اس دنیا میں ہر انسان کی کچھ نہ کچھ خواہشات ہوتی ہیں، جس کی وہ تکمیل چاہتا ہے، اگر ایک انسان مصیبت زدہ ہے، پریشانی میں مبتلا ہے، تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کو اس مصیبت وپریشانی سے چھٹکارا مل جائے اور ایک انسان فی الحال تو مصیبت وپریشانی میں مبتلا نہیں، لیکن مستقبل میں کوئی پریشانی، مصیبت پہنچنے کا خدشہ ہوتا ہے او راس کا خوف دامن گیر ہوتا ہے، یا کوئی انسان زندگی میں کسی چیز کے حصول کے لیے سرگرداں ہوتا ہے اور اس کے لیے تگ ودو میں لگا ہوتا ہے اور ہر وہ سبب وتدبیر اختیار کرتا ہے کہ جس سے اس کی خواہش کی تکمیل ممکن ہو سکے۔
ایسی صورت حال میں شریعت کی طرف سے تعلیم یہ ہے کہ انسان کی کوئی بھی خواہش ہو، چاہے وہ پریشانی ومصیبت سے نجات کی ہو، یا کسی چیز کے حصول کی خواہش ہو، ہر خواہش الله تعالیٰ کے سامنے رکھے اور الله تعالیٰ سے طلب کرے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”لیسأل أحدکم ربہ حاجتہ کلھا حتی یسأل شسع نعلہ إذا انقطع․“
(سنن الترمذی، ابواب الداعوت، باب یسأل أحدکم ربہ، رقم الحدیث:3604)
چاہیے کہ تم میں سے ہر ایک اپنے پروردگار سے اپنی تمام حاجتیں مانگے، یہاں تک کہ اگر چپل کا تسمہ ٹوٹ جائے، تو وہ بھی الله تعالیٰ سے مانگے۔
اور اس یقین کے ساتھ الله تعالیٰ سے طلب کرے کہ الله تعالیٰ ضرور میری دعا قبول فرمائیں گے، کیوں کہ الله تعالیٰ خود فرماتے ہیں:﴿أُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَان﴾․(سورة البقرہ:186) میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں، جب وہ مجھ سے دعا کرتا ہے۔الله تعالیٰ ہر مسلمان کی دعا سنتے ہیں او رقبول فرماتے ہیں، بشرطے کہ کوئی اس ”مجیب ذات“ سے بندہ ہو کر مانگے اور اس رحیم وکریم ذات کے در سے مایوس نہ ہو۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”یستجاب لأحدکم مالم یعجل، یقول: دعوت فلم یستجب لی“․
(البخاری ، کتاب الدعوات، باب یستجاب للعبد مالم یعجل، رقم الحدیث:6340)
یعنی تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول کی جاتی ہے، جب تک وہ جلدی نہ مچائے اور (جلدی مچانا یہ ہے کہ) کہے میں نے دعا کی، مگر وہ قبول نہ ہوئی۔
اسی طرح ہمارا تعلق الله رب العزت کی ذات سے پوری زندگی مضبوط ہونا چاہیے، ہماری پوری زندگی الله تعالیٰ اور اس کے پیارے رسول صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کے عین مطابق ہو، خوشی ہو یا غمی، تنگی ہو یا آسانی، ہر موقع پر ہم الله تعالیٰ کو نہ بھولیں۔
چناں چہ جو شخص خوش حالی کی زندگی میں الله تعالیٰ کے احسانات وانعامات کو نہیں بھولتا، اور الله تعالیٰ کو ناراض نہیں کرتا، ایسے شخص پر اگر کوئی تکلیف ومصیبت آتی ہے، تو الله تعالیٰ اس تکلیف ومصیبت میں اس کی دعا ضرور قبول فرماتے ہیں۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”من سرہ أن یستجیب الله لہ عند الشدائد والکرب فلیکثر الدعاء فی الرخاء․“
(سنن الترمذی، ابواب الدعوات، باب ماجاء ان دعوة المسلم مستجابة، رقم الحدیث:3382)
جس کو یہ بات اچھی لگے کہ الله تعالیٰ سختیوں اور بے چینیوں میں اس کی دعا قبول فرمائیں، تو اس کو چاہیے کہ خوش حالی میں بکثرت دعا کیا کرے۔
اسی طرح اپنے کسی بھی مقصد کے حصول کے لیے دنیاوی اسباب اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ نیک اعمال میں اضافہ کرے، خاص کروہ اعمال جو شریعت کی طرف سے ایسے موقع پر تعلیم کردہ ہیں۔
آپ صلی الله علیہ وسلم کا عمل مبارک
چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو جب بھی کوئی معاملہ پیش آتا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نماز کی طرف متوجہ ہوتے:”عن حذیفة بن الیمان رضی الله عنہ قال: کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم إذا حزبہ أمر صلی․“
(الفتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد بن حنبل ، کتاب الصلوٰة، باب ماجاء فی الصلوٰة مطلقاً2/207)
اسی طرح غزوہ بدر کے موقع پر جب مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ تھی اور بے سروسامانی کی حالت میں تھے اور مقابلے میں ہتھیاروں سے لیس ایک ہزار کی تعداد میں کفار چنا ں چہ اس موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم پوری رات الله تعالیٰ کے سامنے آہ وزاری کرتے رہے۔
حضرت علی رضی الله عنہ فرماتے ہیں : ”لقد رأیتنا لیلة بدر وما فینا أحد إلا نائم إلا النبی صلی الله علیہ وسلم، بإنہ کان یصلی إلی شجرة ویدعو ویبکی حتی أصبح․“
(کنز العمال، کتاب الغزوات، غزوة بدر، رقم الحدیث:181/10,2993)
جس صبح کو جنگ ہونے والی تھی غزوہ بدر میں ، اس رات میں سب صحابہ کرام رضی الله عنہم سوئے، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نہیں سوئے، بلکہ صبح تک آپ صلی الله علیہ وسلم نماز پڑھتے رہے اور الله تعالیٰ سے رو رو کر دعا اور التجا کرتے رہے۔
دفع مصیبت کے لیے ایک خاص دعا
ایک روایت میں ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”ألا أخبرکم بشیء إذا نزل بأحدکم کرب أو بلاء من أمر الدنیا دعا بہ فیفرج عنہ، دعاء ذی النون: لا إلہ إلا أنت سبحانک إنی کنت من الظلمین․“
(کنز العمال، کتاب الأذکار، الباب الثانی فی الدعاء، الفصل الخامس، رقم الحدیث:53/2,3416)
یعنی جو مصیبت، پریشانی کے وقت:”لا إلہ إلا أنت… الخ“ سے دعا کرے گا، تو الله تعالیٰ اس سے اس مصیبت پریشانی کو دور فرما دیں گے۔
صلوٰة الحاجة
اپنے خاص مقصد او ر حاجت پوری ہونے کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک خاص طریقہ بھی تعلیم فرمایا ہے۔
چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”من کانت لہ حاجة إلی الله أو إلی أحد من بنی آدم، فلیتوضأ فلیحسن الوضوء، ثم لیصل رکعتین، ثم یثن علی الله، ولیصلی علی النبی صلی الله علیہ وسلم، ثم لیقل: ”لا إلہ إلا الله الحلیم الکریم، سبحان الله رب العرش العظیم، الحمدلله رب العالمین، أسألک موجبات رحمتک وعزائم مغفرتک والغنیمة من کل بر والسلامة من کل إثم، لاتدع لی ذنبا إلا غفرتہ ولا ھما إلا فرجتہ، ولا حاجة ھی لک رضا إلا قضیتھا یا أرحم الراحمین․“
(کنزل العمال، کتاب الصلاة، الباب السابع فی صلوٰة النوافل، الفصل الثالث، رقم الحدیث:336/7,21532)
یعنی جس شخص کو الله تعالیٰ یا کسی آدمی کی طرف کوئی حاجت ہو، تو اسے چاہیے کہ پہلے وضو کرے اور اچھا وضو کرے، یعنی پورے آداب کے ساتھ وضو کرے، اور دو رکعت نماز پڑھے، پھر الله تعالیٰ کی بڑائی بیان کرے اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر درود بھیج کر یہ دعا پڑھے، نہیں ہے کوئی معبود سوائے الله چشم پوشی اور بخشش کرنے والے کے، پاک ہے الله، جو مالک ہے عرش عظیم کا اورسب تعریفیں الله ہی کے لیے ہیں، جو سارے جہاں کا پروردگار ہے، اے الله! میں تجھ سے ان چیزوں کو مانگتا ہوں، جن پرر حمت ہوتی ہے اور جو تیری بخشش کاسبب ہوتی ہیں، اور مانگتا ہوں اپنا حصہ ہر نیکی سے اور بچنا چاہتا ہوں ہر گناہ سے۔ اے الله! میرے کسی گناہ کو بے بخشے ہوئے اور کسی غم کو بے دور کیے ہوئے اور کسی حاجت کو جو تیرے نزدیک پسند ہو، بے پورا کیے ہوئے نہ چھوڑ۔ اے بہت رحم کرنے والے رحم کرنے والوں سے۔
علامہ ابن حجر رحمہ الله فرماتے ہیں کہ حاجت مند کو اپنی حاجت روائی اور اس نماز ودعا کو پڑھنے کے لیے ہفتہ کے دن صبح کا وقت اختیار کرنا چاہیے، کیوں کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص ہفتہ کے دن صبح کے وقت نماز حاجت اور اس دعا کو پڑھ کر اپنی حلال وجائز حاجت کو طلب کرے، تو میں اس کی حاجت روائی کا ضامن ہوں۔
(مرقاة المفاتیح، کتاب الصلوٰة، باب التطوع، الفصل الثانی،372/3)
دفع مصیبت کے لیے صدقہ بہترین عمل
اگر انسان خدانخواستہ کسی مصیبت میں گرفتار ہو جائے، یا کسی مصیبت اور پریشانی سے دو چار ہونے کا اندیشہ ہو، تو ایسے موقع پر الله تعالیٰ کے راستے میں مال خرچ کرنا ایک بہترین عمل ہے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”الصدقة تسد سبعین بابا من السوء․“
(مجمع الزوائد، کتاب الزکوٰة، باب فضل الصدقہ109/3)
اسی طرح حضرت علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کی ایک اور روایت ہے ،آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” بادروا بالصدقة، فإن البلاء لا یتخطاھا․“
(مجمع الزوائد، کتاب الزکوٰة، باب فضل الصدقة،110/3)
خدا کی راہ میں خرچ کرنے میں جلدی کرو، کیوں کہ صدقہ دینے سے بلا نہیں بڑھتی۔ یعنی الله تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے بلائیں ٹلتی ہیں۔
یہ تو وہ امور میں کہ جب انسان کو کوئی حاجت ہو، یا مصیبت میں مبتلا ہو تو شریعت نے اس طریقے سے اس مصیبت سے نجات کا طریقہ تعلیم فرمایا ہے۔
نذر ( منت)
لیکن ایسے موقع پر یعنی جب کوئی مصیبت سے چھٹکارا چاہتا ہو، یا کسی چیز کا حصول مقصود ہو، تو لوگ نذر مانتے ہیں، یعنی اگر میں اس بیماری سے شفا یاب ہو گیا یا میرا فلاں رشتہ دار بیماری سے شفا یاب ہو گیا، تو میں الله کے نام پر بکری صدقہ کروں گاہ یا میری نوکری لگ گئی، یا مجھے تجارت وغیرہ میں اتنا نفع حاصل ہوا تو اتنا مال الله کے راستے میں خیرات کروں گا یا اتنے روزے، یا اتنی نمازیں پڑھو ں گا۔
نذر کی حقیقت
حضرت سعید بن الحارث رحمہ الله نے حضرت ابن عمر رضی الله عنہما کو یہ کہتے ہوتے سنا:”أولم ینھوا عن النذر؟ إن النبی صلی الله علیہ وسلم قال: إن النذر لا یقدم شیئاً، ولا یؤخر، وإنما یستخرج بالنذر من البخیل․“
(الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الأیمان والنذور، باب الوفاء بالنذر، رقم الحدیث:6692)
حضرت ابن عمر رضی الله عنہمانے فرمایا کہ کیا لوگوں کو نذر سے منع نہیں کیا گیا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نذر کسی چیز کو نہ تو مقدم کر سکتی ہے اور نہ مؤخر کر سکتی ہے، صرف نذر کے ذریعے بخیل سے مال نکال لیا جاتا ہے۔
اس حدیث میں خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنے کے سلسلے میں سخی وبخیل کے درمیان ایک بڑا لطیف فرق بتایا گیا ہے کہ سخی کی شان تو یہ ہوتی ہے کہ وہ جب الله تعالیٰ کا تقرب اور خوش نودی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس میں عجلت کرتا ہے اور فوراً ہی اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کر دیتا ہے، لیکن اس کے برخلاف بخیل کو اس کی توفیق نہیں ہوتی، اس کا دل یہ گوارہ نہیں کرتا کہ اپنے ہاتھ سے اپنا مال کسی کو دے، ہاں! اس کی کوئی غرض ہوتی ہے تو وہ اپنا مال خرچ کرتا ہے، چناں چہ یا تو وہ اپنی حاجت پوری ہونے کے بعد الله کے نام پر اپنا کچھ مال نکال دیتا ہے، یا خدا کی راہ میں اپنا کچھ مال نکالنے کو حصول نفع یا دفع مضرت پر معلق کر دیتا ہے، یعنی یہ نذر مانتا ہے کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا، یا اس مصیبت سے چھٹکارا مل گیا، تو میں اپنا اتنا مال خدا کی راہ میں خرچ کروں گا۔
اور ظاہر ہے کہ اس بات سے تقدیر کا فیصلہ نہیں بدل جاتا، لہٰذا اس صورت میں بھی اس کو مال خرچ کرنے کی نوبت نہیں آئی، ہاں! کبھی اس کی نذر تقدیر کے فیصلے کے موافق ہو جاتی ہے تو گویا وہ نذر اس بخیل کو اپنا وہ مال خرچ کرنے پر مجبور کر دیتی ہے، جس کو وہ خرچ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔
اور اگر اس اعتقاد وخیال کے ساتھ نذر مانی جائے کہ الله تعالیٰ نے جس کام کو مقدر نہیں کیا ہے، وہ نذر سے ہو جائے گا، اس اعتقاد کے ساتھ نذر ماننے سے حدیث شریف میں منع کیا گیا ہے، آسانی پہنچانے والی الله تعالیٰ کی ذات ہے، اس اعتقاد کے ساتھ اگر نذر مان لی، تو اس طرح نذر ماننا جائز ہے۔
(ردالمحتار، کتاب الصلوٰة، باب الوتر والنوافل،504/1۔ فتح الباری، کتاب الأیمان والنذور، باب الوفاء بالنذر،705/11۔ مرقاة المفاتیح، کتاب العتق، باب فی النذور،544/6)
نذر کب منعقد ہوگی؟
نذر منعقد ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انسان الله تعالیٰ کے لیے کوئی چیز (عبادت) اپنے اوپر لازم کرے ۔
(بدائع الصنائع، کتاب النذر، قبیل فصل فی شرائط الرکن،333/6)
اسی طرح نذر منعقد ہونے کے لیے کسی عبادت کو زبان سے اپنے اوپر لازم کرنا ضروری ہے، اگر کسی نے صرف دل میں سوچا کہ فلاں کام ہونے پر اتنا صدقہ کروں گا، تو یہ نذر لازم نہ ہو گی۔ (احکام القرآن، لابن العربی، سورہ آل عمران، 18/2-35)
لزوم نذر کی شرائط
حضرات فقہاء نے لزوم نذر کی تین شرائط بیان کی ہیں، یعنی نذر انسان کے ذمے اس وقت لازم ہو گی، جب تینوں شرائط موجود ہوں:”کون المنذور لیس بمعصیة، وکونہ من جنس واجب، وکون الواجب مقصوداً لنفسہ․“(البحرالرائق، کتاب الصوم ، فصل فی النذر،514/2) رد المحتار، کتاب الأیمان، مطلب فی احکام النذر،72/3)
پہلی شرط
نذر لازم ہونے کی پہلی شرط یہ ہے کہ انسان جس چیز کی نذر مان رہا ہے، وہ گناہ نہ ہو، اگر کسی نے گناہ کی نذر مان لی، تو نذر لازم نہ ہو گی، یعنی جو نذر مان رہا ہے، اس کے اوپر وہ گناہ کرنا لازم نہ ہو گا، بلکہ اس گناہ کو نہ کرنا ضروری ہو گا، مثلاً کسی نے نذر مانی کہ اگر میرا فلاں کا م ہو گیا، تو میں زید کو قتل کروں گا، تو یہ نذر لازم نہ ہو گی۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”من نذر أن یطیع الله فلیطعہ، ومن نذرأن یعصیہ فلا یعصہ․“ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الأیمان والنذور، باب النذر فی الطاعة، رقم الحدیث:6696)
یعنی جو شخص ایسی نذر مانے، جس سے الله تعالیٰ کی اطاعت ہوتی ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ اس کی اطاعت کرے، یعنی اس نذر کو پورا کرے اور جو شخص ایسی نذر مانے، جس سے الله تعالیٰ کی معصیت ونافرمانی ہوتی ہو، وہ اس کی معصیت نہ کرے، یعنی ایسی نذر کو پورا نہ کرے۔
اگر کسی نے گناہ کی نذر مانی، مثلاً اگر میرا فلاں کام ہو گیا، تو میں فلاں کوقتل کروں گا تواب اگر اس کاکام ہو گیا، تو اس کے لیے اس نذر کو پورا کرنا لازم نہیں، بلکہ اس نذر کو پورا نہ کرے، البتہ قسم کا کفارہ دے۔
(البحر الرائق، کتاب الصوم، فصل فی النذر514/2)
دوسری شرط
دوسری شرط یہ ہے کہ آدمی ایسی کوئی عبادت نذر میں اپنے اوپر لازم کرے کہ جس کے قبیل سے کوئی واجب ہو، جیسے نماز پڑھنے کی نذر ماننا ، کہ اگر میرا فلاں کام ہو گیا، تو اتنی رکعات نماز پڑھوں گا تو یہ نذر لازم ہو گی، نماز کے قبیل سے فرض نماز ہے ،اسی طرح روزہ، صدقہ کی نذر وغیرہ، اگر ایسا نہیں تو وہ نذر منعقد نہ ہوگی۔
مثلاً عیادت مریض کی نذر مانی کہ اگر میرا فلاں کام ہو گیا، تو میں فلاں کی عیادت کروں گا، تو یہ نذر منعقد نہ ہوگی، کیوں کہعبادت کے قبیل سے کوئی واجب نہیں۔ (البحرالرائق، کتاب الصوم، فصل فی النذر514/2)
جس چیز کو صدقہ کرنے کی نذر مانی ہے اس کا مالک ہونا ضروری ہے
آدمی جس چیز کو صدقہ کرنے کی نذر مان رہا ہے، اس چیز کا مالک ہوناضروری ہے۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:”لیس علی العبد نذر فیما لا یملک․‘‘
(سنن الترمذی، أبواب النذور والأیمان، باب ماجاء لا نذر فیما لایملک ابن آدم، رقم الحدیث،1527) جو چیز آدمی کی ملکیت میں نہیں، اس کی منت نہیں۔
٭... چناں چہ اگر کسی نے نذر مانی کہ اگر میرا کام ہو گیا، تو میں فلاں کی بکری صدقہ کروں گا، تو یہ نذر منعقد نہ ہو گی۔
(حاشیہ ابن عابدین، کتاب الأیمان، مطلب فی أحکام النذر،74/4)
٭...اسی طرح اگر آدمی نے اپنی ملکیت سے زائد چیز کی نذر مان لی، مثلاً یہ نذر مانی کہ اگر میرا کام ہو گیا، تو ایک ہزار روپے صدقہ کروں گا، حالاں کہ اس کے پاس پانچ سو روپے ہیں تو نذر پانچ سو روپے میں منعقد ہو گی۔
( شامی،74/3)
٭... البتہ اگر نذر ملکیت کی شرط کے ساتھ مانی، یعنی اگر الله تعالیٰ وہ چیز مجھے دے دی، تو میں اسے الله تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کر دوں گا، تو اب یہ نذر منعقد ہو جائے گی اور جب وہ اس چیز کا مالک ہو گا، تو اس چیز کو صدقہ کرنا ضروری ہو گا۔
(بدائع الصنائع، کتاب النذر، فصل فی شرائط رکن النذر،350/6)
عبدالمطلب کی نذر
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب الله تعالیٰ کے حکم سے اپنی اہلیہ حضرت ہاجر اور اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اس غیر آباد وادی میں چھوڑا، جس کو بعد میں الله تعالیٰ نے زمزم کے پانی سے سر سبز وشاداب بنا دیا۔
قبیلہ جرھم جس کا اصلی وطن یمن تھا، مشیت ایزدی سے یمن میں قحط پڑا، اس وجہ سے بنو جرہم معاش کی تلاش میں نکلے، اتفاق سے اثناءِ راہ میں حضرت اسماعیل علیہ السلام او ران کی والدہ ماجدہ حضرت ہاجرہ سے چاہ زمزم کے قریب ملاقات ہو گئی، بنو جرھم کو یہ جگہ پسند آئی او راسی جگہ قیام پذیر ہو گئے او رپھر بعد میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شادی اسی قبیلہ سے ہوئی اور نبی ہونے کے بعد حضرت اسماعیل علیہ السلام عمالقہ، جرھم او راہل یمن کی طرف مبعوث ہوئے۔
مرورزمانہ کے بعد بنو اسماعیل اور بنو جرھم میں منازعت اور مخاصمت کی نوبت آئی، بالآخر بنو جرھم غالب آگئے او رمکہ میں جرھم کی حکومت قائم ہو گئی، چند روز کے بعد جرھم کے حکام لوگوں پر ظلم وستم ڈھانے لگے، یہاں تک ظلم کیا کہ اولاد اسماعیل مکہ کے اطراف وجوانب میں آباد ہوگئی، جرھم کا جب ظلم وستم اور فسق وفجور اور بیت الله کی بے حرمتی حد سے گزر گئی، تو ہر طرف سے قبائل عرب مقابلے کے لیے کھڑے ہو گئے، مجبوراً قبیلہ جرھم کو مکہ سے نکلنا پڑا، لیکن جس وقت مکہ سے نکلنے لگے تو خانہ کعبہ کی چیزوں کوبئر زمزم میں دفن کر گئے اور بیئر زمزم کو اس طرح بند کر گئے کہ زمین ہموار ہو گئی اور زمزم کا نشان بھی نہ رہا، جرھم کے چلے جانے کے بعد بنو اسماعیل مکہ میں واپس آگئے اور آباد ہو گئے، مگربئر زمزم کی طرف کسی نے کوئی توجہ نہ کی، مرورزمانہ سے اس کا نام ونشان بھی نہ رہا یہاں تک کہ جب مکہ کی حکومت اور سرداری عبدالمطلب کے قبضہ میں آئی اور ارادہ خداوندی اس جانب متوجہ ہوا کہ چاہ زمزم جو عرصہ سے بند اور بے نام ونشان پڑا ہے، اس کو ظاہر کیا جائے تو رویائے صالحہ یعنی سچے خواب کے ذریعہ سے عبدالمطلب کو اس جگہ کو کھودنے کا حکم دیا گیا اور اس جگہ کے نشانات اور علامات خواب میں بتلائے گئے۔
چناں چہ عبدالمطلب کہتے ہیں کہ میں حطیم میں سور ہا تھا کہ ایک آنے والا میرے پاس آیا او رمجھ سے خواب میں کہا” احفربرہ“ برہ کو کھودو، میں نے دریافت کیا، ” وما برہ“؟ برہ کیا ہے؟ تو وہ شخص چلا گیا، اگلے روز پھر اسی جگہ سو رہا تھا کہ خواب میں دیکھا کہ وہ شخص یہ کہہ رہا ہے ”احفر المضنونة“ مضنونہ کو کھودو، میں نے دریافت کیا، وما المضنونہ؟ مضنونہ کیا ہے؟ تو وہ شخص چلا گیا، تیسرے روز پھر اسی جگہ خواب میں دیکھا کہ وہ شخص کہہ رہا ہے، احفر طیبہ طیبہ کو کھود و، میں نے پوچھا طیبہ کیا ہے؟ تو وہ شخص چلا گیا، چوتھے روز پھر اسی جگہ یہ خواب دیکھا کہ وہ شخص یہ کہتا ہے ”احفر زمزم“ زمزم کو کھودو، میں نے پوچھا، وما زمزم یہ زمزم کیا ہے؟
اس نے جواب دیا:” لا تنزف أبدا ولا تذمہ تسقی الحجیج الاعظم“ وہ پانی کا ایک کنواں ہے کہجس کا پانی نہ کبھی ٹوٹتا ہے اور نہ کبھی کم ہوتا ہے، بے شمار حجاج کو سیراب کرتا ہے اور پھر اس جگہ کے کچھ نشانات اور علامات بتلائیں کہ اس جگہ کو کھودو، اس طرح با ربار دیکھنے اور نشانات کے بتلانے سے عبدالمطلب نے مخالفت کی کوئی پروا نہیں کی او رکدال لے کر اپنے بیٹے حارث کے ساتھ اس جگہ پہنچ گئے اور نشان کے مطابق کھودنا شروع کیا، عبدالمطلب کھودتے جاتے تھے اورحارث مٹی اٹھا اٹھا کر پھینکتے جاتے تھے، تین روز کے بعد ایک من ظاہر ہوئی، عبدالمطلب نے فرط مسرت سے نعر ہ لگایا او رکہا ھذا طوی اسماعیل“ یہی اسما عیل علیہ السلام کا کنواں ہے۔
بئر زمزم کے کھودتے وقت عبدالمطلب کا سوائے اکلوتے بیٹے حارثکے اور کوئی یارومدد گار نہ تھا، اس لیے منت مانی کہ اگر حق تعالیٰ مجھ کو دس بیٹے عطافرمائے جو جوان ہو کر میرے دست وبازو بنیں ، تو ایک فرزند کو الله کے نام پر ذبح کروں گا۔
جب الله تعالیٰ نے ان کی یہ تمنا اور آرزو پوری کی اور دس بیٹے پورے ہو گئے او ران کے نام یہ تھے: 1-حارث 2-زبیر3- حجل4- ضرار5- مقوم 6- ابو لہب7- عباس رضی الله عنہ8- حمزہ رضی الله عنہ 9-ابوطالب10- عبدالله (آپ صلی الله علیہ وسلم کے والد)
تو ایک رات خانہ کعبہ کے سامنے سو رہے تھے، خواب میں دیکھا کہ ایک شخص یہ کہہ رہا ہے، یا عبدالمطلب أوف بنذرک لربّ ھذاالبیتاے عبدالمطلب اس نذر کو پورا کیجیے، جو آپ نے اس گھر کے مالک کے لیے مانی تھی۔ عبدالمطلب خواب سے بیدار ہوئے اور سب بیٹوں کو جمع کیا اور اپنی نذر او رخواب کی خبر دی، سب نے یک زبان ہو کر یہ کہا:”أوف بنذرک وافعل ماشئتٌ“ آپ اپنی نذر پوری کریں اور جو چاہیں کریں۔ عبدالمطلب نے سب بیٹوں کے نام پر قرعہ ڈالا، حسن اتفاق سے قرعہ حضرت عبدالله کے نام پر نکلا، جن کو عبدالمطلب سب سے زیادہ محبوب رکھتے تھے، عبدالله کا ہاتھ پکڑ کر قربان گاہ کی طرف چلے او رچھری ساتھ تھی، حضرت عبدالله کی بہنیں یہ دیکھ کر رونے لگیں او ران میں سے ایک بہن نے یہ کہا کہ اے باپ! آپ دس اونٹوں اور عبدالله میں قرعہ ڈال کر دیکھیے، اگر قرعہ اونٹوں کے نام پر نکل آئے، تو دس اونٹوں کی قربانی کر دیجیے اور ہمارے بھائی کو چھوڑ دیجیے اور اس وقت دس اونٹ ایک آدمی کی دیت اور خون بہا ہوتے تھے ،قرعہ جو ڈالا گیا تو اتفاق سے حضرت عبدالله ہی کے نام پر نکلا، عبدالمطلب دس دس اونٹ زیادہ کرکے قرعہ ڈالتے تھے، مگر قرعہ عبدالله ہی کے نام پر نکلتا تھا، یہاں تک کہ سو اونٹ پورے کرکے قرعہ ڈالا گیا، تو قرعہ اونٹوں کے نام پر نکلا، اس وقت عبدالمطلب اور تمام حاضرین نے الله اکبر کہا، بہنیں اپنے بھائی عبدالله کو اٹھا لائیں اور عبدالمطلب نے وہ سو اونٹ صفا اور مروہ کے درمیان نحر کیے۔ (البدایہ والنہایہ، ذکر تجدید حفر زمزم، ذکر نذر عبدالمطلب،269-266/2۔ السیرة النبویہ لابن ہشام، ذکر نذر عبدالمطلب151/1) (جاری)
ایک صحابی کا عجیب واقعہ
حضرت ابو لبابہ رضی الله تعالیٰ کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک بڑا عجیب سبق آموز اور عدیم المثال واقعہ ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے بنو قریظہ کا محاصرہ کیا، بنو قریظہ مدینہ منورہ میں یہود کا قبلہ تھا۔ اور یہود بنی قریظہ کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ تھا کہ ایک دوسرے کے خلاف کسی کے ساتھ جنگ میں شریک نہ ہوں گے۔
غزوہ خندق کے موقع پر جب قریش دس ہزار کا لشکر لے کر مسلمانوں کے خلاف مدینہ منورہ پر چڑھائی کے ارادے سے آئے، تو اس وقت بنو قریظہ نے اپنا عہدتوڑا اور مسلمانوں کے خلاف قریش کے ساتھ جا ملے۔
23/ذی قعدہ،5 ہجری کو جب احزاب کفار ذلیل ورسوا ہو کر واپس چلے گئے اور حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم مسلمانوں کو لے کر مدینہ منورہ آگئے، تمام مسلمانوں نے ہتھیار کھول دیے، تو اسی دن ظہر کے قریب حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے اور آپ صلی الله علیہ وسلم سے فرمایا کہ آپ نے ہتھیار اتار دیے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، حضرت جبر ئیل علیہ السلام نے فرمایا کہ فرشتوں نے ابھی تک ہتھیار نہیں کھولے، اور نہ وہ واپس ہوئے ہیں ابھی فوراً بنو قریظہ کی طرف روانہ ہونا ہے۔
چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم بنو قریظہ کی طرف روانہ ہو گئے اور وہاں پہنچ کر بنو قریظہ کا محاصرہ کر لیا اور پچیس دن تک محاصرہ جاری رہا اور بالآخر مجبور ہو کر بنو قریظہ اس بات پر آمادہ ہو گئے کہ ان کے بارے میں حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم جو فیصلہ فرمائیں وہ انہیں منظور ہے۔
چناں چہ ان کے بارے میں فیصلہ کیا گیاکہ بنو قریظہ کے تمام مرد قتل کیے جائیں اور ان کی عورتوں اور بچوں کو لونڈی ، غلام بنایا جائے اور ان کا تمام مال مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے۔
بنو قریظہ کے محاصرے کے دوران بنو قریظہ نے یہ پیغام بھیجا کہ آپ اپنے صحابی ابو لبابہ کو ہمارے پاس بھیج دیجیے، تاکہ ہم اپنے بارے میں ان سے مشورہ کریں،آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے اس پیغام کو منظور فرمایا، اورحضرت ابو لبابہ رضی الله عنہ کو ان کے پاس بھیج دیا، جب بنو قریظہ نے حضرت ابو لبابہ رضی الله عنہ کو دیکھا، تو ان کے مرد اور عورتیں اور بچے، بوڑھے، سب ہی ان کے آگے رونے، گڑگڑانے لگے، ان کی اس کیفیت کو دیکھ کر حضرت ابو لبابہ رضی الله عنہ کادل پسیج گیا، پھر انہوں نے حضرت ابو لبابہ رضی الله عنہ سے پوچھا کہ اگر ہم محمد صلی الله علیہ وسلم کے حکم کو مان لیں او راپنے آپ کو ان کے حوالے کر دیں ، تو وہ ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ اس کے جواب میں حضرت ابو لبابہ رضی الله عنہ نے اپنے حلق پر ہاتھ پھیر کر ظاہر کیا کہ تمہیں ذبح کر ڈالیں گے۔
حضرت ابو لبابہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات کہی اور ابھی تک وہاں سے قدم نہیں اٹھایا تھا کہ میں متنبہ ہوا اور اس بات پر سخت نادم ہوا کہ تونے خدا اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں خیانت کی۔
اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی﴿یا ایھا الذین آمنوا لا تخونوا الله والرسول وتخونوا اٰمنتکم﴾․
اے ایمان والو! نہ تو خدا اور رسول کی امانت ( یعنی ان کے پیغام واحکام) میں خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو۔
پھر کیا تھا؟ ایسا لگا جیسے احساس ندامت وشرمندگی نے حضرت ابو لبابہ رضی الله عنہ کے قلب وشعور پر بجلی گرادی ہو، وہ بے تاب ہو گئے اور دیوانہ وار مسجد نبوی پہنچے اور اپنے آپ کو مسجد کے ستون سے باندھ دیا اور یہ اعلان کیا کہ جب تک کہ میں توبہ نہ کر لوں اور پھر جب تک الله تعالیٰ میری توبہ قبول نہ کرلے مجھ پر کھانا پینا حرام ہے۔
جب نماز کاوقت آتا تو ان کے بیٹے آتے او ران کو کھول دیتے، پھر جب وہ نماز پڑھ لیتے ، تو ان کے ہاتھ باندھ دیتے، لوگ ان کے پاس آتے اور کھولنے کے لیے کہتے تو انکار کر دیتے اور فرماتے کہ جب تک رسول کریم صلی الله علیہ وسلم خود آکر نہ کھولیں گے، میں یہاں سے نہ ہٹوں گا، چناں چہ مسلسل سات دن تک اسی طرح اس ستون سے بندھے کھڑے رہے، یہاں تک کہ غش کھا کر گر پڑے ۔ آخر کا ر الله تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی، اس کے بعد لوگوں نے کہا کہ الله تعالیٰ نے تمہاری توبہ قبول کر لی ہے، اب تو اپنے آپ کو کھول ڈالو، انہوں نے کہا خدا کی قسم! جب تک رسول الله صلی الله علیہ وسلم اپنے دست مبارک سے مجھے نہیں کھولیں گے، میں خود اپنے آپ کو ہر گز نہیں کھولوں گا۔
چناں چہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے او راپنے دست مبارک سے انہیں کھولا۔
حضرت ابو لبابہ رضی الله عنہ کا گھر چوں کہ بنو قریظہ کے قبیلے میں واقع تھا او راس ساتھ رہنے کی وجہ سے حضرت ابولبابہ رضی الله عنہ کے دل میں بنو قریظہ کے لیے ہم دردی کا جذبہ پیدا ہوا، جو اس گناہ کا سبب بنا، اس لیے حضرت ابولبابہ رضی الله عنہ نے عرض کیا کہ اے الله کے رسول ! میں اپنا گھر الله کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں، اسی طرح اپنا سب مال واسباب بھی صدقہ کرتا ہوں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے تہائی مال کو قبول فرمایا۔ ( السیرة النبویہ لابن ہشام، غزوہ بنی قریظہ237/3،والبدایہ والنہایہ، سنة خمس من الھجرة النبویہ، فصل فی غزوة بنی قریظہ125/4،والکامل فی التاریخ، السنة الخامسہ من الھجرة، ذکر غزوة بنی قریظہ75/2)
نذر کے متفرق مسائل
٭... اگر کسی نے صدقہ کرنے کی نذر مانی، مثلاً یہ کہا کہ اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو میں ایک ہزار روپے صدقہ کروں گا۔ تو اب کام ہو جانے کی صورت میں ایک ہزار فقراء پر صدقہ کرنا ضروری ہے، مال دار پر خرچ کرنے سے نذرادانہ ہو گی۔(رد المحتار، کتاب الصوم، مطلب فی النذر الذی یقع للأموات440/2)
٭...اگر کسی نے بکری ذبح کرکے صدقہ کرنے کی نذر مانی، تو ایسی بکری ذبح کرنا ضروری ہے، جس کی قربانی جائز ہو۔ (بدائع الصنائع، کتاب النذر، فصل، وأما شرائط الرکن،85/5)
٭... اگر کسی نے نذر کو کام سے معلق کیا، یعنی اگر میرافلاں کام ہو گیا، تو میں تین روزے رکھوں گا اور اس نے کام ہونے سے پہلے تین روزے رکھ لیے، تو اب کام ہونے کے بعد دوبارہ تین روزے رکھنا ضروری ہو گا۔ (ردالمحتار، کتاب الأیمان، مطلب فی أحکام النذر،735/3)
٭... اگر کسی نے ایک مہینہ روزے رکھنے کی نذر مانی، تو تسلسل ضروری نہیں، البتہ اگر متعین مہینے مثلاً رجب کے مہینے کے روزوں کی نذر مانی ، تو اس صورت میں اس پورے مہینے کے روزے رکھنا لازم ہوں گے، البتہ اگر اس صورت میں بھی ایک دو روزے نہ رکھ سکا، تو صرف ان روزوں کی قضا لازم ہے جو نہیں رکھے۔ (ردالمحتار، کتاب الأیمان، مطلب فی أحکام النذر،741/3)
٭... کسی نے نذر مانی کہ اگر میرا کام ہو گیا، تو مسجد میں اتنے روپے دوں گا، یا فلاں جگہ کے مسکینوں پر صدقہ کروں گا، تو اب کام ہو جانے کی صورت میں کسی بھی مسجد میں اتنے روپے دینے سے نذر ادا ہو جائے گی، اسی طرح جس جگہ کے مسکینوں پر صدقہ کرنے کی نذر مانی تھی، اس جگہ کے علاوہ کسی اور مسکین پر صدقہ کیا، تب بھی نذر ادا ہو جائے گی۔(رد المحتار، کتاب الأیمان، مطلب فی أحکام النذر،740/3)
غیر الله کے نام کی نذر
مسلمان اپنے عمل میں آزاد نہیں، بلکہ شریعت کا پابند ہے او راس کے ہر عمل کے لیے شریعت کی طرف سے راہ نمائی موجود ہے، اپنے ذہن سے کسی عبادت میں کمی بیشی یا تبدیلی کرنا ہر گز جائز نہیں او راپنے ذہن سے کسی عمل کے بارے میں شریعت کی طرف سے مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرنا سرسرا گم راہی ہو گی۔
چناں چہ نذر کے مسئلے میں شریعت کی طرف سے واضح تعلیمات موجود ہیں ، زمانہ جاہلیت میں مشرک بتوں کے نام کی نذر ونیاز مانتے تھے اور اب بعض جاہل مسلمان الله تعالیٰ کے علاوہ انبیا اولیا کے نام پر نذر ونیاز مانتے ہیں ، حالاں کہ الله تعالیٰ کی ان بزگزیدہ شخصیات نے اپنی پوری زندگیاں لوگوں کو جاہلی رسم ورواج اور شرک کی ظلمتوں سے نکالنے اور اسلام جیسے پاکیزہ مذہب اور الله تعالیٰ کی وحدانیت کی طرف مائل کرنے میں صرف کر دیں۔
لہٰذا نذر ونیاز صرف الله تعالیٰ کے نام پر ہو گی، الله تعالیٰ کے علاوہ کسی اور مخلوق، چاہے کسی نبی کے نام کی ہو، یا کسی ولی کے نام کی، جائز نہیں۔ اس کی پھر مختلف صورتیں ہیں:
پہلی صورت
پہلی صورت یہ ہے کہ کسی نے نذر مانی کہ اگر میرا فلاں کام ہو گیا، تو میں فلاں بزرگ کے نام کا بکرا ذبح کروں گا او رجب کام ہو گیا، تو اس بزرگ کے نام پر بکرا ذبح کیا اور ذبح کرتے وقت بھی جانور پر الله تعالیٰ کا نام نہیں لیا، بلکہ جس بزرگ کے نام کی نذر مانی تھی، اس کا نام جانور ذبح کرتے وقت لیا۔
حکم:یہ صورت باتفاق واجماع امت حرام ہے اور یہ جانور میتہ (مردار) ہے۔
(التفسیر الکبیر، سورة البقرة، 173،و تفسیر روح المعانی، سورة البقرة،440/1,173،والجامع لأحکام القرآن للقرطبی، سورة البقرة:221/1,173،وأحکام القرآن للجصاص، تحریم ما أھل بہ لغیر الله153/1،والکشف والبیان فی تفسیر القرآن، سورة البقرة:239/1,173،وتفسیر ابن کثیر، سورة البقرة،421/1,173)
دوسری صورت
دوسری صورت یہ ہے کہ کسی بزرگ کے نام کی نذر مانی کہ اگر میرا فلاں کام ہو گیا، تو میں فلاں بزرگ کے نام پر بکری ذبح کروں گا اور اس بزرگ کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے اس کے نام پر بکری ذبح کی، اگرچہ جس وقت بکری ذبح کررہا تھا، اس وقت اس پر الله تعالیٰ کا نام لیا، لیکن اس ذبح سے مقصد غیر الله کی خوش نودی مقصود تھی۔
حکم…یہ صورت بھی باتفاق فقہاء حرام ہے اور مذبوحہ جانور حرام ہے چناں چہ”التفسیر الکبیر للإمام رازی“ میں ہے:”قال العلماء: لو أن مسلما ذبح ذبیحة وقصد بذبحھا التقرب إلی غیر الله صار مرتدا، وذبیحتہ ذبیحة مرتد․“
(الجامع الصحیح للبخاری، کتاب التفسیر، باب ماجعل الله من بحیرة… رقم: 4623، والجامع لأحکام القرآن للقرطبی، سورة المائدہ:209/6 ,103،وتفسیر روح المعانی، سورة المائدہ:41/4,103)
لہٰذا اگر کسی نے بزرگ کے نام پر کوئی جانور مزار وغیرہ پر چھوڑ دیا تو اس طرح جانور کو غیر الله کے نام پر چھوڑنا یہ عمل بنص قرآن حرام ہے، لیکن ان کے اس حرام عمل سے او راس جانو رکو حرام سمجھنے کے عقیدے سے یہ جانور حرام نہیں ہوتا، اس لیے وہ عام جانوروں کی طرح حلال ہے، البتہ وہ جانور مالک کی ملکیت ہے، اگر مالک نے اس کو بیچ دیا، تو خریدنے والے کے لیے حلال ہے۔
لیکن اگر کسی نے جانور کی بزرگ کے نام پر نذر مانی کہ فلاں بزرگ کے نام پر ذبح کروں گا اور پھر وہ جانور اس مالک نے شرعی طریقے پر ذبح کر لیا تو اس صورت میں ناذر کا مقصد ذبح ہوتا ہے، اس لیے وہ جانور ”وماأھل بہ لغیر الله“ میں داخل ہونے کی وجہ سے حرام ہے اور جانور کو مزار پر زندہ چھوڑنے میں ناذر کا مقصد ذبح نہیں ہوتا۔
”اعلم أن النذر الذی یقع للأموات من أکثر العوام ومایؤخذ من الدراھم والشمع والزیت ونحوھا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیھم فھو بالاجماع باطل وحرام، ( قولہ: باطل وحرام) لوجوہ: منھا أنہ نذر لمخلوق، ولا یجوز، لأن عبادة، والعبادة لا تکون لمخلوق، ومنھا: أن المنذور لہ میت، والمیت لا یملک․
ومنھا: أنہ إن ظن أن المیت یتصرف فی الأمور دون الله تعالیٰ کفر․“
(حاشیہ الطحطاوی علی الدر المختار، کتاب الصوم، باب مایفسد الصوم ومالا یفسد471/1وحاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، کتاب الصوم، باب ما یلزم الوفاء بہ، ص:293)
یعنی اکثر عوام کی طرف سے مردوں کی خاطر جو نذر چڑھائی جاتی ہے اور بزرگوں کے مزارات پر جو موم بتی ، خوش بو ، روپیہ وغیرہ چڑھایا جاتا ہے، جس سے ان کا مقصد ان بزرگوں کو خوش کرنا اور ان کا تقرب حاصل کرنا ہوتا ہے اور یہ سب باتفاق ائمہ حرام ہے اور باطل ہے۔ اور اس کے حرام ہونے کی کئی وجوہ ہیں:
ایک یہ کہ یہ مخلوق کے لیے نذر ماننا ہے، حالاں کہ نذر عبادت ہے، جو خالق کے ساتھ مخصوص ہے، دوسرے یہ کہ جس کے لیے نذر مانی ہے وہ مردہ ہے، بھلا وہ کسی چیز کا کیسے مالک ہو سکتا ہے؟ او رتیسرے یہ کہ اس میت کے ساتھ یہ اعتقاد بھی کیا جاتا ہے کہ وہ عالم میں تصرف کرتا ہے اور یہ عقیدہ رکھنا تو کفر ہے۔
No comments:
Post a Comment