غفلت اس سہو کو کہتے ہیں جو تحفظ اور احتیاط کی کمی کی بناء پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے۔ قرآن میں ہے:
القرآن:
۔۔۔ اور نہ کہا مان اس کا جس کا دل "غافل" کیا ہم نے اپنی یاد سے، اور وہ پیچھے پڑا ہوا ہے اپنی خوشی کے، اور اس کا کام ہے حد پر نہ رہنا۔
[سورۃ الکھف:28]
اور جو الله کی یاد سے"غافل"ہوتا ہے تو وہ اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں پھر وہ اسکے ساتھ رہتا ہے۔
[سورۃ الزخرف:36]
[صحیح الجامع الصغیر:5446، الجامع الصغیر:9577]
[جامع الاحادیث:19551، طبرانی:182(20/93)]
[شعب الإيمان-امام البيهقي (المتوفى: 458هـ) » حدیث نمبر 509-510]
[عمل اليوم والليلة لابن السني(م364ھ): صفحہ#6]
[مسند الشاميين للطبراني(م360ھ) : حدیث446]
[الهداية إلى بلوغ النهاية-امام مكي بن أبي طالب(المتوفى: 437هـ) » تفسیر سورۃ العنکبوت، آیت#45]
[تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی» سورۃ البقرۃ:152]
القرآن:
(اے پیغمبر) جو کتاب تمہارے پاس وحی کے ذریعے بھیجی گئی ہے اس کی تلاوت کرو، اور نماز قائم کرو۔ بیشک نماز بےحیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ (26) اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سب کو جانتا ہے۔
[سورۃ نمبر 29 العنكبوت، آیت نمبر 45]
تفسیر:
(26)یعنی اگر انسان نماز کو نماز کی طرح پڑھے، اور اس کے مقصد پر دھیان دے تو وہ اسے بےحیائی اور ہر برے کام سے روکے گی، اس لئے کہ انسان نماز میں سب سے پہلے تکبیر کہہ کر اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا اعلان اور اقرار کرتا ہے، جس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے کسی بات کو وقعت نہیں دیتا، پھر ہر رکعت میں وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ یا اللہ ! میں آپ ہی کی بندگی کرتا ہوں، اور آپ ہی سے مدد مانگتا ہوں، لہذا جب اس کے بعد کسی گناہ کا خیال اس کے دل میں آئے تو اگر اس نے نماز دھیان سے پڑھی ہے تو اسے اپنا عہد یاد آنا چاہیے، جو یقیناً اسے گناہ سے روکے گا، نیز رکوع سجدے اور نماز کی ہر حرکت و سکون میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے زبان حال سے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا فرماں بردار بناکر پیش کرتا ہے، اس لئے جو شخص نماز کو سوچ سمجھ کر اس طرح پڑھے جیسے پڑھنا چاہیے یقیناً اسے برائیوں سے روکے گی۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ما من ساعة تأتي على ابن آدم لا يذكر اللََّه تعالى فيها إلا كانت عليه حسرة وان دخل الجنة۔
[قوت القلوب:1/187]
(ما من ساعة تأتى على العبد لا يذكر الله فيها الا كانت عليه حسرة يوم القيامة)
[تفسیر روح البیان»سورۃ المومنون،آیت113-114]
ترجمہ:
ابنِ آدم کی جو گھڑی بھی اللہ کے ذکر سے خالی گذر گئی وہ قیامت کے دن حسرت وافسوس کا سبب ہوگی۔
[جامع الصغیر للسیوطی:8045 حسن]
القرآن:
وہ کہیں گے کہ : ہم ایک دن یا ایک دن سے بھی کم رہے ہوں گے۔ (ہمیں پوری طرح یاد نہیں) اس لیے جنہوں نے (وقت کی) گنتی کی ہو، ان سے پوچھ لیجیے۔
[سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 113]
تفسیر:
آخرت کا عذاب اتنا سخت ہوگا کہ اس کے مقابلے میں دنیا کی ساری زندگی اور اس میں جو عیش و عشرت کیے تھے وہ ان دوزخیوں کو ایک دن یا اس سے بھی کم معلوم ہوں گے۔
القرآن:
اللہ فرمائے گا : تم تھوڑی مدت سے زیادہ نہیں رہے۔ کیا خوب ہوتا اگر یہ بات تم نے (اس وقت) سمجھ لی ہوتی۔
[سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 114]
تفسیر:
35: یعنی اب تو تم نے خود دیکھا لیا کہ دنیا کا عیش ایک دن کا نہ سہی، مگر آخرت کے مقابلے میں بہت تھوڑا سا تھا۔ یہی بات تم سے دنیا میں کہی جاتی تھی تو تم اسے ماننے کو تیار نہیں ہوتے تھے۔ کاش یہ حقیقت تم نے اس وقت سمجھ لی ہوتی تو آج تمہارا یہ حشر نہ ہوتا۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جو شخص سونے کیلئے بستر پر لیٹے اور پھر اللہ کا ذکر نہ کرے تو ذکر اللہ سے غفلت قیامت کے دن اس کیلئے باعثِ افسوس ہوگی۔
[ابوداؤد:5061]
درود شریف کی فضیلت:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: «مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَجْلِسًا لَمْ يُصَلَّ فِيهِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا كَانَتْ عَلَيْهِمْ حَسْرَةٌ وَإِنْ دَخَلُوا الْجَنَّةَ»
[السمن الكبرى للنسائي:10171]
القرآن:
اور ڈر سنا دے اُنکو اُس پچتاوے کے دن کا جب فیصل ہو چکے گا کام، اور وہ غفلت میں ہیں اور وہ یقین نہیں لاتے۔
[سورۃ مریم:39]
کہیں کہنے نہ لگے کوئی نفس: اے افسوس اس بات پر کہ میں (غفلت میں پڑ کر) کوتاہی کرتا رہا اللہ کی طرف سے اور میں تو ہنستا ہی رہا۔
[سورۃ الزمر:56]
نبوی پیشگوئی:
مجھے خوف ہے اپنی امت پر3چیزوں کا:
خواہشات(بدعات)کی گمراہی کا
پیٹ اور شرمگاہ کی شھوتوں کے پیچھے پڑنے کا
اور
معرفت(یعنی اللہ کی پہچان)کے بعد(اللہ اور اس کے احکام سے) "غفلت" کا۔
[جامع الاحادیث:846]
ہر وہ کھیل جو (احکامِ دین پر عمل کرنے سے) غافل کرے، وہ ناجائز ہے۔
[ترمذی:1637]
علاج:-
جس نے حفاظت کی ان فرض نمازوں کی، نہیں وہ لکھا جاۓ گا غافلین میں۔ اور جس نے رات میں سو آیات پڑھیں، نہیں وہ لکھا جاۓ گا غافلین میں۔
[صحیح ابنِ خزیمۃ:1142]
جو شخص دس آیتیں پڑھا کرے رات میں، وہ نہیں لکھا جائے گا غافلین میں۔
[حاکم:2079]
جس نے ہر دن۔۔۔اور۔۔۔ہر رات 70 بار الله سے استغفار کیا، اسے نہیں لکھا جاۓ گا غافلين میں۔
[ابن السني:366]
اگر تم نے دو رکعت(نفل)نماز ضحیٰ(چاشت)پڑھی تو نہیں لکھا جاۓ گا تجھے غافلین میں سے۔۔۔
[بزار:3890،بیھقی:4906]
۔۔۔ یقین جانو کہ اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے حالات میں تبدیلی نہ لے آئے۔۔۔
[سورۃ الرعد:11]
محدود ترین زادِ راہ:
کچھ ایسا ہی معاملہ اس محدود ذخیرہٴ حیات اور آخرت کے عظیم نتائج کا ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے”الدنیا مزرعة الآخرہ“ یعنی یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے، اس دنیا میں اپنے عمل کے ذریعے انسان جو کچھ بوتا ہے اسے و ہی فصل ( نتیجہ) موت کے بعد ملے گا۔
انسان اس دنیا میں پیدا ہی مرنے کے لیے ہوا ہے۔ پیدائش اور پھر موت ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی، بہت بڑی نشانیاں ہیں کہ یہ ایک مُسلسل سفر ہے۔ اور یہ قانون قدرت ہے کہ انسان جس قسم کا سفر اختیار کرتا ہے ، ویسا ہی نتیجہ منزل پر پہنچنے پر حاصل کرتا ہے۔
لیکن صد افسوس ہے انسان کی عقل پر کہ اس قدر واضح حقیقت کو انسان بھولا ہوا ہے۔ وہ روزانہ سنتا اور دیکھتا ہے جو کبھی پیدا ہوا تھا، وہ مر گیا لیکن وہ اس دھوکے میں رہتا ہے کہ شاید اسے مرنا نہیں ہے بلاشبہ اسے مرنا ہے۔ لیکن اس حقیقت کوتسلیم کرنے کے باوجود انسان نادان کی طرح اپنی زندگی کے محدود ذخیرے کو کھیل کود اور سیر وتفریح میں ضائع کر دیتا ہے کہ جیسے صحرا میں سفر کرنے والا اپنے پاس موجود بوتل کے پانی کو اپنے ہاتھ پیر دھونے میں خرچ کر ڈالے ۔
غور کیجیے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ کیا امیر کیا غریب، کیا جاہل کیا پڑھا لکھا… سب ہی اس محدود ذخیرہٴ حیات کو ضائع کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ چناں چہ یہاں کی کام یابی کو کام یابی اور یہاں کے نقصان کو نقصان سمجھ لیا گیا، حالاں کہ یہاں کی ہر شے عارضی اور نتیجہ کے اعتبار سے بے حیثیت ہے حدیث کا مفہوم ہے۔
عقل مند انسان وہ ہے جو مرنے سے پہلے (اس دنیا ہی میں جیتے ہوئے) مرنے کی تیاری کرے۔ اس عقل ودانش کا تقاضا صرف یہ ہے کہ یہاں ہر لمحے ہر دم وہ کام کیا جائے جو الله کو راضی کرنے والا اور اس کی خوش نودی حاصل کرنے والا ہو اور ایسا ہر کام صرف اور صرف الله کے حکم اور خاتم النبیین حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہی ہو سکتا ہے ۔ زندگی کا پہلا اور آخری تقاضا یہی ہے کہ اس کا ہر لمحہ الله کے حکم اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق گزرے۔ یہی دانائی ہے اوریہی کام یابی…!!