Tuesday 24 February 2015

Eternal Challenge of THE CREATOR to deniers - منکرین کو خالق کا ابدی چیلنج


﴿وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ﴾
اور اگر تمہیں (اس قرآن کے کلام الله ہونے) میں (ذرا بھی) شک ہو، جو ہم نے اتارا اپنے بندے (یعنی آخری نبی محمد ﷺ) پر (کہ وہ سچا نہیں، خود گھڑ کر لایا ہے) تو (پوری کتاب تو چھوڑو صرف) ایک سورة ہی لاؤ، اس جیسی ، اور بلالو (اپنی استطاعت سے ساری مخلوق میں سے) اپنے مددگاروں کو الله کے سوا ، اگر تم سچے ہو.
[سورۃ البقرة:23]


If you are in doubt about what We have revealed to Our servant, then bring a Sūrah similar to this, and do call your supporters other than Allah, if you are true.

تنوير المقباس من تفسير ابن عباسؓ(م68ھ) - امام الفيروزآبادي (م817ھ):
تم اپنی کتابوں میں یہ بات پاتے ہو کہ اس(سب کے خالق) وحدہ لاشریک(جو اکیلا ہے، نہیں ہے اس کا کوئی شریک) کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ کوئی اس کے مشابہ اور شریک ہے، اور اگر تمہیں اس کلام(قرآن) میں جو کہ ہم نے بذریعہ جبریلِ امینؑ اپنے خاص بندے محمد ﷺ پر اتارا ہے، شک ہے کہ یہ کلام انہوں نے خود بنا لیا ہے تو اس کلام جیسی ایک سورۃ لے آؤ اور اپنے ان معبودوں کو بھی ساتھ ملا لو جن کی تم عبادت کرتے ہو یا اپنے سرداروں کو بلا لو اگر تم اپنی بات میں سچے ہو اور حقیقت یہ ہے کہ ایک سورۃ بھی تم ہرگز اس جیسی لانے پر قادر نہیں ہوسکتے۔



Tanwîr al-Miqbâs min Tafsîr Ibn ‘Abbâs :
(And if ye are in doubt concerning that which We revealed) through the Archangel Gabriel (unto Our slave) Muhammad whom you accuse of fabrication, (then produce a surah like it) produce a surah like the surah of the Cow (al-Baqarah), (and call your witnesses), seek help from the gods that you worship, (apart from Allah), it is said that this refers to their leaders, (if ye are truthful) in your claim.





تفسیر جلالین:
ربط آیات : ﴿وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا﴾ :
(الآیۃ) سابقہ دو آیتوں میں توحید کا اثبات Proof تھا، ان دو آیتوں میں محمد ﷺ کی رسالت Prophetic Responsibility کا اثبات Proof ہے، قرآن جو ہدایت لے کر آیا ہے اس کے دو ستون ہیں، توحید اور رسالت، اس آیت میں بڑی قوت اور شدت کے ساتھ پوری دنیا کو چیلنج کیا گیا ہے کہ اگر یہ کلام محمد ﷺ پر نازل کردہ خدائی کلام نہیں ہے، تو ایک فرد نہیں پوری جماعت مل کر ایک چھوٹی سے سورت اس کے مثل لے آؤ، یہ چیلنج مکی زندگی میں بھی بارہا کیا جاچکا تھا اور اب مدینہ پہنچ کر بھی اس کا اعادہ کیا جار ہا ہے، یعنی اگر تم اس کو انسانی تصنیف سمجھتے ہو تو تم بھی انسان ہو اس جیسی چند آیات ہی پیش کردو۔

﴿فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ﴾ :
اس آیت میں ایک بڑا زور دار اور دائمی چیلنج منکرین کو دیا جا رہا ہے اور یہ چیلنج اپنی پوری قوت اور شدت کے ساتھ آج بھی موجود ہے کہ اگر تم میں سے تنہا کسی فرد سے یہ کام نہ ہو سکے تو اپنے حمایتیوں کی مدد سے یہ کام کر دکھاؤ اور اگر تم ایسا نہیں کرسکتے اور یقین ہے کہ ہرگز نہ کرسکو گے تو تمہیں سمجھ لینا چاہیے کہ واقعی یہ انسانی کلام نہیں ہے، قرآن کی صداقت کی یہ واضح دلیل ہے کہ یہ چیلنج یَا ایُّھَا الناس کے عمومی خطاب کے ذریعہ پوری دنیا کو دیا گیا تھا اور آج بھی باقی ہے لیکن منکرین آج تک اس چیلنج کو قبول کرنے سے قاصر رہے ہیں اور قیامت تک قاصر رہیں گے۔
Tafsir al-Jalalayn :
And if you are in doubt, in uncertainty, concerning what We have revealed to Our servant, Muhammad (s), of the Qur’ān, that it is from God, then bring a sūra like it, that is also revealed (min mithlihi: min is explicative, that is, a sūra like it in its eloquence, fine arrangement and its bestowal of knowledge of the Unseen; a sūra is a passage with a beginning and end made up of a minimum of three verses); and call your witnesses, those other gods that you worship, besides God, that is, other than Him, so that it can be seen, if you are truthful, in [your claim] that Muhammad (s) speaks it from himself. So do this, for you are also fluent speakers of Arabic like him. When they could not do this, God said:






تفسیر-امام البغوی(م436ھ) :
اور اگر تم کو اس (کتاب) میں جو ہم نے اپنے بندے (محمد عربی ﷺ پر نازل فرمائی ہے کچھ شک ہو تو اس طرح کی ایک سورت تم بھی بنا لاؤ اور خدا کے سوا جو تمہارے مددگار ہوں ان کو بھی بلالو اگر تم سچے ہو۔

23۔ (آیت) ”وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ“ یعنی اور اگر تم شک میں ہو۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ اس بات کو جانتا ہے بیشک وہ شک میں ہیں ۔
(آیت)”﴿مِمَّا نَزَّلْنَا﴾“ یعنی قرآن کریم ﴿عَلَى عَبْدِنَا﴾ محمد ﷺ پر ”﴿فَأْتُوا﴾“ یہ حکم حکم تعجیر (امر تعجیر یہ ہوتا ہے کہ کسی کو ایسی چیز کا امر کرنا جسے وہ یقینا نہ کرسکتا ہو اور یہ بات امر کرنے والا بھی جانتا ہے مگر اس امر سے مقصود مخاطب کا عجز ظاہر کرنا ہوتا ہے ۔
﴿بِسُورَةٍ﴾“ اور سورة قرآن کریم کے اس حصہ کا نام ہے جس کا اول وآخر معلوم ہو سورة اسارت سے ماخوذ ہے جس کا معنی بچی ہوئی چیز ، ہمزہ حذف کردیا گیا اور بعض نے کہا کہ سورة بلند مقام کا نام ہے اسی سے سورة البلد یعنی شہر کی فصیل ہے کیونکہ وہ بھی بلند ہوتی ہے ، سورة کو سورة اس لیے کہتے ہیں کہ پڑھنے والا سورة کی تلاوت سے بلند درجہ حاصل کرتا ہے ، یہاں تک کہ قاری کی منازل رفیعہ قرآن پاک کی سورتوں کے مکمل ہوتے ہی مکمل ہوجاتی ہیں ، ”﴿مِنْ مِثْلِهِ﴾“ مثل قرآن لفظ میں بطور صلہ واقع ہے۔ جیسے فرمان الہی (آیت)”قل للمؤمنین یغضوا من ابصارھم“ میں من بطور صلہ واقع ہے ۔
 
﴿مِنْ مِثْلِهِ﴾ کی ضمیر نبی کریم ﷺ کی طرف راجع ہے یعنی کسی ایسے شخص سے اس قرآن جیسی لاؤ جو حضرت محمد ﷺ کی طرح امی ہو۔ خط و کتابت مستحسن طریقہ پر نہ کرسکے۔
(آیت)”﴿وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ﴾“ اپنے ان معبودوں سے مدد حاصل کرو جن کی تم عبادت کرتے ہو (من دون اللہ) اللہ تعالیٰ کے سوا۔ حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں: ایسے لوگوں کو بلاؤ جو تمہارے لیے گواہی دیں۔
(آیت)”﴿إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ﴾“۔ (اگر تم اس قول میں سچے ہو) کہ قرآن محمد کریم ﷺ نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے ، جب قرآن کریم نے ان کو چیلنج دیا تو عاجز ہوگئے۔






احکام القرآن-امام الجصاصؒ(م370ھ):

قول باری ہے :
وان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فاتوا بسورۃ من مثلہ وادعوا شھدآء کم من دون اللہ ان کنتم صدقین
(اور اگر تمہیں اس امر میں شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے، یہ ہماری ہے یا نہیں، تو اس کے مانند ایک ہی سورت بنا لائو، اپنے سارے ہمنوائوں کو بلالو، ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو مدد لے لو، اگر تم سچے ہو تو یہ کام کر کے دکھائو۔ ) اس آیت میں کئی وجوہ سے حضور ﷺ کی نبوت کی صحت کی سب سے بڑی دلالت موجود ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ اللہ نے مخاطبین کو اس جیسی ایک سورت پیش کرنے کا چیلنج کردیا اور پھر ببانگ دہل یہ اعلان کردیا کہ اپنی حمیت اور فخر و غرور کے باوجود وہ ایسا کرنے سے عاجز ہیں، حالانکہ اس کتاب کی زبان دہی ہے جو ان کی اپنی زبان ہے اور حضور ﷺ نے ان کے اندر ہی پیدا ہو کر عربی زبان سیکھی تھی، لیکن اس چیلنج کا جواب دینے کے لئے ان کا نہ تو کوئی خطیب میدان میں آیا اور نہ ہی کسی شاعر نے یہ تکلیف اٹھائی حالانکہ ان لوگوں نے حضور ﷺ کی دعوت اسلام کو کمزور کرنے اور آپ کے پیش کردہ دلائل کو باطل قرار دینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا اور اپنی جان اور اپنا مال صرف کیا تھا۔ اگر یہ لوگ مذکورہ چیلنج قبول کر کے میدان میں آ جاتے اور کتاب اللہ کا مقابلہ کرنے کی قدرت حاصل کرلیتے تو ان کی یہ کارکردگی حضور ﷺ کے دعوائے نبوت کو باطل کرنے اور آپ ﷺ کے رفقاء کی طرف سے آپ کا ساتھ چھوڑ جانے کے لئے موثر ترین حربہ ہوتی، لیکن جب مقابلہ میں آنے سے ان کی عاجزی واضح ہوگئی تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ یہ کتاب اللہ قادر مطلق کی طرف سے آپ پر نازل ہوئی ہے اور اس جیسی کتاب پیش کرنا بندوں کے بس سے باہر ہے۔ مقابلہ میں آنے کی بجائے انہوں نے زیادہ سے زیادہ یہی عذر پیش کردیا کہ یہ جادو ہے اور اگلے لوگوں کی کہانیوں پر مشتمل ہے۔ اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا : فلیا توا بحدیث مثلہ ان کانوا صدقین (تو پھر یہ لوگ اس جیسی کوئی بات ہی پیش کردیں، اگر یہ سچے ہیں) نیز فرمایا : فاتوا بعشر سور مثلہ مفتریان (تو اس جیسی دس سورتیں ہی گھڑ کر پیش کر دو ) اس صورت میں اللہ سبحانہ نے انہیں نظم قرآنی کے ساتھ چیلنج کیا، معنی کے ساتھ چیلنج نہیں کیا اور ان کی عاجزی اور درماندگی بھی واضح کردی۔ اس طرح یہ کتاب ہمارے نبی کریم ﷺ کے ایک معجزے کے طور پر قیامت تک کے لئے باقی رہ گئی اور اس کے ذریعے اللہ نے حضور ﷺ کی نبوت اور اس کی بنیاد پر آپ ﷺ کی فضیلت کو واضح کردیا، اس لئے کہ دیگر تمام انبیاء کے معجزات ان کے گزر جانے کے ساتھ ہی ختم ہوگئے اور اب صرف خبر کے واسطے سے ہمیں ان کا معجزات ہونا معلمو ہوتا ہے، لیکن حضور ﷺ یہ معجزہ دنیا سے آپ ﷺ کے رخصت ہوجانے کے بعد بھی باقی اور قائم ہے۔ اور آپ ﷺ کے بعد جو شخص بھی اس معجزے پر اعتراض کرے گا ہم اسے یہی چیلنج دیں گے کہ اس جیسی کتاب پیش کرو، اور پھر اسے پتہ لگ جائے گا کہ آپ کی نبوت کی تثبیت کے لئے اس کتاب میں دلالت کے کون کون سے پہلو ہیں۔ جس طرح یہی صورت ان لوگوں کے لئے تھی جو آپ کے زمانے میں موجود تھے۔ ان پر بھی اسی طرح کی حجت قائم ہوگئی تھی اور انہیں لاجواب کردیا گیا تھا۔ حضور ﷺ کی نبوت کی صحت پر دلالت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ پر ایمان لانے والے اور آپ ﷺ کی نبوت کا انکار کرنے والے دونوں کو یہ معلوم ہے کہ آپ ﷺ تمام انسانوں میں عقل و دانش کے اعتبار سے کامل ترین، حلم و بردباری کے لحاظ سے اکمل ترین اور فہم و فراست میں افضل ترین انسان تھے۔ کسی نے بھی آپ کی دانائی کے کمال، آپ ﷺ کی برد باری کے وفور، آپ ﷺ کی معاملہ فہمی کی صحت اور آپ ﷺ کی رائے کی عمدگی پر انگشت نمائی نہیں کی اور یہ بات ناممکن ہے کہ آپ ﷺ جیسی صفات رکھنے والا انسان ایک طرف یہ دعویٰ کرے کہ وہ اللہ کا نبی ہے جسے اس نے اپنی تمام مخلوقات کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے ، پھر اپنے کلام کو اس کی نبوت کی علامت اور اس کی صداقت کی دلیل بنا کر مخالفین کو اس کے ذریعہ چیلنج دے کر وہ اس جیسا کوئی کلام پیش کریں۔ جبک ہیہ بات عیاں ہو کر مخالفین میں سے ہر شخص اس کی طرح اہل زبان ہے اور پھر دوسری طرف اس کا کذب اور اس کے دعوے کا بطلان ظاہر ہوجائے۔ یہ کیفیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ آپ ﷺ نے مذکورہ کلام کے ذریعے مخالفین کو چیلنج کر کے بیانگ دہل ان کے عجز کا صرف اس لئے اعلان کردیا کہ یہ کلام اللہ کی طرف سے آپ ﷺ پر نازل ہوا تھا اور بندوں کو اس جیسا کلام پیش کرنے کی قدرت نہیں تھی۔ اسی سیاق تلاوت میں قول باری ہے : فان لم تفعلوا ولن تفعلوا (لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا اور یقینا کبھی نہیں کرسکتے) ان الفاظ کے ذریعے اللہ نے یہ خبر دے دی کہ مخالفین اس کلام کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور وہ آئندہ بھی ایسا نہیں کرسکیں گے۔ یہ اخبار بالغیب ہے اور نفس الامر میں بھی یہ خبر اسی طرح پائی گئی جس طرح دی گئی تھی۔ اس آیت کا تعلق اعجاز نظم قرآنی سے نہیں ہے، بلکہ یہ حضور ﷺ کی نبوت کو سچا ثابت کرنے کے سلسلے میں بذاتہ ایک مستقل دلیل ہے، کیونکہ یہ اخبار بالغیب ہے جس طرح مثلاً آپ ﷺ مخالفین سے یہ فرماتے کہ میرے قول کی صحت کی دلیل یہ ہے کہ تم سب اپنے اعضا و جوارح کی صحت اور سلامتی کے باوجود تم میں سے کوئی شخص نہ اپنے سر کو ہاتھ لگا سکتا ہے اور نہ ہی اپنی جگہ سے کھڑا ہوسکتا ہے۔ “ پھر اعضا و جوارح کی صحت و سلامتی کے باوجود ان میں سے کوئی شخص نہ تو اپنے سر کو ہاتھ لگا سکے اور نہ ہی اپنی جگہ سے کھڑا ہو سکے، جبکہ ان کی طرسے آپ ﷺ کے اس چیلنج کو جھٹلانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا جائے۔ تو آپ کا یہ قول آپ ﷺ کی صحت کی دلیل بن جاتی، کیونکہ ایسی صورت میں مخالفین کا مذکورہ کام سر انجام دینے سے عاجز رہنا صرف اس بنا پر ہوتا کہ آپ نے انہیں یہ بات اس قادر اور حکیم ذات کی طرف سے کہی تھی جس نے مذکورہ حالت کے اندر مخالفین کو اس کام سے روک دیا تھا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اللہ نے جن و انس تمام مخلوق کو چیلنج کیا تھا کہ وہ سب مل کر بھی قرآن جیسی کتاب پیش کرنے سے عاجز ہیں، چناچہ ارشاد ہوا : قل لمئن اجتمعت الانس والجن علی ان یا نوا بمثل ھذا القرآن لا یساتون بمثلہ ولوکان یعضھم لبعض ظھیراً (کہہ دو کہ اگر انسان اور جن سب کے سب مل کر اس قرآن جیسی کوئی چیز لانے کی کوشش کریں تو نہ لاسکیں گے چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں) پھر جب ان کی ناکامی واضح ہوگئی تو ارشاد ہوا : قالوا بعشر سور مثلہ مفتریات (اس جیسی دس سورتیں گھڑ کرلے آئو) جب وہ اس میں بھی ناکام رہے تو فرمایا :(فلیاتوا بحدیث مثلہ ان کانوا صادقین (اس جیسی کوئی ایک بات بھی پیش کردیں اگر وہ سچے ہیں) اللہ تعالیٰ نے انہیں قرآن کی چھوٹی سے چھوٹی سورت جیسی کوئی سورت پیش کرنے کا چیلنج دیا، پھ رجب ان کی ناکامی عیاں ہوگئی اور ان پر حجت قائم ہوگئی اور دوسری طرف ان مخالفین نے دلیل کا مقابلہ دلیل سے کرنے سے گریز کرتے ہوئے جنگ کے ذریعے غلبہ حاصل کرنے کی ٹھان لی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو ان سے جنگ کرنے کا حکم دیا۔ قول باری ہے : وادعوا شھداء کم من دون اللہ کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے ان کے اصنام کو باطل ثابت کیا جن کی وہ اللہ کے سوا پرستش کرتے تھے کیونکہ ان کا خیال یہ تھا کہ ان کے یہ اصنام اللہ کے ہاں ان کے شفیع بنیں گے۔ ایک قول کے مطابق آیت میں مراد وہ تمام لوگ ہیں جو ان مخالفین کی تصدیق کرتے اور ان کے ہم رائے تھے۔ اور اس کے ساتھ یہ واضح کردیا کہ یہ سب کے سب اجتماعی اور انفرادی طور پر مذکورہ چیلنج کا جواب دینے میں ناکام رہے۔ یہی بات اس قول باری سے بھی واضح ہے : لئن اجتمعت الانس و الجن علی ان یاتوا بمثل ھذا القرآن لا یاتون بمثلہ ولوکان بعضھم لبعض ظھیراً ۔ سورئہ فاتحہ کی ابتدا سے لے کر سورة بقرہ کے اس مقام تک جہاں ہم اب پہنچے ہیں درج ذیل مضامین بیان ہوئے ہیں۔ اللہ کے نام سے ابتدا کرنے کا حکم، اللہ کی حمد و ثنا کے طریقے کی تعلیم، ہدایت کے اس راستے پر چلنے اور اس کی طرف راغب ہونے کی دعا جو راستہ ہمیں اس کی معرفت اور اس کی نجت اور رضا مندی کی سمت لے جائے اور اس راستے سے بچانے کی التجا جو اس کے غصب کے مستحقین نیز اس کی ذات کی معرفت اور اس کی نعمت کے شکر سے بھٹک جانے والوں کا اختیار کردہ راستہ ہے ۔ پھر سورة بقرہ کی ابتدا اہل ایمان کے ذکر سے کی گئی، بعدازاں کافروں کا ذکر وہا اور پھر منافقین کا تذکرہ اور پھر دو مثالوں کے ذریعے ان منافقین کی اصل صورت حال کو ہمارے ذہنوں سے قریب تر کردیا گیا۔ ان کے متعلق پہلی مثال ایسے شخص کی حالت کے ذریعے بیان ہوئی جس سے آگ جلائی ہو اور دوسری مثال اس بجلی کے ذریعے بیان ہوئی جو تاریکیوں میں چمکتی ہے، لیکن چمک کر فوراً ختم ہوجاتی ہے۔ ٹھہرتی نہیں یہ دراصل منافقین کے اظہار ایمان کی مثال ہے جبکہ دوسری طرف ان کا کفر پر ثبات ہوتا ہے اور وہ اس کفر ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ان کی یہ کیفیت رات کی اس تاریکی اور بارش کی طرح ہے جس کے درمیان بجلی چمکتی اور ان کے سامنے روشنی ہوجاتی ہے پھر یہ روشنی غائب ہوجاتی ہے اور یہ لوگ حسب سابق اندھیروں میں بھٹکتے رہ جاتے ہیں اور انہیں کچھ نظر نہیں آتا۔ منافقین کا ذکر ختم کرنے کے بعد اللہ نے توحید پر ایسی دلالت قائم کرنے کا ذکر کیا جسے جھٹلانا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ وہ یہ کہ اللہ نے زمین کو پھیلا دیا اور اسے لوگوں کا ٹھکانہ بنادیا اور سب کو اس سے فائدہ اٹھانے کا موقعہ فراہم کردیا۔ نیز زمین سے ان سب کے گزارے کے اسباب، ان کی غذا اور ان کے لئے فائدے کے دیگر ذرائع پیدا کردیئے نیز یہ کہ اس نے اس زمین کو کسی سہارے اور ٹیک کے بغیر قائم رکھا ہے اس لئے کہ زمین کا حادث ہونا ثابت ہے۔ اس لئے اس کی کوئی نہ کوئی انتہا بھی ضرور ہوگی۔ زمین کو روک کر قائم رکھنے اولا اللہ ہے جس نے اسے پیدا کیا ہے اور جو تمہارا بھی خالق ہے اور جس نے زمین سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لئے رزق کی نعمت بہ ہم پہنچائی کیونکہ ان تمام کاموں کی قدرت صرف اسی قادر مطلق کو حاصل ہوسکتی ہے جسے کوئی چیز نہ تو عاجز کرسکتی ہو اور نہ کوئی چیز اس کے مشابہ ہو۔ اس طرح اللہ سبحانہ نے لوگوں کو ان مذکورہ دلائل سے قائل کیا ا اور انہیں اپنی ان نعمتوں سے اگٓاہی بخشی۔ اس کے بعد حضور ﷺ کی نبوت پر مہر تصدیق ثبت کی۔ دلیل یہ دی کہ تمام مخالفین قرآن جیسی ایک سورت پیش کرنے سے عاجز ہیں اور اس کے بعد تمام انسانوں کو خدائے واحد کی عبادت کی دعوت دی جس نے ان پر اس قدر انعامات کئے ہیں۔ ارشاد ہوا : فلا تجعلوا اللہ انداداً وانتم تعلمون (پس جب تم یہ جانتے ہو تو دوسروں کو اللہ کا مدمقابل نہ ٹھہرائو) یعنی تمہیں معلوم ہے کہ جن معبودان باطل کو تم الہ کے طور پر پکارتے ہو وہ درج بالا افعال میں سے کوئی افعال میں سے کوئی فعل سر انجام دینے کی قدرت نہیں رکھتے، نیز یہ کہ ان کے بجائے اللہ ہی تم پر انعام کرنے والا ہے اور وہی تمہیں پیدا کرنے والا ہے۔ قول باری : وانتم تعلمون کا ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ تمہیں واجب اور غیر واجب کے مابین فرق کا علم ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں عقل کی وہ نعمت بخشی ہے جس کے ذریعے اس فرق تک رسائی تمہارے لئے ممکن ہے۔ اس لئے تمہیں اس کا مکلف بنانا ضروری ہوگیا کیونکہ عقل کے نزدیک اللہ کی ذات کی عدم معرفت کی کوئی گنجائش نہیں ہے جبکہ اس معرفت کے تمام اسباب مہیا کردیئے گئے ہوں اور تمام رکاوٹیں دور ک ردی گئی ہوں۔ جب اللہ کی وحدانیت اور اس کی قدرت، نیز اس کی خالقیت کی بات دلائل کے ذریعے تمام لوگوں کے ذہنوں میں واضح کردی گئی تو وعید کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا :
(وان لم تفعلوا ولن تفعلوا فالقوا النار التی وقودھا الناس والحجارۃ اعدت للکفرین۔ ) (لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا اور یقینا کبھی نہیں کرسکتے تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر جو مہیا کی گئی ہے منکرین حق کے لئے)
اس کے بعد ان نعمتوں کا ذکر کیا جن کا وعدہ آخرت میں اہل ایمان سے کیا گیا ہے، چناچہ ارشاد ہوا : وبشر الذین امنوا وعملوا الصالحات ان لھم جنت تجری من تحتھا الانھر (اور اے اے پیغمبر، جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئیں اور اس کے مطابق اپنے عمل درست کرلیں انہیں خوشخبری دے دو کہ ان کے لئے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی) تا آخر آیات





تفسیر-امام القرطبیؒ(م671ھ):
اور اگر تم کو اس (کتاب) میں جو ہم نے اپنے بندے (محمد عربی ﷺ پر نازل فرمائی ہے کچھ شک ہو تو اس طرح کی ایک سورت تم بھی بنا لاؤ اور خدا کے سوا جو تمہارے مددگار ہوں ان کو بھی بلالو اگر تم سچے ہو۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وان کنتم فی ریب یعنی اگر تم شک میں ہو، مما نزلنا یعنی القرآن۔
اس آیت کا مخاطب مشرک ہیں جن کو چیلنج کیا گیا کیونکہ انہوں نے جب قرآن سنا تو کہا : یہ اللہ تعالیٰ کے کلام کے مشابہ نہیں ہے۔ ہم اس میں شک کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اس آیت کا ماقبل(یونی جو کچھ پہلے بیان ہوا) سے اتصال(جوڑ) اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب پہلی آیت میں اپنی وحدانیت وقدرت پر دلالت کو ذکر کیا تو اس کے بعد اپنے نبی کی نبوت پر دلالت کو ذکر کیا ہے کہ وہ جو کچھ لے کر آیا ہے وہ اس کا اپنا گھڑا ہوا نہیں ہے۔ عبدنا :
یعنی محمد ﷺ۔ عبد، تعبد سے ماخوذ ہے جس کا معنی عجزو انکساری کرنا، غلام کو عبد اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے آقا کے سامنے عجز اور خضوع کا اظہار کرتا ہے۔
طرفہ نے کہا : الی ان تحامتنی العشیرۃ کلھا وافردت افراد البعیر المعبد یہاں تک کہ پورے خاندان نے مجھے روکا اور مذلل اونٹ جدا ہونے کی طرح میں جدا ہوگیا۔ بعض علماء نے کہا:
جب عبادت معزز ترین خصلت ہے اس کے ساتھ نام رکھنا معزز ترین درجہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو عبد کہہ کر ذکر فرمایا۔ یا قوم قلبی عند زھراء یعرفہ السامع والرانی لا تدعی الابیا عبدھا فانہ اشرف اسمانی اے میری قوم ! میرا دل زہراء کے پاس ہے جس کو ہر سامع اور دیکھنے والا جانتا ہے۔ وہ مجھے نہیں پکارتی مگر یا عبد کہہ کر، کیونکہ یہ میرے معزز ناموں میں سے ہے۔
فاتوا بسورۃٍ میں فاء جوابِ شرط ہے۔ تو لے آؤ ایک سورت کیونکہ یہ مجئی کے باب سے ہے۔ یہ ابن کیسان نے کہا ہے، یہ امر(حکم) کا صیغہ ہے اور یہاں اس کا معنیٰ عاجز کرنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو سورت لانے سے ان کا عجز معلوم تھا۔ السورۃ، السور کا واحد ہے اس کے متعلق کلام اس سورت میں اور اعجاز قرآن کی بحث میں گزر چکا ہے یہاں اعادہ کی ضرورت نہیں۔ من مثلہ میں “ من ” زائدہ ہے جیسا کہ فاتوا بسورۃ مثلہ کہا ہے اور مثلہ کی ضمیر کا مرجع جمہور مفسرین کے نزدیک قرآن ہے جیسے حضرات قتادہ، مجاہدوغیرہما۔ بعض مفسرین نے فرمایا : اس کا مرجع تورات اور انجیل ہیں معنیٰ یہ ہوگا کہ تم اس کی مثل کتاب سے سورت لے آؤ، کیونکہ تورات وانجیل اس کی تصدیق کرتی ہیں جو اس میں ہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : ضمیر کا مرجع نبی کریم ﷺ کی ذات ہے۔ معنیٰ یہ ہوگا کہ کوئی سورت لاؤ کسی ایسے بشر سے جو آپ کی مثل ہو جو نہ لکھتا ہو نہ پڑھتا ہو۔ ان دونوں تاویلوں پر من تبعیضیہ ہوگا اور مثلہ پر وقف تام نہ ہوگا کیونکہ وادعوا کا تعلق اس کے ساتھ ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وادعوا شھدأء کم، شھدأء سے مراد مددگار اور حمایتی ہیں۔
فراء نے کہا : اس سے مراد ان کے معبود (بت) ہیں۔ ابن کیسان نے کہا : اگر کہا جائے کہ یہاں شہداء کا ذکر کیسے کیا۔ شہداء تو اس لئے ہوتے ہیں تاکہ وہ کسی امر کی گواہی دیں یا کسی امر کی خبر دیں جو انہوں نے دیکھا ہو۔ انہیں تو کہا گیا ہے : فاتوا بسورۃ من مثلہ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا معنیٰ ہے : اپنے علماء میں سے جو پاؤ ان سے مدد طلب کرو اور انہیں لے آؤ تاکہ وہ دیکھیں جو تم لے کر آتے ہو۔ تو یہ تمام لوگوں پررد، حجت قائم کرنے کے اعتبار سے زیادہ مؤکد ہے۔ میں کہتا ہوں: مجاہدؒ کے قول کا یہی معنیٰ ہے۔ مجاہدؒ نے کہا : ادعوا شھداء کم کا معنیٰ ہے : لوگوں کو بلاؤ جو تمہارے لئے گواہی دیں کہ تم نے قرآن کا مقابلہ پیش کردیا ہے۔ نحاسؒ نے کہا : شھدأءکم فعل کے ساتھ اس کو نصب دی گئی ہے اور یہ شھید کی جمع ہے۔ کہا جاتا ہے : شاھد، وشھید، جیسے قادر وقدیر۔ من دون اللہ یعنی اللہ کے سوا دوسروں سے، دون کا لفظ فوق کی نقیض (متضاد) ہے اور یہ غایت سے کمی کرنا ہے۔ یہ ظرف ہوتا ہے۔ الدون، حقیر اور خسیس کو کہتے ہیں۔ اذا ما علا المرء رام العلاء ویقنع بالدون من کان دونا جب کوئی انسان بلند ہوتا ہے تو بلندی کا قصد کرتا ہے اور خسیس آدمی، پستی پر قناعت کرتا ہے۔ دون کے لفظ سے فعل مشتق نہیں ہوتا۔ بعض لوگ کہتے ہیں : دان یدون دوناً اور کہا جاتا ہے : ھذا دون ذالک یعنی یہ اس کے زیادہ قریب ہے۔ کسی چیز پر برانگیختہ کرنے کے لئے کہا جاتا ہے : دون کہ (تم اسے پکڑو) ۔ تمیم نے حجاج کو کہا : اقبرنا صالحاً ہمیں اجازت دے کہ ہم صالح کی قبر کھودیں۔ حجاج نے صالح کو سولی پر لٹکایا تھا تو حجاج نے کہا : دونکموہ تم اسے لے لو اور دفن کر دو ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
ان کنتم صدقین “ اگر تم سچے ہو ”
اس میں جو تم نے کہا ہے کہ تم قرآن کے مقابلہ پر قادر ہو، مشرکوں نے کہا تھا : لو نشاء لقلنا مثل ھذا (اگر ہم چاہیں تو ہم اس کی مثل کہہ سکتے ہیں ) ۔ صدق (سچائی) یہ کذب (جھوٹ) کا متضاد ہے۔ کہا جاتا ہے : وقد صدق فی الحدیث، اس نے بات سچی کی، الصدق، نیزوں میں سخت۔ کہا جاتا ہے : صدقوھم القتال۔ انہوں نے ان کو جنگ کے بارے سچی بات بتائی۔ الصدیق جو ہمیشہ سچ بولتا ہو۔ کہا جاتا ہے رجل صدق (سچا آدمی) ۔ جیسے کہا جاتا ہے : نعم الرجل (اچھا آدمی) الصداقۃ، یہ الصدق سے مشتق ہے جس کا معنی ہے اخلاص اور محبت میں سچا ہونا۔






تفسیر-ابن کثیر(م774ھ):
تصدیق نبوت اعجاز قرآن:
توحید کے بعد اب نبوت کی تصدیق کی جا رہی ہے کفار مکہ کو خطاب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ ہم نے جو قرآن پاک اپنے بندے حضرت محمد ﷺ پر اتارا ہے اسے اگر تم ہمارا کلام نہیں مانتے تو تم اور تمہارے مددگار سب مل کر پورا قرآن نہیں صرف ایک سورت تو اس جیسی بنا لاؤ۔ جب تم ایسا نہیں کرسکتے اور اس سے عاجز ہو تو پھر اس قرآن کے کلام اللہ ہونے میں کیوں شک کرتے ہو ؟ اپنے ہم فکر اور مددگار سب کو جمع کرو تو بھی تم سب ناکام رہو گے۔ مطلب یہ ہے کہ جنہیں تم نے اپنا معبود بنا رکھا ہے انہیں بھی بلا لو اور ان سے بھی مدد چاہو پھر اس جیسی ایک سورت ہی تو بنا لاؤ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ تم اپنے حاکموں اور اپنے زباں دان فصیح وبلیغ لوگوں سے بھی مدد لے لو۔ قرآن پاک کے اس معجزے کا اظہار اور ایسا انداز خطاب کئی جگہ ہے۔
سورة قصص میں ہے آیت:
(قُلْ فَاْتُوْا بِكِتٰبٍ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ هُوَ اَهْدٰى مِنْهُمَآ اَتَّبِعْهُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ۔۔۔۔ اگر تم سچے ہو تو ان دونوں سے (یعنی توریت و قرآن سے) زیادہ ہدایت والی کوئی اور اللہ کی کتاب لاؤ تو میں بھی اس کی تابعداری کروں گا۔
(سورۃ القصص :49)
سورة سبحان میں فرمایا آیت:
(قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓي اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيْرًا ۔۔۔۔  اگر تمام جنات اور انسان جمع ہو کر اور ہر ایک دوسرے کی مدد کے ساتھ یہ چاہیں کہ اس جیسا قرآن بنائیں تو بھی ان کے امکان میں نہیں۔
(سورۃ الاسراء :88)
سورة ھود میں فرمایا آیت:
(اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهٖ مُفْتَرَيٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ۔۔۔۔۔ کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ قرآن کو خود اس پیغمبر نے گھڑ لیا تم کہو کہ اگر تم سچے ہو تو تم سب مل کر اور اللہ کے سوا جنہیں تم بلا سکتے ہو بلا کر اس جیسی دس سورتیں ہی بنا لاؤ۔
(سورۃ ھود :13)
سورة یونس میں ہے آیت:
(وَمَا كَانَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ يُّفْتَرٰي مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلٰكِنْ تَصْدِيْقَ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيْلَ الْكِتٰبِ لَا رَيْبَ فِيْهِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۔۔۔۔۔ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کی طرف سے گھڑا ہوا نہیں بلکہ یہ اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا اور کتاب تفصیل ہے جس کے اللہ کا کلام ہونے میں کوئی شک نہیں جو رب العالمین کی طرف سے ہے۔
(سورۃ یونس :37)
کیا یہ لوگ اسے خود ساختہ کہتے ہیں ان سے کہو کہ اللہ کے سوا ہر شخص کو بلا کر اس قرآن کی سینکڑوں سورتوں میں سے ایک چھوٹی سی سورت جیسی سورت تو بنا لاؤ تاکہ تمہارا سچ ظاہر ہو۔
یہ تمام آیتیں مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں اور اہل مکہ کو اس کے مقابلہ میں عاجز ثابت کر کے پھر مدینہ شریف میں بھی اس مضمون کو دہرایا گیا اوپر کی آیت مثلہ کی ضمیر کو بعض نے قرآن کی طرف لوٹایا ہے یعنی کوئی سورت اس قرآن جیسی لاؤ۔ بعض نے یہ ضمیر محمد ﷺ کی طرف لوٹائی ہے یعنی آپ جیسا کوئی امی ایسا ہو ہی نہیں سکتا ہے کہ کچھ پڑھا ہوا نہ ہونے کے باوجود وہ کلام کہے جس کا مثل کسی سے نہ بن سکے لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے۔ مجاہد قتادہ عمرو بن مسعود ابن عباس حسن بصری اور اکثر محققین کا یہی قول ہے امام ابن جریر طبری زمحشری رازی نے بھی اسی کو پسند کیا ہے اس کی ترجیح کی وجوہات بہت سی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس میں سب کو ڈانٹ ڈپٹ بھی ہے اجتماعی اور الگ الگ بھی۔ خواہ وہ امی اور ان پڑھ ہوں یا اہل کتاب اور پڑھے لکھے ہوں اس میں اس معجزے کا کمال ہے اور بہ نسبت اس کے کہ صرف ان پڑھ لوگوں کو عاجز کیا جائے اس میں زیادہ مبالغہ ہے پھر دس سورتوں کا مطالبہ کرنا اس کی مثل نہ لا سکنے کی پیشنگوئی کرنا بھی اسی حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ اس سے مراد قرآن ہے نہ کہ ذات رسول اللہ ﷺ پس اس عام اعلان سے جو بار بار کیا گیا اور ساتھ ہی پیشنگوئی بھی کردی گئی کہ یہ لوگ اس پر قادر نہیں۔ مکہ میں اور مدینہ میں بارہا اس کا اعادہ کیا گیا اور وہ لوگ جن کی مادری زبان عربی تھی جنہیں اپنی فصاحت اور بلاغت پر ناز تھا جو لوگ آپ کی اور آپ کے دین کی دشمنی پر ادھار کھا بیٹھے تھے وہ درحقیقت اس سے عاجز آگئے نہ پورے قرآن کا جواب دے سکے نہ دس سورتوں کا، نہ ایک سورت کا، پس ایک معجزہ تو یہ ہے کہ اس جیسی ایک چھوٹی سی سورت بھی وہ نہ بنا سکے دوسرا معجزہ یہ ہے کہ پیشنگوئی سچ ثابت ہوئی کہ یہ ہرگز اس جیسا نہیں بنا سکتے چاہے سب جمع ہوجائیں اور قیامت تک محنت کرلیں۔ پس ایسا ہی ہوا نہ تو اس زمانہ میں کسی کی یہ جرات ہوئی نہ اس کے بعد سے آج تک اور نہ قیامت تک کسی سے یہ ہو سکے گا اور بھلا کیسے ہوسکتا ؟ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات بےمثل اسی طرح اس کا کلام بھی۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ قرآن پاک کو بیک نظر دیکھنے سے ہی اس کے ظاہری اور باطنی لفظی اور معنوی ایسے ایسے کمالات ظاہر ہوتے ہیں جو مخلوق کے بس کے نہیں خود رب العالمین فرماتا ہے آیت:
(الۗرٰ ۣ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ ۔۔۔۔۔ اس کتاب کی آیتیں جو حکمت والے ہر طرح کی خبریں جاننے والے اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے محکم مضبوط اور مفصل الگ الگ ہیں۔
(سورۃ ھود :1)
پس الفاظ محکم اور معانی مفصل یا الفاظ مفصل اور معانی محکم پس قرآن اپنے الفاظ میں اور اپنے مضامین میں بےنظیر ہے جس کے مقابلے، معارضے اور مثل سے دنیا عاجز اور بےبس ہے اس پاک کلام میں اگلی خبریں جو دنیا سے پوشیدہ تھیں وہ ہو بہو بیان کی گئیں آنے والے امور کے تذکرے کئے گئے جو لفظ بہ لفظ پورے اترے۔ تمام بھلائیوں کا حکم تمام برائیوں سے ممانعت اس میں ہے۔ سچ ہے آیت:
(وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ۔۔۔۔۔ خبروں میں صداقت اور احکام میں عدل تیرے رب کے کلام میں پورا پورا ہے۔
(سورۃ الانعام :115)
پاکیزہ قرآن تمام تر حق و صداقت و ہدایت سے پر ہے نہ اس میں واہی تواہی باتیں ہیں نہ ہنسی مذاق نہ کذب و افترا جو شاعروں کے کلام میں عموماً پایا جاتا ہے بلکہ ان کے اشعار کی قدرو قیمت ہی اسی پر مقولہ مشہور ہے کہ اعذبہ اکذبہ جوں جھوٹ زیادہ اتنا ہی مزید سر تم دیکھو گے کہ لمبے لمبے پر زور قصیدے مبالغہ اور کذب آمیز یا تو عورتوں کی تعریف و توصیف میں ہوں گے یا گھوڑوں کی اور شراب کی ستائش میں ہوں گے یا کسی انسان کی بڑھی چڑھی مدح و تعریف میں ہوں گے یا اونٹنیوں کی آرائش و زیبائش یا بہادری کے مبالغہ آمیز گیت یا لڑائیوں کی چالبازیوں یا ڈر خوف کے خیالی منظروں کے بیان میں ہوں گے جن سے کوئی فائدہ نہیں۔ نہ دین کا نہ دنیا کا صرف شاعر کی زبان دانی اور اس کی قدرت کلام ظاہر ہوتی ہے۔ نہ اخلاق پر ان سے کوئی عمدہ اثر نہ اعمال۔ پر پھر نفس مضمون کے ساتھ پورے قصیدے میں بمشکل دو ایک شعر ہوتے ہیں۔ باقی سب بھرتی کے اور ادھر ادھر کی لایعنی اور فضول بکواس برخلاف اس کے قرآن پاک کے اس پر نظر ڈالو تو دیکھو گے کہ اس کا ایک ایک لفظ فصاحت و بلاغت سے دین و دنیا کے نفع سے، خیرو برکت سے پر ہے۔ پھر کلام کی ترتیب و تہذیب الفاظ کی بندش، عبارت کی روانی، معانی کی نورانیت، مضمون کی پاکیزگی، سونے پر سہاگہ ہے۔ اس کی خبروں کی حلاوت، اس کے بیان کردہ واقعات کی سلاست، مردہ دلوں کی زندگی ہے۔ اس کا اختصار کمال کا اعلیٰ نمونہ اور اس کی تفصیل معجزے کی جان ہے اس کا کسی چیز کا دوہرانا قند مکرر کا مزہ دیتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے گویا سچے موتیوں کی بارش برس رہی ہے۔ بار بار پڑھو دل نہ اکتائے، مزے لیتے جاؤ اور ہر وقت نیا مزہ پاؤ۔ مضامین سمجھتے جاؤ اور ختم نہ ہوں۔ یہ قرآن پاک کا ہی خاصہ ہے اس چاشنی کا ذائقہ، اس مٹھاس کا مزہ کوئی اس سے پوچھے جنہیں عقل و حواس علم و فضل کا کچھ حصہ قدرت نے عطا فرمایا۔ اس کی تنذیر دھمکاوا تعذیب اور پکڑ دھکڑ کا بیان مضبوط پہاڑوں کو ہلا دے۔ انسانی دل کیا ہیں اس کے وعدے اور خوشخبریاں، نعمتوں اور رحمتوں کا بیان دلوں کی پژمردہ کلی کو کھلا دینے والا، شوق و تمنا کے دبے جذبات کو ابھار دینے والا جنتوں اور راحتوں کے پیارے پیارے مناظر کو آنکھوں کے سامنے لانے والا ہے۔ دل کھل جاتے ہیں کان لگ جاتے ہیں اور آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ رغبت دیتے ہوئے وہ فرماتا ہے آیت (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ ۚ جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ) 22۔ السجدہ :17) اس دائمی جنت میں ہر وہ چیز ہے جو دل کو بھائے اور آنکھوں میں اتر جائے۔ ڈراتے اور دھمکاتے ہوئے فرمایا آیت (اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ) 17۔ الاسرآء :68) فرمایا (ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا هِيَ تَمُوْرُ 16؀ۙ اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يُّرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ۭ فَسَتَعْلَمُوْنَ كَيْفَ نَذِيْرِ 17؀) 67۔ الملک :1716) کیا تم اپنے دھنسائے جانے یا آسمان سے پتھر برسائے جانے سے نڈر ہوگئے ہو ؟ کیا آسمانوں والا اس پر قادر نہیں ؟ اسے محض دھمکی ہی نہ سمجھو بلکہ اس کی حقیقت عنقریب تم پر کھل جائے گی۔ زجرو تو پیخ ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے۔ آیت (فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖ) 29۔ العنکبوت :40) ایک ایک کو ہم نے اس کی بدکرداریوں میں پکڑ لیا۔ بطور وعظ و نصیحت بیان ہوتا ہے آیت (اَفَرَءَيْتَ اِنْ مَّتَّعْنٰهُمْ سِـنِيْنَ02005ۙ ثُمَّ جَاۗءَهُمْ مَّا كَانُوْا يُوْعَدُوْنَ02006ۙ مَآ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يُمَـتَّعُوْنَ02007ۭ) 26۔ الشعرآء :207206205) اگر ہم نے کچھ سال انہیں فائدہ نہیں دیا تو کیا ہوا ؟ آخر وعدے کی گھڑی آپہنچی اور اس جاہ و جلال نے کوئی نفع نہ بخشا۔ غرض کوئی کہاں تک بیان کرے جس مضمون کا ذکر کیا۔ اسے کمال تک پہنچا کر چھوڑا اور طرح طرح کی فصاحت و بلاغت، حلاوت و حکمت سے معمور کردیا احکام کے حکم اور روک ٹوک کو دیکھئے ہر حکم اچھائی بھلائی نفع اور پاکیزگی کا جامع ہے۔ ہر ممانعت قباحت رذالت اور خباثت کی قاطع ہے۔ ابن مسعود وغیرہ اسلاف امت کا قول ہے کہ جب قرآن میں آیت (یا ایھا الذین امنوا) آئے تو کان لگا دو یا تو کسی اچھائی کا حکم ہوگا یا کسی برائی سے منع کیا جائے گا خود پروردگار عالم فرماتا ہے آیت (يَاْمُرُهُمْ بالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَـبٰۗىِٕثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْهِمْ) 7۔ الاعراف :157) یعنی بھلائیوں کا حکم دیتا ہے برائیوں سے روکتا ہے پاکیزہ چیزیں حلال قرار دیتا ہے خبیث چیزیں حرام کرتا ہے وہ بوجھل بیڑیاں جو پاؤں میں تھیں وہ سخت طوق جو گلوں میں تھے اتار پھینکتا ہے قیامت کے بیان کی آیتیں ہیں کہ ہولناک مناظر جنت و دوزخ کا بیان رحمتوں اور زحمتوں کا پورا پورا وصف۔ اولیاء اللہ کے لئے طرح طرح کی نعمتیں۔ دشمنان اللہ کے لئے طرح طرح کے عذاب۔ کہیں بشارت ہے کہیں ڈراوا ہے کہیں نیکیوں کی طرف رغبت ہے۔ کہیں بدکاریوں سے ممانعت ہے۔ کہیں دنیا کی طرف سے زہد کرنے کی، کہیں آخرت کی طرف رغبت کرنے کی تعلیم ہے۔ یہی وہ تمام آیتیں ہیں جو راہ راست دکھاتی ہیں اور بہتر رہنمائی کرتی ہیں اللہ کی پسندیدہ شریعت کی طرف جھکاتی ہیں اور دلوں کو جلا دیتی ہیں اور شیطانی دروازوں کو بند کردیتی ہے اور برے اثرات کو زائل کرتی ہیں۔ صحیح بخاری مسلم میں بروایت حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر نبی کو ایسے معجزے دئیے گئے کہ جنہیں دیکھ کر لوگ اس پر ایمان لائے اور میرا معجزہ اللہ کی وحی یعنی قرآن پاک ہے اس لئے مجھے امید ہے کہ میرے تابعدار بہ نسبت اور نبیوں کے بہت زیادہ ہوں گے اس لئے کہ اور انبیاء کے معجزے ان کے ساتھ چلے گئے لیکن حضور ﷺ کا یہ معجزہ قیامت تک باقی رہے گا۔ لوگ اسے دیکھتے جائیں گے اور اسلام میں داخل ہوتے جائیں گے حضور ﷺ کا یہ فرمان کہ میرا معجزہ وحی ہے جو مجھ کو دی گئی ہے کا مطلب یہ ہے کہ مجھ کو اس کے ساتھ مخصوص کیا گیا ہے اور قرآن کریم مجھی کو ملا ہے جو اپنے معارضے اور مقابلے میں تمام دنیا کو عاجز کردینے والا ہے۔ بخلاف دوسری آسمانی کتابوں کے وہ اکثر علماء کے نزدیک اس وصف سے خالی ہیں واللہ اعلم۔ آنحضرت ﷺ کی نبوت آپ کی صداقت اور دین اسلام کی حقانیت پر اس معجزے کے علاوہ بھی اس قدر دلائل ہیں جو گنے بھی نہیں جاسکتے۔ للہ الحمد والمنتہ۔
بعض متکلمین نے قرآن کریم کے اعجاز کو ایسے انداز سے بیان کیا ہے جو اہل سنت کے اور معزلہ کے قول پر مشترک ہے وہ کہتے ہیں کہ یا تو یہ قرآن فی نفسہ معجزہ ہے جو انسان کے امکان میں ہی نہیں کہ اس جیسا بنا لاسکے انہیں اس کا معارضہ کرنے کی قدرت و طاقت ہی نہیں۔ یا یہ کہ گو اس کا معارضہ ممکن ہے اور انسانی طاقت سے باہر نہیں لیکن باوجود اس کے انہیں معارضہ کا چیلنج دیا جاتا ہے اس لئے کہ وہ عداوت اور دشمنی میں بڑھے ہوئے ہیں دین حق کو مٹانے، ہر وقت ہر طاقت کے خرچ کرنے اور ہر چیز کے برباد کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن تاہم قرآن کا معارضہ اور مقابلہ ان سے نہیں ہوسکتا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن اللہ کی جانب سے ہے اگر قدرت و طاقت ہو بھی تو بھی وہ انہیں روک دیتا ہے اور وہ قرآن کی مثل پیش کرنے سے عاجز ہوجاتے ہیں۔ گو یہ پچھلی وجہ اتنی پسندیدہ نہیں تاہم اگر اسے بھی مان لیا جائے تو اس سے بھی قرآن پاک کا معجزہ ہونا ثابت ہوے جو بطریق تنزل حمایت حق اور مناظرے کی خاطر صلاحیت رکھتا ہے امام رازی نے بھی چھوٹی چھوٹی سورتوں کے سوال کے جواب میں یہی طریقہ اختیار کیا ہے۔
جہنم کا ایندھن
وقود کے معنی ایندھن کے ہیں جس سے آگ جلائی جائے۔ جیسے چپٹیاں لکڑیاں وغیرہ قرآن کریم میں ایک جگہ ہے آیت (وَاَمَّا الْقٰسِطُوْنَ فَكَانُوْا لِجَهَنَّمَ حَطَبًا) 72۔ الجن :15) ظالم لوگ جہنم کی لکڑیاں ہیں اور جگہ فرمایا تم اور تمہارے معبود جو اللہ کے سوا ہیں جہنم کی لکڑیاں ہیں تم سب اس میں وارد ہو گے اگر وہ سچے معبود ہوتے تو وہاں وارد نہ ہوتے دراصل یہ سب کے سب اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اور حجارہ کہتے ہیں پتھر کو یہاں مراد گندھک کے سخت سیاہ اور بڑے بڑے اور بدبو دار پتھر ہیں جن کی آگ بہت تیز ہوتی ہے اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں ان پتھروں کو زمین و آسمان کی پیدائش کے ساتھ ہی آسمان اول پر پیدا کیا گیا ہے۔ (ابن جریر ابن ابی حاتم مستدرک حاکم) ابن عباس ابن مسعود اور چند اور صحابہ سے سدی نے نقل کیا ہے کہ جہنم میں یہ سیاہ گندھک کے پتھر بھی ہیں جن کی سخت آگ سے کافروں کو عذاب کیا جائے گا۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں ان پتھروں کی بدبو مردار کی بو سے بھی زیادہ ہے محمد بن علی اور ابن جریج بھی کہتے ہیں کہ مراد گندھک کے بڑے بڑے اور سخت پتھر ہیں۔ بعض نے کہا ہے مراد وہ پتھر جن کی مورتیاں بنائی جاتی ہیں اور پھر ان کی پرستش کی جاتی تھی جیسے اور جگہ ہے آیت (اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ۭ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ) 21۔ الانبیآء :98) تم اور تمہارے وہ معبود جو اللہ کے سوا ہیں جہنم کی لکڑیاں ہیں قرطبی اور رازی نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور کہا ہے کہ گندھک کے پتھر جو کسی شکل میں بھی اللہ کے سوا پوجے جاتے ہوں لیکن یہ وجہ کوئی قوی وجہ نہیں اس لئے کہ جب آگ گندھک کے پتھروں سے سلگائی جائے تو ظاہر ہے کہ اس کی تیزی اور حرارت معمولی آگ سے بہت زیادہ ہوگی اس کا بھڑکنا جلنا سوزش اور شعلے بھی بہت زیادہ ہوں گے علاوہ اس کے پھر سلف سے بھی اس کی تفسیر یہی مروی ہے اسی طرح ان پتھروں میں آگ کا لگنا بھی ظاہر ہے۔ اور آیت کا مقصود آگ کی اور اس کی سوزش کا بیان کرنا ہے اور اس کے بیان کے لئے بھی یہاں پتھر سے مراد گندھک کے پتھر لینا زیادہ مناسب ہے تاکہ وہ آگ تیز ہو اور اس سے بھی عذاب میں سختی ہو قرآن کریم میں ہے آیت (كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِيْرًا) 17۔ الاسرآء :97) جہاں شعلے ہلکے ہوئے کہ ہم نے اور بھڑکا دیا۔ ایک حدیث میں ہے ہر موذی آگ میں ہے لیکن یہ حدیث محفوظ اور معروف نہیں۔ قرطبی فرماتے ہیں اس کے دو معنی ہیں ایک یہ کہ ہر وہ شخص جو دوسروں کو ایذاء دے جہنمی ہے دوسرے یہ کہ ہر ایذاء دہندہ چیز جہنم کی آگ میں موجود ہوگی جو جہنمیوں کو عذاب دے گی۔ اعدت یعنی تیار کی گئی ہے مراد بظاہر یہی معلوم ہوتی ہے کہ وہ آگ کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مراد پتھر ہوں یعنی وہ پتھر جو کافروں کے لئے تیار کئے گئے ہیں۔ ابن مسعود کا یہی قول ہے اور فی الحقیقت دونوں معنی میں کوئی اختلاف نہیں اس لئے کہ پتھروں کا تیار کیا جانا آگ کے جلانے کے لئے ہے۔ لہذا آگ کی تیاری کے لئے پتھروں کا تیار کیا جانا ضروری ہے۔ پس دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں ہر وہ شخص جو کفر پر ہو اس کے لیے وہ آگ تیار ہے۔ اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ جہنم اب موجود اور پیدا شدہ ہے کیونکہ " اعدت " کا لفظ ہی اس کی دلیل میں آیا ہے بہت سی حدیثیں بھی ہیں۔ ایک مطول حدیث میں ہے جنت اور دوزخ میں جھگڑا ہوا، دوسری حدیث میں ہے جہنم نے اللہ تعالیٰ سے دو سانس لینے کی اجازت چاہی اور اسے سردی میں ایک سانس لینے اور گرمی میں دوسرا سانس لینے کی اجازت دے دی گئی۔ تیسری حدیث میں ہے صحابہ کہتے ہیں ہم نے ایک مرتبہ بڑے زور کی ایک آواز سنی حضور ﷺ سے پوچھا یہ کس چیز کی آواز ہے آپ نے فرمایا ستر سال پہلے ایک پتھر جہنم میں پھینکا گیا تھا آج وہ تہ کو پہنچا۔ چوتھی حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے سورج گرہن کی نماز پڑھتے ہوئے جہنم کو دیکھا۔ پانچویں حدیث میں ہے کہ آپ نے شب معراج میں جہنم کو اس میں عذابوں کے سلسلے کو ملاحظہ فرمایا اسی طرح اور بہت سی صحیح متواتر حدیثیں مروی ہیں معتزلہ اپنی جہالت کی وجہ سے انہیں نہیں مانتے قاضی اندلس منذر بن سعید بلوطی نے بھی ان سے اتفاق کیا ہے۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہاں اور سورة یونس میں جو کہا گیا ہے کہ ایک ہی سورت کے مانند لاؤ اس میں ہر چھوٹی بڑی آیت شامل ہے،  اس لئے عربیت کے قاعدے کے مطابق جو اسم نکرہ ہو اور شرط کے طور پر لایا گیا ہو وہ عمومیت کا فائدہ دیتا ہے جیسے کہ نکرہ نفی کی تحت میں استغراق کا فائدہ دیتا ہے پس لمبی سورتوں اور چھوٹی سورتوں سب میں اعجاز ہے اور اس بات پر سلف و خلف کا اتفاق ہے امام رازی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اگر کوئی کہے کہ سورت کا لفظ سورة کوثر اور سورة العصر اور سورة آیت (قل یا ایھا الکفرون جیسی چھوٹی سورتوں پر بھی مشتمل ہے اور یہ بھی یقین ہو کہ اس جیسی یا اس کے قریب قریب کسی سورت کا بنا لینا ممکن ہے تو اسے انسانی طاقت سے خارج کہنا نری ہٹ دھرمی اور بےجا طرف داری ہے تو ہم جواب دیں گے کہ ہم نے اس کے معجز نما ہونے کے دو طریقے بیان کر کے دوسرے طریقہ کو اسی لئے پسند کیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر یہ چھوٹی سورتیں بھی فصاحت و بلاغت میں میں اسی پایہ کی ہیں کہ وہ معجزہ کہی جاسکیں اور انکار تعارض ممکن نہ ہو تو مقصود حاصل ہوگیا اور اگر یہ سورتیں ایسی نہیں تو بھی ہمارا مقصود حاصل ہے اس لئے کہ ان جیسی سورتوں کو بنانے کی انسانی قدرت ہونے پر بھی سخت دشمنی اور زبردست کوششوں کے باوجود ناکام رہنا ہے۔ اس بات کی صاف دلیل ہے کہ یہ قرآن مع اپنی چھوٹی چھوٹی سورتوں کے سراسر معجزہ ہے یہ تو رازی کا کہنا ہے۔ لیکن صحیح قول یہ ہے کہ قرآن پاک کی ہر بڑی چھوٹی سورت فی الواقع معجزہ ہے اور انسان اس کی مانند بنانے سے محض عاجز اور بالکل بےبس ہے۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں اگر لوگ غورو تدبر سے عقل و ہوش سے سورة والعصر کو سمجھ لیں تو انتہائی کافی ہے۔ حضرت عمرو بن عاص ؓ جب وفد میں شامل مسیلمہ کذاب کے پاس گئے (تب یہ خود بھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) تو مسیلمہ نے ان سے پوچھا کہ تم مکہ سے آ رہے ہو بتاؤ تو آج کل کوئی تازہ وحی بھی نازل ہوئی ہے ؟ انہوں نے کہا ابھی ابھی ایک مختصر سی سورت نازل ہوئی ہے جو بیحد فصیح وبلیغ اور جامع اور مانع ہے پھر سورة والعصر پڑھ کر سنائی تو مسلیمہ نے کچھ دیر سوچ کر اس کے مقابلے میں کہا۔ مجھ پر بھی ایک ایسی ہی سورت نازل ہوئی ہے انہوں نے کہا ہاں تم بھی سناؤ تو اس نے کہا یاوبر یاوبر انما انت اذنان وصدر وسائک حقر فقر یعنی اے جنگلی چوہے اے جنگلی چوہے تیرا وجود سوائے دو کانوں اور سینے کے اور کچھ بھی نہیں باقی تو سراسر بالکل ناچیز ہے پھر فخریہ کہنے لگا کہو اے عمرو کیسی کہی ؟ انہوں نے کہا مجھ سے کیا پوچھتے ہو تو خود جانتا ہے کہ یہ سراسر کذب و بہتان ہے بھلا کہاں یہ فضول کلام اور کہاں حکمتوں سے بھرپور وہ کلام ؟






الدر المنثور-امام السیوطی(م911ھ):
(1) امام احمدؒ، بخاریؒ، مسلمؒ، نسائیؒ اور بیہقیؒ نے دلائل النبوۃ میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: انبیاء میں سے کوئی نبی ایسا نہیں مگر اس کا ایسے معجزات دئیے گئے جن پر لوگ ایمان لے آئے۔ اور مجھے قرآن دیا گیا جو اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کیا ہے میں امید کرتا ہوں کہ میں ان (انبیاء) میں سے تابعداری کے لحاظ سے قیامت کے دن زیادہ ہوں گا۔ (2) امام ابن ابی حاتمؒ نے حضرت حسن ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ”وان کنتم فی ریب “ الآیۃ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ قول کفار میں سے اس شخص کے لئے ہے جس نے اس چیز میں شک کیا جس کو محمد ﷺ لے کر آئے۔ (3) امام عبد الرزاقؒ، عبد بن حمیدؒ، ابن جریرؒ، ابن ابی حاتمؒ نے قتادہؒ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ”وان کنتم فی ریب“ سے مراد ہے ”فی شک“ یعنی شک میں ”مما نزلنا علی عبدنا فاتوا بسورۃ من مثلہ“ سے مراد ہے کہ اس قرآن کی مثل جو حق اور سچ ہو (کوئی کتاب لے آؤ) جس میں کوئی باطل اور جھوٹ نہ ہو۔ (4) امام عبد الرزاقؒ، عبد بن حمیدؒ، ابن جریرؒ، ابن ابی حاتمؒ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاتوا بسورۃ من مثلہ “ سے مراد ہے قرآن کے مثل۔ لفظ آیت ” وادعوا شھداء کم من دون اللہ “ (اور بلاؤ اللہ کے سوا اپنے حمایتیوں کو) یعنی (لے آؤ) وہ لوگ جو تمہارے لئے گواہی دیں جب تم اس کے پاس (اس کتاب) کو لے آؤ کہ وہ اس کی مثل ہے۔ (5) امام ابن جریرؒ، ابن اسحاقؒ اور ابن ابی حاتمؒ نے حضرت عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وادعوا شھداء کم “ سے مراد ہے تمہارے مددگار اس (عقیدہ) پر جس پر تم ہو لفظ آیت ” فان لم تفعلوا ولم تفعلوا “ ایسا نہ کرسکو اور ہرگز نہ کرسکو گے) تمہارے لئے حق واضح ہوگیا۔ (6) عبد بن حمیدؒ اور ابن جریرؒ نے قتادہؒ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فان لم تفعلوا ولن تفعلوا “ سے مراد ہے تم اس پر ہرگز قادر نہ ہوگے اور ہرگز تم کو اس کی طاقت نہ ہوگی۔ اما قولہ تعالیٰ ” فاتقوا النار التی “۔ جہنم سے پناہ اور جنت کا سوال (7) امام ابن ابی شیبہؒ نے المصنف میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ جب نماز میں آگ کے ذکر سے گزرے تو چاہئے کہ آگ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے۔ اور جب جنت کے ذکر سے گزرے تو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرے۔ (8) ابن ابی شیبہؒ، ابو داؤدؒ اور ابن ماجہؒ نے ابو لیلیٰ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے پہلو میں نماز پڑھی جب آپ ایک آیت پر پہنچے تو آپ نے فرمایا آگ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں ہلاکت ہے آگ والوں کے لئے۔ (9) امام ابن ابی شیبہؒ نے نعمان بن بشیر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا میں تم کو آگ سے ڈراتا ہوں، میں تم کو آگ سے ڈراتا ہوں (اس قدر سخت لہجہ میں آپ نے فرمایا) یہاں تک کہ آپ کی چادر کا ایک طرف آپ کے کندھے پر سے گرپڑا۔ واما قولہ تعالیٰ : ” التی وقودھا الناس والحجارۃ “۔ (10) امام عبد اللہ بن حمیدؒ نے طلحہؒ سے مجاہدؒ سے روایت کیا کہ وہ ہر چیز کو قرآن مجید میں پڑھا کرتے تھے ” وقودھا “ پہلی واو کے رفع کے ساتھ مگر وہ جو سورة والسماء ذات البروج میں ہے ” النار ذات الوقود “ واو کے نصب کے ساتھ (پڑھتے تھے) ۔ (11) عبد الرزاقؒ، سعید بن منصور الفریابیؒ، سناد بن السریؒ کتاب الزھد میں عبد بن حمیدؒ، ابن جریرؒ، ابن المنذرؒ، ابن ابی حاتمؒ، طبرانیؒ نے الکبیر میں اور حاکمؒ (انہوں نے اسے صحیح بھی کہا ہے) اور بیہقیؒ نے الشعب میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ وہ پتھر جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ قول لفظ آیت ” وقودھا الناس والحجارۃ “ سے وہ پتھر مراد ہے جو کبریت سے ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس سے پیدا فرمایا جس طرح چاہے۔ (12) امام ابن جریرؒ نے حضرت ابن عباس ؓ سے یہ نقل فرمایا ہے یہ سیاہ کبریت کے پتھر ہیں کہ ان کے ذریعہ ان (کافروں) کو آگ میں عذاب دیا جائے گا۔ (13) ابن جریر نے عمرو بن میمون (رح) سے روایت کیا کہ یہ پتھر کبریت سے ہے اللہ تعالیٰ نے اس پتھر کو آسمان دنیا میں اس دن پیدا فرمایا جس دن آسمان و زمین کو پیدا فرمایا۔ (اور) اس کو کافروں کے لئے تیار فرمایا۔ (14) امام ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کو تلاوت فرمایا لفظ آیت ” وقودھا الناس والحجارۃ “ پھر فرمایا (اللہ تعالیٰ نے) اس آگ کو ہر ارسال تک چلایا یہاں تک کہ (یہ آگ) سرخ ہوگئی پھر ہزار سال تک جلایا یہاں تک کہ سفید ہوگئی (پھر) ہزار سال تک جلایا یہاں تک کہ کالی ہوگئی اب یہ (آگ) کالی اندھیری ہے اس کا شعلہ نہیں بجھتا۔ (15) امام ابن ابی شیبہ، ترمذی، ابن مردویہ اور بیہقی نے الشعب میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہزار سال آگ جلائی گئی یہاں تک کہ سرخ ہوگئی پھر ہزار سال تک جلائی گئی یہاں تک کہ سفید ہوگئی (پھر) ہزار سال تک جلائی گئی یہاں تک کہ کالی ہوگئی (اب) یہ آگ سیاہ تاریک ہے۔ (16) امام احمد، مالک، بخاری اور بیہقی نے الشعب میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بنی آدم کی آگ جس کو تم جلاتے ہو جہنم کی آگ کے سترویں حصہ میں سے ایک حصہ ہے۔ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اگرچہ یہی (آگ) کافی تھی آپ نے فرمایا بلاشبہ یہ (جہنم کی آگ) اس (دنیا والی آگ) سے انہتر حصے زیادہ گرم ہے جہنم کی آگ کا ہر جز اس آگ کی مثل ہے۔ (17) امام مالک نے موطا میں اور بیہقی نے الشعب میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ کیا تم اس (جہنم والی آگ) کو مثل اپنی آگ کے سرخ سمجھتے ہو جس کو تم جلاتے ہو ؟ بلاشبہ وہ آگ تارکول سے بھی زیادہ کالی ہے۔ (18) ترمذی نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تمہاری یہ آگ جہنم کی آگ کے سترویں حصہ میں سے ایک حصہ ہے اور جہنم کی آگ کا ہر حصہ اس آگ کی مثل ہے۔ (19) امام ابن ماجہ اور حاکم نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا بلاشبہ تمہاری یہ آگ جہنم کی آگ کے سترویں حصہ میں سے ایک حصہ ہے، اگر اس کو دو مرتبہ پانی سے نہ بجھایا جاتا تو تم اس سے کبھی کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ اور یہ آگ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتی ہے اسے اس آگ میں (دوبارہ نہ لوٹایا جائے) ۔ (20) امام بیہقی نے الشعب میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ تمہاری یہ آگ اس آگ کے سترویں حصے میں سے ایک حصہ ہے اگر اس کو سمندر میں دو مرتبہ نہ ڈالا جاتا تو تم اس سے کسی چیز کے ساتھ فائدہ نہ اٹھا سکتے۔ (21) امام بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تمہاری یہ آگ جہنم کی آگ کے سترویں حصے میں سے ایک حصہ ہے اس کو سمندر کے پانی میں دو مرتبہ ڈالا گیا اگر ایسا نہ کیا گیا ہوتا تو اللہ تعالیٰ کسی کے لئے اس میں کوئی نفع نہ رکھتا۔ (22) امام ابن ابی شیبہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ یہ تمہاری آگ جہنم کی آگ سے پناہ مانگتی ہے۔ واما قولہ ” اعدت للکفرین (24) “ (23) امام ابن اسحاق نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” اعدت للکفرین “ سے مراد ہے کہ یہ آگ ان کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے جو تمہاری طرح کفر کو اختیار کئے ہوئے ہیں۔





تفسیر-المظهريؒ(م1225ھ) :
وَاِنْ كُنْتُمْ فِىْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا (اور اگر تم اس کلام سے شک میں ہو جو ہم نے اتارا) نَزَّلْنَا کے یہ معنی ہیں کہ ہم نے تھوڑا تھوڑا حسب ضرورت و واقعات نازل کیا اور یہ اس لئے فرمایا کہ زیادہ تر شک کا سبب یہی تھا کیونکہ لوگ اور شعراء کے کلام پر اسے بھی قیاس کرتے تھے ( یعنی کہتے تھے اگر یہ کلام باری تعالیٰ ہوتا تو ایک ہی دفعہ کل کا کُل نازل ہوجاتا یہ تو بشر کا کلام ہے جیسے اور شاعر بتدریج اشعار کہتے ہیں اسی طرح یہ بھی ہے چنانچہ) ان کے اس زعم فاسد کو حق تعالیٰ نے دوسرے مقام پر بیان بھی فرمایا ہے لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَۃً وَّاحِدَۃً (یعنی یہ قرآن محمد ﷺ پر ایک ہی مرتبہ کیوں نہ اتارا گیا) تو ان سے معارضہ اسی طرز کلام سے چاہئے تھا تاکہ شبہ کی بیخ کنی بالکل ہوجائے اور ان پر بوجہ احسن حجت قائم ہوجائے۔ عَلٰي عَبْدِنَا : (اپنے بندے پر) عبد سے مراد سرور عالم ﷺ ہیں حق تعالیٰ نے حضور انور کو اپنی ذات پاک کی طرف نسبت فرمایا اور عبدنا ( یعنی ہمارا بندہ) فرمایا اس نسبت کی دو وجہ ہوسکتی ہیں ایک تو حضور کے ذکر کی تعظیم و اہمیت کا اظہار۔ دوسرے اس بات کا اظہار کہ آپ حکم الٰہی کے پورعے پورے مطیع و فرمانبردار ہیں۔ فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ : (تو لے آؤ ایک سورة ) امر تعجیز کے لیے ہے سورة قرآن کے ایسے ٹکڑے کا نام ہے جس کا اوّل و آخر معلوم ومتمیز ہو یہ سور المدینہ سے مشتق ہے کیونکہ شہر کی فصیل کی طرح سورت بھی قرآن کے ایک مخصوص حصہ کو محیط ہوتی ہے یا سور بمعنی رتبہ سے ماخوذ ہے کیونکہ اس کے پڑھنے والے کو ایک قسم کا رتبہ اور شرف حاصل ہوتا ہے اور یہاں سورة سے مراد ایک سورة کی مقدار ہے ( نہ خود سورة ) اور سورة کی مقدار تین چھوٹی آیتیں ہیں۔ مِّنْ مِّثْلِهٖ ۠ : (اس قسم کی) سورة کی صفت ہے اور مِثْلِہٖمیں ہ کی ضمیر یا تو مَا نَزَّلْنَاکی طرف راجع ہے اس صورت میں مِنْتبعضیہ یا بیانیہ یا زائدہ ہوگا اور آیۃ کے معنی اس تقدیر پر یہ ہونگے کہ بلاغت اور حسن نظم میں قرآن جیسی کوئی سورة لے آؤ یا عَبْدِنَا کی طرف راجع ہے اور من ابتدائیہ ہے اس توجیہ پر یہ معنی ہونگے کہ کوئی سورة محمد ﷺ جیسے امی شخص کی بنائی ہوئی لے آؤ یا فاتوا کا صلہ ہے پہلی ترکیب اولیٰ و انسب ہے کیونکہ دوسری ترکیب سے یہ وہم ہوتا ہے کہ شاید قرآن کا مثل غیر اُمّی شخص سے ممکن ہو حالانکہ قرآن پاک بذاتہٖ ہر حال میں معجز ہے چناچہ حق تعالیٰ نے فرمایا ہے : قُلْ لَّءِنِ اجْتَمَعتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰی اَنْ یَاتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَ لَوْ کَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْرًا (اے محمد ان لوگوں سے کہہ دو کہ اگر آدمی اور جن جمع ہو کر اس کی کوشش کریں کہ اس قرآن جیسا ( اور کلام) بناکر لائیں تو بھی ایسا کلام نہ لاسکیں گے اگرچہ بعض بعض کے لیے پشت پناہ ہوجائیں وَادْعُوْا شُهَدَاۗءَكُمْ ( اور بلاؤ اپنے معبودوں کو) یعنی اپنے معبودوں سے مدد مانگو جن کی تم عبادت کرتے ہو اور سمجھ رہے ہو کہ قیامت کو اللہ کے سامنے وہ ہماری گواہی دیں گے یا یہ معنی کہ ان لوگوں کو بلا لو جو تمہارے پاس آکر تمہاری امداد و اعانت کریں۔ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ (اللہ کے سوا) یعنی اللہ کے اولیاء اور دوستوں کے سوا اور عرب کے فصحاء کو بلاؤ کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ جو کلام تم نے اپنے گمان کے موافق قرآن کی مثل بنایا ہے آیا وہ واقع میں قرآن پاک کی مثل ہے (فصحاء عرب کو جو شہادت کے لیے طلب فرمایا حالانکہ وہ کفار تھے ممکن تھا کہ وہ جھوٹی شہادت دیں اور ان کی بکواس کو قرآن پاک کے ہم پلہ کہہ دیں تو اس کی وجہ یہ ہے) کہ عقل سلیم اس بات کو پسند ہی نہیں کرسکتی کہ جس شے کی خرابی اور فساد آفتاب کی طرح روشن ہو اس کی صحت اور حسن کی گواہی دیدے۔ ( یہ تو ایسا ہے کہ جیسا کوئی آسمان کو زمین کہے یا ایسی مثال ہے کہ جیسے کوئی بڑا شاعر فصیح وبلیغ ماہر فن شعر کہے اور اسکے مقابلہ میں ایک ادنیٰ آدمی جو تک بندی سے بھی آشنا نہ ہو تک ملانے لگے تو ظاہر ہے کہ اس کے اشعار آبدار کے سامنے اس کی تک بندی کو کونسا عاقل سن سکتا ہے خواہ وہ موافق ہو یا مخالف سب کے سب ان کی تکذیب کرنے کو موجود ہوجائیں گے) ۔ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ (اگر تم سچے ہو) کہ یہ قرآن بشر کا کلام ہے ( تو کوئی سورت اس کی مثل لے آو) اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ کا جواب محذوف ہے کیونکہ ما قبل اس پر دال ہے۔


اور اگر تم کچھ خلجان میں ہو اس کتاب کی نسبت جو ہم نے نازل فرمائی ہے اپنے بندہٴ (خاص) پر تو (اچھا) پھر تم بنا لاؤ ایک محدود ٹکڑا جو اس کا ہم پلہ ہو (ف 5) اور بلا لو اپنے حمایتیوں کو جو خدا سے الگ (تجویز کر رہے) ہیں اگر تم سچے ہو۔ (ف 6) (23)

رسول مقبول ﷺ کو بیشمار معجزے عطا ہوئے جن میں سے سب سے بڑا معجزہ قرآن شریف (آج بھی موجود و محفوظ) ہے کہ (یہ) اثباتِ نبوت کی بڑی دلیل ہے، اس کے معجزہ ہونے میں مخالفین کو یہ شبہ تھا کہ شاید اس کو رسول اللہ ﷺ خود تصنیف کرلیا کرتے ہوں۔ تو اس صورت میں اس کا معجزہ ہونا محل کلام میں ہوگیا پس دلیل نبوت مشتبہ ہوگئی، اس لئے اللہ تعالیٰ اس اشتباہ کو رفع فرماتے ہیں کہ تاکہ اس کا معجزہ ہونا ثابت ہوجائے پھر نبوت قطعی دلیل بن سکے۔ 6۔ جب باوجود اس کے نہ بنا سکیں گے تو بشرط انصاف بلا تامل ثابت ہوجائے گا کلہ یہ معجزہ منجانب اللہ ہے اور بلا شبہ آپ پیغمبر ہیں اور یہی مقصود تھا۔



اور اگر تم شک میں ہو اس کلام سے جو اتارا ہم نے اپنے بندہ پر تو لے آؤ ایک سورت اس جیسی(3) اور بلاؤ اس کو جو تمہارا مددگار ہو اللہ کے سوا اگر تم سچے ہو(4)۔

(3)  یہ بات گزر چکی ہے کہ اس کلام پاک میں شبہ کی وجہ یا یہ ہوسکتی تھی کہ اس کلام میں کوئی بات کھٹکے کی ہو سو اس کے دفعیہ کے لئے [لا ریب فیہ ۔۔۔ یعنی اس میں ذرا بھی شک نہیں] فرما چکے ہیں۔ اور یا یہ صورت ہوسکتی ہے کہ کسی کے دل میں اپنی کوتاہی فہم یا زیادتِ عِناد(ضد) سے شبہ پیدا ہو تو یہ صورت چونکہ ممکن بلکہ موجود تھی تو اس کے رفع(دور) کرنے کی عمدہ اور سہل صورت بیان فرما دی کہ اگر تم کو اس کلام کے کلامِ بشری(انسانی) ہونے کا خیال ہے تو تم بھی تو ایک سورة ایسی فصیح وبلیغ تین آیت کی مقدار بنا دیکھو اور جب تم باوجود کمالِ فصاحت و بلاغت چھوٹی سی سورة کے مقابلہ سے بھی عاجز(وبےبس) ہوجاؤ تو پھر سمجھ لو کہ یہ اللہ کا کلام ہے کسی بندہ کا نہیں، اس آیت میں آپ ﷺ کی نبوت کو مدلل فرما دیا۔ (4) یعنی اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو کہ یہ بندے کا کلام ہے تو جس قدر قابل اور شاعر اور فصحاء و بلغاء موجود ہیں اللہ تعالیٰ کے سوا سب سے مدد لے کر ہی ایک چھوٹی سی سورة ایسی بنا لاؤ یا یہ مطلب ہے کہ اللہ کریم کے سوا تمہارے جتنے معبود ہیں سب سے تضرع اور گریہ وزاری کے ساتھ دعا مانگو کہ اس مشکل بات میں تمہاری کچھ مدد کریں۔
اس سے معلوم ہوجائے گا کہ جن کو اللہ کے علاوہ (غائبانہ) مدد کیلئے پکارا جاتا ہے، کیا وہ ان کی مدد کیلئے آتے ہیں یا نہیں۔





اور اگر تم (50) شک میں ہو اس کلام سے جو اتارا ہم نے اپنے بندہ پر تو لے آؤ ایک سورت اس جیسی(51) ور بلاؤ اس کو جو تمہارا مددگار ہو اللہ کے سوا(52) اگر تم سچے ہو(53)۔

(50) یہ مشرکین کے پہلے شبہ کا جواب ہے یعنی جو کچھ ہم نے اپنے بندے حضرت محمد ﷺ پر نازل کیا ہے اگر اس کے اللہ کی طرف سے ہونے میں تمہیں کسی قسم کا شبہ ہے تو اس کا واحد علاج حسب ذیل ہے ومعنی قولھم فی ریب منہ فی کونہ وحیا من اللہ تعالیٰ شانہ (روح ص 192 ج 1) ۔
(51) کہ تم بھی زیادہ نہیں صرف ایک ہی سورت ایسی بنا لاؤ جو فصاحت وبلاغت میں، مضامین کی ندرت میں، واقعات ماضیہ اور آیۃ کی صداقت میں، امثال ومواعظ کی اثر انگیزی میں، دلائل وبراہین کی جامعیت اور معقولیت میں محمد ﷺ کے پیش کردہ قرآن کی مثل اور ہم پلہ ہو۔ حضرت شیخ (رح) فرمایا کرتے تھے کہ قرآن کا معجزہ ہونا صرف فصاحت وبلاغت ہی کے اعتبار سے نہیں ہے کیونکہ فَاتُوْا بِسُوْرَةٍ کا چیلنج تو تمام دنیا کے منکرین کو دیا گیا ہے۔ خواہ وہ عربی ہو یا عجمی۔ اس لیے قرآن جس طرح فصاحت وبلاغت اور ترکیب والفاظ کے اعتبار سے معجز ہے اسی طرح مضامین ومطالب واقعات ماضیہ وآیۃ اور دلائل وبراہین وغیرہ کے لحاظ سے بھی معجز ہے۔
(52) شھداء سے مراد ان کے وہ معبود ہیں جن کی وہ پوجا کرتے تھے اور جن کے متعلق ان کا خیال تھا کہ وہ ان کے حمایتی ہیں، اور آڑے وقت میں کام آتے ہیں لہذا اب وقت ہے کہ وہ تمہارے کام آئیں۔ المعنی ادعوا الذین اتخذتموھم الھۃ من دون اللہ (کبیر ص 338 ج 1) ای واستعینوا بالھتکم فی ذلک یمدونکم وینصرونکم (ابن کثیر ص 59 ج 1) ای واستعینوا بالھتکم التی تعبدونھا (معالم ص 33 ج 1) یا اس سے کفر و انکار میں ان کے ہم مسلک اور ان کے یارومددگار مراد ہیں۔ المراد من الشھداء اکابرھم او من یوافقھم فی انکار امر محمد ﷺ (کبیر 327 ج 1) مطلب یہ ہے کہ اپنے تمام اعوان وانصار کو بلا لہ اور اپنے معبودوں سے مدد کی درخواست بھی کرلو، اور قرآن کا مثل بنا لاؤ۔
(53) یعنی اگر تم اپنے اس دعویٰ میں سچے ہو کہ یہ اللہ کا کلام نہیں بلکہ اضافی کلام ہے، تم اس کا مثل بنا لاؤ کیونکہ تم بھی تو اہل لسان ہو اور تمہیں اپنی فصاحت وبلاغت اور زبان آوری پر ناز ہے۔


ہم چُپ تھے کہ برباد نہ ہوجائے گلشن کا سُکوں ،
ناداں یہ سمجھ بیٹھے کہ قُوتِ للکار نہیں۔


وَإِن كُنتُم فى رَيبٍ مِمّا نَزَّلنا عَلىٰ عَبدِنا فَأتوا بِسورَةٍ مِن مِثلِهِ وَادعوا شُهَداءَكُم مِن دونِ اللَّهِ إِن كُنتُم صٰدِقينَ {2:23}
اور اگر تم شک میں ہو اس کلام سےجو اتارا ہم نے اپنے بندہ پر تو لے آؤ ایک سورت اس جیسی [۳۳] اور بلاؤ اس کو جو تمہارا مددگار ہو اللہ کے سوا اگر تم سچے ہو [۳۴]
And if ye be in doubt concerning that which We have revealed unto Our bondsman, then bring a chapter like thereunto, and call your witnesses as against Allah, if ye say sooth.
یعنی اگر تم اس دعوے میں سچے ہو کہ یہ بندہ کا کلام ہے تو جس قدر قابل اور شاعر اور فصحاء و بلغاء موجود ہیں خدائے تعالیٰ کے سوا سب سے مدد لے کر ہی چھوٹی سے سورت ایسی بنا لاؤ یا یہ مطلب ہے کہ خداوند کریم کے سوا تمہارے جتنے معبود ہیں سب سے تضرع اور گریہ وزاری کے ساتھ دعا مانگو کہ اس مشکل بات میں تمہاری کچھ مدد کریں۔
یہ بات گذر چکی ہے کہ اس کلام پاک میں شبہہ کی وجہ یا یہ ہو سکتی تھی کہ اس کلام میں کوئی بات کھٹکے کی ہو سو اس کے دفعیہ کے لئے لاریب فیہ فرما چکے ہیں اور یا یہ صورت ہو سکتی ہے کہ کسی کے دل میں اپنی کوتاہی فہم یا زیادت عناد سے شبہ پیدا ہو تو یہ صورت چونکہ ممکن بلکہ مو جود تھی تو اس کے رفع کرنے کی عمدہ اور سہل صورت بیان فرما دی کہ اگر تم کو اس کلام کے کلام بشری ہونے کا خیال ہو تو تم بھی تو ایک سورت ایسی فصیح و بلیغ تین آیات کی مقدار بناد یکھو اور جب تم باوجود کمال فصاحت و بلاغت چھوٹی سی سورت کے مقابلہ سے بھی عاجز ہو جاؤ تو پھر سمجھ لو کہ یہ اللہ کا کلام ہے کسی بندہ کا نہیں اس آیت میں آپ کی نبوت کو مدلل فرما دیا۔


Tafsir Ibn Kathir:
 The Message of Messenger of Allah is True
Allah says;
وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُواْ شُهَدَاءكُم مِّن دُونِ اللّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ﴿٢٣ 
And if you (Arab pagans, Jews, and Christians) are in doubt concerning that which We have sent down (i.e. the Qur'an) to Our servant (Muhammad), then produce a Surah of the like thereof and call your witnesses (supporters and helpers) besides Allah, if you are truthful.
Allah begins to prove the truth of Prophethood after He stated that there is no deity worthy of worship except Him.
Allah said to the disbelievers, وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا(And if you (Arab pagans, Jews, and Christians) are in doubt concerning that which We have sent down (i.e. the Qur'an) to Our servant) meaning, Muhammad, فَأْتُواْ بِسُورَةٍ (then produce a Surah) meaning, similar to what he brought to you.
Hence, if you claim that what he was sent with did not come from Allah, then produce something similar to what he has brought to you, using the help of anyone you wish instead of Allah. However, you will not be able to succeed in this quest.
Ibn Abbas said that, شُهَدَاءكُم (your witnesses),
means "Aids.''
Also, As-Suddi reported that Abu Malik said the Ayah means,
"Your partners, meaning, some other people to help you in that. Meaning then go and seek the help of your deities to support and aid you.''
Also, Mujahid said that, وَادْعُواْ شُهَدَاءكُم  (and call your witnesses) means,
"People, meaning, wise and eloquent men who will provide the testimony that you seek.''
 The Challenge
Allah challenged the disbelievers in various parts of the Qur'an. For instance, Allah said in Surah Al-Qasas,
قُلْ فَأْتُواْ بِكِتَـبٍ مِّنْ عِندِ اللَّهِ هُوَ أَهْدَى مِنْهُمَآ أَتَّبِعْهُ إِن كُنتُمْ صَـدِقِينَ
Say (to them, O Muhammad): "Then bring a Book from Allah, which is a better guide than these two (the Tawrah (Torah) and the Qur'an), that I may follow it, if you are truthful''. (28:49)
Also, Allah said in Surah Al-Isra,
قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَن يَأْتُواْ بِمِثْلِ هَـذَا الْقُرْءَانِ لاَ يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا
Say: "If mankind and the Jinn were together to produce the like of this Qur'an, they could not produce the like thereof, even if they helped one another.'' (17:88)
Allah said in Surah Hud,
أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُواْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَـدِقِينَ
Or they say, "He (Prophet Muhammad) forged it (the Qur'an).''
Say: "Bring you then ten forged Surahs like it, and call whomsoever you can, other than Allah (to your help), if you speak the truth!'' (11:13)
and in Surah Yunus,
وَمَا كَانَ هَـذَا الْقُرْءَانُ أَن يُفْتَرَى مِن دُونِ اللَّهِ وَلَـكِن تَصْدِيقَ الَّذِى بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ الْكِتَابِ لاَ رَيْبَ فِيهِ مِن رَّبِّ الْعَـلَمِينَ
أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّثْلِهِ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَـدِقِينَ
And this Qur'an is not such as could ever be produced by other than Allah (Lord of the heavens and the earth), but it is a confirmation of (the revelation) which was before it (i.e. the Tawrah, and the Injil), and a full explanation of the Book (i.e. Laws decreed for mankind) ـwherein there is no doubt ـ from the Lord of all that exists.
Or do they say: "He (Muhammad) has forged it!''
Say: "Bring then a Surah like it, and call upon whomsoever you can besides Allah, if you are truthful!'' (10:37-38)
All of these Ayat were revealed in Makkah.
Allah also challenged the disbelievers in the Ayat that were revealed in Al-Madinah.
In this Ayah, Allah said, وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ  (And if you (Arab pagans, Jews, and Christians) are in Rayb) meaning, doubt. مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا (Concerning that which We have sent down (i.e. the Qur'an) to Our servant) meaning, Muhammad, فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ  (then produce a Surah (chapter) the like thereof) meaning, similar to the Qur'an.
This is the Tafsir of Mujahid, Qatadah, Ibn Jarir At-Tabari, Az-Zamakhshari and Ar-Razi.
Ar-Razi said that this is the Tafsir of Umar, Ibn Mas`ud, Ibn Abbas, Al-Hasan Al-Basri and the majority of the scholars. And he gave preference to this view and mentioned the fact that Allah has challenged the disbelievers as individuals and as groups, whether literate or illiterate, thus making the challenge truly complete. This type of challenge is more daring than simply challenging the disbelievers who might not be literate or knowledgeable. This is why Allah said,
فَأْتُواْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ
Bring you then ten forged Surahs like it) (11:13)
and,
لاَ يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ
They could not produce the like thereof. (17:88)
Therefore, this is a general challenge to the Arab disbelievers, the most eloquent among all nations. Allah challenged the Arab disbelievers both in Makkah and Al-Madinah several times, especially since they had tremendous hatred and enmity for the Prophet and his religion. Yet, they were unable to succeed in answering the challenge, and this is why Allah said,
فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ وَلَن تَفْعَلُواْ ... 
But if you do it not, and you can never do it,
indicating that they will never be able to answer the challenge.
This is another miracle, in that, Allah clearly stated without doubt that the Qur'an will never be opposed or challenged by anything similar to it, for eternity. This is a true statement that has not been changed until the present and shall never change.
How can anyone be able to produce something like the Qur'an, when the Qur'an is the Word of Allah Who created everything!
How can the words of the created ever be similar to the Words of the Creator!
 Examples of the Miracle of the Qur'an
Whoever reads through the Qur'an will realize that it contains various levels of superiority through both the apparent and hidden meanings that it mentions.
Allah said,
الر كِتَابٌ أُحْكِمَتْ ءايَـتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ
Alif Lam Ra. (This is) a Book, the verses whereof are perfect (in every sphere of knowledge, etc.), and then explained in detail from One (Allah), Who is Wise and well-acquainted (with all things). (11:1)
So the expressions in the Qur'an are perfect and its meanings are explained. Further, every word and meaning in the Qur'an is eloquent and cannot be surpassed. The Qur'an also mentioned the stories of the people of the past; and these accounts and stories occurred exactly as the Qur'an stated. Also, the Qur'an commanded every type of righteousness and forbade every type of evil, just as Allah stated,
وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَعَدْلاً
And the Word of your Lord has been fulfilled in truth and in justice. (6:115)
meaning, true in the stories it narrates and just in its Laws.
The Qur'an is true, just and full of guidance. It does not contain exaggerations, lies or falsehood, unlike Arabic and other types of poems that contained lies. These poems, conform with the popular statement,
"The most eloquent speech is the one that contains the most lies!''
Sometimes, one would find a long poem that mainly contains descriptions of women, horses or alcohol. Or, the poem might contain praise or the description of a certain person, horse, camel, war, incident, fear, lion, or other types of items and objects. Such praise or descriptions do not bring any benefit, except shed light on the poet's ability to clearly and eloquently describe such items. Yet, one will only be able to find one or two sentences in many long poems that elaborate on the main theme of the poem, while the rest of the poem contains insignificant descriptions and repetitions.
As for the Qur'an, it is entirely eloquent in the most perfect manner, as those who have knowledge in such matters and understand Arabic methods of speech and expressions concur.
When one reads through the stories in the Qur'an, he will find them fruitful, whether they were in extended or short forms, repeated or not. The more these stories are repeated, the more fruitful and beautiful they become. The Qur'an does not become old when one repeats reciting it, nor do the scholars ever get bored with it.
When the Qur'an mentions the subject of warning and promises, it presents truths that would make solid, firm mountains shake, so what about the comprehending, understanding hearts! When the Qur'an promises, it opens the hearts and the ears, making them eager to attain the abode of peace - Paradise - and to be the neighbors of the Throne of the Most Beneficent.
For instance, on the subject of promises and encouragement, the Qur'an said,
فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ أُخْفِىَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَآءً بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ
No person knows what is kept hidden for them of joy as a reward for what they used to do. (32:17)
and,
وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الاٌّنْفُسُ وَتَلَذُّ الاٌّعْيُنُ وَأَنتُمْ فِيهَا خَـلِدُونَ
(There will be) therein all that inner selves could desire, and all that eyes could delight in and you will abide therein forever. (43:71)
On the subject of warning and discouragement;
أَفَأَمِنتُمْ أَن يَخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ
Do you then feel secure that He will not cause a side of the land to swallow you up! (17:68)
and,
أَءَمِنتُمْ مَّن فِى السَّمَآءِ أَن يَخْسِفَ بِكُمُ الاٌّرْضَ فَإِذَا هِىَ تَمُورُ
أَمْ أَمِنتُمْ مِّن فِى السَّمَآءِ أَن يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَـصِباً فَسَتَعْلَمُونَ كَيْفَ نَذِيرِ
Do you feel secure that He, Who is over the heaven (Allah), will not cause the earth to sink with you, and then it should quake!
Or do you feel secure that He, Who is over the heaven (Allah), will not send against you a violent whirlwind! Then you shall know how (terrible) has been My warning. (67:16-17)
On the subject of threats, the Qur'an said,
فَكُلاًّ أَخَذْنَا بِذَنبِهِ
So We punished each (of them) for his sins. (29:40)
Also, on the subject of soft advice, the Qur'an said,
أَفَرَأَيْتَ إِن مَّتَّعْنَـهُمْ سِنِينَ
ثُمَّ جَآءَهُم مَّا كَانُواْ يُوعَدُونَ
مَآ أَغْنَى عَنْهُمْ مَّا كَانُواْ يُمَتَّعُونَ
Tell Me, (even) if We do let them enjoy for years. And afterwards comes to them that (punishment) which they had been promised. All that with which they used to enjoy shall not avail them. (26:205-207).
There are many other examples of the eloquence, beauty, and benefits of the Qur'an.
When the Qur'an is discussing Laws, commandments and prohibitions, it commands every type of righteous, good, pleasing and beneficial act. It also forbids every type of evil, disliked and amoral act.
Ibn Mas`ud and other scholars of the Salaf said,
"When you hear what Allah said in the Qur'an, such as, يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْO you who believe! then listen with full attention, for it either contains a type of righteousness that Allah is enjoining, or an evil that He is forbidding.''
For instance, Allah said,
يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَـهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَـتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَـئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالاٌّغْلَـلَ الَّتِى كَانَتْ عَلَيْهِمْ
He (Muhammad) commands them for Al-Ma`ruf (i.e. Islamic Monotheism and all that Islam has ordained); and forbids them fromAl-Munkar (i.e. disbelief, polytheism of all kinds, and all that Islam has forbidden); he allows them as lawful At-Tayyibat (i.e. all good and lawful things), and prohibits them as unlawful Al-Khaba'ith (i.e. all evil and unlawful things), he releases them from their heavy burdens and from the fetters (bindings) that were upon them. (7:157)
When the Ayat mention Resurrection and the horrors that will occur on that Day, and Paradise and the Fire and the joys and safe refuge that Allah prepared for His loyal friends, or torment and Hell for His enemies, theseAyat contain glad tidings or warnings. The Ayat then call to perform good deeds and avoid evil deeds, making the life of this world less favorable and the Hereafter more favorable. They also establish the correct methods and guide to Allah's straight path and just legislation, all the while ridding the hearts of the evil of the cursed devil.
 The Qur'an is the Greatest Miracle given to the Prophet
The Two Sahihs record that Abu Hurayrah said that the Prophet said,
مَا مِنْ نَبِيَ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ إِلَّا قَدْ أُعْطِيَ مِنَ الآيَاتِ مَا آمَنَ عَلَى مِثْلِهِ الْبَشَرُ، وَإنَّمَا كَانَ الَّذِي أُوتِيتُه وَحْيًا أَوْحَاهُ اللهُ إِلَيَّ فَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَكْثَرَهُمْ تَابِعًا يَوْمَ الْقِيَامَة
Every Prophet was given a miracle, the type of which brings mankind to faith. What I was given is a revelation that Allah sent down to me. Yet, I hope that I will have the most following on the Day of Resurrection.
This is the wording narrated by Muslim.
The Prophet stated that among the Prophets he was given a revelation, meaning, he was especially entrusted with the miraculous Qur'an that challenged mankind to produce something similar to it. As for the rest of the divinely revealed Books, they were not miraculous according to many scholars. Allah knows best.
The Prophet was also aided with innumerable signs and indications that testify to the truth of his Prophethood and what he was sent with, all thanks and praise is due to Allah.
 Meaning of `Stones
Allah said,
... فَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ ﴿٢٤﴾ 
Then fear the Fire (Hell) whose fuel is men and stones, prepared for the disbelievers.
`Fuel' is wood or similar substances, used to start and feed a fire.
Similarly, Allah said,
وَأَمَّا الْقَـسِطُونَ فَكَانُواْ لِجَهَنَّمَ حَطَباً
And as for the Qasitun (disbelievers who deviated from the right path), they shall be firewood for Hell. (72:15)
and,
إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَ
لَوْ كَانَ هَـؤُلاءِ ءَالِهَةً مَّا وَرَدُوهَا وَكُلٌّ فِيهَا خَـلِدُونَ
Certainly you (disbelievers) and that which you are worshipping now besides Allah, are (but) fuel for Hell! (Surely) you enter it.
Had these (idols) been alihah (gods), they would not have entered there (Hell), and all of them will abide therein. (21:98-99)
The stones mentioned here are the giant, rotten, black, sulfuric stones that become the hottest when heated, may Allah save us from this evil end.
It was also reported that the stones mentioned here are the idols and rivals that were worshipped instead of Allah, just as Allah said,
إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ
Certainly you (disbelievers) and that which you are worshipping now besides Allah, are (but) fuel for Hell! (21:98)
Allah's statement, أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ  (prepared for the disbelievers),
It appears most obvious that it refers to the Fire that is fueled by men and stones, and it also may refer to the stones themselves.
There is no contradiction between these two views, because they are dependent upon each other.
`Prepared' means,
it is `kept' and will surely touch those who disbelieve in Allah and His Messenger.
Ibn Ishaq narrated that Muhammad said that Ikrimah or Sa`id bin Jubayr said that Ibn Abbas said, أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ  (prepared for the disbelievers),
"For those who embrace the disbelief that you (disbelievers) have embraced.''
 Jahannam (Hellfire) exists now
Many of the Imams of the Sunnah used this Ayah to prove that the Fire exists now. This is because Allah said, أُعِدَّتْ  (prepared) meaning, prepared and kept.
There are many Hadiths on this subject. For instance, the Prophet said,
تَحَاجَّتِ الْجَنَّةُ وَالنَّار
Paradise and the Fire had an argument..
Also, the Prophet said,
اسْتَأْذَنَتِ النَّارُ رَبَّهَا فَقَالَتْ: رَبِّ أَكَلَ بَعضِي بَعْضًا فَأذِنَ لَهَا بِنَفَسَيْنِ: نَفَسٍ فِي الشِّتَاءِ وَنَفَسٍ فِي الصَّيْف
The Fire sought the permission of her Lord. She said, 'O my Lord! Some parts of me consumed the other parts.' And Allah allowed her two periods to exhale, one in winter and one in summer.
Also, there is a Hadith recorded from Ibn Mas`ud that the Companions heard the sound of a falling object. When they asked about it, the Messenger of Allah said,
هَذَا حَجَرٌ أُلْقِيَ بِهِ مِنْ شَفِيرِ جَهَنَّمَ مُنْذُ سَبْعِينَ سَنَةً، الْآنَ وَصَلَ إِلى قَعْرِهَا
This is a stone that was thrown from the top of Jahannam seventy years ago, but only now reached its bottom.
This Hadith is in Sahih Muslim.
There are many Hadiths that are Mutawatir (narrated by many different chains of narrations) on this subject, such as the Hadithsabout the eclipse prayer, the night of Isra etc.
Allah's statements, فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ   (Then produce a Surah of the like thereof) (2:23), and, بِسُورَةٍ مِّثْلِهِ  (A Surah like it) (10:38),
this includes the short and long Surahs of the Qur'an. Therefore, the challenge to creation stands with regards to both the long and shortSurahs, and there is no disagreement that I know of on this fact between the scholars of old and new.
Before he became Muslim, Amr bin Al-`As met Musaylimah the Liar who asked him, "What has recently been revealed to your fellow (meaning Muhammad) in Makkah?''
Amr said, "A short, yet eloquent Surah.''
He asked, "What is it?''
He said,
وَالْعَصْرِ
إِنَّ الإِنسَـنَ لَفِى خُسْرٍ
By Al-`Asr (the time). Verily, man is in loss, (103:1-2)
Musaylimah thought for a while and said, "A similar Surah was also revealed to me.''
Amr asked, "What is it?''
He said, "O Wabr, O Wabr (i.e. a wild cat), you are but two ears and a chest, and the rest of you is unworthy and thin.''

Amr said, "By Allah! You know that I know that you are lying.''





أَم يَقولونَ افتَرىٰهُ ۖ قُل فَأتوا بِسورَةٍ مِثلِهِ وَادعوا مَنِ استَطَعتُم مِن دونِ اللَّهِ إِن كُنتُم صٰدِقينَ {10:38}
کیا لوگ کہتےہیں کہ یہ بنا لایا ہے تو کہہ دے تم لے آؤ ایک ہی سورت ایسی اور بلا لو جس کو بلا سکو اللہ کے سوا اگر تم سچے ہو [۶۱]
Say they: he hath fabricated it! Say thou: then bring ye a Surah like thereunto, and call whomsoever ye can beside Allah, if ye say sooth.
یعنی اگر میں بنا لایا ہوں تو تم بھی میری طرح بشر ہو سب مل کر ایک سورت جیسی سورت بنا لاؤ۔ ساری مخلوق کو دعوت دو ، جن و انس کو جمع کر لو، تمام جہان کے فصیح و بلیغ پڑھے لکھے اور ان پڑھ اکٹھے ہو کر ایک چھوٹا سا کلام قرآن کی مانند پیش کر دو تو سمجھ لیا جائے کہ قرآن بھی کسی بشر کا کلام ہے۔ جس کا مثل دوسرے لوگ لا سکتے ہیں۔ مگر محال ہے کہ ابدالآباد تک کوئی مخلوق ایسا حوصلہ کر سکے۔ قرآن کریم ہی وہ کتاب ہے جس میں تہذیب اخلاق ، تمدن ومعاشرت، حکومت و سیاست ، معرفت و روحانیت ، تزکیہ نفوس ، تنویر قلوب ، غرضیکہ وصول الی اللہ اور تنظیم و رفاہیۃ خلائق کے وہ تمام قوانین و طریق موجود ہیں ، جن سے آفرینش عالم کی غرض پوری ہوتی ہے ۔ اور جن کی ترتیب و تدوین کی ایک امی قوم کے فرد سے کبھی امید نہیں ہو سکتی تھی۔ پھر ان تمام علوم و ہدایات کا تکفل کرنے کے ساتھ اس کتاب کی غلغلہ انداز فصاحت و بلاغت ، جامع و موثر اور دلربا طرز بیان ، دریا کا سا تموج ، سہل ممتنع سلاست و روانی آسالیب کلام کا تفنن اور اس کی لذت و حلاوت اور شہنشاہانہ شان و شکوہ یہ سب چیزیں ایسی ہیں جنہوں نے بڑے زور شور اور بلند آہنگی سے سارے جہان کو مقابلہ کا چیلنج دے دیا ہے ۔ جس وقت قرآن کے جمال جہاں آراء نے غیب کی نقاب الٹی اور اولاد آدم کو اپنے سے روشناس کیا، اس کا برابر یہ ہی دعویٰ رہا کہ میں خدائے قدوس کا کلام ہوں۔ اور جس طرح خدا کی زمین جیسی زمین ، خدا کے سورج جیسا سورج اور خدا کے آسمان جیسا آسمان پیدا کرنے سے دنیا عاجز ہے ، اسی طرح خدا کے قرآن یسا قرآن بنانے سے بھی دنیا عاجز رہے گی۔ قرآن کے مٹانے کی لوگ سازشیں کریں گے ، مکر گانٹھیں گے، مقابلہ کے جوش میں کٹ مریں گے ، اپنی مدد کے لئے دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو دعوت دیں گے ، کوئی حیلہ ، کوئی تدبیر ، کوئی داؤ پیچ اٹھا نہ رکھیں گے۔ اپنے کو اور دوسروں کو مصیبت میں ڈالیں گے سارے مصائب و دوا ہی کا تحمل ان کے لئے ممکن ہو گا مگر قرآن کی چھوٹی سی سورت کا مثل لانا ممکن نہ ہو گا'' ۔ { قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْرًا } (بنی اسرائیل رکوع۱۰) اس مسئلہ پر ہم نے ''اعجاز القرآن'' کے نام سےایک مستقل رسالہ لکھا ہے جسے شوق ہو ملاحظہ کر لے۔

Or, do they say that he has made it up? Say, “Then, bring a Sūrah like this, and call whomsoever you can beside Allah, if you are true.”
Tafsir al-Jalalayn :
Or do they say, ‘He has invented it’?, Muhammad (s) has invented it. Say: ‘Then bring a sūra like it, in terms of the clarity and the rhetorical excellence of its language, by way of invention, for you are eloquent speakers of Arabic like me; and call upon whom you can, for help in this [matter], besides God, that is, other than Him, if you are truthful’, in [saying] that this is an invention. But they were not able to do this.

Tanwîr al-Miqbâs min Tafsîr Ibn ‘Abbâs :
(Or say they) rather, the disbelievers of Mecca say: (He hath invented it) Muhammad (pbuh) invented the Qur'an himself? (Say) to them, O Muhammad: (Then bring a surah like unto it) like the surahs of the Qur'an, (and call (for help) on all ye can) seek help for this purpose from those idols you worship (besides Allah, if ye are truthful) that Muhammad (pbuh) has invented the Qur'an.


Allah says,
أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّثْلِهِ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿٣٨
Or do they say: "He has forged it!''
Say: "Bring then a Surah like unto it, and call upon whomsoever you can besides Allah, if you are truthful!''
If you argue, claim and doubt whether this is from Allah then you uttered a lie and blasphemy, and you say it is from Muhammad -- Muhammad, however is a man like you, and since he came as you claim with this Qur'an -- then you produce a Surah like one of its Surahs. Produce something of the same nature and seek help and support with all the power you have from humans and Jinns.
This is the third stage, Allah challenged them and called them to produce a counterpart of the Qur'an if they were truthful in their claim that it was simply from Muhammad. Allah even suggested that they seek help from anyone they chose. But He told them that they would not be able to do it. They would have no way of doing so.
Allah said:
قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَن يَأْتُواْ بِمِثْلِ هَـذَا الْقُرْءَانِ لاَ يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا
Say: "If the mankind and the Jinn were together to produce the like of this Qur'an, they could not produce the like thereof, even if they helped one another.'' (17:88)
Then He reduced the number for them to ten Surahssimilar to it, in the beginning of Surah Hud, Allah said:
أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُواْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَـدِقِينَ
Or they say, "He forged it.''
Say: "Bring you then ten forged Surah like unto it, and call whomsoever you can, other than Allah, if you speak the truth!'' (11:13)
In this Surah He went even further to challenge them to produce only one Surah like unto the Qur'an.
So He said:
أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّثْلِهِ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
Or do they say: "He has forged it'' Say: "Bring then a Surah like unto it, and call upon whomsoever you can besides Allah, if you are truthful!'' (10:38)
He also challenged them in Surah Al-Baqarah, a MadniSurah, to produce one Surah similar to it. He stated in that Surah that they would never be capable of doing so, saying:
فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ وَلَن تَفْعَلُواْ فَاتَّقُواْ النَّارَ
But if you do it not, and you can never do it, then fear the Fire (Hell). (2:24)
It should be noted here that eloquence was a part of the nature and character of the Arabs. Arabic poetry including Al-Mu`allaqat -- the oldest complete collection of the most eloquent ancient Arabic poems -- was considered to be the best in the literary arts. However Allah sent down to them something whose style none were familiar with, and no one is equal in stature to imitate. So those who believed among them, believed because of what they knew and felt in the Book, including its beauty, elegance, benefit, and fluency. They became the most knowledgeable of the Qur'an and its best in adhering to it.
The same thing happened to the magicians during Fir`awn's time. They were knowledgeable of the arts of sorcery, however, when Musa performed his miracles, they knew that it must have come through someone that was supported and guided by Allah. They knew that no human could perform such acts without the permission of Allah.
Similarly, `Isa was sent at the time of scholarly medicine and during the advancement in the treatment of patients. He healed the blind, lepers and raised the dead to life by Allah's leave. What `Isa was able to do was such that no form of treatment or medicine could reproduce. As a result, those who believed in him knew that he was Allah's servant and His Messenger.
Similarly, in the Sahih, Allah's Messenger said,
مَا مِنْ نَبِيَ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ إِلَّا وَقَدْ أُوتِيَ مِنَ الْآيَاتِ مَا آمَنَ عَلَى مِثْلِهِ الْبَشَرُ، وَإِنَّمَا كَانَ الَّذِي أُوتِيتُهُ وَحْيًا أَوْحَاهُ اللهُ إِلَيَّ فَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَكْثَرَهُمْ تَابِعًا



There was never a Prophet but he was given signs by which the people would recognize him, and that which I was given is revelation that Allah revealed, so I hope that I will have the most followers among them.




أَم يَقولونَ افتَرىٰهُ ۖ قُل فَأتوا بِعَشرِ سُوَرٍ مِثلِهِ مُفتَرَيٰتٍ وَادعوا مَنِ استَطَعتُم مِن دونِ اللَّهِ إِن كُنتُم صٰدِقينَ {11:13}
کیا کہتے ہیں کہ بنا لیا ہے تو قرآن کو کہہ دے تم بھی لے آؤ ایک دس سورتیں ایسی بنا کر اور بلا لو جس کو بلا سکو اللہ کے سوا اگر ہو تم سچے
Or say they: he hath fabricated it? Say thou: bring ye then ten Surahs the like thereunto fabricated, and call whomsoever ye can beside Allah, if ye say sooth.

Do they say that he has fabricated it? Say (to them), “Then bring ten Sūrahs like this, fabricated. And call whomsoever you can, other than Allah, if you are true.”


Tafsir al-Jalalayn :
Or do they say, ‘He has invented it’?, that is, the Qur’ān. Say: ‘Then bring ten sūras the like thereof, in terms of clarity and rhetorical excellence, invented, for you are Arabs who speak [Arabic] eloquently, like myself — he challenged them to these [ten sūras] first, and then to one sūra — and call, in order [for them] to assist you, upon whom you can beside God, that is, [on] other than Him, if you are truthful’, about it [the Qur’ān] being an invention of lies.

Tanwîr al-Miqbâs min Tafsîr Ibn ‘Abbâs :
(Or they say) Nay, the disbelievers of Mecca say: (He hath invented it) Muhammad has invented the Qur'an and presented it to us. (Say) to them, O Muhammad: (Then bring ten surahs, the like thereof) the like of a surah of the Qur'an, such as surah al-Baqarah, Al 'Imran, al-Nisa', al-Ma'idah, al-An'am, al-A'raf, al-Anfal, al-Tawbah, Yunus, or Hud, (invented) by you, (and call on everyone you can) seek the help of what you worship (beside Allah, if ye are truthful!) that Muhammad (pbuh) has invented it.



 An Explanation concerning the Miracle of the Qur'an
Then Allah says;
أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُواْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ِ ﴿١٣ 
Or they say, "He forged it.'' Say: "Bring you then ten forgedSurahs like unto it, and call whomsoever you can, other than Allah, if you speak the truth!''
Allah, the Exalted, explains the miracle of the Qur'an, and that no one is able to produce its like, or even bring ten chapters, or one chapter like it. The reason for this is that the Speech of the Lord of all that exists is not like the speech of the created beings, just as His attributes are not like the attributes of the creation. Nothing resembles His existence. Exalted is He, the Most Holy, and the Sublime. There is no deity worthy of worship except He and there is no true Lord other than He.
Then Allah goes on to say,
فَإِلَّمْ يَسْتَجِيبُواْ لَكُمْ ... 
If then they answer you not,
Meaning, that if they do not come with a reply to that which you have challenged them with (to the reproduction of ten chapters like the Qur'an), then know that it is due to their inability to do so.
... فَاعْلَمُواْ أَنَّمَا أُنزِلِ بِعِلْمِ اللّهِ ...
know then that it is sent down with the knowledge of Allah,
Know (that this is a proof) that this is the speech revealed from Allah. It contains His knowledge, His commands and His prohibitions.
Then Allah continues by saying,
... وَأَن لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ فَهَلْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ ﴿١٤﴾

and that there is no God besides Him! Will you then be Muslims.



قُل لَئِنِ اجتَمَعَتِ الإِنسُ وَالجِنُّ عَلىٰ أَن يَأتوا بِمِثلِ هٰذَا القُرءانِ لا يَأتونَ بِمِثلِهِ وَلَو كانَ بَعضُهُم لِبَعضٍ ظَهيرًا {17:88}
کہہ اگر جمع ہوں آدمی اور جن اس پر کہ لائیں ایسا قرآن ہر گز نہ لائیں گے ایسا قرآن اور پڑے مدد کیا کریں ایک دوسرے کی [۱۳۴]
Say thou: if the mankind and the jinn leagued together that they might produce the like of this Qur'an, they could nor produce the like thereof, though one to the other were a backer.
اعجاز قرآن کے متعلق پہلے متعدد مواضح میں کلام کیا جا چکا ہے اور اس موضوع پر ہمارا مستقل رسالہ "اعجاز القرآن" چھپا ہوا ہے اسے ملاحظہ کر لیا جائے۔


Say, “If all the humans and jinns join together to produce anything like this Qur’ān, they will not (be able to) come up with anything like it, even if they assist one another.

Tafsir al-Jalalayn :
Say: ‘Verily, should mankind and jinn come together to produce the like of this Qur’ān, [the like thereof] in terms of clarity and rhetorical excellence, they could not produce the like thereof, even if they backed one another’, [even if one was] an assistant [of the other]. This [verse] was revealed as a refutation of their statement: ‘If we wish we can speak the like of this’ [Q. 8:31].

Tanwîr al-Miqbâs min Tafsîr Ibn ‘Abbâs :
(Say) O Muhammad to the people of Mecca: (Verily, though mankind and the jinn should assemble to produce the like of this Qur'an) conveying therein commands and prohibitions, promises and threats, abrogating and abrogated verses, clear and ambiguous verses and the events of the past and of the future, (they could not produce the like thereof though they were helpers one of another).


Challenging by the Qur'an
Allah says:
قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَن يَأْتُواْ بِمِثْلِ هَـذَا الْقُرْآنِ لاَ يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا ﴿٨٨
Say: "If mankind and the Jinn were together to produce the like of this Qur'an, they could not produce the like thereof, even if they helped one another.''
وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَـذَا الْقُرْآنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلاَّ كُفُورًا ﴿٨٩ 
And indeed We have fully explained to mankind, in this Qur'an, every kind of similitude, but most of mankind refuse (the truth and accept nothing) but disbelief.
Then Allah points out the great virtue of the Qur'an, and says that even if mankind and the Jinn were all to come together and agree to produce something like that which was revealed to His Messenger, they would never be able to do it, even if they were to cooperate and support and help one another. This is something which is impossible. How could the words of created beings be like the Words of the Creator Who has no equal and peer, for there is none like unto Him

وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ And indeed We have fully explained to mankind, meaning, `We have furnished them with evidence and definitive proof, and We have shown them the truth and explained it in detail, yet despite that most of mankind insist on disbelief, i.e., denying and rejecting the truth.'




فَليَأتوا بِحَديثٍ مِثلِهِ إِن كانوا صٰدِقينَ {52:34}
پھر چاہئے کہ لے آئیں کوئی بات اسی طرح کی اگر وہ سچے ہیں [۲۵]
یعنی کیا یہ خیال ہے کہ پیغمبر جو کچھ سنارہا ہے وہ اللہ کا کلام نہیں؟ بلکہ اپنے دل سے گھڑ لایا؟ اور جھوٹ موٹ خدا کی طرف منسوب کردیا؟ سو نہ ماننے کے ہزار بہانے۔ جو شخص ایک بات پر یقین نہ رکھے اور اسے تسلیم نہ کرنا چاہے وہ اسی طرح کے بے سروپا احتمالات نکالا کرتا ہے ورنہ آدمی ماننا چاہے تو اتنی بات سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ وہ دنیا کی تمام طاقتوں کو اکٹھا کرکے بھی قرآن کا مثل نہیں لا سکتے۔ اور جیسے خدا کی زمین جیسی زمین اور اس کے آسمان جیسا آسمان بنانا کسی سے ممکن نہیں، اس کے قرآن جیسا قرآن بنالانا بھی محال ہے۔


So, let them bring a discourse like this, if they are truthful.

Tafsir al-Jalalayn :
Then let them bring a, concocted, discourse like it, if they are truthful, in what they say.

Tanwîr al-Miqbâs min Tafsîr Ibn ‘Abbâs :
(Then let them produce speech the like thereof) let them produce a Qur'an like the Qur'an of Muhammad (pbuh) (if they are truthful) that Muhammad has invented the Qur'an:

Tafsir Ibn Kathir:
Let them then produce a recitation like unto it if they are truthful.

meaning, if they are truthful in their statement that Muhammad has forged this Qur'an and brought it of his own, then let them produce something similar to what he has brought forth, as in this Qur'an! And even if they combine their strength to that of the people of the earth, Jinns and mankind alike, they will never produce something like the Qur'an, or ten Surahs like it, or even one Surah!



اِس سے پہلے میں تمہارے درمیان ایک عمرگذار چکا ہوں کا نبوی چیلنج

اللہ رب العالمین نے اپنے رسول رحمة للعالمین حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کے ذریعہ بنی نوع انسانی کے لیے اپنی ہدایت ورہنمائی ہمیشہ کے لیے ارسال کردی۔ اوریہ بھیجا جانا علمی، عقلی اور کردار ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ جس طرح انسانی زندگی کے انفراد ی اور اجتماعی ہزاروں پہلو ہیں اسی طرح ہزاروں پہلوؤں سے حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کی رہنمائی بھی موجود ہے۔ اور کوئی بھی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا گیا۔ اور حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کا سب سے بڑا اعجاز یہ ہے کہ اپنی تمام تعلیمات پر سب سے بڑھ کر سب سے پہلے آپ خود عمل کرتے تھے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے خود اس پہلو کو اجاگر کیا ہے ۔ ”تم اِن سے صاف کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے کہ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی، اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں“ سورہ یوسف آیت ۱۰۸۔ حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کی زندگی اور کردار کو اللہ پاک نے ایسا بے عیب اور مکمل بنایا اور محفوظ فرمایا کہ کردار اور سیرت مصطفی صلى الله عليه وسلم کو تمام دنیا کے سامنے ایک چیلنج کے طور پر پیش کردیا۔ اور قرآن پاک نے اس چیلنج کو رہتی دنیا تک اِن الفاظ میں تمام مخالفین حق کے لیے عام کردیا ”کہو اگر اللہ کی مشیت یہی ہوتی تو میں یہ قرآن تمہیں کبھی نہ سناتا اور اللہ تمہیں اُس کی خبر تک نہ دیتا۔ آخر اِس سے پہلے میں تمہارے درمیان ایک عمر گذارچکا ہوں۔ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ پھر اس سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو ایک جھوٹی بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرے؟ سورہ یونس آیت ۱۷۔ خط کشیدہ جملہ میں جو چیلنج دیاگیا ہے وہ آپ کے علمی چیلنج کا ایک طرح کا تکملہ ہے۔ ایک طرف تو جگہ جگہ یہ چیلنج اللہ تعالیٰ نے تمام مخالفین حق کو دیا ہے ”کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر صلى الله عليه وسلم نے اسے خود تصنیف کرلیا ہے۔ کہو اگر تم اپنے اِس اِلزام میں سچے ہو تو ایک سورة اس جیسی تصنیف کرلاؤ اور ایک خدا کو چھوڑ کر جس جس کو بلاسکتے ہو مدد کے لیے بلالو“ یونس آیت ۳۸۔ ایک طرف قرآن کا چیلنج اور دوسری طرف صاحب قرآن کا عمل اور کردار کا چیلنج اور دلیل ان دونوں کے آگے بڑے سے بڑا ”مخلص“ مخالف سرتسلیم خم کرنے پر مجبور ہوگیا۔
اچھی اچھی اخلاقیات کی باتیں کرنا، اونچی اونچی ڈینگیں ہانکنا ناممکن قسم کی خوبصورت باتیں بنانا یہ سب اخلاقیات، دین، روحانیت کے نام پرکرنا بہت آسان ہے۔ اوریہ سب تاریخ میں ہوتا رہا ہے۔ بڑی خوبصورت اخلاقی باتیں کرنے والے مصلحین، روحانیت کے نام نہاد مبلغین کی ذاتی زندگیاں عموماً عمل اور کردار سے خالی بلکہ اس کی ضد ہوتی ہیں۔ کسی بھی انسان کے قول پر اس کی دعوت پر سب سے زیادہ موثر دلیل اس کا اپنا عمل اور کردار ہوتا ہے۔ اور اس کے بعد اس کے قریب ترین لوگوں کی گواہی یا اس کے مخالفین کے تاثرات قطعی اور فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ اس معیار پر انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ جو شخصیت پوری اترتی ہے وہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی ہے۔ آپ کی نبوت سے قبل کی زندگی بھی اس حقیقت پر گواہ ہے۔ خارق عادات چمتکار، سعید اور مسحور کن کرتب دکھانا بڑا آسان ہوتا ہے مگر بلند اخلاقی تعلیمات پر خود عمل کرنا سب سے مشکل ہوتا ہے۔ اسی لیے مذکورہ بالا آیات میں آپ نے دونوں کسوٹیوں پر عمل کا ثبوت پیش کیا۔ پہلا یہ کہ اپنی دعوت پر سب سے بڑھ کر یقین رکھنے والا میں خود ہوں۔ دوسرے مقام پر فرمایا کہ میں پہلے خود مسلم ہوں۔ دوسری آیت میں عمل اور کردار کے لحاظ سے ثبوت دیا گیا کہ اپنی ماقبل کی چالیس (۴۰) سالہ زندگی میں نے تمہارے درمیان ہی گذاری ہے کیا میں نے کبھی جھوٹ بولا؟ کبھی قصہ کہانی سنائے، اقتدار کی خواہش کی؟
تاریخ کے ذریعہ یہ بات بھی ثابت ہے کہ مخالفین حق کفار و مشرکین مکہ نے اِن دونوں چیلنجوں کا جواب دینے کی بھرپور کوشش کی۔ اجتماعی طورپر نظم کرکے اہل ادب کو مکمل یکسوئی کے ساتھ قرآن کی ایک آیت جیسی آیت لانے کی کوشش کی گئی۔ حضور صلى الله عليه وسلم کو نعوذ باللہ مجنون، جادوگر، گھر والوں کو آپس میں لڑانے والا، پرانے رسم ورواج سے برگشتہ کرنے والا، سماجی تانے بانے کو بکھیرنے والا، شاعر، کاہن اور نہ جانے کیاکیا کہا گیا۔ مگر خود ہی اِن الزامات پر مطمئن بھی نہ ہوتے تھے۔ جادوگر، جھوٹے یا سحرزدہ تھے تو اپنے جھگڑوں میں ان کو فیصلہ کرنے والا کیوں بناتے تھے؟ ان کو صادق اور امین کیوں کہتے تھے؟ اُن کے پاس اپنی قیمتی امانتیں کیوں جمع کراتے تھے؟ ہجرت کے وقت حضرت علی رضى الله تعالى عنه کو صرف اسی مقصد سے خطرہ مول لے کراپنے بستر پر سلایاگیا تھا کہ امانت داروں کی امانتیں واپس کردی جائیں۔
Sir William Myur سرولیم میور جو حضور صلى الله عليه وسلم کے صف اوّل کے مخالفین میں سے ہے نے اپنی کتاب ”لائف آف محمد“ میں مجبور ہوکر لکھا ہے ”ہماری تمام تصنیفات محمد کے چال چلن کی عصمت اور ان کے اطوار کی پاکیزگی میں جو اہل مکہ میں کمیاب تھیں متفق ہیں۔ اور ولیم میور جیسے مخالف کو بھی یہ لکھنے پر اس لیے مجبور ہونا پڑا کیونکہ حضرت محمد کے وقت کے مخالفین بھی متفقہ طور پر آپ پر کوئی الزام نہیں لگاسکے تھے۔ تو کردار کشی کی دوسری ڈگر اختیار کی کہ اِن کے ساتھ فرشتہ کیوں نہیں چلتے، ان کے پاس باغات نہیں ہے، یہ ہمارے اوپر عذاب کیوں نہیں لے آتے، آسمان سے کوئی ٹکڑا کیوں نہیں گرادیتے وغیرہ وغیرہ۔ مگر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِن تمام بیہودہ مطالبوں کا ایک ہی جواب دلوایا کہ ”میں تو صرف ڈرانے والا اور پہنچانے والا بناکر بھیجا گیا ہوں میں کوئی تمہارے اوپر داروغہ بناکر نہیں بھیجا گیا ہوں اور نہ عذاب لانا، مُردوں سے بات کرانا، مُردوں کو زندہ کرکے دکھانا میری ذمہ داری ہے۔ میں تو صرف کہتا ہوں کہ پہاڑی کے خطبہ (صفا پہاڑ سے پہلا دعوتی خطبہ) میں آپ نے فرمایا ”تم میری بابت کیا رائے رکھتے ہو؟ مجھے سچا سمجھتے ہو یا جھوٹا سمجھتے ہو؟، سب نے ایک زبان ہوکر جواب دیا ”ہم نے تمہارے منھ سے کبھی کوئی جھوٹی یا بیہودہ بات نہیں سنی ہم جانتے ہیں کہ تم سچے اور امین ہو“ یہ تو تھی مخالفین کی غیر جانب دار گواہی جس میں تعصّب کو دخل نہیں تھا۔ وہ حضور صلى الله عليه وسلم کی چالیس سالہ زندگی کے برتاؤ اور کردار کے نتیجہ میں آپ کو جیساکچھ جانتے تھے وہ انھوں نے بتادیا۔ مگر جیسے ہی آپ نے اگلے جملہ میں دعوت دین پیش کرتے ہوئے کہا ”میں یہ کہتاہوں کہ خدا ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں، موت برحق ہے اور مرنے کے بعد اسی کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ اگر ان باتوں پر ایمان لاؤگے تو فلاح پاؤگے اور دنیا وآخرت میں سرخرو ہوگے ورنہ تم پر بہت بڑا عذاب نازل ہوگا۔“ یہ دعوت سننے کے بعد ایک لمحہ پہلے صادق امین بتانے والے کہنے لگے ”کیا ہمیں اسی لیے بلایا تھا؟ بیکارہمارا وقت برباد کیا“۔
دوسری طرف ایک اور زاویہ سے حضور صلى الله عليه وسلم کے کردار کو جانچیں کہ انسان کے بارے میں سب سے زیادہ اس کے قریب ترین لوگ جانتے ہیں خاص طور سے وہ لوگ جو مشکل اور آزمائش کے حالات میں اس کے ساتھ رہے ہوں۔ کیونکہ نارمل حالات میں تو آدمی اپنی اصلیت پر پردہ ڈال سکتا ہے نیک اور پارسا، خوش مزاج اور ملنسار بنا رہ سکتا ہے مگر کشمکش، آزمائش اور پریشانی اس کے اوپر اوراندر کا سارا ملمع اور میک اپ و مکاری اتار دیتی ہے۔ ایسے میںآ دمی وہی نظر آتا ہے جو اندر ہوتا ہے۔ ایسے میں نزولِ اوّل وحی کے بعد حضور صلى الله عليه وسلم کا گھر آکر اپنی اہلیہ محترمہ ام المومنین حضرت خدیجہ رضى الله تعالى عنها سے نہایت حیرانگی اور پریشانی کے عالم میں ملاقاتِ جبرئیل کا واقعہ سناکر مجھے ڈھانک دو مجھے ڈھانک دو فرمانا اور اس کے جواب میں حضور صلى الله عليه وسلم کی سب سے قریب ترین رازدار کی تاریخی گواہی دینا ”آپ تردّد نہ فرمائیں: (۱) آپ مہمان نواز ہیں (۲) اقرباء کی مدد کرتے ہیں (۳) بیواؤں ، یتیموں اور بیکسوں کی دست گیری کرتے ہیں (۴) سچ بولتے ہیں خدا آپ کا ساتھ نہ چھوڑے گا“ اس چیلنج کی سب سے بڑی دلیل ہے ”آخر میں تمہارے درمیان ایک عمر گذار چکاہوں“؟
کردارِ نبوی کے اس چیلنج کا ایک دوسرا رخ قرآن میں اس طرح پیش کیاگیا ہے ”اے نبی ان سے کہو میں تمہیں بس ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں خدا کے لیے تم اکیلے اکیلے اور دو دو مل کر اپنا دماغ لڑاؤ اور سوچو تمہارے صاحب میں کون سی بات ہے جو جنون کی ہو وہ تو ایک سخت عذاب کی آمد سے پہلے تم کو متنبہ کرنے والا ہے۔ ان سے کہو اگر میں نے تم سے کوئی اجر مانگا ہے تو وہ تم ہی کو مبارک ہو۔ میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے ۔ النساء آیت ۴۷۔
انبیاء کرام کی یہ سنت اورمستقل کردار رہا ہے کہ انھوں نے ہمیشہ اپنی دعوت کے بدلہ میں کوئی اجر انسانوں سے طلب نہیں کیا۔ ”ہم تم سے کوئی بدلہ نہیں مانگتے ہمارا اجر تو اللہ کے پاس ہے“ یہ ہر نبی کے کلام کا مقطع ہوتا تھا۔ حضور صلى الله عليه وسلم نے اپنے ذاتی اور اقربا کے مفاد کے لیے کوئی کوشش اور منصوبہ بندی نہیں کی۔ اپنی زندگی میں بھی اپنے شان و شوکت، خدم وحشم، ہٹو بچو، مصنوعی تکلّفات اور آداب کی زندگی نہیں گذاری۔ زندگی گذارنے کا جو معیار حالت تنگدستی اور مغلوبیت میں تھا وہی معیار دس لاکھ مربع میل کے بلا شرکت غیرے حاکم بننے کے بعد بھی تھا۔ اپنے لیے خصوصی مراعات کا کیا ذکر زکوٰة جیسی امدادی مد سے اپنی آل کا حصہ ہی منع فرمادیا۔ اپنے پیچھے کوئی جائداد اور ترکہ نہیں چھوڑا۔ جو تھا بھی وہ بھی وفات سے ایک روز قبل تقسیم کردیا۔ حضور صلى الله عليه وسلم کے کردار کے اس پہلو کی آج تقلید کی جائے تو دنیا سے بے انصافی، رشوت خوری، جرائم، بے روزگاری بالکل ختم ہوجائے۔ جب حکمراں چٹائی پر سوئے اس کے آگے پیچھے بلیک کیٹ کمانڈو Black cat Commando نہ ہوں، محلوں کے باہر کئی پرتوں والا حفاظتی انتظام نہ ہو، ہر فرد حاکم سے براہ راست مل سکتا ہو اور فوری انصاف حاصل کرسکتا ہو تو بدامنی کیوں ہوگی؟ رشوت خوری کیسے ہوگی؟ ملاوٹ کیسے ہوگی؟ سیرتِ نبوی کے اس پہلو پر چند گواہیاں اس طرح ہیں:
۱- ٹامس کارلائل Thamas Carlyle نے لکھا ہے کہ ”آپ کا گھر بار معمولی اور کمتر لوگوں کے طرز کا تھا اور آپ کی عام غذاء جوکی روٹی اور پانی، اکثر آپ کے چولھے میں مہینوں آگ نہیں روشن ہوتی تھی۔ کسی طرّہ دار شہنشاہ کی اتنی اطاعت نہیں ہوئی جتنی کہ اِس شخص کی اُس کے اپنے ہاتھ کی سی ہوئی عبا میں ہوئی تھی۔
۲- ایڈورڈ گبن Edward Gibbon اپنی دنیوی طاقت کے عروج پر بھی محمد کی شرافت نفس نے شاہانہ تزک واحتشام روانہ رکھا۔ دنیا چھوڑے ہوئے مجاہدوں سے نفرت کرتے ہوئے آپ بلا بناوٹ اور بلا تکلف ایک عرب اورایک سپاہی کی طرح سادہ غذا استعمال فرماتے تھے۔
۳- پروفیسر سیڈیو ”آپ خندہ رُو، ملنسار اکثر خاموش رہنے والے بکثرت ذکر خدا کرنے والے لغو اور بیہودہ باتوں سے نفرت کرنے والے بہترین رائے رکھنے والے تھے۔ آپ نہایت منصف مزاج تھے غریبوں میں رہ کر خوش ہوتے تھے، تنگدستوں کو ان کی تنگدستی کی وجہ سے نہ تو حقیر جانتے تھے اور نہ بادشاہوں کو ان کی بادشاہی کی بنا پر برتر سمجھتے تھے“۔
۴- واشنگٹن ارون Washington Irvin ”اپنے انتہائی قوت واقتدار کے دور میں بھی آپ نے وضع قطع اور اخلاق وعادات میں وہی سادگی قائم رکھی جو پریشانی اور بے وقعتی کے زمانہ میں آپ کا وصف رہی تھی۔ شاہانہ کروفر تو بڑی بات ہے۔ اگر کسی مجلس میں آپ کے ساتھ کچھ خصوصیت کابرتاؤ کیاجاتا تو وہ بھی آپ کو بہت ناگوار ہوتا تھا“۔
ہمارے پیارے رسول صلى الله عليه وسلم کی پوری سیرت کو پڑھ جائیے آپ کو کہیں یہ بات نظر نہ آئے گی کہ آپ نے اپنے لیے کسی چیز کا ذخیرہ کیاہو۔ آپ نے اپنے لیے کیا چاہا؟ آپ نے ساری دوڑ دھوپ انسانیت کی فلاح کے لیے۔ انسانوں کی تعلیم و تربیت، تزکیہ کے لیے کی۔ آپ بڑے پیار ومحبت سے کہتے کہ میری حیثیت ایسی ہی ہے جیسے کسی باپ کی اپنے بچہ کے سامنے ہوتی ہے۔ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے دنیا سے کیا لیا؟ آپ دنیا سے چلے گئے اس حال میں کہ آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس رہن رکھی ہوئی تھی۔ کون ایساہوگا جو غیروں کی بھلائی کے لیے سانپ کاٹے ہوئے بچہ کی طرح بلکے اور دوسروں کی بھلائی کے لیے اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالے۔ یہاں تک کہ اللہ رب العالمین خود دلاسہ دیں کہ ”کیا آپ اپنے آپ کو ہلاک کرلیں گے اگر لوگ ایمان نہ لائے تو“۔ آج دنیا میں ہر طرف ایسے محسن انسانیت بادشاہی میں فقیری کرنے والے، رحیق مختوم، رحمت عالم کے نام اور کام کو داغدار کرنے کی کوششیں اور سازشیں کرنے والے کیا اس کے ۱۰۰ ویں یا ۱۰۰۰ ویں حصہ کی بھی شخصیت کو پیش کرسکتے ہیں۔ درود و سلام ہو پیارے رسول پر! رحمتیں وبرکتیں نازل ہوں آپ کی روحِ مبارک پر۔ آمین




کیا تعلیمات نبوی صلى الله عليه وسلم پر مسیحیت کا اثر ہے؟




حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذرائع علم کیا تھے ؟خاص طور پرمغرب کے نزدیک یہ مسئلہ ہمیشہ زیر بحث رہا ہے۔ اگروحی کوذریعہ ابلاغ تسلیم کرلیاجائے توسارامسئلہ ہی ختم ہوجاتاہے ۔ لیکن بنیادی بات یہی ہے کہ محمد کونبی تسلیم نہیں کرنا ہے ،اس لیے وحی کے ماننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بڑی مشکل سے انہیں بشریت کامقام دیاگیاتوعیسائی کلیساکارکن سمجھاگیا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ نبی کے معلّمین کارکنان کلیساتھے ۔ اتفاق سے شام کے تجارتی اسفارکاواقعہ مستشرقین کی نظرسے گزرا،توپھران کے لیے راہبوں کومعلم ثابت کرنے میں کوئی کلام نہیں رہ گیا۔ لیکن دقت یہ تھی کہ مختصروقت کی ملاقات تعلیم وتعلم کے لیے کافی نہیں۔ لہٰذااس قسم کے معلّمین کوعرب میں تلاش کیاگیا۔ مستشرقین کی نظرورقہ بن نوفل پرپڑی۔ بڑے وثوق سے کہاگیاکہ یہی آپ کی تعلیم پرمامور ہوئے ۔ ان لوگوں نے معلّمین کی تعداد بڑھانے کی کوشش کی تو یہ بھی کہاکہ زیدبن حارثہ رضى الله تعالى عنه چوں کہ ہروقت آپ کے ساتھ رہتے تھے اور ان کا تعلق عیسائیت سے تھا ، اس لیے مذہب کی تشکیل وتفہیم میں ان سے مدد لی ہوگی ۔  یہ بھی کہا گیاکہ حضرت بلال حبشی  رضى الله تعالى عنه اورماریہ قبطیہ رضى الله تعالى عنها کاتعلق بھی عیسائیت سے تھا،کوئی بعید نہیں کہ ان لوگوں سے بھی آپ نے عیسائیت سے واقفیت حاصل کی ہوگی۔ ان سارے لوگوں کامعلّمین ہونامستشرقین نے ناکافی سمجھاتوان اہل کتاب عالموں کوبھی اس فہرست میں شامل کردیا،جومکہ کے قرب وجوارمیں رہتے تھے۔ بیش تر مستشرقین مثلا:سرولیم میور،بلاشیر،ڈریپر،باڈلے،فلیپ ایر لنگی اور گولڈ زیہر وغیرہ نے اسی بات پر زور دیا ہے۔  ’ڈریپر‘لکھتا ہے:

”بحیراراہب نے بصری کی خانقاہ میں محمدکونسطوری عقائد کی تعلیم دی ....آپ کے ناتربیت یافتہ اخَّاذ دماغ نے نہ صرف اپنے اتالیق کے مذہبی بلکہ فلسفیانہ خیالات کاگہرااثرقبول کیا ... بعدمیںآ پ کے طرزعمل سے اس امرکی شہادت ملتی ہے کہ نسطوریوں(عیسائیوں کے ایک فرقہ کانام ہے) کے مذہبی عقائد نے آپ پر کہاں تک قابولیا تھا۔ “(۱)

’فلیپ ایرلنگی‘ اپنے ایک مضمون میں متضاد اور ناقابل تسلیم رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھتاہے :

”محمد کی مکہ میں اکثریہودیوں سے ملاقات ہوتی رہتی تھیں... محمداپنے خادم زیدسے جوعیسائیوں کاغلام رہ چکاتھا یہودیوں اورمسیحی مذاہب کے بارے میں استفادہ کی غرض سے سوالات کیاکرتے تھے وہ اپنے خادم سے زیادہ سمجھ دار تھے... مدینہ میں محمدیہودیوں کے شاگردرہے ، یہودیوں ہی نے آپ کی شخصیت سازی کی تھی یہودیوں اور مسیحیوں میں جو داستانیں مشہور تھیں جبرئیل ان سب کومحمدکے سامنے بیان کردیاکرتے تھے۔  “(۲)

مکہ کے ماحول میں تعلیم کاحصول ممکن نہ تھا

قریش مکہ کو اپنی زبان دانی پر ضرورناز تھا۔ مگران کے اندرنوشت وخواندسے دل چسپی نہیں تھی۔  یہ صورت اس وقت تک برقراررہی جب تک کہ محمد صلى الله عليه وسلم نے نبوت سے سرفرازکیے جانے کے بعدان لوگوں کے اندرپڑھنے لکھنے کا داعیہ نہ پیداکردیا۔  حضورصلى الله عليه وسلم کے ابتدائی حالات سے بھی پتا چلتاہے کہ آپ کی پرورش جس ماحول اورمعاشرہ میں ہوئی اس میں حصول علم کے ذرائع اورمواقع مفقود تھے ۔ خاص کراس بچہ کے لیے جس کے سرسے والدین کاسایہ اٹھ چکاہو،علم حاصل کرنا بہت مشکل تھا۔ ابوطالب کوئی اتنے بڑے مال دار اورفارغ البال بھی نہ تھے کہ اپنے بچوں سے توجہ ہٹاکرصرف حضورصلى الله عليه وسلم کی تعلیم پرتوجہ دیتے ۔  اس لیے یہ بات سرے سے بے بنیاد ہے کہ آپ نے حصول علم کے لیے معلّمین کے سامنے زانوئے تلمذتہ کیاتھا،جس کے اثرا ت نبوت کے بعدظاہرہوئے ،یااس سے قبل آپ صلى الله عليه وسلم نے جس سنجیدگی اورفرزانگی کا مظا ہرہ کیاوہ اسی تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا ۔ بلکہ آپ کاطریقہ زندگی ٹھیک اسی نہج پرپروان چڑھا جس طرح حضرت ابراہیم عليه السلام کی زندگی۔  وہ کم عمری میں بتوں کے مخالف ہوگئے اورجستجوئے حق میں سرگرداں رہتے۔ (الانبیاء: ۵۱-۵۲)

حضورصلى الله عليه وسلم کی امیت کے دلائل

یہ بات تو طے ہے کہ آپ امی تھے ۔  قرآن نے باربارآپ کواسی لقب سے یادکیا اور متعارف کرایاہے ۔ چنانچہ کفارومشرکین کے شکوک وشبہات کا ازالہ اور ان کے اعتراضات کاجواب دیتے ہوئے قرآن میں فرمایا گیاہے :

”فَاَمِنُوْابِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیّ ِالْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُوٴْمِنُ بِاللّہِ وَکَلِمٰتِہِ وَاتَّبِعُوہُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْن۔ “ (الاعراف :۱۵۸)

(پس ایمان لاؤاللہ پراوراس کے بھیجے ہوئے نبی امی پرجواللہ اوراس کے ارشادات کومانتاہے اورپیروی اختیارکرواس کی ، امیدکہ تم راہ راست پالوگے۔ )

ایک اور مقام پر حضورصلى الله عليه وسلم کو امی محض کے طور پر تعارف کراتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:

”وَمَا کُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِہِ مِن کِتَابٍ وَلَا تَخُطُّہُ بِیَمِیْنِکَ إِذاً لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ.“ (العنکبوت:۴۸)

(اے نبی) تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے،اگر ایسا ہوتا تو باطل پرست لوگ شک میں پڑجاتے۔ )

نبی امی کی پیروی کرنے کی تائیدکرتے ہوئے فرمایاگیاہے :

”وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا إِنْ ہَذَا إِلَّا إِفْکٌ افْتَرَاہُ وَأَعَانَہُ عَلَیْْہِ قَوْمٌ آخَرُونَ فَقَدْ جَاؤُوا ظُلْماً وَزُوراً. وَقَالُوا أَسَاطِیْرُ الْأَوَّلِیْنَ اکْتَتَبَہَا فَہِیَ تُمْلَی عَلَیْْہِ بُکْرَةً وَأَصِیْلاً. قُلْ أَنزَلَہُ الَّذِیْ یَعْلَمُ السِّرَّ فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِنَّہُ کَانَ غَفُوراً رَّحِیْماً.“ (الفرقان:۴-۶)

(جن لوگوں نے نبی کی بات ماننے سے انکارکردیاہے ،وہ کہتے ہیں کہ یہ فرقان ایک من گھڑت چیزہے جسے اس شخص نے آپ ہی گھڑ لیا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں نے اس کام میں اس کی مدد کی ہے۔ ان منکرین نے خلاف واقع من گھڑت بات کہی اورکہتے ہیں یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں۔ جنہیں یہ شخص نقل کرلیتاہے اوروہی صبح وشام اس کے پاس لکھی جاتی ہیں۔ اے نبیان سے کہوکہ اسے نازل کیاہے اس نے جوزمین اورآسمانوں کابھیدجانتاہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑاغفورورحیم ہے ۔ )

چالیس سال کی عمرمیں غارحراکے اندرجبرئیل امین وحی لے کرآئے اورآپ سے کہاکہ اے محمدپڑھیے۔  آپ بار باریہی کہتے رہے کہ میں پڑھاہوا نہیں ہوں ۔ فرشتہ وحی نے جب آپ کوسینہ سے لگاکربھینچاتوآپ پڑھنے لگے ۔  (۳) یہ اوربعض دوسرے واقعات سے یہ بات مزیدواضح ہوجاتی ہے کہ آپ پڑھنے لکھنے سے واقف نہ تھے ۔ نبوت سے سرفراز کیے جانے کے بعد تبلیغ دین کے لیے آپ نے بہت سے حکم رانوں کے نام خطوط اورفرامین لکھواکربھیجے ۔ اگرآپ نوشت وخواندسے واقف ہوتے توایساکرنے کی ضرورت نہ پڑتی ۔  صلح حدیبیہ کے موقع پرکفارکے قابل اعتراض لفظ کومٹاکرمحمدبن عبداللہ لکھنے کوحضورنے حضرت علی سے کہا۔ انہوں نے احترام نبوی کا لحاظ کرتے ہوئے جواب دیا یہ کام مجھ سے نہیں ہوسکتا۔ اس پرحضورنے علی سے فرمایابتاؤوہ لفظ کہاں ہے ۔ حضرت علی نے انگلی رکھ کربتادیا ۔  حضورنے اپنے ہاتھ سے اسے مٹایااوراس کی جگہ محمدبن عبداللہ لکھوا دیا۔ (۴)برسوں علمی ماحول میں رہنے کی وجہ سے بعض لوگ کم ازکم اپنے نام کااملاکرہی لیتے ہیں۔  اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں اورنہ اس سے پڑھے لکھے ہونے پراستدلال نہیں کیاجاسکتاہے ۔  بعض روایتیں ایسی بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری زمانہ تک آپ کے اندر لکھنے پڑھنے کی شد بد پیدا ہوگئی تھی۔ مگر یہ تمام روایتیں موضوع اور کم زور ہیں۔ (۵)

کفار مکہ نے راہبوں سے علمی استفادہ کاالزام نہیں لگایا

بتوں کی مذمت اورعقائدواعمال کے مفاسد کی باتیں سنناکفار ومشرکین کے نزدیک دل شکن بات توتھی، مگران کے لیے زیادہ اچنبھے والی بات یہ تھی کہ سابقہ انبیاء اوران کے پیروکاروں کی اطلاع آخر نبی کو کہاں سے مل رہی ہے ۔  وہ توپڑھے لکھے نہیں ہیں کہ سابقہ کتابوں سے معلومات اخذکرسکیں۔ ہونہ ہویہ فلاں فلاں عجمی غلاموں سے جنہیں آسمانی کتابوں کا علم ہے ، معلومات حاصل کرتے ہوں۔ ان کے نزدیک معلومات کے ذرائع ان کے علاوہ شام کے راہب ہوتے تووہ ضروراس کی تشہیر کرتے اور کہتے یہ باتیں انہیں سے سیکھی تھیں ۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ نبی کے ہم عصردشمنوں میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہاکہ تم بچپن میں بحیراراہب سے جب ملے تھے ،اس وقت یہ سارے مضامین ان سے سیکھ لیے تھے اورنہ یہ کہاکہ جوانی میں جب تجارتی سفروں کے سلسلے میں تم باہرجایاکرتے تھے ،اس زمانے میں تم نے عیسائی اوریہودی علماسے یہ معلومات حاصل کی تھیں۔ یہ سفراکیلے نہیں قافلے کے ساتھ ہوئے تھے اوروہ جانتے تھے کہ ان میں کسی سے کچھ سیکھ کرآنے کاالزام لگائیں گے تو اپنے ہی شہر والے جھٹلائیں گے ۔ اس کے علاوہ مکے کا ہر عام آدمی پوچھے گاکہ اگریہ معلومات اس شخص کوبارہ تیرہ برس کی عمرہی میں بحیراسے حاصل ہوگئی تھیں توآخریہ شخص کہیں باہرتو نہیں رہتاتھا،ہمارے ہی درمیان رہتا،بستاتھا۔ کیاوجہ ہے کہ چالیس برس کی عمرتک اس کایہ ساراعلم چھپارہااورکبھی ایک لفظ بھی اس کی زبان سے ایسانہ نکلاجواس کے علم ودانش کی غمازی کرتا؟(۶)

علامہ سیدسلیمان ندوی لکھتے ہیں:

”سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آں حضرت کی پیغمبرانہ زندگی پورے ۲۳/برس تک قائم رہی ،اگرآں حضرت صلى الله عليه وسلم کسی انسانی معلم سے فیض پاتے رہتے تو ضرور تھاکہ وہ اس پورے زمانہ تک یابڑی حدتک خلوت وجلوت میںآ پ کے ساتھ رہتاکہ وقت ضرورت (نعوذباللہ )آپ اس سے قرآن بنواتے ،احکام ومواعظ سیکھتے، اسرارونکات معلوم کرتے اوریہ شخص یقینا مسلمان نہ ہوتا،کیوں کہ جوشخص خودمدعی نبوت کوتعلیم دے رہاہو،وہ کیوں کراس کی نبوت کوتسلیم کرسکتاتھااورپھراس شہرت عام، ذکرجمیل، رفعت مقام کو دیکھ کرجومدعی نبوت کوحاصل ہورہی تھی ،وہ خودپردہ کے پیچھے گم نامی پسندکرتااورصحابہ کرام کی نگاہوں سے اس کا وجودہمیشہ مستور رہتا،جس عجمی کی نسبت قریش کوشبہ تھا،اگرحقیقت میں آپ اس سے تعلیم حاصل کیا کرتے توقریش جوآپ کی تکذیب ،تذلیل اورآپ کوخاموش کرنے کی تدبیرپرعمل پیراہورہے تھے ،ان کے لیے آسان تھاکہ اس غلام عجمی کوالگ کردیتے کہ محمدرسول اللہ کا وحی اورقرآن کاتمام کاروباردفعتاًدرہم برہم ہوجاتا، علاوہ ازیں زیادہ سے زیادہ اس کاوجودمکہ میں تھا،پھرمدینہ میں۱۳/برس تک سینہٴ نبوت سے فیضان الٰہی کاسرچشمہ کیوں کر ابلتا رہا،قر آن شریعت اسلام اوراحکام کابڑاحصہ یہیں وحی ہواہے ،مکہ میں تونسبتابہت کم سورتیں نازل ہوئیں۔ “(۷)

شام کے تجارتی سفر کا تفصیلی پس منظر

 حضور کے تجارتی سفرجو بچپن میں ہوئے اس کی تفصیل جامع الترمذی میں بیان کی گئی ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں:

” ابوطالب رؤسائے قریش کے ہمراہ (ملک )شام کی طرف (تجارت کے لیے) چلے ۔ آپ کے ہمراہ رسول اللہ بھی اس سفرمیں تھے ۔  جب (بحیرا) راہب کے مکان( یاصومعہ)کے قریب پہنچے توابوطالب اترے اورلوگوں نے اپنے کجاوے کھول دیئے۔  پادری(راہب )ان کے پاس آیا،اس سے پہلے بھی یہ لوگ یہاں سے گذراکرتے تھے ،مگر راہب ان کے پاس نہ آتاتھابلکہ التفات بھی نہ کرتاتھا۔ (اب کی دفعہ خلاف معمول خودچل کرآیا)یہ لوگ ابھی کجاوے کھول ہی رہے تھے کہ وہ ان کے درمیان گھس کرچلنے لگا،یہاں تک کہ اس نے آکررسول اللہ کاہاتھ پکڑ لیا اوراس نے (لوگوں کومخاطب کر کے )کہا:یہ تمام جہانوں کے پروردگارکی طرف سے رسول ہیں۔ اللہ تعالی ان کوعالم کے لیے رحمت بناکرمبعوث کرے گااوریہ تمام عالم کے سردارہیں۔  رؤسائے قریش نے پوچھایہ آپ کوکیسے معلوم ہوا۔  پادری نے کہاجس وقت تم لوگ عقبہ سے چلے ہوتوجتنے پتھراوردرخت تھے ،سب سجدہ میں گرپڑے ۔ ایک پتھراورایک درخت بھی ایسانہ رہاجس نے سجدہ نہ کیاہوا۔ درخت اورپتھرسوائے پیغمبر کے کسی کوسجدہ نہیں کرتے اورمیں ان کی مہرنبوت بھی پہچانتاہوں جو آپ کے مونڈھے کی ہڈی کے نیچے سیب کی مانندہے ،پھروہ پادر ی واپس چلاگیااوران لوگوں کے لیے کھاناتیارکرنے لگاجس وقت وہ کھانالے کران کے پاس آیاتوآپ اونٹوں کے چرانے میں مصروف تھے ۔  اس نے آپ کوبلابھیجا،جس وقت حضور وہاں سے چلے توایک بدلی آپ کے سرپرسایہ کیے ہوئے تھی، جب آپ لوگوں کے پاس پہنچے توکیادیکھتے ہیں کہ یہ لوگ مجھ سے پہلے درختوں کے سایوں کی جگہ قبضہ کرچکے ہیں۔  جب آپ بیٹھے تودرخت کاسایہ آپ پرجھک گیا،پادری نے لوگوں سے کہا۔ دیکھواس درخت کاسایہ آپ پرجھک گیاہے ۔ راوی کہتے ہیں کہ وہ پادری ان کے پاس کھڑا ہوا قسمیں کھاکھاکران کوسمجھارہاتھاکہ ان کوروم کی طرف نہ لے جاؤ،کیوں کہ رومی لوگ اگران کودیکھیں گے توصفت و علامات سے ان کوپہچان لیں گے (کہ یہ اللہ تعالی کے برگزیدہ نبی ہیں) اورآپ کوقتل کرڈالیں گے ۔ اتنے میں اس نے منھ موڑ کر کیا دیکھا کہ سات آدمی روم کی طرف سے چلے آرہے ہیں پادری نے ان کااستقبال کیا اور ان سے پوچھاکہ تم کیوں آئے ؟انہوں نے کہاہم اس لیے آئے ہیں کہ ایک نبی اس مہینہ میں نکلنے والے ہیں۔ پس کوئی راستہ ایسا نہیں جہاں چندآدمی نہ بھیجے گئے ہوں اورہمیں ان کی خبرملی ہے تو ہمیں اس راستہ کی طرف بھیجاگیاہے۔  پادری نے پوچھاکیاتم لوگوں کے پیچھے کوئی تم سے بہترآدمی بھی ہے ؟انہوں نے کہا ہمیں توآپ کے اسی راستہ کی خبر دی گئی ہے (اورکچھ نہیں بتایا گیا ) پادری نے کہا اچھا تو یہ بتاؤکہ اگراللہ تعالی نے کسی امرکاارادہ کیاہوتوکیاانسان کی طاقت ہے کہ اسے روک دے ؟انہوں نے کہانہیں۔ الغرض انہوں نے آپ سے بیعت کرلی اور آپ کے ساتھ مقیم رہے ۔ پادری نے قریش سے کہاتمہیں خداکی قسم یہ بتاؤکہ تم میں اس کا ولی (سرپرست)کون ہے ؟انہوں نے کہاابوطالب (آپ کے چچا اور سرپرست ہیں) پادری نے قسمیں دے کرابوطالب سے کہاکہ انہیں واپس لے جاؤ۔  آخر ابوطالب نے آپ کومکہ واپس بھیج دیااورحضرت ابوبکرصدیق  رضى الله تعالى عنهنے آپ کے ہمراہ بلال کوبھیجا اور اس پادری نے آپ کوزادراہ کے لیے روٹیاں اورروغن دیا۔ “(۸)

حضورصلى الله عليه وسلم کے تجارتی اسفارصحیح تناظرمیں

حضورکے تجارتی اسفارجوملک شام کے لیے ہوئے ،اس سے متعلق جوتفصیلات بعض کتب احادیث وسیراورتاریخ میں ملتی ہیں اور جیسا کہ ابھی اوپرتفصیلی روایت گزری ہے۔  اس میں سے ناقابل فہم باتوں کونکال دیاجائے تواس کاسیدھاسادامطلب یہی نکل کرسامنے آتاہے کہ آپ نے پہلی مرتبہ شام کاسفراس وقت کیا،جب کہ آپ کی عمر مشہور روایت کے مطابق ۱۲/سال کی تھی ۔ یہ سفر آپ کااپنے چچاابوطالب کے ساتھ ہواتھا۔  جب یہ تجارتی قافلہ منزل بہ منزل کوچ کرتاہوا، شام کے علاقہ بصری کے مقام پرپہنچاتوایک جگہ قیام کیا۔ یہاں سے کچھ فاصلہ پرعیسائیوں کی ایک خانقاہ تھی ۔ اس میں بحیرانام کا ایک راہب رہتا تھا۔ خلاف معمول یہ راہب اپنے صومعے سے نکلااورقافلہ والوں کودیکھنے لگا۔  اسے اس قافلہ والوں میں سے کسی ایک آدمی کے متعلق غیرمعمولی باتیں نظرآنے لگیں۔  صحیح صورت حال جاننے کے لیے اس نے اس تجارتی قافلہ کی دعوت کی۔ وقت مقررہ پرسارے لوگ کھانے کے لیے پہنچے اوردسترخوان پربیٹھ گئے ۔ راہب کی نظراس کم سن بچہ پرپڑی ۔ وہ اسے بغوردیکھتارہا۔ اسے اس بچہ کے چہرہ بشرہ سے غیرمعمولی بلندی کے آثارنظرآرہے تھے اوروہ علامات بھی نظرآرہی تھیں جونبی آخرالزماں کے متعلق وہ اپنی آسمانی کتابوں میں پڑھ چکاتھا۔ چنانچہ وہ حضورکے قریب ہوااورآپ سے مخاطب ہوکرکچھ پوچھنے لگا۔ آپ نے کم عمرہونے کے باوجوداس کے سارے سوالوں کاصحیح صحیح جواب دے دیا۔ اس سے اسے اتنااندازہ توہوگیاکہ ہونہ ہویہی بچہ آگے چل کر آخری نبی مقرر ہو، مگراس نے یقین سے کچھ کہنے کے بجائے ابوطالب سے کہا کہ یہ بچہ بلنداقبال والاہے، تم اس کی اچھی طرح نگہ داشت اورپرورش و پرداخت کرنا۔ ابن اسحاق کے بہ قول بحیراراہب نے ابوطالب سے یہ بھی کہا:

”آپ اپنے بھتیجے کووطن واپس لے جائیں اوریہودسے اس کوبچائیں۔  اللہ کی قسم اگرانہوں نے دیکھ لیااوروہ علامتیں پہچان لیں جومیں نے پہچانی ہیں تووہ اسے ضرر پہنچائیں گے ۔ آپ کابھتیجابڑی عظمت والاہے ۔ “(۹)

حافظ ابن کثیرنے اپنی تاریخ میں اس واقعہ کو تفصیل سے نقل کیاہے ۔  بحث کے شروع میں انہوں نے اس کے متعلق جو باتیں تحریرکی ہیں،اس سے معلوم ہوتاہے کہ راہب نے ان کے چچاسے حضورکی حفاظت اوراچھی طرح پرورش وپرداخت کرنے کی بات کہی تھی ، نہ کہ یہ کہاتھاکہ یہ بچہ نبی آخرالزماں بننے والاہے ۔ (۱۰)ابن جریرطبری نے اس واقعہ سے متعلق تمام رطب ویابس باتوں کوحذف کردیا ہے ،البتہ انہوں نے ابوموسی اشعری کے حوالے سے وہی روایت نقل کی ہے جسے ترمذی نے نقل کیاہے۔  (۱۱)

شام کا دوسرا واقعہ اور نسطوراسے ملاقات کی اصلیت

اسی نوعیت کادوسراواقعہ بھی ملک شام میں اس وقت پیش آیاجب کہ آپ صلى الله عليه وسلم کی عمر۲۵سال کی تھی۔  آپ کایہ سفربھی تجارت کی غرض سے ہواتھا۔ حضرت خدیجہ کامال لے کرجارہے تھے۔  آپ کے معاون کے طورپرحضرت خدیجہ نے اپنے غلام میسرہ کوساتھ کردیاتھا۔ (۱۲)جب یہ تجارتی قافلہ شام کے علاقہ بصری میں پہنچاتوسب لوگوں نے پڑاؤ ڈالا۔  دھوپ کی شدت سے بچنے کے لیے آپ ایک درخت کے نیچے آرام کرنے لگے ۔  اب کی بارنسطوراراہب اپنے خیمہ سے نکل کرقافلہ والوں کے پاس آیا۔ یہاں تک کہ اس نے میسرہ سے پوچھاکہ اس درخت کے نیچے آرام کرنے والاشخص کون ہے؟ اس نے کہاکہ مکہ کے قریش کاایک فرزند ہے۔  راہب نے کہاکہ آج تک اس درخت کے نیچے حضرت عیسی عليه السلام کے بعد کوئی دوسراآدمی نہیں بیٹھا،یہ کوئی غیرمعمولی آدمی نظرآتاہے۔ پھروہ حضورسے ملااورگفت و شنیدکی ۔  راہب آپ سے غیرمعمولی طورپر متاثر ہوا۔ بعض نشانیوں کودیکھ کر اورحضورکے عادات واطوارکوملاحظہ کرنے کے بعداسے یہ نتیجہ اخذکرنے میں دقت نہ ہوئی کہ یہ نبی آخرالزماں ہیں۔  مگریقینی بات کہنے کے لیے اس کے پاس کوئی مضبوط دلیل نہ تھی ۔  یہاں تک کہ حضوراپنی تجارت سے فارغ ہوئے اوروطن لوٹے۔ چوں کہ میسرہ ہروقت آپ کے ساتھ رہتے تھے،اس لیے وہ حضورکے افعال و گفتاراوراخلاق وکردارسے بہت متاثر ہوے۔ اس کا ذکرانہوں نے حضرت خدیجہ رضى الله تعالى عنها سے کیاتووہ بھی آپ کی قدرداں ہوگئیں۔  یہاں تک کہ حضرت خدیجہ نے آپ سے نکاح کی پیش کش کردی ۔

 ابن جریرطبری نے اس دوسرے سفرکے متعلق زیادہ تفصیلات بیان نہیں کی ہیں ۔  انہوں نے بس اتنالکھاہے کہ میسرہ سے راہب نے پوچھاکون یہ شخص ہے ۔ میسرہ نے مذکورہ باتیں بیان کردیں،اس پرراہب نے کہاکہ مانزل تحت ھذہ الشجرہ قط الانبی(۱۳) اس کے بعدانہوں نے تجارت سے واپسی اورمکہ پہنچنے کاذکرکیاہے ۔

ان واقعات کاکم زور پہلو

ان واقعات کے متعلق ایسی بہت سی باتیں بعض دوسری کتابوں میں جگہ پاگئیں ہیں جودرست معلوم نہیں ہوتیں۔  ان میں سے بعض باتیں یہ ہیں۔ ایک یہ کہ قافلے والے حضور کو سامان کی حفاظت کے لیے خیمہ میں چھوڑ کرراہب کی دعوت کھانے چلے گئے۔  لاکھوں کاسامان تجارت ایک بچہ کی نگرانی میں چھوڑکرجاناخلاف قیاس معلوم ہوتاہے۔ جب حضرت ابوطالب سفرکے لیے نکل رہے تھے تو حضور نے اپنے چچا کا دامن تھام لیا اور سفر میں ساتھ جانے پراصرار کرتے رہے ،بہ مشکل تمام ابوطالب اپنے ساتھ لے جانے پر راضی ہوئے۔ جب قافلہ والوں کی دعوت راہب نے کی توحضرت ابوطالب اپنے بھتیجہ کو غیرمامون جگہ پرتنہاچھوڑکرہرگزنہیں جاسکتے تھے ،وہ آپ کوضرور اپنے ساتھ لے کرجاتے۔  راہب نے لات وعزی کی قسم دے کر حضور سے کچھ معلومات حاصل کرناچاہاحضورنے کہا،لات و عزی کی قسم مجھے نہ دومجھے اس سے نفرت ہے ۔  تب اس نے کہاکہ اچھااللہ کے واسطے سے بتاؤ۔  پھرآپ نے راہب کے تما م سوالات کا ٹھیک ٹھیک جواب دیا۔ راہب نے آپ کی مہرنبوت کو ملاحظہ کیااورپہچان لیا کہ آپ ہی نبی آخرالزماں ہیں۔  اس کا اظہارراہب نے ابوطالب سے کیااور کہاکہ اس کی حفاظت کرنا، مبادا یہودپہچان لیں گے توانہیں قتل کرڈالیں گے۔  جیسے ہی ابوطالب نے بچہ کووہاں سے رخصت کیا سات شرپسندرومی حضور کوتلاش کرتے ہوئے خانقاہ میں پہنچ گئے اوراپناارادہ ظاہرکیاکہ ہم محمدکاقتل کرنے آئے ہیں۔ مگرراہب کے سمجھانے پروہ اپنے فعل سے بازآگئے۔  یہ اوراس طرح کی دوسری باتیں جواس واقعہ کے متعلق بیان کی جاتی ہیں بے بنیاداورمن گھڑت معلوم ہوتی ہیں۔

اس سے یہ بھی پتا چلتاہے کہ ۱۲/سال کی عمرمیں خود حضورکومعلوم ہوگیاتھاکہ آپ عنقریب نبی بنائے جانے والے ہیں۔  اسی طرح مکہ والے بھی جان گئے تھے کہ آپ ہی آخری نبی ہیں اوراس کی شہرت دوردورتک پھیل جانی چاہیے تھی ۔  اگرراہب کی باتوں کااعتبارکرلیاجائے توکم ازکم اس سفرکے بعدلوگوں نے آپ پرقاتلانہ حملہ کیوں نہیں کیا۔

اس سفرکے بعدآپ نے یقینا کئی اسفاربغرض تجارت کیے ہوں گے جس کی تفصیلات نہیں ملتیں ۔  لیکن بالکل اسی نوعیت کادوسراواقعہ بغرض تجارت جاتے ہوئے بصری کے مقام پر ظاہرہوااوراس وقت بھی اسی خانقاہ کے ایک راہب جونسطورا کہلاتاتھاکاواسطہ آپ سے پڑا اور اس نے بھی آپ کے نبی بنائے جانے کی تصدیق کی ۔ یہ بات توتسلیم کی جاسکتی ہے کہ اگریہ سفریقینی ہے توآپ نے ایک درخت کے نیچے آرام کیاہوگااورراہب نے کہاہوگاکہ حضرت عیسیٰ کے بعدسے لے کرآج تک کوئی دوسراآدمی اس درخت کے نیچے نہیں بیٹھا۔  مگریہ کہناصحیح نہیں معلوم ہوتاکہ اس کے نیچے بیٹھنے والاشخص ہی نبی آخرالزماں ہے ۔  علامہ زرقانی نے شرف المصطفی کے حوالے سے یہ بھی تحریرکیاہے کہ پھرنسطوراآپ کے قریب ہوااورآپ کے قدم چومے اورکہاکہ میں گواہی دیتاہوں کہ آپ اللہ کے رسول اورنبی امی ہیں،جس کی بشارت عیسی نے دی تھی اورکہاتھاکہ میرے بعداس درخت کے نیچے آپ کے سواکوئی نہ بیٹھے گا۔  (۱۴)واقعہ کی تفصیل میں یہ بات بھی ملتی ہے کہ میسرہ نے پورے راستے میںآ تے جاتے دیکھاکہ دو فرشتے مستقل آپ پرسایہ کیے رہتے ہیں۔  یہ کوئی غیرمعمولی واقعہ نہ تھا۔  اگر ایسا ہوتاتوآپخودتعجب کرتے اورقافلہ میں موجودلوگ حیرت میں پڑجاتے کہ آخر ماجرا کیا ہے؟

غیر معمولی باتوں کا اثرآپ صلى الله عليه وسلم پرکیوں نہیں ہوا؟

اگراس واقعہ میں صداقت ہوتی تویہ بات مکہ سے لے کرشام تک اورشام سے لے کے مکہ تک تومشہورہو ہی جاتی ،مگر روایات سے بس اتناپتاچلتاہے کہ میسرہ نے پورے راستہ اس منظرکوملاحظہ کیا۔  رہی بات راہب کے اس علامت کے ملاحظہ کرنے کی تویہ کوئی بعید بات نہیں ہے، کیوں کہ بعض لوگ اپنے علم اورریاضت کی وجہ سے بعض وقت اللہ کی نشانیوں کوملاحظہ کرلیتے ہیں۔  مگر پہلے تویہ ثابت ہوجائے کہ ایساہوابھی کہ نہیں۔  پھرجب حضورتجارتی سفرسے لوٹ کرمکہ میںآ ئے توخدیجہ نے اپنے بالاخانے سے دیکھاکہ حضوراونٹ پرسوارہیں اوردوفرشتے آپ پرسایہ کیے ہوئے ہیں اس منظرکوخدیجہ نے اپنی سہیلیوں کودکھایاجواس وقت موجودتھیں۔  اس پران لوگوں کوتعجب ہوا۔  میسرہ نے راستے کے عجائبات اورآپ کی کرامت وبزرگی کاتفصیل سے ذکرکیااورراہب کی بات بیان کی کہ آپ نبی آخرالزماں ہیں جس کی بشارت کتب سابقہ میں دی گئی ہے۔  ان باتوں کوسننے اورآپ کی کرامت وبزرگی کودیکھ کرحضرت خدیجہ نے اپنے آپ کوآپ سے منسوب کرنے کاپیغام بھیج دیاجسے آپ نے قبول بھی کرلیا۔ (۱۵)اس طرح کی باتوں سے توبالکل یہی معلوم ہوتاہے کہ اس باربھی آپ کو۱۵/ سال پہلے معلوم ہوگیاکہ آپ نبی بننے والے ہیں،جوصحیح نہیں ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ آپ شروع سے ہی نیک ،شریف اوراعلی اخلاق کے مالک تھے، لیکن خودآپ پر اپنا مقصد زندگی واضح نہیں تھا اور نہ آپ نے مسقبل کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار کیا تھا۔  ایک عام انسان کی طرح زندگی گزارتے تھے ۔ مگربنیادی فرق یہ تھاکہ آپ کائنات کی ہرچیز پر غور وفکر کرتے تھے اوروحدانیت کے تصورسے آپ کاسینہ سرشارتھا۔ اس لیے یہ بات کس طرح درست ہوسکتی ہے کہ جیساکہ علامہ زرقانی اورحافظ ابن حجرنے ابوسعید کے حوالے سے کہاکہ راہب آپ پرایمان لے آیاتھا۔ (۱۶)نبوت ملی نہیں ایمان لانے کا عمل کیسے واقع ہوگیا۔

 آیات قرآنی سے واقعہ کی تغلیط

مذکورہ دونوں اسفارمیں راہب سے علمی استفادہ کو درست ماناجائے توپھرقرآن کی مندرجہ ذیل آیتوں کاکیاجواب ہوگا،جس میں کہاگیاہے کہ آپ نبوت کی امیدلگائے ہرگزنہ بیٹھے تھے۔  ارشاد باری تعالی ہے :

”وَمَا کُنتَ تَرْجُو أَن یُلْقَی إِلَیْْکَ الْکِتَاب.“ (القصص:۸۶)

(اورآپ ہرگزاس کے امیدوارنہ تھے کہ آپ پرکتاب نازل کی جائے گی۔ )

ایک اورمقام پرآپ کی امیت کوواضح کرنے کے ساتھ فرمایاگیاہے کہ آپ کوکیامعلوم کہ کتاب اورایمان کیاچیزہوتی ہے ،اگراس بات کاپہلے سے علم ہوتاکہ آپ نبی بنائے جانے والے ہیں تویہ بڑی بات ہوتی ۔ ارشادباری تعالی ہے :

”مَا کُنتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتَابُ وَلَا الْإِیْمَانُ.“(الشوری:۵۲)

(تم نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیاہوتی ہے اورنہ یہ جانتے تھے کہ ایمان کیاہوتاہے)

آئندہ کے لیے اس طرح کی باتیں وہی شخص سوچ سکتاہے جوسماج کاسب سے اعلی فردہو۔  جیساکہ کفارو مشرکین کی گفتگو قرآن نے نقل کی ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کو اور دوسرا معزز آدمی نہیں ملا تھا کہ وہ اسے نبی بناتا۔ (زخرف:۳۰)پھردومرتبہ جب آپ پریہ بات واضح ہوگئی کہ آپ عنقریب نبی بنائے جانے والے ہیں،تو آپ کے دل میں اس کی امنگ پیدانہ ہوئی ناقابل فہم بات ہے۔  اگرایساہواتونعوذباللہ قرآن کی تصریحات غلط ہیں ۔  یاپھرقرآن نے جوکچھ کہاہے تواسے ہی صحیح ماناجائے اورماننابھی چاہیے تواس سفرمیں جوخرق عادات باتیں سامنے آتی ہیں وہ لغو ہیں ۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودی لکھتے ہیں:

”یہ واقعہ جس پرمستشرقین نے بہت سے قیاسات کی عمارت اٹھائی ہے اوران علوم کوجورسول ہونے کے بعدآپ سے ظاہرہوئے ،عیسائی را ہبوں سے حاصل کردہ معلومات قراردیاہے ۔ اس پرمزیدخودہمارے ہاں کی بعض روایات بھی ایسی ہیں جوایک حدتک ان قیاسات کوتقویت پہنچاتی ہیں۔ دراصل یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے کہ ایک زاہدمرتاض آدمی جس نے مجاہدوں سے اپنی روحانی قوتوں کو نشوونما دیاہو،کچھ غیرمعمولی برکات کے آثاردیکھ کرمحسوس کرلے کہ اس قافلہ میں کوئی عظیم شخصیت موجودہے ، اورآپ کودیکھ کراسے اپنے اندازوں کی تصدیق ہوگئی ہو۔ نیزاس نے اس خیال سے کہ یہودی ایک حاسدقوم ہیں اوروہ عرب کے امیوں میں کسی عظیم شخصیت کے ظہورکواپنے لیے خطرہ سمجھ کراس کے درپے آزار ہوسکتے ہیں،ابوطالب کوان سے بچانے کامشورہ دیاہو۔ لیکن یہ بات قابل تسلیم نہیں ہے کہ اس نے یہ سمجھ لیاکہ آپ ہی وہ ہونے والے نبی ہیں جن کے آنے کی خبرپچھلی کتابوں میں دی گئی ہے ،کیوں کہ پیشین گوئیوں سے یہ ضرورمعلوم ہوتا تھا کہ ایک نبی آنے والے ہیں اوران کانام محمدہوگا،لیکن تعیین کے ساتھ یہ معلوم کرلیناممکن نہ تھاکہ حضورہی وہ نبی ہیں“۔ (۱۷)

اسی واقعہ کے تناظرمیں شیخ محمدغزالی لکھتے ہیں:

”خواہ یہ واقعہ صحیح ہویاغلط،لیکن بعدمیں اس کاکوئی اثرنظرنہیںآ تا۔ نہ حضرت محمدنے نبوت کی توقع یااس کے لیے تیاری شروع کی ،نہ اہل قافلہ نے بعدمیں اس واقعہ کو پھیلایااو راس طرح بھول گئے جیسے کوئی واقعہ ہواہی نہیں تھا۔ “(۱۸)

علماء ومحدثین کے نزدیک تجارتی اسفاراورحدیث کی حقیقت

محدثین کی بیان کردہ روایات میں دیگرباتوں کے ساتھ ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ ان میں بیان کیاگیاہے کہ بحیرا راہب کے کہنے پرابوطالب نے اپنے بھتیجے کوحضرت ابوبکر اورحضرت بلال کی معرفت مکہ روانہ کردیا۔ اس وقت حضرت ابوبکرخودچھوٹے تھے اورحضرت بلال کاکوئی وجودنہیں تھا۔ اس بناپرعلامہ ذہبی نے لکھاہے کہ یہ واقعہ باطل ہے ۔  علامہ مبارک پوری تحریرکرتے ہیں علامہ ذہبی نے حدیث کے مذکورہ جملے کی وجہ سے اسے ضعیف قراردیاہے ،کیوں کہ ابوبکرنے بلال کواس وقت خریدابھی نہ تھا۔ امام ابن تیمیہ فر ما تے ہیں کہ اس وقت تک بلال کاوجودہی نہ تھا اوراگرتھاتواس وقت تک ابوبکریاابوطالب کے ساتھ نہیں تھے ۔ حافظ ابن کثیرفرماتے ہیں کہ اس حدیث کوترمذی ، حاکم ، بیہقی اور ابن عساکرنے بیان کیاہے اس میں بعض عجیب باتیں ہیں،یہ مرسلات صحابہ میں سے ہے اس لیے کہ حضرت ابوموسی اشعری جواس کے راوی ہیں غزوہ خیبرکے سال تشریف لائے تھے۔  اصطلاحات حدیث کی روسے یہ حدیث معلل ہے۔ (۱۹)اس کے برعکس حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں۔ اس میں اس جملے کے علاوہ کوئی نقص نہیں۔  اس بات کااحتمال ہے کہ یہ جملہ مدرج ہو۔  یعنی کسی دوسری منقطع روایت سے اس میں شامل ہوگیاہواوریہ کسی راوی کاوہم ہو۔ جب کہ علامہ شبلی نعمانی حافظ ابن حجر پرسخت تنقیدکرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”حافظ ابن حجررواة پرستی کی بناپراس حدیث کوصحیح تسلیم کرتے ہیں،لیکن چوں کہ حضرت ابوبکراوربلال کی شرکت بداہتاًغلط ہے ،اس لیے مجبوراً اقرارکرتے ہیں کہ اس قدرحصہ غلطی سے روایت میں شامل ہوگیاہے ، لیکن حافظ ابن حجرکایہ ادعابھی صحیح نہیں کہ اس روایت کے تمام روات قابل سندہیں۔ عبدالرحمن بن غزوان کی نسبت خودہی حافظ ابن حجر تہذیب التہذیب میں لکھاہے کہ” وہ خطاکرتاتھا،اس کی طرف سے اس وجہ سے شبہ پیداہوتاہے کہ اس نے ممالیک کی روایت نقل کی ہے “ ممالیک کی ایک روایت ہے ،جس کومحدثین جھوٹ اورموضوع خیال کرتے ہیں۔ “(۲۰)

واقعات میں جوخامی ہے اس کے علاوہ بھی اس روایت میں سندکے اعتبارسے کم زوری ہے،اس کی صراحت کرتے ہوئے علامہ شبلی لکھتے ہیں:

”اس حدیث کے آخیرراوی ابوموسی اشعری ہیں، وہ شریک واقعہ نہ تھے اوراوپرکے راوی کانام نہیں بتاتے۔ ترمذی کے علاوہ طبقات ابن سعدمیں جوسلسلہ سند مذکور ہے (وہ مرسل یامعضل ہے ۔ یعنی جوروایت مرسل ہے اس میں تابعی جوظاہرہے کہ شریک واقعہ نہیں ہے ،کسی صحابی کانام نہیں لیتاہے اورجوروایت معضل ہے ،اس میں راوی اپنے اوپر کے دوراوی جوتابعی اورصحابی ہیں دونوں کانام نہیں لیتا ہے)“(۲۱)

ان کے علاوہ اس حدیث میں جومزیدخامیاں ہیں اس پرعلامہ شبلی نے سخت کلام کیاہے ،جس کی روسے یہ حدیث قابل توجہ نہیں رہتی۔  اس صورت میں سفرشام میں راہب کی ملاقات اوراس کی نشان دہی بہ سلسلہ نبوت مشکوک ہوکررہ جاتی ہے۔  ترمذی کی مذکورہ روایت میں کئی اعتبارسے سقم پایاجاتاہے۔ اس میں بعض باتیں ایسی ہیں جوعقل وفہم کے خلاف نظرآتی ہیں۔ نیزاس میں واقعہ کے تسلسل اورترتیب کافقدان ہے۔  اس لئے بیش ترعلماء نے اس روایت پراعتمادنہیں کیاہے۔ شیخ محمد الغزالی لکھتے ہیں:

”محققین کے نزدیک یہ روایت موضوع ہے ،اس میں اس واقعہ سے مشابہت ہے جسے اہل انجیل بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسی کی ولادت کے فورابعدکچھ لوگ انہیں قتل کرنے لیے تلاش کررہے تھے اورعیسائیوں کے یہاں پایاجانے والایہ واقعہ اس واقعہ سے مشابہت رکھتاہے جسے بدھ مت کے پیروکاربیان کرتے ہیں کہ گوتم بدھ کی جب ولادت ہوئی تودشمنوں نے انہیں قتل کرنے کے لیے تلاش کیا۔ “(۲۲)

اس طرح کی روایات کوقبول کیوں نہیں کیاجاناچاہئے ،اس کی وجہ بتاتے ہوئے شیخ غزالی یہ بھی تحریرکرتے ہیں:

”علمائے سنت روایات کی تحقیق متن اور سند دونوں پہلو ؤ ں سے کرتے ہیں۔  اگر ان سے پختہ علم اورظن غالب حاصل نہ ہوتوان کی پرواہ نہیں کرتے ،پیغمبروں کی جانب بہت سی خرافات منسوب کردی گئی ہیں، اگر انہیں فن حدیث کے مقررہ قواعدکی کسوٹی پرپرکھاجائے توان کاکھوٹ ظاہرہوتاہے اوران کی بنا پر انہیں رد کرنا مناسب ہوتاہے ۔ “(۲۳)

اس حدیث کے الفاظ سے کسی سے مشابہت ہویانہ ہو، زیادہ اہم بات نہیں ہے ۔  بحث اس سے ہے کہ کیاچھوٹی عمرمیں خود حضور کو اپنے بارے میں اوراہل مکہ کوآپ کے نبی ہونے کاعلم ہوچکا؟ اگرہواتویہ معمولی بات نہیں تھی ،اس کی تیاری پہلے سے شروع ہوجانی چاہیے تھی اور پھر چالیس سال کے بعدنبی کی مخالفت کاجوبازارگرم ہواوہ نہ ہونا چاہیے تھا۔ جب کہ اہل مکہ کو دوسروں کی زبانی پہلے ہی آپ کی نبوت کاعلم ہوچکاتھااورآئندہ چل کر نبی کے ذریعہ کون کون سے کام انجام پائیں گے اس کی بھی وضاحت ہوگئی تھی ،توپھر حضور نے جس چیزکی دعوت دی اس کی مخالفت کرنے کے بجائے قبول کرنا چاہیے تھا۔ اگراس واقعہ کو صحیح سمجھ لیا جائے جیساکہ کچھ لوگوں نے صحیح سمجھاہے تومستشرقین کے اس اعتراض کاکیاجواب ہوگاجویہ کہتے ہیں کہ نبی کے ذہن میں توحیدپرستی اورواحدمطلق ہستی کی طرف میلان کا جو رجحان پیداہواوہ اسی راہب کی تعلیم کانتیجہ ہے ، اورحضورپہلے سے ہی نبوت کی امیدلگائے بیٹھے تھے ۔ کیا اس قسم کی باتیں حضور کی سیرت اور نبوت کے منافی نہیں ہیں۔ اس قسم کی روایت کی عدم صحت پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی لکھتے ہیں:

”سیرت ابن ہشام(۱/۱۸۰)باختصار،اس روایت کوطبری نے اپنی تاریخ (۲/۲۸۷) میں، بیہقی نے سنن میں اورابونعیم نے حلیہ میں روایت کیاہے ، ان کی تفصیل میں بعض وجوہ سے کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔  اس روایت کوامام ترمذی نے دوسرے اندازسے تفصیل سے نقل کیاہے ،لیکن شایدان کی سندمیں کچھ ضعف ہے ۔ اسی لیے انہوں نے خودبھی لکھاہے یہ حدیث حسن غریب ہے ،ہم اسے صرف اسی سندسے جانتے ہیں۔ اس کی سند میں ایک راوی عبدالرحمن بن غزوان ہے ، اس کے بارے میں’المیزان‘ میں صراحت ہے کہ اس سے بعض منکراحادیث مروی ہیں۔ ان میں سب سے منکرحدیث وہ ہے جواس نے یونس بن اسحاق سے روایت کی ہے اورجس میں نبی کی نوعمری میں ابوطالب کے ساتھ شام کے سفرکا بیان ہے اورابن سیدالناس نے لکھاہے کہ اس روایت کے متن میں بعض منکر باتیں ہیں۔ (دیکھئے عیون الاثر۱/۴۳) عجیب بات یہ ہے کہ اس کے باوجودشیخ ناصرالدین البانی نے (جنہوں نے شیخ محمدغزالی کی کتاب فقہ السیرة کی تخریج کی ہے )اس حدیث کے بارے میں لکھاہے :اس کی سندصحیح ہے ۔  انہوں نے امام ترمذی کاتبصرہ بھی مکمل نقل نہیں کیاہے ،بلکہ اس کاصرف اتناحصہ دیاہے ”یہ حدیث حسن ہے “حالاں کہ ان کی عادت ہے کہ وہ اس سے کہیں زیادہ صحیح حدیث کوبھی بسااوقات ضعیف قراردیدیتے ہیں۔  جہاں تک قدر مشترک کاتعلق ہے وہ بہت سے طرق سے ثابت ہے اوراس میں کوئی ضعف نہیں ہے ۔ “(۲۴)

مستشرقین کے دعویٰ کی کم زوری

روایتوں سے جونتیجہ اخذکیاجاسکتاہے وہ یہ کہ آپ نے متعدداسفارتجارت کی غرض سے کئے۔  انہیں اسفار میں آپ کی ملاقات اہل کتاب کے عالموں سے ہوئی۔ جہاں تک ان کی صحبت اختیارکرنے اوران سے علمی وروحانی استفادہ کی بات ہے ، ناقابل تسلیم ہے ۔ اگراس کومان بھی لیا جائے توپھرسوال پیداہوگاآپ نے اسی بات کی تعلیم دی جسے آپنے راہبوں سے سیکھا تھا تو پھر اس پرعیسائی عمل کیوں نہیں کرتے اوراس کی تکذیب کیوں کرتے اور کہتے ہیں کہ آپ نبی برحق نہیں تھے اور آپ نعوذباللہ عیوب کامجموعہ ہیں۔  قاضی محمدسلیمان سلمان منصورپوری لکھتے ہیں:

”پادری صاحبان نے اتنی بات پر”بحیرا نصرانی ملاتھا“یہ شاخ وبرگ اوربھی لگادئے کہ ۴۰سال کی عمرکے بعدجوتعلیم آں حضرت نے ظاہرکی تھی ،وہ اس راہب کی تعلیم کااثرتھا۔ میں کہتاہوں کہ اگرآں حضرت نے تثلیث اورکفارہ کارد،مسیح کے صلیب پرجان دینے کابطلان اس راہب کی تعلیم ہی سے کیاتھاتواب عیسائی اپنے اس بزرگ کی تعلیم کوقبول کیوں نہیں کرتے ۔ “(۲۵)

خاص طورپریہودی آخری نبی کی آمدکے منتظرتھے ۔ تاکہ ان کی رہنمائی اور تعاون سے ان عیسائیوں کو جن کے ظلم کی چکی میں وہ برسوں سے پس رہے تھے ،کیفرکردارتک پہنچاسکیں ۔ جیساکہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ جب ۱۲/سالہ بچے کوبحیراکے کہنے پرواپس مکہ بھیج دیاگیاتوٹھیک انہی دنوں ۷ رومی حضورکوتلاش کرتے ہوئے بحیراکی خانقاہ میں پہنچے تاکہ نبی آخرالزماں کاقتل کردیں۔  مگر انہوں نے ان کونہ پایااورراہب نے بھی ان لوگوں سے کہاکہ تم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے، کیوں کہ اللہ کایہی فیصلہ ہے ۔ اس کے بعدوہ اپنے ارادے سے پھرگئے ۔ اب قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ فرمائیں:

”وَکَانُواْ مِن قَبْلُ یَسْتَفْتِحُونَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُواْ فَلَمَّا جَاء ہُم مَّا عَرَفُواْ کَفَرُواْ بِہِ.“(البقرہ :۸۹)

(باوجودکہ اس کی آمدسے پہلے وہ خودکفارکے مقابلے میں فتح ونصرت کی دعائیں مانگاکرتے تھے ،مگرجب وہ چیزآگئی جسے وہ پہچان بھی گئے توانہوں نے اسے ماننے سے انکارکردیا۔ )

اس آیت کے حوالے سے قاضی محمدسلیمان سلمان منصورپوری لکھتے ہیں کہ :

”اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوگیاکہ بحیراراہب کاقول غلط تھا،کیوں کہ یہودی لڑکپن میںآ ں حضرت کوپہچان لیتے تواپنے اعتقادکے مطابق حضور کو اپنی فتح ونصرت کادیوتاسمجھ کر،نہایت خدمت گزاری کرتے “۔ (۲۵)

پہلی بارجب آپ نے شام کاسفرکیا،اس وقت آپ کی عمرزیادہ سے زیادہ ۱۲/سال کی تھی۔  (بعض روایت کے مطابق اس وقت آپ ۹/سال کے تھے۔ )اتنی چھوٹی عمرمیں ایک راہب سے علم وحکمت کی وہ ساری باتیں کیسے سیکھ لیں جن کا روئے زمین میں کوئی ثانی نہیں۔ وہ بھی چندمنٹوں یاگھنٹوں کی ملاقات میں۔ اس لیے مستشرقین کے یہ اعتراضات بے معنی ہوکر رہ جاتے ہیں کہ آپ نے راہبوں سے علمی فیض حاصل کیاتھا۔  جب کہ قرآن اورسابقہ کتابیں باربارکہتی ہیں کہ آپ امی تھے ۔ یہی نہیں بلکہ بعض مستشرقین نے تویہاں تک لکھا ہے کہ قرآن کااصل مصنف بحیراہے جس سے حضورنے اخذکیاہے ۔  چنانچہ اس ذہنی خرافات کے متعلق ڈاکٹرمحمدحمیداللہ لکھتے ہیں:

”کیایہ معجزہ رونماہوسکتاہے کہ نوسال کی عمرکاایک بچہ قرآن پاک کی ۱۱۴/سورتیں چندمنٹ میں حفظ کرلے اورپھرایک نسل کے بعدان قرآنی سورتوں کویہ کہہ کراپنی امت کے روبروپیش کرے کہ یہ اللہ کاکلام ہے ؟۔ “(۲۷)

شام کے سفرسے متعلق جورطب ویابس باتیں روایات میں داخل ہوگئیں ہیں ان کی تردید کرنے کے بعد ڈاکٹر محمد حمید اللہ لکھتے ہیں کہ کسی غیبی آثارکودیکھ کرراہب نے قافلہ والوں کی دعوت نہیں کی تھی بلکہ ان کے اچھے رویے اوربرتاؤسے متاثرہوکرراہب نے کھانے پرمدعو کیا تھا۔ اس کے بعدوہ اپنے شبہ کااظہاراس طرح کرتے ہیں کہ ”شایدوہ مذہب کی تبدیلی کے حوالے سے نیک ارادہ رکھتاہو۔ “(۲۸)

 علامہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:

”ہمارے عیسائی احباب اس ضعیف روایت پر اپنے شکوک وشبہات کی عظیم الشان عمارت قائم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پیغمبراسلام نے اسی راہب کی صحبت سے فیض حاصل کیا ۔ اگر یہ صحیح ہے تو دنیا کے لیے اس سے بڑا معجزہ محمد رسول اللہ کا اور کیا چاہیے کہ ایک ابجد ناآشنا طفل دوازدہ سالہ نے چند گھنٹوں میں حقائق واسرار دین،اصول عقائد ،نکات اخلاق، مہمات قانون اور ایک شریعت عظمی کی تکمیل وتاسیس کے طریقے سب کچھ سیکھ لیے۔ کیا ہمارے عیسائی دوست اس معجزہ کو تسلیم کرتے ہیں۔ “(۲۹)

حاصل بحث

مستشرقین نے حصول علم اورمعلومات کے ذرائع جن نصرانی عالموں کو قرار دیا ہے ۔  ورقہ بن نوفل بھی انہی میں سے ایک تھے جو مکہ میں رہتے تھے۔ اگربحیراراہب سے حضورکے تعلیمی سلسلہ کوجوڑاجاتاہے توورقہ کوخاص طورپراس بات کاعلم ہوتاکہ آپ نبی برحق ہیں،کیوں کہ وہ آپ کوحضرت خدیجہ سے شادی سے قبل سے ہی جانتے تھے ۔  پھرخدیجہ سے رشتہ داری کی بناپران سے بڑی حدتک قربت ہوگئی، لیکن جب حضورپرپہلی وحی کے نازل ہونے کے وقت جوکیفیت طاری ہوئی ،اسے خدیجہ رضى الله تعالى عنها کی وساطت سے ورقہ کے سامنے بیان کیا گیا۔ جسے سننے کے بعدانہوں نے کہاآپ نبی برحق ہیں اوریہ وہی ناموس ہے جوموسی پروحی لایاکرتاتھا۔ ورقہ نے اپنی سابقہ آسمانی کتابوں کی روشنی میںآ پ کے نبی ہونے کی تصدیق کی نہ کہ خبروں کوسن کر۔ قابل ذکربات یہ ہے کہ ورقہ کودونوںآ سمانی کتابوں کاعلم تھا۔ پہلے وہ یہودی تھے ،بعدمیں عیسائی ہوگئے تھے اوریہ عربی اور عبرانی زبان میں انجیل لکھتے تھے ۔ ان کتابوں کاگہراعلم رکھنے کے باوجودحضورکی علامات وکیفیات کوسن کراگروہ اس کے خلاف کوئی دوسری بات کہتے تو گو یا کہ وہ ایک حقیقت کوچھپانے کی کوشش کرتے اوراس سے یہ کہاں لازم آتاہے کہ حضورنے علمی فیض حاصل کیا۔  رہے بعض دوسرے اہل کتاب علماء وربیین ان سے آپ کی ملاقات برائے نام تھی اور خود حضور اتنے اعلی اخلاق کے مالک تھے کہ اپنے شدیددشمن سے بھی ملتے توخندہ پیشانی کامظاہرہ کرتے ۔  اسی طرح اہل کتاب کے بعض عالموں سے چاہے وہ غلام ہی کیوں نہ ہوں ملاقات ہوجاتی تو ان کی عظمت کابھی آپ پوراخیال کرتے تھے۔ لہذایہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ شروع سے ہی اللہ تبارک وتعالی خصوصی نہج پر آپ کی تربیت کررہاتھا اور آلائشوں سے آپ کے قلب ونظر اور فکر وخیال کومصفی کردیاتھا،اس لیے باطل افکارکے جذب کرنے کاکوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔  پھرجب آپ نبوت سے سرفرازکیے گئے توگوآپ امی تھے ،مگرآپ کوجو معلومات حاصل ہورہی تھیں وہ بواسطہ وحی ہورہی تھیں جسے فرشتہ وحی لے کرآتا اور بعض وقت براہ راست آ پ کے قلب اطہرمیں کوئی بات ڈال دی جاتی تھی ۔ جب یہ صورت ہوتولامحالہ یہ کہناپڑے گاکہ اللہ تعالی نے ایک امی پرہی نبوت کے سلسلہ کوختم کردیاتاکہ دنیایہ تسلیم کرلے کہ اللہ کی قدرت دنیاکی ساری چیزوں پرمحیط ہے اورجوکچھ دنیامیں ہوتاہے اورہوتارہے گاوہ سب اسی کے ایمااوراشارے سے ہوگا۔ رہے آپ کے بعض رفیق جوپہلے عیسائی تھے او ر بعد میں مسلمان ہوگئے یاآپ کا اپنی زوجہ مطہرہ ماریہ قبطیہ سے علم حاصل کرنامحض الزام اورتعصب ہے۔ ان میں کوئی اس لائق نہ تھاکہ وہ حضورصلى الله عليه وسلم کوعلمی فیض پہنچاسکے ۔ 
***
مآخذو مراجع

(۱)        شبلی نعمانی،سیرة النبی،ندوة المصنفین،شبلی اکیڈمی،اعظم گڑھ،۲۰۰۳ء،ج:۱،ص:۱۲۶
(۲)        ڈاکٹر التہامی نقرہ،مستشرقین اور قرآن،(عربی اسلامی علوم اور مستشرقین(مجموعہ مقالات عربی)مترجم:ڈاکٹر محمد ثناء اللہ ندوی)توحید ایجوکیشنل ٹرسٹ،کشن گنج،بہار، ۲۰۰۴ء، ص:۱۲،
(۳)        ابی عبداللہ محمد بن اسماعیل،صحیح البخاری،کتاب الوحی،باب کیف کان بدء الوحی
(۴)        ایضا،کتاب المناقب،باب عمرة القضا
(۵)        سید سلیمان ندوی،سیرة النبی،ندوة المصنفین،شبلی اکیڈمی،اعظم گڑھ،۲۰۰۳ء، ج:۳، ص:
(۶)        سید ابوالاعلیٰ مودودی،سیرت سرورعالم ،مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،نئی دہلی،۲۰۰۵ء، ج:۱، ص:۴۲۵ اورص:۶۵۰
(۷)        سیرة النبی،ج:۳،ص:۳۶۲
(۸)        محمد بن عیسیٰ الترمذی،جامع الترمذی،کتاب الماقب،باب ماجاء فی بدء نبوة النبی
(۹)        محمد بن اسحاق بن یسار،سیرت ابن اسحاق،ملی پبلیکیشنز،نئی دہلی،۲۰۰۹ء،ص:۸۶
(۱۰)      ابوالفداء اسماعیل بن کثیر،البدایہ والنہایة،دارالریان للتراث،قاہرہ،۱۹۸۸ء، ج:۱، جزو:۲،ص:۲۶۳-۲۶۴
(۱۱)      ابی جعفر محمد بن جریر الطبری،تاریخ طبری(تاریخ الرسل والملوک)دارالمعارف، قاہرہ، ۱۹۷۷/، ج:۲، ص:۲۷۸-۲۷۹۔
(۱۲)      ایضا،ص:۲۸۰
(۱۳)      محمد بن الباقی الزرقانی،شرح مواہب اللدنیہ،مطبعة الازہریة، مصر،۱۳۲۵ھ، ج:۱، ص:۱۹۵
(۱۴)      سیرت ابن اسحاق،ص:۶۸
(۱۵)      شرح مواہب اللدنیہ،ص:۱۹۵
(۱۶)      سیرت سرورعالم،ج:۲،ص:۸۵
(۱۷)      شیخ محمد الغزالی،فقہ السیرة،مطبعة حسان،قاہرہ،۱۹۷۶ء،ص:۶۸
(۱۸)      ایضا،ص:۶۹
(۱۹)      سیرة النبی،ج:۱،ص:۱۲۸
(۲۰)      ۱ایضا
(۲۱)      فقہ السیرة،ص:۶۹
(۲۲)      ایضا
(۲۳)      ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی،فقہ السیرة النبویة،دارالفکر المعاصر،بیروت لبنان، ۱۹۹۱ء، ص:۴۸
(۲۴)      قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری،رحمة للعالمین،فرید بک ڈپو،دہلی،۱۹۹۹ء، ج:۱، ص:۴۲
(۲۵)      ایضا
(۲۶)      ڈاکٹر محمد حمیداللہ،محمد رسول اللہ،فرید بک ڈپو،دہلی،۲۰۰۳ء،ص:۱۴-۱۵
(۲۷)      ڈاکٹر محمد حمیداللہ، پیغمبر اسلام،ملی پبلیکیسنز ،نئی دہلی،۲۰۰۹ء،ص:۵۹-۶۰
(۲۸)      سیرة النبی،ج:۳،ص:۳۶۲

* * *

قرآن کا تعارف ،قرآن سے

اگر کوئی شخص کتاب کا تعارف کراتا ہے تو پہلے اس کتاب کا نام،پھر اس کے مصنف کا اسم گرامی ،پھریہ کہ کتاب کونسی زبان میں ہے پھر اس کا موضوع، پھر تصنیف کرنے کا مقصد بیان کرے گا، ان سب باتوں کے بعد اس کتاب کا رتبہ اور فضائل بتائے گا ۔تو قرآن کریم کا تعارف بھی ان ہی باتوں سے ہوگا ۔

قرآن کے اسماء
اگر ہم قرآن سے پوچھیں (یعنی قرآن میں تلاش کریں)کہ تمہارا اسم گرامی کیا ہے ؟تو وہ جواب میں بتائے گا کہ میرا ایک نام نہیں، بلکہ میرے کئی نام ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:
٭... سب سے زیادہ مشہور نام”قرآن“ہے، جس کو اللہ نے اپنے کلام میں ستر مرتبہ ذکر کیا ہے۔پھر اللہ پاک نے اس لفظ قرآن کو کبھی مبین کے ساتھ موصوف کیا ہے، جیسے کہ سورة الحجر کی پہلی آیت میں آیاہے﴿وَقُرْآنٍ مُّبِیْن﴾ اور کبھی عظیم کے ساتھ موصوف کیا ہے جیسا کہ سورة الحجر کی آیت 87 میں ہے :﴿وَالْقُرْآنَ الْعَظِیْم﴾اور کبھی حکیم کے ساتھ موصوف کیا ہے،جیسا کہ سورة یاسین کی دوسری آیت میں ہے:﴿وَالْقُرْآنِ الْحَکِیْم﴾اور کبھی کریم کے ساتھ موصوف کیا ہے جیسا کہ سورة واقعہ کی آیت 77 میں ہے﴿إِنَّہُ لَقُرْآنٌ کَرِیْم﴾ اور کبھی عربی کے ساتھ موصوف کیا ہے، جیسے کہ سورة یوسف کی دوسری آیت میں ہے﴿إِنَّا أَنزَلْنَاہُ قُرْآناً عَرَبِیّاً﴾ اور کبھی عجب کے ساتھ موصوف کیا ہے، جیسے کہ سورة جن کی پہلی آیت میں ہے:﴿ إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآناً عَجَبا﴾اور کبھی یھدی کے ساتھ موصوف کیا ہے جیسے کہ سورة بنی اسرائیل کی آیت 9 میں ہے:﴿إِنَّ ہَذَا الْقُرْآنَ یِہْدِیْ لِلَّتِیْ ہِیَ أَقْوَم﴾اور کبھی مجید کے ساتھ موصوف کیا ہے، جیسے سورة بروج کی آیت 21 میں آیاہے:﴿بَلْ ہُوَ قُرْآنٌ مَّجِیْد﴾ ․
٭... دوسرا نام کتاب ہے، پھر لفظ کتاب کبھی الف لام سے معرفہ ہوگا، جیسے سورة بقرہ کی دوسری آیت میں ہے:﴿ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْْبَ فِیْہِ﴾ اور کبھی بغیر الف لام کے نکرہ ہوگا، جیسے سورہ بقرہ کی آیت 89 میں ہے:﴿وَلَمَّا جَاء ہُمْ کِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللّہ﴾ اس نام کے ساتھ بھی کبھی مبارک کی صفت لگی ہوگی۔جیسے سورة انعام کی آیت 92 میں ہے:﴿وَہَذَا کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ مُبَارَکٌ ﴾ اور کبھی مفصل کی صفت لگی ہوگی، جیسے سورة انعام کی آیت 114 میں ہے:﴿َہُوَ الَّذِیْ أَنَزَلَ إِلَیْْکُمُ الْکِتَابَ مُفَصَّلا﴾اور کبھی حکیم کی صفت لگی ہوگی، جیسے سورة یونس کی پہلی آیت میں ہے:﴿تِلْکَ آیَاتُ الْکِتَابِ الْحَکِیْم﴾ ۔اور کبھی مبین کی صفت لگی ہوگی، جیسے کہ سورة زخرف کی دوسری آیت میں ہے:﴿وَالْکِتَابِ الْمُبِیْن﴾اور کبھی منیر کی صفت لگی ہوگی، جیسے کہ سورة حج کی آٹھویں آیت میں ہے﴿یُجَادِلُ فِیْ اللَّہِ بِغَیْْرِ عِلْمٍ وَلَا ہُدًی وَلَا کِتَابٍ مُّنِیْر﴾اور کبھی عزیزکی صفت لگی ہوگی، جیسے کہ سورة حم سجدہ کی آیت 41 میں ہے ﴿وَإِنَّہُ لَکِتَابٌ عَزِیْزٌ﴾ اور کبھی متشابہ کی صفت لگی ہوگی، جیسے کہ سورة زمر کی، آیت 23 میں ہے﴿کتابا متشابھا﴾ ․
٭... تیسرا نام العلم ہے، جیسا کہ سورة بقرہ کی آیت 120 میں ہے﴿جَاء کَ مِنَ الْعِلْمِ ﴾ ۔
٭... چوتھا نام الفرقان ہے، جیسا کہ سورة اٰ ل عمران کی آیت 4 میں ہے﴿ وَأَنزَلَ الْفُرْقَان﴾
٭... پانچواں نام قصص الحق ہے، جیسا کہ سورة اٰل عمران کی آیت 62 میں ہے﴿إِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْقَصَصُ الْحَق﴾۔
٭... چھٹا نام حبل اللہ ہے جیسا کہ سورة اٰل عمران کی آیت 103 میں ہے﴿إِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْقَصَصُ الْحَق﴾۔
٭... ساتواں بیان نام ہے، آٹھواں ھدیً ہے، نواں موعظة ہے،جیسا کہ یہ تینوں نام اٰل عمران کی آیت 138 میں﴿ہَذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَہُدًی وَمَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِیْن﴾
٭... دسواں نام برہان ہے اور گیارہواں نور مبین ہے،جیسا کہ یہ دونوں سورة نساء کی آیت 174 میں ہیں﴿قَدْ جَاء کُم بُرْہَانٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَأَنزَلْنَا إِلَیْْکُمْ نُوراً مُّبِیْنا﴾۔
٭... بارہواں نام صراط مستقیم ہے،جیسا کہ سورة انعام کی آیت 126 میں ﴿وَہَذَا صِرَاطُ رَبِّکَ مُسْتَقِیْماً﴾
٭... تیرہواں نام بینة ہے، جیسا کہ سورة انعام کی آیت 157 میں ہے﴿ فَقَدْ جَاء کُم بَیِّنَةٌ مِّن رَّبِّکُمْ﴾
٭... چودہواں نام کلام اللہ ہے،جیسا کہ سورة توبہ کی چھٹی آیت میں ہے﴿ حَتَّی یَسْمَعَ کَلاَمَ اللّہ﴾۔
٭... پندرہواں شفاء ہے اور سولہواں رحمة ہے،جیسا کہ یہ دونوں نام سورة یونس کی آیت 57 میں ہیں﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَاء تْکُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَشِفَاء لِّمَا فِیْ الصُّدُورِ وَہُدًی وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ﴾
٭... سترواں نام فضل اللہ ہے، جیسا کہ سورة یونس کی آیت 58 میں ہے﴿قُلْ بِفَضْلِ اللّہِ﴾۔
٭... اٹھارواں نام بلاغ ہے جیسا کہ سورة ابراہیم کی آیت 56 میں ہے﴿ہَذَا بَلاَغٌ لِّلنَّاس﴾ ۔
٭... انیسواں نام الروح ہے ،جیسا کہ سورة النحل کی دوسری آیت میں ہے﴿یُنَزِّلُ الْمَلآئِکَةَ بِالْرُّوحِ﴾۔
٭... بیسواں نام ذکر ہے، جیسا کہ سورة انبیاء کی آیت 50 میں ہے﴿وَہَذَا ذِکْرٌ مُّبَارَکٌ أَنزَلْنَاہ﴾۔
٭... اکیسواں نبأعظیم ہے جیسا کہ سورة ص کی آیت 67 میں ہے ﴿قُلْ ہُوَ نَبَأٌ عَظِیْمٌ ﴾۔
٭... بائیسواں نام احسن الحدیث ہے ،جیسا کہ سورة الزمر کی آیت 23 میں ہے ﴿اللَّہُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیْثِ﴾۔
٭... تئیسواں نام صدق ہے، جیساکہ سورة الزمر کی آیت 33 میں ہے ﴿وَالَّذِیْ جَاء بِالصِّدْقِ﴾
٭... چوبیسواں نام بصائر ہے،جیسا کہ سورة الجاثیہ کی، آیت 20 میں ہے﴿ہَذَا بَصَائِرُ لِلنَّاس﴾۔
٭... پچیسواں نام حکمة بالغة ہے ،جیسا کہ سورة القمر کی آیت5 میں ہے ﴿حِکْمَةٌ بَالِغَةٌ فَمَا تُغْنِ النُّذُر﴾۔
٭... چھبیسواں نام تذکرہ ہے، جیسا کہ سورة الحاقہ کی آیت 48 میں ہے﴿وانہ لتذکرة للمتقین﴾۔
٭... ستائیسواں نام قول فصل ہے، جیساکہ سورة طارق کی آیت13 میں ہے﴿ انہ لقول فصل﴾ ۔

تنبیہ1. قرآن کے ان اسماء میں سے اصل نام دو ہیں ایک ”قرآن“ یہ جمالی نام ہے، دوسرا” فرقان “یہ جلالی نام ہے۔ باقی سارے اسماء ان کی فرع ہیں
تنبیہ2.  یہ بھی ایک قاعدہ ہے کہ جس چیز کے بہت سے نام ہوں یہ اس کے عظیم الشان ہونے پر دلالت کرتا ہے۔

قرآن اللہ کا کلام ہے
اگر ہم قرآن سے پوچھیں کہ آپ کس کا کلام ہیں؟ مشرکین عرب تو کہتے ہیں کہ قرآن محمد بن عبداللہ کا بنایا ہوا ہے یا کسی اور شخص نے لکھوایا ہے اس لیے یہ شعر ہے یا سحر ہے یا کہانت ہے ۔ آپ بتائیں، کہ حقیقت کیا ہے؟تو قرآن کریم ان سب باتوں کی تردید بہت سے دلائل سے کرے گا۔

ایک دلیل یہ کہ قرآن عربی زبان میں ہے اور مشرکین بھی عرب ہیں اور فصاحت و بلاغت کے اعلی مقام پر فائز ہیں تو اگر قرآن محمد بن عبداللہ نے خود بنایا ہے تو وہ بھی قرآن جیسی کتاب بنا لائیں، مگر یہ لوگ قرآن کی طرح کتاب نہیں بنا سکتے تو معلوم ہوا کہ یہ اللہ کا کلام ہے کسی بشر کا نہیں ۔قرآن پاک نے پوری دنیاکے کفار کو قرآن کے ساتھ مقابلہ کرنے کی دعوت دی ہے کہ تم سب مل کر قرآن جیسی کتاب بناؤ، جیسا کہ فرمان الہٰی ہے﴿قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَی أَن یَأْتُواْ بِمِثْلِ ہَذَا الْقُرْآنِ لاَ یَأْتُونَ بِمِثْلِہِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرا﴾ (بنی اسرائیل:88)”کہہ دو اگر سب آدمی اور سب جن مل کر بھی ایسا قرآن لانا چاہیں تو نہیں لا سکتے، اگر چہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا مددگار کیوں نہ ہو“۔پھر اللہ نے قرآن کے منکرین کو اس تحدی میں سہولت دی کہ اگر پورا قرآن نہیں بنا سکتے ہو تو دس سورتیں بنا لاؤ، فرمایا : ﴿أَمْ یَقُولُونَ افْتَرَاہُ قُلْ فَأْتُواْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہ مُفْتَرَیَاتٍ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللّہِ إِن کُنتُمْ صَادِقِیْنَ، فَإِن لَّمْ یَسْتَجِیْبُواْ لَکُمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّمَا أُنزِلِ بِعِلْمِ اللّہ﴾(سورة ھود :14-13) ”کیا کہتے ہیں کہ تونے قرآن خود بنالیا ہے کہ دو تم بھی ایسی دس سورتیں بناؤ اور اللہ تعالیٰ کے سوا جس کو بلا سکو بلا لاؤ اگر تم سچے ہو ۔پھر اگر تمہارا کہنا پورا نہ کریں تو جان لو کہ قرآن اللہ کے علم سے نازل کیا گیا ہے “۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے منکرین کے لیے قرآن کے ساتھ مقابلہ کرنا بہت آسان کردیا کہ اگر تم دس سورتیں بھی نہیں بنا سکتے ہو تو ایک سورة بناؤ ،فرمایا:﴿وَإِن کُنتُمْ فِیْ رَیْْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِہِ وَادْعُواْ شُہَدَاء کُم مِّن دُونِ اللّہِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ ، فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ وَلَن تَفْعَلُواْ فَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِیْ وَقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْنَ﴾ (بقرة:24-23) ”اگر تمہیں اس چیز میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو ایک سورة اس جیسی لے آؤ اور اللہ کے سوا جس قدر تمہارے حمایتی ہوں بلالو اگر تم سچے ہو۔ بھلا اگر ایسانہ کر سکو اور ہر گز نہیں کرسکتے تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے“۔

تو اللہ تعالیٰ نے ابتدا میں پورے قرآن سے تحدی کی،پھر دس سورتوں سے ،پھر ایک سورة سے، گویا ان کا عجز بتدریج نمایا ں کیا۔

دوسری دلیل یہ پیش کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُمی (بے پڑھے)ہیں نہ خط لکھ سکتے ہیں نہ پڑھ سکتے ہیں۔ فرمایا :﴿فَآمِنُواْ بِاللّہِ وَرَسُولِہِ النَّبِیِّ الأُمِّی﴾(اعراف :158)”سو اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے نبی امی (بے پڑھے)پر“اور امی کی تفسیر یہ فرمائی ہے :﴿وَمَا کُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِہِ مِن کِتَابٍ وَلَا تَخُطُّہُ بِیَمِیْنِکَ إِذاً لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُون﴾ (عنکبوت:48) ”اور اس سے پہلے نہ تو کوئی کتاب پڑھتا تھا اور نہ اس دائیں ہاتھ سے لکھتا تھا، تب تو یہ باطل پرست شک کرتے “تیسری دلیل یہ پیش کی :﴿وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّہُمْ یَقُولُونَ إِنَّمَا یُعَلِّمُہُ بَشَرٌ لِّسَانُ الَّذِیْ یُلْحِدُونَ إِلَیْْہِ أَعْجَمِیٌّ وَہَذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْن﴾․(النحل:103)”اور ہمیں خوب معلوم ہے وہ کہتے ہیں اسے تو ایک آدمی سکھاتا ہے، حالاں کہ جس آدمی کی طرف نسبت کرتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے اور یہ (قرآن)عربی زبان ہے۔“ مذکورہ آیت کا شان نزول یہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں بلعام نامی ایک رومی غلام رہتا تھا ،وہ اسلام لایا تو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اسلامی احکام کی تعلیم فرمایا کرتے تھے، لیکن مشرکین نے یہ مشہور کردیا کہ وہ رومی غلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن سکھاتا ہے ۔اللہ نے مشرکین کے اس طعن کا، جو محض عناد پر مبنی تھا، نہایت معقول جواب دیاکہ جس غلام کی طرف وہ تعلیم قرآن کی نسبت کرتے ہیں اس کی زبان تو عجمی ہے اور یہ قرآن صاف اور سلیس عربی میں ہے تو قرآن اس عجمی کا کلام کس طرح ہوسکتا ہے۔

چوتھی دلیل یہ پیش کی :﴿أَفَلاَ یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِندِ غَیْْرِ اللّہِ لَوَجَدُواْ فِیْہِ اخْتِلاَفاً کَثِیْرا﴾(النساء :82)”کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اور اگر یہ قرآن اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت اختلافات پاتے“اختلاف سے مراد یا تو یہ ہے کہ قرآن کے بیان کردہ امور نفس الامر سے مختلف ہوتے ۔مگر قرآن کے بیان کردہ امور سب حقائق ہیں ،کوئی بھی خلاف واقع نہیں ہے۔یا اختلاف کا مقصد یہ ہے کہ قرآن کے مضامین میں کوئی باہمی تناقض ہو تا،حالاں کہ قرآن کے مضامین میں کہیں بھی کوئی تناقص نہیں ہے۔ یا اختلاف سے مراد یہ کہ قرآن کی فصاحت و بلاغت میں اختلاف ہوتا، یعنی کسی جگہ بلاغت موجود ہوتی اور کسی جگہ موجودنہ ہوتی لیکن بلاغت کے اعتبار سے قرآن میں اختلاف نہیں ہے قرآن از اول تا آخر فصیح و بلیغ ہے، جب قرآن کے بیان کردہ امور بالکل واقعہ کے موافق ہیں اور قرآن کے مضامین میں کوئی تضاد و تناقص نہیں ہے اور قرآن میں فصاحت وبلاغت یکساں ہیں اس میں ہستی ونیستی کا کوئی اختلاف نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ قرآن یقینا بلا شک و شبہ اللہ کا کلام ہے۔اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بنایا ہوا ہوتا تو اس میں مذکورہ تینوں باتیں ضرور پائی جاتیں۔

پانچویں دلیل یہ پیش کی ہے :﴿وَمَا عَلَّمْنَاہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنبَغِیْ لَہُ إِنْ ہُوَ إِلَّا ذِکْرٌ وَقُرْآنٌ مُّبِیْن﴾(یٰس :69)”اور ہم نے نبی کو شعر نہیں سکھایا اور نہ یہ اس کے مناسب ہی تھا یہ تو صرف نصیحت اور واضح قرآن ہے“۔ نیز فرمایا:﴿وَمَا ہُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ﴾(الحاقہ:41)”اور وہ کسی شاعر کا قول نہیں ہے“ان آیتوں میں مشرکین کے اس شبہ کا جواب ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم شاعر ہیں اور یہ قرآن شعر ہے ۔تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے اپنے پیغمبر کو شاعری کا علم نہیں سکھلایا اور نہ شاعر ی آپ کے شایان شان ہے۔جب آپ شاعر نہیں تو یقینی بات ہے کہ قرآن شعر نہیں ہے تو آپ کے شاعرنہ ہونے کے باوجود ایسا بے مثل اور معجز کلام پیش کرنا، جو بشر کی استطاعت سے باہر ہو، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔مذکورہ شبہ کا جواب اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے انداز میں دیا ہے، وہ یہ ہے :﴿أَمْ یَقُولُونَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِہِ رَیْْبَ الْمَنُونِ، قُلْ تَرَبَّصُوا فَإِنِّیْ مَعَکُم مِّنَ الْمُتَرَبِّصِیْن﴾(طور:31-30)”کیا وہ کہتے ہیں کہ وہ شاعر ہے ہم اس پر گردش زمانہ کا انتظار کرتے ہیں ۔کہ دو تم انتظار کرتے رہو، بیشک میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں۔“یعنی معاندین تو کبھی کہتے ہیں کہ وہ شاعر ہے جب تک زندہ ہے اس کے اشعار کو عروج ہے اور ہم اس کی موت کے منتظر ہیں، جوں ہی اس نے آنکھیں بندکیں یہ سارا کھیل ختم ہوجائے گا۔اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ موت تو سب پر آئے گی، اس لیے میں بھی انتظار کرتا ہوں کہ عزت کی موت کس کی ہوگی ؟

چھٹی دلیل یہ پیش کی کہ اگر بالفرض نبی اپنی طرف سے گھڑی ہوئی باتیں میری طرف منسوب کریں تو میں اس کو سخت سزا دوں گا ۔فرمایا: ﴿وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِیْلِ لَأَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ فَمَا مِنکُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْہُ حَاجِزِیْنَ﴾ (الحاقہ:44)”اور اگر وہ کوئی بناوٹی بات ہمارے ذمہ لگاتا تو ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے، پھر ہم اس کی رگ گردن کاٹ ڈالتے، پھر تم میں سے کوئی بھی اسے روکنے والا نہ ہوتا“۔

ساتویں دلیل یہ پیش کی :﴿فَذَکِّرْ فَمَا أَنتَ بِنِعْمَتِ رَبِّکَ بِکَاہِنٍ وَلَا مَجْنُون﴾(طور:29)”پس نصیحت کرتے رہیے کہ آپ اپنے رب کے فضل سے نہ کاہن ہیں ،نہ دیوانے“۔جب آپ کاہن نہیں ہیں تو قرآن کہانت نہیں ہوگا، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :﴿وَلَا بِقَوْلِ کَاہِنٍ﴾ (الحاقہ 42) ”اور نہ ہی (یہ قرآن )کسی کاہن کا قول ہے“یہ منکرین قرآن کا اس شبہ کا ازالہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاہن ہیں اور قرآن کہانت ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید فرمائی کہ نہ آپ کاہن ہیں اور نہ قرآن کہانت ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی نعمت سے نوازا ہے، یعنی نبوت عطا فرمائی ہے اور یہ قرآن وحی ہے ،جو نبی ہی پر نازل ہوتا ہے۔

آٹھویں دلیل یہ پیش کی:مشرکین کہتے تھے کہ جب تک آپ آسمانوں پر جاکر وہاں سے لکھی ہوئی کتاب نہ لے آئیں اس وقت تک ہم ایمان نہیں لائیں گے تو اس کا جواب یہ دیا گیا﴿وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْْکَ کِتَاباً فِیْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوہُ بِأَیْْدِیْہِمْ لَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ إِنْ ہَذَا إِلاَّ سِحْرٌ مُّبِیْنٌ﴾ (الانعام:7)”اور اگر ہم تم پر کوئی کاغذ پر لکھی ہوئی کتاب بھی اتار دیتے او لوگ اپنے ہاتھوں سے چھوکر بھی دیکھ لیتے تب بھی کافر یہی کہتے کہ یہ تو صریح جادو ہے۔“مقصد یہ کہ ان لوگوں نے صرف ضد و عناد کی بنا پر قرآن کو جادو کہہ کر انکار کیا ،ورنہ ان کے پاس قرآن کے جادو ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿وَلَمَّا جَاء ہُمُ الْحَقُّ قَالُوا ہَذَا سِحْرٌ وَإِنَّا بِہِ کَافِرُونَ ، وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ ہَذَا الْقُرْآنُ عَلَی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْْنِ عَظِیْمٍ﴾(الزخرف:31-30)”اور جب ان کے پاس سچا قرآن پہنچا تو کہا کہ یہ تو جادو ہے اور ہم اسے نہیں مانتے ہیں اور کہا کہ کیوں یہ قرآن ان دو بستیوں کے کسی سردار پر نازل نہیں کیا گیا؟“

اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے دیا :﴿أَہُمْ یَقْسِمُونَ رَحْمَةَ رَبِّکَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْْنَہُم مَّعِیْشَتَہُمْ فِیْ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَتَّخِذَ بَعْضُہُم بَعْضاً سُخْرِیّاً وَرَحْمَتُ رَبِّکَ خَیْْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُون﴾(الزخرف:32)”کیا وہ بانٹتے ہیں تیرے رب کی رحمت (جب کہ )دنیا کی زندگی میں ان کی روزی ہم نے تقسیم کی ہے اور ہم نے بعض کے بعض پر درجے بلندکیے تاکہ ایک دوسرے کو محکوم بنا کر رکھیں اور آپ کے رب کی رحمت اس سے کہیں بہتر ہے جووہ جمع کرتے ہیں۔“ مقصد یہ کہ میری رحمت جس کافرد اعلیٰ نبوت ہے ،کیا یہ ان کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چا ہیں دے دیں؟ ہر گز نہیں، بلکہ:﴿اللّہُ أَعْلَمُ حَیْْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہُ﴾(الانعام 124) ”اللہ بہتر جانتا ہے کہ اپنی پیغمبری کا کام کس سے لے“۔

نویں دلیل:اللہ تعالیٰ نے اس بات پر کہ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے اپنی گواہی اور فرشتوں کی گواہیاں پیش کی ہیں، فرمایا:﴿اللّہُ یَشْہَدُ بِمَا أَنزَلَ إِلَیْْکَ أَنزَلَہُ بِعِلْمِہِ وَالْمَلآئِکَةُ یَشْہَدُونَ وَکَفَی بِاللّہِ شَہِیْدا﴾ (النساء166) ”اللہ شاہد ہے اس پر جو تجھ پر نازل کیا کہ نازل کیا ہے اپنے علم کے ساتھ اور فرشتے بھی گواہ ہیں اور اللہ گواہی دینے والا کافی ہے“۔ اور دنیا میں یہ اصول مسلم ہے کہ ثقہ گواہوں سے دعویٰ ثابت ہو تا ہے اور سب سے زیادہ ثقہ گواہی اللہ تعالیٰ کی ہے، اس لیے فرمایا ﴿وکفی بالله شھیدا﴾ اسی اصول کی بنا پر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دعویٰ کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جو مجھ پر وحی کے ذریعہ نازل ہو ا ہے، بالکل حق اور سچ ہے۔

مذکور ہ دلائل سے منکرین قرآن کے سارے شکوک و شبہات رفع ہو کر یہ بات یقینی طور ثابت ہوگئی کہ قرآن اللہ کا کلام ہے، جیساکہ ارشاد ربانی ہے کہ: ﴿ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْْبَ فِیْہ﴾(بقرہ 1)”یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں ہے“یعنی اس بات میں شک نہیں کہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے ۔

قرآن عربی زبان میں ہے
اگر قرآن سے پوچھا جائے کہ آپ کونسی زبان میں نازل ہوئے ہیں؟ تو قرآن جواب میں بہت سی ایسی آیتوں کو پیش کرے گا جن میں تصریح ہوئی ہے کہ قرآن عربی میں اترا ہے ۔مثلاً:﴿إِنَّا أَنزَلْنَاہُ قُرْآناً عَرَبِیّاً ﴾․(یوسف 2) ﴿أَنزَلْنَاہُ قُرْآناً عَرَبِیّاً﴾․(طٰہٰ 113)﴿قُرآناً عَرَبِیّاً غَیْْرَ ذِیْ عِوَج﴾․ (الزمر28) ﴿وَکَذَلِکَ أَوْحَیْْنَا إِلَیْْکَ قُرْآناً عَرَبِیّا﴾․(الشوریٰ 2)﴿إِنَّا جَعَلْنَاہُ قُرْآناً عَرَبِیّاً﴾․(الزخرف 3)وغیرہ․․․․․اس سے معلوم ہوا کہ عربی ساری زبانوں میں بہتر زبان ہے، کیوں کہ اگر عربی سے کوئی اور بہتر زبان ہوتی تو اللہ تعالیٰ قرآن کو اس زبان میں نازل فرماتے ،مگر جب اللہ تعالیٰ نے قرآن کے لیے ساری زبانوں میں سے عربی کو منتخب کیا اس وجہ سے عربی کو ”ملکة الالسنة“کہتے ہیں اور اصول فقہ میں قرآن کی تعریف کی تکمیل ان الفاظ سے ہوئی ہے ھو اسم للنظم والمعنیٰ جمیعا (حسامی،منار) یعنی قرآن نظم و معنی دونوں کا نام ہے، اسی بنا پر فقہاء نے ایک مسئلہ استنباط کیا ہے:کہ عربی قرآن کے تحت کسی زبان میں ترجمہ کرناتو جائز ہے، مگر بغیر عربی کے کسی زبان میں قرآن کا ترجمہ جائز نہیں ہے، کیوں کہ پھر تو قرآن عربی نہیں رہے گا، بلکہ عجمی بن جائے گا ،حالاں کہ قرآن عربی زبان میں ہے۔

قرآن کا موضوع
دنیا میں جتنے علوم ہیں اور ان علوم کے جتنے موضوعات ہیں وہ سارے قرآن کے موضوعات ہیں، کیوں کہ سارے علوم کا منبع قرآن ہے، جیسا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿وَنَزَّلْنَا عَلَیْْکَ الْکِتَابَ تِبْیَاناً لِّکُلِّ شَیْْء ٍ﴾ (النحل 89)”اور ہم نے تجھ پر ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جس مین ہرچیز کا کافی بیان ہے۔ “مگر یہاں قرآن کے موضوع سے مراد وہ مرکزی مضمون ہے جو تمام قرآن کے لیے بمنزلہ محور ہوتا ہے اور قرآن کے باقی مضامین اس کے اردگرد چکر لگاتے ہیں تو قرآن پاک میں ایسے مرکزی مضامین چار ہیں توحیدرسالتقیامتاحکام۔اس کے علاوہ قرآن میں جو قصص و امثال اور تذکیر بایام اللہ وغیرہ بیان ہوئے ہیں وہ سب ان ہی چار مضامین کے اثبات و توضیح کے لیے ہیں۔چوں کہ قرآن کے مرکزی مضامین یہی چار ہیں اسی بنا پر یہی چار مضامین قرآن کا موضوع ہے۔

قرآن کے نزول کی غرض وغایہ
اگر ہم قرآن سے پوچھیں کہ آپ کے نزول کی غرض وغایہ کیا ہے؟

تو قرآن جواب میں کہے گا کہ میرے نزول کے بڑے مقاصد چھ ہیں:
پہلا مقصد ہدایت ہے، یعنی لوگوں کو سیدھا راستہ بتانا، جیسے کہ ارشاد باری ہے :﴿ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْْبَ فِیْہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْن﴾(البقرہ 2)․ ﴿شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاس﴾(البقرہ 185)․ ﴿إِنَّ ہَذَا الْقُرْآن یِہْدِیْ لِلَّتِیْ ہِیَ أَقْوَم﴾(بنی اسرائیل 9)۔

دوسرا مقصد انذار ہے، یعنی مجرموں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانا، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿وَأُوحِیَ إِلَیَّ ہَذَا الْقُرْآنُ لأُنذِرَکُم بِہِ وَمَن بَلَغ﴾(الانعام19)۔﴿وَہَذَا کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ مُبَارَکٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْْنَ یَدَیْْہِ وَلِتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَی وَمَنْ حَوْلَہَا﴾(الانعام 92)۔

تیسرا مقصد لوگوں کو شرک وبدعت اور فسق و فجور کے اندھیروں سے نکالنا اور توحید و سنت اور اعمال صالحہ و اخلاق حسنہ کی روشنی میں لاکر کھڑا کرنا ہے، جیسے اللہ جل جلالہ کا فرمان ہے﴿کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ﴾(ابراہیم 1)۔

چوتھا مقصد یہ کہ قرآن کے ذریعہ لوگوں کے دعووں کا انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَیْْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْْنَ النَّاس﴾(النساء 105)بے شک ہم نے تیری طرف سچی کتاب اتاردی ہے، تاکہ لوگوں میں (انصاف کے ساتھ )فیصلے کرے۔

پانچواں مقصد وعظ و نصیحت ہے، فرمایا:﴿کِتَابٌ أُنزِلَ إِلَیْْکَ فَلاَ یَکُن فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ لِتُنذِرَ بِہِ وَذِکْرَی لِلْمُؤْمِنِیْن﴾(الاعراف 2)۔ ”یہ کتاب تیری طرف بھیجی گئی ہے، تاکہ تو اس کے ذریعے ڈرائے، اس سے تیرے دل میں تنگی نہ ہونی چاہیے، یہ ایمان والوں کے لیے نصیحت ہے“۔

چھٹا مقصد روحانی بیماریوں کے لیے شفا ہے، فرمایا:﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَاء تْکُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَشِفَاء لِّمَا فِیْ الصُّدُورِ﴾ (یونس 57) ”اے لوگو!تمہارے پاس آیا اللہ کی طرف سے وعظ اور شفا ،ان بیماریوں کے لیے، جو تمہارے سینوں میں ہیں۔

قرآن جبرائیل امین لائے ہیں
اگر ہم قرآن سے پوچھیں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کون لایا ہے ؟کیا وہ لانے والا معتمد بھی ہے؟تو قرآن جواب میں کہے گا کہ مجھے جبریل لائے ہیں جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :﴿نَزَلَ بِہِ الرُّوحُ الْأَمِیْنُ﴾(الشعراء 193)”امانت دار فرشہ لے کر آیا ہے۔“اور جبریل فرشتوں کے سردار،بہت قوت والے اور انتہائی امانت دار ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت معزز و مقرب ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی ان چار صفات کا ذکر یوں فرمایا ہے :﴿إِنَّہُ لَقَوْلُ رَسُولٍ کَرِیْمٍ ذِیْ قُوَّةٍ عِندَ ذِیْ الْعَرْشِ مَکِیْن مُطَاعٍ ثَمَّ أَمِیْنٍ﴾․(التکویر 21-19)”بے شک یہ قرآن ایک معزز پیغمبر کا لایا ہوا ہے، جوبڑا طاقت ور ہے ،عرش کے مالک کے نزدیک بڑے رتبہ والا ہے، وہاں کا سردار امانت دار ہے۔“اسی بنا پر اگر کوئی شخص جبریل سے دشمنی کرتا ہے، تو وہ اللہ کا دشمن سمجھا جاتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿قُلْ مَن کَانَ عَدُوّاً لِّجِبْرِیْلَ فَإِنَّہُ نَزَّلَہُ عَلَی قَلْبِکَ بِإِذْنِ اللّہِ مُصَدِّقاً لِّمَا بَیْْنَ یَدَیْْہِ وَہُدًی وَبُشْرَی لِلْمُؤْمِنِیْنَ ،مَن کَانَ عَدُوّاً لِّلّہِ وَمَلآئِکَتِہِ وَرُسُلِہِ وَجِبْرِیْلَ وَمِیْکَالَ فَإِنَّ اللّہَ عَدُوٌّ لِّلْکَافِرِیْنَ﴾(البقرہ 98-97) ”کہہ دو جو کوئی جبرائیل کا دشمن ہو ،سو اسی نے اتارا ہے وہ قرآن، اللہ کے حکم سے، آپ کے دل پر، ان کی تصدیق کرتا ہے جو اس سے پہلے ہیں اور ایمان والوں کے لیے ہدایت اور خوش خبری ہے۔جو شخص اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبرائیل اور میکائیل کا دشمن ہو توبے شک اللہ بھی ان کافروں کا دشمن ہے۔“

قرآن سرور کونین پر اتارا گیا ہے
اگر ہم قرآن سے پوچھیں کہ آپ کو جس پر اتارا ہے وہ کون ہے؟ اور کیسا ہے؟تو قرآن کہے گا کہ مجھے محمد رسول اللہ پر اتارا گیا ہے، جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سارے انسانوں سے بہتر ہے جن کی بہت سی خصوصی صفات ہیں ،جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
٭...آپ ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا مصداق ہیں، وہ دعا یہ ہے : ﴿رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ آیَاتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَیُزَکِّیْہِمْ إِنَّکَ أَنتَ العَزِیْزُ الحَکِیْم﴾․ (البقرة129) ”اے ہمارے رب! ان میں ایک رسول انہیں میں سے بھیج ! جوان پر تیری آیتیں پڑھے اور انہیں کتاب اور دانائی سکھائے اور انہیں پاک کرے،بے شک تو ہی غالب، حکمت والا ہے“۔
٭... آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہیں جو انہوں نے اس طرح دی:﴿وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ یَأْتِیْ مِن بَعْدِیْ اسْمُہُ أَحْمَدُ﴾(الصف 6)۔اور ایک رسول کی خوش خبری دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہوگا “۔
٭...آپ سارے عالم کے لیے رحمت بنا کربھیجے گئے، فرمایا:﴿وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِیْنَ ﴾ (الانبیاء:107)”اور ہم نے تمہیں تمام جہاں کے لوگوں کے حق میں رحمت بنا کر بھیجا ہے“۔
٭... آپ کو سارے لوگوں کے لیے نبی بنا کر مبعوث کیا ہے، فرمایا : ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا کَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْراً وَنَذِیْراً﴾(السبا:28)۔”اور ہم نے آپ کو سارے لوگوں کو ڈر اور خوشی سنانے کے لیے بھیجا ہے“۔
٭...آپ کو خاتم النبیین کا اعزاز دیا فرمایا ﴿مَّا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلَکِن رَّسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ﴾․ (الأحزاب:40) ” محمد تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں لیکن وہ الله کے رسول اور سب نبیوں کے خاتم ہیں۔“
٭... آپ کو معراج پر لے جا کر انتہائی اعزاز سے نوازا، فرمایا: ﴿سُبْحَانَ الَّذِیْ أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الأَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا﴾․(بنی سرائیل:1) ”وہ پا ک ذات ہے جس نے راتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی، جس کے گرد ا گردہم نے برکت رکھی ہے۔“ مسجد اقصیٰ کے بعد کا واقعہ سورة نجم میں یوں ذکر ہوا :﴿وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَةً أُخْرَی،عِندَ سِدْرَةِ الْمُنْتَہَی،عِندَہَا جَنَّةُ الْمَأْوَی،إِذْ یَغْشَی السِّدْرَةَ مَا یَغْشَی،مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَی،لَقَدْ رَأَی مِنْ آیَاتِ رَبِّہِ الْکُبْرَی﴾․ (النجم:18-13) ”اور اس نے اس کو ایک بار اور بھی دیکھا ہے سدرة المنتٰھی کے پاس، جس کے پاس جنت مأوٰی ہے، جب کہ اس سدرہ پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا ( یعنی نور ) نہ نظر بہکی نہ حد سے بڑھی، بے شک اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔“
٭... آپ کو برہان کہا ہے، فرمایا ﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَاء کُم بُرْہَانٌ مِّن رَّبِّکُمْ﴾․ (النساء:174) ” اے لوگو! تمہارے پاس پرورد گار کی طرف سے ایک دلیل آچکی ہے ( یعنی محمد صلی الله علیہ وسلم )۔
٭... آپ کی صفات توراة وانجیل میں اس انداز سے بیان ہوئی تھیں جس کی بنا پر یہود ونصاریٰ کے علماء آپ کو اس طرح پہچانتے تھے، جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے تھے ،فرمایا : ﴿الَّذِیْنَ آتَیْْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَہُ کَمَا یَعْرِفُونَ أَبْنَاء ہُمْ﴾․ ( البقرہ:146) ”وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی تھی وہ اسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔“
٭... آپ کے عظیم اخلاق پر الله تعالیٰ نے گواہی دی ہے، فرمایا ﴿وَإِنَّکَ لَعَلی خُلُقٍ عَظِیْمٍ ﴾ ․( القلم:4)” اور بے شک آپ تو بڑے ہی خوش خُلق ہیں۔“
٭... الله تعالیٰ نے آپ کا تذکرہ بہت اونچا کر دیا فرمایا ﴿وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ﴾․(الم نشرح:4) ”اور ہم نے آپ کا ذکر بلند کر دیا۔“
٭... الله تعالیٰ سارے انبیاء کے اس بات پر گواہ بنائیں گے کہ انہوں نے اپنی اپنی قوم کو الله تعالیٰ کا پیغام پورا پورا پہنچا دیا، فرمایا﴿ فَکَیْْفَ إِذَا جِئْنَا مِن کُلِّ أمَّةٍ بِشَہِیْدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَی ہَؤُلاء شَہِیْدا﴾․ (النساء:41) ”پھر کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت میں سے گواہ بلائیں گے اور تمہیں ان پر گواہ کرکے لائیں گے۔“
٭... آپ کو روز قیامت میں مقام محمود عطا کیا جائے گا اور یہ مقام محمود سب سے اعلی مرتبہ ہے فرمایا :﴿ أَن یَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَاماً مَّحْمُوداً﴾․ (بنی اسرائیل:79) ”قریب ہے کہ تیرا رب ( یقینا) تجھ کو مقام محمود میں پہنچا دے گا۔“

قرآن مجید کے فضائل
اگر ہم قرآن سے پوچھیں کہ آپ کے فضائل کیا ہیں؟ تو وہ جواب میں کہے گا کہ میرے تو بہت سے فضائل ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:
٭... مجھے رمضان المبارک کے مہینے میں نازل کیا ہے، فرمایا: ﴿شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآن﴾․ (البقرة:185) ”رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا ہے۔“
٭... مجھے شب قدر میں اتارا ہے فرمایا:﴿إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَةِ الْقَدْرِ﴾․ ( القدر:1) ”بے شک ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں اتارا ہے۔“
٭... مجھے عربی زبان میں نازل کیا ہے، فرمایا: ﴿إِنَّا أَنزَلْنَاہُ قُرْآناً عَرَبِیّاً لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ﴾․( یوسف:2) ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا۔“
٭...مجھے سارے لوگوں کی ہدایت کے لیے اتارا ہے ، فرمایا:﴿ہُدًی لِّلنَّاس﴾․( البقرہ:185) ”ہدایت ہے لوگوں کے واسطے۔“
٭...میں حق وباطل کے درمیان فرق کرنے والا ہوں، فرمایا: ﴿وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَانِ﴾․( البقرہ:185) ”اور یہ ( قرآن کی آیتیں) ہدایت کی روشن دلیلیں او رحق وباطل میں فرق کرنے والا ہے۔“
٭... میں خالص روشنی ہوں، فرمایا:﴿وَأَنزَلْنَا إِلَیْْکُمْ نُوراً مُّبِیْنا﴾․ النساء:174) اور ہم نے تمہاری طرف ایک ظاہر روشنی اتاری ہے۔“
٭... میں نے سارے مسائل کی وضاحت کی ہے، فرمایا:﴿وَنَزَّلْنَا عَلَیْْکَ الْکِتَابَ تِبْیَاناً لِّکُلِّ شَیْْء ٍ﴾․(النحل:89)) اور ہم نے تجھ پر ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز کا کافی بیان ہے، نیز فرمایا :﴿وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ہَذَا الْقُرْآنِ مِن کُلِّ مَثَلٍ فَأَبَی أَکْثَرُ النَّاسِ إِلاَّ کُفُوراً﴾․( بنی اسرائیل:89) ”اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر ایک قسم کی مثال کھول کر بیان کر دی ہے ۔“
٭... باطل میرے پاس نہیں آسکتا ،فرمایا: ﴿َإِنَّہُ لَکِتَابٌ عَزِیْزٌ لَا یَأْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِن بَیْْنِ یَدَیْْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہِ تَنزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ ﴾․ (حم سجدہ:42-41) ”تحقیق وہ عزت والی کتاب ہے، جس میں غیر واقعی بات نہ اس کے آگے سے آسکتی ہے او رنہ اس کے پیچھے کی طرف سے، یہحکیم، محمود، الله کی طرف سے نازل کیا گیا ہے ۔“
٭... میں روحانی بیماریوں کے لیے علاج ہوں، فرمایا:﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَاء تْکُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَشِفَاء لِّمَا فِیْ الصُّدُورِ﴾․ (یونس:57) ”اے لوگو! تمہارے رب سے نصیحت اور دلوں کے روگ کی شفا تمہارے پاس آئی ہے۔“
٭... میں تئیس سال کے عرصہ میں نازل ہوا ہوں، تاکہ لوگوں کے دلوں میں جانشین ہو جاؤں، فرمایا:﴿وَقُرْآناً فَرَقْنَاہُ لِتَقْرَأَہُ عَلَی النَّاسِ عَلَی مُکْثٍ وَنَزَّلْنَاہُ تَنزِیْلا﴾․( بنی اسرائیل:106) ”او رہم نے قرآن کو تھوڑا تھوڑا کرکے اتارا ہے ،تاکہ تو مہلت کے ساتھ اسے لوگوں کو پڑھ کر سنائے اور ہم نے اسے آہستہ آہستہ اتارا ہے۔“
٭... میں ایسی مؤثر کتاب ہوں اگر پہاڑ پر بھی نازل کیا جاؤں تو وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا، فرمایا:﴿لَوْ أَنزَلْنَا ہَذَا الْقُرْآنَ عَلَی جَبَلٍ لَّرَأَیْْتَہُ خَاشِعاً مُّتَصَدِّعاً مِّنْ خَشْیَةِ اللَّہِ ﴾․( الحشر:21) ”اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو آپ اسے دیکھتے کہ الله کے خوف سے جھک کر پھٹ جاتا۔“
٭... میری حفاظت کی ذمہ داری الله جل جلالہ نے لی ہے، فرمایا:﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ﴾․(الحجر:9) ”ہم نے یہ نصیحت اتاری، بے شک ہم اس کے نگہبان ہیں۔“
وصلی اللّٰہ علی سیدنا محمد واٰلہ واصحابہ اجمعین․









No comments:

Post a Comment