Prophetic Motivation:
عمل مختصر، ثواب زیادہ:
حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ الْبَصْرِيُّ ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ ، أَخْبَرَنَا سَلَمَةُ بْنُ وَرْدَانَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لِرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِهِ : " هَلْ تَزَوَّجْتَ يَا فُلَانُ ؟ قَالَ : لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَلَا عِنْدِي مَا أَتَزَوَّجُ بِهِ ، قَالَ : أَلَيْسَ مَعَكَ " قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ " ؟ قَالَ : بَلَى ، قَالَ : ثُلُثُ الْقُرْآنِ ، قَالَ : أَلَيْسَ مَعَكَ " إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ " ؟ قَالَ : بَلَى ، قَالَ : رُبُعُ الْقُرْآنِ ، قَالَ : أَلَيْسَ مَعَكَ " قُلْ يَأَيُّهَا الْكَافِرُونَ " ؟ قَالَ : بَلَى ، قَالَ : رُبُعُ الْقُرْآنِ ، قَالَ : أَلَيْسَ مَعَكَ " إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ " ؟ قَالَ : بَلَى ، قَالَ : رُبُعُ الْقُرْآنِ ، قَالَ : تَزَوَّجْ تَزَوَّجْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ .حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک صحابی سے کہا: اے فلاں! کیا تم نے شادی کرلی؟ انہوں نے کہا: نہیں، قسم اللہ کی! اللہ کے رسول! نہیں کی ہے، اور نہ ہی میرے پاس ایسا کچھ ہے جس کے ذریعہ میں شادی کرسکوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس سورۃ 'قل هو الله أحد' نہیں ہے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، میرے پاس ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ ثواب میں ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔ آپ ﷺ نے کہا: کیا تمہارے پاس سورۃ 'إذا جاء نصر الله والفتح' نہیں ہے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں (ہے)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ ایک چوتھائی قرآن ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس سورہ 'قل يا أيها الكافرون' نہیں ہے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں (ہے)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (یہ) چوتھائی قرآن ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس سورہ 'إذا زلزلت الأرض' نہیں ہے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں(ہے)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ ایک چوتھائی قرآن ہے۔ (پھر) آپ ﷺ نے فرمایا: تم شادی کرو۔
امام ترمذیؒ کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
[مسند احمد:12488+13309، سنن ترمذیؒ:2895، مسند البزار:6247، معجم ابن الأعرابي:1648، شعب الإيمان للبيهقي:2300، جامع الأحاديث:15260، كنز العمال:2717]
المحدث : أحمد شاكر | المصدر : عمدة التفسير الصفحة أو الرقم: 1/308 | خلاصة حكم المحدث : [أشار في المقدمة إلى صحته]
تخريج الحديث
سورۃ نمبر 110 النصر، اس میں 3 آیات ہیں۔
القرآن:
جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے۔ (1) اور تم لوگوں کو دیکھ لو کہ وہ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہورہے ہیں۔ تو اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، اور اس سے مغفرت مانگو۔ (2) یقین جانو وہ بہت(باربار) معاف کرنے والا ہے۔
تفسیر:
1: اس سے مراد مکہ مکرمہ کی فتح ہے، یعنی جب مکہ مکرمہ آپ کے ہاتھوں فتح ہوجائے۔ زیادہ تر مفسرین کے مطابق یہ سورت فتح مکہ سے کچھ پہلے نازل ہوئی تھی، اور اس میں ایک طرف تو یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ مکہ مکرمہ فتح ہوجائے گا اور اس کے بعد عرب کے لوگ جوق در جوق دین اسلام میں داخل ہوں گے، چنانچہ واقعہ بھی یہی ہوا، اور دوسری طرف چونکہ اسلام کے پھیل جانے سے حضور اقدس ﷺ کے دنیا میں تشریف لانے کا مقصد حاصل ہوجائے گا، اس لیے آپ کو دنیا سے رخصت ہونے کی تیاری کے لیے (1)حمد، (2)تسبیح اور (3)استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔ جب یہ سورت نازل ہوئی تو اس میں دی ہوئی خوشخبری کی وجہ سے بہت سے صحابہ خوش ہوئے، لیکن حضور اقدس ﷺ کے چچا حضرت عباس ؓ اسے سن کر رونے لگے، اور وجہ یہ بیان کی کہ اس سورت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کا وقت قریب آ رہا ہے۔
2: اگرچہ آنحضرت ﷺ ہر طرح کے گناہوں سے بالکل پاک اور معصوم تھے اور اگر آپ کی شان کے لحاظ سے کوئی بھول چوک ہوئی بھی تو سورة فتح میں اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی معاف کرنے کا اعلان فرما دیا تھا، اس کے باوجود آپ ﷺ کو استغفار کی تلقین امت کو یہ بتانے کے لئے کی جارہی ہے کہ جب آنحضرت ﷺ سے استغفار کرنے کے لئے کہا جارہا ہے تو دوسرے مسلمانوں کو تو اور زیادہ اہتمام کے ساتھ استغفار کرنا چاہیے۔
انتہائی فتح مندیوں ، کامیابیوں ، کامرانیوں کے وقت ارشاد یہ نہیں ہوتا کہ جشن دھوم دھام سے منانا ، جلوس نکالنا ، نقارے بجانا ، چراغاں کرنا ، زندہ باد کے نعرے لگانا (دنیا تو فتح مندیوں کے انہیں جشنوں ، جلوسوں سے واقف ہے) بلکہ حکم یہ ملتا ہے کہ اللہ کی یاد کی منزلیں طے کرنے کے بعد حمد وتسبیح واستغفار میں اور زیادہ لگ جائیے ! اکابر صحابہ آیت کے نزول ہی سے سمجھ گئے تھے کہ جورسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقصد بعثت تھا وہ پورا ہوچکا اور اب وقت وفات نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قریب ہے ، بلاضرورت اس دنیا میں کسی کو بھی نہیں رکھا جاتا ہے ، چہ جائیکہ رسول کو ، ان کا مشن ختم ہوچکا ، اور اب انہیں اپنی اصلی منزل جنت کی طرف واپس ہونا ہے ۔ استغفار ، جب رسول کے لئے آتا ہے، تو مراد کسی گناہ کے صدور سے نہیں ، صرف ترک اولی سے ہوتی ہے۔ مرشد تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اسی طرح سالکین طریق کو بھی چاہیے کہ جب تبلیغ وارشاد سے فارغ ہوجایا کریں ، تو مخصوص عبادات تقرب میں مشغول ہوجائیں۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد یہ دعا تین مرتبہ پڑھتے تھے: ”سُبْحَانَكَ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي“۔
[صحیح البخاری:4967]
[صحیح البخاری:4967]
ام المؤمنین ام سلمۃ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس سورت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ علیہ وسلم کا معمول بن گیا تھاآپ اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے ہر وقت یہ دعا پڑھتے تھے : سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ۔
[تفسير الطبري:24/ 670، تفسير الثعلبي:3687، تفسير القرطبي:20/ 231، تفسير ابن كثير:8/ 512]
إِذا جاءَ نَصرُ اللَّهِ وَالفَتحُ {110:1}
|
جب
خدا کی مدد آ پہنچی اور فتح (حاصل ہو گئی)
|
بڑی
فیصلہ کن چیز یہ تھی کہ مکہ معظمہ ( جو گویا زمین پر اللہ کا دارالسلطنت ہے) فتح
ہو جائے۔ اسی پر اکثر قبائل عرب کی نظریں لگی ہوئی تھیں۔ اس سے پہلے ایک ایک دو
دو آدمی اسلام میں داخل ہوتے تھے۔ فتح مکہ کے بعد جوق در جوق داخل ہونے لگے۔
حتّٰی کہ سارا جزیرہ عرب اسلام کا کلمہ پڑھنے لگا۔ اور جو مقصد نبی کریم ﷺ کی بعثت سے تھا
پورا ہوا۔
|
وَرَأَيتَ النّاسَ
يَدخُلونَ فى دينِ اللَّهِ أَفواجًا {110:2}
|
اور
تم نے دیکھ لیا کہ لوگ غول کے غول خدا کے دین میں داخل ہو رہے ہیں
|
فَسَبِّح بِحَمدِ رَبِّكَ
وَاستَغفِرهُ ۚ إِنَّهُ كانَ تَوّابًا {110:3}
|
تو
اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرو اور اس سے مغفرت مانگو، بے شک وہ معاف
کرنے والا ہے
|
یعنی
اپنے لئے اور امت کے لئے استغفار کیجیے۔ (تنبیہ) نبی کریم ﷺ کا
اپنے لئے استغفار کرنا پہلے کئ جگہ بیان ہوچکا ہے، وہیں دیکھ لیا جائے۔ حضرت شاہ
صاحبؒ لکھتے ہیں " یعنی قرآن میں ہر جگہ وعدہ ہے فیصلہ کا، اور کافر شتابی
کرتے تھے۔ حضرت ﷺ کی آخر عمر میں مکہ فتح ہوچکا،
قبائل عرب دَل کے دَل مسلمان ہونے لگے۔ وعدہ سچا ہوا اب امت کے گناہ
بخشوایا کر کہ درجہ شفاعت کا بھی ملے۔ یہ سورت اتری آخر عمر میں، حضرت ﷺ نے جانا کہ میرا جو
کام تھا دنیا میں کرچکا اب سفر ہے آخرت کا۔
|
یعنی
سمجھ لیجیے کہ مقصود بعثت کا اور دنیا میں رہنے کا (جو تکمیل دین و تمہید خلافت
کبریٰ ہے) پورا ہوا، اب سفر آخرت قریب ہے۔ لہٰذا ادھر سے فارغ ہو کر ہمہ تن ادھر
ہی لگ جائیے۔ اور پہلے سے بھی زیادہ کثرت سے اللہ کی تسبیح و تحمید اور ان
فتوحات اور کامیابیوں پر اس کا شکر ادا کیجیے۔
|
ایمانیات:
اللہ کی پہچان ومعرفت اور اس کے خوبصورت ناموں پر ایمان:
(1) اللہ ۔۔۔۔۔بہترین مدد کرنے والا النَّاصِرِ
[حوالہ سورۃ آل عمرران:150]
بہت (بڑا-زیادہ) مدد کرنے والا النَّصِيرُ بھی ہے۔
[حوالہ سورۃ الانفال:40، الحج:78]
(2) اللہ ۔۔۔۔۔ الْفَاتِحِ بھی ہے، یعنی بہترین فتح دینے والا، بہترین فیصلہ کرنے والا۔
[حوالہ سورۃ الاعراف:89]
(3) اللہ ۔۔۔۔۔ الدَّيَّان (بدلہ دینے والا) بھی ہے، جو بندوں کو ان کے اعمال کے مطابق بدلہ دے گا اور ان کا حساب و کتاب بھی لے گا۔
[حوالہ الأسماء والصفات-البيهقي:131+600، أحمد:16042، حاكم:3638]
(4) اللہ ۔۔۔۔۔ رَبِّ (تربیت کرنے والا) بھی ہے، یعنی جو تمام جہاں والوں کو پیدا کرکے انہیں ہدایت کرتا، بھوک میں کھلاتا، خوف سے امن دیتا ہے۔
[حوالہ سورۃ الفاتحۃ:1(طٰہٰ:50، الانفطار:6-7، الاعلیٰ:1-4، قریش:3-4)]
(5) اللہ ۔۔۔۔۔ سُبُّوحٌ(انتہائی پاک) ہے۔
[صحيح مسلم:487، سنن أبي داود:872]
یعنی ہر عیب (برائی، نقص، کمی، خرابی، خامی، سقم، شر،کھوٹ، آلائش، میل کچیل) سے (کہ) نہ وہ بھولتا ہے اور نہ چوکتا ہے، نہ اسے بھوک لگتی ہے اور نہ موت آتی ہے، اسے نہ نیند آتی ہے اور نہ ہی اونگھ اچکتی ہے، اسے نہ والد (کی ضرورت واحتیاج) ہے اور نہ ہی اولاد اور بیوی کی، غرض اس جیسا کوئی نہیں۔
(6) اللہ ۔۔۔۔۔ حَمِيدٌ (تعریفوں کے قابل) بھی ہے
[حوالہ سورۃ البقرۃ:267، ابراھیم:1]
کہ تمام خوبیاں کا جامع، مرکز ومنبع ہے۔
(7) اللہ ۔۔۔۔۔ گناہ کا بہترین بخشنے والا غَافِرِ
[حوالہ سورۃ غافر:3، الاعراف:155]
تمام گناہ بخشنے والا الْغَفُورُ
[حوالہ سورۃ الزمر:53]
بخشش مانگنے والوں کو ہر بار بخشنے والا الْغَفَّارُ بھی ہے۔
[حوالہ سورۃ نوح:10 طٰہٰ:82]
(8)اللہ ۔۔۔۔۔ باربار توبہ قبول کرنے والا التَّوَّابُ بھی ہے۔
ندامت واعتراف کے ساتھ اللہ کی طرف لوٹنے والے اور اصلاح کرنے والے کیلئے، تسبیح وحمد کرنے والے اور بخشش مانگنے والے کیلئے۔
[حوالہ سورۃ النساء:64، البقرۃ:160، النصر:3]
نصرت ومدد کا بیان:
القرآن:(مسلمانو) کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں (یونہی) داخل ہوجاؤ گے، حالانکہ ابھی تمہیں اس جیسے حالات پیش نہیں آئے جیسے ان لوگوں کو پیش آئے تھے جو تم سے پہلے ہوگزرے ہیں۔ ان پر سختیاں اور تکلیفیں آئیں، اور انہیں ہلا ڈالا گیا، یہاں تک کہ رسول اور ان کے ایمان والے ساتھ بول اٹھے کہ“ اللہ کی مدد کب آئے گی ؟ ”یا درکھو ! اللہ کی مدد نزدیک ہے۔
[قرآن، سورۃ البقرۃ:214]
القرآن:
تمہارے لیے ان دو گروہوں (کے واقعے) میں بڑی نشانی ہے جو ایک دوسرے سے ٹکرائے تھے۔ ان میں سے ایک گروہ اللہ کے راستے میں لڑ رہا تھا، اور دوسرا کافروں کا گروہ تھا جو اپنے آپ کو کھلی آنکھوں ان سے کئی گنا زیادہ دیکھ رہا تھا۔ (5) اور اللہ جس کی چاہتا ہے اپنی مدد سے تائید کرتا ہے۔ بیشک اس واقعے میں آنکھوں والوں کے لیے عبرت کا بڑا سامان ہے۔
[سورۃ آل عمران:13]
تفسیر:
5: پیچھے یہ پیشینگوئی کی گئی تھی کہ کفار مسلمانوں سے مغلوب ہوں گے، اب اس کی ایک مثال دینے کی غرض سے جنگ بدر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس میں کافروں کا لشکر ایک ہزار مسلح لوگوں پر مشتمل تھا اور مسلمانوں کی تعداد کل تین سو تیرہ تھی، کافر کھلی آنکھوں دیکھ رہے تھے کہ ان کی تعداد کہیں زیادہ ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور کافروں کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔
القرآن:
اور جب خدا نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور دانائی عطا کروں پھر تمہارے پاس کوئی پیغمبر آئے جو تمہاری کتاب کی تصدیق کرے تو تمھیں ضرور اس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اس کی مدد کرنی ہوگی اور (عہد لینے کے بعد) پوچھا کہ بھلا تم نے اقرار کیا اور اس اقرار پر میرا ذمہ لیا (یعنی مجھے ضامن ٹہرایا) انہوں نے کہا (ہاں) ہم نے اقرار کیا (خدا نے) فرمایا کہ تم (اس عہد وپیمان کے) گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔
[سورۃ آل عمران:81]
القرآن:
اور یہ تمہیں خفیف سی تکلیف کے سوا کچھ نقصان نہیں پہنچا سکیں گے اور اگر تم سے لڑیں گے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے پھر ان کو مدد بھی (کہیں سے) نہیں ملے گی۔
[سورۃ آل عمران:111]
القرآن:
اور خدا نے جنگِ بدر میں بھی تمہاری مدد کی تھی اور اس وقت بھی تم بے سرو وسامان تھے پس خدا سے ڈرو (اور ان احسانوں کو یاد کرو) تاکہ شکر کرو۔
[سورۃ آل عمران:123]
القرآن:
اور اس مدد کو خدا نے تمھارے لیے (ذریعہٴ) بشارت بنایا یعنی اس لیے کہ تمہارے دلوں کو اس سے تسلی حاصل ہو ورنہ مدد تو خدا ہی کی ہے جو غالب (اور) حکمت والا ہے۔
[سورۃ آل عمران:126]
القرآن:
اور خدا تمہارا مددگار ہے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو پھر کون ہے کہ تمہاری مدد کرے اور مومنوں کو چاہیئے کہ خدا ہی پر بھروسا رکھیں۔
[سورۃ آل عمران:160]
القرآن:
اور خدا تمہارے دشمنوں سے خوب واقف ہے اور خدا ہی کافی کارساز ہے اور کافی مددگار ہے۔
[سورۃ النساء:45]
القرآن:
(نجات) نہ تو تمہاری آرزوؤں پر ہے اور نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر۔ جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی (طرح) کا بدلا دیا جائے گا اور وہ خدا کے سوا نہ کسی کو حمایتی پائے گا اور نہ مددگار۔
[سورۃ النساء:123]
القرآن:
اور اس مدد کو خدا نے محض بشارت بنایا تھا کہ تمہارے دل سے اطمینان حاصل کریں۔ اور مدد تو الله ہی کی طرف سے ہے۔ بےشک خدا غالب حکمت والا ہے۔
[سورۃ الانفال:10]
القرآن:
اور اس وقت کو یاد کرو جب تم زمین (مکہ) میں قلیل اور ضعیف سمجھے جاتے تھے اور ڈرتے رہتے تھے کہ لوگ تمہیں اُڑا (نہ) لے جائیں (یعنی بےخان وماں نہ کردیں) تو اس نے تم کو جگہ دی اور اپنی مدد سے تم کو تقویت بخشی اور پاکیزہ چیزیں کھانے کو دیں تاکہ (اس کا) شکر کرو۔
[سورۃ الانفال:26]
القرآن:
ان سے (خوب) لڑو۔ خدا ان کو تمہارے ہاتھوں سے عذاب میں ڈالے گا اور رسوا کرے گا اور تم کو ان پر غلبہ دے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا بخشے گا۔
[التوبۃ:14]
القرآن:
خدا نے بہت سے موقعوں پر تم کو مدد دی ہے اور (جنگ) حنین کے دن۔ جب تم کو اپنی (جماعت کی) کثرت پر غرّہ تھا تو وہ تمہارے کچھ بھی کام نہ آئی۔ اور زمین باوجود (اتنی بڑی) فراخی کے تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر پھر گئے
[التوبۃ:24]
القرآن:
اگر تم پیغمبر کی مدد نہ کرو گے تو خدا اُن کا مددگار ہے (وہ وقت تم کو یاد ہوگا) جب ان کو کافروں نے گھر سے نکال دیا۔ (اس وقت) دو (ہی ایسے شخص تھے جن) میں (ایک ابوبکرؓ تھے) اور دوسرے (خود رسول الله) جب وہ دونوں غار (ثور) میں تھے اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو خدا ہمارے ساتھ ہے۔ تو خدا نے ان پر تسکین نازل فرمائی اور ان کو ایسے لشکروں سے مدد دی جو تم کو نظر نہیں آتے تھے اور کافروں کی بات کو پست کر دیا۔ اور بات تو خدا ہی کی بلند ہے۔ اور خدا زبردست (اور) حکمت والا ہے
[التوبۃ:40]
القرآن:
جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ خدا اس(نبی)کو دنیا اور آخرت میں مدد نہیں دے گا تو اس کو چاہیئے کہ اوپر کی طرف (یعنی اپنے گھر کی چھت میں) ایک رسی باندھے پھر (اس سے اپنا) گلا گھونٹ لے۔ پھر دیکھے کہ آیا یہ تدبیر اس کے غصے کو دور کردیتی ہے۔
[الحج:15]
القرآن:
جن مسلمانوں سے (خواہ مخواہ) لڑائی کی جاتی ہے ان کو اجازت ہے (کہ وہ بھی لڑیں) کیونکہ ان پر ظلم ہو رہا ہے۔ اور خدا (ان کی مدد کرے گا وہ) یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے۔
[الحج:39]
القرآن:
یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے گھروں سے ناحق نکال دیئے گئے (انہوں نے کچھ قصور نہیں کیا) ہاں یہ کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار خدا ہے۔ اور اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو (راہبوں کے) صومعے اور (عیسائیوں کے) گرجے اور (یہودیوں کے) عبادت خانے اور (مسلمانوں کی) مسجدیں جن میں خدا کا بہت سا ذکر کیا جاتا ہے ویران ہوچکی ہوتیں۔ اور جو شخص خدا کی مدد کرتا ہے خدا اس کی ضرور مدد کرتا ہے۔ بےشک خدا توانا اور غالب ہے۔
[الحج:40]
القرآن:
پس ہم نے قارون کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا تو خدا کے سوا کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوسکی۔ اور نہ وہ بدلہ لے سکا۔
[القصص:18]
القرآن:
اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا پر ایمان لائے جب اُن کو خدا (کے رستے) میں کوئی ایذا پہنچتی ہے تو لوگوں کی ایذا کو (یوں) سمجھتے ہیں جیسے خدا کا عذاب۔ اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے مدد پہنچے تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ تھے۔ کیا جو اہل عالم کے سینوں میں ہے خدا اس سے واقف نہیں؟۔
[العنکبوت:10]
القرآن:
جب تم کافروں سے بھڑ جاؤ تو ان کی گردنیں اُڑا دو۔ یہاں تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو (جو زندہ پکڑے جائیں ان کو) مضبوطی سے قید کرلو۔ پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا چاہیئے یا کچھ مال لے کر یہاں تک کہ (فریق مقابل) لڑائی (کے) ہتھیار (ہاتھ سے) رکھ دے۔ (یہ حکم یاد رکھو) اور اگر خدا چاہتا تو (اور طرح) ان سے انتقام لے لیتا۔ لیکن اس نے چاہا کہ تمہاری آزمائش ایک (کو) دوسرے سے (لڑوا کر) کرے۔ اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کے عملوں کو ہرگز ضائع نہ کرے گا۔
[محمد:4]
القرآن:
ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی نشانیاں دے کر بھیجا۔ اور اُن پر کتابیں نازل کیں اور ترازو (یعنی قواعد عدل) تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں۔ اور لوہا پیدا کیا اس میں (اسلحہٴ جنگ کے لحاظ سے) خطرہ بھی شدید ہے۔ اور لوگوں کے لئے فائدے بھی ہیں اور اس لئے کہ جو لوگ بن دیکھے خدا اور اس کے پیغمبروں کی مدد کرتے ہیں خدا ان کو معلوم کرے۔ بےشک خدا قوی (اور) غالب ہے۔
[الحدید:25]
القرآن:
اور ایک اور چیز جس کو تم بہت چاہتے ہو (یعنی تمہیں) خدا کی طرف سے مدد (نصیب ہوگی) اور فتح عنقریب ہوگی اور مومنوں کو (اس کی) خوشخبری سنا دو۔
[الصف:13]
القرآن:
بھلا ایسا کون ہے جو تمہاری فوج ہو کر خدا کے سوا تمہاری مدد کرسکے؟ کافر تو دھوکے میں ہیں۔
[الملک:20]
خلاصہ تفسیر
(اے محمد ﷺ ) جب خدا کی مدد اور (مکہ کی) فتح (ع اپنے آثار کے) آ پہنچے اور) اس فتح پر مرتب ہونے والے آثار یہ ہیں کہ) آپ لوگوں کو اللہ کے دین (اسلام) میں جوق جوق داخل ہوتا دیکھ لیں، تو (اس وقت سمجھئے کہ مقصود دنیا میں رہنے کا اور آپ کی بعثت کا جو تکمیل دین تھا وہ پورا ہو چکا اور اب سفر آخرت قریب ہے اس کے لئے تیاری کیجئے اور) اپنے رب کی تسبیح و تحمید کیجئے اور اس سے مغفرت کی درخواست کیجئے (یعنی ایسے امور جو خلاف اولیٰ واقع ہو گئے ان سے مغفرت مانگئے) وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ معارف و مسائل یہ سورة با جماع مدنی ہے اور اس کا نام سورة التودیع بھی ہے، تو دیع کے معنی کسی کو رخصت کرنے کے ہیں اس سورة میں چونکہ رسول اللہ ﷺ کی وفات قریب ہونے کی طرف اشارہ ہے اس لئے اس کو سورة التودیع بھی کہا گیا ہے۔
حضرت ابن عمر نے فرمایا کہ یہ سورة حجتہ الوداع میں نازل ہوئی اس کے بعد آیت الیوم اکملت لکم دینکم نازل ہوئی، ان دونوں کے نزول کے بعد رسول اللہ ﷺ اس دنیا میں صرف اسی روز رہے (اسی روز کے بعد وفات ہو گئی) ان دونوں کے بعد آیت کلالہ نازل ہوئی جس کے بعد رسول اللہ ﷺ کی عمر شریف کے کل پچاس دن رہ گئے تھے اس کے بعد آیت لقد جآء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم الآیہ نازل ہوئی جس کے بعد عمر شریف کے کل پینتیس روز باقی تھے اس کے بعد آیت اتقوایوماً ترجعون فیہ الی اللہ نازل ہوئی جس کے بعد صرف اکیس روز اور مقاتل کی روایت میں صرف سات روز کے بعد وفات ہو گئی۔ (قرطبی) قرآن مجید کی آخری سورة اور آخری آیات:- صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ سورة نصر قرآن کی آخری سورة ہے (قرطبی) مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد کوئی مکمل سورة نازل نہیں ہوئی بعض آیات کا نزول جو اس کے بعد ہونا بعض روایات میں ہے وہ اس کے منافی نہیں، جیسا کہ سورہ فاتحہ کو قرآن کی سب سے پہلی سورة اسی معنی میں کہا جاتا ہے کہ مکمل سورة سب سے پہلے فاتحہ نازل ہوئی ہے۔ سورة اقراءاور مدثر وغیرہ کی چند آیات کا اس سے پہلے نازل ہونا اس کے منافی نہیں ۔
اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اس آیت اذا جاء نصر اللہ والفتح میں فتح سے فتح مکہ مراد ہے اور اس یں اختلاف ہے کہ یہ سورة فتح مکہ سے پہلے نازل ہوئی ہے یا بعد میں لفظ اذا جاء سے بظاہر قبل فتح نازل ہونا معلم ہوتا ہے اور روح المعانی میں بحر محیط سے ایک رویات بھی اس کے موافق نقل کی ہے جس میں اس سورة کا نزول غزوہ خیبر سے لوٹنے کے وقت بیان کیا گیا اور خیبر کی فتح فتح مکہ سے مقدم ہونا معلوم و معروف ہے اور روح المعانی میں بسند عبدابن حمید حضرت قتادہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ اس سورة کے نزول کے بعد دو سال زندہ رہے اس کا حاصل بھی یہی ہے کہ اس کا نزول فتح مکہ سے پہلے ہوا کیونکہ فتح مکہ سے وفات تک دو سال سے کم مدت ہے۔ فتح مکہ رمضان 8ہجری میں ہوئی اور وفات ربیع الاول 11ہجری میں اور جن روایات میں اس کا نزول فتح مکہ یا حجتہ الوداع میں نازل ہونا بیان کیا گیا ہے ان کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے یہ سورة پڑھی ہوگی جس سے لوگوں کو یہ خیال ہو اکہ یہ ابھی نازل ہوئی ہے۔ مزید تحقیق اس کی بیان القرآن میں مذکورہ ہے۔
متعدد احادیث مرفوعہ اور آثار صحابہ میں ہے کہ اس سورة میں رسول اللہ ﷺ کی وفات کا وقت قریب آ جانے کی طرف اشارہ ہے کہ اب آپ کی بعثت اور دنیا میں قیام کا کام پورا ہو چکا اب تسبیح و استغفار میں لگ جایئے۔ مقاتل کی روایت میں ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو آپ نے صحابہ کرام کے ممجع کے سامنے اس کی تلاوت فرمائی جن میں حضرت ابوبکر، عمر اور سعد بن ابی وقاص وغیرہ موجود تھے سب اس کو سنکر خوش ہوئے کہ اس میں فتح مکہ کی خوشخبری ہے مگر حضرت عباس رونے لگے۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ رونے کا کیا سبب ہے تو حضرت عباس نے عرض کیا کہ اس میں تو آپ کی وفات کی خبر مضمر ہے آنحضرت ﷺ نے اس کی تصدیق فرمائی۔ صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس سے یہی مضمون روایت کیا ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ جب اس کو حضرت عمر نے سنا تو فرمایا کہ اس سورت کے مفہوم سے میں بھی یہی سمجھتا ہوں۔
(رواہ الترمذی وقال حدیث حسن صحیح ، قرطبی)
ورایت الناس فتح مکہ سے پہلے بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی تھی جن کو رسول اللہ ﷺ کی رسالت اور اسلام کی حقانیت پر تقریباً یقین ہو چکا تھا مگر اسلام میں داخل ہونے سے ابھی تک قریش کی مخالفت کے خوف سے یا کسی تذبذب کی وجہ سے رکے ہوئے تھے۔ فتح مکہ نے وہ رکاوٹ دور کر دی تو فوج فوج ہو کر یہ لوگ اسلام میں داخل ہونے لگے۔ یمن سے سات سو نفر مسلمان ہو کر پہنچے جو راستہ میں اذانیں دیتے اور قرآن پڑھتے ہوئے آئے۔ اسی طرح عام عرب فوج فوج ہو کر داخل اسلام ہوئے۔
جب موت قریب محسوس ہو تو تسبیح و استغفار کی کثرت چاہئے:- فسبح بحمد ربک واستغفرہ حضرت صدیقہ ائشہ فرماتی ہیں کہ اس سورت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ جب کوئی نماز پڑھتے تو یہ دعا کرتے تھے سبحانک ربنا و بحمدک الھم اغفرلی
(واہ البخاری)
حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ اس سورت کے نزول کے بعد اٹھتے بیٹھتے اور جاتے آتے ہر وقت میں یہ دعا پڑھتے تھے، سبحان اللہ وبحمدہ استغفر اللہ واتوب الیہ اور فرماتے تھے کہ مجھے اس کا حکم کیا گیا اور دلیل میں اذا جاء نصر اللہ کی تلاوت فرماتے تھے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ اس سورت کے نزول کے بعد رسول اللہ ﷺ نے عبادت میں بڑا مجاہدہ فرمایا یہاں تک کہ آپ کے پاؤں ورم کر گئے۔
(قرطبی)
*********************************
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے میرے نبی ! اب جبکہ آپ اپنے دشمنوں کے خلاف ہر معرکے میں غالب آنے لگے ہیں، مکہ کو فتح کر لیا ہے اور وہ دار الکفر سے دار الاسلام بن گیا ہے اور قبائل عرب گروہ درگروہ اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں، جب یہ سب نعمتیں حاصل ہو گئیں تو آپ اپنے رب کا شکر بجا لانے کے لیے اس کی پاکی اور اس کی حمد و ثنا بیان کیجیے اور اس سے مغفرت طلب کرتے رہیے۔ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے بندوں کی توبہ کو بہت جلد قبول کرتا ہے، ان کے گناہوں کو معاف کر دیتا اور ان کے حال پر رحم کرتا ہے۔
اس سورت میں نبی کریم ﷺ کے لیے ایک خوشخبری ہے کہ اللہ اپنے رسول کی مدد کرے گا، مکہ مکرمہ فتح ہو گا اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوں گے۔ ایک تنبیہ بھی ہے کہ چونکہ دنیا سے آپ کے رخصت ہونے کا وقت قریب آ چکا ہے، اس لیے آپ کو چاہیے کہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اس کی یاد میں لگائیں، تاکہ عمر کا آخری حصہ اس کی یاد میں گزرے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر فاروق ؓ بڑی عمر والے بدری صحابہ کے ساتھ مجھے بھی (اپنی مجلس میں) شامل کر لیا کرتے تھے، تو اس پر بعض صحابہ (یعنی عبد الرحمن بن عوف ؓ ) کو اعتراض ہوا، انھوں نے کہا، آپ اس نوجوان کو ہمارے ساتھ مجلس میں کیوں بٹھاتے ہیں ؟ اس کی عمر کے تو ہمارے بچے ہیں۔ فاروق اعظم ؓ نے فرمایا، اس کی وجہ تم خوب جانتے ہو۔ پھر ایک دن عمر ؓ نے انھیں بلایا اور مجھے بھی بلایا، میں سمجھ گیا کہ آج مجھے اس لیے بلایا، تاکہ آپ انھیں میرے بارے میں بتا سکیں، پھر امیر المومنین ؓ نے ان سے پوچھا، سورۃ : (اِذَا جَاۗءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ ) کی نسبت تمھیں کیا علم ہے؟ بعض نے کہا، اس میں ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اللہ کی حمد و ثنا بیان کریں اور اس سے استغفار کریں کہ اس نے ہماری مدد کی اور ہمیں فتح عنایت فرمائی اور بعض بالکل خاموش رہے، کچھ جواب نہ دیا تو آپ نے میری طرف توجہ فرمائی اور کہا، اے ابن عباس ! کیا تم بھی یہی کہتے ہو؟ میں نے کہا، نہیں۔ فرمایا، تم کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا کہ اس میں رسول اللہ ﷺ کی وفات کی طرف اشارہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی مدد اور فتح حاصل ہو گئی یعنی فتح مکہ، تو یہ آپ کی وفات کی نشانی ہے۔ اس لیے آپ اپنے رب کی حمد اور تسبیح کریں اور اس کی مغفرت طلب کریں کہ وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔ عمر ؓ نے کہا کہ جو کچھ تم نے کہا وہی میں سمجھتا ہوں۔ [ بخاری، کتاب التفسیر، باب ( فسبح بحمدک ربک ۔۔ الخ ) : ٤۹۷۰، ٤۲۹٤ ]
اِذَا جَاۗءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ : فتح سے مراد یہاں فتح مکہ ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (مکہ فتح کرنے کے لیے) مدینہ منورہ سے نکلے، رمضان کا مہینا تھا۔ آپ ﷺ کے ہمراہ دس ہزار کا لشکر تھا اور آپ کو مدینہ میں تشریف لائے ہوئے ساڑھے آٹھ سال ہونے کو تھے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھ جو مسلمان تھے وہ مکہ کی طرف روانہ ہوئے، تو اس وقت آپ ﷺ بھی روزہ رکھے ہوئے تھے اور آپ کے ساتھ مسلمانوں نے بھی روزہ رکھا ہوا تھا۔ [ بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ الفتح فی رمضان : ٤۲۷٦۔ مسلم، کتاب الصیام، باب جواز الصوم والفطر ۔۔ الخ : ۱۱۱۳ ]
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کل ان شاء اللہ ہمارا قیام مقام خیف بنی کنانہ میں ہو گا، جہاں قریش کے لوگوں نے کفر پر قسم کھائی تھی۔‘‘ [ بخاری، کتاب المغازی، باب أین رکز النبی ﷺ الرایۃ یوم الفتح ؟ : ٤۲۸۵ ]
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ چلتے رہے، یہاں تک کہ مکہ میں داخل ہوئے۔ آپ نے ایک جانب زبیر ؓ کو بھیجا اور دوسری جانب خالد بن ولید ؓ کو اور ابو عبیدہ بن الجراح ؓ کو ان لوگوں کا سردار بنایا جن کے پاس زرہیں نہ تھیں۔ انھوں نے گھاٹی کے اندر سے راستہ اختیار کیا اور رسول اللہ ﷺ لشکر کے ایک حصے میں تشریف فرما تھے۔ آپ نے مجھے دیکھا تو فرمایا : ’’ ابوہریرہ!‘‘ میں نے کہا، اے اللہ کے رسول ! میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’صرف انصارکو بلاؤ کہ وہ میرے پاس آئیں۔‘‘ میں نے انھیں آواز دی اور وہ سب آپ کے اردگرد جمع ہو گئے۔ دوسری جانب (کفار) قریش کا منظر یہ تھا کہ انھوں نے ایک منصوبے کے تحت اپنے اوباش اور تابع دار اکٹھے کیے اور طے کیا کہ ہم مقابلے کے لیے ان کو مسلمانوں کے آگے کرتے ہیں۔ اگر کامیابی کے کوئی آثار پیدا ہوئے تو ہم بھی مدد کو ان کے ساتھ مل جائیں گے اور اگر کوئی آفت آئی (یعنی یہ مارے گئے) تو (مقابلہ کرنے کے جرم میں) جو ہم سے مانگا گیا وہ دے دیں گے۔ ( اس صورت حال کا آپ کو علم ہوا تو) آپ نے فرمایا : ’’تم دیکھتے ہو قریش کے اوباش چھوکروں اور ان کے تابع داروں کو؟‘‘ اور اس کے ساتھ ہی آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر مارا (یعنی مارو مکہ کے کافروں کو اور ان میں سے کسی کو نہ چھوڑو)۔ اور فرمایا : ’’(اس کے بعد) تم مجھے صفا پر ملو۔‘‘ ابوہریرہ ؓ نے فرمایا، پھر ہم چل پڑے، ہم میں سے جس کا دل چاہتا کہ کسی(کافر) کو قتل کر دے تو وہ اسے قتل کر ڈالتا، کسی (کافر) میں ہمارا مقابلہ کرنے کی ہمت نہ تھی۔
[ مسلم، کتاب الجھاد، باب فتح مکۃ : ۱۷۸۰ ]
سیدنا انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہوئے تو اس وقت آپ کے سر پر خود تھا، جب آپ نے خود اتارا تو ایک شخص آیا اور کہنے لگا، یا رسول اللہ! عبداللہ بن خطل کعبے کے پردوں سے چمٹا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اسے (وہیں) قتل کر دو۔‘‘
[ بخاری، کتاب المغازی، باب أین رکز النبی ﷺ الرایۃ یوم الفتح؟ : ٤۲۸٦ ]
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہوئے تو کعبہ کے گرد چاروں طرف تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔ آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی، آپ اس کے ساتھ بت کو کچوکا مارتے اور یہ آیت تلاوت فرماتے جاتے : (جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا) [ بنی إسرائیل : ۸۱ ] ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل مٹنے والا تھا۔‘‘ اور یہ آیت : (جَاۗءَ الْحَـقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيْدُ) [ سبا : ٤۹ ] ’’حق آ گیا اور باطل نہ پہلی دفعہ کچھ کرتا ہے اور نہ دوبارہ کرتا ہے۔‘‘
[ بخاری، کتاب المغازی، باب أین رکز النبی ﷺ الرایۃ یوم الفتح ؟ : ٤۲۸۷، ٤۷۲۰۔ مسلم، کتاب الجہاد، باب إزالۃ الأصنام من حول الکعبۃ : ۱۷۸۱]
سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے وقت مکہ پہنچے تو بتوں کی موجودگی میں بیت اللہ میں داخل ہونے سے انکار کر دیا۔ آپ نے ان سب کو نکالنے کا حکم دیا، چنانچہ انھیں باہر نکال دیا گیا، ان میں سے ایک تصویر ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کی بھی تھی، ان کے ہاتھوں میں فال کے تیر تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’اللہ ان مشرکوں کو ہلاک کرے، ان مشرکوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ابراہیم اور اسماعیل علیہ السلام نے کبھی ان تیروں کے ذریعے سے قسمت معلوم کرنے کے لیے فال نہیں نکالی۔‘‘
[ بخاری، کتاب المغازی، باب أین رکز النبی ﷺ الرایۃ یوم الفتح ؟ : ٤۲۸۸ ]
وَرَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا: یعنی فتح مکہ کے بعد لوگ جوق در جوق اسلام قبول کرنے لگے، جیسا کہ سیدنا عمرو بن سلمہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایسے چشمے کے پاس ر ہا کرتے تھے جو لوگوں کی عام گزر گاہ تھی، سوار ہمارے پاس سے گزرا کرتے تھے۔ ہم ان سے پوچھتے رہتے تھے، کہو ! لوگوں کا کیا حال ہے؟ اس شخص کی کیا کیفیت ہے؟ وہ کہتے، وہ شخص دعویٰ کرتا ہے کہ اللہ نے اس کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ اس پر وحی نازل کرتا ہے، یا، اللہ نے ان پر وحی نازل کی ہے (اور وہ قرآن کی کوئی آیت سناتے) تو میں اس وحی کو یاد کر لیتا تھا۔ گویا وہ میرے سینے میں جم جاتی تھی۔ ادھر سارے عرب والے فتح مکہ پر اپنے اسلام کو موقوف کیے ہوئے تھے۔ وہ کہتے تھے، انھیں اور ان کی قوم کو چھوڑ دو، اگر وہ ان پر غالب آ گئے تو وہ سچے پیغمبر ہیں۔ پھر جب مکہ فتح ہو گیا تو ہر قوم نے اسلام لانے میں سبقت کی۔ میرے باپ نے بھی اسلام قبول کرنے میں میری قوم کے مقابلہ میں سبقت کی۔ جب وہ آئے تو کہنے لگے، اللہ کی قسم! میں سچے پیغمبر سے مل کر تمھارے پاس آ رہا ہوں، آپ نے فرمایا : ’’فلاں وقت فلاں نماز پڑھو، فلاں وقت فلاں نماز پڑھو اور جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے ایک آدمی اذان دے اور جس کو زیادہ قرآن یاد ہو وہ نماز پڑھائے۔‘‘ میری قوم کے لوگوں نے دیکھا تو مجھ سے زیادہ کسی کو قرآن یاد نہ تھا، کیونکہ میں مسافر سواروں سے سن سن کر قرآن یاد کر لیا کرتا تھا۔ انھوں نے مجھ ہی کو امام بنایا، حالانکہ اس وقت میری عمر چھ یا سات سال کی تھی۔
[بخاری، کتاب المغازی، بابٌ : ٤۳۰۲ ]
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ڼ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا: سیدنا شداد بن اوس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سید الاستغفار یہ ہے کہ بندہ یوں کہے : (( اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ، لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَاَنَا عَبْدُکَ وَاَنَا عَلٰی عَھْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، اَبُوْءُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ، وَاَبُوْءُ بِذَنْبِیْ، فَاغْفِرْ لِیْ فَإِنَّہُ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلاَّ اَنْتَ ))’’اے اللہ! تو میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو نے ہی مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں اور میں جہاں تک طاقت رکھتا ہوں تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں۔ میں نے جو کچھ کیا اس کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں، میں ان نعمتوں کا اقرار کرتا ہوں جو تونے مجھ پر کیں اور میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں ، پس تو مجھے معاف کر دے، کیونکہ تیرے سوا کوئی گناہوں کو معاف کرنے والا نہیں۔‘‘ آپ نے فرمایا : ’’جو شخص یہ کلمات استغفار دن میں یقین کے ساتھ پڑھے اور شام ہونے سے پہلے اسے موت آ جائے تو وہ جنتی ہے اور جو اسے یقین کے ساتھ رات کو پڑھے اور صبح ہونے سے پہلے اسے موت آ جائے تو وہ جنتی ہے۔‘‘
[بخاری، کتاب الدعوات، باب أفضل الاستغفار ۔۔ الخ : ٦۳۰٦ ]
سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے رکوع اور سجدے میں یہ دعا کثرت سے پڑھا کرتے تھے : ((سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اَللَّھُمَّ اغْفِرْ لِیْ ))’’پاک ہے تو اے اللہ! اے ہمارے رب ! اپنی تعریف کے ساتھ، اے ہمارے رب مجھے بخش دے۔‘‘ آپ قرآن ( میں جو حکم دیا گیا تھا اس) کی تعمیل کرتے تھے۔
[بخاری، کتاب التفسیر، بابٌ : ٤۹٦۸۔ مسلم، کتاب الصلوۃ، باب ما یقال فی الرکوع والسجود ؟: ٤۸٤ ]
سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اکثر یہ دعا پڑھا کرتے تھے : (( سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ )) میں نے عرض کی، اے اللہ کے رسول! میں دیکھتی ہوں کہ آپ یہ دعا : (( سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ )) بہت زیادہ پڑھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا : ’’مجھ سے میرے رب نے بیان کیا کہ تم اپنی امت میں ایک نشانی دیکھو گے تو جب میں نے اس نشانی کو دیکھ لیا تو میں نے کثرت سے یہ تسبیح پڑھنا شروع کر دی : (( سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ )) یعنی وہ نشانی میں نے دیکھ لی (اور وہ یہ ہے) : (اِذَا جَاۗءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ)’’جب اللہ کی مدد اور فتح آ جائے۔‘‘ یعنی فتح مکہ اور : (ۙوَرَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا Ąۙفَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ڼ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا) ’’اور تو لوگوں کو دیکھے کہ وہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں۔ تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر اور اس سے بخشش مانگ، یقیناًوہ ہمیشہ سے بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘
[مسلم، کتاب الصلوۃ، باب ما یقال فی الرکوع والسجود؟ :۲۲۰؍٤۸٤ ]
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’جو شخص کسی مجلس میں بیٹھے اور اس میں اس کی غپ شب اور لغو باتیں زیادہ ہو جائیں اور وہ اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے یہ دعا پڑھ لے : (( سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَاَتُوْبُ اِلَیْکَ ))’’اے اللہ ! تو پاک ہے اپنی حمد کے ساتھ، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں، میں تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اور تیری طرف توبہ کرتا ہوں۔‘‘ تو اس مجلس میں اس سے جو کچھ ہوا وہ معاف کر دیا جاتا ہے۔‘‘
[ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما یقول إذا قام من مجلسہ : ۳٤۳۳ ]