أَفَرَءَيتُمُ ما تُمنونَ {56:58}
|
دیکھو تو کہ جس (نطفے) کو تم (عورتوں کے رحم میں) ڈالتے ہو
|
So, tell Me about the semen you drop (in the wombs):
|
ءَأَنتُم تَخلُقونَهُ أَم نَحنُ الخٰلِقونَ {56:59}
|
کیا تم اس (سے انسان) کو بناتے ہو یا ہم بناتے ہیں؟
|
Is it you who create it, or are We the Creator?
|
یعنی رحم مادر میں نطفہ سے انسان کون بناتا ہے۔ وہاں تو تمہارا کسی کا ظاہری تصرف بھی نہیں چلتا۔ پھر ہمارے سوا کون ہے جو پانی کے قطرہ پر ایسی خوبصورت تصویر کھینچتا اور اس میں جان ڈالتا ہے۔
|
نَحنُ قَدَّرنا بَينَكُمُ المَوتَ وَما نَحنُ بِمَسبوقينَ {56:60}
|
ہم نے تم میں مرنا ٹھہرا دیا ہے اور ہم اس (بات) سے عاجز نہیں
|
We have appointed (the times of) death among you, and We cannot be frustrated
|
یعنی جلانا مارنا سب ہمارے قبضے میں ہے۔ جب وجود وعدم کی باگ ہمارے ہاتھ میں ہوئی تو مرنے کے بعد اٹھادینا کیا مشکل ہوگا۔
|
عَلىٰ أَن نُبَدِّلَ أَمثٰلَكُم وَنُنشِئَكُم فى ما لا تَعلَمونَ {56:61}
|
کہ تمہاری طرح کے اور لوگ تمہاری جگہ لے آئیں اور تم کو ایسے جہان میں جس کو تم نہیں جانتے پیدا کر دیں
|
from replacing you with others like you, and creating you (afresh) in that (form) which you do not know.
|
حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "یعنی تم کو اور جہان میں لیجائیں، تمہاری جگہ یہاں اور خلقت بسادیں"۔
|
وَلَقَد عَلِمتُمُ النَّشأَةَ الأولىٰ فَلَولا تَذَكَّرونَ {56:62}
|
اور تم نے پہلی پیدائش تو جان ہی لی ہے۔ پھر تم سوچتے کیوں نہیں؟
|
And you certainly know the first creation; then why do you not take lesson?
|
یعنی پہلی پیدائش کو یاد کرکے دوسری کو بھی سمجھ لو۔
|
أَفَرَءَيتُمُ ما تَحرُثونَ {56:63}
|
بھلا دیکھو تو کہ جو کچھ تم بوتے ہو
|
Well, tell Me about that (seed) which you sow:
|
ءَأَنتُم تَزرَعونَهُ أَم نَحنُ الزّٰرِعونَ {56:64}
|
تو کیا تم اسے اُگاتے ہو یا ہم اُگاتے ہیں؟
|
Is it you who grow it, or are We the One who grows?
|
یعنی بظاہر بیج زمین میں تم ڈالتے ہو لیکن زمین کے اندر اس کی پرورش کرنا پھر باہر نکال کر ایک لہلہاتی کھیتی بنادینا کس کاکام ہے اس کے متعلق تو ظاہری اور سطحی دعوٰی بھی تم نہیں کر سکتے کہ ہماری تیار کی ہوئی ہے۔
|
لَو نَشاءُ لَجَعَلنٰهُ حُطٰمًا فَظَلتُم تَفَكَّهونَ {56:65}
|
اگر ہم چاہیں تو اسے چورا چورا کردیں اور تم باتیں بناتے رہ جاؤ
|
If We so will, We can certainly make it crumbled, and you will remain wondering,
|
إِنّا لَمُغرَمونَ {56:66}
|
(کہ ہائے) ہم تو مفت تاوان میں پھنس گئے
|
(and saying,) “We are laden with debt,
|
بَل نَحنُ مَحرومونَ {56:67}
|
بلکہ ہم ہیں ہی بےنصیب
|
rather we are totally deprived.”
|
یعنی کھیتی پیدا کرنے کے بعد اس کا محفوظ اور باقی رکھنا بھی ہمارا ہی کام ہے۔ ہم چاہیں تو کوئی آفت بھیج دیں جس سے ایک دم میں ساری کھیتی تہس نہس ہو کر رہ جائے پھر تم سر پکڑا کر روؤ اور آپس میں بیٹھ کر باتیں بنانے لگو کہ میاں ہمارا تو بڑا بھاری نقصان ہوگیا۔ بلکہ سچ پوچھو تو بالکل خالی ہاتھ ہوگئے۔
|
أَفَرَءَيتُمُ الماءَ الَّذى تَشرَبونَ {56:68}
|
بھلا دیکھو تو کہ جو پانی تم پیتے ہو
|
Again, tell Me about the water you drink:
|
ءَأَنتُم أَنزَلتُموهُ مِنَ المُزنِ أَم نَحنُ المُنزِلونَ {56:69}
|
کیا تم نے اس کو بادل سے نازل کیا ہے یا ہم نازل کرتے ہیں؟
|
Is it you who have brought it down from the clouds, or are We the One who sends (it) down?
|
یعنی بارش بھی ہمارے حکم سے آتی ہے اور زمین کے خزانوں میں وہ پانی ہم ہی جمع کرتے ہیں۔ تم کو کیا قدرت تھی کہ پانی بنالیتے یا خوشامد اور زبردستی کرکے بادل سے چھین لیتے۔
|
لَو نَشاءُ جَعَلنٰهُ أُجاجًا فَلَولا تَشكُرونَ {56:70}
|
اگر ہم چاہیں تو ہم اسے کھاری کردیں پھر تم شکر کیوں نہیں کرتے؟
|
If We so will, We can make it bitter in taste. So why do you not offer gratitude?
|
یعنی ہم چاہیں تو میٹھے پانی کو بدل کر کھاری کڑوا بنادیں جو نہ پی سکو نہ کھیتی کے کام آئے۔ پھر احسان نہیں مانتے کہ ہم نے میٹھے پانی کے کتنے خزانے تمہارے ہاتھ دے رکھے ہیں۔ بعض روایات میں ہے کہ نبی کریم ﷺ پانی پی کر فرماتے تھے۔ { اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ سَقَاناہُ عَذْبًا فُرَاتًا بِرَحْمَتِہٖ وَلَمْ یَجْعَلْہُ مِلْحًا اُجَاجًا بِذُنُوْبِنَا } (ابن کثیرؒ)۔
|
أَفَرَءَيتُمُ النّارَ الَّتى تورونَ {56:71}
|
بھلا دیکھو تو جو آگ تم درخت سے نکالتے ہو
|
Now tell Me about the fire you kindle:
|
ءَأَنتُم أَنشَأتُم شَجَرَتَها أَم نَحنُ المُنشِـٔونَ {56:72}
|
کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرتے ہیں؟
|
Is it you who have originated its tree, 5 or are We the Originator?
|
عرب میں کئی درخت سبز ایسے ہیں جن کو رگڑنے سے آگ نکلتی ہے جیسے ہمارے ہاں بانس ، پہلے سورۃ "یٰسٓ" میں اس کا بیان ہوچکا۔ یعنی ان درختوں میں آگ کس نے رکھی ہے۔ تم نے یا ہم نے۔
|
نَحنُ جَعَلنٰها تَذكِرَةً وَمَتٰعًا لِلمُقوينَ {56:73}
|
ہم نے اسے یاد دلانے اور مسافروں کے برتنے کو بنایا ہے
|
We have made it a reminder (of Our infinite power, and of the fire of Hell) and a benefit for travelers in deserts.
|
جنگل والوں اور مسافروں کو آگ سے بہت کام پڑتا ہے۔ خصوصاً جاڑے کے موسم میں۔ اور یوں تو سب ہی کا کام اس سے چلتا ہے۔ (تنبیہ) بعض روایات کی بناء پر علماء نے مستحب سمجھا ہے کہ ان آیات میں ہر جملہ استفہامیہ کو تلاوت کرنے کے بعد کہے { بَلْ اَنْتَ یَارَبِّ }۔
|
یعنی یہ آگ دیکھ کر دوزخ کی آگ یاد کریں کہ یہ بھی اسی کا ایک حصہ اور ادنیٰ نمونہ ہے اور سوچنے والے کو یہ بات بھی یاد آسکتی ہے کہ جو خدا سبز درخت سے آگ نکالنے پر قادر ہے وہ یقیناً مردہ کو زندہ کرنے پر بھی قادر ہو گا۔
|
فَسَبِّح بِاسمِ رَبِّكَ العَظيمِ {56:74}
|
تو تم اپنے پروردگار بزرگ کے نام کی تسبیح کرو
|
So, proclaim purity of the name of your Lord, the Magnificent.
|
جس نے ایسی مختلف اور کارآمد چیزیں پیدا کیں اور خالص اپنے فضل و احسان سے ہم کو منتفع کیا اس کا شکرادا کرنا چاہیئے۔ اور منکرین کی گھڑی ہوئی خرافات سے اس کی اور اس کے نام مبارک کی پاکی بیان کرنا چاہیئے۔ تعجب ہے کہ لوگ ایسی آیات باہرہ دیکھنے کے بعد بھی اس کی قدرت و وحدانیت کو کماحقہ نہیں سمجھتے۔
|
اللہ پاک کا فرمان ہے:
بھلا کیا ہم مسلمانوں(فرمانبرداروں) کو مجرموں(نافرمانوں) کے برابر کردیں گے؟ تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ تم کیسی باتیں طے کرلیتے ہو؟ کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم یہ پڑھتے ہو۔ کہ تمہیں وہاں وہی کچھ ملے گا جو تم پسند کرو گے؟ یا تم نے ہم سے قیامت کے دن تک باقی رہنے والی قسمیں لے رکھی ہیں کہ تمہیں وہی کچھ ملے گا جو تم طے کرو گے؟ (اے پیغمبر) ان سے پوچھو کہ : ان میں سے کون ہے جس نے اس بات کی ضمانت لے رکھی ہو؟ کیا خدائی میں ان کے مانے ہوئے کچھ شریک ہیں (جو یہ ضمانت لیتے ہوں؟) تو پھر لے آئیں اپنے ان شریکوں(خداؤوں) کو، اگر وہ سچے ہیں۔
[سورۃ نمبر 68 القلم، آیت نمبر 35]
تفسیر:
بعض کافر یہ کہتے تھے کہ اگر بالفرض ہمیں اللہ تعالیٰ نے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا تب بھی وہ ہمیں وہاں جنت کی نعمتیں دے گا، جیسا کہ [سورة حم السجدہ:آیت50] میں گذرا ہے۔ یہ آیتیں اس بےبنیاد خیال کی تردید فرما رہی ہیں۔
یہ ایک مختصر مگر پراثر ناصحانہ سوال ہے، اور خطاب کرنے والا(اللہ) مسلمانوں (فرمانبرداروں) کو کافروں (نافرمانوں) کے برابر کرنے کے خیال پر حیرت اور انکار کا اظہار کر رہا ہے۔
خطیب بنیادی طور پر کہہ رہا ہے:
"آپ یہ بھی کیسے تجویز کر سکتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کو جو اللہ کے فرمانبردار ہیں، ان کے ساتھ ان لوگوں کے برابر سلوک کریں جو اس کی نافرمانی اور انکار کرتے ہیں؟ آپ کو کیا ہو گیا ہے کہ آپ ایسا سوچیں گے؟ آپ کو کون سی عقلمندی اس بات پر آمادہ یا مجبور کرتی ہے؟
حکمت بھرا قرآن اللہ کی مرضی کے آگے سر تسلیم خم کرنے والوں اور اسے مسترد کرنے والوں کے درمیان وسیع فرق پر زور دے رہا ہے، اور اس خیال کو رد کر رہا ہے کہ دونوں گروہوں کو برابر سمجھا جائے۔
اس عبارت میں کفار کو ان کے تکبر اور جھوٹے دعووں کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اں چیلنج کیا گیا ہے کہ وہ اپنے عقائد کے ثبوت پیش کریں۔ یہ عاجزی اور سچائی کو تسلیم کرنے کی اہمیت کی ایک طاقتور یاد دہانی ہے۔
لاجواب الہامی سوال
القرآن:
جو لوگ ایمان لے آئے ہیں، کیا ان کے لیے اب بھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر(یاد) کے لیے اور جو حق(قرآن) اترا ہے اس کے لیے پسیج(ڈر،جھک) جائیں؟ (1) اور وہ ان لوگوں(یعنی یہود ونصاریٰ) کی طرح نہ بنیں(3) جن کو پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر ان پر ایک لمبی مدت گزر گئی، اور ان کے دل سخت ہوگئے، اور (آج) ان میں سے بہت سے نافرمان ہیں؟
[سورۃ نمبر 57 الحديد، آیت نمبر 16]
یعنی
مومن لوگ، فرمانبرداری کی پابندی کرنے اور نافرمانی چھوڑنے کا دل میں پختہ ارادہ کب کریں گے؟
(2)اور خصوصاً یہود ونصاریٰ کی طرح بننے سے کب باز آئیں گے؟ کیونکہ وہ سب نافرمان ہیں۔
کہو: کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟
[القرآن»سورۃ البقرۃ، آیت#140]
تشریح:
یہ لاجواب الہامی سوال ہماری عاجزی(بےبسی) اور خود غور و فکر کی دعوت ہے۔ یہ ایک یاد دہانی ہے کہ ہمارا علم اور فہم محدود ہے، جب کہ ایک اکیلے اللہ کا علم اور حکمت لامحدود اور ہر چیز پر محیط ہے۔
یہ سوال پوچھ کر، ہمیں اپنے علم کی حدود کو پہچاننے اور یہ تسلیم کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے کہ ایک اللہ کی سمجھ اور حکمت ہماری ذات سے بالاتر ہے۔ یہ ایک اللہ کی ہدایت(یعنی اسلامی شریعت) پر ایمان و بھروسہ کرنے اور تمام معاملات میں اسی کے نازل کردہ علم سے اس کی حکمت تلاش کرنے کی دعوت ہے۔
قُل مَن رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ قُلِ اللَّهُ ۚ قُل أَفَاتَّخَذتُم مِن دونِهِ أَولِياءَ لا يَملِكونَ لِأَنفُسِهِم نَفعًا وَلا ضَرًّا ۚ قُل هَل يَستَوِى الأَعمىٰ وَالبَصيرُ أَم هَل تَستَوِى الظُّلُمٰتُ وَالنّورُ ۗ أَم جَعَلوا لِلَّهِ شُرَكاءَ خَلَقوا كَخَلقِهِ فَتَشٰبَهَ الخَلقُ عَلَيهِم ۚ قُلِ اللَّهُ خٰلِقُ كُلِّ شَيءٍ وَهُوَ الوٰحِدُ القَهّٰرُ {13:16}
|
پوچھ کون ہے رب آسمان اور زمین کا کہدے اللہ ہے کہہ پھر کیا تم نے پکڑے ہیں اس کے سوا ایسے حمایتی جو مالک نہیں اپنے بھلے اور برے کے [۲۷] کہہ کیا برابر ہوتا ہے اندھا اور دیکھنے والا یا کہیں برابر ہے اندھیرا اور اجالا [۲۸]کیا ٹھہرائے ہیں انہوں نے اللہ کے لئے شریک کہ انہوں نے کچھ پیدا کیا ہے جیسے پیدا کیا اللہ نے پھر مشتبہ ہو گئ پیدائش انکی نظر میں کہہ اللہ ہے پیدا کرنے والا ہر چیز کا اور وہی ہے اکیلا زبردست [۲۹]
|
Say, “Who is the Lord of the heavens and the earth?” Say, “Allah.” Say, “Have you, then, taken as protectors those besides Him who possess no power to cause benefit or harm even to themselves?” Say, “Is it that a blind person and a sighted one are equal, or that all sorts of the darkness and the light are alike?” Or, have they ascribed such partners with Allah who (according to their belief) have created (some of the creation) as He has created, and thus the creation seemed to them alike? Say, “Allah is the Creator of all things, and He is the One, the All-Dominant.”
|
یعنی جیسی مخلوقات خدا تعالیٰ نے پیدا کی ، کیا تمہارےدیوتاؤں نے ایسی کوئی چیز پیدا کی ہے جسے دیکھ کر ان پر خدائی کا شبہ ہونے لگا۔ وہ تو ایک مکھی کا پر اور ایک مچھر کی ٹانگ بھی نہیں بنا سکتے۔ بلکہ تمام چیزوں کی طرح خود بھی اسی اکیلے زبردست خدا کی مخلوق ہیں۔ پھر ایسی عاجز و مجبور چیزوں کو خدائی کے تخت پر بٹھا دینا کس قدر گستاخی اور شوخ چشمی ہے۔
|
یعنی موحد و مشرک میں ایسا فرق ہے جیسے بینا اور نابینا میں اور توحید و شرک کا مقابلہ ایسا سمجھو جیسے نور کا ظلمت سے ۔ تو کیا ایک اندھا مشرک جو شرک کی اندھیریوں میں پڑا ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہو اس مقام پر پہنچ سکتا ہے جہاں ایک موحد کو پہنچنا ہے جو فہم و بصیرت اور ایمان و عرفان کی روشنی میں فطرت انسانی کے صاف راستہ پر چل رہا ہے ؟ ہرگز دونوں ایک نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتے۔
|
یعنی جب ربوبیت کا اقرار صرف خدا کے لئے کرتے ہو ، پھر مدد کے لئے دوسرے حمایتی کہاں سے تجویز کر لئے ۔ حالانکہ وہ برابر ذرہ نفع نقصان کا مستقل اختیار نہیں رکھتے۔
|
ما يَفعَلُ اللَّهُ
بِعَذابِكُم إِن شَكَرتُم وَءامَنتُم ۚ
وَكانَ اللَّهُ شاكِرًا عَليمًا {4:147}
|
کیا
کرے گا اللہ تم کو عذاب کر کے اگر تم حق کو مانو اور یقین رکھو اور اللہ قدردان
ہے سب کچھ جاننے والا [۲۰۹]
|
What will Allah
do with your torment, if ye return thanks and believe? And Allah is ever
Appreciative, Knowing.
|
یعنی
اللہ تعالیٰ نیک کاموں کا قدردان ہے اور بندوں کی سب باتوں کو خوب جانتا ہے سو
جو شخص اس کے حکم کو ممونیت اور شکرگذاری کے ساتھ تسلیم کرتا ہے اور اس پر یقین
رکھتا ہے تو اللہ عادل رحیم کو ایسے شخص پر عذاب کرنے سے کوئی تعلق نہیں یعنی
ایسے شخص کو ہرگز عذاب نہ دے گا وہ تو سرکش اور نافرمانوں کو عذاب دیتا ہے۔
|
وَلَئِن سَأَلتَهُم مَن خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ
وَسَخَّرَ الشَّمسَ وَالقَمَرَ لَيَقولُنَّ اللَّهُ ۖ فَأَنّىٰ يُؤفَكونَ
{29:61}
|
اور اگر اُن سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا
کیا۔ اور سورج اور چاند کو کس نے (تمہارے) زیر فرمان کیا تو کہہ دیں گے اللہ نے۔
تو پھر یہ کہاں اُلٹے جا رہے ہیں
|
If you ask them as to who has created the heavens and the earth and has subjugated the sun and the moon, they will certainly say, “Allah”. How then are they driven aback (by their whims?)
|
یعنی رزق
کے تمام اسباب (سماویہ و ارضیہ) اسی نے پیدا کئے سب جانتے ہیں، پھر اس پر بھروسہ
نہیں کرتے کہ وہ ہی پہنچا بھی دے گا۔ مگر جتنا وہ چاہے نہ جتنا تم چاہو۔ یہ اگلی
آیت میں سمجھا دیا ہے۔ (موضح)
|
أَفى قُلوبِهِم مَرَضٌ أَمِ ارتابوا أَم يَخافونَ أَن يَحيفَ اللَّهُ عَلَيهِم وَرَسولُهُ ۚ بَل أُولٰئِكَ هُمُ الظّٰلِمونَ {24:50}
|
کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے یا (یہ) شک میں ہیں یا ان کو یہ خوف ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان کے حق میں ظلم کریں گے (نہیں) بلکہ یہ خود ظالم ہیں
|
Is in their hearts a disease? or doubt they? or fear they that Allah shall misjudge them, as also His apostle? Aye! these are the very wrong-doers!
|
یعنی خدا و رسول کی بابت کوئی دھوکہ لگا ہوا ہے اور حضور ﷺ کی صداقت یا اللہ کے وعد و وعید میں کوئی شک و شبہ ہے؟ یا یہ گمان ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان کے معاملات کا خلاف انصاف فیصلہ کریں گے؟ اس لئے ان کی عدالت میں مقدمہ لیجانے سے کتراتے ہیں۔ سو یاد رکھو وہاں تو ظلم و بے انصافی کا احتمال ہی نہیں۔ ہاں خود ان ہی لوگوں نے ظلم پر کمر باندھ رکھی ہے۔ چاہتے ہیں کہ اپنا حق پورا وصول کر لیں اور دوسروں کو ایک پیسہ نہ دیں۔ اسی لئے ان معاملات کو خدائی عدالت میں لانے سےگھبراتے ہیں جن میں سمجھتے ہیں کہ رسول کا منصفانہ فیصلہ ہمارے مطلب کے خلاف ہو گا۔ یہ تو منافقین کا ذکر تھا آگے ان کے بالمقابل مخلصین کی اطاعت و فرمانبرداری کو بیان فرماتے ہیں۔
|
روگ یہ کہ خدا و رسول کو سچ مانا لیکن حرص نہیں چھوڑتی کہ کہے پر چلیں ۔ جیسے بیمار چاہتا ہے چلے اور پاؤں نہیں اٹھتا۔
|
وَلَئِن سَأَلتَهُم مَن نَزَّلَ مِنَ السَّماءِ ماءً
فَأَحيا بِهِ الأَرضَ مِن بَعدِ مَوتِها لَيَقولُنَّ اللَّهُ ۚ قُلِ الحَمدُ
لِلَّهِ ۚ بَل أَكثَرُهُم لا يَعقِلونَ {29:63}
|
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمان سے پانی کس نے نازل فرمایا
پھر اس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد (کس نے) زندہ کیا تو کہہ دیں گے کہ اللہ نے۔
کہہ دو کہ اللہ کا شکر ہے۔ لیکن ان میں اکثر نہیں سمجھتے
|
And
wert thou to ask them: who sendeth down water from the heaven, and therewith
quickeneth the earth after the death thereof? they would surely say: Allah.
Say thou: all praise unto Allah! Aye! most of them reflect not.
|
یعنی
مینہ بھی ہر کسی پر برابر نہیں برستا۔ اور اسی طرح حال بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ذرا
دیر میں مفلس سے دولتمند کر دے۔
|
أَفَمَن كانَ مُؤمِنًا كَمَن كانَ فاسِقًا ۚ لا يَستَوۥنَ {32:18}
|
بھلا جو مومن ہو وہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو نافرمان ہو؟ دونوں برابر نہیں ہو سکتے
|
Shall he, therefore, who is a believer, be like unto him who is a transgressor? They are not equal.
|
اگر ایک ایماندار اور بے ایمان کا انجام برابر ہو جائے تو سمجھو خدا کے ہاں بالکل اندھیر ہے (العیاذ باللہ)۔
|
أَفَأَمِنَ الَّذينَ مَكَرُوا السَّيِّـٔاتِ أَن يَخسِفَ اللَّهُ بِهِمُ الأَرضَ أَو يَأتِيَهُمُ العَذابُ مِن حَيثُ لا يَشعُرونَ {16:45}
|
سو کیا نڈر ہو گئے وہ لوگ جو برے فریب (داؤ) کرتے ہیں اس سے کہ دھنسا دیوے اللہ ان کو زمین میں یا آ پہنچے ان پر عذاب جہاں سے خبر نہ رکھتے ہوں [۶۸]
|
Do those who contrive evil plots feel immune from that Allah makes them sink into the earth, or from that the punishment comes to them from where they would not perceive,
|
یعنی اگلے انبیاء اور ان کی قوموں کا حال سننے اور قرآن ایسی مکمل یاداشت پہنچ جانے کے بعد بھی کیا کفار مکہ حق کے مقابلہ میں اپنی مکاریوں اور داؤ فریب سے باز نہیں آتے ۔ کیا یہ امکان نہیں کہ خدا انہیں قارون کی طرح زمین میں دھنسا دے۔ یا ایسی طرف سے کوئی آفت بھیجدے جدھر سے انہیں وہم و گمان بھی نہ ہو۔ چنانچہ "بدر" میں مسلمان غازیوں کے ہاتھوں سے ایسی سزا دلوائی جو اپنی قوت و جمعیت اور مسلمانوں کے ضعف و قلت کو دیکھتے ہوئے ان کے تصور میں بھی نہ آ سکتی تھی۔
|
وَلَئِن سَأَلتَهُم مَن خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ
لَيَقولُنَّ اللَّهُ ۚ قُلِ الحَمدُ لِلَّهِ ۚ بَل أَكثَرُهُم لا يَعلَمونَ
{31:25}
|
اور اگر تم اُن سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا
کیا تو بول اُٹھیں گے کہ اللہ نے۔ کہہ دو کہ اللہ کا شکر ہے لیکن ان میں اکثر سمجھ
نہیں رکھتے
|
And if you ask them as to who has created the heavens and the earth, they will certainly say, “Allah.” Say, “AlHamdulillāh ” (Praise be to Allah). But most of them do not know.
|
یعنی
الحمدلِلہ اتنا تو زبان سے اعتراف کرتے ہو کہ زمین و آسمان کا پیدا کرنا۔ بجز
اللہ کے کسی کا کام نہیں تو پھر اب کونسی خوبی رہ گئ جو اس کی ذات میں نہ ہو۔
کیا ان چیزوں کا پیدا کرنا اور ایک خاص محکم نظام پر چلانا بدون اعلیٰ درجہ کے
علم و حکمت اور زور و قدرت کے ممکن ہے؟ لا محالہ "خالق السمٰوٰت
والارض" میں تمام کمالات تسلیم کرنے پڑیں گے۔ اور یہ بھی اسی کی قدرت کا
ایک نمونہ ہے کہ تم جیسے منکرین سے اپنی عظمت و قدرت کا اقرار کرا دیتا ہے جس کے
بعد تم ملزم ٹھہرتے ہو کہ جب تمہارے نزدیک خالق تنہا وہ ہے تو معبود دوسرے
کیونکر بن گئے۔ بات تو صاف ہے پر بہت لوگ نہیں سمجھتے اور یہاں پہنچ کر اٹک جاتے
ہیں۔
|
وَلَئِن سَأَلتَهُم مَن خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ
لَيَقولُنَّ اللَّهُ ۚ قُل أَفَرَءَيتُم ما تَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ إِن
أَرادَنِىَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَل هُنَّ كٰشِفٰتُ ضُرِّهِ أَو أَرادَنى بِرَحمَةٍ
هَل هُنَّ مُمسِكٰتُ رَحمَتِهِ ۚ قُل حَسبِىَ اللَّهُ ۖ عَلَيهِ يَتَوَكَّلُ المُتَوَكِّلونَ
{39:38}
|
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا
کیا تو کہہ دیں کہ اللہ نے۔ کہو کہ بھلا دیکھو تو جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو۔
اگر اللہ مجھ کو کوئی تکلیف پہنچانی چاہے تو کیا وہ اس تکلیف کو دور کرسکتے ہیں
یا اگر مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو وہ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں؟ کہہ دو
کہ مجھے اللہ ہی کافی ہے۔ بھروسہ رکھنے والے اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں
|
If you ask them as to who created the heavens and the earth, they will certainly say, “Allah.” Say, “Then, tell me about those whom you invoke other than Allah, if Allah intends to cause some harm to me, are they (able) to remove the harm caused by Him? Or if He intends to bless me with mercy, are they (able) to hold back His mercy (from me)?” Say, “Allah is sufficient for me. In Him trust those who (rightly) trust (in someone).”
|
یعنی ایک
طرف تو خداوند قدوس جو تمہارے اقرار کے موافق تمام زمین و آسمان کا پیدا کرنے
والا ہے اور دوسری طرف پتھر کی بیجان مورتیں یا عاجز مخلوق جو سب ملکر بھی خدا
کی بھیجی ہوئی ادنٰی سے ادنٰی تکلیف و راحت کو اس کی جگہ سے نہ ہٹا سکے۔ تم ہی
بتاؤ دونوں میں سے کس پر بھروسہ کیا جائے اور کس کو اپنی مدد کے لئے کافی سمجھا
جائے حضرت ہودؑ کی قوم نے بھی کہا تھا۔{ اِنْ نَقُوْلُ اِلَّا اعْتَرَاکَ بَعْضُ
اٰلِھَتِنَا بَسُوْءٍ } جس کا جواب حضرت ہودؑ نے یہ دیا { اَنِّی اُشْھِدُ اللہَ
وَاشْھَدُ وْا اَنِّی بَرِیءٌ مِمَّا تُشْرِکُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ فَکِیْدُ وْنی
جَمِیْعًا ثُمَّ لَا تنظرون اَنِّیْ تَوَکلّتُ عَلَی اللہِ رَبِّی وَرَبِّکُمْ
مَا مِنْ دَابَّۃٍ الا ھُوَ اٰ خِذٌ بِناصِیَتِھَا اِنَّ رَبِّی عَلٰی صَراطٍ
مُسْتقیم } (ہود رکوع ۵) اور حضرت ابراہیمؑ نے اپنی قوم سے فرمایا تھا { وَلَا
اَخَافُ مَا تُشْرِکُوْنَ بِہٖ اِلَّا اَنْ یَّشَاءَ رَبِّی شَیْئًا وَسِعَ
رَبِّی کلَّ شَیْءٍ عِلْمًا۔ اَفَلَا تتذکَّرُوْنَ وَکَیْفَ اَخَافُ مَا
اَشْرَکْتُمْ وَلَا تَخَافُوْنَ اَنَّکُمْ اَشْرَکتم بِاللہِ مَالَمْ یُنزِّل
بِہٖ عَلَیْکُمْ سُلْطَانًا فَاَیُّ الفَریْقیْنِ اَحقُّ بِالاَمْنِ اِنْ
کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ } (انعام رکوع۹)
|
أَفَمَن كانَ عَلىٰ بَيِّنَةٍ مِن رَبِّهِ كَمَن زُيِّنَ لَهُ سوءُ عَمَلِهِ وَاتَّبَعوا أَهواءَهُم {47:14}
|
بھلا جو شخص اپنے پروردگار (کی مہربانی) سے کھلے رستے پر (چل رہا) ہو وہ ان کی طرح (ہوسکتا) ہے جن کے اعمال بد انہیں اچھے کرکے دکھائی جائیں اور جو اپنی خواہشوں کی پیروی کریں
|
Is he then who standeth,on an evidence from his Lord like Unto him whose evil of work is made fair-seeming for him and those who follow their lusts?
|
یعنی ایک شخص نہایت شرح صدر اور فہم و بصیرت کے ساتھ سچائی کی صاف اور کشادہ سڑک پر بے کھٹکے چلا جا رہا ہے، اور دوسرا اندھیرے میں پڑا ٹھوکریں کھاتا ہے، جس کو سیاہ و سفید یا نیک و بد کی کچھ تمیز نہیں۔ حتّٰی کہ اپنی بے تمیزی سے برائی کو بھلائی سمجھتا ہے اور خواہشات کی پیروی میں اندھا ہو رہا ہے کیا ان دونوں کا مرتبہ اور انجام برابر ہو جائے گا؟ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا کیونکہ حق تعالٰی کی شان حکمت و عدل کے منافی نہیں ہے۔
|
وَلَئِن سَأَلتَهُم مَن خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ
لَيَقولُنَّ خَلَقَهُنَّ العَزيزُ العَليمُ {43:9}
|
اور اگر
تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو کہہ دیں گے کہ ان
کو غالب اور علم والے (اللہ) نے پیدا کیا ہے
|
Should you ask them as to who has created the heavens and the earth, they will certainly say, “They are created by the All-Mighty, the All-Knowing,”
|
وَلَئِن سَأَلتَهُم مَن خَلَقَهُم لَيَقولُنَّ اللَّهُ
ۖ فَأَنّىٰ يُؤفَكونَ {43:87}
|
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ ان کو کس نے پیدا کیا ہے تو کہہ
دیں گے کہ اللہ نے۔ تو پھر یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں؟
|
And if you ask them as to who has created them, they will certainly say, “Allah”. Then, to where are they driven back (by their false desires)?
|
یعنی جب
بنانے والا ایک اللہ ہے تو بندگی کا مستحق کوئی دوسرا کیونکر ہو گیا۔ عبادت نام
ہے انتہائی تذلل کا۔ وہ اسی کا حق ہونا چاہئے جو انتہائی عظمت رکھتا ہے۔ عجیب
بات مقدمات کو تسلیم کرتے ہیں اور نتیجہ سے انکار۔
|
أَفَأَصفىٰكُم رَبُّكُم
بِالبَنينَ وَاتَّخَذَ مِنَ المَلٰئِكَةِ إِنٰثًا ۚ إِنَّكُم لَتَقولونَ قَولًا
عَظيمًا {17:40}
|
کیا تم کو چن کر دیدئے تمہارے رب نے بیٹے اور اپنے لئے کر لیا فرشتوں کو بیٹیاں تم
کہتے ہو بھاری بات [۶۰]
|
Is it, then, that your Lord has chosen you people to have sons, and has Himself opted for females from among the angels? Surely, you are uttering a serious statement.
|
یعنی ایک
تو خدا کے لئے اولاد تجویز کرنا اور اولاد بھی بیٹیاں جنہیں تم نہایت حقارت کی
نظر سے دیکھتے ہو۔ یہ بڑی بھاری گستاخی ہے۔
|
أَفَأَمِنَ أَهلُ
القُرىٰ أَن يَأتِيَهُم بَأسُنا بَيٰتًا وَهُم نائِمونَ {7:97}
|
اب کیا نڈر ہیں بستیوں
والے اس سے کہ آ پہنچے ان پر آفت ہماری راتوں رات جب سوتے ہوں
|
So, do the people of the towns feel themselves immune from Our punishment that may befall them at night while they are asleep?
|
أَفَأَمِنتُم أَن
يَخسِفَ بِكُم جانِبَ البَرِّ أَو يُرسِلَ عَلَيكُم حاصِبًا ثُمَّ لا تَجِدوا
لَكُم وَكيلًا {17:68}
|
سو کیا تم بے ڈر ہو گئے اس سے کہ دھنسا دے تم کو جنگل کے کنارے [۱۰۷] یا بھیج دے تم
پر آندھی پتھر برسانے والی پھر نہ پاؤ اپنا کوئی نگہبان
|
Do you, then, feel secure from that He makes a part of the land sink down along with you, or that He sends down a rain of stones on you, whereupon you will find no one to protect you?
|
یعنی
سمندر کے کناے خشکی میں دھنسا دے۔ مثلاً زلزلہ آ جائے اور زمین شق ہو کر قارون
کی طرح اس میں دھنس جاؤ۔ خلاصہ یہ کہ ہلاک کرنا کچھ دریا کی موجوں پر موقوف
نہیں۔
|
وَهٰذا
ذِكرٌ مُبارَكٌ أَنزَلنٰهُ ۚ أَفَأَنتُم لَهُ
مُنكِرونَ {21:50}
|
اور یہ
ایک نصیحت ہے برکت کی جو ہم نے اتاری سو کیا تم اُسکو نہیں مانتے [۵۹]
|
And this is a blessed advice We have sent down. Are you still rejecting it?
|
یعنی ایک
نصیحت کی کتاب یہ قرآن تمہارے سامنے موجود ہے جس کا جلیل القدر ، عظیم النفع اور
کثیر الخیر ہونا ، تورات سے بھی زیادہ روشن ہے۔ کیا ایسی واضح اور روشن کتاب کے
تم منکر ہوتے ہو جہاں انکار کی گنجائش ہی نہیں۔
|
وَما
مُحَمَّدٌ إِلّا رَسولٌ قَد خَلَت مِن قَبلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِي۟ن ماتَ أَو قُتِلَ انقَلَبتُم عَلىٰ
أَعقٰبِكُم ۚ وَمَن يَنقَلِب عَلىٰ عَقِبَيهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيـًٔا ۗ
وَسَيَجزِى اللَّهُ الشّٰكِرينَ {3:144}
|
اور محمد
تو ایک رسول ہے ہو چکے اس سے پہلے بہت رسول پھر کیا اگر وہ مر گیا یا مارا گیا تو تم پھر جاؤ گے الٹے پاؤں اور جو
کوئی پھر جائے گا الٹے پاؤں تو ہر گز نہ بگاڑے گا اللہ کا کچھ اور اللہ ثواب دے
گا شکر گذاروں کو [۲۱۱]
|
MuHammad is but a messenger, there have been messengers before him. So, if he dies or is killed, would you turn back on your heels? Whoever turns back on his heels can never harm Allah in the least. Allah shall soon reward the grateful.
|
واقعہ یہ
ہے کہ احد میں نبی کریم ﷺ نےبنفس نفیس نقشہ جنگ قائم کیا۔ تمام صفوف درست
کرنے کے بعد پہاڑ کا ایک درہ باقی رہ گیا۔ جہاں سے اندیشہ تھا کہ دشمن لشکر
اسلام کے عقب پر حملہ آور ہو جائے اس پر آپ نے پچاس تیر اندازوں کو جن کے سردار
حضرت عبداللہ بن جبیرؓ تھے مامور فرما کر تاکید کر دی کہ ہم خواہ کسی حالت میں
ہوں تم یہاں سے مت ٹلنا۔ مسلمان غالب ہوں یا مغلوب، حتٰی کہ اگر تم دیکھو کہ
پرندے ان کا گوشت نوچ کر کھا رہے ہیں تب بھی اپنی جگہ مت چھوڑنا۔ { وانا لن نزال
غالبین ما ثبتم مکانکم } (بغوی) ہم برابر اس وقت تک غالب رہیں گے جب تک تم اپنی
جگہ قائم رہو گے الغرض فوج کو پوری ہدایت دینےکے بعد جنگ شروع کی گئ۔ میدان کار
زار گرم تھا، غازیان اسلام بڑھ بڑھ کر جوہر شجاعت دکھا رہے تھے ابو دجانہ، علی
مرتضیٰ اور دوسرے مجاہدین کی بسالت و بےجگری کے سامنے مشرکین قریش کی کمریں ٹوٹ
چکی تھیں۔ ان کو راہ فرار کے سوا اب کوئی راستہ نظر نہ آتا تھا کہ حق تعالیٰ نے
اپنا وعدہ پورا کر دکھایا۔ کفار کو شکست فاش ہوئی۔ وہ بدحواس ہو کر بھاگے ۔ ان
کی عورتیں جو غیرت دلانے کو آئی تھیں پائنچے چڑھا کر ادھر ادھر بھاگتی نظر آئیں۔
مجاہدین نے مال غنیمت پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ یہ منظر جب تیر اندازوں نے
دیکھا تو سمجھے کہ اب فتح کامل ہو چکی دشمن بھاگ رہا ہے، یہاں بیکار ٹھہرنا کیا
ضروری ہے چل کر دشمن کا تعاقب کریں اور غنیمت میں حصہ لیں۔ عبداللہ بن جبیرؓ نے
رسول اللہ ﷺ کا
ارشاد ان کو یاد دلایا وہ سمجھے کہ آپ کے ارشاد کا اصلی منشا ہم پورا کر
چکے ہیں۔ یہاں ٹھہرنے کی حاجت نہیں۔ یہ خیال کر کے سب غنیمت پر جا پڑے۔ صرف
عبداللہ بن جبیرؓ اور ان کے گیارہ ساتھی درہ کی حفاطت پر باقی رہ گئے۔ مشرکین کے
سواروں کا رسالہ خالد بن الولید کے زیر کمان تھا (جو اس وقت تک "حضرت خالدؓ"
نہیں بنے تھے) انہوں نے پلٹ کر درہ کی طرف سے حملہ کر دیا۔ دس بارہ تیر انداز
ڈھائی سو سواروں کی یلغار کو کہاں روک سکتے تھے، تاہم عبداللہ بن جبیرؓ اور ان
کے رفقاء نے مدافعت میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ اور اسی میں جان دے دی۔ مسلمان
مجاہدین اپنے عقب سے مطمئن تھے کہ ناگہاں مشرکین کا رسالہ ان کے سروں پر جا
پہنچا اور سامنے سے مشرکین کی فوج جو بھاگی جا رہی تھی، پیچھے پلٹ پڑی، مسلمان
دونوں طرف سے گھر گئے اور بہت زور کا رن پڑا۔ کتنے ہی مسلمان شہید اور زخمی
ہوئے۔ اسی افراتفری میں ابن قمیہ نے ایک بھاری پتھر نبی کریم ﷺ پر پھینکا۔ جس سے دندان مبارک
شہید اور چہرہ انور زخمی ہوا۔ ابن قمیہ نے چاہا کہ آپ کو قتل کرے، مگر مصعب
بن عمیرؓ نے (جن کے ہاتھ میں اسلام کا جھنڈا تھا) مدافعت کی۔ نبی کریم ﷺ زخم کی شدت سے زمین پر گرے۔ کسی
شیطان نے آواز لگا دی کہ آپ ﷺ قتل کر دئیے گئے، یہ سنتے ہی مسلمانوں کے ہوش خطا ہو
گئے اور پاؤں اکھڑ گئے بعض مسلمان ہاتھ پاؤں چھوڑ کر بیٹھ رہے۔ بعض ضعفاء کو
خیال ہوا کہ مشرکین کے سردار ابو سفیان سے امن حاصل کرلیں۔ بعض منافقین کہنے لگے
کہ جب محمد ﷺ قتل
کر دیے گئے تو اسلام چھوڑ کر اپنے قدیم مذہب میں واپس چلا جانا چاہئے اس وقت انس
بن مالک کے چچا انس ابن النضر نے کہا کہ اگر محمد ﷺ مقتول ہو گئے تو رب محمد ﷺ تو مقتول نہیں ہوا حضور ﷺ کے بعد تمہارا زندہ رہنا کس
کام کا ہے۔ جس چیز پر آپ ﷺ قتل ہوئے تم بھی اسی پر کٹ مرو اور جس چیز پر آپ ﷺ نے جان دی ہے۔ اسی پر تم بھی جان
دے دو۔ یہ کہہ کر آگے بڑھے، حملہ کیا، لڑے اور مارے گئے رضی اللہ عنہ۔ اسی اثناء
میں حضور ﷺ نے
آواز دی { اِلیّ عِبَادَللہِ اَنَا رَسُوْلُ اللہ } (اللہ کے بندو ادھر آؤ
میں خدا کا پیغمبر ہوں) کعب بن مالک آپ کو پہچان کر چلائے { یا معشر المسلمین }
مسلمانو! بشارت حاصل کرو!! رسول اللہ ﷺ یہاں موجود ہیں آواز کا سننا
تھا کہ مسلمان ادھر ہی سمٹنا شروع ہو گئے۔ تیس صحابہ نے آپ ﷺ کے قریب ہو کر مدافعت کی اور
مشرکین کی فوج کو منتشر کر دیا۔ اس موقع پر سعد بن ابی وقاص طلحہ، ابو طلحہ، اور
قتادہ بن النعمان وغیرہ نے بڑی جانبازیاں دکھلائیں آخر مشرکین میدان چھوڑ کر چلے
جانے پر مجبور ہوئے اور یہ آیات نازل ہوئیں۔ { وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ
} الخ یعنی محمد ﷺ بھی آخر خدا تو نہیں۔ ایک رسول ہیں ان سے پہلے کتنے
رسول گزر چکے جن کے بعد ان کے متبعین نے دین کو سنبھالا اور جان و مال فدا
کر کے قائم رکھا۔ آپ کا اس دنیا سے گذرنا بھی کچھ اچنبھا نہیں۔ اس وقت نہ سہی۔
اگر کسی وقت آپ کی وفات ہو گئ یا شہید کر دیے گئے۔ تو کیا تم دین کی خدمت و
حفاظت کے راستہ سے الٹے پاؤں پھر جاؤ گے اور جہاد فی سبیل اللہ ترک کر دو گے (
جیسے اس وقت محض خبر قتل سن کر بہت سے لوگ حوصلہ چھوڑ کر بیٹھنے لگے تھے) یا
منافقین کےمشورہ کےموافق العیاذ باللہ سرے سے دین کو خیرباد کہہ دو گے۔ تم سے
ایسی امید ہر گز نہیں۔ اور کسی نے ایسا کیا تو اپنا ہی نقصان کرے گا۔ خدا کا کیا
بگاڑ سکتا ہے۔ وہ تمہاری مدد کا محتاج نہیں بلکہ تم شکر کرو اگر اس نے اپنے دین
کی خدمت میں لگا لیا منت منہ کہ خدمت سلطاں ہمی کنم منت شناس ازو کہ بخدمت
گذاشتت اور شکر یہی ہے کہ ہم بیش از بیش خدمت دین میں مضبوط و ثابت قدم ہوں۔ اس
میں اشارہ نکلتا ہے کہ حضرت کی وفات پر بعضے لوگ دین سے پھر جائیں گے اور جو
قائم رہیں گے ان کو بڑا ثواب ہے اسی طرح ہوا کہ بہت لوگ حضرت کے بعد مرتد ہو ئے۔
صدیق اکبرؓ نے ان کو پھر مسلمان کیا اور بعض مارے گئے۔ ایک علمی تحقیق : { قَدْ
خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ } میں "خلت" "خلو"
سے مشتق ہے جس کے معنی "ہو چکنے" گذرنے اور چھوڑ کر چلے جانے کے ہیں۔
اس کے لئے موت لازم نہیں جیسے فرمایا { وَاِذَالَقُوْکُمْ قَالُوْ اٰ امَنَّا
وَاِذَخَلَوْ عَضُّوْاعَلَیْکُمُ الْاَنَامِلْ } یعنی جب تمہیں چھوڑ کر علیحدہ
ہوتے ہیں ۔ نیز "الرسل" میں لام استغراق نہیں، لام جنس ہے ۔ کیونکہ
اثبات مدعا میں استغراق کو کوئی دخل نہیں بعینہ اسی قسم کا جملہ حضرت مسیحؑ کی
نسبت فرمایا { مَاالْمَسِیْحُ بْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْخَلَتْ مِنْ
قَبْلِہِ الرُّسُلُ } کیا لام استغراق لیکر اس کے یہ معنی ہونگے کہ تمام پیغمبر
مسیحؑ سے پہلے گذر چکے۔ کوئی ان کے بعد آنے والا نہ رہا۔ لا محالہ لام جنس لینا
ہوگا۔ وہ ہی یہاں لیا جائے اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ عبداللہ بن مسعود کے
مصحف اور ابن عباس کی قرات میں "الرسل" نہیں رسل نکرہ ہے باقی
"خلو" کی تفصیل میں صرف موت یا قتل کا ذکر اس لئے کیا کہ موت طبعی
بہرحال آنے والی تھی اور قتل کی خبر اس وقت مشہور کی گئ تھی۔ اور چونکہ صورت موت
کا وقوع میں آنا مقدر تھا اس لئے اس کو قتل پر مقدم کیا گیا۔ ابوبکر صدیقؓ نے
حضور ﷺ کی وفات کے بعد جب صحابہ کے
مجمع میں یہ پوری آیت { الشّٰکِرِیْنَ } تک بلکہ آیت { اِنَّکَ مَیِّتٌ وَ
اِنَّھُمْ مَیِّتُوْنَ } بھی پڑھی تو لوگ { قَدْخَلَتْ } اور { اَفَائِنْ مات }
اور { اِنَّکَ مَیِّتٌ } سے "خلو" اور "موت" کے جواز و عدم
استبعاد پر متنبہ ہو گئے۔ جو صدیق اکبرؓ کی غرض تھی۔ موت کے واقع ہو چکنے پر نہ
صدیق اکبرؓ نے اس سے استدلال کیا نہ کسی اور نے سمجھا۔ اگر یہ الفاظ موت واقع ہو
چکنے کی خبر دیتے تو چاہئے تھا کہ نزول آیت کے وقت یعنی وفات کے سات برس پہلے ہی
سمجھ لیا جاتا کہ آپ کی وفات ہو چکی ہے۔ اس تقریر سے بعض محرفین کی سب تحریفات
ہباءً منشورا ہو جاتی ہیں۔ بخوف تطویل ہم زیادہ بسط نہیں کر سکتے۔ اہل علم کے
لئے اشارے کر دیے ہیں۔
|
وَما
جَعَلنا لِبَشَرٍ مِن قَبلِكَ الخُلدَ ۖ أَفَإِي۟ن مِتَّ فَهُمُ الخٰلِدونَ {21:34}
|
اور نہیں
دیا ہم نے تجھ سے پہلے کسی آدمی کو ہمیشہ کیلئے زندہ رہنا پھر کیا اگر تو مر گیا تو وہ رہ جائیں گے
|
We did not assign immortality to any human (even) before you. So, if you die, will they live for ever?
|
وَاللَّهُ
جَعَلَ لَكُم مِن أَنفُسِكُم أَزوٰجًا وَجَعَلَ لَكُم مِن أَزوٰجِكُم بَنينَ
وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُم مِنَ الطَّيِّبٰتِ ۚ أَفَبِالبٰطِلِ يُؤمِنونَ وَبِنِعمَتِ اللَّهِ هُم يَكفُرونَ {16:72}
|
اور اللہ
نے پیدا کیں تمہارے واسطے تمہای ہی قسم سے عورتیں [۱۱۰] اور دیے تم کو تمہاری
عورتوں سے بیٹے اور پوتے [۱۱۱] اور کھانے کو دیں تمکو ستھری چیزیں [۱۱۲] سو کیا جھوٹی باتیں مانتے ہیں اور اللہ کے فضل کو نہیں
مانتے [۱۱۳]
|
Allah has created spouses from among you and created sons and grandsons for you from your spouses, and gave you provision from good things. Is it, then, the falsehood that they believe in, and the blessing of Allah that they reject?
|
یعنی
بتوں کا احسان مانتے ہیں کہ بیماری سے چنگا کیا یا بیٹا دیا ، یا روزی دی ، اور
یہ سب جھوٹ اور وہ جو سچ دینے والا ہے اس کے شکر گذار نہیں ۔ کذا فی الموضح۔ اور
شاید یہ بھی اشارہ ہو کہ فانی و زائل زندگانی کی بقاء نوعی و شخصی کے اسباب کو
تو مانتے ہو اور خدا کی سب سے بڑی نعمت (پیغمبر السلام کی ہدایات) کو جو بقائے
ابدی اور حیات جاودانی کا واحد ذریعہ ہے ، تسلیم نہیں کرتے { اَلَا کُلُّ شَیْءٍ
مَاخَلَا اللہِ بَاطِلُ }۔
|
جو بقائے
شخصی کا سبب ہے۔
|
جو
تمہاری بقاء نوعی کا ذریعہ ہیں۔
|
یعنی نوح
انسان ہی سے تمہارا جوڑا پیدا کیا۔ تاالفت و موانست قائم رہے ۔ اور تخلیق کی غرض
پوری ہو ۔ { وَمِنْ اٰیَاتِہٖ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا
لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوْدَّۃً وَّرَحْمَۃً } (الروم
رکوع۳)
|
أَوَلَم
يَرَوا أَنّا جَعَلنا حَرَمًا ءامِنًا وَيُتَخَطَّفُ النّاسُ مِن حَولِهِم ۚ أَفَبِالبٰطِلِ يُؤمِنونَ وَبِنِعمَةِ اللَّهِ
يَكفُرونَ {29:67}
|
کیا نہیں
دیکھتے کہ ہم نے رکھ دی ہے پناہ کی جگہ امن کی اور لوگ اچکے جاتے ہیں ان کے آس
پاس سے کیا جھوٹ پر یقین رکھتے ہیں اور اللہ کا احسان
نہیں مانتے [۱۰۲]
|
Did they not see that We have made a peaceful sanctuary (Haram ) while (other) people around them are being snatched away? Do they still believe in falsity and reject Allah’s grace?
|
مکہ کے
لوگ اللہ کے گھر کے طفیل دشمنوں سے پناہ میں تھے۔ حالانکہ سارے ملک عرب میں فساد
اور کشت و خون کا بازار گرم تھا۔ بتوں کے جھوٹے احسان مانتے ہیں اللہ کا یہ سچا
احسان نہیں مانتے۔
|
أَفَبِعَذابِنا يَستَعجِلونَ
{26:204}
|
کیا ہمارے عذاب کو جلد مانگتے ہیں
|
Is it then Our punishment that they are trying to hasten up?
|
أَفَبِعَذابِنا يَستَعجِلونَ
{37:176}
|
کیا ہماری آفت کو جلد
مانگتے ہیں
|
Are they asking for Our punishment to come sooner?
|
وَاللَّهُ
فَضَّلَ بَعضَكُم عَلىٰ بَعضٍ فِى الرِّزقِ ۚ فَمَا الَّذينَ فُضِّلوا بِرادّى
رِزقِهِم عَلىٰ ما مَلَكَت أَيمٰنُهُم فَهُم فيهِ سَواءٌ ۚ أَفَبِنِعمَةِ اللَّهِ يَجحَدونَ {16:71}
|
اور اللہ
نے بڑائی دی تم میں ایک کو ایک پر روزی میں سو جن کو بڑائی دی وہ نہیں پہنچا
دیتے اپنی روزی ان کو جن کے مالک ان کے ہاتھ ہیں کہ وہ سب اس میں برابر ہو جائیں کیا اللہ کی نعمت کے منکر
ہیں [۱۰۹]
|
Allah has given some of you preference over others in provision. So, those given preference are not willing to pass on their provision to their slaves, so that they become equal in it: Do they, then, reject the blessing of Allah?
|
یعنی خدا
کی دی ہوئی روزی اور بخشش سب کے لئے برابر نہیں۔ بلحاظ تفاوت استعداد و احوال کے
اس نے اپنی حکمت بالغہ سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ کسی کو مالدار اور
بااقتدار بنایا جس کے ہاتھ تلے بہت سے غلام اور نوکر و چاکر ہیں۔ جن کو اسی کے
ذریعہ سے روزی پہنچتی ہے۔ ایک وہ غلام ہیں جو بذات خود ایک پیسہ یا ادنیٰ اختیار
کے مالک نہیں ، ہر وقت آقا کے اشاروں کے منتظر رہتے ہیں۔ پس کیا دنیا میں کوئی
آقا گوارا کرے گا کہ غلام یا نوکر چاکر جو بہرحال اسی جیسے انسان ہیں بدستور
غلامی کی حالت میں رہتے ہوئے اس کی دولت ، عزت ، بیوی وغیرہ میں برابر کے شریک
ہو جائیں غلام کا حکم تو شرعًا یہ ہے کہ بحالت غلامی کسی چیز کا مالک بنایا جائے
تب بھی نہیں بنتا ۔ آقا ہی مالک رہتا ہے اور فرض کرو آقا غلامی سے آزاد کر کے
اپنی دولت وغیرہ میں برابر کا حصہ دار بنا لے تو مساوات بیشک ہو جائے گی۔ لیکن
اس وقت غلام نہ رہا ۔ بہرکیف غلامی اور مساوات جمع نہیں ہو سکتی۔ جب دو ہم جنس
اور متحد النوع انسانوں کے اندر مالک و مملوک میں شرکت و مساوات نہیں ہو سکتی ،
پھر غضب ہے کہ خالق و مخلوق کو معبودیت وغیرہ میں برابر کر دیا جائے۔ اور ان
چیزوں کو جنہیں خدا کی مملوک سمجھنے کا اقرار خود مشرکین بھی کرتے تھے { اِلَّا
شَرِیْکًا ھُوَ لَکَ تُمْلِکُہٗ وَمَا مَلَکَ } مالک حقیقی کا شریک و سہیم ٹھہرا
دیا جائے کیا منعم حقیقی کی نعمتوں کا یہ ہی شکر یہ ہے کہ جس بات کے قبول کرنے
سے خود ناک بھووں چڑھاتے ہو اس سے زیادہ قبیح و شنیع صورت اس کے لئے تجویز کی
جائے۔ نیز جس طرح روزی وغیرہ میں حق تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ، سب کو
ایک درجہ میں نہیں رکھا ، اگر علم و عرفان اور کمالات نبوت میں کسی ہستی کو
دوسروں سے فائق کر دیا تو خدا کی اس نعمت سے انکار کرنے کی بجز ہٹ دھرمی کے کیا
وجہ ہو سکتی ہے۔
|
أَفَبِهٰذَا الحَديثِ
أَنتُم مُدهِنونَ {56:81}
|
اب کیا اس بات
میں تم سستی کرتے ہو
|
Is it this discourse that you take lightly?
|
ثُمَّ
أَنتُم هٰؤُلاءِ تَقتُلونَ أَنفُسَكُم وَتُخرِجونَ فَريقًا مِنكُم مِن دِيٰرِهِم
تَظٰهَرونَ عَلَيهِم بِالإِثمِ وَالعُدوٰنِ وَإِن يَأتوكُم أُسٰرىٰ تُفٰدوهُم
وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيكُم إِخراجُهُم ۚ أَفَتُؤمِنونَ بِبَعضِ الكِتٰبِ وَتَكفُرونَ بِبَعضٍ ۚ فَما جَزاءُ مَن
يَفعَلُ ذٰلِكَ مِنكُم إِلّا خِزىٌ فِى الحَيوٰةِ الدُّنيا ۖ وَيَومَ القِيٰمَةِ
يُرَدّونَ إِلىٰ أَشَدِّ العَذابِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغٰفِلٍ عَمّا تَعمَلونَ
{2:85}
|
پھر تم
وہ لوگ ہو کہ ایسے ہی خون کرتے ہو آپس میں اور نکال دیتے ہو اپنے ایک فرقہ کو ان
کے وطن سے چڑھائی کرتے ہو ان پر گناہ اور ظلم سے [۱۲۷] اور اگر وہی آویں تمہارے
پاس کسی کے قیدی ہو کر تو ان کا بدلا دیکر چھڑاتے ہو حالانکہ حرام ہے تم پر انکا
نکال دینا بھی تو کیا مانتے ہو بعض کتاب کو اور نہیں مانتے بعض کو [۱۲۸] سو کوئی سزا نہیں
اس کی جو تم میں یہ کام کرتا ہے مگر رسوائی دنیا کی زندگی میں اور قیامت کے دن
پہنچائے جاویں سخت سےسخت عذاب میں اور اللہ بے خبر نہیں تمہارے کاموں سے [۱۲۹]
|
Yet, here you are, killing one another, and driving a group of your own people out of their homes, supporting each other against them in sin and aggression - and if they come to you as prisoners, you would ransom them, while their very expulsion was unlawful for you! Do you, then, believe in some parts of the Book, and disbelieve in others? So, what can be the punishment of those among you who do that, except disgrace in present life? And, on the Day of Judgement, they shall be turned to the most severe punishment. And Allah is not unaware of what you do.
|
مدینہ میں دو فریق یہودیوں کے تھے ایک بنی قریظہ دوسرے بنی نضیر یہ دونوں آپس میں لڑا کرتے تھے اور مشرکوں کے بھی مدینے میں دو فرقے تھے ایک "اوس" دوسرے "خزرج" یہ دونوں بھی آپس میں دشمن تھے بنی قریظہ تو اوس کے موافق ہوئے اور بنی نضیر نے خزرج سے دوستی کی تھی۔ لڑائی میں ہر کوئی اپنے موافقوں اور دوستوں کی حمایت کرتا ۔ جب ایک کو دوسرے پر غلبہ ہوتا تو کمزوروں کو جلاوطن کرتے، ان کے گھر ڈھاتے اور اگر کوئی قید ہو کر پکڑا آتا تو سب رل مل کر مال جمع کر کے اس کا بدلہ دے کر قید سے اس کو چھڑاتے جیسا کہ آئندہ آیت میں آتا ہے۔
|
یعنی
اپنی قوم غیر کے ہاتھ میں پھنستی تو چھڑانے کو مستعد اور خود ان کے ستانے اور
گلا کاٹنے تک کو موجود۔ اگر خدا کے حکم پر چلتے ہو تو دونوں جگہ پر چلو۔
|
ایسا کرے "یعنی بعض احکام کو مانے اور بعض کا انکار کرے" اس لئے کہ ایمان کا تجزیہ تو ممکن نہیں تو اب بعض احکام کا انکار کرنے والا بھی کافر مطلق ہو گا۔ صرف بعض احکام پر ایمان لانے سے کچھ بھی ایمان نصیب نہ ہوگا۔ اس آیت سے صاف معلوم ہو گیا کہ اگر کوئی شخص بعض احکام شرعیہ کی تو متابعت کرے اور جو حکم کہ اس کی طبعیت یا عادت یا غرض کے خلاف ہو اس کے قبول میں قصور کرے تو بعض احکام کی متابعت اس کو کچھ نفع نہیں دے سکتی۔
|
لاهِيَةً
قُلوبُهُم ۗ وَأَسَرُّوا النَّجوَى الَّذينَ ظَلَموا هَل هٰذا إِلّا بَشَرٌ
مِثلُكُم ۖ أَفَتَأتونَ السِّحرَ وَأَنتُم تُبصِرونَ {21:3}
|
کھیل میں
پڑے ہیں دل اُنکے [۲] اور چھپا کر مصلحت کی بے انصافوں نے یہ شخص کون ہے ایک
آدمی ہےتم ہی جیسا پھر کیوں پھنستے ہو اُسکے جادو میں آنکھوں دیکھتے [۳]
|
their hearts paying no heed. And the wrongdoers whisper in secret, “This one is nothing but a mortal like you. Would you then go along with sorcery while you can see (the reality)?”
|
یعنی قرآن کی بڑی بیش قیمت نصیحتوں کو محض ایک کھیل تماشہ کی حیثیت سے سنتے ہیں جن میں اگر اخلاص کےساتھ غور کرتے تو سب دین و دنیا درست ہو جاتی۔ لیکن جب ہی ادھر سےغافل ہیں اور کھیل تماشہ میں پڑےہیں تو غور کرنے کی نوبت کہاں سے آئے۔
|
جب نصیحت سنتے سنتے تنگ آ گئے تو چند بے انصافوں نے خفیہ میٹنگ کر کے قرآن اور پیغمبر کے متعلق کہنا شروع کیا کہ یہ پیغمبر تو ہمارے جیسے ایک آدمی ہیں ، نہ فرشتہ ہیں ، نہ ہم سے زیادہ کوئی ظاہری امتیاز رکھتے ہیں ۔ البتہ ان کو جادو آتا ہے ۔ جو کلام پڑھ کر سناتے ہیں وہ ہو نہ ہو جادو کا کلام ہے۔ پھر تم کو کیا مصیبت نے گھیرا کہ آنکھوں دیکھے ان کےجادو میں پھنستے ہو۔ لازم ہے کہ انکے قریب نہ جاؤ ۔ قرآن کو جادو شاید اس کی قوت تاثیر اور حیرت انگیز تصرف کو دیکھ کر کہا۔ اور خفیہ میٹنگ اس لئے کی کہ آئندہ حق کے خلاف جو تدابیر کرنے والے تھے یہ اس کی تمہید تھی۔ اور ظاہر ہے کہ ہشیار دشمن اپنی معاندانہ کارروائیوں کو قبل از وقت طشت ازبام کرنا پسند نہیں کرتا اندر ہی اندر آپس میں پروپیگنڈا کیا کرتا ہے۔
|
وَإِذ
قُلنا لِلمَلٰئِكَةِ اسجُدوا لِءادَمَ فَسَجَدوا إِلّا إِبليسَ كانَ مِنَ
الجِنِّ فَفَسَقَ عَن أَمرِ رَبِّهِ ۗ أَفَتَتَّخِذونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَولِياءَ مِن دونى وَهُم لَكُم عَدُوٌّ ۚ
بِئسَ لِلظّٰلِمينَ بَدَلًا {18:50}
|
اور جب
کہا ہم نے فرشتوں کو سجدہ کرو آدم کو تو سجدہ میں گر پڑے مگر ابلیس تھا جن کی
قسم سے سو نکل بھاگا اپنے رب کے حکم سے سو کیا اب تم ٹھہراتے ہو اس کو اور اس کی اولاد کو رفیق میرے سوائے
اور وہ تمہارے دشمن ہیں برا ہاتھ لگا بے انصافوں کے بدلہ [۶۶]
|
(Recall) when We said to the angels, “Prostrate yourselves before ’Ādam.” So, they prostrated themselves, all of them but Iblīs (Satan). He was of the Jinn, so he rebelled against the command of your Lord. Do you still take him and his progeny as friends instead of Me, while they are enemy to you? Evil is he as substitute (of obedience to Allah) for wrongdoers.
|
راجح یہ
ہی ہے کہ ابلیس نوع جن سے تھا ، عبادت میں ترقی کر کے گروہ ملائکہ میں شامل ہو
گیا۔ اسی لئے فرشتوں کو جو حکم سجود ہوا اس کو بھی ہوا اس وقت اس کی اصلی طبیعت
رنگ لائی ۔ تکبر کر کے خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری سے بھاگ نکلا ، آدمؑ کے سامنے
سر جھکانے میں کسر شان سمجھی ۔ تعجب ہے آج آدمؑ کی اولاد اپنے رب کی جگہ اسی
دشمن ازلی اور اس کی اولاد و اتباع کو اپنا رفیق و خیرخواہ اور مددگار بنانا
چاہتی ہے۔ اس سے بڑھ کر بے انصافی اور ظلم کیا ہو گا۔ یہ قصہ پہلے کئ جگہ مفصل
گذر چکا ہے۔ یہاں اس پر متنبہ کرنے کے لئے لائے ہیں کہ دنیائے فانی کی ٹیپ ٹاپ
پر مغرور ہو کر آخرت سے غافل ہو جانا شیطان کی تحریک و تسویل سے ہے چاہتا ہے کہ
ہم اپنے اصلی و آبائی وطن (جنت) میں واپس نہ جائیں۔ اس کا مطمح نظر یہ ہے کہ دوست
بن کر ہم سے پرانی دشمنی نکالے آدمی کو لازم ہے کہ ایسے چالاک دشمن سے ہشیار
رہے۔ جو لوگ دنیوی متاع پر مغرور ہو کر ضعفاء کو حقیر سمجھتے اور اپنے کو بہت
لمبا کھینچتے ہیں ، وہ تکبر و تفاخر میں شیطان لعین کی راہ پر چل رہے ہیں۔
(تنبیہ) ابن کثیر نے بعض روایات نقل کر کے جن میں ابلیس کی اصل نوع ملائکہ میں
سے بتلائی گئ ہے ، لکھا ہے کہ ان روایات کا غالب حصہ اسرائیلیات میں سے ہے جنہیں
بہت نظر و فکر کے بعد احتیاط کے ساتھ قبول کرنا چاہئے اور ان میں کی بعض چیزیں
تو یقینًا جھوٹ ہیں۔ کیونکہ قرآن صاف ان کی تکذیب کرتا ہے ۔ آگے ابن کثیرؒ نے
بہت وزندار الفاظ میں اسرائیلیات کے متعلق جو کچھ کلام کیا ہے ، دیکھنے اور یاد
رکھنے کے قابل ہے۔ یہاں بخوف تطویل ہم درج نہیں کر سکتے۔
|
أَفتَرىٰ عَلَى
اللَّهِ كَذِبًا أَم بِهِ جِنَّةٌ ۗ بَلِ الَّذينَ لا يُؤمِنونَ بِالءاخِرَةِ
فِى العَذابِ وَالضَّلٰلِ البَعيدِ {34:8}
|
کیا بنا لایا ہے اللہ
پر جھوٹ یا اسکو سودا ہے [۹] کچھ بھی نہیں پر جو یقین نہیں رکھتے آخرت کا آفت
میں ہیں اور دور جا پڑے غلطی میں [۱۰]
|
Has he forged a lie against Allah, or is there a madness in him?” No, but those who do not believe in the Hereafter are in torment and far astray from the right path.
|
کفار قریش نبی کریم ﷺ کی شان میں یہ گستاخی کرتے تھے۔ یعنی آؤ تمہیں ایک شخص دکھلائیں جو کہتا ہے کہ تم گل سڑ کر اور ریزہ ریزہ ہو کر جب خاک میں مل جاؤ گے، پھر تم کو ازسر نو بھلاچنگا بنا کر کھڑا کر دیا جائے گا۔ بھلا ایسی مہمل بات کون قبول کر سکتا ہے۔ دو حال سے خالی نہیں۔ یا تو یہ شخص جان بوجھ کر اللہ پر جھوٹ لگاتا ہے کہ اس نے ایسی خبر د ی۔ نہیں تو سودائی ہے۔ دماغ ٹھکانے نہیں دیوانوں کی سی بے تکی باتیں کرتا ہے ۔ (العیاذ باللہ)۔
|
یعنی نہ جھوٹ ہے نہ جنون، البتہ یہ لوگ عقل و دانش اورصدق و صواب کے راستہ سے بھٹک کر بہت دور جا پڑے ہیں۔ اور بیہودہ بکواس کر کے اپنے کو آفت میں پھنسا رہے ہیں۔ فی الحقیقت یہ بڑا عذاب ہے کہ آدمی کا دماغ اس قدر مختل ہو جائے کہ وہ خدا کے پیغمبروں کو مفتری یا مجنون کہنے لگے۔ العیاذ باللہ۔
|
قالَ أَفَتَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ ما لا يَنفَعُكُم
شَيـًٔا وَلا يَضُرُّكُم {21:66}
|
(ابراہیم نے) کہا پھر تم اللہ کو چھوڑ کر کیوں ایسی چیزوں کو پوجتے
ہو جو نہ تمہیں کچھ فائدہ دے سکیں اور
نقصان پہنچا سکیں؟
|
He said, “Do you then worship, beside Allah, what does neither benefit you in the least nor harm you?
|
أَفَتُمٰرونَهُ عَلىٰ
ما يَرىٰ {53:12}
|
کیا جو کچھ وہ دیکھتے ہیں تم اس میں ان سے جھگڑتے ہو؟
|
Do you quarrel with him in what he sees?
|
یعنی وحی
بھیجنے والا اللہ، لانے والا فرشتہ جس کی صورت و سیرت نہایت پاکیزہ اور فہم و
حفظ وغیرہ کی تمام قوتیں کامل، پھر اتنا قریب ہو کر وحی پہنچائے پیغمبر اس کو
اپنی آنکھ سے دیکھے، اس کا صاف اور روشن دل اس کی تصدیق کرے، تو کیا ایسی دیکھی
بھالی چیز میں تم کو حق ہے کہ اس سے فضول بحث وتکرار کرو اور جھگڑے نکالو۔ {
اِذَالَمْ تَرَالْھِلَالَ فَسَلِّمْ لِنَاسٍ رَاَوْہُ بِالْاَبْصَارِ }۔
|
أَو
تَقولوا إِنَّما أَشرَكَ ءاباؤُنا مِن قَبلُ وَكُنّا ذُرِّيَّةً مِن بَعدِهِم ۖ أَفَتُهلِكُنا بِما فَعَلَ المُبطِلونَ {7:173}
|
یا یہ
(نہ) کہو کہ شرک تو پہلے ہمارے بڑوں نے کیا تھا۔ اور ہم تو ان کی اولاد تھے (جو)
ان کے بعد (پیدا ہوئے)۔ تو کیا جو
کام اہل باطل کرتے رہے اس کے بدلے تو ہمیں ہلاک کرتا ہے
|
or you should say, “It was our forefathers who associated partners with Allah, and we were their progeny after them; would you then destroy us on account of what the erroneous did?”
|
"میثاق خاص" کے بعد یہاں سے "میثاق عام" کا
ذکر کرتے ہیں تمام عقائد حقہ اور ادیان سماویہ کا بنیادی پتھر یہ ہے کہ انسان خدا
کی ہستی اور ربوبیت عامہ پر اعتقاد رکھے۔ مذہب کی ساری عمارت اسی سنگ بنیاد پر
کھڑی ہوتی ہے۔ جب تک یہ اعتقاد نہ ہو مذہبی میدان میں عقل و فکر کی رہنمائی اور
انبیاء و مرسلین کی ہدایات کچھ نفع نہیں پہنچا سکتیں۔ اگر پورے غور و تامل سے
دیکھا جائے تو آسمانی مذہب کے تمام اصول و فروع بالآخر خدا کی "ربوبیت
عامہ" کے اسی عقیدہ پر منتہی ہوتے بلکہ اسی کی تہ میں لپٹے ہوئے ہیں۔ عقل
سلیم اور وحی و الہام اسی اجمال کی شرح کرتے ہیں۔ پس ضروری تھا کہ یہ تخم ہدایت
جسے کل آسمانی تعلیمات کا مبداء و منتہٰی اور تمام ہدایات ربانیہ کا وجود مجمل
کہنا چاہیئے عام فیاضی کے ساتھ نوع انسانی کے تمام افراد میں بکھیر دیا جائے
تاکہ ہر آدمی عقل و فہم اور وحی و الہام کی آبیاری سے اس تخم کو شجر ایمان و
توحید کے درجہ تک پہنچا سکے۔ اگر قدرت کی طرف سے قلوب بنی آدم میں ابتدًاء یہ
تخم ریزی نہ ہوتی اور اس سب سے زیادہ اساسی و جوہری عقدہ کا حل ناخن عقل و فکر
کے سپرد کر دیا جاتا تو یقینًا یہ مسئلہ بھی منطقی استدلال کی بھول بھلیاں میں
پھنس کر ایک نظری مسئلہ بن کر رہ جاتا جس پر سب تو کیا اکثر آدمی بھی متفق نہ ہو
سکتےجیسا کہ تجربہ بتلاتا ہے کہ فکر و استدلال کی ہنگامہ آرائیاں اکثر اتفاق سے
زیادہ اختلاف آراء پر منتج ہوتی ہیں۔ اس لئے قدرت نے جہاں غوروفکر کی قوت اور
نور وحی و الہام کے قبول کرنے کی استعداد بنی آدم میں ودیعت فرمائی وہیں اس
اساسی عقیدہ کی تعلیم سے ان کو فطرتًا بہرہ ور کیا جس کے اجمال میں کل آسمانی ہدایات
کی تفصیل منطوی و مندمج تھی۔ اور جس کے بدون مذہب کی عمارت کا کوئی ستون کھڑ
انہیں رہ سکتا تھا۔ یہ اسی ازلی خدائی تعلیم کا اثر ہے کہ آدم کی اولاد ہر قرن
اور ہر گوشہ میں حق تعالیٰ کی ربوبیت عامہ کے عقیدہ پر کسی نہ کسی حد تک متفق
رہی ہے۔ اور جن معدود افراد نے کسی عقلی و روحی بیماری کی وجہ سے اس عام فطری
احساس کے خلاف آواز بلند کی ہے وہ انجام کار دنیا کے سامنے بلکہ خود اپنی نظر
میں بھی اسی طرح جھوٹے ثابت ہوئے جیسےایک بخار وغیرہ کا مریض لذیذ اور خوشگوار
غذاؤں کو تلخ و بدمزہ بتلانے میں جھوٹا ثابت ہوتا ہے۔ بہرحال ابتدائے آفرینش سے
آج تک ہر درجہ اور طبقہ کے انسانوں کا خدا کی ربوبیت کبریٰ پر عام اتفاق و اجماع
اس کی زبردست دلیل ہے کہ یہ عقیدہ عقول و افکار کی دوا دوش سے پہلے ہی فاطر
حقیقی کی طرف سے اولاد آدم کو بلاواسطہ تلقین فرما دیا گیا ورنہ فکر و استدلال
کے راستہ سے ایسا اتفاق پیدا ہوجانا تقریبًا نامکن تھا۔ قرآن کریم کی یہ امتیازی
خصوصیت ہے کہ اس نے آیات حاضرہ میں عقیدہ کی اس فطری یکسانیت کےاصلی راز پر
روشنی ڈالی۔ بلاشبہ ہم کو یاد نہیں کہ اس بنیادی عقیدہ کی تعلیم کب اور کہاں اور
کس ماحول میں دی گئ۔ تاہم جس طرح ایک لیکچرار اور انشاء پرداز کو یقین ہے کہ
ضرور اس کو ابتدائے عمر میں کسی نے الفاظ بولنے سکھلائے جس سے ترقی کر کے آج اس
رتبہ کو پہنچا۔ گو پہلا لفظ سکھلانے والا اور سکھلانے کا وقت مکان اور دیگر
خصوصیات مقامی بلکہ نفس سکھلانا بھی یاد نہیں۔ تاہم اس کے موجودہ آثار سے یقین
ہے کہ ایسا واقع ضرور ہوا ہے۔ اسی طرح بنی نوع انسان کا علیٰ اختلاف الاقوام
والا جیال "عقیدہ ربوبیت الہٰی" پر متفق ہونا اس کی کھلی شہادت ہے کہ
یہ چیز بدء فطرت میں کسی معلم کے ذریعہ سے ان تک پہنچی ہے۔ باقی تعلیمی خصوصیات
و احوال کا محفوظ نہ رہ سکنا اس کی تسلیم میں خلل انداز نہیں ہو سکتا۔ اسی ازلی
و فطری تعلیم نےجس کا نمایاں اثر آج تک انسانی سرشت میں موجود چلا آتا ہے ہر
انسان کو خدا کی حجت کے سامنے ملز م کر دیا ہے۔ جو شخص اپنے الحاد و شرک کو حق
بجانب قرار دینے کے لئے غفلت بے خبری یا آباء و اجداد کی کورانہ تقلید کا عذر
کرتا ہے اس کے مقابلہ پر خدا کی یہی حجۃ قاطعہ جس میں اصل فطرت انسانی کی طرف
توجہ دلائی گئ ہے بطور فیصلہ کن جواب کے پیش کی جا سکتی ہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ
فرماتے ہیں کہ "اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کی پشت سے ان کی اولاد اور ان سے
ان کی اولاد نکالی۔ سب سے اقرار کروایا اپنی خدائی کا۔ پھر پشت میں داخل کیا۔ اس
سے مدعا یہ ہے کہ خدا کے رب مطلق ماننے میں ہر کوئی آپ کفایت کرتا ہے۔ باپ کی
تقلید نہ چاہئے۔ اگر باپ شرک کرے بیٹے کو چاہئے ایمان لاوے۔ اگر کسی کو شبہ ہو
کہ وہ عہد تو یاد نہیں رہا پھر کیا حاصل؟ تو یوں سمجھے کہ اس کا نشان ہر کسی کے
دل میں ہے اور ہر زبان پر مشہور ہو رہا ہے کہ سب کا خالق اللہ ہے سارا جہان قائل
ہے اور جو کوئی منکر ہے یا شرک کرتا ہے سو اپنی عقل ناقص کے دخل سے پھر آپ ہی
جھوٹا ہوتا ہے"۔
|
أَفَحَسِبَ الَّذينَ
كَفَروا أَن يَتَّخِذوا عِبادى مِن دونى أَولِياءَ ۚ إِنّا أَعتَدنا جَهَنَّمَ
لِلكٰفِرينَ نُزُلًا {18:102}
|
کیا کافر یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ہمارے بندوں کو ہمارے سوا (اپنا) کارساز بنائیں گے (تو
ہم خفا نہیں ہوں گے) ہم نے (ایسے) کافروں کے لئے جہنم کی (مہمانی) تیار کر رکھی
ہے
|
Do, then, the disbelievers deem (it fit) that they take My servants as patrons beside Me? Surely, We have prepared Jahannam as entertainment for the disbelievers.
|
یعنی اس
دھوکہ میں مت رہنا ! وہاں تم کو کوئی نہیں پوچھے گا۔ ہاں ہم تمہاری مہمانی کریں
گے۔ دوزخ کی آگ اور قسم قسم کےعذاب سے (اعاذنا اللہ منہا)۔
|
یعنی کیا
منکرین یہ گمان کرتے ہیں کہ میرے خاص بندوں (مسیحؑ ، عزیرؑ ، روح القدس ،
فرشتوں) کی پرستش کر کے اپنی حمایت میں کھڑا کر لیں گے۔ { کَلَّا سَیَکْفُرُوْنَ
بِعِبَادَتِھِمْ وَیَکُوْنُوْنَ عَلَیْھِمْ ضِدَّا } (ہر گز نہیں ! وہ خود
تمہاری حرکات سے بیزاری کا اظہار فرمائیں گے اور تمہارے مقابل مدعی بن کر کھڑے
ہوں گے)۔
|
أَفَحَسِبتُم أَنَّما
خَلَقنٰكُم عَبَثًا وَأَنَّكُم إِلَينا لا تُرجَعونَ {23:115}
|
کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو بےفائدہ پیدا کیا ہے اور یہ تم ہماری طرف لوٹ
کر نہیں آؤ گے؟
|
So did you think that We created you for nothing, and that you will not be brought back to Us?”
|
یعنی
دنیا میں تو نیکی بدی کا پورا نتیجہ نہیں ملتا۔ اگر اس زندگی کے بعد دوسری زندگی
نہ ہو تو گویا یہ سب کارخانہ محض کھیل تماشہ اور بے نیتجہ تھا۔ سو حق تعالیٰ کی
جناب اس سے بہت بلند ہے کہ ا سکی نسبت ایسا رکیک خیال کیا جائے۔
|
أَفَحُكمَ الجٰهِلِيَّةِ
يَبغونَ ۚ وَمَن أَحسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكمًا لِقَومٍ يوقِنونَ {5:50}
|
کیا یہ زمانہٴ جاہلیت کے حکم کے خواہش مند ہیں؟ اور جو یقین رکھتے
ہیں ان کے لیے اللہ سے اچھا حکم کس کا ہے؟
|
Is it, then, the judgement of (the days of) Ignorance that they seek? Who is better in judgement than Allah, for a people who believe?
|
یعنی جو
لوگ خدا کی شہنشاہیت رحمت کاملہ اور علم محیط پر یقین کامل رکھتے ہیں ان کے
نزدیک دنیا میں کسی کا حکم خدا کے حکم کے سامنے لائق التفات نہیں ہو سکتا۔ پھر
کیا یہ لوگ احکام الہٰیہ کی روشنی آ جانے کے بعد ظنون و اہواء اور کفر و جاہلیت
کے اندھیرے ہی کی طرف جانا پسند کرتے ہیں۔
|
أَفَرَءَيتَ الَّذى
كَفَرَ بِـٔايٰتِنا وَقالَ لَأوتَيَنَّ مالًا وَوَلَدًا {19:77}
|
بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا اور کہنے لگا کہ (اگر میں
ازسرنو زندہ ہوا بھی تو یہی) مال اور اولاد مجھے (وہاں) ملے گا
|
Have you, then, seen him who rejected Our verses and said, “I shall certainly be given wealth and children”?
|
یعنی کفر
کے باوجود آپ نے یہ جرأت دیکھی ، ایک کافر مالدار ایک مسلمان لوہار کو کہنے لگا
تو مسلمانی سے منکر ہو تو تیری مزدوری دوں۔ اس نے کہا اگر تو مرے اور پھر جئے تو
بھی میں منکر نہ ہوں اس نے کہا اگر مر کر پھر جیوں گا تو یہ ہی مال و اولاد وہاں
بھی ہو گا ، تجھ کو مزدوری وہاں دے دوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ یعنی وہاں
دولت ملتی ہے ایمان سے ، کافر چاہے کہ یہاں کی دولت وہاں ملے ، یا کفر کے باوجود
اخروی عیش و تنعم کے مزے اڑائے ۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔
|
أَفَرَءَيتَ إِن مَتَّعنٰهُم سِنينَ {26:205}
|
بھلا دیکھو تو اگر ہم ان کو برسوں فائدے دیتے رہے
|
So tell me, if We give them enjoyment for years,
|
أَفَرَءَيتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلٰهَهُ هَوىٰهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلىٰ عِلمٍ وَخَتَمَ عَلىٰ سَمعِهِ وَقَلبِهِ وَجَعَلَ عَلىٰ بَصَرِهِ غِشٰوَةً فَمَن يَهديهِ مِن بَعدِ اللَّهِ ۚ أَفَلا تَذَكَّرونَ {45:23}
|
بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے اور باوجود جاننے بوجھنے کے (گمراہ ہو رہا ہے تو) اللہ نے (بھی) اس کو گمراہ کردیا اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ اب اللہ کے سوا اس کو کون راہ پر لاسکتا ہے۔ بھلا تم کیوں نصیحت نہیں پکڑتے؟
|
So, have you seen him who has taken his desires as his god, and Allah has let him go astray, despite having knowledge, and has sealed his ear and his heart, and put a cover on his eye? Now who will guide him after Allah? Still, do you not take lesson?
|
جو شخص محض خواہش نفس کو اپنا حاکم اور معبود ٹھہرا لے، جدھر اسکی خواہش لے چلے ادھر ہی چل پڑے اور حق و ناحق کے جانچنے کا معیار اسکے پاس یہ ہی خواہش نفس رہ جائے، نہ دل سچی بات کوسمجھتا ہے، نہ آنکھ سے بصیرت کی روشنی نظر آتی ہے ۔ ظاہر ہے اللہ جسکو اس کی کرتوت کی بدولت ایسی حالت پر پہنچا دے، کونسی طاقت ہے جو اسکے بعد اسے راہ پر لے آئے۔
|
یعنی اللہ جانتا تھا کہ اسکی استعداد خراب ہے اور اسی قابل ہے کہ سیدھی راہ سے اِدھر اُدھر بھٹکتا پھرے۔ یا یہ مطلب ہے کہ وہ بدبخت علم رکھنے کے باوجود اور سمجھنے بوجھنے کے بعد گمراہ ہوا۔
|
أَفَرَءَيتَ الَّذى تَوَلّىٰ {53:33}
|
بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے منہ پھیر لیا
|
Did you see the one who turned away,
|
یعنی اپنی اصل کو بھول کر خالق و مالک حقیقی کی طرف سے منہ پھیر لیا۔
|
وَلَئِن سَأَلتَهُم مَن خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ لَيَقولُنَّ اللَّهُ ۚ قُل أَفَرَءَيتُم ما تَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ إِن أَرادَنِىَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَل هُنَّ كٰشِفٰتُ ضُرِّهِ أَو أَرادَنى بِرَحمَةٍ هَل هُنَّ مُمسِكٰتُ رَحمَتِهِ ۚ قُل حَسبِىَ اللَّهُ ۖ عَلَيهِ يَتَوَكَّلُ المُتَوَكِّلونَ {39:38}
|
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو کہہ دیں کہ اللہ نے۔ کہو کہ بھلا دیکھو تو جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو۔ اگر اللہ مجھ کو کوئی تکلیف پہنچانی چاہے تو کیا وہ اس تکلیف کو دور کرسکتے ہیں یا اگر مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو وہ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں؟ کہہ دو کہ مجھے اللہ ہی کافی ہے۔ بھروسہ رکھنے والے اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں
|
If you ask them as to who created the heavens and the earth, they will certainly say, “Allah.” Say, “Then, tell me about those whom you invoke other than Allah, if Allah intends to cause some harm to me, are they (able) to remove the harm caused by Him? Or if He intends to bless me with mercy, are they (able) to hold back His mercy (from me)?” Say, “Allah is sufficient for me. In Him trust those who (rightly) trust (in someone).”
|
یعنی ایک طرف تو خداوند قدوس جو تمہارے اقرار کے موافق تمام زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے اور دوسری طرف پتھر کی بیجان مورتیں یا عاجز مخلوق جو سب ملکر بھی خدا کی بھیجی ہوئی ادنٰی سے ادنٰی تکلیف و راحت کو اس کی جگہ سے نہ ہٹا سکے۔ تم ہی بتاؤ دونوں میں سے کس پر بھروسہ کیا جائے اور کس کو اپنی مدد کے لئے کافی سمجھا جائے حضرت ہودؑ کی قوم نے بھی کہا تھا۔{ اِنْ نَقُوْلُ اِلَّا اعْتَرَاکَ بَعْضُ اٰلِھَتِنَا بَسُوْءٍ } جس کا جواب حضرت ہودؑ نے یہ دیا { اَنِّی اُشْھِدُ اللہَ وَاشْھَدُ وْا اَنِّی بَرِیءٌ مِمَّا تُشْرِکُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ فَکِیْدُ وْنی جَمِیْعًا ثُمَّ لَا تنظرون اَنِّیْ تَوَکلّتُ عَلَی اللہِ رَبِّی وَرَبِّکُمْ مَا مِنْ دَابَّۃٍ الا ھُوَ اٰ خِذٌ بِناصِیَتِھَا اِنَّ رَبِّی عَلٰی صَراطٍ مُسْتقیم } (ہود رکوع ۵) اور حضرت ابراہیمؑ نے اپنی قوم سے فرمایا تھا { وَلَا اَخَافُ مَا تُشْرِکُوْنَ بِہٖ اِلَّا اَنْ یَّشَاءَ رَبِّی شَیْئًا وَسِعَ رَبِّی کلَّ شَیْءٍ عِلْمًا۔ اَفَلَا تتذکَّرُوْنَ وَکَیْفَ اَخَافُ مَا اَشْرَکْتُمْ وَلَا تَخَافُوْنَ اَنَّکُمْ اَشْرَکتم بِاللہِ مَالَمْ یُنزِّل بِہٖ عَلَیْکُمْ سُلْطَانًا فَاَیُّ الفَریْقیْنِ اَحقُّ بِالاَمْنِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ } (انعام رکوع۹)
|
أَفَرَءَيتُمُ اللّٰتَ وَالعُزّىٰ {53:19}
|
بھلا تم لوگوں نے لات اور عزیٰ کو دیکھا
|
Have you ever considered about the (idols of) Lāt and ‘Uzzā,
|
وَمَنوٰةَ الثّالِثَةَ الأُخرىٰ {53:20}
|
اور تیسرے منات کو (کہ یہ بت کہیں اللہ ہوسکتے ہیں)
|
and about the other, the third (idol), namely, Manāt,?
|
یعنی اس لامحدود عظمت و جلال والے خدا کے مقابلہ میں ان حقیر و ذلیل چیزوں کا نام لینے سے شرم آنی چاہیئے۔ (تنبیہ) "لات"، "عزیٰ"، "مناۃ" ان کے بتوں اور دیویوں کے نام ہیں۔ ان میں "لات" طائف والوں کے ہاں بہت معظم تھا۔ "مناۃ" اوس و خزرج اور خزاعہ کے ہاں۔ اور "عزیٰ" کو قریش اور بنی کنانہ وغیرہ ان دونوں سے بڑا سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک اول "عزیٰ" جو مکہ کے قریب نخلہ میں تھا۔ پھر "لات" جو طائف میں تھا۔ پھر سب سے پیچھے تیسرے درجہ میں "مناۃ" جو مکہ سے بہت دور مدینہ کے نزدیک واقع تھا۔ علامہ یاقوت نے معجم البلدان میں یہ ترتیب نقل کی ہے اور لکھا ہے کہ قریش کعبہ کا طواف کرتے ہوئے یہ الفاظ کہتے تھے۔ { وَاللَّاتِ وَالعُزّٰی وَمَنَاۃِ الثَالِثَۃِ الْاُخْرٰی۔ ھٰؤُلَاءِالْغَرَانِیْقُ الْعُلٰی وَاِنَّ شَفَاعَتَھُنَّ لَتُرْتَجٰی}۔ غرانیق العُلٰی کے واقعہ کی توجیہہ: کتب تفسیر میں اس موقع پر ایک قصہ نقل کیا ہے جو جمہورمحدثین کے اصول پر درجہ صحت کو نہیں پہنچتا۔ اگر فی الواقع اس کی کوئی اصل ہے تو شاید یہ ہی ہوگی کہ آپ ﷺ نے مسلمانوں اور کافروں کے مخلوط مجمع میں یہ سورۃ پڑھی۔ کفار کی عادت تھی کہ لوگوں کو قرآن سننے نہ دیں اور بیچ میں گڑ بڑ مچادیں کما قال تعالیٰ { وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَاتَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْغَوْافِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُوْنَ } (حم السجدہ رکوع۴) جب یہ آیت پڑھی تو کسی کافر شیطان نے آپ کی آواز میں آواز ملا کر آپ ہی کے لب و لہجہ سے وہ الفاظ کہہ دیئے ہونگے جو ان کی زبانوں پر چڑھے ہوئے تھے۔ { تِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلٰی } الخ۔ آگے تعبیر و ادا میں تصرف ہوتے ہوتے کچھ کا کچھ بن گیا۔ ورنہ ظاہر ہے نبی کی زبان پر شیطان کو ایسا تسلط کب حاصل ہوسکتا ہے اور جس چیز کا ابطال آگے کیا جارہا ہے اس کی مدح سرائی کے کیا معنی۔
|
أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الأُنثىٰ {53:21}
|
(مشرکو!) کیا تمہارے لئے تو بیٹے اور اللہ کے لئے بیٹیاں
|
Is it that you have males and He (Allah) has females?
|
تِلكَ إِذًا قِسمَةٌ ضيزىٰ {53:22}
|
یہ تقسیم تو بہت بےانصافی کی ہے
|
If so, it is a bizarre division.
|
یاقوت نے معجم البلدان میں لکھا ہے کہ کفار ان بتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے۔ سو اول تو خدا { لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ } ہے اور بالفرض اولاد کا نظریہ تسلیم کیا جائے تب بھی یہ تقسیم کس قدر بھونڈی اور مہمل ہے کہ تم خود تو بیٹے لے جاؤ اور خدا کے حصہ میں بیٹیاں لگا دو؟ العیاذ باللہ۔
|
إِن هِىَ إِلّا أَسماءٌ سَمَّيتُموها أَنتُم وَءاباؤُكُم ما أَنزَلَ اللَّهُ بِها مِن سُلطٰنٍ ۚ إِن يَتَّبِعونَ إِلَّا الظَّنَّ وَما تَهوَى الأَنفُسُ ۖ وَلَقَد جاءَهُم مِن رَبِّهِمُ الهُدىٰ {53:23}
|
وہ تو صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے گھڑ لئے ہیں۔ اللہ نے تو ان کی کوئی سند نازل نہیں کی۔ یہ لوگ محض ظن (فاسد) اور خواہشات نفس کے پیچھے چل رہے ہیں۔ حالانکہ ان کے پروردگار کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے
|
These are nothing but names you and your fathers have invented; Allah has sent down no authority attached to them. They are following nothing but conjecture and what their own souls desire, while guidance from their Lord has surely reached them.
|
یعنی پتھروں اور درختوں کے کچھ نام رکھ چھوڑے ہیں جن کی خدائی کی کوئی سند نہیں۔ بلکہ اس کے خلاف پر دلائل قائم ہیں۔ ان کو اپنے خیال میں خواہ بیٹیاں کہہ لو، یا بیٹے یا اور کچھ محض کہنے کی بات ہے جس کے نیچے حقیقت کچھ نہیں۔
|
یعنی باوجودیکہ اللہ کے پاس سے ہدایت کی روشنی آچکی اور وہ سیدھی راہ دکھا چکا۔ مگر یہ احمق ان ہی اوہام و اہوا کی تاریکیوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جو کچھ اٹکل پچو ذہن میں آگیا اور دل میں امنگ پیدا ہوئی کرگذرے۔تحقیق و بصیرت کی راہ سے کچھ سروکار نہیں۔
|
أَفَسِحرٌ هٰذا أَم أَنتُم لا تُبصِرونَ
{52:15}
|
تو کیا یہ جادو ہے یا تم کو نظر ہی نہیں آتا
|
Is this magic? or ye still see not
clearly!
|
یعنی تم دنیا میں انبیاء کو جادوگر
اور ان کی وحی کو جادو کہا کرتے تھے۔ ذرا اب بتلاؤ کہ یہ دوزخ جس کی خبر انبیاء
نے دی تھی کیا واقعی جادو یا نظر بندی ہے یا جیسے دنیا میں تم کو کچھ سوجھتا نہ
تھا، اب بھی نہیں سوجھتا۔
|
فَرَجَعَ موسىٰ إِلىٰ قَومِهِ
غَضبٰنَ أَسِفًا ۚ قالَ يٰقَومِ أَلَم يَعِدكُم رَبُّكُم وَعدًا حَسَنًا ۚ أَفَطالَ عَلَيكُمُ العَهدُ أَم أَرَدتُم أَن
يَحِلَّ عَلَيكُم غَضَبٌ مِن رَبِّكُم فَأَخلَفتُم مَوعِدى {20:86}
|
اور موسیٰ غصّے اور غم کی حالت میں
اپنی قوم کے پاس واپس آئے (اور) کہنے لگے کہ اے قوم کیا تمہارے پروردگار نے تم
سے ایک اچھا وعدہ نہیں کیا تھا؟ کیا (میری جدائی کی) مدت تمہیں دراز (معلوم) ہوئی یا تم نے چاہا کہ تم پر تمہارے
پروردگار کی طرف سے غضب نازل ہو۔ اور (اس لئے) تم نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا (اس
کے) خلاف کیا
|
So Musa returned unto his people,
indignant and sorrowful. He said: O my people! promised there not your Lord
unto you an excellent promise! Lasted then the covenant too long for you, or
desired ye that the wrath from your Lord should alight on you, so that ye
failed to keep my appointment?
|
یعنی میرے اتباع میں تم کو دینی و
دنیوی ہر طرح کی بھلائی پہنچے گی۔ چنانچہ بہت سی عظیم الشان بھلائیاں ابھی ابھی
تم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہو اور جو باقی ہیں وہ بھی عنقریب ملنے والی ہیں کیا
اس وعدہ کو بہت زیادہ مدت گذر گئ تھی کہ تم پچھلے احسانات کو بھول گئے اور اگلے
انعامات کا انتظار کرتے کرتے تھک گئے ہو ؟ یا جان بوجھ کر تم نے مجھ سے وعدہ
خلافی کی ؟ اور دین توحید پر قائم نہ رہ کر خدا کا غضب مول لیا۔ (کذا فسّرہٗ ابن
کثیرؒ) یا یہ مطلب لیا جائے کہ تم سے حق تعالیٰ نے تیس چالیس روز کا وعدہ کیا
تھا کہ اتنی مدت موسٰیؑ "طور" پر معتکف رہیں گے، تب تورات شریف ملے
گی۔ تو کیا بہت زیادہ مدت گذر گئ کہ تم انتظار کرتے کرتے تھک گئے ؟ اور گوسالہ
پرستی اختیار کر لی ، یا عمدًا یہ حرکت کی ہے تا غضب الہٰی کے مستحق بنو ۔ اور {
اخلفتُمْ مَوْعِدِیْ } سے مراد وہ وعدہ ہے جو بنی اسرائیل نے موسٰیؑ سےکیا تھا
کہ آپ ہم کو خدا کی کتاب لا دیجئے ہم اسی پر عمل کیا کریں گے۔ اور آپ کے اتباع
پر مستقیم رہیں گے۔
|
أَفَعَيينا بِالخَلقِ الأَوَّلِ ۚ بَل هُم فى
لَبسٍ مِن خَلقٍ جَديدٍ {50:15}
|
کیا ہم پہلی بار پیدا کرکے تھک گئے ہیں؟
(نہیں) بلکہ یہ ازسرنو پیدا کرنے میں شک میں (پڑے ہوئے) ہیں
|
Are We then wearied with the first
creation? Aye! they are in dubiety regarding a new creation.
|
یعنی دوبارہ نئے سرے سے پیدا کرنے
میں انہیں فضول دھوکا لگ رہا ہے۔ جس نے پہلی بار پیدا کیا اسے دوسری مرتبہ پیدا
کر دینا کیامشکل ہے؟ کیا یہ گمان کرتے ہو کہ (معاذ اللہ) وہ پہلی دفعہ دنیا کو
بنا کر تھک گیاہو گا؟ اس قادر مطلق کی نسبت ایسے توہمات قائم کرنا سخت جہالت اور
گستاخی ہے۔
|
أَفَغَيرَ دينِ اللَّهِ يَبغونَ وَلَهُ
أَسلَمَ مَن فِى السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ طَوعًا وَكَرهًا وَإِلَيهِ يُرجَعونَ
{3:83}
|
کیا یہ (کافر) اللہ کے دین
کے سوا کسی
اور دین کے طالب ہیں حالانکہ سب اہلِ آسمان و زمین خوشی یا زبردستی سے اللہ کے
فرماں بردار ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں
|
Seek they then other than the
religion of Allah Whereas unto Him hath submitted whosoever is in the heavens
and the earth willingly or unwillingly, and unto Him shall they all be
returned.
|
سب کو آخر کار جب وہیں لوٹ کر جانا
ہے تو عقلمند کو چاہئے کہ پہلے سے تیاری کر رکھے۔ یہاں نافرمانیاں کیں تو وہاں
کیا منہ دکھلائے گا۔
|
یعنی ہمیشہ سے خدا کا دین اسلام رہا
ہے، جس کے معنی ہیں حکمبرداری مطلب یہ ہے کہ جس وقت حق تعالیٰ کا جو حکم کسی
راست باز اور صادق القول پیغمبر کے توسط سے پہنچے اس کے سامنے گردن جھکا دو۔ پس
آج جو احکام و ہدایت سید المرسلین خاتم الانبیاء لے کر آئے وہ ہی خدا کا دین ہے۔
کیا اسے چھوڑ کر نجات و فلاح کا کوئی اور راستہ ڈھونڈتے ہیں؟ خوب سمجھ لیں کہ
خدا کا دین چھوڑ کر کہیں ابدی نجات اور حقیقی کامیابی نہیں مل سکتی۔ آدمی کو سزا
وار نہیں کہ اپنی خوشی اور شوق و رغبت سے اس خدا کی حکمبرداری اختیار نہ کرے جس
کے حکم تکوینی کے نیچے تمام آسمان و زمین کی چیزیں ہیں۔ خواہ وہ حکم تکوینی ان
کے ارادہ اور خوشی کے توسط سے ہو جیسے فرشتے اور فرمانبردار بندوں کی اطاعت میں،
یا مجبوری و لاچاری سے، جیسے عالم کا ذرہ ذرہ ان آثار و حوادث میں جن کا وقوع و
ظہور بدون مخلوق کی مشیت و ارادہ کے ہوتا ہے۔ حق تعالیٰ کی مشیت و ارادہ کے تابع
ہے۔
|
أَفَغَيرَ اللَّهِ أَبتَغى حَكَمًا وَهُوَ
الَّذى أَنزَلَ إِلَيكُمُ الكِتٰبَ مُفَصَّلًا ۚ وَالَّذينَ ءاتَينٰهُمُ
الكِتٰبَ يَعلَمونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِن رَبِّكَ بِالحَقِّ ۖ فَلا تَكونَنَّ
مِنَ المُمتَرينَ {6:114}
|
(کہو) کیا میں اللہ کے سوا اور منصف تلاش کروں حالانکہ اس نے
تمہاری طرف واضع المطالب کتاب بھیجی ہے اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب (تورات) دی
ہے وہ جانتے ہیں کہ وہ تمہارے پروردگار کی طرف سے برحق نازل ہوئی ہے تو تم ہرگز
شک کرنے والوں میں نہ ہونا
|
Say thou: shall I then seek as
judge other than Allah, when it is He who hath sent down toward you the Book
detailed? And those whom We vouchsafed the book know that it hath been
revealed by thy Lord in truth; so be thou not of the doubters.
|
وَلَهُ ما فِى السَّمٰوٰتِ
وَالأَرضِ وَلَهُ الدّينُ واصِبًا ۚ أَفَغَيرَ اللَّهِ
تَتَّقونَ {16:52}
|
اور جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ
زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور اسی کی عبادت لازم ہے۔ تو تم اللہ کے سوا اوروں سے
کیوں ڈرتے ہو
|
And His is whatsoever is in the
heavens and the earth, and unto Him is obedience due perpetually; will ye
then fear any other than Allah?
|
یعنی تکوینی طور پر ہر چیز خالص اسی
کی عبادت و اطاعت پر مجبور ہے { اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللہِ یَبْغُوْنَ وَلَہٗ
اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا کَرْھًا وَاِلَیْہِ
یُرْجَعُوْنَ } (آل عمران رکوع۹) یا یہ مطلب ہے کہ ہمیشہ اسی کی عبادت کرنا لازم
ہے { اَلَا لِلہِ الدِّیْنُ الْخَالِصْ } (زمر رکوع۱) اور بعض نے
"دین" کو "جزاء" کے معنی میں لیا ۔ یعنی نیک و بد کا دائمی
بدلہ اسی ایک خدا کی طرف سے ملے گا۔ واللہ اعلم۔
|
قُل أَفَغَيرَ اللَّهِ تَأمُرونّى أَعبُدُ
أَيُّهَا الجٰهِلونَ {39:64}
|
کہہ دو کہ اے نادانو! تم مجھ سے یہ
کہتے ہو کہ میں غیر اللہ کی پرستش کرنے لگوں
|
Say thou: is it other than Allah
that ye command me to worship! O ye pagans
|
یعنی انتہائی نادانی اور حماقت و
جہالت یہ ہے کہ آدمی خدا کو چھوڑ کر دوسروں کی پرستش کرے اور پیغمبر خدا سے
(معاذ اللہ) یہ طمع رکھے کہ وہ اس کے راستہ پر آ جائیں گے۔ بعض روایات میں ہے کہ
مشرکین نے حضور ﷺ کو
اپنے دیوتاؤں کی طرف بلایا تھا، اس کے جواب میں یہ آیات نازل ہوئیں۔
|
أَتَأمُرونَ النّاسَ بِالبِرِّ
وَتَنسَونَ أَنفُسَكُم وَأَنتُم تَتلونَ الكِتٰبَ ۚ أَفَلا تَعقِلونَ {2:44}
|
(یہ) کیا (عقل
کی بات ہے کہ) تم لوگوں کو نیکی کرنے کو کہتے ہو اور اپنے تئیں فراموش کئے دیتے
ہو، حالانکہ تم کتاب (خدا) بھی پڑھتے ہو۔ کیا تم سمجھتے نہیں؟
|
Command ye mankind to piety and
forget yourselves, the while ye read the Book! Understand then ye not!
|
بعض علمائے یہود یہ کمال کرتے تھے
اپنے لوگوں سے کہتے تھے کہ یہ دین اسلام اچھا ہے اور خود مسلمان نہ ہوتے تھے ۔
اور نیز علمائے یہود بلکہ اکثر ظاہر بینوں کو اس موقع پر یہ شبہ پڑ جاتا ہے کہ
جب ہم تعلیم احکام شریعت میں قصور نہیں کرتے اور حق پوشی بھی نہیں کرتے تو اس کی
ضرورت نہیں کہ ہم خود بھی احکام پر عمل کریں جب ہماری ہدایت کے موافق بہت سے
آدمی اعمال شریعت بجا لاتے ہیں تو بحکم قاعدہ { اَلدّالُّ عَلیَ الْخَیْرِ کَفَا
عِلِہٖ } وہ ہمارے ہی اعمال ہیں تو اس آیت میں دونوں کا بطلان فرما دیا گیا اور
آیت سے مقصود یہ ہے کہ واعظ کو اپنے وعظ پر ضرور عمل کرنا چاہئیے یہ غرض نہیں کہ
فاسق کسی کو نصیحت نہ کرے۔
|
وَإِذا لَقُوا الَّذينَ ءامَنوا
قالوا ءامَنّا وَإِذا خَلا بَعضُهُم إِلىٰ بَعضٍ قالوا أَتُحَدِّثونَهُم بِما
فَتَحَ اللَّهُ عَلَيكُم لِيُحاجّوكُم بِهِ عِندَ رَبِّكُم ۚ أَفَلا تَعقِلونَ {2:76}
|
اور یہ لوگ جب مومنوں سے ملتے ہیں
تو کہتے ہیں، ہم ایمان لے آئے ہیں۔ اور جب آپس میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو
کہتے ہیں، جو بات اللہ نے تم پر ظاہر فرمائی ہے، وہ تم ان کو اس لیے بتائے دیتے
ہو کہ (قیامت کے دن) اسی کے حوالے سے تمہارے پروردگار کے سامنے تم کو الزام دیں۔
کیا تم سمجھتے نہیں؟
|
And when they meet those who
believe they say: we believe; and when some of them are alone with some
others they say speak ye unto them of that which God hath opened unto you so
that they may argue therewith against you before your Lord? understand then
ye not?
|
یہود میں جو لوگ منافق تھے وہ بطور
خوشامد اپنی کتاب میں سے پیغمبر آخرالزمان کی باتیں مسلمانوں سے بیان کرتے اور
دوسرے لوگ ان میں سے ان کو اس بات پر ملامت کرتے کہ اپنی کتاب کی سند ان کے ہاتھ
میں کیوں دیتے ہو کیا تم نہیں جانتے کہ مسلمان تمہارے پروردگار کے آگے تمہاری
خبر دی ہوئی باتوں سے تم پر الزام قائم کریں گے کہ پیغمبر آخرالزمان ﷺ کو
سچ جان کر بھی ایمان نہ لائے اور تم کو لاجواب ہونا پڑےگا۔
|
يٰأَهلَ الكِتٰبِ لِمَ تُحاجّونَ فى
إِبرٰهيمَ وَما أُنزِلَتِ التَّورىٰةُ وَالإِنجيلُ إِلّا مِن بَعدِهِ ۚ أَفَلا تَعقِلونَ {3:65}
|
اے اہلِ کتاب تم ابراہیم کے بارے
میں کیوں جھگڑتے ہو حالانکہ تورات اور انجیل ان کے بعد اتری ہیں (اور وہ پہلے ہو
چکے ہیں) تو کیا تم عقل نہیں رکھتے
|
O people of the Book! wherefore
contend ye concerning Ibrahim, whereas the Taurat and the Injil were not sent
down save after him! Will ye not then under stand?
|
أَفَلا يَتَدَبَّرونَ القُرءانَ ۚ وَلَو
كانَ مِن عِندِ غَيرِ اللَّهِ لَوَجَدوا فيهِ اختِلٰفًا كَثيرًا {4:82}
|
بھلا یہ قرآن میں غور کیوں نہیں
کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کا (کلام) ہوتا تو اس میں (بہت سا) اختلاف پاتے
|
Ponder then they not on the
Qur'an? Were it from other than Allah they would surely find therein many a
contradiction.
|
پہلی آیات سے حضرت محمد ﷺ کا
رسول اللہ ہونا اور ان کی اطاعت بعینہ خدا کی اطاعت ہونی اور ان کے
نافرمانوں پر حق تعالیٰ کا عذاب ہونا تو خوب ظاہر ہو گیا مگر منافق اور آپ کے
مخالف یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا کی گواہی اور اس کے ارشادات کی تسلیم و تصدیق میں
تو ہم کو تامل ہر گز نہیں مگر یہ کیونکر معلوم ہو کہ یہ خدا کا کلام ہے بشر کا
بنایا ہوا نہیں تو حق تعالی اس کا جواب دیتا ہے کہ یہ لوگ قرآن میں غور نہیں
کرتے جس سے صاف معلوم ہو جائے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے دیکھو اگر قرآن اللہ کا
کلام نہ ہوتا جیسا کہ تم گمان کرتے ہو تو ضرور قرآن میں بہت سے مواقع میں طرح
طرح کے اختلافات ملتے دیکھو آدمی ہر حالت میں اسی حالت کے موافق کلام کرتا ہے جو
حالت پیش ہوتی ہے دوسری حالت کا دھیان نہیں ہوتا غصہ میں مہربانی والوں کا دھیان
نہیں رہتا اور مہربانی میں غصہ والوں کا، دنیا کے بیان میں آخرت کا لحاظ نہ رہے
اور آخرت کے بیان میں دنیا کا۔ بےپروائی میں عنایت کا ذکر نہیں اور عنایت میں
بےپرورائی کا بالجملہ ایک حال کا کلام دوسرے حال کے کلام سے مختلف نظر آئے گا
لیکن قرآن شریف چونکہ خالق کا کلام ہے یہاں ہر چیز کے بیان میں دوسری جانب بھی
نظر رہتی ہے غور و فہم سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں ہر چیز کا بیان ہر مقام میں
ایک انداز پر ہے دیکھئے یہاں منافقوں کا مذکور تھا جو سخت عتاب کے مستحق ہیں سو
یہاں بھی ان کی باتوں پر اسی قدر الزام ہے جتنا چاہئے اور جو الزام ان کی ایک
خاص جماعت پر تھا وہ خاص انہی پر لگایا گیا اور فرما دیا کہ بعضے ان میں سے ایسا
کرتے ہیں یہ نہیں کہ غصہ وغیرہ کی حالت میں کلام اپنی حد سے نکل جائے اور دوسری
حالت کے کلام سے مختلف نظر آئے اور نیز یہ مطلب بھی ہے کہ ہم برابر دیکھتے ہیں
کہ جب آدمی کوئی کلام طویل کرتا ہے تو وہ یکساں نہیں ہوتا بلکہ کوئی جملہ فصیح
کو ئی غیر فصیح کو ئی صحیح کوئی غلط کوئی سچا کوئی کاذب کوئی موافق کوئی باہم
متناقض ضرور معلوم ہوتا ہے اور قرآن اتنی بڑی کتاب ان جملہ اختلافات سے پاک ہے
جو طاقت بشر سے باہر ہے۔ {فائدہ} اس میں اس کی طرف بھی اشارہ ہو گیا کہ جو تدبر
اور فہم سے کام نہ لے وہ قرآن میں شبہات اور اختلافات کا وہم چلا سکتا ہے مگر
فہیم ایسا نہیں کر سکتا دیکھو جو اسی مقام میں تدبر نہ کرے وہ کہہ سکتا ہے کہ
اول تو فرما دیا { قُلْ کُلٌ مِّنْ عِنْدَ اللہِ } پھر فرما دیا { وَمَآ
اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ } سو یہ تو تناقض اور اختلاف ہو گیا واللہ
اعلم۔
|
أَفَلا يَتوبونَ إِلَى اللَّهِ
وَيَستَغفِرونَهُ ۚ وَاللَّهُ غَفورٌ رَحيمٌ {5:74}
|
تو یہ کیوں اللہ کے آگے توبہ نہیں
کرتے اور اس سے گناہوں کی معافی نہیں مانگتے اور اللہ تو بخشنے والا مہربان ہے
|
Wherefore turn they not toward
Allah and ask His forgiveness? And Allah is Forgiving, Merciful.
|
یہ اسی غفور رحیم کی شان ہے کہ ایسے
ایسے باغی اور گستاخ مجرم بھی جب شرمندہ ہو کر اور اصلاح کا عزم کر کے حاضر ہوں
تو ایک منٹ میں عمر بھر کے جرائم معاف فرما دیتا ہے۔
|
وَمَا الحَيوٰةُ الدُّنيا إِلّا
لَعِبٌ وَلَهوٌ ۖ وَلَلدّارُ الءاخِرَةُ خَيرٌ لِلَّذينَ يَتَّقونَ ۗ أَفَلا تَعقِلونَ {6:32}
|
اور دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور
مشغولہ ہے۔ اور بہت اچھا گھر تو آخرت کا گھر ہے (یعنی) ان کے لئے جو (اللہ سے)
ڈرتے ہیں۔ کیا تم سمجھتے نہیں
|
And naught is the life of world
but a play and a sport, and surely the abode of the Hereafter is better for
those who fear. Reflect then ye not?
|
کفار تو یہ کہتے تھے کہ دنیوی زندگی
کے سوا کوئی زندگی ہی نہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ فانی اور مکدر زندگانی حیات
اخروی کے مقابلہ میں محض ہیچ اور بےحقیقت ہے۔ یہاں کی زندگی کے صرف ان ہی لمحات
کو زندگی کہا جا سکتا ہے جو آخرت کی درستی میں خرچ کئے جائیں بقیہ تمام اوقات جو
آخرت کی فکر و تیاری سے خالی ہوں ایک عاقبت اندیش کے نزدیک لہو لعب سے زائد وقعت
نہں رکھتے۔ پرہیزگار اور سمجھدار لوگ جانتے ہیں کہ ان کا اصلی گھر آخرت کا گھر
اور ان کی حقیقی زندگی آخرت کی زندگی ہے۔
|
قُل لا أَقولُ لَكُم عِندى خَزائِنُ
اللَّهِ وَلا أَعلَمُ الغَيبَ وَلا أَقولُ لَكُم إِنّى مَلَكٌ ۖ إِن أَتَّبِعُ
إِلّا ما يوحىٰ إِلَىَّ ۚ قُل هَل يَستَوِى الأَعمىٰ وَالبَصيرُ ۚ أَفَلا تَتَفَكَّرونَ {6:50}
|
کہہ دو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا
کہ میرے پاس الله تعالیٰ کے خزانے ہیں اور نہ (یہ کہ) میں غیب جانتا ہوں اور نہ
تم سے یہ کہتا کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف اس حکم پر چلتا ہوں جو مجھے (اللہ کی
طرف سے) آتا ہے۔ کہہ دو کہ بھلا اندھا اور آنکھ والے برابر ہوتے ہیں؟ تو پھر تم
غور کیوں نہیں کرتے
|
Say thou: I say not unto you, that
with me are the treasures of Allah, nor I know the Unseen, nor say unto you
that I am an angel; I but follow that which hath been revealed unto me. Say
thou: are the blind and the seeing equal? Will ye not then consider?
|
اس آیت میں منصب رسالت کی حقیقت پر
روشنی ڈالی گئ ہے۔ یعنی کوئی شخص جو مدعی نبوت ہو اس کا دعویٰ یہ نہیں ہوتا کہ
تمام مقدورات الہٰیہ کے خزانے اس کے قبضہ میں ہیں کہ جب اس سے کسی امر کی فرمائش
کی جائے وہ ضرور ہی کر دکھلائے یا تمام معلومات غیبیہ و شہاد پر خواہ ان کا تعلق
فرائض رسالت سے ہو یا نہ ہو اس کو مطلع کر دیا گیا ہے کہ جو کچھ تم پوچھو وہ
فورًا بتلا دیا کرے۔ یا نوع بشر کے علاوہ وہ کوئی اور نوع ہے جو لوازم و خواص
بشریہ سے اپنی برأت و نزاہت کا ثبوت پیش کرے۔ جب ان باتوں میں سے وہ کسی چیز کا
مدعی نہیں تو فرمائشی معجزات اس سےطلب کرنا یا ازراہ تعنت و عناد اس قسم کا سوال
کرنا کہ "قیامت کب آئے گی"۔ یا یہ کہنا کہ "یہ رسول کیسے ہیں جو
کھانا کھاتے اور بازاروں میں خریدو فروخت کے لئے جاتے ہیں" اور ان ہی امور
کو معیار تصدیق و تکذیب ٹھہرانا کہاں تک صحیح ہو سکتا ہے۔
|
یعنی اگرچہ پیغمبر نوع بشر سےعلیحدہ
کوئی دوسری نوع نہیں۔ لیکن اس کے اور باقی انسانوں کے درمیان زمین و آسمان کا
فرق ہے۔ انسانی قوتیں دو قسم کی ہیں علمی و عملی۔ قوت علمیہ کے اعتبار سے نبی
اور غیر نبی میں اعمٰی و بصیر (اندھے اور سوانکھے) کا تفاوت سمجھنا چاہئے۔ نبی
کے دل کی آنکھیں ہر وقت مرضیات الہٰی اور تجلیات ربانی کے دیکھنے کےلئے کھلی
رہتی ہیں جس کے بلاواسطہ مشاہدہ سے دوسرے انسان محروم ہیں۔ اور قوت عملیہ کا حال
یہ ہوتا ہے کہ پیغمبر اپنے قول و فعل اور ہر ایک حرکت و سکون میں رضائے الہٰی
اور حکم خداوندی کے تابع و منقاد ہوتے ہیں وحی سماوی اور احکام
الہٰیہ کے خلاف نہ کبھی ان کا قدم اٹھ سکتا ہے نہ زبان حرکت کر سکتی ہے۔ ان کی
مقدس ہستی اخلاق و اعمال اور کل واقعات زندگی میں تعلیمات ربانی اور مرضیات
الہٰی کی روشن تصویر ہوتی ہے جسے دیکھ کر غوروفکر کرنے والوں کو ان کی صداقت اور
مامور من اللہ ہونے میں ذرا بھی شبہ نہیں رہ سکتا۔
|
وَحاجَّهُ قَومُهُ ۚ قالَ
أَتُحٰجّونّى فِى اللَّهِ وَقَد هَدىٰنِ ۚ وَلا أَخافُ ما تُشرِكونَ بِهِ إِلّا
أَن يَشاءَ رَبّى شَيـًٔا ۗ وَسِعَ رَبّى كُلَّ شَيءٍ عِلمًا ۗ أَفَلا تَتَذَكَّرونَ {6:80}
|
اور ان کی قوم ان سے بحث کرنے لگی
تو انہوں نے کہا کہ تم مجھ سے اللہ کے بارےمیں (کیا) بحث کرتے ہو اس نے تو مجھے
سیدھا رستہ دکھا دیا ہے۔ اور جن چیزوں کو تم اس کا شریک بناتے ہو میں ان سے نہیں
ڈرتا۔ ہاں جو میرا پروردگار چاہے۔ میرا پروردگار اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ
کئے ہوئے ہے۔ کیا تم خیال نہیں کرتے۔
|
And his people contended with him.
He said; contend ye with me concerning Allah when He hath surely guided me? I
fear not that which ye associate with Him save aught that mine Lord may will.
My Lord comprehendeth everything in His Knowledge. Will ye not then be
admonished?
|
یعنی جس کو خدا سمجھا چکا اور ملکوت
السمٰوت والارض کی علیٰ وجہ البصیرت سیر کرا چکا کیا اس سے یہ امید رکھتے ہو کہ
وہ تمہارے جھگڑنے اور بیہودہ جدول و بحث کرنے سے بہک جائے گا کبھی نہیں۔
|
حضرت ابراہیمؑ کی قوم کہتی تھی کہ
تم جو ہمارےمعبودوں کی توہین کرتے ہو۔ ڈرتے رہو کہیں اس کے وبال میں تم معاذ
اللہ مجنون اور پاگل نہ بن جاؤ یا اور کسی مصیبت میں گرفتار ہو جاؤ ۔ اس کا جواب
دیا کہ میں ان سے کیا ڈروں گا جن کےہاتھ میں نفع و نقصان اور تکلیف و راحت کچھ بھی
نہیں۔ ہاں میرا پروردگار مجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو اس سے دنیا میں کون
مستثنیٰ ہے۔ وہ ہی اپنے علم محیط سے جانتا ہے کہ کس شخص کو کن حالات میں رکھنا
مناسب ہوگا۔
|
وَإِلىٰ عادٍ أَخاهُم هودًا ۗ قالَ
يٰقَومِ اعبُدُوا اللَّهَ ما لَكُم مِن إِلٰهٍ غَيرُهُ ۚ أَفَلا تَتَّقونَ {7:65}
|
اور (اسی طرح) قوم عاد کی طرف ان کے
بھائی ہود کو بھیجا۔ انہوں نے کہا کہ بھائیو اللہ ہی کی عبادت کرو۔ اس کے سوا
تمہارا کوئی معبود نہیں۔ کیا تم ڈرتے نہیں؟
|
And unto 'Ad We sent their
brothers Hud. He said: O my people! worship Allah, no god ye have but He;
Fear ye not?
|
ان لوگوں میں بت پرستی پھیل گئ تھی۔
روزی دینے، مینہ برسانے، تندرست کرنے اور مختلف مطالب و حاجات کے لئے الگ الگ
دیوتا بنا رکھے تھے جن کی پرستش ہوتی تھی۔ ہودؑ نے اس سے روکا اور اس جرم عظیم
کی سزا سے ان کو ڈرایا۔
|
"عاد"
حضرت نوحؑ کے پوتے ارم کی اولاد میں ہیں۔ یہ قوم انہی کی طرف منسوب ہے۔ ان کی
سکونت "احقاف" (یمن) میں تھی۔ حضرت ہودؑ اسی قوم سے ہیں۔ اس لحاظ سے
وہ ان کے قومی اور وطنی بھائی ہوئے۔
|
فَخَلَفَ مِن بَعدِهِم خَلفٌ
وَرِثُوا الكِتٰبَ يَأخُذونَ عَرَضَ هٰذَا الأَدنىٰ وَيَقولونَ سَيُغفَرُ لَنا
وَإِن يَأتِهِم عَرَضٌ مِثلُهُ يَأخُذوهُ ۚ أَلَم يُؤخَذ عَلَيهِم ميثٰقُ
الكِتٰبِ أَن لا يَقولوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الحَقَّ وَدَرَسوا ما فيهِ ۗ
وَالدّارُ الءاخِرَةُ خَيرٌ لِلَّذينَ يَتَّقونَ ۗ أَفَلا تَعقِلونَ {7:169}
|
پھر ان کے بعد ناخلف ان کے قائم
مقام ہوئے جو کتاب کے وارث بنے۔ یہ (بےتامل) اس دنیائے دنی کا مال ومتاع لے لیتے
ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بخش دیئے جائیں گے۔ اور (لوگ ایسوں پر طعن کرتے ہیں) اگر
ان کے سامنے بھی ویسا ہی مال آجاتا ہے تو وہ بھی اسے لے لیتے ہیں۔ کیا ان سے
کتاب کی نسبت عہد نہیں لیا گیا کہ اللہ پر سچ کے سوا اور کچھ نہیں کہیں گے۔ اور
جو کچھ اس (کتاب) میں ہے اس کو انہوں نے پڑھ بھی لیا ہے۔ اور آخرت کا گھر
پرہیزگاروں کے لیے بہتر ہے کیا تم سمجھتے نہیں
|
Then there succeeded them a
posterity; they inherited the Book taking this near world's gear and saying
surety it will be forgiven, And if there cometh unto them anot her gear like
thereunto they shall take it. Hath there not lain upon them the bond of the
Book that they shall not say of God aught but the truth? And they have read
that which is therein. And the abode of the Hereafter is better for those who
fear. Understand then ye not?
|
یعنی اگلوں میں تو کچھ صالحین بھی
تھے۔ پچھلے ایسے ناخلف ہوئے کہ جس کتاب (تورات شریف) کے وارث و حامل بنے تھے
دنیا کا تھوڑا سا سامان لے کر اس کی آیات میں تحریف و کتمان کرنے لگے اور رشوتیں
لے کر احکام تورات کے خلاف فیصلے دینے لگے۔ پھر اس پر ستم ظریفی دیکھئے کہ ایسی
نالائق اور پاجیانہ حرکات کا ارتکاب کرتے ہوئے یہ عقیدہ اور دعویٰ رکھتے ہیں کہ
ان باتوں سے ہم کو مضرت کا کچھ اندیشہ نہیں۔ ہم تو خدا کی اولاد اور اس کے محبوب
ہیں۔ کچھ بھی کریں وہ ہماری بے اعتدالیوں سے ضرور درگذر کرے گا۔ اسی عقیدہ کی
بناء پر تیار رہتے ہیں کہ آئندہ جب موقع ہو پھر رشوت لے کر اسی طرح کی بےایمانی
کا اعادہ کریں۔ گویا بجائے اس کے کہ گذشتہ حرکات پر نادم ہوتے اور آیندہ کے لئے
عزم رکھتے کہ ایسی حرکات کا اعادہ نہ کریں گے مگر اللہ سے مامون ہو کر ان ہی
شرارتوں اور بے ایمانیوں کے اعادہ کا عزم رکھتے ہیں۔ اس سے زیادہ حماقت اور
بےحیائی کیا ہوگی۔
|
یعنی تورات میں جو عہد لیا گیا تھا
کہ "خدا کی طرف سچ کے سوا کسی چیز کی نسبت نہ کریں" کیا وہ انہیں
معلوم نہیں جو اس کی کتاب او ر احکام میں قطع وبرید کر کے اس پر افتراء کرنے لگے
حالانکہ "کتاب اللہ" (تورات) کو یہ لوگ پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ پھر کیسے
کہا جا سکتا ہےکہ اس کا مضمون انہیں معلوم نہیں یا یاد نہیں رہا۔ حقیقت وہ ہی ہے
کہ دنیا کی فانی متاع کے عوض انہوں نے دین و ایمان بیچ ڈالا اور آخرت کی تکلیف و
راحت سے آنکھیں بند کر لیں۔ اتنا نہ سمجھے کہ جو لوگ خدا سے ڈرتے اور تقویٰ کی
راہ اختیار کرتے ہیں ان کے لئے آخرت کا گھر اور وہاں کا عیش و تنعم دنیا کی
خوشحالی سے کہیں بہتر اور فائق ہے۔ کاش کہ اب بھی انہیں عقل آ جائے۔
|
إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذى
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ فى سِتَّةِ أَيّامٍ ثُمَّ استَوىٰ عَلَى العَرشِ ۖ
يُدَبِّرُ الأَمرَ ۖ ما مِن شَفيعٍ إِلّا مِن بَعدِ إِذنِهِ ۚ ذٰلِكُمُ اللَّهُ
رَبُّكُم فَاعبُدوهُ ۚ أَفَلا تَذَكَّرونَ
{10:3}
|
تمہارا پروردگار تو اللہ ہی ہے جس نے
آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے پھر عرش (تخت شاہی) پر قائم ہوا وہی ہر ایک کا
انتظام کرتا ہے۔ کوئی (اس کے پاس) اس کا اذن حاصل کیے بغیر کسی کی سفارش نہیں
کرسکتا، یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے تو اسی کی عبادت کرو۔ بھلا تم غور کیوں نہیں
کرتے
|
Verily your Lord is Allah who hath
created the heavens and the earth in six days, then established Himself on
the Throne disposing the affair; no in tercessor is there, except after His
leave. That is Allah, your Lord; so worship Him. Would ye then not be
admonished!
|
یعنی شریک اور حصہ دار تو اس کی
خدائی میں کیا ہوتا ، سفارش کے لئے بھی اس کی اجازت کے بدون لب نہیں ہلا سکتا۔
|
یعنی دھیان کرو کہ ایسے رب کے سوا
جس کی صفات اوپر بیان ہوئیں دوسرا کون ہے جس کی بندگی اور پرستش کی جا سکے۔ پھر
تم کو کیسے جرأت ہوتی ہے کہ اس خالق و مالک شہنشاہ مطلق اور حکیم برحق کے
پیغاموں اور پیغامبروں کو محض اوہام و ظنون کی بنا پر جھٹلانے لگو۔
|
سورہ اعراف کے ساتویں رکوع کے شروع
میں اسی طرح کی آیت گذر چکی۔ اس کا فائدہ ملاحظہ کیا جائے۔
|
یعنی اتنے وقت میں جو چھ دن کے
برابر تھا اور ایک دن ابن عباس کی تفسیر کے موافق ایک ہزار سال کا لیا جائے گا۔
گویا چھ ہزار سال میں زمین و آسمان وغیرہ تیار ہوئے ۔ بلاشبہ حق تعالیٰ قادر تھا
کہ آن واحد میں ساری مخلوق کو پیدا کر دیتا۔ لیکن حکمت اسی کو مقتضی ہوئی کی
تدریجًا پیدا کیا جائے۔ شاید بندوں کو سبق دینا ہو کہ قدرت کے باوجود ہر کام سوچ
سمجھ کر تأنی اور متانت سےکیا کریں۔ نیز تدریجی تخلیق کی بہ نسبت دفعۃً پیدا
کرنے کے اس بات کا زیادہ اظہار ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ فاعل بالاضطرار نہیں ۔ بلکہ
ہر چیز کا وجود بالکلیہ اس کی مشیت و اختیار سے وابستہ ہے جب چاہے جس طرح چاہے
پیدا کرے۔
|
یعنی مخلوق کے تمام کاموں کی تدبیر
و انتظام اسی کے ہاتھ میں ہے۔
|
قُل لَو شاءَ اللَّهُ ما تَلَوتُهُ
عَلَيكُم وَلا أَدرىٰكُم بِهِ ۖ فَقَد لَبِثتُ فيكُم عُمُرًا مِن قَبلِهِ ۚ أَفَلا تَعقِلونَ {10:16}
|
(یہ بھی) کہہ
دو کہ اگر اللہ چاہتا تو (نہ تو) میں ہی یہ (کتاب) تم کو پڑھ کر سناتا اور نہ وہی
تمہیں اس سے واقف کرتا۔ میں اس سے پہلے تم میں ایک عمر رہا ہوں (اور کبھی ایک
کلمہ بھی اس طرح کا نہیں کہا) بھلا تم سمجھتے نہیں
|
Say thou: had Allah so willed.
Would not have rehearsed it unto you, nor would He have acquainted you
therewith. Of a surety I have tarried among you a lifetime before it. Would
ye not then reflect?
|
یعنی جو خدا چاہتا ہے وہ ہی میں
تمہارے سامنے پڑھتا ہوں اور جتنا وہ چاہتا ہے میرے ذریعہ سے تم کو خبردار کرتا
ہے۔ اگر وہ اس کے خلاف چاہتا تو میری کیا طاقت تھی کہ خود اپنی طرف سے ایک کلام
بنا کر اس کی طرف منسوب کر دیتا۔ آخر میری عمر کے چالیس سال تمہاری آنکھوں کے
سامنے گذرے۔ اس قدر طویل مدت میں تم کو میرے حالات کے متعلق ہر قسم کا تجربہ ہو
چکا میرا صدق و عفاف ، امانت و دیانت وغیرہ اخلاق حسنہ تم میں ضرب المثل رہے ۔
میرا امی ہونا اور کسی ظاہری معلم کے سامنے زانوئے تملذ تہ نہ کرنا ایک معروف و
مسلم واقعہ ہے ۔ پھر چالیس برس تک جس نے نہ کوئی قصیدہ لکھا ہو نہ مشاعروں میں
شریک ہوا ہو ، نہ کبھی کتاب کھولی ہو نہ قلم ہاتھ میں لیا ہو ، نہ کسی درسگاہ
میں بیٹھا ہو دفعۃً ایسا کلام بنالائے جو اپنی فصاحت و بلاغت ، شوکت و جزالت ،
جدت اسلوب اور سلاست و روائی سے جن و انس کو عاجز کر دے۔ اس کے علوم و حقائق کے
سامنے تمام دنیا کے معارف ماند پڑ جائیں۔ ایسا مکمل اور عالمگیر قانون ہدایت نوع
انسان کے ہاتھوں میں پہنچائے، جس کے آگے سب پچھلے قانون ردی ہو جائیں۔ بڑی بڑی
قوموں اور ملکوں کے مردہ قالب میں روح تازہ پھونک کر ابدی حیات اور نئی زندگی کا
سامان بہم پہنچائے۔ یہ بات کس کی سمجھ میں آ سکتی ہے۔ تم کو سوچنا چاہئے کہ جس
پاک سرشت انسان نے چالیس برس تک کسی انسان پر جھوٹ نہ لگایا ہو ، کیا وہ ایک دم
ایسی جسارت کر سکتا ہے کہ معاذ اللہ خداوند قدوس پر جھوٹ باندھنے اور افترا کرنے
لگے ؟ ناچار ماننا پڑے گا کہ جو کلام الہٰی تم کو سناتا ہوں اس کے بنانے یا
پہنچانے میں مجھے اصلاً اختیار نہیں۔ خدا جو کچھ چاہتا ہے میری زبان سے تم کو
سناتا ہے ۔ ایک نقطہ یا زیر زبر تبدیل کرنے کا کسی مخلوق کو حق حاصل نہیں۔
|
قُل مَن يَرزُقُكُم مِنَ السَّماءِ
وَالأَرضِ أَمَّن يَملِكُ السَّمعَ وَالأَبصٰرَ وَمَن يُخرِجُ الحَىَّ مِنَ
المَيِّتِ وَيُخرِجُ المَيِّتَ مِنَ الحَىِّ وَمَن يُدَبِّرُ الأَمرَ ۚ
فَسَيَقولونَ اللَّهُ ۚ فَقُل أَفَلا تَتَّقونَ
{10:31}
|
(ان سے) پوچھو
کہ تم کو آسمان اور زمین میں رزق کون دیتا ہے یا (تمہارے) کانوں اور آنکھوں کا
مالک کون ہے اور بےجان سے جاندار کون پیدا کرتا ہے اور دنیا کے کاموں کا انتظام
کون کرتا ہے۔ جھٹ کہہ دیں گے کہ خدا۔ تو کہو کہ پھر تم (اللہ سے) ڈرتے کیوں نہیں؟
|
Say thou: who provideth for you
from the heaven and the earth, or who owneth the hearing and the sight, and
who bringeth forth the living from the lifeless and bringeth forth the
lifeless from the living, and who disposeth the affair! They will then surely
say: Allah. Say thou: will ye not then fear Him?
|
یعنی دنیا کے تمام کاموں کی تدبیر و
انتظام کون کرتا ہے۔
|
آسمان کی طرف سے بارش اور حرارت شمس
وغیرہ پہنچتی ہے اور زمینی مواد اس کے ساتھ ملتے ہیں تب انسان کی روزی مہیا ہوتی
ہے۔
|
مثلاً ''نطفہ'' یا ''بیضہ''
سےجاندار کو ، پھر جاندار سے نطفہ اور بیضہ کو نکالتا ہے۔ یا روحانی اور معنوی
طور پر جو شخص یا قوم مردہ ہو چکی اس میں سے زندہ دل افراد پیدا کرتا ہے اور
زندہ قوموں کے اخلاف پر ان کی بدبختی سے موت طاری کر دیتا ہے۔
|
یعنی ایسے عجبیب و غریب محیرالعقول
طریقہ سے کس نے کان اور آنکھ پیدا کی۔ پھر ان کی حفاظت کا سامان کیا۔ کون ہے جو
ان تمام قویٰ انسانی کا حقیقی مالک ہےکہ جب چاہے عطا فرما دے اور جب چاہے چھین
لے۔
|
مَثَلُ الفَريقَينِ كَالأَعمىٰ
وَالأَصَمِّ وَالبَصيرِ وَالسَّميعِ ۚ هَل يَستَوِيانِ مَثَلًا ۚ أَفَلا تَذَكَّرونَ {11:24}
|
دونوں فرقوں (یعنی کافرومومن) کی
مثال ایسی ہے جیسے ایک اندھا بہرا ہو اور ایک دیکھتا سنتا۔ بھلا دونوں کا حال
یکساں ہوسکتا ہے؟ پھر تم سوچتے کیوں نہیں؟
|
The likeness of the two parties is
as the blind and deaf, and the seeing and hearing. Are the twain equal in
likeness? Admonished are ye not then?
|
یعنی منکرین تو اندھے بہرےہیں جیسا
کہ دو تین آیت پہلے فرمایا تھا { مَاکَانُوْا یَسْتَطِیْعُوْنَ السَّمْعَ وَمَا
کَانُوْا یُبْصِرُوْنَ } پھر جسے نہ خود نظر آئے نہ دوسرے کی سن سکے ، اس کا
آغاز و انجام کیسے ان روشن ضمیر ایمانداروں کے برابر ہو سکتا ہے جو بصیرت کی
آنکھوں سے حق و باطل اور بھلے برے میں تمیز کرتے اور اپنے ہادیوں کی باتیں بگوش
ہوش سنتے ہیں۔ غور کرو کہ دونوں کا انجام یکساں کس طرح ہو سکتا ہے ؟ آگے حضرت
نوحؑ کی قوم کا قصہ اسی مضمون کی تائید میں پیش کرتے ہیں۔
|
وَيٰقَومِ مَن يَنصُرُنى مِنَ
اللَّهِ إِن طَرَدتُهُم ۚ أَفَلا تَذَكَّرونَ
{11:30}
|
اور برادران ملت! اگر میں ان کو
نکال دوں تو (عذاب) اللہ سے (بچانے کے لیے) کون میری مدد کرسکتا ہے۔ بھلا تم غور
کیوں نہیں کرتے؟
|
O My people! who will succour me
against Allah, if I drave them away! Admonished are ye not then?
|
یعنی میں تمہارے کبرو غرور اور
جہالت سے متاثر ہو کر اپنا نقصان کیسے کروں۔ اگر تمہاری رعایت سے میں نے خدا کے
مخلص بندوں کو دھکے دیدیے تو اس کی سزا اور گرفت سے مجھ کو کون بچا سکے گا۔
|
يٰقَومِ لا أَسـَٔلُكُم عَلَيهِ
أَجرًا ۖ إِن أَجرِىَ إِلّا عَلَى الَّذى فَطَرَنى ۚ أَفَلا تَعقِلونَ {11:51}
|
میری قوم! میں اس (وعظ و نصیحت) کا
تم سے کچھ صلہ نہیں مانگتا۔ میرا صلہ تو اس کے ذمّے ہے جس نے مجھے پیدا کیا۔
بھلا تم سمجھتے کیوں نہیں؟
|
O My people! I ask of you no hire
therefor, my hire is cnly on Him who created me, will ye not then reflect?
|
یعنی اس قدر غبی ہو ، اتنی موٹی بات
بھی نہیں سمجھتے کہ ایک شخص بے طمع بے غرض ، محض دردمندی اور خیرخواہی سے تمہاری
فلاح دارین کی بات کہتا ہے۔ تم اسے دشمن اور بدخواہ سمجھ کر دست و گریباں ہوتے
ہو۔
|
یعنی تمہارےمال کی مجھے ضرورت نہیں۔
میرا پیدا کرنے والا ہی تمام دنیوی ضروریات اور آخروی اجرو ثواب کا کفیل ہے۔ یہ
بات ہر ایک پیغمبر نے اپنی قوم سے کہی تاکہ نصیحت بے لوث اور مؤثر ہو ۔ لوگ انکی
محنت کو دنیوی طمع پر محمول نہ کریں۔
|
وَما أَرسَلنا مِن قَبلِكَ إِلّا
رِجالًا نوحى إِلَيهِم مِن أَهلِ القُرىٰ ۗ أَفَلَم يَسيروا فِى الأَرضِ
فَيَنظُروا كَيفَ كانَ عٰقِبَةُ الَّذينَ مِن قَبلِهِم ۗ وَلَدارُ الءاخِرَةِ
خَيرٌ لِلَّذينَ اتَّقَوا ۗ أَفَلا تَعقِلونَ
{12:109}
|
اور ہم نے تم سے پہلے بستیوں کے
رہنے والوں میں سے مرد ہی بھیجے تھے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔ کیا ان لوگوں
نے ملک میں سیر (وسیاحت) نہیں کی کہ دیکھ لیتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا
انجام کیا ہوا۔ اور متّقیوں کے لیے آخرت کا گھر بہت اچھا ہے۔ کیا تم سمجھتے
نہیں؟
|
And We sent not before thee any
save men unto whom We revealed from among the people of the towns. Have then
they not travelled about in the land that they might observe of what wise
hath been the end of those before them! And surely the abode of the,
Hereafter is best for those who fear! Reflect then ye not!
|
یعنی پہلے بھی ہم نے آسمان کے
فرشتوں کو نبی بنا کر نہیں بھیجا۔ انبیائے سابقین ان ہی انسانی بستیوں کے رہنے
والے مرد تھے ۔ پھر دیکھ لو ان کے جھٹلانے والوں کا دنیا میں کیا حشر ہوا۔
حالانکہ دنیا میں کافروں کو بھی بسا اوقات عیش نصیب ہو جاتا ہے۔ اور آخرت کی
بہتری تو خالص ان ہی کے لئے ہے جو شرک و کفر سے پرہیز کرتے ہیں۔ یہ تنبیہ ہے
کفار مکہ کو کہ اگلوں کے احوال سےعبرت حاصل کریں۔ (تنبیہ) اس آیت سے نکلتا ہے کہ
کوئی عورت نبی نہیں بنائی گئ۔ حضرت مریمؑ کو بھی قرآن نے صدیقہ کا مرتبہ دیا ہے
۔ نیز آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اہل بوادی (جنگلی گنواروں) میں سے کوئی نبی مبعوث
نہیں ہوا۔
|
أَفَمَن
يَخلُقُ كَمَن لا يَخلُقُ ۗ أَفَلا تَذَكَّرونَ {16:17}
|
تو
جو (اتنی مخلوقات) پیدا کرے۔ کیا وہ ویسا ہے جو کچھ بھی پیدا نہ کرسکے تو پھر تم
غور کیوں نہیں کرتے؟
|
Is there one who createth like unto one who createth not?
Will ye not then be admonished?
|
یعنی
سوچنا چاہئے یہ کس قدر حماقت ہے کہ جو چیزیں ایک مکھی کا پر اور مچھر کی ٹانگ
بلکہ ایک جو کا دانہ یا ریت کا ذرہ پیدا کرنے پر قادر نہ ہوں ، انہیں معبود و
مستعان ٹھہرا کر خداوند قدوس کے برابر کر دیا جائے ۔ جو مذکورہ بالا عجیب و غریب
مخلوقات کا پیدا کرنے والا اور ان کے محکم نظام کو قائم رکھنے والا ہے۔ اس
گستاخی کو دیکھو اور خدا کے انعامات کو خیال کرو۔ حقیقت میں انسان بڑا ہی نا
شکرا ہے۔
|
أَفَلا يَرَونَ
أَلّا يَرجِعُ إِلَيهِم قَولًا وَلا يَملِكُ لَهُم ضَرًّا وَلا نَفعًا {20:89}
|
کیا
یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ وہ ان کی کسی بات کا جواب نہیں دیتا۔ اور نہ ان کے نقصان
اور نفع کا کچھ اختیار رکھتا ہے
|
Observed they not that it returned not unto them a word,
and owned not for them hurt or profit?
|
یعنی
اندھوں کو اتنی موٹی بات بھی نہیں سوجھتی کہ جو مورتی نہ کسی سے بات کر سکے نہ
کسی کو ادنیٰ ترین نفع نقصان پہنچانے کا اختیار رکھے ، وہ معبود یا خدا کس طرح
بن سکتی ہے۔
|
لَقَد
أَنزَلنا إِلَيكُم كِتٰبًا فيهِ ذِكرُكُم ۖ أَفَلا تَعقِلونَ {21:10}
|
ہم
نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے۔ کیا تم نہیں سمجھتے
|
And assuredly We have sent down unto you a Book wherein is
admonition for you; will ye not then reflect?
|
یعنی
قرآن کے ذریعہ سے تم کو ہر قسم کی نصیحت و فہمائش کر دی گئ اور سب برا بھلا
انجام سمجھا دیا گیا ۔ اگر کچھ بھی عقل ہو گی تو عذاب الہٰی سے اپنےکو محفوظ
رکھنے کی کوشش کرو گے اور قرآن کی قدر پہچانو گے جو فی الحقیقت تمہارے مجدو شرف
کی ایک بڑی دستاویز ہے۔ کیونکہ تمہاری زبان میں اور تمہاری قوم کے ایک فرد کامل
پر اترا اور دنیا میں تم کو شہرت دائمی عطا کی۔ اگر اپنے ایسے محسن کو نہ مانو
گے تو دنیا میں ذلیل ہو گے اور آخرت کا عذاب الگ رہا آگے ان قوموں کا دنیوی
انجام بیان فرماتے ہیں جنہوں نےانبیاء سے دشمنی کر کے اپنی جانوں پر ظلم کئے
تھے۔
|
أَوَلَم
يَرَ الَّذينَ كَفَروا أَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ كانَتا رَتقًا فَفَتَقنٰهُما
ۖ وَجَعَلنا مِنَ الماءِ كُلَّ شَيءٍ حَىٍّ ۖ أَفَلا يُؤمِنونَ {21:30}
|
کیا
کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا
کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں۔ پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں
لاتے؟
|
Have not these who disbelieve considered that the heavens
and the earth were closed up, then We rent them? And We have made of water
everything living; will they not then believe?
|
یعنی
عمومًا جاندار چیزیں جو تم کو نظر آتی ہیں بالواسطہ و بلاواسطہ پانی سے بنائی
گئیں پانی ہی ان کا مادہ ہے الّا کوئی ایسی مخلوق جس کی نسبت ثابت ہو جائے کہ اس
کی پیدائش میں پانی کو دخل نہیں وہ مستثنٰی ہو گی ۔ تاہم للاکثر حکم الکل کے
اعتبار سے یہ کلیہ صادق رہے گا۔
|
یعنی
قدرت کے ایسےکھلے نشان اور محکم انتظامات کو دیکھ کر بھی کیا لوگوں کو خدا کے
وجود اور اس کی وحدانیت پر یقین نہیں آتا۔
|
"رتق" کے اصل معنے اور ایک
دوسرے میں گھسنے کے ہیں ۔ ابتداءً زمین و آسمان دونوں ظلمت عدم میں ایک دوسرے سے
غیر متمیز پڑے تھے ، پھر وجود کے ابتدائی مراحل میں بھی دونوں خلط ملط رہے ،
بعدہ قدرت کے ہاتھ نے دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کیا ، اس تمیز کے بعد ہر ایک کے
طبقات الگ الگ بنے ، اس پر بھی منہ بند تھے نہ آسمان سے بارش ہوتی تھی نہ زمین
سے روئیدگی ، آخر خداتعالیٰ نے بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے دونوں کے منہ کھول
دئیے ، اوپر سے پانی کا دہانہ کھلا ، نیچے سے زمین کے مسام کھل گئے۔ اسی زمین
میں سے حق تعالیٰ نے نہریں اور کانیں اور طرح طرح کے سبزے نکالے ، آسمان کو کتنے
بیشمار ستاروں سے مزّین کر دیا جن میں سے ہر ایک کا گھر جدا اور چال جدی رکھی۔
|
بَل مَتَّعنا هٰؤُلاءِ وَءاباءَهُم
حَتّىٰ طالَ عَلَيهِمُ العُمُرُ ۗ أَفَلا يَرَونَ
أَنّا نَأتِى الأَرضَ نَنقُصُها مِن أَطرافِها ۚ أَفَهُمُ الغٰلِبونَ {21:44}
|
بلکہ ہم ان لوگوں کو اور ان کے باپ
دادا کو متمتع کرتے رہے یہاں تک کہ (اسی حالت میں) ان کی عمریں بسر ہوگئیں۔ کیا
یہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آتے ہیں۔ تو کیا یہ
لوگ غلبہ پانے والے ہیں؟
|
Aye! We
let these people and their fathers enjoy until there grew long upon them the
life. Behold they not that We come unto the land diminishing it by the
borders thereof? Shall they then be the victors?
|
یعنی عرب کے ملک میں اسلام پھیلنے
لگا ہے اور کفر گھٹنے لگا۔ آہستہ آہستہ وہاں کی زمین کافروں پر تنگ ہوتی جارہی
ہے۔ ان کی حکومتیں اور سرداریاں ٹوٹتی جا رہی ہیں ۔ کیا ایسے کھلے ہوئے آثار و
قرائن دیکھ کر بھی انہیں اپنا انجام نظر نہیں آتا۔ اور کیا ان مشاہدات کے باوجود
وہ اسی کے امیدوار ہیں کہ پیغمبر ﷺ اور
مسلمانوں پر ہم غالب ہوں گے۔ اگر چشم عبرت ہے تو چاہئے کہ عقل سے کام لیں اور
قرائن و احوال سے مستقبل کا اندازہ کریں ۔ کیا ان کو معلوم نہیں کہ ان کے
گردوپیش کی بستیاں انبیاء کی تکذیب و عداوت کی سزا میں تباہ کی جا چکی ہیں اور
ہمیشہ آخرکار خدا کے وفاداروں کا مشن کامیاب رہا ہے پھر سیدالمرسلین اور مومنین
کاملین کے مقابلہ میں غالب آنے کی انکو کیا توقع ہو سکتی ہے۔ { وَلَقَدْ
اَھْلَکْنَا مَاحَوْلَکُمْ مِنَ الْقُریٰ وَصَرَّفْنَا الاٰیاتِ لَعَلَّھُمْ
یَرْجِعُوْنَ } (احقاف رکوع ۴) (تنبیہ) اس مضمون کی آیت سورہ "رعد" کے
آخر میں گذر چکی وہاں کے فوائد ملاحظہ کئے جائیں۔
|
یعنی رحمٰن کی کلاءت و حفاظت اور
بتوں کا عجز و بیچارگی ایسی چیز نہیں جس کو یہ لوگ سمجھ نہ سکیں بات یہ ہے کہ
پشت ہاپشت سے یہ لوگ بے فکری کی زندگی گذار رہے ہیں۔ کوئی جھٹکا عذاب الہٰی کا
نہیں لگا اس پر مغرور ہو گئے اور غفلت کے نشہ میں چور ہو کر حق تعالیٰ کا پیغام
اور پیغمبروں کی نصیحت قبول کرنے سے منہ موڑ لیا۔
|
أُفٍّ لَكُم وَلِما تَعبُدونَ مِن
دونِ اللَّهِ ۖ أَفَلا تَعقِلونَ
{21:67}
|
تف ہے تم پر اور جن کو تم اللہ کے
سوا پوجتے ہو ان پر بھی کیا تم عقل نہیں رکھتے؟
|
Fie upon
you and upon that which ye worship beside Allah! Will ye not then reflect?
|
یعنی پھر تم کو ڈوب مرنا چاہئے کہ
جو مورتی ایک لفط نہ بول سکے، کسی آڑے وقت کام نہ آ سکے، ذرہ برابر نفع و نقصان
اس کے اختیار میں نہ ہو ، اسے خدائی کا درجہ دے رکھا ہے ، کیا اتنی موٹی بات بھی
تم نہیں سمجھ سکتے۔
|
وَلَقَد أَرسَلنا نوحًا إِلىٰ
قَومِهِ فَقالَ يٰقَومِ اعبُدُوا اللَّهَ ما لَكُم مِن إِلٰهٍ غَيرُهُ ۖ أَفَلا تَتَّقونَ
{23:23}
|
اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف
بھیجا تو انہوں نے ان سے کہا کہ اے قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا
کوئی معبود نہیں، کیا تم ڈرتے نہیں
|
And
assuredly We sent Nuh unto his people, and he said: O my people! worship
Allah; for you there is no god but he; will ye not then fear Him!
|
فَأَرسَلنا فيهِم رَسولًا مِنهُم
أَنِ اعبُدُوا اللَّهَ ما لَكُم مِن إِلٰهٍ غَيرُهُ ۖ أَفَلا تَتَّقونَ
{23:32}
|
اور ان ہی میں سے ان میں ایک پیغمبر
بھیجا (جس نے ان سے کہا) کہ اللہ ہی کی عبادت کرو (کہ) اس کے سوا تمہارا کوئی
معبود نہیں، تو کیا تم ڈرتے نہیں
|
Then We
sent amongst them an apostle from amongst themselves, saying: worship Allah,
for you there is no god but he; will ye then not fear Him?
|
یعنی ہود یا حضرت صالح علیہما
السلام۔
|
وَهُوَ الَّذى يُحيۦ وَيُميتُ
وَلَهُ اختِلٰفُ الَّيلِ وَالنَّهارِ ۚ أَفَلا تَعقِلونَ
{23:80}
|
اور وہی ہے جو زندگی بخشتا ہے اور
موت دیتا ہے اور رات اور دن کا بدلتے رہنا اسی کا تصرف ہے، کیا تم سمجھتے نہیں
|
And He
it is Who quickeneth and causeth to die, and His is the alternation of night
and day; will ye not then reflect?
|
زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ، یا
اندھیرے سے اجالا اور اجالے سے اندھیرا کر دینا جس کے قبضہ میں ہے اس کی قدرت
عظیمہ کے سامنے کیا مشکل ہے کہ تم کو دوبارہ زندہ کر دے اور آنکھوں کے آگے سے
ظلمتِ جہل کے پردے اٹھا دے۔ جس کے بعد حقائق اشیاء ٹھیک ٹھیک منکشف ہو جائیں،
جیسا کہ قیامت میں ہو گا۔{ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْد }۔
|
سَيَقولونَ لِلَّهِ ۚ قُل أَفَلا تَذَكَّرونَ
{23:85}
|
جھٹ بول اٹھیں گے کہ اللہ کا۔ کہو کہ
پھر تم سوچتے کیوں نہیں؟
|
They
will surely say: God's. Say thou: will ye not then heed?
|
کہ جس کا قبضہ ساری زمین اور زمینی
چیزوں پر ہے، کیا تمہاری مشت خاک اس کے قبضہ سے باہر ہو گی؟
|
سَيَقولونَ لِلَّهِ ۚ قُل أَفَلا تَتَّقونَ
{23:87}
|
بےساختہ کہہ دیں گے کہ یہ (چیزیں) اللہ ہی کی ہیں، کہو کہ پھر تم ڈرتے کیوں نہیں؟
|
They
will surely say: God. Say thou: will ye not then fear?
|
کہ اتنا بڑا شہنشاہ تمہاری ان
گستاخیوں اور نافرمانیوں پر تم کو دھر گھسیٹے۔ کیا یہ انتہائی گستاخی نہیں کہ اس
شہنشاہ مطلق کو ایک ذرہ بے مقدار سے عاجز قرار دینے لگے۔
|
وَما أوتيتُم مِن شَيءٍ فَمَتٰعُ
الحَيوٰةِ الدُّنيا وَزينَتُها ۚ وَما عِندَ اللَّهِ خَيرٌ وَأَبقىٰ ۚ أَفَلا تَعقِلونَ
{28:60}
|
اور جو چیز تم کو دی گئی ہے وہ دنیا
کی زندگی کا فائدہ اور اس کی زینت ہے۔ اور جو اللہ کے پاس ہے وہ بہتر اور باقی
رہنے والی ہے۔ کیا تم سمجھتے نہیں؟
|
And
whatsoever ye are vouchsafed is an enjoyment of the life of the world and an
adornment thereof; and that which is with Allah is better and more lasting.
Will ye not therefore reflect?
|
یعنی آدمی کو عقل سے کام لے کر اتنا
سمجھنا چاہئے کہ دنیا میں کتنے دن جینا ہے اور یہاں کی بہار اور چہل پہل کا مزہ
کب تک اٹھا سکتے ہو۔ فرض کرو دنیا میں عذاب بھی نہ آئے، تاہم موت کا ہاتھ تم سے
یہ سب سامان جدا کر کے رہے گا۔ پھر خدا کے سامنے حاضر ہونا اور ذرہ ذرہ عمل کا
حساب دینا ہے، اگر وہاں کا عیش و آرام میسر ہو گیا تو یہاں کا عیش اس کے سامنے
محض ہیچ اور لاشے ہے۔ کون عقلمند ہو گا جو ایک مکدر و منغض زندگی کو بے غل و غش
زندگی پر اور ناقص و فانی لذتوں کو کامل و باقی نعمتوں پر ترجیح دے۔
|
قُل أَرَءَيتُم إِن جَعَلَ اللَّهُ
عَلَيكُمُ الَّيلَ سَرمَدًا إِلىٰ يَومِ القِيٰمَةِ مَن إِلٰهٌ غَيرُ اللَّهِ
يَأتيكُم بِضِياءٍ ۖ أَفَلا تَسمَعونَ
{28:71}
|
کہو بھلا دیکھو تو اگر اللہ تم پر
ہمیشہ قیامت کے دن تک رات (کی تاریکی) کئے رہے تو اللہ کے سوا کون معبود ہے ہے جو
تم کو روشنی لا دے تو کیا تم سنتے نہیں؟
|
Say
thou: bethink ye, if Allah made night continuous for you till the Day of
Resurrection, what god is there beside Allah, who would bring you light?
Hearken ye not?
|
یعنی یہ بات ایسی روشن اور صاف ہے کہ
سنتے ہی سمجھ میں آ جائے ۔ تو کیا تم سنتے بھی نہیں۔
|
مثلاً سورج کو طلوع نہ ہونے دے۔ یا
اس سے روشنی سلب کر لے تو اپنے کاروبار کے لئے ایسی روشنی کہاں سے لا سکتے ہو۔
|
قُل أَرَءَيتُم إِن جَعَلَ اللَّهُ
عَلَيكُمُ النَّهارَ سَرمَدًا إِلىٰ يَومِ القِيٰمَةِ مَن إِلٰهٌ غَيرُ اللَّهِ
يَأتيكُم بِلَيلٍ تَسكُنونَ فيهِ ۖ أَفَلا تُبصِرونَ
{28:72}
|
کہو تو بھلا دیکھو تو اگر اللہ تم پر
ہمیشہ قیامت تک دن کئے رہے تو اللہ کے سوا کون معبود ہے کہ تم کو رات لا دے جس
میں تم آرام کرو۔ تو کیا تم دیکھتے نہیں؟
|
Say
thou: bethink ye, if Allah made day continuous for you till the Day of
Resurrection, what god is there beside Allah, who would bring you night
wherein ye have repose? Behold ye not?
|
یعنی اگر آفتاب کو غروب نہ ہونے دے
ہمیشہ تمہارے سروں پر کھڑ ارکھے تو جو راحت و سکون اور دوسرے فوائد رات کے آنے
سے حاصل ہوتے ہیں ان کا سامان کونسی طاقت کر سکتی ہے۔ کیا ایسی روشن حقیقت بھی
تم کو نظر نہیں آتی (تنبیہ) { اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ } { اِنْ جَعَلَ اللہُ
عَلَیْکُمُ النَّھَارَ سَرْمَدًا } کے مناسب ہے کیونکہ آنکھ سےدیکھنا عادۃً
روشنی پر موقوف ہے جو دن میں پوری طرح ہوتی ہے۔ رات کی تاریکی میں چونکہ دیکھنے
کی صورت نہیں، ہاں سننا ممکن ہے اس لئے { اِنْ جَعَلَ اللہُ عَلَیْکُمُ الَّیْلَ
سَرْمَدًا } کے ساتھ { اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ } فرمانا ہی موزوں تھا۔ واللہ اعلم۔
|
اللَّهُ الَّذى خَلَقَ السَّمٰوٰتِ
وَالأَرضَ وَما بَينَهُما فى سِتَّةِ أَيّامٍ ثُمَّ استَوىٰ عَلَى العَرشِ ۖ ما
لَكُم مِن دونِهِ مِن وَلِىٍّ وَلا شَفيعٍ ۚ أَفَلا تَتَذَكَّرونَ
{32:4}
|
اللہ ہی تو ہے جس نے آسمانوں اور
زمین کو اور جو چیزیں ان دونوں میں ہیں سب کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا
ٹھہرا۔ اس کے سوا نہ تمہارا کوئی دوست ہے اور نہ سفارش کرنے والا۔ کیا تم نصیحت
نہیں پکڑتے؟
|
Allah it
is Who created the heavens and the earth and whatsoever is betwixt the twain
in six days, and then He established Himself on the throne. No patron have ye
nor an intercessor, besides Him. Will ye not then be admonished?
|
یعنی دھیان نہیں کرتے کہ اس کے
پیغام اور پیغامبر کو جھٹلا کر کہاں جاؤ گے ۔ تمام زمین و آسمان میں عرش سے فرش
تک اللہ کی حکومت ہے۔ اگر پکڑے گئے تو ا سکی اجازت و رضاء کے بدون کوئی حمایت
اور سفارش کرنے والا بھی نہ ملے گا۔
|
اس کا بیان سورہ اعراف میں آٹھویں
پارہ کے اختتام کے قریب گذر چکا۔ ملاحظہ کر لیا جائے۔
|
أَوَلَم يَهدِ لَهُم كَم أَهلَكنا
مِن قَبلِهِم مِنَ القُرونِ يَمشونَ فى مَسٰكِنِهِم ۚ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَءايٰتٍ
ۖ أَفَلا يَسمَعونَ
{32:26}
|
کیا اُن کو اس (امر )سے ہدایت نہ
ہوئی کہ ہم نے اُن سے پہلے بہت سی اُمتوں کو جن کے مقامات سکونت میں یہ چلتے
پھرتے ہیں ہلاک کر دیا۔ بیشک اس میں نشانیاں ہیں۔ تو یہ سنتے کیوں نہیں
|
Hath
this not guided them: how many generations We have destroyed before them amidst
whose dwellings they walk? Verily therein are signs; will they not therefore
hearken?
|
یعنی نہروں اور دریاؤں کا پانی یا
بارش کا۔
|
أَوَلَم يَرَوا أَنّا نَسوقُ الماءَ
إِلَى الأَرضِ الجُرُزِ فَنُخرِجُ بِهِ زَرعًا تَأكُلُ مِنهُ أَنعٰمُهُم
وَأَنفُسُهُم ۖ أَفَلا يُبصِرونَ
{32:27}
|
کیا اُنہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم
بنجر زمین کی طرف پانی رواں کرتے ہیں پھر اس سے کھیتی پیدا کرتے ہیں جس میں سے ان
کے چوپائے بھی کھاتے ہیں اور وہ خود بھی (کھاتے ہیں) تو یہ دیکھتے کیوں نہیں۔
|
Observe
they not that We drive water unto a land bare, and bring forth therewith
crops whereof their cattle and they themselves eat? Will they not therefore
be enlightened?
|
یعنی ان نشانات کو دیکھ کر چاہیئے
تھا کہ حق تعالیٰ کی قدرت اور رحمت و حکمت کے قائل ہوتے اور سمجھتے کہ اسی طرح
مردہ لاشوں میں دوبارہ جان ڈال دینا بھی اس کے لئے کچھ دشوار نہیں۔ نیز اللہ کی
نعمتوں کے جان و دل سے شکر گذار بنتے۔
|
{ الْاَرْضِ
الْجُرُزِ } سے ہر ایک خشک زمین جو نباتات سے خالی ہو مراد ہے۔ بعض نے خاص
سرزمین مصر کو اس کا مصداق قرار دیا ہے۔ اور { نَسُوْقُ الْمَآءَ } سے دریائے
نیل کا پانی مراد لیا ہے۔ اس تخصیص کی کوئی ضرورت نہیں کما نبہ علیہ ابن کثیرؒ۔
|
لِيَأكُلوا مِن ثَمَرِهِ وَما
عَمِلَتهُ أَيديهِم ۖ أَفَلا يَشكُرونَ
{36:35}
|
تاکہ یہ ان کے پھل کھائیں اور ان کے
ہاتھوں نے تو ان کو نہیں بنایا تو پھر یہ شکر کیوں نہیں کرتے؟
|
That
they may eat of the fruit thereof; and their hands worked it not. Will they
not, therefore, give thanks?
|
یعنی شاید شبہ گذرتا کہ مرے پیچھے
پھر کس طرح زندہ ہو کر حاضر کیے جائیں گے؟ اس کو یوں سمجھا دیا کہ زمین خشک اور
مرد پڑی ہوتی ہے پھر خدا اس کو زندہ کرتا ہے کہ ایک دم لہلہلانے لگتی ہے کیسے
کیسے باغ و بہار، غلے اور میوے اس سے پیدا ہوتے ہیں جن کو تم استعمال میں لاتے
ہو۔ اسی طرح خیال کر لو کہ مردہ ابدان میں روح حیات پھونک دی جائے گی۔ بہرحال
مردہ زمین ان کے لئے ایک نشانی ہے جس میں غور کرنے سے بعث بعدالموت اور حق
تعالیٰ کی وحدانیت و عظمت اور اس کے انعام و احسان کے مسائل کو بخوبی سمجھ سکتے
ہیں (تنبیہ) اوپر کی آیات میں ترہیب کا پہلو نمایاں تھا کہ عذاب الہٰی سے ڈر کر
راہ ہدایت اختیار کریں۔ آیات حاضرہ میں ترغیب کی صورت اختیار فرمائی ہے۔ یعنی
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو پہچان کر شکر گذاری کی طرف متوجہ ہوں اور یہ بھی
سمجھیں کہ جو خدا مردہ زمین کو زندہ کرتا رہتا ہے وہ ایمانی حیثیت سے ایک مردہ
قوم کو زندہ کر دے، یہ کیا مشکل ہے۔
|
یعنی یہ پھل اور میوے قدرت الہٰی سے
پیدا ہوتے ہیں، انکے ہاتھوں میں یہ طاقت نہیں کہ ایک انگور یا کھجور کا دانہ
پیدا کر لیں۔ جو محنت اور تردد باغ لگانے اور اس کی پرورش کرنے میں کیا جاتا ہے
اس کو بارآور کرنا صرف اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے اور غور سے دیکھا جائے
تو جو کام بظاہر ان کے ہاتھوں سے ہوتا ہے وہ بھی فی الحقیقت حق تعالیٰ کی عطا کی
ہوئی قدرت و طاقت اور اسی کی مشیت و ارادہ سے ہوتا ہے۔ لہذا ہر حیثیت سے اس کی
شکر گذاری اور احسان شناسی واجب ہوئی۔ (تنبیہ) مترجم محققؒ نے { وَمَا
عَمِلَتْہُ اَیْدِیْھِمْ } میں "ما" کو نافیہ لیا ہے۔ کما ہودأب اکثر
المتاخرین، لیکن سلف سے عمومًا "ما" کا موصولہ ہونا منقول ہے اور اسی
کی تائید ابن مسعود کی قرآت { وَمِمَّا عَمِلَتْہُ اَیْدِیْھِمْ } سے ہوتی ہے۔
|
وَمَن نُعَمِّرهُ نُنَكِّسهُ فِى
الخَلقِ ۖ أَفَلا يَعقِلونَ
{36:68}
|
اور جس کو ہم بڑی عمر دیتے ہیں تو
اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں تو کیا یہ سمجھتے نہیں؟
|
And
whomsoever We grant long life, We reverse him in creation. Reflect then they
not?
|
یعنی آنکھیں چھین لینا اور صورت
بگاڑ کر اپاہج بنا دینا کچھ مستبعد مت سمجھو۔ دیکھتے نہیں؟ ایک تندرست اور مضبوط
آدمی زیادہ بوڑھا ہو کر کس طرح دیکھنے، سننے اور چلنے پھرنے سے معذور کر دیا
جاتا ہے۔ گویا بچپن میں جیسا کمزور و ناتواں اور دوسروں کے سہارے کا محتاج تھا
بڑھاپے میں پھر اسی حالت کی طرف پلٹا دیا جاتا ہے۔ تو کیا جو خدا پیرانہ سالی کی
حالت میں ان کی قوتیں سلب کر لیتا ہے، جوانی میں نہیں کر سکتا؟
|
وَلَهُم فيها مَنٰفِعُ وَمَشارِبُ ۖ أَفَلا يَشكُرونَ
{36:73}
|
اور ان میں ان کے لئے (اور) فائدے
اور پینے کی چیزیں ہیں۔ تو یہ شکر کیوں نہیں کرتے؟
|
And they
have therefrom other benefits and drinks. Will they not then give thanks?
|
دیکھو کتنے بڑے بڑے عظیم الجثہ، قوی
ہیکل جانور انسان ضعیف البنیان کے سامنے عاجز و مسخر کر دیے۔ ہزاروں اونٹوں کی
قطار کو ایک خورد سال بچہ نکیل پکڑ کر جدھر چاہے لیجائے ذرا کان نہیں ہلاتے کیسے
کیسے شہزور جانوروں پر آدمی سواری کرتا ہے اور بعض کو کاٹ کر اپنی غذا بناتا ہے۔
علاوہ گوشت کھانے کے ان کی کھال، ہڈی اون وغیرہ سے کس قدر فوائد حاصل کیے جاتے
ہیں، ان کے تھن کیا ہیں گویا دودھ کے چشمے ہیں۔ ان ہی چشموں کے گھاٹ سے کتنے
آدمی سیراب ہوتے ہیں۔ لیکن شکرگذار بندے بہت تھوڑے ہیں۔
|
وَبِالَّيلِ ۗ أَفَلا تَعقِلونَ
{37:138}
|
اور رات کو بھی۔ تو کیا تم عقل نہیں
رکھتے
|
And at
night. Will ye not therefore reflect?
|
یہ مکہ والوں کو فرمایا۔ کیونکہ
"مکہ" سے "شام" کو جو قافلے آتے جاتے تھے، قوم لوط کی الٹی
ہوئی بستیاں ان کے راستہ سے نظر آتی تھیں۔ یعنی دن رات ادھر گذرتے ہوئے یہ نشان
دیکھتے ہیں پھر بھی عبرت نہیں ہوتی۔ کیا نہیں سمجھتے کہ جو حال ایک نافرمان قوم
کا ہوا وہ دوسری نافرمان اقوام کا بھی ہو سکتا ہے۔
|
أَفَلا تَذَكَّرونَ
{37:155}
|
بھلا تم غور کیوں نہیں کرتے
|
Will ye
not then be admonished?
|
یعنی کچھ تو سوچو۔ عیب کرنے کو بھی
ہنر چاہئے۔ ایک غلط عقیدہ بنانا تھا تو ایسا بالکل ہی بے تکا تو نہ ہونا چاہئے
تھا۔ یہ کونسا انصاف ہے کہ اپنے لیے تو بیٹے پسند کرو اور خدا سے بیٹیاں پسند
کراؤ۔
|
وَنادىٰ فِرعَونُ فى قَومِهِ قالَ
يٰقَومِ أَلَيسَ لى مُلكُ مِصرَ وَهٰذِهِ الأَنهٰرُ تَجرى مِن تَحتى ۖ أَفَلا تُبصِرونَ
{43:51}
|
اور فرعون نے اپنی قوم سے پکار کر
کہا کہ اے قوم کیا مصر کی حکومت میرے ہاتھ میں نہیں ہے۔ اور یہ نہریں جو میرے
(محلوں کے) نیچے بہہ رہی ہیں (میری نہیں ہیں) کیا تم دیکھتے نہیں
|
And
Fir'awn proclaimed among his people, saying: O my people! is not mine the
dominion of Mis and witness yonder rivers flowing underneath me? See ye not?
|
اُس گردوپیش کے ملکوں میں مصر کا
حاکم بہت بڑا سمجھا جاتا تھا۔ اور نہریں اسی نے بنائی تھی۔ دریائے نیل کا پانی
کاٹ کر اپنے باغ میں لایا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ سامانوں کی موجودگی میں کیا ہماری
حیثیت ایسی ہے کہ موسٰیؑ جیسے معمولی حیثیت والے آدمی کے سامنے گردن جھکا دیں۔
|
أَفَرَءَيتَ
مَنِ اتَّخَذَ إِلٰهَهُ هَوىٰهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلىٰ عِلمٍ وَخَتَمَ عَلىٰ
سَمعِهِ وَقَلبِهِ وَجَعَلَ عَلىٰ بَصَرِهِ غِشٰوَةً فَمَن يَهديهِ مِن بَعدِ
اللَّهِ ۚ أَفَلا تَذَكَّرونَ
{45:23}
|
بھلا
تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے اور باوجود جاننے
بوجھنے کے (گمراہ ہو رہا ہے تو) اللہ نے (بھی) اس کو گمراہ کردیا اور اس کے کانوں
اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ اب اللہ کے سوا اس کو
کون راہ پر لاسکتا ہے۔ بھلا تم کیوں نصیحت نہیں پکڑتے؟
|
Beholdest thou him who taketh for his god his own vain
desire, and Allah hath sent him astray despite his knowledge, and hath sealed
up his hearing and his heart, and hath set on his sight a covering? Who will
guide him after Allah? Will ye not then be admonished?
|
جو
شخص محض خواہش نفس کو اپنا حاکم اور معبود ٹھہرا لے، جدھر اسکی خواہش لے چلے
ادھر ہی چل پڑے اور حق و ناحق کے جانچنے کا معیار اسکے پاس یہ ہی خواہش نفس رہ
جائے، نہ دل سچی بات کوسمجھتا ہے، نہ آنکھ سے بصیرت کی روشنی نظر آتی ہے ۔ ظاہر
ہے اللہ جسکو اس کی کرتوت کی بدولت ایسی حالت پر پہنچا دے، کونسی طاقت ہے جو
اسکے بعد اسے راہ پر لے آئے۔
|
یعنی
اللہ جانتا تھا کہ اسکی استعداد خراب ہے اور اسی قابل ہے کہ سیدھی راہ سے اِدھر
اُدھر بھٹکتا پھرے۔ یا یہ مطلب ہے کہ وہ بدبخت علم رکھنے کے باوجود اور سمجھنے
بوجھنے کے بعد گمراہ ہوا۔
|
أَفَلا يَتَدَبَّرونَ
القُرءانَ أَم عَلىٰ قُلوبٍ أَقفالُها {47:24}
|
بھلا
یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر قفل لگ رہے ہیں
|
Ponder then they not on the Qur'an, or are on the hearts
locks thereof?
|
یعنی
منافق قرآن میں غور نہیں کرتے یا انکی شرارتوں کی بدولت دلوں پر قفل پڑ گئے ہیں
کہ نصیحت کے اندر جانے کا راستہ ہی نہیں رہا۔ اگر قرآن کے سمجھنے کی توفیق ملتی
تو با آسانی سمجھ لیتے کہ جہاد میں کس قدر دنیوی و اخروی فوائد ہیں۔
|
وَفى
أَنفُسِكُم ۚ أَفَلا تُبصِرونَ
{51:21}
|
اور
خود تمہارے نفوس میں تو کیا تم دیکھتے نہیں؟
|
And also in Your own selves. Behold ye not?
|
یعنی
یہ شب بیداری، استغفار اور محتاجوں پر خرچ کرنا اس یقین کی بناء پر ہونا چاہیئے
کہ خدا موجود ہے اور اس کے ہاں کسی کی نیکی ضائع نہیں جاتی۔ اور یہ یقین وہ ہے
جو آفاقی و انفسی آیات میں غور کرنے سے بسہولت حاصل ہوسکتا ہے۔ انسان اگر خود
اپنے اندر یا روئے زمین کے حالات میں غوروفکر کرے تو بہت جلد اس نتیجہ پر پہنچ
سکتا ہے کہ ہر نیک و بد کی جزاء کسی نہ کسی رنگ میں ضرور مل کر رہے گی۔ جلد یا
بدیر۔
|
أَفَلا يَنظُرونَ
إِلَى الإِبِلِ كَيفَ خُلِقَت {88:17}
|
یہ
لوگ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے (عجیب )پیدا کیے گئے ہیں
|
Look they not at the camels, how they are created?
|
کہ
ہیأۃ اور خاصیت دونوں اور جانوروں کی نسبت اس میں عجیب ہیں جن کی تفصیل تفسیر
عزیزی میں دیکھنے کے قابل ہے۔
|
أَفَلا يَعلَمُ
إِذا بُعثِرَ ما فِى القُبورِ {100:9}
|
کیا
وہ اس وقت کو نہیں جانتا کہ جو( مردے) قبروں میں ہیں وہ باہر نکال لیے جائیں گے
|
Knoweth he not - when that which is in the graves, shall
be ransacked?
|
وَما
أَرسَلنا مِن قَبلِكَ إِلّا رِجالًا نوحى إِلَيهِم مِن أَهلِ القُرىٰ ۗ أَفَلَم يَسيروا فِى الأَرضِ فَيَنظُروا
كَيفَ كانَ عٰقِبَةُ الَّذينَ مِن قَبلِهِم ۗ وَلَدارُ الءاخِرَةِ خَيرٌ
لِلَّذينَ اتَّقَوا ۗ أَفَلا تَعقِلونَ {12:109}
|
اور
ہم نے تم سے پہلے بستیوں کے رہنے والوں میں سے مرد ہی بھیجے تھے جن کی طرف ہم
وحی بھیجتے تھے۔ کیا ان لوگوں نے ملک میں سیر (وسیاحت) نہیں کی کہ دیکھ لیتے کہ
جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیا ہوا۔ اور متّقیوں کے لیے آخرت کا گھر بہت
اچھا ہے۔ کیا تم سمجھتے نہیں؟
|
And We sent not before thee any save men unto whom We
revealed from among the people of the towns. Have then they not travelled
about in the land that they might observe of what wise hath been the end of
those before them! And surely the abode of the, Hereafter is best for those
who fear! Reflect then ye not!
|
یعنی
پہلے بھی ہم نے آسمان کے فرشتوں کو نبی بنا کر نہیں بھیجا۔ انبیائے سابقین ان ہی
انسانی بستیوں کے رہنے والے مرد تھے ۔ پھر دیکھ لو ان کے جھٹلانے والوں کا دنیا
میں کیا حشر ہوا۔ حالانکہ دنیا میں کافروں کو بھی بسا اوقات عیش نصیب ہو جاتا
ہے۔ اور آخرت کی بہتری تو خالص ان ہی کے لئے ہے جو شرک و کفر سے پرہیز کرتے ہیں۔
یہ تنبیہ ہے کفار مکہ کو کہ اگلوں کے احوال سےعبرت حاصل کریں۔ (تنبیہ) اس آیت سے
نکلتا ہے کہ کوئی عورت نبی نہیں بنائی گئ۔ حضرت مریمؑ کو بھی قرآن نے صدیقہ کا
مرتبہ دیا ہے ۔ نیز آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اہل بوادی (جنگلی گنواروں) میں سے
کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا۔
|
وَلَو
أَنَّ قُرءانًا سُيِّرَت بِهِ الجِبالُ أَو قُطِّعَت بِهِ الأَرضُ أَو كُلِّمَ
بِهِ المَوتىٰ ۗ بَل لِلَّهِ الأَمرُ جَميعًا ۗ أَفَلَم يَا۟يـَٔسِ الَّذينَ ءامَنوا أَن
لَو يَشاءُ اللَّهُ لَهَدَى النّاسَ جَميعًا ۗ وَلا يَزالُ الَّذينَ كَفَروا
تُصيبُهُم بِما صَنَعوا قارِعَةٌ أَو تَحُلُّ قَريبًا مِن دارِهِم حَتّىٰ
يَأتِىَ وَعدُ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لا يُخلِفُ الميعادَ {13:31}
|
اور
اگر کوئی قرآن ایسا ہوتا کہ اس (کی تاثیر) سے پہاڑ چل پڑتے یا زمین پھٹ جاتی یا
مردوں سے کلام کرسکتے۔ (تو یہی قرآن ان اوصاف سے متصف ہوتا مگر) بات یہ ہے کہ سب
باتیں اللہ کے اختیار میں ہیں تو کیا مومنوں کو اس سے اطمینان نہیں ہوا کہ اگر اللہ چاہتا تو سب لوگوں کو ہدایت کے رستے پر چلا دیتا۔ اور کافروں پر ہمیشہ ان کے
اعمال کے بدلے بلا آتی رہے گی یا ان کے مکانات کے قریب نازل ہوتی رہے گی یہاں تک
کہ اللہ کا وعدہ آپہنچے۔ بےشک اللہ وعدہ خلاف نہیں کرتا
|
And if there were a Qur'an whereby the mountains could be
moved or Whereby the earth could be traversed or whereby the dead could be
spoken to, it would be in vain. Aye! the affair belongeth to Allah entirely.
Have not then those who believe yet known that had Allah willed, He would
have guided all mankind! And a rattling adversity ceaseth not to befall those
who disbelieve for that which they have wrought or to alight nigh unto their
habitation. until Allah's promise cometh; verily Allah faileth not the tryst.
|
یعنی
یہ کفار مکہ فرمائشی نشانوں سے ماننے والے نہیں۔ یہ تو اس طرح مانیں گےکہ برابر
کوئی آفت و مصیبت خود ان پر یا ان کے آس پاس والوں پر پڑتی رہے گی۔ جسے دیکھ کر
یہ عبرت حاصل کریں مثلاً جہاد میں مسلمانوں کے ہاتھوں سے کچھ قتل ہوں گے کچھ قید
کئے جائیں گے کچھ دوسری طرح کے مصائب کا شکار ہو ں گے ، یہ ہی سلسلہ رہے گا۔ جب
تک خدا کا وعدہ پورا ہو یعنی مکہ فتح ہو اور "جزیرۃ العرب" شرک کی
گندگی سے پاک و صاف ہو جائے بیشک خدا کا وعدہ اٹل ہے ، پورا ہو کر رہے گا۔ بعض
مفسرین نے { اَوْتَحُلُّ قَرِیْبًا مِّنْ دَارِھِمْ } میں رسول اللہ ﷺ کی طرف خطاب مانا ہے یعنی آپ
ان کی بستی کے قریب اتریں گے جیسا کہ حدیبیہ میں ہوا۔ اس وقت
"قارعہ" سے وہ سرایا مراد ہوں گے جن میں آپ بنفس نفیس شریک نہ ہوتے
تھے۔ بعض سلف سے منقول ہے کہ آیت تمام کفار کے حق میں عام ہے۔ مکہ والوں کی
تخصیص نہیں ۔ واللہ اعلم۔
|
یہاں
قرآن سے مراد عام کتاب ہے جیسا کہ ایک حدیث صحیح میں "زبور" پر لفظ
قرآن کا اطلاق ہوا ہے یعنی اگر کوئی کتاب ایسی اتاری جاتی جس سے تمہارے یہ
فرمائشی نشان پورے ہو جاتے تو وہ بجز اس قرآن کے اور کونسی ہو سکتی تھی یہ ہی
قرآن ہے جس نے روحانی طور پر پہاڑوں کی طرح جمے ہوئے لوگوں کو ان کی جگہ سے ہٹا
دیا۔ قلوب بنی آدم کی زمینوں کو پھاڑ کر معرفت الہٰی کے چشمے جاری کر دیے۔ وصول
الیٰ اللہ کے راستے برسوں کی جگہ منٹوں میں طے کرائے ۔ مردہ قوموں اور دلوں میں
ابدی زندگی کی روح پھونک دی۔ جب ایسے قرآن سے تم کو شفاء ہدایت نصیب نہ ہوئی تو
فرض کرو تمہاری طلب کے موافق اگر یہ قرآن مادی اور حسی طور پر بھی وہ سب چیزیں
دکھلا دیتا جن کی فرمائش کرتے ہو۔ تب ہی کیا امید تھی کہ تم ایمان لے آتے اور
نئی حجتیں اور کج بحثیاں شروع نہ کرتے ، تم ایسے ضدی اور سرکش واقع ہوئے ہو کہ
کسی نشان کو دیکھ کر ایمان لانے والے نہیں ۔ اصل یہ ہے کہ سب کام (ہدایت و
اضلال) اللہ کے ہاتھ میں ہیں جسے وہ نہ چاہے قیامت تک ہدایت نہیں ہو سکتی۔ لیکن
وہ اسی کو چاہتا ہے جو اپنی طرف سے قبول حق کی خواہش اور تڑپ رکھتا ہو۔
|
شاید
بعض مسلمانوں کو خیال گذرا ہو گا کہ ایک مرتبہ ان کی فرمائش ہی پوری کر دی جائے
شاید ایمان لے آئیں ان کو سمجھایا کہ خاطر جمع رکھو اگر خدا چاہے تو بدون ایک
نشان دکھلائے ہی سب کو راہ راست پر لے آئے ۔ لیکن یہ اس کی عادت و حکمت کے خلاف
ہے۔ اس نے انسان کو ایک حد تک کسب و اختیار کی آزادی دے کر ہدایت کے کافی اسباب
فراہم کر دیے، جو چاہے ان سے منتفع ہو ۔ کیا ضرورت ہے کہ ان کی فرمائشیں پوری کی
جائیں باوجود کافی سامان ہدایات موجود ہونے کے اگر معاندین نہیں مانتے اور اپنے
ایمان کو بیہودہ فرمائشوں پر معلق کرتے ہیں۔ تو ہم نے یہ ارادہ بھی نہیں کیا کہ
ساری دنیا کو ضرور منوا ہی دیا جائے آخر { لَاَمْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنَ
الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ } والی بات بھی تو پوری ہو کر رہے گی۔
|
أَفَلَم يَهدِ
لَهُم كَم أَهلَكنا قَبلَهُم مِنَ القُرونِ يَمشونَ فى مَسٰكِنِهِم ۗ إِنَّ فى
ذٰلِكَ لَءايٰتٍ لِأُولِى النُّهىٰ {20:128}
|
کیا
یہ بات ان لوگوں کے لئے موجب ہدایت نہ ہوئی کہ ہم ان سے پہلے بہت سے لوگوں کو
ہلاک کرچکے ہیں جن کے رہنے کے مقامات میں یہ چلتے پھرتے ہیں۔ عقل والوں کے لئے
اس میں (بہت سی) نشانیاں ہیں
|
Hath it not served as guidance to them how many a
generation We have destroyed before them, amidst whose dwellings they Walk!
Verily therein are signs for men of sagacity.
|
یعنی
آخرت میں جو سزا ملے گی اگر اس پر یقین نہیں آتا تو کیا تاریخی واقعات سے بھی
سبق حاصل نہیں کرتے ان ہی مکہ والوں کے آس پاس کتنی قومیں اپنے کفر و طغیان کی
بدولت تباہ کی جا چکی ہیں جن کے افسانے لوگوں کی زبان پر باقی ہیں اور جن میں سے
بعض کے کھنڈرات پر ملک شام وغیرہ کا سفر کرتے ہوئے خود انکا گذر بھی ہوتا ہے۔
جنہیں دیکھ کر ان غارت شدہ قوموں کی یاد تازہ ہو جانا چاہئے کہ کس طرح انہی
مکانوں میں چلتے پھرتے ہلاک کر دیے گئے۔
|
أَفَلَم يَسيروا
فِى الأَرضِ فَتَكونَ لَهُم قُلوبٌ يَعقِلونَ بِها أَو ءاذانٌ يَسمَعونَ بِها ۖ
فَإِنَّها لا تَعمَى الأَبصٰرُ وَلٰكِن تَعمَى القُلوبُ الَّتى فِى الصُّدورِ
{22:46}
|
کیا
ان لوگوں نے ملک میں سیر نہیں کی تاکہ ان کے دل (ایسے) ہوتے کہ ان سے سمجھ سکتے۔
اور کان (ایسے) ہوتے کہ ان سے سن سکتے۔ بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں
بلکہ دل جو سینوں میں ہیں (وہ) اندھے ہوتے ہیں
|
Have they not marched forth in the land, so that there
might become unto them hearts to understand with or ears re hear with? Verily
it is not the sights that are blinded but blinded are the hearts that are in
the breasts.
|
یعنی
ان تباہ شدہ مقامات کے کھنڈر دیکھ کر غور و فکر نہ کیا، ورنہ ان کو سچی بات کی سمجھ
آ جاتی اور کان کھل جاتے۔
|
یعنی
آنکھوں سے دیکھ کر اگر دل سے غور نہ کیا تو وہ نہ دیکھنے کے برابر ہے۔گو اس کی
ظاہری آنکھیں کھلی ہوں پر دل کی آنکھیں اندھی ہیں اور حقیقت میں زیادہ خطرناک
اندھا پن وہ ہی ہے جس میں دل اندھے ہو جائیں۔ (العیاذ باللہ)
|
أَفَلَم يَدَّبَّرُوا
القَولَ أَم جاءَهُم ما لَم يَأتِ ءاباءَهُمُ الأَوَّلينَ {23:68}
|
کیا
انہوں نے اس کلام میں غور نہیں کیا یا ان کے پاس کوئی ایسی چیز آئی ہے جو ان کے
اگلے باپ دادا کے پاس نہیں تھی
|
Pondered they not over the Word? or came there unto them
that which came not unto their fathers ancient?
|
یعنی
قرآن کی خوبیوں میں غوروفکر نہیں کرتے۔ ورنہ حقیقت حال منکشف ہو جاتی کہ بلاشبہ
یہ کلام اللہ جل شانہ کا ہے جس میں ان کی بیماریوں کا صحیح علاج بتلایا گیا ہے۔
|
یعنی
نصیحت کرنے والے ہمیشہ ہوتے رہے ہیں، پیغمبر ہوئے یا پیغمبر کے تابع ہوئے آسمانی
کتابیں بھی باربار اترتی رہی ہیں۔ کبھی کہیں کبھی کہیں۔ سو یہ کوئی انوکھی بات
نہیں جس کا نمونہ پیشتر سے موجود نہ ہو۔ ہاں جو اکمل ترین و اشرف ترین کتاب اب
آئی اس شان و مرتبہ کی پہلے نہ آئی تھی۔ تو اس کا مقتضٰی یہ تھا کہ اور زیادہ اس
نعمت کی قدر کرتے اور آگے بڑھ کر اس کی آواز پر لبیک کہتے۔ جیسا کہ صحابہؓ نے
کہی۔ (تنبیہ) شاید یہاں { ابآء اولین } سے ابآءابعدین مراد ہوں۔ اور سورۂ
"یٰسٓ" میں جو آیا ہے { لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا اُنْذِرَ اٰبَاؤُھُمْ
} وہاں آباء اقربین کا ارادہ کیا گیا ہو۔ واللہ اعلم۔
|
وَلَقَد
أَتَوا عَلَى القَريَةِ الَّتى أُمطِرَت مَطَرَ السَّوءِ ۚ أَفَلَم يَكونوا يَرَونَها ۚ بَل كانوا لا
يَرجونَ نُشورًا {25:40}
|
اور
یہ کافر اس بستی پر بھی گزر چکے ہیں جس پر بری طرح کا مینہ برسایا گیا تھا۔ کیا
وہ اس کو دیکھتے نہ ہوں گے۔ بلکہ ان کو (مرنے کے بعد) جی اُٹھنے کی امید ہی نہیں
تھی۔
|
And assuredly they have gone by the township whereon was
rained the evil rain. Are they not wont to see it? Aye! they expect not
Resurrection.
|
یعنی
کیا ان کے کھنڈرات کو عبرت کی نگاہ سے نہ دیکھا۔
|
یعنی
قوم لوط کی بستیاں جن کے کھنڈرات پر سے مکہ والے “شام” کے سفر میں گذرتے تھے۔
|
یعنی
عبرت کہاں سے ہوتی جب ان کے نزدیک یہ احتمال ہی نہیں کہ مرنے کے بعد پھر جی
اٹھنا اور خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے عبرت تو و ہی حاصل کرتا ہے جس کے دل میں
تھوڑا بہت ڈر ہو اور انجام کی طرف سے بالکل بے فکر نہ ہو۔
|
أَفَلَم يَرَوا
إِلىٰ ما بَينَ أَيديهِم وَما خَلفَهُم مِنَ السَّماءِ وَالأَرضِ ۚ إِن نَشَأ
نَخسِف بِهِمُ الأَرضَ أَو نُسقِط عَلَيهِم كِسَفًا مِنَ السَّماءِ ۚ إِنَّ فى
ذٰلِكَ لَءايَةً لِكُلِّ عَبدٍ مُنيبٍ {34:9}
|
کیا
انہوں نے اس کو نہیں دیکھا جو ان کے آگے اور پیچھے ہے یعنی آسمان اور زمین۔ اگر
ہم چاہیں تو ان کو زمین میں دھنسا دیں یا ان پر آسمان کے ٹکڑے گرا دیں۔ اس میں
ہر بندے کے لئے جو رجوع کرنے والا ہے ایک نشانی ہے
|
Behold they not that which is before them and that which
is behind them of the heaven and the earth If We will, We shall sink the
earth with them or cause a fragment of the heaven to fall on them. Verily
therein is a sign Unto every repentant bondman.
|
یعنی
جو بندے عقل و انصاف سے کام لے کر اللہ کی طرف رجوع ہوتے ہیں، اسی آسمان و زمین
میں ان کے لئے بڑی بھاری نشانی موجود ہے۔ وہ اس منتظم اور پر حکمت نظام کو دیکھ
کر سمجھتے ہیں کہ ضرور یہ ایک دن کسی اعلیٰ و اکمل نتیجہ پر پہنچنے والا ہے جس
کا نام "دارالآخرۃ" ہے یہ تصور کر کے وہ بیش از بیش اپنے مالک و خالق
کی طرف جھکتے ہیں اور جو آسمانی و زمینی نعمتیں ان کو پہنچتی ہیں، تہ دل سے اس
کے شکرگذار ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض بندوں کا ذکر آگے آتا ہے۔
|
یعنی
کیا یہ لوگ اندھے ہو گئے ہیں آسمان و زمین بھی نظر نہیں آتے جو آگے پیچھے ہر طرف
نظر ڈالنے سے نظر آ سکتے ہیں ان کو تو وہ بھی مانتے ہیں کہ اللہ نے بنایا ۔ پھر
جس نے بنایا اسے توڑنا کیا مشکل ہے۔ اور جو ایسے عظیم الشان اجسام کو بنا سکتا
اور توڑ پھوڑ سکتا ہے اسے انسانی جسم کا بگاڑ دینا اور بنانا کیا مشکل ہو گا۔ یہ
لوگ ڈرتے نہیں کہ اسی کے آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر رہ کر ایسے گستاخانہ
کلمات زبان سے نکالیں۔ حالانکہ خدا چاہے تو ابھی ان کو زمین میں دھنسا کر آسمان
سے ایک ٹکڑا گرا کر نسیت و نابود کر دے اور قیامت کا چھوٹا سا نمونہ دکھلا دے۔
|
وَلَقَد
أَضَلَّ مِنكُم جِبِلًّا كَثيرًا ۖ أَفَلَم تَكونوا تَعقِلونَ {36:62}
|
اور
اس نے تم میں سے بہت سی خلقت کو گمراہ کردیا تھا۔ تو کیا تم سمجھتے نہیں تھے؟
|
And yet assuredly he hath led astray of you a great
multitude. Wherefore reflect ye not?
|
أَفَلَم يَسيروا
فِى الأَرضِ فَيَنظُروا كَيفَ كانَ عٰقِبَةُ الَّذينَ مِن قَبلِهِم ۚ كانوا
أَكثَرَ مِنهُم وَأَشَدَّ قُوَّةً وَءاثارًا فِى الأَرضِ فَما أَغنىٰ عَنهُم ما
كانوا يَكسِبونَ {40:82}
|
کیا
ان لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی تاکہ دیکھتے جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا
انجام کیسا ہوا۔ (حالانکہ) وہ ان سے کہیں زیادہ طاقتور اور زمین میں نشانات
(بنانے) کے اعتبار سے بہت بڑھ کر تھے۔ تو جو کچھ وہ کرتے تھے وہ ان کے کچھ کام
نہ آیا
|
Have they not travelled in the earth so that they may
behold what wise hath been the end of those before them. They were more
numerous than these, and mightier in strength and the traces in the land. But
naught availed them of that which they had been earning.
|
یعنی
پہلے بہت قومیں گذر چکیں جو جتھے میں اور زور وقوت میں ان سے بہت زیادہ تھیں
انہوں نے ان سے کہیں بڑھ کر زمین پر اپنی یادگاریں اور نشانیاں چھوڑیں، لیکن جب
خدا کا عذاب آیا تو وہ زور و طاقت اور سازوسامان کچھ بھی کام نہ آ سکا۔ یوں ہی
تباہ و برباد ہو کر رہ گئے۔
|
وَأَمَّا
الَّذينَ كَفَروا أَفَلَم تَكُن
ءايٰتى تُتلىٰ عَلَيكُم فَاستَكبَرتُم وَكُنتُم قَومًا مُجرِمينَ {45:31}
|
اور
جنہوں نے کفر کیا۔ (ان سے کہا جائے گا کہ) بھلا ہماری آیتیں تم کو پڑھ کر سنائی
نہیں جاتی تھیں؟ پھر تم نے تکبر کیا اور تم نافرمان لوگ تھے
|
And as for those who disbelieved: Were not My revelations
rehearsed Unto you? but ye were stiff necked, and ye were a people guilty.
|
یعنی
ہماری طرف سے نصیحت و فہمائش اور اتمام حجت کا کوئی دقیقہ اٹھا کر نہ رکھا گیا
اس پر بھی تمہارے غرور کی گردن نیچی نہ ہوئی۔ آخر پکے مجرم بن کر رہے۔ یا {
وَکُنْتُمْ قَوْمًا مُّجْرِمیْنَ } کا مطلب یہ لیا جائے کہ تم پہلے ہی سے جرائم
پیشہ تھے۔
|
أَفَلَم يَسيروا
فِى الأَرضِ فَيَنظُروا كَيفَ كانَ عٰقِبَةُ الَّذينَ مِن قَبلِهِم ۚ دَمَّرَ
اللَّهُ عَلَيهِم ۖ وَلِلكٰفِرينَ أَمثٰلُها {47:10}
|
کیا
انہوں نے ملک میں سیر نہیں کی تاکہ دیکھتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام
کیسا ہوا؟ اللہ نے ان پر تباہی ڈال دی۔ اور اسی طرح کا (عذاب) ان کافروں کو ہوگا
|
Have they not travelled then on the earth so that they
might see how hath been the end of those before them! Allah annihilated them.
And for the infidels theirs shall be the like fate therefore.
|
یعنی
دنیا ہی میں دیکھ لو منکروں کی کسی گت بنی اور کس طرح انکے منصوبے خاک میں ملا
دیے گئے۔ کیا آج کل کے منکروں کو ایسی سزائیں نہیں مل سکتیں۔
|
أَفَلَم يَنظُروا
إِلَى السَّماءِ فَوقَهُم كَيفَ بَنَينٰها وَزَيَّنّٰها وَما لَها مِن فُروجٍ
{50:6}
|
کیا
انہوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نگاہ نہیں کی کہ ہم نے اس کو کیونکر بنایا اور
(کیونکر) سجایا اور اس میں کہیں شگاف تک نہیں
|
Have they not looked up to the heaven above them, in what
wise We have constructed and bedecked it, and that therein is no rift?
|
یعنی
آسمان کو دیکھ لو، نہ بظاہر کوئی کھمبا نظر آتا ہے نہ ستون اتنا بڑا عظیم الشان
جسم کیسا مضبوط و مستحکم کھڑا ہے۔ اور رات کو جب اس پر ستاروں کی قندیل اور جھاڑ
فانوس روشن ہوتے ہیں تو کس قدر پررونق اور خوبصورت نظر آتا ہے ۔ پھر لطف یہ ہے
کہ ہزاروں لاکھوں برس گذر گئے نہ اس چھت میں کہیں سوراخ ہوا، نہ کوئی کنگرہ گرا،
نہ پلاسٹر ٹوٹا، نہ رنگ خراب ہوا، آخر کونسا ہاتھ ہے جس نے یہ مخلوق بنائی اور
بنا کر اسکی ایسی حفاظت کی۔
|
أَفَمَنِ اتَّبَعَ
رِضوٰنَ اللَّهِ كَمَن باءَ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّهِ وَمَأوىٰهُ جَهَنَّمُ ۚ
وَبِئسَ المَصيرُ {3:162}
|
بھلا
جو شخص اللہ کی خوشنودی کا تابع ہو وہ اس شخص کی طرح(مرتکب خیانت) ہوسکتا ہے جو اللہ کی ناخوشی میں گرفتار ہو اور جس کا ٹھکانہ دوزخ ہے، اور وہ برا ٹھکانا ہے
|
Is then one who followeth the pleasure of Allah like unto
him who hath settled under the displeasure of Allah? His resort is Hell, and
ill is that destination
|
یعنی
جو پیغمبر ہر حال میں خدا کی مرضی کا تابع بلکہ دوسروں کو بھی اس کی مرضی کا
تابع بنانا چاہتا ہے، کیا ان لوگوں کے ایسے کام کر سکتا ہے جو خدا کے غضب کے
نیچے اور دوزخ کے مستحق ہیں؟ ممکن نہیں۔
|
قُل
هَل مِن شُرَكائِكُم مَن يَهدى إِلَى الحَقِّ ۚ قُلِ اللَّهُ يَهدى لِلحَقِّ ۗ أَفَمَن يَهدى إِلَى الحَقِّ أَحَقُّ أَن
يُتَّبَعَ أَمَّن لا يَهِدّى إِلّا أَن يُهدىٰ ۖ فَما لَكُم كَيفَ تَحكُمونَ
{10:35}
|
پوچھو
کہ بھلا تمہارے شریکوں میں کون ایسا ہے کہ حق کا رستہ دکھائے۔ کہہ دو کہ اللہ ہی
حق کا رستہ دکھاتا ہے۔ بھلا جو حق کا رستہ دکھائے وہ اس قابل ہے کہ اُس کی پیروی
کی جائے یا وہ کہ جب تک کوئی اسے رستہ نہ بتائے رستہ نہ پائے۔ تو تم کو کیا ہوا
ہے کیسا انصاف کرتے ہو؟
|
Say thou: is there any of your associate-gods who guideth
you to the truth! Say thou: Allah guideth unto the truth. Is He, then, who
guideth to the truth more worthy to be followed, or one who findeth not the
guidance unless he is guided. What aileth ye then? How ill ye judge!
|
''مبداء'' و ''معاد'' کے بعد درمیانی
وسائط کا ذکر کرتے ہیں۔ یعنی جس طرح اول پیدا کرنے والا اور دوبارہ جلانے والا
وہ ہی خدا ہے ، ایسے ہی ''معاد'' کی صحیح راہ بتلانے والا بھی کوئی دوسرا نہیں ۔
خدا ہی بندوں کی صحیح اور سچی رہنمائی کر سکتا ہے۔ مخلوق میں کوئی بڑا ہو یا
چھوٹا، سب اسی کی رہنمائی کے محتاج ہیں۔ اسی کی ہدایت و رہنمائی پر سب کو چلنا
چاہئیے بت مسکین تو کس شمار میں ہیں جو کسی کی رہنمائی سے بھی چلنے کی قدرت نہیں
رکھتے۔ بڑے بڑے مقربین (انبیاء و ملائکہ علیہم السلام) بھی برابر یہ اقرار کرتے
آئے ہیں کہ خدا کی ہدایت و دستگیری کے بدون ہم ایک قدم نہیں اٹھا سکتے۔ ان کی
رہنمائی بھی اسی لئے بندوں کے حق میں قابل قبول ہے کہ خدا بلاواسطہ ان کی
رہنمائی فرماتا ہے۔ پھر یہ کس قدر نا انصافی ہے کہ انسان اس ہادی مطلق کو چھوڑ
کر باطل اور کمزور سہارے ڈھونڈے ۔ یا مثلاً احبار و رہبان پر برہمنوں اور مہنتوں
کی رہنمائی پر اندھا دھند چلنے لگے۔
|
أَفَمَن كانَ
عَلىٰ بَيِّنَةٍ مِن رَبِّهِ وَيَتلوهُ شاهِدٌ مِنهُ وَمِن قَبلِهِ كِتٰبُ موسىٰ
إِمامًا وَرَحمَةً ۚ أُولٰئِكَ يُؤمِنونَ بِهِ ۚ وَمَن يَكفُر بِهِ مِنَ
الأَحزابِ فَالنّارُ مَوعِدُهُ ۚ فَلا تَكُ فى مِريَةٍ مِنهُ ۚ إِنَّهُ الحَقُّ
مِن رَبِّكَ وَلٰكِنَّ أَكثَرَ النّاسِ لا يُؤمِنونَ {11:17}
|
بھلا
جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے (روشن) دلیل رکھتے ہوں اور ان کے ساتھ ایک
(آسمانی) گواہ بھی اس کی جانب سے ہو اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب ہو جو پیشوا
اور رحمت ہے (تو کیا وہ قرآن پر ایمان نہیں لائیں گے) یہی لوگ اس پر ایمان لاتے
ہیں اور جو کوئی اور فرقوں میں سے اس سے منکر ہو تو اس کا ٹھکانہ آگ ہے۔ تو تم
اس (قرآن) سے شک میں نہ ہونا۔ یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے لیکن اکثر لوگ
ایمان نہیں لاتے
|
Is he like unto him who resteth upon an evidence from His
Lord, so and there rehearseth it a witness from Him And before it was the
Book of Musa, a pattern and a mercy; these believe therein; and whosoever of
the sects disbelieveth therein, the Fire is his promised place. Be then thou
not in dubitation thereof, verily it is the truth from thy Lord, yet most of
the mankind believe not.
|
یعنی
یہود ، نصاریٰ ، بت پرست ، مجوس ، عرب ، عجم ، یورپ ، ایشیا، کسی فرقہ جماعت اور
ملک و ملت سے تعلق رکھتا ہو جب تک قرآن کو نہ مانے گا نجات نہیں ہو سکتی ۔ جیسا
کہ صحیح مسلم وغیرہ کی بعض احادیث میں آپ ﷺ نے بہت تصریح و تعمیم کے ساتھ
بیان فرمایا ہے۔
|
یہ
خطاب ہر شخص کو ہے جو قرآن سنے یا حضور ﷺ کو مخاطب بنا کر دوسروں کو
سنانا مقصود ہے کہ قرآن کی صداقت اور "من اللہ" ہونے میں قطعًا شک و
شبہ کی گنجائش نہیں ۔جو لوگ نہیں مانتے وہ احمق ہیں یا معاند۔
|
یعنی
یہ شخص اور وہ ریاکار دنیا پرست جن کا ذکر پہلے ہوا ، کیا برابر ہو سکتے ہیں ؟
ہر گز نہیں۔ "بینہ" (صاف رستہ) سے مراد وہ رستہ ہے جس پر انسان اپنی
اصلی اور صحیح فطرت کے موافق چلنا چاہتا ہے ۔ بشرطیکہ گردوپیش کے حالات و خیالات
سے متاثر نہ ہو۔ اور وہ توحید ، اسلام اور قرآن کا راستہ ہے۔ { فَاَقِمْ
وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا ؕ فِطْرَتَ اللہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ
عَلَیْھَا ؕ لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللہِ ؕ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ }
(روم رکوع۳) وفی الحدیث { کُلُّ مَوْلُوْدِ یُوْلُّدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ
یُھَوِّ٘دَانِہٖ اَوْ یُنَصِّرَانِہٖ اَوْ یُمَجِّسَا } الخ اور { شَاھِدٌ
مِّنْہُ } (گواہ اللہ کی طرف سے) قرآن عظیم ہے جو گواہی دیتا ہے کہ "دین
فطرت" (توحید و اسلام) پر چلنے والا بیشک ٹھیک راستہ پر چل رہا ہے اور وہ
قرآن اپنی حقانیت کا بھی خود گواہ ہے آفتاب آمد دلیل آفتاب ۔ چونکہ قرآن کے
لانے والے جبریل امین اور لینے والے محمد ﷺ ہیں اس اعتبار سے ان کو بھی
شاہد کہہ سکتے ہیں بلکہ حضور ﷺ کی شان تو یہ ہے کہ آپ کے
اخلاق و عادات ، معجزات ، زبان مبارک ، چہرہ نورانی ہر چیز سےشہادت ملتی ہے
کہ جس دین کے آپ حامل ہیں وہ بالکل سچا دین ہے۔ آگے { وَمِنْ قَبْلِہٖ کِتٰبُ
مُوْسٰی اِمَامًا وَّرَحْمَۃً } کا مطلب یہ ہے کہ قرآن سے پہلے جو وحی کسی نبی
پر نازل کی گئ وہ بھی "دین فطرت" کی صداقت پرگواہ تھی۔ خصوصًا موسٰیؑ
پر جو عظیم الشان کتاب (تورات) اتاری گئ قرآن سے پیشتر اسے ایک بڑا بھاری شاہد
ان لوگوں کی حقانیت کا کہنا چاہئے جو دین فطرت کے صاف راستہ پر چلتےہیں۔
|
أَفَمَن يَعلَمُ
أَنَّما أُنزِلَ إِلَيكَ مِن رَبِّكَ الحَقُّ كَمَن هُوَ أَعمىٰ ۚ إِنَّما
يَتَذَكَّرُ أُولُوا الأَلبٰبِ {13:19}
|
بھلا
جو شخص یہ جانتا ہے کہ جو کچھ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے حق
ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو اندھا ہے اور سمجھتے تو وہی ہیں جو عقلمند ہیں
|
Shall he then who knoweth that which is sent down unto
thee is the truth be like unto him who is blind! Only the men of
understanding are admonished
|
مومن
و کافر دونوں کا الگ الگ انجام ذکر فرمانے کے بعد متنبہ کرتے ہیں کہ ایسا ہونا
عین عقل و حکمت کے موافق ہے ۔ کوئی عقلمند یہ نہیں کہہ سکتا کہ ایک نپٹ اندھا
جسے کچھ نظر نہ آئے یوں ہی اناپ شناپ اندھیرے میں پڑا ٹھوکریں کھا رہا ہو ، اس
شخص کی برابری کر سکتا ہے جس کے دل کی آنکھیں کھلی ہیں اور پوری بصیرت کے ساتھ
حق کی روشنی سے مستفید ہو رہا ہے۔
|
أَفَمَن هُوَ
قائِمٌ عَلىٰ كُلِّ نَفسٍ بِما كَسَبَت ۗ وَجَعَلوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُل
سَمّوهُم ۚ أَم تُنَبِّـٔونَهُ بِما لا يَعلَمُ فِى الأَرضِ أَم بِظٰهِرٍ
مِنَ القَولِ ۗ بَل زُيِّنَ لِلَّذينَ كَفَروا مَكرُهُم وَصُدّوا عَنِ السَّبيلِ
ۗ وَمَن يُضلِلِ اللَّهُ فَما لَهُ مِن هادٍ {13:33}
|
تو
کیا جو (خدا) ہر متنفس کے اعمال کا نگراں (ونگہباں) ہے (وہ بتوں کی طرح بےعلم
وبےخبر ہوسکتا ہے) اور ان لوگوں نے اللہ کے شریک مقرر کر رکھے ہیں۔ ان سے کہو کہ
(ذرا) ان کے نام تو لو۔ کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کو وہ زمین میں (کہیں
بھی) معلوم نہیں کرتا یا (محض) ظاہری (باطل اور جھوٹی) بات کی (تقلید کرتے ہو)
اصل یہ ہے کہ کافروں کو ان کے فریب خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔ اور وہ (ہدایت کے)
رستے سے روک لیے گئے ہیں۔ اور جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت کرنے والا نہیں
|
Is He, then, who is ever standing over every soul with
that which he earneth, like unto other! And yet they have set up associates
unto Allah. Say thou: name them; would ye inform Him of that which He knoweth
not on the earth? or is it by way of outward saying? Aye! fair-seeming unto
those who disbelieve is made their plotting, and they have been hindered from
the way.And whomsoever sendeth astray, for him there is no guide.
|
یعنی
کچھ بھی نہیں۔ شرک کی حمایت میں ان کی یہ مستعدی اور توحید کے مقابلہ میں اس قدر
جدوجہد خالی نفس کا دھوکہ اور شیطان کا فریب ہے اسی نے ان کو راہ حق سے روک دیا
ہے۔
|
یعنی
ذرا آگے بڑھ کر ان شرکاء کے نام تو لو اور پتے تو بتاؤ ، کیا خدا وند قدوس کی یہ
صفات سن کر جو اوپر بیان ہوئیں کوئی حیادار ان پتھروں کا نام بھی لے سکتا ہے ؟
اور بے حیائی سے "لات" و "عزیٰ" کے نام لینے لگو تو کیا
کوئی عاقل ادھر التفات کر سکتا ہے ؟ ۔
|
پہلے
فرمایا تھا ان شرکاء کا ذرا نام لو ، پھر متنبہ فرمایا کہ جس چیز کا واقع میں
ثبوت ہی نہیں اس کا نام کیا لیا جاسکتا ہے ؟ اب بتلاتے ہیں کہ کسی چیز کو خدا کا
شریک ٹھہرانا خالی الفاظ اور صوت محض ہے جس کے نیچے کوئی حقیقت نہیں۔ مجرد ظن و
تخمین اور باطل اوہام سے چند بے معنی الفاط بامعنی نہیں بن جاتے۔ شاید {
بِظَاھِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ } میں ادھر بھی اشارہ ہو کہ جو مشرکانہ باتیں وہ کر
رہے ہیں اگر کورا نہ تقلید و متعصب سے خالی ہو کر اپنے ضمیر کی طرف رجوع کریں تو
خود ان کا ضمیر بھی لغویات سے انکار کرے گا۔ اس لئے کہنا چاہئے کہ یہ سب اوپر
اوپر کی باتیں ہیں۔ جن کو انسانی ضمیر اور انسانی فطرت دونوں مردود ٹھہرا چکے
ہیں۔
|
یعنی
جسے خدا ہدایت کی توفیق نہ دے اسے کون راہ پر لا سکتا ہے اور وہ اسی کو توفیق
دیتا ہے جو باختیار خود ہدایت کے دروازے اپنے اوپر بند نہ کرلے۔
|
یعنی
خدا کو تمام روئے زمین پر اپنی خدائی کا کوئی شریک (حصہ دار) معلوم نہیں ۔
(کیونکہ ہے ہی نہیں جو معلوم ہو) کیا تم اسے وہ چیز بتلاؤ گے جسے وہ نہیں جانتا
؟ (العیاذ باللہ) (تنبیہ) زمین کی قید اس لئے لگائی کہ بت پرستوں کے نزدیک شرکاء
(اصنام) کی قیام گاہ یہ ہی زمین تھی۔ ابو حیان نے { لَایَعْلَمُ } کی ضمیر
"ما" کی طرف لوٹائی ہے ۔ یعنی کیا خدا کو بتلاتے ہو کہ آپ کی خدائی کے
حصہ دار وہ بت ہیں جو ادنیٰ سا علم بھی نہیں رکھتے ؟
|
یعنی
جو خدا ہر شخص کے ہر عمل کی ہر وقت نگرانی رکھتا ہے ، ایک لمحہ کسی سے غافل
نہیں۔ ذرا کوئی شرارت کرے اسی وقت تنبیہ کر سکتا اور سزا دے سکتا ہے۔ کیا مجرم
اس سے چھوٹ کر کہیں بھاگ سکتے ہں ، یا اس کی مثل پتھر کی وہ مورتیاں ہو سکتی ہیں
جو نہ دیکھتی ہیں نہ سنتی ہیں۔ نہ اپنے یا دوسرے کے نفع و ضرور کا کچھ اختیار
رکھتی ہیں۔ تعجب ہے کہ ایسے خدا کی موجودگی میں انسان ایسی عاجز و حقیر مخلوق کے
آگے سر جھکائے اور اس کو خدائی کے اختیارات تفویض کر دے۔ اس ظلم کی بھی کوئی
انتہا ہے کہ علیم الکل اور بہمہ صفت موصوف خدا کے شریک وہ ہوں جنہیں خود اپنے
وجود کی خبر نہیں خوب سمجھ لو کہ جو کچھ ہم خفیہ یا علانیہ کرتے ہیں سب خدا کی
آنکھ کے سامنے ہے ۔ لوگوں کی ان مشرکانہ گستاخیوں سے وہ بے خبر نہیں۔ جلد یا
بدیر سزا مل کر رہے گی۔
|
أَفَمَن يَخلُقُ كَمَن لا يَخلُقُ ۗ أَفَلا
تَذَكَّرونَ {16:17}
|
تو جو (اتنی مخلوقات) پیدا کرے۔ کیا
وہ ویسا ہے جو کچھ بھی پیدا نہ کرسکے تو پھر تم غور کیوں نہیں کرتے؟
|
Is there one who createth like
unto one who createth not? Will ye not then be admonished?
|
یعنی سوچنا چاہئے یہ کس قدر حماقت
ہے کہ جو چیزیں ایک مکھی کا پر اور مچھر کی ٹانگ بلکہ ایک جو کا دانہ یا ریت کا
ذرہ پیدا کرنے پر قادر نہ ہوں ، انہیں معبود و مستعان ٹھہرا کر خداوند قدوس کے
برابر کر دیا جائے ۔ جو مذکورہ بالا عجیب و غریب مخلوقات کا پیدا کرنے والا اور
ان کے محکم نظام کو قائم رکھنے والا ہے۔ اس گستاخی کو دیکھو اور خدا کے انعامات
کو خیال کرو۔ حقیقت میں انسان بڑا ہی نا شکرا ہے۔
|
أَفَمَن وَعَدنٰهُ وَعدًا حَسَنًا فَهُوَ
لٰقيهِ كَمَن مَتَّعنٰهُ مَتٰعَ الحَيوٰةِ الدُّنيا ثُمَّ هُوَ يَومَ القِيٰمَةِ
مِنَ المُحضَرينَ {28:61}
|
بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا
اور اُس نے اُسے حاصل کرلیا تو کیا وہ اس شخص کا سا ہے جس کو ہم نے دنیا کی
زندگی کے فائدے سے بہرہ مند کیا پھر وہ قیامت کے روز ان لوگوں میں ہو جو (ہمارے
روبرو) حاضر کئے جائیں گے
|
Is he, then, whom We have promised
an excellent promise which he is going to meet, like unto him whom We have
suffered to enjoy awhile the enjoyment of the life of the world, then on the
Day of Resurrection he shall be of those brought up!
|
یعنی مومن و کافر دونوں انجام کے
اعتبار سے کس طرح برابر ہو سکتے ہیں۔ ایک کے لئے دائمی عیش کا وعدہ جو یقینًا
پورا ہو کر رہے گا اور دوسرے کے لئے چند روزہ عیش کے بعد گرفتاری کا وارنٹ اور
دائمی جیل خانہ، العیاذ باللہ۔ ایک شخص خواب میں دیکھے کہ میرے سر پر تاج شاہی
رکھا ہے، خدم و حشم پرے باندھے کھڑے ہیں اور الوان نعمت دسترخوان پر چنے ہوئے
ہیں جن سے لذت اندوز ہو رہا ہوں، آنکھ کھلی تو دیکھا انسپکٹر پولیس گرفتاری کا
وارنٹ اور بیڑی ہتکڑی لئے کھڑا ہے۔ بس وہ پکڑ کر لے گیا اور فورًا ہی پیش ہو کر
حبس دوام کی سزا مل گئ۔ بتلاؤ اسے وہ خواب کی بادشاہت اورپلاؤ قورمے کی لذت کیا
یاد آئے گی۔
|
أَفَمَن زُيِّنَ لَهُ سوءُ عَمَلِهِ
فَرَءاهُ حَسَنًا ۖ فَإِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَن يَشاءُ وَيَهدى مَن يَشاءُ ۖ
فَلا تَذهَب نَفسُكَ عَلَيهِم حَسَرٰتٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَليمٌ بِما يَصنَعونَ
{35:8}
|
بھلا جس شخص کو اس کے اعمال بد
آراستہ کرکے دکھائے جائیں اور وہ ان کو عمدہ سمجھنے لگے تو (کیا وہ نیکوکار آدمی
جیسا ہوسکتا ہے)۔ بےشک اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے
ہدایت دیتا ہے۔ تو ان لوگوں پر افسوس کرکے تمہارا دم نہ نکل جائے۔ یہ جو کچھ
کرتے ہیں اللہ اس سے واقف ہے
|
Is he, then, whose evil work hath
been made fair-seeming unto him, so that he deemeth it good, be as he who
rightly perceiveth the truth? Verily Allah sendeth astray whomsoever He
listeth, and guideth whomsoever He listeth; so let not thine soul expire
after them in sighings; verily Allah is the Knower of that which they
perform.
|
یعنی شیطان نے جس کی نگاہ میں برے
کام کو بھلا کر دکھایا۔ کیا وہ شخص اس کے برابر ہو سکتا ہے جو خدا کے فضل سے
بھلے برے کی تمیز رکھتا ہے۔ نیکی کو نیکی اور بدی کو بدی سمجھتا ہے۔ جب دونوں
برابر نہیں ہو سکتے تو انجام دونوں کا یکساں کیونکر ہو سکتا ہے۔ اور یہ خیال نہ
کرو کہ کوئی آدمی دیکھتی آنکھوں برائی کو بھلائی کیونکر سمجھ لے گا۔ اللہ جس کی
سوء استعداد اور سوء اختیار کی بناء پر بھٹکانا چاہے اس کی عقل اسی طرح اوندھی
ہو جاتی ہے۔ اور جس کو حسن استعداد اور حسن اختیار کی وجہ سے ہدایت پر لانا چاہے
تب کسی شیطان کی طاقت نہیں جو اسے غلط راستے پر ڈال سکے یا الٹی بات سمجھا دے۔
بہرحال جو شخص شیطانی اغواء سے برائی کو بھلائی بدی کو نیکی اور زہر کو تریاق
سمجھ لے کیا اس کے سیدھے راستہ پر آنے کی کچھ توقع ہو سکتی ہے؟ جب نہیں ہو سکتی
اور سلسلہ ہدایت و ضلالت کا سب اللہ کی مشیت و حکم کے تابع ہے۔ تو آپ ان معاندین
کے غم میں اپنے کو کیوں گھلاتے ہیں، اس حسرت میں کہ یہ بدبخت اپنے فائدہ کی بات
کو کیوں قبول نہیں کرتے کیا آپ اپنی جان دے بیٹھیں گے؟ آپ ان کا قصہ ایک طرف
کیجئے۔ اللہ ان کے سب کرتوت جانتا ہے۔ وہ خود ان کا بھگتان کر دے گا آپ دلگیر و
غمگین نہ ہوں۔
|
أَفَمَن حَقَّ عَلَيهِ كَلِمَةُ العَذابِ
أَفَأَنتَ تُنقِذُ مَن فِى النّارِ {39:19}
|
بھلا جس شخص پر عذاب کا حکم صادر
ہوچکا۔ تو کیا تم (ایسے) دوزخی کو مخلصی دے سکو گے؟
|
Is he then on whom is justified
the decree of torment - wilt thou rescue him who is in the Fire?
|
یعنی جن پر ان کی ضد و عناد اور بد
اعمالیوں کی بدولت عذاب کا حکم ثابت ہو چکا، کیا وہ کامیابی کا راستہ پا سکتے
ہیں۔ بھلا ایسے بدبختوں کو جو شقاوت ازلی کے سبب آگ میں گر چکے ہوں، کون آدمی
راہ پر لا سکتا ہے اور کون آگ سے نکال سکتا ہے۔
|
أَفَمَن شَرَحَ اللَّهُ صَدرَهُ لِلإِسلٰمِ
فَهُوَ عَلىٰ نورٍ مِن رَبِّهِ ۚ فَوَيلٌ لِلقٰسِيَةِ قُلوبُهُم مِن ذِكرِ
اللَّهِ ۚ أُولٰئِكَ فى ضَلٰلٍ مُبينٍ {39:22}
|
بھلا جس شخص کا سینہ اللہ نے اسلام
کے لئے کھول دیا ہو اور وہ اپنے پروردگار کی طرف سے روشنی پر ہو (تو کیا وہ سخت
دل کافر کی طرح ہوسکتا ہے) پس ان پر افسوس ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے سخت ہو رہے
ہیں۔ اور یہی لوگ صریح گمراہی میں ہیں
|
Shall he then whose breast Allah
hath expanded for Islam, so that he followeth a light from his Lord be as he
whose heart is hardened? Then woe Unto those whose hearts are hardened
against remembrance of Allah. They are in an error manifest.
|
یعنی دونوں کہاں برابر ہو سکتے ہیں
ایک وہ جس کا سینہ اللہ نے قبول اسلام کے لئے کھول دیا نہ اسے اسلام کے حق ہونے
میں کچھ شک و شبہ ہے نہ احکام اسلام کی تسلیم سے انقباض۔ حق تعالیٰ نے اس کو
توفیق و بصیرت کی ایک عجیب روشنی عطا فرمائی جس کے اجالے میں نہایت سکون و
اطمینان کے ساتھ اللہ کے راستہ پر اڑا چلا جا رہا ہے۔ دوسرا وہ بدبخت جس کا دل
پتھر کی طرح سخت ہو، نہ کوئی نصیحت اس پر اثر کرے نہ خیر کا کوئی قطرہ اس کے
اندر گھسے، کبھی خدا کی یاد کی توفیق نہ ہو۔ یوں ہی اوہام و اہوا اور رسوم و
تقلید آباء کی اندھیریوں میں بھٹکتا پھرے۔
|
أَفَمَن يَتَّقى بِوَجهِهِ سوءَ العَذابِ
يَومَ القِيٰمَةِ ۚ وَقيلَ لِلظّٰلِمينَ ذوقوا ما كُنتُم تَكسِبونَ {39:24}
|
بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ
سے برے عذاب کو روکتا ہو (کیا وہ ویسا ہوسکتا ہے جو چین میں ہو) اور ظالموں سے
کہا جائے گا کہ جو کچھ تم کرتے رہے تھے اس کے مزے چکھو
|
Is he, then, who will shield
himself with his face from the evil of torment on the Day of Resurrection be
as he who is secure therefrom And it shall be said Unto the wrong-doers:taste
ye that which ye have been earning.
|
آدمی کا قاعدہ ہے کہ جب سامنے سے
کوئی حملہ ہو تو ہاتھوں پر روکتا ہے۔ لیکن محشر میں ظالموں کے ہاتھ بندھے ہوں
گے، اس لئے عذاب کی تھپیڑیں سیدھی منہ پر پڑیں گی۔ تو ایسا شخص جو بدترین عذاب
کو اپنے منہ پر روکے اور اس سے کہا جائے کہ اب اس کام کا مزہ چکھ جو دنیا میں
کیا تھا کیا اس مومن کی طرح ہو سکتا ہے جسے آخرت میں کوئی تکلیف اور گزند پہنچنے
کا اندیشہ نہیں، اللہ کے فضل سے مطمئن اور بے فکر ہے۔ ہرگز نہیں۔
|
إِنَّ الَّذينَ يُلحِدونَ فى
ءايٰتِنا لا يَخفَونَ عَلَينا ۗ أَفَمَن يُلقىٰ
فِى النّارِ خَيرٌ أَم مَن يَأتى ءامِنًا يَومَ القِيٰمَةِ ۚ اعمَلوا ما شِئتُم
ۖ إِنَّهُ بِما تَعمَلونَ بَصيرٌ {41:40}
|
جو لوگ ہماری آیتوں میں کج راہی
کرتے ہیں وہ ہم سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ بھلا جو شخص دوزخ میں ڈالا جائے وہ بہتر ہے
یا وہ جو قیامت کے دن امن وامان سے آئے۔ (تو خیر) جو چاہو سو کرلو۔ جو کچھ تم
کرتے ہو وہ اس کو دیکھ رہا ہے
|
Verily those who blaspheme Our
revelations are not hid from Us. Is he then who will be cast into the Fire
better or he who cometh secure on the Day of Resurrection? Work whatsoever ye
will; Verily He is of that which ye work the Beholder.
|
یعنی اللہ کی طرف دعوت دینے والوں
کی زبان سے آیات تنزیلیہ سن کر اور قرطاس دہر پر خدا کی آیات کونیہ کو دیکھ کر
بھی جو لوگ کجروی سے باز نہیں آتے اور سیدھی سیدھی باتوں کو واہی تباہی شہادت پیدا
کر کے ٹیڑھی بناتے ہیں، یا خواہ مخواہ توڑ مروڑ کر ان کا مطلب غلط لیتے ہیں، یا
یوں ہی جھوٹ موٹ کے عذر اور بہانے تراش کر ان آیات کے ماننے میں ہیر پھیر کرتے
ہیں۔ ایسے ٹیڑھی چال چلنے والوں کو اللہ خوب جانتا ہے۔ ممکن ہے وہ لوگ اپنی
مکاریوں اور چالاکیوں پر مغرور ہوں مگر خدا سے ان کی کوئی چال پوشیدہ نہیں۔ جس
وقت سامنے جائیں گے دیکھ لیں گے۔ فی الحال اس نے ڈھیل دے رکھی ہے۔ مجرم کو ایک
دم نہیں پکڑتا۔ اسی لئے آگے فرما دیا۔ { اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ اِنَّہٗ بِمَا
تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ } یعنی اچھا جو تمہاری سمجھ میں آئے کئے جاؤ مگر یاد رہے
کہ تمہاری سب حرکات اس کی نظر میں ہیں ایک دن ان کا اکٹھا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
اب خود سوچ لو کہ ایک شخص جو اپنی شرارتوں کی بدولت جلتی آگ میں گرے، اور ایک جو
اپنی شرافت و سلامت روی کی بدولت ہمیشہ امن چین سے رہے۔ دونوں میں کون بہتر ہے؟
|
أَفَمِن هٰذَا الحَديثِ تَعجَبونَ {53:59}
|
اے منکرین خدا) کیا تم اس کلام سے
تعجب کرتے ہو؟
|
At this discourse then marvel ye?
|
أَفَمَن يَمشى مُكِبًّا عَلىٰ وَجهِهِ
أَهدىٰ أَمَّن يَمشى سَوِيًّا عَلىٰ صِرٰطٍ مُستَقيمٍ {67:22}
|
بھلا جو شخص چلتا ہوا منہ کے بل گر
پڑتا ہے وہ سیدھے رستے پر ہے یا وہ جو سیدھے رستے پر برابر چل رہا ہو؟
|
Is he, then, who goeth about
grovelling upon his face better directed, or he who walketh evenly on a
straight path?
|
یعنی ظاہری کامیابی کی راہ طے کر کے
وہی مقصد اصلی تک پہنچے گا جو سیدھے راستہ پر آدمیوں کی طرح سیدھا ہوکر چلے۔ جو
شخص ناہموار راستہ پر اوندھا ہو کر منہ کے بل چلتا ہو اس کے منزل مقصودتک پہنچنے
کی کیا توقع ہوسکتی ہے۔ یہ مثال ایک موحد اور ایک مشرک کی ہوئی۔ محشر میں بھی
دونوں کی چال میں ایسا ہی فرق ہو گا۔
|
أَفَنَجعَلُ المُسلِمينَ كَالمُجرِمينَ {68:35}
|
کیا ہم فرمانبرداروں کو نافرمانوں
کی طرف (نعمتوں سے) محروم کردیں گے؟
|
Shall We then make the Muslims
like the culprits?
|
أَفَنَضرِبُ عَنكُمُ الذِّكرَ صَفحًا أَن كُنتُم
قَومًا مُسرِفينَ {43:5}
|
بھلا اس لئے کہ تم حد سے نکلے ہوئے
لوگ ہو ہم تم کو نصیحت کرنے سے باز رہیں گے
|
Shall We then take away from you
the Admonition because ye are a people extravagant?
|
حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "اس
سبب سے کہ تم نہیں مانتے کیا ہم حکم کا بھیجنا موقوف کر یں گے"۔ یعنی ایسی
توقع مت رکھو، اللہ کی حکمت و رحمت اسی کو مقتضی ہے کہ باوجود تمہاری زیادتیوں
اور شرارتوں کے کتاب الٰہی کا نزول اور دعوت و نصیحت کا سلسلہ بند نہ کیا جائے۔
کیونکہ بہت سی سعید روحیں اس سے مستفید ہوتی ہیں اور منکرین پر کامل طور پر
اتمام حُجت ہوتا ہے۔
|
ما ءامَنَت قَبلَهُم مِن قَريَةٍ
أَهلَكنٰها ۖ أَفَهُم يُؤمِنونَ
{21:6}
|
ان سے پہلے جن بستیوں کو ہم نے ہلاک
کیا وہ ایمان نہیں لاتی تھیں۔ تو کیا یہ ایمان لے آئیں گے
|
Not a city before them which We
destroyed believed; will they then believe?
|
یعنی پہلی قوموں کو فرمائشی نشان
دکھلائے گئے۔ وہ انہیں دیکھ کر بھی نہ مانے آخر سنت اللہ کے موافق ہلاک کئے گئے۔
اگر ان مشرکین مکہ کی فرمائشیں پوری کی جائیں تو ظاہر ہے یہ ماننے والے تو ہیں
نہیں ۔ لا محالہ حق تعالیٰ کی عام عادت کے موافق تباہ کئے جائیں گے اور ان کی
بالکلیہ تباہی مقصود نہیں ۔ بلکہ حکمت الہٰیہ فی الجملہ ان کے باقی رکھنے کو مقتضی
ہے۔
|
بَل
مَتَّعنا هٰؤُلاءِ وَءاباءَهُم حَتّىٰ طالَ عَلَيهِمُ العُمُرُ ۗ أَفَلا يَرَونَ
أَنّا نَأتِى الأَرضَ نَنقُصُها مِن أَطرافِها ۚ أَفَهُمُ الغٰلِبونَ {21:44}
|
بلکہ ہم
ان لوگوں کو اور ان کے باپ دادا کو متمتع کرتے رہے یہاں تک کہ (اسی حالت میں) ان
کی عمریں بسر ہوگئیں۔ کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے
چلے آتے ہیں۔ تو کیا یہ لوگ غلبہ پانے والے ہیں؟
|
Aye!
We let these people and their fathers enjoy until there grew long upon them
the life. Behold they not that We come unto the land diminishing it by the
borders thereof? Shall they then be the victors?
|
یعنی عرب
کے ملک میں اسلام پھیلنے لگا ہے اور کفر گھٹنے لگا۔ آہستہ آہستہ وہاں کی زمین
کافروں پر تنگ ہوتی جارہی ہے۔ ان کی حکومتیں اور سرداریاں ٹوٹتی جا رہی ہیں ۔
کیا ایسے کھلے ہوئے آثار و قرائن دیکھ کر بھی انہیں اپنا انجام نظر نہیں آتا۔
اور کیا ان مشاہدات کے باوجود وہ اسی کے امیدوار ہیں کہ پیغمبر ﷺ اور مسلمانوں پر ہم غالب ہوں
گے۔ اگر چشم عبرت ہے تو چاہئے کہ عقل سے کام لیں اور قرائن و احوال سے مستقبل کا
اندازہ کریں ۔ کیا ان کو معلوم نہیں کہ ان کے گردوپیش کی بستیاں انبیاء کی تکذیب
و عداوت کی سزا میں تباہ کی جا چکی ہیں اور ہمیشہ آخرکار خدا کے وفاداروں کا مشن
کامیاب رہا ہے پھر سیدالمرسلین اور مومنین کاملین کے مقابلہ میں غالب آنے کی
انکو کیا توقع ہو سکتی ہے۔ { وَلَقَدْ اَھْلَکْنَا مَاحَوْلَکُمْ مِنَ الْقُریٰ
وَصَرَّفْنَا الاٰیاتِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ } (احقاف رکوع ۴) (تنبیہ) اس
مضمون کی آیت سورہ "رعد" کے آخر میں گذر چکی وہاں کے فوائد ملاحظہ کئے
جائیں۔
|
یعنی
رحمٰن کی کلاءت و حفاظت اور بتوں کا عجز و بیچارگی ایسی چیز نہیں جس کو یہ لوگ
سمجھ نہ سکیں بات یہ ہے کہ پشت ہاپشت سے یہ لوگ بے فکری کی زندگی گذار رہے ہیں۔
کوئی جھٹکا عذاب الہٰی کا نہیں لگا اس پر مغرور ہو گئے اور غفلت کے نشہ میں چور
ہو کر حق تعالیٰ کا پیغام اور پیغمبروں کی نصیحت قبول کرنے سے منہ موڑ لیا۔
|
قالَت
رُسُلُهُم أَفِى اللَّهِ شَكٌّ فاطِرِ السَّمٰوٰتِ
وَالأَرضِ ۖ يَدعوكُم لِيَغفِرَ لَكُم مِن ذُنوبِكُم وَيُؤَخِّرَكُم إِلىٰ
أَجَلٍ مُسَمًّى ۚ قالوا إِن أَنتُم إِلّا بَشَرٌ مِثلُنا تُريدونَ أَن
تَصُدّونا عَمّا كانَ يَعبُدُ ءاباؤُنا فَأتونا بِسُلطٰنٍ مُبينٍ {14:10}
|
ان کے
پیغمبروں نے کہا کیا (تم کو) اللہ (کے بارے) میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا
پیدا کرنے والا ہے۔ وہ تمہیں اس لیے بلاتا ہے کہ تمہارے گناہ بخشے اور (فائدہ
پہنچانے کے لیے) ایک مدت مقرر تک تم کو مہلت دے۔ وہ بولے کہ تم تو ہمارے ہی جیسے
آدمی ہو۔ تمہارا یہ منشاء ہے کہ جن چیزوں کو ہمارے بڑے پوجتے رہے ہیں ان (کے
پوجنے) سے ہم کو بند کر دو تو (اچھا) کوئی کھلی دلیل لاؤ (یعنی معجزہ دکھاؤ)
|
Their
apostles said: is there doubt about Allah, the Maker of the heavens and the
earth? He calleth you that he may forgive you of your sins and retain you
till a term fixed. They said: ye are but like us; ye mean to turn us aside
from that which our fathers have been worshipping; so bring us a warranty
manifest.
|
یعنی خدا
کی ہستی اور وحدانیت تو ایسی چیز نہیں جس میں شک و شبہ کی ذرا بھی گنجائش ہو۔
انسانی فطرت خدا کے وجود پر گواہ ہے ۔ علویات و سفلیات کا عجیب و غریب نظام
شہادت دیتا ہے کہ اس مشین کے پرزوں کو وجود کے سانچہ میں ڈھالنے والا پھر انہیں
جوڑ کر نہایت محکم و منظم طریقہ سے چلانے والا بڑا زبردست ہاتھ ہونا چاہئے۔ جو
کامل حکمت و اختیار سےعالم کی مشین کو قابو میں کئے ہوئے ہے اسی لئے کٹر سے کٹر
مشرک کو بھی کسی نہ کسی رنگ میں اس بات کے اعتراف سے چارہ نہیں رہا کہ بڑا خدا
جس نے آسمان و زمین وغیرہ کرات پیدا کئے وہ ہی ہو سکتا ہے جو تمام چھوٹے چھوٹے
دیوتاؤں سے اونچے مقام پر براجمان ہو۔ انبیاء کی تعلیم یہ ہے کہ جب انسانی فطرت
نے ایک علیم و حکیم قادر توانا منبع الکمالات خدا کا سراغ پا لیا پھر اوہام و
ظنون کی دلدل میں پھنس کر اس سادہ فطری عقیدہ کو کھلونا یا چیستاں کیوں بنایا
جاتا ہے۔ وجدان شہادت دیتا ہے کہ ایک قادر مطلق اور عالم الکل خدا کی موجودگی
میں کسی پتھر یا درخت یا انسانی تصویر یا سیارہ فلکی یا اور کسی مخلوق کو الوہیت
میں شریک کرنا فطرت صحیحہ کی آواز کو دبانے یا بگاڑنے کا مرادف ہے۔ کیا خداوند
قدوس کی ذات و صفات میں (معاذ اللہ) کچھ کمی محسوس ہوئی جس کی مخلوق خداؤں کی
جمعیت سے تلافی کرنا چاہتے ہو۔
|
یعنی ہم
نہیں بلاتے ۔ فی الحقیقت ہمارے ذریعہ سے وہ تم کو اپنی طرف بلا رہا ہے کہ توحید
و ایمان کے راستہ پر چل کر اس کے مقام قرب تک پہنچو۔ اگر تم اپنی حرکتوں سے باز
آکر ایمان و ایقان کا طریق اختیار کر لو تو ایمان لانے سے پیشتر کے سب گناہ (بجز
حقوق و زواجر کے) معاف کر دےگا ۔ پھر ایمان لانے کے بعد جیسا عمل کرو گے اس کے
موافق معاملہ ہو گا۔
|
یعنی کفر
و شرارت پر قائم رہنے کی صورت میں جو جلد تباہ کئے جاتے اس سے محفوظ ہو جاؤ گے
اور جتنی مدت دنیا میں رہو گے سکون و اطمینان کی زندگی گذارو گے۔ { یُمْتِعْکُمْ
مَتَاعًاحَسَنَا } اور { فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیوٰۃً طَیِّبَۃً } وغیرہ نصوص کے
موافق۔
|
یعنی
اچھا خدا کی بحث کو چھوڑیے ۔ آپ اپنی نسبت کہیں کیا آپ آسمان کے فرشتے ہیں ؟ یا
نوع بشر کے علاوہ کوئی دوسری نوع ہیں ؟ جب کچھ نہیں ہم ہی جیسے آدمی ہو تو آخر
کس طرح آپ کی باتوں پر یقین کر لیں آپ کی خواہش یہ ہو گی کہ ہم کو قدیم مذہب سے
ہٹا کر اپنا تابع بنا لیں تو خاطر جمع رکھئے یہ کبھی نہ ہو گا۔ اگر آپ اپنا
امتیاز ثابت کرنا اور اس مقصد میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو کوئی ایسا کھلا ہوا
نشان یا خدائی سرٹیفیکیٹ دکھلایئے جس کے سامنے خواہی نہ خواہی سب کی گردنیں جھک
جائیں۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہماری فرمائش کے موافق معجزات دکھلائیں۔
|
لِتُجۡزٰی کُلُّ نَفۡسٍۭ بِمَا تَسۡعٰی ﴿قرآن - سورۃ طٰہٰ:15)
تاکہ بدلہ ملے ہر شخص کو جو اس نے کمایا ہے.
اَمۡ نَجۡعَلُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَالۡمُفۡسِدِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ۫ اَمۡ نَجۡعَلُ الۡمُتَّقِیۡنَ کَالۡفُجَّارِ ﴿سورۃ ص:28﴾
کیا ہم کر دیں گے ایمان والوں کو جو کرتے ہیں نیکیاں برابر ان کے جو (نافرمانیوں سے) خرابی ڈالیں ملک میں کیا ہم کر دیں گے ڈرنے والوں کو برابر ڈھیٹھ لوگوں کے۔
مومن اور مفسد برابر نہیں ہو سکتے:
یعنی ہمارے عدل و حکمت کا اقتضاء یہ نہیں کہ نیک ایماندار بندوں کو شریروں اور مفسدوں کے برابر کر دیں یا ڈرنے والوں کے ساتھ بھی وہ ہی معاملہ کرنے لگیں جو ڈھیٹ اور نڈر لوگوں کے ساتھ ہونا چاہئے۔ اسی لئے ضرور ہوا کہ کوئی وقت حساب و کتاب اور جزا سزا کا رکھا جائے۔ لیکن دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے نیک اور ایماندر آدمی قسم قسم کی مصائب و آفات میں مبتلا رہتے ہیں اور کتنے ہی بدمعاش بیحیا مزے چین اڑاتے ہیں۔ لامحالہ ماننا پڑے گا کہ موت کے بعد دوسری زندگی کی جو خبر مخبر صادق نے دی ہے عین مقتضائے حکمت ہے۔ وہاں ہی ہر نیک و بد کو اس کے برے بھلے کام کا بدلہ ملے گا۔ پھر "یوم الحساب" کی خبر کا انکار کیسے صحیح ہو سکتا ہے۔
نافرمانوں کی خوش فہمی اور اس کا جواب:
اَفَنَجۡعَلُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ کَالۡمُجۡرِمِیۡنَ ﴿ؕ۳۵﴾ مَا لَکُمۡ ٝ کَیۡفَ تَحۡکُمُوۡنَ ﴿ۚ۳۶﴾ اَمۡ لَکُمۡ کِتٰبٌ فِیۡہِ تَدۡرُسُوۡنَ ﴿ۙ۳۷﴾ اِنَّ لَکُمۡ فِیۡہِ لَمَا تَخَیَّرُوۡنَ ﴿ۚ۳۸﴾ اَمۡ لَکُمۡ اَیۡمَانٌ عَلَیۡنَا بَالِغَۃٌ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۙ اِنَّ لَکُمۡ لَمَا تَحۡکُمُوۡنَ ﴿ۚ۳۹﴾ سَلۡہُمۡ اَیُّہُمۡ بِذٰلِکَ زَعِیۡمٌ ﴿ۚۛ۴۰﴾ اَمۡ لَہُمۡ شُرَکَآءُ ۚۛ فَلۡیَاۡتُوۡا بِشُرَکَآئِہِمۡ اِنۡ کَانُوۡا صٰدِقِیۡنَ ﴿۴۱﴾ [سورۃ القلم:35-41]
کیا ہم کر دیں گے حکم برداروں کو برابر گنہگاروں کے
کیا ہو گیا تمکو کیسے ٹھہرا رہے ہو بات [۲۲]
کیا تمہارے پا س کوئی کتاب ہے جس میں پڑھ لیتے ہو
اُس میں ملتا ہے تمکو جو تم پسند کر لو
کیا تم نے ہم سے قسمیں لے لی ہیں ٹھیک پہنچنے والی قیامت کے دن تک کہ تم کو ملے گاجو کچھ تم ٹھہراؤ گے
پوچھ اُن سے کونسا اُن میں اس کا ذمہ لیتا ہے [۲۳]
کیا انکے واسطے کوئی شریک ہیں پھر توچاہئے لے آئیں اپنے اپنے شریکوں کو اگر وہ سچے ہیں [۲۴]
[۲۲]کفّار کی خوش فہمی اور اس کا جواب:
کفّار مکّہ نے غرور و تکبر سے اپنے دل میں یہ ٹھہرا رکھا تھا کہ اگر قیامت کے دن مسلمانوں پر عنایت و بخشش ہوگی تو ہم پر ان سے بہتر اور بڑھ کر ہو گی۔ اور جس طرح دنیا میں ہم کو اللہ نے عیش و رفاہیت میں رکھا ہے وہاں بھی یہ ہی معاملہ رہیگا۔ اس کو فرمایا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے اگر ایساہو تو یہ مطلب ہو گا کہ ایک وفادار غلام جو ہمیشہ اپنے آقا کی حکمبرداری کے لئے تیار رہتا ہے، اورایک جرائم پیشہ باغی دونوں کا انجام یکساں ہو جائے، بلکہ مجرم اور باغی، وفاداروں سے اچھے رہیں یہ وہ بات ہے جس کو عقل سلیم اور فطرت صحیحہ رَد کرتی ہے۔
[۲۳]کفّار کے پاس کوئی سند نہیں:
یعنی یہ بات کہ مسلم اور مجرم دونوں برابر کر دیئے جائیں ظاہر ہے عقل و فطرت کے خلاف ہے۔ پھر کیا کوئی نقلی دلیل اس کی تائید میں تمہارے پاس ہے؟ کیا کسی معتبرکتاب میں یہ مضمون پڑھتے ہو کہ جو تم اپنے لئے پسند کر لو گے وہ ہی ملے گا؟ اور تمہاری من مانی خواہشات پوری کی جائینگی۔ یا اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لئے کوئی قسم کھا لی ہے کہ تم جو کچھ اپنے دل سے ٹھہرا لو گے وہ ہی دیا جائے گا؟ اور جس طرح آج عیش و رفاہیت میں ہو۔ قیامت تک اسی حال میں رکھے جاؤ گے؟ جوشخص ان میں سے ایسادعویٰ اور اس کے ثابت کرنے کی ذمہ داری اپنے اوپر لے، لاؤ، اسے سامنے کرو۔ ہم بھی تو دیکھیں کہ وہ کہاں سے کہتا ہے۔
[۲۴]یعنی اگر عقلی و نقلی دلیل کوئی نہیں، محض جھوٹے دیوتاؤں کے بل بوتے پر یہ دعوے کئے جا رہے ہیں کہ وہ ہم کویوں کر دیں گے اور یوں مرتبے دلا دینگے، کیونکہ وہ خودخدائی کے شریک اور حصّہ دار ہیں تو اس دعوے میں ان کا سچّا ہونا اسی وقت ثابت ہوگا جب وہ ان شرکاء کو خدا کے مقابلہ پربلا لائیں اور اپنی من مانی کارروائی کرا دیں۔ لیکن یاد رہے کہ وہ معبود عابدوں سے زیادہ عاجز اور بے بس ہیں۔ وہ تمہاری کیامددکرینگے، خود اپنی مدد بھی نہیں کرسکتے۔
No comments:
Post a Comment