جس طرح نماز بغیر(کامل)طہارت(یعنی وضو)کے(صحیح)نہیں[1]، اسی طرح بغیر(کامل)طہارت(یعنی وضو)کے قرآن چھونا(بھی جائز)نہیں[2]۔
[1] ۔۔۔وَلَا صَلَاةً بِغَيْرِ طُهُورٍ۔
[سنن أبي داود - كِتَاب الطَّهَارَةِ، بَابُ فَرْضِ الْوُضُوءِ، رقم الحدیث:59]
لَا تُقْبَلُ صَلَاةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ۔۔۔
[صحیح مسلم - كِتَابِ الطَّهَارَةِ ، بَابُ وُجُوبِ الطَّهَارَةِ لِلصَّلَاةِ ، رقم الحدیث:224]
[سنن أبي داود - كِتَاب الطَّهَارَةِ، بَابُ فَرْضِ الْوُضُوءِ، رقم الحدیث:59]
لَا تُقْبَلُ صَلَاةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ۔۔۔
[صحیح مسلم - كِتَابِ الطَّهَارَةِ ، بَابُ وُجُوبِ الطَّهَارَةِ لِلصَّلَاةِ ، رقم الحدیث:224]
[2] حَدَّثَنِي يَحْيَى ، عَنْ مَالِك ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَزْمٍ ، أَنَّ فِي الْكِتَابِ الَّذِي كَتَبَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، أَنْ " لَا يَمَسَّ الْقُرْآنَ إِلَّا طَاهِرٌ " . قَالَ مَالِك : وَلَا يَحْمِلُ أَحَدٌ الْمُصْحَفَ بِعِلَاقَتِهِ وَلَا عَلَى وِسَادَةٍ إِلَّا وَهُوَ طَاهِرٌ۔۔۔.
عبداللہ بن ابی بکر بن حزمؒ سے روایت ہے کہ جو کتاب رسول اللہ ﷺ نے لکھی تھی عمرو بن حزمؓ کے واسطے اس میں یہ بھی تھا کہ ’’قرآن
نہ چھوئے مگر جو (شخص) پاک ہو‘‘۔ کہا(امام)مالکؒ نے:کوئی شخص مصحف (کتاب اللہ) کو فیتہ پکڑ کر یا تکیہ پر رکھ کر نہ اٹھائے مگر وہ پاک ہو(تو صحیح ہے)۔۔۔۔
تخريج الحديث
|
تخريج الحديث
|
تخريج الحديث
|
حَدَّثَنَا أَبُو زَكَرِيَّا الدِّينَوَرِيُّ الْبَصْرِيُّ , ثنا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ ثَوَابٍ الْحُصْرِيُّ , ثنا أَبُو عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ , عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى , قَالَ : سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ يُحَدِّثُ , عَنْ أَبِيهِ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ : " لا يَمَسُّ الْقُرْآنَ إِلا طَاهِرٌ " .
[المعجم الكبير للطبراني » بَابُ التَّاءِ » بَابٌ » عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ ... » سَالِمٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ۔۔۔ رقم الحديث: 13049]
تخريج الحديث
|
عن عبد الرحمن بن يزيد قال :كنا مع سلمان رضي الله عنه ، فانطلق إلى حاجة فتوارى عنا ، ثم خرج إلينا وليس بيننا وبينه ماء قال : فقلنا له : يا أبا عبد الله ، لو توضأت فسألناك عن أشياء من القرآن . قال : فقال : " سلوا ، فإني لست أمسه " . فقال : " إنما يمسه المطهرون ، ثم تلا إنه لقرآن كريم في كتاب مكنون لا يمسه إلا المطهرون " . " هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه .
[المستدرك على الصحيحين للحاكم :كِتَابُ التَّفْسِيرِ، تَفْسِيرُ سُورَةِ الْوَاقِعَةِ، رقم الحدیث:3782]
عبد الرحمٰن بن زیدؒ کہتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت سلمان فارسیؓ کےساتھ تھے، وہ قضاء حاجت کیلئے ہم سے دور چلے گئے، پھر جب تشریف لائے تو ہم نے کہا:اگر آپ وضو کرلیں تو ہم آپ سے قرآن کے بارے میں کچھ پوچھیں۔ حضرت سلمان فارسیؓ نے فرمایا: مجھ سے سوال کرو کیونکہ میں اس(قرآن)کو چھو نہیں رہا ہوں، اس کو پاک آدمی ہی چھو سکتا ہے، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی:
بلاشبہ یہ قرآن محترم ہے، محفوظ کتاب (لوحِ محفوظ) میں ہے، اسے نہیں چھوتے مگر وہی جو پاک ہیں۔
[حاکم:3782، دارقطنی:443، بیھقی:412]
{لاَّ يَمَسُّهُ إِلاَّ المطهرون} من جميع الأدناس أدناس الذنوب وغيرها إن جعلت الجملة صفة لكتاب مكنون وهو اللوح وان جعلها صفة للقرآن فالمعنى لا ينبغي أن يمسه إلا من هو على الطهارة من الناس والمراد مس المكتوب منه
[تفسير النسفي (المتوفى: 710هـ) : 3/429]
المطہرونؔ وہ تمام گندگیوں سے پاک ہیں۔ گناہوں کی میل کچیل وغیرہ سے یہ اس وقت معنی ہے جبکہ تم اس کو کتاب مکنون کی صفت قرار دو ۔ جو کہ لوح محفوظ ہے ، اور اگر اس کو قرآن مجید کی صفت قرار دو تو اس وقت معنی یہ ہوگا اس کو لوگوں میں سے وہ چھو سکتا ہے جو طہارت کی حالت میں ہو اور مس سے مراد اس کے لکھے ہوئے کا چھونا ہے۔
حضرت عمرؓ کی بہن سے حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کے موقع پر کہا تھا : جب کہ وہ ان کے پاس گئے اور صحیفہ منگوایا تو حضرت عمر کی بہن نے کہا : لا یمسہٗ الا المطھرون۔ اسے پاک لوگ ہی چھوتے ہیں، حضرت عمر اٹھے، غسل کیا اور سلام لائے۔ یہ واقعہ سورة طہٰ کے شروع میں گزر چکا ہے۔ اس تعبیر کی بناء پر قتادہ اور دوسرے علماء نے کہا : یہاں مطہرون سے مراد احداث اور انجاس سے پاک لوگ ہیں۔
حوالہ:
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ بِشْرَانَ الْعَدْلُ بِبَغْدَادَ، أنا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْبَخْتَرِيِّ الرَّزَّازُ، نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ يَعْنِي ابْنَ الْمُنَادِي، ثنا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ يَعْنِي الْأَزْرَقَ، ثنا الْقَاسِمُ بْنُ عُثْمَانَ الْبَصْرِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: خَرَجَ عُمَرُ مُتَقَلِّدًا بِسَيْفِهِ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَفِيهِ قِيلَ لَهُ: " إِنَّ خَتَنَكَ وَأُخْتَكَ قَدْ صَبَوَا وَتَرَكَا دِينَكَ الَّذِي أَنْتَ عَلَيْهِ " فَمَشَى عُمَرُ حَتَّى أَتَاهُمَا وَعِنْدَهُمَا رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ يُقَالَ لَهُ خَبَّابٌ، وَكَانُوا يَقْرَءُونَ طه فَقَالَ عُمَرُ: " أَعْطُونِي الْكِتَابَ الَّذِي هُوَ عِنْدَكُمْ فَأَقْرَأُ " قَالَ: وَكَانَ عُمَرُ يَقْرَأُ الْكِتَابَ، فَقَالَتْ أُخْتُهُ: إِنَّكَ رِجْسٌ، وَإِنَّهُ {لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ} [الواقعة: 79] فَقُمْ فَاغْتَسِلْ أَوْ تَوَضَّأْ. قَالَ: فَقَامَ عُمَرُ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ أَخَذَ الْكِتَابَ، فَقَرَأَ: طه ". وَلِهَذَا الْحَدِيثِ شَوَاهِدُ كَثِيرَةٌ، وَهُوَ قَوْلُ الْفُقَهَاءِ السَّبْعَةِ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ[السنن الكبرى للبيهقي (المتوفى: 458هـ) : جُمَّاعُ أَبْوَابِ سُنَّةُ الْوُضُوءِ وَفَرْضِهِ ، بَابُ نَهْيِ الْمُحْدِثِ عَنْ مَسِّ الْمُصْحَفِ ، رقم الحدیث:413
دلائل النبوة للبيهقي (المتوفى: 458هـ) : 2/219 جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْمَبْعَثِ ، بَابُ ذِكْرِ إِسْلَامِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ]
تاريخ المدينة لابن شبة (المتوفى: 262هـ) : أَخْبَارُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ : 2/657
أحكام القرآن للجصاص (المتوفى: 370هـ) : 3/555
تفسير القرطبي (المتوفى: 671هـ) :
تفسير الماوردي (المتوفى: 450هـ) :
سير أعلام النبلاء، للذهبي (المتوفى: 748هـ) : 1/255،دار الحديث- القاهرة
تاريخ الإسلام، للذهبي (المتوفى: 748هـ) : 1/174، دار الكتاب العربي، بيروت
نصب الراية لأحاديث الهداية، للزيلعي (المتوفى: 762هـ) : 1/199
الدر المنثور، للسيوطي (المتوفى: 911هـ) : 5/560
الخصائص الكبرى للسيوطي (المتوفى: 911هـ) : 1/219
تاريخ الخلفاء للسيوطي (المتوفى: 911هـ) : 91، مكتبة نزار مصطفى الباز
تاريخ الخميس:1/295، دار صادر - بيروت
شرح الزرقاني (المتوفى: 1122هـ) :2/6 - دار الكتب العلمية
صَحِيحُ الأثَر وجَمَيلُ العبر من سيرة خير البشرﷺ:121، مكتبة روائع المملكة - جدة
نوٹ: ایک ہے قرآن مجید کا بغیر وضو ’’پڑھنا‘‘، تو اس کے جائز ہونے پر اتفاق ہے، دوسرا ہے قرآن مجید کو بغیر وضو ’’چھونا‘‘ تو تفسیر وفقہ کی اَکثر کتابوں مثلاً، تفسیر قرطبی، تفسیر کبیر، تفسیر ابن کثیر اور شامی، بدایۃ المجتہد، بدائع الصنائع وغیرہ میں یہ صراحت ہے کہ جمہور فقہاء واکثر مفسرین اور حضراتِ صحابہ وتابعین میں حضرت علیؓ، ابن مسعودؓ، سعد بن وقاصؓ، سعید بن زیدؓ، عطاء، زہری، ابراہیم نخعی، حکم، حماد، امام مالک، امام ابوحنیفہ، شافعی رحمہم اللہ وغیرہ کے نزدیک جنبی اور حائضہ کی طرح بے وضو شخص کے لئے بھی قرآنِ کریم کو چھونا ناجائز اور قرآن کی توہین ہے۔
(تفسیر القرطبي ۱۷؍۱۴۶-۱۴۷ بیروت، ۱۷؍۲۲۶ دار إحیاء التراث العربي بیروت، ومثلہ في تفسیر الکبیر للفخر الرازي ۲۹؍۱۹۳- ۱۹۴، تفسیر ابن کثیر مکمل ص: ۱۲۰۴ دار السلام ریاض، معارف القرآن ۸؍۲۸۶، روح المعاني ۲۷،۱۵۴، بدائع الصنائع ۱؍۱۴۰، بدایۃ المجتہد ۱؍۳۰ بیروت)
اور جو شخص بے وضو ہو وہ شریعت کی نظر میں حکما پاک نہیں کہا جاسکتا۔
لا یجوز لمحدث مس مصحف إلا بغلافہ المنفصل لا المتصل في الصحیح۔
(مجمع الأنہر / کتاب الطہارۃ ۱؍۴۲ دار الکتب العلمیۃ بیروت، رد المحتار / کتاب الطہارۃ ۱؍۱۷۳ کراچی، وکذا في النہر الفائق / کتاب الطہارۃ ۱؍۱۳۴ المکتبۃ الإمدادیۃ ملتان)
ویحرم بہ تلاوۃ القرآن بقصدہ … ومسہ بالأکبر وبالأصغر مس المصحف، إلا بغلاف متجاف غیر مشرز أو بصرۃ، بہ یفتیٰ۔ (الدر المختار / کتاب الطہارۃ ۱؍۱۷۲-۱۷۳ کراچی، طحطاوي ۱۴۳)
لا یجوز لہما ولجنب والمحدث مس المصحف إلا بغلاف متجاف عنہ کالخریطۃ والجلد الغیر المشرز لا بما ہو متصل بہ ہو الصحیح۔ (الفتاویٰ الہندیۃ / کتاب الطہارۃ ۱؍۳۹ زکریا، الہدایۃ ۱؍۶۴)
علامہ ابن تیمیہ ؒ نے بھی یہی تحریر فرمایا کہ بغیر وضو کے قرآن کریم نہیں چھونا چاہئے، اور یہی حضرت سلمان فارسیؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور دیگر صحابۂ کرام کی رائے تھی اور کسی ایک صحابی سے اس کے خلاف منقول نہیں۔ (مجمع الفتاویٰ: ۲۲۶/۲۱ ۔ ۲۸۸/۲۱)
شیخ حافظ ابن البر ؒ نے تحریر فرمایا کہ تمام علماء امت کا اتفاق ہے کہ مصحف چھونے کے لئے وضو ضروری ہے۔ (الاستذکار: ۱۰/۸)
سعودی عرب کے سابق مفتی شیخ عبدالعزیز بن بازؒ نے بھی قرآن وحدیث کی روشنی میں یہی فرمایا ہے کہ بغیر وضو کے قرآن کریم کا چھونا جائز نہیں ہے جو انٹرنیٹ کے مذکورہ لنکس پر پڑھا اور سنا جاسکتا ہے۔
امام مالکؒ جب درسِ حدیث دیتے یا امام بخاری ؒ جب کوئی حدیث شریف لکھتے تواس پہلے دوگانہ ادا کرتے اور پھر حدیث شریف لکھتے ۔ جب حدیث شریف لکھنے کے لیے اتنا اہتمام فرماتے تھے تو قرآن پاک کے بارے میں کیا عمل ہونا چاہئے ؟ بات چونکہ بہت طویل ہوگئی بس اسی پر اکتفاء کرتا ہوں نہیں تو بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔
|