*....(اے کتاب والو!) تم اسے ضرور بیان کرنا لوگوں سے، اور نہ چھپانا اسے....*
[سورۃ آل عمران:187، تفسیرقرطبی:4/305]
حضرت (1)انس بن مالک، (2)ابن عباسؓ، (3)معاذ بن جبل، (4)ابوھریرہ، (5)ابودرداء، (6)ابوسعید الخدری، (7)علی بن ابی طالب، (8)ابن عمرؓ، (9)ابن مسعودؓ، (10)سلمان فارسیؓ، (11)ابوامامہ۔۔۔۔۔۔۔۔سے روایات مروی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَا مِنْ مُسْلِمٍ
«مَنْ (تَعَلَّمَ) (حَمَلَ) (رَوَى عَنِّي) (نَقَلَ عَنِّي) حَفِظَ عَلَى أُمَّتِي أَرْبَعِينَ حَدِيثًا۔۔۔۔
فِيمَا يَنْفَعْهُمُ (اللهُ عَزَّ وَجَلَّ) (يَنْتَفِعُونَ بِهَا)
مِنْ أَمْرِ دِينِهِمْ
يَفْقَهُ بِهَا فِي دِينِهِ
مِنَ السُّنَّةِ
مِمَّا يَحْتَاجُونَ إِلَيْهِ
مِنَ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ
ينذر بالحرام ويبشر بالحلال
لِيُعَلِّمَهُمْ
حَتَّى يُؤَدِّيَهَا إِلَيْهِمْ
إِلَى مَنْ لَمْ يَلْحَقْنِي مِنْ أُمَّتِي
فَهُوَ مِنَ الْعُلَمَاءِ
(حشره الله) (كَتَبَهُ اللَّهُ) بَعَثَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (فِي زُمْرَةِ) فَقِيهًا عَالِمًا
وَحُشِرَ فِي جُمْلَةِ الشُّهَدَاءِ
حَشَرَهُ اللَّهُ مَعَ الأَنْبِيَاءِ وَالْعُلَمَاءِ
كُنْتُ لَهُ شَفِيعًا مِنَ النَّارِ
وَشَهِيدًا
قِيلَ لَهُ: ادْخُلْ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ شِئْتَ
وَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ بِأَرْبَعِينَ دَرَجَةً، اللهُ أَعْلَمُ بِمَا بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ
ترجمہ:
مسلمانوں میں سے
جس نے (سیکھا) (اٹھائے رکھا) (روایت کیا مجھ سے) (منتقل کیا مجھ سے) یاد کرلیا، میری امت کے لیے، چالیس احادیث کو۔۔۔۔
اللہ کی رضا کی تلاش میں
...دینی احکام میں سے
...جن سے وہ نفع اٹھائیں/انہیں اللہ نفع دے
...جس سے وہ اپنے دین میں فقہ(سمجھ) حاصل کرسکے
...میری سنت (کے موضوع) میں سے
...جنکی اسے ضرورت ہے
...جس میں حلال اور حرام (کا بیان) ہو
...جن سے وہ حرام سے ڈراتا ہے اور حلال پر خوشخبری دیتا ہے
تاکہ وہ انہیں تعلیم دے
یہاں تک کہ وہ انہیں دے دے
میری امت میں سے جو مجھے نہیں پا سکے
تو
...وہ علماء میں سے ہے
...(حشر کرے گا اسے اللہ) (لکھ دے گا اسے اللہ) اٹھائے گا اسے اللہ قیامت کے دن اسے فقیہ عالم بناکر (فقہاء وعلماء کے زمرہ میں)
...اور جملہ شہداء میں حشر کیا جائے گا۔
...جمع فرمائے گا اللہ اسے انبیاء اور علماء کے ساتھ قیامت کے دن۔
...میں قیامت کے دن اس کی سفارشی ہوں گا جہنم سے
اور گواہ ہوں گا۔
...اس سے کہا جائے گا: جس بھی دروازے سے چاہو جنت میں داخل ہو جاؤ۔
اور عالم کی فضیلت عابد پر چالیس درجے زیادہ ہے اور اللہ زیادہ جانتا ہے کہ ہر دو درجے کے درمیان کیا ہے۔
[جامع الاحادیث-للسیوطی:22042-22050]
نوٹ:
اکثر روایات کا متفقہ بیان یہ ہے:
*جس نے یاد کرلیا، میری امت کے لیے۔۔۔۔*
سب روایات کا متفقہ بیان یہ ہے:
۔۔۔چالیس احادیث کو۔۔۔
*....(اے کتاب والو!) تم اسے ضرور بیان کرنا لوگوں سے، اور نہ چھپانا اسے....*
[سورۃ آل عمران:187، تفسیرقرطبی:4/305]
القرآن:
اور جنہوں نے اپنے پروردگار سے تقویٰ کا معاملہ رکھا تھا انہیں جنت کی طرف گروہوں کی شکل میں لے جایا جائے گا *یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچیں گے جبکہ اس کے دروازے ان کے لیے پہلے سے کھولے جا چکے ہوں گے* (تو وہ عجیب عالم ہوگا۔) اور اس کے محافظ ان سے کہیں گے کہ : سلام ہو آپ پر، خوب رہے آپ لوگ ! اب اس جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے کے لیے آ جائیے۔
[سورۃ الزمر:73، تفسیر الدر المنثور:7/266]
(1)پہلی احادیث حضرت انس بن مالکؓ کی روایت سے:
[مجلسان لأبي بكر العنبريؒ (سنة الوفاة:324) » رقم الحديث: 10]
|
|
---
تشریح:
1. حدیث کی سند اور صحت کا جائزہ:
- یہ حدیث مختلف سندوں سے مروی ہے، جس میں صحت کے درجات مختلف ہیں۔ امام ابن عبد البر نے اپنی کتاب میں اسے نقل کیا ہے۔
-بعض علماء (جیسے امام نووی) اسے "ضعیف" قرار دیتے ہیں، لیکن دین کے بنیادی امور کی تعلیم کے حوالے سے اس کا مفہوم درست اور قابل عمل ہے ۔
-امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں: "اس حدیث کا مقصد دین کے اہم اصولوں کو مختصراً یاد کرنا ہے"۔
---
2. "چالیس احادیث" کی مراد اور حکمت:
-عدد 40 کی اہمیت: قرآن و سنت میں یہ عدد تکمیل و کمال کی علامت ہے (جیسے حضرت موسیٰ کا 40 دن کا اعتکاف)۔
﴿سورۃ البقرۃ:51، الاعراف:142﴾
-مراد صرف عدد نہیں: یہاں "چالیس" سے مراد دین کے اہم احکام و عقائد پر مشتمل احادیث کا منتخب مجموعہ ہے، نہ کہ محض عددی تکمیل۔ امام غزالی فرماتے ہیں: "مقصود ایسے احادیث ہیں جو دین کے ستونوں کو سمیٹیں" ۔
-عملی نمونہ: امام نووی کی "الأربعون النوویۃ" اسی حدیث کی عملی تفسیر ہے، جس میں عقائد، عبادات، اخلاق اور معاملات کے بنیادی احکام جمع کیے گئے۔
---
3. "یَفْقَهُ بِهَا" (دین کی سمجھ) کی قرآن و سنت میں بنیاد:
- قرآن مجید میں فقہ کی اہمیت:
"کیوں نہ ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے تاکہ دین کی سمجھ حاصل کریں" (التوبہ:122)
- "تفقہ" کا مفہوم:
- سطحی یادداشت نہیں، بلکہ احادیث کے معانی، مقاصد اور تطبیق کو گہرائی سے سمجھنا۔
- "توبہ کرنے والا گناہگار نہیں رہتا، لیکن بار بار توبہ توڑنے والا مذاق بن جاتا ہے" ، یہ فقہ کی عملی تربیت کی طرف اشارہ ہے۔
---
4. "فَقِيهًا عَالِمًا" (فقیہ و عالم) بننے کی شرائط:
-فقیہ اور عالم میں فرق:
فَقِيه: دین کے عملی احکام (عبادات، معاملات) میں گہری بصیرت رکھنے والا۔
عَالِم: دین کے نظری و عملی پہلوؤں کا وسیع علم رکھنے والا۔
- شرائط:
1. احادیث کو سمجھ کر یاد کرنا (بغیر فہم کے محنت عظیم.نفع میں عظیم.نقصان وکمی ہے)۔
2. علم پر عمل کرنا، کیونکہ قرآن میں ہے:
"اور یہ اپنے کیے (گناہوں) پر جانتے بوجھتے اصرار نہیں کرتے" ۔
[سورۃ آل عمران:135]
حدیث میں ہے:
وہ اصرار کرنے والا نہیں جو (گناہ کرنے کے بعد) بخشش مانگتا ہے، اگرچہ وہ (گناہ) کر ڈالے دن میں ستر (یعنی کئی) مرتبہ۔
[ترمذی:3559، ابوداؤد:1514]
3. نیت خالصتاً اللہ کے لیے ہونا، کیونکہ حدیث میں ہے: "اعمال(کی قبولیت وثواب) کا دارومدار نیتوں پر ہے" ۔[بخاری:1]
---
5. توبہ اور علم کا باہمی تعلق:
- حدیث میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: *"اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ پر اتنا خوش ہوتا ہے جیسے کوئی اپنی گمشدہ چیز کو پا لے"*۔ [ترمذي:3538]
- علم حاصل کرنا بھی توبہ کی طرح نفس کی اصلاح کا ذریعہ ہے، جس کی بنیاد قرآن کی آیت "اللہ تو بس پرہیز گاروں سے قبول کرتا ہے۔" (سورۃ المائدہ:27) پر ہے۔
---
6. دورِ حاضر میں عملی تطبیق:
- منتخب احادیث کی مثالیں:
چالیس احادیث میں درج ذیل موضوعات شامل ہونے چاہئیں:
1. عقائد: توحید، رسالت، آخرت۔
2. عبادات: نماز، روزہ، زکٰوۃ، حج۔
3. اخلاق: سچائی، امانت، صلہ رحمی۔
4. معاملات: خرید و فروخت، نکاح، وراثت۔
5. تزکیہ نفس: ذکر، استغفار، صبر۔
- تعلیمی نصاب: دینی مدارس میں "چالیس احادیث" کے مجموعے نصاب کا حصہ بنائے جائیں تاکہ طلبہ دین کی بنیادی سمجھ حاصل کریں۔
---
7. خلاصہ اور نصیحتیں:
1. علم کی فضیلت: قرآن فرماتا ہے: "بلند کرتا ہے اللہ درجات (عموماً) ان کے جو ایمان لائے تم میں سے اور (خصوصاً) جنہیں دیا گیا ہے علم" (سورۃ المجادلہ:11)۔
2. چالیس کا ہدف: یہ عدد محض علامت ہے، مقصد دین کے اہم پہلوؤں کو سمجھنا ہے۔
3. عمل کی ضرورت: علم بغیر عمل کے بوجھ ہے۔
4. نیت کی اہمیت: اللہ کے نزدیک توبہ کرنے والے جوان سے محبوب اور کوئی چیز نہیں۔ یہ علم کی نیت پر دلالت کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور علم نافع حاصل کرنے کی توفیق دے۔ آمین!
|
|
|
|
|
|
(حديث مرفوع) أنبا أَبُو سَعْدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَصِيرِيُّ ، أنبا أَبُو زَيْدٍ الْوَاقِدُ بْنُ الْخَلِيلِ قَدِمَ عَلَيْنَا الرَّيَّ سَنَةَ ثَمَانِينَ وَأَرْبَعِ مِائَةٍ ، أنبا وَالِدِي ، أَخْبَرَنِي أَحْمَد بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحَافِظُ ، أنبا أَبُو نَصْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَد بْنِ يَحْيَى الْمَرْوَزِيُّ بِسَمَرْقَنْدَ ، ثنا أَبُو رَجَاءٍ مُحَمَّدُ بْنُ حَمْدُوَيْهِ ، ثنا عَلِيُّ بْنُ حَمَّادٍ الْبَزَّازُ ، ثنا سَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ الْجُرْجَانِيُّ ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ ، عَنْ لَيْثٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ سَلْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الأَرْبَعِينَ حَدِيثًا ، الَّتِي قَالَ : مَنْ حَفِظَهَا مِنْ أُمَّتِي دَخَلَ الْجَنَّةَ . فَقُلْتُ : وَمَا هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ، وَالْمَلائِكَةِ ، وَالنَّبِيِّينَ ، وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ ، وَالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ مِنَ اللَّهِ وَأَنْ تَشْهَدَ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ، وَتُقِيمَ الصَّلاةَ بِوُضُوءٍ سَابِغٍ لِوَقْتِهَا ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ ، وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنْ كَانَ لَكَ مَالٌ ، وَتُصِلِّيَ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ، وَالْوِتْرُ لا يَتْرُكُهَا فِي كُلِّ لَيْلَةٍ ، لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ شَيْئًا ، وَلا تَعُقَّ وَالِدَيْكَ ، وَلا تَأْكُلْ مَالَ الْيَتِيمِ ظُلْمًا ، وَلا تَشْرَبِ الْخَمْرَ ، وَلا تَزْنِ ، وَلا تَحْلِفْ بِاللَّهِ كَاذِبًا ، وَلا تَشْهَدْ شَهَادَةَ زُورٍ ، وَلا تَعْمَلْ بِالْهَوَى ، وَلا تَعْتِبْ أَخَاكَ ، وَلا تَقْذِفِ الْمُحْصَنَةَ ، وَلا تَغُلَّ أَخَاكَ الْمُسْلِمَ ، وَلا تَلْعَبْ وَلا تَلْهُ مَعَ اللاهِينَ ، وَلا تَقُلْ لِلْقَصِيرِ يَا قَصِيرُ تُرِيدُ بِذَلِكَ عَيْبَهُ ، وَلا تَسْخَرْ بِأَحَدٍ مِنَ النَّاسِ ، وَلا تَمْشِ بِالنَّمِيمَةِ بَيْنَ الإِخْوَانِ ، وَاشْكُرْ للَّهِ عَلَى نِعْمَتِهِ ، وَتَصْبِرَ عِنْدَ الْبَلاءِ وَالْمَعْصِيَةِ ، لا تَأْمَنْ عِقَابَ اللَّهِ ، وَلا تَقْطَعْ مِنْ أَقْرِبَائِكَ وَصِلْهُمْ ، وَلا تَلْعَنْ أَحَدًا مِنْ خَلْقِ اللَّهِ ، وَأَكْثِرْ مِنَ التَّسْبِيحِ وَالتَّكْبِيرِ وَالتَّهْلِيلِ ، وَلا تَدَعْ حُضُورَ الْجُمُعَةِ وَالْعِيدَيْنِ ، وَاعْلَمْ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِيَكَ ، وَمَا أَخْطَاكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيَبَكَ ، وَلا تَدَعْ قِرَاءَةَ الْقُرْآنِ عَلَى كُلِّ حَالٍ . قَالَ سَلْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَا ثَوَابُ مَنْ حَفِظَ هَذِهِ الأَرْبَعِينَ ؟ قَالَ : حَشَرَهُ اللَّهُ مَعَ الأَنْبِيَاءِ وَالْعُلَمَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ .
[التدوين في أخبار قزوين للرافعي » القول فيمن سوي المحمدين » العين في الآباء ... رقم الحديث: 1285]
|
[جامع الأحاديث-السيوطي:22042، أخرجه ابن الجوزى فى العلل المتناهية (1/122، رقم 171) ].
حضرت ابو درداءؓ کی روایت میں (( كُنْتُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَافِعًا وَشَهِيدًا - یعنی - میں ہوں گا اس کے لئے قیامت کے دن شفاعت کرنے والا اور گواہی دینے والا )) ہے.
[كتاب الفوائد (الغيلانيات):389(1/370)، شعب الإيمان للبيهقي:1597(3/240)، ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:4(1/12)، جامع الأحاديث:22045]
حضرت ابن مسعودؓ کی روایت میں ہے (( قِيلَ لَهُ : ادْخُلِ الْجَنَّةَ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ شِئْتَ- یعنی - فرمایا اس کو : داخل کیا جاۓ گا جنّت کے دروازوں میں سے جس میں چاہے گا )) آیا ہے .
[الدر المنثور للسیوطی:7/266، أبو نعيم فى الحلية (4/189) وقال: غريب.]
[جامع الاحاديث:24068، أورده ابن الجوزى فى العلل المتناهية (1/124، رقم 177)]
اربعین ولی اللہٰی
https://raahedaleel.blogspot.com/2018/10/blog-post.html
دعا کے آداب وموانع اور چہل (40) ربنا دعائیں
http://raahedaleel.blogspot.com/2014/04/blog-post_11.html
No comments:
Post a Comment