هُوَ سَمّىٰكُمُ المُسلِمينَ {22:78}
...اُسی (الله) نے (مشرکین و مجرمین کے مقابلہ میں) نام رکھا تم سب کا مسلمان ... [الحج:78]
...اُسی (الله) نے (مشرکین و مجرمین کے مقابلہ میں) نام رکھا تم سب کا مسلمان ... [الحج:78]
حارث اشعری رحمۃ اللہ علیہ اسے روایت کیا کہ
رسول اللہ ﷺ
نے فرمایا کہ جو شخص جاہلیت کے زمانے کی طرح آوازیں نکالے (نوحہ کرے یا چیخے چلائے)
تو وہ دوزخ میں سے ہے ۔ ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ! اگرچہ روزہ رکھے اور نماز
پڑھے۔ فرمایا ہاں! اللہ کے بندوں کو اس طرح پکارو جس طرح اللہ تعالیٰ نے تمہارا
نام مسلمین اور مومنین رکھا ہے ۔
المحدث: ابن كثير - المصدر: تفسير القرآن - الصفحة أو الرقم: 1/87
خلاصة حكم المحدث: حسن
خلاصة حكم المحدث: حسن
تخريج الحديث
کیا ہم صرف (نام کے) مسلمان ہی ہیں؟؟؟
حقیقی مسلمین کے صفاتی نام
إِنَّ المُسلِمينَ
وَالمُسلِمٰتِ وَالمُؤمِنينَ وَالمُؤمِنٰتِ وَالقٰنِتينَ وَالقٰنِتٰتِ
وَالصّٰدِقينَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرينَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالخٰشِعينَ
وَالخٰشِعٰتِ وَالمُتَصَدِّقينَ وَالمُتَصَدِّقٰتِ وَالصّٰئِمينَ وَالصّٰئِمٰتِ
وَالحٰفِظينَ فُروجَهُم وَالحٰفِظٰتِ وَالذّٰكِرينَ اللَّهَ كَثيرًا
وَالذّٰكِرٰتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَغفِرَةً وَأَجرًا عَظيمًا {33:35}
|
تحقیق
مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور ایمان دار مرد اور ایمان دار عورتیں اور بندگی
کرنے والے مرد اور بندگی کرنے والی عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور محنت
جھیلنے والے مرد اور محنت جھیلنے والی عورتیں [۵۱] اور دبے رہنے والے مرد اور
دبی رہنے والی عورتیں [۵۲] اور خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں
اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں اور حفاظت کرنے والے مرد اپنی شہوت کی جگہ
کو اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور یاد کرنے والے مرد اللہ کو بہت سا اور یاد
کرنے والی عورتیں رکھی ہے اللہ نے ان کے واسطے معافی اور ثواب بڑا [۵۳]
|
بعض
ازواج مطہرات نے کہا تھا کہ قرآن میں اکثر جگہ مردوں کا ذکر ہے عورتوں کا کہیں
نہیں اور بعض نیک بخت عورتوں کو خیال ہوا کہ آیات سابقہ میں ازواج نبی کا ذکر تو
آیا عام عورتوں کا کچھ حال بیان نہ ہوا اس پر یہ آیت اتری۔ تا تسلی ہو جائے کہ
عورت ہو یا مرد کسی کی محنت یا کمائی اللہ کے یہاں ضائع نہیں جاتی۔ اور جس طرح
مردوں کو روحانی اور اخلاقی ترقی کرنے کے ذرائع حاصل ہیں۔ عورتوں کے لئے بھی یہ
میدان کشادہ ہے۔ یہ طبقہ اناث کی دلجمعی کے لئے تصریح فرما دی ورنہ جو احکام
مردوں کے قرآن میں آئے وہ ہی عمومًا عورتوں پر عائد ہوتے ہیں۔ جداگانہ نام لینے کی
ضرورت نہیں۔ ہاں خصوصی احکام الگ بتلا دیے گئے ہیں۔
|
یعنی
تواضع و خاکساری اختیار کرنے والے یا نماز خشوع و خضوع سے ادا کرنے والے۔
|
یعنی
تکلیفیں اٹھا کر اور سختیاں جھیل کر احکام شریعت پر قائم رہنے والے۔
|
الصّٰبِرينَ وَالصّٰدِقينَ وَالقٰنِتينَ وَالمُنفِقينَ
وَالمُستَغفِرينَ بِالأَسحارِ {3:17}
|
وہ
صبر کرنے والے ہیں اور سچے اور حکم بجا لانے والے اور خرچ کرنے والے اور گناہ
بخشوانے والے پچھلی رات میں
|
التّٰئِبونَ العٰبِدونَ
الحٰمِدونَ السّٰئِحونَ الرّٰكِعونَ السّٰجِدونَ الءامِرونَ بِالمَعروفِ
وَالنّاهونَ عَنِ المُنكَرِ وَالحٰفِظونَ لِحُدودِ اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ
المُؤمِنينَ {9:112}
|
وہ
توبہ کرنے والے ہیں بندگی کرنے والے شکر کرنے والے بے تعلق رہنے والے [۱۲۷] رکوع
کرنے والے سجدہ کرنے والے حکم کرنے والے نیک بات کا اور منع کرنے والے بری بات
سے [۱۲۸] اور حفاظت کرنے والے ان حدود کی جو باندھی اللہ نے اور خوشخبری سنا دے
ایمان والوں کو
|
مُؤمِنينَ (ایمان دار)
قٰنِتينَ (بندگی کرنے والے) - {66:12}
الصّٰدِقينَ (سچے لوگ) - {5:119}{7:70}{7:106}{9:119}{11:32}{12:27}{12:51}{15:7}{24:6}{24:9}{26:31}{26:154}{26:187}{29:29}{33:8}{33:24}{46:22}
المُصَدِّقينَ (تصدیق کرنے والے) - {37:52}
الصّٰبِرينَ (حق پر ڈٹے جمے رہنے والے) - {2:153} {2:155} {2:249}{3:17}{3:142}{3:146}{8:46}{8:66} {21:85}{37:102}
خٰشِعينَ (جھکے ، دبے رہنے والے ) - {2:45}
مُتَصَدِّقينَ (صدقہ وخیرات کرنے والے ) - {12:88}
صّٰئِمينَ (روزہ دار)
حٰفِظينَ (حفاظت کرنے والے)
ذّٰكِرينَ (یاد کرنے والے)
الأَوَّلينَ (پہلے والے) - {56:13} {56:39}
الۡاٰخَرِیۡنَ (دوسرے ، پچھلے ، بعد والے){56:14}{56:40}
الۡاٰمِنِیۡنَ (امن پانے والے) - {28:31}
التّٰبِعينَ (کاربار کرنے والے، خدمات میں مشغول رہنے والے) - {24:31}
التَّوّٰبينَ (خوب توبہ کرنے والے) - {2:222}
المُتَطَهِّرينَ (خوب طہارت اختیار کرنے والے) - {2:222}
الۡحَوَارِیّٖنَ (حواری ، نبی کے ساتھی) - {5:111}
الخٰلِدينَ (ہمیشہ رہنے والے یعنی جنّت میں) {7:20}
الرّٰكِعينَ (رکوع کرنے والے) - {2:43}{3:43}
الزّٰهِدينَ (أدنى و فانی دنیا کی محبت و رغبت نہ رکھنے والے) {12:20}
السّٰجِدينَ (سجدہ کرنے والے) -{15:98} {26:219}
الشّٰفِعينَ (سفارش کرنے والے) {74:48}
الشّٰكِرينَ (شکر و فرمانبرداری کرنے والے) {3:144}
الشّٰهِدينَ (کلمہ حق کی شہادت دینے والے) - {3:53}
الصّٰلِحينَ (نیکی کرنے والے ) - {2:130}{3:39}{3:46}{3:114}{5:84}{6:85}{7:196}{9:75}{16:122}{21:75}{21:86}{27:19}{28:27}{29:9}{29:27}{37:100}{37:112}{63:10}{68:50}
العٰبِدينَ (عبادت کرنے والے) - {43:81}
العٰمِلينَ (عمل کرنے والے) - {3:136}{29:58}{39:74}
الغٰلِبينَ (مجموعی لحاظ سے بلآخر غالب رہنے والے) - {7:113}{26:40}{26:41}{37:116}
المُتَرَبِّصينَ (منتظر رہنے والے) - {52:31}
المُنتَظِرينَ (منتظر رہنے والے) - {7:71}{10:20}{10:102}
المُتَصَدِّقينَ (صدقہ و خیرات کرنے والے) - {12:88}
المُصَّدِّقينَ (صدقہ وخیرات کرنے والے ) - {57:18}
المُتَّقينَ (بچنے والے یعنی الله کی ناراضگی و عذاب سے ڈرتے اس کی نافرمانی سے) - {2:180}{2:194}{2:241}{3:76}{5:27}{9:4}{9:7}{9:36}{9:123}{15:45}{16:30}{16:31}{19:85}{19:97} {38:28}{39:57}{43:67}{44:51} {45:19}{51:15}{52:17}{54:54} {77:41}
المُتَوَكِّلينَ (توکل و بھروسہ کرنے والے) - {3:159}
المُجٰهِدينَ (جدوجہد کرنے والے) - {4:95} {47:31}
المُحسِنينَ (احسان کرنے والے) - {2:58}{2:195}{2:236}{3:134}{3:148}{5:13} {5:85} {5:93}{6:84}{7:56}{7:161}{9:92} {9:120}{11:115} {12:22}{12:36}{12:56} {12:78}{12:90} {22:37} {28:14}{29:69}{37:80}{37:105}{37:110}{37:121}{37:131}{39:34} {39:58}{77:44}
المُخبِتينَ (عاجزی کرنے والے) - {22:34}
المُخلَصينَ (برگزیدہ ، چنے ہوۓ، مخلص) - {12:24}{15:40}{37:40}{37:74}{37:128}{37:160} {37:169}{38:83}
المُسَبِّحينَ (ہر کمزوری و عیب سے رب کی پاکی و تسبیح کرنے والے) - {37:143}
المُصَلّينَ (نمازی) - {70:22}{74:43}
المُطَّوِّعينَ (خوش دلی سے نفلی عبادت خصوصاً خیرات کرنے والے) - {9:79}
المُفلِحينَ (فلاح و کامیابی پانے والے) - {28:67}
المُقَرَّبينَ (قریب ہونے اور رہنے والے) - {3:45} {7:114} {26:42}{56:88}
المُقسِطينَ (انصاف کرنے والے) - {5:42}{49:9}{60:8}
المُكرَمينَ (عزت پانے والے) - {36:27} {51:24}
المُهتَدينَ (ہدایت پانے والے) - {6:56}{9:18}
الموقِنينَ (یقین رکھنے/ پانے والے) {6:75}
النّٰصِحينَ (نصیحت کرنے والے خیرخواہ) - {7:21}{7:79} {28:20}
الوٰرِثينَ (بلآخر زمین کی سرداری اور جنّت کو پانے والے ، قائم مقام ، وارث) - {21:89} {28:5}
الوٰعِظينَ (واعظ و نصیحت کرنے والے) {26:136}
القالينَ (گناہ کے کام سے بیزار رہنے والے) {26:168}
أَصحٰبُ اليَمينِ {56:27}/ أَصحٰبُ المَيمَنَةِ {56:8} {90:18} - (داہنی طرف والے)
أَصحٰبُ الجَنَّةِ (جنت کے رہنے والے ) - {2:82}{7:42}{7:44}{7:46}{7:50}{10:26}{11:23}{25:24}{36:55}{46:14}{46:16}{59:20}{68:17}
الۡاٰثِمِیۡنَ (گنہگار) -{5:106}
الأَذَلّينَ (بےقدر لوگ) - {58:20}
الأَخسَرينَ (بہت بڑا نقصان پانے والے) - {21:70}
قٰنِتينَ (بندگی کرنے والے) - {66:12}
الصّٰدِقينَ (سچے لوگ) - {5:119}{7:70}{7:106}{9:119}{11:32}{12:27}{12:51}{15:7}{24:6}{24:9}{26:31}{26:154}{26:187}{29:29}{33:8}{33:24}{46:22}
المُصَدِّقينَ (تصدیق کرنے والے) - {37:52}
الصّٰبِرينَ (حق پر ڈٹے جمے رہنے والے) - {2:153} {2:155} {2:249}{3:17}{3:142}{3:146}{8:46}{8:66} {21:85}{37:102}
خٰشِعينَ (جھکے ، دبے رہنے والے ) - {2:45}
مُتَصَدِّقينَ (صدقہ وخیرات کرنے والے ) - {12:88}
صّٰئِمينَ (روزہ دار)
حٰفِظينَ (حفاظت کرنے والے)
ذّٰكِرينَ (یاد کرنے والے)
الأَوَّلينَ (پہلے والے) - {56:13} {56:39}
الۡاٰخَرِیۡنَ (دوسرے ، پچھلے ، بعد والے){56:14}{56:40}
الۡاٰمِنِیۡنَ (امن پانے والے) - {28:31}
التّٰبِعينَ (کاربار کرنے والے، خدمات میں مشغول رہنے والے) - {24:31}
التَّوّٰبينَ (خوب توبہ کرنے والے) - {2:222}
المُتَطَهِّرينَ (خوب طہارت اختیار کرنے والے) - {2:222}
الۡحَوَارِیّٖنَ (حواری ، نبی کے ساتھی) - {5:111}
الخٰلِدينَ (ہمیشہ رہنے والے یعنی جنّت میں) {7:20}
الرّٰكِعينَ (رکوع کرنے والے) - {2:43}{3:43}
الزّٰهِدينَ (أدنى و فانی دنیا کی محبت و رغبت نہ رکھنے والے) {12:20}
السّٰجِدينَ (سجدہ کرنے والے) -{15:98} {26:219}
الشّٰفِعينَ (سفارش کرنے والے) {74:48}
الشّٰكِرينَ (شکر و فرمانبرداری کرنے والے) {3:144}
الشّٰهِدينَ (کلمہ حق کی شہادت دینے والے) - {3:53}
الصّٰلِحينَ (نیکی کرنے والے ) - {2:130}{3:39}{3:46}{3:114}{5:84}{6:85}{7:196}{9:75}{16:122}{21:75}{21:86}{27:19}{28:27}{29:9}{29:27}{37:100}{37:112}{63:10}{68:50}
العٰبِدينَ (عبادت کرنے والے) - {43:81}
العٰمِلينَ (عمل کرنے والے) - {3:136}{29:58}{39:74}
الغٰلِبينَ (مجموعی لحاظ سے بلآخر غالب رہنے والے) - {7:113}{26:40}{26:41}{37:116}
المُتَرَبِّصينَ (منتظر رہنے والے) - {52:31}
المُنتَظِرينَ (منتظر رہنے والے) - {7:71}{10:20}{10:102}
المُتَصَدِّقينَ (صدقہ و خیرات کرنے والے) - {12:88}
المُصَّدِّقينَ (صدقہ وخیرات کرنے والے ) - {57:18}
المُتَّقينَ (بچنے والے یعنی الله کی ناراضگی و عذاب سے ڈرتے اس کی نافرمانی سے) - {2:180}{2:194}{2:241}{3:76}{5:27}{9:4}{9:7}{9:36}{9:123}{15:45}{16:30}{16:31}{19:85}{19:97} {38:28}{39:57}{43:67}{44:51} {45:19}{51:15}{52:17}{54:54} {77:41}
المُتَوَكِّلينَ (توکل و بھروسہ کرنے والے) - {3:159}
المُجٰهِدينَ (جدوجہد کرنے والے) - {4:95} {47:31}
المُحسِنينَ (احسان کرنے والے) - {2:58}{2:195}{2:236}{3:134}{3:148}{5:13} {5:85} {5:93}{6:84}{7:56}{7:161}{9:92} {9:120}{11:115} {12:22}{12:36}{12:56} {12:78}{12:90} {22:37} {28:14}{29:69}{37:80}{37:105}{37:110}{37:121}{37:131}{39:34} {39:58}{77:44}
المُخبِتينَ (عاجزی کرنے والے) - {22:34}
المُخلَصينَ (برگزیدہ ، چنے ہوۓ، مخلص) - {12:24}{15:40}{37:40}{37:74}{37:128}{37:160} {37:169}{38:83}
المُسَبِّحينَ (ہر کمزوری و عیب سے رب کی پاکی و تسبیح کرنے والے) - {37:143}
المُصَلّينَ (نمازی) - {70:22}{74:43}
المُطَّوِّعينَ (خوش دلی سے نفلی عبادت خصوصاً خیرات کرنے والے) - {9:79}
المُفلِحينَ (فلاح و کامیابی پانے والے) - {28:67}
المُقَرَّبينَ (قریب ہونے اور رہنے والے) - {3:45} {7:114} {26:42}{56:88}
المُقسِطينَ (انصاف کرنے والے) - {5:42}{49:9}{60:8}
المُكرَمينَ (عزت پانے والے) - {36:27} {51:24}
المُهتَدينَ (ہدایت پانے والے) - {6:56}{9:18}
الموقِنينَ (یقین رکھنے/ پانے والے) {6:75}
النّٰصِحينَ (نصیحت کرنے والے خیرخواہ) - {7:21}{7:79} {28:20}
الوٰرِثينَ (بلآخر زمین کی سرداری اور جنّت کو پانے والے ، قائم مقام ، وارث) - {21:89} {28:5}
الوٰعِظينَ (واعظ و نصیحت کرنے والے) {26:136}
القالينَ (گناہ کے کام سے بیزار رہنے والے) {26:168}
أَصحٰبُ اليَمينِ {56:27}/ أَصحٰبُ المَيمَنَةِ {56:8} {90:18} - (داہنی طرف والے)
أَصحٰبُ الجَنَّةِ (جنت کے رہنے والے ) - {2:82}{7:42}{7:44}{7:46}{7:50}{10:26}{11:23}{25:24}{36:55}{46:14}{46:16}{59:20}{68:17}
مشرکین کے صفاتی نام
الأَذَلّينَ (بےقدر لوگ) - {58:20}
الأَخسَرينَ (بہت بڑا نقصان پانے والے) - {21:70}
الأَسفَلينَ(نیچے والے) - {37:98} {41:29}
الجٰهِلينَ (بےعقل ، بےسمجھ ، نادان) - {2:67}{6:35} {7:199}{11:46}{12:33}{28:55}
الخائِضينَ (حق کے خلاف مےن مشغول رہنے والے) {74:45}
الخٰسِرينَ (نقصان پانے والے) - {2:64}{3:85}{5:5}{5:30}{7:23}{7:92} {7:149}{10:95} {11:47}{39:15}{39:65}{41:23} {42:45}
الخاطِـٔينَ (خطاکار) - {12:29}
الخائِنينَ (خیانت کرنے والے ) - {8:58}{12:52}
الدّٰخِلينَ (داخل ہونے والے یعنی جہننم میں) {66:10}
السّٰخِرينَ (ہنسنے، مسخری مذاق کرنے والے) - {39:56}
الصّٰغِرينَ (بےعزت لوگ) {7:13}{12:32}
الضّالّينَ (گمراہ) {1:7}{2:198}{6:77} {26:20}{26:86} {56:92}
الظّٰلِمينَ (ظالم) {2:35}{2:124}{2:145}{2:193}{2:258}{3:57}{3:86} {3:140}{3:151}{5:29}{5:51}{5:107}{6:33}{6:52}{6:68}{6:129} {6:144}{7:19}{7:41}{7:44}{7:47}{7:150}{9:19}{9:110} {10:39}{10:85} {10:106}{11:18}{11:31}{11:44}{11:83}{12:75} {14:13}{14:22}{14:27}{17:82}{19:72}{21:29}{21:59}{21:87}{22:53}{23:28}{23:41}{23:94}{26:10}{28:21}{28:25}{28:40}{28:50}{40:52}{42:21}{42:22}{42:40}{42:44}{42:45}{43:76}{45:19}{46:10}{59:17}{61:7}{62:5}{66:11}{71:24} {71:28}
الظّانّينَ (بد گمانی و اٹکلیں کرنے والے) {48:6}
الغٰبِرينَ (پیچھے رہنے والے) {7:83}{15:60}{26:171}{27:57}{29:32} {29:33}{37:135}
الغٰفِلينَ (بے خبر) {7:205}{12:3}
الغاوينَ (بہکے ہوۓ ، گمراہ) {7:175}{15:42}
الفٰسِقينَ (بدکار، نافرمان، بے لغام) {2:26}{5:25} {5:26}{5:108}{7:145}{9:24}
الفَرِحينَ (اترانے والے) {28:76}
القٰعِدينَ (بیٹھے رہنے والے یعنی الله کی راہ میں گھر سے نہ نکلنے والے) {9:46} {9:86}
القٰنِطينَ (نا امید لوگ) {15:55}
الكٰذِبينَ (جھوٹے) {3:61}{9:43}{12:26}{24:7}{24:8}{26:186}{29:3}
الكٰفِرينَ (حق بات کے چھپانے اور انکار کرنے والے منکر) {2:34}{2:89}{2:191}{2:250}{2:264}{2:286}{3:28} {3:32}{3:141}{3:147}{4:101}{4:139}{4:144}{5:54}{5:67}{5:68}{7:50}{7:101}{8:7}{8:18}{9:2}{9:26}{9:37}{10:86}{11:42}{13:14}{13:35}{16:27}{16:107}{19:83}{25:26}{25:52}{25:52}{30:45}{33:1}{33:48}{33:64}{35:39}{35:39}{36:70}{38:74}{39:59}{39:71}{40:25}{40:50}{40:74}{47:11}{67:28} {69:50}{71:26}{74:10}{86:17}
اللّٰعِبينَ (کھیل مذاق کرنے والے) {21:55}
المٰكِرينَ (مکر و چالبازی کرنے والے) {3:54}{8:30}
المُبَذِّرينَ (فضول خرچی کرنے والے یعنی جائز کاموں میں) {17:27}
المُتَكَبِّرينَ (غرور و تکبر کرنے والے) {16:29}{39:72} {40:76}
المُتَكَلِّفينَ (بناوٹ کرنے والے) {38:86}
المُجرِمينَ (گنہگار) {6:55}{6:147}{7:40}{7:84}{10:13}{12:110}{14:49}{15:12}{18:49}{19:86}{20:102}{25:31}{26:200}{27:69}{32:22}{43:74}{46:25}{54:47}{74:41}
المُحضَرينَ (پکڑے ہوۓ حاضر کئے جانے والے یعنی قیامت کے دن) {28:61}{37:57}
المُخسِرينَ (نقصان دینے والے یعنی لوگوں کو ماپ تول میں) {26:181}
المُستَكبِرينَ (غرور کرنے والے) {16:23}
المُستَهزِءينَ (استہزاء اور ٹھٹھے کرنے والے) {15:95}
المُسرِفينَ (بیجا خرچ کرنے والے یعنی ناجائز کاموں میں) {6:141}{7:31}{10:83}{21:9}{26:151}{40:43}{44:31}
المُطَّوِّعينَ (طعن کرنے والے یعنی خیرات کرنے والے مسلمانوں پر) {9:79}
المُعتَدينَ (حد سے بڑھنے اور زیادتی کرنے والے) {2:190}{5:87}{7:55}{10:74}
المُعَذَّبينَ (عذاب دیے جانے والے) {26:213}
المُعَوِّقينَ (منع کرنے اور اٹکانے والے یعنی الله کی راہ سے) {33:18}
المُغرَقينَ (ڈوبنے والے یعنی سرکشی و عذاب میں) {11:43}
المُفسِدينَ (بگاڑ و فساد پھیھلانے والے) {5:64}{7:86}{7:103}{7:142}{10:81}{10:91}{27:14}{28:4}{28:77}{29:30}
المَقبوحينَ (قباحت و برائی و بدحالی میں پڑنے والے یعنی قیامت کے دن) {28:42}
المُكَذِّبينَ (جھٹلانے والے) {3:137}{6:11}{16:36}{43:25}56:92}{68:8}
المُمتَرينَ (شک کرنے والے) {2:147} {3:60}{6:114}{10:94}
المُنٰفِقينَ (دوغلے، دھوکےباز، جھوٹے ، نافرمان) {4:61}{4:88}{4:138}{4:140}{4:142}{4:145}{9:67}{9:68}{29:11}{33:24}{33:73}{48:6}{63:1}{63:7}{63:8}
المُنظَرينَ (ڈھیل دیے گئے) {7:15}{15:37}{38:80}
المُهلَكينَ (ہلاک ہونے والے) {23:48}
الخاطِـٔينَ (خطاکار) - {12:29}
الخائِنينَ (خیانت کرنے والے ) - {8:58}{12:52}
الدّٰخِلينَ (داخل ہونے والے یعنی جہننم میں) {66:10}
السّٰخِرينَ (ہنسنے، مسخری مذاق کرنے والے) - {39:56}
الصّٰغِرينَ (بےعزت لوگ) {7:13}{12:32}
الضّالّينَ (گمراہ) {1:7}{2:198}{6:77} {26:20}{26:86} {56:92}
الظّٰلِمينَ (ظالم) {2:35}{2:124}{2:145}{2:193}{2:258}{3:57}{3:86} {3:140}{3:151}{5:29}{5:51}{5:107}{6:33}{6:52}{6:68}{6:129} {6:144}{7:19}{7:41}{7:44}{7:47}{7:150}{9:19}{9:110} {10:39}{10:85} {10:106}{11:18}{11:31}{11:44}{11:83}{12:75} {14:13}{14:22}{14:27}{17:82}{19:72}{21:29}{21:59}{21:87}{22:53}{23:28}{23:41}{23:94}{26:10}{28:21}{28:25}{28:40}{28:50}{40:52}{42:21}{42:22}{42:40}{42:44}{42:45}{43:76}{45:19}{46:10}{59:17}{61:7}{62:5}{66:11}{71:24} {71:28}
الظّانّينَ (بد گمانی و اٹکلیں کرنے والے) {48:6}
الغٰبِرينَ (پیچھے رہنے والے) {7:83}{15:60}{26:171}{27:57}{29:32} {29:33}{37:135}
الغٰفِلينَ (بے خبر) {7:205}{12:3}
الغاوينَ (بہکے ہوۓ ، گمراہ) {7:175}{15:42}
الفٰسِقينَ (بدکار، نافرمان، بے لغام) {2:26}{5:25} {5:26}{5:108}{7:145}{9:24}
الفَرِحينَ (اترانے والے) {28:76}
القٰعِدينَ (بیٹھے رہنے والے یعنی الله کی راہ میں گھر سے نہ نکلنے والے) {9:46} {9:86}
القٰنِطينَ (نا امید لوگ) {15:55}
الكٰذِبينَ (جھوٹے) {3:61}{9:43}{12:26}{24:7}{24:8}{26:186}{29:3}
الكٰفِرينَ (حق بات کے چھپانے اور انکار کرنے والے منکر) {2:34}{2:89}{2:191}{2:250}{2:264}{2:286}{3:28} {3:32}{3:141}{3:147}{4:101}{4:139}{4:144}{5:54}{5:67}{5:68}{7:50}{7:101}{8:7}{8:18}{9:2}{9:26}{9:37}{10:86}{11:42}{13:14}{13:35}{16:27}{16:107}{19:83}{25:26}{25:52}{25:52}{30:45}{33:1}{33:48}{33:64}{35:39}{35:39}{36:70}{38:74}{39:59}{39:71}{40:25}{40:50}{40:74}{47:11}{67:28} {69:50}{71:26}{74:10}{86:17}
اللّٰعِبينَ (کھیل مذاق کرنے والے) {21:55}
المٰكِرينَ (مکر و چالبازی کرنے والے) {3:54}{8:30}
المُبَذِّرينَ (فضول خرچی کرنے والے یعنی جائز کاموں میں) {17:27}
المُتَكَبِّرينَ (غرور و تکبر کرنے والے) {16:29}{39:72} {40:76}
المُتَكَلِّفينَ (بناوٹ کرنے والے) {38:86}
المُجرِمينَ (گنہگار) {6:55}{6:147}{7:40}{7:84}{10:13}{12:110}{14:49}{15:12}{18:49}{19:86}{20:102}{25:31}{26:200}{27:69}{32:22}{43:74}{46:25}{54:47}{74:41}
المُحضَرينَ (پکڑے ہوۓ حاضر کئے جانے والے یعنی قیامت کے دن) {28:61}{37:57}
المُخسِرينَ (نقصان دینے والے یعنی لوگوں کو ماپ تول میں) {26:181}
المُستَكبِرينَ (غرور کرنے والے) {16:23}
المُستَهزِءينَ (استہزاء اور ٹھٹھے کرنے والے) {15:95}
المُسرِفينَ (بیجا خرچ کرنے والے یعنی ناجائز کاموں میں) {6:141}{7:31}{10:83}{21:9}{26:151}{40:43}{44:31}
المُطَّوِّعينَ (طعن کرنے والے یعنی خیرات کرنے والے مسلمانوں پر) {9:79}
المُعتَدينَ (حد سے بڑھنے اور زیادتی کرنے والے) {2:190}{5:87}{7:55}{10:74}
المُعَذَّبينَ (عذاب دیے جانے والے) {26:213}
المُعَوِّقينَ (منع کرنے اور اٹکانے والے یعنی الله کی راہ سے) {33:18}
المُغرَقينَ (ڈوبنے والے یعنی سرکشی و عذاب میں) {11:43}
المُفسِدينَ (بگاڑ و فساد پھیھلانے والے) {5:64}{7:86}{7:103}{7:142}{10:81}{10:91}{27:14}{28:4}{28:77}{29:30}
المَقبوحينَ (قباحت و برائی و بدحالی میں پڑنے والے یعنی قیامت کے دن) {28:42}
المُكَذِّبينَ (جھٹلانے والے) {3:137}{6:11}{16:36}{43:25}56:92}{68:8}
المُمتَرينَ (شک کرنے والے) {2:147} {3:60}{6:114}{10:94}
المُنٰفِقينَ (دوغلے، دھوکےباز، جھوٹے ، نافرمان) {4:61}{4:88}{4:138}{4:140}{4:142}{4:145}{9:67}{9:68}{29:11}{33:24}{33:73}{48:6}{63:1}{63:7}{63:8}
المُنظَرينَ (ڈھیل دیے گئے) {7:15}{15:37}{38:80}
المُهلَكينَ (ہلاک ہونے والے) {23:48}
مسلمان یا اہل حدیث(محمدی) اہل سنت(حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی)؟؟؟
(1)مسلمان کا مقابلہ یہود ونصاریٰ جیسے دیگر مذاہب والوں سے ہے، مسلمانوں کی علمی جماعتوں (جیسے: اہل قرآن، اہل تفسیر، اہل حدیث، اہل فقہ، اہل تاریخ، اہل تصوف، اہل اصول وعقائد وغیرہ) سے نہیں۔
بلکہ
یہ سب مسلمان ہیں ورنہ سب کو مسلمان نہ کہلانے کی وجہ سے کافر ماننا پڑے گا۔
(2)جس طرح عیسائیوں میں فرقے ہیں، لیکن کوئی انہیں یہودی یا مسلمان نہیں کہتا، ویسے ہی مسلمانوں کے فرقوں کو کوئی ہندو یا یہودی مذہب سے نہیں جوڑتا۔
(3)جس طرح ہم پاکستانی بھی ہیں اور سندھی بھی، ویسے ہی ہم محمدی بھی ہیں اور حنفی بھی۔ کیونکہ جس طرح سندھ پاکستان کا حصہ ہے ویسے ہی حنفیت آخری نبی اکرم ﷺ میں سے ہیں۔ کسی اور نبی کے امتی نہیں۔
(4)اہل حدیث کی عالمانہ سوال کی حقیقت ایسے ہی ہے جیسے کوئی پوچھے کہ
آج منگل ہے یا فروری؟
جبکہ صحیح سوال یہ ہے کہ آج منگل ہے یا بدھ۔ دن کا مقابلہ دنوں سے کیا جاتا ہے مہینوں سے نہیں۔
القرآن:
۔۔۔ فَمَالِ ھٰٓؤُلَۤاءِ الۡقَوۡمِ لَا يَكَادُوۡنَ يَفۡقَهُوۡنَ حَدِيۡثًا ۞
ترجمہ:
۔۔۔ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ ی حدیث(بات)کی فقہ(سمجھ) کے نزدیک تک نہیں آتے؟
[سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 78]
لا شَريكَ لَهُ ۖ
وَبِذٰلِكَ أُمِرتُ وَأَنا۠ أَوَّلُ المُسلِمينَ
{6:163}
|
کوئی
نہیں اس کا شریک [۲۲۲] اور یہی مجھ کو حکم ہوا اور میں سب سے پہلے فرمانبردار
ہوں [۲۲۳]
|
اس
آیت میں توحید و تفویض کے سب سے اونچے مقام کا پتہ دیا گیا ہے جس پر ہمارے سید و
آقا محمد رسول اللہ ﷺ فائز ہوئے۔ نماز اور قربانی کا خصوصیت سے ذکر
کرنے میں مشرکین پر جو بدنی عبادت اور قربانی غیر اللہ کے لئے کرتے تھے۔ تصریحًا
رد ہو گیا۔
|
عمومًا
مفسرین { وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ } کا مطلب یہ لیتےہیں کہ اس امت
محمدیہ کے اعتبار سے آپ اول المسلین ہیں۔ لیکن جب جامع ترمذی کی حدیث { کنت نبیا
واٰدم بین الروح والجسد } کے موافق آپ اول الانبیاء ہیں تو اول المسلین ہونے میں
کیا شبہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ممکن ہے کہ یہاں اولیت زمانی مراد نہ ہو۔ بلکہ تقدم
رتبی مراد ہو۔ یعنی میں سارےجہان کے فرمانبرداروں کی صف میں نمبر اول اور سب سے
آگے ہوں۔ شاید مترجم محقق قدس سرہٗ نے ترجمہ میں "سب سے پہلا فرمانبردار
ہوں" کی جگہ "سب سے پہلے فرمانبردار ہوں" کہہ کر اسی طرف اشارہ
کیا ہو۔ کیونکہ محاورات کے اعتبار سے یہ تعبیر اولیت رتبی کے ادا کرنے میں زیادہ
واضح ہے۔ واللہ اعلم۔
|
فَإِن تَوَلَّيتُم فَما
سَأَلتُكُم مِن أَجرٍ ۖ إِن أَجرِىَ إِلّا عَلَى اللَّهِ ۖ وَأُمِرتُ أَن أَكونَ
مِنَ المُسلِمينَ {10:72}
|
پرھ
اگر منہ پھیرو گے تو میں نے نہیں چاہی تم سے مزدروی میری مزدوری ہے اللہ پر اور
مجھ کو حکم ہے کہ رہوں فرمانبردار [۱۰۲]
|
یعنی
تمہارے مقابلہ میں نہ جانی و بدنی تکالیف سے گھبراتا ہوں اور نہ مالی نقصان کی
کوئی فکر ہے کیونکہ میں نے خدمات تبلیغ و دعوت کا کچھ معاوضہ تم سے کبھی طلب
نہیں کیا جو یہ اندیشہ ہو کہ تمہاری ناخوشی سے میری تنخواہ بند ہو جائے گی یا کم
از کم تم کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ میری ساری جدوجہد مال کی حرص اور روپیہ
کے لالچ سے تھی میں جس کا کام کر رہا اور حکم بجا لا رہا ہوں اسی کے ذمہ میری
اجرت ہے جب میں اس کا فرمانبردار ہوں اور خدمت مفوضہ بے خوف و خطر انجام دیتا
ہوں تو کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے فضل و رحمت کے دروازے مجھ پر نہ کھولے رکھے۔
|
وَجٰوَزنا بِبَنى إِسرٰءيلَ
البَحرَ فَأَتبَعَهُم فِرعَونُ وَجُنودُهُ بَغيًا وَعَدوًا ۖ حَتّىٰ إِذا
أَدرَكَهُ الغَرَقُ قالَ ءامَنتُ أَنَّهُ لا إِلٰهَ إِلَّا الَّذى ءامَنَت بِهِ
بَنوا إِسرٰءيلَ وَأَنا۠ مِنَ المُسلِمينَ
{10:90}
|
اور
پار کر دیا ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پھرپیچھا کیا ان کا فرعون نے اور اس کے
لشکر نے شرارت سے اور تعدی سے یہاں تک کہ جب ڈوبنے لگا بولا یقین کر لیا میں نے
کہ کوئی معبود نہیں مگر جس پر کہ ایمان لائے بنی اسرائیل اور میں ہوں
فرمانبرداروں میں
|
وَجٰهِدوا فِى اللَّهِ
حَقَّ جِهادِهِ ۚ هُوَ اجتَبىٰكُم وَما جَعَلَ عَلَيكُم فِى الدّينِ مِن حَرَجٍ
ۚ مِلَّةَ أَبيكُم إِبرٰهيمَ ۚ هُوَ سَمّىٰكُمُ المُسلِمينَ
مِن قَبلُ وَفى هٰذا لِيَكونَ الرَّسولُ شَهيدًا عَلَيكُم وَتَكونوا شُهَداءَ
عَلَى النّاسِ ۚ فَأَقيمُوا الصَّلوٰةَ وَءاتُوا الزَّكوٰةَ وَاعتَصِموا
بِاللَّهِ هُوَ مَولىٰكُم ۖ فَنِعمَ المَولىٰ وَنِعمَ النَّصيرُ {22:78}
|
اور
محنت کرو اللہ کے واسطے جیسی کہ چاہئے اُسکے واسطے محنت [۱۱۵] اس نے تم کو پسند
کیا [۱۱۶] اور نہیں رکھی تم پر دین میں کچھ مشکل [۱۱۷] دین تمہارے باپ ابراہیم
کا [۱۱۸] اُسی نے نام رکھا تمہارا مسلمان پہلے سے اور اس قرآن میں [۱۱۹] تاکہ
رسول ہو بتانے والا تم پر اور تم ہو بتانے والے لوگوں پر [۱۲۰] سو قائم رکھو
نماز اور دیتے رہو زکوٰۃ اور مضبوط پکڑو اللہ کو وہ تمہارا مالک ہے سو خوب مالک
ہے اور خوب مددگار [۱۲۱]
|
کہ
سب سے اعلیٰ و افضل پیغمبر دیا اور تمام شرائع سے اکمل شریعت عنایت کی ، تمام
دنیا میں خدا کا پیغام پہنچانے کے لئے تم کو چھانٹ لیا اور سب امتوں پر فضیلت
بخشی۔
|
یعنی
پسند کیا تم کو اس واسطے کہ تم اور امتوں کو سکھاؤ اور رسول تم کو سکھائے اور یہ
امت جو سب سے پیچھے آئی یہ ہی غرض ہے کہ تمام امتوں کی غلطیاں درست کرے اور سب
کو سیدھی راہ بتائے۔ گویا جو مجدد شرف اس کو ملا ہے اسی وجہ سے ہے کہ یہ دنیا کے
لئے معلم اور تبلیغی جہاد کرے۔ (تنبیہ) دوسرے مفسرین نے "شہید" اور
"شہداء" کو بمعنی گواہ لیا ہے۔ قیامت کے دن جب دوسری امتیں انکار کریں
گی کہ پیغمبروں نے ہم کو تبلیغ نہیں کی اور پیغمبروں سے گواہ مانگے جائیں گے تو
وہ امت محمدیہ کو بطور گواہ پیش کریں گے ۔ یہ امت گواہی دے گی کہ بیشک پیغمبروں
نے دعوت و تبلیغ کر کے خدا کی حجت قائم کر دی تھی۔ جب سوال ہو گا کہ تم کو کیسے
معلوم ہوا۔ جوابدیں گے کہ ہمارے نبی نے اطلاع کی جس کی صداقت پر خدا کی محفوظ
کتاب (قرآن کریم) گواہ ہے۔ گویا یہ فضل و شرف اس لئے دیا گیا کہ تم کو ایک بڑے
عظیم الشان مقدمہ میں بطو معزز گواہ کے کھڑا ہونا ہے۔ لیکن تمہاری گواہی کی
سماعت اور وقعت بھی تمہارے پیغمبر کےطفیل میں ہے کہ وہ تمہارا تزکیہ کریں گے۔
|
یعنی
اللہ نے پہلے کتابوں میں اور اس قرآن میں تمہارا نام { مُسْلِمْ } رکھا (جس کے
معنی حکمبردار اور وفا شعار کے ہیں) ابراہیمؑ نے پہلےتمہارا یہ نام رکھا تھا
جبکہ دعا میں کہا { وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَا اُمَّۃً مُسْلِمَۃً لَکَ } (بقرہ
رکوع۱۵) اور اس قرآن میں شاید ان ہی کے مانگنے سے یہ نام پڑ اہو۔ بہرحال تمہارا
نام ''مسلم'' ہے گو اور امتیں بھی مسلم تھیں مگر لقب یہ تمہارا ہی ٹھہرا ہےسو اس
کی لاج رکھنی چاہئے۔
|
دین
میں کوئی ایسی مشکل نہیں رکھی جس کا اٹھانا کٹھن ہو۔ احکام میں ہر طرح کی رخصتوں
اور سہولتوں کا لحاظ رکھا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ تم خود اپنے اوپر ایک آسان چیز
کو مشکل بنا لو۔
|
یعنی
انعامات الہٰیہ کی قدر کرو، اپنے نام و لقب اور فضل و شرف کی لاج رکھو، اور
سمجھو کہ تم بہت بڑے کام کے لئے کھڑے کئے گئے ہو۔ اس لئے اول اپنے کو نمونہ عمل
بناؤ۔ نماز ، زکوٰۃ (بالفاظ دیگر بدنی و مالی عبادات) میں کوتاہی نہ ہونے پائے،
ہر کام میں اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو۔ ذرا بھی قدم جادہ حق سے ادھر ادھر نہ
ہو۔ اس کے فضل و رحمت پر اعتماد رکھو تمام کمزور سہارے چھوڑ دو ، تنہا اسی کو
اپنا مولا اور مالک سمجھو، اس سے اچھا مالک و مددگار اور کون ملے گا؟ { رَبِّ
اجْعَلْنَا مِنْ مُقِیْمِیْ الصَّلٰوۃِ وَمُؤتِی الزَّکوٰۃ وَالْمُعْتَصِمِیْنَ
بِکَ وَالْمُتَوَکِّلِیْنَ عَلَیْکَ فَاَنْتَ مَوْلَانَا وَنَاصِرُنَا فَنِعْمَ
الْمَوْلٰی اَنْتَ وَ نِعْمَ النَّصِیْرُ }۔ تم سورۃ الحج بفضلہ ومنہ فلہ الحمد
وعلیٰ نبیہ الصلوٰۃ و التسلیم۔
|
ابراہیمؑ
چونکہ حضور ﷺ کے اجداد میں ہیں اس لئے ساری امت کے باپ ہوئے ،
یا یہ مراد ہو کہ عربوں کے باپ ہیں کیونکہ اولین مخاطب قرآن کے وہ ہی تھے۔
|
اپنے
نفس کو درست رکھنے اور دنیا کو درستی پر لانے کے لئے پوری محنت کرو جو اتنے بڑے
اہم مقصد کے شایان شان ہو۔ آخر دنیوی مقاصد میں کامیابی کے لئے کتنی محنتیں
اٹھاتے ہو۔ یہ تو دین کا اور آخرت کی دائمی کامیابی کا راستہ ہے جس میں جس قدر
محنت برداشت کی جائے انصافًا تھوڑی ہے (تنبیہ) لفظ "مجاہدہ" میں ہر
قسم کی زبانی، قلمی، مالی، بدنی کوشش شامل ہے اور "جہاد" کی تمام قسمیں
(جہاد مع النفس، جہاد مع الشیطان، جہاد مع الکفار، جہاد مع البغاۃ جہاد مع
المبطلین) اسکے نیچے مندرج ہیں۔
|
إِنَّما أُمِرتُ أَن
أَعبُدَ رَبَّ هٰذِهِ البَلدَةِ الَّذى حَرَّمَها وَلَهُ كُلُّ شَيءٍ ۖ
وَأُمِرتُ أَن أَكونَ مِنَ المُسلِمينَ
{27:91}
|
مجھ
کو یہی حکم ہے کہ بندگی کروں اس شہر کے مالک کی جس نے اس کو حرمت دی اور اسی کی
ہے ہر ایک چیز [۱۲۲] اور مجھ کو حکم ہے کہ رہوں حکم برداروں میں [۱۲۳]
|
یعنی
ان لوگوں میں رہوں جو حق تعالیٰ کی کامل فرمانبرداری کرنے والے اور اپنے کو ہمہ
تن اس کے سپرد کر دینے والے ہیں۔
|
شہر
سے مراد ہے مکہ معظمہ۔ جسے خداتعالیٰ نے معظم و محترم بنایا۔ اسی تخصیص و تشریف
کی بناء پر رب کی اضافت اس کی طرف کی گئ ورنہ یوں ہر چیز کا رب اور مالک وہ ہی
ہے۔
|
إِنَّ المُسلِمينَ وَالمُسلِمٰتِ وَالمُؤمِنينَ
وَالمُؤمِنٰتِ وَالقٰنِتينَ وَالقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقينَ وَالصّٰدِقٰتِ
وَالصّٰبِرينَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالخٰشِعينَ وَالخٰشِعٰتِ وَالمُتَصَدِّقينَ
وَالمُتَصَدِّقٰتِ وَالصّٰئِمينَ وَالصّٰئِمٰتِ وَالحٰفِظينَ فُروجَهُم
وَالحٰفِظٰتِ وَالذّٰكِرينَ اللَّهَ كَثيرًا وَالذّٰكِرٰتِ أَعَدَّ اللَّهُ
لَهُم مَغفِرَةً وَأَجرًا عَظيمًا {33:35}
|
تحقیق
مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور ایمان دار مرد اور ایمان دار عورتیں اور بندگی
کرنے والے مرد اور بندگی کرنے والی عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور محنت
جھیلنے والے مرد اور محنت جھیلنے والی عورتیں [۵۱] اور دبے رہنے والے مرد اور
دبی رہنے والی عورتیں [۵۲] اور خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں
اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں اور حفاظت کرنے والے مرد اپنی شہوت کی جگہ
کو اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور یاد کرنے والے مرد اللہ کو بہت سا اور یاد
کرنے والی عورتیں رکھی ہے اللہ نے ان کے واسطے معافی اور ثواب بڑا [۵۳]
|
بعض
ازواج مطہرات نے کہا تھا کہ قرآن میں اکثر جگہ مردوں کا ذکر ہے عورتوں کا کہیں
نہیں اور بعض نیک بخت عورتوں کو خیال ہوا کہ آیات سابقہ میں ازواج نبی کا ذکر تو
آیا عام عورتوں کا کچھ حال بیان نہ ہوا اس پر یہ آیت اتری۔ تا تسلی ہو جائے کہ
عورت ہو یا مرد کسی کی محنت یا کمائی اللہ کے یہاں ضائع نہیں جاتی۔ اور جس طرح
مردوں کو روحانی اور اخلاقی ترقی کرنے کے ذرائع حاصل ہیں۔ عورتوں کے لئے بھی یہ
میدان کشادہ ہے۔ یہ طبقہ اناث کی دلجمعی کے لئے تصریح فرما دی ورنہ جو احکام
مردوں کے قرآن میں آئے وہ ہی عمومًا عورتوں پر عائد ہوتے ہیں۔ جداگانہ نام لینے
کی ضرورت نہیں۔ ہاں خصوصی احکام الگ بتلا دیے گئے ہیں۔
|
یعنی
تکلیفیں اٹھا کر اور سختیاں جھیل کر احکام شریعت پر قائم رہنے والے۔
|
یعنی
تواضع و خاکساری اختیار کرنے والے یا نماز خشوع و خضوع سے ادا کرنے والے۔
|
وَأُمِرتُ لِأَن أَكونَ
أَوَّلَ المُسلِمينَ {39:12}
|
اور
حکم ہے کہ میں ہوں سب سے پہلے حکم بردار [۲۴]
|
چنانچہ
آپ عالم شہادت میں اس امت کے لحاظ سے اور عالم غیب میں تمام اولین و آخرین کے
اعتبار سے اللہ کے سب سے پہلے حکمبردار بندے ہیں ﷺ۔
|
وَمَن أَحسَنُ قَولًا
مِمَّن دَعا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صٰلِحًا وَقالَ إِنَّنى مِنَ المُسلِمينَ {41:33}
|
اور
اس سے بہتر کس کی بات جس نے بلایا اللہ کی طرف اور کیا نیک کام اور کہا میں
حکمبردار ہوں [۴۷]
|
{ اَنَّ الَّذِیْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا
} الخ میں ان مخصوص بندوں کا ذکر تھا جنہوں نے صرف ایک اللہ کی ربوبیت پر اعتقاد
جما کر اپنی استقامت کا ثبوت دیا۔ یہاں انکے ایک اور اعلیٰ مقام کا ذکر کرتے
ہیں۔ یعنی بہترین شخص و ہے جو خود اللہ کا ہو رہے، اسی کی حکمبرداری کا اعلان
کرے اسی کی پسندیدہ روش پر چلے۔ اور دنیا کو اسی کی طرف آنے کی دعوت دے۔ اس کا
قول و فعل بندوں کو خدا کی طرف کھینچنے میں موثر ہو، جس نیکی کی طرف لوگوں کو
بلائے بذات خود اس پر عامل ہو۔ خدا کی نسبت اپنی بندگی اور فرمانبرداری کا اعلان
کرنے سے کسی موقع پر اور کسی وقت نہ جھجکے اس کا طغرائے قومیت صرف مذہب اسلام
ہو۔ اور ہر قسم کی تنگ نظری اور فرقہ ورانہ نسبتوں سے یکسو ہو کر اپنے مسلم خالص
ہونے کی منادی کرے اور اسی اعلیٰ مقام کی طرف لوگوں کو بلائے جس کی دعوت دینے کے
لئے سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے تھے۔ اور صحابہ رضی اللہ
عنہم نے اپنی عمریں صرف
کی تھیں۔
|
وَوَصَّينَا الإِنسٰنَ
بِوٰلِدَيهِ إِحسٰنًا ۖ حَمَلَتهُ أُمُّهُ كُرهًا وَوَضَعَتهُ كُرهًا ۖ
وَحَملُهُ وَفِصٰلُهُ ثَلٰثونَ شَهرًا ۚ حَتّىٰ إِذا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ
أَربَعينَ سَنَةً قالَ رَبِّ أَوزِعنى أَن أَشكُرَ نِعمَتَكَ الَّتى أَنعَمتَ
عَلَىَّ وَعَلىٰ وٰلِدَىَّ وَأَن أَعمَلَ صٰلِحًا تَرضىٰهُ وَأَصلِح لى فى
ذُرِّيَّتى ۖ إِنّى تُبتُ إِلَيكَ وَإِنّى مِنَ المُسلِمينَ
{46:15}
|
اور
ہم نے حکم کر دیا انسان کو اپنے ماں باپ سے بھلائی کا [۲۰] پیٹ میں رکھا اسکو
اسکی ماں نے تکلیف سے اور جنا اسکو تکلیف سے [۲۱] اور حمل میں رہنا اس کا اور
دودھ چھوڑنا تیس مہینے میں ہے [۲۲] یہاں تک کہ جب پہنچا اپنی قوت کو اور پہنچ
گیا چالیس برس کو [۲۳] کہنے لگا اے رب میرے میری قسمت میں کر کہ شکر کروں تیرے
احسان کا جو تو نے مجھ پر کیا اور میرے ماں باپ پر اور یہ کہ کروں نیک کام جس سے
تو راضی ہو اور مجھ کو دے نیک اولاد میری میں نے توبہ کی تیری طرف اور میں ہوں
حکم بردار [۲۴]
|
قرآن
میں کئ جگہ اللہ تعالٰی نے اپنے حق کے ساتھ ماں باپ کا حق بیان فرمایا ہے ۔
کیونکہ موجد حقیقی تو اللہ ہے لیکن عالم اسباب میں والدین اولاد کے وجود کا سبب
ظاہری اور حق تعالٰی کی شان رُبُوبیت کا مظہر خاص بنتے ہیں۔ یہاں بھی پہلے {
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا } میں اللہ
تعالٰی کے حقوق کا ذکر تھا۔ اب والدین کا حق بتلا دیا۔ یعنی انسان کو حکم دیا
گیا ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے، انکی تعظیم و محبت اور خدمت گذاری
کو اپنی سعادت سمجھے۔ دوسری جگہ بتلایا ہے کہ اگر والدین مشرک ہوں تب بھی انکے
ساتھ دنیا میں معاملہ اچھا رکھنا چاہئے۔ خصوصًا ماں کی خدمت گذاری کہ بعض وجوہ
سے اس کا حق باپ سے بھی فائق ہے ۔ جیسا کہ احادیث صحیحہ اس پر دال ہیں۔
|
شاید
یہ بطور عادت اکثر یہ کہ فرمایا۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتےہیں کہ لڑکا اگر قوی ہو تو
اکیس مہینہ میں دودھ چھوڑتا ہے اور نو مہینے ہیں حمل کے یا یوں کہو کہ کم ازکم
مدت حمل چھ مہینے اور دو برس میں عمومًا بچوں کا دودھ چھڑا دیا جاتا ہے۔ اس طرح
کل مدت تیس مہینے ہوئے مدت رضاع کا اس سے زائد ہونا نہایت قلیل و نادر ہے۔
|
چالیس
برس کی عمر میں عمومًا انسان کی عقلی اور اخلاقی قوتیں پختہ ہو جاتی ہیں۔ اسی
لئے انبیاء علیہم السلام کی بعثت چالیس برس سے پہلے نہ ہوتی تھی۔
|
یعنی
سعادت مند آدمی ایسا ہوتا ہے کہ جو احسانات اللہ تعالٰی کے اس پر اور اسکے ماں
باپ پر ہو چکے ان کا شکر ادا کرنے اور آئندہ نیک عمل کرنے کی توفیق خدا سے چاہے
اور اپنی اولاد کے حق میں بھی نیکی کی دعا مانگے۔ جو کوتاہی حقوق اللہ یا حقوق
العباد میں رہ گئ ہو، اس سے توبہ کرے اور ازراہ تواضع و بندگی اپنی مخلصانہ
عبودیت و فرمانبرداری کا اعتراف کرے۔ (تنبیہ) حضرت ابوبکرؓ کی ایک خصوصیت:
صحابہؓ میں حضرت ابوبکر صدیقؓ بڑے ہی خوش قسمت تھے کہ خود انکو ، انکے ماں باپ
کو اور اولاد کو ایمان کے ساتھ صحبت نبی ﷺ کا شرف میسر ہوا۔
صحابہ میں یہ خصوصیت کسی کو حاصل نہیں ہوئی۔
|
یعنی
حمل جب کئ مہینہ کا ہو جاتا ہے اس کا ثقل محسوس ہونے لگتا ہے ۔ اس حالت میں اور
تولد کے وقت ماں کیسی کیسی صعوبتیں برداشت کرتی ہے۔ پھر دودھ پلاتی اور برسوں تک
اس کی ہر طرح نگہداشت رکھتی ہے۔ اپنی آسائش و راحت کو اس کی آسائش و راحت پر
قربان کر دیتی ہے۔ باپ بھی بڑی حد تک ان تکلیفوں میں شریک رہتا اور سامان تربیت
فراہم کرتا ہے۔ بیشک یہ سب کام فطرت کے تقاضا سے ہوتے ہیں مگر اسی فطرت کا تقاضا
یہ ہے کہ اولاد ماں باپ کی شفقت و محبت کو محسوس اور انکی محنت و ایثار کی قدر
کرے۔ (تنبیہ) حدیث میں ماں کی خدمت گذاری کا تین مرتبہ حکم فرما کر باپ کی خدمت
گذاری کا ایک مرتبہ حکم فرمایا ہے لطف یہ ہے کہ آیہ ہذا میں والد کا ذکر صرف ایک
مرتبہ لفظ { والِدَیْہَ } میں ہوا۔ اور والدہ کا تین مرتبہ ذکر آیا لفظ{
والِدَیْہَ } میں پھر { حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ } میں پھر { وَضَعَتْہُ } میں۔
|
فَما وَجَدنا فيها غَيرَ
بَيتٍ مِنَ المُسلِمينَ {51:36}
|
پھر
نہ پایا ہم نے اس جگہ سوائے ایک گھر کے مسلمانوں سے [۲۵]
|
یعنی
اس بستی میں صرف ایک حضرت لوطؑ کا گھرانا مسلمانی کا گھرانا تھا۔ اس کو ہم نے
عذاب سے محفوظ رکھا اور صاف بچا نکالا۔ باقی سب تباہ کر دیے گئے۔
|
أَفَنَجعَلُ المُسلِمينَ كَالمُجرِمينَ {68:35}
|
کیا
ہم کر دیں گے حکم برداروں کو برابر گنہگاروں کے
|
**************************************
نِساؤُكُم حَرثٌ لَكُم
فَأتوا حَرثَكُم أَنّىٰ شِئتُم ۖ وَقَدِّموا لِأَنفُسِكُم ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ
وَاعلَموا أَنَّكُم مُلٰقوهُ ۗ وَبَشِّرِ المُؤمِنينَ
{2:223}
|
تمہاری
عورتیں تمہاری کھیتی ہیں سو جاؤ اپنی کھیتی میں جہاں سے چاہو [۳۶۴] اور آگے کی
تدبیر کرو اپنے واسطے [۳۶۵] اور ڈرتے رہو اللہ سے اور جان رکھو کہ تم کو اس سے
ملنا ہے اور خوشخبری سنا ایمان والوں کو
|
یہود
عورت کی پشت کی طرف ہو کر وطی کرنے کو ممنوع کہتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اس سے
بچہ احول پیدا ہوتا ہے آپ ﷺ سے پوچھا گیا تو اس پر یہ آیت اتری یعنی
تمہاری عورتیں تمہارے لئے بمنزلہ کھیتی کے ہیں جس میں نطفہ بجائے تخم اور اولاد
بمنزلہ پیداوار کے ہے یعنی اس سے مقصود اصلی صرف نسل کا باقی رہنا اور اولاد کا
پیدا ہونا ہے سو تم کو اختیار ہے آگے سے یا کروٹ سے یا پشت سے پڑ کر یا بیٹھ کر
جس طرح چاہو مجامعت کرو مگر یہ ضرور ہے کہ تخم ریزی اُسی خاص موقع میں ہو جہاں
پیداواری کی امید ہو ۔ یعنی مجامعت خاص فرج ہی میں ہو لواطت ہرگز ہرگز نہ ہو
یہود کا خیال غلط ہے کہ اس سے بچہ احول پیدا ہوتا ہے۔
|
یعنی
اعمال صالحہ اپنے لئے کرتے رہو یا یہ کہ وطی سے اولاد صالح مطلوب ہونی چاہیئے
محض حظ نفس مقصود نہ ہو۔
|
لا يَتَّخِذِ المُؤمِنونَ
الكٰفِرينَ أَولِياءَ مِن دونِ المُؤمِنينَ
ۖ وَمَن يَفعَل ذٰلِكَ فَلَيسَ مِنَ اللَّهِ فى شَيءٍ إِلّا أَن تَتَّقوا مِنهُم
تُقىٰةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّهِ المَصيرُ {3:28}
|
نہ
بناویں مسلمان کافروں کو دوست مسلمانوں کو چھوڑ کر اور جو کوئی یہ کام کرے تو
نہیں اس کو اللہ سے کوئی تعلق مگر اس حالت میں کہ کرنا چاہو تم ان سے بچاؤ [۴۲]
اور اللہ تم کو ڈراتا ہے اپنے سے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے [۴۳]
|
یعنی
جب حکومت و سلطنت، جاہ و عزت، اور ہر قسم کے تقلبات و تصرفات کی زمام اکیلے
خداوند قدوس کے ہاتھ میں ہوئی تو مسلمانوں کو جو صحیح معنی میں اس پر یقین رکھتے
ہیں، شایاں نہیں کہ اپنے اسلامی بھائیوں کی اخوۃ و دوستی پر اکتفا نہ کر کے خواہ
مخواہ دشمنان خدا کی موالاۃ و مدارات کی طرف قدم بڑھائیں خدا اور رسول کے دشمن
ان کے دوست کبھی نہیں بن سکتے۔ جو اس خبط میں پڑے گا سمجھ لو کہ خدا کی محبت و
موالات سے اسے کچھ سروکار نہیں۔ ایک مسلمان کی سب امیدیں اور خوف صرف خداوند رب
العزت سے وابستہ ہونے چاہئیں۔ اور اس کے اعتماد و وثوق اور محبت و مناصرت کے
مستحق وہ ہی لوگ ہیں جو حق تعالیٰ سے اسی قسم کا تعلق رکھتے ہوں۔ ہاں تدبیر و
انتظام کے درجہ میں کفار کے ضرر عظیم سے اپنے ضروی بچاؤ کے پہلو اور حفاظت کی
صورتیں معقول و مشروع طریقہ پر اختیار کرنا، ترک موالات کے حکم سے اسی طرح
مستثنٰی ہیں جیسے سورۂ انفال میں { وَمَنْ یُّوَلَّھِمْ یُوْمَئِذٍ دُبُرَہٓٗ }
سے { مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیِّزً ا اِلٰی فِئَۃٍ } کو مستثنٰی کیا
گیا ہے۔ جس طرح وہاں تحرف و تحیز کی حالت میں حقیقۃً فرار من الزحف نہیں ہوتا،
محض صورۃً ہوتا ہے، یہاں بھی { اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰۃً } کو
حقیقت موالات نہیں، فقط صورت موالات سمجھنا چاہئیے۔ جس کو ہم مدارات کے نام سے
موسوم کرتے ہیں۔ اس مسئلہ کی مزید تفصیل سورۂ مائدہ کی آیت { یٰٓاَیُّھَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْالَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ النَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآءَ }
الخ کے فوائد میں ملاحظہ کر لی جائے۔ اور بندہ کا مستقل رسالہ بھی اس موضوع پر
چھپا ہوا ہے جو حضرت الاستاذ (مترجم محقق) قدس اللہ روحہٗ کی ایما پر لکھا گیا
تھا۔ فلیر اجع۔
|
یعنی
مومن کے دل میں اصلی ڈر خدا کا ہونا چاہئیے۔ کوئی ایسی بات نہ کرے جو اس کی
ناراضی کا سبب ہو، مثلًا جماعت اسلام سے تجاوز کر کے بےضرورت کفار کے ساتھ ظاہری
یا باطنی موالات کرے یا ضرورت کے وقت صورت اختیالات اختیار کرنے میں حدود شرع سے
گذر جائے۔ یا محض موہوم و حقیر خطرات کو یقینی اور اہم خطرات ثابت کرنے لگے اور
اسی قسم کی مستثنیات یا شرعی رخصتوں کو ہوائے نفس کہ پیروی کا حیلہ بنالے۔ اسے
یاد رکھنا چاہئیے کہ سب کو خداوند قدوس کی عدالت عالیہ میں حاضر ہونا ہے وہاں
جھوٹے حیلے حوالے کچھ پیش نہ جائیں گے۔ مومن قوی کی شان تو یہ ہونی چاہئیے کہ
رخصت سے گذر کر عزیمت پر عمل پیرا ہو۔ اور مخلوق سے زیادہ خالق سے خوف کھائے۔
|
إِنَّ أَولَى النّاسِ
بِإِبرٰهيمَ لَلَّذينَ اتَّبَعوهُ وَهٰذَا النَّبِىُّ وَالَّذينَ ءامَنوا ۗ
وَاللَّهُ وَلِىُّ المُؤمِنينَ {3:68}
|
لوگوں
میں زیادہ مناسبت ابراہیم سے ان کو تھی جو ساتھ اس کے تھے اور اس نبی کو اور جو
ایمان لائے اس نبی پر [۱۰۳] اور اللہ والی ہے مسلمانوں کا [۱۰۴]
|
یعنی
اپنے راہ کے حق ہونے پر محض کسی کی موافقت و مشابہت سے دلیل جب پکڑے کہ اپنے
اوپر وحی نہ آتی ہو۔ سو اللہ والی ہے مسلمانوں کا کہ (یہ براہ راست) اس کے حکم
پر چلتے ہیں (موضح القرآن) ۔
|
اللہ
تعالیٰ نے بتلا دیا کہ زیادہ مناسبت ابراہیمؑ سے اس وقت کی امت کو تھی یا پچھلی
امتوں میں اس نبی کی امت کو ہے۔ تو یہ امت نام میں بھی اور راہ میں بھی ابراہیمؑ
سے مناسبت زیادہ رکھتی ہے۔ اور اس امت کا پیغمبر خَلقًا و خُلقًا صورۃً و سیرۃً
حضرت ابراہیمؑ سے اشبہ ہے اور ان کی دعاء کے موافق آیا ہے جیسا کہ سورہ
"بقرہ" میں گذرا { رَبَّنَاوَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ
یَتْلُوْ عَلَیْھِمْ اٰیاتِکَ } الخ اسی لئے حبشہ کا نصرانی بادشاہ (نجاشی)
مسلمان مہاجرین کو "حزب ابراہیمؑ" کہتا تھا۔ شاید اسی قسم کی مناسبات
کی وجہ سے درود شریف میں { کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْم } فرمایا۔ یعنی
اس نوعیت اور نمونہ کی صلوٰۃ نازل فرمائے جو ابراہیمؑ و آل ابراہیمؑ پر کی تھی۔
جامع ترمذی میں حدیث ہے { اِنَّ لِکُلِّ نَبِیٍّ وَلاۃً مِنَ النَّبِیْیْنَ
وَاِنَّ وَلّیی ابی وَ خَلِیْلُ رَبِیّ } اس مضمون کی تفصیل آئندہ کسی سورت میں
آئے گی ان شاء اللہ۔
|
وَإِذ غَدَوتَ مِن أَهلِكَ
تُبَوِّئُ المُؤمِنينَ مَقٰعِدَ
لِلقِتالِ ۗ وَاللَّهُ سَميعٌ عَليمٌ {3:121}
|
اور
جب صبح کو نکلا تو اپنے گھر سے بٹھلانے لگا مسلمانوں کو لڑائی کے ٹھکانوں پر اور
اللہ سب کچھ سنتا جانتا ہے
|
وَلَقَد صَدَقَكُمُ اللَّهُ
وَعدَهُ إِذ تَحُسّونَهُم بِإِذنِهِ ۖ حَتّىٰ إِذا فَشِلتُم وَتَنٰزَعتُم فِى
الأَمرِ وَعَصَيتُم مِن بَعدِ ما أَرىٰكُم ما تُحِبّونَ ۚ مِنكُم مَن يُريدُ
الدُّنيا وَمِنكُم مَن يُريدُ الءاخِرَةَ ۚ ثُمَّ صَرَفَكُم عَنهُم
لِيَبتَلِيَكُم ۖ وَلَقَد عَفا عَنكُم ۗ وَاللَّهُ ذو فَضلٍ عَلَى المُؤمِنينَ {3:152}
|
اور
اللہ تو سچا کر چکا تم سے اپنا وعدہ جب تم قتل کرنے لگے انکو اسکے حکم سے [۲۲۲]
یہاں تک کہ جب تم نے نامردی کی اور کام میں جھگڑا ڈالا اور نافرمانی کی [۲۲۳]
بعد اس کے کہ تم کو دکھا چکا تمہاری خوشی کی چیز کوئی تم میں سے چاہتا تھا دنیا
اور کوئی تم میں چاہتا تھا آخرت [۲۲۴] پھر تم کو الٹ دیا ان پر سے تاکہ تم کو
آزماوے [۲۲۵] اور وہ تو تم کو معاف کر چکا [۲۲۶] اور اللہ کا فضل ہے ایمان والوں
پر [۲۲۷]
|
یعنی
یا تو وہ تمہارے سامنے سے بھاگ رہے تھے، اب تم ان کے آگے بھاگنے لگے۔ تمہاری
غلطی اور کوتاہی سے معاملہ الٹا اور اس میں بھی تمہاری آزمائش تھی۔ تا پکے اور
کچے صاف ظاہر ہو جائیں۔
|
یعنی
پیغمبر ﷺ نے جو حکم تیر اندازوں کو دیا تھا اس کے خلاف کیا اور آپس
میں جھگڑنے لگے کوئی کہتا تھا کہ ہم کو یہیں جمے رہنا چاہئے۔ اکثر نے کہا اب
یہاں ٹھہرنے کی ضرورت نہیں چل کر غنیمت حاصل کرنی چاہئے آخر اکثر تیر انداز اپنی
جگہ چھوڑ کر چلے گئے۔ مشرکین نے اسی راستہ سےدفعۃً حملہ کر دیا۔ دوسری طرف حضور ﷺ کے قتل کی خبر مشہور ہو گئ۔ ان چیزوں نے قلوب میں کمزوری پیدا کر دی جس کا نتیجہ فشل
و جبن کی صورت میں ظاہر ہوا۔ گویا فشل کا سبب تنازع اور تنازع کا سبب عصیان تھا۔
|
کہ
ان کی کوتاہیوں کو معاف کر دیتا ہے اور عتاب میں بھی لطف و شفقت کا پہلو ملحوظ
رکھتا ہے۔
|
یعنی
بعضے لوگ دنیوی متاع (مال غنیمت) کی خوشی میں پھسل پڑے۔ جس کا خمیازہ سب کو
بھگتنا پڑا۔ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ اس آیت کے نزول سے پہلے میں نے کبھی محسوس
نہ کیا تھا کہ ہم میں کوئی آدمی دنیا کا طالب بھی ہے۔
|
نبی
کریم ﷺ نے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ اگر صبر و استقلال سے کام لو گے،
حق تعالیٰ تم کو غالب کرے گا۔ چنانچہ خدا نے اپنا وعدہ ابتدائے جنگ میں سچا کر
دکھایا، انہوں نے خدا کے حکم سے کفار کو مار مار کر ڈھیر کر دیا۔ سات یا نو آدمی
جن کے ہاتھ میں مشرکین کا جھنڈا یکے بعد دیگرے دیا گیا تھا، سب وہیں کھیت ہوئے
آخر بدحواس ہو کر بھاگے مسلمان فتح و کامرانی کا چہرہ صاف دیکھ رہے تھے اور
اموال غنیمت ان کے سامنے پڑے تھے کہ تیر اندازوں کی غلطی سے خالد بن الولید نے
فائدہ اٹھایا اور یک بیک لڑائی کا نقشہ بدل دیا۔ جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکےہیں۔
|
یعنی
جو غلطی ہوئی تھی خدا تعالیٰ اسے بالکل معاف کر چکا۔ اب کسی کو جائز نہیں کہ ان
پر اس حرکت کی وجہ سے طعن و تشنیع کرے۔
|
لَقَد مَنَّ اللَّهُ عَلَى المُؤمِنينَ إِذ بَعَثَ فيهِم رَسولًا مِن
أَنفُسِهِم يَتلوا عَلَيهِم ءايٰتِهِ وَيُزَكّيهِم وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتٰبَ
وَالحِكمَةَ وَإِن كانوا مِن قَبلُ لَفى ضَلٰلٍ مُبينٍ {3:164}
|
اللہ
نے احسان کیا ایمان والوں پر جو بھیجا ان میں رسول انہی میں کا [۲۵۲] پڑھتا ہے
ان پر آیتیں اس کی اور پاک کرتا ہے انکو یعنی شرک وغیرہ سے اور سکھلاتا ہے انکو
کتاب اور کام کی بات اور وہ تو پہلے سے صریح گمراہی میں تھے [۲۵۳]
|
اس
مضمون کی آیت سورۂ بقرہ میں دو جگہ گذر چکی ہے خلاصہ یہ ہے کہ حضور ﷺ کی
چار شانیں بیان کی گئیں۔ (۱) تلاوت آیات: (اللہ کی آیات پڑھ کر سنانا) جن کے
ظاہری معنی وہ لوگ اہل زبان ہونے کی وجہ سے سمجھ لیتےتھے اور اس پر عمل کرتے
تھے۔ (۲) تزکیہ نفوس: (نفسانی آلائشوں اور تمام مراتب شرک و معصیت سے ان کو پاک
کرنا اور دلوں کو مانجھ کر صقیل بنانا) یہ چیز آیات اللہ کے عام مضامین پر عمل
کرنے، حضور کی صحبت اور قلبی توجہ و تصرف سے باذن اللہ حاصل ہوتی تھی۔ (۳) تعلیم
کتاب: (کتاب للہ کی مراد بتلانا) اس کی ضرورت خاص خاص مواقع میں پیش آتی تھی ۔
مثلًا ایک لفظ کے کچھ معنی عام تباور اور محاورہ کے لحاظ سے سمجھ کر صحابہ کو
کوئی اشکال پیش آیا، اس قت آپ کتاب اللہ کی اصلی مراد جو قرائن مقام سے متعین
ہوتی تھی بیان فرما کر شبہات کا ازالہ فرما دیتے تھے، جیسے { اَلَّذِیْنَ
اٰمَنُوْاوَلَمْ یَلْبِسُوْااِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ } الخ اور دوسرے مقامات میں
ہوا۔ (۴) تعلیم حکمت: (حکمت کی گہری باتیں سکھلانا) اور قرآن کریم کے غامض اسرار
و لطائف اور شریعت کی دقیق و عمیق علل پر مطلع کرنا خواہ تصریحًا یا اشارۃً۔ آپ
نے خد اکی توفیق و اعانت سے علم و عمل کے ان اعلیٰ مراتب پر اس درماندہ قوم کو
فائز کیا جو صدیوں سے انتہائی جہل و حیرت اور صریح گمراہی میں غرق تھی۔ آپ کی
چند روزہ تعلیم و صحبت سے وہ ساری دنیا کے لئے ہادی و معلم بن گئ۔ لہذا انہیں
چاہیئے کہ اس نعمت عظمیٰ کی قدر پہچانیں۔ اور کبھی بھولے سے ایسی حرکت نہ کریں
جس سے آپ کا دل متالم ہو۔
|
یعنی
انہی کی جنس اور قوم کا ایک آدمی رسول بنا کر بھیجا جس کے پاس بیٹھنا بات چیت
کرنا، زبان سمجھنا اور ہر قسم کے انوار و برکات کا استفادہ کرنا آسان ہے، اس کے
احوال، اخلاق سوانح زندگی، امانت و دیانت خدا ترسی اور پاکبازی سے وہ خوب طرح
واقف ہیں۔ اپنی ہی قوم اور کنبے کے آدمی سےجب معجزات ظاہر ہوتے دیکھتےہیں تو
یقین لانے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے۔ فرض کرو کوئی جن یا فرشتہ رسول بنا کر بھیجا
جاتا تو معجزات دیکھ کر یہ خیال کر لینا ممکن تھا کہ چونکہ جنس بشر سے جداگانہ
مخلوق ہے شاید یہ خوارق اس کی خاص صورت نوعیہ اور طبیعت ملکیہ و جنیہ کا نتیجہ
ہوں، ہمارا اس سے عاجز رہ جانا دلیل نبوت نہیں بن سکتا بہرحال مومنین کو خدا کا
احسان ماننا چاہیئے کہ اس نے ایسا رسول بھیجا جس سے بےتکلف فیض حاصل کر سکتے ہیں
اور وہ باوجود معزز ترین اور بلند ترین منصب پر فائز ہونے کے ان ہی کے مجمع میں
نہایت نرم خوئی اور ملاطفت کے ساتھ گھلا ملا رہتا ہے ﷺ۔
|
وَما أَصٰبَكُم يَومَ
التَقَى الجَمعانِ فَبِإِذنِ اللَّهِ وَلِيَعلَمَ المُؤمِنينَ
{3:166}
|
اور
جو کچھ تم کو پیش آیا اس دن کہ ملیں دو فوجیں سو اللہ کے حکم سے اور اس واسطے کہ
معلوم کرے ایمان والوں کو
|
يَستَبشِرونَ بِنِعمَةٍ
مِنَ اللَّهِ وَفَضلٍ وَأَنَّ اللَّهَ لا يُضيعُ أَجرَ المُؤمِنينَ {3:171}
|
خوش
وقت ہوتے ہیں اللہ کی نعمت اور فضل سے اور اس بات سے کہ اللہ ضائع نہیں کرتا
مزدوری ایمان والوں کی [۲۶۳]
|
یعنی
گھر میں بیٹھے رہنے سے موت تو رک نہیں سکتی، ہاں آدمی اس موت سے محروم رہتا ہے
جس کو موت کے بجائے حیات جاودانی کہنا چاہئے۔ شہیدوں کو مرنے کے بعد ایک خاص طرح
کی زندگی ملتی ہے جو اور مُردوں کو نہیں ملتی، ان کو حق تعالیٰ کا ممتاز قرب
حاصل ہوتا ہے۔ بڑے عالی درجات و مقامات پر فائز ہوتے ہیں جنت کا رزق آزادی سے
پہنچتا ہے۔ جس طرح ہم اعلیٰ درجہ کے ہوائی جہازوں میں بیٹھ کر ذرا سی دیر میں
جہاں چاہیں اڑے چلے جاتےہیں، شہداء کی ارواح "جو اصل طیور خضر" میں
داخل ہو کر جنت کی سیر کرتی رہتی ہیں ۔ ان "طیور خضر" کی کیفیت و
کلانی کو اللہ ہی جانے، وہاں کی چیزیں ہمارے احاطۂ خیال میں کہاں آ سکتی ہیں اس
وقت شہداء بیحد مسرر و مبتہج ہو تے ہیں کہ اللہ نے اپنے فضل سے دولت شہادت عنایت
فرمائی۔ اپنی عظیم نعمتوں سے نوازا اور اپنے فضل سے ہر آن مزید انعامات کا سلسلہ
قائم کر دیا، جو وعدے شہیدوں کے لئے پیغمبر ﷺ کی زبانی کئے گئے تھے انہیں اپنی آنکھوں سے مشاہدہ
کر کے بے انتہا خوش ہوتے ہیں۔ اور دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کی
محنت ضائع نہیں کرتا۔ بلکہ خیال و گمان سے بڑھ کر بدلہ دیتا ہے۔ پھر نہ صرف یہ
کہ اپنی حالت پر شاداں و فرحاں ہوتے ہیں بلکہ اپنے ان مسلمان بھائیوں کا تصور کر
کے بھی انہیں ایک خاص خوشی حاصل ہوتی ہے جن کو اپنے پیچھے جہاد فی سبیل اللہ اور
دوسرے امور خیر میں مشغول چھوڑ آئے ہیں کہ وہ بھی اگر ہماری طرح اللہ کی راہ میں
مارے گئے یا کم از کم ایمان پر مرے تو اپنی اپنی حیثیت کےموافق ایسی ہی پر لطف
اور بےخوف زندگی کے مزے لوٹیں گے۔ نہ ان کو اپنے آگے کا ڈر ہوگا نہ پیچھے کا غم
مامون و مطمئن سیدھے خدا کی رحمت میں داخل ہو جائیں گے۔ شہدائے احد کی ایک تمنا:
بعض روایات میں ہے کہ شہدائے احد یا شہدائے بیر معونہ نے خدا کے ہاں پہنچ کر
تمنا کی تھی کہ کاش ہمارے اس عیش و تنعم کی خبر کوئی ہمارے بھائیوں کو پہنچا دے،
تا وہ بھی اس زندگی کی طرف جھپٹیں اور جہاد سے جان نہ چرائیں، حق تعالیٰ نے
فرمایا کہ میں پہنچاتا ہوں ۔ اس پر یہ آیات نازل کیں اور ان کو مطلع کر دیا گیا
کہ ہم نے تمہاری تمنا کے موافق خبر پہنچا دی، اس پر وہ اور زیادہ خوش ہوئے۔
|
ما كانَ اللَّهُ لِيَذَرَ المُؤمِنينَ عَلىٰ ما أَنتُم عَلَيهِ حَتّىٰ
يَميزَ الخَبيثَ مِنَ الطَّيِّبِ ۗ وَما كانَ اللَّهُ لِيُطلِعَكُم عَلَى
الغَيبِ وَلٰكِنَّ اللَّهَ يَجتَبى مِن رُسُلِهِ مَن يَشاءُ ۖ فَـٔامِنوا
بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۚ وَإِن تُؤمِنوا وَتَتَّقوا فَلَكُم أَجرٌ عَظيمٌ {3:179}
|
اللہ
وہ نہیں کہ چھوڑ دےمسلمانوں کو اس حالت پر جس پر تم ہو جب تک کہ جدا نہ کر دے
ناپاک کو پاک سے اور اللہ نہیں ہے کہ تم کو خبر دے غیب کی لیکن اللہ چھانٹ لیتا
ہے اپنے رسولوں میں جس کو چاہے [۲۷۰] سو تم یقین لاؤ اللہ پر اور اسکے رسولوں پر
اور اگر تم یقین پر رہو اور پرہیزگاری پر تو تم کو بڑا ثواب ہے [۲۷۱]
|
یعنی
جس طرح خوشحالی اور مہلت دینا کفار کے حق میں مقبولیت کی دلیل نہیں، اسی طرح اگر
مخلص مسلمانوں کو مصائب اور ناخوشگوار حوادث پیش آئیں (جیسے جنگ احد میں آئے) یہ
اس کی دلیل نہیں کہ وہ اللہ کے مغضوب ہیں، بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں
کو اس گول مول حالت پر چھوڑنا نہیں چاہتا جس پر اب تک رہے ہیں۔ یعنی بہت سے کافر
ازراہ نفاق کلمہ پڑھ کر دھوکہ دینے کے لئے ان میں ملے جلے رہتے تھے جن کے ظاہر
حال پر منافق کا لفظ کہنا مشکل تھا۔ لہذا ضرور ہے کہ خدا تعالیٰ ایسے واقعات و
حالات برروئے کار لائے جو کھرے کو کھوٹے سے اور پاک کو ناپاک سے کھلے طور پر جدا
کر دیں۔ بیشک خدا کو آسان تھا کہ تمام مسلمانوں کو بدون امتحان میں ڈالے منافقوں
کے ناموں اور کاموں سے مطلع کر دیتا۔ لیکن اس کی حکمت و مصلحت مقتضی نہیں کہ سب
لوگوں کو اس قسم کے غیوب سے آگاہ کر دیا کرے۔ ہاں وہ اپنے رسولوں کا انتخاب کر
کے جس قدر غیوب کی یقینی اطلاع دینا چاہے دے دیتا ہے ۔ خلاصہ یہ ہوا کہ عام
لوگوں کو بلا واسطہ کسی غیب کی یقینی اطلاع نہیں دی جاتی انبیاء علیہم السلام کو
دی جاتی ہے۔ مگر جس قدر خدا چاہے۔
|
یعنی
خدا کا جو خاص معاملہ پیغمبروں سے ہے، اور پاک و ناپاک کو جدا کرنے کی نسبت جو
عام عادت حق تعالیٰ کی رہی ہے اس میں زیادہ کاوش کی ضرورت نہیں، تمہارا کام یہ
ہے کہ اللہ و رسول کی باتوں پر یقین رکھو اور تقویٰ و پرہیزگاری پر قائم رہو۔ یہ
کر لیا تو سب کچھ کما لیا۔
|
فَقٰتِل فى سَبيلِ اللَّهِ
لا تُكَلَّفُ إِلّا نَفسَكَ ۚ وَحَرِّضِ المُؤمِنينَ
ۖ عَسَى اللَّهُ أَن يَكُفَّ بَأسَ الَّذينَ كَفَروا ۚ وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأسًا
وَأَشَدُّ تَنكيلًا {4:84}
|
سو
تو لڑ اللہ کی راہ میں تو ذمہ دار نہیں مگر اپنی جان کا اور تاکید کر مسلمانوں
کو قریب ہے کہ اللہ بند کر دے لڑائی کافروں کی [۱۳۶] اور اللہ بہت سخت ہے لڑائی
میں اور بہت سخت ہے سزا دینے میں [۱۳۷]
|
یعنی
اللہ تعالیٰ کی لڑائی اور اس کا عذاب کافروں کےساتھ لڑنے سے بہت سخت ہے سو جو
لوگ کافروں کےساتھ لڑنے اور ان کو مارنے اور ان کے ہاتھ سے مارے جانے سے ڈرتے
ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے غصہ اور اس کے عذاب کا کیونکر تحمل کر سکتے ہیں۔
|
یعنی
اگر کافروں کی لڑائی سے منافق اور کچے مسلمان جن کا ذکر اوپر گذرا ڈرتے ہیں تو
اے رسول تو تنہا اپنی ذات سے جہاد کرنے میں توقف مت کر اللہ تعالیٰ تیرا مددگار
ہے اور مسلمانوں کو جہاد کی تاکید کر دے جو ساتھ نہ دے اس کی پروا مت کر۔ امید
ہے کہ اللہ تعالی کافروں کی لڑائی کو روک دے گا۔ {فائدہ} جب یہ آیت نازل ہوئی تو
آپ نے فرمایا کہ میں ضرور جہاد کے لئے جاتا ہوں اگرچہ ایک بھی میرےساتھ نہ ہو
اور کل ستر ہمراہیوں کے ساتھ بدر صغریٰ کو بغرض جہاد تشریف لے گئے جس کا وعدہ
ابوسفیان سے غزوہ احد میں ہوا تھا جس کا ذکر پہلی سورت میں گذر چکا ہے حق تعالیٰ
نے ابو سفیان اور کفار قریش کے دل میں رعب اور خوف ڈال دیا کوئی مقابلہ میں نہ
آیا اور وعدے سے جھوٹے ہوئے اور حق سبحانہ نے اپنے ارشاد کے موافق کافروں کی
لڑائی کو بند کر دیا اور آپ ہمراہیوں سمیت خیر اور سلامتی کے ساتھ واپس تشریف لے
آئے۔
|
لا يَستَوِى القٰعِدونَ
مِنَ المُؤمِنينَ غَيرُ أُولِى الضَّرَرِ
وَالمُجٰهِدونَ فى سَبيلِ اللَّهِ بِأَموٰلِهِم وَأَنفُسِهِم ۚ فَضَّلَ اللَّهُ
المُجٰهِدينَ بِأَموٰلِهِم وَأَنفُسِهِم عَلَى القٰعِدينَ دَرَجَةً ۚ وَكُلًّا
وَعَدَ اللَّهُ الحُسنىٰ ۚ وَفَضَّلَ اللَّهُ المُجٰهِدينَ عَلَى القٰعِدينَ
أَجرًا عَظيمًا {4:95}
|
برابر
نہیں بیٹھ رہنے والے مسلمان جن کو کوئی عذر نہیں اور وہ مسلمان جو لڑنے والے ہیں
اللہ کی راہ میں اپنے مال سے اور جان سے اللہ نے بڑھا دیا لڑنے والوں کا اپنے
مال اور جان سے بیٹھ رہنے والوں پر درجہ اور ہر ایک سے وعدہ کیا اللہ نے بھلائی
کا اور زیادہ کیا اللہ نے لڑنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں سے اجر عظیم میں
|
فَإِذا قَضَيتُمُ
الصَّلوٰةَ فَاذكُرُوا اللَّهَ قِيٰمًا وَقُعودًا وَعَلىٰ جُنوبِكُم ۚ فَإِذَا
اطمَأنَنتُم فَأَقيمُوا الصَّلوٰةَ ۚ إِنَّ الصَّلوٰةَ كانَت عَلَى المُؤمِنينَ كِتٰبًا مَوقوتًا {4:103}
|
پھر
جن تم نماز پڑھ چکو تو یاد کرو اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے [۱۶۰] پھر جب
خوف جاتا رہے تو درست کرو نماز کو بیشک نماز مسلمانوں پر فرض ہے اپنے مقررہ
وقتوں میں [۱۶۱]
|
یعنی
خوف کے وقت بوجہ تنگی اور بےاطمینانی اگر نماز میں کسی طرح کی کوتاہی ہو گئ تو
نماز خوف سے فراغت کے بعد ہر وقت اور ہر حالت میں کھڑے ہو یا بیٹھے یا لیٹے اللہ
کو یاد کرو حتٰی کہ عین ہجوم اور مقاتلہ کے وقت بھی کیونکہ وقت کی تعین اور دیگر
قیود کی پابندی تو بحالت نماز تھی جن کی وجہ سے تنگی اور بےاطمینانی پیش آنے کا
موقع ہے اس کے سوا ہر حالت میں بلا وقت اللہ کو یاد کر سکتے ہو کسی حالت میں اس
کی یاد سے غافل نہ رہو عبداللہ بن عباسؓ نے اس آیت کے ذیل میں فرمایا کہ صرف وہ
شخص کہ جس کے عقل و حواس کسی وجہ سے مغلوب ہو جائیں البتہ معذور ہے ورنہ کوئی
شخص اللہ کی یاد نہ کرنے میں معذور نہیں۔
|
یعنی
جب خوف مذکور جاتا رہے اور خاطر جمع ہو جائے تو پھر نماز پڑھو اطمینان اور تعدیل
ارکان اور رعایت شروط اور محافظت آداب کے ساتھ پڑھو جیسا کہ امن کی حالت میں
پڑھنی چاہئے اور جن حرکات زائدہ کی اجازت دی گئ وہ حالت خوف کے ساتھ مخصوص ہے
بیشک نماز فرض ہے وقت معین میں سفر حضر اطمینان خوف ہر حالت میں اسی وقت میں ادا
کرنا ضرور ہے یہ نہیں کہ جب چاہو پڑھ لو یا مطلب ہے کہ نماز کے متعلق حق تعالیٰ
نے پورا ضبط اور تعین فرما دیا ہے کہ حضر میں کیا ہونا چاہئے اور سفر میں کیا
اطمینان میں کیا کرنا چاہئے اور خوف میں کیا سو ہر حالت میں اس کی پابندی چاہئے۔
|
وَمَن يُشاقِقِ الرَّسولَ
مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُ الهُدىٰ وَيَتَّبِع غَيرَ سَبيلِ المُؤمِنينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلّىٰ وَنُصلِهِ
جَهَنَّمَ ۖ وَساءَت مَصيرًا {4:115}
|
اور
جو کوئی مخالفت کرے رسول کی جبکہ کھل چکی اس پر سیدھی راہ اور چلے سب مسلمانوں
کے رستہ کے خلاف تو ہم حوالہ کریں گے اس کو وہی طرف جو اس نے اختیار کی اور
ڈالیں گے ہم اس کو دوزخ میں اور وہ بہت بری جگہ پہنچا [۱۷۲]
|
یعنی
جب کسی کو حق بات واضح ہو چکے پھر اس کے بعد بھی رسول کے حکم کی مخالفت کرے اور
سب مسلمانوں کو چھوڑ کر اپنی جُدی راہ اختیار کرے تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے جیسا
کہ اس چور نے کیا جس کا ذکر ہو چکا بجائے اس کے کہ قصور کا اعتراف کر کے توبہ
کرتا یہ کیا کہ ہاتھ کٹنے کے خوف سے بھاگ گیا اور مشرکین میں مل گیا۔ {فائدہ}
اکابر علماء نے اس آیت سے یہ مسئلہ بھی نکالا کہ اجماع امت کا مخالف اور منکر
جہنمی ہے یعنی اجماع امت کو ماننا فرض ہے۔ حدیث میں وارد ہے کہ اللہ کا ہاتھ ہے
مسلمانوں کی جماعت پر جس نے جُدی راہ اختیار کی وہ دوزخ میں جا پڑا۔
|
الَّذينَ يَتَّخِذونَ
الكٰفِرينَ أَولِياءَ مِن دونِ المُؤمِنينَ
ۚ أَيَبتَغونَ عِندَهُمُ العِزَّةَ فَإِنَّ العِزَّةَ لِلَّهِ جَميعًا {4:139}
|
وہ
جو بناتے ہیں کافروں کو اپنارفیق مسلمانوں کو چھوڑ کر کیا ڈھونڈھتے ہیں ان کے
پاس عزت سو عزت تو اللہ ہی کے واسطے ہے ساری [۲۰۰]
|
یعنی
منافق لوگ جو مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب
ہے اور ان کا یہ خیال کہ کافروں کے پاس بیٹھ کر ہم کو دنیا میں عزت ملے گی بالکل
غلط ہے سب عزت اللہ تعالیٰ کے واسطے ہے جو اس کی اطاعت کرے گا اس کو عزت ملے گی۔
خلاصہ یہ ہوا کہ ایسے لوگ دنیا اور آخرت میں ذلیل و خوار ہوں گے۔
|
الَّذينَ يَتَرَبَّصونَ
بِكُم فَإِن كانَ لَكُم فَتحٌ مِنَ اللَّهِ قالوا أَلَم نَكُن مَعَكُم وَإِن
كانَ لِلكٰفِرينَ نَصيبٌ قالوا أَلَم نَستَحوِذ عَلَيكُم وَنَمنَعكُم مِنَ المُؤمِنينَ ۚ فَاللَّهُ يَحكُمُ بَينَكُم يَومَ
القِيٰمَةِ ۗ وَلَن يَجعَلَ اللَّهُ لِلكٰفِرينَ عَلَى المُؤمِنينَ سَبيلًا {4:141}
|
وہ
منافق جو تمہاری تاک میں ہیں پھر اگر تم کو فتح ملے اللہ کی طرف سے تو کہیں کیا
ہم نہ تھےتمہارے ساتھ اور اگر نصیب ہو کافروں کو تو کہیں کیا ہم نےگھیر نہ لیا
تھا تم کو اور بچا دیا تم کو مسلمانوں سے [۲۰۲] سو اللہ فیصلہ کرے گا تم میں
قیامت کےدن اور ہرگز نہ دے گا اللہ کافروں کو مسلمانوں پر غلبہ کی راہ [۲۰۳]
|
یعنی
یہ منافق وہ ہیں جو برابر تمہاری تاک اور انتطار میں لگے رہتے ہیں پھر اگر
تمہاری فتح ہو تو تم سےکہتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھی نہیں مال غنیمت میں ہم
کو بھی شریک کرو اور اگر کافروں کو لڑائی میں کچھ حصہ مل گیا یعنی وہ غالب ہوئے
تو ان سے کہتے ہیں کہ کیا ہم نے تم کو گھیر نہ لیا تھا اور تمہاری حفاظت نہیں کی
اور ہم نے کیا تم کو مسلمانوں کے ضرر سے نہیں بچایا۔ لوٹ میں ہم کو بھی حصہ دو۔
{فائدہ} اس سے معلوم ہوا کہ دین حق پر ہو کر گمراہوں سے بھی بنائے رکھنا یہ بھی
نفاق کی بات ہے۔
|
یعنی
اللہ تعالیٰ تم میں اور ان میں حکم فیصل فرما دے گا کہ تم کو جنت دے گا اور ان
کو جہنم میں ڈالے گا۔ دنیا میں جو کچھ ان سے ہو سکے کر دیکھیں مگر اہل ایمان کی
بیخ کنی ہرگز نہ کر سکیں گے جو انکی دلی تمنا ہے۔
|
يٰأَيُّهَا الَّذينَ
ءامَنوا لا تَتَّخِذُوا الكٰفِرينَ أَولِياءَ مِن دونِ المُؤمِنينَ ۚ أَتُريدونَ أَن تَجعَلوا لِلَّهِ
عَلَيكُم سُلطٰنًا مُبينًا {4:144}
|
اے
ایمان والو نہ بناؤ کافروں کو اپنا رفیق مسلمانوں کو چھوڑ کر کیا لیا چاہتے ہو
اپنے اوپر اللہ کا الزام صریح
|
إِلَّا الَّذينَ تابوا
وَأَصلَحوا وَاعتَصَموا بِاللَّهِ وَأَخلَصوا دينَهُم لِلَّهِ فَأُولٰئِكَ مَعَ المُؤمِنينَ ۖ وَسَوفَ يُؤتِ اللَّهُ المُؤمِنينَ أَجرًا عَظيمًا {4:146}
|
مگر
جنہوں نے توبہ کی اور اپنی اصلاح کی اور مضبوط پکڑا اللہ کو اور خالص حکم بردار
ہوئے اللہ کے سو وہ ہیں ایمان والوں کےساتھ اور جلد دے گا اللہ ایمان والوں کو
بڑا ثواب [۲۰۸]
|
یعنی
جو منافق اپنے نفاق سے توبہ کرے اور اپنے اعمال کی درستی کرے اور اللہ کے پسندیدہ
دین کو مضبوط پکڑ ے اور اللہ پر توکل کرے اور ریا وغیرہ خرابیوں سے دین کو پاک و
صاف رکھے تو وہ خالص مسلمان ہے دین و دنیا میں ایمان والوں کے ساتھ ہوگا اور
ایمان والوں کو بڑا ثواب ملنے والا ہے ان کے ساتھ ان کو بھی ملے گا جنہوں نے
نفاق سے سچی توبہ کی۔
|
يٰأَيُّهَا الَّذينَ
ءامَنوا مَن يَرتَدَّ مِنكُم عَن دينِهِ فَسَوفَ يَأتِى اللَّهُ بِقَومٍ
يُحِبُّهُم وَيُحِبّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى المُؤمِنينَ
أَعِزَّةٍ عَلَى الكٰفِرينَ يُجٰهِدونَ فى سَبيلِ اللَّهِ وَلا يَخافونَ لَومَةَ
لائِمٍ ۚ ذٰلِكَ فَضلُ اللَّهِ يُؤتيهِ مَن يَشاءُ ۚ وَاللَّهُ وٰسِعٌ عَليمٌ
{5:54}
|
اے
ایمان والو جو کوئی تم میں پھرے گا اپنے دین سے تو اللہ عنقریب لاوے گا ایسی قوم
کو کہ اللہ انکو چاہتا ہے اور وہ اس کو چاہتے ہیں نرم دل ہیں مسلمانوں پر زبردست
ہیں کافروں پر لڑتے ہیں اللہ کی راہ میں اور ڈرتے نہیں کسی کے الزام سے [۱۶۸] یہ
فضل ہے اللہ کا دے گا جس کو چاہے اور اللہ کشائش والا ہے خبردار [۱۶۹]
|
اس
آیت میں اسلام کی ابدی بقا اور حفاظت کے متعلق عظیم الشان پیشگوئی کی گئ ہے۔
پچھلی آیات میں کفار کی موالات سے منع کیا گیا تھا۔ ممکن تھا کہ کوئی شخص یا قوم
موالات کفار کی بدولت صریحًا اسلام سے پھر جائے جیسا کہ { وَمَنْ یَّتَوَ
لَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ } میں تنبیہ کی گئ ہے قرآن کریم نے نہایت
قوت اور صفائی سے آگاہ کر دیا کہ ایسے لوگ اسلام سے پھر کر کچھ اپنا ہی نقصان
کریں گے اسلام کو کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتے حق تعالیٰ مرتدین کے بدلے میں یا ان
کے مقابلہ پر ایسی قوم لے آئے گا جن کو خدا کا عشق ہو اور خدا ان سے محبت کرے وہ
مسلمانوں پر شفیق و مہربان اور دشمنان اسلام کے مقابلہ میں غالب اور زبردست ہوں
گے۔ یہ پیشن گوئی بحول اللہ و قوتہ ہر قرن میں پوری ہوتی رہی۔ ارتداد کا سب سے
بڑا فتنہ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد صدیق اکبرؓ کے دور
میں پھیلا۔ کئ طرح کے
مرتدین اسلام کے مقابلہ میں کھڑے ہو گئے۔ مگر صدیق اکبرؓ کی ایمانی جرأت اور
اعلیٰ تدبر اور مخلص مسلمانوں کی سرفروشانہ اور عاشقانہ خدمات اسلام نے اس آگ کو
بجھایا اور سارے عرب کو متحد کر کے ازسرنو اخلاص و ایمان کے راستہ پر گامزن کر
دیا۔ آج بھی ہم مشاہدہ کر تے رہتے ہیں کہ جب کبھی چند جاہل اور طامع افراد اسلام
کے حلقہ سے نکلنے لگتے ہیں تو ان سے زیادہ اور ان سے بہتر تعلیم یافتہ اور محقق
غیر مسلموں کو اسلام فطری کشش سے اپنی طرف جذب کر لیتا ہے اور مرتدین کی سرکوبی
کے لئے خدا ایسے وفادار اور جان نثار مسلمانوں کو کھڑا کر دیتا ہے جنہیں خدا کے
راستہ میں کسی کی ملامت اور طعن و تشنیع کی پروا نہیں ہوتی۔
|
انسان
پر بڑی سعادت اور اس پر خدا کا بڑا فضل یہ ہے کہ وہ فتنہ کے وقت خود جادہ حق پر
ثابت قدم رہ کر دوسروں کو ہلاکت سے بچانے کی فکر کرے۔ خدا جن بندوں کو چاہے اس
سعادت کبریٰ اور فضل عظیم سے حصہ وافر عطا فرماتا ہے۔ اس کا فضل غیر محدود ہے
اور وہ ہی خوب جانتا ہے کہ کون سا بندہ اس کا اہل اور مستحق ہے۔
|
وَلَو تَرىٰ إِذ وُقِفوا
عَلَى النّارِ فَقالوا يٰلَيتَنا نُرَدُّ وَلا نُكَذِّبَ بِـٔايٰتِ رَبِّنا
وَنَكونَ مِنَ المُؤمِنينَ {6:27}
|
اور
اگر تو دیکھے جس وقت کہ کھڑے کئے جاویں گے وہ دوزخ پر پس کہیں گے اے کاش ہم پھر
بھیجدئے جاویں اور ہم نہ جھٹلائیں اپنے رب کی آیتوں کو اور ہو جاویں ہم ایمان
والوں میں [۳۱]
|
یعنی
آیات اللہ کی تکذیب و استہزاء وغیرہ ساری فوں فاں اس وقت تک ہے جب تک خدائی سزا
کا ہولناک و ہوشربا منظر سامنے نہیں۔ جس وقت دوزخ کی ذرا سی ہوا بھی لگ جائے گی
تو ساری شیخی کرکری ہو جائے گی اور ہزار تمنا یہ درخواست کریں گے کہ ہم کو دنیا
میں دوبارہ بھیج دیا جائے۔ تاکہ آئندہ کبھی اپنے رب کی آیتوں کو نہ جھٹلائیں اور
پکے ایماندار بن کر رہیں۔ "الآن قد ندمت وما ینفع الندم"
|
وَلَمّا جاءَ موسىٰ
لِميقٰتِنا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قالَ رَبِّ أَرِنى أَنظُر إِلَيكَ ۚ قالَ لَن
تَرىٰنى وَلٰكِنِ انظُر إِلَى الجَبَلِ فَإِنِ استَقَرَّ مَكانَهُ فَسَوفَ
تَرىٰنى ۚ فَلَمّا تَجَلّىٰ رَبُّهُ لِلجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ موسىٰ
صَعِقًا ۚ فَلَمّا أَفاقَ قالَ سُبحٰنَكَ تُبتُ إِلَيكَ وَأَنا۠ أَوَّلُ المُؤمِنينَ {7:143}
|
اور
جب پہنچا موسٰی ہمارے وعدہ پر اور کلام کیا اس سے اسکے رب نے بولا اے میرے رب تو
مجھ کو دکھا کہ میں تجھ کو دیکھوں [۱۶۷] فرمایا تو مجھ کو ہر گز نہ دیکھے گا
[۱۶۸] لیکن تو دیکھتا رہ پہاڑ کی طرف اگر وہ اپنی جگہ ٹھہرا رہا تو تو مجھ کو
دیکھ لے گا [۱۶۹] پھر جب تجلی کی اسکے رب نے پہاڑ کی طرف کر دیا اس کو ڈھا کر
برابر اور گر پڑ اموسٰی بےہوش ہو کر [۱۷۰] پھر جب ہوش میں آیا بولا تیری ذات پاک
ہے میں نے توبہ کی تیری طرف اور میں سب سے پہلے یقین لایا [۱۷۱]
|
یعنی
پاک ہے اس سے کہ کسی مخلوق کے مشابہ ہو اور یہ فانی آنکھیں اس کے دیدار کا تحمل
کر سکیں۔ تیری پاکی اور برتری کا اقتضاء یہ ہے کی کسی چیز کی طلب تیری اجازت کے
بدون نہ کی جائے۔ میں توبہ کرتا ہں کہ فرط اشتیاق میں بدون اجازت کے ایک نازیبا
درخواست کر گذرا۔ میں اپنے زمانہ کے سب لوگوں سے پہلے تیری عظمت و جلال کا یقین
رکھتا ہوں اور پہلا وہ شخص ہوں جسے ذوقی و عیانی طریق پر منکشف ہوا کہ خداوند
قدوس کی رویت دنیا میں ان ظاہری آنکھوں سے واقع نہیں ہو سکتی۔
|
حق
تعالیٰ کی تجلیات بہت طرح کی ہیں اور یہ خدا کا ارادی فعل ہے کہ جس چیز پر جس
طرح چاہے تجلی فرمائے۔ پہاڑ پر جو تجلی ہوئی اس نے معًا پہاڑ کے خاص حصہ کو ریزہ
ریزہ کر ڈالا، اور موسٰیؑ چونکہ محل تجلی سے قریب تھے، ان پر اس قرب محل اور
پہاڑ کے ہیبتناک منظر دیکھنے کا یہ اثر ہوا کہ بیہوش ہو کر گر پڑے۔ بلا تشبیہ
یوں سمجھ لیجئےکہ بجلی جس چیز پر گرتی ہے اسے جلا کر ایک آن میں کس طرح خاک سیاہ
کر دیتی ہے اور جو لوگ اس مقام کے قریب ہوتے ہیں، بسا اوقات انہیں بھی کم و بیش
صدمہ پہنچ جاتا ہے۔
|
یعنی
تم پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو، ہم اپنے جمال مبارک کی ایک ذرا سی جھلک اس پر
ڈالتےہیں۔ اگر پہاڑ جیسی سخت اور مضبوط چیز اس کو برداشت کر سکی تو ممکن ہے تم
کو بھی اس کا تحمل کرا دیا جائے۔ ورنہ سمجھ لیجئے کہ جس چیز کا تحمل پہاڑ سے نہ
ہو سکے، کسی انسان کی مادی ترکیب اور جسمانی آنکھیں اسے کیسے برداشت کر سکتی
ہیں۔ اگرچہ قلبی اور روحانی طاقت کے اعتبار سے زمین، آسمان، پہاڑ ، سب چیزوں سے
انسان فائق ہو۔ اور اسی لئے موسٰیؑ جس وحی الہٰی کے حامل تھے بلکہ دوسرے انسان
بھی جس امانت عظیمہ کے حامل ہیں، پہاڑ وغیرہ اس کے اٹھانے پر قادر نہیں۔ {
فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَھَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْھَا وَحَمَلَھَا
الْاِنْسَانُ} (احزاب رکوع۹) { لَوْ اَنْزَلْنَا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ
لَّرَاَیْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّ عًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللہِ } (الحشر رکوع۳)
تاہم جس چیز کا تعلق ظاہری آنکھوں یا بدن کی مالی قوت سے ہو، اس میں انسان دوسری
عظیم الخلقت چیزوں سے بہت کمزور واقع ہوا ہے { لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ
الْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا
یَعْلَمُوْنَ } (المومن رکوع۶) { وَخُلِقَ الَاِنْسَانُ ضَعِیْفًا } (نساء
رکوع۵) اس جگہ موسٰیؑ کو انسانی وجود کی اسی کمزوری کی طرف توجہ دلائی گئ ہے۔
|
یعنی
دنیا میں کسی مخلوق کا یہ فانی وجود اور فانی قویٰ اس ذوالجلال الاکرام لم یزل
ولا یزال کے دیدار کا تحمل نہیں کر سکتے۔ اس سے ثابت ہوا کہ دنیا میں کسی کا موت
سے پہلے دیدار خداوندی کا شرف حاصل ہونا شرعًا ممتنع ہے۔ گو عقلًا ممکن ہو۔
کیونکہ اگر امکان عقلی بھی نہ مانا جائے، تو موسٰیؑ جیسے جلیل القدر پیغمبر کی
نسبت یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ایک محال عقلی کی درخواست کرتے۔ اہل السنت
والجماعت کا یہ ہی مذہب ہے کہ رویت باری دنیا میں عقلًا ممکن، شرعًا ممتنع الوقوع
ہےاور آخرت میں اس کا وقوع نصوص قطعیہ سے ثابت ہے۔ رہی رسول اللہ ﷺ کی رویت شب معراج میں، وہ اختلافی مسئلہ ہے جس کا ذکر انشاء
اللہ سورہ نجم میں آئے گا۔
|
چالیس
دن کی میعاد پوری ہو چکنے پر حق تعالیٰ نے موسٰیؑ کو کسی مخصوص و ممتاز رنگ میں
شرف مکالمہ بخشا۔ اس وقت حضرت موسٰیؑ کو بلاواسطہ کلام الہٰی سننے کی لذت بے
پایاں حاصل ہوئی تو کمال اشتیاق سے متکلم کے دیدار کی آرزو کرنے لگے۔ اور
بےساختہ درخواست کر دی { رَبِّ اَرِنِیْٓ اَنْظُرْ اِلَیْکَ } اے پروردگار !
میرے اور اپنے درمیان سے حجاب اور موانع اٹھا دیجئے اور وجہ انور بےحجاب سامنے
کر دیجئے کہ ایک نظر دیکھ سکوں۔
|
كَما أَخرَجَكَ رَبُّكَ مِن
بَيتِكَ بِالحَقِّ وَإِنَّ فَريقًا مِنَ المُؤمِنينَ
لَكٰرِهونَ {8:5}
|
جیسے
نکالا تجھ کو تیرے رب نے تیرے گھر سے حق کام کے واسطے اور ایک جماعت اہل ایمان
کی راضی نہ تھی
|
فَلَم تَقتُلوهُم وَلٰكِنَّ
اللَّهَ قَتَلَهُم ۚ وَما رَمَيتَ إِذ رَمَيتَ وَلٰكِنَّ اللَّهَ رَمىٰ ۚ
وَلِيُبلِىَ المُؤمِنينَ مِنهُ بَلاءً
حَسَنًا ۚ إِنَّ اللَّهَ سَميعٌ عَليمٌ {8:17}
|
سو
تم نے ان کو نہیں مارا لیکن اللہ نے ان کو مارا اور تو نے نہینں پھینکی مٹھی خا
ک کی جس وقت کہ پھینکی تھی لیکن اللہ نے پھینکی اور تاکہ کرے ایمان والوں پر
اپنی طرف سے خوب احسان بیشک اللہ ہے سننے والا جاننے والا [۱۰]
|
جب
جنگ کی شدت ہوئی تو حضور ﷺ نے ایک مٹھی کنکریاں لشکر کفار کی طرف
پھینکیں اور تین مرتبہ "شاھت الوجوہ" فرمایا۔ خدا کی قدرت سے کنکریوں
کے ریزے ہر کافر کی آنکھ میں پہنچے وہ سب آنکھیں ملنے لگے۔ ادھر سے مسلمانوں نے
فوراً دھاوا بول دیا، آخر بہت سے کفار کھیت رہے۔ اسی کو فرماتے ہیں کہ گو بظاہر
کنکریاں تم نے اپنے ہاتھ سے پھینکی تھیں لیکن کسی بشر کا یہ فعل عادۃً ایسا نہیں
ہو سکتا کہ مٹھی بھر کنکریاں ہر سپاہی کی آنکھ میں پڑ کر ایک مسلح لشکر کی ہزیمت
کا سبب بن جائیں یہ صرف خدائی ہاتھ تھا جس نے مٹھی بھر سنگریزوں سے فوجوں کے منہ
پھیر دیے، تم بے سروسامان قلیل التعداد مسلمانوں میں اتنی قدرت کہاں تھی کہ محض
تمہارے زور بازو سے کافروں کے ایسے ایسے منڈ مارے جاتے، یہ تو خدا ہی کی قدرت کا
کرشمہ ہے کہ اس نے ایسے متکبر سرکشوں کو فنا کے گھاٹ اتارا ہاں یہ ضرور ہے کہ
بظاہر کام تمہارے ہاتھوں سے لیا گیا اور ان میں وہ فوق العادۃ قوت پیدا کر دی
جسے تم اپنے کسب و اختیار سے حاصل نہ کر سکتے تھے یہ اس لئے کیا گیا کہ خدا کی
قدرت ظاہر ہو اور مسلمانوں پر پوری مہربانی اور خوب طرح احسان کیا جائے۔ بیشک
خدا مومنین کی دعا و فریاد کو سنتا اور ان افعال و احوال کو بخوبی جانتا ہے اور
یہ بھی جانتا ہے کہ مقبول بندوں پر کس وقت کس عنوان سے احسان کرنا مناسب ہے۔
|
إِن تَستَفتِحوا فَقَد
جاءَكُمُ الفَتحُ ۖ وَإِن تَنتَهوا فَهُوَ خَيرٌ لَكُم ۖ وَإِن تَعودوا نَعُد
وَلَن تُغنِىَ عَنكُم فِئَتُكُم شَيـًٔا وَلَو كَثُرَت وَأَنَّ اللَّهَ مَعَ المُؤمِنينَ {8:19}
|
اگر
تم چاہتے ہو فیصلہ تو پہنچ چکا تمہارے پاس فیصلہ اور اگر باز آؤ تو تمہارے لئے
بہتر ہے اور اگر پھر یہی کرو گے تو ہم بھی پھر یہی کریں گے اور کچھ کام نہ آئے
گا تمہارے تمہارا جتھا اگرچہ بہت ہوں اور جان لو کہ اللہ ایمان والوں کے ساتھ ہے
[۱۲]
|
یہ
خطاب کفار مکہ کو ہے وہ ہجرت سے پہلے حضور ﷺ سے کہا کرتے تھے { متٰی ھٰذا الفتح اِنْ کُنْتُمْ
صَادِقِیْنَ }۔ یعنی ہمارے
تمہارے درمیان یہ فیصلہ کب ہو گا؟ سو پورا فیصلہ تو قیامت کے دن ہو گا۔ مگر ایک
طرح کا فیصلہ آج میدان بدر میں بھی تم نے دیکھ لیا کہ کیسے خارق عادت طریق سے تم
کو کمزور مسلمانوں کے ہاتھوں سے سزا ملی۔ اب اگر نبی علیہ السلام کی مخالفت او
رکفر و شرک سے باز آ جاؤ تو تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بہتری ہے۔ ورنہ اگر پھر
اسی طرح لڑائی کرو گے تو ہم بھی پھر اسی طرح مسلمانوں کی مدد کریں گے اور انجام
کار تم ذلیل و خوار ہو گے۔ جب خدا کی تائید مسلمانوں کے ساتھ ہے تو تمہارے جتھے
اور جماعتیں خواہ کتنی ہی تعداد میں ہوں کچھ کام نہ آئیں گے بعض روایات میں ہے
کہ ابوجہل وغیرہ نے مکہ سے روانگی کے وقت کعبہ کے پردے پکڑ کر دعاء کی تھی کہ
خداوندا ! دونوں فریق میں جو اعلیٰ و اکرم ہو اسے فتح دے اور فساد مچانے والے کو
مغلوب کر { فَقَدْ جَآءَ کُمُ الْفَتْحُ } میں اس کا بھی جواب ہو گیا کہ جو
واقعی "اعلیٰ و افضل" تھے ان کو فتح مل گئ اور مفسد ذلیل و رسوا ہوئے۔
|
يٰأَيُّهَا النَّبِىُّ
حَسبُكَ اللَّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ المُؤمِنينَ
{8:64}
|
اے
نبی کافی ہے تجھ کو اللہ اور جتنے تیرے ساتھ ہیں مسلمان [۷۲]
|
اس
کےدو معنی ہو سکتے ہیں۔ اکثر سلف کے نزدیک یہ مطلب ہے کہ اے پیغمبر! خدا تجھ کو
اور تیرے ساتھیوں کو کافی ہے۔ یعنی قلت عدد اور بےسروسامانی وغیرہ سے گھبرانا
نہیں چاہئے۔ اور بعض علماء نے یہ معنی لئے ہیں کہ اے پیغمبر! تجھ کو فی الحقیقت
اکیلا خدا کافی ہے اور ظاہر اسباب کےاعتبار سے مخلص مسلمانوں کی جماعت خواہ کتنی
ہی تھوڑی ہو کافی ہے ۔ پہلے جو فرمایا تھا { اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَ
بِالْمُؤْمِنِیْنَ } گویا یہ اسی کا خلاصہ ہوا۔
|
يٰأَيُّهَا النَّبِىُّ
حَرِّضِ المُؤمِنينَ عَلَى القِتالِ ۚ
إِن يَكُن مِنكُم عِشرونَ صٰبِرونَ يَغلِبوا مِا۟ئَتَينِ ۚ وَإِن يَكُن مِنكُم
مِا۟ئَةٌ يَغلِبوا أَلفًا مِنَ الَّذينَ كَفَروا بِأَنَّهُم قَومٌ لا يَفقَهونَ
{8:65}
|
اے
نبی شوق دلا مسلمانوں کو لڑائی کا اگر ہوں تم میں بیس شخص ثابت قدم رہنے والے تو
غالب ہوں دو سو پر اور اگر ہوں تم میں سو شخص تو غالب ہوں ہزار کافروں پر اس
واسطے کہ وہ لوگ سمجھ نہیں رکھتے [۷۳]
|
یہ
مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دی کہ تھوڑے بھی ہوں تو جی نہ چھوڑیں۔ خدا کی رحمت سے
دس گنے دشمنوں پر غالب آئیں گے۔ سبب یہ ہےکہ مسلمان کی لڑائی محض خدا کے لئے ہے۔
وہ خدا کی اور اس کی مرضی کو پہچان کر اور یہ سمجھ کر میدان جنگ میں قدم رکھتا
ہے کہ خدا کے راستہ میں مرنا اصلی زندگی ہے اس کو یقین ہےکہ میری تمام قربانیوں
کا ثمرہ آخرت میں ضرور ملنے والا ہے خواہ میں غالب ہوں یا مغلوب اور اعلائے کلمۃ
اللہ کے لئے جو تکلیف میں اٹھاتا ہوں وہ فی الحقیقت مجھ کو دائمی خوشی اور ابدی
مسرت سے ہمکنار کرنے والی ہے۔ مسلمان جب یہ سمجھ کر جنگ کرتا ہے تو تائید ایزدی
مددگار ہوتی ہے اور موت سے وحشت نہیں رہتی ۔ اسی لئے پوری دلیری اور بےجگری سے
لڑتا ہے۔ کافر چونکہ اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکتا۔ اس لئے محض حقیر اور فانی
اغراض کے لئے بہائم کی طرح لڑتا ہے اور قوت قلبی اور امداد غیبی سے محروم رہتا ہے
۔ بناءً علیہ خبر اور بشارت کے رنگ میں حکم دیا گیا کہ مومنین کو اپنے سے دس گنے
دشمنوں کے مقابلہ میں ثابت قدمی سے لڑنا چاہئے۔ اگر مسلمان بیس ہوں تو دو سو کے
مقابلہ سے نہ ہٹیں اور سو ہوں تو ہزار کو پیٹھ نہ دکھلائیں۔ (تنبیہ) بیس اور سو
دو عدد شاید اس لئے بیان فرمائے کہ اس وقت مسلمانوں کی تعداد کے لحاظ سے
"سریہ" میں کم از کم بیس اور "جیش" میں ایک سو سپاہی ہوتے
ہوں گے۔ اگلی آیت مدت کے بعد اتری اس وقت مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئ تھی۔ اس لئے
سریہ کم ازکم ایک سو کا اور جیش ایک ہزار کا ہو گا۔ دونوں آیتوں میں بیان نسبت کے
وقت اعداد کا تفاوت یہ ظاہر کرتا ہے کہ اگلی آیت کے نزول کے وقت مسلمانوں کی
مردم شماری بڑھ گئ تھی۔
|
أَم حَسِبتُم أَن تُترَكوا
وَلَمّا يَعلَمِ اللَّهُ الَّذينَ جٰهَدوا مِنكُم وَلَم يَتَّخِذوا مِن دونِ
اللَّهِ وَلا رَسولِهِ وَلَا المُؤمِنينَ
وَليجَةً ۚ وَاللَّهُ خَبيرٌ بِما تَعمَلونَ {9:16}
|
کیا
تم یہ گمان کرتے ہو کہ چھوٹ جاؤ گے اور حالانکہ ابھی معلوم نہیں کیا اللہ نے تم
میں سے ان لوگوں کو جنہوں نے جہاد کیا ہے اور نہیں پکڑا انہوں نے سوا اللہ کے
اور اسکے رسول کے اور مسلمانوں کے کسی کو بھیدی اور اللہ کو خبر ہے جو تم کر رہے
ہو [۱۶]
|
مشروعیت
جہاد کی یہاں ایک اور حکمت بیان فرمائی ۔ یعنی ایمان اور بندگی کے زبانی دعوے
کرنے والے تو بہت ہیں لیکن امتحان کی کسوٹی پر جب تک کسا نہ جائے کھرا اور کھوٹا
ظاہر نہیں ہوتا ۔ جہاد کے ذریعہ سے خدا دیکھنا چاہتا ہے کہ کتنے مسلمان ہیں جو
اس کی راہ میں جان و مال نثار کرنے کو تیار ہیں اور خدا اور رسول اور مسلمانوں
کے سوا کسی کو اپنا رازدار یا خصوصی دوست بنانا نہیں چاہتے خواہ وہ ان کا کتنا
ہی قریبی رشتہ دار کیوں نہ ہو۔ یہ معیار ہے جس پر مومنین کا ایمان پرکھا جاتا
ہے۔ جب تک عملی جہاد نہ ہو صرف زبانی جمع خرچ سے کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ پھر
عمل بھی جو کچھ کیا جائے اس کی خبر خدا کو ہے کہ صدق و اخلاص سے کیا یا نمود و
ریا سے جیسا عمل ہو گا ادھر سے اسی کے موافق پھل ملے گا۔
|
ثُمَّ أَنزَلَ اللَّهُ
سَكينَتَهُ عَلىٰ رَسولِهِ وَعَلَى المُؤمِنينَ
وَأَنزَلَ جُنودًا لَم تَرَوها وَعَذَّبَ الَّذينَ كَفَروا ۚ وَذٰلِكَ جَزاءُ
الكٰفِرينَ {9:26}
|
پھر
اتاری اللہ نے اپنی طرف سے تسکین اپنے رسول پر اور ایمان والوں پر اور اتاریں
فوجیں کہ جنکو تم نے نہیں دیکھا اور عذاب دیا کافروں کو اور یہ سزا ہے منکروں کی
[۲۲]
|
پچھلی
آیت میں تنبیہ کی گئ تھی کہ جہاد فی سبیل اللہ کے وقت مومنین کو کنبہ ، برادری ،
اموال و املاک وغیرہ کسی چیز پر نظر نہ ہونی چاہئے یہاں آگاہ فرمایا ہے کہ
مجاہدین کو خود اپنی فوجی جمعیت و کثرت پر گھمنڈ نہ کرنا چاہئے ۔ نصرت و کامیابی
اکیلے خدا کی مدد سے ہے ۔ جس کا تجربہ پیشتر بھی بہت سےمیدانوں میں تم کر چکے
ہو۔ بدر ، قریظہ و نضیر اور حدیبیہ وغیرہ میں جو کچھ نتائج رونما ہوئے ، وہ محض
امدا الہٰی و تائید غیبی کا کرشمہ تھا ۔ اور اب اخیر میں غزوہ حنین کا واقعہ تو
ایسا صریح اور عجیب و غریب نشان آسمانی نصرت و امداد کا ہے جس کا اقرار سخت
معاند دشمنوں تک کو کرنا پڑا ہے ۔ فتح مکہ کے بعد فورًا آپ کو اطلاع ملی کہ
ہوازن و ثقیف وغیرہ بہت سے قبائل عرب نے ایک لشکر جرار تیار کر کے بڑے سازوسامان
سے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا ہے ۔ یہ خبر پاتے ہی آپ نے دس ہزار
مہاجرین و انصار کی فوج گراں لے کر جو مکہ فتح کرنے کے لئے مدینہ سے ہمراہ آئی
تھی ، طائف کی طرف کوچ کر دیا۔ دو ہزار طلقاء بھی جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئے
تھے آپ کے ہمراہ تھے یہ پہلا موقع تھا کہ بارہ ہزار کی عظیم الشان جمعیت کیل کانٹے
سے لیس ہو کر میدان جہاد میں نکلے ۔ یہ منظر دیکھ کر بعض صحابہ سےنہ رہا گیا اور
بےساختہ بول اٹھے کہ (جب ہم بہت تھوڑے تھے اس وقت ہمیشہ غالب رہے تو) آ ج ہماری
اتنی بڑی تعداد کسی سے مغلوب ہونے والی نہیں۔ یہ جملہ مردان توحید کی زبان سے
نکلنا "بارگاہ احدیت" میں ناپسند ہوا۔ ابھی مکہ سے تھوڑی دور نکلے تھے
کہ دونوں لشکر مقابل ہو گئے ۔ فریق مخالف کی جمعیت چار ہزار تھی جو سر کو کفن
باندھ کر اور سب عورتوں بچوں کو ساتھ لے کر ایک فیصلہ کن جنگ کے لئے پوری تیاری
سے نکلے تھے ۔ اونٹ ، گھوڑے ، مواشی اور گھروں کا کل اندوختہ کوڑی کوڑی کر کے
اپنے ہمراہ لے آئے تھے ۔ ہوازان کا قبیلہ تیر اندازی کے فن مین سارے عرب میں
شہرت رکھتا تھا۔ اس کے بڑے ماہر تیر اندازوں کا دستہ ودای حنین کی پہاڑیوں میں
گھات لگائے بیٹھا تھا۔ صحیحین میں براء بن عازب کی روایت ہے کہ پہلے معرکہ میں
کفار کو ہزیمت ہوئی، وہ بہت سا مال چھوڑ کر پسپا ہو گئے یہ دیکھ کر مسلمان سپاہی
غنیمت کی طرف جھک پڑے ۔ اس وقت ہوازن کے تیراندازوں نے گھات سے نکل کر ایک دم
دھاوا بول دیا۔ آن واحد میں چاروں طرف سے اس قدر تیر برسائے کہ مسلمانوں کو قدم
جمانا مشکل ہو گیا۔ اول طلقاء میں بھاگڑ پڑی۔ آخر سب کے پاؤں اکھڑ گئے ، زمین
باوجود فراخی کے تنگ ہو گئ کہ کہیں پناہ کی جگہ نہ ملتی تھی حضور پر نور ﷺ مع چند رفقاء کے دشمنوں کے نرغہ میں تھے۔ ابوبکر ، عمر ، عباس علی ، عبداللہ بن مسعود
وغیرہ رضی اللہ عنہم تقریبًا سو اسی صحابہ بلکہ بعض اہل سیر کی تصریح کے موافق
کل دس نفوس قدسیہ (عشرہ کاملہ) میدان جنگ میں باقی رہ گئے جو پہاڑ سے زیادہ
مستقیم نطر آتے تھے ۔ یہ خاص موقع تھا جبکہ دنیا نے پیغمبرانہ صداقت و توکل اور
معجزانہ شجاعت کا ایک محیرالعقول نظارہ ان ظاہری آنکھوں سے دیکھا آپ سفید خچر پر
سوار ہیں عباس ایک رکاب ابوسفیان بن الحارث دوسری رکاب تھامے ہوئے ہیں ۔ چار
ہزار کا مسلح لشکر پورے جوش انتقام میں ٹوٹا پڑتا ہے ، ہر چہار طرف سے تیروں کا
مینہ برس رہا ہے۔ ساتھی منتشر ہو چکے ہیں۔ مگر رفیق اعلیٰ آپ کےساتھ ہے ۔ ربانی
تائید آسمانی سکینہ کی غیر مرئی بارش آپ پر اور آپ کے گنے چنے رفیقوں پر ہو رہی
ہے ۔ جس کا اثر آخر کار بھاگنے والوں تک پہنچتا ہے جدھر سے ہوازن و ثقیف کا
سیلاب بڑھ رہا ہے آپ کی سواری کا منہ اس وقت بھی اسی طرف ہے ادھر ہی آگے بڑھنے
کے لئے خچر کو مہمیز کر رہے ہیں۔ دل سے خدا کی طرف لو لگی ہے اور زبان پر نہایت
استغناء و اطمینان کے ساتھ { اَنَاالنَّبِیُ لا کذِبْ اَنَا ابنُ
عَبْدِالْمُطَّلِبْ } جاری ہے ۔ یعنی بیشک میں سچا پیغمبر ہوں اور عبدالمطلب کی
اولاد ہوں اسی حالت میں آپ نے صحابہ کو آواز دی { اِلَیَّ عِبَادَاللہِ الَیّ
اَنَا رَسُوْلُ اللہ } خدا کے بندو ! ادھر آؤ ۔ یہاں کہ میں خدا کا رسول ہوں۔
پھر آپ کی ہدایت کے موافق حضرت عباس نے (جو نہایت جہیر الصوت تھے) اصحاب سمرۃ کو
پکارا جنہوں نے درخت کے نیچے حضور ﷺ
کے ہاتھ پر بیعت جہاد کی تھی۔ آواز کا کانوں میں پہنچنا تھا کہ بھاگنے والوں نے سواریوں
کا رخ میدان جنگ کی طرف پھیر دیا۔ جس کے اونٹ نے رخ بدلنے میں دیر کی وہ گلے میں
زرہ ڈال کر اونٹ سے کود پڑا اور سواری چھوڑکر حضور ﷺ کی طرف لوٹا۔ اسی اثناء میں
حضور ﷺ نے تھوڑی سی مٹی اور کنکریاں اٹھا کر لشکر کفار کی طرف پھینکیں جو خدا کی
قدرت سے ہر کافر کے چہرے اور آنکھوں پر پڑی ۔ ادھر حق تعالیٰ نے آسمان سے فرشتوں
کی فوجیں بھیج دیں جن کا نزول غیر مرئی طور پر مسلمانوں کی تقویت و ہمت افزائی
اور کفار کی مرعوبیت کا سبب ہوا۔ پھر کیا تھا۔ کفار کنکریوں کے اثر سے آنکھیں
ملتے رہے ، جو مسلمان قریب تھے انہوں نے پلٹ کر حملہ کر دیا۔ آنًا فانًا میں
مطلع صاف ہو گیا بہت سے بھاگے ہوئے مسلمان لوٹ کر حضور ﷺ کی خدمت میں
پہنچے تو دیکھا لڑائی ختم ہو چکی ۔ ہزاروں قیدی آپ کے سامنے بندھے کھڑے ہیں اور
مال غنیمت کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں { فَسُبْحَانَ الَّذِیْ بیَدِہٖ مَلَکُوْتُ
کُلِّ شَیٔ } اس طرح کافروں کو دنیا میں سزا دی گئ۔
|
وَعَدَ اللَّهُ المُؤمِنينَ وَالمُؤمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجرى مِن
تَحتِهَا الأَنهٰرُ خٰلِدينَ فيها وَمَسٰكِنَ طَيِّبَةً فى جَنّٰتِ عَدنٍ ۚ
وَرِضوٰنٌ مِنَ اللَّهِ أَكبَرُ ۚ ذٰلِكَ هُوَ الفَوزُ العَظيمُ {9:72}
|
وعدہ
دیا ہے اللہ نے ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو باغوں کا کہ بہتی ہیں
نیچے ان کے نہریں رہا کریں انہی میں اور ستھرے مکانوں کا رہنے کے باغوں میں اور
رضامندی اللہ کی ان سب سے بڑی ہے یہی ہے بڑی کامیابی [۷۸]
|
یعنی
تمام نعمائے دنیوی و اخروی سے بڑھ کر حق تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہے۔ جنت بھی
اسی لئے مطلوب ہے کہ وہ رضائے الہٰی کا مقام ہے۔ حق تعالیٰ مومنین کو جنت میں ہر
قسم کی جسمانی و روحانی نعمتیں اور مسرتیں عطا فرمائے گا۔ مگر سب سے بڑی نعمت
محبوب حقیقی کی دائمی رضا ہو گی۔ حدیث صحیح میں ہے کہ حق تعالیٰ اہل جنت کو
پکارے گا جنتی "لبیک" کہیں گے۔ دریافت فرمائے گا { ھَلْ رَضِیْتُمْ }
یعنی اب تم خوش ہو گئے ۔ جواب دیں گے کہ پروردگار ! خوش نہ ہونے کی کیا وجہ؟
جبکہ آپ نے ہم پر انتہائی انعام فرمایا ہے ۔ ارشاد ہو گا { ھَلْ اُعْطِیْکُمْ
اَفْضَلَ مِنْ ذٰلِکَ } یعنی جو کچھ اب تک دیا گیا ہے کیا اس سے بڑھ کر ایک چیز
لینا چاہتے ہو؟ جنتی سوال کریں گے کہ اے پروردگار ! اس سے افضل اور کیا چیز ہو
گی؟ اس وقت فرمائیں گے { اُحِلَّ عَلَیْکُمْ رِضْوَانِی فَلَا اَسْخَطُ
عَلَیْکُمْ بَعْدَہٗ اَبَدًا } اپنی دائمی رضا اور خوشنودی تم پر اتارتا ہوں جس
کے بعد کبھی خفگی اور ناخوشی نہ ہو گی { رزقنا اللہ وسائر المومنین ھذہ الکرامۃ
العظیمۃ الباھیرۃ }۔
|
الَّذينَ يَلمِزونَ
المُطَّوِّعينَ مِنَ المُؤمِنينَ فِى
الصَّدَقٰتِ وَالَّذينَ لا يَجِدونَ إِلّا جُهدَهُم فَيَسخَرونَ مِنهُم ۙ سَخِرَ
اللَّهُ مِنهُم وَلَهُم عَذابٌ أَليمٌ {9:79}
|
وہ
لوگ جو طعن کرتے ہیں ان مسلمانوں پر جو دل کھول کر خیرات کرتے ہیں اور ان پر جو
نہیں رکھتے مگر اپنی محنت کا پھر ان پر ٹھٹھے کرتے ہیں اللہ نے ان سے ٹھٹھا کیا
ہے اور ان کے لئے عذاب دردناک ہے [۸۶]
|
ایک
مرتبہ آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کو صدقہ کرنے کی ترغیب دی۔ حضرت
عبدالرحمٰن بن عوف نے چار ہزار (دینار یا درہم) حاضر کر دیے۔ عاصم بن عدی نے ایک
سو وسق کھجوریں (جن کی قیمت چار ہزار درہم ہوتی تھی) پیش کیں۔ منافقین کہنے لگے
کہ ان دونوں نے دکھلاوے اور نام و نمود کو اتنا دیا ہے ۔ ایک غریب صحابی ابو
عقیل جحاب نے جو محنت و مشقت سے تھوڑا سا کما کر لائے اس میں ایک صاع تمر صدقہ
کیا تو مذاق اڑانے لگے کہ یہ خواہ مخواہ زور آوری سے لہو لگا کر شہیدوں میں داخل
ہونا چاہتا ہے۔ بھلا اس کی ایک صاع کھجوریں کیا کار کریں گی۔ غرض تھوڑا دینے
والا اور بہت خرچ کرنے والا کوئی ان کی زبان سے بچتا نہ تھا۔کسی پر طعن کسی سے
ٹھٹھا کرتے تھے۔ حق تعالیٰ نے فرمایا { سَخِرَاللہُ مِنْھُمْ } (اللہ نے ان سے
ٹھٹھا کیا ہے) یعنی ان کے طعن و تمسخر کا بدلہ دیا ، بظاہر تو وہ چند روز کے لئے
مسخرا پن کرنے کے لئے آزاد چھوڑ دیے گئے ہیں ، لیکن فی الحقیقت اندر ہی اندر سکھ
کی جڑیں کٹتی چلی جا رہی ہیں ۔ اور عذاب الیم ان کے لئے تیار ہے۔
|
لا تَقُم فيهِ أَبَدًا ۚ
لَمَسجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقوىٰ مِن أَوَّلِ يَومٍ أَحَقُّ أَن تَقومَ فيهِ ۚ
فيهِ رِجالٌ يُحِبّونَ أَن يَتَطَهَّروا ۚ وَاللَّهُ يُحِبُّ المُطَّهِّرينَ
{9:108}
|
تو
نہ کھڑا ہو اس میں کبھی البتہ وہ مسجد جسکی بنیاد دھری گئ پرہیزگاری پر اول دن
سے وہ لائق ہے کہ تو کھڑا ہو اسمیں اس میں ایسےلوگ ہیں جو دوست رکھتے ہیں پاک
رہنے کو اور اللہ دوست رکھتا ہے پاک رہنے والوں کو [۱۲۲]
|
یعنی
اس مسجد میں جس کی بنیاد محض ، ضد ، کفر و نفاق ، عداوت اسلام اور مخالفت خدا و
رسول پر رکھی گئ۔ آپ ﷺ کبھی نمار کے لئے کھڑے نہ ہوں ۔ آپ ﷺ کی نماز کے لائق وہ مسجد ہے جس کی بنیاد اول دن سےتقویٰ اور پرہیزگاری پر قائم ہوئی
(خواہ مسجد نبوی ہو یا مسجد قبا) اس کے نمازی گناہوں اور شرارتوں اور ہر قسم کی
نجاستوں سے اپنا ظاہر و باطن پاک و صاف رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اسی لئے خدائے
پاک ان کو محبوب رکھتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے اہل قبا سے
دریافت کیا کہ تم طہارت و پاکیزگی کا کیا خاص اہتمام کرتے ہو جو حق تعالیٰ نے
تمہاری تطہیر کی مدح فرمائی انہوں نے کہا کہ ڈھیلے کے بعد پانی سے استنجا کرتے
ہیں یعنی عام طہارت ظاہری و باطنی کے علاوہ وہ لوگ اس چیز کا معتاد سے زائد
اہتمام رکھتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آیت میں مسجد قبا کا ذکر ہے۔ لیکن بعض
روایات صریح ہیں کہ { مَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی } سے مسجد نبوی مراد
ہے۔ علماء نے اس پر بہت کچھ کلام کیا ہے ۔ ہم نے شرح صحیح مسلم میں اس کے متعلق
اپنا ناقص خیال ظاہر کرکے روایات میں تطبیق دی ہے۔ یہاں اس کے بیان کا موقع
نہیں۔
|
إِنَّ اللَّهَ اشتَرىٰ مِنَ
المُؤمِنينَ أَنفُسَهُم وَأَموٰلَهُم
بِأَنَّ لَهُمُ الجَنَّةَ ۚ يُقٰتِلونَ فى سَبيلِ اللَّهِ فَيَقتُلونَ
وَيُقتَلونَ ۖ وَعدًا عَلَيهِ حَقًّا فِى التَّورىٰةِ وَالإِنجيلِ وَالقُرءانِ ۚ
وَمَن أَوفىٰ بِعَهدِهِ مِنَ اللَّهِ ۚ فَاستَبشِروا بِبَيعِكُمُ الَّذى
بايَعتُم بِهِ ۚ وَذٰلِكَ هُوَ الفَوزُ العَظيمُ {9:111}
|
اللہ
نے خرید لی مسلمانوں سے ان کی جان اور ان کا مال اس قیمت پر کہ انکے لئے جنت ہے
لڑتے ہیں اللہ کی راہ میں پھر مارتے ہیں اور مرتے ہیں وعدہ ہو چکا اسکے ذمہ پر
سچا توریت اور انجیل اور قرآن میں اور کون ہے قول کا پورا اللہ سے زیادہ سو
خوشیاں کرو اس معاملہ پر جو تم نے کیا ہے اس سے اور یہ یہی ہے بڑی کامیابی [۱۲۶]
|
اس
سے زیادہ سود مند تجارت اور عظیم الشان کامیابی کیا ہوگی کہ ہماری حقیر سی جانوں
اور فانی اموال کا خداوند قدوس خریدار بنا۔ ہماری جان و مال کو جو فی الحقیقت
اسی کی مملوک و مخلوق ہے محض ادنیٰ ملابست سے ہماری طرف نسبت کر کے
"بیع" قرار دیا جو "عقد بیع" میں مقصود بالذات ہوتی ہے ۔
اور جنت جیسے اعلیٰ ترین مقام کو اس کا ثمن بتلایا جو بیع تک پہنچنے کا وسیلہ
ہے۔ حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں وہ نعمتیں
ہوں گی جن کو نہ آنکھوں نے
دیکھا نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی بشر کےقلب پر ان کی کیفیات کا خطور ہوا۔ اب
خیال کرو کہ جان و مال جو برائے نام ہمارے کہلاتے ہیں انہیں جنت کا ثمن نہیں
بنایا نہ یہ کہا کہ حق تعالیٰ بائع اور ہم مشتری ہوتے تلطف و نوازش کی حد ہو گئ
کہ اس ذرا سی چیز کے (حالانکہ وہ بھی فی الحقیقت اسی کی ہے) معاوضہ میں جنت جیسی
لازوال اور قیمتی چیز کو ہمارے لئے مخصوص کر دیا جیسا کہ "بالجنۃ" کی
جگہ { بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ }فرمانے سے ظاہر ہوتا ہے نیم جاں بستا مذو صد
جاں دہد۔ انچہ درو ہمت نیایدآں دہد۔ پھر یہ نہیں کہ ہمارے جان و مال خرید لئے
گئے تو فورًا ہمارے قبضہ سے نکال لئے جائیں صرف اس قدر مطلوب ہے کہ جب موقع پیش
آئے جان و مال خدا کے راستہ میں پیش کرنے کے لئے تیار رہیں۔ دینے سے بخل نہ کریں
خواہ وہ لیں یا نہ لیں۔ اسی کے پاس چھوڑے رکھیں۔ اسی لئے فرمایا { یُقَاتِلُوْنَ
فِیْ سَبِیْلِ اللہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ } یعنی مقصود خدا کی راہ
میں جان و مال حاضر کر دینا ہے بعدہٗ ماریں یا مارے جائیں۔ دونوں صورتوں میں عقد
بیع پورا ہو گیا اور یقینی طور پر ثمن کے مستحق ٹھہر گئے۔ ممکن ہے کہ کسی کو
وسوسہ گذرتا کہ معاملہ تو بیشک بہت سود مند اور فائدہ بخش ہے۔ لیکن ثمن نقد نہیں
ملتا۔ اس کا جواب دیا { وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرٰاتِ وَ
الْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِ } یعنی زر ثمن کے مارے جانے کا کوئی خطرہ نہیں۔ خدا
تعالیٰ نے بہت تاکید و اہتمام سے پختہ دستاویز لکھ دی ہے جس کا خلاف ناممکن ہے۔
کیا خدا سے بڑھ کر صادق القول ، راستباز اور وعدہ کا پکا کوئی دوسرا ہو سکتا ہے
؟ ہر گز نہیں ۔ لہذا اس کا ادھار بھی دوسروں کے نقد سے ہزاروں درجہ پختہ اور
بہتر ہو گا۔ پھر مومنین کے لئے خوش ہونے اور اپنی قسمت پر نازاں ہونے کا اس سے
بہترکونسا موقع ہو گا کہ خود رب العزت ان کا خریدار بنے اور اس شان سے بنے ۔ سچ
فرمایا عبداللہ رواحہ نے کہ یہ وہ بیع ہے جس کے بعد اقالت کی کوئی صورت ہم باقی
رکھنا نہیں چاہتے۔ حق تعالیٰ اپنے فضل سے ہم ناتوانوں کو ان مومنین کے زمرہ میں
محشور فرمائے۔ آمین۔
|
التّٰئِبونَ العٰبِدونَ
الحٰمِدونَ السّٰئِحونَ الرّٰكِعونَ السّٰجِدونَ الءامِرونَ بِالمَعروفِ
وَالنّاهونَ عَنِ المُنكَرِ وَالحٰفِظونَ لِحُدودِ اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ المُؤمِنينَ {9:112}
|
وہ
توبہ کرنے والے ہیں بندگی کرنے والے شکر کرنے والے بے تعلق رہنے والے [۱۲۷] رکوع
کرنے والے سجدہ کرنے والے حکم کرنے والے نیک بات کا اور منع کرنے والے بری بات
سے [۱۲۸] اور حفاظت کرنے والے ان حدود کی جو باندھی اللہ نے اور خوشخبری سنا دے
ایمان والوں کو [۱۲۹]
|
بعض
نے سائحون سے مراد روزہ دار لئے ہیں۔ کیونکہ روزہ دار کھانے پینے وغیرہ لذائذ و
مرغوبات سے بے تعلق ہو کر روحانی مدارج اور ملکوتی مقامات کی سیر کرتا ہے۔ بعض
کے نزدیک اس لفظ کا مصداق مہاجرین ہیں جو گھر بار سے بے تعلق ہو کر
"دارالاسلام" میں سکونت پذیر ہوتے ہیں۔ بعض نے مجاہدین کا ارادہ کیا
ہے کہ مجاہد اپنی جان تک سے بے تعلق ہو کر خدا کے راستہ میں قربان ہونے کے لئے
نکلتا ہے۔ بعض کی رائے میں یہ لفظ طلبہ علوم کے لئے ہے جو وطن ، کنبہ ، راحت و
آسائش وغیرہ سب کو خیرباد کہہ کر طلب علم کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ بہرحال
مترجم محققؒ نے جو ترجمہ کیا اس میں ان سب اقوال کی گنجائش ہے مگر اکثر سلف کے
نزدیک پہلی تفیسر مختار ہے ۔ واللہ اعلم۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے فرمایا کہ شاید بے
تعلق رہنے سے مراد یہ ہو کہ دنیا میں دل نہ لگائے ۔
|
یعنی
خود درست ہونے کے ساتھ دوسروں کو بھی درست کرتے ہیں۔ گویا ان کا کام ہے عبادت حق
، اور خیر خواہی۔
|
یعنی
نیکی بدی کی جو حدود حق تعالیٰ نے معین فرما دی ہیں ان سے تجاوز نہ کرے ۔ خلاصہ
یہ کہ بے حکم شرع کوئی قدم نہ اٹھائے ۔ یہ سب صفات ان مومنین کی ہوئیں۔ جو جان و
مال سے خدا کے ہاتھ پر بک چکے ہیں۔
|
وَأَوحَينا إِلىٰ موسىٰ
وَأَخيهِ أَن تَبَوَّءا لِقَومِكُما بِمِصرَ بُيوتًا وَاجعَلوا بُيوتَكُم
قِبلَةً وَأَقيمُوا الصَّلوٰةَ ۗ وَبَشِّرِ المُؤمِنينَ
{10:87}
|
اور
حکم بھیجا ہم نے موسٰی کو اور اسکے بھائی کو کہ مقرر کرو اپنی قوم کے واسطے مصر
میں سے گھر [۱۲۰] اور بناؤ اپنے گھر قبلہ رو اور قائم کرو نماز [۱۲۱] اور
خوشخبری دے ایمان والوں کو [۱۲۲]
|
دنیا
میں فتح و نصرت کی اور آخرت میں نجات و رضائے الہٰی کی۔
|
حضرت
شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں ''جب فرعون کی ہلاکت کا وقت قریب آیا تو حکم ہو اکہ اپنی
قوم بنی اسرائیل کو ان میں شامل نہ رکھو۔ اپنا محلہ جدا بساؤ کہ آگے ان پر آفتیں
آنے والی ہیں اس وقت تمہاری قوم ظاہری طور پر بھی آفتوں سے الگ تھلگ رہے''
مفسرین نے { تَبَّوَاٰ لِقَوْ مِکُمَا بِمِصْرَبُیُوْتًا } سے مراد یہ لی ہے کہ
اپنے مکانوں میں ٹھہرے رہو اور ان میں سے بعض کو عبادت کے لئے مخصوص کر لو۔
|
فرعون
نے مسجدیں اور عبادت گاہیں خراب کر دی تھیں۔ کوئی باہر نکل کر خدا کی عبادت نہ
کر سکتا تھا۔ بحالت مجبوری حکم ہوا کہ مکان میں کوئی جگہ نماز کے لئے رکھو جو
قبلہ رو ہو۔ نماز ترک مت کرو کہ اسی کی برکت سے خدا کی مدد آتی ہے {
وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃ } ہجرت سے پہلے مکہ میں ایسا ہی حال
مسلمانوں کا تھا۔
|
ثُمَّ نُنَجّى رُسُلَنا
وَالَّذينَ ءامَنوا ۚ كَذٰلِكَ حَقًّا عَلَينا نُنجِ المُؤمِنينَ {10:103}
|
پھر
ہم بچا لیتے ہیں اپنے رسولوں کو اور ان کو جو ایمان لائے اسی طرح ذمہ ہے ہمارا
بچا دیں گے ایمان والوں کو [۱۳۸]
|
یعنی
جیسے پہلی قوموں کے ساتھ ہماری عادت رہی ہے کہ مکذبین کو ہلاک کر کے پیغمبروں
اور مومنین کو بچایا۔ اسی طرح موجود اور آئندہ مومنین کی نسبت ہمارا وعدہ ہے کہ
ان کو نجات دیں گے آخرت میں عذاب الیم سے اور دنیا میں کفار کے مظالم اور سختیوں
سے ہاں شرط یہ ہے کہ مومنین مومنین ہوں ۔ یعنی و صفات و خصال رکھتے ہں جو قرآن و
حدیث میں مومنین کی بیان ہوئی ہیں۔
|
قُل يٰأَيُّهَا النّاسُ إِن
كُنتُم فى شَكٍّ مِن دينى فَلا أَعبُدُ الَّذينَ تَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ
وَلٰكِن أَعبُدُ اللَّهَ الَّذى يَتَوَفّىٰكُم ۖ وَأُمِرتُ أَن أَكونَ مِنَ المُؤمِنينَ {10:104}
|
کہہ
دے اے لوگو اگر تم شک میں ہو میرے دین سے تو میں عبادت نہیں کرتا جن کی تم عبادت
کرتے ہو اللہ کےسوا اور لیکن میں عبادت کرتا ہوں اللہ کی جو کھینچ لیتا ہے تم کو
اور مجھ کو حکم ہے کہ رہوں ایمان والوں میں
|
إِنَّ هٰذَا القُرءانَ
يَهدى لِلَّتى هِىَ أَقوَمُ وَيُبَشِّرُ المُؤمِنينَ
الَّذينَ يَعمَلونَ الصّٰلِحٰتِ أَنَّ لَهُم أَجرًا كَبيرًا {17:9}
|
یہ
قرآن بتلاتا ہے وہ راہ جو سب سے سیدھی ہے اور خوشخبری سناتا ہے ایمان والوں کو
جو عمل کرتے ہیں اچھے کہ ان کے لئے ہے ثواب بڑا [۱۵]
|
یعنی
یوں تو "تورات" بھی بنی اسرائیل کو راہ بتانے والی تھی جیسا کہ پہلے
فرمایا { ھُدًی لِّبَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ } لیکن یہ قرآن ساری دنیا کو سب سے
زیادہ اچھی ، سیدھی اور مضبوط راہ بتلاتا ہے ۔ تمام قدیم راہیں اس
"اقوام" کے تحت میں مندرج ہو گئ ہیں۔ لہذا اگر کامیابی اور نجات چاہتے
ہو تو خاتم الانبیاء کی پیروی میں اسی سیدھی سڑک پر چلو ۔ جو لوگ قلب و جوارح
یعنی ایمان و عمل صالح سے اس صاف و کشادہ راہ پر چلیں گے قرآن ان کو دنیا میں
حیات طیبہ کی اور آخرت میں جنت کی عظیم الشان بشارت سناتا ہے ۔ باقی جنہیں انجام
کا کچھ خیال نہیں ، اندھا دھند دنیا کی لذات و شہوات میں غرق ہیں آخرت کی اصلا
فکر نہیں رکھتے ، ان کا انجام اگلے جملہ میں بیان کیا گیا ہے۔
|
قَيِّمًا لِيُنذِرَ بَأسًا
شَديدًا مِن لَدُنهُ وَيُبَشِّرَ المُؤمِنينَ
الَّذينَ يَعمَلونَ الصّٰلِحٰتِ أَنَّ لَهُم أَجرًا حَسَنًا {18:2}
|
ٹھیک
اتاری تاکہ ڈر سنا دےایک سخت آفت کا اللہ کی طرف سے [۲] اور خوشخبری دے ایمان
لانے والوں کو جو کرتے ہیں نیکیاں کہ ان کے لئے اچھا بدلہ ہے
|
یعنی
تکذیب کرنے والوں پر جو سخت آفت دنیا یا آخرت میں خداوند قہار کی طرف سے آنے
والی ہے اس سے یہ کتاب آگاہ کرتی ہے۔ (تنبیہ) قیماً کو بعض نے بمعنی
"مستقیم" لے کر محض مضمون سابق کی تاکید قرار دی ہے۔ یعنی کتنا ہی غور
کرو ایک بال برابر کجی نہیں پاؤ گے ۔ مگر فرّاء نے اس لفظ کے معنی کئے ہیں {
قَیِّمًا عَلٰی سَائِرِ الکُتُب السَّمَاویۃ } یعنی تمام کتب سماویہ کی صحت و
تصدیق پر مہر کرنے والی اور ان کی اصولی تعلیمات کو دنیا میں قائم رکھنے
والی" ابو مسلم نے کہا { قَیِّمًا بِمَصَالِحِ الْعِبَادِ } بندوں کی تمام
مصالح کی متکفل اور ان کی معاش و معاد کو درست کرنے والی" بہرحال جو معنے
بھی لئے جائیں اس کی صداقت میں شبہ نہیں۔
|
فَاستَجَبنا لَهُ
وَنَجَّينٰهُ مِنَ الغَمِّ ۚ وَكَذٰلِكَ نُۨجِى المُؤمِنينَ
{21:88}
|
پھر
سن لی ہم نے اُسکی فریاد اور بچا دیا اُسکو اُس گھٹنے سے اور یوں ہم بچا دیتےہیں
ایمان والوں کو [۱۰۷]
|
یعنی
یونسؑ کےساتھ مخصوص نہیں ، جو ایماندار لوگ ہم کو اسی طرح پکاریں گے ہم ان کو
بلاؤں سے نجات دیں گے احادیث میں اس دعا کی بہت فضیلت آئی ہے۔ اور امت نے شدائد
و نوائب میں ہمیشہ اس کو مجرب پایا ہے۔
|
الزّانِيَةُ وَالزّانى
فَاجلِدوا كُلَّ وٰحِدٍ مِنهُما مِا۟ئَةَ جَلدَةٍ ۖ وَلا تَأخُذكُم بِهِما
رَأفَةٌ فى دينِ اللَّهِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ ۖ
وَليَشهَد عَذابَهُما طائِفَةٌ مِنَ المُؤمِنينَ
{24:2}
|
بدکاری
کرنے والی عورت اور مرد سو مارو ہر ایک کو دونوں میں سے سوسو درّے [۲] اور نہ
آوے تم کو ان پر ترس اللہ کے حکم چلانے میں اگر تم یقین رکھتے ہو اللہ پر اور
پچھلے دن پر [۳] اور دیکھیں ان کا مارنا کچھ لوگ مسلمان [۴]
|
یہ
سزا اس زانی اور زانیہ کی ہے جو آزاد، عاقل، بالغ ہو اور نکاح کئے ہوئے نہ ہو یا
نکاح کرنے کے بعد ہم بستری نہ کر چکے ہوں اور جو آزاد نہ ہو اس کے پچاس درّے لگتے
ہیں، اس کا حکم پانچویں پارہ کے اول رکوع کے ختم پر مذکور ہے۔ اور جو عاقل یا
بالغ نہ ہو وہ مکلف ہی نہیں۔ محصن کون ہے؟ اور جس مسلمان میں تمام صفتیں موجود
ہوں (حریت، بلوغ، عقل ، نکاح اور ہم بستری سے فراغ) ایسے شخص کو
"محصن" کہتے ہیں۔ اس کی سزا "رجم" (سنگسار کرنا) ہے۔ جیسا
کہ سورۂ مائدہ میں "تورات" کے حوالہ سے فرمایا { وَکَیْفَ
یُحَکِّمُوْنَکَ وَعِنْدَھُمْ التَّوْرَاتُ فیھا حُکْمُ اللہ } الخ اور وہ حکم
اللہ رجم تھا جیسا کہ وہاں کے فوائد میں گذر چکا۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے اسی کے موافق فیصلہ کیا اور فرمایا { اَللّٰھُمَّ اِنِیْ اَوَّلُ
مَنْ اَحْیَااَمْرَکَ اِذَا مَاتُوہ } (خدایا! میں پہلا شخص ہوں جس نے تیرے حکم
کو زندہ کیا جبکہ وہ اسے مٹا چکے تھے) پھر نہ صرف ان یہود کو بلکہ جس قدر واقعات
اس قسم کے پیش آئے ان سب میں زانی محصن کو آپ نے یہ ہی رجم کی سزا دی، اور آپ کے
بعد صحابہؓ کا عمل برابر اسی قانون رجم پر رہا۔ بلکہ اہل السنت والجماعت میں کسی
ایک شخص نے بھی اس سے اختلاف کی جرأت نہ کی۔ گویا سنت متواترہ اور اجماع اہل حق
نے بتلا دیا کہ اس مسئلہ میں شریعت محمدیہ نے تورات کے حکم کو باقی رکھا ہے۔
جیسا کہ قتل عمد کی سزا قتل ہونا قرآن کریم نے بحوالہ تورات بیان فرمایا تھا۔ {
وَکَتَبْنَا عَلَیْھِمْ فیھا اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ } الخ اور مرتدین کے
قتل کا بنی اسرائیل کو حکم دینا سورۂ "بقرہ" میں بیان کیا گیا ہے۔ {
فَتُوْبُوا اِلٰی بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ } پھر ان ہی احکام کو
امت محمدیہ کے حق میں بھی قائم رکھا گیا۔ شاید رجم محصن اور مسئلہ قصاص کو نقل
کرنے کے بعد جو بڑی شدت و تاکید سے ترک حکم بما انزل اللہ کی برائی بیان فرمائی
اور آخر میں ارشاد ہوا { وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الکِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِقًا
لِمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنْ الْکِتَابِ وَمُھَیْمِنًا عَلَیْہِ فَاحْکُمْ
بَیْنَھُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللہ } الخ اس سے یہ ہی غرض ہو کہ تورات کے یہ احکام
اب قرآن کے زیر حفاظت ہیں جن کے قائم رکھنے میں پیغمبر کو کسی کی اہواء و آراء
کی پروا نہیں کرنی چاہئے۔ چنانچہ نہ آپ نے پروا کی نہ آپ کے خلفاء نے۔ حتٰی کہ
حضرت عمرؓ کو جب رجم محصن کے متعلق یہ اندیشہ ہوا بلکہ مکشوف ہو گیا کہ آگے چل
کر بعض زائغین اس کا انکار کرنے لگیں گے (چنانچہ خوارج نے اور ہمارے زمانہ کے
ایک ممسوخ فرقہ نے کیا) تو آپ نے منبرپر چڑھ کر صحابہ و تابعین کے مجمع میں اس
حکم خداوندی کا بہت شدومد سے اعلان فرمایا اور اس میں قرآن کی ایک آیت کا حوالہ
دیا جس میں رجم محصن کا صریح حکم تھا اور جس کی تلاوت گو بعد میں منسوخ ہو گئ
مگر حکم برابر باقی رہا۔ (تنبیہ) کسی آیت کا محض منسوخ التلاوت ہونا اور حکم
باقی رہنا یہ ایک مستقل مسئلہ ہے جس کی تحقیق ان مختصر فوائد میں درج نہیں ہو
سکتی۔ انشاء اللہ العزیز اگر مستقل تفسیر قرآن لکھنے کی نوبت آئی تو وہاں لکھا
جائے گا۔
|
یعنی
سزا تنہائی میں نہیں، مسلمانوں کے مجمع میں دینی چاہئے کیونکہ اس رسوائی میں سزا
کی تکمیل و تشہیر اور دیکھنے سننے والوں کے لئے سامان عبرت ہے۔ اور شاید یہ بھی
غرض ہو کہ دیکھنے والے مسلمان اس کی حالت پر رحم کھا کر عفو و مغفرت کی دعا کریں
گے۔ واللہ اعلم۔
|
یعنی
اگر اللہ پر یقین رکھتے ہو تو اس کے احکام و حدود جاری کرنے میں کچھ پس و پیش نہ
کرو۔ ایسا نہ ہو کہ مجرم پر ترس کھا کر سزا بالکل روک لو یا اس میں کمی کرنے
لگو۔ یا سزا دینے کی ایسی ہلکی اور غیر مؤثر طرز اختیار کرو کہ سزا سزا نہ رہے۔
خوب سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ حکیم مطلق اور تم سے زیادہ اپنے بندوں پر مہربان ہے
اس کا کوئی حکم سخت ہو یا نرم مجموعہ عالم کے حق میں حکمت و رحمت سے خالی نہیں
ہو سکتا۔ اگر اس کے احکام و حدود کے اجراء میں کوتاہی کرو گے تو آخرت کے دن
تمہاری پکڑ ہو گی۔
|
الزّانى لا يَنكِحُ إِلّا
زانِيَةً أَو مُشرِكَةً وَالزّانِيَةُ لا يَنكِحُها إِلّا زانٍ أَو مُشرِكٌ ۚ
وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى المُؤمِنينَ
{24:3}
|
بدکارمرد
نہیں نکاح کرتا مگر عورت بدکار سے یا شرک والی سے اور بدکار عورت سے نکاح نہیں
کرتا مگر بدکار مرد یا مشرک [۵] اور یہ حرام ہوا ہے ایمان والوں پر [۶]
|
زنا
کی سزا ذکر کرنے کے بعد اس فعل کی غایت و شناعت بیان فرماتے ہیں۔ یعنی جو مرد یا
عورت اس عادت شنیع میں مبتلا ہیں حقیقت میں وہ اس لائق نہیں رہتے کہ کسی عفیف
مسلمان سے ان کا تعلق ازدواج و ہم بستری قائم کیا جائے۔ ان کی پلید طبیعت اور
میلان کے مناسب تو یہ ہے کہ ایسے ہی کسی بدکار و تباہ حال مرد و عورت سے یا ان
سے بھی بدتر کسی مشرک و مشرکہ سے ان کا تعلق ہو۔ زانی اور زانیہ کا نکاح: کما
قال تعالیٰ { اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَالْخَبِیْثُوْنَ لِلْخَبِیْثٰتِ
وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَالطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِ } (سورۂ نور)
کند ہم جنس باہم پرواز، کبوتر با کبوتر باز با باز۔ ان کی حرکت کا اصلی اقتضاء
تو یہ ہی تھا۔ اب یہ جداگانہ امر ہے کہ حق تعالیٰ نے دوسری مصالح و حکم کی بناء
پر کسی نام نہاد مسلمان کا مشرک و مشرکہ سے عقد جائز نہیں رکھا۔ یا مثلاً بدکار
مرد کا پاکباز عورت سے نکاح ہو جائے تو بالکل باطل نہیں ٹھہرایا (تنبیہ) آیت کی
جو تقریر ہم نے کی وہ بالکل سہل اور بے تکلف ہے اس میں { لَا یَنْکِحُ } کے معنی
وہ لئے گئے جو { السُّلطان لَا یکذِبُ } وغیرہ محاورات میں لئے جاتے ہیں۔ یعنی
نفی لیاقت فعل کو نفی فعل کی حیثیت دیدی گئ۔ فافہم واستقم۔
|
ایک
مومن مومن رہتے ہوئے یہ حرکت کیسے کرے گا۔ حدیث میں ہے۔ { لَا یَزْنِی الزَّانِی
حِیْنَ یَزْنِیْ وَھُوَمُؤمِنٌ } یا یہ مطلب ہوا کہ زانیہ سے نکاح کرنا ان
پاکباز مردوں پر حرام کیا گیا ہے جو صحیح اور حقیقی معنوں میں مومنین کہلانے کے
مستحق ہیں۔ یعنی تکوینی طور پر ان کے پاک نفوس کو ایسی گندی جگہ کی طرف مائل
ہونے سے روک دیا گیا ہے۔ اس وقت { حُرِّمَ } کے معنی وہ ہوں گے جو { حَرّمْنَا
عَلَیْہِ المَراضِعَ } میں یا "حَرَامٌ عَلٰی قَرْیَۃٍ اَھْلَکْنَاھَا }
میں لئے گئے ہیں۔ واللہ اعلم۔
|
إِنَّما كانَ قَولَ المُؤمِنينَ إِذا دُعوا إِلَى اللَّهِ وَرَسولِهِ
لِيَحكُمَ بَينَهُم أَن يَقولوا سَمِعنا وَأَطَعنا ۚ وَأُولٰئِكَ هُمُ
المُفلِحونَ {24:51}
|
ایمان
والوں کی بات یہی تھی کہ جب بلائیے انکو اللہ اور رسول کی طرف فیصلہ کرنے کو ان
میں تو کہیں ہم نے سن لیا اور حکم مان لیا اور وہ لوگ کہ انہی کا بھلا ہے [۹۸]
|
یعنی
سچے مسلمان کا کام یہ ہوتا ہے اور یہ ہونا چاہئے کہ جب کسی معاملہ میں ان کو خدا
و رسول کی طرف بلایا جائے خواہ اس میں بظاہر ان کا نفع ہو یا نقصان۔ ایک منٹ کا
توقف نہ کریں فی الفور "سمعًا و طاعۃً" کہہ کر حکم ماننے کے لئے تیار
ہو جائیں۔ اسی میں ان کی اصلی بھلائی اور حقیقی فلاح کا راز مضمر ہے۔
|
إِنّا نَطمَعُ أَن يَغفِرَ
لَنا رَبُّنا خَطٰيٰنا أَن كُنّا أَوَّلَ المُؤمِنينَ
{26:51}
|
ہم
غرض رکھتے ہیں کہ بخش دے ہم کو رب ہمارا تقصیریں ہماری اس واسطے کہ ہم ہوئے پہلے
قبول کرنے والے [۳۸]
|
یعنی
موسٰیؑ کی دعوت و تبلیغ کے بعد بھرے مجمع میں ظالم فرعون کے روبرو سب سے پہلے ہم
نے قبول حق کا اعلان کیا۔ اس سے امید ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ ہماری گذشتہ تقصیرات
کو معاف فرمائے گا۔
|
فَلَو أَنَّ لَنا كَرَّةً
فَنَكونَ مِنَ المُؤمِنينَ {26:102}
|
سو
کسی طرح ہم کو پھر جانا ملے تو ہم ہوں ایمان والوں میں [۷۱]
|
یعنی
اگر ایک مرتبہ ہم کو پھر دنیا کی طرف واپس جانے کا موقع دیا جائے تو اب وہاں سے
پکے ایماندار بن کر آئیں لیکن یہ کہنا بھی جھوٹ ہے۔ { وَلَوْ رُدُّوْالَعَادُوْ
الِمَانُھُوْا عَنْہُ وَ اِنَّھُمْ لَکٰذِبُوْنَ } (انعام رکوع۳)۔
|
وَما أَنا۠ بِطارِدِ المُؤمِنينَ {26:114}
|
اور
میں ہانکنے والا نہیں ایمان لانے والوں کو [۷۶]
|
یعنی
مجھے ان کا صدق و ایمان قبول ہے، ان کے پیشے یا نیت اور اندرونی کاموں کے جاننے
سے کیا مطلب اس کا فیصلہ اور حساب تو پروردگار کے یہاں ہو گا۔ باقی میں تمہاری
خاطر سے غریب ایمانداروں کو اپنے پاس سے دھکے نہیں دے سکتا۔
|
فَافتَح بَينى وَبَينَهُم
فَتحًا وَنَجِّنى وَمَن مَعِىَ مِنَ المُؤمِنينَ
{26:118}
|
سو
فیصلہ کر دے میرے انکے بیچ میں کسی طرح کا فیصلہ [۷۹] اور بچا لے میرے ساتھ ہیں
ایمان والے [۸۰]
|
یعنی
مجھ کو اور میرے ساتھیوں کو الگ کر کے ان کا بیڑا غرق کر۔
|
یعنی
میرے اور ان کے درمیان عملی فیصلہ فرما دیجئے۔ اب انکے راہ راست پر آنے کی توقع
نہیں۔
|
وَاخفِض جَناحَكَ لِمَنِ
اتَّبَعَكَ مِنَ المُؤمِنينَ {26:215}
|
اور
اپنے بازو نیچے رکھ انکے واسطے جو تیرے ساتھ ہیں ایمان والے [۱۲۱]
|
یعنی
شفقت میں رکھ ایمان والوں کو ، اپنے ہوں یا پرائے۔
|
وَلَقَد ءاتَينا داوۥدَ
وَسُلَيمٰنَ عِلمًا ۖ وَقالَا الحَمدُ لِلَّهِ الَّذى فَضَّلَنا عَلىٰ كَثيرٍ
مِن عِبادِهِ المُؤمِنينَ {27:15}
|
اور
ہم نے دیا داؤد اور سلیمان کو ایک علم [۱۵] اور بولے شکر اللہ کا جس نے ہم کو
بزرگی دی [۱۶] اپنے بہت سے بندوں ایمان والوں پر [۱۷]
|
"بہت سے" اس لئے کہا کہ بہت بندگان خدا کو ان پر فضیلت
دی گئ ہے۔ باقی تمام مخلوق پرفضیلت کلی تو سارے جہان میں ایک ہی بندے کو حاصل
ہوئی جن کا نام مبارک ہے محمد رسول اللہ ﷺ۔
|
حق
تعالیٰ نے جو علم داؤد و سلیمان علیہما السلام کو دیا تھا اسی کا اثر یہ تھا کہ
حق تعالیٰ کے انعامات کا شکر ادا کرتے تھے۔ کسی نعمت الہٰی پر شکر ادا کرنا، اصل
نعمت سے بڑی نعمت ہے۔
|
حضرت
سلیمانؑ حضرت داؤدؑ کے صاحبزادہ ہیں۔ باپ بیٹے میں سے ہر ایک کو اسکی شان کے
لائق اللہ تعالیٰ نے علم کا خاص حصہ عطا فرمایا۔ شرائع و احکام اور اصول سیاست و
حکمرانی وغیرہ کے علوم سب اس لفظ کے ماتحت میں داخل ہو گئے۔
|
وَأَصبَحَ فُؤادُ أُمِّ
موسىٰ فٰرِغًا ۖ إِن كادَت لَتُبدى بِهِ لَولا أَن رَبَطنا عَلىٰ قَلبِها
لِتَكونَ مِنَ المُؤمِنينَ {28:10}
|
اور
صبح کو موسٰی کی ماں کے دل میں قرار نہ رہا قریب تھی کہ ظاہر کر دے بیقراری کو
اگر نہ ہم نے گرہ دی ہوتی اس کے دل پر اس واسطے کہ رہے یقین کرنے والوں میں [۱۴]
|
موسٰیؑ
کی والدہ بچہ کو دریا میں ڈال تو آئیں، مگر ماں کی مامتا کہاں چین سے رہنے دیتی۔
رہ رہ کر موسٰیؑ کا خیال آتا تھا۔ دل سے قرار جاتا رہا۔ موسٰیؑ کی یاد کے سوا
کوئی چیز دل میں باقی نہ رہی۔ قریب تھا کہ صبر و ضبط کا رشتہ ہاتھ سے چھوٹ جائے
اور عام طور پر ظاہر کر دیں کہ میں نے اپنا بچہ دریا میں ڈالا ہے کسی کو خبر ہو
تو لاؤ۔ لیکن خدائی الہام { اِنَّارَآدُّوْہُ اِلَیْکِ وَجَاعِلُوْہُ مِنَ
الْمُرْسَلِیْنَ } کو یاد کر کے تسلی پاتی تھی۔ یہ خدا ہی کا کام تھا کہ اس کے
دل کو مضبوط باندھ دیا کہ خدائی راز قبل از وقت کھلنے نہ پائے۔ اور تھوڑی دیر
بعد خود موسٰیؑ کی والدہ کو عین الیقین حاصل ہو جائے کہ اللہ کا وعدہ ضرور پورا
ہو کر رہنا ہے۔
|
وَلَولا أَن تُصيبَهُم
مُصيبَةٌ بِما قَدَّمَت أَيديهِم فَيَقولوا رَبَّنا لَولا أَرسَلتَ إِلَينا
رَسولًا فَنَتَّبِعَ ءايٰتِكَ وَنَكونَ مِنَ المُؤمِنينَ
{28:47}
|
اور
اتنی بات کےلئے کہ کبھی آن پڑے ان پر آفت ان کاموں کی وجہ سے جنکو بھیج چکے ہیں
انکے ہاتھ تو کہنے لگیں اے رب ہمارے کیوں نہ بھیج دیا ہمارے پاس کسی کو پیغام دے
کر تو ہم چلتے تیری باتوں پر اور ہوتے ایمان والوں میں [۶۵]
|
یعنی
پیغمبر کا ان میں بھیجنا خوش قسمتی ہے۔ اگر بدون پیغمبر بھیجے اللہ تعالیٰ ان کی
کھلی ہوئی بے عقلیوں اور بے ایمانیوں پرسزا دینے لگتا تب بھی ظلم نہ ہوتا، لیکن
اس نے احسان فرمایا اور کسی قسم کی معقول عذرداری کا موقع نہیں چھوڑا ممکن تھا
سزادہی کے وقت کہنے لگتے کہ صاحب ہمارے پاس پیغمبر تو بھیجا نہیں جو ہم کو ہماری
غلطیوں پر کم از کم متنبہ کر دیتا، ایک دم پکڑ کر عذاب میں دھر گھسیٹا۔ اگر کوئی
پیغمبر آتا تو دیکھ لیتے ہم کیسے نیک اور ایماندار ثابت ہوتے۔
|
وَلَقَد أَرسَلنا مِن
قَبلِكَ رُسُلًا إِلىٰ قَومِهِم فَجاءوهُم بِالبَيِّنٰتِ فَانتَقَمنا مِنَ
الَّذينَ أَجرَموا ۖ وَكانَ حَقًّا عَلَينا نَصرُ المُؤمِنينَ
{30:47}
|
اور
ہم بھیج چکے ہیں تجھ سے پہلے کتنے رسول اپنی اپنی قوم کے پاس سو پہنچے انکے پاس
نشانیاں لے کر پھر بدلہ لیا ہم نے ان سے جو گنہگار تھے اور حق ہے ہم پر مدد
ایمان والوں کی [۵۸]
|
پہلے
فرمایا تھا کہ مقبول اور مردود جدا کر دیے جائیں گے۔ منکروں پر ان کے انکار کا
وبال پڑے گا۔ وہ اللہ کو اچھے نہیں لگتے۔ اب بتلاتے ہیں کہ اس کا اظہار دنیا ہی
میں ہو کر رہے گا۔ کیونکہ اللہ کی عادت اور وعدہ ہے کہ مجرمین و مکذبین سے
انتقام لے اور مومنین کاملین کو اپنی امداد و اعانت سے دشمنوں پر غالب کرے بیچ
میں ہوا کا ذکر اس واسطے آیا کہ جیسے باران رحمت کے نزول سے پہلے ہوائیں چلتی
ہیں اسی طرح دین کے غلبہ کی نشانیاں روشن ہو تی جاتی ہیں۔
|
النَّبِىُّ أَولىٰ بِالمُؤمِنينَ مِن أَنفُسِهِم ۖ وَأَزوٰجُهُ
أُمَّهٰتُهُم ۗ وَأُولُوا الأَرحامِ بَعضُهُم أَولىٰ بِبَعضٍ فى كِتٰبِ اللَّهِ
مِنَ المُؤمِنينَ وَالمُهٰجِرينَ إِلّا
أَن تَفعَلوا إِلىٰ أَولِيائِكُم مَعروفًا ۚ كانَ ذٰلِكَ فِى الكِتٰبِ مَسطورًا
{33:6}
|
نبی
سے لگاؤ ہے ایمان والوں کو زیادہ اپنی جان سے [۶] اور اسکی عورتیں انکی مائیں
ہیں [۷] اور قرابت والے ایک دوسرے سے لگاؤ رکھتے ہیں اللہ کے حکم میں زیادہ سب
ایمان والوں اور ہجرت کرنے والوں سے مگر یہ کہ کرنا چاہو اپنے رفیقوں سے احسان
[۸] یہ ہے کتاب میں لکھا ہوا [۹]
|
یعنی
دینی مائیں ہیں تعظیم و احترام میں اور بعض احکام جو ان کے لئے شریعت سے ثابت
ہوں۔ کل احکام میں نہیں۔
|
حضرت
کے ساتھ جنہوں نے وطن چھوڑا، بھائی بندوں سے ٹوٹے، آپ نے ان مہاجرین اور انصار
مدینہ میں سے دو دو آدمیوں کو آپس میں بھائی بنا دیا تھا۔ بعدہٗ مہاجرین کے
دوسرے قرابت دار مسلمان ہو گئے تب فرمایا کہ قدرتی رشتہ ناتا اس بھائی چارہ سے
مقدم ہے۔ میراث وغیرہ رشتہ ناتے کے موافق تقسیم ہو گی۔ ہاں سلوک احسان ان رفیقوں
سے بھی کئے جاؤ۔
|
یعنی
قرآن میں یہ حکم ہمیشہ کو جاری رہا۔ یا تورات میں بھی ہو گا یا "کتاب"
سے "لوح محفوظ" مراد ہو۔
|
مومن
کا ایمان اگر غور سے دیکھا جائے تو ایک شعاع ہے اس نور اعظم کی جو آفتاب نبوت سے
پھیلتا ہے۔ آفتاب نبوت پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام ہوئے۔ بناء بریں مومن (من
حیث ہو مومن) اگر اپنی حقیقت سمجھنے کے لئے حرکت فکری شروع کرے تو اپنی ایمانی
ہستی سے پیشتر اس کو پیغمبر علیہ السلام کی معرفت حاصل کرنی پڑے گی اس اعتبار سے
کہہ سکتے ہیں کہ نبی کا وجود مسعود خود ہماری ہستی سے بھی زیادہ ہم سے نزدیک ہے
اور اگر اس روحانی تعلق کی بناء پر کہہ دیا جائے کہ مومنین کے حق میں نبی بمنزلہ
باپ کے بلکہ اس سے بھی بمراتب بڑھ کر ہے تو بالکل بجا ہو گا۔ چنانچہ سنن ابی
داؤد میں { اِنَّمَا اَنَا لَکُمْ بِمَنْزِلَۃِ الوَالِد } الخ اور ابی بن کعب
وغیرہ کی قرأت میں آیت ہذا { اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ } الخ کے
ساتھ { وَھُوَ اَبٌ لَھُمْ } کا جملہ اسی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔ باپ بیٹے کے
تعلق میں غور کرو تو اس کا حاصل یہ ہی نکلے گا کہ بیٹے کا جسمانی وجود باپ کے
جسم سے نکلا ہے اور باپ کی تربیت و شفقت طبعی اوروں سے بڑھ کر ہے لیکن نبی اور
امتی کا تعلق کیا اس سے کم ہے؟ یقینًا امتی کا ایمانی و روحانی وجود نبی کی
روحانیت کبریٰ کا پرتو اور ظل ہوتا ہے اور جو شفقت و تربیت نبی کی طرف سے ظہور
پذیر ہوتی ہے ماں باپ تو کیا تمام مخلوق میں اس کا نمونہ نہیں مل سکتا۔ باپ کے
ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے ہم کو دنیا کی عارضی حیات عطا فرمائی تھی۔ لیکن نبی کے
طفیل ابدی اور دائمی حیات ملی ہے۔ نبی کریم ﷺ ہماری وہ ہمدردی اور خیرخواہانہ شفقت و تربیت فرماتے
ہیں جو خود ہمارا نفس بھی اپنی نہیں کر سکتا۔ اسی لئے پیغمبر کو ہماری جان و مال
میں تصرف کرنے کا وہ حق پہنچتا ہے جو دنیا میں کسی کو حاصل نہیں۔ حضرت شاہ صاحبؒ
لکھتے ہیں کہ " نبی نائب ہے اللہ کا، اپنی جان و مال میں اپنا تصرف نہیں
چلتا جتنا نبی کا چلتا ہے۔ اپنی جان دہکتی آگ میں ڈالنا روا نہیں اور اگر نبی
حکم دیدے تو فرض ہو جائے"۔ ان ہی حقائق پر نظر کرتے ہوئے احادیث میں فرمایا
کہ تم میں کوئی آدمی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک باپ، بیٹے اور سب
آدمیوں بلکہ اس کی جان سے بھی بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔
|
مِنَ المُؤمِنينَ رِجالٌ صَدَقوا ما عٰهَدُوا اللَّهَ
عَلَيهِ ۖ فَمِنهُم مَن قَضىٰ نَحبَهُ وَمِنهُم مَن يَنتَظِرُ ۖ وَما بَدَّلوا
تَبديلًا {33:23}
|
ایمان
والوں میں کتنے مرد ہیں کہ سچ کر دکھلایا جس بات کا عہد کیا تھا اللہ سے پھر
کوئی تو ان میں پورا کر چکا اپنا ذمہ اور کوئی ہے ان میں راہ دیکھ رہا اور بدلا
نہیں ایک ذرہ [۳۵]
|
یعنی
منافقین نے جو عہد کیا تھا پچھلے رکوع میں گذر چکا { وَلَقَدْ کَانُوْا عَاھَدُ
وا اللہَ مِنْ قَبْلُ لَا یُوَلُّوْنَ الْاَدْبَارَ } اسے توڑ کر بیحیائی کے
ساتھ میدان جنگ سے ہٹ گئے ۔ ان کے برعکس کتنے پکے مسلمان ہیں جنہوں نے اپنا
عہدوپیمان سچا کر دکھلایا۔ بڑی بڑی سختیوں کے وقت دین کی حمایت اور پیغمبر کی
رفاقت سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹایا۔ اللہ و رسول کو جو زبان دے چکے تھے، پہاڑ کی
طرح اس پر جمے رہے۔ ان میں سے کچھ تو وہ ہیں جو اپنا ذمہ پورا کر چکے یعنی جہاد
ہی میں جان دیدی جیسے شہدائے بدر و احد جن میں سے حضرت انس بن النضرؓ کا قصہ بہت
مشہور ہے اور بہت مسلمان وہ ہیں جو نہایت اشتیاق کے ساتھ موت فی سبیل اللہ کا
انتظار کر رہے ہیں کہ کب کوئی معرکہ پیش آئے جس میں ہمیں بھی شہادت کا مرتبہ
نصیب ہو۔ بہرحال دونوں قسم کے مسلمانوں نے (جو اللہ کی راہ میں جان دے چکے، اور
جو مشتاق شہادت ہیں) اپنے عہدو پیمان کی پوری حفاظت کی اور اپنی بات سے ذرہ بھر
نہیں بدلے۔ ف:۔ حضرت طلحہ کے بارے میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد: حدیث میں نبی کریم ﷺ نے
حضرت طلحہؓ کو فرمایا { ھٰذا مِمَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ } (یہ ان میں سے ہے جو اپنا
ذمہ پورا کر چکے) گویا ان کو اسی زندگی میں شہید قرار دیدیا گیا۔ یہ وہ بزرگ ہیں
جو جنگ احد میں رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کے لئے اپنے ہاتھ پر تیر
روکتے رہے حتیٰ کی شل ہو کر رہ
گیا۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ۔
|
وَرَدَّ اللَّهُ الَّذينَ
كَفَروا بِغَيظِهِم لَم يَنالوا خَيرًا ۚ وَكَفَى اللَّهُ المُؤمِنينَ القِتالَ ۚ وَكانَ اللَّهُ قَوِيًّا
عَزيزًا {33:25}
|
اور
پھیر دیا اللہ نے منکروں کو اپنے غصہ میں بھرے ہوئے ہاتھ نہ لگی کچھ بھلائی [۳۷]
اور اپنے اوپر لے لی اللہ نے مسلمانوں کی لڑائی اور ہے اللہ زور آور زبردست [۳۸]
|
یعنی
مسلمانوں کو عام لڑائی لڑنے کی نوبت نہ آنے دی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ہوا
کاطوفان اور فرشتوں کا لشکر بھیج کر وہ اثر پیدا کر دیا کہ کفار ازخود سراسیمہ
اور پریشان حال ہو کر بھاگ گئے، اللہ کی زبردست قوت کے سامنے کون ٹھہر سکتا ہے۔
|
یعنی
کفار کا لشکر ذلت و ناکامی سے پیچ و تاب کھاتا اور غصہ سے دانت پیستا ہوا میدان
چھوڑ کر واپس ہوا، نہ فتح ملی نہ کچھ سامان ہاتھ آیا۔ ہاں عمرو بن عبدود جیسا ان
کا نامور سوار جسے لوگ ایک ہزار سواروں کی برابر گنتے تھے اس لڑائی میں حضرت علی
کرم اللہ وجہہ کے ہاتھ سے کھیت رہا۔ مشرکین نے درخواست کی کہ دس ہزار لے کر اس
کی لاش ہمیں دیدی جائے۔ آپ نے فرمایا وہ تم لیجاؤ، ہم مُردوں کا ثمن کھانے والے
نہیں۔
|
وَإِذ تَقولُ لِلَّذى
أَنعَمَ اللَّهُ عَلَيهِ وَأَنعَمتَ عَلَيهِ أَمسِك عَلَيكَ زَوجَكَ وَاتَّقِ
اللَّهَ وَتُخفى فى نَفسِكَ مَا اللَّهُ مُبديهِ وَتَخشَى النّاسَ وَاللَّهُ
أَحَقُّ أَن تَخشىٰهُ ۖ فَلَمّا قَضىٰ زَيدٌ مِنها وَطَرًا زَوَّجنٰكَها لِكَى
لا يَكونَ عَلَى المُؤمِنينَ حَرَجٌ فى
أَزوٰجِ أَدعِيائِهِم إِذا قَضَوا مِنهُنَّ وَطَرًا ۚ وَكانَ أَمرُ اللَّهِ
مَفعولًا {33:37}
|
اور
جب تو کہنے لگا اس شخص کو جس پر اللہ نے احسان کیا اور تو نے احسان کیا رہنے دے
اپنے پاس اپنی جورو کو اور ڈر اللہ سے اور تو چھپاتا تھا اپنے دل میں ایک چیز جس
کو اللہ کھولنا چاہتا ہے اور ڈرتا تھا لوگوں سے اور اللہ سے زیادہ چاہئیے ڈرنا
تجھ کو پھر جب زید تمام کر چکا اس عورت سے اپنی غرض [۵۵] ہم نے ا سکو تیرے نکاح
میں دیدیا تا نہ رہے مسلمانوں پر گناہ نکاح کر لینا جوروئیں اپنے لے پالکوں کی
جب وہ تمام کر لیں ان سے اپنی غرض اور ہے اللہ کا حکم بجا لانا [۵۶]
|
یعنی
زیدؓ نے طلاق دیدی اور عدت بھی گذر گئ، زینبؓ سے کچھ غرض مطلب نہ رہا۔
|
حضرت
زینبؓ زیدؓ کے نکاح میں آئیں تو وہ ان کی آنکھوں میں حقیر لگتا۔ مزاج کی موافقت
نہ ہوئی جب آپس میں لڑائی ہوتی تو زیدؓ آکر حضرت سے ان کی شکایت کرتے اور کہتے
میں اسے چھوڑتا ہوں حضرت منع فرماتے کہ میری خاطر اور اللہ و رسول کے حکم سے اس
نے تجھ کو اپنی منشاء کے خلاف قبول کیا اب چھوڑ دینے کو وہ اور اس کے عزیز دوسری
ذلت سمجھیں گے۔ اس لئے خدا سے ڈر اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر بگاڑ مت کر۔ اور جہاں
تک ہو سکے نباہ کی کوشش کرتا رہ۔ جب معاملہ کسی طرح نہ سلجھا اور باربار جھگڑے
قضیے پیش آتے رہے تو ممکن ہے آپ کے دل میں آیا ہو کہ اگر ناچار زید چھوڑ دے گا
تو زینب کی دلجوئی بغیر اس کے ممکن نہیں کہ میں خود اس سے نکاح کروں۔ لیکن
جاہلوں اور منافقوں کی بدگوئی سے اندیشہ کیا کہ کہیں گے اپنے بیٹے کی جورو گھر
میں رکھ لی۔ حالانکہ پہلے معلوم ہو چکا ہے کہ اللہ کے نزدیک "لے پالک"
کو کسی بات میں حکم بیٹے کا نہیں۔ ادھر اللہ کو یہ منظور تھا کہ اس جاہلانہ خیال
کو اپنے پیغمبر کے ذریعہ سے عملی طور پر ہدم کر دے۔ تا مسلمانوں کو آئندہ اس
مسئلہ میں کسی قسم کا توحش اور استنکاف باقی نہ رہے اس نے پیغمبر علیہ السلام کو
مطلع فرمایا کہ میں زینب کو تیرے نکاح میں دینے والا ہوں۔ کیوں دینے والا ہوں۔
حضرت زینبؓ کا نکاح کرنے کی حکمت: اس کو خود قرآن کے الفاظ { لِکَیْ لَا
یَکُوْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْٓ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآءِ ھِمْ } صاف
صاف ظاہر کر رہے ہیں۔ یعنی آپ کے نکاح میں دینے کی غرض یہ ہی تھی کہ دلوں سے
جاہلیت کے اس خیال باطل کا بالکل قلع قمع کر دیا جائے اور کوئی تنگی اور رکاوٹ
آئندہ اس معاملہ میں باقی نہ رہنے پائے۔ اور شاید یہ ہی حکمت ہو گی جو اول زینب
کا نکاح زید سے زور ڈال کر کرایا گیا۔ کیونکہ اللہ کو معلوم تھا کہ یہ نکاح
زیادہ مدت تک باقی نہ رہے گا۔ چند مصالح مہمہ تھیں جن کا حصول اس عقد پر معلق
تھا۔ الحاصل آنحضرت ﷺ خود اپنے ذاتی خیال اور آسمانی پیشینگوئی کے اظہار
سے عوام کے طعن و تشنیع کا خیال فرما کر شرماتے اور زید کو طلاق کا مشورہ دینے
میں بھی حیا کرتے تھے۔ لیکن خد ا کی خبر سچی ہونی تھی اور اس کا حکم تکوینی و
تشریعی ضرور تھا کہ نافذ ہو کر رہے۔ آخر کار زید نے طلاق دیدی۔ اور عدت گذر جانے
پر اللہ نے زینبؓ کا نکاح آنحضرت ﷺ
سے باندھ دیا۔ اس تقریر سے معلوم
ہو گیا کہ آپ دل میں جو چیز چھپائے ہوئے تھے وہ یہ ہی پیشینگوئی اور اس کا خیال
تھا۔ اسی کو بعد میں اللہ نے ظاہر فرما دیا۔ جیسا کہ لفظ { زَوَّجْنَاکَھَا } سے
ظاہر ہے اور ڈر اس بات کا تھا کہ بعض لوگ اس بات پر بدگمانی یا بدگوئی کر کے
اپنی عاقبت خراب نہ کر بیٹھیں یا گمراہی میں ترقی نہ کریں۔ چونکہ مصالح مہمہ
شرعیہ کے مقابلہ میں اس قسم کی جھجک بھی پیغمبر کی شان رفیع سے نازل تھی اس لئے
بقاعدہ "حسنات الابرار سئیات المقربین" اس کو عتاب آمیز رنگ میں بھاری
کر کے ظاہر فرمایا گیا۔ جیسا کہ عمومًا انبیاء علیہم السلام کی زَلاّت کے ذکر
میں واقع ہوا ہے۔ (تنبیہ) ہم نے جو لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نکاح کی خبر
پہلے سے دیدی تھی۔ اس کی روایات فتح الباری سورہ احزاب کی تفسیر میں موجود ہیں۔
باقی جو لغو اور دورازکار قصے اس مقام پر حاطب اللیل مفسرین و مؤرخین نے درج کر
دیے ہیں ان کی نسبت حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں ۔ { لَا یَنْبَغِیْ التشاغُلُ بِھَا
} اور ابن کثیرؒ لکھتے ہیں۔ { اَحْبَبْنَا اَنْ نَضْرِبَ عَنْھَا صَفْحًا
لِعَدَمِ صِحَتِّھَا فَلَا نُوْرِدُھَا }۔
|
وَبَشِّرِ المُؤمِنينَ بِأَنَّ لَهُم مِنَ اللَّهِ فَضلًا
كَبيرًا {33:47}
|
اور
خوشخبری سنا دے ایمان والوں کو کہ ان کے لیے ہے خدا کی طرف سے بڑی بزرگی [۶۷]
|
یعنی
دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ نے اس امت کو حضرت کے طفیل سب امتوں پر بزرگی اور
برتری دی۔
|
يٰأَيُّهَا النَّبِىُّ
إِنّا أَحلَلنا لَكَ أَزوٰجَكَ الّٰتى ءاتَيتَ أُجورَهُنَّ وَما مَلَكَت
يَمينُكَ مِمّا أَفاءَ اللَّهُ عَلَيكَ وَبَناتِ عَمِّكَ وَبَناتِ عَمّٰتِكَ
وَبَناتِ خالِكَ وَبَناتِ خٰلٰتِكَ الّٰتى هاجَرنَ مَعَكَ وَامرَأَةً مُؤمِنَةً
إِن وَهَبَت نَفسَها لِلنَّبِىِّ إِن أَرادَ النَّبِىُّ أَن يَستَنكِحَها
خالِصَةً لَكَ مِن دونِ المُؤمِنينَ ۗ
قَد عَلِمنا ما فَرَضنا عَلَيهِم فى أَزوٰجِهِم وَما مَلَكَت أَيمٰنُهُم لِكَيلا
يَكونَ عَلَيكَ حَرَجٌ ۗ وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا {33:50}
|
اے
نبی ہم نے حلال رکھیں تجھ کو تیری عورتیں جن کے مہر تو دے چکا ہے اور جو مال ہو
تیرے ہاتھ کا جو ہاتھ لگا دے تیرے اللہ [۷۱] اور تیرے چچا کی بیٹیاں اور
پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تیرے ماموں کی بیٹیاں اور تیری خالاؤں کی بیٹیاں جنہوں
نے وطن چھوڑا تیرے ساتھ اور جو عورت ہو مسلمان اگر بخشدے اپنی جان نبی کو اگر
نبی چاہے کہ اس کو نکاح میں لائے یہ خاص ہے تیرے لیے سوائے سب مسلمانوں کے ہم کو
معلوم ہے جو مقرر کر دیا ہے ہم نے ان پر انکی عوتوں کے حق میں اور انکے ہاتھ کے
مال میں تا نہ رہے تجھ پر تنگی اور ہے اللہ بخشنے والا مہربان [۷۲]
|
یعنی
لونڈیاں باندیاں جو غنیمت وغیرہ سے ہاتھ لگی ہوں۔
|
تیری
عورتیں جن کا مہر دے چکا۔ یعنی جو اب تیرے نکاح میں ہیں خواہ قریش سے ہوں اور
مہاجر ہوں یا نہ ہوں سب حلال رہیں، ان میں سے کسی کو چھوڑنے کی ضرورت نہیں۔ اور
چچا، پھوپھی، ماموں، خالہ کی بیٹیاں یعنی قریش میں کی جو باپ یا ماں کی طرف سے
قرابتدار ہوں بشرط ہجرت کے حلال ہیں ان سے نکاح کر سکتے ہو۔ اور جو عورت بخشے
نبی کو اپنی جان یعنی بلا مہر کے نکاح میں آنا چاہے وہ بھی حلال ہے اگر آپ اس
طرح نکاح میں لانا پسند کریں۔ یہ اجازت خاص پیغمبر کے لئے ہے گو آپ نے کبھی اس پر
عمل نہیں کیا (کما فی الفتح) شاید { اِنْ اَرَادَالنَّبِیُّ } کی شرط سے اباحت
مرجوحہ سمجھی ہو۔ بہرحال دوسرے مسلمانوں کے لئے وہ ہی حکم ہے جو معلوم ہو چکا {
اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ } (نساء رکوع۴) یعنی بلا مہر نکاح نہیں، خواہ
عقد کے وقت ذکر آیا خواہ پیچھے ٹھہرا لیا نہ ٹھہرایا تو مہر مثل (جو اس کی قوم
کا مہر ہو) واجب ہو گا۔ پیغمبر پر سے اللہ تعالیٰ نے یہ مہر کی قید اٹھا دی تھی۔
برخلاف مومنین کے کہ ان کو نہ چار سے زائد کی اجازت نہ بدون مہر کے نکاح درست۔
(تنبیہ)
|
وَالَّذينَ يُؤذونَ المُؤمِنينَ وَالمُؤمِنٰتِ بِغَيرِ مَا اكتَسَبوا
فَقَدِ احتَمَلوا بُهتٰنًا وَإِثمًا مُبينًا {33:58}
|
اور
جو لوگ تمہت لگاتے ہیں مسلمان مردوں کو اور مسلمان عورتوں کو بدون گناہ کیے تو
اٹھایا انہوں نے بوجھ جھوٹ کا اور صریح گناہ کا [۸۸]
|
یہ
منافق تھے جو پیٹھ پیچھے بدگوئی کرتے رسول کی ، یا آپ کی ازواج طاہرات پر جھوٹ
طوفان اٹھاتے جیسا کہ سورہ "نور" میں گذر چکا۔ آگے بعض ایذاؤں کے
انسداد کا بندوبست کیا گیا ہے جو مسلمان عورتوں کو ان کی طرف سے پہنچتی تھی۔
روایات میں ہے کہ مسلمان مستورات جب ضروریات کے لئے باہر نکلتیں، بدمعاش منافق
تاک میں رہتے۔ اور چھیڑ چھاڑ کرتے پھر پکڑے جاتے تو کہتے ہم نے سمجھا نہیں تھا
کہ کوئی شریف عورت ہے ۔ لونڈی باندی سمجھ کر چھیڑ دیا تھا۔
|
يٰأَيُّهَا النَّبِىُّ قُل
لِأَزوٰجِكَ وَبَناتِكَ وَنِساءِ المُؤمِنينَ
يُدنينَ عَلَيهِنَّ مِن جَلٰبيبِهِنَّ ۚ ذٰلِكَ أَدنىٰ أَن يُعرَفنَ فَلا
يُؤذَينَ ۗ وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا {33:59}
|
اے
نبی کہہ دے اپنی عورتوں کو اور اپنی بیٹیوں کو اور مسلمانوں کی عورتوں کو نیچے
لٹکا لیں اپنے اوپر تھوڑی سی اپنی چادریں [۸۹] اس میں بہت قریب ہے کہ پہچانی
پڑیں تو کوئی انکو نہ ستائے اور ہے اللہ بخشنے والا مہربان [۹۰]
|
یعنی
بدن ڈھانپنے کے ساتھ چادر کا کچھ حصہ سر سے نیچے چہرہ پر بھی لٹکا لیویں۔ روایات
میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے پر مسلمان عورتیں بدن اور چہرہ چھپا کر اس طرح
نکلتی تھیں کہ صرف ایک آنکھ دیکھنے کے لئے کھلی رہتی تھی۔ اس سے ثابت ہوا کہ
فتنہ کے وقت آزاد عورت کو چہرہ بھی چھپا لینا چاہئے۔ لونڈی باندیوں کو ضرورت
شدیدہ کی وجہ سے اس کا مکلف نہیں کیا۔ کیونکہ کاروبار میں حرج عظیم واقع ہوتا
ہے۔
|
حضرت
شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "یعنی پہچانی پڑیں کہ لونڈی نہیں۔ بی بی ہے صاحب
ناموس، بدذات نہیں نیک بخت ہے تو بدنیت لوگ اس سے نہ الجھیں گے ۔ گھونگھٹ اس کا
نشان رکھ دیا۔ یہ حکم بہتری کا ہے۔ آگے فرما دیا اللہ ہے بخشنے والا
مہربان"۔ یعنی باوجود اہمتام کے کچھ تقصیر رہ جائے تو اللہ کی مہربانی سے بخشش
کی توقع ہے۔ (تکمیل) یہ تو آزاد عورتوں کے متعلق انتظام تھا کہ انہیں پہچان کر
ہر ایک کا حوصلہ چھیڑنے کا نہ ہو، اور جھوٹ عذر کا موقع نہ رہے۔ آگے عام چھیڑ
چھاڑ کی نسبت دھمکی دی ہے خواہ بی بی سے ہو یا لونڈی سے۔
|
لِيُعَذِّبَ اللَّهُ
المُنٰفِقينَ وَالمُنٰفِقٰتِ وَالمُشرِكينَ وَالمُشرِكٰتِ وَيَتوبَ اللَّهُ
عَلَى المُؤمِنينَ وَالمُؤمِنٰتِ ۗ
وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا {33:73}
|
تاکہ
عذاب کرے اللہ منافق مردوں کو اور عورتوں کو اور شرک والے مردوں کو اور عورتوں
کو اور معاف کرے اللہ ایمان دار مردوں کو اور عورتوں کو اور ہے اللہ بخشنے والا
مہربان [۱۰۳]
|
میرے
نزدیک اس جگہ { وَیَتُوْبَ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ } الخ کے معنی معاف کرنے
کے نہ لئے جائیں بلکہ ان کے حال پر متوجہ ہونےاور مہربانی فرمانے کےلیں تو بہتر
ہے جیسے { لَقَدْ تَابَ اللہِ عَلَی النَّبِیّ وَالْمُھَاجِرِیْنَ } میں لئے گئے
ہیں۔ تو یہ مومنین کاملین کا بیان ہوا۔ اور { کَانَ اللہُ غَفُوْرً ا رَّحِیْمًا
} میں قاصرین و مقصرین کے حال کی طرف اشارہ فرما دیا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ نسال
اللہ تعالیٰ ان یتوب علینا ویغفرلنا ویثیبنا بالفوزالعظیم۔ انہ جل جلالہ و عم
نوالہ غفور الرحیم۔ تم سورۃ الاحزاب وللہ الحمد والمنتہ۔
|
وَلَقَد صَدَّقَ عَلَيهِم
إِبليسُ ظَنَّهُ فَاتَّبَعوهُ إِلّا فَريقًا مِنَ المُؤمِنينَ
{34:20}
|
اور
سچ کر دکھلائی ان پر ابلیس نے اپنی اٹکل پھر اسی کی راہ چلے مگر تھوڑے سے ایمان
دار [۳۱]
|
پہلے
دن ابلیس نے تخمینہ کر کے کہا تھا { لَاَ حْتَنِکَنَّ ذُرِّیَّتَہٗ اِلَّا
قَلِیْلًا } (اسراء رکوع۷) اور { ثُمَّ لَاٰ تِیَنَّھُمْ مِّنْ اَبَیْنِ
اَیْدِیْھِمْ وَ مِنْ خَلْفِھِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِھِمْ وَ عَنْ شَمَآئِلِھِمْ
وَلَا تَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شَاکِرِیْنَ } (اعراف رکوع۲) ویسے ہی نکلے۔
|
إِنَّهُ مِن عِبادِنَا المُؤمِنينَ {37:81}
|
وہ
ہے ہمارے ایماندار بندوں میں
|
إِنَّهُ مِن عِبادِنَا المُؤمِنينَ {37:111}
|
وہ
ہے ہمارے ایماندار بندوں میں [۶۵]
|
یعنی
ہمارے اعلٰی درجہ کے ایماندار بندوں میں۔
|
إِنَّهُما مِن عِبادِنَا المُؤمِنينَ {37:122}
|
تحقیق
وہ دونوں ہیں ہمارے ایماندار بندوں میں [۷۲]
|
یعنی
ہمارے کامل ایماندار بندوں میں سے ہیں۔
|
إِنَّهُ مِن عِبادِنَا المُؤمِنينَ {37:132}
|
وہ
ہے ہمارے ایماندار بندوں میں
|
هُوَ الَّذى أَنزَلَ
السَّكينَةَ فى قُلوبِ المُؤمِنينَ
لِيَزدادوا إيمٰنًا مَعَ إيمٰنِهِم ۗ وَلِلَّهِ جُنودُ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ ۚ
وَكانَ اللَّهُ عَليمًا حَكيمًا {48:4}
|
وہی
ہے جس نے اتارا اطمینان دل میں ایمان والوں کے تاکہ اور بڑھ جائے انکو ایمان
اپنے ایمان کے ساتھ [۶] اور اللہ کے ہیں سب لشکر آسمانوں کے اور زمین کے اور
اللہ ہے خبردار حکمت والا [۷]
|
یعنی
وہ ہی جانتا ہے کہ کس وقت قتال کا حکم دینا تمہارے لئے مصلحت ہے اور کس موقع پر
قتال سے باز رکھنا اور صلح کرنا حکمت ہے۔ تم کو اگر قتال کا حکم ہو تو کبھی کفار
کی کثرت کا خیال کر کے پس و پیش نہ کرنا کیونکہ آسمان و زمین کے لشکروں کا مالک
وہ ہی ہے جو تمہاری قلت کے باوجود اپنے غیبی لشکروں سے مدد کر سکتا ہے۔ جیسے
"بدر" "احزاب" اور "حنین" وغیرہ میں کی۔ اور اگر
صلح کرنے اور قتال سے رکنے کا حکم دے تو اُسی کی تعمیل کرو۔ یہ خیال نہ کرنا کہ
افسوس صلح ہو گئ اور کفار بچ نکلے انکو سزا نہ ملی اگر قتال کا حکم ہو جاتا تو
ہم انکو ہلاک کر ڈالتے۔ کیونکہ ان کا ہلاک ہونا کچھ تم پر موقوف نہیں۔ ہم چاہیں
تو اپنے دوسرے لشکروں سے ہلاک کر سکتے ہیں۔ بہرحال زمین و آسمان کے لشکروں کا
مالک اگر صلح کا حکم دے گا تو ضرور اسی میں بہتری اور حکمت ہو گی۔
|
اطمینان
اتارا۔ یعنی باوجود خلاف طبع ہونے کے رسول کے حکم پر جمے رہے۔ ضدی کافروں کے
ساتھ ضد نہیں کرنے لگے۔ اسکی برکت سے انکے ایمان کا درجہ بڑھا اور مراتب عرفان و
ایقان میں ترقی ہوئی۔ انہوں نے اول بیعت جہاد کر کے ثابت کر دیا تھا کہ ہم اللہ
کی راہ میں لڑنے مرنے کے لئے تیار ہیں۔ یہ ایمان کا ایک رنگ تھا اسکے بعد جب
پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مسلمانوں کے جذبات کے خلاف اللہ کے حکم سے صلح
منظور کر لی تو انکے ایمان کا دوسرا رنگ یہ تھا کہ اپنے پرجوش جذبات و عواطف کو
زور سے دبا کر اللہ و رسول کے فیصلہ کے آگے گردن انقیاد خم کر دی۔ رضی اللہ عنہم
و رضواعنہ۔
|
لِيُدخِلَ المُؤمِنينَ وَالمُؤمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجرى مِن
تَحتِهَا الأَنهٰرُ خٰلِدينَ فيها وَيُكَفِّرَ عَنهُم سَيِّـٔاتِهِم ۚ وَكانَ
ذٰلِكَ عِندَ اللَّهِ فَوزًا عَظيمًا {48:5}
|
تاکہ
پہنچا دے ایمان والے مردوں کو اور ایمان والی عورتوں کو باغوں میں نیچے بہتی ہیں
انکے نہریں ہمیشہ رہیں ان میں اور اتار دی اُن پر سے اُنکی برائیاں [۸] اور یہ
ہے اللہ کے یہاں بڑی مراد ملتی [۹]
|
جب
حضور ﷺ نے { اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا } الخ
پڑھ کر سنائی تو انہوں نے آپکی خدمت میں مبارکباد عرض کی اور کہا یا رسول اللہ!
یہ تو آپ کےلئے ہوا۔ ہمارے لئے کیا ہے۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں یعنی اللہ نے
اطمینان و سکینہ اتار کو مومنین کا ایمان بڑھایا۔ تا انہیں نہایت اعزاز و اکرام
کے ساتھ جنت میں داخل کرے اور انکی برائیوں اور کمزوریوں کو معاف فرما دے۔ حدیث
میں ہے کہ جن اصحاب نے "حدیبیہ" میں بیعت کی ان میں سے ایک بھی دوزخ
میں داخل نہ ہو گا۔ (تنبیہ) مومنات کا ذکر تعمیم کے لئے ہے۔ یعنی مرد ہو یا عورت
کسی کی محنت اور ایمانداری ضائع نہیں جاتی۔ احادیث سے ثابت ہے کہ حضرت ام سلمہؓ
اس سفر میں حضور ﷺ کے ہمراہ تھیں۔
|
بعض
نقال صوفی یا کوئی مغلوب الحال بزرگ کہدیا کرتے ہیں کہ جنت طلب کرنا ناقصوں کا
کام ہے، یہاں سے معلوم ہوا کہ اللہ کے ہاں یہ ہی بڑا کمال ہے۔
|
لَقَد رَضِىَ اللَّهُ عَنِ المُؤمِنينَ إِذ يُبايِعونَكَ تَحتَ الشَّجَرَةِ
فَعَلِمَ ما فى قُلوبِهِم فَأَنزَلَ السَّكينَةَ عَلَيهِم وَأَثٰبَهُم فَتحًا
قَريبًا {48:18}
|
تحقیق
اللہ خوش ہوا ایمان والوں سے جب بیعت کرنے لگے تجھ سے اس درخت کے نیچے [۳۱] پھر
معلوم کیا جو اُنکے جی میں تھا [۳۲] پھر اتارا اُن پر اطمینان اور انعام دیا
اُنکو ایک فتح نزدیک
|
وہ
کیکر کا درخت تھا حُدیبیہ میں۔ غالبًا { لَقَدْ رَضِی اللہُ } فرمانے کی وجہ سے
اسی بیعت کو "بیعت الرضوان" کہتے ہیں۔ شروع سورت میں اس کا مفصل قصہ
گذر چکا۔
|
یعنی
ظاہر کا اندیشہ اور دل کا توکل، حسن نیت، صدق و اخلاص اور حُب اسلام وغیرہ۔
عمومًا مفسرین نے { مَافِیْ قُلُوْبِھِمْ } سے یہ ہی مراد لیا ہے۔ مگر ابو حیان
کہتے ہیں کہ صلح اور شرائط صلح کی طرف سے دلوں میں جو رنج و اضطراب تھا وہ مراد
ہے اور آگے { فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْھِمْ } اس پر زیادہ چسپاں ہوتا ہے۔
واللہ اعلم۔
|
إِذ جَعَلَ الَّذينَ
كَفَروا فى قُلوبِهِمُ الحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الجٰهِلِيَّةِ فَأَنزَلَ اللَّهُ
سَكينَتَهُ عَلىٰ رَسولِهِ وَعَلَى المُؤمِنينَ
وَأَلزَمَهُم كَلِمَةَ التَّقوىٰ وَكانوا أَحَقَّ بِها وَأَهلَها ۚ وَكانَ
اللَّهُ بِكُلِّ شَيءٍ عَليمًا {48:26}
|
جب
رکھی منکروں نے اپنے دلوں میں کد نادانی کی ضد پھر اتارا اللہ نے اپنی طرف کا
اطمینان اپنے رسول پر اور مسلمانوں پر [۴۷] اور قائم رکھا انکو ادب کی بات پر
اور وہی تھے اسکے لائق اور اس کام کے اور ہے اللہ ہر چیز سے خبردار [۴۸]
|
نادانی
کی ضد یہ ہی کہ امسال عمرہ نہ کرنے دیا اور یہ کہ جو مسلمان مکہ سےہجرت کر جائے
اسے پھر واپس بھیجدو۔ اگلے سال عمرہ کو آؤ تو تین دن سے زیادہ مکہ میں نہ ٹھہرو۔
اور ہتھیار کھلے نہ لاؤ صلح نامہ میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نہ لکھو اور بجائے
محمد رسول اللہ کے صرف محمد بن عبداللہ تحریر کرو۔ حضرت نے یہ سب باتیں قبول کیں
اور مسلمانوں نے سخت انقباض و اضطراب کے باوجود پیغمبر کے ارشاد کے آگے سر تسلیم
جھکا دیا اور بالآخر اسی فیصلہ پر انکے قلوب مطمئن ہو گئے۔
|
یعنی
اللہ سے ڈر کر نافرمانی کی راہ سے بچے اور کعبہ کے ادب پر مضبوطی سے قائم رہے۔
اور کیوں نہ رہتے۔ وہ دنیا میں خدائے واحد کے سچے پرستار اور کلمہ{ لَا اِلٰہَ
اِلَّا اللہ مُحَمّدٌ رَّسُوْلُ اللہ } کے زبردست حامل تھے ایک پکا موحد اور
پیغمبر کا مطیع و وفادار ہی اپنے جذبات و رجحانات کو عین جوش و خروش کے وقت اللہ
کی خوشنودی اور اس کے شعائر کی تعظیم پر قربان کر سکتا ہے۔ حقیقی توحید یہ ہی ہے
کہ آدمی اس اکیلے مالک کا حکم سن کر اپنی ذلت و عزت کے سب خیالات بالائے طاق رکھ
دے شاید اسی لئے حدیث میں "کلمہ التقوی" کی تفیسر { لَا اِلٰہَ اِلَّا
اللہ } سے کی گئ ہے۔ کیونکہ تمام تر تقوٰی و طہارت کی بنیاد یہ ہی کلمہ ہے۔ جس
کے اٹھانے اور حق ادا کرنے کے لئے اللہ تعالٰی نے اصحاب رسول ﷺ کو
چن لیا تھا۔ اور بلاشبہ اللہ کے علم میں وہ ہی اسکے مستحق اور اہل تھے۔
|
وَإِن طائِفَتانِ مِنَ المُؤمِنينَ اقتَتَلوا فَأَصلِحوا بَينَهُما ۖ
فَإِن بَغَت إِحدىٰهُما عَلَى الأُخرىٰ فَقٰتِلُوا الَّتى تَبغى حَتّىٰ تَفيءَ
إِلىٰ أَمرِ اللَّهِ ۚ فَإِن فاءَت فَأَصلِحوا بَينَهُما بِالعَدلِ وَأَقسِطوا ۖ
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ المُقسِطينَ {49:9}
|
اور
اگر دو فریق مسلمانوں کے آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں ملاپ کرا دو پھر اگر چڑھا
چلا جائے ایک ان میں سے دوسرے پر تو تم سب لڑو اس چڑھائی والے سے یہاں تک کہ پھر
آئے اللہ کے حکم پر پھر اگر پھر آیا تو ملاپ کرا دو ان میں برابر اور انصاف کرو
بیشک اللہ کو خوش آتے ہیں انصاف والے [۱۱]
|
یعنی
ان تمام پیش بندیوں کے باوجود اگر اتفاق سے مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ
پڑیں تو پوری کوشش کرو کہ اختلاف رفع ہو جائے اس میں اگر کامیابی نہ ہو اور کوئی
فریق دوسرے پر چڑھا چلا جائے اور ظلم و زیادتی ہی پر کمر باندھ لے تو یکسو ہو کر
نہ بیٹھ رہو، بلکہ جس کی زیادتی ہو سب مسلمان ملکر اس سے لڑائی کریں۔ یہاں تک کہ
وہ فریق مجبور ہو کر اپنی زیادتیوں سے باز آئے اور خدا کے حکم کی طرف رجوع ہو کر
صلح کے لئے اپنے کو پیش کر دے۔ اس وقت چاہئے کہ مسلمان دونوں فریق کے درمیان
مساوات و انصاف کے ساتھ صلح اور میل ملاپ کراد یں۔ کسی ایک کی طرفداری میں جادہ
حق سے اِدھر اُدھر نہ جھکیں (تنبیہ) آیت کا نزول صحیحین کی رویات کے موافق
"انصار" کے دو گروہوں اَوْس اور خَزْرَج کے ایک وقتی ہنگامے کے متعلق
ہوا ہے۔ حضور ﷺ نے انکے درمیان اسی آیت کے ماتحت
صلح کرا دی۔ جو
لوگ خلیفہ کے مقابلہ میں بغاوت کریں وہ بھی عموم آیت میں داخل ہیں چنانچہ قدیم
سے علمائے سلف بغاوت کے مسئلہ میں اسی سے استدلال کرتے آئے ہیں۔ لیکن جیسا کہ
شان نزول سے ظاہر ہوتا ہے یہ حکم مسلمانوں کے تمام جماعتی مناقشات و مشاجرات کو
شامل ہے۔ باقی باغیوں کے متعلق احکام شرعیہ کی تفصیل فقہ میں دیکھنا چاہئیے۔
|
فَأَخرَجنا مَن كانَ فيها
مِنَ المُؤمِنينَ {51:35}
|
پھر
بچا نکالا ہم نے جو تھا وہاں ایمان والا
|
وَذَكِّر فَإِنَّ الذِّكرىٰ
تَنفَعُ المُؤمِنينَ {51:55}
|
اور
سمجھاتا رہ کہ سمجھانا کام آتا ہے ایمان والوں کو [۴۰]
|
یعنی
آپ فرضِ دعوت و تبلیغ کماحقہ ادا کرچکے۔ اب زیادہ پیچھے پڑنے اور غم کرنے کی
ضرورت نہیں۔ نہ ماننے کا جو کچھ الزام رہیگا ان ہی معاندین پر رہیگا۔ ہاں
سمجھانا آپ کاکام ہے۔ سو یہ سلسلہ جاری رکھیے جس کی قسمت میں ایمان لانا ہوگا اس
کو یہ سمجھاناکام دیگا، جو ایمان لاچکے ہیں ان کو مزید نفع پہنچے گا، اور منکروں
پر خدا کی حجت تمام ہوگی۔
|
يَومَ تَرَى المُؤمِنينَ وَالمُؤمِنٰتِ يَسعىٰ نورُهُم بَينَ
أَيديهِم وَبِأَيمٰنِهِم بُشرىٰكُمُ اليَومَ جَنّٰتٌ تَجرى مِن تَحتِهَا
الأَنهٰرُ خٰلِدينَ فيها ۚ ذٰلِكَ هُوَ الفَوزُ العَظيمُ {57:12}
|
جس
دن تو دیکھے ایمان والے مردوں کو اور ایمان والی عورتوں کو دوڑتی ہوئی چلتی ہے
اُنکی روشنی اُنکے آگے اور ان کے داہنے [۲۱] خوشخبری ہے تم کو آج کے دن باغ ہیں
کہ نیچے بہتی ہیں جنکے نہریں سدا رہو اُن میں یہ جو ہے یہی ہے بڑی مراد ملنی
[۲۲]
|
کیونکہ
جنت اللہ کی خوشنودی کا مقام ہے۔ جو وہاں پہنچ گیا سب مرادیں مل گئیں۔
|
میدانِ
حشر سے جس وقت پل صراط پر جائیں گے سخت اندھیرا ہوگا تب اپنے ایمان اور عمل صالح
کی روشنی ساتھ ہوگی۔ شاید ایمان کی روشنی جس کا محل قلب ہے آگے ہو اور عمل صالح
کی داہنے کیونکہ نیک عمل داہنی طرف جمع ہوتے ہیں۔ جس درجہ کا کسی کا ایمان و عمل
ہوگا اسی درجہ کی روشنی ملے گی۔ اور غالباً اس امّت کی روشنی اپنے نبی کے طفیل
دوسری امتوں کی روشنی سےزیادہ صاف اور تیز ہوگی۔ بعض روایات سے بائیں جانب بھی
روشنی کا ہونا معلوم ہوتا ہے۔ اس کا مطلب شاید یہ ہوگا کہ روشنی کا اثر ہر طرف
پہنچے کا۔ واللہ اعلم۔
|
هُوَ الَّذى أَخرَجَ
الَّذينَ كَفَروا مِن أَهلِ الكِتٰبِ مِن دِيٰرِهِم لِأَوَّلِ الحَشرِ ۚ ما
ظَنَنتُم أَن يَخرُجوا ۖ وَظَنّوا أَنَّهُم مانِعَتُهُم حُصونُهُم مِنَ اللَّهِ
فَأَتىٰهُمُ اللَّهُ مِن حَيثُ لَم يَحتَسِبوا ۖ وَقَذَفَ فى قُلوبِهِمُ
الرُّعبَ ۚ يُخرِبونَ بُيوتَهُم بِأَيديهِم وَأَيدِى المُؤمِنينَ فَاعتَبِروا يٰأُولِى الأَبصٰرِ {59:2}
|
وہی
ہے جس نے نکال دیا اُنکو جو منکر ہیں کتاب والوں میں اُنکے گھروں سے [۲] پہلے ہی
اجتماع پر لشکر کے [۳] تم نہ اٹکل کرتے تھے کہ نکلیں گے اور وہ خیال کرتے تھے کہ
اُنکو بچا لیں گے اُنکے قلعے اللہ کے ہاتھ سے پھر پہنچا اُن پر اللہ جہاں سے
اُنکو خیال نہ تھا اور ڈال دی اُنکے دلوں میں دھاک [۴] اجاڑنے لگے اپنے گھر اپنے
ہاتھوں اور مسلمانوں کے ہاتھوں [۵] سو عبرت پکڑو اے آنکھ والو [۶]
|
مدینہ
سے مشرقی جانب چند میل کے فاصلہ پر ایک قوم یہود بستی تھی جس کو "بنی
نضیر" کہتے تھے۔ یہ لوگ بڑے جتھے والے اور سرمایہ دار تھے، اپنے مضبوط
قلعوں پر ان کو ناز تھا۔ حضورﷺ جب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو شروع میں انہوں نے آپﷺ سے صلح کا معاہدہ کرلیا، کہ ہم آپ کے مقابلہ پر کسی کی مدد نہ کریں گے۔ پھر مکہ کے
کافروں سے نامہ و پیام کرنے لگے۔ حتّٰی کہ ان کے ایک بڑے سردارکعب بن اشرف نے
چالیس سواروں کے ساتھ مکہ پہنچ کر بیت اللہ شریف کے سامنے مسلمانوں کے خلاف قریش
سے عہدوپیمان باندھا۔ آخر چند روز بعد اللہ و رسول کے حکم سے محمد بن مسلمہ نے
اس غدار کاکام تمام کردیا۔ پھر بھی "بنی نضیر" کی طرف سے بدعہدی کا
سلسلہ جاری رہا۔ کبھی دغابازی سے حضور ﷺ کو چند رفیقوں کے ساتھ بلا کر اچانک قتل کرنا چاہا۔ ایک مرتبہ حضور ﷺجہاں بیٹھے تھے اوپر سے بھاری چکی کا پاٹ ڈال دیا، اگر لگے تو آدمی مر جائے۔ مگر سب
مواقع پر اللہ کے فضل نے حفاظت فرمائی۔ آخر حضور ﷺ نے
مسلمانوں کو جمع کیا۔ ارادہ یہ کہ ان سے لڑیں۔ جب مسلمانوں نے نہایت سرعت و
مستعدی سے مکانوں اور قلعوں کا محاصرہ کر لیا۔ وہ مرعوب و خوفزدہ ہوگئے۔ عام
لڑائی کو نوبت نہ آئی۔ انہوں نے گھبرا کر صلح کی التجا کی۔ آخر یہ قرار پایا کہ
وہ مدینہ خالی کر دیں۔ ان کی جانوں سے تعرض نہ کیا جائے گا۔ اور جو مال اسباب
اٹھا کر لے جاسکتے ہیں، لے جائیں۔ باقی مکان زمین، باغ وغیرہ پر مسلمان قابض
ہوئے۔ حق تعالیٰ نے وہ زمین مالِ غنیمت کی طرح تقسیم نہ کرائی۔ صرف حضرت کے
اختیار پر رکھی۔ حضرت ﷺ نے اکثر اراضی مہاجرین پر تقسیم کر
دی۔ اس طرح انصار پر سے ان کا خرچ ہلکا ہوا۔ اور مہاجرین و انصار دونوں کو فائدہ
پہنچا۔ نیز حضرت ﷺ اپنے گھر کا اور واردوصادر کا
سالانہ خرچ بھی اسی سے لیتے تھے اور جو
بچ رہتا اللہ کے راستہ میں خرچ کرتے تھے۔ اس سورت میں یہ ہی قصہ مذکور ہے۔
|
یعنی
ایک ہی ہلّہ میں گھبراگئےاور پہلی ہی مڈبھیڑ پر مکان اور قلعے چھوڑ کر نکل بھاگنے
کو تیار ہو بیٹھے۔ کچھ بھی ثابت قدمی نہ دکھلائی۔ (تنبیہ) "اوّل
الحشر" سے بعض مفسرین کے نزدیک یہ مراد ہے کہ اس قوم کے لئے اس طرح ترکِ
وطن کرنے کا یہ پہلا ہی موقع تھا۔ قبل ازیں ایسا واقعہ پیش نہ آیا تھا۔ یا
"اوّل الحشر" میں اس طرف اشارہ ہو کہ ان یہود کا پہلا حشر یہ ہے کہ
مدینہ چھوڑ کر بہت سے خیبر وغیرہ چلے گئے اور دوسرا حشر وہ ہو گا جو حضرت عمرؓ
کے عہد خلافت میں پیش آیا۔ یعنی دوسرے یہودونصارٰی کی معیت میں یہ لوگ بھی خیبر
سے ملک شام کی طرف نکالے گئے جہاں آخری حشر بھی ہونا ہے۔ اسی لئے
"شام" کو "ارض المحشر" بھی کہتے ہیں۔
|
یعنی
ان کے سازوسامن مضبوط قلعے اور جنگجو یانہ اطوار دیکھ کر نہ تم کو اندازہ تھا کہ
اس قدر جلد اتنی آسانی سے وہ ہتھیار ڈال دیں گے۔ اور نہ ان کو خیال تھا کہ مٹھی
بھر بے سروسامان لوگ اس طرح قافیہ تنگ کر دیں گے۔ وہ اسی خواب خرگوش میں تھے کہ
مسلمان (جن کے سروں پر اللہ کا ہاتھ ہے) ہمارے قلعوں تک پہنچنے کا حوصلہ نہ
کرسکیں گے۔ اور اس طرح گویا اللہ کے ہاتھ سے بچ نکلیں گے۔ مگر انہوں نے دیکھ لیا
کہ کوئی طاقت اللہ کے حکم کو نہ روک سکی۔ ان کے اوپر اللہ کا حکم وہاں سے پہنچا
جہاں سے ان کو خیال و گمان بھی نہ تھا۔ یعنی دل کے اندر سے خدا تعالیٰ نے ان کے
دلوں میں رعب ڈال دیا۔ اور بے سروسامان مسلمانوں کی دھاک بٹھلادی۔ ایک تو پہلے
ہی اپنے سردار کعب بن اشرف کے ناگہانی قتل سے مرعوب و خوفزدہ ہو رہے تھے۔ اب
مسلمانوں کے اچانک حملہ نے رہے سہے حواس بھے کھو دیئے۔
|
یعنی
حرص اور غیظ و غضب کے جوش میں مکانوں کے کڑی، تختے کواڑ اکھاڑنے لگے تا کوئی چیز
جو ساتھ لے جاسکتے ہیں رہ نہ جائے اور مسلمانوں کے ہاتھ نہ لگے۔ اس کام میں
مسلمانوں نے بھی ان کا ہاتھ بٹایا۔ ایک طرف سے وہ خود گراتے تھے دوسری طرف سے
مسلمان۔ اور غور سے دیکھا جائے تو مسلمانوں کے ہاتھوں جو تباہی و ویرانی عمل میں
آئی وہ بھی ان ہی بدبختوں کی بد عہدیوں اور شرارتوں کا نتیجہ تھی۔
|
یعنی
اہلِ بصیرت کے لئے اس واقعہ میں بڑی عبرت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دکھلادیا کہ کفر،
ظلم، شرارت اور بدعہدی کا انجام کیسا ہوتا ہے۔ اور یہ کہ محض ظاہری اسباب پر
تکیہ کرکے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے غافل ہو جانا عقلمند کاکام نہیں۔
|
وَأُخرىٰ تُحِبّونَها ۖ
نَصرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتحٌ قَريبٌ ۗ وَبَشِّرِ المُؤمِنينَ
{61:13}
|
اور
ایک اور چیز دے جس کو تم چاہتے ہو مدد اللہ کی طرف سے اور فتح جلدی [۱۳] اور
خوشی سنا دے ایمان والوں کو [۱۴]
|
یعنی
اصلی اور بڑی کامیابی تو وہ ہی ہے جو آخرت میں ملے گی جس کے سامنے ہفت اقلیم کی
سلطنت کوئی چیز نہیں لیکن دنیا میں بھی ایک چیز جسے تم طبعًا محبوب رکھتے ہو، دی
جائے گی وہ کیا ہے { نَصْرٌ مِّنَ اللہِ وَ فَتْحٌ قَرِیْبٌ } (اللہ کی طرف سے
ایک مخصوص امداد اور جلد حاصل ہونیوالی فتح و ظفر، جن میں سے ہر ایک دوسرے کے
ساتھ چولی دامن کا تعلق رکھتی ہے) دنیا نے دیکھ لیا کہ قرون اولٰی کے مسلمانوں
کے ساتھ یہ وعدہ کیسی صفائی سے پورا ہوا اور آج بھی مسلم قوم اگر سچے معنی میں
ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ پر ثابت قدم ہوجائے تو یہ ہی کامیابی ان کی قدم
بوسی کے لئے حاضر ہے۔
|
کیونکہ
یہ خوشخبری سنانا ایک مستقل انعام ہے۔
|
إِن تَتوبا إِلَى اللَّهِ
فَقَد صَغَت قُلوبُكُما ۖ وَإِن تَظٰهَرا عَلَيهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَولىٰهُ
وَجِبريلُ وَصٰلِحُ المُؤمِنينَ ۖ
وَالمَلٰئِكَةُ بَعدَ ذٰلِكَ ظَهيرٌ {66:4}
|
اگر
تم دونوں توبہ کرتی ہو تو جھک پڑے ہیں دل تمہارے [۶] اور اگر تم دونوں چڑھائی
کرو گی اُس پر تو اللہ ہے اُس کا رفیق اور جبرئیل اور نیک بخت ایمان والے اور
فرشتے اسکے پیچھے مددگار ہیں [۷]
|
زوجین
کے خانگی معاملات بعض اوقات ابتداءً بہت معمولی اور حقیر نظر آتے ہیں لیکن اگر
ذرا باگ ڈھیلی چھوڑ دی جائے تو آخرکار نہایت خطرناک اور تباہ کن صورت اختیار کر
لیتے ہیں۔ خصوصًا عورت اگر کسی اونچے گھرانے سے تعلق رکھتی ہو تو اس کو طبعًا
اپنے باپ بھائی اور خاندان پر بھی گھمنڈ ہوسکتا ہے۔ اس لئے متنبہ فرما دیا کہ
دیکھو اگر تم دونوں اسی طرح کی کاروائیاں اور مظاہرے کرتی رہیں تو یاد رکھو ان
سے پیغمبر ﷺ کو کچھ ضرر نہیں پہنچے گا کیونکہ اللہ اور فرشتے اور نیک بخت
ایماندار درجہ بدرجہ جس کے رفیق و مددگار ہوں اس کے سامنے کوئی انسانی تدبیر
کامیاب نہیں ہوسکتی ہاں تم کو نقصان پہنچ جانے کا امکان ہے۔ (تنبیہ) بعض سلف نے
{ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ } کی تفسیر میں ابوبکرؓ و عمرؓ کا نام لیا ہے۔ شاید
یہ عائشہؓ اور حفصہؓ کی مناسبت سے ہو گا۔ واللہ اعلم۔
|
یہ
عائشہؓ و حفصہؓ کو خطاب ہے کہ اگر تم توبہ کرتی ہو تو بیشک توبہ کا موقع ہے
کیونکہ تمہارے دل جادہ اعتدال سے ہٹ کر ایک طرف کو جھک گئے ہیں۔ لہٰذا آئندہ
ایسی بے اعتدالیوں سے پرہیز رکھا جائے۔
|
إِنَّ الَّذينَ فَتَنُوا المُؤمِنينَ وَالمُؤمِنٰتِ ثُمَّ لَم يَتوبوا
فَلَهُم عَذابُ جَهَنَّمَ وَلَهُم عَذابُ الحَريقِ {85:10}
|
تحقیق
جو دین سے بچلائے ایمان والے مردوں کو اورعورتوں کو پھر توبہ نہ کی تو اُنکے لئے
عذاب ہے دوزخ کا اور اُنکے لئے عذاب ہے آگ لگے کا [۷]
|
یعنی
کچھ اصحاب الاخدود پر منحصر نہیں۔ جو لوگ ایمانداروں کو دین حق سے برگشتہ کرنے
کی کوشش کریں گے (جیسے کفار مکہ کر رہے تھے) پھر اپنی ان نالائق حرکات سے تائب
نہ ہونگے ان سب کے لئے دوزخ کا عذاب تیار ہے جس میں بیشمار قسم کی تکلیفیں ہونگی
اور بڑی تکلیف آگ لگے کی ہوگی جس میں دوزخی کا تن من سب گرفتار ہو گا۔
|
***************************************
وَمَريَمَ ابنَتَ عِمرٰنَ
الَّتى أَحصَنَت فَرجَها فَنَفَخنا فيهِ مِن روحِنا وَصَدَّقَت بِكَلِمٰتِ
رَبِّها وَكُتُبِهِ وَكانَت مِنَ القٰنِتينَ
{66:12}
|
اور
مریم بیٹی عمران کی جس نے روکے رکھا اپنی شہوت کی جگہ کو [۲۲] پھر ہم نے پھونک
دی اُس میں ایک اپنی طرف سے جان [۲۳] اور سچا جانا اپنے رب کی باتوں کو اور
اُسکی کتابوں کو [۲۴] اور وہ تھی بندگی کرنے والوں میں [۲۵]
|
یعنی
کامل مردوں کی طرح بندگی و طاعت پر ثابت قدم تھی۔ یا یوں کہو کہ قانتین کے
خاندان سے تھی۔ تم سورہ التحریم وللہ الحمد والمنۃ وبہ التوفیق والعصمۃ۔
|
یعنی
رب کی باتیں وہ ہوں گی جو فرشتوں کی زبانی سورۃ آل عمران میں بیان ہوئی ہیں۔ {
وَاِذْ قَالَتِ الْمَلَائِکَۃُ یَا مَریَمُ اِنَّ اللہَ اصْطَفَاکِ وَطَھَّرَکِ
} الخ۔ اور کتابوں سے عام کتب وسماویہ مراد لی جائیں۔ تخصیص کی ضرورت نہیں۔
|
یعنی
فرشتہ کے ذریعہ سے ایک روح پھونک دی۔ حضرت جبریلؑ نے گریبان میں پھونک ماری جس
کا نتیجہ استقرار حمل ہوا، اور حضرت مسیحؑ پیدا ہوئے۔(تنبیہ) نفخح روح: نفخح کی
نسبت اپنی طرف اس لئے کی کہ فاعل حقیقی اور مؤثر علی الاطلاق وہی ہے۔ آخر عورت
کے رحم میں جو بچہ بنتا ہے اس کا بنانے والا اس کے سوا کون ہے۔ بعض محققین نے
یہاں "فرج" کے معنی چاک گریبان کے لئے ہیں۔ اس وقت { اَحْصَنَتْ
فَرْجَھَا } کے معنی یہ ہونگے کہ کسی کا ہاتھ اپنے گریبان تک نہیں پہنچنے
دیا۔اور یہ نہایت بلیغ کنایہ ان کی عصمت و عفت سے ہوگا۔ جیسے ہمارے محاورات میں
کہتے ہیں کہ فلاں عورت بہت پاکدامن ہے اور عرب میں کہا جاتا ہے "نقی الحبیب
طاہر الذیل" اس سے عفیف النفس ہونا مراد ہوتا ہے۔ کپڑے کا دامن مراد نہیں
ہوتا۔ اس تقدیر پر { فَنَفَخْنَافِیْہِ } میں ضمیر لفظ "فرج" کے لغوی
معنی کے اعتبار سے راجع ہوگی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
|
یعنی
حلال و حرام سب سے محفوظ رکھا۔
|
***************************************
قالَ اللَّهُ هٰذا يَومُ
يَنفَعُ الصّٰدِقينَ صِدقُهُم ۚ لَهُم
جَنّٰتٌ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهٰرُ خٰلِدينَ فيها أَبَدًا ۚ رَضِىَ اللَّهُ
عَنهُم وَرَضوا عَنهُ ۚ ذٰلِكَ الفَوزُ العَظيمُ {5:119}
|
فرمایا
اللہ نے یہ دن ہے کہ کام آوے گا سچوں کے ان کا سچ [۲۷۶] انکے لئے ہیں باغ جن کے
نیچے بہتی ہیں نہریں رہا کریں گے انہی میں ہمیشہ اللہ راضی ہوا ان سے اور وہ
راضی ہوئے اس سے یہی ہے بڑی کامیابی [۲۷۷]
|
جو
لوگ اعتقادًا اور قولًا و عملًا سچے رہے ہیں (جیسے حضرت مسیحؑ) ان کی سچائی کا
پھل آج ملے گا۔
|
بڑی
کامیابی حق تعالیٰ کی رضا ہے اور جنت بھی اسی لئے مطلوب ہے کہ وہ محل رضائے
الہٰی ہے۔
|
قالوا أَجِئتَنا لِنَعبُدَ
اللَّهَ وَحدَهُ وَنَذَرَ ما كانَ يَعبُدُ ءاباؤُنا ۖ فَأتِنا بِما تَعِدُنا إِن
كُنتَ مِنَ الصّٰدِقينَ {7:70}
|
بولےکیا
تو اس واسطے ہمارے پاس آیا کہ ہم بندگی کریں اللہ اکیلے کی اور چھوڑ دیں جن کو
پوجتے رہے ہمارے باپ دادےپس تو لے آ ہمارے پاس جس چیز سے تو ہم کو ڈراتا ہے اگر
تو سچا ہے [۸۵]
|
یعنی
جس عذاب کی ہم کو دھمکی دیتے ہیں، اگر آپ سچے ہیں تو وہ لے آئیے۔
|
قالَ إِن كُنتَ جِئتَ
بِـٔايَةٍ فَأتِ بِها إِن كُنتَ مِنَ الصّٰدِقينَ
{7:106}
|
بولا
اگر تو آیا ہے کوئی نشانی لے کر تو لا اس کو اگر تو سچا ہے
|
يٰأَيُّهَا الَّذينَ
ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكونوا مَعَ الصّٰدِقينَ
{9:119}
|
اے
ایمان والو ڈرتے رہو اللہ سے اور رہو ساتھ سچوں کے [۱۳۸]
|
یعنی
سچوں کی صحبت رکھو اور انہی جیسے کام کرو۔ دیکھ لو یہ تین شخص سچ کی بدولت بخشے
گئے اور مقبول ٹھہرے منافقین نے جھوٹ بولا اور خدا کا ڈر دل سے نکال دیا تو
"درک اسفل" کے مستحق بنے۔
|
قالوا يٰنوحُ قَد جٰدَلتَنا
فَأَكثَرتَ جِدٰلَنا فَأتِنا بِما تَعِدُنا إِن كُنتَ مِنَ الصّٰدِقينَ {11:32}
|
بولے
اے نوح تو نے ہم سے جگھڑا کیا اور بہت جھگڑ چکا اب لے آ جو تو وعدہ کرتا ہے ہم
سے اگر تو سچا ہے [۴۵]
|
حضرت
نوحؑ قبل از طوفان ساڑھے نو سو برس ان میں رہے۔شب و روز سرّاً و اعلانیۃً انہیں
نصیحت کرتے ہر شبہ کا جواب دیتے ، تبلیغ و تفہیم اور بحث و مناظرہ کا سلسلہ جاری
رہتا۔ اسی جھگڑے میں صدیاں گذر گئیں۔ کفار نے ان کی حقانی بحثوں اور شب و روز کی
روک ٹوک سے عاجز ہو کر کہا کہ اب یہ سلسلہ بند کیجئے۔ بس اگر آپ سچے ہیں تو جس
عذاب کی دھمکیاں دیتے رہے ہو وہ فوراً لے آؤ ۔ تاکہ یہ روز روز کا جھگڑا ختم ہو۔
|
وَإِن كانَ قَميصُهُ قُدَّ
مِن دُبُرٍ فَكَذَبَت وَهُوَ مِنَ الصّٰدِقينَ
{12:27}
|
اور
اگر ہے کرتہ اس کا پھٹا پیچھے سے تو یہ جھوٹی ہے اور وہ سچا ہے
|
قالَ ما خَطبُكُنَّ إِذ
رٰوَدتُنَّ يوسُفَ عَن نَفسِهِ ۚ قُلنَ حٰشَ لِلَّهِ ما عَلِمنا عَلَيهِ مِن
سوءٍ ۚ قالَتِ امرَأَتُ العَزيزِ الـٰٔنَ حَصحَصَ الحَقُّ أَنا۠ رٰوَدتُهُ عَن
نَفسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصّٰدِقينَ
{12:51}
|
کہا
بادشاہ نے عورتوں کو کیا حقیقت ہے تمہاری جب تم نے پھسلایا یوسف کو اسکے نفس کی
حفاظت سے [۷۵] بولیں حاشا للہ ہم کو معلوم نہیں اس پر کچھ برائی بولی عورت عزیز
کی اب کھل گئ سچی بات میں نے پھسلایا تھا اسکو اس کے جی سے اور وہ سچا ہے [۷۶]
|
سب
عورتوں کی متفقہ شہادت کے بعد زلیخا نے بھی صاف اقرار کر لیا کہ قصور میرا ہے ۔
یوسفؑ بالکل سچے ہیں بیشک میں نے ان کو اپنی جانب مائل کرنا چاہا تھا۔ لیکن وہ
ایسے کاہے کو تھے کہ میرے داؤ میں آ جاتے۔
|
بادشاہ
نے دریافت کرنے کا ایسا عنوان اختیار کیا گویا وہ پہلے سے خبر رکھتا ہے تا یہ
دیکھ کر انہیں جھوٹ بولنے کی ہمت نہ ہو۔ نیز یوسفؑ کی استقامت و صبر کا اثر پڑا
ہو گا۔ کہ بدون اظہار براءت کے جیل سے نکلنا گوارا نہیں کرتے۔ اور { اِنَّ
رَبِّیْ بِکَیْدِھِنَّ عَلِیْمٌ } کہہ کر ان کے "کید" کا اظہار فرما
رہے ہیں۔ ادھر ساقی وغیرہ نے واقعات سنائے ہوں گے ان سے بھی یوسفؑ کی نزاہت اور
عورتوں کے مکائد کی تائید ملی ہوگی۔
|
لَو ما تَأتينا
بِالمَلٰئِكَةِ إِن كُنتَ مِنَ الصّٰدِقينَ
{15:7}
|
کیوں
نہیں لے آتا ہمارے پاس فرشتوں کو اگر تو سچا ہے [۸]
|
اگر
بارگاہ احدیت میں آپ کو ایسا ہی قرب حاصل ہے اور ساری قوم میں سے خدا نے منصب
رسالت کے لئے آپ کا انتخاب کیا ہے تو فرشتوں کی خدائی فوج آپ کے ساتھ کیوں نہ
آئی۔ جو کھلم کھلا آپ کی تصدیق کرتی اور ہم سے آپ کی بات منواتی ہے ، نہ مانتے
تو فورًا سزا دیتی۔
|
وَالَّذينَ يَرمونَ
أَزوٰجَهُم وَلَم يَكُن لَهُم شُهَداءُ إِلّا أَنفُسُهُم فَشَهٰدَةُ أَحَدِهِم
أَربَعُ شَهٰدٰتٍ بِاللَّهِ ۙ إِنَّهُ لَمِنَ الصّٰدِقينَ
{24:6}
|
اور
جو عیب لگائیں اپنی جوروؤں کو [۱۱] اور شاہد نہ ہوں انکے پاس سوائے انکی جان کے
تو ایسے شخص کی گواہی کی یہ صورت ہے کہ چار بار گواہی دے اللہ کی قسم کھا کر
مقرر وہ شخص سچا ہے
|
یعنی
زنا کی تمہت لگائے یا اپنے بچہ کو کہےکہ میرے نطفہ سے نہیں۔
|
وَالخٰمِسَةَ أَنَّ غَضَبَ
اللَّهِ عَلَيها إِن كانَ مِنَ الصّٰدِقينَ
{24:9}
|
اور
پانچویں یہ کہ اللہ کا غضب آئے اس عورت پر اگر وہ شخص سچا ہے [۱۲]
|
یعنی
جو اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے اولًا اس سے چار گواہ طلب کئے جائیں گے اگر
پیش کر دے تو عورت پر حد زنا جاری کر دی جائے گی۔ اگر گواہ نہ لا سکا تو اس کو
کہا جائے گا کہ چار مرتبہ قسم کھا کر بیان کرے کہ وہ اپنے دعوے میں سچا ہے (یعنی
جو تہمت اپنی بیوی پر لگائی ہے اس میں جھوٹ نہیں بولا) گویا چارگواہوں کی جگہ
خود اس کی یہ چار حلفیہ شہادتیں ہوئیں اور آخر میں پانچویں مرتبہ یہ الفاظ کہنے
ہوں گے کہ "اگر وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہو تو اس پر خدا کی لعنت اور
پھٹکار" اگر الفاظ مذکورہ بالا کہنے سے انکار کرے تو حبس کیا جائے گا اور
حاکم اس کو مجبور کرے گا کہ یا اپنے جھوٹے ہونے کا اقرار کرے، تو حدقذف لگے گی
جو اوپر گذری۔ اور یا پانچ مرتبہ وہ ہی الفاظ کہے جو اوپر مذکور ہوئے۔ اگر کہہ
لئے تو پھر عورت سے کہا جائے گا کہ وہ چار مرتبہ قسم کھا کر بیان کرے کہ
"یہ مرد تہمت لگانے میں جھوٹا ہے اور پانچویں دفعہ یہ الفاظ کہے کہ
"اللہ کا غضب آئے اس عورت پر اگر یہ مرد اپنے دعوے میں سچا ہو"
تاوقتیکہ عورت یہ الفاظ نہ کہے گی اس کو قید میں رکھیں گے اور مجبور کریں گے کہ
یا صاف طور پر مرد کے دعوے کی تصدیق کرے تب تو حد زنا اس پر جاری ہو گی، اور یا
بالفاظ مذکورہ بالا اس کی تکذیب کرے۔ اگر اس نے بھی مرد کی طرح یہ الفاظ کہہ
دیئے اور "لِعان" سے فراغت ہوئی تو اس عورت سے صحبت اور دواعی صحبت سب
حرام ہو گئے پھر اگر مرد نے اس عورت کو طلاق دے دی فبہا ورنہ قاضی ان میں تفریق
کر دے۔ گو دونوں رضامند نہ ہوں یعنی زبان سے کہہ دے کہ میں نے ان میں تفریق کی۔
اور یہ تفریق طلاق بائن کے حکم میں ہو گی۔ (تنبیہ) زوجین سے اس طرح الفاظ
کہلوانے کو شریعت میں لِعان کہتے ہیں اور لِعان صرف قذف ازواج کے ساتھ مخصوص ہے
عام محصنات کے قذف کا وہ ہی حکم ہے جو اوپر کی آیات میں مذکور ہو چکا۔
|
قالَ فَأتِ بِهِ إِن كُنتَ
مِنَ الصّٰدِقينَ {26:31}
|
بولا
تو وہ چیز لا اگر تو سچ کہتا ہے
|
ما أَنتَ إِلّا بَشَرٌ
مِثلُنا فَأتِ بِـٔايَةٍ إِن كُنتَ مِنَ الصّٰدِقينَ
{26:154}
|
توبھی
ایک آدمی ہے جیسے ہم [۸۹] سو لے آ کچھ نشانی اگر تو سچا ہے [۹۰]
|
یعنی
اگر نبی ہے اور ہم سے ممتاز درجہ رکھتا ہے تو اللہ سے کہہ کر کوئی ایسا نشان
دکھلا جسے ہم بھی تسلیم کرلیں پھر فرمائش کی اچھا پتھر کی اس چٹان میں سے ایک
اونٹنی نکال دے جو ایسی اور ایسی ہو۔ حضرت صالحؑ نے دعا فرمائی حق تعالیٰ نے
اپنی قدرت کاملہ سے یہ نشان دکھلا دیا۔
|
یعنی
ہم سے کون سی بات تجھ میں زائد ہے جو نبی بن گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے جادو
کر دیا ہے جس سے تیری عقل ماری گئ۔ (العیاذ باللہ)
|
فَأَسقِط عَلَينا كِسَفًا
مِنَ السَّماءِ إِن كُنتَ مِنَ الصّٰدِقينَ
{26:187}
|
سو
گرا دے ہم پر کوئی ٹکڑا آسمان کا اگر تو سچا ہے [۱۰۵]
|
اگر
سچا ہے تو آسمان کا یا بادل کا کوئی ٹکڑا گروا کر ہم کو ہلاک کیوں نہیں کر دیتا۔
|
أَئِنَّكُم لَتَأتونَ
الرِّجالَ وَتَقطَعونَ السَّبيلَ وَتَأتونَ فى ناديكُمُ المُنكَرَ ۖ فَما كانَ
جَوابَ قَومِهِ إِلّا أَن قالُوا ائتِنا بِعَذابِ اللَّهِ إِن كُنتَ مِنَ الصّٰدِقينَ {29:29}
|
کیا
تم دوڑتے ہو مردوں پر اور راہ مارتے ہو [۴۴] اور کرتے ہو اپنی مجلس میں برا کام
[۴۵] پھر کچھ جواب نہ تھا اس کی قوم کا مگر یہی کہ بولے لے آ ہم پر عذاب ا للہ
کا اگر تو ہے سچا [۴۶]
|
یعنی
اگر تم سچے نبی ہو اور واقعی سچ کہتے ہو کہ ہمارے یہ کام خراب اور مستوجب عذاب
ہیں تو دیر کیا ہے وہ عذاب لے آیئے۔ دوسری جگہ فرمایا { وَمَا کَانَ جَوَابَ
قَوْمِہٖ اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَخْرَجُوْھُمْ مِّنْ قَرْیَتِکُمْ اِنَّھُمْ
اُنَاسٌ یَّتَطَھَّرُوْنَ } (اعراف رکوع۱۰) یعنی ان کی قوم کا جواب یہی تھا کہ
لوطؑ کے گھرانے کو اپنی بستی سے نکال باہر کرو۔ یہ بڑے پاک بننا چاہتے ہیں۔ شاید
قوم میں سے بعض نے یہ بعض نے وہ جواب دیا ہو گا۔ یا ایک وقت میں ایک بات اور
دوسرے میں دوسری کہی ہو گی۔ مثلاً اول عذاب کی دھمکیوں کا مذاق اڑایا، پھر آخری
فیصلہ یہ ہو گا کہ انہیں بستی سے نکال دیا جائے۔ بہرحال ثابت ہو گیا کہ وہ قوم
نہ صرف اس فعل شنیع کی مرتکب اور بانی تھی بلکہ اس کو جاری رکھنے پر اس قدر
اصرار تھا کہ نصیحت کرنے والے پیغمبر کو اپنی بستی سے نکالنے پر تیار ہو گئے۔ ان
کی فطرت اور طبائع اس قدر مسخ ہو چکی تھیں کہ خوف خدا کا کوئی شائبہ دلوں میں
باقی نہ رہا تھا، عذاب کی دھمکیوں کا مذاق اڑاتے تھے اور پیغمبر کےمقابلہ پر
آمادہ تھے۔ جرم کی یہ ہی نوعیت ان کے ہلاک کرنے کے لئے کافی تھی۔ اور اگر اس کے
ساتھ توحید کے بھی قائل نہ تھے تو "کڑوا کریلا نیم چڑھا" سمجھیے۔
معلوم ہوتا ہے کہ توحید کی دعوت حضرت ابراہیمؑ کی طرف سے مشتہر ہو کر پہنچ چکی
ہو گی۔ اس لئے لوطؑ خاص اسی فعل شنیع سے روکنے پر مامور ہوئے اور ممکن ہے انہوں
نےتوحید وغیرہ کی دعوت بھی دی ہو۔ مگر اس کو یہاں نقل نہیں فرمایا۔ واللہ اعلم۔
|
راہ
مارنے سے مراد ممکن ہے ڈاکہ زنی ہو، یہ بھی ان میں رائج ہو گی، یا اسی بدکاری سے
مسافروں کی راہ مارتے تھے کہ ڈر کے مارے اس طرف ہو کر نہ نکلیں۔ یا {
تَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ } کا مطلب یہ ہو کہ فطری اور معتاد راستہ کو چھوڑ کر
توالد و تناسل کا سلسلہ منقطع کر رہے تھے۔
|
شاید
یہ ہی بدکاری علانیہ لوگوں کے سامنے کرتے ہوں گے اس بات کی شرم بھی نہ رہی تھی
یا کچھ اور ٹھٹھے اور چھیڑ اور بے شرمی کی باتیں کرتے ہوں گے۔
|
لِيَسـَٔلَ الصّٰدِقينَ عَن صِدقِهِم ۚ وَأَعَدَّ لِلكٰفِرينَ
عَذابًا أَليمًا {33:8}
|
تاکہ
پوچھے اللہ سچوں سے ان کا سچ اور تیار رکھا ہے منکروں کے لیے دردناک عذاب [۱۱]
|
یعنی
قول و قرار کے مطابق ان پیغمبروں کی زبانی اپنے احکام خلق کو پہنچائے اور حجت
تمام کر دے تب ہر ایک سے پوچھ پاچھ کرے گا، تاکہ سچائی پر قائم رہنا ظاہر ہو اور
منکروں کو سچائی سے انکار کرنے پر سزا دی جائے۔ جنگ الاحزاب کا واقعہ یاد دلاتے
ہوئے سچے پیغمبر اور مومنین اور ان کے بالمقابل جھوٹے منافقوں اور منکروں کے کچھ
احوال اور انکے ظاہری ثمرات و نتائج ذکر کئے ہیں۔
|
لِيَجزِىَ اللَّهُ الصّٰدِقينَ بِصِدقِهِم وَيُعَذِّبَ المُنٰفِقينَ
إِن شاءَ أَو يَتوبَ عَلَيهِم ۚ إِنَّ اللَّهَ كانَ غَفورًا رَحيمًا {33:24}
|
تاکہ
بدلا دے اللہ سچوں کو انکے سچ کا اور عذاب کرے منافقوں پر اگر چاہے یا تو بہ
ڈالے انکے دل پر بیشک اللہ ہے بخشنے والا مہربان [۳۶]
|
یعنی
جو عہد کے پکے اور قول و قرار کے سچے رہے ان کو سچ پر جمے رہنے کا بدلہ ملے اور
بد عہد دغاباز منافقوں کو چاہے سزا دے اور چاہے توبہ کی توفیق دے کر معاف فرما
دے۔ اس کی مہربانی سے کچھ بعید نہیں۔
|
قالوا أَجِئتَنا
لِتَأفِكَنا عَن ءالِهَتِنا فَأتِنا بِما تَعِدُنا إِن كُنتَ مِنَ الصّٰدِقينَ {46:22}
|
بولے
کیا تو آیا ہے ہمارے پاس کہ پھیر دے ہمکو ہمارے معبودوں سے سو لے آ ہم پر جو
وعدہ کرتا ہے اگر ہے تو سچا [۳۹]
|
یعنی
ہم اپنے آبائی طریقہ سے ہٹنے والے نہیں۔ اگر تو اپنی دھمکیوں میں سچا ہے تو دیر
کیا ہے ۔ جو زبان سے کہتا ہے کر کے دکھا دے۔
|
***************************************
يٰأَيُّهَا الَّذينَ
ءامَنُوا استَعينوا بِالصَّبرِ وَالصَّلوٰةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصّٰبِرينَ {2:153}
|
اے
مسلمانو مدد لو صبر اور نماز سے بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے [۲۱۸]
|
چونکہ
ذکر اور شکر اور ترک کفران جو پہلے مذکور ہوئے اور تمام طاعات اور منہیات شرعیہ
کو محیط ہیں جن کا انجام دینا دشوار امر ہے اس کی سہولت کے لئے یہ طریقہ بتلایا
گیا کہ صبر اور صلوٰۃ سے مدد لو کہ ان کی مداومت سے تمام امور تم پر سہل کر دئیے
جائیں گے اور اس آیت میں یہ اشارہ بھی ہے کہ جہاد میں محنت اٹھاؤ جس کا ذکر آگے
آتا ہے کہ اس میں صبر اعلیٰ درجے کا ہے۔
|
وَلَنَبلُوَنَّكُم بِشَيءٍ
مِنَ الخَوفِ وَالجوعِ وَنَقصٍ مِنَ الأَموٰلِ وَالأَنفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ۗ
وَبَشِّرِ الصّٰبِرينَ {2:155}
|
اور
البتہ ہم آزمائیں گے تم کو تھوڑے سے ڈر سے اور بھوک سے اور نقصان سے مالوں کے
اور جانوں کے اور میووں کے [۲۲۰] اور خوشخبری دے ان صبر کرنے والوں کو
|
پہلے
تو ان کا ذکر تھا جنہوں نے صبر کا اعلیٰ مرتبہ حاصل کیا یعنی شہداء اب فرماتے
ہیں کہ تمہارا اعلیٰ العموم تھوڑی تھوڑی تکلیف اور مصیبت میں وقتًا فوقتًا
امتحان لیا جائے گا اور تمہارے صبر کو دیکھا جائے گا صابرین میں داخل ہونا کچھ
سہل نہیں اسی واسطے پہلے سے متنبہ فرما دیا۔
|
فَلَمّا فَصَلَ طالوتُ
بِالجُنودِ قالَ إِنَّ اللَّهَ مُبتَليكُم بِنَهَرٍ فَمَن شَرِبَ مِنهُ فَلَيسَ
مِنّى وَمَن لَم يَطعَمهُ فَإِنَّهُ مِنّى إِلّا مَنِ اغتَرَفَ غُرفَةً بِيَدِهِ
ۚ فَشَرِبوا مِنهُ إِلّا قَليلًا مِنهُم ۚ فَلَمّا جاوَزَهُ هُوَ وَالَّذينَ
ءامَنوا مَعَهُ قالوا لا طاقَةَ لَنَا اليَومَ بِجالوتَ وَجُنودِهِ ۚ قالَ
الَّذينَ يَظُنّونَ أَنَّهُم مُلٰقُوا اللَّهِ كَم مِن فِئَةٍ قَليلَةٍ غَلَبَت
فِئَةً كَثيرَةً بِإِذنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصّٰبِرينَ
{2:249}
|
پھر
جب باہر نکلا طالوت فوجیں لے کر کہا بیشک اللہ تمہاری آزمائش کرتا ہے ایک نہر سے
سو جس نے پانی پیا اس نہر کا تو وہ میرا نہیں اور جس نے اس کو نہ چکھا تو وہ
بیشک میرا ہے مگر جو کوئی بھرےایک چلو اپنے ہاتھ سے پھر پی لیا سب نے اس کا پانی
مگر تھوڑوں نے ان میں سے پھر جب پار ہوا طالوت اور ایمان والے ساتھ اس کے تو
کہنےلگے طاقت نہیں ہم کو آج جالوت اور اس کے لشکروں سے لڑنے کی کہنے لگے وہ لوگ
جن کو خیال تھا کہ ان کو اللہ سےملنا ہے بارہا تھوڑی جماعت غالب ہوئی ہے بڑی
جماعت پر اللہ کے حکم سے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے [۴۰۹]
|
ہوس
سے طالوت کے ساتھ چلنے کو سب تیار ہو گئے طالوت نے کہ دیا کہ جو کوئی جوان
زورآور اور بےفکر ہو وہ چلے ایسے بھی اسی ہزار نکلے پھر طالوت نے ان کو آزمانا
چاہا ایک منزل میں پانی نہ ملا دوسری میں ایک نہر ملی طالوت نے حکم کر دیا کہ جو
ایک چلو سے زیادہ پانی پیوے وہ میرے ساتھ نہ چلے صرف تین سو تیرہ ان کے ساتھ رہ
گئے اور سب جدا ہو گئے ۔ جنہوں نے ایک چلو سے زیادہ نہ پیا ان کی پیاس بھجی اور
جنہوں نےزیادہ پیا ان کو اور پیاس لگی اور آگے نہ چل سکے۔
|
الصّٰبِرينَ وَالصّٰدِقينَ وَالقٰنِتينَ وَالمُنفِقينَ
وَالمُستَغفِرينَ بِالأَسحارِ {3:17}
|
وہ
صبر کرنے والے ہیں اور سچے اور حکم بجا لانے والے اور خرچ کرنے والے اور گناہ
بخشوانے والے پچھلی رات میں [۲۲]
|
یعنی
اللہ کے راستہ میں بڑی بڑی تکلیفیں اٹھا کر بھی اس کی فرمانبرداری پر جمے رہتے
اور معصیت سے رکے رہتے ہیں۔ زبان کے، دل کے، نیت کے، معاملہ کے سچے ہیں۔ پوری
تسلیم و انقیاد کے ساتھ خدا کے احکام بجا لاتے ہیں۔ خدا کی دی ہوئی دولت کو اس
کے بتلائے ہوئے مواقع میں خرچ کرتے ہیں۔ اور پچھلی رات میں اٹھ کر (جو طمانیت و
اجابت کا وقت ہوتا ہے لیکن اٹھنا اس وقت سہل نہیں ہوتا) اپنے رب سے گناہ اور
تقصیرات معاف کراتے ہیں۔ { کَانُوْ اقَلِیْلاً مِّنَ الَّیْلِ مَا یَھْجَعُوْنَ
وَ بِالْاَ سْحَارِھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ } (ذاریات رکوع ۱) یعنی اکثر رات عبادت
میں گذارتے اور سحر کے وقت استغفار کرتے کہ خداوند ! عبادت میں جو تقصیر رہ گئ
اپنے فضل سے معاف فرمانا۔
|
أَم حَسِبتُم أَن تَدخُلُوا
الجَنَّةَ وَلَمّا يَعلَمِ اللَّهُ الَّذينَ جٰهَدوا مِنكُم وَيَعلَمَ الصّٰبِرينَ {3:142}
|
کیا
تم کو خیال ہے کہ داخل ہو جاؤ گے جنت میں اور ابھی تک معلوم نہیں کیا اللہ نے جو
لڑنے والے ہیں تم میں اور معلوم نہیں کیا ثابت رہنے والوں کو [۲۰۹]
|
یعنی
جنت کےجن اعلیٰ مقامات اور بلند درجات پر خدا تم کو پہنچانا چاہتا ہے۔ کیا تم
سمجھتے ہو کہ بس یونہی آرام سے وہاں جا پہنچیں گے اور خدا تمہارا امتحان لے کر
یہ نہ دیکھے گا کہ تم میں کتنے خدا کی راہ میں لڑنے والے اور کتنے لڑائی کے وقت
ثابت قدم رہنے والے ہیں۔ ایسا خیال نہ کرنا۔ مقامات عالیہ پر وہ ہی لوگ فائز کئے
جاتے ہیں جو خدا کے راستہ میں ہر طرح کی سختیاں جھیلنے اور قربانیاں پیش کرنے کے
لئے تیار ہوں یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا ۔ ہر مدعی کے واسطے دارو رسن
کہاں۔
|
وَكَأَيِّن مِن نَبِىٍّ
قٰتَلَ مَعَهُ رِبِّيّونَ كَثيرٌ فَما وَهَنوا لِما أَصابَهُم فى سَبيلِ اللَّهِ
وَما ضَعُفوا وَمَا استَكانوا ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الصّٰبِرينَ
{3:146}
|
اور
بہت نبی ہیں جن کے ساتھ ہو کر لڑے ہیں بہت خدا کے طالب پھر نہ ہارے ہیں کچھ
تکلیف پہنچنے سے اللہ کی راہ میں اور نہ سست ہوئے ہیں اور نہ دب گئے ہیں اور
اللہ محبت کرتا ہے ثابت قدم رہنے والوں سے [۲۱۶]
|
یعنی
تم سے پہلے بہت اللہ والوں نے نبیوں کے ساتھ ہو کر کفار سے جنگ کی ہے۔ جس میں
بہت تکلیفیں اور سختیاں اٹھائیں لکین ان شدائد و مصائب سے نہ ان کے ارادوں میں
سستی ہوئی نہ ہمت ہارے نہ کمزوری دکھائی۔ نہ دشمن کے سامنے دبے۔ اللہ تعالیٰ
ایسے ثابت قدم رہنے والوں سے خاص محبت کرتا ہے۔ یہ ان مسلمانوں کو تنبیہ فرمائی
اور غیرت دلائی جنہوں نے احد میں کمزوری دکھائی تھی حتٰی کہ بعض نے یہ کہہ دیا
تھا کہ کسی کو بیچ میں ڈال کر ابو سفیان سے امن حاصل کر لیا جائے۔ مطلب یہ ہے کہ
جب پہلی امتوں کے حق پرستوں نے مصائب و شدائد میں اس قدر صبر و استقلال کا ثبوت
دیا تو اس امت کو ( جو خیرالامم ہے) ان سے بڑھ کر صبر واستقامت کا ثبوت دینا
چاہئے۔
|
وَأَطيعُوا اللَّهَ
وَرَسولَهُ وَلا تَنٰزَعوا فَتَفشَلوا وَتَذهَبَ ريحُكُم ۖ وَاصبِروا ۚ إِنَّ
اللَّهَ مَعَ الصّٰبِرينَ {8:46}
|
اور
حکم مانو اللہ کا اور اسکے رسول کا اور آپس میں نہ جھگڑو پس نامرد ہو جاؤ گے اور
جاتی رہے گی تمہاری ہوا [۵۳] اور صبر کرو بیشک اللہ ساتھ ہے صبر والوں کے [۵۴]
|
جو
سختیاں اور شدائد جہاد کے وقت پیش آئیں ان کو صبر و استقامت سےبرداشت کرو ہمت نہ
ہارو ، مثل ہے کہ ہمت کا حامی خدا ہے اس آیت میں مسلمانوں کو بتلا دیا گیا کہ
کامیابی کی کنجی کیا ہے؟ معلوم ہوا کہ دولت، لشکر اور میگزین وغیرہ سے فتح و
نصرت حاصل نہیں ہوتی۔ ثابت قدمی، صبرو استقلال، قوت و طمانیت قلب، یاد الہٰی،
خدا و رسول اور ان کے قائم مقام سرداروں کی اطاعت و فرمانبرداری اور باہمی اتفاق
و اتحاد سے حاصل ہوتی ہے۔ اس موقع پر بیساختہ جی چاہتا ہے کہ صحابہؓ کے متعلق
"ابن کثیرؒ" کے چند الفاظ نقل کر دوں جو اخلاص و ایمان کی انتہائی
گہرائی سے نکلے ہوئے ہیں۔ { وَقَدْ کَانَ لِلصَّحَابَۃِؓ فِی بَاب الشُّجَاعَۃِ
وَالْائمِّارِ بِمَا اَمَرَھُمُ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ بِہٖ وَاَمْتِثَالِ مَا
اَرْشَدَھُمْ اِلَیْہِ مَالَمْ یَکُنْ لِاَحَدٍ مِنَ الْاُمَمِ وَالْقُرُوْنِ
قَبْلَھُمْ وَلَا یَکُوْنُ لِاَحَدٍ مِّمَّنْ بَعْدَھُمْ فَاِنَّھُمْ بِبَرَکَۃِ
الرَّسُوْلِ ﷺ وَطَاعَتِہٖ فِیْمَا اَمَرَھُمْ فَتَحُوا الْقُلُوْبَ وَالْاَ قَالِیْمَ شَرْقًا
وَغَرْبًا فِی الْمُدَّۃِ الْیَسِیْرَۃِ مَعَ قِلَّۃِ عَدَدِھِمْ بِالنِّسْبَۃِ
اِلٰی جُیُوْشِ سَائِرِالْاَ قَالِیْمِ مِنَ الرُّوْمِ وَالْفُرْسِ وَالتُّرْکِ
وَالصَّفَالِیَۃِ وَالْبَرْبَر الْجُیُوْشِ وَاَصْنَافِ السُّوْدَانِ
وَالْقِبْطِ وَطَوَائِفِ بَنِیْ اٰدَمَ قَھَرُوا الْجَمِیْعَ حَتٰی عَلَتْ
کَلِمَۃُ اللہِ وَظَھَرَ دِیْنُہٗ عَلٰی سَائِرِ الْاَدْیَانِ وَامْتَدَّتِ
المَمَالِکُ الْاِسْلَامِیَّۃُ فِیْ مَشَارِقِ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَھَا فِی
اَقَلَّ مِنْ ثلاثین سِنَۃً فَرَضِیَ اللہُ عَنْھُمْ وَاَرْضَاھُمْ اَجْمَعِیْنَ
وَحَشَرْنَا فِیْ زُمْرَتِھِمْ اِنَّہٗ کَرِیْمٌ تَوَّابٌ } ۔
|
یعنی
ہوا خیزی ہو کر اقبال و رعب کم ہو جائے گا۔ بد رعبی کے بعد فتح و ظفر کیسے حاصل
کر سکو گے۔
|
الـٰٔنَ خَفَّفَ اللَّهُ
عَنكُم وَعَلِمَ أَنَّ فيكُم ضَعفًا ۚ فَإِن يَكُن مِنكُم مِا۟ئَةٌ صابِرَةٌ
يَغلِبوا مِا۟ئَتَينِ ۚ وَإِن يَكُن مِنكُم أَلفٌ يَغلِبوا أَلفَينِ بِإِذنِ
اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصّٰبِرينَ
{8:66}
|
اب
بوجھ ہلکا کر دیا اللہ نے تم پر سے اور جانا کہ تم میں سستی ہےسو اگر ہوں تم میں
سو شخص ثابت قدم رہنے والے تو غالب ہوں دو سو پر اور اگر ہوں تم میں ہزار تو
غالب ہوں دو ہزار پر اللہ کے حکم سے اور اللہ ساتھ ہے ثابت قدم رہنے والوں کے
[۷۴]
|
بخاری
میں ابن عباس سے منقول ہے کہ گذشتہ آیت جس میں مسلمانوں کو دس گنا کافروں کے
مقابلہ پر ثابت قدم رہنے کا حکم تھا جب لوگوں کو بھاری معلوم ہوئی تو اس کے بعد
یہ آیت اتری۔ { اَلْاٰنَ خَفَّفَ اللہ } الخ یعنی خدا نے تمہاری ایک قسم کی
کمزوری اور سستی کو دیکھ کر پہلا حکم اٹھا لیا۔ اب صرف اپنے سے دوگنی تعداد کے
مقابلہ میں ثابت قدم رہنا ضروری اور بھاگنا حرام ہے یہ کمزوری یا سستی جس کی وجہ
سےحکم میں تخفیف ہوئی کئ وجوہ سے ہو سکتی ہے۔ ابتدائے ہجرت میں گنے چنے مسلمان
تھے جن کی قوت و جلاوت معلوم تھی کچھ مدت کے بعد ان میں کے بہت سےافراد بوڑھے
اور کمزور ہو گئے اور جو نئی پود آئی ان میں پرانے مہاجرین و انصار جیسی بصیرت
استقامت اور تسلیم و تفویض نہ تھی اور تعداد بڑھ جانے سے کسی درجہ میں اپنی کثرت
پر نظر اور "توکل علی اللہ" میں قدرے کمی ہوئی ہو گی۔ اور ویسے بھی
طبیعت انسانی کا خاصہ ہے کہ جو سخت کام تھوڑے آدمیوں پر پڑ جائے تو کرنے والوں
میں جوش عمل زیادہ ہوتا ہے۔ اور ہر شخص اپنی بساط سے بڑھ کر ہمت کرتا ہے۔ لیکن
وہی کام جب بڑے مجمع پر ڈال دیا جائے تو ہر ایک دوسرے کا منتظر رہتا ہے اور یہ
سمجھتا ہے کہ آخر کچھ میں ہی تنہا تو اس کا ذمہ دار نہیں۔ اسی قدر جوش حرارت اور
ہمت میں کمی ہو جاتی ہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ "اول کے مسلمان یقین
میں کامل تھے ان پر حکم ہوا تھا کہ اپنے سے دس گنے کافروں پر جہاد کریں پچھلے
مسلمان ایک قدم کم تھے تب یہی حکم ہوا کہ دوگنوں پر جہاد کریں۔ یہی حکم اب بھی
باقی ہے۔ لیکن اگر دو سے زیادہ پر حملہ کریں تو بڑا اجر ہے۔ حضرت کے وقت میں
ہزار مسلمان اسی ہزار سے لڑے ہیں۔ "غزوہ موتہ میں تین ہزار مسلمان دو لاکھ
کفار کے مقابلہ میں ڈٹے رہے۔ اس طرح کے واقعات سے اسلام کی تاریخ بحمداللہ بھری
پڑی ہے۔
|
وَإِسمٰعيلَ وَإِدريسَ
وَذَا الكِفلِ ۖ كُلٌّ مِنَ الصّٰبِرينَ
{21:85}
|
اور
اسمٰعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو یہ سب ہیں صبر والے [۱۰۲]
|
یعنی
ان سب نیک بندوں کو یاد کرو ۔ اسمٰعیلؑ اور ادریسؑ کا ذکر پہلے سورہ
"مریم" میں گذر چکا۔ ذوالکفلؑ کی نسبت اختلاف ہے کہ نبی تھے ۔ جیسا کہ
انبیاء کے ذیل میں تذکرہ فرمانے سے ظاہر ہوتا ہے یا محض ایک مرد صالح تھے کہتے
ہیں ایک شخص کے ضامن ہو کر کئ برس قید رہے اور للہ یہ محنت اٹھائی۔ (تنبیہ) مسند
امام احمد اور جامع ترمذی میں ایک شخص کا قصہ آتا ہے جو پہلے سخت بدکار اور فاسق
و فاجر تھا ، بعدہٗ تائب ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت کی بشارت اسی دنیا میں
لوگوں کو سنا دی، اس کا نام حدیث میں "کفل" آیا ہے ۔ بظاہر یہ وہ "ذوالکفل"
نہیں جس کا ذکر قرآن کریم نے کیا ۔ واللہ اعلم۔ ہمارے زمانے کے بعض مصنفین کا
خیال ہے کہ "ذوالکفل" وہ ہی ہیں جن کو "حزقیل" کہا جاتا ہے۔
واللہ اعلم۔
|
فَلَمّا بَلَغَ مَعَهُ
السَّعىَ قالَ يٰبُنَىَّ إِنّى أَرىٰ فِى المَنامِ أَنّى أَذبَحُكَ فَانظُر ماذا
تَرىٰ ۚ قالَ يٰأَبَتِ افعَل ما تُؤمَرُ ۖ سَتَجِدُنى إِن شاءَ اللَّهُ مِنَ الصّٰبِرينَ {37:102}
|
پھر
جب پہنچا اس کے ساتھ دوڑنے کو کہا اے بیٹے میں دیکھتا ہوں خواب میں کہ تجھ کو
ذبح کرتا ہوں پھر دیکھ تو تو کیا دیکھتا ہے بولا اے باپ کر ڈال جو تجھ کو حکم
ہوتا ہے تو مجھکو کو پائے گا اگر اللہ نے چاہا سہارنے والا [۵۹]
|
جب
اسمٰعیلؑ بڑا ہو کر اس قابل ہو گیا کہ اپنے باپ کے ساتھ دوڑ سکے۔ اور اس کے کام
آسکے۔ اس وقت ابراہیمؑ نے اپنا خواب بیٹے کو سنایا۔ تا اس کا خیال معلوم کریں کہ
خوشی سے آمادہ ہوتا ہے یا زبردستی کرنی پڑے گی۔ کہتے ہیں کہ تین رات مسلسل یہ ہی
خواب دیکھتے رہے۔ تیسرے روز بیٹے کو اطلاع کی، بیٹے نے بلا توقف قبول کیا۔ کہنے
لگا کہ ابا جان! (دیر کیا ہے) مالک کا جو حکم ہو کر ڈالیے (ایسے کام میں مشورہ
کی ضرورت نہیں۔ امر الہٰی کے امتثال میں شفقت پدری مانع نہ ہونی چاہئے) رہا میں!
سو آپ ان شاء اللہ دیکھ لیں گے کہ کس صبر و تحمل سے اللہ کے حکم کی تعمیل کرتا
ہوں ہزاروں رحمتیں ہوں ایسے بیٹے اور باپ پر۔
|
***************************************
وَاستَعينوا بِالصَّبرِ
وَالصَّلوٰةِ ۚ وَإِنَّها لَكَبيرَةٌ إِلّا عَلَى الخٰشِعينَ
{2:45}
|
اور
مدد چاہو صبر سے اور نماز سے [۷۱] اور البتہ وہ بھاری ہے مگر انہی عاجزوں پر
|
علمائے
اہل کتاب جو بعد وضوح حق بھی آپ پر ایمان نہ لاتے تھے اس کی بڑی وجہ حب جاہ اور
حب مال تھی اللہ تعالیٰ نے دونوں کا علاج بتا دیا صبر سے مال کی طلب اور محبت
جائے گی اور نماز سے عبودیت و تذلل آئے گا۔ اور حب جاہ کم ہو گی۔
|
***************************************
فَلَمّا دَخَلوا عَلَيهِ
قالوا يٰأَيُّهَا العَزيزُ مَسَّنا وَأَهلَنَا الضُّرُّ وَجِئنا بِبِضٰعَةٍ
مُزجىٰةٍ فَأَوفِ لَنَا الكَيلَ وَتَصَدَّق عَلَينا ۖ إِنَّ اللَّهَ يَجزِى المُتَصَدِّقينَ {12:88}
|
پھر
جب داخل ہوئے اسکے پاس بولے اے عزیز پڑی ہم پر اور ہمارے گھر پر سختی اور لائے
ہیں ہم پونجی ناقص سو پوری دے ہم کو بھرتی اور خیرات کر ہم پر اللہ بدلہ دیتا ہے
خیرات کرنے والوں کو [۱۲۳]
|
باپ
کے فرمانے پر مصر کو پھر روانہ ہوئے ۔ کیونکہ یوسفؑ کا پتہ معلوم نہ تھا یہ خیال
کیا ہو گا کہ جس کا پتہ معلوم ہے (بنیامین) پہلے اس کی فکر کریں اور قحط کی وجہ
سے غلہ کی ضرورت ہے ، عزیز کو ادھر بھی توجہ دلائیں۔ اگر دینے لینے کا معاملہ
میں کچھ نرم پایا تو بنیامین کے متعلق گفت و شنید کریں گے۔ چنانچہ پہلی بات
انہوں نے حضرت یوسفؑ سے یہ ہی کہی کہ اے عزیز مصر ! آج کل قحط و نامداری کی وجہ
سے ہم پر اور ہمارےگھر پر بڑی سختی گذر رہی ہے ، سب اسباب گھر کا بک گیا۔ کچھ
نکمی اور حقیر سی پونجی رہ گئ ہے وہ غلہ خریدنے کے لئے ساتھ لائے ہیں آپ کے
مکارم اخلاق اور گذشتہ مہربانیوں سے امید ہے کہ ہماری ناقص چیزوں کا خیال نہ
فرمائیں گے اور تھوڑی قیمت میں غلہ کی مقدار گذشتہ کی طرح پوری دلوا دیں گے۔ یہ
رعایت حقیقت میں ایک طرح کی خیرات ہو گی جو آپ ہم پر کریں گے یا اس کے علاوہ ہم
کو بطور خیرات ہی کچھ دے دیجئے۔ خدا آپ کا بھلا کرے گا۔ حضرت یوسفؑ یہ حال سن کر
رو پڑے ، شفقت و رحم دلی کا چشمہ دل میں جوش مار کو آنکھوں سے ابل پڑا ۔ اس وقت
حق تعالیٰ کے حکم سے اپنے تئیں ظاہر کیا کہ میں کون ہوں اور تم نے میرے ساتھ جو
معاملہ کیا تھا اس کے بعد میں کس مرتبہ پر پہنچا ہوں۔ اگلی آیت میں اسی اظہار کی
تمہید ہے (تنبیہ) بعض نے تصدق کے معنی مطلق احسان کرنے کے لئے ہیں۔ جیسے
"قصر صلوٰۃ" کی حدیث میں { صَدَقَۃَ تَصَدَّقَ اللہُ بِھَا عَلَیْکُمْ
}۔
|
***************************************
وَأَزلَفنا ثَمَّ الءاخَرينَ {26:64}
|
اور
پاس پہنچا دیا ہم نے اسی جگہ دوسروں کو
|
ثُمَّ أَغرَقنَا الءاخَرينَ {26:66}
|
پھر
ڈبا دیا ہم نے ان دوسروں کو [۴۹]
|
یعنی
فرعونی لشکر بھی قریب آ گیا اور دریا میں راستے بنے ہوئے دیکھ کر بنی اسرائیل کے
بعد بے سوچے سمجھے گھس پڑا جب تمام لشکر دریا کی لپیٹ میں آ گیا، فورًا خدا کے
حکم سے پانی کے پہاڑ ایک دوسرے سے مل گئے۔ یہ قصہ پہلے گذر چکا ہے۔
|
وَاجعَل لى لِسانَ صِدقٍ
فِى الءاخِرينَ {26:84}
|
اور
رکھ میرا بول سچا پچھلوں میں [۶۴]
|
یعنی
ایسے اعمال مرضیہ اور آثار حسنہ کی توفیق دے کہ پیچھے آنے والی نسلیں ہمیشہ میرا
ذکر خیر کریں اور میرے راستہ پر چلنے کی طرف راغب ہوں۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ
آخر زمانہ میں میرے گھرانے سے نبی ہو اور امت ہو، اور میرا دین تازہ کریں چنانچہ
یہ ہی ہوا کہ حق تعالیٰ نے ابراہیمؑ کو دنیا میں قبول عام عطا فرمایا اور ان کی
نسل سے خاتم الانبیاء ﷺ کو مبعوث کیا جنہوں نے ملت ابراہیمی کی تجدید کی
اور فرمایا کہ میں ابراہیمؑ کی دعا ہوں آج بھی ابراہیمؑ کا ذکر خیر اہل مِلل کی
زبانوں پر جاری ہے اور امت محمدیہ تو ہر نماز میں { کَمَا صَلّیْت عَلٰی
اِبْرَاھِیْم } اور { کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ } پڑھتی ہے۔
|
ثُمَّ دَمَّرنَا الءاخَرينَ {26:172}
|
پھر
اٹھا مارا ہم نے ان دوسروں کو
|
وَتَرَكنا عَلَيهِ فِى الءاخِرينَ {37:78}
|
اور
باقی رکھا اس پر پچھلے لوگوں میں
|
ثُمَّ أَغرَقنَا الءاخَرينَ {37:82}
|
پھر
ڈوبا دیا ہم نے دوسروں کو [۴۵]
|
تقریبًا
ہزار سال تک حضرت نوحؑ اپنی قوم کو سمجھاتے اور نصیحت کرتے رہے۔ مگر ان کی شرارت
اور ایذا رسانی برابر بڑھتی رہے۔ آخر حضرت نوحؑ نے مجبور ہو کر اپنے بھیجنے والے
کی طرف متوجہ ہو کر عرض کیا۔ { رَبَّہٓٗ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ } (قمر
رکوع۱) اے پروردگار ! میں مغلوب ہوں آپ میری مدد کو پہنچئے دیکھ لو کہ اللہ نے
ان کی پکار کیسی سنی اور مدد کو کس طرح پہنچا۔ حضرت نوحؑ پر انعامات: نوحؑ کو مع
ان کے گھرانے کے رات دن کی ایذاء سے بچایا۔ پھر ہولناک طوفان کے وقت انکی حفاظت
کی۔ اور تنہا اسکی اولاد سے زمین کو آباد کر دیا۔ اور رہتی دنیا تک اس کا ذکر
خیر لوگوں میں باقی چھوڑا۔ چنانچہ آج تک خلقت ان پرسلام بھیجتی ہے او رسارے جہاں
میں "نوح علیہ السلام" کہہ کر یاد کیے جاتے ہیں۔ یہ تو نیک بندوں کا
انجام ہوا دوسری طرف ان کے دشمنوں کا حال دیکھو کہ سب کے سب زبردست طوفان کی نذر
کر دیے گئے۔ آج ان کا نام و نشان تک باقی نہیں۔ اپنی حماقتوں اور شرارتوں کی
بدولت دنیا کا بیڑہ غرق کرا کر رہے۔ (تنبیہ) اکثر عملاء کا قول یہ ہی ہے کہ آج
تمام دنیا کے آدمی حضرت نوحؑ کے تین بیٹوں (سام، حام، یافث) کی اولاد سے ہیں۔
جامع ترمذی کی بعض احادیث سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے۔ والتفصیل یطلب من مظانہ۔
|
وَتَرَكنا عَلَيهِ فِى الءاخِرينَ {37:108}
|
اور
باقی رکھا ہم نے اس پر پچھلے لوگوں میں
|
وَتَرَكنا عَلَيهِما فِى الءاخِرينَ {37:119}
|
اور
باقی رکھا ان پر پچھلے لوگوں میں کہ
|
وَتَرَكنا عَلَيهِ فِى الءاخِرينَ {37:129}
|
اور
باقی رکھا ہم نے اس پر پچھلے لوگوں میں
|
ثُمَّ دَمَّرنَا الءاخَرينَ {37:136}
|
پھر
جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہم نے دوسروں کو [۷۹]
|
یعنی
لوط اور اس کے گھر والوں کے سوا دوسرے سب باشندوں پر بستی الٹ دی گئ یہ قصہ پہلے
کئ جگہ مفصل گذر چکا ہے۔
|
وَقَليلٌ مِنَ الءاخِرينَ {56:14}
|
اور
تھوڑے ہیں پچھلوں میں سے [۸]
|
حضرت
شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں" پہلے کہا، پہلی امتوں کو، اور پچھلی یہ امت (محمدیہ)
یا پہلے پچھلے اسی امت کے (مراد ہوں) یعنی اعلٰی درجہ کے لوگ پہلے بہت ہوچکے
ہیں۔ پیچھے کم ہوتے ہیں"۔ (تنبیہ) اکثر مفسرین نے آیت کی تفسیر میں یہ
دونوں احتمال بیان کئے ہیں۔ حافظ ابن کثیرؒ نے دوسرے احتمال کو ترجیح دی اور روح
المعانی میں طبرانی وغیرہ سے ایک حدیث ابوبکرہ کی بسند حسن نقل کی ہے جس میں نبی
کریم ﷺ نے آیت کے متعلق فرمایا { ھُمَاجَمِیْعًا مِنْ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ }۔ واللہ اعلم۔
ابن کثیرؒ نے ایک تیسرا مطلب آیت کا بیان کیا ہے۔ احقر کو وہ پسند ہے۔ یعنی ہر
امت کے پہلے طبقہ میں نبی کی صحبت یا قرب عہد کی برکت سے اعلٰی درجہ کے مقربین
جس قدر کثرت سے ہوئے ہیں، پچھلے طبقوں میں وہ بات نہیں رہی۔ کما قال ﷺ { خَیْرالقُرُونِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ
ثُمَّ الَّذِیْنِ یَلُوْنَھُمْ } ہاں
اگر ابوبکرہ کی حدیث صحیح ہو جیسا کہ روح المعانی میں ہے تو ظاہر ہے وہ ہی مطلب
متعین ہوگا۔
|
وَثُلَّةٌ مِنَ الءاخِرينَ {56:40}
|
اور
انبوہ ہے پچھلوں میں سے [۲۱]
|
یعنی
اصحاب یمین پہلوں میں بھی بکثرت ہوئے ہیں اور پچھلوں میں بھی ان کی بہت کثرت
ہوگی۔
|
ثُمَّ نُتبِعُهُمُ الءاخِرينَ {77:17}
|
پھر
اُنکے پیچھے بھیجتے ہیں پچھلوں کو
|
***************************************
وَأَن أَلقِ عَصاكَ ۖ
فَلَمّا رَءاها تَهتَزُّ كَأَنَّها جانٌّ وَلّىٰ مُدبِرًا وَلَم يُعَقِّب ۚ
يٰموسىٰ أَقبِل وَلا تَخَف ۖ إِنَّكَ مِنَ الءامِنينَ
{28:31}
|
اور
یہ کہ ڈالدے اپنی لاٹھی پھر جب دیکھا اسکو پھنپناتے جیسے سانپ کی سٹک الٹا پھرا
منہ موڑ کر اور نہ دیکھا پیچھے پھر کر اے موسٰی آگے آ اور مت ڈر تجھ کو کچھ خطرہ
نہیں
|
***************************************
وَأَقيمُوا الصَّلوٰةَ
وَءاتُوا الزَّكوٰةَ وَاركَعوا مَعَ الرّٰكِعينَ
{2:43}
|
اور
قائم کرو نماز اور دیا کرو زکوٰۃ اور جھکو نماز میں جھکنے والوں کے ساتھ [۶۹]
|
اور
نماز پڑھا کرو اور زکوٰة دیا کرو اور (خدا کے آگے) جھکنے والوں کے ساتھ جھکا کرو
|
یعنی
باجماعت نماز پڑھا کرو پہلے کسی دین میں باجماعت نماز نہیں تھی اور یہود کی نماز
میں رکوع نہ تھا خلاصہ آیت کا یہ ہوا کہ صرف امور مذکورہ بالا نجات کے لئے تم کو
کافی نہیں بلکہ تمام اصول میں نبی آخرالزماں کی پیروی کرو۔ نماز بھی ان کے طور
پر پڑھو جس میں جماعت بھی ہو اور رکوع بھی۔
|
يٰمَريَمُ اقنُتى لِرَبِّكِ
وَاسجُدى وَاركَعى مَعَ الرّٰكِعينَ
{3:43}
|
اے
مریم بندگی کر اپنے رب کی اور سجدہ کر [۷۰] اور رکوع کر ساتھ رکوع کرنےوالوں کے
[۷۱]
|
مریم
اپنے پروردگار کی فرمانبرداری کرنا اور سجدہ کرنا اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ
رکوع کرنا
|
جیسے
راکعین خدا کے آگے رکوع کرتے ہیں۔ تو بھی اسی طرح رکوع کرتی رہ۔ یا یہ مطلب ہے
کہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کر اور چونکہ کم از کم رکوع میں امام کے ساتھ شریک
ہونے والا اس رکعت کو پانے والا سمجھا جاتا ہے، شاید اس لئے نماز کو بعنوان رکوع
تعبیر کیا گیا۔ کما یفہم من کلام ابن تمیمہ فی فتاواہ۔ واللہ اعلم۔ اس تقدیر پر
اگر "اقنتی" میں "قنوت" سے قیام مراد لیں تو قیام رکوع،
سجود تینوں ہئیات صلوٰۃ کا ذکر آیت میں ہو جائے گا۔(تنبیہ) ممکن ہے اس وقت عورتوں
کو عام طور پر جماعت میں شریک ہونا جائز ہو یا خاص فتنہ سے مامون ہونے کی صورت
میں اجازت ہو یا مریمؑ کی خصوصیت ہو یا مریمؑ اپنے حجرہ میں رہ کر تنہا یا دوسری
عورتوں کے ہمراہ امام کی اقتداء کرتی ہوں سب احتمالات ہیں۔ واللہ اعلم۔
|
یعنی
خدا نے جب ایسی عزت اور بلند مرتبہ تجھ کو عطا فرمایا تو چاہیئے کہ ہمیشہ اخلاص
و تذلل کے ساتھ اپنے پروردگار کے آگے جھکی رہے اور وظائف عبودیت کے انجام دینے
میں بیش از بیش سرگرمی دکھلائے تاکہ حق تعالیٰ نے تجھے جس امر عظیم کے لئے بروئے
کار لانے کا ذریعہ تجویز کیا ہے وہ ظہورپذیر ہو۔
|
***************************************
وَشَرَوهُ بِثَمَنٍ بَخسٍ
دَرٰهِمَ مَعدودَةٍ وَكانوا فيهِ مِنَ الزّٰهِدينَ
{12:20}
|
اور
بیچ آئے اسکو بھائی ناقص قیمت کو گنتی کی چونیاں [۲۹] اور ہو رہے تھے اس سے
بیزار [۳۰]
|
اور
اس کو تھوڑی سی قیمت (یعنی) معدودے چند درہموں پر بیچ ڈالا۔ اور انہیں ان (کے
بارے) میں کچھ لالچ نہ تھا
|
یعنی
اس قدر ارزاں بیچنے سے تعجب مت کرو۔ وہ اتنے بیزار تھے کہ مفت ہی دے ڈالتے تو
مستبعد نہ تھا۔ جو پیسے مل گئے غنیمت سمجھا بعض مفسرین کہتے ہیں آیت میں اس بیع
کا ذکر ہے جو قافلہ والوں نے مصر پہنچ کر کی۔ اگر ایسا ہو تو کہا جائے گا کہ پڑی
ہوئی چیز کی قدر نہ کی۔ اور یہ اندیشہ رہا کہ پھر کوئی آ کر دعویٰ نہ کر بیٹھے ۔
نیز آبق (بھگوڑا) ہونے کا عیب سن چکے تھے ، اس لئے سستے داموں بیچ ڈالا ۔
والظاہر ہوالال ۔ واللہ اعلم۔
|
بھائیوں
کو خبر ہوئی کہ قافلہ والے نکال لے گئے ۔ وہاں پہنچے اور ظاہر کیا کہ یہ ہمارا
غلام بھاگ آیا ہے چونکہ اسے بھاگنے کی عادت ہے اس لئے ہم رکھنا نہیں چاہتے ، تم
خریدو تو خرید سکتے ہو۔ مگر بہت سخت نگرانی رکھنا کہیں بھاگ نہ جائے۔ کہتے ہیں
اٹھارہ درہم یا کم و بیش میں بیچ ڈالا ، اور نو بھائیوں نے دو دو درہم (تقریبًا
آٹھ آٹھ آنے) بانٹ لئے۔ ایک بھائی یہودا نے حصہ نہیں لیا۔
|
***************************************
فَسَبِّح بِحَمدِ رَبِّكَ
وَكُن مِنَ السّٰجِدينَ {15:98}
|
سو
تو یاد کر خوبیاں اپنے رب کی اور ہو سجدہ کرنے والوں سے [۸۴]
|
تو
تم اپنے پروردگار کی تسبیح کہتے اور (اس کی) خوبیاں بیان کرتے رہو اور سجدہ کرنے
والوں میں داخل رہو
|
یعنی
اگر ان کی ہٹ دھرمی سے دل تنگ ہو تو آپ ان کی طرف سے توجہ ہٹا کر ہمہ تن خدا کی
تسبیح و تحمید میں مشغول رہئے ۔ خدا کا ذکر ، نماز ، سجدہ ، عبادت الہٰی وہ
چیزیں ہیں جن کی تاثیر سے قلب مطمئن و منشرح رہتا ہے اور فکر و غم دور ہوتے ہیں
۔ اسی لئے نبی کریم ﷺ کی عادت تھی کہ جب کوئی مہم بات فکر کی پیش آتی آپ نماز کی
طرف جھپٹتے۔
|
وَتَقَلُّبَكَ فِى السّٰجِدينَ {26:219}
|
اور
تیرا پھرنا نمازیوں میں [۱۲۴]
|
اور
نمازیوں میں تمہارے پھرنے کو بھی
|
یعنی
جب تو تہجد کو اٹھتا ہے اور متوسلین کی خبر لیتا ہے کہ خدا کی یاد میں ہیں یا
غافل (موضح) یا تو جب نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے اور جماعت کی نماز میں نقل و
حرکت (رکوع و سجود وغیرہ) کرتا ہے اور مقتدیوں کی دیکھ بھال رکھتا ہے۔ اور بعض
سلف نے کہا کہ ساجدین سے آپ کے آباء مراد ہیں یعنی آپ کے نور کا ایک نبی کی صلب
سے دوسرے نبی کی صلب تک منتقل ہونا اور آخر میں نبی ہو کر تشریف لانا، بلکہ بعض
مفسرین نے اس لفظ سے حضور ﷺ کے والدین کے ایمان پر استدلال کیا ہے۔ واللہ اعلم۔
|
***************************************
فَما تَنفَعُهُم شَفٰعَةُ الشّٰفِعينَ {74:48}
|
پھر
کام نہ آئے گی اُنکے سفارش سفارش کرنے والوں کی [۳۴]
|
(تو اس حال میں) سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے حق میں کچھ
فائدہ نہ دے گی
|
کافر
کے حق میں کوئی سفارش نہ کریگا اور کریگا تو قبول نہ ہوگی۔
|
***************************************
وَما مُحَمَّدٌ إِلّا
رَسولٌ قَد خَلَت مِن قَبلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِي۟ن ماتَ أَو قُتِلَ انقَلَبتُم
عَلىٰ أَعقٰبِكُم ۚ وَمَن يَنقَلِب عَلىٰ عَقِبَيهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ
شَيـًٔا ۗ وَسَيَجزِى اللَّهُ الشّٰكِرينَ
{3:144}
|
اور
محمد تو ایک رسول ہے ہو چکے اس سے پہلے بہت رسول پھر کیا اگر وہ مر گیا یا مارا
گیا تو تم پھر جاؤ گے الٹے پاؤں اور جو کوئی پھر جائے گا الٹے پاؤں تو ہر گز نہ
بگاڑے گا اللہ کا کچھ اور اللہ ثواب دے گا شکر گذاروں کو [۲۱۱]
|
اور
محمد (صلی الله علیہ وسلم) تو صرف (خدا کے) پیغمبر ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے
پیغمبر ہو گزرے ہیں بھلا اگر یہ مر جائیں یا مارے جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر
جاؤ؟ (یعنی مرتد ہو جاؤ؟) اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا تو خدا کا کچھ نقصان نہ
کر سکے گا اور خدا شکر گزاروں کو (بڑا) ثواب دے گا
|
واقعہ
یہ ہے کہ احد میں نبی کریم ﷺ نےبنفس نفیس نقشہ جنگ قائم کیا۔
تمام صفوف درست کرنے کے بعد پہاڑ کا ایک درہ باقی رہ گیا۔ جہاں سے اندیشہ تھا کہ
دشمن لشکر اسلام کے عقب پر حملہ آور ہو جائے اس پر آپ نے پچاس تیر اندازوں کو جن
کے سردار حضرت عبداللہ بن جبیرؓ تھے مامور فرما کر تاکید کر دی کہ ہم خواہ کسی
حالت میں ہوں تم یہاں سے مت ٹلنا۔ مسلمان غالب ہوں یا مغلوب، حتٰی کہ اگر تم
دیکھو کہ پرندے ان کا گوشت نوچ کر کھا رہے ہیں تب بھی اپنی جگہ مت چھوڑنا۔ {
وانا لن نزال غالبین ما ثبتم مکانکم } (بغوی) ہم برابر اس وقت تک غالب رہیں گے
جب تک تم اپنی جگہ قائم رہو گے الغرض فوج کو پوری ہدایت دینےکے بعد جنگ شروع کی
گئ۔ میدان کار زار گرم تھا، غازیان اسلام بڑھ بڑھ کر جوہر شجاعت دکھا رہے تھے
ابو دجانہ، علی مرتضیٰ اور دوسرے مجاہدین کی بسالت و بےجگری کے سامنے مشرکین
قریش کی کمریں ٹوٹ چکی تھیں۔ ان کو راہ فرار کے سوا اب کوئی راستہ نظر نہ آتا
تھا کہ حق تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا۔ کفار کو شکست فاش ہوئی۔ وہ
بدحواس ہو کر بھاگے ۔ ان کی عورتیں جو غیرت دلانے کو آئی تھیں پائنچے چڑھا کر
ادھر ادھر بھاگتی نظر آئیں۔ مجاہدین نے مال غنیمت پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ یہ
منظر جب تیر اندازوں نے دیکھا تو سمجھے کہ اب فتح کامل ہو چکی دشمن بھاگ رہا ہے،
یہاں بیکار ٹھہرنا کیا ضروری ہے چل کر دشمن کا تعاقب کریں اور غنیمت میں حصہ
لیں۔ عبداللہ بن جبیرؓ نے رسول اللہ ﷺ
کا ارشاد ان کو یاد دلایا وہ سمجھے کہ آپ کے ارشاد کا اصلی منشا ہم پورا
کر چکے ہیں۔ یہاں ٹھہرنے کی حاجت نہیں۔ یہ خیال کر کے سب غنیمت پر جا پڑے۔ صرف
عبداللہ بن جبیرؓ اور ان کے گیارہ ساتھی درہ کی حفاطت پر باقی رہ گئے۔ مشرکین کے
سواروں کا رسالہ خالد بن الولید کے زیر کمان تھا (جو اس وقت تک "حضرت خالدؓ"
نہیں بنے تھے) انہوں نے پلٹ کر درہ کی طرف سے حملہ کر دیا۔ دس بارہ تیر انداز
ڈھائی سو سواروں کی یلغار کو کہاں روک سکتے تھے، تاہم عبداللہ بن جبیرؓ اور ان
کے رفقاء نے مدافعت میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ اور اسی میں جان دے دی۔ مسلمان
مجاہدین اپنے عقب سے مطمئن تھے کہ ناگہاں مشرکین کا رسالہ ان کے سروں پر جا
پہنچا اور سامنے سے مشرکین کی فوج جو بھاگی جا رہی تھی، پیچھے پلٹ پڑی، مسلمان
دونوں طرف سے گھر گئے اور بہت زور کا رن پڑا۔ کتنے ہی مسلمان شہید اور زخمی
ہوئے۔ اسی افراتفری میں ابن قمیہ نے ایک بھاری پتھر نبی کریم ﷺ پر
پھینکا۔ جس سے دندان مبارک شہید اور چہرہ انور زخمی ہوا۔ ابن قمیہ نے چاہا کہ آپ
کو قتل کرے، مگر مصعب بن عمیرؓ نے (جن کے ہاتھ میں اسلام کا جھنڈا تھا) مدافعت
کی۔ نبی کریم ﷺ زخم کی شدت سے زمین پر گرے۔ کسی شیطان نے آواز لگا دی کہ
آپ ﷺ قتل کر دئیے گئے، یہ سنتے ہی مسلمانوں کے ہوش خطا ہو
گئے اور پاؤں اکھڑ گئے بعض مسلمان ہاتھ پاؤں چھوڑ کر بیٹھ رہے۔ بعض ضعفاء کو
خیال ہوا کہ مشرکین کے سردار ابو سفیان سے امن حاصل کرلیں۔ بعض منافقین کہنے لگے
کہ جب محمد ﷺ قتل کر دیے گئے تو اسلام چھوڑ کر اپنے قدیم مذہب میں واپس
چلا جانا چاہئے اس وقت انس بن مالک کے
چچا انس ابن النضر نے کہا کہ اگر محمد ﷺ مقتول ہو گئے تو رب محمد ﷺ تو مقتول نہیں ہوا حضور ﷺ کے بعد تمہارا زندہ رہنا کس کام کا ہے۔ جس چیز پر آپ ﷺ قتل ہوئے تم بھی اسی پر کٹ مرو اور جس چیز پر آپ ﷺ نے جان دی ہے۔ اسی پر تم بھی جان دے دو۔ یہ کہہ کر
آگے بڑھے، حملہ کیا، لڑے اور مارے گئے رضی اللہ عنہ۔ اسی اثناء میں حضور ﷺ نے آواز دی { اِلیّ عِبَادَللہِ اَنَا رَسُوْلُ اللہ }
(اللہ کے بندو ادھر آؤ میں خدا کا
پیغمبر ہوں) کعب بن مالک آپ کو پہچان کر چلائے { یا معشر المسلمین } مسلمانو!
بشارت حاصل کرو!! رسول اللہ ﷺ یہاں موجود ہیں آواز کا سننا تھا کہ مسلمان ادھر ہی سمٹنا
شروع ہو گئے۔ تیس صحابہ نے آپ ﷺ کے قریب ہو کر مدافعت کی اور مشرکین کی فوج کو منتشر
کر دیا۔ اس موقع پر سعد بن ابی وقاص طلحہ، ابو طلحہ، اور قتادہ بن النعمان وغیرہ
نے بڑی جانبازیاں دکھلائیں آخر مشرکین میدان چھوڑ کر چلے جانے پر مجبور ہوئے اور
یہ آیات نازل ہوئیں۔ { وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ } الخ یعنی محمد ﷺ بھی آخر خدا تو نہیں۔ ایک رسول ہیں ان سے پہلے کتنے رسول
گزر چکے جن کے بعد ان کے متبعین نے
دین کو سنبھالا اور جان و مال فدا کر کے قائم رکھا۔ آپ کا اس دنیا سے گذرنا بھی
کچھ اچنبھا نہیں۔ اس وقت نہ سہی۔ اگر کسی وقت آپ کی وفات ہو گئ یا شہید کر دیے
گئے۔ تو کیا تم دین کی خدمت و حفاظت کے راستہ سے الٹے پاؤں پھر جاؤ گے اور جہاد
فی سبیل اللہ ترک کر دو گے ( جیسے اس وقت محض خبر قتل سن کر بہت سے لوگ حوصلہ
چھوڑ کر بیٹھنے لگے تھے) یا منافقین کےمشورہ کےموافق العیاذ باللہ سرے سے دین کو
خیرباد کہہ دو گے۔ تم سے ایسی امید ہر گز نہیں۔ اور کسی نے ایسا کیا تو اپنا ہی
نقصان کرے گا۔ خدا کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ وہ تمہاری مدد کا محتاج نہیں بلکہ تم
شکر کرو اگر اس نے اپنے دین کی خدمت میں لگا لیا منت منہ کہ خدمت سلطاں ہمی کنم
منت شناس ازو کہ بخدمت گذاشتت اور شکر یہی ہے کہ ہم بیش از بیش خدمت دین میں
مضبوط و ثابت قدم ہوں۔ اس میں اشارہ نکلتا ہے کہ حضرت کی وفات پر بعضے لوگ دین
سے پھر جائیں گے اور جو قائم رہیں گے ان کو بڑا ثواب ہے اسی طرح ہوا کہ بہت لوگ
حضرت کے بعد مرتد ہو ئے۔ صدیق اکبرؓ نے ان کو پھر مسلمان کیا اور بعض مارے گئے۔
ایک علمی تحقیق : { قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ } میں "خلت"
"خلو" سے مشتق ہے جس کے معنی "ہو چکنے" گذرنے اور چھوڑ کر
چلے جانے کے ہیں۔ اس کے لئے موت لازم نہیں جیسے فرمایا { وَاِذَالَقُوْکُمْ
قَالُوْ اٰ امَنَّا وَاِذَخَلَوْ عَضُّوْاعَلَیْکُمُ الْاَنَامِلْ } یعنی جب
تمہیں چھوڑ کر علیحدہ ہوتے ہیں ۔ نیز "الرسل" میں لام استغراق نہیں،
لام جنس ہے ۔ کیونکہ اثبات مدعا میں استغراق کو کوئی دخل نہیں بعینہ اسی قسم کا
جملہ حضرت مسیحؑ کی نسبت فرمایا { مَاالْمَسِیْحُ بْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ
قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ } کیا لام استغراق لیکر اس کے یہ معنی ہونگے
کہ تمام پیغمبر مسیحؑ سے پہلے گذر چکے۔ کوئی ان کے بعد آنے والا نہ رہا۔ لا
محالہ لام جنس لینا ہوگا۔ وہ ہی یہاں لیا جائے اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ
عبداللہ بن مسعود کے مصحف اور ابن عباس کی قرات میں "الرسل" نہیں رسل
نکرہ ہے باقی "خلو" کی تفصیل میں صرف موت یا قتل کا ذکر اس لئے کیا کہ
موت طبعی بہرحال آنے والی تھی اور قتل کی خبر اس وقت مشہور کی گئ تھی۔ اور چونکہ
صورت موت کا وقوع میں آنا مقدر تھا اس لئے اس کو قتل پر مقدم کیا گیا۔ ابوبکر
صدیقؓ نے حضور ﷺ کی وفات کے بعد جب صحابہ کے
مجمع میں یہ پوری آیت { الشّٰکِرِیْنَ } تک بلکہ آیت { اِنَّکَ مَیِّتٌ وَ
اِنَّھُمْ مَیِّتُوْنَ } بھی پڑھی تو لوگ { قَدْخَلَتْ } اور { اَفَائِنْ مات }
اور { اِنَّکَ مَیِّتٌ } سے "خلو" اور "موت" کے جواز و عدم
استبعاد پر متنبہ ہو گئے۔ جو صدیق اکبرؓ کی غرض تھی۔ موت کے واقع ہو چکنے پر نہ
صدیق اکبرؓ نے اس سے استدلال کیا نہ کسی اور نے سمجھا۔ اگر یہ الفاظ موت واقع ہو
چکنے کی خبر دیتے تو چاہئے تھا کہ نزول آیت کے وقت یعنی وفات کے سات برس پہلے ہی
سمجھ لیا جاتا کہ آپ کی وفات ہو چکی ہے۔ اس تقریر سے بعض محرفین کی سب تحریفات
ہباءً منشورا ہو جاتی ہیں۔ بخوف تطویل ہم زیادہ بسط نہیں کر سکتے۔ اہل علم کے
لئے اشارے کر دیے ہیں۔
|
وَما كانَ لِنَفسٍ أَن
تَموتَ إِلّا بِإِذنِ اللَّهِ كِتٰبًا مُؤَجَّلًا ۗ وَمَن يُرِد ثَوابَ الدُّنيا
نُؤتِهِ مِنها وَمَن يُرِد ثَوابَ الءاخِرَةِ نُؤتِهِ مِنها ۚ وَسَنَجزِى الشّٰكِرينَ {3:145}
|
اور
کوئی مر نہیں سکتا بغیر حکم اللہ کے لکھا ہوا ہے ایک وقت مقرر [۲۱۲] اور جو کوئی
چاہے گا بدلہ دنیا کا دیویں گے ہم اس کو دنیا ہی سے [۲۱۳] اور جو کوئی چاہے گا
بدلہ آخرت کا اس میں سےدیویں گے ہم اسکو [۲۱۴] اور ہم ثواب دیں گے احسان ماننے
والوں کو [۲۱۵]
|
اور
کسی شخص میں طاقت نہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر مر جائے (اس نے موت کا) وقت مقرر
کر کے لکھ رکھا ہے اور جو شخص دنیا میں (اپنے اعمال کا) بدلہ چاہے اس کو ہم یہیں
بدلہ دے دیں گے اور جو آخرت میں طالبِ ثواب ہو اس کو وہاں اجر عطا کریں گے اور
ہم شکر گزاروں کو عنقریب (بہت اچھا) صلہ دیں گے
|
جب
کوئی شخص بدون حکم الہٰی کے نہیں مر سکتاخواہ کتنے ہی اسباب موت کے جمع ہوں اور
ہر ایک کی موت وقت مقدر پر آنی ضرور ہے خواہ بیماری سے ہو یا قتل سے یا کسی اور
سبب سے تو خدا پر توکل کرنے والوں کو اس سے گھبرانا نہیں چاہئے اور نہ کسی بڑے
یا چھوٹے کی موت کو سن کر مایوس و بد دل ہو کر بیٹھ رہنا چاہئے۔
|
یعنی
اگر چاہیں { کَمَا قَالَ عَجَّلْنَالَہٗ فِیْھَامَانِشَاءُ لِمَنْ یُّرِیْدُ }
(بنی اسرائیل رکوع ۲)
|
یعنی
اس کو آخرت میں یقینًا بدلہ ملے گا۔ اس آیت کے پہلے جملہ میں ان لوگوں پر تعرض
ہے جنہوں نے مال غنیمت کی طمع میں عدول حکمی کی۔ اور دوسرے میں ان کا ذکر ہے جو
برابر فرمانبرداری پر ثابت قدم رہے۔
|
یعنی
جو لوگ اس دین پر ثابت قدم رہیں گے ان کو دین بھی ملے گا اور دنیا بھی ۔ لیکن جو
کوئی اس نعمت کی قدر جانے (کذا فی الموضح)
|
قُل مَن يُنَجّيكُم مِن
ظُلُمٰتِ البَرِّ وَالبَحرِ تَدعونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفيَةً لَئِن أَنجىٰنا مِن
هٰذِهِ لَنَكونَنَّ مِنَ الشّٰكِرينَ
{6:63}
|
تو
کہہ کون تم کو بچا لاتا ہے جنگل کے اندھیروں سے اور دریا کے اندھیروں سے اس وقت
میں کہ پکارتے ہو تم اسکو گڑا گڑا کر اور چپکے سے کہ اگر ہم کو بچا لیوے اس بلا
سے تو البتہ ہم ضرور احسان مانیں گے
|
کہو
بھلا تم کو جنگلوں اور دریاؤں کے اندھیروں سے کون مخلصی دیتا ہے (جب) کہ تم اسے
عاجزی اور نیاز پنہانی سے پکارتے ہو (اور کہتے ہو) اگر خدا ہم کو اس (تنگی) سے
نجات بخشے تو ہم اس کے بہت شکر گزار ہوں
|
قالَ يٰموسىٰ إِنِّى
اصطَفَيتُكَ عَلَى النّاسِ بِرِسٰلٰتى وَبِكَلٰمى فَخُذ ما ءاتَيتُكَ وَكُن مِنَ
الشّٰكِرينَ {7:144}
|
فرمایا
اے موسٰی میں نے تجھ کو امتیاز دیا لوگوں سے اپنے پیغام بھیجنے کا اور اپنے کلام
کرنے کا سو لے جو میں نے تجھ کو دیا اور شاکر رہ [۱۷۲]
|
(خدا نے) فرمایا موسیٰ میں نے تم کو اپنے پیغام اور اپنے کلام سے
لوگوں سے ممتاز کیا ہے۔ تو جو میں نے تم کو عطا کیا ہے اسے پکڑ رکھو اور (میرا)
شکر بجالاؤ
|
یعنی
دیدار نہ ہو سکا نہ سہی، یہ شرف و امتیار کیا تھوڑا ہے کہ ہم نے تجھ کوپیغمبر بنایا
اور تورات عطا کی اور بلاواسطہ کلام فرمایا۔ سو جس قدر بخشش ہماری طرف سے ہوئی۔
اسے پلے باندھو اور ان بندوں میں شامل رہو جنہیں خدا نے "شاکرین" کے
امتیازی لقب سے ملقب فرمایا ہے۔
|
هُوَ الَّذى خَلَقَكُم مِن
نَفسٍ وٰحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنها زَوجَها لِيَسكُنَ إِلَيها ۖ فَلَمّا تَغَشّىٰها
حَمَلَت حَملًا خَفيفًا فَمَرَّت بِهِ ۖ فَلَمّا أَثقَلَت دَعَوَا اللَّهَ
رَبَّهُما لَئِن ءاتَيتَنا صٰلِحًا لَنَكونَنَّ مِنَ الشّٰكِرينَ {7:189}
|
وہی
ہے جس نے تم کو پیدا کیا ایک جان سے اور اسی سے بنایا اس کا جوڑا تاکہ اسکے پاس
آرام پکڑے پھر جب مرد نے عورت کو ڈھانکا حمل رہا ہلکا سا حمل تو چلتی پھرتی رہی
اسکے ساتھ پھر جب بوجھل ہو گئ تو دونوں نے پکارا اللہ اپنے رب کو کہ اگر تو ہم
کو بخشے چنگا بھلا تو ہم تیرا شکر کریں
|
وہ
خدا ہی تو ہے جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ
اس سے راحت حاصل کرے۔ سو جب وہ اس کے پاس جاتا ہے تو اسے ہلکا سا حمل رہ جاتا ہے
اور وہ اس کے ساتھ چلتی پھرتی ہے۔ پھر جب کچھ بوجھ معلوم کرتی یعنی بچہ پیٹ میں
بڑا ہوتا ہے تو دونوں میاں بیوی اپنے پروردگار خدائے عزوجل سے التجا کرتے ہیں کہ
اگر تو ہمیں صحیح وسالم (بچہ) دے گا تو ہم تیرے شکر گذار ہوں گے
|
هُوَ الَّذى يُسَيِّرُكُم
فِى البَرِّ وَالبَحرِ ۖ حَتّىٰ إِذا كُنتُم فِى الفُلكِ وَجَرَينَ بِهِم بِريحٍ
طَيِّبَةٍ وَفَرِحوا بِها جاءَتها ريحٌ عاصِفٌ وَجاءَهُمُ المَوجُ مِن كُلِّ
مَكانٍ وَظَنّوا أَنَّهُم أُحيطَ بِهِم ۙ دَعَوُا اللَّهَ مُخلِصينَ لَهُ
الدّينَ لَئِن أَنجَيتَنا مِن هٰذِهِ لَنَكونَنَّ مِنَ الشّٰكِرينَ {10:22}
|
وہی
تم کو پھراتا ہے جنگل اور دریا میں یہاں تک کہ جب تم بیٹھے کشتیوں میں اور لے کر
چلیں وہ لوگوں کو اچھی ہوا سے اور خوش ہوئے اس سے آئی کشتیوں پر ہوا تند اور آئی
ان پر موج ہر جگہ سے اور جان لیا انہوں نےکہ وہ گھر گئے پکارنے لگے اللہ کو خالص
ہو کر اس کی بندگی میں اگر تو نے بچا لیا ہم کو اس سے تو بیشک ہم رہیں گے شکر
گذار
|
وہی
تو ہے جو تم کو جنگل اور دریا میں چلنے پھرنے اور سیر کرنے کی توفیق دیتا ہے۔
یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں (سوار) ہوتے اور کشتیاں پاکیزہ ہوا (کے نرم نرم
جھونکوں) سے سواروں کو لے کر چلنے لگتی ہیں اور وہ ان سے خوش ہوتے ہیں تو ناگہاں
زناٹے کی ہوا چل پڑتی ہے اور لہریں ہر طرف سے ان پر (جوش مارتی ہوئی) آنے لگتی
ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ (اب تو) لہروں میں گھر گئے تو اس وقت خالص خدا ہی
کی عبادت کرکے اس سے دعا مانگنے لگتے ہیں کہ (اے خدا) اگر تو ہم کو اس سے نجات
بخشے تو ہم (تیرے) بہت ہی شکر گزار ہوں
|
بَلِ اللَّهَ فَاعبُد وَكُن
مِنَ الشّٰكِرينَ {39:66}
|
نہیں
بلکہ اللہ ہی کو پوج اور رہ حق ماننے والوں میں [۸۱]
|
بلکہ
خدا ہی کی عبادت کرو اور شکرگزاروں میں ہو
|
یعنی
عقلی حیثیت سےدیکھا جائے کہ تمام چیزوں کا پیدا کرنا، باقی رکھنا، اور ان میں ہر
قسم کے تصرفات کرتے رہنا صرف اللہ کا کام ہے تو عبادت کامستحق بجز اس کے کوئی
نہیں ہو سکتا۔ اور نقلی حیثیت سے لحاظ کرو تو تمام انبیاء اللہ اور ادیان سماویہ
توحید کی صحت اور شرک کے بُطلان پر متفق ہیں بلکہ ہر نبی کو بذریعہ وحی بتلا دیا
گیا ہے کہ (آخرت میں) مشرک کے تمام اعمال اکارت ہیں اور شرک کا انجام خالص حرمان
و خسران کے سوا کچھ بھی نہیں۔ لہذا انسان کا فرض ہے کہ وہ ہر طرف سے ہٹ کر ایک
خدائے قدوس کو پوجے اور اس کا شکرگذار و وفادار بندہ بنے۔ اس کے عظمت و جلال کو
سمجھے۔ عاجز و حقیر مخلوق کو اس کا شریک نہ ٹھہرائے۔ اسکو اسی طرح بزرگ و برتر
مانے جیسا وہ واقع میں ہے۔
|
***************************************
رَبَّنا ءامَنّا بِما
أَنزَلتَ وَاتَّبَعنَا الرَّسولَ فَاكتُبنا مَعَ الشّٰهِدينَ
{3:53}
|
اے
رب ہم نے یقین کیا اس چیز کا جو تو نے اتاری اور ہم تابع ہوئے رسول کے سو تو لکھ
لے ہم کو ماننے والوں میں [۹۰]
|
اے
پروردگار جو (کتاب) تو نے نازل فرمائی ہے ہم اس پر ایمان لے آئے اور (تیرے)
پیغمبر کے متبع ہو چکے تو ہم کو ماننے والوں میں لکھ رکھ
|
پیغمبر
کے سامنے اقرار کرنے کے بعد پروردگار کے سامنے یہ اقرار کیا کہ انجیل پر ایمان
لا کر تیرے رسول کا اتباع کرتے ہیں۔ آپ اپنے فضل و توفیق سے ہمارا نام ماننے
والوں کی فہرست میں ثبت فرما دیں۔ گویا ایمان کی رجسٹری ہو جائے کہ پھر لوٹنے کا
احتمال نہ رہے۔
|
وَإِذ أَخَذَ اللَّهُ
ميثٰقَ النَّبِيّۦنَ لَما ءاتَيتُكُم مِن كِتٰبٍ وَحِكمَةٍ ثُمَّ جاءَكُم رَسولٌ
مُصَدِّقٌ لِما مَعَكُم لَتُؤمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ ۚ قالَ ءَأَقرَرتُم
وَأَخَذتُم عَلىٰ ذٰلِكُم إِصرى ۖ قالوا أَقرَرنا ۚ قالَ فَاشهَدوا وَأَنا۠
مَعَكُم مِنَ الشّٰهِدينَ {3:81}
|
اور
جب لیا اللہ نے عہد نبیوں سے کہ جو کچھ میں نے تم کو دیا کتب اور علم پھر آوے
تمہارے پاس کوئی رسول کہ سچا بتاوے تمہارے پاس والی کتاب کو تو اس رسول پر ایمان
لاؤ گے اور اس کی مدد کرو گے فرمایا کہ کیا تم نے اقرار کیا اور اس شرط پر میرا
عہد قبول کیا بولے ہم نے اقرار کیا [۱۲۴] فرمایا تو اب گواہ رہو اور میں بھی
تمہارے ساتھ گواہ ہوں [۱۲۵]
|
اور
جب خدا نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور دانائی عطا کروں پھر
تمہارے پاس کوئی پیغمبر آئے جو تمہاری کتاب کی تصدیق کرے تو تمھیں ضرور اس پر
ایمان لانا ہوگا اور ضرور اس کی مدد کرنی ہوگی اور (عہد لینے کے بعد) پوچھا کہ
بھلا تم نے اقرار کیا اور اس اقرار پر میرا ذمہ لیا (یعنی مجھے ضامن ٹہرایا)
انہوں نے کہا (ہاں) ہم نے اقرار کیا (خدا نے) فرمایا کہ تم (اس عہد وپیمان کے)
گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں
|
یعنی
کوئی نبی اپنی بندگی کی تعلیم نہیں دے سکتا۔ بندگی صرف ایک خدا کی سکھائی جاتی
ہے۔ البتہ انبیاء کا حق یہ ہے کہ لوگ ان پر ایمان لائیں ان کا کہا مانیں، اور ہر
قسم کی مدد کریں۔ عام لوگوں کا تو کیا ذکر ہے، حق تعالیٰ نے خود پیغمبروں سے بھی
یہ پختہ عہد لے چھوڑا ہے کہ جب تم میں سے کسی نبی کے بعد دوسرا نبی آئے (جو
یقینًا پہلے انبیاء اور ان کی کتابوں کی اجمالًا یا تفصیلًا تصدیق کرتا ہوا آئے
گا) تو ضروری ہے کہ پہلا نبی پچھلے کی صداقت پر ایمان لائے اور اس کی مدد کرے۔
اگر اس کا زمانہ پائے تو بذات خود بھی اور نہ پائے تو اپنی امت کو پوری طرح
ہدایت و تاکید کر جائے کہ بعد میں آنے والے پیغمبر پر ایمان لا کر اس کی اعانت و
نصرت کرنا، کہ یہ وصیت کر جانا بھی اس کی مدد کرنے میں داخل ہے۔ اس عام قاعدہ سے
روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان
لانے اور انکی مدد کرنے کا عہد بلا استثناء تمام انبیائے سابقین سے لیا گیا ہو
گا اور انہوں نے اپنی اپنی امتوں سے یہ ہی قول و قرار لئے ہوں گے۔ کیونکہ ایک آپ
ہی کی مخزن الکمالات ہستی تھی جو عالم غیب میں سب سے پہلے اور عالم شہادت میں سب
انبیاء کے بعد جلوہ افروز ہونے والی تھی، اور جس کے بعد کوئی نبی آنے والا نہ
تھا اور آپ ہی کا وجود باجود تمام انبیائے سابقین اور کتب سماویہ کی حقانیت پر
مہر تصدیق ثبت کرنے والا تھا۔ چنانچہ حضرت علیؓ اور ابن عباسؓ وغیرہ سے منقول ہے
کہ اس قسم کا عہد انبیاء سے لیا گیا۔ اور خود آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر آج موسٰیؑ
زندہ ہوتے تو ان کو میری اتباع کے بدون چارہ نہ ہوتا۔ اور فرمایا کہ عیسٰیؑ جب
نازل ہوں گے تو کتاب اللہ (قرآن کریم) اور تمہارے نبی کی سنت پر فیصلے کریں گے۔
محشر میں شفاعت کُبریٰ کے لئے پیش قدمی کرنا اور تمام بنی آدمؑ کا آپ ﷺ کے جھنڈے تلے جمع ہونا اور شب معراج میں بیت المقدس کے
اندر تمام انبیاء کی امامت کرانا، حضور ﷺ کی اسی سیادت
عامّہ اور امامت عظمیٰ کے آثار میں سے ہے۔ اللھم صل علیٰ سیدنا محمد و علیٰ آل
سیدنا محمد وبارک وسلم۔
|
یہ
الفاظ محض عہد کی تاکید و اہتمام کے لئے فرمائے۔ کیونکہ جس عہدنامہ پر خدا
تعالیٰ اور پیغمبروں کی گواہی ہو اس سے زیادہ پکی دستاویز کہاں ہو سکتی ہے۔
|
وَإِذا سَمِعوا ما أُنزِلَ
إِلَى الرَّسولِ تَرىٰ أَعيُنَهُم تَفيضُ مِنَ الدَّمعِ مِمّا عَرَفوا مِنَ
الحَقِّ ۖ يَقولونَ رَبَّنا ءامَنّا فَاكتُبنا مَعَ الشّٰهِدينَ
{5:83}
|
اور
جب سنتے ہیں اس کو جو اترا رسول پر تو دیکھے تو ان کی آنکھوں کو کہ ابلتی ہیں
آنسوؤں سے اس وجہ سے کہ انہوں نے پہچان لیا حق بات کو کہتے ہیں اے رب ہمارے ہم
ایمان لائے سو تو لکھ ہم کو ماننے والوں کے ساتھ
|
اور
جب اس (کتاب) کو سنتے ہیں جو (سب سے پہلے) پیغمبر (محمدﷺ) پر نازل ہوئی تو تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے آنسو
جاری ہو جاتے ہیں اس لیے کہ انہوں
نے حق بات پہچان لی اور وہ (خدا کی جناب میں) عرض کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم
ایمان لے آئے تو ہم کو ماننے والوں میں لکھ لے
|
قالوا نُريدُ أَن نَأكُلَ
مِنها وَتَطمَئِنَّ قُلوبُنا وَنَعلَمَ أَن قَد صَدَقتَنا وَنَكونَ عَلَيها مِنَ
الشّٰهِدينَ {5:113}
|
بولے
کہ ہم چاہتے ہیں کہ کھاویں اس میں سے اور مطمئن ہو جاویں ہمارے دل اور جان لیں
کہ تو نے ہم سے سچ کہا او رہیں ہم اس پر گواہ [۲۶۶]
|
وہ
بولے کہ ہماری یہ خواہش ہے کہ ہم اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل تسلی پائیں اور
ہم جان لیں کہ تم نے ہم سے سچ کہا ہے اور ہم اس (خوان کے نزول) پر گواہ رہیں
|
یعنی
آزمانے کو نہیں مانگتے بلکہ برکت کی امید پر مانگتے ہیں کہ غیب سے بے محنت روزی
ملتی رہے تا اطمینان قلب اور دلجمعی سے عبادت میں لگے رہیں۔ اور آپ نے جو غیبی
خبریں نعمائے جنت وغیرہ کے متعلق دی ہیں، ایک چھوٹا سا نمونہ دیکھ کر ان کا بھی
یقین کامل ہو جائے۔ اور ایک عینی شاہد کے طور پر ہم اس کی گواہی دیں جس سے یہ
معجزہ ہمیشہ مشہور رہے۔ بعض مفسرین نے نقل کیا ہے کہ حضرت مسیحؑ نے وعدہ فرمایا
تھا کہ تم خدا کے لئے تیس دن کے روزے رکھ کر جو کچھ طلب کرو گے وہ دیا جائے گا۔
حواریین نے روزے رکھ لئے اور مائدہ طلب کیا { وَ نَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَ
قْتَنَا } سے یہ ہی مراد ہے۔ واللہ اعلم۔
|
قالَ بَل رَبُّكُم رَبُّ
السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ الَّذى فَطَرَهُنَّ وَأَنا۠ عَلىٰ ذٰلِكُم مِنَ الشّٰهِدينَ {21:56}
|
بولا
نہیں رب تمہارا وہی ہے رب آسمان اور زمین کا جس نے اُنکو بنایا اور میں اسی بات
کا قائل ہوں [۶۶]
|
(ابراہیم نے) کہا (نہیں) بلکہ تمہارا پروردگار آسمانوں اور زمین
کا پروردگار ہے جس نے ان کو پیدا کیا ہے۔ اور میں اس (بات) کا گواہ (اور اسی کا
قائل) ہوں
|
یعنی
میرا عقیدہ ہی یہ ہے اور پورے یقین و بصیرت سے اس کی شہادت دیتا ہوں کہ میرا
تمہارا سب کا رب وہ ہی ایک خدا ہے جس نے آسمان زمین پیدا کئے اور ان کی دیکھ
بھال رکھی۔ کوئی دوسری چیز اس کی خدائی میں شریک نہیں ہو سکتی۔
|
وَما كُنتَ بِجانِبِ
الغَربِىِّ إِذ قَضَينا إِلىٰ موسَى الأَمرَ وَما كُنتَ مِنَ الشّٰهِدينَ {28:44}
|
اور
تو نہ تھا غرب کی طرف جب ہم نے بھیجا موسٰیؑ کو حکم [۶۰] اور نہ تھا تو دیکھنے
والا
|
اور
جب ہم نے موسٰی کی طرف حکم بھیجا تو تم (طور کی) غرب کی طرف نہیں تھے اور نہ اس
واقعے کے دیکھنے والوں میں تھے
|
یعنی
کوہ طور کے غرب کی جانب جہاں موسٰیؑ کو نبوت اور تورات ملی۔
|
امت محمدیہ کے مردوں اور عورتوں کے دس اوصاف
| ||||||
أعوذ بالله من الشیٰطن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم ﴿إن المسلمین والمسلمٰت والمؤمنین والمؤمنات والقانتین والقٰنتٰت والصٰدقین والصدقٰت والصٰبرین والصٰبرات والخاشعین والخٰشعت والمتصدقین والمتصدقت والصائمین والصائمت والحفظین فروجھم والحٰفظت والذاکرین الله کثیرا والذکرات أعدالله لھم مغفرة وأجرا عظیما﴾․(سورہٴ احزاب آیت:35) بے شک دین اسلام اختیار کرنے والے مرد اور دین اسلام اختیار کرنے والی عورتیں اور ایمان ویقین والے مرد اور ایمان ویقین والی عورتیں اور ( الله ورسول کی) فرما نبرداری کرنے والے مرد اور فرماں برداری کرنے والی عورتیں اور صدق وسچائی والے مرد اور صدق وسچائی والی عورتیں اور صبر وبرداشت کرنے والے مرد اور صبر وبرداشت کرنے والی عورتیں اور انکسار وفروتنی اختیار کرنے والے مرد اور انکسار وفروتنی اختیار کرنے والی عورتیں اور ( راہ خدا میں) صدقہ خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ خیرات کرنے والی عورتیں اور روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں اور ( شہوت نفس کے ناجائز تقاضوں سے) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور الله کو زیادہ یاد کرنے اور یاد رکھنے والے مرد اور زیادہ یاد کرنے اور یاد رکھنے والی عورتیں، الله نے ان سب کے واسطے طے کر رکھی اور تیار کر رکھی ہے بخشش اور اجر عظیم۔ تفسیر وتشریح پچھلے ہفتے سورہٴ احزاب کے چوتھے رکوع کا درس ہوا تھا۔ اس کا خاص روئے سخن حضور صلی الله علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کی طرف تھا، ان کے خاص مقام ومرتبہ کے لحاظ سے ان کو کچھ خصوصی ہدایتیں فرمائی گئی تھیں، نماز، زکوٰة جیسے اعمال صالحہ کو اہتمام سے ادا کرنے کی اور منکرات ومکروہات سے بچنے کی سخت تاکید فرمائی گئی تھی ، اگرچہ یہ اوامر ونواہی امت کی سب خواتین کے لیے ہیں ، پچھلے رکوع میں ان احکام کی خاص مخاطب ازواج مطہرات ہی تھیں۔ اب یہ پانچواں رکوع شروع ہوا ہے اس کی پہلی آیت اپنے مضمون کے لحاظ سے بڑی جامع اور اہم آیت ہے، اس میں وہ سارے اوصاف جمع کر دیے گئے ہیں جو الله کو اپنے بندوں او ربندیوں میں مطلوب ہیں۔ جو بندہ یا جو بندی یہ اوصاف وخصائل جس درجہ اپنے اندر پیدا کر لے وہ اسی درجہ میں مومن کامل اور ”ولی الله“ ہے، یہ آیت گویا ”ولایت الہی“ کا منشورہے۔ اس آیت کا روئے سخن امت محمدیہ کے تمام مردوں اور عورتوں کی طرف ہے۔ اس میں مردوں کے ساتھ عورتوں کا ذکر صراحت کے سا تھ کرکے گویا یہ اعلان فرمایا گیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ذریعہ سے آئی ہوئی روحانی دولت میں عورتیں مردوں کی برابر کی شریک ہیں اور ان کے لیے ولایت اور قرب الہٰی کے وہ سب دروازے کھلے ہوئے ہیں جو مردوں کے لیے کھلے ہیں۔ بہرحال اس آیت میں امت محمدیہ کے تمام مردوں اور عورتوں کو سنایا جارہا ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ الله تعالیٰ تمہاری چھوٹی بڑی ساری خطائیں ، سارے گناہ اور ساری لغزشیں معاف فرمادے اور تم سے آخرت میں کوئی باز پرس نہ ہو اور اُس رب کریم کی طرف سے ”اجرعظیم“ تم کو عطا ہو ( جس میں بلاشبہ رضائے مولیٰ اوردیدارِ الہٰی بھی شامل ہے) تو یہ دس اوصاف اپنے اندر پیدا کرلو۔ ایک اسلام۔ جس کا مطلب ہے الله کے حضور میں سرافگندہ ہو جانا، اس کے دین کو قبول کرکے اس کے حکموں پر چلنے کا فیصلہ کر لینا اور اس کی بندگی کو اپنی زندگی کا اصول بنا لینا۔ ﴿ان المسلمین والمسلمات﴾ میں اسی وصف کا ذکر ہے۔ دوسرا ایمان: ایمان کا مطلب یہ ہے کہ الله تعالیٰ کی طرف سے اُس کے پیغمبر نے جو ایسی باتیں اور ایسی حقیقتیں بتلائیں جن کو ہم بطور خود نہیں جان سکتے ، اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے ، اپنی عقلوں سے نہیں سمجھ سکتے (جیسے الله تعالیٰ کی ذات وصفات، قیامت، آخرت، جنت ، دوزخ، فرشتوں کا وجود ، وحی کا آنا ، قرآن شریف کا کلام الله ہونا ، وغیرہ وغیرہ ) تو ایسی ساری باتوں اور حقیقتوں پر ، صرف الله کے پیغمبر کے اعتبار واعتماد پر دل سے ایسا یقین کر لینا اور مان لینا جیسا کہ آنکھوں دیکھی چیزوں پر یقین کرلیا جاتا ہے۔ ﴿المؤمنین والمؤمنات﴾ میں اسی کا ذکر ہے۔ تیسرا وصف ہے۔ عملی زندگی میں الله تعالیٰ کی کامل فرماں برداری کرنا ﴿والقانتین والقنتت﴾ میں اسی وصف کا ذکر ہے۔ چوتھا وصف ہے سچائی وراستبازی۔ اپنے اقوال میں بھی اوراعمال ومعاملات میں بھی ﴿والصدقین والصٰدقت﴾ میں اسی کا ذکر ہے۔ پانچواں وصف ہے صبر۔ ”صبر“ کا لفظ ہماری آپ کی زبان میں یعنی اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے، لیکن ہماری زبان میں اس کے معنی بہت محدود ہیں، جو ہم آپ سب جانتے ہیں، لیکن قرآن پاک کی زبان میں صبر کے معنی بہت وسیع ہیں اور وہ بہت اونچا وصف ہے، یعنی کسی اعلیٰ مقصد کے لیے تکلفیں اٹھانا، مصیبتیں جھیلنا، اپنے نفس پر کنٹرول رکھنا۔ ﴿والصٰبرین والصٰبرات﴾ کا یہی مطلب ہے۔ چھٹا وصف ہے خشوع۔ اس کے معنی ہیں فروتنی، عاجزی وانکساری، الله تعالیٰ کے حضور میں بھی اور بندوں سے برتاؤ میں بھی، باطن میں بھی اور ظاہر میں بھی، یہ وصف عبدیت او ربندگی کی روح اور جان ہے ﴿والخاشعین والخشعت﴾ میں اسی کا ذکر ہے۔ ساتواں وصف ہے الله کی راہ میں اپنے مال کی قربانی۔ یعنی اس کی رضا جوئی کے لیے صدقہ وخیرات کرنا، جس سے بخل وکنجوسی کی روحانی بیماری کا علاج بھی ہوتا ہے اور الله کے حاجت مندوں کی مدد بھی ہوتی ہے ﴿والمتصدقین والمتصدقٰت﴾میں اسی وصف کا ذکر ہے۔ آٹھواں وصف ہے روزہ داری۔ یعنی الله کی رضا اور اپنے نفس کے علاج کے لیے او راپنے اندر تقوے کی صفت پیدا کرنے کے لیے روزے رکھنا، فرض بھی او رحسب توفیق نفلی بھی ﴿والصائمین والصٰئمت﴾میں اس وصف کا ذکر ہے۔ نواں وصف ہے عفت وپاک بازی ۔ یعنی شہوت نفس کے غلط اورناجائز تقاضوں سے اپنی حفاظت کرنا۔ ﴿والحفظین فروجھم والحٰفظت﴾ میں اس کا ذکر ہے۔ دسواں اور آخری وصف الله کا ذکر، نہ صرف ذکر، بلکہ ذکر کثیر۔ یعنی الله سے غافل نہ ہونا، اُس کا دھیان رکھنا او رزیادہ سے زیادہ اس کا ذکر کرنا۔ اس میں نماز، قرآن پاک کی تلاوت، الله کی حمد وتسبیح اور دعا واستغفار وغیرہ ذکر الله کی سب شکلیں شامل ہیں ۔ ﴿والذکرین الله کثیراً والذٰکرات﴾ میں اسی کا ذکر ہے۔ یہ دس صفتیں، جو بندہ اپنے اندر پیدا کرلے وہ بامراد اور کامیاب ہے۔ وہ الله کا اور الله اس کا ہو گیا، ایسے بندوں کو اس آیت میں بشارت سنائی گئی ہے﴿اعد الله لھم مغفرة واجراً عظیما﴾ یعنی الله نے ایسے بندوں کے لیے مغفرت وبخشش اور”اجر عظیم“ کا تحفہ تیار کر رکھا ہے۔ جس”اجر“ کو خود الله تعالیٰ ”عظیم الشان“ فرمائے اس کی عظمت کا کوئی بندہ یہاں تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ایک حدیث قدسی ایک مشہور حدیث قدسی ہے، یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے الله تعالیٰ کا یہ ارشاد اسی کی طرف سے امت کو پہنچایا ”أعددت لعبادی الصالحین مالاعین رأت، ولا أذن سمعت، ولا خطر علی قلب بشر․“ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے جنت میں راحت ولذت اورمسرت کے وہ سامان اور وہ نعمتیں تیار کرکے رکھی ہیں جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے او رنہ کسی انسان کے دل میں کبھی ان کا خیال ہی آیا ہے ، یعنی جو انسانی خیال وتصور کی پرواز کی حد سے بھی بالاتر ہیں ، بس وہیں پہنچ کر معلوم ہو گا کہ وہ کیا نعمتیں ہیں اور ان میں کیسی لذت اور مسرت کا کیسا سامان ہے ۔ (مشکوٰة، باب صفة الجنة… بحوالہ بخاری ومسلم) اس کی صحیح مثال یہ ہے کہ ہم آپ جب اس دنیا میں آنے سے پہلے اپنے ماؤں کے پیٹ میں تھے تو ہمیں کچھ معلوم نہ تھا کہ ہم کسی اور دنیا میں پہنچیں گے او روہاں لذت وراحت کے عجیب وغریب سامان ہوں گے، وہاں زعفرانی، بریانی، فیرنی اور کباب قورمہ جیسی لذیذ غذائیں ہوں گی ، روح افزا جیسے لذیذ مشروب ہوں گے مشکی حنا اور شمامة العنبر او روح گلاب او رکیوڑہ جیسے عطریات ہوں گے۔ سیر وتفریح کے لیے پارک او رچمن ہوں گے ، سواری کے لیے موٹریں ہوں گی، عالیشان محلات ہوں گے ، تو ماں کے پیٹ والی ہماری پہلی دنیا میں ان چیزوں کا تصور بھی نہیں ہو سکتا تھا، لیکن جب الله کے حکم سے یہاں آئے اور الله نے یہ چیزیں نصیب فرمائیں تو اس کے بعد ہی ان کو جانا، بالکل اسی طرح سمجھنا چاہیے کہ الله تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے لیے جو نعمتیں جنت میں تیار کر رکھی ہیں اُن کا یہاں ہم تصور بھی نہیں کر سکتے، وہ ہمارے ادراک وخیال کی پرواز سے بھی وراء الوراء ہیں، بس وہاں پہنچ کر ہی ہم اُن سے آشنا ہوں گے۔ آخرت او رجنت میں عطا ہونے والی اُن سب نعمتوں کو اس آیت میں ”اجر عظیم“ فرمایا گیا ہے ، ان نعمتوں کے حاصل کرنے کا راستہ کیا ہے ؟ او ران کی قیمت کیا ہے جو ہم کو ادا کرنی ہے ؟ بس وہی اعمال واوصاف جن کا اس آیت میں ذکر فرمایا گیا ہے ، میں نے عرض کیا تھاکہ الله کے جو بندے جس درجہ میں یہ اوصاف اپنے اندر پیدا کر لیں وہ اسی درجہ میں ”مومن کامل“ اور ” الله کے ولی“ اور یہ آیت ”ولایت الہٰی کا منشور“ ہے۔ تصوف اور صوفیہ بزرگان دین کی خانقاہوں کا اصل موضوع یہی تھا کہ الله کے طالب بندے وہاں کے خاص ماحول میں رہ کر یہ ایمانی اوصاف اور یہ اخلاق واعمال اپنے اندر پیدا کر لیں اور ان کی ایسی مشق کر لیں کہ یہی ان کی طبیعت ثانیہ ہو جائے، بس یہی تصوف ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔ ان مطلوبہ اوصاف میں آخری او رانتہائی چیز” الله تعالیٰ کا ذکر کثیر“ ہے ، سب سے آخر میں فرمایا گیا ہے﴿والذاکرین الله کثیراً والذاکرات﴾ پھر آگے اسی سورت میں چند ہی آیتوں کے بعد ارشاد فرمایا گیا ہے ﴿یا أیھا الذین اٰمنوا اذکروا الله ذکر اً کثیراً﴾ (اے ایمان والے بندو !الله کا ذکر بہت زیادہ کیا کرو اور اس کو بہت یاد رکھو) حضرت عبدالله بن عباس نے انہی آیتوں کی روشنی میں فرمایا ہے کہ ” الله تعالیٰ کی طرف سے بندوں کو جن عبادتی اعمال کا حکم دیا گیا ہے ، اُن سب کی ایک حد مقرر ہے کہ بس اتنا ضروری ہے اس کے بعد چھٹی۔ نماز روزہ، حج وغیرہ سب کا یہی حال ہے ۔ لیکن ”ذکرالله“ کے لیے ایسی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی ہے، بلکہ حکم ہے کہ ہر وقت اور ہر حال میں اس کو یاد کرو اور یاد رکھو۔ ارشاد فرمایا گیا ہے ﴿فاذکروا الله قیاماً وقعوداً وعلی جنوبکم﴾ ( یعنی الله کا ذکر کرو کھڑے ہونے کی حالت میں اور بیٹھے ہونے کی حالت میں اور جب تم لیٹے ہوئے ہو ) اس کا کھلا مطلب یہی ہے کہ الله تعالیٰ کی یاد تمہارے دل ودماغ میں اس طرح بس جانی چاہیے کہ کسی حال اُس سے غفلت نہ ہو، یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ امت کے تمام طبقوں میں یہ دولت صرف مشائخ ربانی کاحصہ ہے، جن کو ”صوفیہ“ کہا جاتا ہے۔ ایک حدیث شریف کا مضمون ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ الله کے بندوں میں کون لوگ افضل اورزیادہ بلند مرتبہ ہیں؟آپ نے ارشاد فرمایا”والذاکرین الله کثیراً والذاکرات“یعنی الله کا بہت زیادہ ذکر کرنے والے بندوں او ربندیوں کا درجہ اور مرتبہ سب سے اعلیٰ وبالا ہے۔ (مشکوٰة باب ذکرالله، بحوالہ احمد وترمذی) الله تعالیٰ اس دولت کا کچھ نہ کچھ حصہ ہم آپ سب کو نصیب فرمائے اور الله کی رحمت سے یقین کے ساتھ امید ہے کہ ہم آپ میں جو بھی سچے دل سے اس کا طالب ہو گا اور اُس کے حاصل کرنے کی کوشش کرے گا اور الله تعالیٰ سے دعا بھی کرتا رہے گا، ان شاء الله وہ محروم نہ رہے گا۔ ﴿سبحانک اللھم وبحمدک، ونشھد ان لا الہ الا انت، نستغفرک ونتوب الیک﴾․ |
***************************************
***************************************
***************************************
***************************************
***************************************
No comments:
Post a Comment