Saturday, 14 May 2016

تھے سب لوگو ایک دین پر پھر ۔۔۔


كانَ النّاسُ أُمَّةً وٰحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيّۦنَ مُبَشِّرينَ وَمُنذِرينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الكِتٰبَ بِالحَقِّ لِيَحكُمَ بَينَ النّاسِ فيمَا اختَلَفوا فيهِ ۚ وَمَا اختَلَفَ فيهِ إِلَّا الَّذينَ أوتوهُ مِن بَعدِ ما جاءَتهُمُ البَيِّنٰتُ بَغيًا بَينَهُم ۖ فَهَدَى اللَّهُ الَّذينَ ءامَنوا لِمَا اختَلَفوا فيهِ مِنَ الحَقِّ بِإِذنِهِ ۗ وَاللَّهُ يَهدى مَن يَشاءُ إِلىٰ صِرٰطٍ مُستَقيمٍ {2:213}


Mankind was one (Religious) community; thereafter Allah raised prophets as bearers of glad tidings and warners, as He sent down the Book With truth that He may judge between mankind in that wherein they disputed. And none differed therein save those unto whom it was vouchsafed after the evidences had come to them, out of spite among themselves; then Allah guided those who believed unto the truth of that regarding which they differed, by His leave. Allah guideth whomsoever He listeth unto a path straight.

People were one community, in faith, but they fell into disagreement, and some believed, while others disbelieved; then God sent forth the prophets, to them, as bearers of good tidings, of Paradise for the believers, and warners, of the Fire for the disbelievers; and He revealed with them the Scripture, meaning, the Books, with the truth (bi’l-haqqi, ‘with the truth’, is semantically connected to anzala, ‘He revealed’) that He might decide, according to it, between people regarding their differences, in religion; and only those who had been given it, the Scripture, so that some believed while others disbelieved, differed about it, [about] religion, after the clear proofs, the manifest arguments for God’s Oneness, had come to them (min [of min ba‘di, ‘after’] is semantically connected to ikhtalafa, ‘they differed’, and together with what follows should be understood as coming before the exception [illā lladhīna, ‘only those’]); out of insolence, on the part of the disbelievers, one to another; then God guided those who believed to the truth, regarding which (min [of min al-haqqi, ‘of the truth’] here is explicative) they were at variance, by His leave, by His will; and God guides, with His guidance, whomever He will to a straight path, the path of truth.

تھے سب لوگو ایک دین پر پھر بھیجے اللہ نے پیغمبر خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے اور اتاری انکےساتھ کتاب سچی کہ فیصلہ کرے لوگوں میں جس بات میں وہ جھگڑا کریں اور نہیں جھگڑا ڈالا کتاب میں مگر انہی لوگوں نے جن کو کتاب ملی تھی اس کے بعد کہ ان کو پہنچ چکے صاف حکم آپس کی ضد سے پھر اب ہدایت کی اللہ نے ایمان والوں کو اس سچی بات کی جس میں وہ جھگڑ رہے تھے اپنے حکم سے اور اللہ بتلاتا ہے جس کو چاہے سیدھا راستہ 
پیغمبروں اور کتابوں کے بھیجنے کی حکمت:
حضرت آدمؑ کے وقت سے ایک ہی سچا دین رہا ایک مدت تک اس کے بعد دین میں لوگوں نے اختلاف ڈالا تو خدا تعالیٰ نے انبیاء کو بھیجا جو اہل ایمان و طاعت کو ثواب کی بشارت دیتے تھے اور اہل کفر و معصیت کو عذاب سے ڈراتے تھے اور ان کے ساتھ سچی کتاب بھی بھیجی تاکہ لوگوں کا اختلاف اور نزاع دور ہو اور دین حق ان کے اختلاف سے محفوظ اور قائم رہے اور احکام الہٰی میں انہی لوگوں نے اختلاف ڈالا جن کو وہ کتاب ملی تھی جیسے یہود و نصاریٰ توریت و انجیل میں اختلاف و تحریف کرتے تھے اور یہ نزاع بے سمجھی سے نہیں کرتے تھے بلکہ خوب سمجھ کر محض حب دنیا اور ضد اور حسد سے ایسا کرتے تھے سو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اہل ایمان کو طریقہ حق کی تعلیم ہدایت فرمائی اور گمراہوں کے اختلافات سے بچا لیا جیسے آپ کی امت کو ہر عقیدہ اور ہر عمل میں امر حق کی تعلیم فرمائی اور یہود و نصاریٰ کے اختلاف  اور افراط و تفریط سے ان کو محفوظ رکھا۔ {فائدہ} اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک تو یہ کہ اللہ نے جو کتابیں اور نبی متعدد بھیجے تو اس واسطے نہیں کہ ہر فرقہ کو جدا طریقہ بتلایا ہو بلکہ سب کے لئے اللہ نے اصل میں ایک ہی رستہ مقرر کیا جس وقت اس راہ سے بِچلے تو اللہ نے نبی کو بھیجا اور کتاب اتاری کہ اس کے موافق چلیں اس کے بعد پھر بہکے تو دوسرا نبی اور کتاب اللہ پاک نے اسی ایک راہ کے قائم کرنے کو بھیجا اُس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ تندرستی ایک ہے اور بیماریاں بےشمار جب ایک مرض پیدا ہوا تو اس کے موافق دوا اور پرہیز فرمایا جب دوسرا مرض پیدا ہوا تو دوسری دوا  اور پرہیز اس کے موافق فرمایا آخر میں ایسا طریقہ اور قاعدہ فرما دیا جو سب بیماریوں سے بچائے اور سب کے بدلے کفایت کرے اور وہ طریقہ اسلام ہے جس کے لئے پیغمبر آخرالزماں ﷺ اور قرآن شریف بھیجے گئے۔ دوسری بات یہ معلوم ہو گئ کہ سنت اللہ یہی جاری ہے کہ برے لوگ ہر نبی مبعوث کے خلاف اور ہر کتاب الہٰی میں اختلاف کو پسند کرتے رہے اور اس میں ساہی رہے تو اب اہل ایمان کو کفار کی بدسلوکی اور فساد سے تنگدل ہونا نہ


=============================================
وَأَنزَلنا إِلَيكَ الكِتٰبَ بِالحَقِّ مُصَدِّقًا لِما بَينَ يَدَيهِ مِنَ الكِتٰبِ وَمُهَيمِنًا عَلَيهِ ۖ فَاحكُم بَينَهُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ ۖ وَلا تَتَّبِع أَهواءَهُم عَمّا جاءَكَ مِنَ الحَقِّ ۚ لِكُلٍّ جَعَلنا مِنكُم شِرعَةً وَمِنهاجًا ۚ وَلَو شاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُم أُمَّةً وٰحِدَةً وَلٰكِن لِيَبلُوَكُم فى ما ءاتىٰكُم ۖ فَاستَبِقُوا الخَيرٰتِ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرجِعُكُم جَميعًا فَيُنَبِّئُكُم بِما كُنتُم فيهِ تَختَلِفونَ {5:48}


And We have sent down the Book unto thee with truth; and confirming that which hath preceded it of the Book, and a guardian thereof. Wherefrom judge thou between them by that which Allah hath sent down, and follow thou not away from that which hath their desires come to thee of the truth. Unto each of you We appointed law and a way. And had Allah listed, He would have made you all a single (Religious) community, but He willed not in order that he may prove you by that which He hath vouchsafed unto you. Hasten wherefore to the virtues; unto Allah is the return of you all; then He shall declare unto you concerning that wherein ye have been disputing.


And We have revealed to you, O Muhammad (s), the Book, the Qur’ān, with the truth (bi’l-haqq is semantically connected to anzalnā, ‘We have revealed’) confirming the Book that was before it and watching over it, testifying [to it] — the ‘Book’ means the Scriptures. So judge between them, between the People of the Scripture, if they take their cases before you, according to what God has revealed, to you, and do not follow their whims, deviating, away from the truth that has come to you. To every one of you, O communities, We have appointed a divine law and a way, a clear path in religion, for them to proceed along. If God had willed, He would have made you one community, following one Law, but, He separated you one from the other, that He may try you in what He has given to you, of the differing Laws, in order to see who among you is obedient and who is disobedient. So vie with one another in good works, strive hastily thereunto; to God you shall all return, through resurrection, and He will then inform you of that in which you differed, in the matter of religion, and requite each of you according to his deeds.


اور اے پیغمبر ہم نے تم پر سچّی کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان سب پر نگہبان ہے تو جو حکم اللہ نے نازل فرمایا ہے اسکے مطابق ان کا فیصلہ کرنا اور حق جو تمہارے پاس آ چکا ہے اسکو چھوڑ کر انکی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا۔ ہم نے تم میں سے ہر ایک ملت کے لئے ایک دستور اور ایک طریقہ مقرر کیا ہے۔ اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی شریعت پر کر دیتا مگر جو حکم اس نے تم کو دیئے ہیں ان میں وہ تمہاری آزمائش کرنی چاہتا ہے۔ سو نیک کاموں میں آگے بڑھو تم سب کو اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے پھر جن باتوں میں تم کو اختلاف تھا وہ تم کو بتا دے گا۔

قرآن مہیمن ہے مہیمن کی تشریح:
مہیمن کے کئ معنی بیان کئےگئے ہیں۔ امین، غالب، حاکم، محافظ و نگہبان اور ہر معنی کے اعتبار سے قرآن کریم کا کتب سابقہ کے لئے مہیمن ہونا صحیح ہے۔ خدا کی جو امانت تورات و انجیل وغیرہ کتب سماویہ میں ودیعت کی گئ تھی وہ مع شے زاید قرآن میں محفوظ ہے۔ جس میں کوئی خیانت نہیں ہوئی۔ اور جو بعض فروعی چیزیں ان کتابوں میں اس زمانہ یا ان مخصوص مخاطبین کے حسب حال تھیں ان کو قرآن نے منسوخ کر دیا اور جو حقائق ناتمام تھیں۔ ان کی پوری تکمیل فرما دی ہے اور جو حصہ اس وقت کے اعتبار سے غیر مہم تھا اسے بالکل نظر انداز کر دیا ہے۔
یہودیوں کے نزاعات میں رسول اللہ کا فیصلہ:


یہود میں باہم کچھ نزاع ہو گئ تھی۔ ایک فریق جس میں ان کے بڑے بڑے مشہور علماء اور مقتدا شامل تھے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور فصل نزاع کی درخواست کی اور یہ بھی کہا کہ آپ ﷺ کو معلوم ہے کہ عمومًا قوم یہود ہمارے اختیار و اقتدار میں ہے۔ اگر آپ ﷺ فیصلہ ہمارےموافق کر دیں گے تو ہم مسلمان ہو جائیں گے اور ہمارے اسلام لانے سے جمہور یہود اسلام قبول کر لیں گے۔ نبی کریم ﷺ نے اس رشوتی اسلام کو منظور نہ کیا اور ان کی خواہشات کی پیروی سےصاف انکار فرما دیا۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ (ابن کثیر)

آنحضرت ﷺ کی شان عصمت اور عصمت انبیاء:
گذشتہ فائدہ میں ان آیات کی جو شان نزول ہم لکھ چکے ہیں اس سےصاف عیاں ہے کہ آیت کا نزول بعد اس کے ہوا کہ آپ ﷺ ان کی خوشی اور خواہش پر چلنے سے انکار فرما چکے تھے۔ تو یہ آیات آپ ﷺکی استقامت کی تصویب اور آیندہ بھی ایسی ہی شان عصمت پر ثابت قدم رہنے کی تاکید کے لئے نازل ہوئیں۔ جو لوگ اس قوم کی آیات کو نبی ﷺ کی شان عصمت کے خلاف تصور کرتے ہیں وہ نہایت ہی قاصر الفہم ہیں۔ اول تو کسی چیز سے منع کرنا اس کی دلیل نہیں کہ جس کو منع کیا جا رہا ہے وہ اس ممنوع چیز کا ارتکاب کرنا چاہتا تھا۔ دوسرے انیباء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی معصومیت کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی معصیت ان سے صادر نہیں ہو سکتی یعنی کسی کام کو یہ سمجھتے ہوئے کہ خدا کو ناپسند ہے ہر گز اختیار نہیں کر سکتے۔ اور اگر اتفاقًا کسی وقت بھول چوک یا رائے و اجتہاد کی غلطی سے راجح و افضل کی جگہ مرجوح و مفضول کو اخیتار کر لیں یا غیر مرضی کو سمجھ کر عمل کر گذریں جس کو اصطلاح میں زلۃ کہتے ہیں تو اس طرح کے واقعات مسئلہ، عصمت کے منافی نہیں۔ جیسا کہ حضرت آدمؑ اور بعض دیگر انبیاءؑ کے واقعات شاہد ہیں۔ اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد { وَلَا تَتَبِعْ اَھْوَاءَ ھُمْ عَمَّا جَآءَکَ مِنَ الْحَقِّ } اور { واحذ زھم ان یفتنوک عن بعض ما انزل اللہ الیک } اور اسی طرح کی دوسری آیات کا مطلب سمجھنے میں کوئی خلجان نہیں رہتا۔ کیونکہ ان میں صرف اس بات پر متنبہ کیا گیا ہے کہ آپ ان ملعونوں کی تلمیع اور سخن سازی سےقطعًا متاثر نہ ہوں اور کوئ ایسی رائے قائم نہ فرما لیں جس میں بلا قصد ان کی خواہشات کے اتباع کی صورت پیدا ہو جائے۔ مثلًا اسی قصہ میں جو ان آیات کی شان نزول ہے یہود نے کیسی عیارانہ اور پرفریب صورت حضور ﷺ کے سامنے پیش کی تھی کہ اگر آپ ﷺ ان کے حسب منشاء فیصلہ کر دیں تو سب یہود مسلمان ہو جائیں گے۔ وہ جانتے تھے کہ اسلام سے بڑھ کر دنیا میں کوئی چیز آپ ﷺ کے نزدیک محبوب اور عزیز نہیں۔ ایسے موقع پر امکان تھا کہ بڑے سے بڑا مستقیم انسان بھی یہ رائے قائم کر لے کہ ان کی ایک چھوٹی سے خواہش کے قبول کر لینے میں جب کہ اتنی عظیم الشان دینی منفعت کی توقع ہو کیا مضائقہ ہے۔ اس طرح کے خطرناک اور مزلۃ الاقدام موقع پر قرآن کریم پیغمبر ﷺ کو متنبہ کرتا ہے کہ دیکھو بھول کر بھی کوئی ایسی رائے قائم نہ کر لیجیے جو آپ ﷺ کی شان رفیع کے مناسب نہ ہو۔ حضور ﷺ کا کمال تقویٰ اور انتہائی فہم و تدبر تو نزول آیت سے پہلے ہی ان ملاعین کے مکر و فریب کو رد کر چکا تھا۔ لیکن فرض کر لیجئے اگر ایسا نہ ہو چکا ہوتا تب بھی آیت کا مضمون جیسا کہ ہم تقریر کر چکے ہیں حضور ﷺ کی شان عصمت کے اصلا مخالف نہیں۔

شریعتوں کے اختلاف کی حقیقت:
یعنی خدا نے ہر امت کا آئین اور طریق کار اس کے احوال و استعداد کے مناسب جداگانہ رکھا ہے اور باوجودیکہ تمام انبیاء اور ملل سماویہ اصول دین اور مقاصد کلیہ میں جن پر نجات ابدی کا مدار ہے باہم متحد اور ایک دوسرےکے مصدق رہے ہیں۔ پھر بھی جزئیات و فروع کے لحاظ سے ہر امت کو ان کےماحول اور مخصوص استعداد کے موافق خاص خاص احکام و ہدایات دی گئیں۔ اس آیت میں اس فرعی اختلاف کی طرف اشارہ ہے۔ صحیح بخاری کی ایک حدیث میں جو سب انبیاءؑ کو علاتی بھائی فرمایا ہے جن کا باپ ایک ہو اور مائیں مختلف ہوں اس کا مطلب بھی یہ ہی ہے کہ اصول سب کے ایک ہیں اور فروع میں اختلاف ہے اور چونکہ بچہ کو تولید میں باپ فاعل و مفیض اور ماں قابل اور محل افاضہ بنتی ہے اس سے نہایت لطیف اشارہ اس طرف بھی ہو گیا کہ شرائع سماویہ کا اختلاف مخاطبین کی قابلیت و استعداد پر مبنی ہے ورنہ مبداء فیاض میں کوئی اختلاف و تعدد نہیں۔ سب شرائع و ادیان سماویہ کا سرچشمہ ایک ہی ذات اور اس کا علم ازلی ہے۔

آزمائش:
یعنی کون تم میں سے خدا کی مالکیت مطلقہ، علم محیط اور حکمت بالغہ پر یقین کر کے ہر نئے حکم کو حق و صواب سمجھ کر بطوع و رغبت قبول کرتا ہے اور ایک وفادار غلام کی طرح ہر جدید حکم کے سامنے گردن جھکا دینے کے لئے تیار رہتا ہے۔

کرنے کا کام:
یعنی شرائع کے اختلاف کو دیکھ کر خواہ مخواہ کی قیل و قال اور کج بحثیوں میں پڑ کر وقت نہ گنواؤ۔ وصول الی اللہ کا ارادہ کرنے والوں کو عملی زندگی میں اپنی دوڑ دھوپ رکھنی چاہئے اور جو عقائد، اخلاق اور اعمال کی خوبیاں شریعت سماویہ پیش کر رہی ہے ان کے لینے میں چستی دکھلانی چاہئے۔ تو انجام کا خیال کر کے حسنات و خیرات کی تحصیل میں مستعدی دکھاؤ۔ اختلافات کی سب حقیقت وہاں جا کر کھل جائے گی۔


==========================================
وَما كانَ النّاسُ إِلّا أُمَّةً وٰحِدَةً فَاختَلَفوا ۚ وَلَولا كَلِمَةٌ سَبَقَت مِن رَبِّكَ لَقُضِىَ بَينَهُم فيما فيهِ يَختَلِفونَ {10:19}

And mankind were not but a single (Religious) community then they differed. And had not a word from thy Lord gone forth, it would have been decreed between them in respect of that wherein they differ.
Mankind was but one community, following one religion, that is submission [to the One God], from the time of Adam to the time of Noah; but it is also said [that this was the case] from the time of Abraham to that of ‘Amr b. Luhayy; then they differed, some of them remaining firmly [upon belief in One God], while others disbelieved. And had it not been for a word that had already preceded from your Lord, [to the effect] that requital would be deferred until the Day of Resurrection, it would have been decided between them, that is, [between] mankind, in this life, regarding that over which they differed, in religion, by the disbelievers being punished.


اور لوگ جو ہیں سو ایک ہی امت ہیں پیچھے جدا جدا ہو گئے اور اگر نہ ایک بات پہلے ہو چکتی تیرے رب کی تو فیصلہ ہو جاتا ان میں جس بات میں کہ اختلاف کر رہے ہیں [۳۳]

ممکن تھا مشرکین کہتےکہ خدا نے تمہارے دین میں منع کیا ہوگا ہمارے دین میں منع نہیں کیا۔ اس کا جواب دے دیا کہ اللہ کا دین ہمیشہ سے ایک ہے۔ اعتقادات حقہ میں کوئی فرق نہیں۔ درمیان میں جب لوگ بہک کر جدا جدا ہو گئے۔ خدا نے ان کے سمجھانے اور دین حق پر لانے کو انبیاء بھیجے۔ کسی زمانہ اور کسی ملت میں خدا نے شرک کو جائز نہیں رکھا۔ باقی لوگوں کے باہمی اختلافات کو زبردستی اس لئے نہیں مٹایا گیا کہ پہلے سے خدا کے علم میں یہ بات طے شدہ تھی کہ دنیا دار عمل (موقع واردات) ہے قطعی اور آخری فیصلہ کی جگہ نہیں ۔ یہاں انسانوں کو کسب و اختیار دے کر قدرے آزاد چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ جو چاہیں راہ عمل میں اختیار کریں۔ اگر یہ بات پیشتر طے نہ ہو چکی ہوتی تو سارے اختلافات کا فیصلہ ایک دم کر دیا  جاتا۔

==========================================
إِنَّ هٰذِهِ أُمَّتُكُم أُمَّةً وٰحِدَةً وَأَنا۠ رَبُّكُم فَاعبُدونِ {21:92}

Verily this community of yours is a single (Religious)  community, and I am your Lord; so worship Me.
‘Truly this, creed of Islam, is your community, your religion, O you who are being addressed — in other words, you must adhere to it as, one community, [this being] a necessary state [of affairs], and I am your Lord, so worship Me’, affirm My Oneness.

یہ لوگ ہیں تمہارے دین کے سب ایک دین پر اور میں ہوں رب تمہارا سو میری بندگی کرو [۱۱۵]

توحید (اصولِ دین) تمام امتوں میں مشترک ہے:
یعنی خدا بھی ایک اور تمہارا اصل دین بھی ایک ہے۔ تمام انبیاء اصول میں متحد ہوتے ہیں جو ایک کی تعلیم ہے وہ ہی دوسروں کی ہے۔ رہا فروع کا اختلاف ، وہ زمان و مکان کے اختلاف کی وجہ سے عین مصلحت و حکمت ہے۔ اختلاف مذموم وہ ہے جو اصول میں ہو ۔ پس لازم ہے کہ سب مل کر خدا کی بندگی کریں اور جن اصول میں تمام انبیاء متفق رہے ہیں ان کو متحدہ طاقت سے پکڑیں۔


=================================

وَإِنَّ هٰذِهِ أُمَّتُكُم أُمَّةً وٰحِدَةً وَأَنا۠ رَبُّكُم فَاتَّقونِ {23:52}


And verily this religion of yours is one religion, and I am your Lord, so fear Me.
And know, that this, creed of Islam, is your community, your religion, O you being addressed, that is, you must adhere to it as, one community — a necessary state [of affairs] (a variant reading [for anna, ‘that’] has the softened form [in]; a variant has inna, ‘truly’, indicating the beginning of [an independent] new sentence) and I am your Lord, so fear Me’, so be fearful of Me.

اور یہ لوگ ہیں تمہارے دین کے سب ایک دین پر اور میں ہوں تمہارا رب سو مجھ سے ڈرتے رہو



آزادی کی آزمائش
وَلَو شاءَ اللَّهُ لَجَعَلَهُم أُمَّةً وٰحِدَةً وَلٰكِن يُدخِلُ مَن يَشاءُ فى رَحمَتِهِ ۚ وَالظّٰلِمونَ ما لَهُم مِن وَلِىٍّ وَلا نَصيرٍ {42:8}


Test of Independence
And had Allah willed, He would have made them one (Religious) community; but He causeth whomsoever He will to enter into His mercy. And the wrong doers! for them there shall be no patron or helper.

And had God willed, He would have made them one community, in other words, following one religion, and that is Islam; but He admits whomever He will into His mercy, and the evildoers, the disbelievers, have neither guardian nor helper, to ward off the chastisement from them.


اور اگر چاہتا اللہ تو سب لوگوں کو کرتا ایک ہی فرقہ و لیکن وہ داخل کرتا ہے جس کو چاہے اپنی رحمت میں اور گنہگار جو ہیں ان کا کوئی نہیں رفیق اور نہ مددگار

مذہب و ملت کا اختلاف اللہ کی حکمت ہے:

یعنی بیشک اسکو قدرت تھی اگر چاہتا تو سب کو ایک طرح کا بنا دیتا اور ایک ہی راستہ پر ڈال دیتا لیکن اسکی حکمت اسی کو مقتضی ہوئی کہ اپنی رحمت و غضب دونوں قسم کی صفات کا اظہار فرمائے۔ اس لئے بندوں کے احوال میں اختلاف و تفاوت رکھا۔ کسی کو اسکی فرمانبرداری کی وجہ سے اپنی رحمت کا مورد بنا دیا اور کسی کو اس کے ظلم و عصیان کی بناء پر رحمت سے دور پھینک دیا۔ جو لوگ رحمت سے دور ہو کر غضب کے مستحق ہوئے اور حکمت الہٰیہ ان پر سزا جاری کرنے کو مقتضی ہوئی ان کا ٹھکانہ کہیں نہیں۔ نہ کوئی رفیق اور مددگار انکو مل سکتا ہے جو اللہ کی سزا سے بچا دے۔






دین میں اختلاف اور دین سے اختلاف کا فرق
وحدتِ امّت کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا مسلمانوں کی زبوں حالی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ آپس کے اختلاف و افتراق کا شکار ہیں پوری صلاحیتیں و توانائیاں آپس کے اختلاف میں ضائع ہو رہی ہیں ۔ امّتِ مسلمہ جسے ایک ملّت، برادری اور بنیانِ مرصوص یعنی سیسہ پلائی ہوئی ناقابلِ شکست دیوار بنایا گیا تھا آج وہی امّت طرح طرح کے تفرقوں میں مبتلا، ایک دوسرے سے بیزار اور برسرِپیکار نظر آتی ہے ۔ جنگ وجدل اور عداوتوں ، جھگڑ وں نے ملّت اسلامیہ کو دینی و دنیاوی ہر اعتبار سے ہلاکت کے غار میں دھکیل دیا ہے ۔ زیرِ نظر رسالہ میں وحدتِ امّت کی اہمیت، افتراقِ امّت کے اسباب، مذموم و محمود اختلافِ رائے کے حدود، اختلافِ رائے اور جھگڑ ے و فساد میں فرق کو واضح کیا گیا اور مختلف شکوک و شبہات کے شافی جوابات دیئے گئے ہیں نیز اسلام کی دعوتِ اتحاد کو اُجاگر کیا گیا ہے ۔
مفت ڈاؤن لوڈ کریں:
http://www.scribd.com/doc/98574840/Wahdat-e-Ummat
=========================================

No comments:

Post a Comment