Thursday, 20 February 2020

غفلت کیا ہے اور اس کا انجام

غفلت اس سہو کو کہتے ہیں جو تحفظ اور احتیاط کی کمی کی بناء پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے۔ قرآن میں ہے:

لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا
[سورۃ ق:22]
بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا۔
[مفردات القرآن-امام راغب اصفھانی]





القرآن:

۔۔۔ اور نہ کہا مان اس کا جس کا دل "غافل" کیا ہم نے اپنی یاد سے، اور وہ پیچھے پڑا ہوا ہے اپنی خوشی کے، اور اس کا کام ہے حد پر نہ رہنا۔

[سورۃ الکھف:28]

اور جو الله کی یاد سے"غافل"ہوتا ہے تو وہ اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں پھر وہ اسکے ساتھ رہتا ہے۔

[سورۃ الزخرف:36]








عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَ يَتَحَسَّرُ أَهْلُ الْجَنَّةِ إِلَّا عَلَى سَاعَةٍ مَرَّتْ بِهِمْ لَمْ يَذْكُرُوا اللهَ فِيهَا ۔
ترجمہ:
جبیر بن نفیل حضرت معاذ بن جبل سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جنت والوں کو کسی چیز کا افسوس نہیں ہوگا، سوائے اس گھڑی کے جو انہوں نے(دنیا میں)ذکر الله کے بغیر گزاری۔

[صحیح الجامع الصغیر:5446، الجامع الصغیر:9577]

[جامع الاحادیث:19551، طبرانی:182(20/93)]

[شعب الإيمان-امام البيهقي (المتوفى: 458هـ) » حدیث نمبر 509-510]

[عمل اليوم والليلة لابن السني(م364ھ): صفحہ#6]

[مسند الشاميين للطبراني(م360ھ) : حدیث446]

[الهداية إلى بلوغ النهاية-امام مكي بن أبي طالب(المتوفى: 437هـ) » تفسیر سورۃ العنکبوت، آیت#45]

[تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی» سورۃ البقرۃ:152]


القرآن:

(اے پیغمبر) جو کتاب تمہارے پاس وحی کے ذریعے بھیجی گئی ہے اس کی تلاوت کرو، اور نماز قائم کرو۔ بیشک نماز بےحیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ (26) اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سب کو جانتا ہے۔

[سورۃ نمبر 29 العنكبوت، آیت نمبر 45]


تفسیر:

(26)یعنی اگر انسان نماز کو نماز کی طرح پڑھے، اور اس کے مقصد پر دھیان دے تو وہ اسے بےحیائی اور ہر برے کام سے روکے گی، اس لئے کہ انسان نماز میں سب سے پہلے تکبیر کہہ کر اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا اعلان اور اقرار کرتا ہے، جس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے کسی بات کو وقعت نہیں دیتا، پھر ہر رکعت میں وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ یا اللہ ! میں آپ ہی کی بندگی کرتا ہوں، اور آپ ہی سے مدد مانگتا ہوں، لہذا جب اس کے بعد کسی گناہ کا خیال اس کے دل میں آئے تو اگر اس نے نماز دھیان سے پڑھی ہے تو اسے اپنا عہد یاد آنا چاہیے، جو یقیناً اسے گناہ سے روکے گا، نیز رکوع سجدے اور نماز کی ہر حرکت و سکون میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے زبان حال سے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا فرماں بردار بناکر پیش کرتا ہے، اس لئے جو شخص نماز کو سوچ سمجھ کر اس طرح پڑھے جیسے پڑھنا چاہیے یقیناً اسے برائیوں سے روکے گی۔



رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ما من ساعة تأتي على ابن آدم لا يذكر اللََّه تعالى فيها إلا كانت عليه حسرة وان دخل الجنة۔

[قوت القلوب:1/187]

(ما من ساعة تأتى على العبد لا يذكر الله فيها الا كانت عليه حسرة يوم القيامة)

[تفسیر روح البیان»سورۃ المومنون،آیت113-114]

ترجمہ:

ابنِ آدم کی جو گھڑی بھی اللہ کے ذکر سے خالی گذر گئی وہ قیامت کے دن حسرت وافسوس کا سبب ہوگی۔

[جامع الصغیر للسیوطی:8045 حسن]


القرآن:

وہ کہیں گے کہ : ہم ایک دن یا ایک دن سے بھی کم رہے ہوں گے۔ (ہمیں پوری طرح یاد نہیں) اس لیے جنہوں نے (وقت کی) گنتی کی ہو، ان سے پوچھ لیجیے۔

[سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 113]

تفسیر:

آخرت کا عذاب اتنا سخت ہوگا کہ اس کے مقابلے میں دنیا کی ساری زندگی اور اس میں جو عیش و عشرت کیے تھے وہ ان دوزخیوں کو ایک دن یا اس سے بھی کم معلوم ہوں گے۔



القرآن:

اللہ فرمائے گا : تم تھوڑی مدت سے زیادہ نہیں رہے۔ کیا خوب ہوتا اگر یہ بات تم نے (اس وقت) سمجھ لی ہوتی۔

[سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 114]

تفسیر:

35: یعنی اب تو تم نے خود دیکھا لیا کہ دنیا کا عیش ایک دن کا نہ سہی، مگر آخرت کے مقابلے میں بہت تھوڑا سا تھا۔ یہی بات تم سے دنیا میں کہی جاتی تھی تو تم اسے ماننے کو تیار نہیں ہوتے تھے۔ کاش یہ حقیقت تم نے اس وقت سمجھ لی ہوتی تو آج تمہارا یہ حشر نہ ہوتا۔



رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جو شخص سونے کیلئے بستر پر لیٹے اور پھر اللہ کا ذکر نہ کرے تو ذکر اللہ سے غفلت قیامت کے دن اس کیلئے باعثِ افسوس ہوگی۔

[ابوداؤد:5061]