یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
ہاں مگر جو کوئی توبہ کرلے، ایمان لے آئے، اور نیک عمل کرے تو اللہ ایسے لوگوں کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کردے گا، اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔
[سورۃ الفرقان:70]
یعنی حالت کفر میں انہوں نے جو برے کام کیے تھے، وہ ان کے نامہ اعمال سے مٹا دئیے جائیں گے، اور اسلام لا کر جو نیک عمل کیے ہوں گے وہ ان کی جگہ لے لیں گے۔
(حدیث قدسی یعنی وہ حدیث ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں)
حضرت ابوذرؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا:
قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اس کے سامنے اس کے چھوٹے چھوٹے گناہوں کو پیش کرو (چنانچہ اس کے سامنے صغیرہ گناہ لائے جائیں گے) اور کبیرہ گناہ چھپا لیے جائیں گے، اور اس سے کہا جائے گا کہ تم نے فلاں فلاں دن ایسا ایسا کیا تھا اور فلاں فلاں دن ایسا ایسا کیا تھا اور فلاں فلاں دن ایسا ایسا کیا تھا اور فلاں فلاں دن ایسا ایسا کیا تھا تین مرتبہ۔
(آگے) فرمایا:
وہ ہر گناہ کا اقرار کرے گا کسی کا بھی انکار نہیں کرے گا اور کبیرہ گناہوں کے آنے کے خوف سے ڈر رہا ہوگا۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
پھر ارادہ فرمائے گا الله اس سے بھلائی کا، تو حکم ہوگا کہ ہر گناہ کے بدلے اسے ایک نیکی دے دو۔
وہ کہے گا کہ اے میرے رب! میرے بہت سے گناہ ایسے ہیں جنہیں ابھی تک میں نے دیکھا ہی نہیں ہے۔
حضرت ابوذرؓ کہتے ہیں کہ اس بات پر میں نے نبی کریم ﷺ کو اتنا ہنستے ہوئے دیکھا کہ دندانِ مبارک ظاہر ہوگئے۔
پھر (یہ آیت) نبی ﷺ نے تلاوت فرمائی:
۔۔۔سو ان کو بدل دے گا، اللہ برائیوں کی جگہ بھلائیاں اور ہے اللہ بخشنے والا مہربان.
[تفسير الثعلبي، تفسير السمعاني، تفسير القرطبي، تفسير الخازن، تفسير ابن كثير]
نوٹ:
اس فضیلت کے حصول کیلئے تین(3) اعمال اور شرائط یہ ہیں:
(1)توبہ کرنا ۔۔۔۔۔ یعنی (ہر گناہ پر) دل میں نادم-پشیمان-شرمندہ ہونے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم-پختہ ارادہ کرنا۔
(2)ایمان لانایعنی اس گناہ کو برا ماننا۔۔۔اسکی برائی ونقصان جاننا۔
(3)نیک عمل کرنا۔۔۔ یعنی فوراً بطورِ کفارہ اور پھر ہمیشہ صبح وشام رب ہی کو پکارتے رہنے کی عادت ڈالے۔
لہٰذا
تینوں میں سے کوئی ایک شرط بھی ادا نہ کی جائے یا کسی ایک شرط کو مکمل ادا نہ کیا جائے تو یہ فضیلت حاصل نہ ہوگی۔
مثلاً:
اعلانیہ گناہ کئے لیکن اعلانیہ توبہ نہ کی، یا بندوں کے حقوق میں ظلم کیا اور ان کے حقوق کو ادا نہ کیا وغیرہ
یا
گناہ کے گناہ ہونے کا اقرار نہ کیا اور دل میں برا نہ مانا۔ اسی طرح ایمانیات کی دیگر تمام ضروری باتوں کا علم حاصل نہ کیا اور نہ مانا یا انکاری رہا۔
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ما من قوم اجتمعوا يذكرون الله عز وجل لا يريدون بذلك إلا وجهه؛ إلا ناداهم منادٍ من السماء: أن قوموا مغفوراً لكم، قد بُدِّلَتْ سيئاتُكم حسناتٍ۔
ترجمہ:
جو قوم جمع ہو اللہ کے ذکر کے لئے ، نہ ہو ان کا ارادہ اس میں سوائے اس(الله)کی رضا کے، تو آسمان سے ایک پکارنے والا پکارتا ہے کہ اٹھو! اللہ نے تمہیں بخش دیا، تمہاری برائیاں بھلائیوں سے بدل گئیں۔
[صحيح الترغيب والترهيب:1504، الترغيب في فضائل الأعمال وثواب ذلك لابن شاهين:160، مسند أبي يعلى الموصلي:4141، الأحاديث المختارة:2675، مسند البزار:6467، مسند احمد:12453، ا لمعجم الأوسط-الطبراني:1556، مجمع الزوائد:16764]
تفسیر ابن کثیر»سورۃ الکھف:28
یہ حدیث حضرت عبدالله بن مغفل اور حضرت سہیل بن حنظلہ سے بھی روایت کی گئی ہے۔
[الصَّحِيحَة:2210، صحيح الجامع:5610
شعب الإيمان-البيهقي:530+684، مصنف ابن أبي شيبة:29477+35713، المعجم الكبير للطبراني:6039]
حضرت سہیل بن حنظلہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:
کوئی قوم اللہ کا ذکر کرنے نہیں بیٹھتی پھر وہ فارغ ہوتی ہے مگر یہاں تک ان کو کہا جاتا ہے کہ اٹھو، اللہ نے تمہارے گناہوں کی مغفرت کردی اور تمہاری برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیا۔
[طبرانی:6039، صحيح الجامع الصغير:5610]
فجر اور عصر کے بعد ذکر ودعا کرنے کی فضیلت:
القرآن:
اور اپنے آپ کو استقامت سے ان لوگوں کے ساتھ رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو اس لیے پکارتے ہیں کہ وہ اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں۔ (22) اور تمہاری آنکھیں دنیوی زندگی کی خوبصورتی کی تلاش میں ایسے لوگوں سے ہٹنے نہ پائیں۔ اور کسی ایسے شخص کا کہنا نہ مانو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر رکھا ہے، اور جو اپنی خواہشات کے پیچھے پڑا ہوا، اور جس کا معاملہ حد سے گزر چکا ہے۔
[سورۃ الکھف:28]
تفسیر:
22: بعض کفار کا مطالبہ یہ بھی تھا کہ جو غریب اور کم حیثیت لوگ آنحضرت ﷺ کے ساتھ رہتے ہیں، اگر آپ انہیں اپنے پاس سے ہٹادیں تو ہم آپ کی بات سننے کو تیار ہوں گے، موجودہ حالت میں ہم ان غریبوں کے ساتھ بیٹھ کر آپ کی کوئی بات نہیں سن سکتے، یہ آیت اس مطالبے کو رد کرکے آنحضرت ﷺ کو ہدایت دے رہی ہے کہ آپ اس مطالبے کو نہ مانیں اور اپنے غریب صحابہ کی رفاقت نہ چھوڑیں، اور اس ضمن میں ان غریب صحابہ کرام کی فضیلت اور ان کے مقابلے میں ان مالدار کافروں کی برائی بیان فرمائی گئی ہے۔ یہی مضمون سورة انعام (6۔ 52) میں بھی گزرچکا ہے۔
ہر گناہ پر توبہ اور اجتماعی ذکر کی فضیلت:
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
کچھ لوگ تمنا کریں گے کہ کاش وہ بہت زیادہ برائیاں کرتے، صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! کس وجہ سے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ لوگ جن کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں میں بدل دے گا۔
[مستدرك الحاكم:7643، الصحيحة:2177]
یعنی
(1)ہر گناہ پر توبہ کرنے ۔۔۔۔۔ یعنی دل میں نادم-پشیمان-شرمندہ ہونے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم-پختہ ارادہ کرنے۔
(2)ایمان لانے یعنی اس گناہ کو برا ماننے۔
(3)اور نیک اعمال یعنی صبح وشام رب ہی کو پکارتے رہنے کی عادت کے سبب۔
نہیں ہے کوئی طاقت الله کی نافرمانی سے (بچانے والی) سوائے الله کے بچانے کے، اور نہیں ہے کوئی قوت الله کی اطاعت(یعنی فرمانبرداری) پر سوائے الله کی مدد کے۔
[الترغيب في فضائل الأعمال-ابن شاهين(م385ھ) » حدیث#351]
.....اور سو(100) مرتبہ اَللّٰهُ اَکْبَرُ(یعنی الله سب سے بڑا ہے) کہو، یہ تمہارے لئے(الله کی خاطر قربانی کیلئے) نکیل ڈالی ہوئی مقبول سو(100) اونٹنیوں کے برابر (یعنی اتنا ثواب حاصل کرنے جیسا) ہوگا.....
۔۔۔اور جس نے سو(100) بار صبح ﴿سورج طلوع ہونے سے پہلے﴾ اور سو(100) بار شام کو بھی ﴿سورج غروب ہونے سے پہلے﴾ اَللّٰهُ اَکْبَرُ(یعنی الله سب سے بڑا ہے) کہا تو قیامت کے دن کوئی شخص اس سے زیادہ نیک عمل لے کر حاضر نہ ہوگا، سوائے اس کے جس نے اس سے زیادہ کہا ہوگا یا اس کے برابر کہا ہوگا۔
[سنن-الترمذي:3471، سنن ابن ماجہ:3810]
﴿السنن الكبريٰ-النسائي:10588، صحيح الترغيب:658﴾
قرآنی اشارہ»سورۃ طٰہٰ:130، سورۃ ق:39
مرنے سے پہلے زندگی بھر کے بغیر-مانگے عطا کئے گئے اللہ کے انعامات کا شکر ادا کرلو ۔۔۔ بےشک جنت میں داخلہ اللہ کی رحمت(رضا) ہی سے ہوگا، لیکن اعمال ہی (1)قیامت کے حساب، (2)جہنم کے عذاب اور (3)جنت میں سب سے نیچے پیچھے ہونے کی دائمی ندامت سے بچانے کا وسیلہ ہیں۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بنی آدم میں سے ہر انسان کو تین سو ساٹھ جوڑوں سے پیدا کیا گیا ہے، جس نے اللہ کی بڑائی بیان کی، اور اللہ کی تعریف کی، اور اللہ کی تہلیل کی (یعنی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کہا)، اور اللہ کی تسبیح کی (یعنی سُبْحَانَ اللَّهِ کہا)، اور اَسْتَغْفَرَ اللَّهَ کہا، اور لوگوں کے راستہ سے پتھر یا کانٹے یا ہڈی کو ہٹادیا، اور نیکی کا حکم کیا، اور برائی سے منع کیا تین سو ساٹھ جوڑوں کی تعداد کے برابر۔ تو وہ اس دن چلتا ہے حالانکہ اس نے اپنی جان کو دوزخ سے دور کرلیا ہے ابو توبہ کی روایت ہے کہ:شام کرتا ہے وہ اسی حال میں۔ (یعنی سب گناہوں سے پاک و صاف ہوگا)۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب ہم (کسی بلندی پر) چڑھتے، تو «الله اكبر» کہتے اور جب (کسی نشیب میں) اترتے تو «سبحان الله» کہتے تھے۔
[صحيح البخاري:2993+2994]
سیدنا عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مؤذن «اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ» کہے تو سننے والا بھی یہی الفاظ دہرائے اور جب وہ «أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ» اور «أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ» کہے تو سننے والا بھی یہی الفاظ کہے۔ اور جب مؤذن «حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ» کہے تو سننے والا «لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ» کہے۔ پھر مؤذن جب «حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ» کہے تو سننے والے کو «لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ» کہنا چاہئیے۔ اس کے بعد مؤذن جب «اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ» اور «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ» کہے تو سننے والے کو بھی یہی الفاظ دھرانے چاہئیں اور جب سننے والے نے اس طرح خلوص اور دل سے یقین رکھ کر کہا تو وہ جنت میں داخل ہوا۔“
[التاريخ الكبير للبخاري:2729، صحيح مسلم:385، سنن أبي داود:527، صحيح ابن خزيمة:417]
الله کی بڑائی-کبریائی کا مطلب:
القرآن:
اور تمام تر بڑائی(چودھراہٹ-شہنشاہی) اسی کو حاصل ہے ، آسمانوں میں بھی ، اور زمین میں بھی ، اور وہی ہے جس کا اقتدار(حکومت) بھی کامل ہے ، جس کی حکمت بھی کامل۔
[سورۃ الجاثیہ:37]
اور کہو کہ : تمام تعریفیں اللہ کی ہیں جس نے نہ کوئی بیٹا بنایا، نہ اس کی سلطنت میں کوئی شریک ہے، اور نہ اسے عاجزی سے بچانے کے لیے کوئی حمایتی درکار ہے۔ اور اس کی ایسی بڑائی بیان کرو جیسی بڑائی بیان کرنے کا اسے حق حاصل ہے۔
[سورۃ الکھف:111]
پھر جب انہوں (حضرت ابراھیمؑ) نے سورج کو چمکتے دیکھا تو کہا : یہ میرا رب ہے۔ یہ زیادہ بڑا ہے۔ پھر جب وہ غروب ہوا تو انہوں نے کہا : اے میری قوم ! جن جن چیزوں کو تم اللہ کی خدائی میں شریک قرار دیتے ہو، میں ان سب سے بیزار ہوں۔
[سورۃ الانعام:78]
لہٰذا
۔۔۔۔۔الله کی رضامندگی تو سب سے بڑی چیز(کامیابی)ہے۔۔۔۔۔
[سورۃ التوبۃ:72]
...یقینا الله کا ذکر "سب" سے بڑا(اچھا کام)ہے...
[سورۃ العنکبوت:45]
تو عذاب دے گا اسے الله سب سے بڑا عذاب۔
[سورۃ الغاشیہ:44]
یعنی
الله کا عذاب بھی سب سے بڑا ہے۔
الله زیادہ حقدار ہے کہ۔۔۔
القرآن:
اسی سے ڈرا جائے
[سورۃ التوبۃ:13]الزمر:38، الفتح:11
اس کو راضی کیا جائے
[التوبۃ:62]
اس کا قرض(یعنی عبادات کی قضا)ادا کیا جائے۔
[بخاری:1953]
اس سے وفاء کی جاۓ۔
[بخاری:7315]
اس سے(تنہائی میں بھی)حیاء کی جاۓ۔
[ابوداؤد:4017]
اللہ کی خوبیاں:
حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ام سلیم ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں کہ یا رسول اللہ ﷺ! مجھے کچھ ایسے کلمات سکھا دیجئے جن کے ذریعے میں دعاء کرلیا کروں؟ نبی ﷺ نے فرمایا: دس مرتبہ سبحان اللہ، دس مرتبہ الحمدللہ اور دس مرتبہ اللہ اکبر کہہ کر اپنی ضرورت کا اللہ سے سوال کرو، اللہ فرمائے گا کہ میں نے تمہارا کام کردیا، میں نے تمہارا کام کردیا۔
[مسند احمد:12207]
سنن الترمذي:481، سنن نسائي:1299، صحيح ابن خزيمة:850، صحيح ابن حبان:2011،
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ عرفہ(9 ذی الحجہ) کے دن فجر کی نماز سے ایامِ تشریق کے آخری دن(13 ذی الحجہ) کی نماز عصر تک تکبیرِ تشریق کہتے تھے۔
[الآثار لأبي يوسف:295، الأصل لمحمد بن الحسن - ت الأفغاني:1/ 384، الآثار لمحمد بن الحسن:208،المصنف - ابن أبي شيبة - ت الشثري:5749+5750، الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف-ابن المنذر:2203، فضل عشر ذي الحجة للطبراني:35+36، سنن الدارقطني:1733+1734، المستدرك على الصحيحين للحاكم:1111، معرفة السنن والآثار-البيهقي:7001+7003، السنن الصغير للبيهقي:682]
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس رات مجھے معراج کرائی گئی، اس رات میں ابراہیم (علیہ السلام) سے ملا، ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا: اے محمد! اپنی امت کو میری جانب سے سلام کہہ دینا اور انہیں بتادینا کہ جنت کی مٹی بہت اچھی (زرخیز) ہے، اس کا پانی بہت میٹھا ہے، اور وہ خالی پڑی ہوئی ہے، اور اس کی باغبانی: «سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ{وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ }» سے ہوتی ہے۔
[سنن الترمذي:3462 {المعجم الكبير للطبراني:10363، المعجم الأوسط للطبراني:4170، المعجم الصغير للطبراني:539، ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:1121، المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي:14}]
[صحيح الترغيب والترهيب:1550، صحيح الجامع الصغير:3460+5152، الصحيحة:105]
تحمید کہتے ہیں حمد بیان کرنے کو، یعنی الله کی تعریف(تعارف وپہچان) بیان کرنے کو۔
جیسے:
پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا:
تمام تعریفیں الله کیلئے جو کھلاتا ہے اور اسے کھلایا نہیں جاتا، جس نے ہم پر احسان کیا، ہمیں گمراہی سے ہدایت دی اور ہمیں کھلایا پلایا اور ننگے پن سے کپڑا پہنایا اور اندھے پن کے بدلہ روشنی بخشی اور اپنی بہت سے مخلوق پر ہمیں بڑی فضیلت دی اور ہمیں اچھی آزمائش میں مبتلا کیا۔
تمام تعریفیں الله کیلئے نہ میرے رب کو الوداع کہتے ہوۓ اور نہ بدلہ دیتے ہوۓ اور نہ ناشکری اور اس سے بےپرواہی کرتے ہوۓ۔
[حاکم:2003]
الله پاک کے آخری پیغمبر محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا:
وَكُلُّ تَحْمِيدَةٍ صَدَقَةٌ ترجمہ:
۔۔۔ ہر تحمید (یعنی سبحان الله کہنا) بھی صدقہ(نیکی)ہے۔۔۔
[صحیح مسلم:720(2329)]
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَأُ الْمِيزَانَ
ترجمہ:
اور الحمدلله کہنا اعمال نامہ کو نیکیوں سے بھردیتا ہے۔
اور جو تعریف کہے الله کی 100 مرتبہ صبح کو اور 100 مرتبہ شام کو بھی تو گویا اس نے فی سبیل اللہ غازیوں کی سواریوں کے لیے 100 گھوڑے فراہم کئے...یا...اس نے 100 جہاد کئے۔۔۔
[ترمذی:3471]
مرنے سے پہلے زندگی بھر کے بغیرمانگے عطا کئے گئے اللہ کے انعامات کا شکر ادا کرلو۔۔۔بےشک جنت میں داخلہ اللہ کی رحمت(رضا) ہی سے ہوگا، لیکن اعمال ہی (1)قیامت کے حساب، (2)جہنم کے عذاب اور (3)جنت میں سب سے نیچے پیچھے ہونے کی دائمی ندامت سے بچانے کا وسیلہ ہیں۔۔
تعریف کی قرآنی وضاحت:
القرآن:
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں (کیونکہ) وہ پالنہار ہے سارے جہانوں کا۔
[سورۃ الفاتحہ:1]
تفسیر:
اگر آپ کسی عمارت کی تعریف کریں تو در حقیقت وہ اس کے بنانے والے کی تعریف ہوتی ہے، لہذا اس کائنات میں جس کسی چیز کی تعریف کی جائے وہ بالآخر اللہ تعالیٰ ہی کی تعریف ہے ؛ کیونکہ وہ چیز اسی کی بنائی ہوئی ہے، تمام جہانوں کا پروردگار کہہ کر اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے، انسانوں کا جہان ہو یا جانوروں کا، سب کی تخلیق اور پرورش اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے اور ان جہانوں میں جو کوئی چیز قابل تعریف ہے وہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور شان ربوبیت کی وجہ سے ہے۔
تمام تعریفیں اللہ کی ہیں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور اندھیریاں اور روشنی بنائیَ پھر بھی جن لوگوں کفر اپنا لیا ہے وہ دوسروں کو (خدائی میں) اپنے پروردگار کے برابر قرار دے رہے ہیں۔
[سورۃ الانعام:1]
اور کہو کہ : تمام تعریفیں اللہ کی ہیں جس نے نہ کوئی بیٹا بنایا، نہ اس کی سلطنت میں کوئی شریک ہے، اور نہ اسے عاجزی(بےبسی) سے بچانے کے لیے کوئی حمایتی درکار ہے۔ اور اس کی ایسی بڑائی بیان کرو جیسی بڑائی بیان کرنے کا اسے حق حاصل ہے۔
[سورۃ الاسراء:111]
تفسیر:
بہت سے انکار کرنے والوں کا یہ خیال تھا کہ جس ذات کا نہ کوئی بیٹا ہو اور نہ اس کی سلطنت میں کوئی شریک ہو، وہ تو بڑی کمزور ذات ہوگی، اس آیت نے واضح فرمادیا کہ اولاد اور مددگاروں کی حاجت اس کو ہوتی ہے جو کمزور ہو، اور اللہ تعالیٰ کی ذات اتنی قوی ہے کہ اسے کمزوری دور کرنے کے لئے نہ کسی اولاد کی ضرورت ہے نہ کسی مددگار کی حاجت۔
تمام تعریفیں اللہ کی ہیں جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی، اور اس میں کسی قسم کی کوئی خامی نہیں رکھی۔
[سورۃ الکھف:1]
اور کہہ دو کہ : تمام تعریفیں اللہ کی ہیں، وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے گا، پھر تم انہیں پہچان بھی لو گے۔ اور تمہارا پروردگار تمہارے کاموں سے بیخبر نہیں ہے۔
[سورۃ النمل:93]
تفسیر:
39: اللہ تعالیٰ اپنے آخری پیغمبر ﷺ کی حقانیت اور اپنی قدرت کی بہت سی نشانیاں دنیا میں دکھاتا رہا ہے، مثلاً: بہت سی پیشگی خبریں جو آپ نے وحی کی بنیاد پر دی تھیں، وہ لوگوں نے کھلی آنکھوں پر پوری ہوتی ہوئی دیکھیں، جیسا کہ سورة روم کے شروع میں اس کی ایک مثال آنے والی ہے۔ یہاں اس قسم کی نشانیاں بھی مراد ہوسکتی ہیں، اور قیامت بھی مراد ہوسکتی ہے کہ اس وقت قیامت کے منکر بھی اسے پہچان لیں گے، لیکن اس وقت کا پہچاننا فائدہ مند نہیں ہوگا، کیونکہ ایمان لانے کا وقت گذر چکا ہوگا۔
تمام تر تعریف اس اللہ کی ہے جس کی صفت یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے، اور آخرت میں بھی تعریف اسی کی ہے، اور وہی ہے جو حکمت کا مالک ہے، مکمل طور پر باخبر۔
[سورۃ سبا:1]
تمام تر تعریف اللہ کی ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، جس نے ان فرشتوں کو پیغام لے جانے کے لیے مقرر کیا ہے، جو دو دو، تین تین اور چار چار پروں والے ہیں۔ وہ پیدائش میں جتنا چاہتا ہے اضافہ کردیتا ہے۔ بیشک اللہ ہر چیز کی قدرت رکھنے والا ہے۔
[سورۃ فاطر:1]
تفسیر:
پچھلے جملے کی مناسبت سے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جن فرشتوں کی پروں کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہتا ہے، اضافہ کردیتا ہے، چنانچہ حضرت جبرئیل ؑ کے چھ سو پروں کی تعداد حدیث میں آئی ہے، لیکن الفاظ عام ہیں، اور ہر تخلیق کو شامل ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ جس کی تخلیق میں چاہتا ہے، کسی خاص وصف کا اضافہ فرما دیتا ہے۔
وہی سدا زندہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس لیے اس کو اس طرح پکارو کہ تمہاری تابع داری خالص اسی کے لیے ہو۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔
[سورۃ غافر:65]
اللہ نے ایک مثال یہ دی ہے کہ ایک (غلام) شخص ہے جس کی ملکیت میں کئی لوگ شریک ہیں جن کے درمیان آپس میں کھینچ تان بھی ہے اور دوسرا (غلام) شخص وہ ہے جو پورے کا پورا ایک ہی آدمی کی ملکیت ہے۔ کیا ان دونوں کی حالت ایسی جیسی ہوسکتی ہے ؟ الحمدللہ (اس مثال سے بات بالکل واضح ہوگئی) لیکن ان میں سے اکثر لوگ سمجھتے نہیں۔
[سورۃ الزمر:29]
تفسیر:
جو غلام کئی آدمیوں کی مشترک ملکیت میں ہو، اور وہ کئی آدمی بھی آپس میں جھگڑتے رہتے ہوں، وہ ہمیشہ پریشانی کا شکار رہتا ہے کہ کس کا کہنا مانوں، اور کس کا نہ مانوں، اس کے برخلاف جو غلام کسی ایک ہی آقا کی ملکیت میں ہو، اسے یہ پریشانی پیش نہیں آتی، وہ یکسو ہو کر اپنے آقا کی اطاعت کرسکتا ہے۔ اسی طرح جو شخص توحید(یعنی ایک خدا) کا قائل ہے، وہ ہمیشہ یکسو ہو کر اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتا ہے، اور اسی کی عبادت کرتا ہے، اس کے برخلاف جن لوگوں نے کئی کئی خدا گھڑ رکھے ہیں، وہ کبھی ایک جھوٹے دیوتا کا سہارا لیتے ہیں، کبھی دوسرے کا، اور انہیں یکسوئی میسر نہیں آتی۔ اس طرح یہ مثال توحید کی دلیل بھی ہے اور اس کی حکمت بھی۔
(
اللہ کی خوبیاں:
حمد کی لفظی معنیٰ:
امام الراغب الاصفھانی(م502ھ)لکھتے ہیں:
حمد کے معنیٰ اللہ تعالیٰ کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری(intentionally) طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف(Qualities) پر بھی جو پیدائشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چنانچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قد وقامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے۔ لیکن حمد صرف افعال اختیاریہ(intentional actions) پر ہوتی ہے، نہ کہ اوصاف اضطراریہ(unintentional Qualities) پر۔ اور شکر تو صرف کسی کے "احسان" کی وجہ سے اس کی تعریف کرنے کو کہتے ہیں۔ لہذا ہر شکر حمد ہے، مگر ہر شکر حمد نہیں ہے۔ اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے۔
اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد ﷺ صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت سے قابلِ تعریف خصلتیں رکھتا ہو، نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں۔
اور آیت کریمہ:- إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [سورۃ هود:73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے۔ میں حمید بمعنیٰ محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [سورۃ الصف:6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتا ہوں۔ اس میں لفظ احمد سے الله کے رسول محمد ﷺ کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح پیغمبر ﷺ کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور پیغمبر عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد (صیغہ تفضیل) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آخری پیغمبر ﷺ حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں۔
اور آیت کریمہ:- مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [سورۃ الفتح:29] محمد ﷺ الله کے پیغمبر ہیں۔ میں لفظ محمد ﷺ کو من وجہ پیغمبر ﷺ کا نام ہے لیکن اس میں پیغمبر ﷺ کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشاره پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [سورۃ مریم:7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام یحییٰ بمعنیٰ حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پر مذ کور ہے ۔
ہر حال میں اللہ کی تعریف کہنے کی فضیلت:
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص ہر رات سورہٴ واقعہ پڑھتا ہے وہ (کبھی بھی) فاقے کی حالت کو نہیں پہنچتا۔
[فضائل القرآن-امام أبو عبيد القاسم بن سلام (م224ھ) : ص257]
(مشيخة-يعقوب بن سفيان الفسوي(م277ھ): حدیث نمبر 13)
(مسند-امام الحارث(م282ھ): حدیث نمبر 721)
(عمل اليوم والليلة-ابن السني(م364ھ): حدیث نمبر 680)
المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية-ابن حجر العسقلاني (م852ھ):حدیث نمبر3742
جامع الأحاديث-الجلال السيوطي (م911ھ):حدیث نمبر 23441
الجامع الصغير وزيادته-الجلال السيوطي (م911ھ):حدیث نمبر 12546
[بغية الباحث: 226، والجامع الصغير: 2/ 634]
(2)عن أبي ظَبْية قال: مرض عبد الله بن مسعود فعاده عثمان بن عفان رضي الله عنهما فقال ما تشتكي قال ذنوبي قال فما تشتهي قال رحمة ربي قال ألا أدعوا لك طبيبا قال الطبيب أمرضني قال ألا أمر لك بعطائك قال لا حاجة لي فيه قال يكون لولدك من بعدك قال قال أتخشى على ولدي الفقر أمرت بناتي بقراءة سورة بسورة الواقعة فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من قرأ سورة الواقعة كل ليلة لم تصبه فاقة أبدا۔
ترجمہ:
ابو ظبیہ فرماتے ہیں:
جب عبداللہ بیمار ہوئے جس بیماری سے آپ جاں بر نہ ہوئے، اس بیماری میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، پوچھا: آپ کو کیا شکوہ ہے؟ فرمایا: اپنے گناہوں کا، دریافت کیا: خواہش کیا ہے؟ فرمایا: اپنے رب کی رحمت کی، پوچھا: کسی طبیب کو بھیج دوں؟ فرمایا: طبیب نے ہی تو بیمار ڈالا ہے۔ پوچھا: کچھ مال بھیج دوں؟ فرمایا: مال کی کوئی حاجت نہیں، کہا: آپ کے بچوں کے کام آئے گا، فرمایا: کیا میری بچیوں کی نسبت آپ کو فقیری کا ڈر ہے؟ سنئے! میں نے اپنی سب لڑکیوں کو کہہ دیا ہے کہ وہ ہر رات کو سورۃ الواقعہ پڑھ لیا کریں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص سورۃ الواقعہ کو ہر روز پڑھ لیا کرے اس کو ہرگز ہرگز فاقہ نہ پہنچے گا۔
[من حديث أبي بكر أحمد بن علي بن لال عن شيوخه(م398ھ): حدیث نمبر 9]
تفسير الثعلبي:حدیث نمبر2981
شعب الإيمان-امام البيهقي(م458ھ) : حدیث نمبر2267
ترتيب الأمالي الخميسية-الشجري(م499ھ) : حدیث نمبر2876
التمهيد - ابن عبد البرؒ(م463ھ)- ت بشار: 3/666
محاضرات الأدباء-الراغب الأصفهاني(م502ھ) : 1/507
غرائب التفسير وعجائب التأويل-أبو القاسم الكرمانيؒ (بعد 531): 2/1175
تاريخ دمشق لابن عساكرؒ(م571ھ) : 33/186
أسد الغابة في معرفة الصحابة ط العلمية-امام ابن الأثير(م630ھ) :3182(3/381)
تفسير القرطبي(م671ھ):17/194 سورۃ الواقعہ
تهذيب الأسماء واللغات-النووي(م676ھ):1/290، الفتوحات الربانية على الأذكار النواوية:3/279
المدخل-ابن الحاج (م737ھ) :4/115
تخريج أحاديث الكشاف-الزيلعي(م762ھ) : 2/411
تفسير النيسابوري(م850ھ) : 6/247
تفسير ابن كثير(م774ھ) - ت السلامة : 7/511 سورۃ الواقعہ
تاریخ ابن کثیر=البداية والنهاية ط الفكر:7/163
وَكَانَ أَبُو ظَيْبَةَ لَا يَدَعُهَا أَبَدًا۔
ترجمہ:
اور(اس واقعہ کے راوی) ابوظبیہ بھی اس (سورۃ الواقعہ کو بلاناغہ پڑھنا) کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔
[تفسير البغوي(م510ھ):8/28- طيبة]
تفسير الخازن(م741ھ):4/234
اللباب في علوم الكتاب-ابن عادل (م775ھ):18/450
السراج المنير-الخطيب الشربيني (م977ھ):4/201
(3)حضرت مسروقؒ سے روایت ہے:
من أراد أن يعلم نبأ الأولين والآخرين، ونبأ أهل الجنة، ونبأ أهل النار، ونبأ أهل الدنيا، ونبأ أهل الآخرة، فليقرأ سورة الواقعة
ترجمہ:
جو چاہے کہ وہ جانے خبریں اولین اور آخرین کی، اور خبریں(خوبیاں)جنت والوں کی، اور خبریں(خامیاں)جہنم والوں کی، اور خبریں دنیاوالوں کی، اور خبریں آخرت والوں کی۔۔۔۔تو وہ پڑھے سورۃ الواقعہ۔
[تفسير الثعلبي:2982]
(4)حضرت ابی بن کعبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
من قرأ سورة الواقعة لم يكتب من الغافلين ويبعثه الله يوم القيامة من المقربين۔
ترجمہ:
جو پڑھے سورۃ الواقعہ تو نہیں لکھا جائے گا اسے (کافروں جیسا)غافل لوگوں میں سے اور اسے اٹھائے گا اللہ قیامت کے دن مقرب لوگوں میں۔
[تفسير الثعلبي:2982، التيسير في التفسير-أبو حفص النسفي(م537ھ):14/231]
(5)حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
علموا نساءكم سورة الواقعة فإنها سورة الغنى۔
ترجمہ:
اپنی عورتوں کو سورۃ الواقعہ سکھاؤ، کیونکہ یہ مالدار کرنے والی سورت ہے۔
[الفردوس بمأثور الخطاب:4005، زهر الفردوس = الغرائب الملتقطة من مسند الفردوس:1969، المطالب العالية محققا:15/ 311]
سورۃ الواقعۃ کی فضیلت احادیث سے ثابت ہے کہ اس سے رزق میں تنگی نہیں آتی ۔تاہم یہ فضیلت رات کے کسی بھی حصہ میں پڑھنے سے حاصل ہوسکتی ہے۔ خاص مغرب کے بعد پڑھنا ضروری نہیں۔
اگرچہ یہ احادیث ضعیف ہیں تاہم ایک تو ان میں ضعف کم ہے۔
دوسرا یہ متعدد طرق سے منقول ہےاور ایسی ضعیف احادیث فضائل اعمال میں چند شرائط کے ساتھ قابل عمل شمار ہوتی ہیں:
1ــ ضعف شدید نہ ہو ، ضعف شدید راوی کے متہم بالکذب یا فحش غلط کی وجہ سے ہوتا ہے۔(اس حدیث میں ایسا کوئی راوی نہیں جو متہم بالکذب فاحش الغلط ہو۔)
2ــ کسی معمول بہ اصل کے مطابق ہو،قرآن ،حدیث ،اجماع اور قیاس کے مخالف اس کا مضمون نہ ہو۔(یہ حدیث بھی کسی شرعی اصل کے خلاف نہیں ہے۔)
3ــ اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے یہ اعتقاد نہ ہو کہ یہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے بلکہ احتیاطا اس پر عمل کیا جائے۔
لہذا مذکورہ بالا شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے اس حدیث پر عمل کیا جاسکتاہے اوراسے آگے بھی بیان کیا جاسکتا ہے۔
الحَدِيث الْحَادِي عشر عَن رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ أَنه قَالَ : “من قَرَأَ سُورَة الْوَاقِعَة فِي كل ليله لم تصبه فاقة أبداَ”.
قلت (القائل هو الزيلعي ت 762هـ ) رَوَاهُ الْبَيْهَقِيّ فِي شعب الْإِيمَان فِي الْبَاب التَّاسِع عشر من حَدِيث الْحجَّاج ابْن منهال ثَنَا السّديّ بن يَحْيَى الشَّيْبَانِيّ أَبُو الْهَيْثَم عَن شُجَاع عَن أبي فَاطِمَة أَن عُثْمَان بن عَفَّان عَاد ابْن مَسْعُود فِي مَرضه فَقَالَ مَا تَشْتَكِي قَالَ ذُنُوبِي قَالَ فَمَا تشْتَهي قَالَ وَجه رَبِّي قَالَ أَلا نَدْعُو لَك طَبِيبا قَالَ الطَّبِيب أَمْرَضَنِي قَالَ أَلا آمُر لَك بِعَطَائِك قَالَ منحتنيه قبل الْيَوْم فَلَا حَاجَة لي فِيهِ قَالَ تَدعه لأهْلك وَعِيَالك قَالَ إِنِّي عَلَّمْتهمْ شَيْئا إِذا قَالُوهُ لم يَفْتَقِرُوا سَمِعت رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ يَقُول (من قَرَأَ الْوَاقِعَة كل لَيْلَة لم يفْتَقر)انْتَهَى.
(تخريج الكشاف : 3/411 ، رقم الحديث : 1295 ، ط : دار ابن خزيمة)
وقال أيضا : فقد تبين ضعف هَذَا الحَدِيث من وُجُوه.
أَحدهمَا : الِانْقِطَاع كَمَا ذكره الدَّارَقُطْنِيّ وَابْن أبي حَاتِم فِي علله نقلا عَن أَبِيه.وَالثَّانِي : نَكَارَة مَتنه كَمَا قَالَ أَحْمد. وَالثَّالِث ضعف رُوَاته كَمَا ذكره ابْن الْجَوْزِيّ.وَالرَّابِع : الإضراب فَمنهمْ من يَقُول أَبُو طيبَة بِالطَّاءِ الْمُهْملَة بعْدهَا يَاء آخر الْحُرُوف كَمَا ذكره الدَّارَقُطْنِيّ وَمِنْهُم من يَقُول بِظَاء مُعْجَمه بعْدهَا بَاء موحده وَمِنْهُم من يَقُول أَبُو فَاطِمَة كَمَا ذكرهمَا الْبَيْهَقِيّ وَمِنْهُم من يَقُول أَبُو شُجَاع وَمِنْهُم من يَقُول عَن أبي شُجَاع وَقد اجْتمع عَلَى ضعفه الإِمَام أَحْمد وَأَبُو حَاتِم وَابْنه وَالدَّارَقُطْنِيّ وَالْبَيْهَقِيّ وَابْن الْجَوْزِيّ تَلْوِيحًا وَتَصْرِيحًا وَالله أعلم.وَذكره النَّسَائِيّ فِي كتاب الكنى فَقَالَ أَبُو ظَبْيَة شُجَاع عَن ابْن عمر رَوَى عَنهُ السّري بن يَحْيَى انْتَهَى.