقم الحديث: 4120]
حضرت عمران بن حصین ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ اپنے مومن، فقیر (محتاج) ، سوال سے بچنے والے اور اہل و عیال والے بندے کو محبوب رکھتا ہے ۔



فقیروں کا مرتبہ:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يَدْخُلُ فُقَرَاءُ الْمُؤْمِنِينَ الْجَنَّةَ قَبْلَ الْأَغْنِيَاءِ , بِنِصْفِ يَوْمٍ خَمْسِ مِائَةِ عَامٍ " .
 حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مومنوں میں سے محتاج اور غریب لوگ مالداروں سے آدھے دن پہلے جنت میں داخل ہوں گے، آخرت کا آدھا دن (دنیا کے) پانچ سو سال کے برابر ہے ۔



حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ الْمُخْتَارِ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي لَيْلَى , عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ , عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ : " إِنَّ فُقَرَاءَ الْمُهَاجِرِينَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ , قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ , بِمِقْدَارِ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ " .
حضرت ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فقیر مہاجرین، مالدار مہاجرین سے پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے ۔



حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ , أَنْبَأَنَا أَبُو غَسَّانَ بَهْلُولٌ , حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , قَالَ : اشْتَكَى فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِينَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ عَلَيْهِمْ أَغْنِيَاءَهُمْ , فَقَالَ : " يَا مَعْشَرَ الْفُقَرَاءِ , أَلَا أُبَشِّرُكُمْ أَنَّ فُقَرَاءَ الْمُؤْمِنِينَ , يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ بِنِصْفِ يَوْمٍ , خَمْسِ مِائَةِ عَامٍ " , ثُمَّ تَلَا مُوسَى هَذِهِ الْآيَةَ وَإِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ سورة الحج آية 47 .
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ فقیر مہاجرین نے رسول اللہ ﷺ سے اس بات کی شکایت کی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مالداروں کو ان پر فضیلت دی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اے فقراء کی جماعت! کیا میں تم کو یہ خوشخبری نہ سنا دوں کہ غریب مومن، مالدار مومن سے آدھا دن پہلے جنت میں داخل ہوں گے، (پانچ سو سال پہلے) پھر موسیٰ بن عبیدہ نے یہ آیت تلاوت کی: وإن يوما عند ربک كألف سنة مما تعدون اور بیشک ایک دن تیرے رب کے نزدیک ایک ہزار سال کے برابر ہے جسے تم شمار کرتے ہو (سورۃ الحج: ١٤٧ ) ۔



فقیروں کے ساتھ بیٹھنے کی فضیلت:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ أَبُو يَحْيَى , حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ أَبُو إِسْحَاق الْمَخْزُومِيُّ , عَنْ الْمَقْبُرِيِّ, عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ : كَانَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِي طَالِبٍ , يُحِبُّ الْمَسَاكِينَ وَيَجْلِسُ إِلَيْهِمْ , وَيُحَدِّثُهُمْ وَيُحَدِّثُونَهُ , وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكْنِيهِ : " أَبَا الْمَسَاكِينِ " .
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ جعفر بن ابی طالب ؓ مسکینوں سے محبت کرتے تھے، ان کے ساتھ بیٹھتے، اور ان سے باتیں کیا کرتے تھے، اور وہ لوگ بھی ان سے باتیں کرتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے ان کی کنیت ابوالمساکین رکھی تھی۔

 



حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ , قَالَا : حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ سِنَانٍ , عَنْ أَبِي الْمُبَارَكِ , عَنْ عَطَاءٍ, عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ , قَالَ : أَحِبُّوا الْمَسَاكِينَ , فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ فِي دُعَائِهِ : " اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مِسْكِينًا , وَأَمِتْنِي مِسْكِينًا , وَاحْشُرْنِي فِي زُمْرَةِ الْمَسَاكِينِ " .
حضرت ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ مسکینوں اور فقیروں سے محبت کرو، میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی دعا میں کہتے ہوئے سنا ہے:
اے اللہ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ، مسکین بنا کر فوت کر، اور میرا حشر مسکینوں کے زمرے میں کر ۔




حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ , حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنْقَزِيُّ , حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ , عَنْ السُّدِّيِّ , عَنْ أَبِي سَعْدٍ الْأَزْدِيِّ , وَكَانَ قَارِئَ الْأَزْدِ , عَنْ أَبِي الْكَنُودِ , عَنْ خَبَّابٍ , فِي قَوْلِهِ تَعَالَى : وَلا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ إِلَى قَوْلِهِ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ سورة الأنعام آية 52 , قَالَ : جَاءَ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ التَّمِيمِيُّ , وَعُيَيْنَةُ بْنُ حِصْنٍ الْفَزَارِيُّ , فَوَجَدَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ صُهَيْبٍ , وَبِلَالٍ , وَعَمَّارٍ , وَخَبَّابٍ , قَاعِدًا فِي نَاسٍ مِنَ الضُّعَفَاءِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ , فَلَمَّا رَأَوْهُمْ حَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقَرُوهُمْ , فَأَتَوْهُ فَخَلَوْا بِهِ , وَقَالُوا : إِنَّا نُرِيدُ أَنْ تَجْعَلَ لَنَا مِنْكَ مَجْلِسًا تَعْرِفُ لَنَا بِهِ الْعَرَبُ فَضْلَنَا , فَإِنَّ وُفُودَ الْعَرَبِ تَأْتِيكَ , فَنَسْتَحْيِي أَنْ تَرَانَا الْعَرَبُ مَعَ هَذِهِ الْأَعْبُدِ , فَإِذَا نَحْنُ جِئْنَاكَ فَأَقِمْهُمْ عَنْكَ , فَإِذَا نَحْنُ فَرَغْنَا فَاقْعُدْ مَعَهُمْ إِنْ شِئْتَ , قَالَ : " نَعَمْ " , قَالُوا : فَاكْتُبْ لَنَا عَلَيْكَ كِتَابًا , قَالَ : فَدَعَا بِصَحِيفَةٍ وَدَعَا عَلِيًّا لِيَكْتُبَ وَنَحْنُ قُعُودٌ فِي نَاحِيَةٍ , فَنَزَلَ جِبْرَائِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام , فَقَالَ : وَلا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِمْ مِنْ شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ سورة الأنعام آية 52 ثُمَّ ذَكَرَ الْأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ , وَعُيَيْنَةَ بْنَ حِصْنٍ , فَقَالَ : وَكَذَلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِيَقُولُوا أَهَؤُلاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنْ بَيْنِنَا أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ سورة الأنعام آية 53 ثُمَّ قَالَ : وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلامٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ سورة الأنعام آية 54 , قَالَ : فَدَنَوْنَا مِنْهُ حَتَّى وَضَعْنَا رُكَبَنَا عَلَى رُكْبَتِهِ , وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْلِسُ مَعَنَا , فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَقُومَ قَامَ وَتَرَ كَنَا , فَأَنْزَلَ اللَّهُ : وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ سورة الكهف آية 28 وَلَا تُجَالِسْ الْأَشْرَافَ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا يَعْنِي : عُيَيْنَةَ وَالْأَقْرَعَ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا سورة الكهف آية 27 ـ 28 , قَالَ : هَلَاكًا , قَالَ : أَمْرُ عُيَيْنَةَ , وَالْأَقْرَعِ , ثُمَّ ضَرَبَ لَهُمْ مَثَلَ الرَّجُلَيْنِ , وَمَثَلَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا " , قَالَ خَبَّابٌ : فَكُنَّا نَقْعُدُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَإِذَا بَلَغْنَا السَّاعَةَ الَّتِي يَقُومُ فِيهَا قُمْنَا وَتَرَكْنَاهُ حَتَّى يَقُومَ " .
خباب ؓ سے روایت ہے وہ ولا تطرد الذين يدعون ربهم بالغداة والعشي سے فتکون من الظالمين اور ان لوگوں کو اپنے پاس سے مت نکال جو اپنے رب کو صبح و شام پکارتے ہیں ... (سورة الأنعام: 52) کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ اقرع بن حابس تمیمی اور عیینہ بن حصن فزاری ؓ آئے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو صہیب، بلال، عمار، اور خباب ؓ جیسے کمزور حال مسلمانوں کے ساتھ بیٹھا ہوا پایا، جب انہوں نے ان لوگوں کو نبی اکرم ﷺ کے چاروں طرف دیکھا تو ان کو حقیر جانا، اور آپ ﷺ کے پاس آ کر آپ سے تنہائی میں ملے، اور کہنے لگے: ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے لیے ایک الگ مجلس مقرر کریں تاکہ عرب کو ہماری بزرگی اور بڑائی معلوم ہو، آپ کے پاس عرب کے وفود آتے رہتے ہیں، اگر وہ ہمیں ان غلاموں کے ساتھ بیٹھا دیکھ لیں گے تو یہ ہمارے لیے باعث شرم ہے، جب ہم آپ کے پاس آئیں تو آپ ان مسکینوں کو اپنے پاس سے اٹھا دیا کیجئیے، جب ہم چلے جائیں تو آپ چاہیں تو پھر ان کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ٹھیک ہے ان لوگوں نے کہا کہ آپ ہمیں اس سلسلے میں ایک تحریر لکھ دیجئیے، آپ ﷺ نے ایک کاغذ منگوایا اور علی ؓ کو لکھنے کے لیے بلایا، ہم ایک طرف بیٹھے تھے کہ جبرائیل (علیہ السلام) یہ آیت لے کر نازل ہوئے: ولا تطرد الذين يدعون ربهم بالغداة والعشي يريدون وجهه ما عليك من حسابهم من شيء وما من حسابک عليهم من شيء فتطردهم فتکون من الظالمين اور ان لوگوں کو اپنے سے دور مت کریں جو اپنے رب کو صبح و شام پکارتے ہیں، وہ اس کی رضا چاہتے ہیں، ان کے حساب کی کوئی ذمے داری تمہارے اوپر نہیں ہے اور نہ تمہارے حساب کی کوئی ذمے داری ان پر ہے (اگر تم ایسا کرو گے) تو تم ظالموں میں سے ہوجاؤ گے) پھر اللہ تعالیٰ نے اقرع بن حابس اور عیینہ بن حصن ؓ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: وكذلک فتنا بعضهم ببعض ليقولوا أهؤلاء من الله عليهم من بيننا أليس الله بأعلم بالشاکرين اور اسی طرح ہم نے بعض کو بعض کے ذریعے آزمایا تاکہ وہ کہیں: کیا اللہ تعالیٰ نے ہم میں سے انہیں پر احسان کیا ہے، کیا اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو نہیں جانتا، (سورۃ الأنعام: ٥٣ ) پھر فرمایا: وإذا جاءک الذين يؤمنون بآياتنا فقل سلام عليكم كتب ربکم على نفسه الرحمة جب تمہارے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں تو کہو: تم پر سلامتی ہو، تمہارے رب نے اپنے اوپر رحم کو واجب کرلیا ہے (سورة الأنعام: 54) ۔ خباب ؓ کہتے ہیں کہ (اس آیت کے نزول کے بعد) ہم آپ ﷺ سے قریب ہوگئے یہاں تک کہ ہم نے اپنا گھٹنا، آپ کے گھٹنے پر رکھ دیا اور آپ ہمارے ساتھ بیٹھتے تھے، اور جب اٹھنے کا ارادہ کرتے تو کھڑے ہوجاتے، اور ہم کو چھوڑ دیتے (اس سلسلے میں) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: واصبر نفسک مع الذين يدعون ربهم بالغداة والعشي يريدون وجهه ولا تعد عيناک عنهم روکے رکھو اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ جو اپنے رب کو یاد کرتے ہیں صبح اور شام، اور اسی کی رضا مندی چاہتے ہیں، اور اپنی نگاہیں ان کی طرف سے مت پھیرو (سورة الكهف: 28) ۔ یعنی مالداروں کے ساتھ مت بیٹھو، تم دنیا کی زندگی کی زینت چاہتے ہو، مت کہا مانو ان لوگوں کا جن کے دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دئیے) اس سے مراد اقرع و عیینہ ہیں واتبع هواه وکان أمره فرطا انہوں نے اپنی خواہش کی پیروی کی اور ان کا معاملہ تباہ ہوگیا (سورة الكهف: 28) ، یہاں فرطا کا معنی بیان کرتے ہوئے خباب ؓ کہتے ہیں: هلاكا اقرع اور عیینہ میں سے ہر ایک کا معاملہ تباہ ہوگیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان دو آدمیوں کی مثال اور دنیوی زندگی کی مثال بیان فرمائی، خباب ؓ کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ بیٹھتے تو جب آپ کے کھڑے ہونے کا وقت آتا تو پہلے ہم اٹھتے تب آپ اٹھتے۔




حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ , حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ وَاقِدٍ الْقُرَشِيُّ , حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مَيْسَرَةَ بْنِ حَلْبَسٍ , عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ , عَنْ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ , قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَيْسَ الزَّهَادَةُ فِي الدُّنْيَا بِتَحْرِيمِ الْحَلَالِ , وَلَا فِي إِضَاعَةِ الْمَالِ , وَلَكِنْ الزَّهَادَةُ فِي الدُّنْيَا أَنْ لَا تَكُونَ بِمَا فِي يَدَيْكَ أَوْثَقَ مِنْكَ بِمَا فِي يَدِ اللَّهِ , وَأَنْ تَكُونَ فِي ثَوَابِ الْمُصِيبَةِ إِذَا أُصِبْتَ بِهَا , أَرْغَبَ مِنْكَ فِيهَا لَوْ أَنَّهَا أُبْقِيَتْ لَكَ " , قَال هِشَامٌ : كَانَ أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ , يَقُولُ : مِثْلُ هَذَا الْحَدِيثِ فِي الْأَحَادِيثِ كَمِثْلِ الْإِبْرِيزِ فِي الذَّهَبِ .
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ جعفر بن ابی طالب ؓ مسکینوں سے محبت کرتے تھے، ان کے ساتھ بیٹھتے، اور ان سے باتیں کیا کرتے تھے، اور وہ لوگ بھی ان سے باتیں کرتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے ان کی کنیت ابوالمساکین رکھی تھی۔





حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ , حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ , حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ , عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ سَعْدٍ , قَالَ : نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِينَا سِتَّةٍ فِيَّ وَفِي ابْنِ مَسْعُودٍ , وَصُهَيْبٍ , وَعَمَّارٍ , وَالْمِقْدَادِ , وَبِلَالٍ , قَالَ : قَالَتْ قُرَيْشٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّا لَا نَرْضَى أَنْ نَكُونَ أَتْبَاعًا لَهُمْ فَاطْرُدْهُمْ عَنْكَ , قَالَ : فَدَخَلَ قَلْبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذَلِكَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدْخُلَ , فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : وَلا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ سورة الأنعام آية 52 .
حضرت سعد ؓ کہتے ہیں کہ یہ آیت ولا تطرد ہم چھ لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی: میرے، ابن مسعود، صہیب، عمار، مقداد اور بلال ؓ کے سلسلے میں، قریش کے لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ ہم ان کے ساتھ بیٹھنا نہیں چاہتے، آپ ان لوگوں کو اپنے پاس سے نکال دیجئیے، تو نبی اکرم ﷺ کے دل میں وہ بات داخل ہوگئی جو اللہ تعالیٰ کی مشیت میں تھی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: ولا تطرد الذين يدعون ربهم بالغداة والعشي يريدون وجهه اور ان لوگوں کو مت نکالئے جو اپنے رب کو صبح و شام پکارتے ہیں، وہ اس کی رضا چاہتے ہیں (سورۃ الأنعام: ٥٢ ) ۔




أَخْبَرَنَا عِصْمَةُ بْنُ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا حَرَمِيُّ بْنُ عُمَارَةَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ عُمَرَ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ خَرَجَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ مِنْ عِنْدِ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ بِنِصْفِ النَّهَارِ قَالَ فَقُلْتُ مَا خَرَجَ هَذِهِ السَّاعَةَ مِنْ عِنْدِ مَرْوَانَ إِلَّا وَقَدْ سَأَلَهُ عَنْ شَيْءٍ فَأَتَيْتُهُ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ نَعَمْ سَأَلَنِي عَنْ حَدِيثٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ فَأَدَّاهُ إِلَى مَنْ هُوَ أَحْفَظُ مِنْهُ فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَيْسَ بِفَقِيهٍ وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ لَا يَعْتَقِدُ قَلْبُ مُسْلِمٍ عَلَى ثَلَاثِ خِصَالٍ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ قَالَ قُلْتُ مَا هُنَّ قَالَ إِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلَّهِ وَالنَّصِيحَةُ لِوُلَاةِ الْأَمْرِ وَلُزُومُ الْجَمَاعَةِ فَإِنَّ دَعْوَتَهُمْ تُحِيطُ مِنْ وَرَائِهِمْ وَمَنْ كَانَتْ الْآخِرَةُ نِيَّتَهُ جَعَلَ اللَّهُ غِنَاهُ فِي قَلْبِهِ وَجَمَعَ لَهُ شَمْلَهُ وَأَتَتْهُ الدُّنْيَا وَهِيَ رَاغِمَةٌ وَمَنْ كَانَتْ الدُّنْيَا نِيَّتَهُ فَرَّقَ اللَّهُ عَلَيْهِ شَمْلَهُ وَجَعَلَ فَقْرَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ وَلَمْ يَأْتِهِ مِنْ الدُّنْيَا إِلَّا مَا قُدِّرَ لَهُ قَالَ وَسَأَلْتُهُ عَنْ صَلَاةِ الْوُسْطَى قَالَ هِيَ الظُّهْرُ.
[سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 231 (43133) حدیث متواتر - علماء کی پیروی کرنا]
حضرت زید بن ثابت، مروان بن حکم کے ہاں سے دوپہر کے وقت باہر نکلے راوی کا بیان ہے میں نے دریافت کیا آپ اس وقت مروان کے ہاں سے کیوں آرہے ہیں۔ ضرور اس نے آپ سے کوئی سوال کیا ہوگا میں حضرت زید کے پاس آیا اور ان سے دریافت کیا انہوں نے جواب دیا ہاں اس نے مجھ سے ایک حدیث کے بارے میں سوال کیا تھا جو میں نے نبی ﷺ کی زبانی سنی ہے آپ نے ارشاد فرمایا۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش رکھے جو ہماری زبانی کوئی بات سن کر اسے یاد کرلے اور اسے اس شخص تک منتقل کر دے جو اس سے زیادہ بہتر طور اسے یاد رکھے کیونکہ بعض اوقات علم رکھنے والا شخص درحقیقت عالم نہیں ہوتا اور بعض اوقات علم رکھنے والا شخص کسی ایسے شخص تک بات منتقل کر دیتا ہے جو زیادہ بڑا عالم ہو۔ جس مسلمان کا دل تین باتوں پریقین رکھے گا وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا راوی بیان کرتے ہیں میں نے دریافت کیا وہ کیا باتیں ہیں آپ نے ارشاد فرمایا عمل میں اخلاص، حکام کے لئے خیر خواہی اور مسلمانوں کی جماعت کو لازم کرنا چونکہ ان کی دعا غیر موجود لوگوں پر بھی محیط ہوتی ہے۔ جس شخص کی نیت آخرت ہوگی اللہ تعالیٰ اس شخص کے دل میں بے نیازی پیدا کردے گا اور اس کے تمام معاملات سیدھے کردے گا دنیا اس کے پاس سرجھکا کر آئے گی لیکن جس شخص کی نیت دنیا کا حصول ہوگی اللہ اس کے معاملات بکھیر دے گا اس کے فقر کو اس کے سامنے کردے گا اور دنیا اسے اس کی نصیب کے مطابق ملے گی۔ راوی بیان کرتے ہیں میں نے ان سے نماز وسطی کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا اس سے مراد ظہر کی نماز ہے۔






سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی

سلام اس پرکہ اسرار محبت جس نے سکھلائے
سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے

سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں

سلام اس پر کہ دشمن کو حیات جاوداں دے دی
سلام اس پر، ابو سفیان کو جس نے اماں دے دی

سلام اس پر کہ جس کا ذکر ہے سارے صحائف میں
سلام اس پر، ہوا مجروح جو بازار طائف میں

سلام اس پر، وطن کے لوگ جس کو تنگ کرتے تھے
سلام اس پر کہ گھر والے بھی جس سے جنگ کرتے تھے

سلام اس پر کہ جس کے گھر میں چاندی تھی نہ سونا تھا
سلام اس پر کہ ٹوٹا بوریا جس کا بچھونا تھا

سلام اس پر جو سچائی کی خاطر دکھ اٹھاتا تھا
سلام اس پر، جو بھوکا رہ کے اوروں کو کھلاتا تھا

سلام اس پر، جو امت کے لئے راتوں کو روتا تھا
سلام اس پر، جو فرش خاک پر جاڑے میں سوتا تھا

سلام اس پر جو دنیا کے لئے رحمت ہی رحمت ہے
سلام اس پر کہ جس کی ذات فخر آدمیت ہے

سلام اس پر کہ جس نے جھولیاں بھردیں فقیروں کی
سلام اس پر کہ مشکیں کھول دیں جس نے اسیروں کی

سلام اس پر کہ جس کی چاند تاروں نے گواہ دی
سلام اس پر کہ جس کی سنگ پاروں نے گواہی دی

سلام اس پر، شکستیں جس نے دیں باطل کی فوجوں کو
سلام اس پر کہ جس کی سنگ پاروں نے گواہی دی

سلام اس پر کہ جس نے زندگی کا راز سمجھایا
سلام اس پر کہ جو خود بدر کے میدان میں آیا

سلام اس پر کہ جس کا نام لیکر اس کے شیدائی
الٹ دیتے ہیں تخت قیصریت، اوج دارائی

سلام اس پر کہ جس کے نام لیوا ہر زمانے میں
بڑھادیتے ہیں ٹکڑا، سرفروشی کے فسانے میں

سلام اس ذات پر، جس کے پریشاں حال دیوانے
سناسکتے ہیں اب بھی خالد و حیدر کے افسانے

درود اس پر کہ جس کی بزم میں قسمت نہیں سوتی
درود اس پر کہ جس کے ذکر سے سیری نہیں ہوتی

درود اس پر کہ جس کے تذکرے ہیں پاک بازوں میں
درود اس پر کہ جس کا نام لیتے ہیں نمازوں میں

درود اس پر، جسے شمع شبستان ازل کہئے
درود اس ذات پر، فخرِ بنی آدم جسے کہئے




سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی

حديثِ حضرت خدیجہ:

بےشک آپ صلہ رحمی کرتے ہیں

ضعیفوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں

ناداروں کو کمائی سے لگاتے ہیں

مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں

اور

حق بجانب باتوں میں مصیبت زدہ لوگوں کی مدد فرماتے ہیں.

[صحیح بخاری:3+ صحیح مسلم:160]

سیرت منانے کا نہیں، اپنانے کا نام ہے.





ہر مظلوم طبقے کا سہارا:
انسانیت کا وہ کونسا طبقہ ہے جس کو آپﷺ نے سہارا نہ دیا، آپ کی بعثت سے قبل انسان کا شرف پامال ہورہا تھا، انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہ تھی، قتل وقتال اور معمولی باتوں پر جان کے درپے ہونا ایک عام بات ہوگئی تھی، عظمتِ انسانی بری طرح پیروں تلے روندی جارہی تھی، انسان نما بھیڑیوں کا راج تھا، حضورﷺ نے سب سے پہلے عرب کے خونخواروں کو مقامِ انسانیت سے آگاہ کیا اور انہیں انسان بن کر جینے کا سلیقہ سکھایا، پھر جولوگ خدائے واحد کو چھوڑ کر بے سہارااور دردر کی ٹھوکریں کھارہے تھے انہیں اللہ کا حقیقی سہارا عطا فرمایا اور انہیں یہ تعلیم دی کہ ایک اللہ کے سوا جس در کی بھی خاک چھانوگے بے یار ومددگار ہوگے:
۔۔۔۔مالکم من دون اللہ من ولی ولا نصیر
۔۔۔ اور اللہ کے سوا نہ کوئی تمہارا رکھوالا ہے نہ مددگار؟
[سورۃ البقرہ:۱۰۷]

آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے مختلف طبقاتِ انسانی کسی ایک کے لئے ترس رہے تھے، جو انہیں ظلم وبربریت کا شکار ہونے سے بچائے، آپﷺ نے ایسے ہر مظلوم طبقے کو سہارا دیا۔


اسلام سے قبل عورت کی کیا درگت تھی، وہ بے سہارا مردوں کے ظالم پنجوں میں سسک رہی تھی، اسکا کوئی پرسانِ حال نہ تھا، لوگوں کو اس کے مستقل وجود میں تک شک تھا، سامان لذت سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہ تھی، پہلی مرتبہ حضورﷺ نے اس مظلوم صنف کو سہارا دیا اور معاشرہ میں مرد کے مساوی اس کے حقوق متعین فرمائے، عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک کے سلسلہ میں مردوں کو سخت تاکید فرمائی، چنانچہ آپﷺ کا ارشاد ہے:
’’عورتوں کے ساتھ بھلی نصیحت سے کام لو‘‘۔
ایک روایت میں فرمایا:
’تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل وعیال کے لیے تم سب سے بہتر ہو‘‘۔
حوالہ
«خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ، وَأَنَا ‌خَيْرُكُمْ ‌لِأَهْلِي»
[سنن ابن ماجه: 1977]


حجۃ الوداع کے موقعہ پر عورتوں کے حقوق بالتفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا: سن لو! عورتوں کا حق تم پر یہ ہے کہ تم ان کے ساتھ بہتر سے بہتر معاملہ کرو، ان کے پہنانے اور کھلانے میں تم نے اللہ کی ضمانت پر ان کو اپنے لیے حلال کیا ہے، ان کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو‘‘۔
حوالہ
ولَهُنَّ عليكُم رِزقُهن وكِسوتُهن بالمعروفِ
[سنن أبي داود: 1905]


ایک جگہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک مسلمان اپنی بیوی کے حق میں جتنا رحم دل اور مہذب ہوگا اتنا ہی وہ اپنے ایمان میں کامل ہوگا.‘‘
حوالہ
"‌أَكْمَلُكُمْ ‌إِيمَانًا أَحْسَنكُمْ خُلُقًا"۔
[التاريخ الكبير للبخاري: 2419، مكارم الأخلاق للخرائطي: 49]


ماں کے قدموں کے نیچے جنت قرار دیا، دور جاہلیت میں لڑکی کی پیدائش کو کو عار سمجھا جاتا تھا اور ولادت کے ساتھ ہی اس کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا،حضورﷺ نے اس ظالمانہ رسم کا خاتمہ کیا اور لڑکیوں کی پرورش کے بڑے فضائل بیان کئے، آپ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کی تین لڑکیاں ہوں وہ ان کو پالے، پرورش کرے اور ان کی کفالت کرے اس کے لیے جنت واجب ہے، کسی نے غرض کیا: اگر کسی دو لڑکیاں ہوں ؟ آپﷺ نے فرمایا: دو والے کے لیے بھی یہی بشارت ہے، پھر کسی نے کہا: اگر ایک لڑکی ہو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ایک لڑکی والے کے لیے بھی یہی بشارت ہے۔
حوالہ
«مَنْ كُنَّ لَهُ ثَلَاثُ بَنَاتٍ فَصَبَرَ عَلَى لَأْوَائِهِنَّ وَضَرَّائِهِنَّ أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِهِ إِيَّاهُنَّ» ، قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ: وَابْنَتَانِ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «وَإِنِ ابْنَتَانِ» قَالَ رَجُلٌ: ‌يَا ‌رَسُولَ ‌اللَّهِ، ‌وَوَاحِدَةٌ؟ قَالَ: «وَوَاحِدَةٌ»
[المستدرك على الصحيحين للحاكم: 7346]




غلاموں کا مولیٰ:
غلاموں کا طبقہ ہر دور میں مظلوم رہا، بعثت سے قبل غلاموں کے ساتھ بڑا ناروا سلوک کیا جاتا تھا، بڑی بے رحمی کے ساتھ آقا ان سے کام لیا کرتے تھے، حضور ﷺ نے اس مظلوم طبقہ کو بھی مکمل سہارا دیا، سب سے پہلے تو ایسے قوانین مرتب فرمائے جن سے زیادہ سے زیادہ لوگ غلامی کے طوق سے آزاد ہوسکیں ، چنانچہ بہت سے گناہوں کا کفارہ غلاموں کی آزادی قراردی، پھر غلاموں کے حقوق مُتعین فرمائے، ان کے ساتھ شفقت کا معاملہ فرمایا اور دوسروں کو اس کی تاکید کی، آپﷺ نے فرمایا: یہ غلام تمہارے بھائی ہیں جو خود کھاتے ہو ان کو کھلائو، اور جو پہنتے ہو ان کو پہنائو ، ان پر کسی ایسے کام کا بوجھ نہ ڈالو جو وہ نہ کرسکیں۔* آپ ﷺ کی ملکیت میں جو غلام آتے ان کو آپ ﷺ ہمیشہ آزاد فرماتے، غلاموں کو غلام کا لفظ سن کر ذلت محسوس ہوتی تھی، آپ ﷺ کو ان کی یہ تکلیف بھی گوارا نہ تھی، اس لیے فرماتے کوئی میرا غلام، میری لونڈی کہہ کر نہ پکارے، میرا بچہ میر بچی کہے، آپ ﷺ کو غلاموں پر شفقت اس قدر ملحوظ تھی کہ مرض الموت میں آپ نے سب سے آخری وصیت یہ فرمائی:
’’نماز، نماز، اللہ سے ڈرا کرنا غلاموں کے معاملہ میں‘‘۔
حوالہ
«الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ، اتَّقُوا اللَّهَ فِيمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ»
[سنن أبي داود:5156]


حضرت ابوذر غفاریؓ بڑے صحابی ہیں ، حضور ﷺ نے ان کی راست گوئی کی مدح فرمائی ہے، انہوں نے ایک عجمی آزاد غلام کو بھلا کہا، غلام نے حضور ﷺ سے شکایت کی تو آپ ﷺ نے حضرت ابوذرؓ کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ *اے ابوذر! تم میں اب تک جاہلیت باقی ہے*، یہ غلام تمہارے بھائی ہیں ، اللہ نے تم کو ان پر فضیلت عطا کی ہے، اگر وہ تمہارے مزاج کے موافق نہ ہوں تو ان کو فروخت کر ڈالو، اللہ کی مخلوق کو ستایا نہ کرو۔
حوالہ
(يا أَبَا ذَرٍّ! إِنَّكَ امْرُؤٌ فِيكَ جَاهِلِيَّةٌ)
[صحيح مسلم:1661، صحيح البخاري:50]

ایک مرتبہ ابو مسعودؓ اپنے غلام کو مار رہے تھے کہ پیچھے سے آواز آئی: ابو مسعود! تم کو جس قدر اس غلام پر اختیار ہے اللہ کو اس سے زیادہ تم پر اختیار ہے۔
حوالہ
(وَاللَّهِ! لَلَّهُ أَقْدَرُ عَلَيْكَ مِنْكَ عَلَيْهِ)
[صحيح مسلم:1659، سنن أبي داود:5159]

ابومسعودؓ نے مڑ کر دیکھا تو آنحضور ﷺ تھے، عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ! میں نے اللہ کے لیے اس غلام کو آزاد کیا، فرمایا : اگر تم ایسا نہ کرتے تو آتشِ جہنم تم کو چھولیتی۔
حوالہ
فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! هُوَ حُرٌّ لِوَجْهِ اللَّهِ. فَقَالَ (أَمَا لَوْ لَمْ تَفْعَلْ، لَلَفَحَتْكَ النَّارُ، أَوْ لَمَسَّتْكَ النار)
[صحيح مسلم:1659، سنن أبي داود:5159]

ایک شخص حاضر خدمت ہوکر عرض کرنے لگا: یا رسول اللہ ﷺ ! میں غلاموں کا قصور کتنی مرتبہ معاف کروں ؟ آپ ﷺ خاموشی رہے، تیسری بار پوچھنے پر فرمایا: *ہر روز ستر بار معاف کیا کرو۔*
حوالہ
اعْفُوا عَنْهُ فِي كُلِّ يَوْمٍ سَبْعِينَ مَرَّةً.
[سنن أبي داود:5164]

حضور ﷺ سے پہلے دنیا میں بیوہ عورتیں سماج میں بڑی کسمپرسی کی زندگی گذارتی تھیں ، بیوہ عورتیں وارث کی ملکیت بن جاتی تھیں اور وہ اس کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتا تھا، حضور ﷺ نے بیوہ عورتوں کو بھی سہارا دیا اور سماج میں انہیں عزت کا مقام عطا کیا، اس کے لیے آپ ﷺ نے آٹھ بیوہ عورتوں کو اپنے نکاح میں لیا اور بیوہ عورتوں سے نکاح کو اپنی سنتِ عادیہ بنادیا، بیوہ کی خدمت کو جہاد کے برابر قراردیا، ایک حدیث میں فرمایا: میں قیامت کے دن سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھولوں گا کہ ایک عورت مجھ سے پہلے اندر جانا چاہتی ہے، میں پوچھوں گا کہ کون ہے؟ وہ کہے گی میں ایک بیوہ عورت ہوں جس کے چند ننھے یتیم بچے تھے۔
[سیرۃ النبی ﷺ (مولانا سید سلمان ندوی) :  ج6 ص190]
(مسند أبي يعلى - ت حسين أسد:5328، اعتلال القلوب - الخرائطي:416)



يتیموں کا والی:
معاشرہ کا ایک بے بس طبقہ یتیموں کا ہوتا ہے، لوگ انہیں حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں ، ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا، اسلام سے قبل دوِ رجاہلیت میں تو اور برا حال تھا، حضورﷺ نے یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھا، اور انہیں اپنی اولاد جیسی محبت دی، ہمیشہ آپﷺ یتیموں پر ترس کھاتے تھے، یتیموں کیساتھ حسنِ سلوک کے کئی واقعات ہیں ، ایک دفعہ ایک یتیم لڑکے نے حضورﷺ کی عدالت میں یہ دعویٰ دائرکیا کہ یہ نخلستان میرا ہے، اس پر فلاں شخص قبضہ کرنا چاہتا ہے،حضورﷺ نے لڑکے سے ثبوت طلب فرمایا: لڑکا ثبوت دینے سے قاصر رہا،آپﷺ نے اس کا دعویٰ خارج کردیا، اس فیصلہ پر یتیم رونے لگا، حضورﷺ کورحم آیا، اس سے کہا: تم یہ نخلستان اس بچہ کو دے دو، وہ شخص اس کے لیے تیار نہ ہوا حضرت ابودرداء صحابی موجود تھے انہوں نے کہا: کیا تم یہ نخلستان میرے باغ سے بدل سکتے ہو؟ وہ راضی ہوگیا اور حضرت ابودرداءؓ نے وہ نخلستان اس یتیم کو عطا کردیا، یتیموں کی دیکھ بھال کی آپﷺ نے سخت تاکید فرمائی، ایک جگہ فرمایا:
مسلمانوں میں سب سے اچھا گھرانہ وہ ہے جس میں کسی یتیم کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اور مسلمانوں میں سب سے برا گھرانہ وہ ہے جس میں کسی یتیم کے ساتھ بد سلوکی کی جائے۔
[سنن ابن ماجه:3679]


*بے کسوں کا سہارا:*
اسی طرح معاشرہ کے غریب اور کمزور افراد کا بھی حضور ﷺ بڑا خیال فرماتے، عموماً غریبوں کو کوئی قریب نہیں کرتا، آپ ﷺ کا حال یہ تھا کہ آپ ﷺ ہمیشہ دعا فرماتے: خداوند مجھے مسکین زندہ رکھ، مسکین اٹھا اور مسکینوں ہی کے ساتھ میرا حشر کر، حضرت عائشہؓ نے دریافت فرمایا: یا رسول اللہ ﷺ! یہ کیوں ؟ فرمایا: اس لیے کہ یہ دولت مندوں سے پہلے جنت میں جائیں گے، پھر فرمایا: اے عائشہؓ! کسی مسکین کو اپنے دروازے سے نامراد نہ پھیرو گو چھوہارے کا "ایک" ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو، اے عائشہؓ! مسکینوں سے محبت رکھو اور ان کو اپنے نزدیک کرو، اللہ بھی تم کو اپنے سے نزدیک کرے گا۔
حوالہ
يَا عَائِشَةُ أَحِبِّي الْمَسَاكِينَ وَقَرِّبِيهِمْ؛ فَإِنَّ اللهَ يُقَرِّبُكِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
[سنن الترمذي:2352]

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے مزاج میں تھوڑی سختی تھی، وہ اپنے کو غریبوں سے بالا تر سمجھتے تھے، آپ ﷺ ان کی طرف خطاب کرکے فرمایا:
تم کو جو نصرت اور روزی میسر آتی ہے وہ ان ہی غریبوں کی بدولت آتی ہے۔
حوالہ
«فَإِنَّمَا ‌تُرْزَقُونَ ‌وَتُنْصَرُونَ بِضُعَفَائِكُمْ»
[سنن أبي داود:2594، سنن الترمذي:1702]

حضرت جریرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن پہلے پہر ہم لوگ آنحضرت ﷺ کے پاس بیٹھے تھے ایک پورا مسافر قبیلہ حاضر خدمت ہوا، ان کی ظاہری حالت اس درجہ خراب تھی کہ بدن پر کوئی کپڑا ثابت نہ تھا، برہنہ تن، برہنہ پا، کھالیں بدن سے بندھی ہوئی تھیں ، تلواریں گلوں میں پڑی ہوئی تھیں ، ان کی یہ حالت دیکھ کر آپ ﷺ بے حد متأثر ہوئے، چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا، اضطراب میں آپ ﷺ اندر گئے، باہر آئے، حضرت بلالؓ کو اذان دینے کا حکم دیا، نماز کے بعد آپ ﷺ نے خطبہ دیا اور تمام مسلمانوں کو ان کی امداد کے لیے آمادہ کیا، جب کپڑوں اور اناج کا ڈھیر جمع ہوگیا تو آپ ﷺ کا چہرہ کِھل اٹھا۔
حوالہ
حَتَّى رَأَيْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‌يَتَهَلَّلُ. كَأَنَّهُ مُذْهَبَةٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
[سنن النسائي:2554، صحيح مسلم:1017]


امت کا آخری سہارا:
بلا شبہ حضور ﷺ کی ذات مادی ومعنوی، ظاہری وباطنی ہر لحاظ سے نہ صرف امتِ مسلمہ کے لیے بلکہ ساری انسان دنیا میں بھی بے سہارا نہیں رہتا اور آخرت میں بھی، جب تک آپ ﷺ صحابہؓ کے درمیان رہے اپنے طرز زندگی سے یہ ثابت کر دکھایا کہ آپ بے سہاروں کا سہارا کیسے ہیں ، جہاں تک آخرت میں سہارا کا سوال ہے، آپ ﷺ کو امت کی اخروی کامیابی کی فکر کس قدر لاحق رہتی تھی، اس کا اندازہ قرآن کی ان آیات سے لگایا جاسکتا ہے، جن میں امت کے سلسلہ میں آپ ﷺ کی پریشانی اور بے چینی کا اظہار کیا گیا، سورۂ کہف میں ارشاد ہے:
فَلَعَلَّكَ ‌بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا
[سورۃ الکھف:6، سورۃ الشعراء:3]
لگتا ہے کہ آپ افسوس کے مارے ان کے پیچھے اپنے آپ کو ہلاک کرڈالیں گے اگر یہ لوگ ایمان نہ لائیں۔‘‘
اس مضمون کو کئی ایک جگہ بیان کیا گیا ہے ، آپ ﷺ جب اپنی امت کی خاطر پریشان ہوتے تو اللہ تعالیٰ آپ کو تسلی دیتے، آپ ﷺ اپنی امت کی مغفرت کے لئے رات بھر روتے گڑگڑاتے، اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے، اس سلسلہ میں احادیث میں کئی ایک واقعات نقل کئے گئے ہیں۔

حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ ایک سفر میں حضور ﷺ نے عشاء کی نماز ادا کی، فرضوں کے بعد حضراتِ صحابہؓ نوافل میں مشغول ہوگئے، تھوڑی دیر بعد تشریف لائے، اب وہ خیمہ خالی تھا جس میں نماز ادا کی جارہی تھی، آپ نے اس میں کھڑے ہوکر نماز شروع کردی، اتنے میں میں بھی آگیا اور آپ ﷺ کے پیچھے کھڑا ہوگیا، آپ ﷺ نے اشارہ کرکے اپنے دائیں جانب کھڑا کرلیا، پھر ابن مسعودؓ آگئے، وہ بھی پہلے آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہوگئے، لیکن آپ ﷺ نے انہیں بھی اشارہ کرکے اپنے بائیں طرف کھڑا کرلیا، اب ہم تینوں الگ الگ اپنی نمازیں پڑھ رہے تھے، اپنی اپنی نماز میں ہم قرآن بھی اپنی مرضی کے مطابق تلاوت کررہے تھے، حضور ﷺ نے اس نماز میں ایک ہی آیت تمام رات تلاوت کی، صبح کو میں نے حضور ﷺ سے سوال کیا: حضور! آپ نے ایک ہی آیت کی تلاوت میں ساری رات ختم کردی، آپ ﷺ تو پورے قرآن پر حاوی ہیں ، ہم میں سے اگر کوئی ایسی بات کرتا تو ہم پر آپ خفگی ظاہر فرماتے، آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے وہ جواب ملا: اگر میں اسے ظاہر کردوں تو اکثر نماز پڑھنا چھوڑدیں ، میں نے کہا: تو کیا میں لوگوں کو خوشخبری سنادوں ؟ میں چل پڑا ، تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ حضرت عمرؓ آگئے اور یہ سارا واقعہ سن کر انہوں نے کہا: اگر آپ یہ خبر لوگوں کے پاس بھیجیں تو وہ اس پر بھروسہ کرکے عبادت کو ترک کردیں گے، وہ آیت یہ تھی:
’’إن تعذبہم فانہم عبادک وإن تغفر لہم فإنک انت العزیز الحکیم‘‘
اے اللہ ! اگر آپ انہیں عذاب دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں اور اگر انہیں معاف کردیں تو آپ کی ذات غالب اور حکمت والی ہے‘‘۔
حوالہ
إِنَّكَ إِنْ ‌تَبْعَثْ ‌إِلَى ‌النَّاسِ بِهَذَا نَكَلُوا عَنِ الْعِبَادَةِ
[مسند أحمد:21495، السنن والأحكام عن المصطفى ﷺ:2518]


حضرت عمر بن العاصؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ہاتھ اٹھاکر فرمایا: الٰہی میری امت کا کیا ہوگا؟ یہ کہہ کر آپ ﷺ نے رونا شروع کردیا، خدا کی طرف سے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو حکم ملا، جبرئیل جائو اور محمد سے پوچھو کیا بات ہے؟ خدا کو اگرچہ علم ہے لیکن جائو تم بھی پوچھ کر آئو، جبرئیل علیہ السلام آئے اور سوال کیا: آپ ﷺ نے فرمایا: میرا رب جانتا ہے کہ میں کیوں آہ وبکا کررہا ہوں ، جبرئیل! میں اپنی امت کے لیے رورہا ہوں ، حضرت جبرئیل علیہ السلام واپس آگئے، اور اللہ تعالیٰ نے حکم دیا: جائو اور محمد سے کہہ دو: اے رسول! *ہم آپ کو آپ کی امت کی طرف سے خوش کردیں گے، اور آپ کو تکلیف پہنچنے نہیں دیں گے۔*
حوالہ
إِنَّا سَنُرْضِيكَ فِي أُمَّتِكَ وَلَا نَسُوءُكَ۔
[صحيح مسلم:202، مستخرج أبي عوانة:415، المعجم الأوسط للطبراني:8894، الإيمان-ابن منده:924]

ایک اور طویل حدیث میں حضرت حذیفہؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضور ﷺ گھر سے باہر نکلے، ہم نے سمجھا کہ آج حضور ﷺ قطعاً باہر نہیں آئیں گے، پھر ایک دفعہ حضور ﷺ کی روح قبض کرلی گئی، پھر آپ ﷺ نے سجدہ سے سر اٹھایا اور فرمایا: مجھ سے میرے رب نے میری امت کے بارے میں مشورہ کیا کہ میں ان کے ساتھ کیا کروں؟ میں نے عرض کیا: میں کیا چاہوں گا، اے میرے رب! وہ آپ کی مخلوق ہیں اور آپ کے بندے ہیں ، دوبارہ مجھ سے پوچھا، میں نے پھر وہی جواب دیا، پھر جواب میں فرمایا: اے محمد! میں تم کو تمہاری امت کے بارے میں رسوا نہ کروں گا، قیامت کے دن جب حشر برپا ہوگا تو اس وقت بھی لوگوں کو آپ ﷺ کے سہارے کی ضرورت ہوگی، لوگ پریشان ہوں گے مختلف انبیاء کے پاس جائیں گے کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں سفارش کریں ، لیکن ہر نبی کہے گا کہ یہ میرے بس کی بات نہیں ، پھر سب حضور ﷺ کی خدمت میں آئیں گے اور حضور ﷺ سے دریافت کریں گے، حضور ﷺ فرمائیں گے: میں یہ کام کروں گا، حضور ﷺ سجدہ میں گرجائیں گے، اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا، *اے محمد! سر اٹھائو اور مانگو تمہیں عطا کیا جائے گا* ، حضور اپنی امت کی سفارش کریں گے اور آپ کی سفارش قبول کی جائے گی، سفارش کے بعد ہی حساب وکتاب کا آغاز ہوگا، شفاعت کی تفصیلی احادیث کتبِ حدیث میں مذکور ہیں۔
حوالہ
يَا مُحَمَّدُ، ‌ارْفَعْ رَأْسَكَ، سَلْ تُعْطَهْ
[سنن الترمذي:2434، صحيح البخاري:4712, صحيح مسلم:193]

یہاں تفصیل کا موقعہ نہیں ہے، مختصر یہ کہ انسانیت دنیا وآخرت دونوں عالموں میں آپ ﷺ کے سہارے کی محتاج ہے، آج انسانیت دردر کی ٹھوکر اسی لیے کھارہی ہے کہ آسمانی ہدایت اور ربانی رہنمائی سے دور بےسہارا ہے جب تک اسلام میں داخل ہوکر اپنے آپ کو دامنِ نبی ﷺ سے وابستہ نہیں کرلے گی دنیا میں تباہی اسی طرح دندناتی رہے گی۔



مظلوموں کا مسیحا:
لاکھوں درود وسلام ہو اس نبی رحمت پر جو اس دنیا میں بے کسوں ، مجبوروں اور مظلوموں کا مسیحا بن کر آئے اور جن کی آمد نے انسانیت کے تنِ مردہ میں نئی روح پھونکی اور ظلم وجور کے ایوانوں میں زلزلے آئے، آپﷺ کی آمد سے پہلے کمزوروں اور معاشرہ کے خستہ حال افراد کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا، طاقتوروں کا راج تھا کمزور مزید کمزور ہوتے جارہے تھے، مظلوم ظلم کی چکی تلے خوب پسے جارہے تھے، معاشرہ کے سارے کمزور طبقات موت وحیات کی کشمکش سے دوچار تھے، خواتین کی حالت زار ناقابل بیان تھی، ان سے حق زندگی بھی چھین لیا جارہا تھا شیر خوار بچیاں زندہ درگور کی جارہی تھیں ، خاندان کے بوڑھوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا، یتیموں کے ساتھ ان کے سرپرست انتہائی ظالمانہ سلوک روا رکھتے تھے، مسکینوں اور غریبوں کو دھتکارا جاتا تھا، ایسی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں فاران کی چوٹیوں سے وہ آفتاب عالم طلوع ہوا جس کی ضیاء پاشیوں سے ہر انسانی طبقہ مستفید ہوا، ظلم وجبر کی تاریکیاں چھٹ گئیں ، آپ ﷺ نے اعلان فرمایا:
‌ارْحَمُوا مَنْ فِي الْأَرْضِ يَرْحَمْكُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ
ترجمہ:
تم اہلِ زمین پر رحم کرو آسمان والا (خدا) تم پر رحم کرے گا۔
[سنن الترمذي: 1924، سنن أبي داود: 4941]
نیز آپ ﷺ نے یہ بھی اعلان فرمایا: ’’اللہ اس پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا‘‘۔
حوالہ
«‌لَا ‌يَرْحَمُ اللهُ مَنْ ‌لَا ‌يَرْحَمُ النَّاسَ.»
[صحيح البخاري: 7376]

اتنا ہی نہیں آپ ﷺ نے اس شخص کو بد بخت قرار دیا کہ جس سے رحمت چھین لی جائے، آپ میں غریبوں سے الفت اور خلق خدا سے شفقت ورحمت اس قدر رچ بس گئی تھی کہ خدا نے آپ کا تعارف ان الفاظ میں فرمایا:
﴿لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ‌مَا ‌عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ﴾ 
ترجمہ:
تمہارے پاس تم میں سے ایک رسول آئے ہیں تمہاری پریشانیاں ان پر گراں گذرتی ہے وہ تمہارے خیر خواہ ہیں اور رحم کرنے والے ہیں۔

آپ ﷺ کو مسکینوں سے اس قدر محبت تھی کہ اکثر یوں دعا فرماتے:
’’ «اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مِسْكِينًا،» وَأَمِتْنِي مِسْكِينًا، وَاحْشُرْنِي فِي زُمْرَةِ الْمَسَاكِينِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ‘‘
(اے اللہ مجھے مسکین بنا کر زندہ رکھ اور مسکینی میں موت دے اور میرا حشر مساکین کے ساتھ فرما قیامت کے دن)۔ حضرت عائشہؓ نے جب اس کی وجہ دریافت فرمائی تو فرمایا: مساکین اغنیاء سے چالیس سال پہلے جنت میں جائیں گے عائشہ! تو مسکین کو کھجور کا ٹکڑا ہی کیوں نہ دے مگر اسے خالی ہاتھ واپس نہ لوٹا، اے عائشہؓ مسکینوں سے محبت کرتی رہا کر *اور انہیں اپنے قریب کر اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تجھے قریب رکھے گا۔*
حوالہ
وَقَرِّبِيهِمْ؛ فَإِنَّ اللهَ يُقَرِّبُكِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
[سنن الترمذي: 2352]

 ایک موقعہ پرآپ ﷺ نے فرمایا: تم مجھے اپنے کمزوروں میں تلاش کرو، تمہیں اپنے ضعفاء کی بدولت روزی دی جاتی ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔
حوالہ
« ابْغُونِي ضُعَفَاءَكُمْ، فَإِنَّكُمْ إِنَّمَا تُرْزَقُونَ وَتُنْصَرُونَ بِضُعَفَائِكُمْ»
[سنن أبي داود: 2594، سنن الترمذي:1702]



آپ ﷺ کی نگاہ میں غرباء اور معاشرہ کے کمزور افراد کی بے پناہ قدر تھی ایک مرتبہ ایک شخص کو دیکھ کر آپ ﷺ نے اپنے پاس بیٹھے ایک صاحب سے پوچھا کہ اس شخص کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ ان صاحب نے کہا: یہ معزز لوگوں میں سے ہے، اس لائق ہے کہ اگر وہ نکاح کا پیغام دے تو اسے قبول کیا جائے اور سفارش کرے تو قبول کی جائے، سرکار دو عالم ﷺ خاموش رہے، کچھ دیر بعد ایک غریب آدمی کا گذر ہوا تو اس کے بارے میں ان کی رائے پوچھی تو وہ کہنے لگے: یہ ایک فقیر مسلمان ہے جس سے کوئی نہ نکاح کرے گا اور نہ کوئی اس کی سفارش مانے گا اور نہ کوئی اس کی بات سنے(مانے) گا، اس پر نبی رحمت ﷺ نے فرمایا: *یہ ایک ان جیسوں سے بھری دنیا سے بہتر ہے۔*
حوالہ
هَذَا خَيْرٌ مِنْ مِلْءِ الْأَرْضِ مِثْلَ هَذَا۔
[صحيح البخاري: 5091+ 6447، تفسير البغوي-سورۃ البقرۃ:212]

آپ ﷺ ہمیشہ غرباء کو اپنے ساتھ رکھتے تھے قریش کے لوگ غریبوں کے ساتھ آپ ﷺ کے غیر معمولی رویہ کو دیکھ کر ناراض ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ کیا ہم میں سے اللہ نے انہی پر احسان کیا ہے؟ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سرکار دو عالم ﷺ مسجد میں داخل ہوئے اور فقراء کے ساتھ بیٹھ گئے، آپ نے انہیں جنت کی بشارت سنائی *تو خوشی سے ان کے چہرے کھل اٹھے،* حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ کہتے ہیں کہ مجھے یہ منظر دیکھ کر افسوس ہوا کہ میں اس میں نہ تھا۔
حوالہ
فَلَقَدْ رَأَيْتُ ‌أَلْوَانَهُمْ ‌أَسْفَرَتْ
[مسند الدارمي: 2886، السنن الكبرى–النسائي: 5845]

آپ ﷺ کے لیے یہ بات ناقابل برداشت تھی کہ کوئی مسکین کو ذلیل کرے، ایک مرتبہ آپ ﷺ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو کسی مسکین کو ذلیل کرتے دیکھا تو ان سے کہا کہ جو نیکی اور مدد ان کو حاصل ہوگی وہ انہی فقراء کا نتیجہ ہوگی اور وہ ان مساکین کے ممنون ہوں گے۔
حوالہ
هَلْ تُنْصَرُونَ وَتُرْزَقُونَ إِلَّا بِضُعَفَائِكُمْ۔
[صحيح البخاري:2896]



*ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک:*
بے کس اور تنگ حال لوگوں میں ایک طبقہ یتیموں کا ہے، آپﷺ یتیموں کے ساتھ بڑی شفقت فرماتے تھے، اور اپنی امت کو یتیموں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید فرماتے تھے، ایک موقعہ پر آپ ﷺ نے فرمایا:
’’‌أَنَا ‌وَكَافِلُ ‌الْيَتِيمِ فِي الْجَنَّةِ كَهَاتَيْنِ‘‘
ترجمہ:
میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا قیامت کے دن اتنے قریب ہوں گے جیسی یہ دو انگلیاں ہیں۔ اور شہادت اور بیچ کی انگلی کے ذریعہ فرمایا۔
[صحيح الأدب المفرد: صفحہ#75, صحيح البخاري: حدیث#6005]

خادموں اور ملازمین کے ساتھ بھی حد درجہ شفقت فرماتے تھے، حضرت معاویہ بن سویدؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں ہم بنی مقرن کے پاس ایک ہی خادمہ تھی، جس کو ہم میں سے کسی نے مارا، جب رسول اللہ ﷺ کو خبر ہوئی تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: اسے آزاد کردو۔ لوگوں نے بتایا کہ ان کے پاس صرف وہی خادمہ ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تک کام ہے اس سے کام لیں ورنہ اسے آزاد کردیں ۔
حوالہ
فَلْيَسْتَخْدِمُوهَا، فَإِذَا اسْتَغْنَوْا عَنْهَا فَلْيُخَلُّوا سَبِيلَهَا۔
[مسند أحمد:15705، صحيح مسلم: 1658]

حضرت ابو مسعودؓ سے روایت ہے کہ میں نے کوڑوں سے اپنے غلام کو مارا تو پیچھے سے ایک آواز سنی، مڑ کر دیکھا تو رسول ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ *ابو مسعود! یہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ کو تم پر تمہارے غلام سے زیادہ قدرت حاصل ہے۔*
حوالہ
اعْلَمْ أَبَا مَسْعُودٍ أَنَّ ‌اللهَ ‌أَقْدَرُ ‌عَلَيْكَ مِنْكَ عَلَى هَذَا الْغُلَامِ
[صحيح مسلم: 1659، المعجم الكبير للطبراني: 684، الآداب للبيهقي:56]

غلاموں کی بارے میں حسن سلوک کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ *غلام تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے ماتحت کردیا ہے تو جس کے پاس غلام بھائی ہو وہ جو کھائے اس کو کھلائے اور جو پہنے اس کو پہنائے، اور اس کی سکت سے زیادہ اس سے کام نہ لے، اور اگر لے تو اس کی مدد کرے۔*
حوالہ
إِخْوَانُكُمْ خَوَلُكُمْ، جَعَلَهُمُ اللهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ، فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ ‌فَلْيُطْعِمْهُ ‌مِمَّا ‌يَأْكُلُ، وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ، وَلَا تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ، فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ فَأَعِينُوهُمْ
[صحيح البخاري: 30،  صحيح مسلم: 1661]

معاشرہ کا ایک بے بس طبقہ بوڑھوں اور عمر رسیدہ افراد کا ہے، آپ ﷺ نے ان کے تعلق سے احترام اور اکرام کا حکم دیا، اور فرمایا کہ جو بڑوں کا احترام ملحوظ نہ رکھے وہ ہم میں سے نہیں۔
حوالہ
«‌لَيْسَ ‌مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيُوَقِّرْ ‌كَبِيرَنَا»
[الأدب المفرد- البخاري:358، سنن الترمذي:1919]

ایک روایت میں ہے کہ جو بڑی عمر والوں کے حقوق کو نہ جانے وہ ہم میں سے نہیں۔
حوالہ
وَيَعْرِفْ شَرَفَ ‌كَبِيرِنَا 
[الأدب المفرد- البخاري:363، سنن الترمذي: 1920]



بیوہ خواتین کی بھی آپ خبر گیری فرماتے تھے اور لوگوں کو اس کی ترغیب دیتے تھے، چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر حضرت سراقہ بن جعشمؓ سے فرمایا کہ کیا تم کو بتلائوں کہ سب سے بڑا صدقہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا ضرور ارشاد فرمائیں ، آپﷺ نے فرمایا: *تم اپنی اس بیٹی کا خیال رکھو جو تمہارے پاس لوٹادی گئی ہو اور تمہارے علاوہ کوئی اس کی نگہداشت کرنے والا نہ ہو۔*
حوالہ
فَلْيَسْتَخْدِمُوهَا، فَإِذَا اسْتَغْنَوْا عَنْهَا فَلْيُخَلُّوا سَبِيلَهَا۔
[صحيح مسلم:1658، مسند أحمد:15705, السنن الكبرى - البيهقي:15806]

اسی طرح ایک موقع پر آپﷺ نے فرمایا بیوہ اور مسکین کی نگہداشت کرنے والا(ان کے کام کرنے والا) ایسا ہے جیسے اللہ کے راستہ میں کوئی جہاد کرنا *یا ایسا شخص جو دن کے روزے رکھتا ہے اور رات کو عبادت کرتا ہے۔*
حوالہ
وَكَالَّذِي يَصُومُ النَّهَارَ وَيَقُومُ اللَّيْلَ۔
[الأدب المفرد-البخاري:131, صحيح الأدب المفرد: ص74، السنن الكبرى-البيهقي:12664]

الغرض بے کسوں بے بسوں اور خستہ حالوں کی دستگیری رسول اللہﷺ کا وصف خاص تھا یہی وجہ ہے کہ جب پہلی وحی کے نزول کے بعد آپ اپنے گھر آئے اور اپنی پریشانی کا اظہار فرمایا تو آپ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا: واللّٰہ لا یخزیک اللّٰہ ابدا إنک لتصل الرحم وتحمل الکل وتقری الضیف وتعین علی نوائب الحق(خدا آپ کو ہرگز رسوا نہیں کرے گا اسلئے کہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں اور کمزوروں کا بوجھ اپنے سر لیتے ہیں ، مہمان نوازی کرتے ہیں ، بے کسوں کی دستگیری کرنے والے نبی کی امت کو بھی دنیا بھر کے ضعیفوں کمزوروں اور معاشرے کے کچلے ہوئے طبقات کی دستگیری کے لئے آگے بڑھنا چاہئے،ایسے عظیم المرتبت نبی سے نسبت رکھنے والے ہم مسلمان کا حال اس قدر گیا گذرا ہوگیا کہ پڑوسی کی تک خبر نہیں لیتے افراد خاندان میں بے شمار لوگ ہمارے تعاون کے محتاج ہیں لیکن ہم کبھی ان سے ہمدردی کے دو بول تک نہیں بولتے، آج ہمیں اپنے رسول کو اسوہ بنانے کی ضرورت ہے۔ الطاف حسین حالی نے کیا خوب کہا:
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی برلانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ



سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی

حضرت ابوھریرہ کے سامنے چپاتیاں آئیں تو دیکھ کر روپڑے(کیوں)کہ رسول الله نے اپنی آنکھوں سے چپاتی نہیں دیکھی.

[ابن ماجہ:3338]



سلام اس پر کہ اسرار محبت جس نے سکھلائے
الله کے رسول ﷺ نے فرمایا:
«أَحِبُّوا اللَّهَ لِمَا يَغْذُوكُمْ مِنْ نِعَمِهِ وَأَحِبُّونِي بِحُبِّ اللَّهِ وَأَحِبُّوا أَهْلَ بَيْتِي لِحُبِّي».
ترجمہ:
محبت کرو الله سے(کیوں)کہ وہ تمہیں اپنی(بےشمار)نعمتوں سے غذا دیتا(پالتا)رہتا ہے، اور الله سے محبت کی وجہ سے مجھ سے محبت رکھو، اور میری محبت کی وجہ سے میرے اہل بیت سے محبت رکھو۔

[ترمذی:3789، طبرانی:10664، حاکم:4716 ، الأحادیث المختارۃ:383، الشریعۃ لآجری:1760، الأعتقاد للبیھقی:ص#327]

تفسیر ابن کثیر(7/182)سورۃ الشوریٰ:23

 

...تو جس نے میرے صحابہ(ساتھیوں)سے محبت کی تو اس نے مجھ سے محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی...

[ترمذی:3862]

























سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے

دعوت توحید کے لیے طائف کے شہر سے وحشیانہ سلوک کے بعد لوٹتے ہوئے، اللہ کی طرف سے جبرئیل کے ساتھ بھیجے گئے پہاڑوں کے فرشتے سے عذاب دینے کی اجازت لینے پر نبی ﷺ نے فرمایا:

مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی ان کی نسلوں سے ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو ایک اللہ کی عبادت کریں گے۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔

[بخاری:3231+7389،مسلم:1795]

زخمی دل پر مرہم رکھنے والی اللہ کی تسلی:

وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا ۔۔۔ترجمہ:

اور (اے پیغمبر!) تم اپنے رب کے حکم پر جمے رہو، کیونکہ تم ہماری نگاہوں میں ہو۔

[سورۃ الطور:48]

تشریح:

یہ بڑی پیار بھری تسلی ہے جو نبی محمد ﷺ کو دی جا رہی ہے کہ آپ اپنے کام (یعنی ایک حقیقی خدا-جس نے سب کو پیدا کیا اور جسے کسی نے پیدا نہیں کیا-کی ہی عبادت کیلئے بلانے) میں لگے رہئے، ہم ہر وقت آپ کی نگرانی اور حفاظت کر رہے ہیں۔


فتحِ مکہ کے موقع پر جب رسول الله نے مخالفینِ مکہ سے کہا: اب تم کیا کہتے اور گمان رکھتے ہو؟ تو انہوں نے کہا: ہم آپ سے خیر کی امید رکھتے ہیں، کریم بھائی ہیں اور کریم بھائی کے بیٹے ہیں۔

آپ نے فرمایا: تو میں وہی کہوں گا جیسا میرے بھائی(حضرت)یوسف نے(اپنے بھائیوں سے)کہا: آج تم پر کوئی بازپرس نہیں،الله تمہیں بخشے اور سب سے بڑا رحم والا ہے۔

[بیھقی:11234،طحاوی:5454]


جبکہ ہر مسلمان جذبہ انتقام سے سرشار ہے سینوں میں انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے، جوش انتقام میں بار بار زبان پر یہ الفاظ آرہے ہیں:

الْيَوْمَ نَضْرِبُكُمْ عَلَى تَنْزِيلِهِ ... ضَرْبًا يُزِيلُ الْهَامَ عَنْ مَقِيلِهِ ... وَيُذْهِلُ ‌الْخَلِيلَ ‌عَنْ ‌خَلِيلِهِ

آج ہم تمہیں ایسی مار ماریں گے کہ تمہاری کھوپڑی سر سے الگ ہو جائے گی اور تم اپنے دوست و احباب کو بھی بھول جاؤ گے۔

[ترمذی:7867]


سپاہیوں کی اس درجہ حوصلہ مندی اور جرات مندانہ کلمات پر فاتح مکہ کو تو آگ بگولہ ہو جانا چاہیے تھا کیونکہ سربراہان مملکت کا یہی دستور رہا ہے کہ فوج کے حوصلہ اور جرات کو دیکھ کر سینہ آگ سے بھڑک اٹھتا ہے، جیسا کہ قرآن کریم نے بھی ایک چیونٹی کی سلیمانؑ نبی سے کہی گئی یہ بات بیان کرتا ہے:

إِنَّ ‌الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا

[سوره نمل:34]

بادشاہ جب فاتح بن کر کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس بستی کے نظم و انتظام کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں، اس علاقے کے باعزت لوگوں کو ذلیل و رسوا کرکے ذلت و خواری کا پرچم ان کے ہاتھوں میں تھما دیتے ہیں، یہی حکام عالم کا امتیاز اور طور و طریقہ رہا ہے۔


لیکن وہ بادشاہ جس پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے تھے مکہ اور طائف کی گلیوں میں جس کو لہولہان کیا گیا تھا جس کے راستوں میں کانٹے بچھائے گئے تھے اور ہر طرح سے اس کو ستایا گیا تھا ظلم و جبر کی تمام کہانیوں کو پس پشت ڈال کر تواضع و انکساری کو سینے سے لگائے ہوئے اخوت و محبت اور عفو درگزر کی ایک عظیم مثال قائم کر کے امن و سلامتی کا پرچم لہراتے ہوئے مکہ میں داخل ہوتا ہے، کفار قریش آپ کے سامنے آئے شرماتے ہوئے سہمے ہوئے ڈرے ہوئے، رحمت عالم نے قریش مکہ سے مخاطب ہو کر فرمایا: يا معشر قريش ما ترون اني فاعل فيكم (فتح الباری) اے قریشیو: تم جانتے ہو میں آج تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا ؟


 


کہنے لگے؛ کہ اللہ کے رسول ہم نے آپ جیسا حلیم و بردبار نہیں دیکھا، کسی انسان کو رتبہ اور مرتبے میں آپ کے ہم پلہ نہیں پایا، آپ کی شرافت ضرب المثل ہے اور شریفوں سے شرافت کی ہی توقع رکھی جاتی ہے، اس لیے ہمیں آپ سے خیر و معافی کی امید ہے۔۔۔ لیکن دل اندر سے کہہ رہے تھے کہ آج جان کی خیر نہیں ہمارے ایک ایک ظلم کا بدلہ لیا جائے گا، آج ایک ایک مسلمان شہید کے خون کے بدلے کا دن ہے، ہمیں اپنے کرتوتوں کی سزا بھگتنی ہی پڑے گی، ابو جندل کی پیٹھ سے لے کر بلال حبشی کے سینے تک کتنے جسم ہیں جن کو ہم نے نہیں چھیدا، نہیں تپایا، نہیں داغا، ہمارے ہی ظلم و ستم کے سبب محمد بن عبد اللہ کو گھر سے بے گھر ہونا پڑا تھا، ہمارے ہی سردار ابوسفیان کی بیوی نے محمد کے پیارے چچا حمزہ کا کلیجہ چبایا تھا، اور ابن قمیہ ہمیں میں سے تھا جس نے در یتیم آمنہ کے چہرے کو لہولہان کیا تھا۔۔۔ رحمت عالم ظلم و ستم کی ہر کہانی کو بھلا کر کہتے ہیں: اليوم يوم المرحمة اليوم يوم بر ووفاء (البدایہ والنهایہ) لوگوں آج معافی کا دن ہے رحم و کرم کا دن ہے آج احسان و وفا کا معاملہ کیا جائے گا، لا تثريب عليكم اليوم اذهبوا فانتم الطلقاء (فتح الباری) آج تم سے کوئی پوچھ گچھ نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔


سلام اس پر کہ اسرار محبت جس نے سمجھائے

سلام اس پر کہ جسنے زخم کھاکر پھول برسائے 


بس یوں سمجھئے کہ قاتلوں کو پھانسی کے تختے پر چڑھا کر اتار دیا گیا، تلواریں گردن کے قریب لاکر روک دی گئیں، موت کا فرشتہ حلقوموں کی طرف اپنا ہاتھ بڑھا چکا تھا کہ اسے تھما دیا گیا، انسانیت کی پوری تاریخ عفو و درگزر اور اخوت و محبت کی اس مثال سے خالی ہے، کسی مبالغے کے بغیر پوری دیانت اور کمال ذمہ داری کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر جامع شخصیت تاریخ و سیر میں کہیں نظر آتی ہی نہیں، آپ کا پیغام ملکوں اور خطوں سے نکل کر ایک عظیم انقلاب کی شکل میں رونما ہوا، اور اس پیغام سے پوری دنیا گونج اٹھی قوموں کی تقدیریں بدل گئیں، غلام تک پستیوں سے نکل کر شہہ نشینوں پر جا بیٹھے، یہ انقلاب چہروں اور صورتوں کا نہیں فکر و نظر اور ضمیر و باطن کا انقلاب تھا جس نے چوروں اور لٹیروں کو بھی انتہائی دیانت دار اور امن پسند بنا دیا، اس نے دشمنوں کو بھی اپنے گلے لگایا، صالح تمدن اور پاکیزہ معاشرے کی بنیاد ڈالی۔


 


آپ کی حیات طیبہ کھلی ہوئی ایک روشن کتاب ہے قلم ہزاروں سطریں بھی کاغذ پر منتقل کردے تب بھی آپ کے کسی ایک وصف کی مکمل تصویر نہیں کھچ سکتی۔۔۔ اگر دل کی آنکھیں بالکل بے نور ہو جائیں تو اس کا کوئی علاج نہیں، ہاں اگر دل میں درد اور طبیعت میں احساس ہو چشم بصیرت میں ذرا سی بھی روشنی موجود ہو تو آپ کی زندگی کو پڑھنے والا یہ کہنے پر مجبور ہوجائے گا اور اس کا دل خود بخود کہہ اٹھے گا کہ بس یہی زندگی حق و صداقت پیار و محبت عفو و درگزر اور اخوت و بھائی چارگی کا آخری معیار ہے۔



سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں

سلام اس پر کہ دشمن کو حیات جاوداں دے دی
سلام اس پر، ابو سفیان کو جس نے اماں دے دی

سلام اس پر کہ جس کا ذکر ہے سارے صحائف میں
سلام اس پر، ہوا مجروح جو بازار طائف میں

سلام اس پر، وطن کے لوگ جس کو تنگ کرتے تھے
سلام اس پر کہ گھر والے بھی جس سے جنگ کرتے تھے

سلام اس پر کہ جس کے گھر میں چاندی تھی نہ سونا تھا
سلام اس پر کہ ٹوٹا بوریا جس کا بچھونا تھا


سلام اس پر جو سچائی کی خاطر دکھ اٹھاتا تھا

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص  ؓ سے پوچھا کہ مشرکوں نے رسول اللہ ﷺ کو سب سے بڑی ایذاء کیا پہنچائی ہے؟ آپ نے فرمایا:

ایک دن رسول اللہ ﷺ حطیم میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا اور آپ کی گردن میں چادر ڈال کر بل دینے لگا، وہ بری طرح آپ کا گلا گھونٹنے لگا۔ اس وقت ابوبکر صدیق  ؓ دوڑے دوڑے آئے، انھوں نے اسے دھکا دے کر پرے پھینکا اور فرمانے لگے:

’’کیا تم اس شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمھارے پاس دلیلیں لے کر آیا ہے۔‘‘

[سورۃ غافر/المؤمن:28]

[صحیح البخاری: کتاب مناقب الأنصار، باب ما لقی النبی ﷺ و أصحابہ من المشرکین بمکۃ :حدیث#3856] 


حضرت علیؓ نے فرمایا:

ایک بار ابوجہل نے نبی ﷺ سے کہا: ہم تمہیں نہیں جھٹلاتے، لیکن ہم جھٹلاتے ہیں تو اسے جو(پیغام)آپ لاۓ ہیں، تو اللہ نے(یہ آیت)نازل فرمائی:

(اے رسول) ہمیں خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ جو باتیں کرتے ہیں ان سے تمہیں رنج ہوتا ہے، کیونکہ دراصل یہ تمہیں نہیں جھٹلاتے، بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔ (سورة الأنعام:33)

[ترمذي:3064،حاکم:3230]


اور جب پڑھی جاتی ہیں ان کے سامنے ہماری واضح آیتیں تو کہتے ہیں وہ لوگ جن کو امید نہیں ہماری ملاقات کی، لے آ کوئی قرآن اس کے سوا یا اس کو بدل ڈال، تو (اے نبی) کہدو کہ میرا کام نہیں کہ بدل ڈالو اس کو اپنی طرف سے، میں تو پیچھے چلتا ہوں اس حکم کے جو آئے میری طرف، میں ڈرتا ہوں عظیم دن کے عذاب سے، اگر نافرمانی کروں اپنی رب کی۔

[سورۃ یونس:15]


سلام اس پر، جو بھوکا رہ کے اوروں کو کھلاتا تھا
حضرت عائشہؓ نے فرمایا:
إِنَّ أَوَّلَ بَلَاءٍ حَدَّثَ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ قَضَاءِ نَبِيِّهَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الشِّبَعُ، فَإِنَّ الْقَوْمَ لَمَّا شَبِعَتْ بُطُونَهُمْ سَمِنَتْ أَبْدَانُهُمْ، فَتَصَعَّبَتْ قُلُوبُهُمْ، وَجَمَحَتْ شَهَوَاتُهُمْ
ترجمہ:
پہلی نئی بات(بدعت)جو اس امت میں رسول الله ﷺ کے وصال کے بعد ظاہر ہوئی وہ پیٹ بھرنا ہے، کیونکہ جب کوئی قوم پیٹ بھرکر کھاتہ ہے تو ان کے بدن موٹے ہوجاتے ہیں اور ان کے دل کمزور ہوجاتے ہیں اور ان کی خواہشات بے قابو ہوجاتی ہیں۔
[کتاب الجوع-امام ابن ابی الدنیا(م281ھ)» حدیث#22]
احیاء العلوم الدین-امام الغزالی(م505ھ)» 3/ 68

[هذا الأثر ذكره أبو طالب المكي في " قوت القلوب " (2/283) ، وأبو حامد العزالي في " إحياء علوم الدين " (3/86) ، والصنعاني في " سبل السلام " (2/652)، فرواه ابن أبي الدنيا في كتاب " الجوع " (ص: 43) ، الترغيب والترهيب - الصفحة أو الرقم:3/167]



حضرت ابوھریرہؓ کے سامنے چپاتیاں آئیں تو دیکھ کر روپڑے کہ رسول الله نے اپنی آنکھوں سے چپاتی نہیں دیکھی.

[سنن ابن ماجہ:3338]



سلام اس پر، جو امت کے لئے راتوں کو روتا تھا

(اے پیغمبر!) شاید تم اس غم میں اپنی جان ہلاک کیے جار ہے ہو کہ یہ لوگ ایمان (کیوں) نہیں لاتے۔

[سورة الشعراء:3]

اب (اے پیغمبر) اگر لوگ (قرآن کی) اس بات پر ایمان نہ لائیں تو ایسا لگتا ہے جیسے تم افسوس کر کر کے ان کے پیچھے اپنی جان کو گھلا بیٹھو گے۔

[سورة الكهف:6]


سلام اس پر، جو فرش خاک پر جاڑے میں سوتا تھا۔
[مسند أحمد:23334، صحيح مسلم:1788، صحيح ابن حبان:7125]


سلام اس پر جو دنیا کے لئے رحمت ہی رحمت ہے

حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا:

نبی کا کافروں کیلئے رحمت ہونا یہ ہے کہ وہ دنیا میں زمین میں دھنسا دیے جانے، یا آسمان سے پتھروں کی بارش کی صورت میں اس طرح کے عذاب سے محفوظ رہے، جیسے عذاب سابقہ امتوں پر آئے تھے۔

[تفسیر(امام)ابن کثیر:5/387،سورة الأنبیاء:107]

تفسیر(امام)الطبري:17/83


سلام اس پر کہ جس کی ذات فخر آدمیت ہے

سلام اس پر کہ جس نے جھولیاں بھردیں فقیروں کی
سلام اس پر کہ مشکیں کھول دیں جس نے اسیروں کی

سلام اس پر کہ جس کی چاند تاروں نے گواہ دی
سلام اس پر کہ جس کی سنگ پاروں نے گواہی دی

سلام اس پر، شکستیں جس نے دیں باطل کی فوجوں کو
سلام اس پر کہ جس کی سنگ پاروں نے گواہی دی

سلام اس پر کہ جس نے زندگی کا راز سمجھایا
سلام اس پر کہ جو خود بدر کے میدان میں آیا

سلام اس پر کہ جس کا نام لیکر اس کے شیدائی
الٹ دیتے ہیں تخت قیصریت، اوج دارائی

سلام اس پر کہ جس کے نام لیوا ہر زمانے میں
بڑھادیتے ہیں ٹکڑا، سرفروشی کے فسانے میں

سلام اس ذات پر، جس کے پریشاں حال دیوانے
سناسکتے ہیں اب بھی خالد و حیدر کے افسانے

درود اس پر کہ جس کی بزم میں قسمت نہیں سوتی
درود اس پر کہ جس کے ذکر سے سیری نہیں ہوتی

درود اس پر کہ جس کے تذکرے ہیں پاک بازوں میں
درود اس پر کہ جس کا نام لیتے ہیں نمازوں میں

درود اس پر، جسے شمع شبستان ازل کہئے
درود اس ذات پر، فخرِ بنی آدم جسے کہئے

(1)سلام اس پر کہ جس نے پرچمِ اسلام لہرایا۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا جھنڈا کالا اور پرچم سفید تھا۔
[ترمذی:1681، ابن ماجہ:2818]
حضڑت براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا جھنڈا دھاری دار چوکور اور کالا تھا۔
[ترمذیؒ:1680، ابوداؤد:2591]

(2)سلام اس پر کہ خدا کا دین جس نے جگ میں پھیلایا۔
القرآن:
وہ اللہ ہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے، تاکہ اسے ہر دوسرے دین پر غالب کردے، چاہے مشرک لوگوں کو یہ بات کتنی ناپسند ہو۔
[سورۃ التوبۃ:33]
وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے، تاکہ اسے ہر دوسرے دین پر غالب کردے۔ اور (اس کی) گواہی دینے کے لیے اللہ کافی ہے۔
[سورۃ الفتح:28]
وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچائی کا دین دے کر بھیجا ہے تاکہ وہ اسے تمام دوسرے دینوں پر غالب کردے، چاہے مشرک لوگوں کو یہ بات کتنی بری لگے۔
[سورۃ الصف:9]


(3) سلام اس پر کہ بھائی چارگی قائم ہوئی جس سے۔
اللہ پاک نے فرمایا:
اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں مختلف شاخیں اور مختلف قبیلے بنایا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، اُس کے نزدیک تو تم میں سب سے بڑا عزت والا وہ ہے جو تم سب میں بڑا پرہیزگار ہے، بے شک اللہ سب کو جانتا ہے اور سب کے حال سے باخبر ہے۔
[سورۃ الحجرات:13]
(خصوصا)مسلمان آپس میں ایک دُوسرے کے بھائی ہیں۔  تم اپنے بھائیوں میں صلح کرادیا کرو۔۔۔
[سورۃ الحجرات:10]

نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، پس اس پر ظلم(جھوت بول کر خیانت) نہ کرے اور نہ ظلم ہونے دے۔ جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرے، اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرے گا۔
[صحيح البخاري:6951(سنن الترمذي:1927]
....جو شخص کسی مسلمان کی ایک مصیبت کو دور کرے، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مصیبتوں میں سے ایک بڑی مصیبت کو دور فرمائے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کے عیب کو چھپائے اللہ تعالیٰ قیامت میں اس کے عیب چھپائے گا۔
[صحيح البخاري:2442، سنن أبي داود:4893، سنن الترمذي:1426]
....اور نہ اُسے حقیر جانتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے قلب مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار یہ الفاظ فرمائے: تقویٰ کی جگہ یہ ہے۔ کسی شخص کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔ ہر مسلمان پر دُوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہے۔
[صحيح مسلم:2564، سنن الترمذي:1927]
.....کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ہاتھ کوئی ایسی چیز بیچے جس میں عیب ہو، مگر یہ کہ وہ اس کو اس سے بیان کر دے۔
[سنن ابن ماجه:2246]
.....کسی مسلمان کے لیے اپنے بھائی کی کوئی چیز حلال نہیں ہے سوائے اس چیز کے جو اسے اس کا بھائی خود سے دیدے۔
[سنن الترمذي:3087]
ایمان والوں کی آپس کی محبت، رحم دلی اور شفقت کی مثال ایک انسانی جسم جیسی ہے کہ اگر جسم کا کوئی حصہ تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے تو (وہ تکلیف صرف اُسی حصہ میں منحصر نہیں رہتی، بلکہ اُس سے) پورا جسم متأثر ہوتا ہے، پورا جسم جاگتا ہے اور بخار و بے خوابی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
[مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي:27، مسند أحمد:18373+18380، صحيح مسلم:2586]
تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک کامل ایمان والا نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اپنے بھائی(پڑوسی) کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے(خیر میں سے)۔
[صحيح البخاري:13، (صحيح مسلم:45)، سنن ابن ماجه:66، سنن الترمذي:2515، (سنن النسائي:5017)]
(بہترین-افضل) مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ کے شر سے مسلمان(لوگ) محفوظ ہوں اور (اصلی) مہاجر وہ ہے جس نے برائیوں کو چھوڑ دیا ہو۔
[صحيح البخاري:10 ، صحيح مسلم:40، سنن أبي داود:2481، سنن النسائي:4996(4995)، (مسند أحمد:7086)]



(4)سلام اس پر امنِ عالم دائم ہوئی جس سے۔
نبی ﷺ نے اللہ پاک کا پیغام پہچایا:
....جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا (ناحق)قتل کیا، اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کیا اور جس نے کسی ایک انسان کی جان بچائی، اس نے گویا پوری انسانیت کی جان بچائی....
[سورۃ المائدۃ:32]
اے ایمان والو! ایک دوسرے کا مال ناجائز طور پر نہ کھاؤ، سوائے اس کے کہ لین دین ہو تمہارے درمیان ایک دوسرے کی رضامندی کے ساتھ...
[سورۃ النساء:28]
دینی معاملات میں جبر درست نہیں، ہدایت گمراہی سے الگ اور واضح ہو چکی ہے۔۔۔۔
[سورۃ البقرۃ:256]
.....جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کفر اختیار کرے....
[سورۃ الکھف:29]
یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں برا بھلا مت کہنا، ورنہ وہ دشمنی اور نادانی کی وجہ سے اللہ کو برا بھلا کہنا شروع کر دیں گے۔
[سورۃ الانعام:108]

نبی ﷺ نے فرمایا:
رحم کرنے والوں پر رحمن رحم کرتا ہے، تم لوگ زمین والوں پر رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کرے گا، رحم رحمن سے مشتق (نکلا) ہے، جس نے اس کو جوڑا اللہ اس کو (اپنی رحمت سے) جوڑے گا اور جس نے اس کو توڑا اللہ اس کو اپنی رحمت سے کاٹ دے گا۔
[سنن أبي داود:4941، سنن الترمذي:1924]
(کامل)مومن وہ ہے جس سے امن میں ہو (پُر-امن) انسانیت کی جانیں اور انکے مال،  اور (حقیقی)مہاجر وہ ہے جس نے برائیوں کو چھوڑ دیا ہو۔
[سنن ابن ماجه:3934]
جس نے کسی معاہد(یعنی غیر مسلم پُر امن شہری) کو ناحق(بغیرجرم) قتل کیا، اللہ نے اس کے لیے جنت حرام کردی ہے۔
[صحيح البخاري:3166، سنن ابن ماجه:2686، سنن أبي داود:ؒ2760، سنن النسائي:4747]


رسول اللہ ﷺ کا گزر چند لوگوں کے پاس سے ہوا۔ وہ ایک مینڈھے کو تیر مار رہے تھے، آپ ﷺ نے اسے پسند نہیں کیا اور فرمایا: جانوروں کا مثلہ نہ کرو۔
[سنن النسائي:4440]

(5)سلام اس پر کہ جو اُمّی لقب تھا جانِ مکتب تھا۔
اُمّی وہ ہے جو نہ لکھ سکتا ہو ، اور نہ کتاب میں سے پڑھ سکتا ہو۔ الله پاک نے فرمایا:
جو لوگ پیروی کرتے ہیں "اُمّی" رسول کی جسے وہ پاتے ہیں لکھا ہوا اپنے پاس تورات اور انجیل میں۔۔۔
[سورۃ الاعراف:157]
رسول یعنی پیغمبر اس مرد کو کہتے ہیں جس پر پیغامِ الٰہی نازل ہونے کے ساتھ ساتھ، پیغامِ الٰہی پہنچانے کی ذمہ داری سونپی جائے، الگ کتاب اور نئے احکام(شریعت) کے ساتھ۔
اور
اُمّی ہونے سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا مخلوق میں کوئی استاذ نہیں لہٰذا ان کی تعلیم کسی مخلوق کی سکھلائی ہوئی باتیں نہیں۔

پھر بھی یہ لوگ اس(رسول) سے منہ موڑے رہے، اور کہنے لگے کہ : یہ سکھایا پڑھایا ہوا ہے، دیوانہ ہے۔
[سورۃ الدخان، آیت نمبر 14]

اور اگر تم اس (قرآن) کے بارے میں ذرا بھی شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے (محمد ﷺ پر اتارا ہے تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ۔ اور اگر سچے ہو تو اللہ کے سوا اپنے تمام مدد گاروں کو بلالو۔
[سورۃ البقرۃ:23]




(6)سلام اس پر کہ بھوکوں کو کھلانا جس کا مشرب تھا۔


القرآن:

اور وہ اللہ کی محبت کی خاطر مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ (اور ان سے کہتے ہیں کہ) ہم تو تمہیں صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کھلا رہے ہیں۔ ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ کوئی شکریہ۔

[سورۃ الدھرأالانسان:8-9]


نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:

(بہترین اسلام یہ ہے کہ) تو کھانا کھلائے یا سلام کرے اُس شخص کو جسے تو پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو۔

[بخاري:12+28+5882، مسلم:39،  أبوداود:5194، نسائي:5000، ابن ماجه:3253]

تم میں سے اچھا شخص وہ ہے جو کھانا کھلائے۔
[أحمد:23926، الطحاوي:7248، صحيح الترغيب والترهيب:948]
اگر تو چاہتا ہے کہ تیرے دل میں نرمی پیدا ہو تو ، تو مسکین کو کھانا کھلا اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر۔
[مسند احمد:7576،  سلسلة الأحاديث الصحيحة:‌‌854]

تم رحمان کی عبادت کرو اور کھانا کھلاؤ اور سلام عام کرو، سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔

[ترمذي:1855، أحمد:6587، دارمي:2081، بزار:2402، الأدب المفرد للبخاري:981]

وہ بندہ مؤمن نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے.

[صحيح الأدب المفرد:112، مسند ابي يعلي : 2699]

جب تم میں کسی شخص کا خادم اس کا کھانا لائے تو اگر وہ اسے اپنے ساتھ نہیں بٹھا سکتا تو کم از کم ایک یا دو لقمہ اس کھانے میں سے اسے کھلا دے کیونکہ اس نے (پکاتے وقت) اس کی گرمی اور تیاری کی مشقت برداشت کی ہے۔

[صحيح بخاري:5460]

اے لوگو! سلام عام کرو اور کھانا کھلاؤ، اور نماز پڑھو جب لوگ سو رہے ہوں، تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔

[ترمذي:2485، ابن ماجه:1334+3251، أحمد:23835، دارمي:1460]

تم میں سے بہترین وہ ہیں جو کھانا کھلاتے ہیں اور سلام کا جواب دیتے ہیں۔

[أحمد:23971+23974، طحاوي:7105، حاکم:7739،  شعب الإيمان:8973]

جو شخص اپنے کسی بھائی کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے اور پانی پلائے گا اللہ تعالیٰ اُسے (دوزخ کی) آگ سے سات خندق جتنے فاصلے کی دوری پَر کر دے گا، اور دو خندقوں کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے۔

[حاکم:7172، المعجم الأوسط:6518، شعب الإيمان:3368]

جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کا بیرونی حصہ اندر سے اور اندرونی حصہ باہر سے نظر آئے گا ( یہ سن کر ) ایک اعرابی نے کھڑے ہو کر عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! یہ کس کے لیے ہیں؟ آپ نے فرمایا: جو اچھی طرح بات کرے، کھانا کھلائے ، خوب روزہ رکھے اور اللہ کی رضا کے لیے رات میں نماز پڑھے جب کہ لوگ سوئے ہوں۔

[الترمذي:1984، أحمد:1338، حاكم:270]




حديثِ حضرت خدیجہ:

بےشک آپ صلہ رحمی کرتے ہیں

ضعیفوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں

ناداروں کو کمائی سے لگاتے ہیں

مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں

اور

حق بجانب باتوں میں مصیبت زدہ لوگوں کی مدد فرماتے ہیں.

[بخاری:3+مسلم:160]

سیرت،منانےنہیں،اپنانے کا نام ہے۔





(7)سلام اس پر کسی حرص وطمع میں جو نہیں آیا۔

(8)سلام اس پر جو دھمکی دھونس، خاطر میں نہیں لایا۔

************************

4) زیارت (قبر) نبوی کی چاہت میں سب کچھ قربان کرنا:
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " مِنْ أَشَدِّ أُمَّتِي لِي حُبًّا نَاسٌ يَكُونُونَ بَعْدِي يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ رَآنِي بِأَهْلِهِ وَمَالِهِ " .
[صحيح مسلم » كِتَاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِيمِهَا وَأَهْلِهَا ... » بَاب فِيمَنْ يَوَدُّ رُؤْيَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ ... رقم الحديث: 5064]





عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " والذي نفس محمد بيده ليأتين على أحدكم يوم ولا يراني ثم لأن يراني أحب إليه من أهله وماله معهم " . رواه مسلم
ترجمہ:
اور حضرت ابوہریرہ  ؓ  کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے، ایک دن تم لوگوں پر ایسا آئے گا جو شخص مجھ کو نہیں دیکھے گا، اس کو میرا دیکھنا اس سے کہیں زیادہ پسند ہوگا وہ اپنے اہل وعیال اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ اپنے مال ومتاع کو دیکھے ۔" (مسلم ) 

تشریح 
یا تو آپ ﷺ کے اس ارشاد کا تعلق آپ ﷺ کی حیات میں آپ ﷺ کو دیکھنا اور آپ ﷺ کی محبت اختیار کرنے سے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مجھ سے اتنی زیادہ محبت اور تعلق ہے کہ اگر وہ مجھ کو ایک دن نہ دیکھیں اور میری صحبت سے محروم رہیں تو ان کا اشتیاق واضطراب کہیں بڑھ جائے ، اس صورت میں وہ اپنے اہل وعیال اور اپنے مال ومتاع کو دیکھنے اور ان کے پاس رہنے سے زیادہ اس بات کو پسند کریں گے کہ میرا دیدار کریں اور میری صحبت میں رہیں یا اس ارشاد گرامی میں دراصل اس بات کی پیش خبری ہے کہ میرے تئیں میری امت کی عقیدت ومحبت میری وفات کے بعد بھی کم نہیں ہوگی بلکہ مسلمان اپنے اہل وعیال اور اپنے مال ومتاع کی طرف رغبت وتعلق رکھنے سے کہیں زیادہ یہ چاہیں گے کہ کسی بھی طرح خواہ خواب میں خواہ بیداری میں ، میرا دیدار کرلیں ، مجھے دیکھ لیں ، سیاق کلام کو دیکھتے ہوئے یہی مطلب زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے پس یہی وہ کیفیت ہے جو ان مشتاقان جمال کا سرمایہ حیات بنی رہتی ہے جو ذات رسالت پناہ ﷺ کے جمال و کمال کے تصور میں مستغرق رہتے ہیں ۔


************************



اردو ادب ونثر میں "لفظ عشق" کا استعمال اللہ اور رسول اللہ دونوں کے لیے مستعمل ہے. تصوف میں بهی "عشق حقیقی" کی اصطلاح موجود ہے. رہی بات غلط استعمال کی تو وہ تو لفظ محبت پر بهی صادق آتی ہے.

لفظ "عشق" کا احادیث سے ثبوت:
1) إبراهيم بن محمد بن عرفة نفطويه : حَدَّثَنَا محمد بن داود بن علي , حَدَّثَنَا أبي , حَدَّثَنَا سويد بن سعيد , حَدَّثَنَا علي بن مسهر , عنأبي يحيى القتات , عن مجاهد , عن ابن عباس ، مرفوعا , قال : " من عشق ، وكتم ، وعف ، وصبر , غفر الله له , وأدخله الجنة " .

من عشِق وعفَّ وكتمَ فمات مات شهيدًا
الراوي: عبدالله بن عباس المحدث: الزركشي (البدر) - المصدر: اللآلئ المنثورة - الصفحة أو الرقم: 179
خلاصة حكم المحدث: [روي] بإسناد صحيح

من عشَقّ فعَفّ فماتَ : ماتَ شهيدا
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث: ابن حجر العسقلاني - المصدر: لسان الميزان - الصفحة أو الرقم: 1/647
خلاصة حكم المحدث: [روي من طريق آخر محفوظ]

من عشِقَ وعفَّ وكتم وماتَ مات شهيدًا
الراوي: عبادة بن الصامت المحدث: العيني - المصدر: عمدة القاري - الصفحة أو الرقم: 14/179
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

مَن عشقَ فعفَّ وكتمَ فماتَ ، فَهوَ شَهيدٌ
الراوي: [عبدالله بن عباس] المحدث: الزرقاني - المصدر: مختصر المقاصد - الصفحة أو الرقم: 1055
خلاصة حكم المحدث: حسن

من عشِقَ فعفَّ فكتَمَ فمات مات شهيدًا
الراوي: عبدالله بن عباس المحدث: محمد جار الله الصعدي - المصدر: النوافح العطرة - الصفحة أو الرقم: 393
خلاصة حكم المحدث: [روي] بإسناد صحيح

2) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ ، أَخْبَرَنَا بَقِيَّةُ ، حَدَّثَنِي حُصَيْنُ بْنُ مَالِكٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ شَيْخًا يُكَنَّى أَبَا مُحَمَّدٍ ، وَكَانَ قَدِيمًا يُحَدِّثُ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " اقْرَءُوا الْقُرْآنَ بِلُحُونِ الْعَرَبِ وَأَصْوَاتِهَا ، وَلا تَقْرَءُوا الْقُرْآنَ بِلُحُونِ أَهْلِ الْعِشْقِ وَأَهْلِ الْكِتَابَيْنِ ، فَإِنَّهُ سَيَجِيءُ مِنْ بَعْدِي قَوْمٌ يُرَجِّعُونَ بِالْقُرْآنِ تَرْجِيعَ الْغِنَاءِ وَالرَّهْبَانِيَّةِ وَالنَّوْحِ ، لا يُجَاوِزُ إِيمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ ، مَفْتُونَةٌ قُلُوبُهُمْ وَقُلُوبُ الَّذِينَ يُعْجِبُهُمْ شَأْنُهُمْ " .


3) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ شُعَيْبٍ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ النَّسَائِيُّ ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ الْمَرْوَزِيُّ ، ثنا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " بَعَثَ سَرِيَّةً فَغَنِمُوا وَفِيهِمْ رَجُلٌ ، فَقَالَ لَهُمْ : إِنِّي لَسْتُ مِنْهُمْ ، عَشِقْتُ امْرَأَةً فَلَحِقْتُها فَدَعُونِي أَنْظُرْ إِلَيْهَا ، ثُمَّ اصْنَعُوا مَا بَدَا لَكُمْ ، فَإِذَا امْرَأَةٌ طَوِيلَةٌ أدماءُ فَقَالَ لَهَا : اسْلَمِي حُبَيْشُ قَبْلَ نفادِ الْعَيْشِ ، أَرَأَيْتِ لَوْ تَبِعْتُكُمْ فَلَحِقْتُكُمْ بِحِلْيَةٍ أَوْ أَدْرَكْتُكُمْ بِالْخَوَانِقِ أَمَا كَانَ حَقٌّ أَنْ يَنولَ عاشِقٌ تَكَلَّفَ إِدْلاجَ السُّرَى وَالْوَدَائِقَ ، قَالَتْ : نَعَمْ ، فَدَيْتُكَ ، قَالَ : فَقَدَّمُوهُ فَضَرَبُوا عُنُقَهُ ، فَجَاءَتِ الْمَرْأَةُ فَوَقَعَتْ عَلَيْهِ فَشَهِقَتْ شَهْقَةً ، أَوْ شَهْقَتَيْنِ ، ثُمَّ مَاتَتْ فَلَمَّا قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرُوهُ الْخَبَرَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَمَا كَانَ فِيكُمْ رَجُلٌ رَحِيمٌ " .

المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 6/212
خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن

المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 6/184
خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن


محبت رسول ﷺایمان میں سے ہے !


غالباً سنہ ۲۰۰۸ء کا واقعہ ہے کہ جامعة ازہر مصر کی جانب سے ایک کانفرنس کوالالمپور مالیشیا میں ”ملتقیٰ خرّیجی الأزہر“ کے عنوان سے منعقد ہوئی، جس کی میزبانی مالیشیا گورنمنٹ کی مذہبی امور کی وزارت کررہی تھی، مجھے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت ملی، اس کانفرنس میں میری ملاقات فضیلة الشیخ الدکتور نور الدین عتر سے ہوئی، جو دمشق یونیورسٹی کے شعبہ علوم القرآن والسنة کے سابق نگران اعلیٰ ہیں، جامعة ازہر سے دکتورہ کیا ہے، اور چند سال جامعة اسلامیة مدینہ منورہ میں بھی استاذ رہے ہیں، میں نے بھی اس دوران ان سے ”مصطلح اصول حدیث“ کا مضمون پڑھا ہے، اس اعتبار سے وہ میرے استاذ ہیں، البتہ اس وقت یہ جوان تھے، اب بوڑھے اور کمزور ہوگئے ہیں، بہت محبت اور شفقت سے ملے، اور مجھے اپنی لکھی ہوئی کتاب ”حب الرسول ﷺ من الإیمان“ دی اور اس کے سرورق پر لکھدیا کہ یہ ہدیہ ہے اور آپ کو اس کی نشر واشاعت اور ترجمہ کی اجازت ہے، میں نے مسلمان اردو خواندہ بھائیوں تک پہنچانے کے لئے اس کا اردو ترجمہ کیاہے۔
”حبّ الرسول ﷺ من الإیمان“یہ عنوان ہی جاذبِ نظر ہے اور جب آپ اس رسالہ کو پڑھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ محبت نبوی کیا ہے؟ اس کے تقاضے کیاہیں؟ اور صحابہ کرام نے کس انداز میں آپ ﷺ سے محبت کی؟ یہ سب کچھ آپ اس کتاب میں پڑھیں گے۔
حضور ﷺ سے محبت، ایمان کا جز ہے اور محبت کی منجملہ علامات میں سے یہ ہے کہ تمام معاملات میں حضور ﷺ کا اتباع کیا جائے، قرآن کریم سے محبت اور تلاوت ہو، آپ کی احادیث پڑھی جائیں، آپ ﷺ کی سنت اور طریقہ پر عمل کیا جائے، آپ کی سیرت اور شمائل کو اپنایا جائے، آپ کا ذکر خیر کثرت سے کیا جائے، آپ پر درود پڑھا جائے، آپ ﷺ سے ملنے کا اشتیاق ہو، یہ سب محبت کی علامات ہیں اور ایسی محبت کا عملی نمونہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت تھی۔
صحابہ کرام حضور ﷺ کی نبوت کے عینی شاہد اور گواہ، آپ ﷺ کی تعلیمات سے آراستہ وپیراستہ، آپ ﷺ کی تربیت وصحبت یافتہ اور آپ کے دین کو پہچانے اور پھیلانے کا اولین ذریعہ اور وسیلہ تھے، صحابہ کرام کی زندگی رسول اللہ ﷺ کی محبت سے معمور اور بھر پور تھی، اپنی جان ومال اور آل واولاد کی پرواہ کئے بغیر آپ ﷺ کے ہر حکم پر تعمیل کرنا ان کا خاصہ اور طرہ ٴ امتیاز تھا۔
صحابہ کرام نے آپ ﷺ کی اسی محبت کو اقوام عالم میں روشناس کرایا اور پھیلایا جو آپ ﷺ کے مکارم اخلاق اور جود وکرم کے ذریعہ ان کے اعمال واخلاق پر چھائی ہوئی تھی۔ صحابہ کرام کی یہ اعلیٰ سیرت اسلام کی طرف دلوں کے میلان کا ذریعہ اور اقوام عالم پر ان کی عظمت وفضیلت کا سبب بنی۔
صحابہ کرام آپس میں الفت ومحبت، عزت واحترام اور مرتبہ و مقام کاپاس اور لحاظ رکھتے تھے، آپ اس کتاب میں پڑھیں گے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور پوچھا کہ سب سے بہادر کون ہے؟ لوگوں نے کہا :”امیر المؤمنین وہ آپ ہیں۔ حضرت علی نے فرمایا: جہاں تک میرا تعلق ہے، مجھ سے جس نے بھی مقابلہ کیا، میں نے اس سے بدلہ لیا ہے، لیکن سب سے بہادر حضرت ابوبکر ہیں اور پھر غزوہٴ بدر میں ان کی بہادری کا ذکر کیا۔
حضرت علی نے پھر فرمایا: مجھے بتاؤ ! کہ فرعون کے خاندان کا مؤمن بہتر ہے یا حضرت ابوبکر؟ لوگ خاموش ہوگئے ۔ حضرت علی نے فرمایا: بخدا! حضرت ابوبکر کی ایک گھڑی فرعون کے خاندان کے مؤمن سے زمین بھر جائے ان سے بہتر ہے، کیونکہ فرعون کے خاندان کے شخص نے ایمان چھپا رکھا تھا اور حضرت ابوبکر وہ ہیں جنہوں نے اپنے ایمان کا برملااعلان کیا تھا۔
اللہ پاک ہمیں بھی حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کی سچی محبت اور اتباع نصیب فرمائے۔ آمین
وصلی الله تعالیٰ علی خیر خلقہ سیدنا محمد وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین۔
مقدمہ مؤلف
نبی کریم ﷺ کی محبت، فضائل اورکمالات کے حصول کے لئے ایک عظیم شاہراہ ہے،اس لئے کہ آپ ﷺ کی محبت ایمان میں سے ہے ،بلکہ اگر آپ ﷺ نہ ہوتے تو ایمان کی پہچان بھی نہ ہوتی ۔
یہ ایک مختصر سی کتاب ہے جو اس محبت کی حقیقت کو بیان کرتی ہے ، جس پر عامل باعمل ہوکر امت کے پہلے طبقہ (جوسب سے اعلی طبقہ ہے یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) نے اونچامقام حاصل کیا ۔
ایمان کی اس علمی اور عملی تعریف کے بعد اس سے انتفاع آسان اور وہ بلند مقام حاصل کرنا سہل ہوجائے گا، جس کی آپ ﷺ نے ان الفاظ میں بشارت دی ہے :” اَلمَرْأُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ“یعنی ہرشخص کا حشر اس کے ساتھ ہوگا جس سے اس نے محبت کی ہوگی۔
میں نے اس مختصر رسالہ کے نام کا انتخاب امام بخاری رحمہ اللہ تعالی کی کتاب ”صحیح بخاری“ کی ” کتاب الإیمان“ کے اس عنوان ”حُبُّ الرَّسُوْلِ صَلَّی اللّٰہُ علیہ وسلم منَ الإیمانِ“سے لیا ہے،یعنی رسول اللہ ﷺ کی محبت ایمان کا جزء ہے، نیز میں نے جوروایات اس موضوع سے متعلق ذکر کی ہیں، وہ صحیح اور ثابت ہیں اوریہ تنبیہ یہاں اس لئے کردی ہے تاکہ تخریج احادیث اور اسانید پر کلام کی تفصیلات سے بچاجائے ۔ ہاں بعض خاص خاص جگہو ں پر تاکید مزیدکے لئے میں نے ان احادیث کے ثقاہت و ثبوت پر کلام کیا ہے ، وگرنہ اس مختصر کتاب کا مضمون اللہ کے فضل سے صحیح ثابت اور مقبول ہے ۔
اے اللہ! ہمیں محبت کا وہ مقام نصیب فرما جس کے بارے میں ہمارے سردار حضرت محمد ﷺ نے فرمایا :”المرأ مع من أحبّ “۔”ہر شخص کا حشر اس کے ساتھ ہوگا جس سے اس نے محبت کی “۔
”الحبّ اور المحبّة“یہ دونوں الفاظ ایسے معنی کواداکرتے ہیں جس کا تعلق قلب سے ہے ، جودوسری صفات کے مقابلہ میں اپنے اندر ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے ، اور اپنی تاثیر کے اعتبارسے سب سے زیادہ عظیم ہے ، کیونکہ اس میں دل کا میلان اور محبوب کی طرف کھچاؤ پایا جاتا ہے ،اور وہ انسان کی طبیعت میں ایسا شعور اورسلوک کا جذبہ پید ا کردیتا ہے کہ کبھی یہ کیفیت ہوجاتی ہے کہ محبت کرنے والا اپنے محبوب کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنا سب کچھ قربا ن کردیتاہے ، بلکہ اپنے محبوب کی محبت میں وہ اپنے آپ سے بھی بیگانہ ہوجاتا ہے اور اپنی صفات چھوڑ کر محبوب کی صفات اختیار کرلیتاہے ۔
بے شک اللہ تعالی جو رب العالمین ہیں اور سب کے خالق ہیں وہ ہر قسم کی محبت اور عظیم ترمحبت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں ،کیونکہ وہ اعلیٰ صفاتِ کمال سے متصف ہیں ،جن کی کوئی انتہاء اور کوئی حدنہیں ہے، جن کی نہ کوئی تعداد ہے اور نہ انہیں گِنا جاسکتا ہے ،وہی ہے جو بندوں پر اپنے جود و سخا کے خزانوں سے وہ نعمتیں برساتا ہے جن کا شمار نہیں ہوسکتا ، اور وہ احسانا ت کرتا ہے جن کا احاطہ نہیں ہوسکتا۔ ارشاد باری ہے :
﴿وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰہِ لَاتُحْصُوْھَا﴾ ( ابراہیم:۳۴)
ترجمہ : ۔”اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو ان کا شما ر نہیں کرسکتے ۔“
بلکہ بہت ہی کم ان کی نعمتوں کا احاطہ اور شمار کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا آیت میں لفظ ”لَاتُحْصُوْھَا “ سے اشارہ ملتا ہے ۔
ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم مخلوق میں اس محبت کے سب سے زیادہ مستحق اورحق دار ہیں، بلکہ آپ ﷺ ہماری ذات سے زیادہ ہماری محبت کے حق دار ہیں۔ ارشاد باری ہے :
﴿ اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أنْفُسُہِمْ وَ أزْوَاجُہُ أمَّہَاتُھُمْ ﴾ (الأحزاب:۶)
ترجمہ :” نبی سے لگاوٴ ہے ایمان والوں کو زیادہ اپنی جان سے اور اس کی عورتیں ان کی مائیں ہیں ۔“
تو اس آیت نے بغیر کسی قیدو تحدید کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات عالی کو ہرمسلمان کی ذات پر فوقیت دی ہے،یہ آیت ہرچیزکو شامل ہوگئی ہے ، لہذا اس میں غورو فکر کرو اور خوش ہو جاؤ:
﴿ اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أنْفُسُہِمْ وَ أزْوَاجُہُ أمَّہَاتُھُمْ﴾
محبت کو واجب کرنے والی صفات
جس شخص کو رسول اللہ ﷺ کی معرفت حاصل ہوگئی ،وہ اس حقیقت کو نہ صرف یہ کہ جان لے گا ، بلکہ ذوقاً بھی محسوس کر لے گا کہ رسول اللہ ﷺ کی محبت کو واجب کرنے والی جتنی بھی صفات ہو سکتی ہیں وہ بدرجہ کمال صرف آپ میں موجود ہیں اورکسی اور مخلوق میں نہیں ،، آپ ﷺ کی ان کامل صفات کا خلاصہ ائمہ علم و عرفان اور اہل محبت نے دو عظیم حصوں میں تقسیم کیا ہے :
۱: ۔وہ کامل صفات جن سے آپ ﷺ متصف تھے۔
۲:۔آپ کی جود و سخاوت ۔
جہاں تک صفات ِ کمالیہ کا تعلق ہے جن کی وجہ سے ایک انسان دوسرے انسان سے محبت کرتا ہے ، مثلاً ایک انسان کبھی دوسرے انسان سے اس کے خوبصورت چہرے کی وجہ سے محبت کرتا ہے یا اس کی خوش الحانی کی وجہ سے یا ایسی دوسری صفات جمال کی وجہ سے محبت کرتا ہے جو محبت کو واجب کرتی ہیں۔
نبی کریم ﷺ اپنے جمال خلقت اور جمال صورت میں تمام مخلوق سے اعلیٰ اور افضل ہیں، جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تواتر اور یقینی طریقہ سے ثابت ہے کہ:
” کان رسول ُ الله ﷺ أحسن الناس وجہاً وأحسنَہم خَلقاً“۔
ترجمہ :” رسول اللہ ﷺ سب انسانوں میں زیادہ حسین چہرے والے اور سب سے زیادہ خوب صورت جسم والے تھے “۔
حضرت ھند بن ابی ھالہ رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں :
”کان رسول الله ﷺ فخمًا مفخّماً، یتلأ لأ وجہہ تلألوٴ القمر لیلة البدر“
ترجمہ :”حضور ﷺ اپنی ذات و صفات کے اعتبار سے بھی عظیم الشان تھے اور دوسروں کی نظروں میں بھی بڑے رتبہ والے تھے، آپ ﷺ کا چہرہ مبارک چودھویں کے چاند کی طرح چمکتا تھا۔“
حضرت ابوھریرةؓ فرماتے ہیں:
”مارأیت أحسن من رسول الله ﷺ کأنّ الشمس تجری فی وجہہ“۔
ترجمہ :” رسول اللہ ﷺ سے زیادہ میں نے کسی کو حسین نہیں دیکھا۔ گویا سورج آپ کے چہرہ مبارک میں گردش کررہاہے “۔
حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں :
”مامَسِسْت دیباجةً ، ولا حریرةً ألین من کفّ رسول الله ﷺ، ولا شممت مسکةً ولا عنبرةً أطیب من رائحة النبی ﷺ، وفی روایة : أطیب من عرق النبی ﷺ“․
ترجمہ :” میں نے کسی موٹے یا باریک ریشم کو رسول اللہ ﷺ کی ہتھیلی سے زیاد ہ نرم نہیں پایا ، اورنہ ہی مشک اور عنبر کی خوشبو کو نبی کریم ﷺ کی خوشبو سے عمدہ پایا ،اورایک روایت میں ہے کہ نہ ہی آپ ﷺ کے پسینہ سے زیادہ خوشبودار اورعمدہ پایا “۔
جس نے بھی آپ ﷺ کے اوصاف بیان فرمائے ہیں، سب نے یہی کہا:
” لم أر قبلہ ولا بعدہ مثلَہ ﷺ “۔
ترجمہ :” آپ ﷺ جیسا ہم نے نہ آپ سے پہلے کسی کو دیکھا اور نہ آپ کے بعد کسی کو دیکھا “۔
لہٰذا آپ مخلوق کے جمال سے کتنے ہی متاثر ہوں، آپ پر لازم ہے کہ آ پ تمام مخلوق اور اپنے نفس سے بھی زیادہ رسول اللہ ﷺ سے محبت کریں ، کیونکہ آپ ﷺ ہر قسم کے جمال کے اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز ہیں ۔
اسی طرح ایک عقلمند انسان کسی سے محبت اس کے حسن اخلاق اور اعلیٰ سیرت کی بنا پر کرتا ہے ،اگرچہ وہ خوداس سے کتنا ہی دور ہو ۔جبکہ ہمارے نبی حضرت محمد ﷺپورے عالم میں سب سے زیادہ اخلاق میں کامل ہیں ، اور جس کے لئے اللہ تعالی کی گواہی کافی ہے :
﴿وَاِنّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ﴾ (سورة القلم :۴)
ترجمہ :” بے شک آپ اخلاق کے عظیم مقام پر ہیں “۔
اللہ تعالی کے اس قول ”لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ“میں غور کریں تو آپ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ جتنے بھی اخلاق حسنہ اور انسان کی صفاتِ کمالیہ ہوسکتی ہیں آپ ﷺ ان صفات کے اعلیٰ مقام پرفائز ہیں، کیونکہ ”علٰیٰ“ بلندی پردلالت کرتا ہے ، لہٰذا جس قسم کے بھی اعلیٰ اخلاق ہو سکتے ہیں ،آپ ان اخلاق میں سب سے اعلیٰ و ارفع مقام پرفائز ہیں اور جس قسم کے انسانی کمالات ہو سکتے ہیں ،آپ ان کمالات میں سب سے بلند درجہ پر ہیں۔
رہابہت زیادہ عطااور احسان کی وجہ سے کسی سے محبت کرنا، تو انسان دنیا میں ہراس شخص سے محبت کرتا ہے جس نے اس پر ایک یا دو بار کوئی احسان کیا ہو، اور وہ احسان کتنا ہی زیادہ قیمتی اور نفیس کیوں نہ ہو بالآخروہ فانی اور زائل ہونے والا ہے ، جیسے کسی نے اسے ایسی مصیبت سے بچایا جس میں اس کی ہلاکت یقینی تھی یااس میں کسی نقصان کا خطرہ تھا۔کچھ بھی ہو یہ احسان بالا ٓ خرختم ہونے والا ہے، جس کے لئے دوام نہیں ۔
بھلا دنیوی احسان کا مقابلہ نبی کریم اور رسول عظیم ﷺ کے احسانات سے ہوسکتا ہے جوتما م محاسنِ اخلاق و تکریم کے جامع ہیں ،جن کو اللہ تعالیٰ نے تمام مکارمِ اخلاق ، عظیم صفات اور فضیلت عامہ سے نوازا۔جن کے ذریعے اللہ تعالی نے ہمیں کفر کی تاریکیوں سے نکال کر نورِ ایمان میں داخل کیا ،اور جن کے ذریعے اللہ تعالی نے ہمیں جہالت کی آگ سے نجات دے کر یقین اور معرفت کی جنت میں پہنچادیا ۔
خوب اچھی طرح غور و فکر کرلوتاکہ آپ کوبخوبی معلوم ہوجائے کہ آپ ﷺ ہی آپ کے جنت کی نعمتوں میں ہمیشہ رہنے کا سبب ہیں ، اب خود بتاوٴکہ حضور ﷺ کے اس جلیل القدر اور عظیم الفضل احسان سے بڑھ کر کو ن سااحسان ہوسکتا ہے ۔
اب اس احسان کا شکر اور اس کا حق ہم کیسے ادا کریں ؟ جبکہ اللہ تعالی نے ہمیں آپ ﷺ ہی کے ذریعہ دنیا و آخرت کی نعمتوں سے نوازا ہے اور اپنی ظاہر ی وباطنی نعمتوں کی ہم پر بوچھاڑ کردی ہے ، اسی لئے آپ ﷺ ہی آپ کی کامل ومکمل محبت کے مستحق ہیں جو ہر ایک کے نفس ،اس کے اہل وعیال اور سب مخلو ق کی محبت سے زیادہ ہو، بلکہ بعض اہل معرفت حضرات نے یہاں تک کہاہے کہ ”اگر جسم کے رویں رویں سے آپ ﷺ کی محبت کا اظہار ہورہاہوتب بھی آپ ﷺ کا جو حق محبت ہے اس کا یہ جزء ہوگا، کیونکہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت کو ہرچیز پر فوقیت حاصل ہے 

محبت رسولﷺ ایمان میں سے ہے !


(۲)
اسی لئے اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
﴿ اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أنْفُسُہِمْ وَ أزْوَاجُہ أمَّہَاتُھُمْ ﴾ ( الاحزاب:۶)
ترجمہ : ’نبی سے لگاوٴ ہے ایمان والوں کو زیادہ اپنی جان سے اور اس کی عورتیں ان کی مائیں ہیں۔“
اور ارشاد ہے :
قُلْ اِنْ کَانَ آبَائُکُم وَ اَبْنَاءُ کُمْ وَاخْوَانُکُمْ وَازْوَاجُکمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُ نافْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَةُ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَھَا اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِنَ اللهِ وَرَسُوْلِہ وَجِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللهُ بِاَمْرِہ وَاللهُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ۔“ (التوبة:۲۴)
ترجمہ:”تو کہہ اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور برادری اور مال جو تم نے کمائے ہیں اور سود اگر ی جس کے بند ہونے سے تم ڈرتے ہو اور حویلیاں جن کو پسند کرتے ہو ،تم کو زیادہ پیاری ہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور لڑنے سے اس کی راہ میں تو انتظار کرو یہاں تک کہ بھیجے اللہ اپنا حکم اور اللہ راستہ نہیں دیتا نافرمان لوگوں کو۔“
اس آیت کریمہ نے محبت کی تمام اقسام کو جمع کردیا ہے اور یہ فرض قراردیا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہر چیز پر غالب ہونی چاہیے ، بلکہ مجموعی طور پر ان تمام چیزوں کی محبتوں پر بھی الله اور اس کے رسول کی محبت غالب ہونی چاہیے ۔
اسی مضمون کو ثابت کرنے کے لئے صحیح تر احادیث وارد ہوئی ہیں ، جیسا کہ صحیحین میں حضرت انَس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
” لایؤمن أحدکم حتی أکون أحب إلیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین“․
ترجمہ :”تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد ، اس کی اولاد اورتمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں “۔
یہ حدیث ہر قسم کی محبت کو شامل ہے، جس میں آپ کی اپنے نفس سے محبت بھی ہے ۔
امام بخاری اور دوسرے حضرات نے حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”والذی نفسی بیدہ لایؤمن أحدکم حتی أکون أحب إلیہ من والدہ وولدہ “
ترجمہ :”قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد اور اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہوں “۔
یہاں والد اور اولاد کو ذکر فرمایا، کیوں کہ یہ دونوں دوسروں کے مقابلے میں انسان کو زیادہ محبوب ہوتے ہیں ، اور ان دونوں کی وجہ سے انسان اس دنیا میں جیتااور محنت کرتا ہے، اس لئے دوسری اقسامِ محبت کو چھوڑ کر صرف ان پر اکتفا فرمایا۔ لہذا یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مومن پر فرض ہے کہ آپ ﷺ کی محبت کو ہرقسم کی محبت ، اور ہر محبو ب چیزکی محبت ، حتی کے اپنے نفس کی محبت پر بھی مقدم رکھے۔محبت کی بہت سی اقسام ہیں، جن میں سے چند مشہور درج ذیل ہیں :
۱۔شفقت و رحمت کی محبت ۔اور یہ باپ کی اپنے بیٹے سے محبت ہے ۔
۲۔ تعظیم اور بزرگی کی محبت۔ اور یہ بیٹے کی اپنے باپ سے اور شاگرد کی اپنے استاذ سے محبت ہے ۔
۳۔ نفس کی محبت۔اور یہ مرد کی اپنی بیوی سے محبت ہے ۔
۴۔ خیر خواہی اور انسانیت کی محبت ۔ اوریہ سب انسانوں کی آپس کی محبت ہے۔
۵۔ انانیت کی محبت ۔ اوریہ انسان کی اپنی نفس سے محبت ہے اور یہ ان محبتوں میں سب سے زیادہ مضبوط محبت ہے ، اور یہ ایسی محبت ہے جس کو ازل سے نفس کی سرشت میں رکھا گیا ہے، جیسا کہ دوسری محبتیں اس کی سرشت میں رکھی گئی ہیں ۔
غور و فکر کا مرحلہ
اللہ تعالی اور اس کے رسول اللہ ﷺ نے اس بات پر تاکید کی ہے کہ مومن کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت تمام اقسام محبت سے زیادہ ہونی چاہیے اور محبت کے تمام مراتب سے اعلی وارفع ہونی چاہیے ، اور اس کے معلوم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انسان اپنی تمام محبوبات اور حضور ﷺ کی محبت میں غور و فکر کرے اورسوچے تو یقینا اس کی عقل یہ فیصلہ کرے گی کہ رسول اللہ ﷺ کی محبت ،انانیت کی سرشت پر غالب ہے ، اور اس انانیت کا نام و نشان ختم کردیتی ہے ، اے مسلمان عقلمند! آپ کے لئے سیدنا عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کی سیر ت میں بہترین نمونہ ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ ایک دن ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے اور آپ ﷺ حضرت عمر کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے ،حضرت عمر نے عرض کی : یارسول اللہ ! بے شک آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں، سوائے میرے نفس کے !
تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ایسانہیں ، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہٴ قدرت میں میر ی جان ہے ، جب تک میں آپ کے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ،حضرت عمررضی اللہ عنہ نے عرض کیا: بے شک اب تو آپ مجھے میرے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں ، نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ہاں! اب تمہار ا ایمان مکمل ہوگیا، اے عمر۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا پہلا جواب اس فطرت کے مطابق تھا جس پر انسان کو پیدا کیا گیا ہے ،پھر جب نبی کریم ﷺ نے فرمایا: (لا) یعنی تیر اایمان کامل نہیں ہوگا (قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میر ی جان ہے جب تک کہ میں آپ کے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوں) توحضرت عمررضی اللہ عنہ نے جب غور کیا تو اس نتیجہ پر پہنچے کہ نبی کریم ﷺ ان کو ان کے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں ، کیوں کہ آپ ﷺ ہی اس نفس کو دنیا اور آخرت کی ہلاکتوں سے بچانے والے ہیں،حضرت عمرؓ نے اس بات کی خبردی جس تک وہ غور و فکر سے پہنچے ، اور خبر بھی قسم کے ساتھ دی کہ: فإنہ الآن والله ۔لأنت أحبّ إلیّ من نفسی) بے شک اب تو بخدا! آپ مجھے اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں تو اس کے جواب میں حضرت عمر کو عظیم تسلی بخش جواب ملا (الآن یاعمر) یعنی اے عمر !اب آپ کو صحیح معرفت حاصل ہوئی اور آپ اس حقیقت تک پہنچ گئے، جس تک پہنچناضروری ہے ۔
تو بھائی! اگر آپ بھی اپنے اندر اس محبت میں غور و فکر کریں گے تو آپ بھی اسی نتیجہ پرپہنچیں گے کہ رسول اللہ ﷺ آپ کی محبت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں، کیوں کہ جب آپ اس بات میں غور و فکر کریں گے کہ آپ کے نفس کی بقا ء، خوشی اور دائمی نعمتوں کا ذریعہ صرف اورصرف رسول اللہ ﷺ ہی ہیں اور یہ وہ منفعت ہے جو ہرقسم کی نعمتوں سے اعلی وارفع ہے ،جن سے آپ منتفع ہوسکتے ہیں، اسی وجہ سے آپ ﷺ اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ آ پ کے ساتھ محبت دوسری محبتوں سے زیادہ ہو، اور (ہر انسان کواپنے ) نفس سے جو اس کے دونوں پہلووٴں کے درمیان ہے ، اس لئے کہ وہ نفع اور خیر جو محبت پر ابھارتے ہیں وہ آ پ کو حضور ﷺ کی طرف سے دوسرں کے مقابلہ میں بلکہ اپنے نفس سے زیادہ حاصل ہیں اور جیسے آپ ﷺ کمالات و فضائل میں سب مخلوق سے افضل اور اعلی ہیں، اسی طرح آپ ﷺ تمام کمالات،برکات اور فضائل کے جامع ہیں ۔
یہ وہ حقائق ہیں جو نفس کی گہرائیوں میں قرار پکڑے ہوئے اور عقل کے ادارک میں جاگزین ہیں ،اس لیے کہ ہر مسلمان کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہے، کیوں کہ اسلام دل میں اس محبت کے بغیرداخل ہوہی نہیں سکتا ، البتہ عام لوگوں کے اندر ان احسانات میں غوروفکر نہ کرنے اور ان میں غفلت برتنے کی وجہ سے کافی تفاوت پایا جاتا ہے ،اسی لئے دعوت الی اللہ کے جواعلی طریقے ہیں ان میں ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ سیدنا رسول اللہ ﷺ کے فضائل وکمالات کو بیان کیا جائے ، اور کثرت سے بیان کیا جائے ،تاکہ خود آپ کو اس سے فائدہ ہو اور آپ کے علاوہ باقی ایمان والوں کو بھی اس سے فائدہ ہو، اور غیر مسلموں کے لئے تالیف قلب اور دین حق سے قربت کا ذریعہ بنے ،اور اس کے ذریعہ آپ، حضور ﷺ کی محبت کے پھلوں میں سے ایک عظیم پھل حاصل کرلیں گے، جس کے بارے میں صحیح اور قطعی الثبوت احادیث وارد ہوئی ہیں ، جن میں کوئی شک وشبہ نہیں ۔
امام بخاری او ر امام مسلم نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
”ثلاث من کن فیہ وجد حلاوة الإیمان : أن یکون الله ورسولہ احبّ إلیہ مماسواھما، وأن یحبّ المرء لایحبّہ الا الله ، وأن یکرہ أن یعود فی الکفرکمایکرہ أن یقذف فی النار“
ترجمہ :”تین صفات ایسی ہیں جس شخص میں وہ پائی جائیں گی ،اس نے ایما ن کا مزہ چکھ لیا ،۱:․․․ ایک یہ کہ اللہ اور اس کے رسول اسے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوں۔۲:․․․ اگر کسی سے محبت کرے تو صرف اللہ کے لئے کرے۔۳:․․․کفر کی طرف لوٹنے کو اس طرح ناپسند کرے جیسے اپنے آپ کو آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرتا ہے “۔
اور امام مسلم نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا :
”ذاق طعم الإیمان من رضی باللّٰہ ربّا، وبالاسلام دینا ، وبمحمد رسولاً“
ترجمہ :۔”اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھ لیا جو اللہ کے رب ہونے ، اسلام کے دین ہونے اور محمد ﷺ کے رسول ہونے پر راضی ہوگیا“ ۔

محبت کیسے ثابت ہوگی ؟
میرے مسلمان بھائی! جاننا چاہیے کہ محبت دعویٰ اور آرزؤں کانام نہیں، بلکہ محبت کو بتلانے والی چیز اللہ اور اس کے رسول کے اوامر کو بجالانے اور ان کی منہیات سے بچنا ہے ،اس اعتبار سے محبت کبھی فرض ہوتی ہے اور کبھی سنت ہوتی ہے ۔

محبت فرض
یہ وہ محبت ہے جو نفس کو فرائض کے بجالانے اور گناہوں سے بچنے پر آمادہ کرے ، اور اللہ نے جو کچھ اس کے لئے مقدّر کیا ہے، یہ محبت اس پرراضی ہونے پر آمادہ کرے ۔ پس جو شخص کسی معصیت میں مبتلا ہے یااس نے کسی فرض کو چھوڑ دیا یاکسی حرام فعل کا ارتکاب کیا تو اس کا سبب اس محبت میں کوتاہی ہوتا ہے کہ اس نے اس محبت پر نفس کی خواہشات کو مقدم کیا ، اور یہ -العیاذ باللہ -غفلت کا نتیجہ ہوتا ہے ۔

محبت سنت
وہ یہ ہے کہ انسان نفلی عبادات کی پابندی کرے اور مشتبہ امور سے بچتا رہے ۔
اس بحث کاخلاصہ یہ ہے کہ وہ مومن جو رسول اللہ ﷺ سے محبت کرتا ہے، اس کے پاس شریعت کے جو بھی اوامر اور منہیات پہنچے ہیں وہ مشکاةِ نبوت سے ہی پہنچے ہیں اور وہ صرف آپ ﷺ کے نقش قدم پر چلتا ہے ، آپ کی شریعت سے راضی اور انتہائی خوش ہوتا ہے ، آپ ﷺ کے اخلاق اپناتا ہے ، اور آپ ﷺ نے جو فیصلے فرمائے ہیں ان سے اپنے نفس میں کوئی تنگی محسوس نہیں کرتا ، جس شخص نے ان امور پر اپنے نفس سے جہاد کیا ،اس نے ایمان کی حلاوت حاصل کرلی ۔
امام بخاری  نے اپنی کتاب میں حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
”إن الله تعالٰی قال : من عادیٰ لی ولیّاً فقد آذنتہ بالحرب، وما تقرّب إلیّ عبدی بشئ أحب إلیّ ممّا افترضت علیہ ، ولا یزال عبدی یتقرّب إلیّ بالنوافل حتی أحبّہ …“ الحدیث ․
ترجمہ:۔”اللہ تعالی نے فرمایا : جس نے میرے دوست سے دشمنی کی تو میرا اس کے خلاف اعلان جنگ ہے ، اور میرا بندئہ مومن میرا تقرب (اعمال میں سے) کسی ایسے عمل کے ذریعے حاصل نہیں کرتا جو میرے نزدیک ان اعمال میں سے زیادہ مقبول ہو جو میں نے اس پر فرض کیے ہیں اور میرا وہ بندہ جسے ادائیگی فرائض کے ذریعے میرا تقرب حاصل ہے ہمیشہ نوافل کے ذریعے( یعنی ان طاعات وعبادات کے ذریعے جو فرائض کے علاوہ ہیں) میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اسے اپنا دوست بنالیتا ہوں“۔
پس اس حدیث نے محبت الٰہی کے اسباب کو دو امور میں بند کردیا، ایک وہ جو فرائض کے اہتمام سے حاصل ہوتی ہے اور دوسری وہ جو کثرت نوافل سے۔
بے شک اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والا کثرت نوافل میں مشغول رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے۔ جب بندہ اشتغال نوافل سے اللہ کا محبوب بن جاتا ہے تو اس اشتغال نوافل کی برکت سے اسے ایک اور محبت یا محبوبیت حاصل ہو جاتی ہے، جو پہلی محبت یا محبوبیت سے بڑھ کرہوتی ہے۔ پس یہ تیسری محبت یا محبوبیت اس کثرت نوافل سے حاصل ہونے والی محبت سے بڑھ کر ہوتی ہے اور یہ بندے کے دل کو محبت الٰہی میں اس قدر مشغول ومستغرق کردیتی ہے کہ وہ ذات الٰہی اور ان کے ذکر وعبادت کے علاوہ ہر قسم کی فکر وسوچ اور افکار واوہام سے بے نیاز ہوجاتا ہے اور اس پر اس کی روح مکمل طور پر غالب آجاتی ہے، چنانچہ اس وقت اس کے ہاں محبوب کے ذکر، محبت اور اس جیسی دوسری چیزوں کے علاوہ کسی شئ کی کوئی اہمیت نہیں رہتی، بلکہ اس کے دل کی باگ ڈور ذکر الٰہی اور محبت خداوندی وغیرہ کے ہاتھ میں آجاتی ہے۔ نیز اس کی روح اس کی جسمانی خواہشات پر اور ذکر اس کی روح پر غالب آجاتا ہے یعنی اس وقت ذکر وعبادت اس کے دل کی آواز ورورح کی غذا بن جاتی ہے اور ملائکہ کی طرح اس کے اعمال واذکار اس کے سانسوں کے ساتھ چلنے لگتے ہیں۔
تو حاصل کلام یہ ہے کہ مؤمن کے دل کے لئے ایک عمدہ اور باسعادت زندگی کا حصول اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کے بغیر ممکن نہیں اور حقیقی زندگی تو مُحبّین کی زندگی ہے جن کی آنکھیں اپنے حبیب سے ٹھنڈی ہیں ،ان کے نفوس کو محبوب کی وجہ سے سکون مل چکا ہے، اس کی وجہ سے ان کے دل مطمئن ہوچکے ہیں ،اس کے قرب سے وہ مانوس ہوچکے ہیں اور اس کی محبت سے مزے لے رہے ہیں ۔

محبت کی علامات اور محبت میں تاثیر پیدا کرنے والے امور
نبی کریم ﷺ سے آپ کی محبت وہ قیمتی جوہر ہے جو دل میں ایک عظیم نور سے چمکتا ہے ، اور اس کے لئے ضروری ہے کہ اس سے ایسی نورانی شعائیں نکلیں جو اس محبت کو بتائیں اور جیسے یہ شعائیں اس کے آثارمیں سے ہیں، اسی طرح اپنے اندر تاثیر بھی رکھتی ہیں جس سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے اور اس میں ترقی ہوتی ہے، یہاں تک کہ محبت کرنے والا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ہاں محبوبیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے ۔ معاملہ صرف یہی نہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول ﷺ سے محبت کریں بلکہ اصل معاملہ نجاح وفلا ح اور عظیم کامیابی کا یہ ہے کہ آ پ سے اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ محبت کریں ۔ اے اللہ ہمیں بھی ان میں سے بنا دیجئے ۔

محبت رسول ﷺ ایمان میں سے ہے !


(۳)
رسول اللہ ﷺ کا اتباع
اتباع، محبت کی سب سے بڑی علامت اور محبت کی ترقی میں قوی تاثیر رکھتی ہے ، اتباع کا محبت کی علامت ہونا تو عیاں اورظاہر ہے، کیوں کہ محبت کرنے والاہمیشہ اپنے محبوب کی موافقت کرتاہے، وگرنہ وہ اپنے دعوی محبت میں جھوٹا ثابت ہوگا ، اور اتباع :محبت میں مؤثر ہے تو اس لئے کہ مومن رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی تعلیمات کے جمال اور کمال کو عملی طور پر محسوس کرتا ہے اورتجربہ سے اس میں ایک ذوق پیدا ہوجاتا ہے ،اس سے رسول اللہ ﷺ کی محبت میں اضافہ ،اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کا اسے قرب اورمحبوبیت حاصل ہوتی ہے ۔
اللہ کے ساتھ سچی محبت کے دعویٰ کو پرکھنے کے لئے اللہ نے اپنے نبی ﷺ کے اتباع کو معیار بنایا ہے۔ ارشاد باری ہے :
﴿ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ ﴾ (آل عمران :۳۱)
ترجمہ :۔”آپ ان سے کہہ دیں !اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرا اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا“ ۔


۲: قرآن کریم سے محبت
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کاکلام ہے ، حضرت محمد ﷺ کی نبوت کا ثبوت اسی سے ہے، آپ ﷺ نے قرآن کریم کے ذریعے مخلوق کو حق کی راہ بتائی ہے اور اس کے بتائے ہوئے اخلاق کو پوراپورا اپنایا ہے ، یہاں تک کہ آپ ﷺ مخلوق میں سب سے اعلیٰ اخلاق پر فائز ہوگئے ۔جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
﴿وَاِنّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ﴾ ( القلم :۴)
ترجمہ :” بے شک آپ اخلاق کے عظیم مقام پر ہیں“۔
اب آپ قرآن کریم کے ساتھ اپنے دل کی محبت کا امتحان لیجئے ، اور اس کے سننے سے جو آپ کو لذت حاصل ہوتی ہے ،اس کا امتحان لیجئے ، کہ کیا قرآن کریم سننے کی لذت گانے باجے سننے کی لذت سے زیادہ ہے؟ اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو آپ سمجھ لیجیے کہ آپ قرآن کریم کی محبت میں سچے ہیں ، کیوں کہ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ جب کوئی شخص کسی سے محبت کرتا ہے، اس کے نزدیک تو اس کی باتیں، اس کا کلام ،سب سے زیادہ محبوب ہوتا ہے ،اور ایسی محبت قرآن کریم سے کیوں نہ ہو ، جب کہ وہ اپنے الفاظ اور معانی کے اعتبار سے تمام آسمانی کتب پر فائق وبرترہے ، اور جس کے الفاظ اپنی گیرائی اور گہرائی کے اعتبار سے حق کی تجلیات پر مشتمل ہیں،جس کے بیان کے جمال اور نظم کے کمال نے انسانوں اور جنوں کو اس کی مثل لانے سے عاجز کردیا ہے اور اللہ تعالی نے اسے روح سے تعبیر فرمایاہے ، ارشاد بار ی ہے :
﴿وَکَذٰلِکَ أوْحَیْنَا إلَیْکَ رُوْحاً مِّنْ أمْرِنَا﴾ ( الزخرف ، آیة:۵۲)
ترجمہ :۔”اور اسی طرح بھیجا ہم نے تیری طرف ایک فرشتہ اپنے حکم سے۔“
جس طرح روح اجساموں کے لئے حیات اور زندگی کا سبب ہے ، اسی طرح قرآن کریم تمام ارواحوں کی روح کی حیات اور زندگی کا سبب ہے ، لہذا ایک مُحب اپنے محبو ب کے کلام سے کیسے سیر ہوسکتا ہے جب کہ وہ محبوب ہی اس کا مطلوب ومقصود ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کیاخوب فرمایا : ”اگر ہمارے دل پاک وصاف ہوتے تو ہم اللہ تعالی کے کلام سے کبھی سیر نہ ہوتے ۔“
۳: آپ اکی سنت سے محبت ، اور آپ کی حدیث پڑھنا
محبت کالازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ محب اپنے محبوب کے ساتھ ہر چیز میں موافقت اور اتفاق کرے۔ لہذا نبی کریم ﷺ سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کی سنت اور طریقہ کی اتباع کی جائے اور جو شخص خود اس سنت کو معلوم کرنے پر قادرنہیں ،اسے چاہیے کہ جو اس کا عالم ہے اس سے پوچھے، اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے کلام کا حال ہے ، جو ایسے محبوب کا کلام ہے جو افضل البشر ہے ، اور وہ سب سے بہتر کلام ہے جوکسی انسان کی زبان سے نکلا ہے ، یہ کلام معنی کے اعتبار سے خوبصورت اور الفاظ کے اعتبار سے نہایت عمدہ ہے ،، اگر آپ اس درجہ تک نہیں پہنچ سکے تو آپ اسے غور سے سنیں اور ایسی مجلس میں جائیں جہاں آپ ﷺ کی حدیث پڑھی جاتی ہو ، اب آپ خود فیصلہ کریں کہ حدیث کی ان مجالس اور ان حلقوں سے آپ کی کیا نسبت ہے ؟
۴:آپ ﷺ کی سیر ت اور شمائل سے محبت
یہ محبت کا طبعی تقاضا ہے کہ محب اپنے محبوب کو پہچانے ، آپ ﷺ کی سیر ت اور شمائل ہی آپ کو آپ ﷺ کی ذات کی پہچان کرائیں گے ۔ علیہ افضل الصلاة واتمّ التسلیم ۔ اور آپ کی سیرت اور شمائل کے اعتبار سے جتنا آپ کے علم میں اضافہ ہوگا اتناہی آپ ﷺکے ساتھ آپ کی محبت میں اضافہ ہوگا ، کیوں کہ آپ ﷺ کے کمالات کے علم کے بعدآپ کی معرفت میں اضافہ ہوگا ۔اور پھر آپ کو آپ ﷺ کی محبت میں کمال حاصل ہوگا، اور آپ ﷺ کی روحانیت شریفہ آپ کے دل پر چھا جائے گی، پھر اللہ تعالیٰ، آپ ﷺ کی روحانیت شریفہ کو آپ کے لئے استاذ معلم ، شیخ اور مُقتدیٰ بنادیں گے، جیسا کہ اللہ نے آپ ﷺ کو اپنا نبی اپنا رسول اوراپنا ہادی بنایا ہے ۔
اس سے معلو م ہوا کہ ایک مومن محب کے لئے ضروری ہے کہ وہ آپ ﷺ کی سیر ت ، آپ کے ابتدائی حالات ، آپ پر وحی کے نزول کی کیفیت کا علم، آپ ﷺ کی صفات ، اخلاق ، حرکات و سکنات ، آپ کے جاگنے اورسونے ، اپنے رب کی عبادت کرنے ، گھروالوں کے ساتھ حسن معاشرت ، صحابہ کرام کے ساتھ آپ کا کریمانہ معاملہ اور اس طرح کے دوسرے امور کو پہچانے اور ان کا علم حاصل کرے، اور ایسا ہوجائے گویا وہ آپ ﷺ کے ساتھ آپ کے صحابہ میں سے ایک ہے ۔
۵: آپ ﷺ کا ذکرِ خیر کثرت سے کرنا
اورجب بھی آپ کا ذکر آئے آپ کی تعظیم کرنا
بعض بزرگوں کا قول ہے کہ ” محبت نام ہے محبوب کو ہر وقت یا دکرنے کا “ اور تمام عقلا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جوشخص کسی سے محبت کرتا ہے تو وہ اس کا ذکر بار بار کرتا ہے ۔
اور آپ ﷺ کے ذکر کے ساتھ آپ کی تعظیم میں یہ بھی شامل ہے کہ آپ ﷺکے لئے ” سیدنا“ استعمال کیا جائے ، اور آپ کے نام کے ذکر کرنے یا سننے کے وقت خشوع و خضوع کا اظہار کیا جائے ، اور یہ بہت سے صحابہ کرام اور ان کے بعد آنے والے حضرات سے ثابت ہے ۔
بطور مثال :حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ایک دن فرمایا :”قال رسول الله ﷺ : تو تھرتھرانے لگے اور ان کے کپڑے بھی ہلنے لگے۔
یہ کیفیت رسول اللہ ﷺ کی تعظیم کی وجہ سے طاری ہوئی، عنقریب صلح حدیبیہ کی حدیث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رسول اللہ ﷺ سے محبت اورتعظیم کا بیان آنے والا ہے ۔
۶:آپ ﷺ سے ملنے کا انتہائی شوق
ہر مُحبّ اپنے محبوب سے ملنے کا مشتاق ہوتا ہے ، تونبی کریم ﷺ کے ساتھ محبت کرنے والے کا کیا حال ہوگا ! وہ چاہتا ہے کہ آپ ﷺ کوخواب میں دیکھے اور آخرت میں آپ کی ذات سے ملاقات ہو ، اسی لئے لوگوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ” محبت تو محبوب کے اشتیاق کانام ہے :“
اس سلسلہ میں ایک مشہور واقعہ حضرت بلالؓ کا ہے کہ جب ان کو موت کا استحضار ہوا تو ان کی بیوی کی زبان سے پریشانی کی حالت میں یہ الفاظ نکلے ”واہ حَرَباہ“ہائے میرا گھر ویران ہوگیا ، تو اس کے جواب میں حضرت بلال رضی اللہ نے فرمایا :
” واطَربا، غداً ألقی الأحبة، محمداً و صحبہ“․
ترجمہ :”او میری خوشی ! کل میں اپنے محبوبوں سے ملوں گا ، حضرت محمد ﷺ اور آپ کے صحابہ سے “۔
۷:آپ ﷺ پر کثرت سے درود وسلام پڑھنا
آپ ﷺ پر کثرت سے درود و سلام پڑھنا، یہ تو آپ ﷺ کو کثرت سے یاد کرنے ،آپ کی تعظیم کرنے اور آپ سے ملنے کا شوق رکھنے کا لازمی نتیجہ ہے اور اس سلسلہ میں ہمارے لئے اللہ تعالی کا یہ فرمان ہی کافی ہے :
﴿اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلَائِکَتَہ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ (سورة الأحزب:۵۶ )
ترجمہ:۔” الله اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں رسول پر ، اے ایمان والو! رحمت بھیجو اس پر اور سلام بھیجو سلام کہہ کر۔“
اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان:
” من صلّٰی علیّ صلاةً واحدةً صلَّی الله علیہ بہا عشراً“
(اخرجہ مسلم واصحاب السنن․)
ترجمہ :”جس نے مجھ پر ایک بار درود بھیجا ،اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتے ہیں “۔
اور آپ ﷺ کا یہ ارشاد کہ جبریل علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا :
”ألاأبشّرک ۔ إن الله عزوجل یقول: من صلیّٰ علیک صلّیتُ علیہ ، ومن سلّم علیک سلّمتُ علیہ“ (رواہ أحمد وحاکم وصححہ ووافقہ الذھبی․)
ترجمہ :” کیا میں آپ کو خوش خبری نہ سناوٴں… اللہ عز وجل فرماتے ہیں، جس نے آپ پر درود پڑھا، میں اس پر رحمت نازل کروں گا، اور جس نے آپ پر سلام بھیجا میں اس پر سلامتی نازل کروں گا۔“
اور آپ ﷺ کا یہ ارشاد ہے :
”إن أولی الناس بی یوم القیامة أکثرھم علیّ صلاةً ‘ ( صححہ ابن حبان)
ترجمہ :”قیامت کے دن سب سے زیادہ میرے قریب وہ شخص ہو گا جو مجھ پر زیادہ درود پڑھے گا۔“
اور آپ ﷺ کے محبین کے لئے خصوصاً یہ حدیث قابل ذکر ہے ، جسے حضرت انسؓ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
”من صلّٰی علی بلغتنی صلاتُہ ، و صلّیتُ علیہ ، و کُتِبَ لہ سوی ذلک عشرُ حَسناتٍ“(طبرانی فی الاوسط باسناد لا باس بہ و لہ شواھد بإسناد حسن عن ابن مسعود)
ترجمہ :”جس نے مجھ پر درور پڑھا ، اس کا درود مجھ تک پہنچتا ہے اور میں اس کے لئے دعائے رحمت کرتا ہوں اور اس کے لئے دس مزید نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔“
آپ ﷺ پر درود و سلام بھیجنا گویا آپ ﷺ کے ساتھ بمنزل مناجات کے ہے، کہ جب آپ یہ کہتے ہیں:”اللّٰھم صَلِّ علی سیدنا محمد و سلم“
ترجمہ:” اے اللہ! رحمت اور سلامتی نازل فرما، ہمارے سردار حضرت محمد (ﷺ) پر۔“
آپ ﷺ جواب میں فرماتے ہیں:”صلی الله علیک یا فلان “
ترجمہ :”اللہ تعالی تجھ پر اپنی رحمت فرمائے ، اے فلانے “۔
اے اللہ ! آپ ﷺ کے قلب مبارک کو ہمارے اوپر پھیر دے ، اور آپ ﷺ کو ہماری جانب سے وہ بہترین بدلہ دے جو آپ ﷺ نے کسی نبی کو اس کی امت کی طرف سے دیا ہے ۔




صحابہ کرام کی نبی کریمﷺ کے ساتھ محبت کے خاص خاص واقعات !


امام بزّارؒ نے حضرت علی بن ابی طالبؓ سے روایت نقل کی ہے ۔(اس کی اصل صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مختصر روایت ہے) کہ حضرت علیؓ نے خطبہ دیا اور فرمایا: اے لوگو! سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ لوگو ں نے کہا : اے امیر المؤمنین! وہ آپ ہیں ، تو انہوں نے فرمایا : جہاں تک میرا تعلق ہے ، مجھ سے جس نے بھی مقابلہ کیا تو میں نے اس سے بدلہ لیا ہے ۔ لیکن سب سے زیادہ بہادر ابوبکرؓ ہیں ، ہم نے غزوہِ بد ر کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے لئے ایک سائبان بنایا اور ہم آپس میں کہنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آج کون ہوگا، تاکہ مشرکین میں سے کوئی آپ کی طرف نہ آسکے ! پس بخدا ہم میں سے ابوبکر کے سوا کوئی بھی آپ ﷺ کے قریب نہیں گیا ۔ وہ تلوار تانے ہوئے آپ ﷺ کے سرپر کھڑے ہوگئے ، اور جو مشرک بھی آپ کی طرف آتا، آپ اس کے سامنے کھڑے ہوجاتے ۔ یہ سب لوگوں میں زیادہ بہادر ہیں ۔
نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : میں نے قریش کو دیکھا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو پکڑا ہوا ہے ، کوئی آپ کو مار رہاہے ،کوئی برا بھلا کہہ رہا ہے، کوئی دھکے دے رہا ہے اور کہہ رہے ہیں : تو نے اتنے معبودوں کو چھوڑ کر صرف ایک معبود چن لیا ہے ؟ پس بخدا !ہم میں سے کوئی بھی آپ ﷺ کے قریب نہیں آیا سوائے ابوبکررضی اللہ عنہ کے ، وہ آئے اور کسی کو ماررہے ہیں ، کسی سے لڑ رہے ہیں اور کسی کو دھکادے رہے ہیں ، اور کہہ رہے ہیں : تم ہلاک ہوجاؤ، تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے ؟!
پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اوپر سے چادر اتاری اور رونے لگے ،یہاں تک کہ ان کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی ۔پھر فرمانے لگے کہ مجھے بتاؤ کہ فرعون کے خاندان کا مؤمن بہتر ہے یا ابوبکر؟ لو گ خاموش ہوگئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بخدا ابوبکر کی ایک گھڑی فرعون کے خاندان کے مؤمن سے زمین بھر جائے ،ان سے بہتر ہے ۔ کیونکہ فرعون کے خاندان کے شخص نے ایمان چھپا رکھا تھا اور ابوبکر وہ ہیں جنہوں نے اپنے ایمان کا اعلان کیا تھا ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے محمد بن سیرین سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں کچھ لوگ آپس میں تبصر ہ کررہے تھے ، جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر فضیلت دے رہے ہیں، جب حضرت عمررضی اللہ عنہ کو یہ بات پہنچی تو وہ فرمانے لگے : بخدا! ابوبکر کی ایک رات آل عمر سے بہتر ہے اور ابوبکر کا ایک دن آل عمر سے بہتر ہے۔ رسول اللہ ﷺ ایک رات گھر سے نکلے اور غار کی طرف روانہ ہوگئے اور آپ کے ساتھ ابوبکر بھی اور وہ کبھی آپ ﷺ کے آگے اور کبھی آپ کے پیچھے چلتے تھے، یہاں تک کہ آپ ﷺ سمجھ گئے اور فرمانے لگے : اے ابوبکر ! کیا بات ہے؟ کبھی آپ میرے پیچھے اور کبھی میرے آگے چلتے ہیں ؟ تو آپ نے عرض کیا : یارسول اللہ ! کبھی میں سوچتا ہوں کہ ہمارا پیچھا کوئی نہ کررہا ہوتو میں پیچھے چلتا ہوں اور کبھی سوچتا ہوں کہ کوئی آگے تاک لگائے نہ بیٹھا ہو تو آپ کے سامنے چلتا ہوں ۔
آپ ﷺ نے فرمایا : اے ابو بکر ! اگر کوئی چیز ہو تو کیا آپ کو یہ پسند ہے کہ آپ میرے سامنے آجائیں ؟ حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا: جی ہاں ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے ،پھر جب وہ دونوں غار کے پاس پہنچے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یارسول اللہ ! آپ ذرا ٹھہر جائیں ،تاکہ میں آپ کے لئے غار کو صاف کردوں ، ابوبکرغار میں داخل ہوئے اور اسے صاف کیا ، بعد میں انہیں خیال آیا کہ ایک سوراخ بند نہیں کیا ، تو عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ذرا ٹھہر یں، میں اسے بند کردوں، پھر وہ غا ر میں داخل ہوئے اور اس سوراخ کو بند کرکے عرض کیا :یا رسول اللہ ! تشریف لائیں ! پھر آپ ﷺ اند ر تشریف لے گئے۔
پھر حضرت عمر رضی اللہ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہٴ قدرت میں میر ی جان ہے ،وہ رات آل عمر سے بہتر ہے ۔
حضرت ابوبکرؓ اسلام سے پہلے بھی ان اوصاف کے ساتھ اپنی قوم میں مشہور تھے کہ : وہ غریبوں کی مدد کرتے تھے، صلہ رحمی کرتے تھے ، بے نواؤں کا سہارا تھے ، مہمان نوازی کرتے تھے اور آسمانی آفات میں مدد کرتے تھے، جاہلیت میں بھی کسی گناہ میں ملوث نہیں ہوئے ، نرم دل تھے ، کمزوروں کے ساتھ نہایت رحم دل، یہ صفات ہیں جو نبی کریم ﷺ کی صفات تھیں ، لہذا اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ ابوبکرؓ نبی کریم ﷺ کی طرف مائل ہوں اور مردوں میں آپ کے دین پر ایمان لانے والے پہلے مرد ہوں ۔
حضر ت ابوبکرؓ کی دعوت بہت پر تاثیر تھی، آپ تاجر تھے اور تجارت کی وجہ سے لوگوں میں جا ن پہچان تھی تو آپ نے ایمان لانے کے بعد ایمان کی دعوت شروع کردی اور رسول اللہ ﷺ کی طرف لوگوں کو بلانے لگے ، اس لئے بہت سے لوگ آپ کی وجہ سے ایمان لے آئے ، جن میں حضرت سعد بن ابی وقاص ، عبدالرحمن بن عوف ، عثمان بن عفان ، طلحہ ، زبیر اور سعید بن زید رضی اللہ عنہم جیسے حضرات تھے ۔
حضرت ابوبکرؓ رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی حاصل کرنے اور آپ کے دین کی خدمت کے لئے اپنا مال خرچ کرتے تھے ، غلاموں کوآزاد کرتے ، آپ نے بہت سے غلاموں کو آزاد کیا، جن میں حضرت بلال بن ابی رباح ،عامربن فُہَیرہ، اُم عُبیسں، زِنِّیرہ ، نہدیہ اوران کی بیٹی ، بنومؤمل کی باندی وغیرہ کے نام مشہور ہیں ، جس کی وجہ سے آپ کو لو گ ” واھب الحرّیات “ آزادیاں دینے والے اور ” محرر العبید “ غلاموں کو آزاد کرنے والے کے القاب سے یاد کرتے تھے ۔
اسی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کی نصرت کے لئے اپنا مال خرچ کیا ، اور ہجرت کے سفر میں تو اپنا سار ا مال اپنے ساتھ رکھ لیا تھا ، اس کے بعد بھی جب کبھی مال خرچ کرنے کا داعیہ پیدا ہوتا تو آپ دوسروں سے سبقت لے جاتے اور کتنے ہی ایسے مواقع آئے کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کیلئے اپناسار ا مال خرچ کر ڈالا اور گھر والوں کے لئے اللہ اور اس کے رسول کے نام کو چھوڑا۔اور ان تما م اعمال میں اللہ تعالی کی رضامندی مقصود ہوتی تھی اور آپ ہی کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں :
﴿وَسَیُجَنَّبُھَاالأْتْقٰی الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالہ یتزکیَ وَمَا لِاَحَدٍعِنْدَہ مِّنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰی اِلَّاابْتِغَاءَ َوجْہِ رَبِّہِ الأْعْلٰی﴾ ( الیل:۱۷ ۲۱ )
ترجمہ :۔”اور بچا دیں گے اس سے بڑے ڈرنے والے کو جو دیتا ہے اپنا مال دل پاک کرنے کو اور نہیں کسی کا اس پر احسان ،جس کا بدلہ دے مگر واسطے چاہے مرضی اپنے رب کی جو سب سے بر تر ہے اور آگے وہ راضی ہو گا۔“
اور جب حضرت سعد بن ابی وقاصؓ حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پر اسلام لائے تو سورة لقمان کی بعض آیا ت نازل ہوئیں ،جن میں ایک آیت یہ بھی ہے :
﴿واتَّبِع سَبِیْلَ مَنْ أنَابَ إِلَیَّ﴾ ( لقمان :۱۵)
ترجمہ:۔”اور راہ چل اس کی جو رجوع ہوا میری طرف ۔“
نیز حضرت ابوبکرؓ رسول اللہ ﷺ کے ہاں سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ محبوب تھے، حضرت عمررضی اللہ عنہ کا قول ہے :
” ابوبکرسیدنا،وخیرنا،واحبّناإلی رسول الله ﷺ“
ترجمہ:۔” ابوبکر ہمارے سردار ہیں ، اور ہم میں سب سے بہتر ہیں ۔اور سب سے زیادہ رسو ل اللہ ﷺ کو محبوب ہیں ۔“
اور حضرت ابوبکرؓ کو سب لوگوں سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی معرفت حاصل تھی ،صحیح اور مشہور حدیث میں آیا ہے کہ جب آپ ﷺ نے زندگی کے آخری خطبے میں یہ فرمایا :
”إن عبداً خیّرہ اللّٰہ بین أن یؤتیہ من زھرة الدنیا ماشاء و بین ماعندہ ، فاختار ماعندہ “
یعنی ایک بند ہ کو اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا ہے کہ یا دنیا کی زیبائش میں سے جو چاہے اسے دے دے یا جو اللہ کے ہاں ہے وہ اسے مل جائے تو اس بند ہ نے جو اللہ کے پاس ہے اسے پسند کر لیا ہے ۔“
حضرت ابوبکرؓ یہ سن کر رونے اور کہنے لگے :
” فدیناک یا رسول الله بآبائناو أمّہاتنا“
ترجمہ:۔”یارسول اللہ ! ہمارے باپ اور مائیں سب آپ پر قربان ہوجائیں۔“
تو راوی کہتے ہیں کہ ہمیں تعجب ہو ا کہ یہ بزرگ کیوں رو رہے ہیں ، آپ ﷺنے تو ایک شخص کا ذکر فرمایا ہے ، پھر پتا چلا کہ جس بندہ کو اللہ نے اختیار دیا ہے وہ خود رسول اللہ ﷺ تھے ، اور حضرت ابوبکرؓ کو ہم سے زیادہ آپ کی معرفت حاصل تھی ۔اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
”مامن الناس أحد أمنّ إلینا فی صحبتہ وذات یدہ من ابن أبی قُحافة ، ولوکنت متّخدا خلیلاً لاتّخذت ابن أبی قحافة خلیلاً ،وفی روایة ابابکر“․
ترجمہ:۔”لوگوں میں سے کسی شخص کا رفاقت اور مال میں مجھ پر اتنا احسان نہیں جتنا کہ ابوبکر کا مجھ پر ہے ․اور اگر میں کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابن ابو قحافہ کو اپنا خلیل بناتا ، اور ایک روایت میں (ابن ابوقحافہ کے بجائے ابوبکر ہے )۔“
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے ایک خطبہ میں فرمایا :”ہم پر جس کسی کا بھی احسان ہے ہم نے اس کا بدلہ اسے دے دیا ، سوائے ابوبکر کے ، کہ اس کا ہم پر ایسا احسان ہے جس کا بدلہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن عطا فرمائیں گے ․اور جتنا کہ ابوبکر کے مال نے مجھے فائدہ پہنچایا اتنا کسی کے مال نے فائدہ نہیں پہنچایا ۔ پھر آپ ﷺ نے خطبہ کے آخر میں فرمایا : ابوبکر کے تاقچہ کے علاوہ کسی کا دروازہ مسجد میں کھلانہ رکھا جائے ․ اور ایک روایت میں ہے کہ : ”ابوبکر کے دروازہ کے علاوہ کسی کا دروازہ نہ رکھا جائے، کیونکہ میں نے اس پر نور دیکھا ہے ․،،
آپ ﷺ کے اس ارشاد میں حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ صرف ان کا تاقچہ باقی رکھا جائے ․ اور خوخہ ایک چھوٹا سا دروازہ تھا جو براہ راست مسجد نبوی میں کھلتا تھا،لہذااسے باقی رکھا گیا، کیونکہ وہ حضرت ابوبکرؓ کی ضرورت تھی ․تاکہ وہ مسلمانوں کے معاملات کی نگرانی کر سکیں ․ حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے بارے میں اشارہ کرنے والی احادیث بہت ہیں ․ اور ان کی خلافت پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور رسول اللہ ﷺ کے اہلبیت کا اجماع ہے ۔ 



حضرت عمرؓ کی حضور ﷺ سے محبت !


حضرت عمرؓ اپنی جاہلیت کے دور میں مسلمانوں کے سخت مخالف تھے ، اور ان کا اسلام لانا اسلام کی عظیم نصرت تھی ․ اور آپ کا اسلام لانا رسول اللہ ﷺ کی دعاء کی قبولیت کا نتیجہ تھا،جس میں آپ نے فرمایا :
”اللّٰھم أعز الاسلام بأحب العمرین إلیک : عمرو بن ھشام ۔ ھو ابوجھل ۔ أو عمر بن الخطاب“
ترجمہ: اے اللہ عمرین میں سے جو آپ کو زیادہ محبوب ہے، اس کے ذریعے اسلام کو عزت بخش : عمرو بن ھشام - ابوجھل - یا عمر بن الخطاب “․
اور جب سے حضرت عمرؓ مسلمان ہوئے ،مسلمان اپنے آپ کو طاقتور محسوس کرنے لگے ․ اور نبی کریم ﷺ ان کو لے کر بیت اللہ میں تشریف لے گئے اور سب نے طواف کیا ، اور کوئی ان کو خوف زدہ نہ کر سکتا تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ نے اپنی جان اور ہر قیمتی چیز کو نبی کریم ﷺ پر قربان کر دیا ․ اور رسول اللہ ﷺ کی محبت کو اپنے نفس کی محبت سے بھی زیادہ ثابت کیا ، جیسا کہ ان کی گفتگو صحیح بخاری میں گزر چکی ہے ۔
اور ان کی اس شدید محبت کا نتیجہ تھا کہ ان کی اکثر رائے وحی کے موافق ہوتی تھی ․ ان کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
” إن الله جعل الحق علی لسان عمرو قلبہ“․
ترجمہ:۔”بیشک اللہ تعالی نے عمر کی زبان اور دل پر حق کو جاری کیا ہے ۔“
نیز حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ : جب بھی مسلمانوں کو کوئی معاملہ در پیش ہوا اور انہوں نے اس میں اپنی رائے دی ہو اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی رائے دی ہو تو حضرت عمرؓ کی رائے کے مطابق قرآن اترا ۔ حضرت عمرؓ کی محبت کے واقعات میں ایک یہ بھی ہے کہ آپ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ سے عمرہ ادا کرنے کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے مجھے اجازت دے دی اور فرمایا :
”لا تنسنا یا اُخَیّ من دعائک ،،
ترجمہ:۔”میرے پیارے بھائی! مجھے اپنی دعامیں نہیں بھلانا ۔“
حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ : یہ ایسی بات ہے کہ اس کے بدلے اگر مجھے پوری دنیا مل جائے تو مجھے اتنی خوشی نہ ہوتی یعنی آپ ﷺ کا یہ فرمانا : ”یا اُخَیّ “ اے میرے پیارے بھائی ! جتنی خوشی مجھے اس بات سے ہوئی ہے ۔
نیز صحیح حدیث میں حضرت عمرؓ کا یہ قول وارد ہوا ہے کہ : میں رسول اللہ ﷺکے پاس حاضر ہوا اس حال میں کہ آپ ﷺ ایک چٹائی پر تشریف فرماتھے ․ تو میں بیٹھ گیا، آپ ازارباندھے تھے، آپ کے جسم مبارک پر دوسرا کپڑا نہ تھا ، اس چٹائی کے نشانات آپ کے جسم مبارک پر ظاہر تھے ․ دیکھتا کیا ہوں کہ کمرہ میں ایک طرف ایک صاع کے قریب جو کے دانے پڑے ہیں ․ دوسرے کونے میں چمڑا پکانے کے چھلکے ․ ایک کچا چمڑا لٹکا ہوا ، یہ دیکھ کر میری آنکھیں بہہ پڑیں ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اے خطاب کے بیٹے ! کیوں روتے ہو ؟میں نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی ! میں کیوں نہ رووٴں ، حال یہ ہے کہ اس چٹائی نے آپ کے جسم مبارک پر نشانات بنا دیئے ہیں ․ اور کمرہ میں آپ کی کل پونجی وہ ہے جو مجھے نظر آ رہی ہے ․ ادھر وہ قیصر و کسریٰ ہیں جو باغوں اور نہروں میں زندگی بسر کر رہے ہیں ، اور آپ اللہ کے نبی ہیں اور اس کے برگزیدہ ہیں اور یہ آپ کا پورا خزانہ ہے ! تو آپ ﷺ نے فرمایا : اے خطاب کے بیٹے ! کیا آپ کو یہ پسند نہیں کہ ہمارے لئے تو آخرت ہو اور ان کے لئے دنیا ؟ اور ایک دوسری صحیح حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں : یہ وہ لوگ ہیں جن کو ان کی دنیا کی لذات دنیا میں ہی دے دی گئی ہیں ․
اور حضرت عمرؓ کی حضورﷺ سے محبت کی علامت آپ کے اہل بیت سے ان کی شدید محبت ہے ․ اور یہی تمام صحابہ کرام کی عام عادت مبارک تھی، حضرت عمرؓ اہل بیت رضی اللہ عنہم کو بہت عطیات پیش کرتے تھے ، اور دوسرے لوگوں سے پہلے ان کو دیتے ․ اور حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو اپنے قریب رکھتے ۔
نیز آپ حضرت علیؓ کو بھی اپنے بہت قریب رکھتے ، اور اہم معاملات میں اس وقت تک فیصلہ نہ فرماتے جب تک حضرت علیؓ سے مشورہ نہ فرمالیتے ․ اور ان کا یہ حکیمانہ مقولہ مشہور ہے ” قضیة و لا اباحسن لہا “ ؟ اور ان کا یہ مقولہ : ” لولا علی لہلک عمر“ اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتے ۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نہایت محبت اور اخلاص سے انہیں مشورہ دیتے ․ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیت المقدس کے سفر پر روانہ ہوئے تو آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ میں تمام امور خلافت کا نائب مقرر فرمایا ۔
محترم قاری ! آپ ایسے لوگوں کی طرف توجہ نہ دیں جو تاریخ کو بگاڑتے ہیں ، اور حضرت عمراور دوسرے خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی صاف ستھری سیرت کو تبدیل کرنے کی کو شش کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کے آخری دور تک مسلمان ایک جماعت تھے اور کسی مسلمان کے ذہن میں خلافت کے بارے میں کوئی اشکال نہیں تھا ، اور اس بارے میں بھی کوئی اشکال نہیں تھا کہ کون خلافت کا زیادہ حق دار ہے ۔
حضرت علی اور حضرت عمررضی اللہ عنہما کے درمیان خصوصی اخوّت اور محبت کے لئے یہی ذکر کردینا کافی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اپنی گوشہٴ جگر صاحبزادی حضرت ام کلثوم کا نکاح کردیا تھا ، جو کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی صاحبزادی تھیں ۔
نیز اس اخوّت اور محبت کے لئے یہ بھی ذکر کردینا کافی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک صاحبزادہ کا نام عمر، اور ایک کا ابوبکر اور ایک کا عثمان رکھا ، اور انسان اپنی اولاد کے لئے ان ناموں کاانتخاب کرتا ہے جو اسے سب سے زیادہ محبوب ہوں اور جن کو وہ اپنے لئے اقتداء کا بہترین نمونہ سمجھتا ہے ۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
”قدیکون فی الأمم محدّثون أی ملہمون کمافی روایة ،فإن یکن فی أمّتی أحد فعُمربن الخطاب “
ترجمہ:۔”کبھی امتوں میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کو الہام ہوتا ہے ، اور اگر میری امت میں کوئی ہے تو وہ عمر بن الخطاب ہیں ۔“
بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ حدیث مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا ۔میں نے جنت میں ایک سونے کا محل دیکھا ، تو میں نے پوچھا : یہ کس کا ہے ؟ تو مجھے جواب ملا کہ : یہ عمربن الخطاب کا ہے ، رضی اللہ عنہ و ارضاہ ۔


حضرت عثمان بن عفّانؓ کی حضورﷺ سے محبت


حضرت عثمان بن عفّانؓ اسلام کے سابقین اولین میں سے ہیں ، اور عظیم قدر و منزلت کے مالک ہیں، انہوں نے اللہ کی راہ میں سخت تکلیفیں اٹھائیں،اس کے باوجود وہ نبی کریم کی محبت میں آگے بڑھتے گئے اور نبی کریم کی محبت ان سے بڑھتی گئی اور جب ابو لہب کے دوبیٹوں نے ( جو نبی کریم ﷺ کے داماد تھے)اپنے والدین کے حکم سے آپ ﷺ کی دو صاحبزادیوں: رقیہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہما کو طلاق دے دی، تاکہ اس طرح نبی کریم ﷺ کو دکھ پہنچے تو حضرت عثمانؓ آگے بڑھے اور حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا رشتہ طلب کیا ، تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ان کا نکاح کردیا۔حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا ان کی حسنِ معاشرت سے بہت خوش ہوئیں ۔
حضرت عثمانؓ کو مشرکین مکہ کی طرف سے بہت تکلیفیں اٹھانی پڑیں، آخر کار اپنی اہلیہ کے ساتھ حبشہ کی طرف دوبار ہجرت فرمائی ، پھر حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا وفات پاگئیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ ﷺ میں محبت اتنی بڑھ گئی کہ آپ ﷺ نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو آپ کے نکاح میں دے دیا اوریہ سنہ ۳ہجری کا واقعہ ہے ۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :” اے عثمان! یہ جبریل ہیں ، انہوں نے مجھے خبر دی ہے کہ اللہ تعالی نے ام کلثوم کا آپ سے نکاح کردیا ہے، رقیہ جیسے مہراور اس جیسے حسن ِ معاشرت کے ساتھ۔“
آپ ﷺ کی حضرت عثمانؓ سے اگر انتہائی محبت نہ ہوتی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی آپ ﷺ سے غایت محبت نہ ہوتی تو آپ ان سے دوسری صاحبزادی کانکاح نہ فرماتے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ کو مستقبل میں حضرت عثمانؓ پر بڑا اعتماد تھا اور حضرت عثمانؓ کی یہ ایک عظیم منقبت ہے کہ سابقہ امتوں میں کوئی ایسا شخص نہیں گزرا جس نے پیغمبر کی دوبیٹیوں سے شادی کی ہو، سوائے حضرت عثمان بن عفان کے ۔
سیدنا عثمان بن عفانؓ بڑے شرم و حیا والے اور کریم النفس تھے یہاں تک کہ فرشتے بھی ان سے شرم کرتے تھے، جیسا کہ حدیث میں وارد ہو اہے ، اور ہروہ کام جس سے اللہ اوراس کے رسول اللہ ﷺ خوش ہوتے اس میں کبھی انہوں نے کوتا ہی نہیں کی ، اور مشہور ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر جیش عسرہ کی پوری تیاری آپ نے کی تھی اور یہ غزوہ مسلمانوں کی تنگی کے وقت یعنی مال کی کمی کے وقت پیش آیا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پور ے لشکر کی تیاری کی، یہاں تک کہ اونٹوں کے لئے نکیل اور رسی تک مہیا کی ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جیش العسرہ کے لئے نو سوچالیس اونٹ اور ساٹھ گھوڑے پیش کر کے ایک ہز ار مکمل کردئیے ، ایک روایت میں ہے :تین سو اونٹ ان کے پالان اور جُھل کے ساتھ اللہ کی راہ میں دئیے ۔غالباً یہ ابتداء میں ایسا ہوا پھر ہزار پورے کردئیے جیسے پہلے ذکر ہوا ، جس پر نبی کریم ﷺ فرمانے لگے : ” ماضرّ عثمان ماعمل بعد الیوم“ یعنی۔”آج کے بعد عثمان جو کام کرے اسے کوئی نقصان نہیں ۔“
اور آپ ﷺ نے یہ جملہ بار بار دُہرایا ،اس کے علاوہ حضرت عثمانؓ نے مزید ایک ہزار اشرفی مصارف کے لئے آپ ﷺ کی جھولی میں لا کر ڈال دی (اور دینا ر پانچ گرام سونے کا ہوتا ہے )اس کے بعد آپ ﷺ کے اس قول پر کسی تعجب کی ضرورت نہیں ۔
آئیے! آپ کو ایک سخاوت کی قیمت بتاوں ، ایک اونٹ قربانی کے سات بکروں کے برابر ہوتا ہے اور دینا رکم ازکم ایک قربانی کے جانور کے برابر اور کبھی دو جانور کے برابر ہوتا تھا۔تواب آپ ﷺ کے حضرت عثمان ؓ کے حق میں ”ما ضرّ عثمان ماعمل بعد الیوم“یعنی:۔”آج کے بعد عثمان جو عمل بھی کرے اس کے لئے مضر نہیں“۔فرمانے کے بعد آپ کو ان جاہلوں کے اتہامات کا اندازہ ہوجائے گا جو انہوں نے حضر ت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے ولات پرباندھے ہیں، کیوں کہ انہوں نے انہی حضرات کو مختلف عہدے سونپے ہیں جن کو نبی کریم ﷺ اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے دورِ خلافت میں سونپے گئے تھے ۔
نبی کریم ﷺ کے ہاں حضرت عثمانؓ کی قدر و منزلت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ جب آپ ﷺ نے صلح حدیبیہ کے موقع پر ان کو اپنا نمائندہ بنا کر قریش مکہ کے پاس بھیجا اور ان کے واپس آنے میں تاخیر ہوگئی تو مسلمانوں کو گمان ہوگیا کہ قریش نے ان کو قتل کردیا ہے تو نبی کریم ﷺ نے مشرکین سے لڑنے کے لئے بیعتِ رضوان کی دعوت دی ، تاکہ حضرت عثمان ؓ کے خون کا بدلہ لیں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ ﷺ سے درخت کے نیچے بیعتِ رضوان فرمائی اور رسو ل اللہ ﷺ نے اپنے دو مبار ک ہاتھوں میں سے ایک ہاتھ کو اٹھاتے ہوئے فرمایا : یہ عثمان کی طرف سے ہے اور اس سے دوسرے ہاتھ مبارک پر بیعت فرمائی اور حضرت عثمانؓ کی یہ وہ فضیلت حاصل ہے جو کسی اور کو حاصل نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ مبار ک ان کے لئے ان سب کے ہاتھوں کے مقابلہ میں بہترتھا ۔رضی اللہ عنہم اجمعین۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی زندگی عظیم کارناموں سے بھری پڑی ہے ، جب سے وہ حبشہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچے آپ ﷺ کے ساتھ رہے اور جو ان سے ممکن ہوا خیر کے کاموں میں حصہ لیتے رہے ، پھر ان کی خلافت کا دور بھی عظیم فتوحات سے بھرا پڑا ہے ۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مقام اور رسول اللہ ﷺ سے غایت ِ محبت کا اندازہ آپ اس گفتگو سے لگائیں جس سے انہوں نے خوارج کو لاجواب کردیا تھا۔ چنانچہ محدثین حضرات کی اسانیداور باریک شرائط کے ساتھ حضرت ثُمامہ بن حَزْن قشیر ی مشہور ثقہ تابعی رحمہ اللہ تعالی سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں : میں اس وقت حاضر تھا جب حضرت عثمانؓ نے اپنے مکان کی چھت پر کھڑے ہو کر باغیوں سے مخاطب ہو کر فرمایا : اپنے ان دو ساتھیوں کو میرے سامنے لاؤ جنہوں نے تمہیں میرے خلاف ابھارا ہے ! چنانچہ ان دونوں کو لایا گیا گویا کہ وہ دو اونٹ ہیں یا جیسے وہ دوگدھے ہیں ! اب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ لوگوں کے سامنے آئے اور فرمایا، میں تمہیں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں : کیا تمہارے علم میں ہے کہ جب رسو ل اللہ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو مدینہ میں سوائے ” بئر رَومہ “ کے میٹھے پانی کا کوئی کنواں نہ تھا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا :کوئی ہے جو بئر رُومہ کو خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کردے اوراس میں اس کا حصہ ہواس خیر کے بدلے جو اسے جنت میں دی جائے گی ؟ تومیں نے اسے اپنے ذاتی مال سے خریدا ؟ اور آج تم نے مجھے اس کے پانی پینے سے بھی روک رکھا ہے، جبکہ میں عام کھارا پانی پی رہا ہوں ! سب نے کہا: اللہ گواہ ہے کہ ایسا ہی ہے ۔
پھر فرمایا : میں تمہیں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا تمہیں معلوم ہے کہ مسجد نبوی نمازیوں کے لئے تنگ ہوگئی تھی تو رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: کون ہے جو فلاں خاندان کی زمین خرید کر مسجد میں شامل کردے؟ اس خیر کے بدلے جو اسے جنت میں دی جائے گی ؟ تو میں نے وہ زمین اپنے ذاتی مال سے خرید کر مسجد میں شامل کی، اور آج تم نے مجھے اس میں دو رکعت نماز پڑھنے سے بھی روک رکھا ہے ؟ سب نے کہا :اللہ گواہ ہے، ایسا ہی ہے۔
پھر فرمایا : میں تمہیں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا تمہیں معلوم ہے کہ ” جیش العسرہ “ کا انتظام میں نے اپنے مال سے کیا تھا؟ سب نے کہا اللہ گواہ ہے کہ ایسا ہی ہوا ہے ۔
پھر فرمایا : میں تمہیں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتاہوں کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ ثبیر کے پہاڑ پر کھڑے تھے اور آپ کے ساتھ ابوبکر وعمر اور میں کھڑا تھا تو پہاڑ ہلنے لگا یہاں تک کہ اس کے پتھر نیچے گرنے لگے توآپ ﷺ نے اس پر اپنا پاؤں مبار ک مارا اور فرمایا : ٹھہر جاؤ اے ثبیر! تجھ پر اس وقت ایک نبی ایک صدیق اور دوشہید کھڑے ہیں ؟ تو سب نے کہا:اللہ گواہ ہے کہ ایسا ہی ہو اتو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” اللہ اکبر “ سب نے میری گواہی د ی ہے اور رب کعبہ کی قسم میں شہیدہونے والا ہوں۔ آپ نے یہ بات تین بار فرمائی ۔یہاں تک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو ذکر ہو ا،یہ بہت سی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے فضائل اور مناقب میں بہت سی احادیث وارد ہیں۔
نیز بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صحیح اور حسن اسانید سے یہ بھی ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس فتنہ کے بارے میں خبر دی ہے جس میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوں گے اور وہ حق پر ہوں گے ۔اور وہ مظلوم قتل ہوں گے۔ ان احادیث میں ایک حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کی حدیث ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ : رسول اللہ ﷺنے ایک فتنہ کاذکر فرمایا، اتنے میں ایک شخص کا وہاں سے گزر ہوا تو آپ ﷺ نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ شخص جو منہ پر کپڑا لٹکائے جارہا ہے، یہ اس فتنہ میں مظلوم قتل ہوگا۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس شخص کو دیکھا تو وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تھے ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حیاء اور لوگوں کی جان کی فکر کا یہ حال تھا کہ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، اپنے محافظوں اور اپنے غلاموں کو اس سے روک دیا تھا کہ وہ ان کی طرف سے باغیوں سے قتال کریں اور فرمایا کہ : میری وجہ سے کسی کا خون نہ بہایاجائے ، اور انہیں قسم دے کر فرمایا کہ وہ چلے جائیں، اور اپنے غلاموں سے فرمایا: جس نے اپنے ہتھیار پھینک دئیے وہ آزاد ہے اوران کے گھر میں سات سو کے قریب ایک بڑی جماعت تھی، اگر ان کو چھوڑ دیتے تو وہ ان باغیوں کو ماربھگاتے ۔
آخری دن انہوں نے اپنی شہادت کے بارے میں بھی گفتگو فرمائی اور فرمایا کہ: یہ لوگ مجھے قتل کریں گے، پھر فرمایا: میں نے نبی کریم ﷺ کو اور آپ کے ساتھ ابوبکر و عمرکو خواب میں دیکھاہے تو نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا : اے عثمان ! ہمارے ساتھ افطار کرو، چنانچہ اس دن آپ نے روزہ رکھا اور روزہ کی حالت میں شہید کردئیے گئے ۔”رضی الله عنہ وأرضاہ وأجزل عن القرآ ن و خدمات الاسلام مثوبتہ وأعلیٰ مأ واہ ۔

حضرت علی ؓ کی حضور ﷺ سے محبت کا بیان


آپ، رسول اللہ ﷺ کے چچازاد بھائی ہیں اور آپ کی گود میں پلے ہیں ، آپ ﷺکی نبوت سے تقریباً پانچ سال پہلے پیدا ہوئے اور ایک قول کے مطابق دس سال پہلے۔ مکہ والوں میں قحط سالی آئی، آپ کے چچا ابو طالب کثیر العیال تھے تو نبی کریم ﷺ نے حضرت عباسؓ کے ساتھ یہ طے کیا کہ چچا ابو طالب کا بوجھ ہلکا کیا جائے ،اور ہرایک ہم میں سے ابوطالب کے بیٹوں میں سے ایک ایک کو لے لے ، تو نبی کریم ﷺ نے حضرت علیؓ کو اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت جعفر کو اپنے ساتھ لے لیا ۔
جب نبی کریم ﷺ کو نبوت عطا ہوئی تو حضرت علیؓ آپ ﷺ کے پاس آئے، آپ کو دیکھا کہ آپ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں ،آپ نے ان دونوں سے پوچھا : یہ کونسا دین ہے ؟ آپ ﷺ نے ان کو دینِ اسلام کے بارے میں بتایا ، اور ان کو اسلام کی دعوت دی، حضرت علی رضی اللہ عنہ چلے گئے ، دوسرے دن پھر حاضر ہوئے اور رسول اللہ ﷺ پر ایمان لے آئے ،آپ ﷺ کے ساتھ گھر میں اور پہاڑوں کی وادیوں میں نماز پڑھنے لگے، نیز دوسروں کی رہنمائی کرتے اور انہیں نبی کریم ﷺ تک پہنچاتے۔
جب آپ ﷺ نے ہجرت کا ارادہ فرمایا تو حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ آپ میرے بستر پر سو جائیں ، تاکہ مشرکین کو دھوکہ دے سکیں ، چنانچہ آپ حکم بجالائے اور خطرے کی پرواہ نہیں کی ، اور پھر وہ امانتیں جو نبی کریم ﷺ کے پاس تھیں ان امانت والوں کو پہنچا دیں ، حضرت علیؓ کایہ کارنامہ اس کارنامے کی تکمیل تھی جو حضرت ابوبکر صدیقؓ آپ ﷺ کی رفاقت میں سرانجام دے رہے تھے اور بڑے خطرات اور عظیم مصائب کا مقابلہ کررہے تھے، ہجرت کے بعد نبی کریم ﷺ نے حضرت علیؓ اور حضر ت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہما کے درمیان سیرت نگاروں کے بقول مواخات کا رشتہ قائم فرمایا ،لیکن امام ترمذیؒ نے بسند حسن روایت نقل کی ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان مواخات کا رشتہ قائم فرمایا، پھر مدینہ منورہ کے قیام کے دوران آپ کی کو شش ہوتی کہ آپ وہ کام کریں جو آپ ﷺ کو پسند ہیں، چنانچہ ایک دن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ آپ ﷺ کے چہرے مبار ک پر بھوک کے آثار ہیں تو فوراً ایک یہودی کے باغ میں تشریف لے گئے اور اس کی کھیتی کو کنویں سے پانی دینا شروع کیا اور ستر ہ ڈول نکالے، اس کے بدلے ان کو سترہ کھجوریں ملیں ۔وہ لاکر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کیں تو آپ ﷺ نے فرمایا: آپ کو اللہ اور اس کے رسول کی محبت نے اس کا م پرآمادہ کیا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا: جی ہاں! یارسو ل اللہ ۔
سنہ دو ہجری میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا اور ان کے ساتھ وہ زاھدانہ زندگی گزاری جو نبی کریم ﷺ نے اپنے اہل بیت کے لئے پسند فرمائی تھی۔ اور آپ ﷺ نے محبت اور پیار سے ان کا لقب ” ابوتراب “ رکھا ۔
رسول اللہ ﷺ کے ہاں حضرت علیؓ کی محبت کا خاص مقام تھا ، غزوہ خیبر میں جب ایک قلعہ کا فتح ہونا مسلمانوں پر مشکل ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کل میں جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اوراللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کرتے ہیں، اس موقع پر بڑے بڑے حضرات اس کی خواہش کرنے لگے ہر ایک کی آرزوتھی کہ اسے یہ فضیلت حاصل ہو، آپ ﷺ نے حضرت علیؓ کو بلایا: ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں، وہ تشریف لائے ، تو آپ ﷺ نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب مبارک ڈالا اور دعا فرمائی ، تو وہ اچھے ہوگئے ، گویا ان کو کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی تھی۔ آپ ﷺ نے ان کو جھنڈا پکڑایا، اللہ نے ان کے ذریعہ وہ قلعہ فتح کردیا ۔
حضرت علیؓ اپنے سلف خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم سے بہت محبت رکھتے تھے،حضرت عثمان ؓ کے محاصرہ کے وقت خود بھی ان کا دفاع کیا اور اپنے صاحبزادوں: حضرت حسن اور حضر ت حسین رضی اللہ عنہما کو بھی دفاع کرنے کا حکم دیا۔اور آپ ان لوگوں پر نکیر فرماتے جو ان کو خلفاء راشدین پر فضیلت دیتے تھے ، اس سلسلے میں بہت سی روایات آئی ہیں، ان میں مشہور تابعی حضرت علقمہ رحمہ اللہ کی روایت ہے ،انہوں نے بیان کیا کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں ایک دن خطبہ دیا ، حمد و ثنا کے بعد فرمایا:مجھے معلوم ہوا ہے کہ کچھ لوگ مجھے ابوبکر و عمر پر فضیلت دیتے ہیں، اگر مجھے اس سے پہلے اس بات کی خبر ملتی تو میں ایسے لوگوں کو سز اد یتا ، لیکن معلومات سے پہلے سزادینا پسند نہیں کرتا ۔
لہذا جس شخص نے بھی آج میرے اس خطبہ کے بعد اس قسم کی گفتگو کی تو وہ بہتان باندھنے والا شمار ہوگا،اور اسے وہی سزا دی جائے گی جو بہتان باندھنے والے کو دی جاتی ہے۔ یاد رکھو !رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے افضل ابوبکر ہیں پھر عمر ہیں رضی اللہ عنہما ، ان کے بعد ہم نے ایسے کام کئے ہیں اللہ جو چاہے گا ان میں فیصلہ کرے گا۔
زید بن وھبؒ روایت کرتے ہیں کہ سُوید بن غَفَلہ حضرت علیؓ کے پاس ان کی اِمارت کے زمانے میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے : اے امیر المؤمنین! میر ا ابھی کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزر ہوا ہے جو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کا جومقام و منزلت ہے اس کے خلاف باتیں کررہے تھے ، تو حضرت علیؓ فوراً اٹھے اور منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ کو پھاڑ کر اس سے پورا نکالا ہے اور جس نے انسان کو پیدا کیا ہے ،ان دونوں سے وہی محبت کرے گا جو اونچا مؤمن ہوگا اور ان سے بغض وہی رکھے گا جو بدبخت اوردین سے دور ہونے والا ہوگا ، ان دونوں کی محبت اللہ تعالی کا قرب اور ان دونوں سے بغض دین سے دوری ہے، ان لوگوں کو کیا ہوگیا جو رسول اللہ ﷺ کے دو بھائیوں، آپ کے دو وزیروں ، آپ کے دو ساتھیوں ، قریش کے دو سرداروں ، اور مسلمانوں کے دو باپوں کے بارے میں باتیں کرتے ہیں ؟! میں ہر اس شخص سے برأت کا اظہار کرتا ہوں جو ان دونوں کے حق میں گستاخی کرتا ہے اور اسے سز ابھی دوں گا ۔
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو حضرت علیؓ کے بارہ میں یہ کہتے سنا جب آپ ﷺ نے ان کو ایک غزوہ کے موقع پر اپنا نائب بنایا اور حضرت علی ؓ نے فرمایا : یارسول اللہ ! آپ مجھے عورتوں اور بچو ں پر اپنا نائب بنارہے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا : اے علی ! کیاتجھے پسند نہیں کہ تو میر ا ایسا نائب ہو جیسا کہ حضرت ہارون حضرت موسی کے نائب تھے (جب وہ کوہِ طور پر تشریف لے گئے ) ہاں اتنی بات ہے کہ میرے بعد نبوت نہیں ہے ۔
حضرت علیؓ خود فرماتے ہیں کہ نبی امی ﷺ نے مجھے خود فرمایا ہے، تجھ سے وہی محبت کرے گا جو مؤمن ہوگا ، اور تجھ سے وہی بغض رکھے گا جو منافق ہوگا۔
اہل سنت والجماعة کا یہی عقیدہ ہے ، حضرت علیؓ اور اہل بیت سے محبت کرنا، ان کے لے دعا کرنا ،نمازوں میں ، ذکر کی مجالس میں ، تنہائیوں میں اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اہل بیت پر صلاة و سلام بھیج کر برکت اور خیرطلب کرنا۔ رضوان الله علیہم اجمعین وعلی أصحاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم أجمعین․

صحابہ کرام  کی نبی کریم ﷺسے محبت !


اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نبی کریم ﷺ سے محبت دوسروں کی نسبت زیادہ تھی ، اس لیے کہ یہ محبت مشاھدے اوردیکھنے کی تھی ، اور دیکھنا اور سننا برابر نہیں ، (شنیدہ کے بود مانند دیدہ)
یہاں تک کہ جو حضرات آخر میں اسلام لائے ، وہ بھی آپ ﷺ کے فضل و کمال کے معترف تھے ، کیونکہ انہوں نے آپ ﷺ کے کمال اورآپ کی نبوت کے دلائل کاخود مشاہدہ کیا تھا ۔ لیکن ان کیلئے قبول حق سے جو چیز رکاوٹ بنی ،وہ حمیتِ جاہلیت اور اپنے باپ دادوں پر فخر کرنا تھا ،لیکن جوں ہی اس حمیت کا پردہ چاک ہوا، وہ ایمان لے آئے ، اور ان کا ایمان بھی عظیم ایمان تھا، اور آپ ﷺ سے ان کی محبت بھی عظیم تھی ، یہاں تک کہ انہوں نے اپنے مال اور اپنی جانیں آپ پر قربان کر دیں ۔حضرت عمر و بن العاصؓ کا بیان سنیے :
”ما کان احد احبّ الیّ من رسول الله ﷺ ۔۔۔“
ترجمہ :”رسول اللہ ﷺ سے زیاد ہ مجھے کوئی بھی محبو ب نہ تھا “۔
اور ان ہی جیسے حضرت خالد بن ولیدؓ ہیں ، جن کی عقل سلیم نے ان کی راہنمائی کی اور وہ اسلام لے آئے ، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی راہ میں اپنے آپ کو قربان کر دیا ، جن کورسول اللہ ﷺ نے ” سیف اللہ ، اللہ کی تلوار کا لقب دیا ۔ یہی وہ خالد ہیں جن کی زبان سے وفات کے وقت یہ الفاظ نکل رہے ہیں :
”حضرت مائة معرکة ، وما فی جسمی موضع إلّا فیہ ضربة بسیف ، أو طعنة برمح ، او رمیة بسہم ، ثم ھا انذا أموت علی فراشی کما یموت البعیر ، فلا نامت أعین الجبناء“․
ترجمہ :”میں سو معرکوں میں شریک رہا ہوں اور میرے جسم میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں تلوار ،نیزہ یا تیر کے زخم کا نشان نہ ہو ،لیکن اب بستر پر مر رہا ہوں جیسے اونٹ اپنی جگہ مر تا ہے، اللہ کرے بزدلوں کو نیند نہ آئے۔“
عام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حالات مشہور اور تواتر سے ہم تک پہنچے ہیں اور خاص خاص افرادکے حالات بھی صحیح اور ثابت ہیں، اس لیے یہاں ہم ان کے حالات کو نہایت اختصار سے ذکر کرتے ہیں ۔ اور اس کی ابتداء ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حالات سے کرتے ہیں جن کو مکہ مکرمہ میں سخت ترین ایذائیں دی گئیں اور انہوں نے اللہ کے ذکر اور اس کی توحید سے اس کا مقابلہ کیا، حضرت بلال  جن کی زبان سے :” أحد أحد “ کی آواز بلندہوتی ہے ، اور وہ اس شدید ترین عذاب کو ایمان کی حلاوت اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کی چاشنی سے ملادیتے ہیں ،اور جس کے بعد حضرت بلال اوران جیسے دوسرے حضرات ۔رضی اللہ عنہم ۔ اس ایذاء اور عذاب کی پرواہ نہ کرتے تھے، چاہے وہ کتناہی سخت ہو ۔
غزوہ بد ر میں صحابہ کرام کی آپ ﷺ سے محبت
اہل بد ر کا رسول اللہ ﷺ کی محبت میں اپنی جانوں کا قربان کرنا سب کو معلوم ہے۔
معرکہ بدر کی تیاری کے وقت حضرت سعد بن معاذؓ جوانصار کے بڑے سرداروں میں سے تھے ، اور جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے لئے سائبان بنانے کا مشورہ دیا، تاکہ آپ اس کے سائے میں بیٹھیں۔انہوں نے فرمایا:
”یارسول اللہ ! مدینہ میں کچھ لوگ ایسے پیچھے رہ گئے ہیں کہ ہم ان کے مقابلہ میں آپ سے زیادہ محبت کرنے والے نہیں ،اگر ان کو معلوم ہوجاتا کہ آپ کو جنگ درپیش ہوگی تو وہ ہرگز آپ کے پیچھے نہ رہتے ، اللہ ان کی وجہ سے آپ کی حفاظت فرمائے گا،وہ آپ کے خیر خواہ ہیں ، آپ کے ساتھ مل کر جہاد کرنے والے ہیں “۔
رسول اللہ ﷺ نے ان کی تعریف فرمائی اور ان کے لئے خیر کی دعاء فرمائی ۔ آپ ﷺ کے لئے سائبان بنایا گیا ،جس میں آپ نے آرام فرمایا اور سوائے حضرت ابوبکرؓ کے کسی کو تلوار اٹھا کر آپ ﷺ کی چوکیدار ی کی جرأت نہیں ہوئی، پھر جب معرکہ شروع ہوا تو آپ ﷺ دشمنوں کی صفوں میں داخل ہوگئے ، اور زرہ پہنے ہوئے آپ ﷺ قرآن کریم کی یہ آیت پڑھ رہے تھے:
﴿ سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ ویُوَلُّوْنَ الدُّبُر﴾ (القمر :۴۵)
ترجمہ:۔” اب شکست کھائے گا یہ مجمع اور بھاگیں گے پیٹھ پھیر کر۔“
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انتہائی درجہ کی محبت پر یہ غزوئہ بدر شہادت ہے، ایسی محبت جس میں اپنی جان اور ہر قیمتی چیز کی قربانی ہے ، جس کا آپ ﷺ نے اقرار فرمایا ۔
غزوہ ِ رجیع میں صحابہ کرام کی آپ ﷺ سے محبت
مشرکین نے قرّاء صحابہ رضی اللہ عنہم کو بلا کر عہد شکنی کی اور جب مقابلہ ہوا تو بعض کو قتل کردیا اور دو صحابہ ان مشرکین کے امن کے وعدہ سے دھوکا کھا کر ان کی قید میں چلے گئے ۔اور پھر وہ ان کو مکہ مکرمہ لے گئے، تاکہ مکہ کے مشرک ان کو اپنے ان مقتولین کے بدلے میں قتل کریں، جن کو مسلمانوں نے بد ر میں قتل کیا تھا ۔وہ دوحضرات : زیدبن دَثِنَہ اور خبیب بن عدی رضی اللہ عنہما تھے ۔
حضرت خبیب رضی اللہ سے مشرکین نے کہا : کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ تمہاری جگہ محمدہوتے؟ تو انہوں نے جواب میں فرمایا:اللہ عظیم کی قسم! ہرگز نہیں ۔ مجھے تویہ بھی پسند نہیں کہ میری جان کے بدلے آپ ﷺ کے پاؤ ں مبارک میں کانٹا چبھ جائے ۔
حضرت زید بن دَثنہؓ سے مشرکین کے سردار ابو سفیان نے قتل کے وقت کہا: اے زید! میں تجھے اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں، بتاؤ! کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ محمد اس وقت ہمار ے پاس تمہاری جگہ ہوتے اور ان کی گردن مارڈالی جاتی ، اور تم اپنے گھر میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہوتے ؟ تو انہوں نے جوا ب دیا : کہ بخدا مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ محمد ﷺ جہاں بھی اس وقت تشریف فرماہیں ،وہاں ان کے پاؤں مبارک میں کانٹا چبھے اور اس سے ان کو تکلیف ہو، اور میں اپنے گھر میں بیٹھا رہوں ۔
اس پر ابو سفیان نے کہا: میں نے لوگوں میں کسی کو کسی سے اتنی محبت کرتا نہیں دیکھا جتنا کہ محمد کے صحابہ محمد سے محبت کرتے ہیں ۔عام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نبی کریم ﷺ سے انتہائی محبت پریہ شہادت کافی ہے ۔
غزوہ مصطلق میں صحابہ کرام کی آپ ﷺ سے محبت
نبی کریم ﷺ کو اطلاع ملی کہ قبیلہ بنو المصطلق اپنے سردار حارث بن ابوضرار کی قیادت میں آپ سے جنگ کی تیاری کررہا ہے ،آپ ﷺ نے قبل اس کے کہ وہ حملہ کریں، آپ نے ان پر حملہ کردیا ، اور بے شمار لوگوں کو قیدی بنالیا ، اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنالیا،اور ان کی تعداد بھی بہت تھی اور پھر ان کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا ، ان غلاموں میں اس قبیلہ کے سردار حارث بن ابوضرار کی بیٹی جُویریہ بھی تھی، جویریہ نے اپنے مالک سے (جس کے حصہ میں آئی تھی) مکاتبت کردی یعنی اس سے یہ معاہدہ کرلیا تھا کہ اگروہ اتنا مال اسے دے دے گی تووہ اسے آزاد کردے گا۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جویریہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ سے مکاتبت کے سلسلہ میں مدد کی درخواست کی ، آپ ﷺنے فرمایا : کیا اس سے بھی بہترصورت پسند کروگی؟ وہ کہنے لگی، یارسو ل اللہ! وہ کیا صورت ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: میں تمہاری کتابت کا سارا مال ادا کردوں اور تجھ سے نکاح کرلوں ، اس نے کہا ہاں !یارسول اللہ ، آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے ایسا کردیا ، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :یہ خبر جب لوگوں تک پہنچی کہ رسول اللہ ﷺ نے جویرہ بنت حارث بن ابوضرار سے شادی کرلی ہے تو صحابہ کرام  فرمانے لگے :
حضرت جویریہ کا قبیلہ وقوم رسول اللہ ﷺ کے سسرال والے بن گئے ہیں ، اور صحابہ کرام نے تمام ان غلاموں کو جن کے وہ مالک بن گئے تھے، آزاد کردیا ،یعنی بغیر کوئی بدلہ لئے ہوئے اللہ کے لئے آزاد کردیا ۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ کے اس نکاح سے بنو مصطلق کے ایک سو خاندان آزاد ہوئے اور میں نے اس عورت سے زیادہ اپنی قوم کے لئے برکت والی کوئی عورت نہیں دیکھی ۔
صحابہ کرام  کی رسول الله ﷺ سے کیا خوب محبت ہے ،بنی مصطلق کے سو گھر انے یعنی سو خاندان ، جن کے افراد کی تعداد سات سو بتائی گئی ہے ، جن میں ہر فرد کی قیمت ہمارے آج کے دور میں عمدہ قسم کی گاڑی کے برابر ہے ، ان سب کو صرف اس لئے صحابہ کرام نے آزاد کردیا کہ نبی کریم ﷺ نے اس قبیلہ کی ایک خاتون سے شادی کی ہے ، یہ سب ان کی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ محبت کا نتیجہ تھا ، کیوں کہ وہ قبیلہ والے آپ کے سسر ال بن چکے تھے ۔
غزوہ حدیبیہ میں صحابہ کرام کی آپ سے محبت
مشرکین مکہ نے نبی کریم ﷺ اور مسلمانوں کو حدیبیہ کے مقام پر مکہ مکرمہ میں داخل ہونے اور عمرہ اداکرنے سے روک دیا تھا ، جب کہ آ پ ﷺ بار بار اعلان فرمارہے تھے اور عوام و خواص کو تاکید کے ساتھ فرمارہے تھے کہ وہ قتال کے لئے نہیں آئے بلکہ بیت اللہ کی تعظیم اور عمرہ اداکرنے آئے ہیں ، ادھر قریش کے نمائندے بھی برابر آرہے تھے اور اس سلسلے میں گفتگو کررہے تھے، ان نمائندوں میں ایک عروہ بن مسعود ثقفی بھی تھا اور اس کے مذاکرات بخاری اور حدیث کی دوسری کتابوں میں مذکور اور مشہور ہیں اور اس میں یہ بھی ہے کہ عروہ ، رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کو غور سے دیکھ رہا تھا، جن کا نقشہ اس نے ان الفاظ میں کھینچا ہے ۔
”بخدا ، رسول اللہ ﷺ اگر تھوکتے تو وہ ان صحابہ کرام کے ہاتھ میں پڑتا ہے جسے وہ اپنے منہ اور جسم پر مل لیتے ہیں،جب آپ کسی چیز کا حکم دیتے ہیں تو اس کی تعمیل میں ہر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کو شش کرتا ہے ، اور جب آ پ وضو فرماتے تو قریب تھا کہ اس پانی کو لینے کے لئے جھگڑ پڑیں اور جب آپ گفتگو فرماتے تو وہ سب خاموش ہوجاتے ۔اور ادب و تعظیم کی بنا پر آپ کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے ۔“
عروة نے واپس جاکر اپنے لوگوں سے کہا : اے میری قوم ! بخدا میں بادشاہوں کے دربار میں حاضر ہواہوں، میں قیصر ، کسریٰ ، اور نجاشی کے دربار میں حاضر ہوا، لیکن بخدا میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کی رعایااس کی اتنی تعظیم کرتی ہو جتنی محمد ﷺ کے صحابہ آپ ﷺ کی تعظیم کرتے ہیں ۔اور عام اوقات میں (صحابہ کرام کی محبت کی) یہ دو مشہور حدیثیں ہیں ۔
امام بیہقی نے انصار میں سے ایک صحابی سے روایت نقل کی ہے کہ : رسول اللہ ﷺ جب وضو فرماتے یا تھوکتے تو آپ کے پانی اور تھوک کو حاصل کرنے کے لئے ہر ایک شخص آگے بڑھتا اور اسے لے کر اپنے چہروں اور جسم پر ملتا ،تو آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم ایساکیوں کرتے ہو ؟ انہوں نے عرض کیا کہ: برکت حاصل کرنے کے لئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:” جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ اس سے اللہ اور اس کے رسول محبت کریں تو اسے چاہیے کہ ہمیشہ سچ بولے، امانت ادا کرے اور اپنے پڑوسی کو ایذاء نہ دے ۔“
آپ ﷺ کا یہ فرمانااس لئے تھا کہ صحابہ کرام کے جواب میں محبت جھلک رہی تھی تو آپ نے ان کو ایسے سلوک کی رہنمائی فرمائی جو اس محبت کی طرف لے جانے والا ہے ،حالانکہ پہلے سے صحابہ کرام کو آپ ﷺ سے اتنی محبت حاصل تھی ، کہ آپ کے بچے ہوئے پانی کو چہروں پر ملتے تھے ۔
امام طبرانیؒ نے حضرت عبدالرحمن بن حارث سُلَمیؓ سے روایت نقل کی ہے کہ : ہم ایک دفعہ آپ ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ نے پانی منگایا ، اس میں ہاتھ ڈال کر وضو فرمایا،ہم نے وہ پانی لے کر پی لیا ، نبی کریم ﷺ نے فرمایا : تمہیں کس چیز نے اس عمل پر آمادہ کیا ؟ ہم نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول کی محبت نے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا:” اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول تم سے محبت کریں تو تم( یہ کام کرو) اگر تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو اسے ادا کرو، اور جب بات کرو تو سچ بولو ، اور جو تمہارے پڑوس میں آکر رہے، اس سے اچھا سلوک کرو۔“
غزوہ ِ حنین میں آپ ﷺ کا انصارکو خوشخبری دینا
امام بخاریؒ نے حضر ت انسؓ سے روایت نقل کی ہے جب حنین کا معرکہ ہوا تو ھَوازِن اور غَطَفان وغیرہ قبائل آپ ﷺ کے مقابلہ میں اپنے جانوروں اور عورتوں اور بچوں کے ساتھ آکھڑے ہوئے اور رسو ل اللہ ﷺ کے ساتھ دس ہزار صحابہ اور مکہ کے نو مسلم تھے ، جب مقابلہ ہوا تو ابتداء میں صحابہ ادھر ادھر ہوگئے اور آپ ﷺ تنہارہ گئے ،اس موقع پر آپ نے دو الگ الگ آوازیں لگائیں ،دونوں کو ملایا نہیں ، آپ ﷺ نے دائیں جانب نگاہ فرمائی اور آوا ز دی : او انصار کی جماعت! تو سب نے بیک آواز جوا ب دیا : ہم حاضر ہیں یارسول اللہ! آپ خوش ہو جائیں، ہم آپ کے ساتھ ہیں ، پھر آپ ﷺ نے بائیں جانب نگاہ فرمائی اور آواز دی :”او انصار“ تو انصا ر نے جواب دیا : ہم حاضر ہیں یارسول اللہ !آپ خوش ہوجائیں، آپ ﷺ اپنے سفید خچر پر سوار تھے ، آپ ﷺ اس سے اتر ے اور فرمایا : میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔مشرکین کو شکست ہوئی اور اس دن بہت زیادہ مالِ غنیمت حاصل ہوا، آپ ﷺنے وہ مال مہاجرین اور نومسلموں میں تقسیم کردیا اور انصار کو کچھ نہیں دیا تو بعض نوجوان انصار نے کہا: سختی کے وقت تو ہمیں بلایا جاتا ہے اور مالِ غنیمت دوسروں کو دیا جاتا ہے ! آپ ﷺ کو جب ان کا یہ مقولہ پہنچا تو آپ نے ان کو ایک خیمہ میں جمع کر کے فرمایا: اے انصار کی جماعت ! مجھے کیا بات پہنچی ہے ؟ وہ خاموش ہوگئے، پھر آپ نے فرمایا : اے انصار کی جماعت ! کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ لوگ تو دنیا لے کر اپنے گھروں کو لوٹیں اورتم اللہ کے رسول کو ساتھ لے کراپنے گھروں کو جاؤ؟ سب نے جواب دیا : کیوں نہیں، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگرلوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری وادی میں تو میں انصار کی وادی میں چلوں گا “۔
قبیلہ ثقیف اورھوازن وغیرہ اپنے ساتھ معرکہ میں مال، مویشی ، عورتیں اور اپنے بچوں کو بھی ساتھ لائے تھے ،تاکہ ان کی موجودگی میں خوب جوش سے لڑیں اور شکست سے بچ جائیں ، لیکن اس کے برعکس وہ سب کچھ مسلمانوں کے ہاتھ مالِ غنیمت کے طور پر آگیا،یہاں تک کہ قیدیوں اور غلاموں سے گھر ،جھونپڑیاں اور جگہیں بھر گئیں ، لیکن مہاجرین اور انصار قیدیوں اور غلاموں میں اپنا حصہ وصول کرنے سے دستبردار ہوگئے، اس طرح وہ سب آزاد ہوگئے ، اور یہ سب صحابہ کرام نے رسول اللہ ﷺ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے کیا ، اوریہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی آپ ﷺ سے انتہائی محبت کی دلیل ہے ۔
اسی واقعہ کے ساتھ یہ بھی ہے کہ نبی کریم ﷺ جب مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ ” صفا“ پر کھڑے ہوگئے اور اللہ تعالی سے دعا فرمانے لگے ، انصار آپ کو غو ر سے دیکھ رہے تھے اور آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ ایسا تو نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے لئے جب اللہ تعالی ان کے شہر اور سرزمین کو فتح فرمادے تو آپ یہاں ہی اقامت فرمالیں؟ جب آپ ﷺ دعا سے فارغ ہوئے تو انصار سے فرمایا : تم کیا بات کررہے تھے ؟ انصار نے عرض کیا :کوئی خاص بات نہیں تھی ،لیکن آپ ﷺ برابر اصرار فرماتے رہے، یہاں تک کہ انہوں نے اپنی بات ظاہر کردی، اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا :” معاذ اللہ! میرا تو جینا بھی آ پ کے ساتھ اور مرنا بھی آپ کے ساتھ ہے ۔“ اس واقعہ میں انصار کی آپ ﷺ سے محبت اور اس بات کا خوف کہ کہیں آپ ﷺ ان کو چھوڑ نہ دیں ، اور آپ ﷺ کی ان سے محبت واضح ہے ۔ اور اس میں آپ کا غیب کی خبر دینا معجزہ ہے ، کیوں کہ کسی شخص کو معلوم نہیں کہ کس زمین میں اس کی وفات ہوگی۔


(1) حضرت عبداللہ بن مغفلؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا اللہ کی قسم میں آپ سے محبت کرتا ہوں آپ نے فرمایا: سوچو کیا کہہ رہے ہو۔ وہ کہنے لگا: اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ اس نے تین مرتبہ یہ بات کہی، آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تو مجھ سے محبت کرتا ہے تو فقر کے لئے تیار ہو جا کیونکہ(نبوی طریقہ میں مسکینی اختیار کرنا بھی شامل ہے، تو)جو مجھ سے محبت کرتا ہے تو اس کی طرف فقر اس سیلاب سے بھی تیز رفتاری سے آتا ہے جو اپنے بہاؤ کی طرف تیزی سے چلتا ہے.
[أخرجه الترمذى (4/576، رقم 2350) ، والبيهقى فى شعب الإيمان (2/173، رقم 1471) . وأخرجه أيضًا: ابن حبان (7/185، رقم 2922) ، جامع الأحاديث:380+5591، كنز العمال 17102]
وأخرجه الطبرانى فى الأوسط (7/160، رقم 7157) . وقال المنذرى (4/94) ، والهيثمى (10/314) : إسناده جيد.]

(2) میرے بعد میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرنا اور انکو حدف ملامت نہ بنانا اس لئے کہ جس نے ان سے محبت کی اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض کی اس نے مجھ سے بغض کیا اور جس نے انہیں ایذاء (تکلیف) پہنچائی گویا اس نے مجھے ایذاء دی اور جس نے مجھے اذیت دی گویا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کو اذیت دی اور جس نے اللہ تعالیٰ کو اذیت دی اللہ تعالیٰ عنقریب اسے اپنے عذاب میں گرفتار کرے گا۔
[أخرجه أحمد (16803+20549+20578) ، والبخارى فى التاريخ الكبير (5/131) ، والترمذى (5/696، رقم 3862) وقال: غريب. وأبو نعيم فى الحلية (8/287) ، والبيهقى فى شعب الإيمان (2/191، رقم 1511) . وأخرجه أيضًا: ابن حبان (16/244، رقم 7256) ، والديلمى (1/146، رقم: 525) .]

(3) اگر تجھ سے ہو سکے تو اپنی صبح و شام اس حالت میں کر کہ تیرے دل میں کسی کے لیے کوئی برائی نہ ہو پس تو ایسا کر۔ پھر فرمایا اے بیٹے یہ میری سنت ہے اور جس نے میری سنت کو زندہ کیا گویا کہ اس نے مجھ سے محبت کی جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔
[ترمذى :2678، أبي يعلى:3624، المعجم الصغير للطبراني:856، المعجم الأوسط للطبراني:5991، كنز العمال:19981، جامع الأحاديث:25836]


2 comments:

  1. This is all history, it has nothing to do with ISLAM.

    ReplyDelete
    Replies
    1. This your thinking is not Islam but the way of Prophet is able to follow by The Holy Quran.

      Delete