Saturday, 26 April 2014

کیا تو نے نہیں دیکھا کہ ...

أَلَم تَرَ إِلَى الَّذينَ خَرَجوا مِن دِيٰرِهِم وَهُم أُلوفٌ حَذَرَ المَوتِ فَقالَ لَهُمُ اللَّهُ موتوا ثُمَّ أَحيٰهُم ۚ إِنَّ اللَّهَ لَذو فَضلٍ عَلَى النّاسِ وَلٰكِنَّ أَكثَرَ النّاسِ لا يَشكُرونَ {2:243}
کیا نہ دیکھا تو نے ان لوگوں کو جو کہ نکلے اپنے گھروں سے اور وہ ہزاروں تھے موت کے ڈر سے پھر فرمایا ان کو اللہ نے کہ مر جاؤ پھر ان کو زندہ کر دیا بیشک اللہ فضل کرنے والا ہے لوگوں پر لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے [۴۰۳]
Bethinkest thou not of those Who Went forth from their habitations, and they were in their thousands, to escape death Then Allah said unto them: die and thereafter quickened them. Verily Allah is Gracious unto men; albeit most men give not thanks.
یہ پہلی امت کا قصہ ہے کہ کئ ہزار شخص گھر بار کو ساتھ لے کر وطن سے بھاگے ان کو ڈر ہوا تھا غنیم کا اور لڑنے سے جی چھپایا یا ڈر ہوا تھا دبا کا اور تقدیر پر توکل اور یقین نہ کیا پھر ایک منزل پر پہنچ کر بحکم الہٰی سب مر گئے پھر سات دن کے بعد پیغمبر کی دعا سے زندہ ہوئے کہ آگے کو توبہ کریں اس حال کو یہاں اس واسطے ذکر فرمایا کہ کافروں سے لڑنے یا فی سبیل اللہ مال خرچ کرنے میں جان اور مال کی محبت کے باعث دریغ نہ کریں اور جان لیویں کہ اللہ موت بھیجے تو چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں اور زندگی چاہے تو مردہ کو دم کے دم میں زندہ کر دے زندہ کو موت سے بچا لینا تو کوئی چیز ہی نہیں پھر اس کی تعمیل حکم میں موت سے ڈر کر جہاد سے بچنا یا افلاس سے بچ کر صدقہ اور دوسروں پر احسان یا عفو اور فضل سے رکنا بد دینی کے ساتھ حماقت بھی پوری ہے۔

أَلَم تَرَ إِلَى المَلَإِ مِن بَنى إِسرٰءيلَ مِن بَعدِ موسىٰ إِذ قالوا لِنَبِىٍّ لَهُمُ ابعَث لَنا مَلِكًا نُقٰتِل فى سَبيلِ اللَّهِ ۖ قالَ هَل عَسَيتُم إِن كُتِبَ عَلَيكُمُ القِتالُ أَلّا تُقٰتِلوا ۖ قالوا وَما لَنا أَلّا نُقٰتِلَ فى سَبيلِ اللَّهِ وَقَد أُخرِجنا مِن دِيٰرِنا وَأَبنائِنا ۖ فَلَمّا كُتِبَ عَلَيهِمُ القِتالُ تَوَلَّوا إِلّا قَليلًا مِنهُم ۗ وَاللَّهُ عَليمٌ بِالظّٰلِمينَ {2:246}
کیا نہ دیکھا تو نے ایک جماعت بنی اسرائیل کو موسٰیؑ کے بعد [۴۰۵] جب انہوں نےکہا اپنےنبی سے مقرر کر دو ہمارے لئے ایک بادشاہ تا کہ ہم لڑیں اللہ کی راہ میں پیغمبر نے کہا کیا تم سے یہ بھی توقع ہے کہ اگر حکم ہو تم کو لڑائی کا تو تم اس وقت نہ لڑو وہ بولے ہم کو کیا ہوا کہ ہم نہ لڑیں اللہ کی راہ میں اور ہم تو نکال دیے گئے اپنےگھروں سے اور بیٹوں سے پھر جب حکم ہوا ان کو لڑائی کا تو وہ سب پھر گئے مگر تھوڑے سے ان میں کے اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہےگنہگاروں کو [۴۰۶]
Bethinkest thou not of the chiefs of the Children of Isra'il, after Musa? They said unto a Prophet of theirs: raise for us a king that we may fight in the way of God. He said: may it not be that if fighting were prescribed unto you, ye would not fight! They said: and wherefore shall we not fight in the way of God, whereas we have been driven forth from our habitations and children. Then when fighting was prescribed unto them, they turned away, save a few of them: and Allah is the Knower of the wrong-doers.
اس قصہ سے حق تعالیٰ کا بسط و قبض جو ابھی مذکور ہوا خوب ثابت ہوتا ہے یعنی فقیر کو بادشاہ بنانا اور بادشاہ سے بادشاہت چھین لینا اور ضعیف کو قوی اور قوی کو ضعیف کر دینا۔
حضرت موسٰیؑ کے بعد کچھ عرصہ تک بنی اسرائیل کا کام درست رہا پھر جب ان کی نیت بگڑی تب ان پر ایک غنیم کافر بادشاہ جالوت مسلط ہوا ان کو شہر سے نکال دیا اور لوٹا اور ان کو پکڑ کر بندی بنایا بنی اسرائیل بھاگ کر بیت المقدس میں جمع ہوئے اس وقت حضرت اشموئیلؑ پیغمبر تھے ان سے درخواست کی کہ کوئی بادشاہ ہم پر مقرر کر دو کہ اس کے ساتھ ہو کر ہم جہاد کریں فی سبیل اللہ ۔

أَلَم تَرَ إِلَى الَّذى حاجَّ إِبرٰهۦمَ فى رَبِّهِ أَن ءاتىٰهُ اللَّهُ المُلكَ إِذ قالَ إِبرٰهۦمُ رَبِّىَ الَّذى يُحيۦ وَيُميتُ قالَ أَنا۠ أُحيۦ وَأُميتُ ۖ قالَ إِبرٰهۦمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأتى بِالشَّمسِ مِنَ المَشرِقِ فَأتِ بِها مِنَ المَغرِبِ فَبُهِتَ الَّذى كَفَرَ ۗ وَاللَّهُ لا يَهدِى القَومَ الظّٰلِمينَ {2:258}
کیا نہ دیکھا تو نے اس شخص کو جس نے جھگڑا کیا ابراہیم سے اس کے رب کی بابت اسی وجہ سے کہ دی تھی اللہ نے اس کو سلطنت جب کہا ابراہیم نے میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے وہ بولا میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں کہا ابراہیم نے کہ بیشک اللہ تو لاتا ہے سورج کو مشرق سے اب تو لے آ اس کو مغرب کی طرف سے تب حیران رہ گیا وہ کافر اور اللہ سیدھی راہ نہیں دکھاتا بے انصافوں کو [۴۲۰]
Bethinkest thou not of one who contended with Ibrahim concerning his Lord, because Allah had vouchsafed unto him dominion! When Ibrahim said: my Lord is He Who giveth life and causeth death, he said: give life and cause death. Ibrahim said: verily Allah bringeth the sun from the east, then bring it thou from the west. Thereupon he Who disbelieved Was dumb-founded, And Allah guideth not a wrong-doing people.
پہلی آیت میں اہل ایمان و اہل کفر اور ان کے نور ہدایت اور ان کے ظلمت کفر کا ذکر تھا اب اس کی تائید میں چند نظائر بیان فرماتے ہیں ۔ نظیر اول میں نمرود بادشاہ کا ذکر ہے وہ اپنے آپ کو سلطنت کے غرور سے سجدہ کرواتا تھا ۔ حضرت ابراہیمؑ اس کے سامنے آئے تو سجدہ نہ کیا نمرود نے دریافت کیا تو فرمایا میں اپنے رب کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتا اس نے کہا رب تو میں ہوں، انہوں نے جواب دیا کہ میں حاکم کو رب نہیں کہتا رب وہ ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے نمرود نے دو قیدی منگا کر بےقصور کو مار ڈالا اور قصور وار کو چھوڑ دیا اور کہا کہ دیکھا میں جس کو چاہوں مارتا ہوں جسے چاہوں نہیں مارتا اس پر حضرت ابراہیمؑ نے آفتاب کی دلیل پیش فرما کر اس مغرور احمق کو لاجواب کیا اور اس کو ہدایت نہ ہوئی یعنی لاجواب ہو کر بھی ارشاد ابراہیمؑ پر ایمان نہ لایا ۔ یا یوں کہو کہ حضرت ابراہیمؑ کی دوسری بات کا کچھ جواب نہ دے سکا ۔ حالانکہ جیسا جواب پہلے ارشاد کا دیا تھا ویسا جواب دینے کی یہاں بھی گنجائش تھی۔

أَلَم تَرَ إِلَى الَّذينَ أوتوا نَصيبًا مِنَ الكِتٰبِ يُدعَونَ إِلىٰ كِتٰبِ اللَّهِ لِيَحكُمَ بَينَهُم ثُمَّ يَتَوَلّىٰ فَريقٌ مِنهُم وَهُم مُعرِضونَ {3:23}
کیا نہ دیکھا تو نے ان لوگوں کو جن کو ملا کچھ ایک حصہ کتاب کا [۳۳] ان کو بلاتے ہیں اللہ کی کتاب کی طرف تاکہ وہ کتاب ان میں حکم کرے پھر منہ پھیرتےہیں بعضے ان میں سےتغافل کر کے [۳۴]
Hast thou not observed those vouchsafed a portion of the Book called to the Book of Allah that it may judge between them? Then a party of them turn away and they are backsliders
یعنی تھوڑا بہت حصہ تورات و انجیل وغیرہ کا جو ان کی تحریفات لفظی و معنوی سے بچ بچا کر رہ گیا ہے یا جو تھوڑا بہت حصہ فہم کتاب کا ملا۔
یعنی جب انہیں دعوت دی جاتی ہے کہ قرآن کریم کی طرف آؤ جو خود تمہاری تسلیم کردہ کتابوں کی بشارات کے موافق آیا اور تمہارے اختلافات کا ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرنے والا ہے، تو ان کے علماء کا ایک فریق تغافل برت کر منہ پھیر لیتا ہے حالانکہ قرآن کی طرف دعوت فی الحقیقت تورات و انجیل کی طرف دعوت دینا ہے۔ بلکہ کچھ بعید نہیں کہ ا س جگہ کتاب اللہ سے مراد تورات و انجیل ہی ہو۔ یعنی لو ہم تمہارے نزاعات کا فیصلہ تمہاری ہی کتاب پر چھوڑتے ہیں مگر غضب تو یہ ہے کہ وہ اپنی خواہشات اور پست اغراض کےسامنے خود اپنی کتاب کی ہدایات سے بھی منہ پھیر لیتے ہیں۔ نہ اس کی بشارات سنتے ہیں نہ احکام پر کان دھرتے ہیں۔ چنانچہ رجم زانی کےمسئلہ میں تورات کے حکم منصوص سے صریح روگردانی کی۔ جیسا کہ آگے سورۂ مائدہ میں آئے گا۔

أَلَم تَرَ إِلَى الَّذينَ أوتوا نَصيبًا مِنَ الكِتٰبِ يَشتَرونَ الضَّلٰلَةَ وَيُريدونَ أَن تَضِلُّوا السَّبيلَ {4:44}
کیا تو نے نہ دیکھا ان کو جن کو ملا ہے کچھ حصہ کتاب سے خرید کرتے ہیں گمراہی اور چاہتے ہیں کہ تم بھی بہک جاؤ اپنی راہ سے
Observest thou not those unto whom was vouchsafed a portion of the book purchasing error, and desiring that ye would err as regards the way!

أَلَم تَرَ إِلَى الَّذينَ يُزَكّونَ أَنفُسَهُم ۚ بَلِ اللَّهُ يُزَكّى مَن يَشاءُ وَلا يُظلَمونَ فَتيلًا {4:49}
کیا تو نے نہ دیکھا ان کو جو اپنے آپ کو پاکیزہ کہتے ہیں بلکہ اللہ ہی پاکیزہ کرتا ہے جس کو چاہے اور ان پر ظلم نہ ہو گا تاگے برابر [۹۰]
Hast thou not observed those who hold themselves purified Nay! Allah purifieth whomsoever He will, and they shall not be wronged a whit.
یعنی یہود باوجود اس قدر خرابیوں کے پھر اپنے آپ کو پاک صاف اور مقدس کہتے ہیں حتٰی کہ اپنے آپ کو ابناء اللہ اور احباء اللہ بتلاتے ہیں جو بالکل لغو بات ہے بلکہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے اس کو پاکیزہ اور مقدس کرتا ہے یہود کے کہنے سےکچھ نہیں ہو سکتا اور ان جھوٹی شیخی کرنے والوں پر ادنیٰ سا ظلم بھی نہ ہو گا یعنی یہ لوگ اپنے عذاب بے نہایت میں گرفتار ہوں گے ان پر ناحق عذاب ہرگز نہ ہو گا۔ {فائدہ} یہود جو گوسالہ پوجتے تھے اور حضرت عزیزؑ کو ابن اللہ کہتے تھے انہوں نے جب آیت سابقہ { اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہ } الخ کو سنا تو کہنے لگے کہ ہم مشرک نہیں بلکہ ہم تو خاص بندے اور پیغمبر زادے ہیں اور پیغمبری ہماری میراث ہے خدا تعالیٰ کو ان کی یہ شیخی پسند نہ آئی اس پر یہ آیت نازل فرمائی۔

أَلَم تَرَ إِلَى الَّذينَ أوتوا نَصيبًا مِنَ الكِتٰبِ يُؤمِنونَ بِالجِبتِ وَالطّٰغوتِ وَيَقولونَ لِلَّذينَ كَفَروا هٰؤُلاءِ أَهدىٰ مِنَ الَّذينَ ءامَنوا سَبيلًا {4:51}
کیا تو نے نہ دیکھا ان کو جن کو ملا ہے کچھ حصہ کتاب کا جو مانتے ہیں بتوں کو اور شیطان کو اور کہتے ہیں کافروں کو کہ یہ لوگ زیادہ راہ راست پر ہیں مسلمانوں سے [۹۲]
Hast thou not observed those unto whom is vouchsafed a portion of the Book testifying to idols and devils, and saying of those who have disbelieved: these are better guided as regards the way than the believers?
اس آیت میں بھی یہود کی شرارت اور خباثت کا اظہار ہے قصہ یہ ہے کہ یہودیوں کو حضرت سے عداوت بڑھی تو مشرکین مکہ سےملے اور ان سے متفق ہوئے اور ان کی خاطر داری کی ضرورت سے بتوں کی تعظیم کی اور کہا کہ تمہارا دین مسلمانوں کے دین سے بہتر ہے اور اس کی وجہ صرف حسد تھا اس پر کہ نبوت اور دین کی ریاست ہمارے سوا دوسروں کو کیوں مل گئ اس پر اللہ تعالیٰ ان کو الزام دیتا ہے۔ ان آیات میں اسی کا مذکور ہے۔

أَلَم تَرَ إِلَى الَّذينَ يَزعُمونَ أَنَّهُم ءامَنوا بِما أُنزِلَ إِلَيكَ وَما أُنزِلَ مِن قَبلِكَ يُريدونَ أَن يَتَحاكَموا إِلَى الطّٰغوتِ وَقَد أُمِروا أَن يَكفُروا بِهِ وَيُريدُ الشَّيطٰنُ أَن يُضِلَّهُم ضَلٰلًا بَعيدًا {4:60}
کیا تو نے نہ دیکھا ان کو جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ایمان لائے ہیں اس پر جو اترا تیری طرف اور جو اترا تجھ سے پہلے چاہتے ہیں کہ قضیہ لے جائیں شیطان کی طرف اور حکم ہو چکا ہے انکو کہ اس کو نہ مانیں اور چاہتا ہےشیطان کہ ان کو بہلا کر دور جا ڈالے [۱۰۶]
Hast thou not observed those who assert that they believe in that which hath been sent down unto thee and that which hath been sent down before thee desiring to go to the devil for judgement, whereas they have been commanded to disbelieve in him; and Satan desireth to lead them far astray.
یہود فیصل خصومات میں رعایت و رشوت کے عادی تھے اس لئے جو لوگ جھوٹے اور منافق اور خاین ہوتے وہ اپنا معاملہ یہودیوں کے عالموں کے پاس لے جانا پسند کرتے کہ وہ خاطر کریں گے اور آپ کے پاس ایسے لوگ اپنا معاملہ لانا پسند نہ کرتے کہ آپ حق کی رعایت کریں گے اور کسی کی اصلًا رعایت نہ کریں گے سو مدینے میں ایک یہودی اور ایک منافق کہ ظاہر میں مسلمان تھا کسی امر میں دونوں جھگڑ پڑے یہودی جو سچا تھا اس نے کہا کہ چل محمد کے پاس اور منافق جو جھوٹا تھا اس نےکہا کہ چل کعب بن اشرف کے پاس جو یہودیوں میں عالم اور سردار تھا۔ آخر دونوں آپ کی خدمت میں جھگڑا لے کر آئے تو آپ نے یہودی کا حق ثابت فرمایا منافق جو باہر نکلا تو کہنے لگا کہ اچھا حضرت عمرؓ کے پاس چلو جو وہ فیصلہ کر دیں وہی منظور اور رسول اللہ کے فیصلہ پر راضی نہ ہوا غالبًا یہ سمجھا ہو گا کہ میں مدعی اسلام ہوں اس لئے یہودی کے مقابلہ میں میری رعایت کریں گے اور حضرت عمرؓ آپ کے حکم سےمدینہ میں جھگڑے فیصل کیا کرتے تھے چنانچہ وہ دونوں حضرت عمرؓ کے پاس آئے جب حضرت عمرؓ نے یہ جھگڑا سنا اور یہودی کے بیان سے ان کو یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ قضیہ آپ کی خدمت میں جا چکا ہے اور آپ اس معاملہ میں یہودی کو سچا اور غالب کر چکے ہیں تو حضرت عمرؓ نے اس منافق کو قتل کر دیا اور فرمایا کہ جو کوئی ایسے قاضی کے فیصلہ کو نہ مانے اس کا فیصلہ یہی ہے اس کے وارث حضرت کی خدمت میں آئے اور حضرت عمرؓ پر قتل کا دعویٰ کیا اور قسمیں کھانے لگے کہ حضرت عمرؓکے پاس تو صرف اس وجہ سے گئے تھے کہ شاید وہ اس معاملہ میں باہم صلح کرا دیں یہ وجہ نہ تھی کہ حضرت کے فیصلہ سے انکار تھا۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ ان آیات میں اصل حقیقت ظاہر فرما دی گئ اور حضرت عمرؓ کا لقب فاروق فرمایا۔

أَلَم تَرَ إِلَى الَّذينَ قيلَ لَهُم كُفّوا أَيدِيَكُم وَأَقيمُوا الصَّلوٰةَ وَءاتُوا الزَّكوٰةَ فَلَمّا كُتِبَ عَلَيهِمُ القِتالُ إِذا فَريقٌ مِنهُم يَخشَونَ النّاسَ كَخَشيَةِ اللَّهِ أَو أَشَدَّ خَشيَةً ۚ وَقالوا رَبَّنا لِمَ كَتَبتَ عَلَينَا القِتالَ لَولا أَخَّرتَنا إِلىٰ أَجَلٍ قَريبٍ ۗ قُل مَتٰعُ الدُّنيا قَليلٌ وَالءاخِرَةُ خَيرٌ لِمَنِ اتَّقىٰ وَلا تُظلَمونَ فَتيلًا {4:77}
کیا تو نے نہ دیکھا ان لوگوں کو جن کو حکم ہوا تھا کہ اپنے ہاتھ تھامے رکھو اور قائم رکھو نماز اور دیتے رہو زکوٰۃ [۱۲۲] پھر جب حکم ہوا ان پر لڑائی کا اسی وقت ان میں ایک جماعت ڈرنےلگی لوگوں سے جیسا ڈر ہو اللہ کا یا اس سے بھی زیادہ ڈر اور کہنے لگے اے رب ہمارے کیوں فرض کی ہم پر لڑائی کیوں نہ چھوڑے رکھا ہم کو تھوڑی مدت تک [۱۲۳] کہہ دےکہ فائدہ دنیا کا تھوڑا ہے اور آخرت بہتر ہے پرہیزگار کو اور تمہارا حق نہ رہے گا ایک تاگے برابر [۱۲۴]
Hast thou not observed those unto whom it was said; . withhold your hands, and establish prayer and give the poor-rate; but when thereafter fighting was prescribed unto them, lo! there is a party of them dreading men as with the dread of Allah, or with greater dread; and they say: our Lord! why hast Thou prescribed unto us fighting! Wouldst that Thou hadst let us tarry a term nearby! Say thou: the enjoyment of the world is little, and the Hereafter is better for him who feareth God; and ye shall not be wronged a whit.
یعنی ہجرت کے بعد جب مسلمانوں کو کافروں سےلڑنے کا حکم ہوا تو ان کو تو خوش ہونا چاہئے تھا کہ ہماری درخواست قبول ہوئی اور مراد ملی مگر بعضے کچے مسلمان کافروں کے مقاتلہ سے ایسے ڈرنے لگے جیسا کہ اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہئے یا اس سے بھی زیادہ اور آرزو کرنے لگے کہ تھوڑی مدت اور بھی قتال کا حکم نہ آتا اور ہم زندہ رہتے تو خوب ہوتا۔
یعنی چونکہ حیات اور منافع دنیوی کی رغبت کے باعث ان لوگوں کو حکم جہاد بھاری معلوم ہوا تو اس لئے حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان سے کہہ دو کہ دنیا کے تمام منافع حقیر اور سریع الزوال ہیں اور ثواب آخرت کا بہتر ہے ان کے لئے جو اللہ کی نافرمانی سے پرہیز کرتے ہیں سو تم کو چاہئے کہ منافع دنیا کا لحاظ نہ کرو اور حق تعالیٰ کی فرمانبرداری میں کوتاہی نہ کرو اور جہاد کرنے سے نہ ڈرو اور اطمینان رکھو کہ تمہای محنت اور جانفشانی کا ثواب ادنیٰ سا بھی ضائع نہ ہوگا سو تم کو ہمت اور شوق کے ساتھ جہاد میں مصروف ہونا چاہئے۔
مکہ میں ہجرت کرنے سے پہلےکافر مسلمانوں کو بہت ستاتے تھے اور ان پر ظلم کرتے تھے۔ مسلمان آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر شکایت کرتے اور رخصت مانگتے کہ ہم کفار سے مقاتلہ کریں اور ان سے ظلم کا بدلہ لیں آپ مسلمانوں کو لڑائی سے روکتے کہ مجھ کو مقاتلہ کا حکم نہیں ہوا بلکہ صبر اور درگذر کرنے کا حکم ہے اور فرماتے کہ نماز اور زکوٰۃ کا جو حکم تم کو ہو چکا ہے اس کو برابر پورا کئے جاؤ کیونکہ جب تک آدمی اطاعت خداوندی میں اپنے نفس پر جہاد کرنے کا اور تکالیف جسمانی کا خوگر نہ ہو اور اپنے مال خرچ کرنے کا عادی نہ ہو تو اس کو جہاد کرنا اور اپنی جان کا دینا بہت دشوار ہے اس بات کو مسلمانوں نے قبول کر لیا تھا۔

أَلَم تَرَ أَنَّ اللَّهَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ بِالحَقِّ ۚ إِن يَشَأ يُذهِبكُم وَيَأتِ بِخَلقٍ جَديدٍ {14:19}
تو نے کیا نہیں دیکھا کہ اللہ نے بنائے آسمان اور زمین جیسی چاہئے اگر چاہے تم کو لیجائے اور لائے کوئی پیدائش (مخلوق) نئی
Beholdest thou not that Allah hath created the heavens and the earth with a purpose? If He willed He would make you pass away and bring a creation new.

أَلَم تَرَ كَيفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصلُها ثابِتٌ وَفَرعُها فِى السَّماءِ {14:24}
تو نے نہ دیکھا کیسی بیان کی اللہ نے ایک مثال [۳۹] بات ستھری [۴۰] جیسے ایک درخت ستھرا [۴۱] اسکی جڑ مضبوط ہے اور ٹہنے (شاخیں) ہیں آسمان میں [۴۲]
Beholdest thou not how Allah hath propounded the similitude of the clean word? It is like a clean tree, its root firmly fixed, and its branches reaching unto heaven.
یعنی اس کی جڑیں زمین کی گہرائیوں میں پھیلی ہوں کہ زور کا جھکڑ بھی جڑ سے نہ اکھیڑ سکے اور چوٹی آسمان سے لگی ہو۔ یعنی شاخیں بہت اونچی اور زمینی کثافتوں سے دور ہوں۔
یعنی دیکھئے اور غور کیجئے کیسی با موقع اور معنی خیز مثال ہے ۔ عقلمند جس قدر اس میں غور کرے سینکڑوں باریکیاں نکلتی چلی آئیں۔
اکثر روایات و آثار میں یہاں "ستھرے درخت" کا مصداق کھجور کو قرار دیا ہے ، گو دوسرے ستھرے درخت بھی اس کے تحت میں مندرج ہو سکتے ہیں۔
ستھری بات "میں کلمہ توحید ، معرفت الہٰی کی باتیں ، ایمان و ایمانیات ، قرآن ، حمدو ثنا ، تسبیح و تہلیل ، سچ بولنا سب داخل ہے۔

أَلَم تَرَ إِلَى الَّذينَ بَدَّلوا نِعمَتَ اللَّهِ كُفرًا وَأَحَلّوا قَومَهُم دارَ البَوارِ {14:28}
تو نے نہ دیکھا انکو جنہوں نے بدلہ کیا اللہ کے احسان کا ناشکری اور اتارا اپنی قوم کو تباہی کے گھر میں [۵۰]
Beholdest thou not those who returned the favour of Allah with infidelity and caused their people to alight in the dwelling of perdition:
اس سے کفار و مشرکین کے سردار مراد ہیں ، خصوصًا رؤسائے قریش جن کے ہاتھ میں اس وقت عرب کی باگ تھی ، یعنی حق تعالیٰ نے ان پر کیسے احسان کئے ، ان کی ہدایت کے لئے پیغمبر علیہ السلام کو بھیجا ، قرآن اتارا ، اپنے حرم اور بیت کا مجاور بنایا۔ عرب کی سرداری دی انہوں نے ان نعمتوں اور احسانات کا بدلہ یہ کیا کہ خدا کی ناشکری پر کمر بستہ ہو گئے ، اس کی باتوں کو جھٹلایا ، اس کے پیغمبر سے لڑائی کی ، آخر اپنی قوم کو لے کر تباہی کے گڑھے میں جا گرے۔

أَلَم تَرَ أَنّا أَرسَلنَا الشَّيٰطينَ عَلَى الكٰفِرينَ تَؤُزُّهُم أَزًّا {19:83}
تو نے نہیں دیکھا کہ ہم نے چھوڑ رکھے ہیں شیطان منکروں پر اچھالتے ہیں انکو ابھار کر
Beholdest thou not that We have sent the satans upon the infidels inciting them by an incitement? *Chapter:19

أَلَم تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَسجُدُ لَهُ مَن فِى السَّمٰوٰتِ وَمَن فِى الأَرضِ وَالشَّمسُ وَالقَمَرُ وَالنُّجومُ وَالجِبالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوابُّ وَكَثيرٌ مِنَ النّاسِ ۖ وَكَثيرٌ حَقَّ عَلَيهِ العَذابُ ۗ وَمَن يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِن مُكرِمٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَفعَلُ ما يَشاءُ ۩ {22:18}
تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ کو سجدہ کرتا ہے جو کوئی آسمان میں ہے اور جو کوئی زمین میں ہے اور سورج اور چاند اورتارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت آدمی [۲۷] اور بہت ہیں کہ اُن پر ٹھہر چکا عذاب [۲۸] اور جسکو اللہ ذلیل کرے اُسے کوئی نہیں عزت دینے والا اللہ کرتا ہے جو چاہے [۲۹]
Beholdest thou not that Allah unto Him adore whosoever is in the heavens and on the earth, and the sun, and the moon, and the mountains, and the trees and the beasts, and many of mankind! And many are there on whom due is the torment. And whomsoever Allah despiseth, none can honour; verily Allah doth whatsoever He willeth.
یعنی خدا تعالیٰ جس کو اس کی شامت اعمال سے ذلیل کرنا چاہے اسے ذلت کے گڑھے سے نکال کر عزت کے مقام پر کون پہنچا سکتا ہے ؟
یعنی سجدہ سے انکار و اعراض کرنے کی بدولت عذاب کے مستحق ہوئے۔
ایک سجدہ ہے جس میں آسمان و زمین کی ہر ایک مخلوق شامل ہے وہ یہ کہ اللہ کی قدرت کے آگے تکوینًا سب مطیع و منقاد اور عاجز و بے بس ہیں۔ خواہی نخواہی سب کو اس کے سامنے گردن ڈالنا اور سر جھکانا پڑتا ہے دوسرا سجدہ ہے ہر چیز کا جدا۔ وہ یہ کہ جس چیز کو جس کام کے لئے بنایا اس کام میں لگے۔ یہ بہت آدمی کرتے ہیں بہت نہیں کرتے۔ مگر آدمیوں کو چھوڑ کر اور ساری خلقت کرتی ہے۔ بناءً عیلہ { اَنَّ اللہَ یَسْجُدُلَہٗ } الخ میں ہر چیز کا اپنی شان کے لائق سجدہ مراد ہو گا یا { مَنْ فِی الْاَرْضِ } کے بعد دوسرا { یَسجُدُ } کا مقدر نکالا جائے گا (تنبیہ) پہلی آیت سے ربط یہ ہوا کہ مختلف مذاہب کے لوگ آپس میں اختلاف رکھتے ہیں حالانکہ دوسری تمام مخلوق خدا کی مطیع و منقاد ہے ، انسان جو ساری مخلوق سے زائد عاقل ہے ، چاہئے تھا کہ اس کے کل افراد اوروں سے زیادہ متفق ہوتے۔

أَلَم تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَتُصبِحُ الأَرضُ مُخضَرَّةً ۗ إِنَّ اللَّهَ لَطيفٌ خَبيرٌ {22:63}
تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے اتارا آسمان سے پانی پھر زمین ہو جاتی ہے سر سبز [۹۶] بیشک اللہ جانتا ہے چھپی تدبیریں خبردار ہے [۹۷]
Beholdest thou not that Allah sendeth down water from the heaven and the earth becometh green? Verily Allah is subtile, Aware.
وہ ہی جانتا ہے کہ کس طرح بارش کے پانی سے سبزہ اگ آتا ہے۔ قدرت اندر ہی اندر ایسی تدبیر و تصر ف کرتی ہے کہ خشک زمین پانی وغیرہ کے اجزاء کو اپنے اندر جذب کر کے سرسبز و شاداب ہو جائے۔ اسی طرح وہ اپنی مہربانی ، لطیف تدبیر و تربیت، اور کمال خبرداری و آگاہی سےقلوب بنی آدم کو فیوض اسلام کامینہ برسا کر سر سبز و شاداب بنا دے گا۔
اسی طرح کفر کی خشک و ویران زمین کو اسلام کی بارش سے سبزہ زار بنا دے گا۔

أَلَم تَرَ أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم ما فِى الأَرضِ وَالفُلكَ تَجرى فِى البَحرِ بِأَمرِهِ وَيُمسِكُ السَّماءَ أَن تَقَعَ عَلَى الأَرضِ إِلّا بِإِذنِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِالنّاسِ لَرَءوفٌ رَحيمٌ {22:65}
تو نے نہ دیکھا کہ اللہ نے بس میں کردیا تمہارے جو کچھ ہے زمین میں اور کشتی کو جو چلتی ہے دریا میں اُسکے حکم سے اور تھام رکھتا ہے آسمان کو اس سے کہ گر پڑے زمین پر مگر اُسکے حکم سے بیشک اللہ لوگوں پر نرمی کرنے والا مہربان ہے [۹۹]
Beholdest thou not that Allah hath subjected to Himself for you whatsoever is on the earth and the ships running in the sea by His command? And He with holdeth the heaven that it fall not on the earth save by His leave. Verily Allah is, unto mankind, Clement, Merciful.
یعنی اس کو تمہاری یا کسی کی کیا پروا تھی۔ محض شفقت و مہربانی دیکھو کہ کس طرح خشکی اور تری کی چیزوں کو تمہارے قابو میں کر دیا ۔ پھر اسی نے اپنے دست قدرت سے آسمان، چاند، سورج اور ستاروں کو اس فضائے ہوائی میں بدون کسی ظاہری کھمبے یا ستون کے تھام رکھا ہے جو اپنی جگہ سے نیچے نہیں سرکتے ۔ ورنہ گر کر اور ٹکرا کر تمہاری زمین کو پاش پاش کر دیتے ۔ جب تک اس کا حکم نہ ہو یہ کُرات یوں ہی اپنی جگہ قائم رہیں گے مجال نہیں کہ ایک انچ سرک جائیں۔ { اِلَّا بِاِ ذْنِہٖ } کا استثناء محض اثبات قدرت کی تاکید کے لئے ہے ۔ یا شاید قیامت کے واقعہ کی طرف اشارہ ہو۔ واللہ اعلم۔

أَلَم تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَن فِى السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ وَالطَّيرُ صٰفّٰتٍ ۖ كُلٌّ قَد عَلِمَ صَلاتَهُ وَتَسبيحَهُ ۗ وَاللَّهُ عَليمٌ بِما يَفعَلونَ {24:41}
کیا تو نہ نے دیکھا کہ اللہ کی یاد کرتے ہیں جو کوئی ہیں آسمان و زمین میں اور اڑتے جانور پر کھولے ہوئے [۷۹] ہر ایک نے جان رکھی ہے اپنی طرح کی بندگی اور یاد [۸۰] اور اللہ کو معلوم ہے جو کچھ کرتے ہیں [۸۱]
Beholdest thou not that Allah --those hallow Him whosoever is in the heavens and the earth and the birds with wings outspread? Surely each one knoweth his prayer and his hallowing; and Allah is the Knower of that which they do.
شاید اڑتے جانوروں کا علیحدہ ذکر اس لئے کیا کہ وہ اس وقت آسمان اور زمین کے بیچ میں معلق ہوتے ہیں اور ان کا اس طرح ہوا میں اڑتے رہنا قدرت کی بڑی نشانی ہے۔
یعنی حق تعالیٰ نے ہر ایک چیز کو اس کےحال کے مناسب جو طریقہ انابت و بندگی اور تسبیح خوانی کا الہام فرمایا اس کو سمجھ کر وہ اپنا وظیفہ ادا کرتی رہتی ہے۔ لیکن افسوس و تعجب کا مقام ہے کہ بہت سے انسان کہلانے والے غرور و غفلت اور ظلمت جہالت میں پھنس کر مالک حقیقی کی یاد اور ادائے وظیفہ عبودیت سے بے بہرہ ہیں (تنبیہ) مخلوقات کی تسبیح کے متعلق پندرہویں پارہ میں ربع کے قریب کچھ مضمون گذر چکا۔ وہاں دیکھ لیا جائے۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت نوحؑ نے اپنے بیٹوں کو تسبیح کی وصیت کی اور فرمایا { وَاِنَّھَا لَصَلوٰۃ الخلق } (یہ ہی باقی مخلوق کی نماز ہے)۔
یعنی ان کی بندگی اورتسبیح کو خواہ تم نہ سمجھو، لیکن حق تعالیٰ کو سب معلوم ہے کہ کون کیا کرتا ہے۔

أَلَم تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزجى سَحابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَينَهُ ثُمَّ يَجعَلُهُ رُكامًا فَتَرَى الوَدقَ يَخرُجُ مِن خِلٰلِهِ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّماءِ مِن جِبالٍ فيها مِن بَرَدٍ فَيُصيبُ بِهِ مَن يَشاءُ وَيَصرِفُهُ عَن مَن يَشاءُ ۖ يَكادُ سَنا بَرقِهِ يَذهَبُ بِالأَبصٰرِ {24:43}
تو نے نہ دیکھا اللہ ہانک لاتا ہے بادل کو پھر انکو ملا دیتا ہے پھر انکو رکھتا ہے تہ بر تہ پھر تو دیکھے مینہ نکلتا ہے اس کے بیچ سے [۸۳] اور اتارتا ہے آسمان سے اس میں جو پہاڑ ہیں اولوں کے پھر وہ ڈالتا ہے جس پر چاہے اور بچا دیتا ہے جس سے چاہے [۸۴] ابھی اس کی بجلی کی کوند لیجائے آنکھوں کو [۸۵]
Beholdest thou not that Allah driveth a cloud along, then combineth it, then maketh it a heap, and then thou beholdest the fine rain come forth from the interstices thereof? And He sendeth down from the heaven mountains wherein is hail, then afflicteth therewith whomsoever He will, and averteth it from whomsoever He will: wellnigh the flash of His lightening taketh away the sights.
یعنی ابتداء میں بادل کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اٹھتے ہیں پھر مل کر بڑا بادل بن جاتا ہے۔ پھر تہ پر تہ جما دی جاتی ہے۔
یعنی جیسے زمین میں پتھروں کے پہاڑ ہیں، بعض سلف نے کہا کہ اسی طرح آسمان میں اولوں کے پہاڑ ہیں۔ مترجم رحمہ اللہ نے اسی کے موافق ترجمہ کیا ہے۔ لیکن زیادہ راجح اور قوی یہ ہے کہ "سماء" سے بادل مراد ہو۔ مطلب یہ ہے کہ بادلوں سے جو کثیف اور بھاری ہونے میں پہاڑوں کی طرح ہیں، اولے برساتا ہے جس سے بہتوں کو جانی یا مالی نقصان پہنچ جاتا ہے اور بہت سے محفوظ رکھے جاتے ہیں۔ مشہور ہے کہ اولے کی چھال بیل کے ایک سینگ پر پڑتی ہے اور دوسرا سینگ خشک رہ جاتا ہے۔
یعنی بجلی کی چمک اس قدر تیز ہوتی ہے کہ آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں، قریب ہے کہ بینائی جاتی رہے۔

أَلَم تَرَ إِلىٰ رَبِّكَ كَيفَ مَدَّ الظِّلَّ وَلَو شاءَ لَجَعَلَهُ ساكِنًا ثُمَّ جَعَلنَا الشَّمسَ عَلَيهِ دَليلًا {25:45}
تو نے نہیں دیکھا اپنے رب کی طرف کیسے دراز کیا سایہ کو اگر چاہتا تو اس کو ٹھہرا رکھتا پھر ہم نے مقرر کیا سورج کو اس کا راہ بتانے والا
Hast thou not observed thine lord-how He hath stretched out the shadow? And if He had willed He would have made it still. Then We have made the sun for it an indication.

أَلَم تَرَ أَنَّهُم فى كُلِّ وادٍ يَهيمونَ {26:225}
تو نے نہیں دیکھا کہ وہ ہر میدان میں سر مارے پھرتے ہیں [۱۲۸]
Observest thou not, that they Wander about every vale.
یعنی جو مضمون پکڑ لیا اسی کو بڑھاتے چلے گئے، کسی کی تعریف کی تو آسمان پر چڑھا دیا مذمت کی تو ساری دنیا کے عیب اس میں جمع کر دیے۔ موجود کو معدوم اور معدوم کو موجود ثابت کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے غرض جھوٹ، مبالغہ اور تخیل کے جس جنگل میں نکل گئے، پھر مڑ کر نہیں دیکھا۔ اسی لئے شعر کی نسبت مشہور ہے { اکذَبِ اُو اُحسَنِ اُوَ }۔

أَلَم تَرَ أَنَّ اللَّهَ يولِجُ الَّيلَ فِى النَّهارِ وَيولِجُ النَّهارَ فِى الَّيلِ وَسَخَّرَ الشَّمسَ وَالقَمَرَ كُلٌّ يَجرى إِلىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى وَأَنَّ اللَّهَ بِما تَعمَلونَ خَبيرٌ {31:29}
تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ داخل کرتا ہے رات کو دن میں اور داخل کرتا ہے دن کو رات میں اور کام میں لگا دیا ہے سورج اور چاند کو ہر ایک چلتا ہے ایک مقرر وقت تک [۳۹] اور یہ کہ اللہ خبر رکھتا ہے اسکی جو تم کرتے ہو [۴۰]
Observest thou not that Allah plungeth the night into the day and plungeth the day into the night and hath subjected the sun and the moon, each running unto an appointed term, and that Allah is of that which ye work Aware.
"مقرر وقت" سے قیامت مراد ہے یا چاند سورج میں سے ہر ایک کا دورہ۔ کیونکہ ایک دورہ پورا ہونے کے بعد گویا ازسرنو چلنا شروع کرتے ہیں۔
یعنی جو قوت رات کو دن اور دن کو رات کرتی، اور چاند سورج جیسے کرات عظیمہ کو ادنیٰ مزدور کی طرح کام میں لگائے رکھتی ہے اسے تمہارے مرے پیچھے زندہ کر دینا کیا مشکل ہو گا۔ اور جب ہر ایک چھوٹے بڑے عمل سے پوری طرح با خبر ہے تو حساب کتاب میں کیا دشواری ہو گی۔

أَلَم تَرَ أَنَّ الفُلكَ تَجرى فِى البَحرِ بِنِعمَتِ اللَّهِ لِيُرِيَكُم مِن ءايٰتِهِ ۚ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَءايٰتٍ لِكُلِّ صَبّارٍ شَكورٍ {31:31}
تو نے نہ دیکھا کہ جہاز چلتے ہیں سمندر میں اللہ کی نعمت لے کر تاکہ دکھلائے تمکو کچھ اپنی قدرتیں [۴۳] البتہ اس میں نشانیاں ہیں ہر ایک تحمل کرنے والے احسان ماننے والے کے واسطے [۴۴]
Observest thou not that the ship saileth in the sea by the favour of Allah that he may shew you of His signs? Verily therein are signs for every persevering, grateful heart.
یعنی اس بحری سفر کے احوال و حوادث میں غور کرنا انسان کے لئے صبر و شکر کے مواقع بہم پہنچاتا ہے ۔ جب طوفان اٹھ رہے ہوں اور جہاز پانی کے تھپیڑوں میں گھرا ہو اس وقت بڑے صبر و تحمل کا کام ہے اور جب اللہ نے اس کشمکش موت و حیات سے صحیح و سالم نکال دیا تو ضروری ہے کہ اس کا احسان مانے۔
یعنی جہاز بھاری بھاری سامان اٹھا کر خدا کی قدرت و رحمت سے کس طرح سمندر کی موجوں کو چیرتا پھاڑتا ہوا چلا جاتا ہے۔

أَلَم تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخرَجنا بِهِ ثَمَرٰتٍ مُختَلِفًا أَلوٰنُها ۚ وَمِنَ الجِبالِ جُدَدٌ بيضٌ وَحُمرٌ مُختَلِفٌ أَلوٰنُها وَغَرابيبُ سودٌ {35:27}
کیا تو نے نہ دیکھا کہ اللہ نے اتارا آسمان سے پانی پھر ہم نے نکالے اس سے میوے طرح طرح کے انکے رنگ [۳۴] اور پہاڑوں میں گھاٹیاں ہیں سفید اور سرخ طرح طرح کے انکے رنگ اور بھجنگے کالے [۳۵]
Beholdest thou not that Allah sendeth down water from the heaven, and then We thereby bring fruit of diverse colours? And in the mountains are steaks white and red, of diverse colours, and also intensely black.
یعنی سفید بھی کئ درجے (کوئی بہت زیادہ سفید کوئی کم کوئی اس سے کم) اور سرخ بھی کئی درجے۔ اور کالے بھجنگے یعنی بہت گہرے سیاہ کوے کے پر کی طرح۔
یعنی قسم قسم کے میوے۔ پھر ایک قسم میں رنگ برنگ کے پھل پیدا کئے۔ ایک زمین ایک پانی ایک ہوا سے اتنی مختلف چیزیں پیدا کرنا عجیب و غریب قدرت کو ظاہر کرتا ہے۔

أَلَم تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَسَلَكَهُ يَنٰبيعَ فِى الأَرضِ ثُمَّ يُخرِجُ بِهِ زَرعًا مُختَلِفًا أَلوٰنُهُ ثُمَّ يَهيجُ فَتَرىٰهُ مُصفَرًّا ثُمَّ يَجعَلُهُ حُطٰمًا ۚ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَذِكرىٰ لِأُولِى الأَلبٰبِ {39:21}
تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے اتارا آسمان سے پانی پھر چلا دیا وہ پانی چشموں میں زمین کے [۳۵] پھر نکالتا ہے اس سے کھیتی کئ کئ رنگ بدلتی اس پر [۳۶] پھر آئے تیاری پر تو تو دیکھے اس کا رنگ زرد پھر کر ڈالتا ہے اسکو چورا چورا بیشک اس میں نصیحت ہے عقلمندوں کے واسطے [۳۷]
Beholdest thou not that Allah sendeth down water from the heaven, and causeth it to enter springs in the earth, and thereafter produceth thereby corn various coloured. Thereafter it wirhereth, and thou beholdest it turn yellow; then He maketh it chaff. Verily herein is an admonition for men of understanding.
یعنی بارش کا پانی پہاڑوں اور زمینیوں کے مسام میں جذب ہو کر چشموں کی صورت میں پھوٹ نکلتا ہے باقی اگر چشموں کے حدوث کا کوئی اور سبب بھی ہو، اس کی نفی آیت سے نہیں ہوتی۔
یا مختلف قسم کی کھیتیاں مثلًا گیہوں چاول وغیرہ۔
یعنی عقلمند آدمی کھیتی کا حال دیکھ کر نصیحت حاصل کرتا ہے کہ جس طرح اس کی رونق اور سر سبزی چند روزہ تھی، پھر چورا چورا کیا گیا۔ یہ ہی حال دنیا کی چہل پہل کا ہو گا۔ چاہیئے کہ آدمی اس کی عارضی بہار پر مفتوں ہو کر انجام سے غافل نہ ہو جائے جیسے کھیتی مختلف اجزاء سے مرکب ہے۔ مثلًا اس میں دانہ ہے جو آدمیوں کی غذا بنتا ہے اور بھوسہ بھی ہے جو جانوروں کا چارہ بنتا ہے۔ اور ہر ایک جزء سے منتفع ہونا بدون اس کے ممکن نہیں کہ دوسرے اجزاء سے اس کو الگ کریں اور اپنے اپنے ٹھکانہ پر پہنچائیں۔ اسی طرح دنیا کو سمجھ لو کہ اس میں نیکی، بدی، راحت، تکلیف وغیرہ سب ملی جلی ہیں۔ ایک وقت آئے گا کہ یہ کھیتی کٹے اور خوب چورا چورا کیجائے۔ پھر اس میں سے ہر ایک جزء کو اس کے مناسب ٹھکانے پر پہنچا دیا جائے، نیکی اور راحت اپنے مرکز و مستقر پر پہنچ جائے اور بدی یا تکلیف اپنے خزانہ میں جا ملے۔ غرض کھیتی کے مختلف احوال دیکھ کر عقلمند لوگ بہت مفید سبق حاصل کر سکتے ہیں نیز مضمون آیت میں ادھر بھی اشارہ ہو گیا کہ جس خدا نے آسمانی بارش سے زمین میں چشمے جاری کر دیے وہ ہی جنت کے محلات میں نہایت قرینہ کے ساتھ نہروں کا سلسلہ جاری کر دے گا۔

أَلَم تَرَ إِلَى الَّذينَ يُجٰدِلونَ فى ءايٰتِ اللَّهِ أَنّىٰ يُصرَفونَ {40:69}
تو نے نہ دیکھا ان کو جو جھگڑتے ہیں اللہ کی باتوں میں کہاں سے پھیر جاتے ہیں
Observest thou not those who wrangle concerning the revelations of Allah: whither are they turning away?

أَلَم تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَعلَمُ ما فِى السَّمٰوٰتِ وَما فِى الأَرضِ ۖ ما يَكونُ مِن نَجوىٰ ثَلٰثَةٍ إِلّا هُوَ رابِعُهُم وَلا خَمسَةٍ إِلّا هُوَ سادِسُهُم وَلا أَدنىٰ مِن ذٰلِكَ وَلا أَكثَرَ إِلّا هُوَ مَعَهُم أَينَ ما كانوا ۖ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِما عَمِلوا يَومَ القِيٰمَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيءٍ عَليمٌ {58:7}
تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ کو معلوم ہے جو کچھ ہے آسمانوں میں اور جو کچھ ہے زمین میں کہیں نہیں ہوتا مشورہ تین کا جہاں وہ نہیں ہوتا ان میں چوتھا اور نہ پانچ کا جہاں وہ نہیں ہوتا اُن میں چھٹا اور نہ اُس سے کم اور نہ زیادہ جہاں وہ نہیں ہوتا اُنکے ساتھ جہاں کہیں ہوں [۱۴] پھرجتلا دے گا اُنکو جو کچھ انہوں نے کیا قیامت کے دن بیشک اللہ کو معلوم ہے ہر چیز
Observest thou not that Allah knoweth whatsoever is in the heavens and whatsoever is in the earth! There is no whispering among three but He is their fourth, nor among five but He is their sixth, nor fewer than that nor more but He is with them wheresoever they may be; and thereafter He will declare Unto them, on the Day of Judgment, that which they have worked. Verily Allah is of everything Knower.
یعنی صرف ان کے اعمال ہی پر کیا منحصر ہے، اللہ کے علم میں تو آسمان و زمین کی ہر چھوٹی بڑی چیز ہے۔ کوئی مجلس، کوئی سرگوشی اور کوئی خفیہ سے خفیہ مشورہ نہیں ہوتا جہاں اللہ اپنے علم محیط کے ساتھ موجود نہ ہو جہاں تین آدمی چھپ کر مشورہ کرتے ہوں نہ سمجھیں کہ وہاں کوئی چوتھا نہیں سن رہا۔ اور پانچ کی کمیٹی خیال نہ کرے کہ کوئی چھٹا سننے والا نہیں۔ خوب سمجھ لو کہ تین ہوں یا پانچ یا اس سے کم زیادہ کہیں ہوں، کسی حالت میں ہوں، اللہ تعالیٰ ہر جگہ اپنے علم محیط سے ان کے ساتھ ہے کسی وقت ان سے جدا نہیں۔ (تنبیہ) طاق عدد کی حکمت: مشورہ میں اگر صرف دو شخص ہوں تو بصورت اختلاف ترجیح دشوار ہوتی ہے۔ اسی لئے عمومًا معاملات مہمہ میں طاق عدد رکھتے ہیں۔ اور ایک کے بعد پہلا طاق عدد تین تھا پھر پانچ۔ شاید اس لئے ان دو کو اختیار فرمایا اور آگے { وَلَآ اَدْنٰی مِنْ ذٰلِکَ وَلَاْ اَکْثَرَ } سے تعمیم فرمادی۔ باقی حضرت عمرؓ کا شورٰی خلافت کو چھ بزرگوں میں دائر کرنا (حالانکہ چھ کا عدد طاق نہیں) اس لئے ہوگا کہ اس وقت یہ ہی چھ خلافت کے سب سے زیادہ اہل اور مستحق تھے جن میں سے کسی کو چھوڑا نہیں جاسکتا تھا۔ نیز خلیفہ کا انتخاب ان ہی چھ سے ہو رہا تھا تو ظاہر ہے جس کا نام آتا، اس کے سوائے رائے دینے والے تو پانچ ہی رہتے ہیں۔ پھر بھی احتیاطًا حضرت عمرؓ نے بصورت مساوات ایک جانب کی ترجیح کے لئے عبداللہ بن عمرؓ کا نام لے دیا تھا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

أَلَم تَرَ إِلَى الَّذينَ نُهوا عَنِ النَّجوىٰ ثُمَّ يَعودونَ لِما نُهوا عَنهُ وَيَتَنٰجَونَ بِالإِثمِ وَالعُدوٰنِ وَمَعصِيَتِ الرَّسولِ وَإِذا جاءوكَ حَيَّوكَ بِما لَم يُحَيِّكَ بِهِ اللَّهُ وَيَقولونَ فى أَنفُسِهِم لَولا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ بِما نَقولُ ۚ حَسبُهُم جَهَنَّمُ يَصلَونَها ۖ فَبِئسَ المَصيرُ {58:8}
تو نے نہ دیکھا اُن لوگوں کو جنکو منع ہوئی کانا پھوسی پھر بھی وہی کرتے ہیں جو منع ہو چکا ہے اور کان میں باتیں کرتے ہیں گناہ کی اور زیادتی کی اور رسول کی نافرمانی کی [۱۵] اور جب آئیں تیرے پاس تجھ کو وہ دعا دیں جو دعا نہیں دی تجھ کو اللہ نے اور کہتے ہیں اپنے دل میں کیوں نہیں عذاب کرتا ہم کو اللہ اُس پر جو ہم کہتے ہیں کافی ہے اُنکو دوزخ داخل ہوں گے اس میں سو بری جگہ پہنچے [۱۶]
Observest thou not those who were forbidden whispering and they afterwards returned to that which they had been forbidden; and they whisper Unto each Other of sin, transgression and disobedience reward the apostle! And when they came Unto thee, they greet thee with that wherewith Allah greeteth thee not, and say within themselves: wherefore god tormented us not for that which we say? Sufficient Unto them is Hell, where in they will roast: a hapless destination!
یعنی اللہ نے تو آپ کو دوسرے انبیاء کے ساتھ یہ دعائیں دی ہیں { سَلَامٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ } اور { وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰے } اور مومنین کی زبانوں سے { السَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ } مگر بعض یہود جب آپ کے پاس آتے تو بجائے { السَّلَامُ عَلَیْکَ } کے دبی زبان سے { السَّامُ عَلَیْکَ } کہتے جس کے معنی ہیں "تجھے موت آئے" گویا اللہ نے جو سلامتی کی دعا آپ کو دی تھی، اس کے خلاف بددعا دیتے تھے۔ پھر آپس میں کہتے کہ اگر یہ واقعی رسول ہے تو اس کہنے سے ہم پر فوراً عذاب کیوں نہیں آتا۔ اس کا جواب دیا { حَسْبُھُمْ جَھَنَّمُ } یعنی جلدی نہ کرو۔ ایسا کافی عذاب آئیگا جس کے سامنے دوسرے عذاب کی ضرورت نہ ہوگی۔ (تنبیہ) احادیث میں "یہود" کے متعلق آیا ہے کہ "السّلام" کی جگہ "السّام" کہتے تھے۔ ممکن ہے بعض منافقین بھی ایسا کہتے ہونگے۔ کیونکہ منافق عموماً یہودی تھے۔ حضور کی عادت تھی کہ جب کوئی یہودی یہ کہتا آپ جواب میں صرف "وعلیک" فرما دیتے۔ ایک مرتبہ عائشہ صدّیقہ نے "السّام علیک" کے جواب میں یہودی کو "علیک السام واللعنۃ" کہا تو حضور کو کمال خلق سے یہ جواب پسند نہ آیا۔
حضرت کی مجلس میں بیٹھ کر منافق سرگوشیاں کرتے۔ مجلس والوں کا مذاق اڑاتے۔ ان پر عیب پکڑتے۔ ایک دوسرے کے کان میں اس طرح بات کہتا اور آنکھوں سے اشارے کرتا جس سے مخلص مسلمانوں کو تکلیف ہوتی۔ اور حضرت کی بات سن کر کہتے "یہ مشکل کام ہم سے کہاں ہوسکے گا"۔ پہلے سورۃ "النساء" میں اس طرح کی سرگوشیوں سے منع کیا جاچکا تھالیکن یہ موذی بے حیا پھر بھی اپنی حرکتوں اور زیادتیوں سے باز نہ آئے۔ اس پر یہ آیتیں اتریں۔

أَلَم تَرَ إِلَى الَّذينَ تَوَلَّوا قَومًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيهِم ما هُم مِنكُم وَلا مِنهُم وَيَحلِفونَ عَلَى الكَذِبِ وَهُم يَعلَمونَ {58:14}
کیا تو نے دیکھا اُن لوگوں کو جو دوست ہوئے ہیں اُس قوم کے جن پر غصہ ہوا ہے اللہ کا [۲۷] نہ وہ تم میں ہیں اور نہ اُن میں ہیں [۲۸] اور قسمیں کھاتے ہیں جھوٹ بات پر اور اُنکو خبر ہے [۲۹]
Beholdest thou not those who take for friends a people with whom Allah is angered? They are neither of you nor of them, and they swear to a lie while they know.
یعنی بے خبری اور غفلت سے نہیں، جان بوجھ کر جھوٹی بات پر قسمیں کھاتے ہیں۔ مسلمان سے کہتے ہیں { اِنَّھُمْ لَمِنْکُمْ } کہ وہ تم میں سے ہیں اور تمہاری طرح سچے ایماندار ہیں۔ حالانکہ ایمان سے کوئی دور کی نسبت بھی نہیں۔
یہ لوگ منافق ہیں اور وہ قوم یہود ہے
یعنی منافق نہ پوری طرح تم مسلمانوں میں شامل کیونکہ دل سے کافر ہیں، اور نہ پوری طرح ان میں شریک کیونکہ بظاہر زبان سے اپنے کو مسلمان کہتے تھے { مَذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ لَا اِلٰی ھٰؤُلَاءِ وَلا اِلٰی ھٰؤُلَاءِ }۔

أَلَم تَرَ إِلَى الَّذينَ نافَقوا يَقولونَ لِإِخوٰنِهِمُ الَّذينَ كَفَروا مِن أَهلِ الكِتٰبِ لَئِن أُخرِجتُم لَنَخرُجَنَّ مَعَكُم وَلا نُطيعُ فيكُم أَحَدًا أَبَدًا وَإِن قوتِلتُم لَنَنصُرَنَّكُم وَاللَّهُ يَشهَدُ إِنَّهُم لَكٰذِبونَ {59:11}
کیا تو نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جو دغاباز ہیں کہتے ہیں اپنے بھائیوں کو کافر ہیں اہل کتاب میں سے اگر تم کو کوئی نکال دے گا تو ہم بھی نکلیں گے تمہارےساتھ اور کہا نہ مانیں گے کسی کا تمہارے معاملہ میں کبھی اور اگر تم سے لڑائی ہوئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے [۲۴] اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں [۲۵]
Beholdest thou not: those who dissemble saying Unto their brethren who disbelieve among the people of the Book: if ye are driven forth we shall surely go forth with you, and we, shall not ever obey anyone in your respect, and if ye are attacked, we shall surely succour you. And Allah beareth witness that surely they are liars.
یعنی دل سے نہیں کہہ رہے۔ محض مسلمانوں کے خلاف اکسانے کے لئے باتیں بنارہے ہیں۔ اور جو کچھ زبان سے کہہ رہے ہیں ہر گز اس پر عمل نہیں کریں گے۔
عبداللہ بن ابّی وغیرہ منافقین نے یہود "بنی نضیر" کو خفیہ پیام بھیجا تھا کہ گھبرانا نہیں اور اپنے کو اکیلا مت سمجھنا۔ اگر مسلمانوں نے تم کو نکالا۔ ہم تمہارے ساتھ نکلیں گے اور لڑائی کی نوبت آئی تو تمہاری مدد کریں گے۔ یہ ہمارا بالکل اٹل اور قطعی فیصلہ ہے۔ اس کے خلاف تمہارے معاملہ میں ہم کسی کی بات ماننے والے اور پروا کرنے والے نہیں۔

أَلَم تَرَ كَيفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعادٍ {89:6}
تو نے نہ دیکھا کیسا کیا تیرے رب نے عاد کے ساتھ
Bethinkest thou not in what wise thy Lord did with the 'A'ad:

بِسمِ اللَّهِ الرَّحمٰنِ الرَّحيمِ أَلَم تَرَ كَيفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصحٰبِ الفيلِ {105:1}
کیا تو نے نہ دیکھا کیسا کیا تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ [۱]
Hast thou not observed what wise thy Lord dealt with the fellows of the elephant?
یعنی ہاتھی والوں کے ساتھ تیرے رب نے جو معاملہ کیا وہ تم کو ضرور معلوم ہو گا۔ کیونکہ یہ واقعہ نبی کریم کی ولادت باسعادت سے چند روز پیشتر ہوا تھا اور غایت شہرت سے بچہ بچہ کی زبان پر تھا۔ اسی قرب عہد اور تواتر کی بناء پر اس کے علم کو رویت سے تعبیر فرما دیا۔





No comments:

Post a Comment