حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ کی حدود پر قائم رہنے والے اور اس میں گھس جانے والے (یعنی خلاف کرنے والے) کی مثال ایسے لوگوں کی سی ہے جنہوں نے ایک کشتی کے سلسلے میں قرعہ ڈالا۔ جس کے نتیجہ میں بعض لوگوں کو کشتی کے اوپر کا حصہ اور بعض کو نیچے کا۔ پس جو لوگ نیچے والے تھے، انہیں (دریا سے) پانی لینے کے لیے اوپر والوں کے پاس سے گزرنا پڑتا۔ انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ہم اپنے ہی حصہ میں ایک سوراخ کرلیں تاکہ اوپر والوں کو ہم کوئی تکلیف نہ دیں۔ اب اگر اوپر والے بھی نیچے والوں کو من مانی کرنے دیں گے تو کشتی والے تمام ہلاک ہوجائیں گے اور اگر اوپر والے نیچے والوں کا ہاتھ پکڑ لیں تو یہ خود بھی بچیں گے اور ساری کشتی بھی بچ جائے گی۔
[صحيح البخاری: حدیث نمبر 2493]
اسلام کی اصل بنیاد اس عقل پر نہیں جو خواہشات ِ نفس کی غلام ہو بلکہ اس عقل پر ہے جو اللہ تعالی کی عطا کی ہوئی ہدایات کی پابند ہواور اپنے حدود ِکار سے اچھی طرح واقف ہو اور یہی عقل سلیم کی تعریف ہے۔
اللہ تعالی کے دیے ہوئے احکام عقل سلیم کی عین مطابق ہیں اور تجربہ اس کا گواہ ہے کہ صلاح وفلاح کا اس سے بڑھ کر کوئی ذریعہ نہیں ہوسکتا ؛چنانچہ اس کے ہر حکم میں بہت سی حکمتیں مصلحتیں اور انسانیت کے فوائد مضمر ہوتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہماری محدود عقل ان تمام مصلحتوں اور حکمتوں کا احاطہ بھی کرسکے ،ظاہر ہے کہ وہ خالق کائنات جس کے سامنے زمین وآسمان کی تمام موجودات اور ماضی ومستقبل کے تمام حالات ہیں اس کے علم وحکمت کا کون احاطہ کرسکتا ہے ،لہٰذا یہ عین ممکن ہے کہ قرآن وسنت کے کسی حکم کی حقیقی حکمت ومصلحت ہماری سمجھ میں نہ آئے ،لیکن کسی حکم کی حکمت سمجھ میں نہ آنے کا یہ نتیجہ ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ اس حکم ہی کو درست تسلیم نہ کیا جائے ،کیونکہ اگر انسان کو اپنے فائدہ کی تمام باتیں سمجھ میں آسکتی تھیں تو پیغمبروں کو بھیجنے اور آسمانی کتابیں نازل کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی وحی اور رسالت کا مقدس سلسلہ تو جاری ہی اس لیے کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ انسان کو ان باتوں کی تعلیم دی جاسکے جس کا ادراک نری عقل سے ممکن نہیں اس لیے اگر اللہ پر اس کی قدرت کاملہ پر اس کے علم محیط پر اس کے بھیجے ہوئے پیغمبروں پر اور اس کی نازل کی ہوئی کتابوں پر ایمان ہے تو لازماً یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس کے نازل کیے ہوئے ہر حکم کی پوری پوری مصلحت کا بالکلیہ سمجھ میں آجاناضروری نہیں اور اگر اس کا کوئی حکم ہماری محدودعقل ونظر سے ماوراء ہو تو اسے ماننے سے انکار کرنا کوئی معقول طرز عمل نہیں ۔
عقل کا دائرۂ کار:
آخر میں یہ بات ذہن نشین کرلینا ضروری ہے کہ مذکورہ بالا بحث کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ قرآن وسنت پر ایمان لانے کے بعد عقل کا کوئی کام باقی نہیں رہتا ،وجہ یہ ہے کہ انسان کو زندگی میں جن کاموں سے سابقہ پیش آتا ہے ان میں سے ایسے افعال بہت کم ہیں جنھیں شریعت نے فرض،واجب،مسنون ومستحب یا حرام ومکروہ قرار دیا ہو، اس کے مقابلے میں ایسے افعال بے شمار ہیں جنھیں مباح قرار دیا گیا ہے یہ مباحات کا دائرہ عقل کی وسیع جولان گاہ ہے، جس میں شریعت کوئی مداخلت نہیں کرتی ،ان مباحات میں سے کسی کو اختیار کرلینا اور کسی کو چھوڑ دینا عقل ہی کے سپرد کیا گیا ہے، اس وسیع جولان گاہ میں عقل کو استعمال کرکے انسان مادی ترقی اور سائنٹفک انکشافات کا صحیح فائدہ بھی حاصل کرسکتا ہے ،اس کے برعکس احکام الٰہیہ میں دخل اندازی کرنے کا نتیجہ اس کے سوا اور کیا نکلا ہے کہ سائنس اور ٹکنالوجی کی یہ ترقیات جن کو انسانیت کے لیے باعث رحمت ہونا چاہیے تھا ان کا نہ صرف صحیح فائدہ انسان کو حاصل نہیں ہورہا ہے بلکہ بسا اوقات وہ انسان کے لیے ایک عذاب کی صورت اختیار کرگئی ہے ،یہ تمام تر نتیجہ اسی بات کا ہے کہ عقل پر وہ بوجھ لاددیا گیا جو اس کی برداشت سے باہر تھا اور جس کا تحمل انسان سے وحی الہی کے مکمل اتباع کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔
عقلِ سلیم:
عقلِ سلیم کی ضرورت یوں تو دنیا کے ہر کام کہ لیے ہے اور ظاہر ہے کہ پچھلے چار مآخذ سے استفادہ بھی اس کے بغیر ممکن نہیں ہے ،لیکن یہاں اس کو ایک مستقل مآخذ کے طور پر ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قرآن کریم کے اسرار ومعارف ایک ناپید کنار سمندر کی حییثیت رکھتے ہیں ،مذکورہ بالا پانچ مآخذ کے ذریعے اس کے مضامین کو بقدر ضرورت تو سمجھا جاچکا ہے؛ لیکن جہاں تک اس کے اسرار وحکم اور حقائق ومعارف کا تعلق ہے ان کے بارے میں کسی بھی دور میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اب ان کی انتہاء وگئی ہے اور اس سلسلے میں مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں ہے، اس کے بجائے واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم کے ان حقائق واسرار پر غور وفکر کا دروازہ قیامت تک کھلا ہے اورجس شخص کو بھی اللہ تعالی نے علم وعقل اور خشیت اور انابت کی دولت سے نوازا ہو وہ تدبر کے ذریعے نئے نئے حقائق کے مطابق اس باب میں اضافہ کرتے آئے ہیں اور یہی چیز ہے جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے لیے فرمائی تھی :
«اللهُمَّ عَلِّمْهُ التَّأْوِيلَ، وَفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ»۔
ترجمہ:
لیکن اس سلسلہ میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس طرح عقل وفہم سے مستنبط کیے ہوئے وہی حقائق واسرار معتبر ہیں جو دوسرے شرعی اصول اور مذکورہ بالا پانچ مآخذ سے متصادم نہ ہوں اور اگر اصول شرعیہ کو توڑ کر کوئی نکتہ بیان کیا جائے تو اس کی دین میں کوئی قدر وقیمت نہیں ہے۔
[علوم القرآن :۳۴۳]
عقل کے ذریعہ:
قرآن مجید میں فرمایا گیا:
"وَفِیْ الْأَرْضِ آیَاتٌ لِّلْمُوقِنِیْنَo وَفِیْ أَنفُسِکُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَo"۔
ترجمہ:
[سورۃ الذاریات:۲۰،۲۱]
انسان اگر خود اپنے بارے میں اس طرح غور کرے، تو ہرسوال کا جواب خود اس کی عقل یہی دے گی کہ یہ سب کچھ نظر نہ آنے والی ایک قدرت وحکمت والی ہستی نے کیا ہے اور وہی اللہ ہے۔
اور ایک جگہ بڑے عجیب سوالیہ پیرایہ میں فرمایا گیا:
"قَالَتْ رُسُلُہُمْ أَفِیْ اللہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ"۔
یعنی جوشخص زمین کو دیکھتا ہے اور زمین پرجوکچھ ہوتا رہتا ہے اس کوبھی دیکھتا رہتا ہے اور اوپر جو آسمان اور ستارے وغیرہ نظرآتے ہیں ان کو بھی دیکھتا ہے اس کے لیے زمین وآسمان کے خالق کے بارے میں شک کرنے کی گنجائش ہوسکتی ہے؟۔
کائنات کو پیدا کرنے بنانے اور اس کے نشو ونما میں اس لطیف مگر مضبوط نظام پر غور کیجئے کہ کس طرح زندہ ساری کائنات ایک ہی مربوط نظام میں پروئی ہوئی ہے جس سے وہ سوئی کے ناکہ کے برابر ہٹ نہیں سکتی مثلا انسان رحم میں وہ نطفہ ڈالتا ہے پھر اس میں عجیب انداز سے آہستہ آہستہ سارے مرحلے طئے کرتا ہے، جس میں اللہ تعالی کے سوا کسی کا دخل نہیں ہوتا اور پھر ایک مکمل انسان بن کر باہر آجاتا ہے، اس کی پیدائش سے پہلے اور بعد کے حالات بچپن ،جوانی اور پڑھاپے میں عبرت ونصیحت کے بے شمار پہلو ہیں فطرت کے یہ اصول جوانسان وحیوان میں کام کرتے ہیں، درخت وغیرہ کے اندربھی رہتے ہیں اور اسی طرح بلند و بالا آسمان پر چکمتے ہوئے ستاروں میں بھی یہ سب ایک ہی ضابطہ کار کے پابند ہیں اور اس سے باہر نہیں جاسکتے، ایک ہی دھاگے میں پروئے ہوئے ہیں ، جس سے وہ نکل نہیں سکتے اور اگر ایسا ہو جائے تو کائنات تباہ اور زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا۔
عقل کی نظر میں
یہ بات ثابت شدہ ہے کہ اللہ تعالی ہی خالق اور پالنے والا ہے تو عبادت بھی اسی کا حق ہے، ذرا غور فرمائیے کہ رب وہ ہے ، جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے، دیتا ہے اور روک لیتا ہے، نفع ونقصان کا اختیار رکھتا ہے، تو مخلوق کی عبادت کا وہی مستحق ہے کہ وہ اس کی اطاعت کریں ، اس سے محبت کریں ، اس کی تعظیم وتقدیس بجا لائیں، ضروریات میں اسی کی طرف متوجہ ہوں اور اس سے ڈرتے بھی رہیں۔
۲۔ مخلوقات میں ہر چیز کو اللہ تعالی نے پیدا کیا ہے، وہی ان کو روز ی مہیا کررہا ہے، ان کے احوال ومعاملات میں تصرف(ردوبدل) فرماتا ہے، تویہ بات کیسے معقول قراردی جاسکتی ہے کہ مخلوق کے کچھ افراد اپنے ہی جیسی دوسری مخلوقات کی عبادت اور بندگی کرنے لگ میں جائیں ، جبکہ وہ بھی انہیں کی طرح محتاج ہیں؟ مخلوق میں جب کوئی بھی الہ ومعبود بننے کا استحقاق (حق) نہیں رکھتا تو معبود برحق صرف ایک خالق ومالک ہی ہوا۔
۳۔ "صفات کاملہ" (مکمل صفات) مطلق طورپر اللہ عزوجل کے لیے ہی ثابت ہیں، وہ قوی ہے وہ قادر ہے، بلند ہے ، سب سے بڑا ہے، سننے اور دیکھنے والا ہے، شفقت کرنے والا اور مہربان ہے باریک بین اورخبردار ہے۔
اب ایسی ہی ذات کے لیے تعظیم ومحبت بجالائی جاسکتی ہے، ہم اپنے اعضاء وجوارح کو انہی کے سامنےجھکائیں، ایسے ہی صفات پر کامل اترنے والے کے لیے عبادت اوراطاعت قبول کریں نہ کہ ان کے لیے جس کے اندر نقص ہو، کمیاں ہو اور محدود صفات کا حامل ہو ۔
عقل کی نظر میں
عقلی حیثیت سے فرشتوں کا عقیدہ بھی اسی طرح قبول اور انکار کےقابل ہے جس طرح عقلیات کے دوسرے عقائد اور نظرئیے ہیں جن کی تصدیق یا تکذیب عقل کی پہنچ سے باہر ہے، اس لیے اس عقیدہ کو یہ کہہ کر کوئی رد کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا کہ یہ خلاف عقل ہے بلکہ جس طرح قیاسیات اور عقلی نکتہ پردازی سے دوسرے عقلی مباحث کا فیصلہ کیاجا تا ہے، ویسا ہی یہاں بھی کہاجاسکتا ہے، اشیاء میں خصائص اور لوازم کے وجود اور ان کے اسباب و علل کا مسئلہ عقلاء میں ہمیشہ اختلافات کا دنگل بنارہا اور یہ معمہ اب بھی اسی طرح ہے جس طرح پہلے تھا، اس کا حل سائنس کی مادی تحقیقات اورتجربوں کی طاقت سے باہر ہے،اور فلسفہ بھی اس کی گتھی کےسلجھانے سے عاجز ہے، اس لیے اگر حکمائے ملحدین کی شاہراہ سے الگ ہٹ کر اس کےحل کی کوئی صورت مذہب والوں نے نکالی ہے تو وہ محل اعتراض نہیں ہوسکتی اور نہ خلاف عقل کہی جاسکتی ہے، کائنات کے حوادث میں جس طرح مادی علل واسباب کارفرماہیں، اسی طرح ان سے بالاتر روحانی علل واسباب بھی ساتھ ساتھ کارفرما ہیں اور ان دونوں قسم کے اسباب کی مواقفت سے حوادث کا وجود ہوتا ہے، یہی سبب ہے کہ انسان اکثر مادی علل و اسباب موجود ہونے یا نہ ہونے کے باوجود کامیاب یا ناکام ہوتا ہے اور اس کا نام نصیب واتفاق رکھتا ہے حالانکہ مسئلہ علل واسباب کو مان لینے کے بعد نصیب واتفاق کوئی چیز نہیں رہ جاتا، یہی روحانی علل و اسباب ہیں جن کا تعلق اللہ تعالی نے اپنی مرضی سے ان فرشتوں کے سپرد کردیا ہے جو فرما نبردار چاکروں کی حیثیت سے نظام عالم کو چلارہے ہیں، ہمارے اور دوسرے متکلمین اور حکماء کی اصطلاحات میں فرق یہ ہے کہ وہ ملائکہ کی تعبیر اسباب وعلل کے "قوائے طبعی" سے کرتے ہیں اور ہم "قوائے روحانی" سے۔
اس تقریر کا یہ منشاء نہیں ہے کہ اشیاء کے خواص وطبائع اور اس مادہ کی ملکیت میں مقرر طبعی اصول وقوانین موجود نہیں بلکہ یہ مقصدہے کہ اللہ تعالی نے اپنے ازلی اندازہ (تقدیر)کے مطابق ہرچیز کے خصائص اور اصول وقوانین مقرر کرکے ملائکہ کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کو ان ہی اصول وطبائع مقررہ کے مطابق چلاتے رہیں۔
[سیرۃ النبیﷺ :۴/۲۹۰، مصنف:علامہ شبلی نعمانیؒ، علامہ سید سلیمان ندوی]
عقل [اسم] قوت ادراک ہے جس سے غیر محسوسات کا ادراک کیا جاتا ہے ۔ ایک باطنی نور ہے جس سے غیر محسوسات کا ادراک ہوتا ہے، غیر اختیاری غریزہ وجبلت کے مقابل ایک باطنی قوت جو اختیاری طور پر اشیا کا ادراک کرتی ہے اسی وجہ سے کہتے ہیں: انسان عاقل: غوروفکر، استدلال اور تصورات وتصدیقات کو ترکیب دے کر نتیجہ نکالنے والی قوت، وہ قوت جس سے اچھے برے، خیر وشر اور حق وباطل کے درمیان فرق کیا جاتا ہے ۔
عقل سمجھ، قوت تمییز، قوت ادراک ( 2) حافظہ ( 3) دل ( 4) قلعہ، حفاظت گاہ پناگاہ (5) دیت ( تاوان خون ) ( 2) بندش، گرہ، ج: عقول ۔
وحی اور اسکی ضرورت:
ان دونوں کاموں کے لیے انسان کو ’’علم‘‘ کی ضرورت ہے اس لیے کہ جب تک اُسے یہ معلوم نہ ہو کہ اس کائنات کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کی کونسی چیز کے کیا خواص ہیں ؟ ان سے کس طرح فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ؟ اس وقت تک وہ دُنیا کی کوئی بھی چیز اپنے فائدے کے لیے استعمال نہیں کر سکتا، نیز جب تک اسے یہ معلوم نہ لو کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کیا ہے ؟ وہ کون سے کاموں کو پسند اور کن کو ناپسند فرماتا ہے ؟ اس وقت تک اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا ممکن نہیں ،
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ تین چیزیں ایسی پید اکی ہیں جن کے ذریعہ اسے مذکورہ باتوں کا علم حاصل ہوتا رہے ، ایک انسان کے حواس، یعنی آنکھ ، کان ، مُنہ اور ہاتھ پاؤں ، دوسرے عقل اور تیسرے وحی، چنانچہ انسان کو بہت سی باتیں اپنے حواس کے ذریعہ معلوم ہو جاتی ہیں ، بہت سی عقل کے ذریعہ اور جو باتیں ان دونوں ذرائع سے معلوم نہیں ہو سکتیں اُن کا علم وحی کے ذریعے عطا کیا جاتا ہے ،
علم کے ان تینوں ذرائع میں ترتیب کچھ ایسی ہے کہ ہر ایک کی ایک خاص حد اور مخصوص دائرہ کار ہے ، جس کے آگے وہ کام نہیں دیتا ، چنانچہ جو چیزیں انسان کو اپنے حواس سے معلوم ہو جاتی ہیں اُن کا اعلم نِری عقل سے نہیں ہو سکتا، مثلاً ایک دیوار کو آنکھ سے دیکھ کر آپ کو یہ علم ہو جاتا ہے کہ اس کا رنگ سفید ہے، لیکن اگر آپ اپنی آنکھوں کو بند کر کے صرف عقل کی مدد سے اس دیوار کا رنگ معلوم کرنا چاہیں تو یہ نا ممکن ہے ، اسی طرح جن چیزوں کا علم عقل کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے وہ صرف حواس سے معلوم نہیں ہو سکتیں ، مثلاً آپ صرف آنکھوں سے دیکھ کر یا ہاتھوں سے چُھو کر یہ پتہ نہیں لگا سکتے کہ اس دیوار کو کسی انسان نے بنایا ہے ، بلکہ اس نتیجے تک پہنچنے کے لیے عقل کی ضرورت ہے ،
غرض جہاں تک حواسِ خمسہ کام دیتے ہیں وہاں تک عقل کوئی رہنمائی نہیں کرتی ، اور جہاں حواس خمسہ جواب دیدیتے ہیں وہیں سے عقل کا کام شروع ہوتا ہے ، لیکن اس عقل کی رہنمائی بھی غیر محدود نہیں ہے ، یہ بھی ایک حد پر جا کر رُک جاتی ہے ، اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا علم نہ حواس کے ذریعہ حاصل ہو سکتا ہے اور نہ عقل کے ذریعہ ، مثلاً اسی دیوار کے بارے میں یہ معلوم کرنا کہ اس کو کسی طرح استعمال کرنے سے اللہ تعالیٰ راضی اور کس طرح استعمال کرنے سے ناراض ہو گا، یہ نہ حواس کے ذریعہ ممکن ہے نہ عقل کے ذریعہ ، اس قسم کے سوالات کا جواب انسان کو دینے کے لیے جو ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے اسی کا نام وحی ہے ، اور اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کسی کو منتخب فرما کر اسے اپنا پیغمبر قرار دیدیتا ہے اور اس پر اپنا کلام نازل فرماتا ہے ، اسی کلام کو ’’وحی‘‘ کہا جاتا ہے ۔
اس سے واضح ہو گیا کہ وحی انسان کے لیے وہ اعلیٰ ترین ذریعہ علم ہے جو اسے اس کی زندگی سے متعلق اُن سوالات کا جواب مہیا کرتا ہے جو عقل اور حواس کے ذریعہ حل نہیں ہو سکتے ، لیکن ان کا علم حاصل کرنا اس کے لیے ضروری ہے ، اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ صرف عقل اور مشاہدہ انسان کی رہنمائی کے لیے کافی نہیں بلکہ اس کی ہدایت کے لیے وحی الٰہی ایک نا گزیر ضرورت ہے ، اور چونکہ بنیادی طور پر وحی کی ضرورت پیش ہی اُس جگہ آتی ہے جہاں عقل کام نہیں دیتی، اس لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وحی کی ہر بات کا ادراک عقل سے ہو ہی جاۓ، بلکہ جس طرح کسی چیز کا رنگ معلوم کرنا عقل کا کام نہیں بلکہ حواس کا کام ہے ، اسی طرح بہت سے دینی عقائد کا علم عطا کرنا بھی عقل کے بجاۓ وحی کا منصب ہے ، اور ان کے ادراک کے لیے نِری عقل پر بھروسہ کرنا درست نہیں ،۔
جو شخص (معاذ اللہ) خدا کے وجود ہی کا قائل نہ ہو اس سے تو وحی کے مسئلہ پر بات کرنا بالکل بے سود ہے ، لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کے وجود اس کی قدرت کاملہ پر ایمان رکھتا ہے اس کے لیے وحی کی عقلی ضرورت، اس کے امکان اور حقیقی وجود کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں ، اگر آپ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ یہ کائنات ایک قادر مطلق نے پیدا کی ہے ، وہی اس کے مربوط اور مستحکم نظام کو اپنی حکمت بالغہ سے چلا رہا ہے ، اور اسی نے انسان کو کسی خاص مقصد کے تحت یہاں بھیجا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد اُسے بالکل اندھیرے میں چھوڑ دیا ہو، اور اُسے یہ تک نہ بنایا ہو کہ وہ کیوں اس دنیا میں آیا ہے ؟ یہاں اس کے ذمہ کیا فرائض ہیں ؟ اس کی منزل مقصود کیا ہے ؟ اور وہ کس طرح اپنے مقصد زندگی کو حاصل کر سکتا ہے ؟
کیا کوئی شخص جس کے ہوش و حواس سلامت ہوں ایسا کر سکتا ہے کہ اپنے کسی نوکر کو ایک خاص مقصد کے تحت کسی سفر پر بھیج دے ، اور اُسے نہ چلتے وقت سفر کا مقصد بتاۓ ، اور نہ بعد میں کسی پیغام کے ذریعہ اس پر یہ واضح کرے کہ اسے کس کام کے لیے بھیجا گیا ہے ؟ اور سفر کے دوران اس کی ڈیوٹی کیا ہو گی ؟ جب ایک معمولی عقل کا انسان بھی ایسی حرکت نہیں کر سکتا تو آخر اس خداوندِ قدوس کے بارے میں یہ تصور کیا جا سکتا ہے جس کی حکمت بالغہ سے کائنات کا یہ سارا نظام چل رہا ہے ؟ یہ آخر کیسے ممکن ہے کہ جس ذات نے چاند ، سورج ،آسمان ، زمین ، ستاروں اور سیاروں کا ایسا محیر العقول نظام پیدا کی ہو وہ اپنے بندوں تک پیغام رسانی کا کوئی ایسا انتظام بھی نہ کر سکے جس کے ذریعہ انسانوں کو ان کے مقصدِ زندگی سے متعلق ہدایات دی جا سکیں ؟ اگر اللہ تعالٰی کی حکمت بالغہ پر ایمان ہے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس نے اپنے بندوں کو اندھیرے میں نہیں چھوڑا، بلکہ ان کی رہنمائی کے لیے کوئی باقاعدہ نظام ضرور بنایا ہے ، بس رہنمائی کے اسی باقاعدہ نظام کا نام وحی و رسالت ہے ،
اس سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ ’’وحی‘‘ محض ایک دینی اعتقاد ہی نہیں بلکہ ایک عقلی ضرورت ہے ، جس کا انکار در حقیقت اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کا انکار ہے ۔
وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيلَ وَالنَّهارَ وَالشَّمسَ وَالقَمَرَ ۖ وَالنُّجومُ مُسَخَّرٰتٌ بِأَمرِهِ ۗ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَءايٰتٍ لِقَومٍ يَعقِلونَ {16:12} |
اور تمہارے کام میں لگا دیا رات اور دن اور سورج اور چاند کو اور ستارے کام میں لگے ہیں اسکے حکم سے [۱۸] اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کو جو سمجھ رکھتے ہیں |
رات اور دن برابر ایک دوسرے کے پیچھے لگے چلے آتے ہیں تا دنیا کا کاربار چلے اور لوگ سکون و آرام حاصل کر سکیں۔ اسی طرح چاند سورج ایک معین نظام کے ماتحت نکلتے اور چھپتے رہتے ہیں۔ رات ، دن کی آمدو شد اور شمس و قمر کے طلوع و غروب کے ساتھ انسانوں کے بے شمار فوائد وابستہ ہیں۔ بلکہ غور سے دیکھا جائے تو ان کے بدون انسان کی زندگی محال ہے۔ خدا تعالیٰ نے اپنے اقتدار کامل سےچاند سورج اور کل ستاروں کو ادنیٰ مزدوروں کی طرح ہمارے کاموں پر لگا رکھا ہے ۔ مجال نہیں کہ ذرا سستی یا سرتابی کر سکیں۔ لیکن چونکہ رات دن اور چاند سورج سے بالکل صریح طور پر ہمارے کام متعلق ہیں اور دوسرے ستاروں سے ہمارے فوائد و مصالح کی وابستگی اس قدر واضح نہیں ہے، شاید اس لئے ان کو جدا کر کے دوسرے عنوان سے بیان فرمایا ۔ واللہ اعلم۔ |
خلاصہ کلام:
یہ کہ مصنوع (product) کو دیکھ کر صانع (manufacturer) کا تصور ایک بدیہی (intuitive) اور فطری (natural) امر ہے، منکرین خدا ذرا بتلائیں تو سہی کہ دنیا میں کوئی ایسا بھی ہے کہ مکان کو دیکھے اور مکان بنانے والے کا اس کو تصور نہ ہو، کتب کو دیکھے اور کاتب کا تصور نہ ہو؟
عجیب بات ہے کہ دہریہ (atheist) تو عالم کے تغیرات (Variations) اور تنوعات (diversity) کو ایک بے شعور مادّہ (unconscious matter) کی طرف منسوب کرکے حکمت و دانائی کا مدّعی ہے اور جو شخص عالم (world) کے اس عجیب و غریب نظام کو خداۓ حکیم اور قادر و توانا کی طرف منسوب کرتا ہے اس کو ناداں بتلاتا ہے!!! جو شے سراسر عقل اور فطرت کی مخالف ہے، اس کو تو بلا دلیل منوانا چاہتا ہے اور جو شے عین عقل اور فطرت کے مطابق ہے اس کا مزاق اڑاتا ہے.
یہ (اس کی عقل کا) اندھیر نہیں ہے تو اور کیا ہے، خداوند علیم و خبیر کو چھوڑکر ایک اندھے، بہرے، گونگے، بےحس، بےشعور، بےتمیز بلکہ مردہ اور بےجان مادّہ کے ہاتھ میں نظام_عالم کے باگ دے دینا بےوقوفی اور بےتمیزی نہیں تو بتلاؤ پھر کیا ہے. جس طرح یہ بےشعور تھا اسی طرح اس کے پرستار بھی بےشعور نکلے۔
عقل اور وحی:
جس طرح کھانے کے صحیح انتخاب کے لیے انسان ایک ایسی قوت کا محتاج ہے جو اسے میٹھے یا نمکین میں فرق کرا سکے، ایسے ہی شاہراہ حیات پر چلتے ہوئے انسان ایک ایسی قوت کا محتاج ہے جو اسے منزل مقصود کا صحیح تعین کرا سکے۔ اس کے لیے خالق ارض وسماء نے خارج میں انبیائے کرام کے مقدس سلسلے کو جاری فرمایا اور خود انسان کے اندر ایک ایسی قوت رکھی جو اس کو رب تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود تک روک سکے۔ یہ قوّت عقل ہے جو انسان کے لیے صحیح اور غلط کے فرق میں مددگار بنتی ہے اور جو شاہراہ حیات پر راستے کا چراغ بن کر آگے بڑھتے رہنے میں تعاون کرتی ہے۔
خرد سے راہرو روشن بصر ہے
خرد کیا ہے چراغِ راہگزر ہے
درون ِخانہ ہنگامےہیں کیا کیا
چراغ ِراہگزرکو کیا خبر ہے
(اقبال)
عقل عربی زبان کا لفظ ہے۔ عربی میں اونٹ کی رسی کو عِقال کہتے ہیں، کیونکہ اس رسی کے ذریعے اونٹ کو بھاگنے سے روک کر رکھا جاتا ہے۔ عقل ایک حس ہے جو انسان کو غلط راستے پر جانے سے روکتی ہے۔
عقل کی ماہیت پر کلام کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ ؒ لکھتے ہیں کہ عقل وہ چیز ہے جس کے ذریعے انسان اس بات کو پا سکتا ہے جو بات حواس کے ذریعے نہیں پا سکتا۔
مزید لکھتے ہیں کہ عقل کے کاموں میں یقین، شک اور وہم کرنا ہے۔ ہر پیش آمدہ واقعے کے اسباب طلب کرنا اور منافع کے حصول اور ضرر کو دور کرنا شامل ہے۔ (حجۃ اللہ البالغۃ، المقامات والاحوال)
عقل کے وظائف پر گفتگو کرتے ہوئے یہ بات ذہن نشین کر لینی ضروری ہے کہ عقل منزل تک پہنچنے میں معاون ومددگار تو ضرور ہے، لیکن منزل کی تعیین اور پھر اس کے لیے یقینی راستے کے انتخاب میں اکیلی عقل کافی نہیں۔ یہ باتیں عقل کے دائرہ کار سے باہر ہیں، لہذا اس کے لیے وحی کی ضرورت ہے۔
اس کی تشریح کے لیے آنکھ کی مثال مفید رہے گی۔ آنکھ اور اس میں عطاکردہ قوت بینائی ایک حد تک تو مفید ہیں، لیکن پھر اس کے بعد ان کا دائرہ کار ختم ہو جاتا ہے۔ پھر اس سے آگے کے احوال جاننے کے لیے کسی واقف کار کی خبر پرہی اعتماد کرنا ہوگا۔ چنانچہ کسی کہنے والے نے عقل کی اس محدود کارفرمائی کو دیکھ کر کہا:
آزمودم عقل دوراندیش را
بعد ازیں دیوانہ سازم خویش را
یعنی میں دور تک کے معاملات پر نظر رکھنے والی عقل کو آزما چکا، لیکن اس کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہاں تو دیوانہ بن کر(تعلیمات وحی کو مِنْ وعَنْ) مان لینے سے ہی کام چلے گا۔
علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ نے اپنے مقدمے مین عقل کی افادیت کا اعتراف کرتے ہوئے اس کی لاچارگی اورمحدود ہونے کی دل چسپ مثال دی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ عقل کے ذریعے توحید، نبوت، امور آخرت وغیرہ کو پرکھنے کی لالچ کرنا محال ہے،جیسے کوئی شخص سونا تولنے کا وزن دیکھ کر اس کے ذریعے پہاڑ کا وزن کرنا چاہے تو یہ ناممکن ہے(مقدمہ ابن خلدون،بحث علم الکلام، ص 582)۔
عقل کا دائرہ کار محدود ماننے اور عقل کی نفی میں بڑا فرق ہے۔ عقل کو شتر بے مہار کیطرح آزاد چھوڑ دینا ایک انتہاء ہے اور سرے سے عقل کی نفی کر دینا دوسری انتہاء ہے۔ تعلیماتِ وحی کو مکمل مان لینا عقل کی پختگی کی دلیل بھی ہے اور سبب بھی ہے۔ قرآن کریم میں پختہ اہل عقل کے بارے میں فرمایا:
یقیناً آسمانوں اور زمینوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے اختلاف میں البتہ نشانیاں ہیں عقلمندوں کے لیے۔ (یہ وہ لوگ ہیں ) جواللہ تعالی کو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (یعنی ہر حالت میں) یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور وفکر کر تے ہیں۔ (اور پھر اس غور وفکر کے بعد یہ کہتے ہیں) اے ہمارے رب! آپ نے یہ سب کچھ بیکار پیدا نہیں کیا۔ تیری ذات ہر عیب سے پاک ہے، پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔ (آل عمران)
معلوم ہوا کہ جو لوگ ہر حال میں اللہ تعالی کو یاد رکھتے ہیں انہی کی عقل پختہ ہوتی ہے۔ اور جتنا انسان عقیدہ توحید میں راسخ ہوتا جائے گا، اتنا ہی اس کی عقل میں نکھار پیدا ہوتا جائے گا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عقلی دلائل کا شریعت میں کیا مقام ہے؟ احکامات کے ثبوت اور پھر ان پر عمل کرنے میں عقلی دلائل کا کس حد تک اعتبارہے۔ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ عقل اللہ تعالی کی طرف سے عطاکردہ ایک مفید آلہ ہے، جس کے ذریعے انسان اپنے کاموں کو درست طریقے سے سرانجام دے سکتا ہے۔ لیکن عقل کا ایک دائرہ کار ہے، اس سے باہر کی چیزوں کو محسوس کرنے اور ان کے بارے میں کوئی فیصلہ دینے سے عقل قاصر ہے۔ تما م احکام ِشرعیہ حکیمِ مطلق یعنی اللہ تعالی کی طرف سے اتارے گئے ہیں، جن کی بجاآوری کی ذمہ داری بندے پر عائد کی گئی ہے اور جن کی تکمیل میں اس کی کامیابی ہے۔ ان احکامات کو اللہ تعالی کی طرف سے اتارا گیا ہے۔ عقل کے ذریعے کوئی حکم متعین کرکے اپنے آپ کو اس کا پابند کرنا ممکن نہیں۔ ان احکامات کی کچھ تو علتیں ہیں اور کچھ ان کے اسرار اور حکمتیں ہیں۔ عقل کے ذریعے حکم کی حکمت تو معلوم کی جاسکتی ہے، لیکن حکم کی علت جس کی بنیاد پر وہ حکم دیا گیا ہے، نہیں معلوم کی جا سکتی۔ مثلا حج کی فرضیت کی علت خانۂ کعبہ کا وجود ہے۔ خانہ کعبہ کے وجود کی وجہ سے زندگی میں ایک مرتبہ حج فرض کیا گیا۔ جبکہ حج کی حکمتوں میں عالم اسلام کا اجتماع، اللہ تعالی کے لیے قربانی کی صفات پیدا کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
نصوص یعنی قرآن وحدیث کی عبارات کچھ تو وہ ہیں جو قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ ہیں۔ یعنی وہ اپنے ثبوت میں بھی حتمی ہیں اور اپنے معنی پر دلالت کرنے میں بھی حتمی ہیں، ان میں کسی اور معنی کے گنجائش نہیں۔ جبکہ کچھ نصوص وہ ہیں جو قطعی الثبوت تو ہیں، لیکن قطعی الدلالۃ نہیں ہیں بلکہ ظنی الدلالۃ ہیں۔ یعنی ان میں دیگر معانی کا احتمال بھی ہے۔ ان مختلف معانی میں سے ایک کو ترجیح دینے کے لیے اصولیین نے جو اصول وضوابط مقرر فرمائے ہیں وہ قرآن وحدیث کی روشنی میں عقل خداداد کے استعمال سے ہی مقرر کیے ہیں۔ شرعی ماخد میں سے ایک قیاس ہے۔ قیاس میں عقل کا استعمال کرکے ہی ایک سابقہ حکم کی مثال کو سامنے رکھ کر نیا حکم معلوم کیا جاتا ہے۔ یہ قیاس اور اجتہاد کا ہی نتیجہ ہے کہ آج کی دنیا میں بھی اسلام کو ایک قابل عمل ضابطۂ حیات بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ فقہ ِ اسلامی سے لے کر تفسیر ِ قرآن تک عقل سے مدد حاصل کی گئی ہے اور دلائل عقلیہ کے ذریعے شریعت کے احکامت کی حقانیت کو ثابت کیا گیا ہے۔ اکابر مفسرین جیسے امام رازی ؒ کی تفسیر منطقی دلائل سے بھرپور ہے اور منطق کی سوجھ بوجھ کے بغیر اس سے استفادہ نہیں کیا جاسکتا۔ منطق کا اہم مقصد ذہنی بیداری ہے جسے عقل سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ فقہی کتب میں ہدایہ کی مثال دی جا سکتی ہے جس کے مصنف منطقی استدلال کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ علمائے اسلام عقل کا بھر پور استعمال کرتے ہیں۔ تاہم حکم کے ثبوت اور اس پر عمل کے لیے وہ عقل کو فیصل اور حاکم نہیں مانتے۔ لہذا اگر کوئی حکم یا عقیدہ بظاہر عقل کے خلاف نظر آرہا ہو تو وہ اسے تسلیم کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا اظہار نہیں کرتے۔ ان کا سفر بہرحال جاری رہتا ہے اور وہ اس سلسلے میں کسی عقلی توجیہ کے منتظر نہیں رہتے۔
عشق فرموۂ قاصد سے سبک گام عمل
عقل سمجھی ہی نہیں معنئ پیغام ابھی
(اقبالؒ)
اس کی ایک اور معروف مثال حضرت علی رضی اللہ عنہ کا وہ اثر ہے جس میں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر دین عقل کا نام ہوتا تو موزوں کےظاہری (اوپر والے)حصےپر مسح کرنے سے بہتر ہوتا کہ باطنی(نیچے والے) حصے پر مسح کیا جاتا(کیونکہ پیر زمین پر رکھتے ہیں تو پاؤں کا نچلا حصہ لگتا ہے، لیکن اس کے برعکس مسح اوپر کی طرف کیا جاتا ہے) میں نے رسول اللہ ﷺ کو موزوں کے ظاہری حصہ پر مسح کرتے دیکھا ہے(سنن ابی داود کتاب الطہارہ باب کیف المسح )۔اس اثر سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حکم شرعی کا مدار عقل پر نہیں ہے، بلکہ اس بات پر ہے کہ وہ حکیمِ مطلق اللہ تعالی شانہ کی طرف سےہے جس میں یقینا بندوں کی مصلحتوں کی رعایت کی گئی ہے۔
کتب حدیث میں نقل وعقل کا حسین امتزاج امام طحاویؒ کی معانی الآثار میں ملتا ہے۔ امام طحاویؒ ایک ہی مسئلے میں مختلف آثار ایک جگہ لاتے ہیں اور پھر نقلی وعقلی دلائل سے ایک کو ترجیح دیتے ہیں۔ مثلاً امام طحاوی ؒ ایک باب قائم کرتے ہیں : )باب اکل ما غیّرت النار ھل یوجب الوضوء ام لا( : اب اس میں وہ ا حادیث لاتے ہیں جن میں آگ پر پکی ہوئی چیز کے کھانے سے وضوء ٹوٹنے کا معلوم ہو رہا ہے۔ پھر وہ احادیث لاتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ اس کے بعد امام طحاوی ؒ طریق نظر کے عنوان سے عقلی دلیل سے وضوء نہ ٹوٹنے کو ترجیح دیتے ہیں کہ جب آگ پر گرم کیے ہوئے پانی کو نجس نہیں سمجھا جاتا تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے انسان کی طہارت زائل سمجھی جائے۔
عقل اگرچہ ان اشیاء کا ادراک کرلیتی ہے جنہیں حواس خمسہ (دیکھنا، چکھنا، سونگھنا، چھونا، سننا) کے ذریعے معلوم نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن عقل اس کے صحیح یا ٖغلط ہونے کے لیے معیار نہیں ہو سکتی، اس لیے کہ عقل ِانسانی مختلف ہوسکتی ہے۔ ایک انسان اپنی عقل سے جس بات کو درست قرار دے رہا ہے دوسرا انسان اپنی عقل سے اسے غلط قرار دے رہا ہوتا ہے۔ مثلا سرمایہ دارانہ نظام (capitalism ) ایک طبقہ انسانی کی نظر میں بہترین نظام معیشت اور نظام سیاست ہے۔ دولت کو ہر فرد کی ملکیت قرار دے کر اسے ہر قسم کی معاشی سرگرمی کی کھلی چھوٹ دیتا ہے۔ دوسری طرف ایک طبقہ ہے جو اس نظام کو معیشت اور نظام ِحکومت کے لیے تباہ کن قرار دیتا ہے۔ یہ طبقہ دولت کو ذاتی ملکیت قرار دینے کے خلاف ہے۔ اس کی نظر میں ملک کی تمام املاک حکومت کی ہوتی ہیں اور افرادِ معاشرہ اپنی سرگرمیوں میں حکومت کے پابند ہوں گے۔ اب ان دو متضاد انداز فکر کے اوپر ایک تیسری فیصلہ کن قوت درکار ہے اور وہ وحی ہے۔ وحی جو حکیم ِمطلق جل شانہ کی طرف سے نازل کردہ تعلیم ہے وہ بتلائے گی کہ ایک انسان اپنی معاشی سرگرمیوں میں کتنا آزاد ہے اور کتنا پابند ہے۔ وحی ِالہی مال کمانے کیلیئے بھی ایک لائحہ عمل فراہم کرتی ہے اور پھر اس مال کو خرچ کرتے ہوئے بھی رہنمائی دیتی ہے جس کے نتیجے میں ایک فرد سے لے کر معاشرے تک متوازن نظامِ حیات وجود پاتا ہے۔ِ
إِنَّ فى خَلقِ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ وَاختِلٰفِ الَّيلِ وَالنَّهارِ وَالفُلكِ الَّتى تَجرى فِى البَحرِ بِما يَنفَعُ النّاسَ وَما أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّماءِ مِن ماءٍ فَأَحيا بِهِ الأَرضَ بَعدَ مَوتِها وَبَثَّ فيها مِن كُلِّ دابَّةٍ وَتَصريفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحابِ المُسَخَّرِ بَينَ السَّماءِ وَالأَرضِ لَءايٰتٍ لِقَومٍ يَعقِلونَ {2:164} |
بیشک آسمان اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے بدلتے رہنے میں اور کشتیوں میں جو کہ لے کر چلتی ہیں دریا میں لوگوں کے کام کی چیزیں اور پانی میں جس کو کہ اتارا اللہ نے آسمان سے پھر جلایا اس سے زمین کو اس کے مر گئے پیچھے اور پھیلائے اس میں سب قسم کے جانور اور ہواؤں کے بدلنے میں اور بادل میں جو کہ تابعدار ہے اس کے حکم کا درمیان آسمان و زمین کے بیشک ان سب چیزوں میں نشانیاں ہیں عقلمندوں کے لئے [۲۳۰] |
یعنی آسمان کے اس قدر وسیع اور اونچا اور بےستون پیدا کرنے میں اور زمین کے اتنی وسیع اور مضبوط پیدا کرنے اور اس کے پانی پر پھیلانے میں اور رات اور دن کے بدلتے رہنے اور ان کے گھٹانے اور بڑھانے میں اور کشتیوں کے دریا میں چلنے میں اور آسمان سے پانی برسانے اور اس سے زمین کو سرسبز و تازہ کرنے میں اور جملہ حیوانات میں اُس سے توالد و تناسل نشوونما ہونے میں اور جہات مختلفہ سے ہواؤں کے چلانے میں اور بادلوں کو آسمان اور زمین میں معلق کرنے میں دلائل عظیمہ اور کثیرہ ہیں حق تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی قدرت اور حکمت اور رحمت پر ان کے لئے جو صاحب عقل اور فکر ہیں۔ فائدہ { لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ } میں توحید ذات کا اور { الرَّحمٰنُ الرَّحِیْمُ } میں توحید صفات کا ثبوت تھا اور { اِنَّ فِی خَلْقِ } الخ میں توحید افعال کا ثبوت ہوا جس سے مشرکین کے شبہات بالکلیہ مندفع ہو گئے۔ |
سب سے پہلے اس حقیقت کو سمجھنا اور پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ جب ہم ایک مسلمان کے طور پر اللہ تعالیٰ کو اس کائنات کا خالق و مالک، رازق و مدبر اور حکیم و حاکم یقین کرتے ہیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا نمائندہ اور احکام و قوانین میں اس کی طرف سے مجاز اتھارٹی سمجھتے ہیں تو اس یقین و ایمان کی رو سے ہم اس امر کے پابند ہو جاتے ہیں کہ ان کی طرف سے جو حکم بھی آئے اور جو بات بھی کہی جائے، اسے حتمی تصور کریں اور اگر کوئی بات ہماری سمجھ میں نہ آتی ہو تو بھی اللہ تعالیٰ اور ان کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو صحیح اور برحق مانتے ہوئے سمجھ میں نہ آنے کو اپنی عقل کی کوتاہی پر محمول کریں۔ بات وہاں بگڑتی ہے اور اشکال وہیں پیدا ہوتا ہے جب کچھ لوگ یہ طے کر لیتے ہیں کہ ہماری عقل اور سمجھ کسی بات کے صحیح اور حتمی ہونے کا واحد معیار ہے۔ کوئی بات اس کے دائرے میں آئے گی تو ہم قبول کریں گے اور اگر کوئی بات ہماری سمجھ اور عقل کے دائرے میں نہیں آ رہی تو نہ صرف یہ کہ اس کو تسلیم نہیں کریں گے بلکہ اس کی نفی کرنا اور اس کا مذاق اڑانا بھی ضروری سمجھیں گے۔
عقل ایک عمدہ صلاحیت اور قدرت کے عطا کردہ ایک بہترین آلہ کا نام ہے جس کے ذریعے سے ہم اردگرد کے ماحول کو سمجھتے ہیں، اپنی ضروریات کا ادراک حاصل کرتے ہیں، اپنے نفع و نقصان کو پہچانتے ہیں اور علم و دانش میں ارتقا حاصل کرتے ہیں۔ لیکن یہ محض ایک آلہ ہے جو حاصل شدہ معلومات میں سے ایک اچھی ترتیب اور عمدہ نتیجہ نکالنے کے کام آتا ہے، خود اس کے اندر سے کوئی چیز برآمد نہیں ہوتی۔ اس کی مثال ایک کمپیوٹر کی سی سمجھ لیجیے کہ اس میں جو پروگرام فیڈ کریں گے وہ اس کے دائرے میں کام کرے گا، اپنی طرف سے کسی پروگرام کا اضافہ نہیں کرے گا۔ آپ اسے جو پروگرام مہیا کریں گے اسی کے مطابق اس سے کام لے سکیں گے، اور اگر آپ چاہیں کہ فیڈ کیے ہوئے پروگرام سے ہٹ کر کمپیوٹر اپنی طرف سے بھی آپ کو کچھ دے تو کوئی عمدہ سے عمدہ کمپیوٹر بھی ایسا نہیں کر سکے گا۔ اسی طرح کی ایک مثال ملک شیک بنانے والی مشین کی بھی ہے، اس کے اندر صرف یہ صلاحیت ہے کہ جو کچھ اس میں ڈالا جائے اسے مکس کر کے آپ کو ان چیزوں کا جوس پیش کر دے، اپنی طرف سے کوئی چیز وہ اس میں شامل نہیں کرے گا۔ آپ نے جتنی چیزیں اس میں ڈالی ہیں اور جس مقدار میں ڈالی ہیں وہ ان کے مطابق آپ کو نتیجہ دے گا، اور اگر آپ کی خواہش ہو کہ وہ اپنی طرف سے بھی اس میں کوئی چیز شامل کر دے تو یہ آپ کا بھول پن ہوگا۔ بالکل یہی صورتحال عقل کی ہے، وہ ایک عمدہ صلاحیت اور بہترین آلہ ہے، اس کو جو معلومات، مشاہدات، مدرکات اور محسوسات فراہم ہوں گے وہ ان کے مطابق نتائج فراہم کرے گی۔ معلومات و مشاہدات کا دائرہ محدود ہوگا تو نتیجہ بھی محدود ہوگا اور جوں جوں معلومات و مشاہدات اور محسوسات و مدرکات کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا، نتیجہ بھی مختلف ہوتا چلا جائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ جوں جوں انسان کے مشاہدات اور معلومات میں اضافہ ہو رہا ہے اس کی عقل کے فیصلے بھی بدلتے جا رہے ہیں۔ ایک دور تھا جب انسان کی زبان سے صادر ہونے والی گفتگو کے بارے میں یہ محاورہ زبان زد عوام تھا کہ ’’اذا تلفظ تلاشی‘‘ جب کوئی بات منہ سے نکل جاتی ہے تو معدوم ہو جاتی ہے، اس کا کوئی وجود باقی نہیں رہتا۔ اور اسی وجہ سے عقل کی بنیاد پر ہر بات کا فیصلہ کرنے والے حضرات مسلمانوں کے اس عقیدہ پر معترض ہوا کرتے تھے کہ قیامت کے روز انسان کی باتوں کا بھی حساب ہوگا اور اقوال کو بھی میزان پر تولا جائے گا۔ وہ یہ کہتے تھے کہ جب ایک چیز کا وجود ہی باقی نہیں رہا اور وہ فضا میں تحلیل ہو گئی ہے تو اس کا وزن کیسے ہوگا اور وزن کے لیے وہ قابو میں کیسے آئے گی؟ ان کے اس اعتراض کا درست یا غلط ہونا اپنی جگہ پر، مگر یہ اس دور کے معقولات و مشاہدات کی بنیاد پر تھا جب انسانی مشاہدے کی رو سے الفاظ منہ سے نکل کر معدوم ہو جایا کرتے تھے۔ لیکن اب تو منہ سے نکلتے ہی ایک ایک لفظ ریکارڈ ہو جاتا ہے، محفوظ ہو جاتا ہے اور کسی بھی وقت دوبارہ سنا جا سکتا ہے۔ اسی طرح انسان کے اعمال کی بات ہے کہ جب یہ ریکارڈ میں نہیں آتے تھے تو یہی سمجھا جاتا تھا کہ انسان سے کوئی عمل صادر ہو کر فضا میں تحلیل ہو گیا ہے اور اسے دوبارہ وجود میں لانا مشاہدہ سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس لیے قرآن کریم کے اس ارشاد پر بھی اعتراض ہوتا تھا کہ انسان قیامت کے روز اپنے اعمال کو دیکھے گا، لیکن اب انسان کے قول کے ساتھ ساتھ اس کا ہر عمل ریکارڈ میں آ جاتا ہے، محفوظ ہو جاتا ہے اور اسے کسی بھی وقت دوبارہ دیکھا جا سکتا ہے۔
اس مثال سے ہم یہ نکتہ اپنے قارئین کے ذہن میں لانا چاہتے ہیں کہ عقل کا کوئی فیصلہ بھی حتمی نہیں ہوتا۔ عقل کا ہر فیصلہ اس وقت تک اسے میسر آنے والی معلومات و مشاہدات کی روشنی میں ہوتا ہے اور چونکہ معلومات و مشاہدات اور مدرکات و محسوسات میں وسعت و تنوع کا امکان ہر لمحہ موجود رہتا ہے، اس لیے عقل کے ہر فیصلے میں تبدیلی اور تغیر کا امکان بھی ہر وقت موجود رہتا ہے اور عقل کے کسی فیصلے کو کسی وقت بھی آخری اور فائنل قرار نہیں دیا جا سکتا۔
پھر اس حوالے سے ایک اور پہلو پر بھی نظر ڈال لینی چاہیے کہ عقل عام جسے ’’کامن سینس‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، نہ زمانے کے لحاظ سے ایک رہتی ہے اور نہ علاقے کے اعتبار سے ہی اس میں یکسانی پیدا ہو سکتی ہے۔ ہم یہ عرض کر چکے ہیں کہ عقل محض ایک آلہ ہے اور ایک کمپیوٹر ہے جو اس میں فیڈ کیے ہوئے پروگرام کے مطابق ہی نتیجہ دے گا اور پروگرام کی یہ فیڈنگ سوسائٹی کرتی ہے۔ ایک بچہ جب سوچنے سمجھنے کے قابل ہوتا ہے تو اس کے کمپیوٹر کی خالی سی ڈی میں اردگرد کا ماحول اپنا پروگرام فیڈ کرنا شروع کر دیتا ہے جو اس کے سن بلوغ تک پہنچتے پہنچتے مکمل ہو جاتا ہے اور پھر عام طور پر وہ ساری زندگی اسی فیڈ کیے ہوئے پروگرام کے مطابق گزار دیتا ہے۔ ایک انسان کے ذہن کے کمپیوٹر میں پروگرام کی فیڈنگ کا یہ کام سب سے پہلے گھر کی چار دیواری میں ماں باپ کی حرکات و سکنات کی صورت میں ہوتا ہے اور وہی بچے کی ذہنی نشوونما میں سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں جسے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ارشاد میں یوں بیان فرمایا ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، اسے اس کے ماں باپ یہودی بناتے ہیں، عیسائی بناتے ہیں اور مجوسی بناتے ہیں۔ یعنی اس خالی کیسٹ اور سی ڈی میں کسی پروگرام کی فیڈنگ کا کام سب سے پہلے ماں باپ کرتے ہیں، پھر بچہ اسی سانچے میں ڈھلتا چلا جاتا ہے۔ یہ بات عام مشاہدے میں ہے کہ مسیحی ماحول میں پرورش پانے والا بچہ یقیناً یہودی ماحول میں تربیت حاصل کرنے والے بچے سے مختلف ہوتا ہے، اور ہندو خاندان میں جوان ہونے والے بچے کی نفسیات مسلمان خاندان میں جنم لینے والے بچے سے قطعاً مختلف ہوتی ہیں۔ اسی طرح امریکہ کے ماحول میں پرورش پانے والے بچے کی نفسیات اور افتاد طبع افریقی بچے سے مختلف ہوگی، اور عرب ماحول میں نشوونما حاصل کرنے والے نوجوان کی نفسیات اور معقولات چینی ماحول میں نشوونما پانے والے نوجوان سے الگ ہوگی۔
یہ تنوع اور اختلاف اس امر کی واضح دلیل ہے کہ ہر انسان کی عقل نہ صرف یہ کہ میسر آنے والی معلومات اور مشاہدات کی پابند ہے بلکہ اپنے اپنے ماحول کی بھی اسیر ہے۔ اور ان دو باتوں کے موجود ہوتے ہوئے یہ بات کم از کم ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ ’’عقل عام‘‘ کا کوئی ایسا معیار بھی ہو سکتا ہے جو تمام زمانوں اور تمام علاقوں کے لیے یکسانی کا حامل ہو اور جسے پوری نسل انسانی کے لیے کسی ضابطہ و قانون اور فلسفہ و نظام کی بنیاد بنایا جا سکے۔
آج مغرب کے پاس اپنے فکر و فلسفہ کو دنیا سے منوانے کے لیے سب سے بڑی دلیل یہی ’’عقل عام‘‘ اور ’’کامن سینس‘‘ ہے۔ لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ جس عقل عام اور کامن سینس کو واحد عالمی معیار قرار دے کر دنیا سے منوانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ صرف مغرب کی عقل عام ہے اور اسی کا کامن سینس ہے، اس کے معلومات و مشاہدات کا دائرہ باقی دنیا سے مختلف ہے، اس کے مدرکات و محسوسات کی سطح باقی دنیا سے الگ ہے، اور اس کے تاریخی پس منظر اور تجربات کا ماحول دوسری دنیا سے مطابقت نہیں رکھتا۔ مگر وہ صرف سائنس اور ٹیکنالوجی، عسکری قوت اور معیشت و میڈیا کی بالادستی کی قوت پر اپنا مخصوص کامن سینس پوری دنیا پر مسلط کرنے کے درپے ہے۔ میڈیا، لابنگ اور ذہن سازی کے تمام ہتھیار اور ذرائع اس کے کنٹرول میں ہیں اور وہ منہ زور ہاتھی کی طرح دنیا کی ہر ثقافت، فکر اور فلسفہ کو روندتا چلا جا رہا ہے۔
اس لیے ہم اگر اسلامی احکام و قوانین کو ان کے اصل تناظر میں سمجھنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں مغرب کے پھیلائے ہوئے فکر و فلسفہ کے جال کا ادراک حاصل کرنا ہوگا، اس کے وسیع تر پروپیگنڈے کے فریب سے نکلنا ہوگا، اور اس ابدی حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہ انسانی عقل کا اصل مقام کیا ہے اور عقل عام کی اصل حدود اور دائرہ کار کیا ہے۔ اس لیے کہ اگر ہم اپنے عقائد اور بنیادی احکام کے فیصلے اس عقل خاص یا عقل عام کی بنیاد پر کرنے بیٹھ جائیں تو ہر سو سال کے بعد عقائد میں تبدیلی لانا ہوگی اور ہر صدی کے بعد احکام و قوانین میں ردوبدل کرنا ہوگا۔ پھر مختلف علاقوں کے لیے مختلف قوانین ہوں گے اور یہ تصور باقی نہیں رہے گا کہ عقائد و احکام کا کوئی ایسا درجہ اور معیار بھی ہے جو عقل کے آئے دن بدلتے ہوئے فیصلوں سے ماورا ہے اور سب زمانوں کے لیے یکساں طور پر قابل قبول ہے۔ ہمیں عقل اور عقل عام کی افادیت اور کارفرمائی سے انکار نہیں ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی ناشکری کا سوچ بھی نہیں سکتے، لیکن وہ اپنے دائرۂ کار میں رہے گی تو نعمت ہوگی۔ اور اسے اس کے حدود سے نکال کر وحی سے بالاتر قرار دے دیا جائے گا اور وحی کی تعبیر و تشریح اور تفہیم و توضیح میں بھی اسے حتمی معیار اور اتھارٹی تصور کر لیا جائے گا تو یہی نعمت آزمائش اور عذاب کی شکل بھی اختیار کر سکتی ہے۔
اس لیے اصولی گفتگو کے آغاز میں ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو اس طرف توجہ دلانا چاہیں گے کہ ان سوالات کا ضرور سامنا کریں اور انہیں سمجھنے اور سمجھانے کی ضرور کوشش کریں لیکن اس سے پہلے اپنے ایمان و یقین کی بنیاد کا ضرور جائزہ لے لیں کہ کیا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات کو اپنی عقل یا دنیا کی عقل عام پر پرکھنا ضروری ہے؟ اور کیا یہ راستہ فطرت کا راستہ نہیں ہے کہ جو بات سمجھ میں آجائے اس پر خدا کا شکر ادا کریں، اور جو بات ہم نہ سمجھ سکیں اس پر یہ کہتے ہوئے ایمان قائم رکھیں کہ جس طرح بہت سی باتیں پہلے سمجھ میں نہیں آتی تھیں مگر اب سمجھ میں آ رہی ہیں، اسی طرح مشاہدات و معلومات کا دائرہ مزید وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ یہ باتیں بھی ہماری سمجھ میں آ جائیں گی؟
وَفِى الأَرضِ قِطَعٌ مُتَجٰوِرٰتٌ وَجَنّٰتٌ مِن أَعنٰبٍ وَزَرعٌ وَنَخيلٌ صِنوانٌ وَغَيرُ صِنوانٍ يُسقىٰ بِماءٍ وٰحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعضَها عَلىٰ بَعضٍ فِى الأُكُلِ ۚ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَءايٰتٍ لِقَومٍ يَعقِلونَ {13:4} |
اور زمین میں کھیت ہیں مختلف ایک دوسرے (پاس پاس) سے متصل اور باغ ہیں انگور کے اور کھیتیاں ہیں اور کھجوریں ہیں ایک کی جڑ دوسری سے ملی ہوئی اور بعضی بن ملی انکو پانی بھی ایک ہی دیا جاتا ہے اور ہم ہیں کہ بڑھا دیتے ہیں ان میں ایک کو ایک سے میووں میں ان چیزوں میں نشانیاں ہیں انکو جو غور کرتے ہیں [۹] |
یعنی جب مادّہ (Matter) اور طبیعت (Nature) ایک ہے تو پھر پھلوں کے مزوں میں اختلاف کیوں ہے؟ ایک ہی پانی سے نباتات (plants) اشجار (trees) کو سیراب کیا جاتا ہے مگر بایں ہمہ پھلوں میں اختلاف ہے، رنگ اور بو میں ہر ایک علیحدہ ہے، مزہ بھی ہر ایک کا جدا یعنی مادّہ ایک ہے اور اسات مختلف کیوں اور کس نے کیے؟؟؟ بلند آسمانوں کے مقابل پست زمین کا ذکر کیا۔ آسمان کے ساتھ چاند سورج کا بیان ہوا تھا کہ ہر ایک کی رفتار الگ ہے اور ہر ایک کا کام جداگانہ ہے ۔ ایک کی گرم و تیز شعاعیں جو کام کرتی ہیں ، دوسرے کی ٹھنڈی اور دھیمی چاندنی سے وہ بن نہیں پڑتا۔ اسی طرح یہاں زمین کے مختلف احوال اور اس سے تعلق رکھنے والی مختلف چیزوں کا ذکر فرمایا ۔ کہیں پہاڑ کھڑے ہیں کہیں دریا رواں ہیں ، جو میوے اور پھل پیدا ہوتے ہیں ان میں بھی شکل ، صورت ، رنگ ، مزہ چھوٹے بڑے بلکہ نر و مادہ کا اختلاف ہے ۔ کبھی زمین دن کے اجالے سے روشن ہو جاتی ہے کبھی رات کی سیاہ نقاب منہ پر ڈال لیتی ہے۔ پھر طرفہ تماشا یہ ہے کہ چند قطعات زمین جو ایک دوسرے سے متصل ہیں۔ ایک پانی سے سیراب ہوتے ہیں ، ایک سورج کی شعاعیں سب کو پہنچتی ہیں ، ایک ہی ہوا سب پر چلتی ہے۔ اس کے باوجود اس قدر مختلف پھول پھل لاتے ہیں اور باہم پیداوار کی کمی زیادتی کا اتنا فرق ہوتا ہے جو دیکھنے والوں کو حیرت زدہ کر دیتا ہے۔ غور و فکر کرنے والے ان نشانیوں کو دیکھ کر سمجھ لیتےہیں کہ ایک ہی ابر رحمت کی آبیاری یا ایک ہی آفتاب ہدیات کی موجودگی میں انسانوں کے مادی و روحانی احوال کا اختلاف بھی کچھ مستبعد و مستنکر نہیں ہے اور یہ کہ لا محدود قدرت کا کوئی زبردست ہاتھ آسمان سے زمین تک تمام مخلوق کے نظام ترکیبی کو اپنے قبضہ قدرت میں لئے ہوئے ہے۔ جس نے ہر چیز کی استعداد کے موافق اس کے دائرہ عمل و اثر کی بہت مضبوط حد بندی کر رکھی ہے پھر ایسے لامتناہی قدرت و اختیار رکھنے والے خدا کو کیا مشکل ہے کہ ہم کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر دے اور اس عالم کے مخلوط عناصر کی کیماوی تحلیل کر کے ہر خیر و شر کو اس کے مستقر میں پہنچا دے۔ |
فریبِ عقل یا فکری خام خیالی |
|
وَمِن ثَمَرٰتِ النَّخيلِ
وَالأَعنٰبِ تَتَّخِذونَ مِنهُ سَكَرًا وَرِزقًا حَسَنًا ۗ إِنَّ فى ذٰلِكَ
لَءايَةً لِقَومٍ يَعقِلونَ {16:67}
|
اور
میووں سے کھجور کے اور انگور کے بناتے ہو اس سے نشہ اور روزی خاصی [۱۰۰] اس میں
نشانی ہے ان لوگوں کے واسطے جو سمجھتے ہیں (سوچتے ہیں) [۱۰۱]
|
یہاں
{ یَعْقِلُوْنَ } کا لفظ جو عقل سے مشتق
ہے "سَکَرًا" کے تذکرہ سے خاص مناسبت رکھا ہے چونکہ نشہ عقل کو زائل کر دیتا ہے اس لئے اشارہ فرما دیا کہ
آیات کا سمجھنا عقل والوں کا کام ہے نشہ
پینے والوں کا نہیں۔
|
یعنی
ان میووں سے نشہ لانے والی شراب کشید کرتے ہو۔ اور کھانے پینے کی دوسری عمدہ
چیزیں مثلاً شربت ، نبیذ، سرکہ اور خشک خرما یا کشمش وغیرہ ان سے حاصل کرتے ہو۔
(تنبیہ) یہ آیت مکی ہے شراب مکہ میں حرام نہ ہوئی تھی پینے والے اس وقت تک بے
تکلف پیتے تھے ۔ ہجرت کے بعد حرام ہوئی۔ پھر کسی مسلمان نے ہاتھ نہیں لگایا ۔
تاہم اس مکی آیت میں بھی "سکرًا" کے بعد { وَرِزْقًا حَسَنًا } فرما
کر متنبہ فرما دیا کہ جو چیز آئندہ حرام ہونے والی ہے اس پر "رزق حسن"
کا اطلاق کرنا موزوں نہیں۔
|
کیا عقل کا بھی کوئی دائرہ ہوتا ہے؟
وَهُوَ الَّذى يُحيۦ
وَيُميتُ وَلَهُ اختِلٰفُ الَّيلِ وَالنَّهارِ ۚ أَفَلا تَعقِلونَ {23:80}
|
اور
وہی ہے جلاتا اور مارتا اور اسی کا کام ہے بدلنا رات اور دن کا سو کیا تم کو
سمجھ نہیں [۸۷]
|
زندہ
سے مردہ اور مردہ سے زندہ، یا اندھیرے سے اجالا اور اجالے سے اندھیرا کر دینا جس
کے قبضہ میں ہے اس کی قدرت عظیمہ کے سامنے کیا مشکل ہے کہ تم کو دوبارہ زندہ کر
دے اور آنکھوں کے آگے سے ظلمتِ جہل کے پردے اٹھا دے۔ جس کے بعد حقائق اشیاء ٹھیک
ٹھیک منکشف ہو جائیں، جیسا کہ قیامت میں ہو گا۔{ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْد
}۔
|
وَمَن نُعَمِّرهُ
نُنَكِّسهُ فِى الخَلقِ ۖ أَفَلا يَعقِلونَ
{36:68}
|
اور
جس کو ہم بوڑھا کریں اوندھا کریں اس کی پیدائش میں پھر کیا ان کو سمجھ نہیں [۵۶]
|
یعنی
آنکھیں چھین لینا اور صورت بگاڑ کر اپاہج بنا دینا کچھ مستبعد مت سمجھو۔ دیکھتے
نہیں؟ ایک تندرست اور مضبوط آدمی زیادہ بوڑھا ہو کر کس طرح دیکھنے، سننے اور
چلنے پھرنے سے معذور کر دیا جاتا ہے۔ گویا بچپن میں جیسا کمزور و ناتواں اور
دوسروں کے سہارے کا محتاج تھا بڑھاپے میں پھر اسی حالت کی طرف پلٹا دیا جاتا ہے۔
تو کیا جو خدا پیرانہ سالی کی حالت میں ان کی قوتیں سلب کر لیتا ہے، جوانی میں
نہیں کر سکتا؟
|
وَلَئِن سَأَلتَهُم مَن
نَزَّلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَحيا بِهِ الأَرضَ مِن بَعدِ مَوتِها
لَيَقولُنَّ اللَّهُ ۚ قُلِ الحَمدُ لِلَّهِ ۚ بَل أَكثَرُهُم لا يَعقِلونَ {29:63}
|
اور
جو تو پوچھے ان سے کس نے اتارا آسمان سے پانی پھر زندہ کر دیا اس سے زمین کو اس
کے مرجانے کے بعد تو کہیں اللہ نے تو کہہ سب خوبی اللہ کو ہے پر بہت لوگ نہیں
سمجھتے [۹۹]
|
یعنی
مینہ بھی ہر کسی پر برابر نہیں برستا۔ اور اسی طرح حال بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ذرا
دیر میں مفلس سے دولتمند کر دے۔
|
عقل، نبی اورمابعدالطبعیات کاتعلق:
ہمارے یہاں کے ‘عقل پرست’ اتنے عقلمند واقع ہوئے ہیں کہ عقل کی حدود (یعنی یہ کہ مابعدالطبعیاتی مسائل تک عقل کی رسائ ممکن نہیں) سے متعلق خود مغربی فلسفے میں بھی جو باتیں تقریبا دو سو سال قبل طے ہوچکیں (اور اسکے بعد کسی نے انہین چیلنج نہیں کیا) یہ حضرات آج ان طے شدہ علمی حدود سے باہر عقل استعمال کرنے کو عقلمندی سمجھے بیٹھے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ عقل مابعدالطبعیاتی حقائق کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کوئی بھی حکم لگانے سے قاصر ہے، چاہے اثبات میں ہو یا نفی میں۔ یعنی جس طرح خدا آخرت وغیرہ کو عقلی دلائل کی مدد سے قطعیت کے ساتھ ثابت نہیں کیا جاسکتا اسی طرح عقلی دلائل سے انہیں رد بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس میدان تک رسائی صرف “وحی” ہے۔ عقل نبی کے کردار و معجزات کی بنا پر نبی کی صداقت کی گواہی دیتی ہے، اسکے بعد نبی ان امور کے بارے میں جو کہتا چلا جاتا ہے اس پر مہر تصدیق ثبت کرتی چلی جاتی ہے ۔۔۔۔ یعنی نبی کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے نفس کے اندر ظنی عقلی شواہد کی بنا پر نبی کے بتائے ہوئے حقائق کی تصدیق کرتی ہے۔ اس بات کو امام غزالی (رح) نے المستصفی میں کچھ یوں بیان کیا:“عقل نبی کی صداقت کی طرف راھنمائی کرتی ہے، اسکے بعد الگ ہوکر بیٹھ جاتی ہے اور یہ اعتراف کرتی ہے کہ اللہ اور آخرت کے بارے میں نبی جو کچھ کہے گا اسے قبول ہے کیونکہ وہ از خود انکا ادراک کرنے سے قاصر ہے اور نہ ہی انکے محال ہونے کا فیصلہ کرسکتی ہے۔ عقل اپنے طور پر اس کا ادراک نہیں کرسکتی کہ اطاعت آخرت میں سعادت کا باعث ہے اور گناہ شقاوت کا لیکن وہ اسکے خلاف حکم لگانے کی اہل بھی نہیں۔ البتہ معجزہ جس کی صداقت پر دلالت کرتا ہے اسے سچا ماننے کا فیصلہ دے سکتی ہے اور مخبر صادق جب ان امور کی خبر دے تو انکی تصدیق کرتی ہے”
امام (رح) ‘التفرقۃ بین الاسلام و الزندقۃ’ میں علم الکلام پر فخر کرنے والے گروہ کے بارے میں فرماتے ہیں (دھیان رھے امام بذات خود ایک نہایت بلند مرتبہ متکلم تھے):
”جو شخص یہ گمان کرتا ھے کہ ایمان کا ماخذ علم کلام، مجرد دلیلیں اور وہ منطقی تقسیمات ہیں جو علم کلام میں مرتب ہیں تو وہ شخص راہ راست سے دور ھے۔ ایمان ایک ایسا نور ھے کہ اللہ اس کو اپنے بندے کے دل میں بطور عطیہ اور ھدیہ کے کبھی تو ایک ایسی باطنی تنبیہہ کے ذریعے القا کرتا ھے کہ جسکی تعبیر ممکن نہیں، اور کبھی بذریعہ خواب کے دیکھنے کے اور کبھی کسی نیک آدمی کے حال کے مشاھدے اور اسکی صحبت کے ذریعے سے اسکی طرف نور ایمان کی سرایت ھوتی ھے اور کبھی قرینہ حال کے ذریعے ….. اس امر کا انکار نہیں کہ متکلمین کی طرف سے عقلی دلیلوں کا ذکر کرنا بعض انسانوں کے حق میں ایمان کیلئے ایک سبب ھے مگر ایمان کا حصول محض انہی ادلہ متکلمین پر موقوف نہیں۔ سب سے نفع آور کلام وہ ھے جو طریقہ وعظ پر جاری ھو جیسے کہ قرآن، مگر جو کلام طریقہ متکلمین پر تحریر کیا گیا ھے وہ طریقہ وعظ نہیں بلکہ طریقہ جدال پر ھے تاکہ مخالفین اس سے عاجز آجائیں نہ اس لئے کہ وہ نفسہہ حق ھے۔ اور بعض اوقات علم کلام عام آدمی کیلئے عناد قلبی کے استحکام کا ذریعہ بن جاتا ھے اور یہی وجہ ھے کہ تو کبھی متکلمین یا فقہاء کے مناظروں میں کسی شخص کو اعتزال یا بدعت سے تائب ھوتا نہیں دیکھتا …… وہ ایمان جو کلامی دلیلوں سے حاصل ھوتا ھے ضعیف اور ہر نئے شبہ سے تزلزل کے کنارے پر واقع ھوتا ھے۔ ایمان محکم وہ ھے جو عوام الناس کو زمانہ طفولیت میں تواتر سماع یا بعد از بلوغ ایسے قرآئن سے حاصل ھوتا ھے جنکی تعبیر ممکن نہیں۔ اور ایمان کا پورا پورا محکم ھونا عبادت اور ذکر الہی سے ھوتا ھے ….. ور اسکی نشانی (بحوالہ حدیث) دار غرور سے کنارہ کشی اور دار خلود کی طرف مائل ھونا ھے”(التفرقۃ بین الاسلام و الزندقۃ)
ایمان کی بے قدری کے اس دور میں اس متاع عظیم کو ہلکا اور خفیف بتانے کیلئے یہ عجیب و غریب دلیل پیش کی جاتی ہے کہ ”مورثی ایمان کی کوئی اہمیت نہیں، تم مسلمان کے گھر پیدا ھوگئے اور بس، اس میں تمہارا کیا کمال، اس میں فخر کی کیا بات؟”گویا اگر خدا اپنے کسی بندے پر کوئی خاص عنایت اور مہربانی کردے تو اس میں شکر کرنے کی بات ہی کیا ہے! خدا نے کسی کو آنکھ و کان اور اس جیسی بہت سی نعمتوں سے نوازا اور کسی کو ان سے محروم رکھا، تو کیا جسے یہ نعمتیں ملیں اس کیلئے یہ بے حدو حساب شکر و سپاس کا مقام نہیں؟ اسی طرح اگر خدا کسی کو اھل ایمان کے گھر پیدا کرکے اس کیلئے قبول ایمان کو سہل بنا کر جنت کا راستہ آسان کردے تو کیا یہ معمولی بات ہے؟ اگر ایمان کی دولت واقعی اس کائنات کی عظیم ترین نعمت ہے، محمد ﷺ کا امتی و غلام کہلانا واقعی فخر کی بات ہے تو کیا خدا کی طرف سے ان نعمتوں کا سہل طریقے سے مل جانا سب سے بڑھ کر شکروسپاس کا مقام نہیں؟ تو اسے ہلکا بتانے کا کیا مطلب؟ یہ تو خوشی منانے (سیلیبریٹ کرنے) کی جاہ ہے۔
آج کچھ “زیادہ کھلے ذھن” کے مفکرین پائے جاتے ہیں جو یہ کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں کہ میں نے اپنے بچے کو مذھب وغیرہ کے معاملے میں آزاد چھوڑ دیا ہے کہ وہ سب کچھ پڑھ لکھ کر اور پرکھ کر آزادانہ طور پر جو چاہے اختیار کرلے، یہ بھلا کوئی بات ہے کہ ہم اس معاملے میں اپنی اولاد پر “جبر” کریں؟ان سے کوئی پوچھے کہ کیا تم نے اپنے بچوں کو کھانے پینے سے متعلق بھی ایسی ہی آزادی دے رکھی ہے کہ ھیروئن و چرس سمیت ہر چیز کھا پی کر پرکھ کر فیصلہ کرلے کہ اسے کیا کھانا اور کیا نہیں؟ اور کیا تم اس کے دنیاوی “کیرئیر” کے بارے میں بھی ایسا ہی “کھلا ذھن” رکھتے ہو کہ سارے سکول، ورکشاپیں اور دکانیں وغیرہ گھوم پھر کر فیصلہ کرلے کہ اسے زندگی میں کیا کرنا ہے؟ آخر تم یہاں کھلے ذھن کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے؟
بات صرف اتنی سی ہے کہ جس چیز کو تم “واقعی” برا سمجھتے ہو اپنی بھرپور کوشش کرتے ہو کہ تمہاری اولاد اس سے محفوظ رہے اور جسے “واقعی” اچھا سمجھتے ہو اسے اپنی اولاد تک پہنچانے کے لئے اپنی ہر توانائی و ذریعہ استعمال کرتے ہو۔ چونکہ “ایمان” نامی متاع عظیم کی تمہاری نظر میں خاص وقعت ہی نہیں رہی اور کفر جیسی قبیح شے تمہارے نفس پر بار گراں نہیں رہی تو تم اس معاملے میں “عدم ترجیح” (indifference) کا “دانش ورانہ” رویہ اختیار کئے پھرتے ہو۔ ذرا سنو کہ وہ خدا جس کی بات پر تم ایمان لائے ہو اس نے تم پر کیا ذمہ داری عائد کی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَهْلِيکُمْ نَارًا۔
الحاد کا فروغ ایک پراسس کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس کے ابتدائی مبلغین مذھب کی روایتی تعبیر سے بغاوت کرنے والے ہوا کرتے ہیں۔ ملحدین کی ابتدائی نسل کنفیوژن کا شکار ہوتی ہے، یعنی فکری طور پر وہ ملحد ہوتے ہوئے بھی خود کو ملحد نہیں سمجھتے کہ ملحد ہونا خود ان کی اپنی نظر میں معیوب ہوتا ہے۔ ان کی پہلی نسل معاشرے کے غالب مذھبی خیالات کے خلاف ڈر کے مارے کھل کر بولنے سے اعراض کرتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے آج کل مغربی معاشروں میں لوگ جھاد کے حق میں بات کرنے سے ڈرتے ہیں۔ مستقبل کے تاریخ دان ان نسلوں کے بارے میں اپنے اپنے انداز میں یہ ثابت کرتے رہتے ہیں کہ آیا وہ مذھبی تھے یا ملحد۔
وَمِن ءايٰتِهِ يُريكُمُ
البَرقَ خَوفًا وَطَمَعًا وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّماءِ ماءً فَيُحيۦ بِهِ الأَرضَ
بَعدَ مَوتِها ۚ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَءايٰتٍ لِقَومٍ يَعقِلونَ
{30:24}
|
اور
اسکی نشانیوں سے ہے یہ کہ دکھلاتا ہے تمکو بجلی ڈر اور امید کے لئے [۲۳] اور
اتارتا ہے آسمان سے پانی پھر زندہ کرتا ہے اس سے زمین کر مر گئے پیچھے اس میں
بہت پتے ہیں ان کے لئے جو سوچتے ہیں [۲۴]
|
یعنی
اسی سے سمجھ لو کہ مرے پیچھے تمہارا پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔
|
بجلی
کی چمک دیکھ کر لوگ ڈرتے ہیں کہیں کسی پر گر نہ پڑے۔ یا بارش زیادہ نہ ہو جائے
جس سے جان و مال تلف ہوں۔ اور امید بھی رکھتے ہیں کہ بارش ہو تو دنیا کا کام
چلے۔ مسافر کبھی اندھیرے میں اس کی چمک کو غنیمت سمجھتا ہے کہ کچھ دور تک راستہ
نظر آ جائے۔ اور کبھی خوف کھا کر گھبراتا ہے۔
|
عقل اور وحی
بلاشبہ دین کے انتخاب کے بارے میں عقل کو حق دیا گیا ہے کہ وہ اس کے اصول و مبادیات کی جانچ اور تحقیق کرے پھر چاہے تو اسے قبول کرے اور چاہے تو رد کر دے کیونکہ دین کے اختیار کرنے میں کوئی مجبوری نہیں لیکن دین کو قبول کرنے کے بعد عقل کو ہرگز یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ اس کے اہم اور بنیادی عقائد و نظریات جو وحی کی صورت میں اسے ملے ہیں، پر ہی ہاتھ صاف کرنا شروع کر دے بلکہ اسے اب وحی کے تابع ہو کر چلنا چاہیے اور یہ اتباع اندھی عقیدت کے طور پر نہیں بلکہ علی وجہ البصیرت ہونا چاہیے۔ لہذا ہمارے خیال میں عقل کے کام مندرجہ ذیل قسم کے ہونے چاہییں۔
· وحی کے بیان کردہ اصول و احکام کے اسرار اور حکمتوں کی توضیح و تشریح
· احکام کے نفاذ کے عملی طریقوں پر زمانہ کے حالات کے مطابق غور کرنا اور پیش آمدہ رکاوٹوں کو دور کرنا۔ مثلاً وحی نے اگر سود کو حرام کر دیا ہے تو عقل کا کام یہ ہونا چاہیے کہ وحی کی حدود کے اندر اس کو ختم کرنے کے لئے حل پیش کرے۔ پھر اگر عقل سود یا اس کی بعض شکلوں کو حرام سمجھنے کی بجائے اس کو حلال بنانے کے حیلے سوچنے لگے تو عقل کے استعمال کا یہ رخ قطعاً صحیح قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ بات طے شہدہ ہے نص یا کتاب و سنت کے واضح احکام کی موجودگی میں اجتہاد یا بالفاظ دیگر عقل کا [غلط] استعمال قطعاً حرام ہے۔
· موجودہ دور کے نظریات کے مقابلہ میں وحی کے نظریات کی برتری ثابت کرنا اور ان کو مدلل طور پر پیش کرنا اور اگر موجودہ نظریات سے عقل خود مرعوب ہو کر وحی میں کانٹ چھانٹ اور اس کی دور از کار تاویلات کر کے اس کے واضح مفہوم کو بگاڑنے کی کوشش کرے گی تو اس کا یہ کام دین میں تحریف شمار کیا جائے گا۔
· تحریف شدہ ادیان پر اسلام کی برتری اور فوقیت کو دلائل سے ثابت کرنا اور بیرونی حملوں کا دفاع کرنا۔
· نفس و آفاق کی وہ آیات جن میں غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔ ان میں تحقیق و تفتیش کر کے انہیں آگے بڑھانا اور ان سے مطلوبہ فوائد حاصل کرنا جن کی پہلے وضاحت کی جا چکی ہے۔
یہ اور اس جیسے کئی دوسرے کام ہیں جن میں عقل سے کام لیا جا سکتا ہے۔ اسی لئے تو اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر سے فرمایا کہ اعلان کر دیجیے کہ:
قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنْ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِكِينَ (یوسف 12:108)
کہہ دیجیے کہ میرا راستہ تو یہی ہے کہ میں اور میرے پیروکار خدا کی طرف سمجھ بوجھ کی بنیاد پر دعوت دیتے ہیں اور اللہ تعالی پاک ہے اور میں مشرکوں سے نہیں۔
پھر وہی لوگ جو ذہنی طور پر جدید فلسفہ یا سائنسی نظریات سے مرعوب ہو جاتے ہیں۔ محض اس لئے کہ وحی اس کی ہمنوا نہیں ہوتی تو وہ وحی سے انکار کر بیٹھتے ہیں۔ ان کے متعلق فرمایا:
بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ كَذَلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ (یونس 10:39)
بلکہ جس چیز کے علم پر یہ قابو نہ پا سکے، اس کو جھٹلا دیا حالانکہ ابھی اس کی حقیقت ان پر کھلی ہی نہیں۔ اسی طرح ان سے پہلے لوگ بھی جھٹلاتے رہے۔
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سائنس کے نظریات ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ ایک دور میں ایک نظریہ قبول عام کا شرف حاصل کرتا ہے تو تھوڑی مدت کے بعد اس کی تردید شروع ہو جاتی ہے۔ پھر ایک تیسرا نظریہ سامنے آتا ہے۔ اب بتائیے کہ وحی آخر کون سے نظریہ کا ساتھ دے؟ اور کیا باقی ادوار میں اس کو جھٹلا دیا جائے؟ اس بات کو ہم ایک مثال سے واضح کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔
چوتھی صدی قبل مسیح میں یونان کے مفکر بطلیموس نے [یہ نظریہ پیش کیا کہ زمین کائنات کا مرکز ہے اور سورج اس کے گرد گردش میں ہے۔ اہل کلیسا نے اس نظریے کو اپنے مذہب کا جزو بنا کر عقائد کا حصہ بنا دیا] مصر، یونان، ہند اور یورپ میں پندھرویں صدی عیسوی تک اسی نظریہ کی تعلیم دی جاتی رہی اور 1800 سال تک یہ نظریہ دنیا بھر میں مقبول رہا۔۔۔ بعد ازاں اٹلی کے ایک مفکر گلیلیو (1564-1642) نے زمین کو مرکز تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔۔۔ چنانچہ پادریوں نے اسے مذہب کے خلاف مسائل قرار دے کر اسے مجرم گردانا اور وہ جیل میں ڈال دیا گیا۔ بعد ازاں سر آئزک نیوٹن (1643-1727) نے کوپر نیکس کے نظریہ کو درجہ تحقیقات پر پہنچایا۔۔۔۔
لہذا جدید نظریات صرف اسی صورت میں قابل قبول سمجھے جائیں گے جب کہ وہ وحی سے مطابقت رکھتے ہوں۔۔۔۔۔ بعض لوگ انہی جدید نظریات سے مرعوب ہو کر قرآن میں تاویل و تحریف یا نئی تعبیر پیش کر کے بزعم خود قرآن کو اپنے دور کی علمی سطح کے مطابق لانے کی کوشش میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ کوئی دینی خدمت نہیں ہوتی بلکہ اس سے الحاد اور ذہنی انتشار کی راہیں پیدا ہو جاتی ہیں۔
(مصنف: عبدالرحمٰن کیلانی، "آئینہ پرویزیت" سے انتخاب)
فاضل مصنف نے وحی اور عقل کے باہمی تعلق سے متعلق جو تفصیلات پیش کی ہیں، اس میں ایک بات قابل غور ہے۔ مجرد عقل کی یہ خامی ہوتی ہے کہ یہ جذبات سے مغلوب ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی انسان شہوت سے مغلوب ہو جائے تو اس کی عقل شہوت پرستی کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے میں مشغول ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص غصے اور انتقام کے جذبات میں جل رہا ہو تو اس کی عقل اسے انتقام کے شدید طریقے سکھاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ڈارون کا نظریہ جو کہ بعد کی تحقیقات میں غلط ثابت ہوا، اپنے دور میں بہت مقبول ہوا کیونکہ اہل مغرب کلیسا کے خلاف انتقام کے جذبات سے مغلوب تھے۔ گویا یہ حمایت عقل کے تحت نہیں بلکہ غصے اور انتقام کے جذبات کے تحت کی گئی۔ جب یہ نظریہ غلط ثابت ہوا تو اہل مغرب کے ہاں اس نظریے سے کوئی عوامی توبہ سامنے نہیں آئی۔ حالانکہ اگر اہل مغرب عقل کے اتنے ہی دلدادہ ہوتے تو انہیں برملا اعلان کرنا چاہیے تھا کہ ہم نے ڈارون کے نظریے کے نتیجے میں خدا کا انکار کر کے ایک اجتماعی غلطی کی ہے، جس سے ہم اب توبہ کر کے خدا کی حقانیت کو تسلیم کرتے ہیں۔
ان میں سے بعض سائنسدانوں اور فلسفیوں جیسے انتھونی فلیو، جان میڈکس اور ایچ پی لپسن نے انفرادی طور پر یہ اعتراف کیا ہے کہ بہرحال کائنات کا انٹیلی جنٹ ڈیزائن یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق موجود ہے۔ اس کی تفصیل آپ میری تحریر "الحاد جدید کے مغربی اور مسلم معاشروں پر اثرات" میں دیکھ سکتے ہیں۔
عقل کو وحی کے تابع کر دینے سے یہ مسئلہ ختم ہو جاتا ہے کیونکہ اب عقل، جذبات سے مغلوب نہیں بلکہ خالص عقل بن جاتی ہے۔ خالص عقل اور وحی میں کبھی بھی تعارض پیدا نہیں ہوتا۔ وحی کی کوئی بات ایسی نہیں ہے جس کی عقل تردید کر سکے۔ اسی طرح عقل کا کوئی بھی ثابت شدہ کلیہ یا قانون ایسا نہیں ہے جو وحی کے خلاف ہو۔
اگر کسی کو بظاہر عقل اور وحی میں کہیں تضاد نظر آئے تو وہاں دو صورتیں ہوا کرتی ہیں: یا تو عقل کا پیش کردہ نظریہ قانون نہیں ہوتا بلکہ محض ایک نظریہ ہی ہوتا ہے۔ یا پھر جس چیز کو وحی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہوتا ہے وہ کوئی انسانی نظریہ ہی ہوتا ہے جسے وحی کی شکل دے دی گئی ہوتی ہے۔ مصنف کی بیان کردہ مثال میں بطلیموس کا نظریہ ایک انسانی نظریہ ہی تھا جسے ارباب کلیسا نے مذہب کا حصہ بنا کر وحی کی حیثیت سے پیش کر دیا تھا۔
غور فرمائیے!
· ملحدین خدا کا انکار کیوں کرتے ہیں؟ کیا ان کے پاس کوئی ایسا ثبوت موجود ہے جس سے وہ یہ ثابت کر سکیں کہ اس کائنات کا کوئی خالق موجود نہیں ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو وہ خدا کا انکار کیوں کرتے ہیں؟
· مصنف نے انسانی عقل کا جو کردار بیان کیا ہے، اس کی روشنی میں اپنی شخصیت کا جائزہ لیجیے کہ آپ کیا کردار ادا کرنا پسند کریں گے؟
اپنے جوابات بذریعہ ای میل اردو یا انگریزی میں ارسال فرمائیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔
ضَرَبَ لَكُم مَثَلًا مِن
أَنفُسِكُم ۖ هَل لَكُم مِن ما مَلَكَت أَيمٰنُكُم مِن شُرَكاءَ فى ما
رَزَقنٰكُم فَأَنتُم فيهِ سَواءٌ تَخافونَهُم كَخيفَتِكُم أَنفُسَكُم ۚ كَذٰلِكَ
نُفَصِّلُ الءايٰتِ لِقَومٍ يَعقِلونَ
{30:28}
|
بتلائی
تم کو ایک مثل تمہارے اندر سے دیکھو جو تمہارے ہاتھ کے مال ہیں ان میں ہیں کوئی
ساجھی تمہارے ہماری دی ہوئی روزی میں کہ تم سب اس میں برابر رہو خطر رکھو ان کا
جیسے خطرہ رکھو اپنوں کا یوں کھول کر بیان کرتے ہیں ہم نشانیاں ان لوگوں کے لئے
جو سمجھتے ہیں [۳۰]
|
یعنی
شرک کا قبح و بطلان سمجھانے کے لئے اللہ تعالیٰ خود تمہارے ہی احوال میں سے ایک
مثال نکال کر بیان فرماتا ہے۔ وہ یہ کہ تمہارے ہاتھ کا مال (یعنی لونڈی غلام) جن
کے تم محض ظاہری اور مجازی مالک ہو کیا اپنی روزی اور مال و متاع میں جو حق
تعالیٰ نے دے رکھی، تم ان کو برابر کا شریک تسلیم کر سکتے ہو جس طرح مشترک اموال
و جائداد میں اپنے بھائی بند حصہ دار ہوتے ہیں اور ہر وقت کھٹکا رہتا ہے کہ
مشترک چیز میں تصرف کرنے پر برہم ہو جائیں یا تقسیم کرانے لگیں یا کم از کم سوال
کر بیٹھیں کہ ہماری اجازت اور مرضی کے بدون فلاں کام کیوں کیا۔ کیا ایسا ہی
کھٹکا ایک آقا کو اپنے غلام یا نوکر کی طرف سے ہوتا ہے۔ اگر نہیں تو سمجھنا
چاہئے کہ جب جھوٹے مالک کا یہ حال ہے اس سچے مالک کو اپنے غلام کی کیا پروا ہو
سکتی ہے جس کو تم حماقت سے اس کا ساجھی گنتے ہو۔ ایک غلام تو آقا کی مِلک میں
شریک نہ ہو سکے حالانکہ دونوں خدا کی مخلو ق ہیں اور اسی کی دی ہوئی روزی کھاتے
ہیں۔ مگر ایک مخلوق بلکہ مخلوق در مخلوق، خالق کی خدائی میں شریک ہو جائے؟ ایسی
مہمل بات کوئی عقل مند قبول نہیں کر
سکتا۔
|
عقل کا استعمال
ابھی تک سر پہ اپنے بوجھ وہ ڈھویا کہاں ہوں میں
از:جناب عزیز بلگامی
ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ چند صدیوں سے دنیائے انسانیت سائنس اور ٹکنالوجی کی بے پناہ ترقیوں کے ثمرات سے خوب استفادہ کررہی ہے۔ ان ترقیوں کے درمیان دنیا نے یہ منظر بھی دیکھا کہ دنیا کی بعض قومیں اُبھررہی ہیں اور بعض دوسری قوموں کی سیادت و قیادت اور عظمت و رفعت کا سورج ڈوب رہا ہے۔ زیادہ وقت نہیں گذرا جب دنیا کے اسٹیج پر کچھ تہذیبیں ابھریں اور کچھ کا زوال شروع ہوا۔ تحقیقی نظر رکھنے والے ایک انصاف پسند اور ایک آزاد انسان کے ذہن میں یہ سوالات ابھرتے رہتے ہیں کہ آخر دنیا کا خالق اور مالک کن وجوہات کی بنا پر کسی قوم کو اٹھاتا ہے اور کسی قوم کو پیوندِ خاک کردیتا ہے! ظاہر ہے کہ اس کا کوئی کام مصلحت سے خالی نہیں ہوسکتا۔ اس دست بستہ راز کی عقدہ کشائی اُس وقت ہوتی ہے، جب کوئی صاحب فکر انسان قرآن حکیم کی اکیسویں سورة الانبیاء کی دسویں آیت پر رک کر سوچنے لگتا ہے:
”انسانو! بیشک ہم نے نازل کی ہے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب، جس میں تمہارا تذکرہ موجود ہے، کیا اب بھی تم عقل کا استعمال نہیں کروگے؟“
آیت کا آخری حصہ پڑھ کر ایک صاحب فکر انسان دفعتاً چونک جاتا ہے کہ عقل کے استعمال پر خالق کائنات نے کس قدر زور دیا ہے۔! دنیا کی کسی اور کتاب میں عقل کے استعمال کی ایسی کسی ترغیب کی نظیر نہیں ملتی۔ کبھی کبھی میں خود بھی سوچتا رہ جاتا ہوں کہ آخر کیا بات ہے کہ جس کتاب پر میں ایمان رکھتا ہوں، انسانی عقل کو دعوت دینے والی یہ اور ایسی تمام آیتوں کی تلاوت کرتا ہوں، ان سے اب تک کیسے لاپرواہ رہا۔! کہیں ایسا تو نہیں کہ جس طرح کا برتاؤ میں نے اس کتاب مقدس کے ساتھ اب تک روا رکھا، شاید اُسی کے یہ نتائج ہوں کہ آج تک میں نے عقل کا استعمال کیا، نہ دنیا کو کچھ دینے کے قابل بنا۔ عصر حاضر کے تیز رفتار گھومتے پہیہ میں میری کوئی وقعت نظر نہیں آتی۔! اجتماعی زندگی میں کوئی مجھ سے کسی Policy Making کے سلسلے میں پوچھتا تک نہیں کہ کسی معاملے میں تمہاری تجویز کیا ہے اور تم کس رائے کے حامل ہو۔! کبھی کبھی تو یہ احساس کچوکے لگانے لگتا ہے کہ کہیں مجھے اس زمین کا بوجھ تو تصور نہیں کیا جارہا ہے۔! بڑا کرب ہوتاہے یہ سوچ کر کہ میری حیثیت اس دنیا میں ایک عضوے ناکارہ کی سی ہوکر رہ گئی ہے کہ جسے ساری دنیا مل کر کاٹ دینا چاہتی ہے تاکہ یہ دنیا میرے وجود سے خالی ہوجائے۔
حیرت انگیز مگر خوشگوار سوال ایک اور بھی ابھر کر سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ مجھے مٹائے جانے کے سارے جتن کامیابی سے ہمکنار کیوں نہیں ہورہے ہیں؟ یہ سوال ایسا ہے کہ یہ مجھے غور وفکر یا دوسرے الفاظ میں عقل کے استعمال پر آمادہ کرتا ہے کہ اب تو کم از کم مجھے اپنی عقل کو زحمت دینی ہوگی۔ یوں لگتا ہے جیسے کوئی وجہ ایسی ضرور ہے جس کی بنیاد پر روئے زمین سے ابھی تک ہم نہیں مٹائے جاسکے ہیں اوریہ کہ اب تک ہمارا وجود باقی ہے۔ قدرت کے اصول کبھی تبدیل نہیں ہوتے۔ ولن تجد لسنة اللّٰہ تبدیلا۔
عقل کے استعمال پر غور وفکر کا سلسلہ چلا تو تیرویں سورة الرعد کی ستراویں آیت کا مضمون یاد آیا جسے بطور یاد دہانی یہاں ہم درج کرتے ہیں: ”نازل کیا اللہ نے آسمان کی بلندیوں سے بارش، سو بہہ نکلے ندی نالے اپنی اپنی مقدار میں اور اٹھالایا بہاؤ جھاگ یا کچرا پھولاہوا اور معدنیات سے زیورات اور قیمتی کار آمد اشیاء بنانے کیلئے جب آگ میں تپایا جائے تو اُس میں بھی اسی طرح جھاگ ابھرتا ہے۔ اس طرح بیان کرتا ہے اللہ حق اور باطل کو۔ تو جو جھاگ یا کچرا ہوتا ہے وہ چلاجاتا ہے سوکھ کر اور جو نفع بخش ہوتا ہے انسانوں کے لئے، ٹھہراؤ دیتا ہے، establish کرتا ہے اسے زمین میں، اس طرح بیان کرتا ہے اللہ مثالیں۔“
بڑی آسانی سے سمجھ میں آنے والی یہ بات ہے کہ اللہ دنیا میں ان لوگوں کو ہی دوام اور بقا عطا کرتا ہے جو انسانیت کے لئے نفع بخش ہوں۔ تھوڑی سی ذہنی مشقت کے بعد یہ حقیقت کھل جاتی ہے کہ دنیا کو دینے کے لیے گوکہ میرے پاس بظاہر کچھ نہیں رہ گیا ہے، مگر ایک چیز بہرحال ایسی ہے جو صرف میرے ہی پاس ہے اور دنیا کی قومیں اپنی تمام تر ترقیوں کے علی الرغم اس گرانقدر نعمت سے محروم ہیں اور وہ ہے کتاب اللہ اور وحی الٰہی کی نعمت جو آیاتِ قرآن مجید کی شکل میں آج بھی پوری حفاظت کے ساتھ زندہ و تابندہ، ہماری تحویل میں ہیں۔ شاید ہم صفحہ ہستی سے اسی لیے نہیں مٹ رہے ہیں کہ اتفاقاً ایک امانت ایسی ہے جو ہمارے پاس رہ گئی ہے جسے دنیا کے اُن انسانوں تک ہمیں پہنچانا ہے جو اس سے محروم رہ گئے ہیں۔
پہاڑوں نے جسے ڈھونے سے معذوری جتائی تھی
ابھی تک سرپہ اپنے بوجھ وہ ڈھویا کہاں ہوں میں (عزیز بلگامی)
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جو نعمت ہمارے پاس موجود ہے، اُس کے فہم وادراک کے لیے عقل ہی کی ضرورت تھی، جسے شاید ہم نے استعمال نہیں کیا۔ یہی مجرمانہ کوتاہی تھی جو دنیا کی موجودہ بے راہ روی کی ذمہ دار بن گئی۔ اب تو کم از کم ہمیں عقل کے موجودہ تعطل کو توڑنا چاہیے، تاکہ ہم اُس منطقی نتیجے پر پہنچ سکیں جہاں کتاب اللہ ہمیں پہنچانا چاہتی ہے۔ زیر نظر مضمون اسی مقصد کے لیے لکھا گیا ہے کہ ہم اپنی عقل کے استعمال کی اہمیت کو پہچانیں، کہ فی الواقع ہمیں اپنی عقل کو کیسے، کس کے لیے اور کیوں استعمال کرنا ہے۔ خصوصاً آیات قرآنی کے مطالعے کے دوران عقل کا استعمال ناگزیر ہے۔ مذکورہ آیت شریفہ میں رب تعالیٰ نے انسانوں سے فرمایا کہ ہم نے ایسی کتاب نازل کی، جس میں تمہارا تذکرہ موجود ہے۔ پھر انسانوں کو دعوت دی کہ وہ اپنی عقل اور ذہانت کا استعمال کریں۔
یہ کہنا کہ اس کتابِ برحق میں تمہارا تذکرہ موجود ہے، دراصل اشارہ ہے اس حقیقت کی طرف کہ جس دور میں بھی کتاب نازل کی گئی اُس کا موضوع صرف ”انسان“ اور ”اس کی ہدایت“ رہا ہے۔ رب تعالیٰ کی مخاطبت بھی ایک انسان ہی سے رہی ہے اور اسی کے ذکر سے مالکِ کائنات نے اپنی اس کتاب کو معمور فرمایا۔ رب کائنات کا انسانوں سے یہ کہنا کہ میری کتاب میں تمہارا تذکرہ موجود ہے، ایک ایسا بیان ہے کہ انسانوں کو چونک جانا چاہئے۔ اس لئے کہ اپنے تذکرے کی طرف متوجہ ہونا انسانی فطرت کا خاصہ ہے۔ فرض کیجیے کہ کوئی دوڑتے ہوئے آئے اور ہمیں یہ اطلاع دے کہ آج کے اخبار میں آپ کے بارے میں کوئی خبر شائع ہوئی ہے یا پھر خود اخبار کا مدیر یہ اطلاع دے کہ ہمارے اخبار میں آپ کا تذکرہ موجود ہے تو ہم تصور کی آنکھ سے اپنی اُس کیفیت کو دیکھ سکتے ہیں جو اس خبر کے ردّ عمل میں ہم پر طاری ہوسکتی ہے۔ ہم بے چین ہو اُٹھیں گے کہ دیکھیں، آخر ہمارے بارے میں کیا لکھا گیا ہے! اب یہی بات کتابِ ہدایت میں ہو تو نہ جانے کیوں اسی نوعیت کی بے چینی ہم میں پیدا نہیں ہوتی کہ معلوم کریں کہ ہمارے خالق نے اپنی کتاب میں ہمارا کیا تذکرہ فرمایا ہے۔
اگر ایسی بے چینی کسی انسان میں پیدا ہوتی تو وہ دیکھتا کہ اُس کی اپنی زندگی کی حقیقت کیا ہے، کس مقصد حیات کو اُسے اپنانا ہے اور اُس کے اپنے انجام کے بارے میں کیا خبر ہے جو پیشگی طور پر اُسے دی جارہی ہے۔ پھر اس کے معاً بعد یہ سوال کہ جب تمہارا ذکر اس میں موجود ہے تو پھر تم عقل کا استعمال کیوں نہیں کرتے؟ اگر نعمتِ عقل کا تم استعمال کرتے تو تم دیکھتے کہ قرآن شریف کی نورانی روشنی تمہاری شخصیت کے ایک ایک پہلو کو منور کرتی جارہی ہے۔ تم پر یہ عقدہ کھلتا کہ تم اس زمین کے مستقل باشندے نہیں ہو، بلکہ تم کہیں سے آئے ہو اور ایک دن اس مقامِ عارضی سے، جسے تم کرہٴ ارض کہتے ہو، چھوڑ کر نقل مکانی کرنی ہے۔ تمہارا یہ کوچ یکے بعد دیگرے اور فرداً فرداً ہوگا۔ گویا تم میں سے ہر انسان اپنی پیدائش کے ساتھ اپنی واپسی کا ٹکٹ Return Ticket اپنے ساتھ لایا ہے، جس میں اس کی واپسی کی تاریخ، روانگی کا وقت اور مقام درج ہے۔ قطع نظر اس سے کہ وہ نہیں جانتا کہ کب، کہاں اور کس وقت وہ یہاں سے کوچ کرے گا، گویا اُس کے اندراجات پر ایک پٹی چپکی ہوئی ہے، جسے وقت آنے پر اسکریچ کردیا جائے گا۔ اس حقیقت کو کتاب اللہ کی دسویں سورة کی چھپنویں آیت میں رب تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے: ”وہی رب ہے جو زندگی دیتا ہے اور وہی موت بھی دیتا ہے اور اُسی کی طرف تمہیں لوٹ کر جانا ہے۔“
اس آیت میں بھی انسان ہی موضوعِ تذکرہ ہے۔ زمین پر ہر انسان کو یہ آزادیٴ اختیار حاصل ہے کہ اُس کا من چاہے تو وہ قدرت کے قانون کی پابندی کرے اور نہ چاہے تو من چاہی زندگی گذارے، لیکن اُس پر یہ حقیقت واضح رہنی چاہیے کہ بہرحال ایک مقررہ مدت کے بعد اسے لازماً اپنے مالک کی بارگاہ میں جواب دہی کرنی ہے۔ وفاشعاری اُس سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اس آزادیٴ اختیار کا بے جا استعمال نہ ہو۔ قانون اور قاعدے کے تحت زندگی گزرنی چاہیے۔ اس لیے کہ تسلیم و رضا کا تقاضہ یہی ہے کہ جس نے زندگی دی، اُسی کے قانون کا اتباع انسان کا فریضہ بن جائے اور اسی کا یہ استحقاق بھی ہو کہ موت کی راہ سے وہ اپنی مخلوق کو جس لمحہ واپس طلب کرنا چاہے، کرے۔
عقل سے جب بھی پوچھا جائے گا کہ کس کا قانون زمین پر جاری وساری ہوتو یہی جواب ملے گا کہ جس نے اس دنیا کو پیدا کیا، بس اُسی ہستی کا قانون چلنا چاہیے۔ عقل خود یہ دلیل فراہم کرے گی کہ چونکہ کائنات کی ساری قوتیں اُسی کے نظام اور اُسی کے احکام کی بجا آواری میں مصروف ہیں جو ساری کائنات کے جملہ اسباب و متاع کا مالک ہے۔ جس کے قبضہ قدرت میں سارے انسانوں کی جان ہے۔ جو مالک ہے حیات کا بھی اور موت کا بھی۔ پھر یہی عقل اس ضرورت کا احساس دلائے گی کہ خالق کے قانون کو دیکھا جائے، اسے پڑھا جائے اور سمجھا جائے، اس پر غور و فکر کیا جائے اور اس پر عمل کی راہیں تلاش کی جائیں۔ رہی بات عملی مظاہرہ کے لیے کسی نمونہ کی تو آخری رسول صلى الله علیہ وسلم کا اسوہٴ حسنہ اور مثالی کردار ہمارے سامنے ہے۔ تینتیسویں سورة کی اکیسویں آیت میں رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”بیشک تمہارے لئے زندگی کے ہر پہلو میں اللہ کے رسول صلى الله علیہ وسلم میں ایک مثالی کردار اور اسوہٴ حسنہ موجود ہے۔“ نیز اڑسٹھویں سورة کی چوتھی آیت میں آپ صلى الله علیہ وسلم کے تعلق سے ارشاد فرمایاگیا: ”بلاشبہ آپ صلى الله علیہ وسلم اخلاق کے عظیم معیار پر (متمکن) ہیں۔“
آنحضرت صلى الله علیہ وسلم کے اسوہٴ حسنہ، اُن کا کردار وگفتار، ان کی نشست و برخاست، ان کی خاموشی وگفتگو، اُن کی ذات وصفات، اُن کی معاشی وکاروباری زندگی، اُن کی ذاتی و اجتماعی زندگی، غرض کہ اُن کی شخصیت کے ہر پہلو کا معروضی مطالعہ Objective Study کی جائے تو یہ معلوم کرنے میں دیر نہیں لگے گی کہ اخلاق وعمل، کردار و گفتار کے کسی بھی معیار پر آپ صلى الله علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ایک مینارہٴ نور کی طرح ہے۔ ایک ایسی بلند قامت شخصیت کے جسے چشم فلک نے کرہٴ ارض پر کبھی نہیں دیکھا۔ بیک وقت آپ صلى الله علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ایک بہترین مقرر، ایک عظیم فلسفی و قانون ساز، ایک بلند حوصلہ فوجی کمانڈر، ایک بہترین منتظم، ایک مشفق والد، ایک مثالی شوہر، ایک عظیم عوامی رہنما، ایک عظیم سیاسی منتظم وغیرہ کا مجموعہ نظر آتی ہے۔ دل و دماغ کو فتح کرنے والی ایک ایسی شخصیت جو عقل کے دروازوں کو مسلسل وا کرتی چلی جاتی ہے۔ خیالاتِ خام اور فرسودگیوں کی قاطع بن کر اُبھرتی دکھائی دیتی ہے، انسانیت کو توہمات پر مبنی نظریات سے نجات دلاتی نظر آتی ہے۔ جس نے تصویروں اور بتوں کے آگے سر جھکانے کی رسم کو بیخ وبن سے اُکھاڑدے اُس کا لازمی تقاضہ یہی تھا کہ وہ بالآخر دنیا کی اکثریت کے دل و دماغ پر حکومت کرے۔ ایک سدا بہار ایمانی سلطنت کے بانی کی طرح۔ انسانوں کی معلوم تاریخ ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔
کردار کی ان ساری جہتوں میں ایک قدر مشترک یہ نظر آتی ہے کہ یہ ایک پیکرِ رحمت کا کردار ہے، جس کی رحمت انسانوں پر چھائی ہوئی ہے۔ اس مرحلے پر ہمیں جائزہ لے کر دیکھنا چاہیے کہ اپنے نبی صلى الله علیہ وسلم کی طرح، جن کی اتباع کا ہم دعویٰ کرتے نہیں تھکتے، کیا ہم بھی ساری انسانیت کے لئے رحمت بنے ہوئے ہیں؟ یا دنیا ہمارے وجود کو ایک زحمت سمجھنے لگی ہے؟ اکیسویں سورة کی ایک سو ساتویں آیت میں رب تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ: ”ہم نے آپ کو سارے جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔“ اسی طرح اخلاق کے اعلیٰ معیار کو قائم کرنے والے رول ماڈل کی پیروی اور اسوہٴ حسنہ کی اتباع کرنے کے لئے۔ اللہ تعالیٰ نے تیسری سورة کی ایک سو بتیسویں آیت میں یہ حکم ارشاد فرمایا کہ: ”اور اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول صلى الله علیہ وسلم کی، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔“ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہمارے پاس رب العالمین کی کتاب اور رسول اکرم صلى الله علیہ وسلم کے اسوہٴ حسنہ کی شکل میں منبع ہائے ہدایت موجود ہیں۔ ایک طرف زندگی گزارنے کا ایک پورا پیکیج ہے تو دوسری طرف اس کا Practical Application بھی موجود ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی کے ہر پہلو پر ہدایت کے اس پیکیج کو منطبق کریں گے توبلاشبہ ہماری عقل و شعور کے لیے ہر زمانے میں فکر ونظر کے نئے نئے اسباق ملتے چلے جائیں گے۔
آج ساری دنیا انگشت بدنداں ہے کہ حدود اربع کے اعتبار سے ایک وسیع و عریض ملک یعنی ارض العرب، جہاں کی شرح خواندگی تقریباً نہیں کے برابر تھی، کیوں کر محض تیئس سال کے عرصے میں سوفیصد ہوجاتی ہے! غور کیا جائے تویہ نبوی طریقہٴ کار ہمارے سامنے آتا ہے کہ پہلے تو آپ صلى الله علیہ وسلم نے ہر انسان کو مساوی درجہ عطا فرمایا، پھر کسب علم کو نہ صرف عوامی حیثیت بخشی بلکہ ساتھ ساتھ اسے ایک دینی فریضہ بھی بنایا پھر اس پر مستزاد یہ کہ ہر انسان کو آپ صلى الله علیہ وسلم نے عقل کے استعمال کی دعوت دی۔ یہی سبب تھا کہ انسانیت کے جوہر چمک اٹھے اس لیے کہ آپ صلى الله علیہ وسلم کی نظر میں یہ کام اس قدر اہم تھا کہ آپ صلى الله علیہ وسلم نے اُسے اپنی ترجیحات میں سب سے اوپر رکھا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ہر انسان اپنی ذات میں اللہ کا ایک منفرد شاہکار ہے۔ اتنا منفرد کہ اس سانچے میں ابھی تک کوئی مخلوقِ خداوندی ڈھلی ہی نہیں اور نہ قیامت تک کسی کے ڈھلنے کا امکان ہے۔ پھر انسانوں میں بھی ان کے چہروں کی بناوٹ الگ، رنگ و روپ الگ، زبان اور اُن کی نسل الگ، اخلاق و آداب Etiquettes اور قدوکاٹھ اور استطاعت وصلاحیت الگ ، حتیٰ کہ انگلیوں کے نشان کے اعتبار سے بھی انسان ایک دوسرے سے الگ خلق کیے گئے ہیں۔ رب کی صناعی کی داد دیجیے کہ جسے جس سانچے میں چاہا ڈھال دیا، مگر کسی دوسرے کی تخلیق کے لیے اُسی سانچے یا پیمانے کی اُسے ضرورت ہی نہ رہی۔ بالکل اسی طرح ہر انسان کے لیے رب تعالیٰ نے مخصوص جوہر بھی متعین فرمائے۔ تاکہ اس کی شخصیت کو نکھرنے اور اس کے کردار کو سنورنے کا موقع ملے۔ اسے مساویانہ عزت و عظمت سے نوازا جائے۔ اس کی عزت نفس اور اس کے احساسِ حریت کو وہ رتبہ دیا جائے جس کا وہ حقدار ہے اور اس کی ذہنی صلاحیتوں کو اس کے اپنے تجربات کی روشنی میں پھلنے پھولنے کا موقع میسر آئے۔
رسول کریم صلى الله علیہ وسلم کے اسورہٴ حسنہ میں ہم یہ بھی پائیں گے کہ آپ صلى الله علیہ وسلم نے اپنے ہر رفیق کو اپنی ذات اقدس سے فیض اٹھانے کے بھرپور مواقع عنایت فرمائے، بلکہ بحران کے حالات میں بھی آپ صلى الله علیہ وسلم نے اس طرزِ عمل کو ترک نہیں کیا۔ مثلاً، جنگِ احزاب کے موقع پر جب حضرت سلمان فارسی رضی الله تعالى عنه نے اپنے تجربہ اور اپنی سوچ کی بنیاد پر جب کوئی مشورہ دینا چاہا تو آپ صلى الله علیہ وسلم نے اُسے بحران کے حالات کے درمیان قبول فرماکر فارس کے ایک غیر مقامی نیک نفس کو وہ شرف بخشا اور وہ عزت افزائی فرمائی کہ تاریخ مساویانہ سلوک کے ایسے گرانقدر واقعات سے اکثر خالی ہی نظر آتی ہے۔ اسی طرح حضرت بلال رضی اللہ عنہ جیسے ہزاروں صحابہ کرام رضوان الله تعالى علیہم اجمعین کو، اُس وقت کے معاشرے میں عزت وعظمت کا کوئی موقع میسر آنا، تاریخ کا ایک نادرِ روزگار واقعہ ہے۔ کیونکہ اُس وقت کے جاہلیت زدہ معاشرے میں ایسے انقلابِ فکر و نظر کا کوئی امکان تک موجود نہیں تھا۔ تاہم حضرتِ بلال رضی الله تعالى عنه کو عظمت و جلالت کا وہ مقام میسر آتا ہے کہ وہ قیامت تک شرفِ صحابیت کے ایک مسلّم مقام پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ اہل ایمان کے نورِ نظر بن جاتے ہیں۔
لفظ عقل جسے ہم عقل عام Common Sense یا انسانی ذہانت بھی کہہ سکتے ہیں، خود قرآن شریف کا لفظ ہے۔ یہ لفظ جو کتاب اللہ میں تقریباً اُنتالیس مرتبہ استعمال ہوا ہے اور رب العالمین نے تواتر کے ساتھ تمام انسانیت کو اپنی کتاب میں عقل کے استعمال کی دعوت بھی دی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ رب تعالیٰ کو اپنے وہ بندے مطلق پسند نہیں جو عقل کے استعمال سے گریز کرتے ہیں۔ اسی لئے رب تعالیٰ نے پچیسویں سورة کی چوالیسویں آیت میں نہایت سختی کے ساتھ فرمایا: ”کیا تم سمجھتے ہو کہ ان کی اکثریت، سماعت کا یا عقل کا استعمال کرتی ہے؟ نہیں، بلکہ یہ تو محض جانور ہیں، یا ان سے بھی زیادہ بدتر۔“
کلام اللہ میں بار بار جو الفاظ آتے ہیں لعلکم تعقلون، افلا تعقلون، لقوم یعقلون، فہم لا یعقلون، اکثرہم لا یعقلون، ان الفاظ پر مشتمل آیتیں انسانی عقل کو بھی اور انسانی ذہانت Intellect کو بھی دعوت دیتی ہیں، تاکہ ہم میں سوچ کا عمل جاری و ساری ہوجائے۔ کامن سنس کے استعمال کی ہماری عادت بنے۔ اس طرح ہم انسانی عقل کی قدر و قیمت کے ساتھ اس کے استعمال کا سلیقہ بھی سیکھ لیں۔ انسانی سوچ کا یہ عمل دراصل اس کی ساری ترقیات کا ضامن ہے۔ دنیوی ترقی کا دارومدار بھی اسی پر ہے اور اپنی ہمیشہ کی زندگی کی ترقی کے رازہائے دست بستہ بھی اسی فکر و عمل کے ذریعے کھلنے شروع ہوں گے۔ شرط یہ ہے کہ عقل کو کتاب اللہ اوراسوة الرسول صلى الله علیہ وسلم کی روشنی میں استعمال کیا جائے، چاہے معاملاتِ دنیا ہوں کہ معاملاتِ دینی۔
کتاب اللہ میں ہے کہ بار بار کی یاددہانی کے بعد بھی جو انسانی ذہن، سوچنے، سمجھنے اور تجربہ و تجزیہ کرنے اور اپنی ذہانت اور عقل عام کو استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں تو ان کے حق میں رب تعالیٰ کی بڑی سخت وعیدیں ہمیں قرآن مجید میں ملتی ہیں مثلاً آٹھویں سورة کی بائیسویں آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”بیشک اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق وہ لوگ ہیں، جو گونگے ہیں، بہرے ہیں، جو عقل کا استعمال نہیں کرتے۔“ ایسے ہی سخت الفاظ مگر دوسرے انداز میں سورہٴ یونس کی سونمبر کی آیت کے آخر میں فرمائے کہ: ”اور اللہ گندگی میں پڑے رہنے دیتا ہے ان لوگوں کو جو عقل کا استعمال نہیں کرتے۔“
دیگرمخلوقات سے انسانوں کا امتیاز محض عقل کے استعمال کی بدولت ہے، اوراس وجہ سے ہے کہ انسان کو اس کے خالق نے ذہانت کا مالک بنایا ہے۔ کتاب اللہ میں بکثرت مقامات پر اس پر بڑا زوردیا گیا ہے۔ ظاہر ہے انسان کے اوصاف یا اس کی کمیوں، اس کی نفسیات و کوائف سے اس کے پیدا کرنے والے سے زیادہ بہتر طور پر کون واقف ہوسکتا ہے! وہ نہ صرف انسان کی کمزوریوں کو جانتا ہے؛ بلکہ اس کے بہکنے اوراپنی راہ کھوٹی کرنے کے اسباب و علل اور Situation اور مواقع سے بھی وہ خوب واقف ہے۔ انسان کی ہوس ولالچ، تمنا وطمع، حرص و آرزو کو بھی اس کا رب خوب جانتا ہے۔ انسان کے من موجی چنچل دل کو بھی وہ خوب جانتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ وہ پیش بندیاں کیا ہیں جن سے طمع و حرص کے دروازے بند کیے جاسکتے ہیں اوراس کی شخصیت میں نکھار اوراس کے کردار میں مضبوطی آسکتی ہے۔ اس کی حیات میں سدھار اوراس کی زندگی سے آشنا ہوسکتی ہے۔ یہ اور ایسی ساری چیزوں کا احاطہ ہمارے مالک نے اپنی کتاب میں بڑے احسن طریقے سے کررکھا ہے۔
رب تعالیٰ نے الکتاب سے استفادہ کے لئے جن دو شرطوں کو مقدم کیا ہے، اُن میں سے ایک تو یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی سب سے بڑی نعمت یعنی اُسے بخشی گئی عقل یا ذہانت یا عقل عام کو استعمال میں لائے اور دوسرے یہ کہ رسول اکرم صلى الله علیہ وسلم کے پیش کردہ نظام اور اُن کے اخلاق و کردار کی پیروی اور ان کے اُسوہٴ حسنہ کی اتباع کرے۔ کتابِ ہدایت کا کمال یہ ہے کہ ایک ایک انسان کی فرداً فرداً تربیت کرتی ہے، تاکہ ایسے افراد پر مشتمل ایک ایسا گروہ تیار ہوجائے جو اپنی ذمہ داری کے احساس سے مزین ہو، اپنے فرائض سے اُسے واقفیت ہوجائے۔ اس میں دوسروں کے حقوق ادا کرنے کا سلیقہ آئے۔ اس لئے کہ کلام اللہ میں انسان کو بتادیا گیا ہے کہ کیا کیا کرنا ہے اور کیا کیا نہیں کرنا ہے۔ تسلسل کے ساتھ ذاتی تلاوت میں، نمازوں میں، خطبات میں، تراویح میں، عیدین میں، غرض کہ ہر لحظہ اور ہر مقام پر اس کے کانوں سے یہ یاد دہانی گذرتی ہی رہے۔ تاکہ ہر فرد اپنی ذات کی حد تک اپنی گمراہیوں کودفع بھی کرتا رہے اور اپنے سدھار کے سامان بھی وہ خود ہی کرتا رہے۔ اس لئے کہ انسان اپنا محتسب آپ ہے۔ وہ خود کو اچھی طرح پہچانتا ہے۔ سورہ القیامہ میں چودہ اور پندرہ نمبر کی آیت میں فرمایاگیا: ”انسان کو اپنے آپ پر پوری بصیرت حاصل ہے۔ یہ بات دیگر ہے کہ وہ عذر، تاویلات اور بہانے پیش کرتا رہتا ہے۔“
کوئی بیرونی قوت یا قانون کا کوئی شکنجہ انسان کو سدھارنے میں کبھی مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوا۔ ایک ہی طریقہ ایسا ہے جس کے سبب اس میں کامیابی کا فیصد بڑھ سکتا ہے اور وہ ہے، انسان کا خود اپنی جانب سے اپنی ذات کا احتساب! اگر وہ خود چاہے تو اس کی اصلاح ممکن ہے۔ یہی ہے جسے کتاب اللہ میں ”تقویٰ“ کا نام دیاگیا ہے۔ اس کا عملی نمونہ بھی کتاب اللہ نے پیش کیا ہے۔ روزہ جیسی عبادت کو فرض کرتے ہوئے سورة البقرة میں فرمایا: ”روزے کے عمل سے تم میں تقویٰ کا سلیقہ آئے گا۔“ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو انسان خود ہی اپنے نفس اور اپنی خواہشات پر خود ہی پابندی لگاکر ہی پورا کرسکتا ہے۔ ایک انسان کو روزہ پورا کروانے پر دنیا کی کوئی طاقت، کوئی قانون اور کوئی پولیس قادر نہیں ہوسکتی۔
تقویٰ، احتساب اور اپنی ذات کے تجزیہ کا عمل، ایک عمل مسلسل ہے۔ احتساب کے مراحل کا آغاز اگر زندگی میں جاری نہیں ہوا ہے تو انہیں جاری کرنا ہوگا۔ از خود اپنی ذات پر پیش بندیاں و پابندیاں لگانی ہوں گی۔ اس طرح بصیرت اور عقل جیسی قدرتی نعمتوں کے استعمال کی ترغیب و تاکید کتاب اللہ میں ہمیں بار بار ملتی ہے اور ان کے صحیح استعمال کے سلسلے میں کی جانے والی لاپرواہی پر رب تعالیٰ کی ناراضی بھی ہمارے سامنے ہے۔ اپنی شخصیت کے نکھار کے لئے، اپنی ذات کی تعمیر کے لئے ایک نسخہ، ذہانت کی شکل میں سارے انسانوں کو دیاگیا ہے۔ ہر شخص اپنی عقل کی صلاحیت کا، عقل عام کا اور ذہانت کا بھرپور استعمال کرے۔ عقل کے استعمال کے ساتھ اللہ کی کتاب اور نبی کریم صلى الله علیہ وسلم کا اسوہٴ حسنہ اور کردار سامنے ہوتو نہ صرف ہماری یہ دنیا کردار کے حسن وجمال سے آراستہ ہوجائے گی بلکہ دنیا کے ساتھ ساتھ، ہماری آخرت بھی سنورجائے گی۔
_______________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 5، جلد: 92 ، جمادی الاولی 1429 ہجری مطابق مئی 2008ء
أَمِ اتَّخَذوا مِن دونِ
اللَّهِ شُفَعاءَ ۚ قُل أَوَلَو كانوا لا يَملِكونَ شَيـًٔا وَلا يَعقِلونَ {39:43}
|
کیا
انہوں نے پکڑے ہیں اللہ کے سوائے کوئی سفارش والے [۵۷] تو کہہ اگرچہ ان کو
اختیار نہ ہو کسی چیز کا اور نہ سمجھ [۵۸]
|
یعنی
بتوں کی نسبت مشرکین دعویٰ رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں ان کے سفارشی ہیں
۔ ان ہی کی سفارش سے کام بنتے ہیں۔ اسی لئے انکی عبادت کی جاتی ہے۔ سو اول تو
شفیع ہونے سے معبود ہونا لازم نہیں آتا۔ دوسرے شفیع بھی وہ بن سکتا ہے جسے اللہ
کی طرف سے شفاعت کی اجازت ہو اور صرف اس کے حق میں شفاعت کر سکتا ہے جس کو خدا
پسند کرے۔ خلاصہ یہ کہ شفیع کا مأذون ہونا اور مشفوع کا مرتضٰی ہونا ضروری ہے۔
یہاں دونوں باتیں نہیں ۔ نہ اصنام (بتوں) کا ماذون ہونا ثابت ہے نہ کفار کا
مرتضٰی ہونا۔ لہذا ان کا دعویٰ غلط ہوا۔
|
یعنی
بتوں کو نہ اختیار ہے نہ سمجھ، پھر انکو شفیع ماننا عجیب ہے۔
|
انسانی اصلیت اور تخلیق کے مراحل:
هُوَ الَّذى خَلَقَكُم مِن
تُرابٍ ثُمَّ مِن نُطفَةٍ ثُمَّ مِن عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخرِجُكُم طِفلًا ثُمَّ
لِتَبلُغوا أَشُدَّكُم ثُمَّ لِتَكونوا شُيوخًا ۚ وَمِنكُم مَن يُتَوَفّىٰ مِن
قَبلُ ۖ وَلِتَبلُغوا أَجَلًا مُسَمًّى وَلَعَلَّكُم تَعقِلونَ {40:67}
|
وہی
ہے جس نے بنایا تم کو خاک سے [۹۰] پھر پانی کی بوند سے پھر خون جمے ہوئے سے [۹۱]
پھر تم کو نکالتا ہے بچہ پھر جب تک کہ پہنچو اپنے پورے زور کو پھر جب تک کہ ہو
جاؤ بوڑھے اور کوئی تم میں ایسا ہے کہ مر جاتا ہے پہلے اس سے اور جب تک کہ پہنچو
لکھے وعدے کو [۹۲] اور تاکہ تم سوچو [۹۳]
|
یعنی
بچہ سے جوان اور جوان سے بوڑھا ہوتا ہے۔ اور بعض آدمی جوانی یا بڑھاپے سے پہلے
ہی گذر جاتے ہیں۔ بہرحال سب کو ایک معین میعاد اور لکھے ہوئے وعدے تک پہنچنا ہے۔
موت اور حشر سے کوئی مستثنٰی نہیں۔ ؎ ہر آنکہ زاد بنا چار بایدش نوشید، زجامِ
دہر مِے کل من علیہا فان۔
|
یعنی
تمہارے باپ آدم کو، یا تم کو، اس طرح کہ نطفہ جس غذا کا خلاصہ ہے وہ خاک سے ہی
پیدا ہوتی ہے۔
|
حضرت
شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "یعنی سوچو اتنے احوال (اور دور) تم پر گذرے ۔ ممکن ہے
ایک حال اور بھی گذرے۔ وہ مر کر جینا ہے"۔ آخر اسے کیوں محال سمجھتے ہو۔
|
یعنی
بنی آدم کی اصل ایک پانی کی بوند (قطرہ منی) ہے جو آگے چل کر جما ہوا خون بنا
دیا گیا۔
|
وَاختِلٰفِ الَّيلِ
وَالنَّهارِ وَما أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّماءِ مِن رِزقٍ فَأَحيا بِهِ
الأَرضَ بَعدَ مَوتِها وَتَصريفِ الرِّيٰحِ ءايٰتٌ لِقَومٍ يَعقِلونَ {45:5}
|
اور
بدلنے میں رات دن کے اور وہ جو اتاری اللہ نے آسمان سے روزی [۳] پھر زندہ کر دیا
اس سے زمین کو اس کے مرجانے کے بعد اور بدلنے میں ہواؤں کے نشانیان ہیں ان لوگوں
کے واسطے جو سمجھ سےکام لیتے ہیں [۴]
|
یعنی
پانی آسمان کی طرف سے اتارا جو مادہ ہے روزی کا۔
|
یعنی
ذرا بھی سمجھ سے کام لیں تو معلوم ہو جائے کہ یہ امور بجز اس زبردست قادر و حکیم
کے اور کسی کے بس میں نہیں۔ جیساکہ پہلے متعدد مواضع میں اس کی تقریر گزر چکی۔
|
إِنَّ الَّذينَ يُنادونَكَ
مِن وَراءِ الحُجُرٰتِ أَكثَرُهُم لا يَعقِلونَ
{49:4}
|
جو
لوگ پکارتے ہیں تجھ کو دیوار کے پیچھے سے وہ اکثر عقل
نہیں رکھتے
|
عقلمندوں کیلئے علم و بیان:
اعلَموا أَنَّ اللَّهَ
يُحىِ الأَرضَ بَعدَ مَوتِها ۚ قَد بَيَّنّا لَكُمُ الءايٰتِ لَعَلَّكُم تَعقِلونَ {57:17}
|
جان
رکھو کہ اللہ زندہ کرتا ہے زمین کو اُسکے مرجانے کے بعد ہم نے کھول کر سنا دیے
تم کو پتے اگر تم کو سمجھ ہے [۲۹]
|
یعنی
عرب لوگ جاہل اور گمراہ تھے جیسے مردہ زمین۔ اب اللہ نے ان کو ایمان اور علم کی
روح سے زندہ کیا۔ اور ان میں سب کمال پیدا کر دیئے۔ غرض کسی مردہ سے مردہ انسان
کو مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ سچی توبہ کرلے تو اللہ پھر اس کے قالب میں روح
حیات پھونک دے گا۔
|
وَتِلكَ الأَمثٰلُ
نَضرِبُها لِلنّاسِ ۖ وَما يَعقِلُها
إِلَّا العٰلِمونَ {29:43}
|
اور
یہ مثالیں بٹھلاتے ہیں ہم لوگوں کے واسطے اور ان کو سمجھتے وہی ہیں جن کو سمجھ
ہے [۶۸]
|
مشرکین
مکہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ "مکڑی" اور "مکھی" وغیرہ حقیر
چیزوں کی مثالیں بیان کرتا ہے جو اس کی عظمت کے منافی ہیں اس کا جواب دیا کہ
مثالیں اپنے موقع کے لحاظ سے نہایت موزوں اور ممثل لہٗ پر پوری منطبق ہیں۔ مگر
سمجھدار ہی اس کا مطلب ٹھیک سمجھتے ہیں ۔ جاہل بے وقوف کیا جانیں۔ مثال کا
انطباق مثال دینے والے کی حیثیت پر نہیں کرنا چاہئے بلکہ جس کی مثال ہے اس کی
حیثیت کو دیکھو، اگر وہ حقیر و کمزور ہے تو تمثیل بھی ایسی ہے حقیر و کمزور
چیزوں سے ہو گی۔ مثال دینے والے کی عظمت کا اس سے کیا تعلق۔
|
أُفٍّ لَكُم وَلِما
تَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ ۖ أَفَلا تَعقِلونَ
{21:67}
|
بیزار
ہوں میں تم سے اور جنکو تم پوجتے ہو اللہ کے سوائے کیا تم کو سمجھ نہیں [۷۶]
|
یعنی
پھر تم کو ڈوب مرنا چاہئے کہ جو مورتی ایک لفط نہ بول سکے، کسی آڑے وقت کام نہ آ
سکے، ذرہ برابر نفع و نقصان اس کے اختیار میں نہ ہو ، اسے خدائی کا درجہ دے رکھا
ہے ، کیا اتنی موٹی بات بھی تم نہیں سمجھ سکتے۔
|
وَإِذا
قيلَ لَهُمُ اتَّبِعوا ما أَنزَلَ اللَّهُ قالوا بَل نَتَّبِعُ ما أَلفَينا
عَلَيهِ ءاباءَنا ۗ أَوَلَو كانَ ءاباؤُهُم لا يَعقِلونَ شَيـًٔا وَلا يَهتَدونَ
{2:170}
|
اور جب
کوئی ان سےکہے کہ تابعداری کرو اس حکم کی جو کہ نازل فرمایا اللہ نے تو کہتے ہیں
ہرگز نہیں ہم تو تابعداری کریں گے اس کی جس پر دیکھا ہم نے اپنے باپ دادوں کو
بھلا اگرچہ ان کے باپ دادے نہ سمجھتے ہوں کچھ ہی اور نہ جانتے ہوں سیدھی راہ
[۲۴۰/۱]
|
#N/A
|
وَمَثَلُ
الَّذينَ كَفَروا كَمَثَلِ الَّذى يَنعِقُ بِما لا يَسمَعُ إِلّا دُعاءً
وَنِداءً ۚ صُمٌّ بُكمٌ عُمىٌ فَهُم لا يَعقِلونَ {2:171}
|
اور مثال
ان کافروں کی ایسی ہے جیسے پکارے کوئی شخص ایک چیز کو جو کچھ نہ سنے سوا پکارنے
اور چلانے کے [۲۴۰/۲] بہرے گونگے اندھے ہیں سو وہ کچھ نہیں سمجھتے [۲۴۱]
|
#N/A
|
یعنی یہ
کفار گویا بہرے ہیں جو حق بات بالکل نہیں سنتے گونگے ہیں جو حق بات نہیں کہتے
اندھے ہیں جو راہ مستقیم نہیں دیکھتے سو وہ کچھ نہیں سمجھتے کیونکہ جب اُن کے ہر
سہ قویٰ مذکورہ فاسد ہو گئے تو تحصیل علم و فہم کی اب کیا صورت ہو سکتی ہے۔
|
كَذٰلِكَ
يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُم ءايٰتِهِ لَعَلَّكُم تَعقِلونَ {2:242}
|
اسی طرح
بیان فرماتا ہے اللہ تمہارے واسطے اپنے حکم تاکہ تم سمجھ لو [۴۰۲]
|
یعنی جس
طرح اللہ تعالیٰ نے یہاں نکاح طلاق عدت کے احکام بیان فرمائے ایسے ہی اپنے احکام
و آیات کو واضح فرماتا ہے کہ تم سمجھ لو اور عمل کر سکو ۔ یہاں نکاح و طلاق کے
احکام ختم ہو چکے۔
|
لَقَد أَنزَلنا إِلَيكُم
كِتٰبًا فيهِ ذِكرُكُم ۖ أَفَلا تَعقِلونَ
{21:10}
|
ہم
نے اتاری ہے تمہاری طرف کتاب کہ اُس میں تمہارا ذکر ہے کیا تم سمجھتے نہیں [۱۰]
|
یعنی
قرآن کے ذریعہ سے تم کو ہر قسم کی نصیحت و فہمائش کر دی گئ اور سب برا بھلا
انجام سمجھا دیا گیا ۔ اگر کچھ بھی عقل
ہو گی تو عذاب الہٰی سے اپنےکو محفوظ رکھنے کی کوشش کرو گے اور قرآن کی قدر
پہچانو گے جو فی الحقیقت تمہارے مجدو شرف کی ایک بڑی دستاویز ہے۔ کیونکہ تمہاری
زبان میں اور تمہاری قوم کے ایک فرد کامل پر اترا اور دنیا میں تم کو شہرت دائمی
عطا کی۔ اگر اپنے ایسے محسن کو نہ مانو گے تو دنیا میں ذلیل ہو گے اور آخرت کا
عذاب الگ رہا آگے ان قوموں کا دنیوی انجام بیان فرماتے ہیں جنہوں نےانبیاء سے
دشمنی کر کے اپنی جانوں پر ظلم کئے تھے۔
|
قُل لَو شاءَ اللَّهُ ما
تَلَوتُهُ عَلَيكُم وَلا أَدرىٰكُم بِهِ ۖ فَقَد لَبِثتُ فيكُم عُمُرًا مِن
قَبلِهِ ۚ أَفَلا تَعقِلونَ {10:16}
|
کہہ
دے کہ اگر اللہ چاہتا تو میں نہ پڑھتا اس کو تمہارے سامنے اور نہ وہ تم کو خبر
کرتا اسکی کیونکہ میں رہ چکا ہوں تم میں ایک عمر اس سے پہلے کیا پھر تم نہیں
سوچتے [۲۹]
|
یعنی
جو خدا چاہتا ہے وہ ہی میں تمہارے سامنے پڑھتا ہوں اور جتنا وہ چاہتا ہے میرے
ذریعہ سے تم کو خبردار کرتا ہے۔ اگر وہ اس کے خلاف چاہتا تو میری کیا طاقت تھی
کہ خود اپنی طرف سے ایک کلام بنا کر اس کی طرف منسوب کر دیتا۔ آخر میری عمر کے
چالیس سال تمہاری آنکھوں کے سامنے گذرے۔ اس قدر طویل مدت میں تم کو میرے حالات
کے متعلق ہر قسم کا تجربہ ہو چکا میرا صدق و عفاف ، امانت و دیانت وغیرہ اخلاق
حسنہ تم میں ضرب المثل رہے ۔ میرا امی ہونا اور کسی ظاہری معلم کے سامنے زانوئے
تملذ تہ نہ کرنا ایک معروف و مسلم واقعہ ہے ۔ پھر چالیس برس تک جس نے نہ کوئی
قصیدہ لکھا ہو نہ مشاعروں میں شریک ہوا ہو ، نہ کبھی کتاب کھولی ہو نہ قلم ہاتھ
میں لیا ہو ، نہ کسی درسگاہ میں بیٹھا ہو دفعۃً ایسا کلام بنالائے جو اپنی فصاحت
و بلاغت ، شوکت و جزالت ، جدت اسلوب اور سلاست و روائی سے جن و انس کو عاجز کر
دے۔ اس کے علوم و حقائق کے سامنے تمام دنیا کے معارف ماند پڑ جائیں۔ ایسا مکمل
اور عالمگیر قانون ہدایت نوع انسان کے ہاتھوں میں پہنچائے، جس کے آگے سب پچھلے
قانون ردی ہو جائیں۔ بڑی بڑی قوموں اور ملکوں کے مردہ قالب میں روح تازہ پھونک
کر ابدی حیات اور نئی زندگی کا سامان بہم پہنچائے۔ یہ بات کس کی سمجھ میں آ سکتی
ہے۔ تم کو سوچنا چاہئے کہ جس پاک سرشت انسان نے چالیس برس تک کسی انسان پر جھوٹ
نہ لگایا ہو ، کیا وہ ایک دم ایسی جسارت کر سکتا ہے کہ معاذ اللہ خداوند قدوس پر
جھوٹ باندھنے اور افترا کرنے لگے ؟ ناچار ماننا پڑے گا کہ جو کلام الہٰی تم کو
سناتا ہوں اس کے بنانے یا پہنچانے میں مجھے اصلاً اختیار نہیں۔ خدا جو کچھ چاہتا
ہے میری زبان سے تم کو سناتا ہے ۔ ایک نقطہ یا زیر زبر تبدیل کرنے کا کسی مخلوق
کو حق حاصل نہیں۔
|
يٰقَومِ لا أَسـَٔلُكُم
عَلَيهِ أَجرًا ۖ إِن أَجرِىَ إِلّا عَلَى الَّذى فَطَرَنى ۚ أَفَلا تَعقِلونَ {11:51}
|
اےقوم
میں تم سے نہیں مانگتا اس پر مزدوری میری مزدوری اسی پر ہے جس نے مجھ کو پیدا
کیا [۷۲] پھر کیا تم نہیں سمجھتے [۷۳]
|
یعنی
اس قدر غبی ہو ، اتنی موٹی بات بھی نہیں سمجھتے کہ ایک شخص بے طمع بے غرض ، محض
دردمندی اور خیرخواہی سے تمہاری فلاح دارین کی بات کہتا ہے۔ تم اسے دشمن اور
بدخواہ سمجھ کر دست و گریباں ہوتے ہو۔
|
یعنی
تمہارےمال کی مجھے ضرورت نہیں۔ میرا پیدا کرنے والا ہی تمام دنیوی ضروریات اور
آخروی اجرو ثواب کا کفیل ہے۔ یہ بات ہر ایک پیغمبر نے اپنی قوم سے کہی تاکہ
نصیحت بے لوث اور مؤثر ہو ۔ لوگ انکی محنت کو دنیوی طمع پر محمول نہ کریں۔
|
وَما أَرسَلنا مِن قَبلِكَ
إِلّا رِجالًا نوحى إِلَيهِم مِن أَهلِ القُرىٰ ۗ أَفَلَم يَسيروا فِى الأَرضِ
فَيَنظُروا كَيفَ كانَ عٰقِبَةُ الَّذينَ مِن قَبلِهِم ۗ وَلَدارُ الءاخِرَةِ
خَيرٌ لِلَّذينَ اتَّقَوا ۗ أَفَلا تَعقِلونَ
{12:109}
|
اور
جتنے بھیجے ہم نے تجھ سے پہلے وہ سب مرد ہی تھے کہ وحی بھیجتے تھے ہم انکو
بستیوں کے رہنے والے سو کیا ان لوگوں نے نہیں سیر کی ملک کی کہ دیکھ لیتے کیسا
ہوا انجام ان لوگوں کا جو ان سے پہلے تھے اور آخرت کا گھر تو بہتر ہے پرہیز کرنے
والوں کو کیا اب بھی نہیں سمجھتے [۱۵۵]
|
یعنی
پہلے بھی ہم نے آسمان کے فرشتوں کو نبی بنا کر نہیں بھیجا۔ انبیائے سابقین ان ہی
انسانی بستیوں کے رہنے والے مرد تھے ۔ پھر دیکھ لو ان کے جھٹلانے والوں کا دنیا
میں کیا حشر ہوا۔ حالانکہ دنیا میں کافروں کو بھی بسا اوقات عیش نصیب ہو جاتا
ہے۔ اور آخرت کی بہتری تو خالص ان ہی کے لئے ہے جو شرک و کفر سے پرہیز کرتے ہیں۔
یہ تنبیہ ہے کفار مکہ کو کہ اگلوں کے احوال سےعبرت حاصل کریں۔ (تنبیہ) اس آیت سے
نکلتا ہے کہ کوئی عورت نبی نہیں بنائی گئ۔ حضرت مریمؑ کو بھی قرآن نے صدیقہ کا
مرتبہ دیا ہے ۔ نیز آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اہل بوادی (جنگلی گنواروں) میں سے
کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا۔
|
وَلَقَد تَرَكنا مِنها
ءايَةً بَيِّنَةً لِقَومٍ يَعقِلونَ
{29:35}
|
اور
چھوڑ رکھا ہم نے اس کا نشان نظر آتا ہوا سمجھ دار لوگوں کے واسطے [۵۳]
|
یعنی
ان کی الٹی ہوئی بستیوں کے نشان مکہ والوں کو ملک شام کے سفر میں دکھائی دیتے
تھے۔
|
وَبِالَّيلِ ۗ أَفَلا تَعقِلونَ {37:138}
|
اور
رات بھی پھر کیا نہیں سمجھتے [۸۰]
|
یہ
مکہ والوں کو فرمایا۔ کیونکہ "مکہ" سے "شام" کو جو قافلے
آتے جاتے تھے، قوم لوط کی الٹی ہوئی بستیاں ان کے راستہ سے نظر آتی تھیں۔ یعنی
دن رات ادھر گذرتے ہوئے یہ نشان دیکھتے ہیں پھر بھی عبرت نہیں ہوتی۔ کیا نہیں
سمجھتے کہ جو حال ایک نافرمان قوم کا ہوا وہ دوسری نافرمان اقوام کا بھی ہو سکتا
ہے۔
|
أَفَلَم يَسيروا فِى
الأَرضِ فَتَكونَ لَهُم قُلوبٌ يَعقِلونَ
بِها أَو ءاذانٌ يَسمَعونَ بِها ۖ فَإِنَّها لا تَعمَى الأَبصٰرُ وَلٰكِن تَعمَى
القُلوبُ الَّتى فِى الصُّدورِ {22:46}
|
کیا
سیر نہیں کی ملک کی جو اُنکے دل ہوتے جن سے سمجھتے یا کان ہوتے جن سے سنتے [۷۹]
سو کچھ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں پر اندھے ہو جاتے ہیں دل جو سینوں میں ہیں [۸۰]
|
یعنی
ان تباہ شدہ مقامات کے کھنڈر دیکھ کر غور و فکر نہ کیا، ورنہ ان کو سچی بات کی
سمجھ آ جاتی اور کان کھل جاتے۔
|
یعنی
آنکھوں سے دیکھ کر اگر دل سے غور نہ کیا تو وہ نہ دیکھنے کے برابر ہے۔گو اس کی
ظاہری آنکھیں کھلی ہوں پر دل کی آنکھیں اندھی ہیں اور حقیقت میں زیادہ خطرناک
اندھا پن وہ ہی ہے جس میں دل اندھے ہو جائیں۔ (العیاذ باللہ)
|
إِنَّ شَرَّ الدَّوابِّ
عِندَ اللَّهِ الصُّمُّ البُكمُ الَّذينَ لا يَعقِلونَ
{8:22}
|
بیشک
سب جانداروں میں بدتر اللہ کے نزدیک وہی بہرےگونگے ہیں جو نہیں سمجھتے [۱۵]
|
جنہیں
خدا نے بولنے کو زبان سننے کو کان اور سمجھنے کو دل و دماغ دئے تھے۔ پھر انہوں
نے یہ سب قوتیں معطل کر دیں نہ زبان سے حق بولنے اور حق کو دریافت کرنے کی توفیق
ہوئی نہ کانوں سے حق کی آواز سنی نہ دل و دماغ سے حق کو سمجھنے کی کوشش کی۔ غرض
خدا کی بخشی ہوئی قوتوں کو اس اصلی کام میں صرف نہ کیا جس کے لئے فی الحقیقت عطا
کی گئ تھیں۔ بلاشبہ ایسے لوگ جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔
|
أَم تَحسَبُ أَنَّ
أَكثَرَهُم يَسمَعونَ أَو يَعقِلونَ ۚ
إِن هُم إِلّا كَالأَنعٰمِ ۖ بَل هُم أَضَلُّ سَبيلًا {25:44}
|
یا
تو خیال رکھتا ہے کہ بہت سے ان میں سنتے یا سمجھتے ہیں اور کچھ نہیں وہ برابر
ہیں چوپایوں کے بلکہ وہ زیادہ بہکے ہوئے ہیں راہ سے [۵۹]
|
یعنی
کیسی ہی نصیحتیں سنائیے، یہ تو چوپائے جانور ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر، انہیں
سننے یا سمجھنے سے کیا واسطہ۔ چوپائے تو بہرحال اپنے پرورش کرنے والے مالک کے
سامنے گردن جھکا دیتے ہیں۔ اپنے محسن کو پہچانتے ہیں، نافع و مضر کی کچھ شناخت
رکھتے ہیں۔ کھلا چھوڑ دو تو اپنی چراگاہ اور پانی پینے کی جگہ پہنچ جاتے ہیں،
لیکن ان بدبختوں کا حال یہ ہے کہ نہ اپنے خالق و رازق کا حق پہچانا نہ اس کے
احسانات کو سمجھا نہ بھلے برے کی تمیز کی، نہ دوست دشمن میں فرق کیا، نہ غذائے
روحانی اور چشمہ ہدایت کی طرف قدم اٹھایا۔ بلکہ اس سے کوسوں دور بھاگے اور جو
قوتیں خدا تعالیٰ نے عطا کی تھیں ان کو معطل کئے رکھا بلکہ بے موقع صرف کیا۔ اگر
ذرا بھی عقل و فہم سے کام لیتے تو اس
کارخانہ قدرت میں بے شمار نشانیاں موجود تھیں جو نہایت واضح طور پر اللہ تعالیٰ
کی توحید و تنزیہہ اور اصول دین کی صداقت و حقانیت کی طرف رہبری کر رہی ہیں جن
میں سے بعض نشانوں کا ذکر آئندہ آیات میں کیا گیا ہے۔
|
قالَ رَبُّ المَشرِقِ
وَالمَغرِبِ وَما بَينَهُما ۖ إِن كُنتُم تَعقِلونَ
{26:28}
|
کہا
پروردگار مشرق کا اور مغرب کا اور جو کچھ ان کے بیچ میں ہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو
[۲۶]
|
حضرت
موسٰیؑ نے پھر ایک بات کہی جس طرح کی حضرت ابراہیمؑ نے نمرود کے سامنے آخر میں
کہی تھی۔ یعنی رب العالمین وہ ہے جو مشرق و مغرب کا مالک اور تمام سیارات کی
طلوع و غروب کی تدبیر ایک محکم و مضبوط نظام کے موافق کرنے والا ہے۔ اگر تم میں
ذرا بھی عقل ہو تو بتلا سکتے ہو کہ اس
عظیم الشان نظام کا قائم رکھنے والا بجز خدا کے کون ہو سکتا ہے۔ کیا کسی کو قدرت
ہے کہ اس کے قائم کئے ہوئے نظام کو ایک سیکنڈ کےلئے توڑ دے یا بدل ڈالے۔ یہ آخری
بات سن کر فرعون بالکل مبہوت ہو گیا اور بحث و جدال سے گذر کر دھمکیوں پر اتر
آیا۔ جیسا کہ آگے آتا ہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ "حضرت موسٰیؑ ایک
بات کہتے جاتے تھے اللہ کی قدرتیں بتانے کو اور فرعون بیچ میں اپنے سرداروں کو
ابھارتا تھا کہ ان کو یقین نہ آجائے"۔
|
يٰأَهلَ
الكِتٰبِ لِمَ تُحاجّونَ فى إِبرٰهيمَ وَما أُنزِلَتِ التَّورىٰةُ وَالإِنجيلُ
إِلّا مِن بَعدِهِ ۚ أَفَلا تَعقِلونَ {3:65}
|
اے اہل
کتاب کیوں جھگڑتے ہو ابراہیم کی بابت اور توریت اور انجیل تو اتریں اس کے بعد
کیا تم کو عقل نہیں
|
فَخَلَفَ مِن بَعدِهِم
خَلفٌ وَرِثُوا الكِتٰبَ يَأخُذونَ عَرَضَ هٰذَا الأَدنىٰ وَيَقولونَ سَيُغفَرُ
لَنا وَإِن يَأتِهِم عَرَضٌ مِثلُهُ يَأخُذوهُ ۚ أَلَم يُؤخَذ عَلَيهِم ميثٰقُ
الكِتٰبِ أَن لا يَقولوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الحَقَّ وَدَرَسوا ما فيهِ ۗ
وَالدّارُ الءاخِرَةُ خَيرٌ لِلَّذينَ يَتَّقونَ ۗ أَفَلا تَعقِلونَ {7:169}
|
پھر
ان کے پیچھے آئے ناخلف جو وارث بنے کتاب کے لے لیتے ہیں اسباب اس ادنیٰ زندگانی
کا اور کہتے ہیں کہ ہم کو معاف ہو جائے گا اور اگر ایسا ہی اسباب انکے سامنے پھر
آئے تو اسکو لے لیویں [۲۱۰] کیا ان سے کتاب میں عہد نہیں لیا گیا کہ نہ بولیں
اللہ پر سوا سچ کے اور انہوں نے پڑھا ہے جو کچھ اسمیں لکھا ہے اور آخرت کا گھر
بہتر ہے ڈرنے والوں کے لئے کیا تم سمجھتے نہیں [۲۱۱]
|
یعنی
اگلوں میں تو کچھ صالحین بھی تھے۔ پچھلے ایسے ناخلف ہوئے کہ جس کتاب (تورات
شریف) کے وارث و حامل بنے تھے دنیا کا تھوڑا سا سامان لے کر اس کی آیات میں
تحریف و کتمان کرنے لگے اور رشوتیں لے کر احکام تورات کے خلاف فیصلے دینے لگے۔
پھر اس پر ستم ظریفی دیکھئے کہ ایسی نالائق اور پاجیانہ حرکات کا ارتکاب کرتے
ہوئے یہ عقیدہ اور دعویٰ رکھتے ہیں کہ ان باتوں سے ہم کو مضرت کا کچھ اندیشہ
نہیں۔ ہم تو خدا کی اولاد اور اس کے محبوب ہیں۔ کچھ بھی کریں وہ ہماری بے
اعتدالیوں سے ضرور درگذر کرے گا۔ اسی عقیدہ کی بناء پر تیار رہتے ہیں کہ آئندہ
جب موقع ہو پھر رشوت لے کر اسی طرح کی بےایمانی کا اعادہ کریں۔ گویا بجائے اس کے
کہ گذشتہ حرکات پر نادم ہوتے اور آیندہ کے لئے عزم رکھتے کہ ایسی حرکات کا اعادہ
نہ کریں گے مگر اللہ سے مامون ہو کر ان ہی شرارتوں اور بے ایمانیوں کے اعادہ کا
عزم رکھتے ہیں۔ اس سے زیادہ حماقت اور بےحیائی کیا ہوگی۔
|
یعنی
تورات میں جو عہد لیا گیا تھا کہ "خدا کی طرف سچ کے سوا کسی چیز کی نسبت نہ
کریں" کیا وہ انہیں معلوم نہیں جو اس کی کتاب او ر احکام میں قطع وبرید کر
کے اس پر افتراء کرنے لگے حالانکہ "کتاب اللہ" (تورات) کو یہ لوگ
پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ پھر کیسے کہا جا سکتا ہےکہ اس کا مضمون انہیں معلوم نہیں یا
یاد نہیں رہا۔ حقیقت وہ ہی ہے کہ دنیا کی فانی متاع کے عوض انہوں نے دین و ایمان
بیچ ڈالا اور آخرت کی تکلیف و راحت سے آنکھیں بند کر لیں۔ اتنا نہ سمجھے کہ جو
لوگ خدا سے ڈرتے اور تقویٰ کی راہ اختیار کرتے ہیں ان کے لئے آخرت کا گھر اور
وہاں کا عیش و تنعم دنیا کی خوشحالی سے کہیں بہتر اور فائق ہے۔ کاش کہ اب بھی
انہیں عقل آ جائے۔
|
وَإِذا
نادَيتُم إِلَى الصَّلوٰةِ اتَّخَذوها هُزُوًا وَلَعِبًا ۚ ذٰلِكَ بِأَنَّهُم
قَومٌ لا يَعقِلونَ {5:58}
|
اور جب
تم پکارتے ہو نماز کے لئے تو وہ ٹھہراتے ہیں اس کو ہنسی اور کھیل یہ اس واسطے کہ
وہ لوگ بے عقل ہیں [۱۷۴]
|
یعنی جب
اذان کہتے ہو تو اس سے جلتے ہیں اور ٹھٹھا کرتےہیں جو ان کی کمال حماقت اور بےعقلی کی دلیل ہے۔ کلمات اذان میں خداوند قدوس کی
عظمت و کبریا کا اظہار، توحید کا اعلان، نبی کریم ﷺ جو تمام انبیاء سابقین اور
کتب سماویہ کے مصدق ہیں ان کی رسالت کا اقرار، نماز جو تمام اوضاع عبودیت
کو جامع اور غایت درجہ کی بندگی پر دال ہے اس کی طرف دعوت، فلاح دارین اور اعلیٰ
سے اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے کے لئے بلاوا ان چیزوں کےسوا اور کیا ہوتا ہے پھر ان
میں کون سی چیز ہے جو ہنسی اڑانے کے قابل ہو۔ ایسی نیکی اور حق و صداقت کی آواز
پر مسخرا پن کر نا اسی شخص کا کام ہو سکتا ہے جس کا دماغ عقل سے یکسر خالی ہو اور جسے نیک و بد کی
قطعًا تمیز باقی نہ رہے۔ بعض روایات میں ہے کہ مدینہ میں ایک نصرانی جب اذان میں
اشہد ان محمد رسول اللہ سنتا تو کہتا "قد حرق الکاذب" (جھوٹا جل گیا
یا جل جائے) اس کی نیت تو ان الفاظ سے جو کچھ ہو مگر یہ بات بالکل اس کے حسب حال
تھی کیونکہ وہ خبیث جھوٹا تھا اور اسلام کا عروج و شیوع دیکھ کر آتش حسد میں جل
جاتا تھا اتفاقًا ایک شب میں کوئی چھوکری آگ لے کر اس کے گھر میں آئی وہ اور اس
کے اہل و عیال سو رہے تھے ذرا سی چنگاری نادانستہ اس کےہاتھ سے گر گئ۔ جس سے
سارا گھر مع سونے والوں کےجل گیا۔ او اس طرح خدا نے دکھلا دیا کہ جھوٹے لوگ دوزخ
کی آگ سے پہلے ہی دنیا کی آگ میں کس طرح جل جاتے ہیں۔ اذان کےساتھ استہزاء کرنے
کا ایک اور واقعہ صحیح روایات میں منقول ہے وہ یہ کہ فتح مکہ کے بعد آپ ﷺ حنین سے واپس ہو رہے تھے۔
راستہ میں حضرت بلالؓ نےاذان کہی، چند نو عمر لڑکے جن میں ابو محذورہ بھی
تھے۔ اذان کی ہنسی اور نقل کرنے لگےآپ ﷺ نے سب کو پکڑ کر بلوایا۔
آخر نتیجہ یہ ہوا کہ ابو محذورہ کے دل میں خدا نےاسلام ڈال دیا اور حضور ﷺ نے ان کو مکہ کا موذن مقرر
فرما دیا ۔ اس طرح خدا کی قدرت نقل سے اصل بن گئ۔
|
دنیا و آخرت کی حقیقت:
وَمَا
الحَيوٰةُ الدُّنيا إِلّا لَعِبٌ وَلَهوٌ ۖ وَلَلدّارُ الءاخِرَةُ خَيرٌ
لِلَّذينَ يَتَّقونَ ۗ أَفَلا تَعقِلونَ {6:32}
|
اور نہیں
ہے زندگانی دنیا کی مگر کھیل اور جی بھلانا اور آخرت کا گھر بہتر ہے پرہیزگاروں
کے لئے کیا تم نہیں سمجھتے [۳۷]
|
کفار تو
یہ کہتے تھے کہ دنیوی زندگی کے سوا کوئی زندگی ہی نہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ
فانی اور مکدر زندگانی حیات اخروی کے مقابلہ میں محض ہیچ اور بےحقیقت ہے۔ یہاں
کی زندگی کے صرف ان ہی لمحات کو زندگی کہا جا سکتا ہے جو آخرت کی درستی میں خرچ
کئے جائیں بقیہ تمام اوقات جو آخرت کی فکر و تیاری سے خالی ہوں ایک عاقبت اندیش
کے نزدیک لہو لعب سے زائد وقعت نہں رکھتے۔ پرہیزگار اور سمجھدار لوگ جانتے ہیں
کہ ان کا اصلی گھر آخرت کا گھر اور ان کی حقیقی زندگی آخرت کی زندگی ہے۔
|
دنیا کے منافع عارضی ہیں:
وَما أوتيتُم مِن شَيءٍ
فَمَتٰعُ الحَيوٰةِ الدُّنيا وَزينَتُها ۚ وَما عِندَ اللَّهِ خَيرٌ وَأَبقىٰ ۚ
أَفَلا تَعقِلونَ {28:60}
|
اور
جو تم کو ملی ہے کوئی چیز سو فائدہ اٹھا لینا ہے دنیا کی زندگی میں اور یہاں کی
رونق ہے اور جو اللہ کے پاس ہے سو بہتر ے اور باقی رہنے والا کیا تم کو سمجھ
نہیں [۸۵]
|
یعنی
آدمی کو عقل سے کام لے کر اتنا سمجھنا
چاہئے کہ دنیا میں کتنے دن جینا ہے اور یہاں کی بہار اور چہل پہل کا مزہ کب تک
اٹھا سکتے ہو۔ فرض کرو دنیا میں عذاب بھی نہ آئے، تاہم موت کا ہاتھ تم سے یہ سب
سامان جدا کر کے رہے گا۔ پھر خدا کے سامنے حاضر ہونا اور ذرہ ذرہ عمل کا حساب دینا
ہے، اگر وہاں کا عیش و آرام میسر ہو گیا تو یہاں کا عیش اس کے سامنے محض ہیچ اور
لاشے ہے۔ کون عقلمند ہو گا جو ایک مکدر و
منغض زندگی کو بے غل و غش زندگی پر اور ناقص و فانی لذتوں کو کامل و باقی نعمتوں
پر ترجیح دے۔
|
قُل
تَعالَوا أَتلُ ما حَرَّمَ رَبُّكُم عَلَيكُم ۖ أَلّا تُشرِكوا بِهِ شَيـًٔا ۖ
وَبِالوٰلِدَينِ إِحسٰنًا ۖ وَلا تَقتُلوا أَولٰدَكُم مِن إِملٰقٍ ۖ نَحنُ
نَرزُقُكُم وَإِيّاهُم ۖ وَلا تَقرَبُوا الفَوٰحِشَ ما ظَهَرَ مِنها وَما بَطَنَ
ۖ وَلا تَقتُلُوا النَّفسَ الَّتى حَرَّمَ اللَّهُ إِلّا بِالحَقِّ ۚ ذٰلِكُم
وَصّىٰكُم بِهِ لَعَلَّكُم تَعقِلونَ {6:151}
|
تو کہہ
تم آؤ میں سنا دوں جو حرام کیا ہے تم پر تمہارے رب نے کہ شریک نہ کرو اسکے ساتھ
کسی چیز کو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور مار نہ ڈالو اپنی اولاد کو مفلسی
سے ہم رزق دیتے ہیں تم کو اور ان کو [۲۰۳] اور پاس نہ جاؤ بیحیائی کے کام کے جو
ظاہر ہو اس میں سے اور جو پوشیدہ ہو [۲۰۴] اور مار نہ ڈالو اس جان کو جس کو حرام
کیا ہے اللہ نے مگر حق پر [۲۰۵] تم کو یہ حکم کیا ہے تاکہ تم سمجھو [۲۰۶]
|
الا
بالحق کا استثناء ضروری تھا۔ جس میں قاتل عمد ، زانی محصن اور مرتد عن الاسلام
کا قتل داخل ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ میں اس کی تصریح وارد ہو چکی اور ائمہ
مجتہدین اس پر اجماع کر چکے ہیں۔
|
اس آیت
سے ان چیزوں کا حرام ہونا ثابت ہوا (۱) شرک باللہ (۲) والدین کےساتھ بد سلوکی
(۳) قتل اولاد (۴) سب بےحیائی کے کام مثلًا زنا وغیرہ (۵) کسی شخص کو ناحق قتل
کرنا۔
|
"پاس نہ جاؤ" سے شاید یہ مراد ہو کہ ایسے کاموں کے
مبادی و وسائل سے بھی بچنا چاہئے مثلًا زنا کی طرح نظر بد سے بھی اجتناب لازم
ہے۔
|
عرب
مفلسی کی وجہ سے بعض اوقات اولاد کو قتل کر دیتے تھے کہ خود ہی کھانے کو نہیں
اولاد کو کہاں سے کھلائیں۔ اسی لئے فرمایا کہ رزق دینے والا تو خدا ہے تم کو بھی
اور تمہاری اولاد کو بھی۔ دوسری جگہ بجائے { مِّنْ اِمْلَاقٍ } { خَشْیَۃَ
اِمْلَاقٍ } فرمایا ہے یعنی مفلسی کے ڈر سے قتل کر ڈالتے تھے۔ یہ ان کا ذکر ہو
گا جو فی الحال مفلس نہیں مگرڈرتے ہیں کہ جب عیال زیادہ ہونگے تو کہاں سے
کھلائیں گے۔ چونکہ پہلے طبقہ کو عیال سے پہلے اپنی روٹی کی فکر ستا رہی تھی اور
دوسرے کو زیادہ عیال کی فکر نے پریشان کر رکھا تھا۔ شاید اسی لئے یہاں املاق کے
ساتھ { نَرْزُقُکُمْ وَ اِیَّاھُمْ } اور اس آیت میں { خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ } کے
ساتھ { نَرْزُقُکُمْ وَ اِیَّاکُمْ } ارشاد فرمایا۔ واللہ اعلم۔
|
معذوروں کیلئے احکام میں رعایت:
لَيسَ عَلَى الأَعمىٰ
حَرَجٌ وَلا عَلَى الأَعرَجِ حَرَجٌ وَلا عَلَى المَريضِ حَرَجٌ وَلا عَلىٰ
أَنفُسِكُم أَن تَأكُلوا مِن بُيوتِكُم أَو بُيوتِ ءابائِكُم أَو بُيوتِ
أُمَّهٰتِكُم أَو بُيوتِ إِخوٰنِكُم أَو بُيوتِ أَخَوٰتِكُم أَو بُيوتِ
أَعمٰمِكُم أَو بُيوتِ عَمّٰتِكُم أَو بُيوتِ أَخوٰلِكُم أَو بُيوتِ خٰلٰتِكُم
أَو ما مَلَكتُم مَفاتِحَهُ أَو صَديقِكُم ۚ لَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ أَن تَأكُلوا
جَميعًا أَو أَشتاتًا ۚ فَإِذا دَخَلتُم بُيوتًا فَسَلِّموا عَلىٰ أَنفُسِكُم
تَحِيَّةً مِن عِندِ اللَّهِ مُبٰرَكَةً طَيِّبَةً ۚ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ
لَكُمُ الءايٰتِ لَعَلَّكُم تَعقِلونَ
{24:61}
|
نہیں
ہے اندھے پر کچھ تکلیف اور نہ لنگڑے پر تکلیف اور نہ بیمار پر تکلیف [۱۱۲] اور
نہیں تکلیف تم لوگوں پر کہ کھاؤ اپنے گھروں سے یا اپنے باپ کے گھر سے یا اپنی
ماں کے گھر سے یا اپنے بھائی کے گھر سے یا اپنی بہن کے گھر سے یا اپنے چچا کے
گھر سے یا اپنی پھوپھی کے گھر سے یا اپنے ماموں کے گھر سے یا اپنی خالہ کے گھر
سے یا جس گھر کی کنجیوں کے تم مالک ہو یا اپنے دوست کے گھر سے [۱۱۳] نہیں گناہ
تم پر کہ کھاؤ آپس میں مل کر یا جدا ہو کر پھر جب کبھی جانے لگو گھروں میں تو
سلام کہو اپنے لوگوں پر نیک دعا ہے اللہ کے یہاں سے برکت والی ستھری یوں کھولتا
ہے اللہ تمہارے آگے اپنی باتیں تاکہ تم سمجھ لو [۱۱۴]
|
یعنی
جو کام تکلیف کے ہیں وہ ان کو معاف ہیں مثلاً جہاد، حج، جمعہ اور جماعت اور ایسی
چیزیں۔ (کذا فی الموضح) یا یہ مطلب ہے کہ ان معذور و محتاج لوگوں کو تندرستوں کے
ساتھ کھانے میں کچھ حرج نہیں۔ جاہلیت میں اس قسم کے محتاج و معذور آدمی اغنیاء
اور تندرستوں کے ساتھ کھانے سے رکتے تھے انہیں خیال گزرتا تھا کہ شاید لوگوں کو
ہمارے ساتھ کھانے سےنفرت ہو اور ہماری بعض حرکات و اوضاع سے ایذا پہنچتی ہو، اور
واقعی بعضوں کو نفرت و وحشت ہوتی بھی تھی۔ معذوروں کے ساتھ صحابہ کرام کا
متقیانہ طریقہ: نیز بعض مومنین کو غایت اتقاء سے یہ خیال پیدا ہوا کہ ایسے
معذوروں اور مریضوں کے ساتھ کھانے میں شاید اصول عدل و مساوات قائم نہ رہ سکے۔
اندھے کو سب کھانے نظر نہیں آتے لنگڑا ممکن ہے دیر میں پہنچے اور مناسب نشست سے
نہ بیٹھ سکے۔ بیمار کا تو پوچھنا ہی کیا ہے اس بناء پر ساتھ کھلانے میں احتیاط
کرتے تھے کہ ان کی حق تلفی نہ ہو۔ دوسری ایک اور صورت پیش آتی تھی کہ یہ معذور و
محتاج لوگ کسی کے پاس گئے، وہ شخص استطاعت نہ رکھتا تھا، ازراہ بے تکلفی ان کو
اپنے بھائی، بہن، چچا، ماموں وغیرہ کسی عزیز وقریب کے گھر لے گیا۔ اس پر ان
حاجمتندوں کو خیال ہوتا تھا کہ ہم تو آئے تھے اس کے پاس،یہ دوسرے کے ہاں لے گیا۔
کیا معلوم ہو ہمارے کھلانے سے کارِہ اور ناخوش تو نہیں۔ ان تمام خیالات کی اصلاح
آیت حاضرہ میں کر دی گئ کہ خواہی نہ خواہی اس طرح کے اوہام و وساوس میں مت پڑو۔
اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں وسعت دے رکھی ہے پھر تم خود اپنے اوپر تنگی کیوں
کرتے ہو۔
|
یعنی
اپنائیت کےعلاقوں میں کھانے کی چیز کو ہر وقت پوچھنا ضرور نہیں۔ نہ کھانے والا
حجاب کرے نہ گھر والا دریغ کرے۔ مگر عورت کاگھر اگر اس کے خاوند کا ہو۔ اس کی
مرضی حاصل کرنی چاہئے۔ اور مل کر کھاؤ یا جدا یعنی اس کی تکرار دل میں نہ رکھے
کہ کس نے کم کھایا کس نے زیادہ۔ سب نے مل کر پکایا سب نے مل کر کھایا۔ اور اگر
ایک شخص کی مرضی نہ ہوتو پھر کسی کی چیز کھانی ہر گز درست نہیں۔ اور تقید فرمایا
سلام کا آپس کی ملاقات میں۔ کیونکہ اس سے بہتر دعاء نہیں جو لوگ اس کو چھوڑ کر
اور الفاظ گھڑتے ہیں اللہ کی تجویز سے ان کی تجویز بہتر نہیں ہو سکتی۔ (تنبیہ)
آیت سے تنہا کھانے کا جواز بھی نکلا۔ بعض حضرات کو لکھا ہے کہ جب تک کوئی مہمان
ساتھ نہ ہو کھانا نہ کھاتے تھے۔ معلوم ہوا یہ غلو ہے۔ البتہ اگر کئ کھانے والے
ہوں اور اکھٹے بیٹھ کر کھائیں تو موجب برکت ہوتا ہے کما وردفی الحدیث۔
|
یعنی
تمہارے زیرتصرف دیدیا گیاہو ۔ مثلاً کسی نے اپنی چیز کا وکیل یا محافظ بنا دیا
اور بقدر معروف اس میں سے کھانے پینے کی اجازت دے دی۔
|
لا يُقٰتِلونَكُم جَميعًا
إِلّا فى قُرًى مُحَصَّنَةٍ أَو مِن وَراءِ جُدُرٍ ۚ بَأسُهُم بَينَهُم شَديدٌ ۚ
تَحسَبُهُم جَميعًا وَقُلوبُهُم شَتّىٰ ۚ ذٰلِكَ بِأَنَّهُم قَومٌ لا يَعقِلونَ {59:14}
|
لڑ
نہ سکیں گے تم سے سب مل کر مگر بستیوں کےکوٹ میں یا دیواروں کی اوٹ میں [۲۹]
اُنکی لڑائی آپس میں سخت ہے [۳۰] تو سمجھے وہ اکھٹے ہیں اور اُنکے دل جدا جدا ہو
رہے ہیں یہ اس لئے کہ وہ لوگ عقل نہیں
رکھتے [۳۱]
|
یعنی
چونکہ ان لوگوں کے دل مسلمانوں سے مرعوب اور خوفزدہ ہیں، اس لئے کھلے میدان میں
جنگ نہیں کرسکتے۔ ہاں گنجان بستیوں میں قلعہ نشین ہو کر یا دیواروں اور درختوں
کی آڑ میں چھپ کر لڑ سکتے ہیں۔ ہمارے ایک بزرگ فرمایا کرتے تھے، کہ یورپ نے
مسلمانوں کی تلوار سے عاجز ہو کر قسم قسم کے آتشبار اسلحہ اور طریق جنگ ایجاد
کئے ہیں۔ تاہم اب بھی اگر کسی وقت دست بدست جنگ کی نوبت آجاتی ہے تو چند ہی منٹ
میں دنیا { لایقاتلونکم جمیعًا الّا فی قری محصّنۃٍ اومن ورآء جدر } کا مشاہدہ
کرلیتی ہے۔ باقی اس قوم کا تو کہنا ہی کیا جس کے نزدیک چھتوں پر چڑھ کر اینٹ
پتھر پھینکنا اور تیزاب کی پچکاریاں چلانا ہی سب سے بڑی علامت بہادری کی ہے۔
|
یعنی
آپس کی لڑائی میں بڑے تیز اور سخت ہیں جیسا کہ اسلام سے پہلے "اوس" و
"خزرج" کی جنگ میں تجربہ ہو چکا، مگر مسلمانوں کے مقابلہ میں ان کی
ساری بہادری اور شیخی کرکری ہوجاتی ہے۔
|
یعنی
مسلمانوں کے مقابلہ میں ان کے ظاہری اتفاق و اتحاد سے دھوکہ مت کھاؤ۔ ان کے دل
اندر سے پھٹے ہوئے ہیں، ہر ایک اپنی غرض و خواہش کا بندہ، اور خیالات میں ایک
دوسرے سے جدا ہے پھر حقیقی یکجہتی کہاں میّسر آسکتی ہے۔ اگر عقل ہو تو سمجھیں کہ یہ نمائشی اتحاد کس کام کا۔
اتحاد اسے کہتے ہیں جو مومنین قانتین میں پایا جاتا ہے کہ تمام اغراض و خواہشات
سے یکسو ہو کر سب نے ایک اللہ کی رسی کو تھام رکھا ہے، اور ان سب کا مرنا جینا
اسی خدائے واحد کے لئے ہے۔
|
کفار کی حسرت و ندامت:
وَقالوا لَو كُنّا نَسمَعُ
أَو نَعقِلُ ما كُنّا فى أَصحٰبِ
السَّعيرِ {67:10}
|
اور
کہیں گے اگر ہم ہوتے سنتے یا سمجھتے تو نہ ہوتے دوزخ والوں میں [۱۵]
|
یعنی
کیا خبر تھی کہ یہ ڈرانیوالے ہی سچے نکلیں گے۔ اگر ہم اس وقت کسی ناصح کی بات
سنتے یا عقل سے کام لیکر معاملہ کی حقیقت
کو سمجھ لیتے تو آج دوزخیوں کے زمرہ میں کیوں شامل ہوتے اور تم کو یہ طعن دینے
کا موقع کیوں ملتا۔
|
وَلا يَحسَبَنَّ الَّذينَ كَفَروا أَنَّما نُملى لَهُم
خَيرٌ لِأَنفُسِهِم ۚ إِنَّما نُملى لَهُم لِيَزدادوا إِثمًا ۚ وَلَهُم عَذابٌ
مُهينٌ {3:178}
|
اور
یہ نہ سمجھیں کافر کہ ہم جو مہلت دیتے ہیں ان کو کچھ بھلا ہے ان کے حق میں ہم تو
مہلت دیتے ہیں ان کو تاکہ ترقی کریں وہ گناہ میں اور ان کے لئے عذاب ہے خوار
کرنے والا [۲۶۹]
|
یعنی
ممکن ہے کافروں کو اپنی لمبی عمریں، خوشحالی اور دولت و ثروت وغیرہ کی فراوانی
دیکھ کر خیال گزرے کہ ایسے مغضوب و مطرود ہوتے تو ہم کو اتنی فراخی اور مہلت
کیوں دی جاتی اور ایسی بھلی حالت میں کیوں رکھے جاتے؟ سو واضح رہے کہ یہ مہلت
دینا ان کے حق میں کچھ بھلی بات نہیں، مہلت دینے کا نتیجہ تو یہ ہی ہو گا کہ جن
کو گناہ سمیٹ کر کفر پر مرنا ہے وہ اپنے اختیار اور آزادی سے خوب جی بھر کر
ارمان نکال لیں اور گناہوں کا ذخیرہ فراہم کر لیں وہ سمجھتے رہیں کہ ہم بڑی عزت
سے ہیں حالانکہ ذلیل و خوار کرنے والا عذاب ان کے لئے تیار ہے اب سوچ لیں کہ
مہلت دینا ان جیسوں کے حق میں بھلا ہوا یا برا۔ نعوذ باللہ من شرور انفسنا۔
|
بخیل کا مال قیامت میں اس کے گلے کا طوق ہو گا:
وَلا يَحسَبَنَّ الَّذينَ يَبخَلونَ بِما ءاتىٰهُمُ
اللَّهُ مِن فَضلِهِ هُوَ خَيرًا لَهُم ۖ بَل هُوَ شَرٌّ لَهُم ۖ سَيُطَوَّقونَ
ما بَخِلوا بِهِ يَومَ القِيٰمَةِ ۗ وَلِلَّهِ ميرٰثُ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ ۗ
وَاللَّهُ بِما تَعمَلونَ خَبيرٌ {3:180}
|
اور
نہ خیال کریں وہ لوگ جو بخل کرتے ہیں اس چیز پر جو اللہ نے انکو دی ہے اپنے فضل
سے کہ یہ بخل بہتر ہے انکے حق میں بلکہ یہ بہت برا ہے انکے حق میں طوق بنا کر
ڈالا جائے گا انکے گلوں میں وہ مال جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن [۲۷۲] اور
اللہ وارث ہے آسمان اور زمین کا [۲۷۳] اور اللہ جو کرتے ہو سو جانتا ہے [۲۷۴]
|
یعنی
بخل یا سخاوت جو کچھ کرو گے اور جیسی نیت سے کرو گے خدا تعالیٰ سب کی خبر رکھتا
ہے اسی کے موافق بدلہ دے گا۔
|
یعنی
آخر تم مر جاؤ گے اور سب مال اسی کا ہو رہے گا جس کا حقیقت میں پہلے سے تھا
انسان اپنے اختیار سے دے تو ثواب پائے۔
|
ابتدائے
سورت کا بڑا حصہ اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) سے متعلق تھا۔ درمیان میں خاص مناسبات
وجوہ کی بنا پر غزوہ احد کی تفصیلات آ گئیں۔ انہیں بقدر کفایت تمام کر کے یہاں
سے پھر اہل کتاب کی شنائع بیان کی جاتی ہیں۔ چونکہ ان میں سے یہود کا معاملہ بہت
مضرت رساں اور تکلیف دہ تھا، منافقین بھی اکثر ان ہی میں کے تھے اور اوپر کی آیت
میں آگاہ کیا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ اب خبیث کو طیب سے جدا کر کے رہے گا سو یہ
جدائی جس طرح جانی و بدنی جہاد کے وقت ظاہر ہوتی تھی اسی طرح مالی جہاد کے وقت
بھی کھرا کھوٹا اور کچا پکا صاف طور پر الگ ہو جاتا تھا۔ اس لئے بتلادیا کہ یہود
منافقین جیسے جہاد کے موقع سے بھاگے ہیں، مال خرچ کرنے سے بھی جی چراتے ہیں لیکن
جس طرح جہاد سے بچ کر دنیا میں چند روز کی مہلت حاصل کر لینا ان کے حق میں کچھ
بہتر نہیں ایسے ہی بخل کر کے بہت مال اکھٹا کر لینا بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا
سکتا۔ اگر دنیا میں فرض کر و کوئی مصیبت پیش نہ بھی آئی تو قیامت کے دن یقینًا
یہ جمع کیا ہوا مال عذاب کی صورت میں ان کے گلے کا ہار بن کر رہے گا۔ اس میں
مسلمانوں کو بھی کھٹکھٹا دیا کہ زکوٰۃ دینے اور ضروری مصارف میں خرچ کرنے سے
کبھی جی نہ چرائیں، ورنہ جو شخص بخل و حرص وغیرہ رذیل خصلتوں میں یہود منافقین
کی روش اختیار کرے گا، اسے بھی اپنے درجہ کے موافق اسی طرح کی سزا کا منتظر رہنا
چاہئے۔ چنانچہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ مانعین زکوٰۃ کا مال سخت زہریلے اژدہے
کی صورت میں متمثل کر کے ان کے گلے میں ڈالا جائے گا۔ نعوذ باللہ منہ۔
|
مسلمانوں کی تسلی:
وَلا يَحسَبَنَّ الَّذينَ كَفَروا سَبَقوا ۚ إِنَّهُم
لا يُعجِزونَ {8:59}
|
اور
یہ نہ سمجھیں کافر لوگ کہ وہ بھاگ نکلے وہ ہرگز تھکا نہ سکیں گے ہم کو [۶۵]
|
نبذ
عہد کا جو حکم اوپر مذکور ہوا ممکن تھا کہ کفار اس کو مسلمانوں کی سادہ لوحی پر حمل
کر کے خوش ہوتے کہ جب ان کے یہاں خیانت و غدر جائز نہیں تو ہم کو خبردار اور
بیدار ہونے کے بعد پورا موقع اپنے بچاؤ اور مسلمانوں کے خلاف تیاری کرنے کا ملے۔
اس کا جواب دے دیا کہ کتنی ہی تیاری اور انتظامات کر لو۔ جب مسلمانوں کے ہاتھوں
خدا تم کو مغلوب و رسوا کرنا اور دنیا یا آخرت میں سزا دینا چاہے گا تو تم کسی
تدبیر سے اس کو عاجز نہ کر سکو گے۔ نہ اس کے احاطہ قدرت و تسلط سےنکل کر بھاگ
سکو گے۔ گویا مسلمانوں کی تسلی کر دی کہ وہ خدا پر بھروسہ کر کے اس کے احکام کا
امتثال کریں تو سب پر غالب آئیں گے۔
|
وَلا تَحسَبَنَّ اللَّهَ غٰفِلًا عَمّا يَعمَلُ
الظّٰلِمونَ ۚ إِنَّما يُؤَخِّرُهُم لِيَومٍ تَشخَصُ فيهِ الأَبصٰرُ {14:42}
|
اور
ہرگز مت خیال کر کہ اللہ بیخبر ہے ان کاموں سے جو کرتے ہیں بے انصاف [۷۲] ان کو
تو ڈھیل دے رکھی ہے (چھوڑ رکھا ہے) اس دن کے لئے کہ پتھرا جائیں گی (کھلی رہ
جائیں گی) آنکھیں [۷۳]
|
ایک
رکوع پہلے بہت سے نعمائے عظیمہ کا ذکر کر کے فرمایا تھا ۔ { اِنَّ الْاِنْسَانَ
لَظَلُوْمٌ کَفّار } (انسان بڑا ظالم اور نا شکر گذار ہے) بعدہٗ حضرت ابراہیمؑ
کا قصہ سنا کر کفار مکہ کو بعض خصوصی نعمتیں یاد دلائیں۔ اور ان کے ظلم و شرک کی
طرف اشارہ کیا۔ کفار کے اعمال سے اللہ غافل نہیں ہے: اس رکوع میں متنبہ
فرماتےہیں کہ اگر ظالموں کو سزا ملنے میں کچھ دیر ہو تو یہ مت سمجھو کہ خدا ان
کی حرکات سے بے خبر ہے ، یاد رکھو ان کا کوئی چھوٹا بڑا کام خدا سے پوشیدہ نہیں۔
البتہ اس کی عادت نہیں ہے کہ مجرم کو فورًا پکڑ کر تباہ کر دے وہ بڑے سے بڑے
ظالم کو مہلت دیتا ہے کہ یا اپنے جرائم سے باز آ جائے یا ارتکاب جرائم میں اس حد
پر پہنچ جائے کہ قانونی حیثیت سے اس کے مستحق سزا ہونے میں کسی طرح کا خِفا باقی
نہ رہے۔ (تنبیہ) { لَا تَحْسَبَنَّ } کا خطاب ہر اس شخص کو ہے جسے ایسا خیال گذر
سکتا ہو ، اور اگر حضور ﷺ کو خطاب ہے تو آپ کو مخاطب بنا کر
دوسروں کو سنانا مقصود ہو گا۔ کہ جب
حضور ﷺ کو فرمایا کہ ایسا خیال مت کرو۔ حالانکہ ایسا
خیال آپ کے قریب بھی نہ آسکتا تھا۔ تو دوسروں کے حق میں اس طرح کا خیال کس قدر
واجب الاحتراز ہونا چاہئے۔
|
یعنی
قیامت کے دل ہول اور دہشت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔
|
أَفَحَسِبَ الَّذينَ كَفَروا أَن يَتَّخِذوا عِبادى مِن
دونى أَولِياءَ ۚ إِنّا أَعتَدنا جَهَنَّمَ لِلكٰفِرينَ نُزُلًا {18:102}
|
اب
کیا سمجھتے ہیں منکر کہ ٹھہرائیں میرے بندوں کو میرے سوا حمایتی [۱۲۴] ہم نے
تیار کیا ہے دوزخ کو کافروں کی مہمانی [۱۲۵]
|
یعنی
کیا منکرین یہ گمان کرتے ہیں کہ میرے خاص بندوں (مسیحؑ ، عزیرؑ ، روح القدس ،
فرشتوں) کی پرستش کر کے اپنی حمایت میں کھڑا کر لیں گے۔ { کَلَّا سَیَکْفُرُوْنَ
بِعِبَادَتِھِمْ وَیَکُوْنُوْنَ عَلَیْھِمْ ضِدَّا } (ہر گز نہیں ! وہ خود
تمہاری حرکات سے بیزاری کا اظہار فرمائیں گے اور تمہارے مقابل مدعی بن کر کھڑے
ہوں گے)۔
|
یعنی
اس دھوکہ میں مت رہنا ! وہاں تم کو کوئی نہیں پوچھے گا۔ ہاں ہم تمہاری مہمانی
کریں گے۔ دوزخ کی آگ اور قسم قسم کےعذاب سے (اعاذنا اللہ منہا)۔
|
الَّذينَ ضَلَّ سَعيُهُم
فِى الحَيوٰةِ الدُّنيا وَهُم يَحسَبونَ
أَنَّهُم يُحسِنونَ صُنعًا {18:104}
|
وہ
لوگ جن کی کوشش بھٹکتی رہی دنیا کی زندگی میں اور وہ سمجھتے رہے کہ خوب بناتے
ہیں کام [۱۲۶]
|
یعنی
قیامت کے دن سے سے زیادہ خسارہ میں وہ لوگ ہوں گے جن کی ساری دوڑ دھوپ دنیا کے
لئے تھی۔ آخرت کا کبھی خیال نہ آیا ، محض دنیا کی ترقیات اور مادی کامیابیوں کو
بڑی معراج سمجھتے رہے (کذا یفہم من الموضح) یا یہ مطلب ہے کہ دنیوی زندگی میں جو
کام انہوں نے اپنے نزدیک اچھے سمجھ کر کئے تھے خواہ واقع میں اچھے تھے یا نہیں
وہ سب کفر کی نحوست سے وہاں بیکار ثابت ہوئے اور تمام محنت برباد گئ۔
|
وَالَّذينَ كَفَروا
أَعمٰلُهُم كَسَرابٍ بِقيعَةٍ يَحسَبُهُ
الظَّمـٔانُ ماءً حَتّىٰ إِذا جاءَهُ لَم يَجِدهُ شَيـًٔا وَوَجَدَ اللَّهَ
عِندَهُ فَوَفّىٰهُ حِسابَهُ ۗ وَاللَّهُ
سَريعُ الحِسابِ {24:39}
|
اور
جو لوگ منکر ہیں ان کے کام جیسے ریت جنگل میں پیاسا جانے اس کو پانی یہاں تک کہ
جب پہنچا اس پر اس کو کچھ نہ پایا اور اللہ کو پایا اپنے پاس پھر اسکو پورا
پہنچا دیا اس کا لکھا اور اللہ جلد لینے والا ہے حساب [۷۵]
|
کافر
دو قسم کے ہیں ایک وہ جو اپنے زعم اور عقیدہ کے موافق کچھ اچھے کام کرتے ہیں اور
سمجھتے ہیں کہ مرنے کے بعد کام آئیں گے، حالانکہ اگر کوئی کام بظاہر اچھا بھی ہو
تو کفر کی شامت سے وہ عنداللہ مقبول و معتبر نہیں۔ ان فریب خوردہ کافروں کی مثال
ایسی سمجھو کہ دوپہر کے وقت جنگل میں ایک پیاسے کو دور سے پانی دکھائی دیا اور
وہ حقیقت میں چمکتی ہوئی ریت تھی۔ پیاسا شدت تشنگی سے بیتاب ہو کر وہاں پہنچا،
دیکھا تو پانی وانی کچھ نہ تھا، ہاں ہلاکت کی گھڑی سامنے کھڑی تھی اور اللہ
تعالیٰ عمر بھر کا حساب لینے کے لئے موجود تھا، چنانچہ اسی اضطراب و حسرت کے وقت
اللہ نے اس کا سب حساب ایک دم میں چکا دیا۔ کیونکہ وہاں حساب کرتے کیا دیر لگتی
ہے۔ ہاتھوں ہاتھ عمر بھر کی شرارتوں اور غفلتوں کا بھگتان کر دیا گیا۔ دوسرے وہ
ہیں جو سر سے پاؤں تک دنیا کے مزوں میں غرق اور جہل و کفر، ظلم و عصیان کی
اندھیریوں میں پڑے غوطے کھا رہے ہیں ان کی مثال آگے بیان فرمائی، ان کے پاس
روشنی کی اتنی بھی چمک نہیں جتنی سراب پر دھوکہ کھانے والے کو نظر آتی تھی۔ یہ
لوگ خالص اندھیریوں اور تہ بر تہ ظلمات میں بند ہیں۔ کسی طرف سے روشنی کی شعاع
اپنے تک نہیں پہنچنے دیتے۔ نعوذ باللہ۔
|
لا تَحسَبَنَّ الَّذينَ كَفَروا مُعجِزينَ فِى
الأَرضِ ۚ وَمَأوىٰهُمُ النّارُ ۖ وَلَبِئسَ المَصيرُ {24:57}
|
نہ
خیال کر کہ یہ جو کافر ہیں تھکا دیں گے بھاگ کر ملک میں اور ان کا ٹھکانہ آگ ہے
اور وہ بری جگہ ہے پھر جانے کی [۱۰۵]
|
یہ
نیک بندوں ے کے بالمقابل مردود و مغضوب لوگوں کا انجام بتلایا۔ یعنی جبکہ نیکوں
کو ملک کی حکومت اور زمین کی خلافت عطا کیجاتی ہے ، کافروں اور بدکاروں کی ساری
مکاریاں اور تدبیریں شکست ہو جاتی ہیں۔ اللہ کے ارادہ کو کوئی روک نہیں سکتا۔
اگر تمام خدائی میں ادھر ادھر بھاگتے پھریں تب بھی وہ خدائی سزا سے اپنے کو نہیں
بچا سکتے۔ یقینًا ان کو جہنم کے جیل خانہ میں جانا پڑے گا۔
|
أَيَحسَبونَ أَنَّما نُمِدُّهُم بِهِ مِن مالٍ وَبَنينَ
{23:55}
|
کیا
وہ خیال کرتےہیں کہ یہ جو ہم اُنکو دیے جاتے ہیں مال اور اولاد
|
أَفَحَسِبتُم أَنَّما خَلَقنٰكُم عَبَثًا وَأَنَّكُم
إِلَينا لا تُرجَعونَ {23:115}
|
سو
کیا تم خیال رکھتے ہو کہ ہم نے تم کو بنایا کھیلنے کو اور تم ہمارے پاس پھر کر
نہ آؤ گے [۱۱۳]
|
یعنی
دنیا میں تو نیکی بدی کا پورا نتیجہ نہیں ملتا۔ اگر اس زندگی کے بعد دوسری زندگی
نہ ہو تو گویا یہ سب کارخانہ محض کھیل تماشہ اور بے نیتجہ تھا۔ سو حق تعالیٰ کی جناب
اس سے بہت بلند ہے کہ ا سکی نسبت ایسا رکیک خیال کیا جائے۔
|
أَم حَسِبَ الَّذينَ يَعمَلونَ السَّيِّـٔاتِ أَن
يَسبِقونا ۚ ساءَ ما يَحكُمونَ {29:4}
|
کیا
یہ سمجھتے ہیں جو لوگ کہ کرتے ہیں برائیاں کہ ہم سے بچ جائیں بری بات طے کرتے
ہیں [۴]
|
حضرت
شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ "پہلی دو آیتیں مسلمانوں کے متعلق تھیں جو کافروں
کی ایذاؤں میں گرفتار تھے، اور یہ آیت ان کافروں سے متعلق ہے جو مسلمانوں کو ستا
رہے تھے"۔ (موضح) یعنی مومنین کے امتحانات کو دیکھ کر یہ نہ سمجھیں کہ ہم
مزے سے ظلم کرتے رہیں گے اور سختیوں سے بچے رہیں گے، وہ ہم سےبچ کر کہاں جا سکتے
ہیں۔ جو سخت ترین سزا ان کو ملنے والی ہے اس کے سامنے مسلمانوں کے امتحان کی
سختی کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی اگر اس وقت کی عارضی مہلت سے انہوں نے یہ رائے
قائم کر لی ہے کہ ہم ہمیشہ مامون رہیں گے اور سزا دہی کے وقت خدا کے ہاتھ نہ آئیں
گے؟ تو حقیقت میں بہت ہی بری بات طے کی ایسا احمقانہ فیصلہ آنے والی مصیبت کو
روک نہیں سکتا۔
|
وَلَو أَنَّ لِلَّذينَ
ظَلَموا ما فِى الأَرضِ جَميعًا وَمِثلَهُ مَعَهُ لَافتَدَوا بِهِ مِن سوءِ
العَذابِ يَومَ القِيٰمَةِ ۚ وَبَدا لَهُم مِنَ اللَّهِ ما لَم يَكونوا يَحتَسِبونَ {39:47}
|
اور
اگر گنہگاروں کے پاس ہو جتنا کچھ کہ زمین میں ہے سارا اور اتنا ہی اور اسکے ساتھ
تو سب دے ڈالیں اپنے چھڑوانے میں بری طرح کے عذاب سے دن قیامت کے اور نظر آئے
انکو اللہ کی طرف سے جو خیال بھی نہ رکھتے تھے
|
أَم حَسِبَ الَّذينَ اجتَرَحُوا السَّيِّـٔاتِ أَن
نَجعَلَهُم كَالَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَواءً مَحياهُم
وَمَماتُهُم ۚ ساءَ ما يَحكُمونَ {45:21}
|
کیا
خیال رکھتے ہیں جنہوں نے کمائی ہیں برائیاں کہ ہم کر دیں گے انکو برابر ان لوگوں
کی جو کہ یقین لائے اور کیے بھلے کام ایک سا ہے ان کا جینا اور مرنا برے دعوے
ہیں جو کرتے ہیں [۲۶]
|
یعنی
اللہ تعالٰی کی شئون حکمت پر نظر کرتے ہوئے کیا کوئی عقلمند یہ گمان کر سکتا ہے
کہ ایک بدمعاش آدمی، اور ایک مرد صالح کے ساتھ خداوند یکساں معاملہ کرے گا۔ اور
دونوں کا انجام برابر کر دے گا؟ ہرگز نہیں نہ اس زندگی میں دونوں برابر ہو سکتے
ہیں نہ مرنے کے بعد جو حیات طیبہ مومنین صالح کو یہاں نصیب ہوتی ہے اور جس نصرت
اور عُلو و رفعت کے وعدے دنیا میں اس سے کئے گئے وہ ایک کافر بدکار کو کہاں میسر
ہیں۔ اسکے لئے دنیا میں معیشت ضنک اور آخرت میں لعنت و خسران کے سوا کچھ نہیں۔
الغرض یہ دعوٰی بالکل غلط اور یہ خیال بالکل مہمل ہے کہ اللہ تعالٰی نیکوں اور
بدوں کا مرنا اور جینا برابر کر دے گا۔ اسکی حکمت اسکو مقتضی نہیں۔ بلکہ ضرورت
ہے کہ دونوں کے اعمال کا ٹھیک ٹھیک نتیجہ ظاہر ہو کر رہے۔ اور ہر ایک کی نیکی یا
بدی کے آثار فی الجملہ یہاں بھی مشاہد ہوں اور ان کا پوری طرح مکمل معائنہ موت
کے بعد ہو۔
|
أَم حَسِبَ الَّذينَ فى قُلوبِهِم مَرَضٌ أَن لَن
يُخرِجَ اللَّهُ أَضغٰنَهُم {47:29}
|
کیا
خیال رکھتے ہیں وہ لوگ جنکے دلوں میں روگ ہے کہ اللہ ظاہر نہ کر دے گا اُنکے کینے
[۴۳]
|
یعنی
منافقین اپنے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے جو حاسدانہ عداوتیں اور
کینے رکھتے ہیں، کیا یہ خیال ہے کہ وہ دلوں میں پنہاں ہی رہیں گے؟ اللہ انکو طشت
از بام نہ کرے گا؟ اور مسلمان انکے مکر و فریب پر مطلع نہ ہوں گے؟ ہر گز نہیں۔
ان کا خبث باطن ضرور ظاہر ہو کر رہے گا اور ایسے امتحان کی بھٹی میں ڈالے جائیں
گے جہاں کھوٹا کھرا بالکل الگ ہو جائے گا۔
|
يَومَ يَبعَثُهُمُ اللَّهُ
جَميعًا فَيَحلِفونَ لَهُ كَما يَحلِفونَ لَكُم ۖ وَيَحسَبونَ
أَنَّهُم عَلىٰ شَيءٍ ۚ أَلا إِنَّهُم هُمُ الكٰذِبونَ {58:18}
|
جس
دن جمع کرے گا اللہ اُن سب کو پھر قسمیں کھائیں گے اُسکے آگے جیسے کھاتے ہیں
تمہارے آگے اور خیال کرتے ہیں کہ وہ کچھ بھلی راہ پر ہیں [۳۳] سنتا ہے وہی ہیں
اصل جھوٹے [۳۴]
|
یعنی
یہاں کی عادت پڑی ہوئی وہاں بھی نہ جائیگی۔ جس طرح تمہارے سامنے جھوٹ بول کر بچ جاتے
ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے ہوشیار ہیں اور بڑی اچھی چال چل رہے ہیں، اللہ کے
سامنے بھی جھوٹی قسمیں کھانے کو تیار ہو جائیں گے کہ پروردگار! ہم تو ایسے نہ
تھے، ویسے تھے۔ شاید وہاں بھی خیال ہو کہ اتنا کہہ دینے سے رہائی ہوجائیگی۔
|
بیشک
اصل اور ڈبل جھوٹا وہ ہی ہے جو خدا کے سامنے بھی جھوٹ کہنے سے نہ شرمائے۔
|
وَإِن تُطِع أَكثَرَ مَن
فِى الأَرضِ يُضِلّوكَ عَن سَبيلِ اللَّهِ ۚ إِن يَتَّبِعونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِن هُم إِلّا يَخرُصونَ {6:116}
|
اور
اگر تو کہنا مانے گا ان لوگوں کا جو دنیا میں ہیں تو تجھ کو بہکا دیں گے اللہ کی
راہ سے وہ سب تو چلتے ہیں اپنے خیال پر اور سب اٹکل ہی دوڑاتے ہیں [۱۶۰]
|
مشاہدہ
اور تاریخ بتلاتے ہیں کہ دنیا میں ہمیشہ فہیم، محقق اور بااصول آدمی تھوڑے رہے
ہیں۔ اکثریت ان ہی لوگوں کی ہوتی ہے جو محض خیالی، بےاصول اور اٹکل پچو باتوں کی
پیروی کرنے والے ہوں۔ اگر تم اسی اکثریت کا کہنا ماننے لگو اور بےاصول باتوں پر
چلنا شروع کر دو تو خدا کی بتلائی ہوئی سیدھی راہ سے یقینًا بہک جاؤ گے۔ یہ آپ
پر رکھ کر دوسروں کو سنایا۔
|
وَما يَتَّبِعُ أَكثَرُهُم
إِلّا ظَنًّا ۚ إِنَّ الظَّنَّ لا يُغنى مِنَ الحَقِّ شَيـًٔا ۚ إِنَّ
اللَّهَ عَليمٌ بِما يَفعَلونَ {10:36}
|
اور
وہ اکثر چلتے ہیں محض اٹکل پر سو اٹکل کام نہیں دیتی حق بات میں کچھ بھی [۵۷]
اللہ کو خوب معلوم ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں
|
جب
معلوم ہو چکا کہ ''مبدی'' و ''معید'' اور ہادی وہ ہی اللہ ہے تو اس کے خلاف شرک
کی راہ اختیار کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ ان کے ہاتھ میں کونسی دلیل و برہان
ہے جس کی بناء پر ''توحید'' کے مسلک قوم و قدیم کو چھوڑ کر ضلالت کے گڑھے میں
گرے جا رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے پاس سوا ظنون و اوہام اور اٹکل پچو باتوں
کے کوئی چیز نہیں۔ بھلا اٹکل کے تیر حق و صداقت کی بحث میں کیا کام دے سکتے ہیں۔
|
أَلا إِنَّ لِلَّهِ مَن فِى
السَّمٰوٰتِ وَمَن فِى الأَرضِ ۗ وَما يَتَّبِعُ الَّذينَ يَدعونَ مِن دونِ
اللَّهِ شُرَكاءَ ۚ إِن يَتَّبِعونَ إِلَّا الظَّنَّ
وَإِن هُم إِلّا يَخرُصونَ {10:66}
|
سنتا
ہے بیشک اللہ کا ہے جو کوئی ہے آسمانوں میں اور جو کوئی ہے زمین میں اور یہ جو
پیچھے پڑے ہیں اللہ کے سوا شریکوں کو پکارنے والے سو یہ کچھ نہیں مگر پیچھے پڑے
ہیں اپنے خیال کے اور کچھ نہیں مگر اٹکلیں دوڑاتے ہیں [۹۶]
|
یعنی
کل زمین و آسمان میں خدائے واحد کی سلطنت ہے۔ سب جن و انس اور فرشتے اسی کے
مملوک و مخلوق ہیں۔ مشرکین کا غیر اللہ کو پکارنا اور انہیں خدائی کا حصہ دار
بنانا ، محض اٹکل کے تیر اور واہی تباہی خیالات ہیں۔ ان کے ہاتھ میں نہ کوئی
حقیقت ہے نہ حجت و برہان ، خالی اوہام و ظنون کی اندھیریوں میں پڑے ٹھوکریں کھا رہے
ہیں۔
|
إِن هِىَ إِلّا أَسماءٌ
سَمَّيتُموها أَنتُم وَءاباؤُكُم ما أَنزَلَ اللَّهُ بِها مِن سُلطٰنٍ ۚ إِن
يَتَّبِعونَ إِلَّا الظَّنَّ وَما تَهوَى
الأَنفُسُ ۖ وَلَقَد جاءَهُم مِن رَبِّهِمُ الهُدىٰ {53:23}
|
یہ
سب نام ہیں جو رکھ لئے ہیں تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے اللہ نے نہیں اتاری
اُنکی کوئی سند [۱۵] محض اٹکل پرچلتے ہیں اور جو جیوں کی امنگ ہے اور پہنچی ہے
اُنکو اُنکے رب سے راہ کی سوجھ [۱۶]
|
یعنی
پتھروں اور درختوں کے کچھ نام رکھ چھوڑے ہیں جن کی خدائی کی کوئی سند نہیں۔ بلکہ
اس کے خلاف پر دلائل قائم ہیں۔ ان کو اپنے خیال میں خواہ بیٹیاں کہہ لو، یا بیٹے
یا اور کچھ محض کہنے کی بات ہے جس کے نیچے حقیقت کچھ نہیں۔
|
یعنی
باوجودیکہ اللہ کے پاس سے ہدایت کی روشنی آچکی اور وہ سیدھی راہ دکھا چکا۔ مگر
یہ احمق ان ہی اوہام و اہوا کی تاریکیوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جو کچھ اٹکل پچو
ذہن میں آگیا اور دل میں امنگ پیدا ہوئی کرگذرے۔تحقیق و بصیرت کی راہ سے کچھ
سروکار نہیں۔
|
وَما لَهُم بِهِ مِن عِلمٍ
ۖ إِن يَتَّبِعونَ إِلَّا الظَّنَّ ۖ
وَإِنَّ الظَّنَّ لا يُغنى مِنَ الحَقِّ
شَيـًٔا {53:28}
|
اور
اُنکو اُس کی کچھ خبر نہیں محض اٹکل پر چلتےہیں اوراٹکل کچھ کام نہ آئے ٹھیک بات
میں [۱۹]
|
یعنی
جن کو آخرت کا یقین نہیں وہ سزا کی طرف سے بے فکر ہو کر ایسی گستاخیاں کرتے ہیں۔
مثلًا فرشتوں کو زنانہ قرار دیکر خدا کی بیٹیاں کہدیا۔ یہ ان کی محض جہالت ہے۔
بھلا فرشتوں کو مرد اور عورت ہونے سے کیا واسطہ۔ اور خدا کے لئے اولاد کیسی۔ کیا
سچی اور ٹھیک بات پر قائم ہونا ہو تو ایسی اٹکلوں اور پادر ہوا اوہام سے کام چل
سکتا ہے۔ اور کیا تخمینے اور اٹکلیں حقائق ثابتہ کے قائم مقام ہوسکتی ہیں۔
|
وَما أَظُنُّ السّاعَةَ قائِمَةً وَلَئِن رُدِدتُ إِلىٰ
رَبّى لَأَجِدَنَّ خَيرًا مِنها مُنقَلَبًا {18:36}
|
اور
نہیں خیال کرتا ہوں کہ قیامت ہونے والی ہے اور اگر کبھی پہنا دیا گیا میں اپنے
رب کے پاس پاؤں گا بہتر اس سے وہاں پہنچ کر [۴۷]
|
یعنی
اب تو آرام سے گزرتی ہے ۔ اور میں نے سب انتظامات ایسے مکمل کر لئے ہیں کہ میری
زندگی تک ان باغوں کے تباہ ہونے کا بظاہر کوئی کھٹکا نہیں۔ رہا بعد الموت کا قصہ
، سو اول تو مجھے یقین نہیں کہ مرنے کے بعد ہڈیوں کے ریزوں کو دوبارہ زندگی ملے
گی ؟ اور ہم خدا کے سامنے پیش کئے جائیں گے لیکن اگر ایسا ہوا تو یقینًا مجھے
یہاں سے بہتر سامان وہاں ملنا چاہئے اگر ہماری حرکات خدا کو ناپسند ہوتیں تو
دنیا میں اتنی کشائش کیوں دیتا ۔ گویا یہاں کی فراخی علامت ہے کہ وہاں بھی ہم
عیش اڑائیں گے۔
|
وَلَئِن أَذَقنٰهُ رَحمَةً
مِنّا مِن بَعدِ ضَرّاءَ مَسَّتهُ لَيَقولَنَّ هٰذا لى وَما أَظُنُّ السّاعَةَ قائِمَةً وَلَئِن رُجِعتُ إِلىٰ
رَبّى إِنَّ لى عِندَهُ لَلحُسنىٰ ۚ فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذينَ كَفَروا بِما
عَمِلوا وَلَنُذيقَنَّهُم مِن عَذابٍ غَليظٍ {41:50}
|
اور
اگر ہم چکھائیں اسکو کچھ اپنی مہربانی پیچھے ایک تکلیف کے جو اسکو پہنچی تھی تو
کہنے لگے یہ ہے میرے لائق اور میں نہیں سمجھتا کہ قیامت آنے والی ہے اور اگر میں
پھر بھی گیا اپنے رب کی طرف بیشک میرے لئے ہے اسکے پاس خوبی [۷۲] سو ہم جتلا دیں
گے منکروں کو جو انہوں نے کیا ہے اور چکھائیں گے انکو ایک گاڑھا عذاب [۷۳]
|
یعنی
خوش ہو لو کہ اس کفر و غرور کے باوجود وہاں بھی مزے لوٹو گے؟ وہاں پہنچ کر پتہ
لگ جائے گا کہ منکروں کو کیسی سخت سزا بھگتنا پڑتی ہے۔ اور کس طرح عمر بھی کی
کرتوت سامنے آتی ہے۔
|
یعنی
انسان کی طبعیت عجیب طرح کی ہے۔ جب دنیا کی ذرا سی بھلائی پہنچے اور کچھ عیش
آرام و تندرستی نصیب ہو، تو مارے حرص کے چاہتا ہے کہ اور زیادہ مزے اڑائے ۔ کسی
حد پر پہنچ کر اسکی حرص کا پیٹ نہیں بھرتا۔ اگر بس چلے تو ساری دنیا کی دولت لے
کر اپنے گھر میں ڈال لے۔ لیکن جہاں ذرا کوئی افتاد پڑنا شروع ہوئی اور اسباب
ظاہری کا سلسلہ اپنے خلاف دیکھا تو پھر مایوس اور ناامید ہوتے بھی دیر نہیں
لگتی۔ اس وقت اس کا دل فورًا آس توڑ کر بیٹھ جاتا ہے کیونکہ اس کی نظر صرف پیش
آمدہ اسباب پر محدود ہوتی ہے۔ اس قادر مطلق مسبب الاسباب پر اعتماد نہیں رکھتا
جو چاہے تو ایک آن میں سلسلہ اسباب کو الٹ پلٹ کر رکھدے۔ اس مایوسی کے بعد اگر
فرض کیجئے اللہ نے تکلیف و مصیبت دور کر کے اپنی مہربانی سے عیش و راحت کا سامان
کر دیا تو کہنے لگتا ہے۔ { ھٰذَا لِی } یعنی میں نے فلاں تدبیر کی تھی، میری
تدبیر اور لیاقت و فضیلت سے یوں ہی ہونا چاہئے تھا۔ اب نہ خدا کی مہربانی یاد
رہی نہ اپنی وہ مایوسی کی کیفیت جو چند منٹ پہلے قلب پر طاری تھی۔ اب عیش و آرام
کے نشہ میں ایسا مخمور ہو جاتا ہے کہ آئندہ بھی کسی مصیبت اور تکلیف کے پیش آنے
کا خطرہ نہیں رہتا۔ سمجھتا ہے کہ ہمیشہ اسی حالت میں رہوں گا۔ اور اگر کبھی ان
تاثرات کے دوران میں قیامت کا نام سن لیتا ہے تو کہتا ہے کہ میں تو خیال نہیں
کرتا کہ یہ چیز کبھی ہونے والی ہے۔ اور فرض کرو ایسی نوبت آ ہی گئ اور مجھ کو
لوٹ کر اپنے رب کی طرف جانا ہی پڑا تب بھی مجھے یقین ہے کہ وہاں میرا انجام بہتر
ہو گا۔ اگر میں خدا کے نزدیک برا اور لائق ہوتا تو دنیا میں مجھکو یہ عیش و بہار
کے مزے کیونکر ملتے۔ لہذا وہاں بھی توقع ہے کہ یہ ہی معاملہ میرے ساتھ ہو گا۔
|
وَقالوا ما هِىَ إِلّا
حَياتُنَا الدُّنيا نَموتُ وَنَحيا وَما يُهلِكُنا إِلَّا الدَّهرُ ۚ وَما لَهُم
بِذٰلِكَ مِن عِلمٍ ۖ إِن هُم إِلّا يَظُنّونَ
{45:24}
|
اور
کہتے ہیں اورکچھ نہیں بس یہی ہے ہمارا جینا دنیا کا ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں
اور ہم جو مرتے ہیں سو زمانہ سے [۳۰] اور انکو کچھ خبر نہیں اسکی محض اٹکلیں
دوڑاتے ہیں [۳۱]
|
یعنی
اس دنیا کی زندگی کے سوا کوئی دوسری زندگی نہیں بس یہ ہی ایک جہان ہے جس میں
ہمارا مرنا اور جینا ہے۔ جیسے بارش ہونے پر سبزہ زمین سے اگا، خشکی ہوئی تو سوکھ
کر ختم ہو گیا۔ یہ ہی حال آدمی کا سمجھو، ایک وقت آتا ہے پیدا ہوتا ہے۔ پھر معین
وقت تک زندہ رہتا ہے، آخر زمانہ کا چکر اسے ختم کر دیتا ہے یہ ہی سلسلہ موت و
حیات کا دنیا میں چلتا رہتا ہے۔ آگے کچھ نہیں۔
|
یعنی
زمانہ نام ہے دہر کا۔ وہ کچھ کام کرنے والا نہیں کیونکہ نہ اس میں حِسّ ہے نہ
شعور نہ ارادہ، لا محالہ وہ کسی اور چیز کو کہتے ہوں گے جو معلوم نہیں ہوتی۔
لیکن دنیا میں اس کا تصرف چلتا ہے۔ پھر اللہ ہی کو کیوں نہ کہیں جس کا وجود اور
متصرف علی الاطلاق ہونا دلائل فطریہ اور براہین عقلیہ و نقلیہ سے ثابت ہو چکا
ہے۔ اور زمانہ کا الٹ پھیر اور رات دن کا ادل بدل کرنا اسی کے ہاتھ میں ہے۔
زمانے کو برا نہ کہو: اس معنی سے حدیث میں بتلایا گیا کہ دہر اللہ ہے اس کو برا
نہ کہنا چاہئے۔ کیونکہ جب آدمی دہر کو برا کہتا ہے، اسی نیت سے کہتا ہے کہ
حوادثِ دہر اسکی طرف منسوب ہیں حالانکہ تمام حوادث دہر اللہ کے ارادے اور مشیت
سے ہیں تو دہر کی برائی کرنے سے حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی جناب میں گستاخی ہوتی
ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔
|
قُلِ ادعُوا الَّذينَ زَعَمتُم مِن دونِ اللَّهِ ۖ لا يَملِكونَ مِثقالَ
ذَرَّةٍ فِى السَّمٰوٰتِ وَلا فِى الأَرضِ وَما لَهُم فيهِما مِن شِركٍ وَما
لَهُ مِنهُم مِن ظَهيرٍ {34:22}
|
تو
کہہ پکارو ان کو جن کو گمان کرتے ہو سوائے اللہ کے [۳۳] وہ مالک نہیں ایک ذرہ
بھر کے آسمانوں میں اور نہ زمین میں اور نہ ان کا ان دونوں میں کچھ ساجھا اور نہ
ان میں کوئی اس کا مددگار
|
یہاں
سے مشرکین مکہ کو خطاب ہے جنکی تنبیہ کے لئے "سبا" کا قصہ سنایا تھا۔
یعنی اللہ کے سوا جن چیزوں پر تم کو خدائی گمان ہے ذرا کسی آڑے وقت میں ان کو
پکارو تو سہی دیکھیں وہ کیا کام آتے ہیں؟
|
قُلِ ادعُوا الَّذينَ زَعَمتُم مِن دونِهِ فَلا يَملِكونَ كَشفَ
الضُّرِّ عَنكُم وَلا تَحويلًا {17:56}
|
کہہ
پکارو جن کو تم سمجھتے ہو سوائے اس کے سو وہ اختیار نہیں رکھتے کہ کھول دیں
تکلیف کو تم سے اور نہ بدل دیں [۸۴]
|
یعنی
خدا تو وہ ہے کہ جس کو چاہے عذاب دے جس پر چاہے مہربانی فرمائے ، جس کو جس قدر
چاہے دوسروں پر فضیلت عطا کرے ، اس کی قدرت کامل اور علم محیط ہو ۔ اب ذرا
مشرکین ان ہستیوں کو پکاریں جن کو انہوں نے خدا سمجھ رکھا یا بنا رکھا ہے۔ کیا
ان میں ایک بھی ایسا مستقل اختیار رکھتا ہے کہ ذرا سی تکلیف کو تم سے دور کر سکے
یا ہلکی کر دے یا تم سے اٹھا کر کسی دوسرے پر ڈال دے۔ پھر ایسی ضعیف و عاجز
مخلوق کو معبود ٹھہرا لینا کیسے روا ہو گا۔
|
قُل يٰأَيُّهَا الَّذينَ
هادوا إِن زَعَمتُم أَنَّكُم أَولِياءُ
لِلَّهِ مِن دونِ النّاسِ فَتَمَنَّوُا المَوتَ إِن كُنتُم صٰدِقينَ {62:6}
|
تو
کہہ اے یہودی ہونے والو اگر تم کو دعوٰی ہے کہ تم دوست ہو اللہ کے سب لوگوں کے
سوائے تو مناؤ اپنے مرنے کو اگر تم سچے ہو
|
زَعَمَ الَّذينَ كَفَروا أَن لَن يُبعَثوا ۚ قُل
بَلىٰ وَرَبّى لَتُبعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِما عَمِلتُم ۚ وَذٰلِكَ
عَلَى اللَّهِ يَسيرٌ {64:7}
|
دعوٰی
کرتے ہیں منکر کہ ہر گز اُنکو کوئی نہ اٹھائے گا [۷] تو کہہ کیوں نہیں قسم ہے
میرے رب کی تم کو بیشک اٹھانا ہے پھر تم کو جتلانا ہے جو کچھ تم نے کیا اور یہ
اللہ پر آسان ہے [۸]
|
یعنی
دوبارہ اٹھانا اور سب کا حساب کر دینا اللہ کو کیا مشکل ہے پوری طرح یقین رکھو
کہ یہ ضرور ہو کر رہیگا۔ کسی کے انکار کرنے سے وہ آنے والی گھڑی ٹل نہیں سکتی۔
لہٰذا مناسب ہے کہ انکار چھوڑ کر اس وقت کی فکر کرو۔
|
رسالت
کی طرح بعث بعدالموت کا بھی انکار ہے۔
|
سَلهُم أَيُّهُم بِذٰلِكَ زَعيمٌ {68:40}
|
پوچھ
اُن سے کونسا اُن میں اس کا ذمہ لیتا ہے [۲۳]
|
یعنی
یہ بات کہ مسلم اور مجرم دونوں برابر کر دیئے جائیں ظاہر ہے عقل و فطرت کے خلاف
ہے۔ پھر کیا کوئی نقلی دلیل اس کی تائید میں تمہارے پاس ہے؟ کیا کسی معتبرکتاب
میں یہ مضمون پڑھتے ہو کہ جو تم اپنے لئے پسند کر لو گے وہ ہی ملے گا؟ اور
تمہاری من مانی خواہشات پوری کی جائینگی۔ یا اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لئے
کوئی قسم کھا لی ہے کہ تم جو کچھ اپنے دل سے ٹھہرا لو گے وہ ہی دیا جائے گا؟ اور
جس طرح آج عیش و رفاہیت میں ہو۔ قیامت تک اسی حال میں رکھے جاؤ گے؟ جوشخص ان میں
سے ایسادعویٰ اور اس کے ثابت کرنے کی ذمہ داری اپنے اوپر لے، لاؤ، اسے سامنے
کرو۔ ہم بھی تو دیکھیں کہ وہ کہاں سے کہتا ہے۔
|
وَلَقَد جِئتُمونا فُرٰدىٰ
كَما خَلَقنٰكُم أَوَّلَ مَرَّةٍ وَتَرَكتُم ما خَوَّلنٰكُم وَراءَ ظُهورِكُم ۖ
وَما نَرىٰ مَعَكُم شُفَعاءَكُمُ الَّذينَ زَعَمتُم
أَنَّهُم فيكُم شُرَكٰؤُا۟ ۚ لَقَد تَقَطَّعَ بَينَكُم وَضَلَّ عَنكُم ما كُنتُم
تَزعُمونَ {6:94}
|
اور
البتہ تم ہمارے پاس آ گئے ایک ایک ہو کر جیسے ہم نے پیدا کیا تھا تم کو پہلی بار
اور چھوڑ آئے تم جو کچھ اسباب ہم نے تم کو دیا تھا اپنی پیٹھ کے پیچھے [۱۲۵] اور
ہم نہیں دیکھتے تمہارے ساتھ سفارش والوں کو جن کو تم بتلایا کرتے تھے کہ ان کا
تم میں ساجھا ہے البتہ منقطع ہو گیا تمہاا علاقہ اور جاتے رہے جو دعوے کہ تم کیا
کرتے تھے [۱۲۶]
|
یعنی
نہ سر پہ ٹوپی نہ پاؤں میں جوتی تہی دست چلے آ رہے ہو اور جس سازوسامان پر فخر و
ناز تھا اسے ہمراہ نہیں لائے کہیں پیچھے چھوڑ آئے ہو۔
|
یعنی
جن کو تم سمجھتے تھے کہ آڑے وقت میں ہمارا ہاتھ بٹائیں گے اور مصیبت میں ساتھ
ہوں گے وہ کہاں چلے گئے آج ہم ان کو تمہاری سفارش اور حمایت پر نہیں دیکھتے۔
حمایت و نصرت کے وہ علاقے آج ٹوٹ گئے اور جو لمبے چوڑے دعوے تم کیا کرتے تھے سب
رفو چکر ہو گئے۔
|
وَيَومَ نَحشُرُهُم جَميعًا
ثُمَّ نَقولُ لِلَّذينَ أَشرَكوا أَينَ شُرَكاؤُكُمُ الَّذينَ كُنتُم تَزعُمونَ {6:22}
|
اور
جس دن ہم جمع کریں گے ان سب کو پھر کہیں گے ان لوگوں کو جنہوں نے شرک کیا تھا
کہاں ہیں شریک تمہارے جن کا تم کو دعویٰ تھا [۲۶]
|
یعنی
جن کی نسبت تم کو دعویٰ تھا کہ وہ خدائی کے حصہ دار اور شدائد میں تمہارےشفیع و
مددگار ہیں، آج ایسی سختی اور مصیبت کے وقت کہاں چلے گئے کہ تمہارے کچھ بھی کام
نہیں آتے۔
|
وَيَومَ يَقولُ نادوا
شُرَكاءِىَ الَّذينَ زَعَمتُم فَدَعَوهُم
فَلَم يَستَجيبوا لَهُم وَجَعَلنا بَينَهُم مَوبِقًا {18:52}
|
اور
جس دن فرمائے گا پکارو میرے شریکوں کو [۶۸] جن کو تم مانتے تھے پھر پکاریں گے سو
وہ جواب نہ دیں گے ان کو اور کر دیں گے ہم انکے بیچ مرنے کی جگہ [۶۹]
|
یعنی
جن کو میرا شریک بنا رکھا تھا ۔ بلاؤ ! تا اس مصیبت کے وقت تمہاری مدد کریں۔
|
اس
وقت رفاقت اور دوستی کی ساری قلعی کھل جائے گی ایک دوسرے کے نزدیک بھی نہ جا
سکیں گے ۔ کام آنا تو درکنار دونوں کے بیچ میں عظیم و وسیع خندق آگ کی حائل ہو
گی (اعاذنا اللہ منہا)۔
|
وَيَومَ يُناديهِم فَيَقولُ
أَينَ شُرَكاءِىَ الَّذينَ كُنتُم تَزعُمونَ
{28:62}
|
اور
جس دن انکو پکارے گا تو کہے گا کہاں ہیں میرے شریک جن کا تم دعویٰ کرتے تھے [۸۷]
|
یعنی
وہ خدائی کے حصہ دار کہاں ہیں ذرا اپنی تائید و حمایت کے لئے لاؤ تو سہی۔
|
وَيَومَ يُناديهِم فَيَقولُ
أَينَ شُرَكاءِىَ الَّذينَ كُنتُم تَزعُمونَ
{28:74}
|
اور
جس دن ان کو پکارے گا تو فرمائے گا کہاں ہیں میرے شریک جن کا تم دعویٰ کرتے تھے
|
وَهَدَينٰهُ النَّجدَينِ {90:10}
|
اور
دکھلا دیں اُسکو دو گھاٹیاں [۱۰]
|
یعنی
خیر اور شر دونوں کی راہیں بتلا دیں۔ تاکہ برے راستہ سے بچے اور اچھے راستہ پر
چلے اور یہ بتلانا اجمالی طور پر عقل و فطرت سے ہوا اور تفصیلی طور پر انبیاء
ورسل کی زبان سے (تنبیہ) بعض نے "نجدین" سے مراد عورت کے پستان لئے
ہیں۔ یعنی بچے کو دودھ پینے اور عذا حاصل کرنے کا راستہ بتلا دیا۔
|
إِنّا هَدَينٰهُ السَّبيلَ إِمّا شاكِرًا وَإِمّا
كَفورًا {76:3}
|
ہم
نے اُسکو سجھائی راہ یا حق مانتا ہے اور یا ناشکری کرتا ہے [۴]
|
یعنی
اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی
راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات
اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور
اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں
کا انجام مذکور ہے۔
|
اللَّهُ نورُ السَّمٰوٰتِ
وَالأَرضِ ۚ مَثَلُ نورِهِ كَمِشكوٰةٍ فيها مِصباحٌ ۖ المِصباحُ فى زُجاجَةٍ ۖ
الزُّجاجَةُ كَأَنَّها كَوكَبٌ دُرِّىٌّ يوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُبٰرَكَةٍ
زَيتونَةٍ لا شَرقِيَّةٍ وَلا غَربِيَّةٍ يَكادُ زَيتُها يُضيءُ وَلَو لَم
تَمسَسهُ نارٌ ۚ نورٌ عَلىٰ نورٍ ۗ يَهدِى
اللَّهُ لِنورِهِ مَن يَشاءُ ۚ وَيَضرِبُ اللَّهُ الأَمثٰلَ لِلنّاسِ ۗ
وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيءٍ عَليمٌ {24:35}
|
اللہ
روشنی ہے آسمانوں اور زمین کی [۶۶] مثال اس کی روشنی کی جیسے ایک طاق اس میں ہو
ایک چراغ وہ چراغ دھرا ہو ایک شیشہ میں وہ شیشہ ہے جیسے ایک تارہ چمکتا ہوا تیل
جلتا ہے اس میں ایک برکت کے درخت کا وہ زیتون ہے نہ مشرق کی طرف ہے اور نہ مغرب
کی طرف قریب ہے اس کا تیل کہ روشن ہو جائے اگرچہ نہ لگی ہو اس میں آگ روشنی پر
روشنی اللہ راہ دکھلا دیتا ہے اپنی روشنی کی جس کو چاہے اور بیان کرتا ہے اللہ
مثالیں لوگوں کے واسطے اور اللہ سب چیز کو جانتا ہے [۶۷]
|
یعنی
اللہ سے رونق اور بستی ہے زمین و آسمان کو اس کی مدد نہ ہو تو سب ویران ہو جائیں
(موضح القرآن) سب مخلوق کو نور وجود اسی سے ملا ہے۔ چاند، سورج، ستارے، فرشتے
اور انبیاء و اولیاء میں جو ظاہری و باطنی روشنی ہے، اسی منبع النور سے مستفادہ
ہے۔ ہدایت و معرفت کا جو چمکارا کسی کو پہنچتا ہے اسی بارگاہ رفیع سے پہنچتا ہے۔
تمام علویات و سفلیات اس کی آیات تکوینیہ و تنزیلیہ سے منور ہیں۔ حسن و جمال یا
خوبی و کمال کی کوئی چمک اگر کہیں نظر پڑتی ہے وہ اس کے وجہ منور اور ذات مباک
کے جمال و کمال کا ایک پر تو ہے۔ سیرت ابن اسحٰق میں ہے کہ طائف میں جب لوگوں نے
حضور ﷺ کو ستایا تو یہ دعا زبان پر تھی۔ { اَعُوْذُ بِنُوْرِ وَجْھِکَ الذِی
اَشْرَقَتْ لَہُ الظلمَاتُ وَ صَلَحُ عَلَیَہِ اَمْرُ الدُّنْیَا والْاٰ خِرَۃِ
اَنْ یَحُلَّ بِیْ غَضَبُکَ اَوْ یَنْزِل بِیْ سَخَطُکَ لَکَ الْعُتْبٰی حَتّٰی
ترضٰی وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ} ۔ رات کی تاریکی میں آپ اپنے
رب کو { اَنْتَ نُوْرُ السَّمٰواتِ وَالْاَرْضِ } کہہ کر پکارا کرتے اور اپنے
کان، آنکھ، دل، ہر ہر عضو بلکہ بال بال میں اس سے نور طلب فرماتے تھے اور اخیر
میں بطور خلاصہ فرماتے { وَاجْعَلْ لِیْ نُوْرًا } یا { وَاَعْظِمْ لِیْ نُوْرًا
} یا { وَاجْعَلْنِیْ نُوْرًا } یعنی میرے نور کو بڑھا بلکہ مجھے نور ہی نور بنا
دے۔ اور ایک حدیث میں ہے۔ { اِنَّ اللہَ خَلَقَ خَلْقَہٗ فِی ظُلْمَۃٍ ثُمَّ
القیٰ عَلَیْھِمْ مِنْ نُوْرِہٖ فَمَنْ اَصَابَہٗ مِنْ نُوْرِہٖ یَوْمَئِذٍ
اھْتَدیٰ وَمَنْ اَخْطَاہٗ ضَلَّ } (فتح الباری ۶۔۴۳۰) یعنی جس کو اس وقت اللہ
کے نور (توفیق) سے حصہ ملا وہ ہدایت پر آیا اور جو اس سے چوکا گمراہ رہا۔ واضح
رہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی دوسری صفات مثلاً سمع، بصر وغیرہ کی کوئی کیفیت
بیان نہیں کی جا سکتی۔ ایسے ہی صفت نور بھی ہے ممکنات کے نور پر قیاس نہ کیا
جائے۔ تفصیل کے لئے امام غزالی کا رسالہ "مشکوٰۃ الانوار" دیکھو۔
|
یعنی
یوں تو اللہ کے نور سے تمام موجودات کی نمود ہے۔ لیکن مومنین مہتدین کو نور
الہٰی سے ہدایت و عرفان کا جو خصوصی حصہ ملتا ہے۔ اس مثال کی ایک عمدہ توجیہہ:
اس کی مثال ایسی سمجھو گویا مومن قانت کا جسم ایک طاق کی طرح ہے جس کے اندر ایک
ستارہ کی طرح چمکدار شیشہ (قندیل) رکھا ہو۔ یہ شیشہ اس کا قلب ہوا جس کا تعلق
عالم بالا سے ہے۔ اس شیشہ (قندیل) میں معرفت و ہدایت کا چراغ روشن ہے، یہ روشنی
ایسے صاف و شفاف اور لطیف تیل سے حاصل ہو رہی ہے جو ایک نہایت ہی مبارک درخت
(زیتون) سے نکل کر آیا ہے اور زیتون بھی وہ جو کسی حجاب سے نہ مشرق میں ہو نہ
مغرب میں یعنی کسی طرف دھوپ کی روک نہیں کھلے میدان میں کھڑا ہے جس پر صبح و شام
دونوں وقت کی دھوپ پڑتی ہے۔ تجربہ سے معلوم ہوا کہ ایسے زیتون کا تیل اور ابھی
زیادہ لطیف و صاف ہوتا ہے۔ غرض اس کا تیل اس قدر صاف اور چمکدار ہے کہ بدون آگ
دکھلائے ہی معلوم ہوتا ہے کہ خودبخود روشن ہو جائے گا۔ یہ تیل میرے نزدیک اسی
حسن استعداد اور نور توفیق کا ہوا جو نور مبارک کے القاء سے بدء فطرت میں مومن
کو حاصل ہوا تھا۔ جیسا کہ اوپر کے فائدہ میں گذر چکا اور جس طرح شجرہ مبارکہ کو
{ لَاشَرْقِیَّۃٍ وَلَا غَرْبِیَّۃٍ } فرمایا تھا وہ نور ربانی بھی جہت کی قید
سے پاک ہے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ مومن کا شیشہ دل نہایت صاف ہو تا ہے، اور خدا کی
توفیق سے اس میں قبول حق کی ایسی زبردست استعداد پائی جاتی ہے کہ بدون دیا سلائی
دکھائے ہی جل اٹھنے کو تیار ہوتا ہے اب جہاں ذرا آگ دکھائی یعنی وحی و قرآن کی
تیز روشنی نے اس کو مس کیا فورًا اس کی فطری روشنی بھڑک اٹھی۔ اسی کو { نُوْرٌ
عَلٰی نُوْرٍ } فرمایا باقی سب کچھ اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے جس کو چاہے اپنی
روشنی عنایت فرمائے اور وہ ہی جانتا ہے کہ کس کو یہ روشنی ملنی چاہئے۔ کس کو
نہیں ان عجیب و غریب مثالوں کا بیان فرمانا بھی اسی غرض سے ہے کہ استعداد رکھنے
والوں کو بصیرت کی ایک روشنی حاصل ہو۔ حق تعالیٰ ہی تمثیل کے مناسب موقع و محل
کو پوری طرح جانتا ہے، کسی دوسرے کو قدرت کہاں کہ ایسی موزوں و جامع مثال پیش کر
سکے۔ آگے فرمایا کہ وہ روشنی ملتی ہے اس سے کہ جن مسجدوں میں کامل لوگ صبح و شام
بندگی کرتے ہیں وہاں دھیان لگا رہے۔ (تنبیہ) مفسرین نے تشبیہ کی تقریر بہت طرح
کی ہے، حضرت شاہ صاحبؒ نے بھی موضح القرآن میں نہایت لطیف و عمیق تقریر فرمائی
ہے مگر بندہ کے خیال میں جو توجیہہ آئی وہ درج کر دی۔ { وَلِلنّاس فیما یعشقون
مذاھبٗ } واضح رہے کہ { یُوقَدُ } اور { وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَار } میں جس
نار کی طرف اشارہ ہے میں نے مشبہ میں اس کی جگہ وحی و قرآن کو رکھا ہے۔ اس کا
ماخذ وہ فائدہ ہے جو حضرت شاہ صاحبؒ نے { مَثَلُھُمْ کَمَثَلِ الَّذِی
اسْتَوْقَدَنَارًا } پر لکھا ہے اور جس کی تائید صحیحین کی ایک حدیث سے ہوتی ہے
جس میں آپ نے یہ الفاظ فرمائے ہیں۔ { اِنَّمَا مَثَلِیْ وَ مَثَلُ النّاسِ کَرجُلٍ
اسْتَوْقَدَ نَارًا فلما اضاءَتْ مَا حَوْلَہٗ جَعَلَ الفِرَاشُ وَھٰذہِ
الدَّوابُّ الَّتِیْ یَقَعْنَ فِیْھَا } الخ
|
أَمَّن يَهديكُم فى ظُلُمٰتِ البَرِّ وَالبَحرِ وَمَن
يُرسِلُ الرِّيٰحَ بُشرًا بَينَ يَدَى رَحمَتِهِ ۗ أَءِلٰهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ
تَعٰلَى اللَّهُ عَمّا يُشرِكونَ {27:63}
|
بھلا
کون راہ بتاتا ہے تم کو اندھیروں میں جنگل کے اور دریا کے [۸۷] اور کون چلاتا ہے
ہوائیں خوشخبری لانے والیاں اس کی رحمت سے پہلے [۸۸] اب کوئی حاکم ہے اللہ کے
ساتھ اللہ بہت اوپر ہے اس سے جسکو شریک بتلاتے ہیں [۸۹]
|
یعنی
خشکی اور دریا کی اندھیریوں میں ستاروں کے ذریعہ سے تمہاری رہنمائی کرتا ہے۔
خواہ بلاواسطہ یا بالواسطہ قطب نما وغیرہ آلات کے۔
|
یعنی
باران رحمت سے پہلے ہوائیں چلاتا ہے جو بارش کی آمد آمد کی خوشخبری سناتی ہیں۔
|
یعنی
کہاں وہ قادر مطلق اور حکیم برحق اور کہاں عاجز و ناقص مخلوق، جسے اسکی خدائی کا
شریک بتلایا جا رہا ہے۔
|
أَلَم تَرَوا أَنَّ اللَّهَ
سَخَّرَ لَكُم ما فِى السَّمٰوٰتِ وَما فِى الأَرضِ وَأَسبَغَ عَلَيكُم نِعَمَهُ
ظٰهِرَةً وَباطِنَةً ۗ وَمِنَ النّاسِ مَن يُجٰدِلُ فِى اللَّهِ بِغَيرِ عِلمٍ
وَلا هُدًى وَلا كِتٰبٍ مُنيرٍ {31:20}
|
کیا
تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کام میں لگائے تمہارے جو کچھ ہے آسمان اور زمین میں
[۲۶] اور پوری کر دیں تم پر اپنی نعمتیں کھلی اور چھپی [۲۷] اور لوگوں میں ایسے
بھی ہیں جو جھگڑتے ہیں اللہ کی بات میں نہ سمجھ رکھیں نہ سوجھ اور نہ روشن کتاب
[۲۸]
|
یعنی
ایسے کھلے ہوئے انعام و احسان کے باوجود بعض لوگ آنکھیں بند کر کے اللہ کی
وحدانیت میں یا اس کی شئون و صفات میں یا اس کے احکام و شرائع میں جھگڑتے ہیں
اور محض بے سند جھگڑتے ہیں۔ نہ کوئی علمی اور عقلی اصول ان کے پاس ہے نہ کسی
ہادی برحق کی ہدایت، نہ کسی مستند اور روشن کتاب کا حوالہ ، محض باپ دادوں کی اندھی
تقلید ہے جس کا ذکر اگلی آیت میں آتا ہے۔ (تنبیہ) ترجمہ سے یوں مترشح ہوتا ہے کہ
غالبًا متجرم محقق قدس اللہ روحہ نے "علم" سےعقلی طور پر سمجھنا مراد
لیا ہے اور "ہدی" سے ایک طرح کی بصیرت مراد لی ہے جو سلامتی ذوق و
وجدان اور ممارست عقل و فکر سے ناشی ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ ان لوگوں کو نہ
معمولی سمجھ ہے نہ وجدانی بصیرت حاصل ہے نہ روشن کتاب یعنی نقلی دلیل رکھتے ہیں۔
یہ معنی بہت لطیف ہیں۔ ہم نے آیت کی جو تقریر اختیار کی محض تسہیل کی غرض سے کی
ہے۔
|
یعنی
آسمان و زمین کی کل مخلوق تمہارے کام میں لگا دی ہے، پھر تم اس کے کام میں کیوں
نہیں لگتے۔
|
کھلی
نعمتیں وہ جو حواس سے مُۡدرک ہوں یا بے تکلف سمجھ میں آ جائیں ۔ چھپی وہ جو عقلی
غوروفکر سے دریافت کی جائیں۔ یا ظاہری سے مادی و معاشی اور باطنی سے روحانی و
معادی نعمتیں مراد ہوں۔ گویا پیغمبر بھیجنا کتاب کا اتارنا، نیکی کی توفیق دینا،
سب باطنی نعمتیں ہوں گی۔ واللہ اعلم۔
|
أَم يَقولونَ افتَرىٰهُ ۚ
بَل هُوَ الحَقُّ مِن رَبِّكَ لِتُنذِرَ قَومًا ما أَتىٰهُم مِن نَذيرٍ مِن
قَبلِكَ لَعَلَّهُم يَهتَدونَ {32:3}
|
کیا
کہتے ہیں کہ یہ جھوٹ باندھ لایا ہے کوئی نہیں وہ ٹھیک ہے تیرے رب کی طرف سے تاکہ
تو ڈر سنا دے ان لوگوں کو جن کے پاس نہیں آیا کوئی ڈرانے والا تجھ سے پہلے تاکہ
وہ راہ پر آئیں [۲]
|
یعنی
جس کتاب کا معجزہ اور من اللہ ہونا اس قدر واضح ہے کہ شک و شبہ کی قطعًا گنجائش
نہیں، کیا اس کی نسبت کفار کہتے ہیں کہ پیغمبر اپنی طرف سے گھڑ لایا ہے اور معاذ
اللہ جھوٹ طوفان خدا کی طرف نسبت کرتا ہے؟ حد ہو گئ جب ایسی روشن چیز میں بھی
شہبات پیدا کئے جانے لگے ، ذرا غورو انصاف کرتے تو معلوم ہو جاتا کہ یہ کتاب
ٹھیک پروردگار عالم کی طرف سے آئی ہے ۔ تا اس کے ذریعہ سے آپ اس قوم کو بیدار
کرنے اور راہ راست پر لانے کی کوشش کریں جن کے پاس قرنوں سے کوئی بیدار کرنے
والا پیغمبر نہیں آیا۔ سوچنے کی بات ہے کہ آدمی اپنی طرف سے وہ ہی چیز بنا کر
لاتا ہے یا بنا سکتا ہے جس کی کوئی نظیر یا زبردست خواہش اس کے ماحول میں پائی
جاتی ہو۔ کسی ملک میں ایسی بات دفعۃً منہ سے نکال دینا جو ان کی سینکڑوں برس کی
مسخ شدہ ذہنیت اور مذاق کے یکسر مخالف ہو اور جس کے قبول کی ادنیٰ ترین استعداد
بھی بظاہر نہ پائی جائے، کسی عاقل کا کام نہیں ہو سکتا۔ ہاں اللہ تعالیٰ کی قدرت
قاہرہ کسی کو مامور کرے وہ الگ بات ہے۔ پس نبی امی ﷺ جن کا اعقل الناس ہونا ان کو بھی تسلیم کرنا پڑا ہے جو
آپ کو (معاذ اللہ) مفتری کہتے ہیں، اگر کوئی بات بنا کر لاتے تو یقینًا ایسی
لاتے جو عرب کی اس فضا کے مناسب اور عام جذبات کے موافق ہوتی اور جس کا کوئی
نمونہ ان کے گردو پیش پایا جاتا۔ یہ ہی بات ایک انصاف پسند کو یقین دلا سکتی ہے
کہ وہ خود اپنی ذاتی خواہش سے کھڑے نہیں ہوئے اور نہ جو پیغام لائے وہ ان کا
تصنیف کیا ہوا تھا۔
|
فَإِن لَم يَستَجيبوا لَكَ
فَاعلَم أَنَّما يَتَّبِعونَ أَهواءَهُم ۚ وَمَن أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ
هَوىٰهُ بِغَيرِ هُدًى مِنَ اللَّهِ ۚ
إِنَّ اللَّهَ لا يَهدِى القَومَ
الظّٰلِمينَ {28:50}
|
پھر
اگر نہ کر لائیں تیرا کہا تو جان لے کہ وہ چلتے ہیں نری اپنی خواہشوں پر اور اس سے
گمراہ زیادہ کون جو چلے اپنی خواہش پر بدون راہ بتلائے اللہ کے بیشک اللہ راہ
نہیں دیتا بے انصاف لوگوں کو [۷۰]
|
یعنی
جب یہ لوگ نہ ہدایت کو قبول کرتے ہیں اور نہ اس کے مقابلہ میں کوئی چیز پیش کر
سکتے ہیں تو یہ ہی اس کی دلیل ہے کہ ان کو راہ ہدایت پر چلنا مقصود ہی نہیں۔ محض
اپنی خواہشات کی پیروی ہے، جس چیز کو دل چاہا مان لیا، جس کو اپنی مرضی اورخواہش
کے خلاف پایا رد کر دیا ۔ بتلائیے ایسے ہوا پرست ظالموں کو کیا ہدایت ہو سکتی
ہے۔ اللہ کی عادت اسی قوم کو ہدایت کرنے کی ہے جو ہدایت پانے کا ارادہ کرے اور
محض ہوا و ہوس کو حق کا معیار نہ بنا لے۔
|
بَلِ اتَّبَعَ الَّذينَ
ظَلَموا أَهواءَهُم بِغَيرِ عِلمٍ ۖ فَمَن يَهدى
مَن أَضَلَّ اللَّهُ ۖ وَما لَهُم مِن نٰصِرينَ {30:29}
|
بلکہ
چلتے ہیں یہ بے انصاف اپنی خواہشوں پر بن سمجھے [۳۱] سو کون سمجھائے جس کو اللہ
نے بھٹکایا اور کوئی نہیں ان کا مددگار [۳۲]
|
یعنی
یہ بے انصاف لوگ ایسی صاف و واضح باتوں کو کیونکر سمجھیں۔ وہ سمجھنا چاہتے ہی
نہیں بلکہ جہالت اور ہوا پرستی سے محض اوہام و خواہشات کی پیروی پر تلے ہوئے
ہیں۔
|
یعنی
جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کی بے انصافی اور جہل اور ہوا پرستی کی بدولت راہ حق پر
چلنے اور سمجھنے کی توفیق نہ دی اب کون طاقت ہے جو اسے سمجھا کر راہ حق پر لے
آئے یا مدد کر کے گمراہی اور تباہی سے بچا لے۔ لہذا ایسوں کی طرف سے زیادہ متحسر
اور غمگین ہونے کی ضرورت نہیں۔ ان سے قطع نطر کر کے آپ ہمہ تن اپنے پروردگار کی
طرف توجہ کیجئے۔ اور دین فطرت پر جمے رہئے۔
|
كانَ النّاسُ أُمَّةً
وٰحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيّۦنَ مُبَشِّرينَ وَمُنذِرينَ وَأَنزَلَ
مَعَهُمُ الكِتٰبَ بِالحَقِّ لِيَحكُمَ بَينَ النّاسِ فيمَا اختَلَفوا فيهِ ۚ
وَمَا اختَلَفَ فيهِ إِلَّا الَّذينَ أوتوهُ مِن بَعدِ ما جاءَتهُمُ البَيِّنٰتُ
بَغيًا بَينَهُم ۖ فَهَدَى اللَّهُ
الَّذينَ ءامَنوا لِمَا اختَلَفوا فيهِ مِنَ الحَقِّ بِإِذنِهِ ۗ وَاللَّهُ يَهدى مَن يَشاءُ إِلىٰ صِرٰطٍ مُستَقيمٍ {2:213}
|
تھے
سب لوگو ایک دین پر پھر بھیجے اللہ نے پیغمبر خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے
اور اتاری انکےساتھ کتاب سچی کہ فیصلہ کرے لوگوں میں جس بات میں وہ جھگڑا کریں
اور نہیں جھگڑا ڈالا کتاب میں مگر انہی لوگوں نے جن کو کتاب ملی تھی اس کے بعد
کہ ان کو پہنچ چکے صاف حکم آپس کی ضد سے پھر اب ہدایت کی اللہ نے ایمان والوں کو
اس سچی بات کی جس میں وہ جھگڑ رہے تھے اپنے حکم سے اور اللہ بتلاتا ہے جس کو
چاہے سیدھا راستہ [۳۳۶]
|
حضرت
آدمؑ کے وقت سے ایک ہی سچا دین رہا ایک مدت تک اس کے بعد دین میں لوگوں نے
اختلاف ڈالا تو خدا تعالیٰ نے انبیاء کو بھیجا جو اہل ایمان و طاعت کو ثواب کی
بشارت دیتے تھے اور اہل کفر و معصیت کو عذاب سے ڈراتے تھے اور ان کے ساتھ سچی
کتاب بھی بھیجی تاکہ لوگوں کا اختلاف اور نزاع دور ہو اور دین حق ان کے اختلاف
سے محفوظ اور قائم رہے اور احکام الہٰی میں انہی لوگوں نے اختلاف ڈالا جن کو وہ
کتاب ملی تھی جیسے یہود و نصاریٰ توریت و انجیل میں اختلاف و تحریف کرتے تھے اور
یہ نزاع بے سمجھی سے نہیں کرتے تھے بلکہ خوب سمجھ کر محض حب دنیا اور ضد اور حسد
سے ایسا کرتے تھے سو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اہل ایمان کو طریقہ حق کی تعلیم
ہدایت فرمائی اور گمراہوں کے اختلافات سے بچا لیا جیسے آپ کی امت کو ہر عقیدہ
اور ہر عمل میں امر حق کی تعلیم فرمائی اور یہود و نصاریٰ کے اختلاف اور افراط و
تفریط سے ان کو محفوظ رکھا۔ {فائدہ} اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک تو یہ
کہ اللہ نے جو کتابیں اور نبی متعدد بھیجے تو اس واسطے نہیں کہ ہر فرقہ کو جدا
طریقہ بتلایا ہو بلکہ سب کے لئے اللہ نے اصل میں ایک ہی رستہ مقرر کیا جس وقت اس
راہ سے بِچلے تو اللہ نے نبی کو بھیجا اور کتاب اتاری کہ اس کے موافق چلیں اس کے
بعد پھر بہکے تو دوسرا نبی اور کتاب اللہ پاک نے اسی ایک راہ کے قائم کرنے کو
بھیجا اُس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ تندرستی ایک ہے اور بیماریاں بےشمار جب ایک
مرض پیدا ہوا تو اس کے موافق دوا اور پرہیز فرمایا جب دوسرا مرض پیدا ہوا تو
دوسری دوا اور پرہیز اس کے موافق فرمایا آخر میں ایسا طریقہ اور قاعدہ فرما دیا
جو سب بیماریوں سے بچائے اور سب کے بدلے کفایت کرے اور وہ طریقہ اسلام ہے جس کے
لئے پیغمبر آخرالزماں ﷺ اور قرآن شریف بھیجے گئے۔ دوسری
بات یہ معلوم ہو گئ کہ سنت اللہ
یہی جاری ہے کہ برے لوگ ہر نبی مبعوث کے خلاف اور ہر کتاب الہٰی میں اختلاف کو
پسند کرتے رہے اور اس میں ساہی رہے تو اب اہل ایمان کو کفار کی بدسلوکی اور فساد
سے تنگدل ہونا نہ چاہیئے۔
|
وَلَو شِئنا لَءاتَينا
كُلَّ نَفسٍ هُدىٰها وَلٰكِن حَقَّ
القَولُ مِنّى لَأَملَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الجِنَّةِ وَالنّاسِ أَجمَعينَ
{32:13}
|
اور
اگر ہم چاہتے تو سجھا دیتے ہر جی کو اس کی راہ لیکن ٹھیک پڑ چکی میری کہی بات کہ
مجھ کو بھرنی ہے دوزخ جنوں سے اور آدمیوں سے اکھٹے [۱۵]
|
دوسری
جگہ فرمایا { وَلَوْرَدُّوْالَعَادُوْلِمَا نُھُوْا عَنْہُ } (انعام رکوع۳) یعنی
جھوٹے ہیں اگر دنیا کی طرف لوٹائے جائیں پھر وہی شرارتیں کریں۔ ان کی طبیعت کی
افتاد ہی ایسی واقع ہوئی ہے کہ شیطان کے اغواء کو قبول کر لیں اور اللہ کی رحمت
سے دور بھاگیں بیشک ہم کو قدرت تھی چاہتے تو ایک طرف سے تمام آدمیوں کو زبردستی
اسی راہ ہدایت پر قائم رکھتے جس کی طرف انسان کا دل فطرۃً رہنمائی کرتا ہے۔ لیکن
اس طرح سب کو ایک ہی طور و طریق اختیار کرنے کے لئے مضطر کر دینا حکمت کے خلاف
تھا۔ جس کا بیان کئ جگہ پہلے ہو چکا ہے۔ لہذا وہ بات پوری ہونی تھی جو ابلیس کے
دعوے { لَاُ غْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ اِلَّا عِبَادَکَ مِنْھُمُ
الْمُخْلِصِیْنَ } (صٓ رکوع۵) کے جواب میں فرمائی تھی { فَالْحَقُّ وَالْحَقَّ
اَقُوْلُ لَاَ مْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنْکَ وَمِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ
اَجْمَعِیْنَ } (صٓ رکوع۵) معلوم ہوا کہ یہاں جن و انس سے مراد وہ ہی شیاطین اور
ان کے اتباع ہیں۔
|
أَوَلَم يَهدِ لَهُم كَم أَهلَكنا مِن قَبلِهِم مِنَ
القُرونِ يَمشونَ فى مَسٰكِنِهِم ۚ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَءايٰتٍ ۖ أَفَلا يَسمَعونَ
{32:26}
|
کیا
ان کو راہ نہ سوجھی اس بات سے کہ کتنی غارت کر ڈالیں ہم نے ان سے پہلے جماعتیں
کہ پھرتے ہیں یہ ان کے گھروں میں اس میں بہت نشانیاں ہیں کیا وہ سنتے نہیں [۳۱]
|
یعنی
نہروں اور دریاؤں کا پانی یا بارش کا۔
|
قُل مَن يَرزُقُكُم مِنَ
السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ وَإِنّا أَو إِيّاكُم لَعَلىٰ هُدًى أَو فى ضَلٰلٍ مُبينٍ {34:24}
|
تو
کہہ کون روزی دیتا ہے تم کو آسمان سے اور زمیں سے بتلا دے کہ اللہ [۳۶] اور یا
ہم یا تم بیشک ہدایت پر ہیں یا پڑے ہیں گمراہی میں صریح [۳۷]
|
یعنی
دونوں فرقے تو سچ نہیں کہتے (ورنہ اجتماع نقیضین لازم آ جائے) یقینًا دونوں میں
ایک سچا اور ایک جھوٹا ہے تو لازم ہے کہ سوچو اور غور کر کے سچی بات قبول کرو۔
اس میں ان کا جواب ہے جو بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ میاں! دونوں فرقے ہمیشہ سے چلے
آئے ہیں کیا ضرور ہے جھگڑنا۔ سو بتلا دیا کہ ایک یقینًا خطار کار اور گمراہ ہے۔
باقی تعیین نہ کرنے میں حکیمانہ حسن خطاب ہے۔ یعنی لو ہم اپنی طرف سے کچھ نہیں
کہتے۔ بہرحال ایک تو یقینًا غلطی پر ہوگا۔ اب اوپر کے دلائل سنکر تم ہی خود
فیصلہ کر لو کہ کون غلطی پر ہے گویا مخالف کو نرمی سے بات کر کے اپنے نفس میں
غور کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔
|
یعنی
آسمان و زمین سے روزی کے سامان بہم پہنچانا صرف اللہ کے قبضہ میں ہے اس کا اقرار
مشرکین بھی کرتے تھے لہذا آپ بتلا دیں کہ یہ تم کو بھی مسلم ہے۔ پھر الوہیت میں
دوسرے شریک کہاں سے ہو گئے۔
|
وَمَن أَظلَمُ مِمَّن
ذُكِّرَ بِـٔايٰتِ رَبِّهِ فَأَعرَضَ عَنها وَنَسِىَ ما قَدَّمَت يَداهُ ۚ إِنّا
جَعَلنا عَلىٰ قُلوبِهِم أَكِنَّةً أَن يَفقَهوهُ وَفى ءاذانِهِم وَقرًا ۖ وَإِن
تَدعُهُم إِلَى الهُدىٰ فَلَن يَهتَدوا إِذًا أَبَدًا {18:57}
|
اور
اس سے زیادہ ظالم کون جس کو سمجھایا اسکے رب کے کلام سے پھر منہ پھیر لیا اسکی
طرف سے اور بھول گیا جو کچھ آگے بھیج چکے ہیں اس کے ہاتھ [۷۶] ہم نے ڈال دیے ہیں
انکے دلوں پر پردے کہ اس کو نہ سمجھیں اور انکے کانوں میں ہے بوجھ اور اگر تو ان
کو بلائے راہ پر تو ہر گز نہ آئیں راہ پر اس وقت کبھی [۷۷]
|
یعنی
ان کے جدال بالباطل اور استہزاء بالحق کی وجہ سے ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال
دیے اور کانوں میں ڈاٹ ٹھونک دی۔ اب نہ حق کو سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں بالکل مسخ
ہو گئے۔ پھر حق کی طرف متوجہ ہوں تو کیسے ہوں اور انجام کا خیال کریں تو کیسے
کریں ۔ ایسے بدبختوں کے راہ پر آنے کی کبھی توقع نہیں۔
|
یعنی
کبھی بھول کر بھی خیال نہ آیا کہ تکذیب حق اور استہزاء و تمسخر کا جو ذخیرہ آگے
بھیج رہا ہے اس کی سزا کیا ہے۔
|
إِنَّ الَّذينَ لا
يُؤمِنونَ بِـٔايٰتِ اللَّهِ لا يَهديهِمُ
اللَّهُ وَلَهُم عَذابٌ أَليمٌ {16:104}
|
وہ
لوگ جن کو اللہ کی باتوں پر یقین نہیں ان کو اللہ راہ نہیں دیتا اور ان کےلئے عذاب
دردناک ہے [۱۷۲]
|
یعنی
کھلے دلائل کے باوجود جو شخص یہ ہی دل میں ٹھان لے کہ یقین نہیں کروں گا ، خدا
تعالیٰ بھی اس کو مقصد پر پہنچنے کی راہ نہیں دیتا ۔ جتنا سمجھائیے کبھی نہ
سمجھے گا۔ بد اعتقاد آدمی ہدایت سے محروم رہ کر آخر سخت سزا کا مستحق ہوتا ہے۔
|
ذٰلِكَ بِأَنَّهُمُ
استَحَبُّوا الحَيوٰةَ الدُّنيا عَلَى الءاخِرَةِ وَأَنَّ اللَّهَ لا يَهدِى القَومَ الكٰفِرينَ {16:107}
|
یہ
اس واسطے کہ انہوں نے عزیز رکھا دنیا کی زندگی کو آخرت سے اور اللہ راستہ نہیں
دیتا منکر لوگوں کو [۱۷۵]
|
یعنی
ایسے منکروں کو جو حیات دنیا ہی کو کعبہ مقصود ٹھہرا لیں ، کامیابی کا رستہ کہاں
ملتا ہے ۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "جو کوئی ایمان سے پھرا ہے تو دنیا کی
غرض کو ، جان کے ڈر سے یا برادری کی خاطر سے یا زر کےلالچ سے جس نے دنیا عزیز
رکھی اس کو آخرت کہاں ؟ اگر جان کے ڈر سے لفظ کہے تو چاہئے جب ڈر کا وقت جا چکے
پھر توبہ و استغفار کر کے ثابت ہو جائے۔
|
مَن يُضلِلِ اللَّهُ فَلا هادِىَ لَهُ ۚ وَيَذَرُهُم فى طُغيٰنِهِم
يَعمَهونَ {7:186}
|
جس
کو اللہ بچلائے اس کو کوئی نہیں راہ دکھلانے والا اور اللہ چھوڑے رکھتا ہے انکو
ان کی شرارت میں سرگرداں [۲۲۶]
|
ہدایت
و ضلالت ہر چیز خدا کے قبضہ میں ہے۔ وہ نہ چاہے تو سارے سامان ہدایت کے رکھے رہ
جائیں آدمی کہیں سے بھی منتفع نہ ہو ۔ ہاں عادتًا وہ جب ہی ہدایت کی توفیق دیتا
ہے۔ جب بندہ خود اپنے کسب و اختیار سے اس راستہ پر چلنا چاہے۔ باقی جو دیدہ و
دانستہ اور شرارت ہی کی ٹھان لے تو خدا بھی رستہ دکھلانے کے بعد اسی حال میں اسے
چھوڑ دیتا ہے۔
|
وَأَن أَتلُوَا۟ القُرءانَ
ۖ فَمَنِ اهتَدىٰ فَإِنَّما يَهتَدى لِنَفسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَقُل إِنَّما
أَنا۠ مِنَ المُنذِرينَ {27:92}
|
اور
یہ کہ سنا دون قرآن [۱۲۴] پھر جو کوئی راہ پر آیا سو راہ پر آئے گا اپنے ہی بھلے
کو اور جو کوئی بہکا رہا تو کہدے میں تو یہی ہوں ڈر سنا دینے والا [۱۲۵]
|
یعنی
میں نصیحت کر کے فارغ الذمہ ہو چکا، نہ سمجھو تو تمہارا ہی نقصان ہے۔
|
یعنی
بذات خود اللہ کی بندگی اور فرمانبرداری کرتا رہوں اور دوسروں کو قرآن سنا کر
اللہ کا رستہ بتلاتا رہوں۔
|
مَنِ اهتَدىٰ فَإِنَّما يَهتَدى
لِنَفسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيها ۚ وَلا تَزِرُ وازِرَةٌ
وِزرَ أُخرىٰ ۗ وَما كُنّا مُعَذِّبينَ حَتّىٰ نَبعَثَ رَسولًا {17:15}
|
جو
کوئی راہ پر آیا تو آیا اپنے ہی بھلے کو اور جو کوئی بہکا رہا تو بہکا رہا اپنے
ہی برے کو اور کسی پر نہیں پڑتا بوجھ دوسرے کا [۲۴] اور ہم نہیں ڈالتے بلا جب تک
نہ بھیجیں کوئی رسول [۲۵]
|
یعنی
بلاشبہ برے عمل آفت لاتے ہیں ، پر حق تعالیٰ بغیر سمجھائے نہیں پکڑتا اسی واسطے
رسول بھیجتا ہے کہ لوگوں کو بے خبر اور غافل نہ رہنے دیں ، نیک و بد سے پوری طرح
آگاہ کر دیں جن باتوں کو آدمی محض عقل و فطرت کی رہنمائی سےسمجھ سکتا ہے (مثلاً
وجود باری یا توحید) ان کی مزید تشریح و توثیق پیغمبروں کی زبانی کر دی جائے اور
جن چیزوں کے ادراک میں محض عقل کافی نہ ہو انہیں وحی و الہام کی روشنی میں پیش
کیا جائے اسی لئے ابتدائے آفرینش سے حق تعالیٰ نے وحی و رسالت کا سلسلہ جاری
رکھا۔ تاآنکہ انبیاء علیہم السلام کے انوار و فیوض نے دنیا میں ایسی فضا پیدا کر
دی کہ کوئی معذب قوم دنیا یا آخرت میں جہل و بے خبری کا عذر پیش کر کے عذاب
الہٰی سے رستگاری حاصل نہیں کر سکتی ۔ (تنبیہ) مفسرین نے یہاں "اصحاب
فترت" اور اطفال صغار کی تعذیب پر بحث شروع کر دی ہے ہم تطویل کےخوف سے درج
نہیں کر سکتے۔
|
یعنی
سیدھی راہ خدا نے سب کو بتلا دی اب جو کوئی اس پر چلے یا نہ چلے ، اپنا بھلا برا
خود سوچ لے ۔ کیونکہ اپنے طریق عمل کا نفع یا نقصان اسی کو پہنچے گا۔ ایک کے
گناہوں کی گٹھری دوسرے کے سر پر نہیں رکھی جائے گی۔
|
وَيَزيدُ اللَّهُ الَّذينَ اهتَدَوا هُدًى
ۗ وَالبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَيرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوابًا وَخَيرٌ مَرَدًّا
{19:76}
|
اور
بڑھاتا جاتا ہے اللہ سوجھنے والوں کو سوجھ [۹۱] اور باقی رہنے والی نیکیاں بہتر
رکھتی ہیں تیرے رب کے یہاں بدلہ اور بہتر پھر جانے کو جگہ [۹۲]
|
یعنی
جیسےگمراہوں کو گمراہی میں لنبا چھوڑ دیتا ہے ، ان کے بالمقابل جو سوجھ بوجھ کر
راہ ہدایت ختیار کر لیں ان کی سوجھ بوجھ اور فہم و بصیرت کو اور زیادہ تیز کر
دیتا ہے جس سے وہ حق تعالیٰ کی خوشنودی کے راستوں پر بگ ٹٹ اڑے چلے جاتے ہیں۔
|
یعنی
دنیا کی رونق رب کے ہاں کام کی نہیں نیکیاں سب رہیں گے اور دنیا نہ رہے گی ۔
آخرت میں ہر نیکی کا بہترین بدلہ اور بہترین انعام ملے گا۔
|
وَإِنّى لَغَفّارٌ لِمَن
تابَ وَءامَنَ وَعَمِلَ صٰلِحًا ثُمَّ اهتَدىٰ
{20:82}
|
اور
میری بڑی بخشش ہے اس پر جو توبہ کرے اور یقین لائے اور کرے بھلا کام پھر راہ پر
رہے [۸۴]
|
مغضوبین
کے بالمقابل یہ مغفورین کا بیان ہوا۔ یعنی کتنا ہی بڑا مجرم ہو اگر سچے دل سے
تائب ہو کر ایمان و عمل صالح کا راستہ اختیار کر لے اور اسی پر موت تک مستقیم
رہے تو اللہ کے یہاں بخشش اور رحمت کی کمی نہیں۔
|
وَما مَنَعَ النّاسَ أَن
يُؤمِنوا إِذ جاءَهُمُ الهُدىٰ
وَيَستَغفِروا رَبَّهُم إِلّا أَن تَأتِيَهُم سُنَّةُ الأَوَّلينَ أَو
يَأتِيَهُمُ العَذابُ قُبُلًا {18:55}
|
اور
لوگوں کو جو روکا اس بات سے کہ یقین لے آئیں جب پہنچی انکو ہدایت اور گناہ
بخشوائیں اپنے رب سے سو اسی انتظار نے کہ پہنچے ان پر رسم پہلوں کی یا آ کھڑا ہو
ان پر عذاب سامنے کا [۷۲]
|
یعنی
ان کے ضد و عناد کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ قرآن ایسی عظیم الشان ہدایت
پہنچ جانے کے بعد ایمان نہ لانے اور توبہ نہ کرنے کا کوئی معقول عذر ان کے پاس
باقی نہیں ۔ آخر قبول حق میں اب کیا دیر ہے اور کاہے کا انتظار ہے ۔ بجز اس کے
کہ پہلی قوموں کی طرح خدا تعالیٰ ان کو بکلی تباہ کر ڈالے۔ یا اگر تباہ نہ کئے
جائیں تو کم ازکم مختلف صورتوں میں عذاب الہٰی آنکھوں کے سامنے آ کھڑا ہو۔
ہکذایفہم من تفسیر ابن کثیرؒ وغیرہ۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "یعنی کچھ
اور انتظار نہیں رہا مگر یہ ہی کہ پہلوں کی طرح ہلاک ہوویں یا قیامت کا عذاب
آنکھوں سےدیکھیں۔
|
أَفَلَم يَهدِ لَهُم كَم أَهلَكنا قَبلَهُم مِنَ القُرونِ
يَمشونَ فى مَسٰكِنِهِم ۗ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَءايٰتٍ لِأُولِى النُّهىٰ {20:128}
|
سو
کیا اُنکو سمجھ نہ آئی اس بات سے کہ کتنی غارت کر دیں ہم نے اُن سے پہلے جماعتیں
یہ لوگ پھرتے ہیں اُنکی جگہوں میں [۱۳۵] اس میں خوب نشانیاں ہیں عقل رکھنے والوں
کو
|
یعنی
آخرت میں جو سزا ملے گی اگر اس پر یقین نہیں آتا تو کیا تاریخی واقعات سے بھی
سبق حاصل نہیں کرتے ان ہی مکہ والوں کے آس پاس کتنی قومیں اپنے کفر و طغیان کی
بدولت تباہ کی جا چکی ہیں جن کے افسانے لوگوں کی زبان پر باقی ہیں اور جن میں سے
بعض کے کھنڈرات پر ملک شام وغیرہ کا سفر کرتے ہوئے خود انکا گذر بھی ہوتا ہے۔
جنہیں دیکھ کر ان غارت شدہ قوموں کی یاد تازہ ہو جانا چاہئے کہ کس طرح انہی
مکانوں میں چلتے پھرتے ہلاک کر دیے گئے۔
|
أَلَم تَرَ إِلَى الَّذى
حاجَّ إِبرٰهۦمَ فى رَبِّهِ أَن ءاتىٰهُ اللَّهُ المُلكَ إِذ قالَ إِبرٰهۦمُ
رَبِّىَ الَّذى يُحيۦ وَيُميتُ قالَ أَنا۠ أُحيۦ وَأُميتُ ۖ قالَ إِبرٰهۦمُ
فَإِنَّ اللَّهَ يَأتى بِالشَّمسِ مِنَ المَشرِقِ فَأتِ بِها مِنَ المَغرِبِ
فَبُهِتَ الَّذى كَفَرَ ۗ وَاللَّهُ لا يَهدِى
القَومَ الظّٰلِمينَ {2:258}
|
کیا
نہ دیکھا تو نے اس شخص کو جس نے جھگڑا کیا ابراہیم سے اس کے رب کی بابت اسی وجہ
سے کہ دی تھی اللہ نے اس کو سلطنت جب کہا ابراہیم نے میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا
ہے اور مارتا ہے وہ بولا میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں کہا ابراہیم نے کہ بیشک
اللہ تو لاتا ہے سورج کو مشرق سے اب تو لے آ اس کو مغرب کی طرف سے تب حیران رہ
گیا وہ کافر اور اللہ سیدھی راہ نہیں دکھاتا بے انصافوں کو [۴۲۰]
|
پہلی
آیت میں اہل ایمان و اہل کفر اور ان کے نور ہدایت اور ان کے ظلمت کفر کا ذکر تھا
اب اس کی تائید میں چند نظائر بیان فرماتے ہیں ۔ نظیر اول میں نمرود بادشاہ کا
ذکر ہے وہ اپنے آپ کو سلطنت کے غرور سے سجدہ کرواتا تھا ۔ حضرت ابراہیمؑ اس کے
سامنے آئے تو سجدہ نہ کیا نمرود نے دریافت کیا تو فرمایا میں اپنے رب کے سوا کسی
کو سجدہ نہیں کرتا اس نے کہا رب تو میں ہوں، انہوں نے جواب دیا کہ میں حاکم کو
رب نہیں کہتا رب وہ ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے نمرود نے دو قیدی منگا کر
بےقصور کو مار ڈالا اور قصور وار کو چھوڑ دیا اور کہا کہ دیکھا میں جس کو چاہوں
مارتا ہوں جسے چاہوں نہیں مارتا اس پر حضرت ابراہیمؑ نے آفتاب کی دلیل پیش فرما
کر اس مغرور احمق کو لاجواب کیا اور اس کو ہدایت نہ ہوئی یعنی لاجواب ہو کر بھی
ارشاد ابراہیمؑ پر ایمان نہ لایا ۔ یا یوں کہو کہ حضرت ابراہیمؑ کی دوسری بات کا
کچھ جواب نہ دے سکا ۔ حالانکہ جیسا جواب پہلے ارشاد کا دیا تھا ویسا جواب دینے
کی یہاں بھی گنجائش تھی۔
|
وَقالَ رَجُلٌ مُؤمِنٌ مِن
ءالِ فِرعَونَ يَكتُمُ إيمٰنَهُ أَتَقتُلونَ رَجُلًا أَن يَقولَ رَبِّىَ اللَّهُ
وَقَد جاءَكُم بِالبَيِّنٰتِ مِن رَبِّكُم ۖ وَإِن يَكُ كٰذِبًا فَعَلَيهِ
كَذِبُهُ ۖ وَإِن يَكُ صادِقًا يُصِبكُم بَعضُ الَّذى يَعِدُكُم ۖ إِنَّ اللَّهَ
لا يَهدى مَن هُوَ مُسرِفٌ كَذّابٌ
{40:28}
|
اور
بولا ایک مرد ایماندار فرعون کے لوگوں میں جو چھپاتا تھا اپنا ایمان کیا مارے
ڈالتے ہو ایک مرد کو اس بات پر کہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے اور لایا تمہارے پاس
کھلی نشانیاں تمہارے رب کی اور اگر وہ جھوٹا ہو گا تو اس پر پڑے گا اس کا جھوٹ
اور اگر وہ سچا ہو گا تو تم پر پڑے گا کوئی نہ کوئی وعدہ جو تم سے کرتا ہے [۴۰]
بیشک اللہ راہ نہیں دیتا اسکو جو ہے بے لحاظ جھوٹا [۴۱]
|
یعنی
ایک مرد مومن جس نے فرعون اور اسکی قوم سے اپنا ایمان ابھی تک مخفی رکھا تھا {
ذَرُوْنِیْ اَقْتُلْ موْسٰی } کے جواب میں بول اٹھا کیا تم ایک شخص کا ناحق خون
کرنا چاہتے ہو اس بات پر کہ وہ صرف ایک اللہ کو اپنا رب کیوں کہتا ہے۔ حالانکہ
وہ اپنے دعوے کی صداقت کے کھلے کھلے نشان تمکو دکھلا چکا اور اسکے قتل کی تمکو
کچھ ضرورت بھی نہیں۔ بلکہ ممکن ہے تمہارے لئے مضر ہو۔ فرض کرو! وہ اپنے دعوے میں
جھوٹا ثابت ہوا تو اتنے بڑے جھوٹ پر ضرور اللہ اسکو ہلاک یا رسوا کر کے چھوڑے
گا۔ خدا کی عادت نہیں کہ وہ ایسے کاذب کو برابر پھولنے پھلنے دے، دنیا کو التباس
سے بچانے کے لئے یقینًا ایک روز اسکی قلعی کھول دی جائے گی۔ ایسے حالات بر روئے
کار آئیں گے کہ دنیا علانیہ اس کی رسوائی و ناکامی اور کذب و دروغ کا تماشہ دیکھ
لے گی۔ اور تمکو خواہی نخواہی اسکے خون میں ہاتھ رنگنے کی ضرورت نہ رہے گی اور
اگر واقع میں وہ سچائی پر ہے تو دنیا و آخرت کے جس عذاب سے وہ اپنے مکذبین کو
ڈراتا ہے۔ یقینًا اس کا کچھ نہ کچھ حصہ تمکو ضرور پہنچ کر رہے گا۔ لہذا پہلی شق
پر اس کے قتل میں جلدی کرنے کی ضرورت نہیں اور دوسری شق پر اس کا قتل کرنا سراسر
موجب نقصان و خسران ہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتےہیں "یعنی اگر جھوٹا ہے تو جس
پر جھوٹ بولتا ہے وہ ہی سزا دے رہے گا۔ اور شاید سچا ہو تو اپنی فکر کرو"
(تنبیہ) یہ تقریر اس صورت میں ہے جب کسی مفتری کا کذب صریحًا ظاہر نہ ہوا ہو۔
اور اگر مدعی نبوت کا کذب و افتراء دلائل و براہین سے روشن ہو جائے تو بلاشبہ
واجب القتل ہے۔ اس زمانہ میں جبکہ پیغمبر عربی ﷺ کا خاتم النبیین ہونا دلائل قطعیہ سے ثابت ہو چکا، اگر
کوئی شخص مدعی نبوت بن کر کھڑا ہو گا تو چونکہ اس کا یہ دعویٰ ایک قطعی الثبوت
عقیدہ کی تکذیب کرتا ہے، لہذا اس کے متعلق کسی قسم کے تامل و تردد اور امہال و
انتظار کی گنجائش نہ ہو گی۔
|
یعنی
موسٰیؑ اگر بالفرض جھوٹا ہوتا تو ہرگز اس کا اللہ راہ نہ دیتا کہ وہ برابر ایسے
معجزات دکھاتا رہے اور کامیابی میں ترقی کرتا چلا جائے۔ اور اگر تم جھوٹے ہو کہ
ایک سچے کو جھوٹا بتلا رہے ہو تو انجام کار اللہ تعالٰی تم کو ذلیل و ناکام کرے
گا۔
|
أَفَرَءَيتَ مَنِ اتَّخَذَ
إِلٰهَهُ هَوىٰهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلىٰ عِلمٍ وَخَتَمَ عَلىٰ سَمعِهِ
وَقَلبِهِ وَجَعَلَ عَلىٰ بَصَرِهِ غِشٰوَةً فَمَن يَهديهِ
مِن بَعدِ اللَّهِ ۚ أَفَلا تَذَكَّرونَ {45:23}
|
بھلا
دیکھ تو جس نے ٹھہرا لیا اپنا حاکم اپنی خواہش کو اور راہ سے بچلا دیا اسکو اللہ
نے جانتا بوجھتا [۲۸] اور مہر لگا دی اسکے کان پر اوردل پر اور ڈالدی اسکی آنکھ
پر اندھیری پھر کون راہ پر لائے اسکو اللہ کے سوائے سو کیا تم غور نہیں کرتے
[۲۹]
|
یعنی
اللہ جانتا تھا کہ اسکی استعداد خراب ہے اور اسی قابل ہے کہ سیدھی راہ سے اِدھر
اُدھر بھٹکتا پھرے۔ یا یہ مطلب ہے کہ وہ بدبخت علم رکھنے کے باوجود اور سمجھنے
بوجھنے کے بعد گمراہ ہوا۔
|
جو
شخص محض خواہش نفس کو اپنا حاکم اور معبود ٹھہرا لے، جدھر اسکی خواہش لے چلے
ادھر ہی چل پڑے اور حق و ناحق کے جانچنے کا معیار اسکے پاس یہ ہی خواہش نفس رہ
جائے، نہ دل سچی بات کوسمجھتا ہے، نہ آنکھ سے بصیرت کی روشنی نظر آتی ہے ۔ ظاہر
ہے اللہ جسکو اس کی کرتوت کی بدولت ایسی حالت پر پہنچا دے، کونسی طاقت ہے جو
اسکے بعد اسے راہ پر لے آئے۔
|
قُل هَل مِن شُرَكائِكُم
مَن يَهدى إِلَى الحَقِّ ۚ قُلِ اللَّهُ يَهدى لِلحَقِّ ۗ أَفَمَن يَهدى إِلَى الحَقِّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن
لا يَهِدّى إِلّا أَن يُهدىٰ ۖ فَما لَكُم كَيفَ تَحكُمونَ {10:35}
|
پوچھ
کوئی ہے تمہارے شریکوں میں جو راہ بتلائے صحیح تو کہہ اللہ راہ بتلاتا ہے صحیح تو
اب جو کوئی راہ بتائے صحیح اسکی بات ماننی چاہئے یا اسکی جو آپ نہ پائے راہ مگر
جب کوئی اور اسکو راہ بتلائے سو کیا ہو گیا تم کو کیسا انصاف کرتے ہو [۵۶]
|
''مبداء'' و ''معاد'' کے بعد درمیانی وسائط کا ذکر کرتے ہیں۔
یعنی جس طرح اول پیدا کرنے والا اور دوبارہ جلانے والا وہ ہی خدا ہے ، ایسے ہی
''معاد'' کی صحیح راہ بتلانے والا بھی کوئی دوسرا نہیں ۔ خدا ہی بندوں کی صحیح
اور سچی رہنمائی کر سکتا ہے۔ مخلوق میں کوئی بڑا ہو یا چھوٹا، سب اسی کی رہنمائی
کے محتاج ہیں۔ اسی کی ہدایت و رہنمائی پر سب کو چلنا چاہئیے بت مسکین تو کس شمار
میں ہیں جو کسی کی رہنمائی سے بھی چلنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ بڑے بڑے مقربین
(انبیاء و ملائکہ علیہم السلام) بھی برابر یہ اقرار کرتے آئے ہیں کہ خدا کی
ہدایت و دستگیری کے بدون ہم ایک قدم نہیں اٹھا سکتے۔ ان کی رہنمائی بھی اسی لئے
بندوں کے حق میں قابل قبول ہے کہ خدا بلاواسطہ ان کی رہنمائی فرماتا ہے۔ پھر یہ
کس قدر نا انصافی ہے کہ انسان اس ہادی مطلق کو چھوڑ کر باطل اور کمزور سہارے
ڈھونڈے ۔ یا مثلاً احبار و رہبان پر برہمنوں اور مہنتوں کی رہنمائی پر اندھا
دھند چلنے لگے۔
|
أَفَمَن يَمشى مُكِبًّا
عَلىٰ وَجهِهِ أَهدىٰ أَمَّن يَمشى
سَوِيًّا عَلىٰ صِرٰطٍ مُستَقيمٍ {67:22}
|
بھلا
ایک جو چلے اوندھا اپنے منہ کے بل وہ سیدھی راہ پائے یا وہ شخص جو چلے سیدھا ایک
سیدھی راہ پر [۲۹]
|
یعنی
ظاہری کامیابی کی راہ طے کر کے وہی مقصد اصلی تک پہنچے گا جو سیدھے راستہ پر
آدمیوں کی طرح سیدھا ہوکر چلے۔ جو شخص ناہموار راستہ پر اوندھا ہو کر منہ کے بل
چلتا ہو اس کے منزل مقصودتک پہنچنے کی کیا توقع ہوسکتی ہے۔ یہ مثال ایک موحد اور
ایک مشرک کی ہوئی۔ محشر میں بھی دونوں کی چال میں ایسا ہی فرق ہو گا۔
|
قُل يٰأَيُّهَا النّاسُ
إِنّى رَسولُ اللَّهِ إِلَيكُم جَميعًا الَّذى لَهُ مُلكُ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ
ۖ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ يُحيۦ وَيُميتُ ۖ فَـٔامِنوا بِاللَّهِ وَرَسولِهِ
النَّبِىِّ الأُمِّىِّ الَّذى يُؤمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمٰتِهِ وَاتَّبِعوهُ
لَعَلَّكُم تَهتَدونَ {7:158}
|
تو
کہہ اے لوگو میں رسول ہوں اللہ کا تم سب کی طرف جس کی حکومت ہے آسمانوں اور زمین
میں کسی کی بندگی نہیں اسکےسوا وہی جلاتا ہے اور مارتا ہے سو ایمان لاؤ اللہ پر
اور اس کے بھیجے ہوئے نبی امی پر جو کہ یقین رکھتا ہے اللہ پر اور اسکے سب
کلاموں پر اور اسکی پیروی کرو تاکہ تم راہ پاؤ [۱۹۴]
|
یعنی
آپ کی بعثت تمام دنیا کے لوگوں کو عام ہے۔ عرب کے امیین یا یہود و نصاریٰ تک
محدود نہیں۔ جس طرح خدا وند تعالیٰ شہنشاہ مطلق ہے آپ اس کے رسول مطلق ہیں۔ اب
ہدایت و کامیابی کی صورت بجز اس کے کچھ نہیں کہ اس جامع ترین عالمگیر صداقت کی
پیروی کی جائے جو آپ لے کے آئے ہیں۔ یہ ہی پیغمبر ہیں جن پر ایمان لانا تمام
انبیاء و مرسلین اور تمام کتب سماویہ پر ایمان لانے کا مرادف ہے۔
|
وَكَيفَ تَكفُرونَ وَأَنتُم
تُتلىٰ عَلَيكُم ءايٰتُ اللَّهِ وَفيكُم رَسولُهُ ۗ وَمَن يَعتَصِم بِاللَّهِ
فَقَد هُدِىَ إِلىٰ صِرٰطٍ مُستَقيمٍ
{3:101}
|
اور
تم کس طرح کافر ہوتے ہو اور تم پر پڑھی جاتی ہیں آیتیں اللہ کی اور تم میں اس کا
رسول ہے اور جو کوئی مضبوط پکڑے اللہ کو تو اس کو ہدایت ہوئی سیدھے رستہ کی
[۱۵۱]
|
یعنی
بہت بعید ہے کہ وہ قوم ایمان لائے پیچھے کافر بن جائے یا کافروں جیسے کام کرنے
لگے، جس کے درمیان خدا کا عظیم الشان پیغمبر جلوہ افروز ہو، جو شب و روز ان کو
اللہ کا روح پرور کلام اور اس کی تازہ بتازہ آیتیں پڑھ کر سنتا رہتا ہے۔ سچ تو
یہ ہے کہ جس نے ہر طرف سے قطع نظر کر کے ایک خدا کو مضبوط پکڑ لیا اور اسی پر دل
سے اعتماد و توکل کیا اسے کوئی طاقت کامیابی کے سیدھے رستے سے ادھر ادھر نہیں
ہٹا سکتی۔ (تنبیہ) انصار مدینہ کے دو خاندانوں اوس و خزرج کے باہم اسلام سے قبل
سخت عداوت اور دشمنی تھی، ذرا ذرا بات پر لڑائی اور خونریزی کا بازار گرم ہو
جاتا تھا جو برسوں تک سرد نہ ہوتا تھا ۔ چنانچہ "بعاث" کی مشہور جنگ
ایک سو بیس سال تک رہی آخر پیغمبر عربی ﷺ کی ہجرت
پر ان کی قسمت کا ستارہ چمکا اور اسلام کی تعلیم اور نبی کریم ﷺ کے فیض صحبت نے دونوں قبیلوں کو جو صدیوں سے ایک دوسرے کے
خون کے پیاسے رہتے تھے ملا کر شیرو شکر کر دیا اور نہایت مضبوط برادرانہ تعلقات
قائم کر دیے۔ یہود مدینہ کو ان دونوں حریف خاندانوں کا اس طرح مل بیٹھنا اور
متفقہ طاقت سے اسلام کی خدمت و حمایت کرنا ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ ایک اندھے
یہودی شماس بن قیس نے کسی فتنہ پرداز شخص کو بھیجا کہ جس مجلس میں دونوں خاندان
جمع ہوں وہاں کسی ترکیب سے بعاث کی لڑائی کا ذکر چھیڑ دے۔ چنانچہ اس نے مناسب
موقع پا کر بعاث کی یاد تازہ کرنے والے اشعار سنانے شروع کر دیے۔ اشعار کا سننا
تھا کہ ایک مرتبہ بجھی ہوئی چنگاریاں پھر سلگ اٹھیں۔ زبانی جنگ سے گذر کر
ہتھیاروں کی لڑائی شروع ہونے کو تھی کہ نبی کریم ﷺ جماعت مہاجرین کو ہمراہ لئے ہوئے موقع پر پہنچ گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اے گروہ
مسلمین! اللہ سے ڈرو، میں تم میں موجود ہوں۔ پھر یہ جاہلیت کی پکار کیسی؟ خدا نے
تم کو ہدایت دی۔ اسلام سے مشرف کیا۔ جاہلیت کی تاریکیوں کو محو فرما دیا۔ کیا ان
ہی کفریات کی طرف پھر الٹے پاؤں لوٹنا چاہتے ہو ۔ جن سے نکل کر آئے تھے۔ اس
پیغمبرانہ آواز کا سننا تھا کہ شیطانی جال کے سب حلقے ایک ایک کر کے ٹوٹ گئے۔
اوس و خزرج نے ہتھیار پھینک دیے اور ایک دوسرے سے گلے مل کر رونے لگے۔ سب نے
سمجھ لیا کہ یہ سب ان کے دشمنوں کی فتنہ انگیزی تھی۔ جس سے آئندہ ہمیشہ ہوشیار
رہنا چاہئیے۔ اسی واقعہ کے متعلق یہ کئ آیتیں نازل ہوئیں۔
|
وَيَقولُ الَّذينَ كَفَروا
لَولا أُنزِلَ عَلَيهِ ءايَةٌ مِن رَبِّهِ ۗ قُل إِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَن
يَشاءُ وَيَهدى إِلَيهِ مَن أَنابَ
{13:27}
|
اور
کہتے ہیں کافر کیوں نہ اتری اس پر کوئی نشانی اس کے رب سے کہہ دے اللہ گمراہ
(بچلاتا ہے) کرتا ہے جس کو چاہے اور راہ دکھلاتا ہے اپنی طرف اسکو جو رجوع ہوا
[۴۷]
|
سینکڑوں
نشاندیکھتے تھے مگر وہ ہی مرغے کی ایک ٹانگ پکڑی ہوئی تھی کہ جو ہم کہتے جائیں۔
وہ نشان دکھاؤ۔ مثلاً مکہ کے پہاڑوں کو ذرا اپنی جگہ سے سرکا کر کھیتی باڑی کے
لئے زمین وسیع کر دو۔ یا زمین کو پھاڑ کر چشمے اور نہریں نکال دو یا ہمارے پرانے
بزرگوں کو دوبارہ زندہ کر کے ہم سے بات چیت کرا دو۔ غرض کوئی نشان ایسا دکھلاؤ
جو ہم کو ایمان لانے پر مجبور کر دے۔ اس کا جواب دیا کہ بیشک خدا ایسے نشان
دکھلانے پر قدرت رکھتا ہے۔ لیکن اس کی حکمت و عادت مقتضی نہیں کہ تمہاری
فرمائشیں پوری کیا کرے۔ پیغمبروں کی تصدیق کے لئے جس قدر ضرورت ہے اس سے زائد
نشانات دکھلا چکا اور دکھلا رہا ہے دوسرے سینکڑوں معجزات سے قطع نظر کر کے اکیلا
قرآن ہی کیسا عظیم الشان پیغمبر کی صداقت کا ہے ۔ جب تم ان نشانوں کو دیکھ کر
راہ راست پر نہ آئے اور حق کی طرف رجوع نہ ہوئے تو معلوم ہوا کہ قدیم قانون کے
موافق خدا کی مشیت یہ ہی ہے کہ تم کو تمہاری پسند کردہ گمراہی میں چھوڑے رکھے۔
بلاشبہ اگر تم اپنے بڑے بڑے نشان دیکھ کر اس کی طرف رجوع ہوتے تو وہ اپنی عادت
کے موافق تم کو آگے بڑھاتا اور حقیقی کامیابی تک پہنچنے کی راہیں دکھاتا ۔ جب تم
نے خود یہ نہ چاہا تو اس کی حکمت بھی اسی کو مقتضی ہے کہ تمہیں مجبور نہ کرے ۔
پھر فرمائشی نشان دکھلانے کی کیا ضرورت رہی ، بلکہ نہ دکھلانے میں تمہارا فائدہ
ہے کیونکہ سنت اللہ یہ ہے کہ فرمائشی نشان اسی وقت دکھلائے جاتے ہیں جب کسی قوم
کا تباہ کرنا مقصود ہو۔ حدیث میں ہے کہ حق تعالیٰ نے فرمایا اے محمد ﷺ ! اگر تم چاہو
تو ہم ان کو فرمائشی نشان دکھلا دیں ، اس پر بھی نہ مانیں تو ایسا عذاب بھیجا
جائے گا جو دنیا میں کسی پر نہ آیا ہو ۔ اور اگر تم چاہو تو رحمت و توبہ کا
دروازہ کھلا رکھیں۔ آپ نے دوسری شق کو اختیار فرمایا چنانچہ یہ ہی معاندانہ
فرمائشیں کرنے والے بہت سے بعد کو مسلمان ہو گئے۔
|
وَما أَنتَ بِهٰدِ العُمىِ عَن ضَلٰلَتِهِم ۖ إِن تُسمِعُ
إِلّا مَن يُؤمِنُ بِـٔايٰتِنا فَهُم مُسلِمونَ {30:53}
|
اور
نہ تو راہ سمجھائے ا ندھوں کو انکے بھٹکنے سے تو تو سنائے اسی کو جو یقین لائے
ہماری باتوں پر سو وہ مسلمان ہوتے ہیں [۶۵]
|
یعنی
اللہ کو سب قدرت ہے، مردہ کو زندہ کر دے، تم کو یہ قدرت نہیں کہ مردوں سے اپنی
بات منوا سکو یا بہروں کو سنا دو، یا اندھوں کو دکھلا دو، خصوصًا جب وہ سننے اور
دیکھنے کا ارادہ بھی نہ کریں پس آپ ان کے کفر و ناسپاسی سے ملول و غمگین نہ ہوں،
آپ صرف دعوت و تبلیغ کے ذمہ دار ہیں کوئی بدبخت نہ مانے تو آپ کا کیا نقصان ہے
آپ کی بات وہ ہی سنیں گے جو ہماری باتوں پر یقین کر کے تسلیم و انقیاد کی خو
اختیار کرتے ہیں (تنبیہ) اسی قسم کی آیت سورہ "نمل" کے آخر میں گذر
چکی، اس پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ سماع مَوتیٰ کا مسئلہ: مفسرین نے اس موقع پر
"سماع مَوتیٰ" کی بحث چھیڑ دی ہے۔ اس مسئلہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم
کے عہد سے اختلاف چلا آتا ہے اور دونوں جانب نصوص قرآن و حدیث پیش کی گئ ہیں۔
یہاں ایک بات سمجھ لو کہ یوں تو دنیا میں کوئی کام اللہ کی مشیت و ارادہ کے بدون
نہیں ہو سکتا مگر آدمی جو کام اسباب عادیہ کے دائرہ میں رہ کر باختیار خود کرے
وہ اس کی طرف منسوب ہوتا ہے اور جو عام عادت کے خلاف غیر معمولی طریقہ سے ہو
جائے اسے براہ راست حق تعالیٰ کی طرف نسبت کرتےہیں۔ مثلاً کسی نے گولی مار کر
کسی کو ہلاک کر دیا یہ اس قاتل کا فعل کہلائے گا اور فرض کیجئے ایک مٹھی کنکریاں
پھینکیں جس سے لشکر تباہ ہو گیا، اسے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے
تباہ کر دیا باوجودیکہ گولی سے ہلاک کرنا بھی اسی کی قدرت کا کام ہے۔ ورنہ اس کی
مشیت کے بدون گولی یا گولہ کچھ بھی اثر نہیں کر سکتا۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ
فرمایا { فَلَمْ تَقْتُلُوْ ھُمْ وَلٰکِنَّ اللہَ قَتَلَھُمْ وَمَا رَمَیْتَ
اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللہَ رَمٰی } (انفال رکوع۲) یہاں خارق عادت ہونے کی
وجہ سے پیغمبر اور مسلمانوں سے "قتل" و "رمی" کی نفی کر کے
براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کی گئ۔ ٹھیک اسی طرح { اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ
الْمَوْتٰی } کا مطلب سمجھو۔ یعنی تم یہ نہیں کر سکتے کہ کچھ بولو اور اپنی آواز
مردے کو سنا دو۔ کیونکہ یہ چیز ظاہری اور عادی اسباب کے خلاف ہے البتہ حق تعالیٰ
کی قدرت سے ظاہری اسباب کے خلاف تمہاری کوئی بات مردہ سن لے اس کا انکار کوئی
مومن نہیں کر سکتا۔ اب نصوص سے جن باتوں کا اس غیر معمولی طریقہ سے سننا ثابت ہو
جائے گا اسی حد تک ہم کو سماع مَوتیٰ کا قائل ہونا چاہئے۔ محض قیاس کر کےدوسری
باتوں کو سماع کے تحت میں نہیں لا سکتے۔ بہرحال آیت میں "اسماع" کی
نفی سے مطلقًا سماع کی نفی نہیں ہوتی۔ واللہ اعلم۔
|
كَيفَ يَهدِى اللَّهُ قَومًا كَفَروا بَعدَ إيمٰنِهِم
وَشَهِدوا أَنَّ الرَّسولَ حَقٌّ وَجاءَهُمُ
البَيِّنٰتُ ۚ وَاللَّهُ لا يَهدِى القَومَ
الظّٰلِمينَ {3:86}
|
کیونکر
راہ دے گا للہ ایسے لوگوں کو کہ کافر ہو گئے ایمان لا کر اور گواہی دے کر کہ بیشک
رسول سچا ہے اور آئیں ان کے پاس نشانیاں روشن اور اللہ راہ نہیں دیتا ظالم لوگوں
کو [۱۳۲]
|
How
shall Allah guide a people who disbelieved after their belief and after they
bore witness that the apostle was true and after evidences had come unto
them! And Allah guideth not a wrong-doing people.
|
جن لوگوں
نے وضوع حق کے بعد جان بوجھ کر کفر اختیار کیا۔ یعنی دل میں یقین رکھتے ہیں اور
آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں بلکہ اپنی خاص مجلسوں میں اقرار کرتے ہیں کہ یہ سچا رسول
ہے۔ اس کی حقانیت و صداقت کے روشن دلائل، کھلے نشانات اور صاف بشارات ان کو پہنچ
چکی ہیں۔ اس پر بھی کبر و حسد اور حب جاہ و مال، اسلام قبول کرنے اور کفر و
عدوان کے چھوڑنے سے مانع ہے۔ جیسا کہ عمومًا یہود و نصاریٰ کا حال تھا۔ ایسے ہٹ
دھرم، ضدی معاندین کی نسبت کیونکر توقع کی جا سکتی ہے کہ باوجود اس طرح کا رویہ
قائم رکھنے کے خدا تعالیٰ ان کو نجات و فلاح اور اپنی خوشنودی کے راستہ پر لے
جائے گا یا جنت پہنچنے کی راہ دے گا۔ اس کی عادت نہیں کہ ایسے بےانصاف متعصب
ظالموں کو حقیقی کامیابی کی راہ دے ۔ اسی پر ان بدبختوں کو قیاس کر لو جو قلبی
معرفت و یقین کے درجہ سےبڑھ کر ایک مرتبہ مسلمان بھی ہو چکے تھے۔ پھر دنیوی
اغراض اور شیطانی اغواء سے مرتد ہو گئے۔ یہ ان پہلوں سے بھی زیادہ کجرو اور
بےحیا واقع ہوئے ہیں۔ اس لئے ان سے بڑھ کر لعنت و عقوبت کے مستحق ہوں گے۔
|
وَإِذا قيلَ لَهُم تَعالَوا
إِلىٰ ما أَنزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسولِ قالوا حَسبُنا ما وَجَدنا عَلَيهِ
ءاباءَنا ۚ أَوَلَو كانَ ءاباؤُهُم لا يَعلَمونَ شَيـًٔا وَلا يَهتَدونَ {5:104}
|
اور
جب کہا جاتا ہے ان کو آؤ اسکی طرف جو کہ اللہ نے نازل کیا اور رسول کی طرف تو
کہتے ہیں ہم کو کافی ہے وہ جس پر پایا ہم نے اپنے باپ دادوں کو بھلا اگر انکے
باپ دادے نہ کچھ علم رکھتے ہوں اور نہ راہ جانتے ہوں تو بھی ایسا ہی کریں گے
[۲۴۵]
|
جاہلوں
کی سب سے بڑی حجت یہ ہی ہوتی ہے کہ جو کام باپ دادا سے ہوتا آیا ہے اس کا خلاف
کیسے کریں۔ ان کو بتلایا گیا کہ اگر تمہارےاسلاف بےعقلی یا بےراہی سےقعر ہلاکت
میں جا گرے ہوں تو کیا پھر بھی تم ان ہی کی راہ چلو گے؟ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے
ہیں "باپ کا حال معلوم ہو کہ حق کا تابع اور صاحب علم تھا تو اس کی راہ
پکڑے نہیں تو عبث ہے"۔ یعنی کیف ما اتفق ہر کسی کی کورانہ تقلید جائز نہیں۔
|
يٰأَيُّهَا الَّذينَ
ءامَنوا عَلَيكُم أَنفُسَكُم ۖ لا يَضُرُّكُم مَن ضَلَّ إِذَا اهتَدَيتُم ۚ إِلَى اللَّهِ مَرجِعُكُم جَميعًا
فَيُنَبِّئُكُم بِما كُنتُم تَعمَلونَ {5:105}
|
اے
ایمان والو تم پر لازم ہے فکر اپنی جان کا تمہارا کچھ نہیں بگاڑتا جو کوئی گمراہ
ہوا جبکہ تم ہوئے راہ پر [۲۴۶] اللہ کے پاس لوٹ کر جانا ہے تم سب کو پھر وہ
جتلاوے گا تمکو جو کچھ تم کرتےتھے [۲۴۷]
|
یعنی
اگر کفار رسوم شرکیہ اور آباء اجداد کی اندھی تقلید سے باوجود اس قدر نصیحت و
فہمائش کے باز نہیں آتے تو تم زیادہ اس غم میں مت پڑو۔ کسی کی گمراہی سے تمہارا
کوئی نقصان نہیں بشرطیکہ تم سیدھی راہ پر چل رہے ہو۔ سیدھی راہ یہ ہی ہے کہ آدمی
ایمان و تقویٰ اختیار کرے خود برائی سے رکے اور دوسروں کو روکنے کی امکانی کوشش
کرے۔ پھر بھی اگر لوگ برائی سےنہ رکیں تو اس کا کوئی نقصان نہیں۔ اس آیت سے یہ
سمجھ لینا کہ جب ایک شخص اپنا نماز روزہ ٹھیک کر لے تو "امر بالمعروف"
چھوڑ دینے سے اسے کوئی مضرت نہیں ہوتی، سخت غلطی ہے لفظ "اہتداء" امر
بالمعروف وغیرہ تمام وظائف ہدایت کو شامل ہے۔ اس آیت میں گو روئے سخن بظاہر
مسلمانوں کی طرف ہے۔ لیکن ان کفار کو بھی متنبہ کرنا ہے جو باپ دادا کی کورانہ
تقلید پر اڑے ہوئے تھے۔ یعنی اگر تمہارے باپ دادا راہ حق سے بھٹک گئے تو ان کی
تقلید میں اپنے کو جان بوجھ کر کیوں ہلاک کرتے ہو۔ انہیں چھوڑ کر تم اپنی عاقبت
کی فکر کرو۔ اور نفع و نقصان کو سمجھو۔ باپ دادا اگر گمراہ ہوں اور اولاد ان
کےخلاف راہ حق پر چلنے لگے تو آبا ؤ اجداد کی یہ مخالفت اولاد کو قطعًا مضر
نہیں۔ یہ خیالات محض جہالت کے ہیں کہ کسی حال بھی آدمی باپ دادا کے طریقہ سے قدم
باہر نہ رکھے۔ رکھے گا تو ناک کٹ جائے۔ عقلمندکو چاہیئےکہ انجام کا خیال کرے سب
اگلے پچھلے جب خدا کے سامنے اکٹھے پیش ہوں گے تب ہر ایک کو اپنا عمل اور انجام
نظر آ جائے گا۔
|
یعنی
جو گمراہ رہا اور جس نے راہ پائی سب کےنیک و بد اعمال اور ان کے نتائج سامنے کر
دیے جائیں گے۔
|
قالَ الَّذينَ استَكبَروا
لِلَّذينَ استُضعِفوا أَنَحنُ صَدَدنٰكُم عَنِ الهُدىٰ
بَعدَ إِذ جاءَكُم ۖ بَل كُنتُم مُجرِمينَ {34:32}
|
کہنے
لگے بڑائی کرنے والے ان سے جو کہ کمزر گنے گئے تھے کیا ہم نے روکا تم کو حق بات
سے تمہار ے پاس پہنچ چکنے کے بعد کوئی نہیں تم ہی تھے گنہگار [۴۷]
|
یعنی
جب تمہارے پاس حق بات پہنچ گئ اور سمجھ میں آ گئ تھی کیوں قبول نہ کی۔ کیا ہم نے
زبردستی تمہارے دلوں کو ایمان و یقین سے روک دیا تھا۔ چاہیئے تھا کہ کسی کی پروا
نہ کر کے حق کو قبول کر لیتے۔ اب اپنا جرم دوسروں کے سر کیوں رکھتے ہو۔
|
قُل إِن ضَلَلتُ فَإِنَّما
أَضِلُّ عَلىٰ نَفسى ۖ وَإِنِ اهتَدَيتُ
فَبِما يوحى إِلَىَّ رَبّى ۚ إِنَّهُ سَميعٌ قَريبٌ {34:50}
|
تو
کہہ اگر میں بہکا ہوا ہوں تو بہکوں گا اپنے ہی نقصان کو اور اگر ہوں سیدھے راستہ
پر تو اس سبب سے کہ وحی بھیجتا ہے مجھ کو میر ارب بیشک وہ سب کچھ سنتا ہے نزدیک
[۷۲]
|
یعنی
اگر میں نے یہ ڈھونگ خود کھڑا کیا ہے تو کَے دن چلے گا۔ اس میں آخر میرا ہی
نقصان ہے۔ دنیا کی عداوت مول لینا، ذلت اٹھانا اور آخرت کی رسوائی قبول کرنا۔
(العیاذ باللہ) لیکن اگر میں سیدھے راستہ پر ہوں جیسا کہ واقعی ہوں تو سمجھ لو
کہ یہ سب اللہ کی تائید و امداد اور وحی الہیٰ کی برکت و ہدایت سے ہے جو کسی وقت
میرا ساتھ نہیں چھوڑ سکتی۔ میرا خدا سب کچھ سنتا ہے اور بالکل نزدیک ہے۔ وہ
ہمیشہ میری مدد فرمائے گا اور اپنے پیغام کو دنیا میں روشن کرے گا۔ تم مانو یا
نہ مانو۔
|
قُل إِنّى نُهيتُ أَن
أَعبُدَ الَّذينَ تَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ ۚ قُل لا أَتَّبِعُ أَهواءَكُم ۙ قَد
ضَلَلتُ إِذًا وَما أَنا۠ مِنَ المُهتَدينَ
{6:56}
|
تو
کہہ دے مجھ کو روکا گیا ہے اس سے کہ بندگی کروں انکی جن کو تم پکارتے ہو اللہ کے
سوا تو کہہ میں نہیں چلتا تمہاری خوشی پر بیشک اب تو میں بہک جاؤں گا اور نہ
رہوں گا ہدایت پانے والوں میں [۶۲]
|
گذشتہ
آیت میں وہ چیزیں بیان ہوئیں جو مومنین سےکہنے کے لائق ہیں۔ اس رکوع میں ان امور
کا تذکرہ ہے جو مجرمین اور مکذبین کے حق میں قابل خطاب ہیں۔ یعنی آپ فرما دیجئے
کہ میرا ضمیر ، میری فطرت، میری عقل میرا نور شہود اور وحی الہٰی جو مجھ پر
اترتی ہے یہ سب مجھ کو اس سے روکتے ہیں کہ میں توحید کامل کے جادہ سے ذرا بھی
قدم ہٹاؤں۔ خوا تم کتنے ہی حیلے اور تدبیریں کرو میں کبھی تمہاری خوشی اور خواہش
کی پیروی نہیں کر سکتا۔ بفرض محال اگر پیغمبر کسی معاملہ میں وحی الہٰی کو چھوڑ
کر عوام کی خواہشات کا اتباع کرنے لگیں تو خدا نےجنہیں ہادی بنا کر بھیجا تھا
معاذ اللہ وہ ہی خود بہک گئے پھر ہدایت کا بیج دنیا میں کہاں رہ سکتا ہے۔
|
قُل أَنَدعوا مِن دونِ
اللَّهِ ما لا يَنفَعُنا وَلا يَضُرُّنا وَنُرَدُّ عَلىٰ أَعقابِنا بَعدَ إِذ هَدىٰنَا اللَّهُ كَالَّذِى استَهوَتهُ
الشَّيٰطينُ فِى الأَرضِ حَيرانَ لَهُ أَصحٰبٌ يَدعونَهُ إِلَى الهُدَى ائتِنا ۗ قُل إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الهُدىٰ
ۖ وَأُمِرنا لِنُسلِمَ لِرَبِّ العٰلَمينَ {6:71}
|
تو
کہہ دے کیا ہم پکاریں اللہ کےسوا ان کو جو نہ نفع پہنچا سکیں ہم کو اور نہ نقصان
اور کیا پھر جاویں ہم الٹے پاؤں اسکے بعد کہ اللہ سیدھی راہ دکھا چکا ہم کو مثل
اس شخص کے کہ رستہ بھلا دیا ہو اسکو جنوں نے جنگل میں جبکہ وہ حیران ہے اس کے
رفیق بلاتے ہیں اسکو رستہ کی طرف کہ چلا آ ہمارے پاس [۸۶] تو کہہ دے کہ اللہ نے
جو راہ بتلائی وہی سیدھی راہ ہے [۸۷] اور ہم کو حکم ہوا ہے کہ تابع رہیں
پروردگار عالم کے
|
یعنی
مسلمان کی شان یہ ہے کہ گمراہوں کو نصیحت کر کے سیدھی راہ پر لائے اور جو خدا سے
بھاگ کر غیر اللہ کی چوکھٹ پر سر رکھے ہوئے ہیں ان کو خدائے واحد کےسامنے سر
بسجود کرنے کی فکر کرے۔ اس سے یہ توقع رکھنا فضول ہے کہ وہ خدا کےسوا کسی ایسی
ہستی کے آگے سر جھکائے گا جس کے قبضہ میں نہ نفع ہے نہ نقصان۔ یا اہل باطل کی
صحبت میں رہ کر توحید و ایمان کی صاف سڑک چھوڑ دے گا اور شرک کی بھول بھلیاں کی
طرف الٹے پاؤں پھرے گا۔ اگر معاذ اللہ ایسا ہو تو اس کی مثال اس مسافر کی سی ہو
گی جو اپنے راہ جاننے والے رفقاء کے ساتھ جنگل میں سفر کر رہا تھا کہ ناگاہ غول
بیابانی (خبیث جنات) نے اسے بہکا کر راستہ سے الگ کر دیا۔ وہ چاروں طرف بھٹکتا
پھرتا ہے اور اس کےرفقاء ازراہ خیر خواہی اسے آوازیں دے رہے ہیں کہ ادھر آؤ
راستہ اس طرف ہے۔ مگر وہ حیران و مخبوط الحواس ہو کر نہ کچھ سمجھتا ہے نہ ادھر
آتا ہے۔ اسی طرح سمجھ لو کہ مسافر آخرت کے لئےسیدھی راہ اسلام و توحید کی ہے اور
جن کی رفاقت و معیت میں یہ سفر طے ہوتا ہے وہ پیغمبر اور اس کے متبعین ہیں۔ جب
یہ بدبخت شیاطین و مضلین کے پنجہ میں پھنس کر صحرائے ضلالت میں بھٹکتا پھرتا ہے
اس کے ہادی اور رفقاء ازراہ ہمدردی جادۂ حق کی طرف بلا رہے ہیں مگر یہ نہ کچھ
سنتا ہے نہ سمجھتا ہے۔ تو اے گروہ اشرار کیا تمہاری یہ غرض ہے کہ ہم اپنی ایسی
مثال بنا لیں یہ آیت ان مشرکین کے جواب میں اتری ہے جنہوں نے مسلمانوں سے ترک
اسلام کی درخواست کی تھی۔
|
ہم
سے یہ امید مت رکھو کہ اسے چھوڑ کر ہم شیطان کی بتلائی ہوئی راہوں پر چلیں گے۔
|
إِنّا أَنزَلنا عَلَيكَ
الكِتٰبَ لِلنّاسِ بِالحَقِّ ۖ فَمَنِ اهتَدىٰ
فَلِنَفسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيها ۖ وَما أَنتَ عَلَيهِم
بِوَكيلٍ {39:41}
|
ہم
نے اتاری ہے تجھ پر کتاب لوگوں کے واسطے سچے دین کے ساتھ پھر جو کوئی راہ پر آیا
سو اپنے بھلے کو اور جو کوئی بہکا سو یہی بات ہے کہ بہکا اپنے برے کو اور تو ان
کا ذمہ دار نہیں [۵۵]
|
یعنی
تیری زبان پر اس کتاب کے ذریعہ سچی بات نصیحت کی کہہ دی گئ اور دین کا راستہ
ٹھیک ٹھیک بتلا دیا گیا۔ آگے ہر ایک آدمی اپنا نفع و نقصان سوچ لے نصیحت پر چلے
گا تو اسی کا بھلا ہے ورنہ اپنا ہی انجام خراب کرے گا۔ تجھ پر اس کی کوئی ذمہ
داری نہیں کہ زبردستی ان کو راہ پر لے آئے۔ صرف پیغام حق پہنچا دینا آپ کا فرض
تھا وہ آپ نے ادا کر دیا۔ آگے معاملہ خدا کے سپرد کر دیجئے جس کے ہاتھ میں مارنا
جلانا اور سلانا جگانا سب کچھ ہے۔
|
فَريقًا هَدىٰ وَفَريقًا حَقَّ عَلَيهِمُ الضَّلٰلَةُ ۗ
إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيٰطينَ أَولِياءَ مِن دونِ اللَّهِ وَيَحسَبونَ
أَنَّهُم مُهتَدونَ {7:30}
|
ایک
فرقہ کو ہدایت کی اور ایک فرقہ پر مقرر ہو چکی گمراہی انہوں نے بنایا شیطانوں کو
رفیق اللہ کو چھوڑ کر اور سمجھتے ہیں کہ وہ ہدایت پر ہیں [۳۳]
|
یعنی
جن پر گمراہی مقرر ہو چکی، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خدا کو چھوڑ کرشیطانوں کو
اپنا دوست اور رفیق ٹھہرا لیا ہے۔ اور تماشا یہ ہے کہ اس صریح گمراہی کے باوجود
سمجھتے یہ ہیں کہ ہم خوب ٹھیک چل رہے ہیں اور مذہبی حیثیت سےجو روش اور طرز عمل
ہم نے اختیار کر لیا ہے وہ ہی درست ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا۔ { اَلَّذِیْنَ
ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ
یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا } (کہف رکوع ۱۳) (تنبیہ) آیت کےعموم سے ظاہر ہوا کہ کافر
معاند کی طرح کافر مخطی بھی جو واقع اپنی غلط فہمی سے باطل کو حق سمجھ رہا ہو {
فَرِیْقًا حَقَّ عَلَیْھِمُ الضَّلٰلَۃُ } میں داخل ہے، خواہ یہ غلط فہمی پوری
طرح غور و فکر نہ کرنے کی وجہ سے ہو، یا اس لئے کہ گو اس نے بظاہر پوری قوت غور
و فکر میں صرف کر دی، لیکن ایسےصریح اور واضح حقائق تک نہ پہنچنا خود بتلاتا ہے
کہ فی الحقیقت اس سے قوت فکر و استدلال کے استعمال میں کوتاہی ہوئی ہے۔ گویا جن
چیزوں پر ایمان لانا مدار نجات ہے وہ اس قدر روشن اور واضح ہیں کہ ان کے انکار
کی بجز عناد یا قصور فکر و تامل کے اور کوئی صورت نہیں۔ بہرحال کفر شرعی ایک
ایسا سنکھیا(زہر) ہے جو جان بوجھ کر یا غلط فہمی سےکسی طرح بھی کھایا جائے انسان
کو ہلاک کرنے کے لئے کافی ہے۔ "اہل السنت والجماعت" کا مذہب یہ ہی ہے
اور "روح المعانی" میں جو بعض کا اختلاف اس مسئلہ میں نقل کیا ہے، اس
بعض سے مراد جاحظ و عنبری ہیں جو اہل السنت و الجماعت میں داخل نہیں بلکہ باوجود
"معتزلی" کہلائے جانے کے خود معتزلی کو بھی ان کے اسلام میں کلام ہے۔
اسی لئے صاحب روح المعانی نے ان کا مذہب نقل کرنے کے بعد لکھ دیا۔ "وللہ
تعالیٰ الحجۃ البالغۃ والتزام ان کل کافر معاند بعد البعثت و ظہور امر الحق کفار
علی علم اھ"
|
وَما لَنا أَلّا
نَتَوَكَّلَ عَلَى اللَّهِ وَقَد هَدىٰنا
سُبُلَنا ۚ وَلَنَصبِرَنَّ عَلىٰ ما ءاذَيتُمونا ۚ وَعَلَى اللَّهِ
فَليَتَوَكَّلِ المُتَوَكِّلونَ {14:12}
|
اور
ہم کو کیا ہوا کہ بھروسہ نہ کریں اللہ پر اور وہ سمجھا چکا ہم کو ہماری راہیں
[۲۱] اور ہم صبر کریں گے ایذا پر جو تم ہم کو دیتے ہو اور اللہ پر بھروسہ چاہئے
بھروسے والوں کو [۲۲]
|
یعنی
خواہ کتنی ہی ایذاء پہنچاؤ ، خدا کے فضل سے ہمارےتوکل میں فرق نہیں پڑ سکتا ۔
متوکلین کا یہ کام نہیں کہ سختیاں دیکھ کر توکل اور استقامت کی راہ سے ہٹ جائیں۔
|
یعنی
حق تعالیٰ ہم کو جام توحید و عرفان پلا کر حقیقی کامیابی کے راستے بتا چکا۔ پھر
کیسے ممکن ہے کہ ہم اس پر توکل نہ کریں۔
|
No comments:
Post a Comment