Monday, 28 November 2022

پرکشش قرآنی الفاظ-Quranic Attractive Words

(1) If - اگر-حالانکہ

لَوْ - وَلَوْ فَلَوْ - وَلَوْلَا - فَلَوْلَا) ( إِنْ - وَإِنْ - فَإِنْ - أَفَإِنْ - لَئِنْ - وَلَئِنِ)

(2) Because - کیونکہ

(بِمَا - وَبِمَا - فَبِمَا ) (بِأَنَّ - بِأَنَّهُمْ - أَنَّهُمْ - بِأَنَّهُ ) (أَئِنْ) (مِمَّا)

(3) But - مگر-لیکن

(وَلَٰكِنْ  - لَٰكِنِ - وَلَٰكِنِّي  - وَلَٰكِنَّهُ - وَلَٰكِنَّهُمْ) (فَإِنْ - وَلَئِنْ) (وَمَا)

(4) Yes - ہاں (بَلَىٰ)(نَعَمْ)

(5) Person's Name لوگوں کے نام سے پکارنا۔

(6) Thanks - شکریہ (حَمْدُ) (شُكُر)

(7) Sorry - معذرت

pardonforgive


اگر کوئی لمبی زندگی پا لے تو۔۔۔

القرآن:

(بلکہ) یقینا تم ان لوگوں کو پاؤ گے کہ انہیں زندہ رہنے کی حرص دوسرے تمام انسانوں سے زیادہ ہے، یہاں تک کہ مشرکین سے بھی زیادہ۔ ان میں کا ایک ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ ایک ہزار سال عمر پائے، حالانکہ کسی کا بڑی عمر پالینا اسے عذاب سے دور نہیں کرسکتا۔ اور یہ جو عمل بھی کرتے ہیں اللہ اسے اچھی طرح دیکھ رہا ہے۔

[سورۃ البقرۃ:96]

نوٹ:

آخرت میں ہر نیکی یا برائی کا بدلہ ملنے (یعنی دین)سے زبان سے انکار کرنے کافر اور دل سے نہ ماننے والے منافق لوگوں کو (من مانی کیلئے) دنیاوی زندگی کی چاہت اور موت سے وحشت دیگر انسانوں سے زیادہ رہی ہے اور رہے گی۔

جبکہ ہر عیب(خرابی) سے پاک اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ:

ہر (نیک یا بری) جان کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔

[سورۃ آل عمران:185، الانبیاء:35، العنکبوت:57]

۔۔۔ چاہے تم مضبوط قلعوں میں کیوں نہ رہ رہے ہو۔۔۔

[سورۃ النساء:78]

جس(اللہ) نے پیدا کیا زندگی اور موت (کے سلسلوں) کو تاکہ وہ دیکھے کہ کون ہے تم میں زیادہ بہتر عمل میں۔۔۔

[سورۃ الملک:2]

اور (اے پیغمبر!) تم سے پہلے بھی ہمیشہ زندہ رہنا ہم نے کسی فردِ بشر کے لیے طے نہیں کیا۔ چنانچہ اگر تمہارا انتقال ہوگیا تو کیا (آپ کی موت کا انتظار کرنے والے) یہ لوگ ایسے ہیں جو ہمیشہ زندہ رہیں؟

[سورۃ الانبیاء:34]

اگر بالفرض ہزاروں ہزار سالہ زندگی مل بھی جائے تو بھی بلآخر فانی اور ادنیٰ ہے جبکہ آخرت(جنت)اعلیٰ اور باقی رہنے والی ہے۔

لہٰذا

من مانی اور انکار کی روش کا بدلہ یعنی عذاب مل کر رہے گا۔

کیونکہ

ہر چیز کا خالق مالک اللہ ہی ہر چیز کو دیکھتا، جانتا اور پوری قدرت رکھتا ہے۔




القرآن:

اور اگر (بالفرض) ہم ان کے لیے آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیں اور وہ دن کی روشنی میں اس پر چڑھتے بھی چلے جائیں۔  تب بھی یہی کہیں گے کہ ہماری نظربندی کردی گئی ہے، بلکہ ہم لوگ جادو کے اثر میں آئے ہوئے ہیں۔

[سورۃ الحجر:14-15]

مطلب یہ ہے کہ ان کے سارے مطالبات محض ضد پر مبنی ہیں۔ فرشتے اتارنا تو درکنار، اگر خود ان کو آسمان پر لے جایا جائے تب بھی یہ آنحضرت ﷺ کو جھٹلانے کا کوئی نہ کوئی بہانہ گھڑ لیں گے۔ اور یہ کہیں گے کہ ہم پر جادو کردیا گیا ہے۔



القرآن:

اور (اس کے برعکس) اگر وہ ایمان اور تقوی اختیار کرتے تو اللہ کے پاس سے ملنے والا ثواب یقینا کہیں زیادہ بہتر ہوتا۔ کاش کہ ان کو (اس بات کا بھی حقیقی) علم ہوتا۔

[سورۃ البقرۃ:103]





 (1) If - اگر



(1) If - اگر



(1) If - اگر




(1) If - اگر





(1) If - اگر





Wednesday, 9 November 2022

اقبال کی شخصیت کے تخلیقی عناصر ۔۔۔ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی

اقبال پر جتنا علمی، تحقیقی اور تخلیقی کام  ہوا۔ اتنا  شاید ہی کسی اور شاعر اور ادیب پر ہوا ہو۔

اقبال کی شخصیت کے تخلیقی عناصر
سیّد ابو الحسن علی ندوی
ماخوذ: مطالعۂ اقبال کے سو سال
مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی، سہیل عمر، وحید اختر عشرت

اقبال کی شخصیت کے وہ تخلیقی عناصر جس نے اقبال میں ایک مخصوص قسم کی گونا گونی رنگا رنگی پیدا کی، اور جنھوں نے اقبال کو اس کے ہم عصروں سے زیادہ دل آویز، باعث کشش اور جاذب نظر بنا دیا چند ایسے عناصر ہیں جن کا تعلق اقبال کی علمی و ادبی اور تعلیمی کوششوں سے بہت ہی کم ہے، اقبال کی شخصیت میں جو جامعیت ، بلندی فکر و خیال، سوز، درد کشش اور جاذبیت نظر آتی ہے، ان کا تعلق اقبال کی زندگی کے اس رخ سے ہے ، جسے ہم یقین و ایمان کہتے ہیں۔ دراصل اقبال کی شخصیت کے بنانے ، سنوارنے اور پروان چڑھانے میں عصر حاضر کے صرف ان تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کا ہاتھ نہیں ہے، جن میں اقبال نے داخل ہو کر علومِ عصر یہ اور مغربی تعلیم حاصل کی اگرچہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اقبال علومِ جدیدہ اور مغربی تعلیم کا حصول ہندوستان ، انگلستان اور جرمنی میں ماہر اساتذہ سے کرتے رہے، اور وہاں کے علم و فن کے چشموں سے سیراب ہوتے رہے، یہاں تک کہ وہ عالمِ اسلامی میں مغربی علوم و افکار اور تہذیب و تمدن کے ماہرین میں منفرد شخصیت کے مالک ہو گئے، مغربی فلسفہ و اجتماع ، اخلاق اور سیاست و معیشت میں یورپ کے ایک متنحصص کی حیثیت حاصل کی ، اور علومِ جدید و قدیم میں بڑی گہری نگاہ حاصل کی ، لیکن اگر اقبال اس مقام پر پہنچ کر ٹھہر جاتے اور موجودہ تعلیمی اداروں کے پھلوں سے استفادہ کے بعد مطمئن ہو کر صرف اس حلاوت و مزہ سے لطف اندوز ہوتے رہتے تو پھر آج وہ ہمارا موضوعِ گفتگو نہیں بن سکتے تھے، اور نہ ادبِ اسلامی اور تاریخ ادب اسلامی ان کے شعر و ادب کے نغموں سے گونجتی رہتیں ، اور نہ علمی صدارت فکری زعامت اور اسلامی ذہن ان کے لیے اپنا دامن وسیع کرتا، اور نہ انھیں اس بلند مقام پر بٹھا کر فخر محسوس کرتا، اس کے لیے بڑی باریک اور بلند شرطیں ہیں ، کوئی شخص محض درس و تدریس علوم میں تنّوع اور کثرت تالیف و تصنیف کی وجہ سے اس مقام بلند تک نہیں پہنچ سکتا ، بلکہ اقبال اگر ان تعلیمی اداروں سے استفادہ کے بعد مطمئن ہو جاتے اور انھیں علوم و فنون کی علمی موشگافیوں میں اپنی دلچسپیوں کو محدود رکھتے تو زیادہ سے زیادہ فلسفہ ، معاشیات ، ادب اور تاریخ میں ایک ماہر استاد اور پروفیسر کی جگہ پاتے یا ایک بڑے پایہ کے مصنف علومِ عصریہ کے ماہر فن، صاحب اسلوب ادیب یا ایک اچھے شاعر ہوتے ، اور بس !یا پھر ایک کامیاب بیرسٹر، ایک اچھے جج یا حکومت کے ایک اچھے وزیر بنائے جاتے، لیکن آپ یقین کیجئے اگر اقبال ان میں سے کچھ بھی ہوتے تو زمانہ انھیں ویسے ہی بھلا دیتا جس طرح دنیا کے بڑے بڑے علما ، ادبا شعرا مصنفین، اور حکومتوں کے وزرا کو آج زمانے نے گوشہ عزلت و گمنامی میں ڈال رکھا ہے، اور آج کوئی نہیں جانتا کہ وہ کون تھے’ اور کیا تھے لیکن اقبال کی ذہانت و عبقریت ،ان کا زندہ جاوید پیغام اور ان کی ذہنوں اور دلوں کی تسخیر کرنے کی طاقت و کشش……ان تمام فضائل اور بلندیوں کا سبب ان دنیاوی تعلیمی اداروں سے جدا ، ایک دوسرا تعلیمی ادارہ ہے جس میں کہ اقبال نے تعلیم و تربیت حاصل کی بڑھے اور پروان چڑھے۔ میرا خیال ہے کہ آپ میں سے اکثر کا ذہن اس مخصوص ’’ادارہ‘‘ کی تلاش و جستجو میں پریشان ہو گا، اور آپ اس کے جاننے کے لیے بے چین ہوں گے کہ آخر وہ کون سا ادارہ ہے، جس نے اس ’’عظیم شاعر ‘‘کو پیدا کیا؟ اور وہ کون سے علوم ہیں جو اس میں پڑھائے جاتے ہیں ؟ کس زبان میں وہاں تعلیم ہوتی ہے ؟اور کیسے معلم وہاں تعلیم دیتے ہیں ’ بلاشبہ اس میں اعلیٰ درجے کے نگراں اور مربی ہونگے، جو ایسی ہی عظیم شخصیتیں پیدا کرتے ہیں ، (جیسے کہ اقبال تھے)مجھے یقین ہے کہ اگر آپ اس کے وجود اور محل و مقام سے واقف ہو جائیں تو پھر ضرور اس میں داخلہ کی کوشش کریں گے، اور اپنی تعلیم وتربیت کے لیے اپنے آپ کو اس بے نظیر و بے مثال ادارہ کے سپرد کر دیں گے۔ وہ ایک ایسا ’’ادارہ‘‘ ہے کہ جس نے اس میں تعلیم و تربیت حاصل کی ، اس کی ناکامی کا کوئی سوال نہیں ، جو وہاں سے نکلا وہ ضائع نہیں ہو سکتا ،وہ ایک ایسا ادارہ ہے کہ جہاں سے صرف ائمۂ فن، مجتہدین فکر، واضعین علوم، قائدین فکرو اصلاح،اور مجددین امت ہی پیدا ہوتے ہیں ، وہ جو کچھ لکھتے ہیں ، اس کے سمجھنے میں عام مدارس و یونیورسٹیوں کے طلبا و اساتذہ مشغول رہتے ہیں ، ان کی لکھی ہوئی چیزیں درس کے طور پر پڑھی پڑھائی جاتی ہیں ، ان کی تصنیفوں کی شرحیں لکھی جاتی ہیں ، ان کے اجمال کی تفصیل کی جاتی ہے، ان کے ثابت شدہ نظریات کی تائید و تشریح ہوتی ہے ان کے ایک ایک لفظ پر کتابیں لکھی جاتی ہیں :اور ان کی ایک ایک کتاب سے پورا پورا کتاب خانہ تیار ہو جاتا ہے، وہ ایک ایسا ادارہ ہے جہا ں تاریخ پڑھائی نہیں جاتی بلکہ تاریخ بنائی جاتی ہے ، وہاں افکار نظریات کی تشریح و توضیح نہیں ہوتی ، بلکہ افکار و نظریات وضع کئے جاتے ہیں ، آثار و نشانات کے کھوج نہیں لگائے جاتے بلکہ وہاں سے آثار و نشانات پیدا ہوتے ہیں ، یہ ادارہ اور مدرسہ ہر جگہ اور ہر زمانے میں پایا جاتا ہے، یہ دراصل ایک داخلی مدرسہ ہے ، جو ہر انسان کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور ہر انسان اسے اٹھائے ہر مقام پر لیے پھرتا ہے وہ دل کا مدرسہ اور ضمیر و وجدان کا دبستان ہے، وہ ایک ایسا مدرسہ ہے جہاں روحانی پرداخت اور الٰہی تربیت ہوتی ہے۔ اقبال نے اس ادارہ سے اسی طرح تکمیل کی جس طرح دوسرے بہت سے وہبی انسان اس عظیم ادارہ سے تعلیم و تربیت کے بعد نکلے، اقبال کی سیرت و شخصیت اس کا علم و فضل اور اخلاق ، یہ سب کا سب مرہونِ منت ہے، اِس قلبی دبستان کا جس میں کہ اقبال نے برسوں زانوئے تلمذ تہہ کیا ہے، اقبال کے کلام کا مطالعہ اس حقیقت کی اچھی نشاندہی کرتا ہے کہ خارجی مدرسہ کی بہ نسبت داخلی مدرسہ نے اس کی زندگی میں ایک دردو سوز، تب و تاب اور ایک نئی قوت و توانائی بخشی ، اگر وہ اپنے داخلی مدرسے میں تعلیم و تربیت حاصل نہ کرتا تو پھر نہ اُس کی یہ جاذب نظر شخصیت ہی ظاہر ہوتی ، اور نہ اس کا شعور و وجدان اس قدر شعلہ جانسوز نظر آتا، اور نہ اس کا آتشیں پیام قلب و نظر کے لیے سوزِ جاوداں ثابت ہوتا اقبال کے کلام میں اس ادارہ کے اساتذہ و معلمین اور مربین کا ذکر و اعتراف بہت ہی کثرت سے ملتا ہے وہ تخلیقی عناصر جنھوں نے اقبال کی شخصیت کو بنایا، بڑھایا اور پروان چڑھایا وہ دراصل اقبال کو اپنے داخلی مدرسہ میں حاصل ہوئے، یہ پانچ تخلیقی عناصر ہیں جنھوں نے اقبال کی شخصیت کو ’’زندۂ جاوید‘‘ بنا دیا۔ ان میں سے پہلا عنصر جو اقبال کو اپنے داخلی مدرسہ میں داخلہ کے بعد اول ہی دن حاصل ہوا وہ اس کا ’’ایمان و یقین ‘‘ ہے ،یہی یقین اقبال کا سب سے پہلا مربی اور مرشد ہے ، اور یہی اس کی طاقت و قوت اور حکمت و فراست کا منبع اور سرچشمہ ہے، لیکن اقبال کا وہ یقین و ایمان اس خشک جامد ایمان کی طرح نہیں ، جو بے جان تصدیق یا محض جامد عقیدہ ہے، بلکہ اقبال کا’’ یقین‘‘ عقیدہ و محبت کا ایک ایسا حسین امتزاج ہے جو اس کے قلب و وجدان، اس کی عقل وفکر ، اس کے ارادہ و تصرف اُس کی دوستی و دشمنی غرضکہ اس کی ساری زندگی پرچھایا ہوا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اقبال اسلام اور اس کے پیغام کے بارے میں نہایت راسخ الایمان تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ان کی محبت ، شغف اور ان کا اخلاص انتہا درجہ کا تھا، اس لیے ان کے نزدیک اسلام ہی ایک ایسا زندہ جاوید دین ہے کہ اس کے بغیر انسانیت فلاح و سعادت کے بامِ عروج تک پہنچ ہی نہیں سکتی اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم رشد و ہدایت کے آخری مینار ،نبوت و رسالت کے خاتم اور مولائے کل ہیں :۔ وہ دانائے سبل ، ختم الرسل ،مولائے کل جس نے غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا اس دورِ مادیت اور مغربی تہذیب و تمدن کی ظاہری چمک و دمک سے اقبال کی آنکھیں خیرہ نہ ہو سکیں ، حالانکہ اقبال نے جلوہ دانش فرنگ میں زندگی کے طویل ایام گذارے اس کی وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ اقبال کی وہی والہانہ محبت ، جذبہ عشق اور روحانی وابستگی تھی، اور بلاشبہ ایک حْبِّ صادق اور عشقِ حقیقی ہی قلب و نظر کے لیے ایک اچھا محافظ اور پاسبان بن سکتا ہے: خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانشِ فرنگ سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف عذاب دانش حاضر سے باخبر ہوں میں کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیلؐ رہے ہیں ،اور ہیں ،فرعون میری گھات میں اب تک مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے ید بیضا عجب کیا گر مہ و پر ویں مرے نخچیر ہو جائیں کہ بر فتراک صاحب دولتے بستم سرِ خود را علامہ اقبال نے اپنی کتاب اسرار خودی میں ملتِ اسلامیہ کی زندگی کی بنیادوں اور ان ستونوں کے ذکر کے سلسلہ میں جس پر حیات ملتِ اسلامیہ موقوف ہے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ اپنے روحانی تعلق ، دائمی وابستگی اور اپنی فداکارانہ مُحبّت کا بھی ذکر کیا ہے ، جب وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا تذکرہ کرتے ہیں تو ان کا شعری وجدان جوش مارنے لگتا ہے، اور نعتیہ اشعار ابلنے لگتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے ، جیسے محبت و عقیدت کے چشمے پھُوٹ پڑے ہیں ، اس سلسلہ میں چندا شعار پیشِ خدمت ہیں۔ جِن سے اقبال کے مُحبّت بھرے جذبات کا قدرے اندازہ ہو گا: درِ دل مسلم مقام مصطفیٰ است آبروئے ما ز نام مصطفیٰ است بوریا ممنون خوابِ راحتش تاج کسریٰ زیر پائے امّتش درشبستانِ حرِا خلوت گزید قوم و آئین وحکومت آفرید ماند شبہا چشمِ او محرومِ نوم تابہ تخت خسروی خوابید قوم وقت ہیجاتیغ اور آہن گداز دیدۂ او اشکبار اندر نماز در دعائے نصرت آمیں تیغ اُو قاطع نسلِ سلاطیں تیغ او در جہاں آئین نو آغاز کرد مسندِ اقوام پیشییں درنورد از کلید دیں درِ دنیا کشاد ہمچو او بطن اُمِ گیتی نزاد درنگاہِ او یکے بالا و پست با غلام خویش بریک خوا نشست در مصافے پیش آں گردوں سریر دختر سر دار طے آمد اسیر پائے در زنجیر و ہم بے پردہ بود گردن ازشرم و حیا خم کردہ بود دخترک راچوں نبیؐ بے پردہ دید چادر خود پیش روے او کشید آں کہ براعدا درِ رحمت کشاد مکہ راپیغام لا تثریب داد ماکہ از قیدِ وطن بیگانہ ایم چوں نگہ نوردوچشیم ویکیم از حجاز وچین و ایرانیم ما شبنم یک صبح خندا نیم ما مست چشم ساقی بطحا ستیم در جہاں مثل مے ومینا ستیم امتیازاتِ نسب را پاک سو خت آتش اوایں خس وخاشاک سوخت شورِ عشقش درنیٔ خاموش من می تپد صد نغمہ در آغوشِ من من چہ گوئم ازتولائش کہ چسیت خشک چوبے در فراقِ او گریست ہستیِ مسلم تجلی گاہِ او طور ہا بالدفاصلہ زگرد راہِ اُو جوں جوں زندگی کے دن گذرتے گئے، اقبال کی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ والہانہ محبت و الفت بڑھتی ہی گئے ، یہاں تک کہ آخری عمر میں جب بھی ان کی مجلس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر آتا یا مدینہ منورہ کا تذکرہ ہوتا، تو اقبال بے قرار ہو جاتے ،آنکھیں پُر آب ہو جاتیں یہاں تک کہ آنسو رواں ہو جاتے ، یہی وہ گہری محبت تھی ، جو ان کی زبان سے الہامی شعروں کو جاری کر دیتی تھی چنانچہ اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :۔ مکن رسوا حضور خواجہؐ مارا حساب من زچشم اونہاں گیر یہ شعر محبت و عقیدت کا کتنا اچھا مظہر ہے۔ دراصل علامہ اقبال کا یہی وہ ایمانِ کامل اور حبِّ صادق تھی، جس نے اقبال کے کلام میں یہ جوش، یہ ولولہ ، یہ سوز و گداز پیدا کر دیا، اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو یہ حقیقت عیاں ہو جائے گی، کہ دراصل رقت انگیز شعر، عمیق فکر ، روشن حکمت ، بلند معنویت ، نمایاں شجاعت، نادر شخصیت اور عبقریت Genius کا حقیقی منبع و سر چشمہ محبت و یقین ہی ہے، اور تاریخ عالم میں جو کچھ بھی انسانی کمالات یا دائمی آثار و نشانات نظر آتے ہیں ، وہ سب کے سب اسی محبت و یقین کے مرہونِ منت ہیں ، اگر کوئی شخصیت یقین کے جذبہ سے خالی ہو تو پھر وہ صرف گوشت و پوست کی صورت ہے اور اگر پوری امت اس سے خالی ہے ، تو پھر اس کی وقعت بکریوں اور بھیڑوں کے گلے سے زیادہ نہیں ، اور اس طرح اگر کسی کلام میں یقین و محبت کی روح کار فرما نہیں ہے تو پھر وہ ایک مقفیٰ اور موزوں کلام تو ہو سکتا ہے، لیکن ایک زندہ جاوید کلام نہیں بن سکتا اور جب کوئی کتاب اس روح سے خالی ہو تو اس کتاب کی حیثیت مجموعہ اوراق سے زیادہ نہیں ہو گی اور اسی طرح اگر کسی عبادت میں محبت و یقین کا جذبہ شامل نہیں ہے تو پھر وہ ایک بے روح ڈھانچہ ہے، غرضکہ پوری زندگی اگر محبت و یقین کے جذبہ سے خالی ہے تو پھر وہ زندگی زندگی نہیں ، بلکہ موت ہے ،اور پھر ایسی زندگی کیا ؟ جس میں طبیعتیں مردہ و افسردہ ہوں ، نظم و نثر کے سر چشمے خشک ہوں ، اور زندگی کے شعلے بجھ چکے ہوں ، ایسی حالت میں یقین کامل اور حُبِّ صادق ہی حیاتِ انسانی میں جلا پیدا کرتی ہے، اور انسانی زندگی نور و رنگ سے معمور ہو جاتی ہے، پھر شکستہ،پُر سوز و پُر درد روح نواز اور جاں بخش کلام سننے میں آتے ہیں ، خارقِ شجاعت و قوت دیکھنے میں آتی ہے، اور علم و ادب کے نقوش بھی زندہ جاوید بن جاتے ہیں ، یہاں تک کہ یہی محبت اگر پانی ، مٹی اور اینٹ پتھر میں داخل ہو جائے تو اس کو بھی زندہ جاوید بنا دیتی ہے، ہمارے سامنے اس کی روشن مثال مسجد قرطبہ، قصرِ زہرا اور تاج محل ہیں ، سچ تویہ ہے کہ محبت و یقین کے بغیر ادب و فن مردہ و افسردہ و نا تمام ہیں :۔ نقش ہیں سب نا تمام خونِ جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر بڑی غلط فہمی میں وہ لوگ مبتلا ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اہل علم حضرات اپنی قوتِ علم،کثرتِ معلومات اور ذکاوت و ذہانت کی وجہ سے ایک دوسرے سے سبقت لے جاتے ہیں یا ایک دوسرے پر فضلیت رکھتے ہیں ، اور اسی طرح شعرا کو ان کی فطری قوت شاعری،لفظوں کا حسن انتخاب ، معانی کی بلاغت ، انھیں ایک دوسرے سے ممتاز کرتی ہے اور مصلحین وقت اور قائدین ملت کی بلندی و پستی موقوف ہے ان کی ذہانت کی تیزی ، خطابت کی بلندی، سیاسی سوجھ بوجھ اور حکمت عملی پر !حالانکہ ایسا نہیں ہے،حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی فضلیت و بلندی کا دارومدار محبت و اخلاص پر ہے،ان کی سچی محبت اور مقصد سے اخلاص کامل ہی ان کی عظمت و بزرگی کا سبب ہے، کہ اس کا مقصد و موضوع اور غرض و غایت اس کی روح میں سرایت کر جاتی ہے قلب میں جاگزیں ہو جاتی ہے،اور فکر و عمل پرچھا جاتی ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی ذاتی خواہش مغلوب اور شخصیت تحلیل ہو جاتی ہے ، اب وہ جب کوئی بات کرتا ہے تو مقصد کی زبان سے کرتا ہے،جب کچھ لکھتا ہے، تو مقصد کے قلم سے لکھتا ہے، غرضکہ اس کے فکرو خیال ،دل و دماغ اور اس کی پوری زندگی پر اس کا مقصد چھا جاتا ہے۔ ایک عظیم گناہ جو اس جدید تمدن کا پیدا کردہ ہے وہ ہے مادہ پرستی اور پھر اس سے نفع پسندی ، جنسی محبت اور نفسانی خواہش!جو درحقیقت جدید عصری مادی تعلیم کا ثمرہ ہے، جس نے ہماری نئی نسلوں کو تباہ کر رکھا ہے، اور آج حال یہ ہے کہ ان کے قلوب ، ایمان کی حرارت ، حُبِّ صادق کی تپش اور یقین کے سوز سے خالی ہیں ، اور یہ عالم نو ایک ایسی متحرک شے بن کر رہ گیا ہے کہ جس میں نہ کوئی زندگی ہے، اور نہ کوئی روح نہ شعور و وجدان ہے، نہ مسرت و غم کا احساس !اس کی مثال اس جامد شے کی طرح ہے، جو کسی جابر و قاہر شخص کے دستِ تصرف میں ہو، وہ جس طرح چاہے اسے حرکت دے اور استعمال کرے۔ جب آپ اقبال کے کلام کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اقبال کا کلام ہمارے جانے پہچانے شعرا سے بہت کچھ مختلف ہے ، اقبال کا کلام ہمارے شعور و احساس قلب و وجدان اور اعصاب میں حرکت و حرارت ، سوز و گداز، درد و تپش پیدا کرتا ہے، اور پھر ایک ایسا شعلۂ جوالہ بن کر بھڑک اٹھتا ہے جس کی گرمی سے مادیت کی زنجیریں پگھل جاتی ہیں ، فاسد معاشرہ اور باطل قدروں کے ڈھیر ،جل کر فنا ہو جاتے ہیں ، جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر کس قدر طاقت ور ایمان، پر درد و پر سوز سینہ اور بے چین روح رکھتا ہے ، قابل صد ستائش ہے وہ دوسرا مدرسہ جس نے اتنی اچھی تربیت کی اور ایسی قابل قدر شخصیت تیار کی۔ اقبال کی شخصیت کو بنانے والا دوسرا عنصر وہ ہے جو آج ہر مسلمان گھر میں موجود ہے،مگر افسوس کہ آج خود مسلمان اس کی روشنی سے محروم،اس کے علم و حکمت سے بے بہرہ ہیں ،میری مراد اس سے قرآن مجید ہے، اقبال کی زندگی پر یہ عظیم کتاب جس قدر …..اثر انداز ہوئی ہے ،اقبال کا ایمان چونکہ ’’نو مسلم‘‘ کا سا ہے، خاندانی وراثت کے طور پر انھیں نہیں ملا ہے اس لیے ان کے اندر نسلی مسلمانوں کے مقابلے میں قرآن سے شغف،اور شعورو احساس کے ساتھ مطالعہ کا ذوق بہت ہی مختلف رہا ہے ، جیسا کہ خود اقبال نے اپنے قرآن مجید پڑھنے کے سلسلے میں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ان کا یہ ہمیشہ کا دستور تھا کہ روزانہ بعد نماز صبح قرآنِ مجید کی تلاوت کیا کرتے تھے، اقبال کے والد جب انھیں دیکھتے تو فرماتے کیا کر رہے ہو؟ اقبال جواب دیتے ابا جان !آپ مجھ سے روزانہ پوچھتے ہیں ، اور میں ایک ہی جواب دیتا ہوں اور پھر آپ خاموش چلے جاتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ میں تم سے کہنا چاہتا ہوں کہ تم قرآن اس طرح پڑھا کرو کہ جیسے قرآن اسی وقت تم پر نازل ہو رہا ہے، اس کے بعد سے اقبال نے قرآن برابر سمجھ کر پڑھنا شروع کیا اور اس طرح کہ گویا وہ واقعی ان پر نازل ہو رہا ہے، اپنے ایک شعر میں بھی وہ اس کا اظہار یوں فرماتے ہیں :۔ ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشّاف علامہ اقبال نے اپنی پوری زندگی قرآن مجید میں غور و فکر اور تدبر و تفکر کرتے گذاری ، قرآن مجید پڑھتے ، قرآن سوچتے ، قرآن بولتے، قرآن مجید ان کی وہ محبوب کتاب تھی جس سے انھیں نئے نئے علوم کا انکشاف ہوتا ، اس سے انھیں ایک نیا یقین ، ایک نئی روشنی ، اور ایک نئی قوت و توانائی حاصل ہوتی ، جوں جوں ان کا مطالعہ قرآن بڑھتا گیا ، ان کے فکر میں بلندی اور ایمان میں زیادتی ہوتی گئی ، اس لیے کہ قرآن ہی ایک ایسی زندہ جاوید کتاب ہے جو انسان کو لَدُنی علم اور ابدی سعادت سے بہرہ ور کرتی ہے وہ ایک ایسی شاہ کلید ہے کہ حیات انسانی کے شعبوں میں سے جس شعبہ پر بھی اسے لگائیے ، فوراً کھل جائے گا، وہ زندگی کا ایک واضح دستور اور ظلمتوں میں روشنی کا مینار ہے۔ تیسرا عنصر جس کا اقبال کی شخصیت کی تعمیر میں بڑا دخل ہے، وہ عرفان نفس اور خودی ہے ، علامہ اقبال نے عرفانِ ذات پر بہت زور دیا ہے، انسانی شخصیت کی حقیقی تعمیر ان کے نزدیک منت کشِ خودی ہے جب تک عرفانِ ذات نہ حاصل ہو ،اس وقت تک زندگی میں سوز و مستی ہے ،اور نہ جذب و شوق !اس سلسلہ میں اقبال کے یہ شعر ان کے فکر کی پوری ترجمانی کرتے ہیں : اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی تو اگر میرا نہیں بنتا ،نہ بن ، اپنا تو بن من کی دنیا؟ من کی دنیا ، سوز و مستی جذب و شوق تن کی دنیا ؟ تن کی دنیا ، سود و سودا،مکر و فن من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں تن کی دولت چھاؤں ہے ،آتا ہے دھن جاتا ہے دھن من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات تو جھکا جب غیر کے آگے، نہ من تیرا ، نہ تن ان کے کلام میں معنوی بلندی کے ساتھ ساتھ ، لفظوں کی بندش ہم آہنگی ، اتار چڑھاؤ روانی و تسلسل ، اور موسیقیت اس قدر زیادہ ہے کہ بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ علامہ اقبال کو خودی کی تربیت اور عرفانِ نفس پر بڑا اعتماد تھا ، ان کے نزدیک خود شناسی و خود آگاہی انسان کو اسرار شہنشہی سکھلاتے ہیں ، عطا رہوں یا رومی رازی ہوں یا غزالی ، بغیر عرفانِ نفس کے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوتا اسی عرفانِ نفس کا نتیجہ تھا کہ اقبال نے اس رزق پر موت کو ترجیح دی جس رزق سے پرواز میں کوتا ہی آتی ہو اور دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اقبال کے خیال میں زیادہ بہتر ہے جس کی فقیری میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خُو بُو اور ان کا اسوہ ہو اور حق تو یہ ہے کہ عرفانِ نفس اور عرفانِ ذات ہی کے حصول کے بعد انسان جرات سے اس بات کا اظہار کر سکتا ہے کہ:۔ آئینِ جواں مرداں حق گوئی و بے باکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی اقبال کا تصور خودی خود اقبال میں اس قدر رچ بس گیا کہ ان کی زندگی عرفانِ نفس کا زندہ نمونہ تھی ، ان کی زندگی کے اوراق میں ان کی خودی ،خود داری ،خود اعتمادی کے نقوش بہت ابھرے ہوئے نظر آتے ہیں ، عرفانِ نفس ہی کے لیے دوسروں کو مخاطب کر کے وہ اپنے آپ کو کہتے ہیں۔ اپنے رازق کو نہ پہچانے تو محتاج ملوک اور پہچانے تو ہیں تیرے گدا دارا و جم دل کی آزادی شہنشاہی ، شکم سامانِ موت فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم بلاشبہ اقبال نے شکم کے مقابلے میں دل کو ترجیح دی ، اور دل ہی کو اختیار کیا۔ یہ عرفانِ نفس ہی کا کرشمہ تھا جس نے اقبال کو ہر قسم کی فکری اور ادبی بے راہ روی سے محفوظ رکھا، حالانکہ یہی دونوں چیزیں ہمارے عام ادبا و شعرا اور مصنفین کو ہر چراگاہ میں منھ مار لینے ،ہر وادی میں بھٹکنے اور ہر موضوع پر لکھنے کے لیے آمادہ کرتی ہیں ، خواہ وہ ان کے عقیدہ و خیال کے موافق ہو یا نہ ہو جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے آخری ایام تک نہ اپنی شخصیت کو پہچانتے ہیں ، اور نہ اپنے پیغام سے واقف ہوتے ہیں ،لیکن اقبال نے اول ہی دن سے اپنی ذات اور شخصیت کو اچھی طرح پہچانا ،اپنی وہبی صلاحیتوں کا صحیح صحیح اندازہ کیا، اور پھر صلاحیتوں ،شعری قوتوں کو مسلمانوں کی زندگی کے ابھارنے ان میں روح و زندگی پیدا کرنے ،اور یقین و ایمان کی دبی ہوئی چنگاریوں کو بھڑکانے میں صرف کیا ، اور ان میں قوت و حریت اور سیادت و قیادت کا احساس دلایا ،اقبال ایک فطری اور وہبی شاعر تھے، اگر وہ شاعر نہ بننے کی کوشش کرتے تو کامیاب نہ ہوتے، شعر کہنے پر وہ مجبور تھے، اُن کی شاعری رستے ہوئے قلب،پر جوش و پر سوز دل، معانی کی معنویت اور الفاظ کی شوکت کی آئینہ دار تھی، وہ ایک قادر الکلام ماہر فن شاعر تھے ، ان کے ہمعصر شعراء نہ صرف یہ کہ ان کی امامت اور کلام میں اعجاز کے قائل تھے ، بلکہ زبان تراکیب معانی افکار جدتِ تشبیہ ہر چیز سے متاثر تھے ، ان کی شاعری کو عظیم بنانے میں انگریزی اور جرمن شعرو ادب اور فارسی شاعری کا بھی بڑا دخل ہے لیکن ان سب باتوں کے عرض کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اقبال کے ہمعصروں میں کوئی اچھا اور اونچا شاعر ہی نہ تھا، بلکہ اچھے سے اچھے اور اونچے اونچے ادیب و شاعر موجود تھے جو اپنے الفاظ کی فصاحت معنی کی بلاغت ، استعارہ و تشبیہ کی جدت میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے لیکن جو چیز کہ اقبال کو اپنے ہمعصروں سے ممتاز کر دیتی ہے وہ ہے ان کی شاعرانہ عظمت ،ادبی قوت ، فنی ذہانت جبلی عبقریت اور ان سب کے ساتھ ساتھ اسلام کا پیغام !اقبال نہ قومی شاعر تھے،اور نہ وطنی اور نہ عام رومانی شاعروں کی طرح ان کی شاعری بھی شراب و شاہد کی مرہون منت تھی، اور نہ ان کی شاعری نری حکمت و فلسفہ کی شاعری تھی، ان کے پاس اسلام کی دعوت اور قرآن کا پیغام تھا، جس طرح ہوا کے جھونکے پھولوں کی خوشبو پھیلاتے ہیں ،اور جس طرح اس زمانے میں برقی لہروں سے پیغامات کے پہچانے کا کام لیا جاتا ہے اسی طرح اقبال بھی اپنے اس پیغام کو شعر کی زبان میں کہتے تھے تاکہ ان کے پیغام کے لیے شعر ،برقی لہروں کا کام دے ،بلاشبہ اقبال کی شاعری نے خواب غفلت میں پڑی ہوئی قوم کو بیدار کر دیا اور ان کے دلوں میں ایمان و یقین کی چنگاری پیدا کر دی ، تو یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہوا کہ اقبال نے اپنے آپ کو پہچانا اپنی وہبی شخصیت و قوت کا صحیح اندازہ کیا، اور ان کو اصل مقام پر استعمال کیا۔








علامہ اقبال کا نظریہ شعر و ادب
علامہ اقبال کے نظریہ شعر کا جائزہ لینے سے قبل اس بنیادی اور اصولی بحث سے اعراض ممکن نہیں کہ آخر شعر وادب کا مقصد کیا ہونا چاہیے؟ یہی وہ چیز ہے جس کی بنیاد پر کسی فنی شاہکار اور فن پارے کی عظمت کا تعین کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بحث اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ خود انسان۔ ۱ ؂ انسان کی ابتدائی اور قدیم ترین زندگی میں، جسے پتھروں کا زمانہ کہا جاتا ہے، فن برائے فن کی جھلک نظر آتی ہے۔ ۲ ؂ فن میں مقصدیت کا عمل دخل بھی کوئی نیا اور جدید نہیں ہے۔ یہ اپنی قدامت کے لحاظ سے قدیم یونان سے تعلق رکھتا ہے۔ اس نے اٹھارویں صدی عیسوی میں ’’فن برائے فن‘‘ ۳؂ یا ’’فن برائے زندگی‘‘ کے نام سے جمالیاتی تنقید میں معرکہ آرا مسئلے کی صورت اختیار کر لی اور آج تک متنازع فیہ ہے۔ ۴؂ فن برائے فن کے داعیوں ۵؂ کا کہنا یہ ہے کہ حسن فن کا خاصہ ہے، حسن بذاتہ ایک ایسی قدر ہے جو مطلق بھی ہے اور ہر قدر سے اعلیٰ اور برتر بھی۔ باقی تمام اقدار مثلاً صداقت اور خیر یا تو حسن کے ماتحت ہیں یا بالکل غیر متعلق۔ اس قدر اعلیٰ ہونے کی بنا پر فن کا وجود بذاتہ مقصود بن جاتا ہے۔ زندگی کی وسعتوں میں اس کی اپنی حدود ہیں اور یہ اپنے مقام پر آزاد اور مکمل ہے۔ نہ اس کی کوئی منزل مقصود ہے اور نہ یہ کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اس کا کام صرف اس قدر ہے کہ فن کار کو حسن محض کے ادراک سے ہم کنار اور کیفیت اہتزاز سے دوچار کرے۔ یہ مقصد خود فن ہی میں داخل ہے اور اس وقت حاصل ہو جاتا ہے جب فن تخلیق پذیر ہو۔ فن کی اپنی قدر کے علاوہ کسی اور مقصد مثلاً اخلاق، تعلیم، روپیہ پیسہ یا شہرت وغیرہ کو اس کے متعلق گرداننا دراصل اس کی اپنی قدر کی نفی ہے۔ یہ مقاصد فن کی قدر وقیمت کو گرا دیتے ہیں، اس میں اضافہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ 

گوتیر (Goutir) کا قول ہے کہ ہم فن کی آزادی کے قائل ہیں۔ ہمارے نزدیک فن بذات خود ایک مقصد ہے نہ کہ کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ۔ وہ فن کار جو فن کے بجائے کسی اور مقصد کی تلاش میں ہو، فن کار ہی نہیں۔ ایک اور جگہ اس نے کہا ہے کہ ’’جب کوئی شے مفید بن جاتی ہے تو حسین نہیں رہتی۔‘‘ آسکر وائلڈ کے نزدیک تخلیق کی اولین شرط یہ ہے کہ نقاد اس بات کو خوب جان لے کہ فن اور اخلاق کی حدود ایک دوسرے سے بالکل الگ تھلگ ہیں۔ ۶؂ ڈاکٹر عبد الحکیم خلیفہ نے اپنے مقالہ ’’فنون لطیفہ‘‘ میں فرائڈ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’فن لطیف کا کام دل کش نفسیاتی دھوکہ پیدا کرنا ہے۔ شاعری ہو یا مصوری، ڈراما نویسی ہو یا ناول نگاری، ان سب کا مقصد زندگی کے تلخ حقائق سے گریز ہے۔‘‘ ۷؂ سید انور شاہ کشمیریؒ نے اپنے مخصوص انداز میں یہی بات یوں کہی ہے: ’’شعر میں ایک تو شاعری ہوتی ہے، دوسرے جھوٹ اور تیسرے مبالغہ۔ شاعری میں تخیل اور خیال آفرینی ہوتی ہے یعنی حقیقت شے کے آس پاس آنا اور خود اس کو ظاہر نہ کرنا جس کا مقصد اچنبھے میں ڈالنا ہوتا ہے۔‘‘ ۸؂ پروفیسر حسن شاہ نواز زیدی نے لکھا ہے کہ فن کا اپنا ہی ایک معیار ہے جو اخلاقیات کی قید میں نہیں آ سکتا۔ وہ ایک مفکر کا قول نقل کرتے ہیں کہ ’’شاعری کے لیے حقیقت اور صداقت ضروری نہیں ہے بلکہ شاعری اور آرٹ مبالغے کے جتنا قریب ہوں گے، اتنا ہی پر اثر ہوں گے۔‘‘ ۹؂ 

’’فن برائے فن‘‘ سے ملتی جلتی ایک اور تحریک ’’ہیئت برائے ہیئت‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے حامیوں کے نزدیک فن کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ بات کہی کیسے جائے گی۔ باقی رہی یہ بات کہ کیا کہا گیا ہے تو ان کے نزدیک یہ کوئی اہم شے نہیں۔ جو بات آپ کہتے ہیں، وہ اچھی ہو یا بری، سچ ہو یا جھوٹ، صحیح ہو یا نادرست، فن کی قدر وقیمت پر کسی طرح اثر انداز نہیں ہوتی کیونکہ اس کا انحصار تو اس ہیئت پر ہے جس میں فن کو وجود ملا ہے اور تمام جمالیاتی خصائص اس سے وابستہ ہیں۔ اس صورت میں ’فن برائے فن‘ کا کلیہ ’ہیئت برائے ہیئت‘ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ۱۰؂ اس لحاظ سے ’فن برائے فن‘ اور ’ہیئت برائے ہیئت‘ ایک ہی تحریک کے دو نام ہیں۔ 

اس تحریک کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں فن کو زندگی سے بالا وبرتر مقام دیا گیا ہے اور اس کے داعیوں نے فن کے مافیہ (Content) کو بالکل نظر انداز کر دیا ہے۔ ۱۱؂ ظاہر ہے کہ اس حیثیت میں ادب کوئی مفید چیز نہیں ہو سکتا۔ اس کے بالمقابل ایک دوسرا نظریہ ’’فن برائے زندگی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ حضرات فن برائے فن کے مخالف اور فن کے مافیہ پر بہت زور دیتے ہیں۔ مولانا عبد السلام ندوی فرماتے ہیں کہ ’’فن برائے فن کوئی چیز نہیں ہے۔ اصل چیز فن برائے زندگی ہے۔‘‘ ۱۲؂ علامہ اقبال اسی نظریہ کے داعی اور مبلغ ہیں۔ ڈاکٹر خلیفہ فرماتے ہیں: ’’فن برائے فن ایک بے ہودہ نظریہ ہے۔ علامہ اقبال نہ علم برائے علم کے قائل تھے نہ فن برائے فن کے۔‘‘ ۱۳؂ آپ کے ہاں زندگی اور فن کا نہایت گہرا تعلق ہے۔ ان کے نظریہ فن کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ فن زندگی کا خادم ہے۔ ۱۴؂ 

ا س تحریک کا باوا آدم افلاطون کو بتایا جاتا ہے۔ ۱۵؂ اقبال مابعد الطبیعیاتی نقطہ نظر میں افلاطون کے سخت مخالف ہیں، ۱۵؂ لیکن فن کے سلسلے میں اسی کے پیروکار ہیں۔ دونوں کے نزدیک فن کا ایک ہی مقصد ہے۔ ۱۶؂ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقبال افلاطون سے زیادہ حالیؒ سے متاثر ہوئے ہیں۔ نقاد کہتا ہے: ’’حالی حیات انگیز شاعری میں اقبال کا پیش رو ہے اور اس کا بھی امکان ہے کہ اگر حالی نے شاعری کا رخ نہ بدل دیا ہوتا تو شاید اقبال کا بھی ظہور نہ ہوتا۔ اقبال میں حالی کا درد ملت موجود ہے اور اس کی حکیمانہ نظر حالی سے زیادہ وسیع اور گہری ہے۔‘‘ ۱۷؂ شیخ عبد القادر نے دیباچہ بانگ درا میں لکھا ہے کہ ’’ہندوستان کی علمی دنیا میں جتنے نامور اس زمانے میں موجود تھے، مثلاً مولانا شبلی مرحوم، مولانا حالی مرحوم، اکبر مرحوم، سب سے اقبال کی ملاقات اور خط وکتابت تھی ۱۸؂ اور ان کے اثرات اقبال کے کلام پر اور اقبال کا اثر ان کی طبائع پر پڑتا رہا۔‘‘ ۱۹؂ یہی بات شیخ عبد القادر نے غالب کے بارے میں فرمائی ہے بلکہ اس ضمن میں تو وہ یہاں تک لکھ گئے ہیں کہ ’’اگر میں تناسخ کا قائل ہوتا تو ضرور کہتا کہ غالب کی روح نے دوبارہ اقبال کا نام پایا۔‘‘ ۲۰؂ 

علامہ اقبال نے اپنے ایک شعر میں غالب کی حکمت کا اعتراف بھی کیا ہے۔ ۲۱؂ یہ سچ ہے کہ اقبال نے افلاطون، شبلی، حالی اور غالب سے استفادہ کیا ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انھوں نے اپنے نظریہ ادب وشعر کی بنیاد قرآن وحدیث کی تعلیمات پر رکھی ہے، چنانچہ آپ نے ۱۹۱۷ء میں ’’جناب رسالت مآب کا ادبی تبصرہ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا جس میں دو عربی شاعروں کے موازنہ وتقابل سے فنون لطیفہ اور خصوصاً شاعری کے بارے میں اپنا نظریہ بڑی وضاحت سے بیان کر دیا۔ اس تحریر سے ایک اقتباس ہم اس مضمون کے آخر میں نقل کریں گے۔

علامہ اقبال نے انجمن ادبی کابل کے سپاس نامہ ۲۲؂ کے جواب میں فرمایا تھا:

’’شاعر قوم کی زندگی کی بنیاد کو آباد بھی کر سکتا ہے اور برباد بھی۔ اس ملک کے شعرا پر لازم ہے کہ وہ نوجوان قوم کے سچے رہنما بنیں۔ زندگی کی عظمت اور بزرگی کے بجائے موت کو بڑھا چڑھا کر نہ دکھائیں کیونکہ جب آرٹ موت کا نقشہ کھینچتا ہے اور اس کو بڑھا چڑھا کر دکھاتا ہے، اس وقت وہ سخت خوفناک اور برباد کن ہو جاتا ہے۔‘‘۲۳؂

آپ نے اسی موقع پر فرمایا کہ :

’’شاعر اپنے تخیل سے قوموں کی زندگی میں نئی روح پھونکتا ہے۔ قومیں شعرا کی دست گیری سے پیدا ہوتی ہیں اور اہل سیاست کی پامردی سے نشوونما پاکر مر جاتی ہیں۔ پس مری خواہش یہ ہے کہ افغانستان کے شعرا اور انشا پرداز اپنے ہم عصروں میں ایسی روح پھونکیں جس سے وہ اپنے آپ کو پہچان سکیں۔‘‘ ۲۴؂

کسی قوم کے ادیب، شاعر اور فن کار اس کی زندگی میں جو مثبت یا منفی کردار ادا کرتے ہیں، اس کو جس شدت سے اقبال نے محسوس کیا، شاید ہی کسی اور نے کیا ہو۔ ایک موقع پر آپ نے فرمایا:

’’کسی قوم کی معنوی صحت زیادہ تر اس روح کی نوعیت پرمنحصر ہے جو اس کے اندر اس کے شعرا اور صاحبان فن پیدا کرتے ہیں ....... کسی اہل ہنر کا مائل بہ انحطاط ضمیر اور تصور ایک قوم کے لیے اٹیلا ۲۵؂ اور چنگیز کے لشکروں سے زیادہ تباہ کن ہو سکتا ہے۔‘‘ ۲۶؂

سرسری نظر میں یہ بات کچھ عجیب سی لگتی ہے کہ ادیب اور شاعر اپنی شکست خوردہ ذہنیت اور مردہ ضمیری کے ساتھ اپنی قوم کے لیے چنگیز خان اور اٹیلا سے زیادہ تباہ کن کیسے ثابت ہو تا ہے۔ اس کا جواب فکر اقبال ہی سے یوں دیا جا سکتا ہے کہ عمدہ اور لطیف شاعر کی مثال ساحر اور جادوگر کی سی ہے: ۲۷؂

جمیل تر ہیں گل ولالہ فیض سے اس کے
نگاہ شاعر رنگیں نوا میں ہے جادو

وہ اپنی شاعری سے قوم کو سحر زدہ کر دیتا ہے۔ اس کے دماغ سے سوچنے سمجھنے کی قوت مفقود اور اس کے اعضا وجوارح قوت عمل سے محروم ہو جاتے ہیں اور قوم بے یقینی کا شکار ہو جاتی ہے جو غلامی سے بھی بد تر بتائی جاتی ہے: ۲۸؂

یقیں مثل خلیل آتش نشینی
یقین اللہ مستی خود گزینی
سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار
غلامی سے بدتر ہے بے یقینی

علامہ اقبال نے ’مثنوی اسرار خودی‘ لکھی تو اس میں افلاطون اور حافظ شیرازیؒ پر سخت تنقید کی۔ یہ دراصل اسی نقطہ نظر کی وضاحت تھی کہ شاعری کیسی ہونی چاہیے اور کیسی نہیں۔ اقبال کو حافظ کی شاعرانہ عظمت سے انکار نہیں تھا۔ وہ تو اسے بلند پایہ شاعر سمجھتے تھے۔ ۲۹؂ ان کو اختلاف اس کیفیت سے تھا جس کو وہ اپنے پڑھنے والے کے دل میں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اقبال کی نگاہ میں حافظؒ اپنے شیریں فن کے ذریعے موت کی دعوت دیتے ہیں، ایسی موت جس کے لیے چنگیز خان اور اٹیلا کا مرہون منت بھی نہیں ہونا پڑتا۔ اقبال کے نزدیک شاعری کا ایک معیار ہے جو فنی اعتبار سے نہیں ہے۔ ضروری نہیں کہ شاعری صنائع بدائع کے محاسن سے مزین ہو، ۳۰؂ بلکہ اصل چیز یہ ہے کہ شاعر کے اشعار اغراض زندگی میں کس قدر ممد ومعاون ہیں۔ اقبال اپنے مضمون ’’اسرار خودی اور تصوف‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’فردی اور ملی اعتبار سے کسی شاعر کی قدروقیمت کا اندازہ کرنے کے لیے کوئی معیار ہونا چاہیے۔ میرے نزدیک وہ معیار یہ ہے کہ اگر کسی شاعر کے اشعار اغراض زندگی میں ممد ہیں تو وہ اچھا شاعر ہیں اور اگر اس کے اشعار زندگی کے منافی ہیں یا زندگی کی قوت کو کمزور اور پست کرنے کا میلان رکھتے ہیں تو وہ شاعر خصوصاً قومی اعتبارات سے مضرت رساں ہے۔ ہر شاعر کم وبیش گردوپیش کی اشیا، عقائد، خیالات ومقاصد کو حسین وجمیل بنا کر دکھانے کی قابلیت رکھتا ہے اور شاعری نام ہی اس کا ہے کہ اشیا ومقاصد کو اصلیت سے حسین تر بنا کر دکھایا جائے تاکہ اوروں کو ان اشیا ومقاصد کی طرف توجہ ہو اور قلوب ان کی طرف کھنچ آئیں۔ ان معنوں میں ہر شاعر جادوگر ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کسی کا جادو کم چلتا ہے، کسی کا زیادہ۔ خواجہ حافظ اس اعتبار سے سب سے بڑے ساحر ہیں۔ مگر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ وہ کون سے مقصد یا حالت یا خیال کو محبوب بناتے ہیں۔ وہ ایسی کیفیت کو محبوب بناتے ہیں جو اغراض زندگی کے منافی ہے بلکہ زندگی کے لیے مضر ہے۔ جو حالت خواجہ صاحب اپنے پڑھنے والے کے دل میں پیدا کرنا چاہتے ہیں، وہ حالت افراد واقوام کے لیے جو اس زمان ومکان کی دنیا میں رہتے ہیں، نہایت ہی خطرناک ہے۔ حافظ کی دعوت موت کی طرف ہے جس کو وہ اپنے کمال فن سے شیریں کر دیتے ہیں تاکہ مرنے والے کو اپنے دکھ کا احساس نہ ہو۔‘‘ ۳۱؂

اورنگ زیب عالمگیر نے، جو بڑا متشرع بادشاہ تھا، حکم دیا کہ اتنی مدت تک تمام طوائفیں نکاح کر لیں ورنہ کشتی میں بھر کر تمام کو دریا برد کر دیا جائے۔ جب تعمیل حکم میں ایک دن باقی رہ گیا تو ایک طوائف جو شیخ کلیم اللہ جہاں آبادی کے پاس آئی تھی، آخری سلام کے لیے حاضر ہوئی اور سارا ماجرا سنایا۔ شیخ نے کہا کہ تم حافظ شیرازی کا یہ شعر یاد کر لو: ۳۲؂

در کوئے نیک نامی ما را گزر نہ دادند
گر تو نمے پسندی تغییر کن قضا را

اور کل جب تمھیں دریا کی طرف لے چلیں تو بآواز بلند اس شعر کو پڑھتی جاؤ۔ ان طوائفوں نے اس کو یاد کر لیا اور جب روانہ ہوئیں تو یاس کی حالت میں نہایت خوش الحانی سے بڑے درد انگیز لہجے میں اس شعر کو پڑھنا شروع کر دیا۔ جس جس نے سنا، دل تھام کر رہ گیا۔ جب بادشاہ کے کانوں میں آواز پہنچی تو بے قرار ہو گیا۔ ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ حکم دیا، سب کو چھوڑ دو۔ ۳۳؂ 

اس واقعے سے کلام حافظ کی تاثیر کا اندازہ فرمائیں۔ کیا ان معنوں میں حافظ کو ساحر کہنا کوئی بے جا بات تھی؟ یہ حافظ کا حسن کلام نہیں ہے بلکہ اقبال اس کو حافظ کا قبح قرار دیتے ہیں۔ ۳۴؂ اس لیے کہ اقبال کے خیال میں اس شعر میں حافظ نے مسئلہ تقدیر کی غلط اور حیات کش تعبیر کی ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ:

’’مسئلہ تقدیر کی ایسی غلط مگر دل آویز تعبیر سے حافظ کی شاعرانہ جادوگری نے ایک متشرع اور نیک نیت بادشاہ کو، جو آئین حقہ شرعیہ اسلامیہ کی حکومت قائم کرنے اور زانیات کا خاتمہ کر کے اسلامی سوسائٹی کے دامن کو بدنما داغ سے پاک کرنے میں کوشاں تھا، قلبی اعتبار سے اس قدر ناتواں کر دیا کہ اسے قوانین اسلامیہ کی تعمیل کرانے کی ہمت نہ رہی۔‘‘ ۳۵؂

اقبال نے شعر عجم کی جو تنقید فرمائی ہے، اس کا پس منظر حافظ شیرازی کی شاعرانہ جادوگری ہے۔ اقبال نے بار بار اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ بعض عجمی تصورات اور افکار نے اسلام کے چشمے کو گدلا کر کے رکھ دیا ہے۔ اقبال نے ایران کافرستان میں حرم کی بنیاد رکھی اور صرف ان ایرانی شعرا کے کلام کو اہمیت دی جو شعر وتصوف کی صحت مند تحریکات کے علمبردار تھے۔ ۳۶؂ اقبال نے رومی کو اپنا مرشد بنایا لیکن حافظ شیرازی کو ساحر اور جادوگر کہا اور اس سے بہرحال گریز کی تلقین کی: ۳۷؂

بے نیاز از محفل حافظ گزر
الحذر از گوسفنداں الحذر

ضرب کلیم میں ’’شاعر‘‘ اور ’’شعر العجم‘‘ کے عنوان سے دو نظموں میں انھی خیالات کا اعادہ کیا ہے۔ یہاں آپ نے ’’عجمی لے‘‘ ۳۸؂ اور ’’شعر العجم‘‘ کی باقاعدہ اصطلاحیں استعمال کی ہیں اور اس سے اجتناب کی وجہ بھی بیان کر دی ہے: ۳۹؂

تاثیر غلامی سے خودی جس کی ہوئی نرم
اچھی نہیں اس قوم کے حق میں ’’عجمی لے‘‘ 

اسی طرح شعر العجم کی طرب ناکی اور دل آویزی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے افسردگی اور بے یقینی پیدا ہوتی ہے جس سے انسانی خودی کی موت واقع ہو جاتی ہے: ۴۰؂

ہے شعر عجم گرچہ طرب ناک ودل آویز
اس شعر سے ہوتی نہیں شمشیر خودی تیز
افسردہ اگر اس کی نوا سے ہو گلستاں
بہتر ہے کہ خاموش رہے مرغ سحر خیز

یہاں مختصراً یہ جان لینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ’خودی‘ سے کیا مراد ہے اور اس کا نظریہ فن سے کیا تعلق ہے؟ ’خودی‘ فکر اقبال کا مرکزی نکتہ ہے ۴۱؂ جس سے مراد نفس یا تعین ذات ہے۔ ۴۲؂ کبھی یہ راز درون حیات ہے اور کبھی بیدارئ کائنات۔ ۴۳؂ یہ ایک خاموش قوت ہے جو عمل کے لیے بے تاب رہتی ہے۔ زندگی کا نظم اور انسانی شخصیت کی پائیداری اس کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اقبال خودی کو قوت، حرکت اور جہد مسلسل سے تعبیر کرتے ہیں۔ جب یہ خودی اپنے ذوق وشوق کا اظہار کرتی ہے تو زمین وآسمان کو خاطر میں نہیں لاتی۔ ۴۴؂ اقبال فرماتے ہیں، خودی وہ شراب ہے جس سے قوموں کا فہم تیز ہوتا ہے، جو تنکے کو چھو کر پہاڑ بنا دیتی ہے، جو لومڑی کو شیر، خاک کو ثریا اور قطرے کو سمندر بنا دیتی ہے۔ یہ وہ غیرت ہے جو ممولے اور چکور کو باز سے آمادۂ پیکار کرتی ہے۔ ۴۵؂ اقبال نے خودی کے مفہوم میں بے انتہا وسعت پیدا کر دی ہے لیکن تمام مباحث کا خلاصہ یہ ہے کہ خودی سے اقبال کی خودی ذوق عمل اور قوت تسخیر ہے اور اس کامقصد فقط اتنا ہے کہ انسان اور خاص طور پر مسلمان غفلت اور تن آسانی کی روش کو چھوڑ کر سخت کوشی اور خطر پسندی کا راستہ اختیار کریں۔ فنون لطیفہ سے اقبال اسی خودی کی تعمیر کا کام لینا چاہتے ہیں۔ اسی خودی کا نام اسرار زندگی ہے۔ دیباچہ مرقع چغتائی میں فرماتے ہیں:

’’مجھے جو کچھ کہنا ہے، اس کا حاصل بس اس قدر ہے کہ میں سارے فنون لطیفہ کو زندگی اور خودی کے تابع سمجھتا ہوں۔‘‘ ۴۶؂

یہی بات اقبال نے ان اشعار میں بیان فرمائی ہے: ۴۷؂

سرود وشعر وسیاست، کتاب ودین وہنر
گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یک دانہ
اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات
نہ کر سکیں تو سراپا فسوں وافسانہ

ضرب کلیم میں ’’فنون لطیفہ‘‘ کے نام سے ایک نظم موجود ہے۔ اس کے ایک جملہ ’’مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے‘‘ ۴۸؂ میں تمام فنون لطیفہ کا مقصد بیان کر دیا ہے۔ ایک اور نظم میں شعر کا مقصد ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ۴۹؂

وہ شعر کہ پیغام حیات ابدی ہے
یا نغمہ جرس ہے یا بانگ اسرافیل

پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے اس شعر کی شرح میں لکھا ہے کہ ’’شاعری میں یا تو پاکیزہ خیالات بیان ہوتے ہیں جن کی بدولت قوم میں نیکی کی طرف میلان پیدا ہوتا ہے یا پھر اس میں عمل صالح کی ترغیب ہوتی ہے جس کی بدولت قوم میں جہاد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔‘‘ ۵۰؂

اقبال نے اپنے خطوط میں بھی اس مسئلہ کی وضاحت فرمائی ہے کہ شاعری بذات خود کوئی مقصد نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد عالم اسلام اور خاص طور پر مسلمانان ہند میں بیداری پیدا کرنا ہے۔ آپ نے ۳ ستمبر ۱۹۱۷ کو مولانا گرامی کے نام ایک خط میں لکھا: 

’’میرا مقصد کچھ شاعری نہیں ہے بلکہ غایت یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں میں وہ احساس ملیہ پیدا ہو جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا خاصہ تھا۔ اس قسم کے اشعار لکھنے کی غرض عبادت ہے نہ شہرت ہے۔ کیا عجب ہے کہ نبی کریم کو مری یہ کوشش پسند آجائے اور ان کا استحسان میرے لیے ذریعہ نجات ہو جائے۔‘‘ ۵۱؂

۱۰ اکتوبر ۱۹۱۹ء کو سید سلیمان ندویؒ کے نام ایک مکتوب میں ارقام فرماتے ہیں:

’’شاعری میں لٹریچر بحیثیت لٹریچر کے کبھی میرا مطمح نظر نہیں رہا کہ فن کی باریکیوں کی طرف توجہ کرنے کے لیے وقت نہیں۔ مقصود صرف یہ ہے کہ خیالات میں انقلاب پیدا ہو۔ بس اس بات کو مد نظر رکھ کر جن خیالات کو مفید سمجھتا ہوں، ان کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘ ۵۲؂

اقبال کے ان خطوط سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ اول یہ کہ شاعری بذات خود کوئی مقصد نہ تھی۔ یہ کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ اور پردہ تھی: ۵۳؂

پردۂ تو از نوائے شاعری است
آنچہ گوئی ماورائے شاعری است

اس پردہ میں آپ نے ملت اسلامیہ کو بیداری اور جانبازی کا پیغام دیا ہے۔ ایک یورپی نقاد نے خوب کہا ہے کہ اقبال کا کلام ایک پیغام کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ۵۴؂ 

"Muhammad Iqbal's work is nothing but a message."

اور یہ پیغام خودی اور زندگی کے نام ہے، لہٰذا شعر ہو یا آرٹ کا کوئی اور شعبہ، اقبال کے ہاں اس کی قبولیت کا معیار زندگی اور خودی ہی ہے۔ ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا:

’’آرٹ زندگی کے ماتحت ہے۔ ہر چیز کو انسانی زندگی کے لیے وقف ہونا چاہیے۔ اس لیے ہر وہ آرٹ جو زندگی کے لیے مفید ہو، اچھا اور جائز ہے اور جو زندگی کے خلاف ہو، جو انسانوں کی ہمتوں کو پست اور ان کے جذبات عالیہ کو مردہ کرنے والا ہے، قابل نفرت وپرہیز ہے۔ اس کی ترویج حکومت کی جانب سے ممنوع قرار دی جانی چاہیے۔‘‘ ۵۵؂

علامہ اقبال کی ان وضاحتوں کے بعد مزید کسی شرح کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ زندگی کا شاعر ہے، حرکت وجہد کا پیام بر ہے، طاقت وقوت کا مبلغ ہے، افکار وخیالات میں پاکیزگی کا طرف دار اور علم بردار ہے۔ لہٰذا جو ادب بھی، خواہ وہ شعر ہو، موسیقی ہو، مصوری ہو، سنگ تراشی ہو، کوئی ڈراما یا تمثیل ہو، الغرض فنون لطیفہ کی کوئی بھی قسم ہو، اس کا مقصد زندگی کی صحت مند قدروں کی آب یاری ہونا چاہیے۔ اس میں ہمت اور ذوق عمل کا پیغام ہونا ضروری ہے، ورنہ وہ قابل قبول نہیں ہے۔ اقبال اپنی نظموں ’’شعر عجم‘‘ اور ’’ہنر وران ہند‘‘ میں مصوری، تمثیل وموسیقی وغیرہ سے نفرت کا اظہار اسی وقت کرتے ہیں جب وہ منفی اقدار کے فروغ کا سبب بنتے ہیں۔ وہ فنون لطیفہ کی طاقت کا بھرپور ادراک رکھتے تھے، اسی لیے ان کے مثبت اور تعمیری کردار پر زور دیتے تھے۔ فرماتے ہیں، ’’میرا عقیدہ ہے کہ آرٹ یعنی ادبیات یا شاعری یا مصوری یا موسیقی یا معماری ہر ایک زندگی کی معاون اور خدمت گار ہے۔‘‘ ۵۶؂

اس بحث کو اقبال کے مضمون ’’جناب رسالت مآب کا ادبی تبصرہ‘‘ پر ختم کیا جاتا ہے جس سے یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے کہ اقبال کس قسم کی شاعری کے حامی اور کس قسم کی شاعری کے مخالف ہیں:

’’یہ وہ عقدہ ہے جس کو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے وجدان نے اس طرح حل کیا ہے۔ امرؤ القیس نے اسلام سے چالیس سال پہلے کا زمانہ پایا ہے۔ روایت ہمیں بتاتی ہے کہ جناب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نسبت ایک موقع پر حسب ذیل رائے ظاہر فرمائی ہے: اشعر الشعراء وقائدہم الی النار۔ یعنی وہ شاعروں کا سردار تو ہے ہی لیکن جہنم کے مرحلے میں ان سب کا سپہ سالار بھی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امرؤ القیس کی شاعری میں وہ کون سی باتیں ہیں جنھوں نے حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ رائے ظاہر کروائی۔ امرؤ القیس کے دیوان پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں شراب ارغوانی کے دور، عشق وحسن کی ہوش ربا داستانوں اور جاں گداز جذبوں، آندھیوں سے اڑی ہوئی بستیوں کے کھنڈروں کے مرثیوں، سنسان ریتلے ویرانوں کے دل ہلا دینے والے منظروں کی تصویریں نظر آتی ہیں اور یہی عرب کے دور جاہلیت کی کل تخلیقی کائنات ہے۔ امرؤ القیس قوت ارادی کو جنبش میں لانے کی بجائے اپنے سامعین کے تخیل پر جادو کے ڈورے ڈالتا ہے اور ان میں بجائے ہوشیاری کے بے خودی کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حکیمانہ تنقید میں فنون لطیفہ کے اس اہم اصول کی توضیح فرمائی ہے کہ صنائع بدائع کے محاسن اور انسانی زندگی کے محاسن کچھ ضروری نہیں کہ یہ دونوں ایک ہی ہوں۔ ممکن ہے کہ شاعر بہت شعر کہے لیکن وہ شعر پڑھنے والے کو اعلیٰ علیین کی سیر کرانے کی بجائے اسفل السافلین کا تماشا دکھا دے۔ شاعری دراصل ساحری ہے اور اس شاعر پر حیف ہے جو قومی زندگی کی مشکلات وامتحانات میں دل فریبی کی شان پیدا کرنے کے بجائے وہ فرسودگی وانحطاط کو صحت اور قوت کی تصویر بنا کر دکھا دے اور اس طور پر اپنی قوم کو ہلاکت کی طرف لے جائے۔ اس کا تو فرض ہے کہ قدرت کی لازوال دولتوں میں سے زندگی اور قوت کا جو حصہ اسے دکھایا گیا ہے، اس میں اوروں کو بھی شریک کرے، نہ یہ کہ اٹھائی گیرہ بن کر جو رہی سہی پونجی ان کے پاس ہے، اس کو بھی ہتھیا لے۔‘‘ ۵۷؂




حوالہ جات

۱؂ پروفیسر حسن شاہ نواز زیدی، ’’اقبال کا نظریہ فن‘‘، مجلہ ’’اقبالیات‘‘ اردو، اقبال اکادمی لاہور، جلد ۳۱، شمارہ ۲۔۴، جولائی ۹۰ تا جنوری ۹۱، ص ۲۰۶

۲؂ ایضاً، ص ۲۰۵

۳؂ ڈاکٹر نصیر احمد ناصر، ’’اقبال اور جمالیات‘‘، اقبال اکادمی لاہور، طبع دوم ۱۹۸۱ء، حصہ دوم، باب ۱۱، ص ۲۹۹

۴؂ وکٹر پیوگو نے ’’آرٹ برائے آرٹ‘‘ کی اصطلاح کے متعلق لکھا ہے کہ سب سے پہلے اس نے اس کو استعمال کیا، لیکن یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے۔ شاید اس کو یہ علم نہ تھا کہ اس سے قبل یہی الفاظ وکٹر کوزین نے اپنے ایک لیکچر میں استعمال کیے گئے۔ ’’آرٹ مذہب واخلاق کی خدمت کے لیے ہے اور نہ اس کا مقصد مسرت وافادہ ہے ...... مذہب، مذہب کی خاطر ہونا چاہیے، اخلاق، اخلاق کی خاطر اور آرٹ، آرٹ کی خاطر۔ نیکی اور پاک بازی کے راستے سے افادہ اور جمال تک پہنچ نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح جمال کا مقصد افادہ یا نیکی یا پاک بازی نہیں ہے۔ جمال کا راستہ جمال ہی کی طرف رہبری کر سکتا ہے۔‘‘ (ڈاکٹر یوسف حسین خان، ’’آرٹ اور اقبال‘‘، مشمولہ اقبال کا تنقیدی مطالعہ، مرتبہ پروفیسر اے جی نیازی، عشرت پبلشنگ ہاؤس، لاہور، بار اول، مارچ ۱۹۶۵، ص ۱۲۷، ۱۲۸)

۵؂ فرانس میں فلوبیر (Flaubert)، گوئی اے (Gautier) اور بودلیئر (Baudelair)، امریکہ میں اڈگر ایلن پو (Edger Ellen Poe) اور انگلستان میں آسکر وائلڈ نے فن برائے فن کی تحریک کو پروان چڑھایا۔ انگلستان میں والٹر پیٹر (Walter Peter) کو فن برائے فن کا عظیم نمائندہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ (سید جابر علی، اقبال کا فنی ارتقا، بزم اقبال لاہور، طبع اول، جولائی ۱۹۷۸، ص ۱۹۲)

۶؂ میاں محمد شریف، ’’اقبال کا نظریہ فن‘‘، مشمولہ فلسفہ اقبال، مترجمہ سجاد رضوی، مرتبہ بزم اقبال لاہور، طبع دوم، مارچ ۱۹۸۴، باب ۲، ص ۴۴، ۴۵

۷؂ ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم، ’’فکر اقبال‘‘، بزم اقبال لاہور، طبع ہفتم جولائی ۱۹۹۰، باب ۱۶، ص ۴۳۱

۸؂ سید انور شاہ کشمیری، ’’ملفوظات‘‘، مرتبہ مولانا سید احمد رضا بجنوری، اشرف اکیڈمی لاہور، سن ندارد، ص ۵۱

۹؂ ’’اقبال کا نظریہ فن‘‘، اقبالیات، جلد ۳۱ شمارہ ۲ تا ۴، جولائی ۹۰ تا جنوری ۹۱، ص ۲۰۸

۱۰؂ ’’فلسفہ اقبال‘‘، ص ۴۶

۱۱؂ ایضاً، ص ۴۸

۱۲؂ مولانا عبد السلام ندوی، ’’اقبال کامل‘‘، عشرت پبلشنگ ہاؤس، لاہور، سن ندارد، ص ۳۷۲

۱۳؂ ’’فکر اقبال‘‘، ص ۴۲۲

۱۴؂ پروفیسر اشرف انصاری، ’’اقبال کا نظریہ فن‘‘، مشمولہ اقبالیات راوی، مرتبہ ڈاکٹر صدیق جاوید، الفیصل ناشران لاہور، جولائی ۱۹۸۹، ص ۲۵۸

۱۵؂ علامہ اقبال نے ’اسرار خودی‘ میں افلاطون پر سخت تنقید فرمائی ہے۔ اس کو قدیم زمانے کا راہب اور مسلک گوسفندی کا پیرو کہا ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ اس کا جام خواب آور ہے، وہ زندگی کی نفی کرتا ہے، وہ انسان کے لباس میں گوسفند ہے، اس کا کام باسی تھا، اس کی مستی سے قومیں زہر آلود ہو گئیں، سو گئیں اور ذوق عمل سے محروم ہو گئیں۔ (علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، اشاعت پنجم مئی ۱۹۸۵، صفحات ۳۲ تا ۳۴)

۱۶؂ ’’فلسفہ اقبال‘‘، ص ۵۷

۱۷؂ ’’فکر اقبال‘‘، ص ۴۲۰

۱۸؂ علامہ اقبال نے فروری ۱۸۹۹ سے دسمبر ۱۹۳۴ تک جو خطوط مرقوم فرمائے، ان میں مولانا شبلی کے نام صرف ایک خط ہے جو ۱۲ جنوری ۱۹۱۲ کو لاہور سے لکھا گیا ہے۔ البتہ سید سلیمان ندوی کے نام خطوط میں مولانا شبلی کا ذکر خوب کرتے ہیں۔ لاہور سے ایک خط محررہ ۲۸ اپریل ۱۹۱۸ء میں لکھتے ہیں ’’مولانا شبلی رحمہ اللہ کے بعد آپ استاذ الکل ہیں‘‘۔ (کلیات مکاتیب اقبال، مرتبہ سید مظفر حسین برنی، اردو اکادمی دہلی، اشاعت چہارم ۱۹۹۳ء، ص ۷۰۵)

اسی طرح بعض دیگر ارباب علم کے نام اپنے خطوط میں شبلی کے علاوہ حالی اور اکبر وغیرہ کا نام نہایت عقیدت واحترام سے کیا ہے۔ مثلاً شاعر مدراس کے نام ایک خط میں حالی اور شبلی کو قادر الکلام بزرگوں میں شمار کیا ہے اور ان سے داد حاصل کرنے کو بڑے فخر کی بات بتایا ہے۔ (مکتوب بنام شاعر مدراس محررہ ۲۹ اگست ۱۹۰۸، کلیات مکاتیب اقبال، جلد اول، ص ۱۵۰)

مولانا الطاف حسین حالیؒ (۱۸۳۷۔۱۹۱۴) کے نام علامہ اقبال نے فروری ۱۸۹۹ سے حالی کی وفات تک کوئی خط نہیں لکھا۔ پھر ۱۹۱۴ میں حالی فوت ہی ہو گئے تھے، البتہ اپنے خطوط میں حالی کا تذکرہ ضرور کیا ہے۔

اکبر الٰہ آبادی کے نام آپ کے درجنوں خطوط ہیں۔ ان تمام کے مضامین ’اسرار ورموز‘ کی اشاعت، ترتیب اور مشمولات کے بارے میں ہیں۔ خواجہ حسن نظامی کے حافظ کے بارے میں فکری تنازعہ کا ذکر ان خطوط کا حصہ ہے۔ ان تمام مکتوبات کا عرصہ تحریر ۱۹۱۱ سے ۱۹۱۸ تک ہے۔ (دیکھیے کلیات مکاتیب اقبال،جلد اول)

۱۹؂ شیخ عبد القادر، دیباچہ بانگ درا، مشمولہ ’’نذر اقبال‘‘، (سر عبد القادر کے مضامین، مقالات، مقدمات اور مکاتیب کا مجموعہ) مرتبہ محمد حنیف شاہد، بزم اقبال لاہور، طبع اول اگست ۱۹۷۲، ص ۴۲، ۴۲

۲۰؂ ایضاً ص ۳۷، ۳۸

۲۱؂ دیکھیے کلیات اقبال (فارسی) ص ۷۱۵

۲۲؂ یہ اکتوبر، نومبر ۱۹۳۳ کا ذکر ہے جب نادر خان شاہ افغانستان نے علامہ اقبال، سید سلیمان ندوی اور سر راس مسعود (وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) کو افغان یونیورسٹی کابل کے نصاب کے سلسلے میں دعوت دی۔ اس موقع پر انجمن ادبی کابل نے ان حضرات کو اپنے ہاں مدعو کیا۔ اس موقع پر سید سلیمان ندوی اور سر راس مسعود کے علاوہ علامہ اقبال نے انجمن کے سپاس نامہ کا جواب دیتے ہوئے ایک تقریر فرمائی۔ یہ اقتباسات اسی تقریر کا حصہ ہیں۔ دیکھیے، ’’مقالات اقبال‘‘، میں کابل میں ایک تقریر، ص ۲۵۹۔ نیز دیکھیے حق نواز کا مرتبہ ’’سفرنامہ اقبال‘‘، اقبال صدی پبلی کیشنز، دہلی، اشاعت اول، ۱۹۷۷، سفر افغانستان ۱۹۳۳۔ مزید دیکھیے، ’’حیات اقبال کے چند مخفی گوشے‘‘، مرتبہ محمد حمزہ فاروقی، ادارۂ تحقیقات پاکستان، دانش گاہ پنجاب لاہور، طبع اول مارچ ۱۹۸۸، باب سیر افغان ۱۹۳۳، صفحات ۲۰۰ تا ۲۱۲

۲۳؂ کابل میں ایک تقریر، ’’مقالات اقبال‘‘، ص ۲۵۹

۲۴؂ ایضاً، ص ۲۶۰

۲۵؂ Attila of Etzel ، ۴۰۶۔۴۵۳، ہن حملہ آوروں کا سردار تھا جو اپنے آپ کو خدائی قہر کہتا تھا اور اس بات پر فخر کرتا تھا کہ جدھر سے اس کا گزر ہو جائے، وہاں گھاس بھی نہیں اگتی۔ سلطنت روما کے دور انحطاط میں یورپ پر (۴۳۲۔۴۵۳) عفریت کی طرح مسلط رہا۔ مشرقی اور مغربی روم کی حکومتوں کو تاخت وتاراج اور جرمنی و اطالیہ وغیرہ کے علاقوں کو تباہ وبرباد کیا۔ (اردو انسائیکلو پیڈیا، ص ۱۶۱)

۲۶؂ دیباچہ مرقع چغتائی، در ’’مضامین اقبال‘‘، مرتبہ تصدق حسین تاج، حیدر آباد دکن، ۱۳۶۲، ص ۱۹۷

۲۷؂ کلیات اقبال ص ۳۰۵۔ نیز اقبال کا مضمون ’’اسرار خودی اور تصوف‘‘، مشمولہ مقالات اقبال، ص ۲۰۷

۲۸؂ کلیات اقبال اردو، ص ۳۷۳

۲۹؂ دیکھیے اقبال کا مضمون ’’اسرار خودی اور تصوف‘‘، مشمولہ ’’مقالات اقبال‘‘، ص ۲۰۶

۳۰؂ ’’جناب رسالت مآب کا ادبی تبصرہ‘‘، مشمولہ مقالات اقبال، ص ۲۳۰

۳۱؂ ’’اسرار خودی اور تصوف‘‘، مشمولہ ’’مقالات اقبال‘‘، ص ۲۰۷

۳۲؂ حافظ شیرازی کا یہ شعر دیوان حافظ میں ملاحظہ ہو۔ دیوان حافظ، مقبول اکیڈمی لاہور، سن ندارد، ص ۳۳

۳۳؂ ’’اسرار خودی اور تصوف‘‘، مشمولہ ’’مقالات اقبال‘‘، ص ۲۰۹، ۲۱۰

۳۴؂ و۳۵؂ ایضاً ص ۲۱۰

۳۶؂ سید عابد علی عابد، ’’شعر اقبال‘‘، بزم اقبال لاہور، ستمبر ۱۹۹۳، ص ۱۸۴

۳۷؂ اقبال کا یہ شعر ان اشعار کا تتمہ ہے جو آپ نے اسرار خودی کی اولین اشاعت ۱۹۱۵ میں حافظ پر لکھے تھے اور بعد ازاں یہ تمام اشعار حذف کر دیے تھے۔ مثنوی کا یہ اولین نسخہ ہے جو حکیم محمد صاحب چشتی نظامی نے یونین سٹیم پریس لاہور سے ۵۰۰ کی تعداد میں شائع کی تھی۔ یہ نسخہ اقبال اکادمی لاہور میں محفوظ ہے۔

۳۸؂ سید عابد علی عابد ’’عجمی لے‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’شعر کوئی کی ایک خاص روش ہے جسے اقبال ’’عجمی لے‘‘ کہتے ہیں۔ ’’لے‘‘ اس سلسلے میں بڑا ہی پر اسرار لفظ ہے اور جب تک اس کا صحیح مفہوم متعین نہ ہو، ’’عجمی لے‘‘ کی دلالتیں واضح نہیں ہو سکتیں۔ ’’عجمی لے‘‘ یا عجمی شعر گوئی سے کیسا اسلوب شعر گوئی ملحوظ ہے، اس کا جواب اقبال اسرار خودی میں دے چکے ہیں۔ انھوں نے حافظ کو ’’عجمی لے‘‘ کا نمائندہ شاعر سمجھا تھا کہ بڑے دل کش اور دل فریب پیرایے میں نرم ونازک الفاظ کو لوری دے کر پڑھنے والے کو موت کی نیند سلاتا ہے۔ یہ موت ذہنی ہے اور ذوق عمل کے فقدان سے عبارت ہے۔‘‘ (شعر اقبال، ص ۱۸۷)

۳۹؂ کلیات اقبال (اردو) ص ۵۸۹

۴۰؂ ایضاً ص ۵۹۰

۴۱؂ ڈاکٹر نصیر احمد ناصر، ’’اقبال اور جمالیات‘‘، اقبال اکادمی، پاکستان لاہور، طبع دوم ۱۹۸۱، ص ۱۵

۴۲؂ محمد اقبال، دیباچہ مثنوی اسرار خودی، اشاعت اول ۱۹۱۵، مشمولہ مقالات اقبال، ص ۱۹۹

۴۳؂ ’’کلیات اقبال‘‘ (اردو) ص ۴۱۹

۴۴؂ خودی کی ان تمام تعبیرات کے لیے دیکھیے مثنوی اسرار خودی کا باب ’’اصل نظام عالم از خودی است وتسلسل حیات‘‘

۴۵؂ تمہید اسرار خودی، کلیات اقبال (فارسی) ص ۸

۴۶؂ دیباچہ مرقع چغتائی، در مضامین اقبال، ص ۱۹۷

۴۷؂ کلیات اقبال (اردو) ص ۵۶۲

۴۸؂ ایضاً، ص ۵۸۰

۴۹؂ ایضاً، ص ۵۹۰

۵۰؂ یوسف سلیم چشتی، ’’شرح ضرب کلیم‘‘، عشرت پبلشنگ ہاؤس لاہور، سن ندارد، ص ۳۲۵

۵۱؂ سید مظفر حسین برنی (مرتب) کلیات مکاتیب اقبال، اردو اکادمی دہلی، اشاعت چہارم، جلد اول، ص ۶۵۷

۵۲؂ ایضاً، اشاعت دوم ۱۹۹۳، جلد دوم، ص ۱۳۷

۵۳؂ کلیات اقبال (فارسی) ص ۷۵۵

۵۴؂ ایڈورڈ میک کارتھی، ’’اقبال بحیثیت شاعر‘‘، اقبال ریویو (انگریزی) مجلہ اقبال اکادمی کراچی، جلد ۲، شمارہ ۳۰، اکتوبر ۱۹۶۱، ص ۱۸

۵۵؂ ملفوظات محمود نظامی، ص ۱۴۵

۵۶؂ دیکھیے اقبال کی ’’کابل میں ایک تقریر ۱۹۲۳‘‘ مشمولہ مقالات اقبال، ص ۲۵۹

۵۷؂ دیکھیے اقبال کا مضمون ’’جناب رسالت مآب کا ادبی تبصرہ‘‘، مشمولہ مقالات اقبال ص ۲۲۹، ۲۳۰










Tuesday, 8 November 2022

الله کا بدلہ(انعام)کیا اور کیسا ہے؟


  • اچھا بدلا، عوض (اچھے کام اور نیکی کا) صلہ، ثمر
  • سزا، برا عوض، بدلا، انتقام
  • جملہ شرطیہ کا جزو دوم یا جواب شرط



حضرت عمر بن خطابؓ نے فرمایا:
«لَوْ يَعْلَمُ أَحَدُكُمْ مَا فِي قَوْلِهِ لِأَخِيهِ ‌جَزَاكَ ‌اللَّهُ ‌خَيْرًا لَاسْتَكْثَرَ مِنْهَا»
ترجمہ:
’’اگر تم میں سے کسی کو معلوم ہو جائے اس (بدلہ-انعام) کے بارے میں جو تمہارا اپنے بھائی سے [جَزَاكَ ‌اللَّهُ ‌خَيْرًا ۔۔۔۔ بدلہ دے تجھے اللہ بہترین] کہنے سے حاصل ہوتا ہے، تو وہ یقینا اس (دعا) کو زیادہ حاصل کرتا‘‘۔
[الجامع - ابن وهب - ت مصطفى أبو الخير:174]

«لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ، يَعْلَمُ مَا فِي قَوْلِهِ لِصَاحِبِهِ ‌جَزَاكَ ‌اللَّهُ ‌خَيْرًا، لَأَكْثَرَ مِنْهَا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ»
ترجمہ:
"اگر بلاشبہ تم میں سے کسی کو معلوم ہوجائے اپنے ساتھی کے [جَزَاكَ ‌اللَّهُ ‌خَيْرًا] یعنی [بدلہ دے تجھے اللہ بہترین] کہنے سے حاصل ہونے والے بدلہ کے بارے میں تو تم ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اس (بدلہ) کو حاصل کرتے۔"
[الجامع - ابن وهب - ت مصطفى أبو الخير:245]

الله کا بدلہ(انعام)کیا اور کیسا ہے؟
(1)جنت
[سورۃ النحل:31]
(2)ہمیشہ باقی رہنے والا
[سورۃ النحل:96]
(3)رزق بےحساب
[سورۃ النور:38]
(4)مغفرت اور باعزت رزق۔
[سورۃ سبا:4]

عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ صُنِعَ إِلَيْهِ مَعْرُوفٌ فَقَالَ لِفَاعِلِهِ: ‌جَزَاكَ ‌اللَّهُ ‌خَيْرًا فَقَدْ أَبْلَغَ ‌فِي ‌الثَّنَاءِ۔
ترجمہ:
حضرت اسامہ بن زید ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کے ساتھ کوئی بھلائی کی گئی اور اس نے بھلائی کرنے والے سے «جزاک اللہ خيراً» اللہ تعالیٰ تم کو بہتر بدلا دے کہا، اس نے اس کی پوری پوری تعریف کردی۔
[سنن الترمذی - نیکی و صلہ رحمی کا بیان - حدیث نمبر 2035]







جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَهَا تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ لَهُمْ فِیْهَا مَا یَشَآءُوْنَ١ؕ كَذٰلِكَ یَجْزِی اللّٰهُ الْمُتَّقِیْنَۙ
جَنّٰتُ : باغات عَدْنٍ : ہمیشگی يَّدْخُلُوْنَهَا : وہ ان میں دخل ہوں گے تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا : ان کے نیچے سے الْاَنْهٰرُ : نہریں لَهُمْ : انکے لیے فِيْهَا : وہاں مَا يَشَآءُوْنَ : جو وہ چاہیں گے كَذٰلِكَ : ایسی ہی يَجْزِي : جزا دیتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
ہمیشہ ہمیشہ بسنے کے لیے وہ باغات جن میں وہ داخل ہوں گے، جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی، اور وہاں جو کچھ وہ چاہیں گے، انہیں ملے گا۔ متقی لوگوں کو اللہ ایسا ہی صلہ دیتا ہے۔

Monday, 7 November 2022

سورۃ العصر کے مضامین اور تفاسیر


الله پاک کا فرمان ہے:
وَ الْعَصْرِۙ
اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍۙ
اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ١ۙ۬ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۠   ۧ
ترجمہ:
زمانے کی قسم۔ (1)
انسان درحقیقت بڑے گھاٹے میں ہے۔
سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں اور ایک دوسرے کو حق بات کی نصیحت کریں، اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کریں۔ (2)
[سورہ العصر:١-٣]


(1) یعنی زمانے کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جو لوگ ایمان اور نیک عمل سے محروم ہوتے ہیں، وہ بڑے گھاٹے میں ہیں اس لئے کہ ایسی بہت سی قوموں کو دنیا ہی میں آسمانی عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور ہر زمانے میں اللہ کی نازل کی ہوئی کتابیں اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پیغمبر خبر دار کرتے رہے ہیں کہ اگر ایمان اور نیک عمل کی رَوِش اختیار نہ کی گئی تو آخرت میں بڑا سخت عذاب انسان کا منتظر ہے۔

(2) اس سے معلوم ہوا کہ خود نیک بن جانا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ اپنے اپنے اثرو رسوخ کے دائرے میں دوسروں کو حق بات اور صبر کی تلقین کرنا بھی ضروری ہے، صبر قرآن کریم کی ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان کی دلی خواہشات اسے کسی فریضے کی ادائیگی سے روک رہی ہوں یا کسی گناہ پر آمادہ کررہی ہوں اس وقت ان خواہشات کو کچلا جائے، اور جب کوئی ناگوار بات سامنے آئے تو اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر اعتراض سے اپنے آپ کو روکا جائے، ہاں تقدیر کا شکوہ کئے بغیر اس ناگوار چیز کے تدارک کی جائز تدبیر کرنا صبر کے خلاف نہیں ہے۔

قرآنی اصطلاح میں صبر بہت وسیع مفہوم رکھتا ہے، اس کی ایک قسم اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں استقامت کا مظاہرہ ہے، دوسری قسم گناہوں کے لئے اپنی خواہشات کو دبانا ہے اور تیسری قسم تکلیفوں کو برداشت کرنا ہے یہاں ان تینوں قسموں کے صبر کا حکم دیا گیا ہے، اور سرحدوں کی حفاظت میں جغرافی سرحدوں کی حفاظت بھی داخل ہے اور نظریاتی حفاظت بھی، اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام احکام پر عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین




تفسیر ابن عباس:
زمانہ کی سختیوں اور تکالیف کی یا یہ کہ نماز عصر کی قسم ہے کافر اپنے عمل کے برباد ہونے اور جنت نہ ملنے سے بڑے خسارے اور عذاب میں ہے، یا یہ کہ بڑھاپے اور موت کے بعد نقصان عمل کی وجہ سے۔
البتہ جو حضرات ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور ایک دوسرے کو توحید یا یہ کہ قرآن کریم پر بھارتے رہے اور فرائض کی ادائیگی اور ترک معاصی اور مصائب پر صبر کی ترغیب دیتے رہے سو یہ حضرات نفع میں ہیں۔



تفسیر مدارک التنزیل (امام) النسفی:
وَالْعَصْرِ (قسم ہے زمانہ کی) نماز عصر کی قسم اٹھائی اس کی عظمت شان کی وجہ سے اس کی دلیل دوسرے ارشاد میں ہے : والصلاۃ الوسطٰی مصحف حفصہ ؓ میں صلاۃ العصر کے لفظ ہیں۔
اور یہ بھی بات ہے کہ اس کی ادائیگی میں تکلیف زیادہ ہے۔ کیونکہ لوگ اس وقت اپنے کاموں اور تجارات میں گھر جا رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ دن کا پچھلا وقت ہوتا ہے۔ اور اس وقت گزران اوقات کی مشغولیتوں میں مست ہوتے ہیں۔ نمبر 2۔ العشی کی یہاں قسم اٹھائی جیسا کہ چاشت کی قسم پچھلی سورتوں میں اٹھائی گئی ہے کیونکہ اس میں دلائل قدرت ہیں۔
نمبر 3۔ زمانہ کی قسم اٹھائی کیونکہ اس کے گزرنے میں قسم قسم کے عجائبات ہیں۔

جنس انسان خسارے میں :
2 : اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ (کہ انسان بڑے خسارہ میں ہے) یہ جواب قسم ہے یعنی جنس انسان اپنی تجارات کے سبب نقصان میں ہے۔

آخرت کے خریدار :
3 : اِلَّا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ (مگر جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کیے) اس لئے کہ انہوں نے آخرت کو دنیا کے بدلے خرید لیا اس لئے نفع پالیا۔ اور خوش نصیب ہوگئے۔ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ (اور ایک دوسرے کو حق کی فہمائش کرتے رہے) ایسے امر ثابت و برحق کی ایک دوسرے ِکوتلقین کرتے رہے۔ جس کا انکار ممکن نہیں۔ اور وہ نری خیر ہے۔ جیسے توحید باری تعالیٰ اور اس کی اطاعت اور اس کی کتابوں کی اتباع اور رسولوں کی پیروی۔ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (اور ایک دوسرے کو پابندی کی فہمائش کرتے رہے) معاصی سے بچنے اور طاعات پر جمے رہنے کی تاکید کرتے رہے اور ان موقعوں پر جن سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتا ہے۔ ان آزمائشوں میں صبر کی تلقین کرتے رہے۔ تواصوا دونوں مقام پر فعل ماضی لایا گیا ہے۔ یہ ماقبل فعل ماضی ٰامنوا وعملوا پر معطوف ہیں۔






تفسیر (امام) ابن کثیر:
مختصر نقصان اور اصحاب فلاح و نجات :
عصر سے مراد زمانہ ہے جس میں انسان نیکی بدی کے کام کرتا ہے، حضرت زید بن اسلم نے اس سے مراد عصر کی نماز یا عصر کی نماز کا وقت بیان کیا ہے لیکن مشہور پہلا قول ہی ہے اس قسم کے بعد بیان فرماتا ہے کہ انسان نقصان میں ٹوٹے میں اور ہلاکت میں ہے ہاں اس نقصان سے بچنے والے وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان ہو اعمال میں نیکیاں ہوں حق کی وصیتیں کرنے والے ہوں یعنی نیکی کے کام کرنے کی حرام کاموں سے رکنے کی دوسرے کو تاکید کرتے ہوں قسمت کے لکھے پر مصیبتوں کی برداشت پر صبر کرتے ہوں اور دوسروں کو بھی اسی کی تلقین کرتے ہوں ساتھ ہی بھلی باتوں کا حکم کرنے اور بری باتوں سے روکنے میں لوگوں کی طرف سے جو بلائیں اور تکلیفیں پہنچیں تو ان کو بھی برداشت کرتے ہوں اور اسی کی تلقین اپنے ساتھیوں کو بھی کرتے ہوں یہ ہیں جو اس صریح نقصان سے مستثنیٰ ہیں۔




تفسیر (امام) البغوی:
”والعصر“ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ زمانے کی قسم ہے۔ کہا گیا ہے اس کی قسم کھائی اسی لئے کہ اس میں دیکھنے والے کے لئے عبرت ہے اور کہا گیا ہے اس کا معنی زمانے کے رب کی قسم ہے اور اسی طرح اس کی مثل دوسری قسموں میں ہے۔ ابن کیسان (رح) فرماتے ہیں العصر سے مرادرات اور دن ہیں۔ ان دونوں کو عصران کہا جاتا ہے اور حسن (رح) فرماتے ہیں سورج کے زوال سے اس کے غروب ہونے تک اور قتادہ فرماتے ہیں دن کی گھڑیوں میں سے آخری گھڑی اور مقاتل (رح) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے عصر کی نماز کی قسم کھائی اور یہی صلوٰۃ وسطیٰ ہے۔
”ان الانسان لفی خسر“ یعنی خسارے اور نقصان میں۔ کہا گیا ہے اس سے کافر مراد ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ مومنین کا استثناء کیا ہے اور خسران انسان کا اصل سرمایہ چلا جانا اپنے نفس اور عمر کو معاصی میں ہلاک کرنے میں اور یہ دونوں اس کا بڑا سرمایہ ہیں۔
”الا الذین امنوا وعملوا الصالحات“ کیونکہ یہ لوگ خسارہ میں نہیں ہیں۔ ”وتواصوا“ ایک دوسرے کو وصیت کریں۔ ”بالحق“ قرآن کی۔ اس کے قائل حسن اور قتادہ رحمہما اللہ ہیں اور مقاتل (رح) فرماتے ہیں ایمان و توحید کے ساتھ۔ ”وتواصوا بالصبر“ فرائض کی ادائیگی اور اللہ کے امر کو قائم کرنے پر۔
ابراہیم (رح) فرماتے ہیں مراد یہ ہے کہ انسان دنیا میں جب عمر گزارے اور بوڑھا ہوجائے تو وہ نقصان اور خسارہ میں ہے سوائے مومنین کے کیونکہ ان کے لئے ان کے اجر اور اچھے اعمال جو وہ اپنی جوانی اور صحت میں کرتے تھے لکھے جائیں گے اور یہ اللہ تعالیٰ کے قول ” لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ثم رددناہ اسفل سافلین الا الذین امنوا وعملوا الصالحات “ کی مثل ہے۔







تفسیر (امام) الرغب اصفہانی:
العصر
یہ عصرت الشئی کا مصدر ہے جس کے معنی ہیں نچوڑنا
المعصور : أَعْصِرُ خَمْراً [يوسف:36] انی اعصر خمرا (دیکھتا کیو ہوں) کہ شراب (کے لئے انگور) نچوڑ رہا ہوں۔
وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف:49] اور لوگ اسی میں رس نچوڑیں گے ۔ یعنی اس میں خیرو برکت حاصل ہوگی ایک قرات میں یعصرون ہے یعنی اسی سال خوب بارش ہوگی اعتصرت من کزا کے معنی کسی چیز سے خیرو برکت حاصل کرنا کے ہیں شاعر نے کہا ہے (312) وانما العیش بربانہ وانت من افنانہ معتصر زندگی کا لطف تو اٹھتی جوانی کے ساتھ ہے جب کی تم اس کی شاخوں سے رس نچوڑتے ہو۔
اور آیت کریمہ : ۔
وَأَنْزَلْنا مِنَ الْمُعْصِراتِ ماءً ثَجَّاجاً [عم:14] اور نچڑتے بادلوں سے موسلا دھار مینہ بر سایا ۔ میں معصرات سے مراد بادلوں ہیں جو پانی نچوڑتے یعنی گراتے ہیں۔
اور بعض نے کہا ہے کہ معصرات ان بادلوں کو کہا جاتا ہے جو اعصار کے ساتھ آتے ہیں اور اعصار کے معنی ہیں گردو غبار والی تند ہوا قرآن میں ہے:۔
فَأَصابَها إِعْصارٌ [البقرة:266] تو ( ناگہاں ) اس باغ پر ۔۔۔۔۔۔۔ بگولہ چلے۔
الاعتصار کے معنی کیس چیز کو دبا کر اس سے دس نچوڑنے کے ہیں اسی سے عصروعصر ہے جس کے معنی جائے پناہ کے ہیں العصر والعصروقت اور زمانہ اس کی جمع عصور ہے قرآن میں:۔
وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسانَ لَفِي خُسْرٍ
[ العصر/ 1- 2]
زمانہ کی قسم کہ انسان نقصان میں ہے۔
العصر کے معنی العشی بھی آتے ہیں یعنی زوال آفتاب سے غروب شمس تک کا زمانہ اسی سے صلاۃ العصر (نماز عصر) ہے العصران صبح شام رات دن اور یہ القمران کی طرح ہے جس کے معنی ہیں چاند اور سورج المعصر وہ عورت جسے حیض آجائے اور جوانی کی عمر کو پہنچ گئی ہو۔

الْإِنْسِ:
یہ جن کی ضد ہے اور انس (بضمہ الہمزہ) نُفور کی ضد ہے۔
اور اُنسیٰ ۔ اُنس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے:۔ جو بہت زیادہ مَانُوس (بے تکلف، گھلا ملا، راغب، خوگر) ہو اور ہر وہ چیز جس سے اُنس کیا جائے اسے بھی اُنسیٰ کہدیتے ہیں۔ اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے اُنسیٰ کہا جاتا ہے، اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں۔ اُنس کی جمع اُناسی ہے۔ قرآن میں ہے:۔
{ وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } [سورة الفرقان:49]
اور بہت سے انسانوں کو(اس پانی سے سیراب کریں)۔
اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے۔

انس (افعال) کے معنیٰ کسی چیز سے اُنس پانا یا دیکھتا ہیں۔ قرآن میں ہے :۔
{فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا}
[سورة:النساء:6]
اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو۔
انست نارا
[سورۃ الاعراف:27]
میں نے آگ دیکھی۔
اور آیت کریمہ :۔
{حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا}
[سورة النور:27]
کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر اُنس پیدا نہ کر لو۔

الْإِنْسَانَ:
انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم اُنس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر مُتَمَدِّن(یعنی شہری تہذیب کے مطابق زندگی بسر کرنے والا) واقع ہوا ہے۔ کیونکہ وہ آپس میں میل جول کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے۔
بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانُوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے۔

(2)بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں اِنسِیان بر وزن اِفعِلان ہے اور (انسان) چونکہ اپنے عہد کو "بھول" گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے۔
[المفردات في غريب القرآن-الراغب الأصفهاني (م502ھ) : صفحہ 94]

الخسروالخسران
عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے۔ چناچہ فرمایا:۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [الزمر:15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے۔

الایمان
کے ایک معنی شریعت محمدی ﷺ کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ {وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ} [سورة البقرة:62] اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی ﷺ میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت {وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ} [سورة يوسف:106] ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر (اس کے ساتھ) شرک کرتے ہیں (12۔102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے۔

العمل
ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے، قرآن میں:۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [البقرة:277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے.

الصالح
۔( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [التوبة:102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔

الوصیۃ
: واقعہ پیش آنے سے قبل کسی کو ناصحانہ انداز میں ہدایت کرنے کے ہیں اور یہ ارض واصیۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی پیوستہ گیا ہ یعنی باہم گھتی ہوئی گھاس والی زمین کے ہیں اور اوصاہ ووصا کے معنی کسی کو وصیت کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [البقرة:132] اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اس بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی ۔ ایک قرات میں اوصی ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ [العنکبوت:8] اور ہم نے انسان کو حکم دیا ۔ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِها[النساء:12] وصیت کی تعمیل کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض کے ۔ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنانِ [المائدة:106] کہ وصیت کے وقت تم دو مر د ۔ وصی (ایضاء) کسی کی فضیلت بیان کرنا ۔ تواصی القوم : ایک دوسرے کو وصیت کرنا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَتَواصَوْا بِالْحَقِّ وَتَواصَوْا بِالصَّبْرِ [العصر:3] اور آپس میں حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے ۔ أَتَواصَوْا بِهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طاغُونَ [الذاریات:53] کیا یہ لوگ ایک دوسرے کو اس بات کی وصیت کرتے آئے ہیں بلکہ یہ شریر لوگ ہیں ۔

الحق (حق)
کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور
لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے
۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے
۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔
(2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو
۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس:5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ (سب کچھ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔
(3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا
جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [البقرة:213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی
۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے
اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس:33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔

الصبر
کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [الأحزاب:35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»
ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں.





تفسیر (امام) القرطبی:
قسم ہے زمانہ کی۔
اس میں دو مسئلے ہیں۔
عصر کا معنی اور مراد :
مسئلہ نمبر 1: عصر سے مراد دھر (زمانہ) ہے۔ یہ حضرت ابن عباس اور دوسرے علماء کا نقطہ نظر ہے۔ عصر دہر کی طرح ہے۔ شاعر نے کہا :
سبیل الھوی وعر و بحر الھوی غمر۔۔۔ و یوم الھوی شھر و شھر الھوی دھر
محبت کا راستہ پر پیچ ہے محبت کا سمندر گہرا ہے محبت کا دن مہینہ برابر ہوتا ہے اور محبت کا مہینہ زمانہ برابر ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے زمانہ کی قسم اٹھائی کیونکہ اس میں احوال کے تصرف اور تبدل پر تنبیہ ہے اور اس میں صانع پر دلالت ہے۔
ایک قول یہ کیا گیا ہے : عصر سے مراد رات اور دن ہے، حمید بن ثور نے کہا :
ولن یلبث العصران یوم و لیلۃ۔۔۔ اذا طلبا ان یدرکا ما تیمما
عصران یعنی دن اور رات نہیں رکیں گے جب وہ اپنے مقصود کو پانے کا مطالبہ کردیں۔
عصرا سے مراد صبح اور شام ہے۔ شاعر نے کہا :
وامطلہ العصرین حتی یملنی۔۔۔ ویرضی بنصف الدین والانف راغم
میں اس کے ساتھ صبح و شام ٹال مٹول سے کام لیتا ہوں یہاں تک کہ مجھ سے اکتا جاتا ہے وہ مجبور ہو کر نصف قرض لینے پر راضی ہوجاتا ہے۔
وہ کہتا ہے : جب وہ دن کے پہلے پہر میرے پاس آتا ہے تو اس کے ساتھ پچھلے پہر کا وعدہ کرتا ہوں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد عشی ہے وہ سورج کے زوال سے لیکر اس کے غروب ہونے کا وقت ہے ؛ یہ حضرت حسن بصری اور قتادہ کا نقطہ نظر ہے ؛ اس معنی میں شاعر کا قول ہے :
تروح بنایا عمرو قد قصر العصر۔۔۔ وفی الروحۃ الاولی الغنیمۃ والاجر۔
اے عمرو ہمیں لے چلو وقت تھوڑا رہ گیا ہے پہلی روانگی میں غنیمت اور اجر ہے۔
قتادہ سے یہ بھی مروی ہے ؛ عصر سے مراد دن کی ساعتوں میں سے آخری ساعت ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اللہ تعالیٰ نے عصر کی نماز کی قسم اٹھائی یہی درمیان نماز ہے کیونکہ یہ نمازوں میں سے افضل نماز ہے۔ یہ مقاتل کا قول ہے یہ جملہ بولا جاتا ہے : اذن للعصر یعنی نماز عصر کے لیے آزان دی گئی۔ صلیت للعصر عصر کی نماز پڑھی گئی۔ حدیث صحیح میں ہے السلاۃ الوسطی سے مراد عصر کی نماز ہے۔ سورة بقرہ میں اس کی وضاحت گزر چکی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا : نبی کریم کے زمانہ کی قسم اٹھائی کیونکہ اس میں نبوت کی تجدید ہوئی اس وجہ سے یہ زمانہ فضیلت رکھتا ہے اس کی قسم اٹھائی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کا معنی ہے زمانہ کے رب کی قسم ہے۔
اگر کوئی عصر کے لفظ کو قسم میں ذکر کرے تو کتنا وقت مراد ہوگا ؟
مسئلہ نمبر 2: امام مالک نے فرمایا : جس نے یہ قسم اٹھائی لو یکلمہ عصرا تو وہ اس سے ایک سال تک بات نہ کرے۔ ابن عربی نے کہا : امام مالک نے قسم اٹھانے والے کی قسم کو سال پر محمول کیا جبکہ اس نے لفظ عصر کا ذکر کیا تھا کیونکہ اس کی تعبیر میں جو قول کیے جاتے ہیں یہ ان میں سے لمبے عر سے پر محیط ہے۔ یہ تعبیر ان کے اس اصول پر مبنی ہے کہ قسموں میں سختی کی جائے۔
امام شافعی نے کہا : وہ ایک ساعت نہ بولا تو قسم پوری کرنے والا ہوگا مگر جب اس کی کوئی نیت ہو۔ میں بھی یہی کہتا ہوں مگر جب وہ عربی ہو تو اس سے کہا جائے گا : تو نے کیا ارادہ کیا تھا ؟ جب اس نے ایسی تعبیر کی کلام جس کا احتمال رکھتی تھی تو اسے قبول کرلیا جائے گا مگر اس صورت میں کہ وہ بہت ہی قلیل ہو۔ یہ تعبیر کہ قسم کو اس پر محمول کیا جائے گا جو اس نے تفسیر کی یہ بھی امام مالک کے مذہب کے موافق ہے۔

یقینا ہر انسان خسارے میں ہے۔
یہ جواب قسم ہے اور انسان سے مراد کافر ہے، یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے، جو حضرت ابو صالح سے مروی ہے۔ ضحاک نے ان سے روایت نقل کی کہ اس سے مراد مشرکین کی ایک جماعت ہے ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل، اسود بن عبدالمطلب اور اسود بن عبد یغوث۔ ایک قول یہ کیا گیا کہ انسان سے مراد جنس انسان ہے۔ خسر سے مراد خسارہ ہے۔ اخفش نے کہا : اس سے مراد ہلاکت ہے۔ فراء نے کہا : اس سے مراد سزا ہے اس معنی میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : کان عاقبۃ امرھا خسرا۔ (الطلاق) ان کے امر کا انجام عذاب ہے۔ ابن زید نے کہا : اس کا معنی شر ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا : اس کا معنی نقص ہے۔ معنی سب کا قریب قریب ہے۔ سلام سے مروی ہے کہ عصر یہ صاد کے کسرہ کے ساتھ ہے۔ اعرج، طلحہ، اور عیسیٰ نے خسر پڑھا ہے۔ یہی ہارون نے ابوبکر سے وہ عاصم سے روایت نقل کرتے ہیں دونوں کی دلیل حرکات میں دوسرے حرف کی اتباع ہے یوں لفظ ذکر کیا جاتا ہے خسر اور خسر جس طرح عسر اور عسر۔ حضرت علی شیر خدا یوں پڑھا کرتے تھے : والعصر و نوائب الدھران الانسان لفی خسر۔ اس روایت میں الی آخر الدھر کے الفاظ بھی ہیں۔
ابراہیم نے کہا : انسان جب اپنی زندگی میں بوڑھا ہوجاتا ہے تو وہ نقصان، کمزوری اور پہلی حالت میں پلٹنے والا ہوجاتا ہے مگر مومنوں کا معاملہ مختلف ہے ان کے حق میں ان اعمال کا اجر لکھا جاتا رہتا ہے جو وہ جوانی کے عالم میں کیا کرتے تھے اس کی مثل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم۔ ثم رددنہ اسفل سافلین۔ (التین) اور کہا : ہماری قرات میں وانہ لفی آخر الدھر ہے جبکہ صحیح وہ ہے جس پر ائمہ اور مصاحف ہیں جس نے مصحف عثمانی کی مخالفت کی اس کا رد کتاب کے مقدمہ میں ہوچکا ہے۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں جس کو قرآن میں تلاوت کیا جاسکے۔ اسے وہاں غور سے پڑھ لیجیے۔

بجز ان (خوش نصیبوں) کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے نیز ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے رہے اور ایک دوسرے کو صبر کی تاکید کرتے رہے۔
الا الذین یہ الانسان سے مستثنی ہے کیونکہ صحیح قول کے مطابق وہ الناس کے معنی میں ہے۔ عملوا الصالحات سے مراد انہوں نے فرائض ادا کیے وہ رسول اللہ کے صحابہ ہیں۔ حضرت ابی بن کعب نے کہا : میں نے رسول اللہ پر عصر کی نماز پڑھی پھر میں نے عرض کی : اے اللہ کے نبی ! اس کی تفسیر کیا ہے ؟ فرمایا والعصر یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے قسم ہے تمہارے رب نے دن کے آخر کی قسم اٹھائی، انسان سے مراد ابو جہل ہے۔ الذین امنوا سے مراد حضرت ابوبکر ہیں۔
عملو الصالحات سے مراد حضرت عمر ہیں وتواصوا سے مراد حضرت عثمان اور وتواصوا بالصبر سے مراد حضرت علی شیر خدا ہیں۔ حضرت ابن عباس نے منبر پر بیٹھ کر اس طرح خطبہ دیا تھا۔
تواصوا کا معنی ہے انہوں نے باہم محبت کی، انہوں نے ایک دوسرے کو وصیت کی اور ایک دوسرے کو برا نگیختہ کیا۔ الحق سے مراد توحید ہے ؛ ضحاک نے حضرت ابن عباس سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ قتادہ نے کہا : حق سے مراد قرآن ہے۔ سدی نے کہا : یہاں حق سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ْ
وہ باہم اللہ تعلای کی طاعت اور معاصی پر صبر کی وصیت کرتے ہیں۔ یہ گفتگو پہلے گزر چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔






تفسیر الدر المنثور (امام) السیوطی:
1۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ سورة والعصر مکہ میں نازل ہوئی۔
2۔ الطبرانی فی الاوسط اور بیہقی نے شعب الایمان میں ابو ملیکہ الدارمی جو صحابی تھے ان سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے دو آدمی جب آپ میں ملاقات کرتے وہ آپس میں جدا ہونے سے پہلے ان میں سے ایک دوسرے پر سورة والعصر اس کے آخرتک پڑھتا۔ زمانہ کی قسم ! بیشک انسان گھاٹے میں ہے۔ پھر ان میں سے ایک دوسرے کو سلام کرتا۔
3۔ ابن سعد نے میمون (رح) سے روایت کیا کہ میں اس وقت حاضر تھا جب حضرت عمر ؓ پر نیزے سے حملہ کیا گیا تو ہم نے عبدالرحمن بن عوف ؓ کو ماما بنایا تو انہوں نے صبح کی نماز میں دو چھوٹی سورتیں والعصر اور اذا جاء نصر اللہ والفتح پڑھیں۔
4۔ الفریابی وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن الانباری فی المصاحف اور حاکم نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس طرح قرائت کرتے تھے۔ والعصر نوائب الدہر ان الانسان لفی خسر وانہ لفیہ الی اخر الدہر۔
5۔ عبد بن حمید نے اسماعیل بن عبدالملک (رح) سے روایت کیا کہ میں نے سعید بن جبیر (رح) کو ابن مسعود ؓ کی قراءت پر پڑھتے ہوئے سنا یعنی آیت والعصر ان الانسان لفی خسر الا الذی اٰمنوا وعملوا الصلحت۔ زمانہ کی قسم ہے بیشک انسان گھاٹے میں ہے اور بیشک وہ اس میں آخری زمانہ تک ہے مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے۔
6۔ عبد بن حمید نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ ہم نے یہ سورة پڑھی آیت والعصر ان الانسان لفی خسر الا الذین اٰمنوا وعملو الصلح وتواصوا بالحق وتواصو بالصبر۔ زمانہ کی قسم ہے بیشک انسان گھاٹے میں ہے اور بیشک وہ اس میں آخری زمانہ تک رہے گا مگر جو لوگ ایمان اور نیک عمل کیے۔ اور حق پر قائم رہنے کی اور صبر کرنے کی آپس میں وصیت کرتے رہے۔ تو بتایا گیا کہ یہ حضرت ابن مسعود ؓ کی قرائت ہے۔
7۔ عبد بن حمید نے حوشب (رح) سے روایت کیا کہ بشر بن مروان نے عبداللہ بن عتبہ بن مسعود ؓ کی طرف پیغام بھیجا کہ سورة والعصر ابن مسعود ؓ کیسے پڑھتے تھے تو انہوں نے کہا آیت والعصر ان الانسان لفی خسر وہو فیہ الی اخر الدہر۔ تو بشر نے ان سے کہا وہ اس کا انکار کرتا ہے عبداللہ نے کہا لیکن میں اس کے ساتھ ایمان رکھتا ہوں۔
8۔ ابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت والعصر سے مراد ہے دن کے اوقات میں سے ایک وقت
9۔ ابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت والعصر سے مراد وہ وقت ہے جو شام کے وقت سورج غروب سے پہلے ہوتا ہے۔
زمانے کی قسم کھائی گئی
10۔ عبدالرزاق وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت والعصر سے دن کے اوقات میں سے ایک وقت مراد ہے اور فرمایا وتواصو بالحق یعنی ایک دوسرے کو وصیت کرتے ہیں اللہ کی کتاب کی آیت وتواصو ابالصبر یعنی ایک دوسرے کو وصیت کرتے ہیں اللہ کی اطاعت کی۔
11۔ فریابی وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے محمد بن کعب القرظی (رح) سے روایت کیا کہ والعصر یہ ایک قسم ہے کہ اس کے ساتھ ہمارے رب تبارک وتعالیٰ نے قسم کھائی ہے آیت ان الانسان لفی خسر بیشک سارے کے سارے انسان خسارے میں ہیں پھر استثنی کرتے ہوئے فرمایا آیت الا الذین اٰمنو مگر جو لوگ ایمان لائے پھر ان کو اس حا لت میں چھوڑ نہیں دیا یہاں تک کہ فرمایا آیت وعملوا الصلحت اور نیک عمل کیے پھر ان کو اس حالت پر چھوڑ دیا یہاں تک کہ فرمایا آیت وتواصوا بالحق اور ایک دوسرے کو وصیت کرتے ہیں حق کے ساتھ۔ پھر ان کو اس حالت میں چھوڑ نہیں دیا یہاں تک کہ فرمایا آیت وتواصوا بالصبر اور ایک دوسرے کو وصیت کرتے ہیں صبر کے ساتھ یعنی یہ سب ان کے لیے شرطیں ہیں۔ (یعنی یہ شرطیں پائی جائیں گی تو وہ خسارے سے محفوظ رہیں گے۔
12۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت والعصر ان الانسان لفی خسر سے مراد ہے ابوجہل بن ہشام اور آیت الا الذین اٰمنوا وعملوا الصلحت سے حضرت علی اور حضرت سلمان ؓ کو ذکر کیا گیا۔



تفسیر جلالین:
ترجمہ :
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، زمانہ کی یا مابعد الزوال سے غروب تک کے زمانہ یا عرص کی نماز کی قسم بلاشبہ انسان اپنی تجارت میں بڑے خسارے میں ہے سوائے ان کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور ایک دوسرے کو حق کی یعنی ایمان کی نصیحت اور طاعت پر صبر اور معصیت سے اجتناب کی تلقین کرتے رہے، خسارے میں نہیں ہیں۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد مفسر عالم نے الدھر، او مابعد الزوال، او صلوۃ العصر، کہہ کر عصر کی تین تفسیروں کی طرف اشارہ کیا ہے اور الانسان کے بعد لفظ جنس کا اضافہ کر کے بتادیا کہ الانسان میں الف لام جنس کا ہے اور اس کی تائید الا الذین آمنوا کے استثناء سے بھی ہوتی ہے اور بعض مفسرین نے الف لام کو عہد کا لیا ہے اور معین افراد مراد لئے ہیں، بعض نے ولید بن مغیر اور عاص بن وائل اور اسود بن المطلب اور بعض نے ابولہب مراد لیا ہے۔ سوال : تواصوا بالحق وتواصوا بالصبر میں فعل کی تکرار سے کیا فائدہ ہے، عطف سے بھی کام چل سکتا تھا ؟ جواب : دونوں جگہ چونکہ مفعول مختلف ہیں، اس لئے فعل کو مکرر زذکر کیا ہے۔ سوال : تواصی بالحق تمام تواصی بالخیر کو شامل ہے تو پھر تواصی بالصبر کو کیوں مستقلاً ذکر فرمایا ؟ جواب : تواصی بالصبر کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لئے مستقلاً ذکر فرمایا اور یہ ذکر خاص بعد العام کے قبیل سے ہے جیسا کہ محافظوا علی الصلوت و الصلوۃ الوسطی میں ہے۔ سورة العصر کی فضیلت : حضرت عبید اللہ بن حصن ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ کے صحابہ ؓ میں دو شخص ایسے تھے کہ جب وہ اپٓس میں ملتے تھے تو اس وقت تک جدا نہیں ہوتے تھے جب تک کہ ایک دوسرے کو سورة والعصر نہ سنا لیں۔ (طبرانی) اور امام شافعی (رح) تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر لوگ صرف اسی سورت میں تدبر کرلیتے تو یہی ان کے لئے کاف تھی۔ (ابن کثیر، معارف) یہ سورت جامع اور مختصر کلام کا ایک بےنظیر نمونہ ہے اس کے اندر چند جچے تلے الفاظ میں معنی کی ایک دنیا بھر دی گئی ہے۔ اس سورت میں حق تعالیٰ نے زمانہ کی قسم کھا کر فرمایا کہ نوع انسان بڑے خسارے میں ہے اور اس خسارے سے مستثنیٰ صرف وہ لوگ ہیں جو چار چیزوں پر عالم ہیں : (1) ایمان (2) عمل صالح (3) دوسروں کو حق کی نصیحت (4) اور صبر کی تلقین، دنیا و دنیا کے خسارے سے بچنے اور نفع عظیم حاصل کرنے کا یہ قرآنی نسخہ چار اجزاء سے مرکتب ہے، جن میں پہلے دو اجزاء اپنی ذات کی اصلاح کے متعلق ہیں اور دوسرے دو جز دوسروں کی ہدایت و اصلاح سے متعلق ہیں۔ سورت کے مضمون کے ساتھ زمانہ کی مناسبت : یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ اس مضمون کے ساتھ زمانہ کی کیا مناسبت ہے جس کی قسم کھا گئی ہے کیونکہ قسم اور اب قسم میں باہم مناسبت ضروری ہوتی ہے، تو یہ بات پہلے بھی بار بار گذر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات میں سے کسی چیز کی قسم محض اس کی عظمت یا اس کے کمالات و عجائب کی بنا پر نہیں کھائی ہے، بلکہ اس بنا پر کھائی ہے کہ وہ اس بات دلالت کرتی ہے جسے ثابت کرنا مقصود ہے، لہٰذا زمانہ کی قسم کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ انسان کے خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جن میں یہ چار صفات پائی جائیں، زمانہ کا لفظ، ماضی، حال، مستقبل تینوں زمانوں پر بولا جاتا ہے، حال کسی لمبے زمانہ کا نام نہیں ہے، بلکہ حال، ہر آن گذر کر ماضی بنتا چلا جاتا ہے اور ہر آن، آ کر مستقبل کو حال اور جا کر، ماضی بنا رہی ہے، یہاں چونکہ مطلق زمانہ کی قسم کھائی گئی ہے، اس لئے تینوں قسم کے زمانے اس کے مفہوم میں شامل ہیں، گذرے ہوئے زمانہ کی قسم کھانے کا مطلب یہ ہے کہ انسانی تاریخ اس بات پر شہادت دے رہی ہے کہ جو لوگ بھی ان صفات سے عاری تھے وہ بالاخر خسارے میں پڑے رہے اور گذرتے ہوئے زمانہ کی قسم کھانے کا مطلب سمجھنے کے لئے پہلے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو زمانہ اب گذر رہا ہے یہ دراصل وہ وقت ہے جو ہر فرد وقوم کو کام کرنے کے لئے دیا گیا ہے، اس کی مثال اس وقت کی سی ہے جو طالب علم کو امتحان گاہ میں پر چہ حل کرنے کے لئے دیا جاتا ہے، یہ وقت جس تیز رفتاری سے گذر رہا ہے اس کا انداہ گھڑی کی سکنڈ کی سوئی کی حرکت سے ہوجائے گا، حالانکہ ایک سکنڈ بھی وقت کی ایک بہت بڑی مقدار ہے، اسی ایک سکنڈ میں روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل یا تقریباً دو لاکھ نواسی ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کرلیتی ہے اور خدا کی خدائی میں بہت سی ایسی چیزیں بھی ہوسکتی ہیں جو اس سے بھی زیادہ تیز رفتار ہوں، تاہم اگر وقت گذرنے کی رفتار وہی سمجھ لی جائے جو گھڑی کی سکنڈ کی سوئی کی حرکت سے معلوم ہوتی ہے تو ہمیں محسوس ہوگا کہ ہمارا اصل سرمایہ یہی وقت ہے جو تیزی سے گذر رہا ہے، امام رازی (رح) تعالیٰ نے کسی بزرگ کا قول نقل کیا ہے کہ میں نے سورة العصر کا مطلب ایک برف فروش سے سمجھا جو بازار میں آواز لگا رہا تھا کہ رحم کرو اس شخص پر جس کا سرمایہ پگھلا جا رہا ہے، رحم کرو اس شخص پر کہ جس کا سرمایہ گھلا جا رہا ہے، اس کی یہ بات سن کر میں نے کہا : یہ ہے والعصر ان الانسان لفی خسر اس کا مطلب ہے، عمر کی جو مدت انسان کو عمل کے لئے دی گئی ہے وہ برف کی طرح گھل رہی ہے اس کو اگر ضائع کیا جائے یا غلط کاموں میں صرف کیا جائے، تو یہی انسان کا خسارہ ہے، پس گذرتے ہوئے زمانہ کی قسم کھا کر جو بات اس سورت میں کہی گئی ہے کہ یہ تیز رفتاری سے گذرتا ہوا زمانہ شہادت دے رہا ہے کہ ان چار صفات سے خالی ہو کر انسان جن کاموں میں بھی اپنی مہلت عمر کو صرف کر رہا ہے وہ سراسر خسارے ہی خسارے میں ہے، نفع میں صرف وہ لوگ ہیں جو ان چار صفات سے متصف ہر کر دنیا میں کام کر رہے ہیں، یہ ایسی بات ہے جیسے ہم اس طالبعلم سے جو امتحان کے مقررہ وقت کو اپنا پر چہ حل کرنے کے بجائے کسی اور کام میں صرف کر رہا ہو، کمرہ میں لگے ہوئے گھنٹے کی طرف اشارہ کر کے کہیں کہ یہ گذرت اہو اوقت بتارہا ہے کہ تم اپنا نقصان کر رہے ہو، نفع میں صرف وہ طالب علم ہے جو اس وقت کا ہر لمحہ اپنا پر چہ حل کرنے میں صرف کر رہا ہے۔ ، بعض علماء حقیقت شناس نے کیا خوب کہا ہے۔ حیاتک انفاس تعد فکلما مضی نفس منھا انتقصت بہ جزاء ترجمہ : تیری زندگی چند گنے ہوئے انسوں کا نام ہے، جب ان میں سے ایک سانس گذر جاتا ہے تو تیری عمر کا ایک جز کم ہوجاتا ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ عمر سے زیادہ قیمتی سرمایہ کوئی چیز نہیں ہے اور اس کو ضائع کرنے سے بڑا کوئی نقصان نہیں، اس بات کی تائید ایک حدیث مرفوع سے بھی ہوتی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : کل یغدو فبائع نفسہ فمعتقھا او موبقھا یعنی ہر شخص جب صبح کو اٹھتا ہے تو اپنی جان کا سرمایہ تجارت میں لگاتا ہے، پھر کوئی تو اپنے اس سرمایہ کو خسارہ سے آزاد کرا لیتا ہے اور کوء ہلاکت میں ڈالتا ہے۔ نجات کے لئے صرف اپنے عمل کی اصلاح کافی نہیں بلکہ دوسروں کی فکر بھی بھی ضروری ہے : اپنے عمل کو قرآن و سنت کے تابع کرلینا جتنا اہم اور ضروری ہے اتنا ہی اہم یہ ہے کہ دوسرے مسلمانوں کو بھی ایمان اور عمل صالح کی طرف بلانے کی مقدور بھر کوشش کرے ورنہ صرف اپنا عمل نجات کے لئے کافی نہ ہوگا، خصوصاً اپنے اہل و عیال سے غفلت برتنا اپنی نجات کا راستہ بند کرنا ہے۔





تفسیر المظھری:
والعصر . حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : زمانہ کی قسم۔ بعض علماء نے زمانہ کی قسم کھانے کی یہ وجہ بیان کی کہ غور
کرنے والوں کے لیے زمانہ بڑا عبرت آگیں ہے۔ ابن کیسان ؓ نے کہا : العصر سے مراد ہے رات و دن۔ حسن بصری (رح) نے کہا : زوال سے غروب آفتاب تک العصر ہے۔ قتادہ نے کہا : دن کی آخری گھڑی العصر ہے۔ مقاتل (رح) نے کہا : نماز عصر مراد ہے یعنی درمیانی نماز ہے ہم اس کا ذکر سورة بقر میں کرچکے ہیں۔

ان الانسان لفی خسر . عموماً انسان بڑے گھاٹے میں ہیں۔ خُسْرٍ میں تنوین مفید عظمت ہے کیونکہ خسر
کا معنی ہے اصل پونجی ضالع ہوجانا اور انسان اپنی جان ‘ اپنی عمر اور اپنا مال ایسے کاموں میں برباد کرتا ہے جو آخرت میں اس کے لیے بالکل سودمند نہ ہوں گے (اس لیے انسان بڑے گھاٹے میں ہے) ۔

الا الذین امنوا واعملوا الصلحت . سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک کام کیے (یہ گھاٹے
میں نہیں ہیں) کیونکہ انہوں نے فانی دنیا کے عوض لازوال آخرت خرید لی ‘ اس لیے ان کی تجارت نفع بخش ہوئی۔
وتوا صوا بالحق . اور باہم ایک ‘ دوسرے کو نیکی کی نصیحت کی۔ قتادہ اور حسن نے کہا : الحق سے مراد قرآن
ہے اور مقاتل نے کہا : ایمان و توحید مراد ہے۔
وتوا صوا بالصبر . اور باہم صبر کرنے کی نصیحت کی۔ یعنی بری باتوں سے اور ان خواہشات سے جو اللہ کو
ناپسند ہیں ‘ نفس کو روکنے کی نصیحت کی۔
صبر سے مراد مطلق صبر ہے ‘ خواہ طاعت اور مصائب پر صبر ہو یا بری باتوں کے ترک پر۔ پس اعمال صالحہ سے مراد یا تو اچھے کام ہیں (کچھ بھی ہوں اور حق و صبر کی نصیحت مخصوص طور پر ایک اچھا کام ہے) اس صورت میں تو صوا کا عملوا پر عطف ایسا ہوگا جیسے عام پر خاص کا عطف (خاص کی اہمیت کی وجہ سے) ہوتا ہے یا اعمال صالحہ سے مراد وہ اعمال ہیں جن کا کرنا موجب کمال (انسانیت) ہے اس وقت حق و صبر کی نصیحت بھی تکمیل نفس کی موجب ہوگی اور اس کے علاوہ تمام اعمال موجب خسران ہوں گے۔ ابراہیم کا قول مروی ہے کہ جب انسان بہت بوڑھا ہوجاتا ہے تو اس کا نقصان ہوجاتا ہے (اعمال صالحہ نہیں کرسکتا اور اجر سے محروم ہوجاتا ہے) اور وہ پیچھے کو لوٹ جاتا ہے (آگے اعمال کی ترقی نہیں کرسکتا) ہاں ! مؤمن بوڑھا ہونے کے بعد گھاٹے میں نہیں رہتا۔ اس کے نامۂ اعمال میں وہی اعمال صالح لکھے جاتے ہیں جو صحت اور جوانی کے زما نہ میں کیا کرتا تھا۔ پس یہ آیت بھی (معنوی اعتبار سے) آیت ذیل کی طرح ہوجائے گی : لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ثم رددناہ اسفل سافلین الا الّذین اٰمنوا و عملوا الصلٰحت۔
مسئلہ بھلائی کا حکم دینا اور بری بات سے روکنا واجب ہے ‘ اس کو ترک کرنے والا خاسر ہے۔ حضرت ابوسعید ؓ خدری کی روایت ہے ‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جس شخص کے سامنے کوئی برا (ممنوع شرعی) عمل آئے تو اس کو اپنے ہاتھ (کی قوت) سے بدل دے ‘ اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے ہی روکے ‘ اتنی بھی طاقت نہ ہو تو اپنے دل سے ہی (اس سے نفرت کرے) اور یہ (درجہ) ضعیف ترین ایمان (کا) ہے۔ (رواہ مسلم)
بغوی نے شرح السنۃ میں بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ خواص کی بداعمالی کا عذاب عوام پر نہیں ڈالتا۔ لیکن جب عوام کوئی برا کام اپنے سامنے ہوتا دیکھتے ہیں اور باوجودیکہ رد کرنے کی طاقت رکھنے کے رد نہیں کرتے تو اس وقت اللہ عوام و خواص سب کو عمومی عذاب دیتا ہے۔ حضرت جریر بن عبداللہ کی مرفوع روایت سے بھی ابوداؤد اور ابن ماجہ نے یہی حدیث نقل کی ہے۔
ابوداؤد نے حضرت ابوبکر صدیق کی حدیث نقل کی ہے ‘ جس قوم کے درمیان گناہ کیے جاتے ہوں اور وہ بدلنے کی طاقت بھی رکھتے ہوں مگر نہ بدلیں تو خوب سن لو عنقریب ان پر عمومی وبال آئے گا۔ اس موضوع کی بکثرت احادیث آئی ہیں۔ ہم نے چند ذکر کردیں ‘ واللہ اعلم۔





تفسیر (مولانا شبیر احمد) عثمانی:
" عصر " زمانہ کو کہتے ہیں یعنی قسم ہے زمانہ کی جس میں انسان کی عمر بھی داخل ہے جسے تحصیل کمالات و سعادات کے لئے ایک متاع گرانمایہ سمجھنا چاہیے یا قسم ہے نماز عصر کے وقت کی جو کاروباری دنیا میں مشغولیت اور شرعی نقطہ نظر سے نہایت فضیلت کا وقت ہے (حتی کہ حضور ﷺ نے حدیث میں ارشاد فرمایا کہ جس کی نماز عصر فوت ہوگئی گویا اس کا سب گھر بار لٹ گیا) یا قسم ہے ہمارے پیغمبر کے زمانہ مبارک کی، جس میں رسالت عظمیٰ اور خلافت کبریٰ کا نور اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمکا۔

اس سے بڑھ کر ٹوٹا کیا ہوگا کہ برف بیچنے والے دکاندار کی طرح اس کی تجارت کا راس المال جسے عمر عزیز کہتے ہیں، دم بدم کم ہوتا جا رہا ہے۔ اگر اس رواداری میں کوئی ایسا کام نہ کرلیا جس سے یہ عمر رفتہ ٹھکانے لگ جائے، بلکہ ایک ابدی اور غیر فانی متاع بن کر ہمیشہ کے لئے کار آمد بن جائے، تو پھر خسارہ کی کوئی انتہاء نہیں۔ زمانہ کی تایخ پڑھ جاؤ اور خود اپنی زندگی کے واقعات پر غور کرو تو ادنیٰ غور و فکر سے ثابت ہوجائے گا کہ جن لوگوں نے انجام بینی سے کام نہ لیا اور مستقبل سے بےپروا ہو کر مخض خالی لذتوں میں وقت گزار دیا وہ آخرکار کس طرح ناکام و نامراد بلکہ تباہ و برباد ہو کر رہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وقت کی قدر پہچانے اور عمر عزیز کے لمحات کو یونہی غفلت و شرارت یا لہو و لعب میں نہ گنوائے۔ جو اوقات تحصیل شرف و مجد اور اکتساب فضل و کمال کی گرم بازاری کے ہیں۔ خصوصاً وہ گراں مایہ اوقات جن میں آفتاب رسالت اپنی انتہائی نور افشانی سے دنیا کو روشن کر رہا ہے، اگر غفلت و نسیان میں گزار دیے گئے، تو سمجھو کہ اس سے بڑھ کر آدمی کے لئے کوئی خسارہ نہیں ہوسکتا۔ بس خوش نصیب اوراقبال مند انسان وہی ہیں جو اس عمر فانی کو باقی اور ناکارہ زندگی کو کار آمد بنانے کے لئے جدو جہد کرتے ہیں اور بہترین اوقات اور عمدہ مواقع کو غنیمت سمجھ کر کسب سعادت اور تحصیل کمال کی کوشش میں سرگرم رہتے ہیں۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جن کا ذکر آگے " الا الذین امنو و عملوا الصلحت " میں کیا گیا ہے۔

یعنی انسان کو خسارہ سے بچنے کے لئے چار باتوں کی ضرورت ہے۔ اول خدا اور رسول پر ایمان لائے اور ان کی ہدایات اور وعدوں پر خواہ دنیا سے متعلق ہوں یا آخرت سے، پورا یقین رکھے۔ دوسرے اس یقین کا اثر محض اپنی انفرادی صلاح و فلاح پر قناعت نہ کرے بلکہ قوم و ملت کے اجتماعی مفاد کو پیش نظر رکھے۔ جب دو مسلمان ملیں ایک دوسرے کو اپنے قول و فعل سے سچے دین اور ہر معاملہ میں سچائی اختیار کرنے کی تاکید کرتے رہیں۔ چوتھے ہر ایک کو دوسرے کی یہ نصیحت و وصفت رہے کہ حق کے معاملہ میں اور شخصی و قومی اصلاح کے راستہ میں جس قدر سختیاں اور دشواریاں پیش آئیں یا خلاف طبع امور کا تحمل کرنا پڑے، پورے صبرو استقامت سے تحمل کریں، ہرگز قدم نیکی کے راستہ میں ڈگمگانے نہ پائے۔ جو خوش قسمت حضرات ان چار اوصاف کے جامع ہوں گے اور خود کامل ہو کر دوسروں کی تکمیل کریں گے ان کا نام صفحات دہر پر زندہ جاوید رہے گا۔ اور جو آثار چھوڑ کر دنیا سے جائیں گے وہ بطور باقیات صالحات ہمیشہ ان کے اجر کو بڑھاتے رہیں گے۔ فی الحقیقت یہ چھوٹی سی سورت سارے دین و حکمت کا خلاصہ ہے۔ امام شافعی (رح) نے سچ فرمایا کہ اگر قرآن میں سے صرف یہی ایک سورت نازل کردی جاتی تو (سمجھدار بندوں کی) ہدایت کے لئے کافی تھی۔ بزرگان سلف میں جب دو مسلمان آپس میں ملتے تھے، جدا ہونے سے پہلے ایک دوسرے کو یہ سورت سنایا کرتے تھے۔






تفسیر ماجدی:
 (بسبب اپنی فرصت عمر کے تلف وضائع کر ڈالنے کے) (آیت) ” العصر “۔ زمانہ جو ہر لمحہ انتہائی سرعت کے ساتھ گزرتا چلا جاتا ہے، وہی تو وہ ظرف ہے جس کے اندر انسان سب ہی کچھ کرتا رہتا ہے، اور سب ہی کچھ اس پر گزرتی رہتی ہے، اس میں وہ کھوتا بھی ہے، اور اسی میں وہ پاتا بھی ہے۔ رنج و حرمان، نقصان و خسران بھی اسی میں اس پر واقع ہوکررہتا ہے۔ محض وقت کا مفہوم ادا کرنے کے لئے عربی زبان میں زبان دہروغیرہ اور لفظ بھی تھے۔ لیکن گزرتے ہوئے زمانہ کی طرف، مرور ایام کی طرف خاص اشارہ کرنے والا لفظ یہی ” عصر “ ہے۔ وقسم بالزمان لما فی مرورہ من اصناف العجائب (کشاف) عمر انسانی کے لمحات دیکھتے دیکھتے کس تیزی سے گزر جاتے ہیں، اور انسان خالی ہاتھ رہ جاتا ہے، اسی کو گواہ کرکے قرآن مجید کہتا ہے کہ کافر انسان بھی کیسا بدقسمت اور حرماں نصیب ہے ! وقت کی پوری قدر کرنا، عمر کے ایک ایک لحظہ اور پل کا حساب رکھنا کہ اس سب کا سوال ہوگا، اسلام کی اہم تعلیمات میں سے ہے۔ (آیت) ” الانسان “۔ انسان۔ سے اس سیاق میں بھی مراد وہی کافر انسان ہے۔

2۔ یعنی خسران و محرومی تو منکروں اور کافروں کے حصہ میں آئی ہے جنہوں نے وقت کی قدر نہ پہچانی اور ساری فرصت عمر برباد کردی، نہ کہ ان لوگوں کے جنہوں نے اپنی عمریں قانون الہی کے مطابق بسر کیں۔ روایتوں کیں۔ روایتوں میں آتا ہے کہ مکہ کے مشہور تاجر ابوبکر بن ابی قحافہ جب دعوت اسلام کے بالکل شروع ہی میں ایمان لے آئے تو ایک معاصر نے ان سے کہا کہ تم معاملات میں تو بڑے ہوشیار تھے، لیکن اس باب میں سخت دھوکا کھاگئے، اپنے کو فلاں فلاں ٹھاکروں اور دیوتاؤں کی توجہ، شفقت وسفارش سے محروم کردیا، اور لائق وفائق اسلاف کے طور طریقوں کو چھوڑ دیا، اس پر یہ سورت نازل ہوئی، جس میں بتایا گیا کہ محروم رہ جانے والے حقیقۃ کون ہیں، (آیت) ” وتواصوبالحق “۔ یعنی اعتقاد حق پر قائم رہنے کہ فہمائش کرتے رہے، (آیت) ” وتواصوبالصبر “۔ حسرت و حرمان سے بچے رہنے والے خوش نصیب انسانون کی چار صفات کا یہاں بیان ہوا ہے، ان میں سے پہلی (2) دو یعنی ایمان اور عمل صالح، صفات ذاتی، وانفرادی اور بطور کمال لازم کے ہیں، باقی (2) دو یعنی تواصی بالحق وتواصی بالصبر، صفات ملی واجتماعی بطور کمالات متعدی کے ہیں،۔ اسلام تو اصلاح، انفرادی واجتماعی، ذاتی وملی دونوں قسم کے ساتھ ساتھ چاہتا ہے، مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ فرصت عمر نعمت مغتنم ہے، ضائع کوئی لمحہ نہ ہونا چاہئے، ساری عمر تحصیل کمال یا تکمیل ہی میں بسر ہونا چاہیے۔







معارف القرآن(مفتی شفیع عثمانی)
خلاصہ تفسیر
قسم ہے زمانہ کی (جس میں رناج و خسران واقع ہوتا ہے) کہ انسان (اپنی عمر ضائع کرنے کی وجہ سے) بڑے خسارے میں ہے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے (جو اپنے نفس کا کمال ہے) اور ایک دوسرے کو حق (پر قائم رہنے کی فرمائش کرتے رہے اور ایک دوسرے کو (عمال کی) پابندی کی فرمائش کرتے رہے (جو دو رسوں کی تکمیل ہے تو جو لوگ یہ کمال حاصلک ریں اور دو رسوں کی بھی تکمیل کریں یہ لوگ البتہ خسارے میں نہیں بلکہ نفع میں ہیں)
معارف و مسائل
سورة عصر کی خاص فضیلت۔ حضرت عبید اللہ ابن حصن فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے دو شخص ایسے تھے کہ جب وہ آپس میں ملتے تھے تو اس وقت تک جدا نہ ہوتے جب تک ان میں سے ایک دوسرے کے سامنے سورة والعصر نہ پڑھ لے (رواہ البطرانی) اور امام شافعی نے فرمایا کہ اگر لوگ صرف اسی سورت میں تدبر کرلیتے تو یہی ان کے لئے کافی تھی (ابن کثیر)
سورة عصر قرآن کریم کی بہت مختصر سی سورت ہے لیکن ایسی جامع ہے کہ بقول حضرت امام شافعی اگر لوگ اسی سورت کو غور و تدبر کے ساتھ پڑھ لیں تو دین و دنیا کی درستی کے لء کافی ہوجائے۔ اس صورت میں حق تعالیٰ نے زمانہ کی قسم کھا کر فرمایا کہ نوع انسان بڑے خسارے میں ہے اور اس خسارے سے مستثنیٰ صرف وہ لوگ ہیں جو چار چیزوں کے پابند ہوں۔ ایمان، عمل صالح، دوسروں کو حق کی نصیحت و وصیت اور صبر کی وصیت، دنیا و دنیا کے خسارے سے بچنے اور نفع عظیم حاصل کرنے کا یہ قرآنی نسخہ چار اجزاء سے مرکب ہے جن میں پہلے دو جز اپنی ذات کی اصلاح کے متعلق ہیں اور دوسرے دو جز دوسرے مسلمانوں کی ہدایت و اصلاح سے متعلق ہیں۔
یہاں پہلی بات یہ غور طلب ہے کہ اس مضمون کے ساتھ زمانے کو کیا مناسبت ہے جس کی قسم کھائی گی کیونکہ قسم اور جواب قسم میں باہم مناسبت ضرور ہوتی ہے۔ عام حضرات مفسرین نے فرمایا کہ انسان کے تمام حالات اس کا نشو و نما اس کی حرکات سکنات، اعمال، اخلاق سب زمانے کے اندر ہوتے ہیں۔ جن اعمال کی ہدایت اس سورت میں دی گئی ہے وہ بھی اسی زمان کے لیل و نہار میں ہوں گے اس کی مناسبت سے زمانہ کی قسم اختیار کی گئی۔
زمانے کو نوع انسانی کے خسارے میں کیا دخل ہے۔ اور توضیح اس کی یہ ہے کہ انسان کی عمر کا زمانہ اس کے سال اور مہینے اور دن رات بلکہ گھنٹے اور منٹ اگر غور کیا جائے تو یہی اس کا سرمایہ ہے جس کے ذریعہ وہ دنیا و آخرت کے منافع عظیمیمہ عجیبیہ بھی حاصل کرسکتا ہے اور عمر کے اوقات اگر غلط اور برے کاموں میں لگا دیئے تو یہی اس کے لئے وبال جان بھی بن جاتے ہیں، بعض علماء نے فرمایا ہے۔
حیا تک انفاس تعد فکلما مضی نفس منھا انتقصت بہ جزائ
یعنی تیری زندگی چند گنے ہوئے سانسوں کا نام ہغے۔ جب ان میں سے ایک سانس گزر جاتا ہے تو تیری عمر کا ایک جز کم ہوجاتا ہے حق تعالیٰ نے ہر انسان کو اس کی عمر کے اوقات عزیز کا بےبہا سرمایہ دے کر ایک تجارت پر لگا یا ہے کہ وہ عقل و شعور سے کام لے اور اس سرمایہ کو خلاص نفع بخش کاموں میں لگائے تو اس کے منافع کی کوئی حد نہیں رہتی اور اگر اس کے خلاف کسی مضرت رساں کام میں لگا دیا تو نفع کی تو کیا امید ہوتی یہ راس المال بھی ضائع ہوجاتا ہے اور صرف اتنا ہی نہیں کہ نفع اور راس المال ہاتھ سے جاتا رہا۔ بلکہ اس پر سینکڑوں جرائم کی سا عائد ہوجاتی ہے اور کسی نے اس سرمایہ کو نہ کسی نفع بخش کام میں لگایا نہ مضرت رساں میں تو کم از کم یہ خسارہ تو لازمی ہی ہے کہ اس کا نفع اور راس المال دونوں ضائع ہوگئے اور یہ کوئی شاعرانہ تمثیل ہی نہیں بلکہ ایک حدیث مرفوع سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے۔
یعنی ہر شخص جب صبح اٹھتا ہے تو اپنی جان کا سرمایہ تجارت پر لگاتا ہے پھر کوئی تو اپنے اس سرمایہ کو خسارہ سے آزاد کرا لیتا ہے اور کوئی ہلاک کر ڈالتا ہے۔
خود قرآن کریم نے بھی ایمان و عمل صالح کو انسان کی تجارت کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے ھل ادتکم علی تجارة تجیکم من عذاب الیم اور جب زمانہ عمر انسان کا سرمایہ ہوا اور انسان اس کا تاجر تو عام حالات میں اس تاجر کا خسارہ میں ہونا اس لئے واضح ہے کہ اس مسکین کا سرمایہ کوئی منجمد چیز نہیں جس کو کچھ دن بیکار بھی رکھا تو اگلے وقت میں کام آسکے بلکہ یہ سیال سرمایہ ہے جو ہر منٹ ہر سیکنڈ بہ رہا ہے اس کی تجارت کرنے والا بڑا ہوشیار مستعد آدمی چاہئے جو بہتی ہوئی چیز سے نفع حاصل کرے۔ اسی لئے ایک بزرگ کا قول ہے کہ وہ برف بیچنے والے کی دکان پر گئے تو فرمایا کہ اس کی تجارت کو دیکھ کر سورة والعصر کی تفسیر سمجھ میں آگئی کہ یہ ذرا بھی غفلت سے کام لے تو اس کا سرمایہ پانی بن کر ضائع ہوجائے گا اس لئے اس ارشاد قرآنی میں زمانے کی قسم کھا کر انسان کو اس پر متوجہ کیا ہے کہ خسارے سے بچنے کے لئے جو چار اجزاء سے مرکب نسخہ بتلایا گیا ہے اس کے میں ذرا غفلت نہ برتے۔ عمر کے ایک ایک منٹ کی قدر پہچان اور ان چار کاموں میں اس کو مشغول کر دے۔
زمانہ کی قسم کی ایک مناسبت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جس چیز کی قسم کھائی جائے وہ ایک حیثیت سے اس معاملہ کے شاہد کے قائم مقام ہوتی ہے اور زمانہ ایسی چیز ہے کہ اگر اس کی تاریخ اور اس میں قوموں کے عروج و نزول کے بھلے برے واقعات پر نظر کرے گا تو ضرور اس یقین پر پہنچ جائے گا کہ صرف یہ چار کام ہیں جن میں انسان کی فلاح و کامیابی منحصر ہے جس نے ان کو چھوڑا وہ خسارہ میں پڑا دنیا کی تاریخ اس کی گواہ ہے۔
آگے ان چاروں اجزاء کی تشریح یہ ہے کہ ایمان اور عمل صالح جو خود انسان کی ذات سے متعلق ہیں ان کا معاملہ واضح ہے کسی تشریح کا محتاج نہیں البتہ آخری دو جز یعنی تواضی بالحق اور تواصی بالصبر یہ قابل غور ہیں کہ ان سے کیا مراد ہے۔ لفظ تواصی وصیت سے مشتق ہے کسی شخص کو تاکید کے ساتھ مؤ ثر انداز میں نصیحت کرنے اور نیک کام کی ہدیات کرنے کا نام وصیت ہے اسی وجہ سے مرنے والا جو اپنے عبد کے لئے کچھ ہدایات دیتا ہے اس کو بھی وصیت کہا جاتا ہے۔
یہ دو جز درحقیت اسی وصیت کے دو باب ہیں۔ ایک حق کی وصیت دوسرے صبر کی وصیت، اب ان دونوں لفظوں کے معنی میں کئی احتمال ہیں۔ ایک یہ کہ حق سے مراد عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ کا مجموعہ ہو اور صبر کے معنے تمام گناہوں اور برے کاموں سے بچنا ہو تو پہلے لفظ کا حاصل المر بالمعروف ہوگیا یعنی نیک کاموں کا حکم کرنا اور دوسرے کا حاصل نہی عن المنکر ہوگیا یعنی برے کاموں سے روکنا، اس مجمعہ کا حاصل پھر وہی ایمان اور عمل صالح جس کو خود اختیار کیا ہے اس کی تاکید و نصیحت دوسروں کو کرنا ہوگیا اور ایک احتمال یہ ہے کہ حق سے مراد اعتقادات حقہ لئے جائیں اور صبر کے مفہوم میں تمام اعمال صالح ہیک پابندی بھی ہو اور برے کاموں سے بچنا بھی کیونکہ لفظ صبر کے حقیقی معنے اپنے نفس کو روکنے اور پابند بنانے کے ہیں۔ اس پابندی میں اعمال صالحہ بھی آگئے اور گناہوں سے اجتناب بھی۔
اور حافظ ابن تیمیمہ نے اپنے کسیر سالے میں فرمایا کہ انسان کو ایمان اور عمل صالح سے روکنے والی عادة دو چیزیں ہوتی ہیں، ایک شبہات یعنی اس کو ایمان و عمل صالح میں کچھ نظری اور فکری شبہات پیدا ہوجاویں۔ جن کے سبب قعائد ہی مختلف ہوجائیں اور عقائد کے مختلف ہونے سے عمل صالح کا خلل پذیر ہونا خود ظاہر ہے۔ دوسرے شہوات یعنی خواہشات نفسانی جو انسان کو بعض اوقات نیک عمل سے روک دیتی ہیں اور بعض اوقات برے اعمال میں مبتلا کردیتی ہیں اگرچہ وہ نظری اور اعتقادی طور پر نیکی پر عمل اور برائی سے بچنے کو ضروری سمجھتا ہو مگر نفسانی خواہشات اس کے خلاف ہوں اور وہ ان خواہشات سے مغلوب ہو کر سیدھا راستہ چھوڑ بیٹھے تو آیت مذکور میں وصیت حق سے مراد یہ ہے کہ شبہات کو دور کرے اور وصیت صبر سے مراد یہ کہ نفسانی خواہشات کو چھوڑ کر اچھے اعمال اختیار کرنے کی ہدایت کرے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وصیت بالحق سے مراد دوسرے مسلمانوں کی علمی اصلاح ہے اور وصیت بالصبر سے مراد عملی اصلاح۔
نجات کے لئے صرف اپنے عمل کی اصلاح کافی نہیں بلکہ دوسرے مسلمانوں کی فکر بھی ضروری ہے۔ اس سورت نے مسلمانوں کو ایک بڑی ہدایت یہ دی کہ ان کا صرف اپنے عمل کو قرآن و سنت کے تابع کرلینا جتنا اہم اور ضروری اتنا ہی اہم یہ ہے کہ دوسرے مسلمانوں کو بھی ایمان اور عمل صالح کی طرف بلانے کی مقدور بھر کوشش کرے ورنہ صرف اپنا عمل نجات کے لئے کافی نہ ہوگا، خصوصاً اپنے اہل و عیال اور احباب و متعلقین کے اعمال سیسہ سے غفلت برتنا اپنی نجات کا راستہ بند کرنا ہے اگرچہ خود وہ کیسے ہی اعمال صالحہ کا پابند ہو، اسی لئے قرآن و حدیث میں ہر مسلمان پر اپنی نجات کا راستہ بند کرنا ہے اگرچہ خود وہ کیسے ہی اعمال صالحہ کا پابند ہو، اسی لئے قرآن و حدیث میں ہر مسلمان پر اپنی اپنی مقدرت کے مطابق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرض کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں عام مسلمان بلکہ بہت سے خواص تک غفلت میں مبتلا ہیں، خود عمل کرنے کو کافی سمجھ بیٹھے ہیں، اولاد و عیال کچھ بھی کرتے رہیں اس کی فکر نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس آیت کی ہدایت پر عمل کی تفویق نصیب فرما دیں۔





تفسیر حقانی:
ترکیب ¦ وللقسم العصر مقسم بہ والمرادبہ الدھر عموماً وقیل العشی وھو مابین زوال الشمس وغروبھا وقیل صلوٰۃ العصر۔ قرء الجمھور بسکون الصادوقریٔ بکسرھا ایضاً ان الانسان اسم ان لفی خسر خبرھا والجملۃ جواب القسم۔ قرء الجمھور بضم الخاء و سکون السین وقریٔ بضبھما ایضاً والمعنی فی نقصان و خسران وشر۔ الاستثناء متصل من الانسان وقیل منقطع علی ان المراد بالانسان الکافر وعملوا ومابعدہ عطف علی آمنوا والتواصی وصیۃ بعضھم لبعض۔ تفسیر ¦ یہ سورة بالاتفاق مکہ میں نازل ہوئی۔ اور ابن عباس ؓ کا بھی یہی قول ہے۔ صرف قتادہ ؓ کہتے ہیں کہ مدینہ میں نازل ہوئی۔ ربط ¦ ربط اس سورة کا سورة تکاثر سے یہ ہے کہ انسان تمام عمر کثرت مال و اولاد و فراہمی اسباب عیش و نشاط میں صرف کرنا اپنی اوقات گرانمایہ کا حاصل سمجھتا ہے ورنہ جانتا ہے کہ میرے اوقات خراب ہوئے اور عمر ضائع ہوئی اور اسی کو وہ مقصود اصل جانتا ہے اور اسی لیے وہ اس کی حرص کرتا ہے اور اس پر فخر کرتا ہے اس خیال کے رد کرنے کو یہ سورة نازل فرمائی کہ کوئی کیسا ہی مال و دولت میں کامیابی حاصل کرلے مگر پھر بھی نقصان اور خسارہ ہی میں ہے اس خسارہ سے تو وہ بچے ہوئے ہیں جو ایمان لائے اور نیک کام کر گئے اور نیک کاموں کی بنیاد اپنے بعد ڈال گئے۔ عمر گرانمایہ کا اصلی نفع یہی ہے نہ وہ کہ جو عموماً طبائعِ انسانیہ سمجھی ہوئی ہیں۔ چناچہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے ان کے جاہلیت کے دوست ابوالاسد نے بطور طنز کے یہ کہا تھا کہ تم بڑے ہوشیار اور تجارت میں خبردار تھے کبھی نقصان نہیں اٹھایا، اب کیا نادانی چھا گئی جو تمام مال صرف کر کے ایک شخص کے معتقد ہوگئے اور قدیم دین کو چھوڑ بیٹھے۔ یہ تم نے بڑا خسارہ اٹھایا اس کا خیال باطل بھی اس سورة میں رد کردیا گیا۔ فقال والعصر کہ قسم ہے زمانہ کی جس میں یہ انسان زندہ ہے اور یہ ایک نہایت قیمتی اور گرانمایہ سرمایہ ہے جو خداوند تعالیٰ نے انسان کو دے کر دنیا میں ایمان اور نیکوکاری کی تجارت کرنے بھیجا ہے اور یہ سرمایہ ایسا بےثبات ہے کہ برف کی طرح آپ ہی آپ پگھلتا جاتا ہے اگر اس نے بجائے ایمان اور عمل نیک کے برا سودا خریدا یا کچھ بھی نہیں خریدا تو یہی انسان خسارہ میں ہے اس لیے اس وقت عزیز کی قسم کھائی جس کو یہ ناقدر انسان برے وقت میں صرف کرتا ہے یا یوں ہی ضائع کرتا ہے اور اس قسم کو اپنے مابعد کے مضمون سے نہایت ارتباط ہے گویا وہ دعویٰ ہے تو یہ اس کی دلیل مقدم ہے تاکہ مخاطب کو اس مضمون میں کہ انسان خسارہ میں ہے (سوائے ان کے جو ایمان لائے اور نیک کام کئے) کوئی تردد نہ رہے اور یہ قرآن مجید کا کمال بلاغت ہے ولہ الحمد۔ مفسرین کے عصر کے معنی میں چند قول ہیں۔ (1) بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ عصر سے مراد مطلقاً زمانہ ہے جس کو عربی میں دہر کہتے ہیں اور اس کی قسم کھانے میں اپنی قدرت و حکمت کی باریکیوں کا اظہار کرنا مقصود ہے۔ اور یہ اس لیے کہ زمانہ کی تمام چیزوں پر زمانہ کا پورا احاطہ ہے کوئی بادشاہ ‘ کوئی مالدار ‘ کوئی شہ زور ایسا نہیں کہ زمانہ کی نیرنگیوں سے نکل جائے۔ زمانہ کا پہلا اثر موسموں کا تبدل ہے جب سردی آتی ہے تمام لوگوں پر سردی کا اثر پھیل جاتا ہے اور جب گرمی کی سلطنت آتی ہے تو رات کافور ہوجاتی ہے زمین پر نور پھیل جاتا ہے۔ اس کے بعد انسان کی عمر پر زمانہ کا وہ نمایاں سکہ چلتا ہے کہ کسی طرح ٹلتا ہی نہیں لڑکپن کے بعد جوانی اور جوانی کے بعد بڑھاپا بےاختیار آتا ہے اور پھر زمانہ زمانیات کو فنا کرتا ہے اور پھر حیوانات ‘ جمادات اور حیوانات میں سے انسانوں کو مار کر ایسے فنا کے عمیق گڑھے میں ڈال دیتا ہے کہ جوں جوں زمانہ گزر جاتا ہے وہ فناشدہ اتنا ہی نیچے چلا جاتا ہے اب دیکھا چاہیے کہ زمانہ کی ڈوریاں کس کے ہاتھ میں ہیں ؟ اسی قادر مطلق کے لیکن جن کی نظر دور تک نہیں پہنچتی وہ ان سب حوادث کو زمانہ ہی کے مستقل افعال جانتے ہیں جیسا کہ فرقہ دہریہ اور جن کی نگاہیں دور جاتی ہیں اور وہ گہری نظروں سے دیکھتے ہیں وہ اس کل کے موجد اور اس کے چلانے والے کے ہاتھ کی کاریگری سمجھتے ہیں جو زمانہ سے باہر ہو کر زمانہ کی کل چلا رہا ہے اس لیے زمانہ کی قسم کھائی کہ وہ اس کی ایک عمدہ اور بڑی کل ہے جس میں اشارہ ہے کہ زمانہ کے موافق بنو۔ زمانہ تمہارے موافق نہیں بنے گا اور جب کسی نے زمانہ سے لڑائی کی تو فوراً شکست کھائی اور اسی بات کی طرف نبی کریم ﷺ نے اس حدیث میں اشارہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ابن آدم مجھے ایذا دیتا ہے جو دہر کو گالیاں دیا کرتا ہے دہر تو میں ہوں میرے ہاتھ میں سب کام ہے۔ میں ہی رات اور دن کو بدلتا ہوں۔ (متفق علیہ) ۔ (2) بعض فرماتے ہیں اخیر دن کا وقت مراد ہے جو زوال سے غروب تک کا وقت ہے جس کو عربی میں عشی کہتے ہیں۔ یہ قتادہ اور حسن بصری کا قول ہے اور اس کی قسم کھانے کی وجہ یہ ہے کہ دن بھر کے کاروبار کا نفع و نقصان اخیر دن میں ظاہر ہوتا ہے۔ دن بھر بیچ کھوچ کر سوداگر دکان بڑھاتا ہے اور اپنے گھر کا رستہ لیتا ہے اور نیز زیادہ بیع و شراکا بازار اسی وقت گرم ہوتا ہے اور نیز ایک انقلاب عظیم کی یہ تمہید ہے یعنی دن کا جانا رات کا آنا اور اسی لیے اس وقت کی نماز کی جس کو صلوٰۃ الوسطیٰ اور صلوٰۃ العصر کہتے ہیں بڑی تاکید ہے پس اس میں اشارہ ہے کہ انسان تیری زندگانی کا بہت سا زمانہ گزر گیا اب اخیر وقت رہ گیا تو اپنی تجارت میں جو آخرت میں کام آئے سرگرمی کرلے وقت بہت نہیں رہا ورنہ پھر خسارہ ہی خسارہ ہے۔ (3) بعض فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا زمانہ مراد ہے جو بڑا متبرک زمانہ ہے اور جس میں تجارتِ آخرت کا بازار بڑا گرم تھا جس نے سعادت کی طرف ذرا توجہ کی اس نے سلطنتِ آسمانی حاصل کرلی اور جس نے برا سودا کیا عمر کھو کر کفروبدکاری خریدی، گھاٹا اٹھایا اور بڑا گھاٹا۔ اسی لیے آپ نے ارشاد فرمایا تھا خیرالقرون قرنی الحدیث کہ سب زمانوں سے بہتر میرا زمانہ ہے الخ۔ جب صبح سے لے کر تھوڑے دن رہے تک بنی آدم آخرت کے سودے میں پورے کامیاب نہ ہوئے اور وقت رہ گیا کم تو اس نے اپنی رحمت سے ایسا نبی برپا کیا جو دنیا کو نافع تجارت سکھانے آیا ایسی تجارت کہ تھوڑے سے داموں پر (یعنی چند روزہ زندگی سے جو امم سابقہ کی بہ نسبت وقت عصر ہے اور تھوڑے سے اعمال سے) بےبہا دولت حاصل ہوتی ہے یعنی دارآخرت اور اس کے نعمائے باقیہ اسی لیے لفظ والعصر میں اس طرف اشارہ کردیا کہ بس اب اور وقت نہیں رہا جو اور نبی آئے گا انہیں پر سلسلہ تمام ہے۔ پھر اب بھی جو کوئی ہدایت پر نہ آئے تو ازلی بدنصیب ہے۔ دنیا کی دکان بڑھا چاہتی ہے۔ اسی لیے آپ نے فرما دیا کہ میں اور قیامت اس طرح ہیں اور انگلی سے انگلی ملا کر دکھائی یعنی ساتھ لگے ہوئے میرے بعد قیامت ہے۔ (4) بعض فرماتے ہیں کہ خاص نماز عصر کی قسم مراد ہے یہ مقاتل کا قول ہے اسی لیے اس نماز کی قسم کھائی کہ یہ اس دارآخرت کی تجارت کا ایک مخصوص وقت ہے اور نیز دنیاوی تجارت کا بھی وقت ہے اور کاروبار میں مصروف ہونے کا وقت ہے اور نیز دن کے اعمال کے دفتر بند ہونے کا وقت ہے اس کے بعد سے رات کے اعمال کا دفتر کھلتا ہے اور اسی لیے حدیث صحیح میں آیا ہے کہ جس کی نماز عصر قضا ہوگئی گویا اس کا گھربار لٹ گیا اور قرآن مجید میں صلوٰۃ وسطیٰ سے (جس کی محافظت پر تاکید ہے) یہی نماز مراد ہے۔ فائدہ : قرآن مجید میں بہت سی چیزوں کی خدا پاک نے قسم کھائی ہے۔ رات کی، دن کی، آفتاب کی، آسمان کی، مکہ شہر کی، انجیر کی، زیتون کی۔ آنحضرت ﷺ کی عمر کی وغیرہ۔ حالانکہ حدیث شریف میں بندوں کے لیے بجز خدا پاک کے نام کی قسم کھانے کی ممانعت آئی ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ قسم کھانے میں تعظیم بیحد ہے اور اس کا مستحق وہی حق سبحانہ ٗ ہے اور اہل توحید کا شیوہ خاص ہے کہ اس کی تعظیم کے برابر کسی کی تعظیم نہ کریں پھر حق سبحانہ ٗ نے اپنی مخلوقات کی کیوں قسمیں کھائیں۔ اپنی ذات وصفات کی قسم پر انحصار کیوں نہ فرمایا ؟ جواب : اس میں علماء کا اختلاف ہے جمہور معتزلہ اور بڑے بڑے علمائِ اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ ایسے مقامات پر لفظ رب محذوف ہے جیسا کہ والتین قسم ہے۔ رب تین یعنی رب انجیر کی پھر ان اشیاء کے ذکر کرنے میں اور ان کی ربوبیت کے اظہار میں بندوں کو ان چیزوں سے جو منافع اور فوائد ہیں ان کا اظہار کرنا مقصود ہے تاکہ ان چیزوں میں اس کی قدرت کاملہ کا کرشمہ دیکھ کر ایمان لائیں اور اپنے قدیم محسن اور آقاء ولی النعمۃ کی طرف جھکیں یعنی ہر جگہ اپنی ہی قسم کھائی ہے نہ مخلوق کی۔ اکثر متکلمین کا بھی اسی طرف رجحان ہے اور بات بھی یہی قوی ہے لیکن علمائِ کرام کی ایک جماعت ظاہر الفاظ پر خیال کر کے یہ بھی کہتی ہے کہ لفظ رب کے محذوف ماننے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ انہیں چیزوں کی قسم کھائی ہے مگر ہر ایک قسم کھانے والے کی حالت اور شان کے مطابق اس چیز کی قسم کھانے سے جو مقصود ہوتا ہے وہی مراد لیا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص بادشاہ کے سر کی قسم کھائے یا تخت کی تو اس کا مقصود عزت و عظمت بادشاہ کی اور اس کے تخت کی ہوگی اور جو کوئی اپنی اولاد یا اپنے مال کی قسم کھائے تو مقصود محبت ہوگی علیٰ ہذا القیاس۔ پس حق سبحانہ ٗ جو اپنی مخلوق میں سے کسی چیز کی قسم کھاتا ہے تو مقصود اس چیز کے پیدا کرنے میں جو اس نے اسرار قدرت اور بندوں کے منافع رکھے ہیں ان کا اظہار ہوگا۔ قطع نظر اس سے کہ یہ شے جملہ مخلوق میں بڑھ کر ہے یا نہیں اور کبھی محض اس چیز کا شرف و عزت بندوں کی نگاہ میں ظاہر کرنا بھی مقصود ہوتا ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ کی قسم یا مکہ معظمہ کی قسم۔ اب کوئی محل اعتراض باقی نہیں رہا اس پر بھی جو کوئی اس رمز سے ناواقف ہو کر عیب لگائے اور طعن کرے یہ اس کی بھونڈی سمجھ ہے۔ الحاصل عصر کی قسم کھا کر فرماتا ہے ان الانسان لفی خسر کہ بیشک ابن آدم نقصان میں ہے کس لیے کہ اس کی عمر گرانمایہ جو بڑا مال ہے اور جس سے دارآخرت کی کارآمد چیزیں خریدی جاتی ہیں وہ ہر آن گھٹتی جاتی ہے اور جو گھٹتی ہے اس کے پھر آنے کی امید منقطع ہے۔ کیا خوب کہا ہے حافظ مرحوم نے ؎ مرادر منزل جاناں چہ امن و عیش چوں ہر دم جرس فریاد میدارد کہ بربندید محملہا اور اگر اس عمر گرانمایہ کو گناہوں اور شہوات و لذات فانیہ میں صرف کیا یا کھیل کود ‘ لہو ولعب میں گزار دیا تو اور بھی نقصان ہو اور خسران سرمدی و حرمان ابدی نصیب ہوا۔ لیکن اس عمر چند روزہ میں اگر نفع حاصل کرنا چاہے اور نقصان سے محفوظ رہنا چاہے تو اس کے لیے یہ دو باتیں ضروری ہیں۔ اول یہ کہ اپنی حیات میں کمال حاصل کرے اور دوم یہ کہ مرنے کے بعد بھی حسنات و باقیات کا سلسلہ باقی چھوڑ جائے تاکہ اس کے بعد بھی اس کے حسنات ہمیشہ اس کو پہنچتے رہیں۔ اور اس سبب سے اس کو اکتساب حسنات کے لیے ایک وسیع زمانہ مل جائے ورنہ عمر تو بہت ہی تھوڑی ہوتی ہے خصوصاً جبکہ ایک اس میں سے لڑکپن اور بیماری اور بڑھاپے کا زمانہ کم کردیا جائے کیونکہ ایسے وقت انسان بیکار ہوجاتا ہے اور اعضاء جواب دے چکتے ہیں تو بہت ہی حصہ کم رہ جاتا ہے اس لیے اس خسارہ پانے والوں میں سے جن میں یہ دو وصف ہوں ان کو مستثنیٰ کرتا ہے۔ (1) الا الذین امنوا و عملوا الصالحات مگر وہ کہ جو ایمان لائے اور ایمان لا کر نیک کام بھی کئے۔ یہ وہ پہلی بات ہے جو اپنی حیات کی کمائی تھی۔ اس کے دو مرتبہ ہیں۔ اول معرفت اور حقائق الاشیاء کا علم صحیح خصوصاً حق سبحانہ ٗ اور وسائلِ 1 ؎ ہدایت و ارشاد کی بابت اعتقاد صحیح جس کو شرع میں ایمان کہتے ہیں۔ یہ اعلیٰ کمال ہے روح کے بدن سے جدا ہوجانے کے بعد یہ کمال ساتھ رہتا ہے اور اسی کو حکما بھی سعادت کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور اہل ہند بھی اس کو گیان کہتے ہیں جو ان کے نزدیک نجات کا وسیلہ ہے۔ مگر حکماء کے علم حقائق الاشیاء اور ہندوئوں کے گیان اور شرعی ایمان میں بڑا فرق ہے۔ شرعی ایمان وہ علم اور وہ گیان ہے جس میں شکوک و خطرات یا توہمات و تخیلات کی بو بھی نہیں وہ ان ظلماتی دھبوں سے پاک ہے نہ اس کے حصول کے وہ ذرائع ہیں جن میں عقلی قیاسات اور وہمی تگ بندیوں کو دخل ہو نہ تمام مخلوق کی حقیقت دریافت کرنے کی تکلیف مالایطاق نہ آسمانوں اور زمین کے قلابے ملانے کی حاجت۔ دوسرا مرتبہ ایمان کے بعد نیک کام کرنے کا ہے۔ یہ لفظ بڑا وسیع المعنی ہے۔ ہر ایک نیک کام کو شامل ہے خواہ عبادت بدنی ہو خواہ مالی خواہ ذکر و مراقبہ و فکر و تسبیح و تہلیل ہو اور خواہ نماز و خیرات ہو خواہ صلہ رحمی مخلوق خدا پر ترحم اور نفع رسانی ہو۔ کس لیے کہ اگر ایمان ہے اور اعمال صالحہ نہیں تو ایمان ایک درخت بےثمر ہے اور اگر دونوں باتیں حاصل ہیں تو دنیا سے نفع کما لایا۔ (2) وتواصوابالحق وتواصوا بالصبر کہ اپنے بعد بھی سلسلہ حسنات باقی چھوڑ گئے۔ اس لحاظ سے گویا وہ ہمیشہ زندہ ہیں اور ہمیشہ دنیا میں نیک کام کر رہے ہیں کس لیے کہ جو اپنے بعد نیک کاموں کی بنیاد ڈال جاتے ہیں جب تک وہ نیک کام باقی رہیں گے اور لوگ ان سے نفع حاصل کریں گے ان کے بنیاد ڈالنے والوں کو بھی اسی قدر ثواب ملتا رہے گا اور احادیث صحیحہ میں بھی یہی مضمون وارد ہے چناچہ مسلم نے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس نے کسی کو ہدایت کی طرف بلایا تو اس کو بھی اتنا ہی اجر ہے کہ جتنا اس ہدایت قبول کرنے والے کو ہے اور جس نے کسی کو برے کام کی ترغیب دلائی تو اس کو بھی اسی قدر گناہ ہے کہ جس قدر اس برے کام کرنے والے کو ہے کچھ بھی کم نہ ہوگا۔ اور ترمذی و ابن ماجہ وغیرہ نے بھی اس قسم کا مضمون نقل کیا ہے۔ 1 ؎ وسائلِ ہدایت فرشتے اور انبیاء (علیہم السلام) اور پھر انبیاء کی کتابیں ان سب پر ایمان ضرور ہے بغیر اس کے معرفت و علم ناقص ہے اس لیے نجات نہیں۔ 12 منہ حق کی تفسیر ¦ اس نیک کام کی بابت دو لفظ ارشاد فرمائے کہ جس کا اوروں کو تقید کر کے دنیا سے چلے تھے۔ اول حق پر قائم رہنے کی تاکید۔ یہ لفظ بھی وسیع المعنٰی ہے دین حق پر قائم رہنے کو بھی شامل ہے اور راست بازی اور نفع خلائق کو بھی شامل ہے پھر دین میں عبادات سے لے کر اعتقاد صحیح اور اخلاق کریمانہ خیرات و صدقات سب کو شامل ہے۔ بنائے مساجد و مدارس اور اسلام کے قیام و استحکام کی بابت تدابیر اور عمدہ تصانیف اور تعلیم علوم سب اس میں آگئے۔ اسی لیے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اسلام میں اعلیٰ درجات رکھتے ہیں کہ اپنے بعد مفید اسلام وہ وہ باتیں چھوڑ گئے جن سے آج تک مسلمان نفع پا رہے ہیں۔ اور ان کے بعد آئمہ و مجتہدین و پیران طریقت وغیرہم ہیں۔ اور دوسرا لفظ صبر ہے۔ یہ بھی بڑا وسیع المعنٰی لفظ ہے کس لیے کہ مخالفوں کی ایذا اور بدگوئی کی برداشت بھی صبر ہے اور یہ وصف ہر ایک عالی حوصلہ کو لازم ہے اگر یہ نہیں تو نہ ہم چشموں میں عزت ہے نہ عافیت ہے۔ بات بات پر لڑنا مقابلہ کرنا لوگوں سے انتقام لے کر دشمن بنانا زیست تلخ کردیتا ہے۔ حکایت : سیدنا حضرت امام حسن ؓ کو ایک بدوی نے جبکہ آپ خلیفہ تھے مجمع عام میں سخت الفاظ کہے اور گالیاں بھی دیں لوگوں کو غصہ آیا۔ فرمایا تمہیں تو کچھ نہیں کہا، مجھے کہا ہے۔ آپ نے حکم دیا کہ غریب بھوکا ہوگا کھانا کھلائو۔ عمدہ کپڑے دو ، خرچ سے تنگ ہوگا روپے دو ۔ چناچہ حضرت کے حکم کی تعمیل کی گئی۔ تیسرے دن اس شخص کو روبرو بلا کر پوچھا کہ بھائی اب بھی تم مجھ سے خفا ہو ؟ وہ شخص رو پڑا اور کہا کہ میں نہ پہلے خفا تھا نہ اب ہوں۔ صرف امتحان منظور تھا کہ دیکھوں رسول خدا ﷺ کا خون آپ میں کس قدر ہے ان کے اوصاف حمیدہ کا کتنا حصہ ملا ہے ؟ آپ نے فرمایا بحمداللہ ہم پہاڑ ہیں ایسے جھوکوں سے ہلنے والے نہیں۔ صبر کی تاثیر ہے کہ مخالف برائی کر کے آپ شرمندہ ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید میں جابجا اس کی تاکید ہے۔ ادفع بالتیھی احسن الخ کہ برائی کے مقابلہ میں بھلائی کر کوئی گالی دے تو دعا دے۔ نفسِ بد کا مقابلہ اور پھر مقابلہ میں ثابت قدمی بھی صبر ہے نفس چاہتا ہے کہ رات کو گرم ہو کر سو رہو مگر یہ جوانمرد نہیں مانتا نماز پڑھتا ہے ‘ سردی گرمی کی برداشت کرتا ہے، اسی طرح جملہ اخلاق میں نفسانی خواہش روکنے میں ثابت قدمی صبر ہے۔ اسی طرح صف جنگ میں دشمنوں کا مقابلہ اور مقابلہ میں استقلال بھی صبر ہے۔ خدا کی راہ میں مشقتوں کی برداشت بھی صبر ہے۔ مصائبِ ارضی و سماوی پر استقلال بھی صبر ہے۔ انسان کی سعادت کے دو بازو ہیں جن سے اڑ سکتا ہے۔ اول درستی اعتقاد یعنی تکمیل قوت نظریہ یہ دایاں بازو ہے۔ اس کے لیے تو اصوابالحق استعمال ہوا۔ دوسرا بایاں بازو نیک کام کرنا بری باتوں سے پرہیز کرنا ہے یعنی قوت عملیہ کی تکمیل اس کے لیے تو اصوا بالصبر استعمال ہوا۔ تمام حکمت نظریہ و عملیہ کا انہیں دو لفظوں میں خاتمہ کردیا۔ اور یہ بھی ہے کہ اول انسان آپ کامل ہولے اس بات کی طرف اٰمنوا وعملوا الصلحت میں اشارہ کیا تھا اور آپ کامل ہو کر اوروں کی تکمیل کی بھی فکر کرے اور حکیم روحانی بن کر مریضان بنی آدم کا علاج کرے۔ یہ پورا کمال ہے اس لیے اس کے لیے تو اصوابالحق وتوصوا بالصبر میں اشارہ فرمایا۔ حق پر قائم رہنے کی وصیت و تاکید گویا دوا پینے کا حکم ہے اور تو اصوابالصبر میں اشارہ ہے کیونکہ اگر مریض دوا پی کر مضر اشیاء سے پرہیز نہ کرے گا کبھی فائدہ نہ اٹھائے گا۔ وصیت کے معنی ¦ تو اصوا وصیت سے ہے۔ یہ لفظ عرف شرع میں تقید و تاکید کے معنی میں بھی مستعمل ہوا کرتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا ووصینا الانسان بوالدیہ احسانا 1 ؎ اور عرف عام میں وصیت اس بات کو کہتے ہیں جس پر اس کے مرنے کے بعد عمل ہو یا کہو بوقت مرگ حکم دے۔ اس لیے اس لفظ کے اختیار کرنے میں یہ رمز ہے کہ مرتبہ ارشاد و تکمیل کا نفس فنا کرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے گویا یہ لوگ نفس کو مار کر جیتی زندگی میں مرگئے یا قریب بمرگ ہیں۔ اب جو کہتے ہیں گویا وصیت کرتے ہیں اور اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ابتدائِ سورة میں لفظ عصر کی قسم کھائی تھی جو اخیر وقت ہے گویا ہر زندہ دل اپنی زندگانی پر بھروسا نہ کر کے ہر وقت کو دم اخیر سمجھتا ہے پس وہ جو کچھ فرماتا ہے گویا بوقت مرگ فرماتا ہے جس کی پابندی پچھلوں پر بلحاظ محبت واجب ہے اور یہ ہی ہوسکتا ہے کہ اچھے لوگ بوقت مرگ دنیاوی جھگڑے چھوڑ کر اپنے مریدوں محبوں کے لیے حق پر قائم رہنے اور صبر کرنے کی وصیت کیا کرتے ہیں جیسا کہ سورة بقر میں ہے۔
1 ؎ ووصی بہا ابراھیم بنیہ ویعقوب یا بنی ان اللہ اصطفٰی لکم الدین فلا تموتن الاوانتم مسلمون وام کنتم شہداء اذاحضریعقوب الموت اذقال لبینہ الخ۔ 1 ؎ ہم نے انسان کو ماں باپ سے نیک سلوک کرنے کا حکم دیا۔



فہم القرآن (میاں محمد جمیل)
ربط سورت :
اللہ تعالیٰ نے التکاثر کے آخر میں بتلایا ہے کہ ہر وہ شخص آخرت میں نقصان اٹھائے گا جو آخرت پر دنیا کو ترجیح دے گا اس سے ہر نعمت کے بارے میں سوال ہوگا مگر اس کے باوجود انسان نقصان کا سودا کیے ہوئے ہے۔
فہم القرآن میں یہ بات پہلے بھی عرض ہوچکی ہے کہ عربی زبان میں واؤ کا حرف قسم کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں جس چیز کی قسم اٹھاتا ہے لازم نہیں کہ وہ چیز دوسری چیزوں سے زیادہ اہمیت کی حامل ہو۔ قسم اٹھانے کا بنیادی مقصد اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے جس چیز کے لیے قسم اٹھائی جاتی ہے تاکہ سننے والا اس بات کی اہمیت اور فرضیت کو سمجھ سکے۔ یہاں زمانے کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے قسم اٹھائی گئی ہے۔ ” والعصر “ زمانے کی قسم ! زمانہ کا لفظ تین اوقات کا احاطہ کرتا ہے۔ جو وقت گزر گیا، جو گزرہا ہے اور جو آنے والا ہے اسے ماضی، حال اور مستقبل کہا جاتا ہے۔ اگر زمانے سے مراد جزوی طور پر ماضی لیا جائے تو معنٰی ہوگا کہ اے انسانو ! جو وقت گزر گیا ہے وہ واپس نہیں آئے گا اس لیے اپنے حال کا خیال رکھو۔ کیونکہ حال کو پکڑے بغیر کوئی فرد اور قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ زمانے کا معنی مستقبل لیا جائے تو یہ مفہوم لینے کی گنجائش ہے کہ اے انسان ! تجھے کیا خبر ! کہ مستقبل تجھے حاصل ہوگا یا تو اس سے پہلے ہی اٹھا لیا جائے گا۔ زمانے کی یہ تفسیر سامنے رکھی جائے تو اس کا ایک ایک لمحہ لمحہ قیمتی اور یہ انسان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے اس لیے صحابہ کرام ؓ وقت کو سونے اور چاندی سے زیادہ گراں قدر سمجھتے تھے۔
(رواہ الترمذی : باب وَمِنْ سُورَۃِ التَّوْبَۃِ )
” العصر “ کا دوسرامعنٰی نماز عصر بھی لیا گیا ہے۔ نماز عصر دن کی آخری نماز ہوتی ہے اس لیے نماز عصر کی خاص فضیلت اور فرضیت بیان کی گئی ہے۔
(حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی وَ قُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ )
(البقرۃ : 238)
” نمازوں کی حفاظت کرو بالخصوص درمیانی نماز کی اور اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزہو کر کھڑے ہوا کرو۔ “
(عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؓ أَنَّ رَسُولَ ﷺ قَالَ الَّذِی تَفُوتُہُ صَلاَۃُ الْعَصْرِ کَأَنَّمَا وُتِرَ أَہْلَہُ وَمَالَہُ )
(رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلاۃ، باب إثم من فاتتہ العصر)
” حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ جس کی نماز عصر ضائع ہوگئی گویا اس کی تمام دن کی کمائی غارت ہوگئی۔ “ العصر کی قسم اٹھا کر یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ جس طرح دن کا آخری حصہ عصر کے وقت پر مشتمل ہے اسی طرح ہی دنیا کی زندگی آخری دور میں داخل ہوچکی ہے۔ جس طرح عصر کے بعد سورج کا غروب ہونا یقینی ہے اسی طرح دنیا کا خاتمہ اور قیامت کا آنا یقینی ہے۔
(عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؓ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ قَالَ اِنَّما اَجَلُکُمْ فِیْ اَجَلِ مَنْ خَلَا مِنَ الْاُمَمِ مَابَیْنَ صَلٰوۃِ الْعَصْرِ اِلٰی مَغْرِبِ الشَّمْسِ وَاِنَّمَا مَثَلُکُمْ وَمَثَلُ الْیَھُوْدِ وَالنَّصٰرٰی کَرَجُلِنِ اِسْتَعْمَلَ عُمَّالًا فَقَالَ مَنْ یَّعْمَلُ لِیْ اِلٰی نِصْفِ النَّھَارِ عَلٰی قِیْرَاطٍ قِیْرَاطٍ فَعَمِلَتِ الْیَھُوْدُ اِلٰی نِصْفِ النَّھَارِ عَلٰی قِیْرَاطٍ قِیْرَاطٍ ثُمَّ قَالَ مَنْ یَّعْمَلُ لِیْ مِنْ نِصْفِ النَّھَارِ اِلٰی صَلٰوۃِ الْعَصْرِ عَلٰی قِیْرَاطٍ قِیْرَاطٍ فَعَمِلَتِ النَّصَارٰی مِنْ نِصْفِ النَّھَارِاِلٰی صَلٰوۃِ الْعَصْرِعَلٰی قِیْرَاطٍ قِیْرَاطٍ ثُمَّ قَالَ مَنْ یَّعْمَلُ لِیْ مِنْ صَلٰوۃِ الْعَصْرِ اِلٰی مَغْرِبِ الشَّمْسِ عَلٰی قِیْرَاطَیْنِ قِیْرَاطَیْنِ اَ لَا فَاَنْتُمُ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ مِنْ صَلٰوۃِ الْعَصْرِ اِلٰی مَغْرِبِ الشَّمْسِ اَ لَا لَکُمُ الْاَجْرُ مَرَّتَیْنِ فَغَضِبَتِ الْیَھُوْدُ وَالنَّصَارٰی فَقَالُوْا نَحْنُ اَکْثَرُ عَمَلًا وَاَقَلُّ عَطَاءً قَال اللّٰہُ تَعَالٰی فَھَلْ ظَلَمْتُکُمْ مِّنْ حَقِّکُمْ شَیْءًا قَالُوْا لَا قَال اللّٰہُ تَعَالٰی فَاِنَّہٗ فَضْلِیْ اُعْطِیْہِ مَنْ شِءْتُ )
(رواہ البخاری : باب الاجارۃ الیٰ نصف النہار)
” حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم ﷺ نے فرمایا : تمہاری مدت عمر، تم سے پہلے لوگوں کی مدت عمر کے مقابلے میں اتنی ہے جس طرح عصر کی نماز سے سورج غروب ہونے کا وقت ہے۔ تمہاری اور یہود و نصاریٰ کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے کچھ مزدوروں کو کام پر لگایا۔ اس نے مزدوروں سے کہا ایک ایک قیراط پر میرے ہاں کون دوپہر تک مزدوری کرے گا ؟ یہود نے دوپہر تک ایک قیراط پر کام کیا پھر اس نے کہا کون دوپہر سے عصر تک ایک قیراط پر کام کرے گا ؟ نصاریٰ نے دوپہر سے عصر تک ایک قیراط پر کام کیا پھر اس نے کہا کون شخص عصر کی نماز سے لے کر سورج غروب ہونے تک دو قیراط پر کام کرے گا۔ جان لو وہ تم ہو جو عصر کی نماز سے لے کر سورج غروب ہونے تک کام کر رہے ہو، اور تمہارا ثواب دو گنا ہے۔ اس پر یہود و نصاریٰ ناراض ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ہمارا کام زیادہ ہے اور ہمیں مزدوری کم ملی ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ کیا میں نے تمہاری مزدوری سے کم دیا ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ میرا انعام ہے، میں جسے چاہتا ہوں عطا کرتا ہوں۔ “
( عَنْ شُعْبَۃَعَنْ قَتَادَۃَ عَنْ اَنَسٍ ؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ بُعِثْتُ اَنَاو السَّاعَۃُ کَھَاتَیْنِ قَالَ شُعْبَۃُ وَسَمِعْتُ قَتَادَۃَیَقُوْلُ فِیْ قَصَصِہٖ کَفَضْلِ اِحْدٰھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَلَا اَدْرِیْ اَذَکَرَہُ عَنْ اَنَسٍٍٍ اَوْ قَالَہُ قَتَادَۃُ.)
(رواہ البخاری : کتاب الرقاق)
” حضرت شعبہ، قتادہ سے وہ حضرت انس ؓ سے بیان کرتے ہیں رسول مکرم ﷺ نے فرمایا مجھے اور قیامت کو ان دو انگلیوں کی طرح بھیجا گیا ہے شعبہ کہتے ہیں میں نے قتادہ کو بیان کرتے ہوئے سنا جیسا کہ ان دونوں میں سے ایک انگلی کو دوسری پر برتری حاصل ہے شعبہ کہتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں یہ بات انہوں نے حضرت انس ؓ سے بیان کی ہے یا قتادہ کی اپنی بات ہے۔ “
(عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ لِرَجُلٍ وَہُوَ یَعِظُہٗ اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ شَبَابَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ وَصِحَّتِکَ قَبْلَ سَقْمِکَ وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ وَفِرَاغَکَ قَبْلَ شُغُلِکَ وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ )
(رواہ الحاکم)
” حضرت عبداللہ بن عباس ؓ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ ایک آدمی کو نصیحت فرما رہے تھے۔ فرمایا پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، تندرستی کو بیماری سے پہلے، خوشحالی کو تنگدستی سے پہلے فارغ وقت کو مصروف ہونے سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے۔ “ جس بات کی قسم اٹھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اے انسان تو نقصان میں جارہا ہے۔ نفع کے مقابلے میں نقصان کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ چاہیے تو یہ تھا کہ انسان وقت کی اہمیت سمجھ کر اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نفع حاصل کرتا لیکن اس نے اس وقت سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اپنے آپ کو خسارے میں ڈال لیا ہے۔ اگر انسان خسر کے لفظ پر غور کرے تو اسے یقین ہوجائے گا کہ واقعی وہ نقصان میں جارہا ہے، سب سے پہلے ہر انسان اپنی عمر پر غور کرے۔ کہنے کو تو آدمی یہی کہتا اور سمجھتا ہے کہ میں اتنے سال کا ہوگیا ہوں لیکن غور کرے تو اسے احساس ہوگا کہ اس نے زندگی کے جتنے سال شمار کیے ہیں وہ حقیقت میں اس کی زندگی سے منہا ہوچکے ہیں۔ کردار کے حوالے سے دیکھا جائے تو جب انسان جنم لیتا ہے تو گناہوں سے پاک ہوتا ہے۔ جوں جوں بڑھا ہوتا ہے تو اس کے گناہوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اس طرح کتنے انسان ہیں جو اعمال کے اعتبار سے خسارے میں ہوتے ہیں اور اسی حالت میں فوت کرلیے جاتے ہیں۔ ہمارے رب نے زمانے کی قسم کھا کر ہمیں توجہ دلائی ہے کہ اے انسان ! تو ہر لمحہ خسارے میں پڑا جارہا ہے، تجھے اس سے بچنے اور نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے، بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ انسان کو نقصان کی بجائے فائدے میں دیکھنا چاہتا ہے۔ فائدہ حاصل کرنے اور نقصان سے بچنے کے لیے چار صفات کا ہونا ضروری ہے۔ یہی چار صفات پورے دین کا خلاصہ ہیں۔ یہ وہ صفات ہیں کہ اگر ان پر عمل کرنے کا حق ادا کیا جائے تو انسان میں ہر قسم کے اوصاف حمیدہ پیدا ہوسکتے ہیں ان کو اپنانے سے انسان نقصان کی بجائے دنیا اور آخرت میں فائدے میں رہے گا وہ چار صفات یہ ہیں۔
1 یمان : تمام اہل علم اور صاحب ایمان لوگوں نے ایمان کی یہ تعریف کی ہے۔” اقرار باللّسان، تصدیق بالقلب اور عمل صالح “ گویا کہ ایمان تین باتوں پر مشتمل ہے۔ کوئی شخص ان میں سے ایک بات چھوڑ دے تو وہ ایماندار نہیں رہے گا، اس لیے قرآن مجید نے رسمی ایمان کی بجائے حقیقی اور کامل ایمان پرزوردیا ہے۔
(یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا باللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ الْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَ الْکِتٰبِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَ مَنْ یَّکْفُرْ باللّٰہِ وَ مَلٰٓءِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا بَعِیْدًا)
(النساء : 136)
” اے ایمان والو ! اللہ، اس کے رسول اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو اس نے اپنے رسول پر اتاری ہے اور ان کتابوں پر جو اس سے پہلے اس نے نازل فرمائی ہیں، جو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور قیامت کے دن کا انکار کرے وہ دور کی گمراہی میں جا پڑے گا۔ “
(قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَاِِنْ تُطِیعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ لَا یَلِتْکُمْ مِّنْ اَعْمَالِکُمْ شَیْءًا اِِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ۔ اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا باللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُوْلٰٓءِکَ ہُمُ الصَّادِقُوْنَ )
(الحجرات : 14، 15)
” بدوی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ان سے کہو تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم مطیع ہوگئے ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا، اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو تو اللہ تمہارے اعمال کے اجر میں کوئی کمی نہیں کرے گا، یقیناً اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ حقیقت میں مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں، پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا اور جو اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے، وہی ایمان میں سچے ہیں۔ “
(یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ)
(البقرۃ : 208)
” اے ایمان والو ! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو کیونکہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔ “
(عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ؓ قَالَ بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُول اللَّہِ ﷺ ذَاتَ یَوْمٍ إِذْ طَلَعَ عَلَیْنَا رَجُلٌ شَدِیدُ بَیَاض الثِّیَابِ شَدِیدُ سَوَاد الشَّعْرِ لاَ یُرٰی عَلَیْہِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلاَ یَعْرِفُہُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّی جَلَسَ إِلَی النَّبِیِّ ﷺ فَأَسْنَدَ رُکْبَتَیْہِ إِلَی رُکْبَتَیْہِ وَوَضَعَ کَفَّیْہِ عَلَی فَخِذَیْہِ قَالَ فَأَخْبِرْنِی عَنِ الإِیمَانِ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ باللَّہِ وَمَلاَءِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَتُؤْمِنَ بالْقَدَرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ )
(رواہ مسلم : باب مَعْرِفَۃِ الإِیمَانِ وَالإِسْلاَمِ )
” حضرت عمر بن خطاب ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک ایک سیاہ بالوں والا آدمی سفید کپڑوں میں ملبوس جس پر سفر کے کوئی آثار نہیں تھے اور ہم سے کوئی اسے پہچانتا نہیں تھا وہ آکر نبی ﷺ کے سامنے دو زانوں ہو کر بیٹھ گیا اور اپنی ہتھیلیوں کو اپنی رانوں پر رکھتے ہوئے عرض کی مجھے ایمان کے متعلق بتائیے آپ نے فرمایا کہ تو اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لائے۔ “ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ : ایمان اور صالح اعمال کا آپس میں اس قدر گہرا اور مضبوط تعلق ہے کہ جس قدر ایمان مضبوط ہوگا اسی قدر صالح اعمال کرنے کا جذبہ اور اخلاص پیدا ہوگا۔ اس لیے قرآن مجید نے ایمان کو ایک شجر کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ درخت کا بیج جتنا صحت مند ہوگا اتنا ہی اس سے صحت مند اور مضبوط پودانکلے گا۔ اس لیے رئیس المحدثین حضرت امام بخاری ؓ نے اس پر بڑی تفصیلی بحث کی اور درجنوں دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ ایمان کے بغیر عمل صالح اور صالح عمل کے بغیر ایمان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔
(اَلَمْ تَرَکَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُہَا فِی السَّمَآءِ تُؤْتِیْٓ اُکُلَہَا کُلَّ حِیْنٍ بِاِذْنِ رَبِّہَا وَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَال للنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ )
(ابراہیم : 24، 25)
” کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے ایک پاکیزہ کلمہ کی مثال بیان فرمائی ہے، جو ایک پاکیزہ درخت کی طرح ہے جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہیں، وہ اپنے رب کے حکم سے ہر وقت اپنا پھل دیتا ہے اور ” اللہ “ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ “ عمل صالح سے مراد سب سے پہلے اسلام کے پانچ بنیادی ارکان ہیں۔ عمل صالح کو قرآن مجید نے ” اَلْبِرُّ “ کے نام سے بھی بیان کیا ہے۔ ” نیکی صرف مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنے میں نہیں۔ حقیقتاً نیکی یہ ہے جو اللہ، قیامت کے دن، فرشتوں، کتاب اور نبیوں پر ایمان رکھنے والے۔ جو لگ ” اللہ “ کی محبت کے لیے مال رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں کو دیں، غلاموں کو آزاد کریں نماز کی پابندی اور زکوٰۃ کی ادائیگی کریں، اپنے وعدے پورے کریں، تنگدستی اور لڑائی کے وقت صبر کریں، یہی لوگ سچے اور یہی پرہیزگار ہیں۔ “
(البقرۃ : 177)
وَتَوَاصَوْ ا بالْحَقِّ :
” الحق “ سے مراد وہ سچائی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی راہنمائی کے لیے انبیاء ( علیہ السلام) کے ذریعے نازل فرمائی ہے۔ اب اس سے مراد قرآن مجید اور حدیث رسول ہے جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں ان پر فرض ہے کہ وہ اپنی استعداد کے مطابق اس حق پر عمل کرتے ہوئے اور اس کی ایک دوسرے کو تبلیغ کرتے رہیں۔ کیونکہ اس کا بنیادی تقاضا ہے کہ جو آدمی حق کو حق سمجھ کر قبول کرچکا ہے اس کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اسے اپنی ذات تک محدود رکھے اسی لیے حکم ہے :
” تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو خیر کی طرف بلائے ‘ نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔ “
(آل عمران : 104)
(عَنْ تَمِیمٍ الدَّارِیِّ أَنَّ النَّبِیَّ ﷺ قَال الدِّین النَّصِیحَۃُ قُلْنَا لِمَنْ قَالَ لِلَّہِ وَلِکِتَابِہِ وَلِرَسُولِہِ وَلأَءِمَّۃِ الْمُسْلِمِینَ وَعَامَّتِہِمْ )
(رواہ مسلم : باب بَیَانِ أَنَّ الدِّین النَّصِیحَۃُ )
” حضرت تمیم داری ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا دین نصیحت ہے تمیم داری ؓ کہتے ہیں ہم نے عرض کی اے اللہ کے رسول ﷺ ! کس کے لیے ؟ آپ نے فرمایا اللہ، اس کی کتاب، اس کے رسول کی، مسلمانوں کے ائمہ اور عام لوگوں کی۔ “
” حضرت ابو سعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ نے فرمایا جس شخص نے برائی کو دیکھا اور اس نے اسے اپنے ہاتھ سے ختم کیا تو وہ بری ہوگیا اگر اس میں برائی کو ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں اور اس نے اسے اپنی زبان سے منع کیا وہ بھی بری ہوا۔ اس نے زبان سے روکنے کی طاقت نہ پائی مگر اس نے اسے اپنے دل سے برا سمجھا تو وہ بھی بری ہوگیا مگر یہ سب سے کمتر ایمان ہے۔ “
(رواہ النسائی : باب تَفَاضُلِ أَہْلِ الإِیمَانِ ، قال البانی صحیح)
” پہلی خرابی بنی اسرائیل میں یہ آئی تھی کہ ایک شخص دوسرے شخص سے ملتا اور اس سے کہتا اللہ سے ڈر اور اپنی حرکات سے باز آجا۔ کیونکہ یہ کام تیرے لیے درست نہیں۔ جب دوسرے دن اس سے ملتا تو برا کام اسے اس کے ساتھ کھانے پینے اور بیٹھنے سے نہ روکتا۔ جب انہوں نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ایک دوسرے کے ساتھ دل ملا دیے۔ مزید فرمایا : بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر داؤد اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے لعنت کی۔۔ پھر فرمایا : ہرگز نہیں، اللہ کی قسم ! تم ضرور نیکی کا حکم دو اور برے کاموں سے منع کرو اور ظالم کے ہاتھ پکڑ کر اس کو حق کی طرف اس طرح جھکاؤ گے جیسا اسے جھکانے کا حق ہے اور اس کو حق پر ٹھہراؤ جیسا کہ حق پر ٹھہرانے کا حق ہے۔ “
(رواہ أبوداوٗد : کتاب الملاحم، باب الأمر والنھی)
وَتَوَاصَوْا بالصَّبْرِ :
اہل لغت نے صبر کا معنٰی باندھنا اور روکنا لکھا ہے۔ شرعی اصطلاح میں صبر قوت برداشت ‘ قوت مدافعت کو بحال رکھنے اور طبیعت کو شریعت کا پابند بنانے کا نام ہے۔ جو لوگ عسر یسر میں اس بات پر قائم رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں آخرت میں بغیرحساب کے جنت میں داخلہ فرمائے گا اور دنیا میں ان کی دستگیری کرے گا۔
(اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ ) (البقرۃ : 152)
” اللہ کی رفاقت اور دستگیری صبر کرنیوالوں کے لیے ہے۔ “
(وَاسْتَعِیْنُوْا باالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ )
(البقرۃ : 152)
” صبر اور نماز کے ذریعے اللہ کی مدد طلب کیجیے۔ “
(اِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِحِسَابِ )
( الزمر : 10)
” صبر کرنیوالوں کی جزاء حساب و کتاب کے بغیر جنت کا داخلہ ہے۔ “ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ )
(آل عمران : 200)
” اے ایمان والو ! تم ثابت قدم رہو اور ایک دوسرے کو تھامے رکھو اور جہاد کی تیاری کرتے رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ “ مسائل 1۔ اللہ تعالیٰ نے قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ انسان نقصان میں جارہا ہے۔ 2۔ نقصان سے بچنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایاجائے۔ 3۔ جو لوگ ایمان لانے کے ساتھ صالح اعمال، ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کریں گے وہ نقصان سے بچ جائیں گے۔
تفسیر بالقرآن ایمان اور اس کے بنیادی تقاضے :
1۔ غیب پر ایمان لانا۔ (البقرۃ : 1)
2۔ قرآن مجید اور پہلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانا۔ (البقرۃ : 4)
3۔ اللہ اور کتب سماوی پر ایمان لانا۔ (البقرۃ : 136)
4۔ آخرت پر یقین رکھنا۔ (البقرۃ : 4)
5۔ پہلے انبیاء پر ایمان لانا اور ان میں فرق نہ کرنا۔ (آل عمران : 84)
7۔ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے درمیان فرق نہ کرنا۔ (النساء : 151)
8۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کی اتباع کرنا۔ (آل عمران : 32) ایمان کی تفصیل۔ (البقرۃ : 285)




معالم العرفان (مولانا حمید اللہ سواتی)
نام اور کوائف اس سورة کا نام سورة العصر ہے۔ اس کی پہلی آیت میں عصر کا لفظ آیا ہے۔ جس سے یہ نام اخذ کیا گیا ہے۔ یہ سورة مکی زندگی میں نازل ہوئی۔ اس کی تین آیات ہیں اور یہ سورة چودہ الفاظ اور ارسٹھ حروف پر مشتمل ہے۔ اس سورة کو قسم سے شروع کیا گیا ہے۔ اس میں انسانیت کی کامیابی کے لئے چار اٹل اصل اصول بیان کئے گئے ہیں۔ جن کا نتیجہ قطعی طور پر سامنے آئے گا اور اگر لوگ ان اصولوں کو اپنا لیں گے تو انہیں ضرور سعادت نصیب ہوگی۔ عصر کا مفہوم والعصر قسم ہے عصر کی۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں۔ 1 ؎ کہ عام طور پر عصر سے زمانہ مراد لیا جاتا ہے۔ تاہم اس مقام پر عصر سے مراد عصر کی نماز بھی ہو سکتی ہے۔ عصر سے مراد خاص زمانہ یعنی حضور نبی (علیہ السلام) کا زمانہ بھی ہو سکتا 2 ؎ ہے۔ اگر ایسا ہے ، تو بڑا مبارک اور فضیلت والا 1 ؎ روح المعانی ص 227/ج 30 ، معالم التنزیل ص 251/ج 4 ، 2 ؎، بیضاوی ص 438/ج 2 زمانہ ہے۔ یہ کمالات کے لئے سب سے افضل زمانہ ہے۔ اس میں نبوت کے انوار کا ظہور ہوا۔ حضور ﷺ نے خود ارشاد فرمایا۔ 1 ؎ خیر امتی قرنی سب سے بہتر زمانہ میرا ہے اس کے بعد میرے صحابہ کا زمانہ اور پھر ان سے ملنے والے لوگوں کا گویا خیر و برکت کے اعتبار سے یہ بہترین زمانہ بھی مراد ہو سکتا ہے۔ نماز عصر صلوۃ وسطی اگر عصر سے مراد صلوۃ العصر ہے تو اس کی اہمیت مسلم ہے۔ عصر کا وقت ایسا ہے جب دنیا بھر کے لوگ اپنے کاروبار میں مشغول ہوتے ہیں۔ یہ وقت ان کے سود و زیاں کا وقت ہوتا ہے ، اس لئے بسا اوقات یہ نماز رہ جاتی ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ 2 ؎ من فاتتہ العصر فکانما و ترا ھلہ ومالہ جس شخص کی عصر کی نماز فوت ہوگئی ، یوں سمجھو کہ اس کا اہل اور مال سب کو ہلاک کردیا گیا۔ ظاہر ہے کہ اس کی بڑی اہمیت ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” حافظوا علی الصلوت والصلوۃ والوسطی وقمو اللہ قنتین “ سب نمازوں کی حفاظت کرو ، خاص طور پر صلوۃ وسطی کی غزوہ خندق کے موقع پر حضور ﷺ کی چار نمازیں فوت ہوگئیں تھیں۔ جن میں عرص کی نماز بھی شامل تھی۔ اس پر آپ کو صدمہ ہوا تھا اور آپ نے مشرکین کے حق میں بد دعا فرمائی تھی۔ 3 ؎ کہ اللہ تعالیٰ ان کے پیٹوں کو اور ان کی قبروں کو آگ سے بھر دے کیونکہ شغلونا عن الصلوۃ الوسطی انہوں نے ہمیں عصر کی نماز نہیں پڑھنے دی۔ فوت شدہ نمازیں آپ نے مغرب اور عشاء کے درمیان قضا کیں۔ مقصد یہ کہ عصر سے مراد نماز عصر بھی ہو سکتا ہے۔ انسانی عمر قیمتی سرمایہ ہے زمانے سے انسان کی عمر بھی مراد ہو سکتی ہے۔ یہ قلیل سی عمر انسان کا قیمتی سرمایہ ہے۔ اگر انسان اس پونجی سے کوئی قیمتی سامان خرید لے ۔ تو وہ اس کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کارآمد ہوگا۔ ورنہ انسان خسارے میں مبتلا ہوجائے گا اور زمانے سے تاریخ بھی مراد لی 1 ؎ بخاری ص 515/ج 1 ، مسلم ص 309/ج 2 ، ترمذی ص 223 ، 2 ؎ مسلم ص 226/ج 1 ، بخاری ص 78/ج 1 ، بخاری ص 78/ج 1 ، ترمذی ص 52 ، 3 ؎ مسلم ص 226/ج 1 جا سکتی ہے۔ تاریخ واقعات کو محفوظ رکھتی ہے۔ تو والعصر کا معنی یہ ہوا کہ تاریخ گواہ ہے کہ ان الانسان لفی خسر تمام انسان خسارے میں ہیں۔ انسانوں کے تاریخی واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں بیشتر انسان خسارے میں ہی مبتلا رہے۔ ان کے حالات ، ان کی لڑائیاں ، فسادات ، اعمال ، کردار اور عقائد جس چیز کا بھی مطالعہ کریں ، معلوم ہوگا کہ انسان نقصان میں مبتلا رہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عمر جیسا قیمتی سرمایہ دے کر بھیجا تھا کہ دنیا میں جا کر آخرت کے لئے کوئی اچھا سامان خرید لائو۔ مگر اکثر و بیشتر انسان اس پونجی کو ضائع کردیتے ہیں۔ صحیح حدیث میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے 1 ؎ کل الناس بغذوا فبائع نقشہ فمعتقھا اوموبقھا ہر رات کے بعد جب صبح ہوتی ہے تو انسان اپنے نفس کو بیچتا ہے اور ایسا سامان خریدتا ہے جو یا تو اس کے نفس کو آزاد کردیتا ہے یا ہلاک کردیتا ہے۔ جو شخص اپنے نفس کو آزاد کردیتا ہے اسے ہمیشہ کے لئے آزادی حاصل ہو جتای ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ عمر جیسی قیمتی چیز ہر آن ہر گھڑی کم ہوتی رہتی ہے۔ اس کی مثال برف جیسی ہے کہ اوپر سے بھادوں کی تپش ہے اور نیچے حبس زیادہ ہوتا ہے۔ اس مہینے میں ا وپر سے بھی گرمی پڑتی ہے اور نیچے زمین میں بھی تپش ہوتی ہے اس لئے برف کے جلدی جلدی پگھلنے کا امکان ہوتا ہے۔ اسی طرح انسان کی عمر بھی جلدی جلدی اور بتدریج ختم ہو رہی ہے اگر انسان نے اس سے بروقت کوئی فائدہ حاصل نہ کیا تو یہ پگھل کر ختم ہوجائے گی۔ اور پھر انسان ہمیشہ کے لئے خسارے میں پڑجائے گا۔ عمر برف است و آفتاب تموز اند کے ماند و خواجہ عزہ ہنوز قسم صرف اللہ کے نام کی ہونی چاہئے حضور ﷺ نے قسم کے ابرے میں یہ قانون بیان فرمایا کہ لاتقسموا لغیر اللہ یعنی اللہ کے سوا کسی اور کے نام کی قسم مت کھائو۔ جب بھی قسم کھائو ، اللہ کی اس کی صفت کی قسم کھائو ، آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا 2 ؎ لاتخلفوا بالطواغی یعنی طاغوت کے نام کی قسم نہ اٹھا۔ اللہ کے سوا ہر باطل قوت جس کی پرستش کی جائے وہ طاغوت 3 ؎ ہے۔ 1 ؎ مسلم ص 118/ج 1۔ 2 ؎ مسلم ص 46/ج 2 ، ابن ماجہ ص 152 ، 3 ؎ تفسیر در منشور ص 330/ج 1 اسی طرح اپنے باپ دا کے نام کی قسم نہ اٹھائو۔ ایک حدیث میں یہ بھی آتا ہے 1 ؎ من حلف بغیر اللہ فقد اشرک یعنی جس نے غیر اللہ کی قسم اٹھائی اس نے شرک کا ارتکاب کیا۔ قسم بطور گواہی ہوجائے تو تصفیہ کے لئے دو گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو فریق گواہ پیش کر دیگا۔ اس کے حق میں فصلہ ہوجائے گا۔ اگر گواہ موجود نہ ہو۔ نو فریق ثانی کو یقین دلانے کے لئے اللہ کے نام کی قسم اٹھائی جاتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قسم اٹھانے والا اللہ کو بطور گواہ پیش کرتا ہے کہ اس معاملہ میں وہ حق پر ہے۔ کسی معاملہ میں گواہی کے لئے دو گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر گواہان کی عدم موجودگی میں صرف ایک اللہ تعالیٰ کی گواہی بطور قسم پیش کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی گواہی ، اس کی دو صفات یعنی علیم کل اور ق ادر مطلق کی بناء پر دو گواہیاں تسیم ہوتی ہیں پہلی صفت علیم کل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہر چیز کو جاننے والا صرف اللہ ہے ، ان اللہ بکل شیء علیم ، مخلوق میں سے کوئی شخص خواہ کتنا بھی عالم فاضل ہو ، اس کا علم جزوی اور قلیل ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ” وما اوتیتم من العلم الا قلیلاً “ تو عالم الغیب والشہادۃ یا علیم کل صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ قادر مطلق ہے۔ ” ان اللہ علی کل شیء قدیر اسے ہر چیز پر قدرت حاصل ہے ، لہٰذا جب کوئی …… شخص قسم اٹھاتا ہے۔ تو بخوبی سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری ہر بات کو جانتا ہے۔ لہٰذا اگر میں جھوٹی قسم اٹھائوں گا۔ تو وہ مجھے سزا دینے پر بھی قادر ہے۔ وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر چیز کو جاننے والا کوئی اور نہیں ہے۔ الغرض قسم ایک گواہی ہوتی ہے جو پیش کی جاتی ہے۔ ایمان اور عمل صالح پوری تاریخ انسانی کو بطور گواہ پیش کیا کہ سب لوگ خسارے میں ہیں۔ البتہ بعض لوگ 1 ؎ ترمذی ص 240 ایسے بھی ہیں۔ جو اس نقصان سے بچ جائیں گے۔ وہ کون لوگ ہیں۔ پہلے نمبر پر فرمایا الا الذین امنوا یہ وہ لوگ ہیں ، جنہوں نے ایمان کی دولت حاصل کی۔ دوسرے نمبر پر فرمایا وعملوا الصلحت جنہوں نے نیک اعمال انجام دیئے۔ یہ لوگ ابدی نقصان سے بچ جائیں گے۔ کافر اور منافق جو ایمان کی دولت سے محروم رہے۔ انہیں کے متعلق فرمایا ” فما ربحت تجارتھم وما کانوا مھتدین “ ان کی سوداگری نے انہیں کچھ فائدہ نہ دیا۔ انہوں نے اپنی قیمتی پونجی لگا کر کفر و شرک اور نفاق کے سوا کچھ نہ خریدا ، ان کی تجارت نے انہیں نقصان میں رکھا۔ ایمان مفصل انسان کو چاہئے کہ وہ عمر جیسی قیمتی پونجی کے عوض ایمان خریدے ، جب تک ایمان موجود نہ ہو۔ عقیدہ درست نہ ہو ، کوئی عمل قابل قبول نہیں۔ قرآن پاک میں موجود ہے ” ومن یکفر باللہ وملٓئکتہ وکتبہ و رسلہ والیوم الاخر فقد ضل ضلاً بعیداً “ جس نے اللہ تعالیٰ اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں ، اس کے رسول اور آخرت کے دن کا انکار کیا ، وہ دور کی گمراہی میں جا پڑا۔ باقی رہی یہ بات کہ ایمان کیا ہے۔ تو ہم ایمان مجمل اور مفصل میں پڑھتے ہیں امنت باللہ وملٓئکتہ و کتبہ و رسلہ والیوم الاخر والقدر خیرہ و شرہ من اللہ تعالیٰ والبعث بعد الموت انسان اقرار کرتا ہے کہ ان تمام چیزوں پر اس کا ایمان ہے۔ ایمان مجمل میں کہتے ہیں۔ امنت باللہ کما ھو باسمآء و صفاتہ و قبلت جمیع احکامہ اقراراً باللسان وتصدیقاً بالقلب یعنی میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر اس کی تمام صفات سمیت ایمان لاتا ہوں۔ میں نے اس کے جملہ احکام قبول کئے اس بات کا زبان سے اقرار کیا اور دل سے تصدیق کی۔ میرا یہ بھی یقین ہے کہ کائنات میں جو کچھ واقع ہوا یا ہوگا اللہ کے علم اور مشیت کے مطابق ہے۔ نظریات کی درستگی جس شخص نے ایمان کو درست کیا ، اس کی فکر صحیح ہوگئی اس کے نظریات درست ہوگئے۔ ایمان کی درستگی نظریات کے صحیح ہونے کی علامت ہے۔ اب جو کام بھی کیا جائے گا۔ درست ہوگا اگر نظریات ہی غلط ہیں ، تو ہر عمل ضائع ہوگا۔ الغرض اس مقام پر فلاح کے جو چار اصول بیان کئے گئے ہیں۔ ان میں سب سے اول نظریات کی تصحیح ہے موجود دور میں سے آئیڈیالوجی (Idjology) کہتے ہیں۔ تمام اعمال کا دار و مدار اسی پر ہے کہ نظریات یا عقائد صحیح ہوں۔ چناچہ قرآن پاک نے یہی بتایا ” فمن یعمل من اصلحت وھو مومن “ جو آدمی بھی کوئی نیک کام کرے بشرطیکہ وہ ایماندار ہو اس کی آئیڈیالوجی صحیح ہو۔ تو بہرحال اس کا جو بھی نام رکھ لیں مطلب ایک ہی ہے اور قرآن پاک میں یہی بات مختلف طریقوں سے سمجھائی گئی ہے کہ سب سے پہلا کام عقائد یا نظریات کی درستگی ہے۔ شاہ ولی اللہ اور شیخ مجد د الف ثانی بھی یہی فرماتے ہیں۔ 1 ؎ حضور ﷺ اور صحابہ کرام سے بھی یہی منقول ہے اور اسی کے مطابق اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔ جماعت کی اہمیت فلاح کا تیسرا اصول جو یہاں بیان کیا گیا ہے۔ وہ ہے وتوا صوا بالحق یعنی ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرنا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ کے دین اسلام میں اجتماعیت پائی جاتی ہے۔ ایک دوسرے کو حق بات کی تلقین کا تعلق جماعت سے ہے ۔ یہ کام انفرادی نہیں۔ بلکہ جاتماعی ہے۔ پھر جماعت بھی وہ جس کے نظریات درست ہوں۔ جس میں ایمان اور نیک اعمال موجود ہوں۔ جب تک ایک دوسرے کے ساتھ شریک نہ ہوں۔ جماعت قائم نہیں ہو سکتی۔ جماعت کا تو معنی ہی یہ ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی ہو۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوں۔ جب یہ چیزیں امت میں پیدا ہوجائیں گی اور الٰہی پروگرام لے کر اٹھیں گے ، تو دنیا میں انقلاب برپا ہوگا ۔ حدیث شریف میں آتا ہے 2 ؎ کہ حضور ﷺ کے صحابہ جب ایک دوسرے سے ملتے تو سلام کے علاوہ سورة والعصر پڑھ لیا کرتے تھے۔ اس سے آپس میں مشترکہ مشن کی یاد دہانی ہوتی تھی۔ حق کی وصیت وتواصوا بالحق کے لفظ وصیت میں ایک بڑی حقیقت پوشیدہ ہے۔ وصیت اس وقت کی جاتی ہے۔ جب انسان دنیا سے رخت سفر باندھ رہا ہوں۔ قرآن پاک میں ابر بار اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ” من بعد وصیۃ توصون بھا اودین “ وراثت کی تقسیم کا جب وقت آتا ہے ، تو حکم ہے کہ پہلے مرنے والے کی وصیت کو پورا کرو 1 ؎ تفیہمات الٰہیہ ص 12/ج 1 ، 2 ؎ در منشور ص 392/ج 6 ، روح المعانی 227/ج 30 تفسیر ابن کثیر ص 547/ج 4 یا اس کا قرضہ ادا کرو۔ اور پھر باقی ترکہ کو تقسیم کرو۔ مطلب یہ ہے کہ وصیت اس چیز کی جاتی ہے ۔ جو نہایت اہم ہو تو یہاں پر وصیت کا مطلب یہ ہے کہ ہم خواہشات اور باطل نظریات سے بالکل الگ ہیں۔ ہمارا مشن محض حق ہے۔ اس لئے جہاں کہیں حق کے خلاف کوئی چیز پائی گئی۔ فوراً وصیت کردی کہ اسے چھوڑ دو ۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا یہی مطلب ہے اور یہ جماعت کا کام ہے۔ تو گویا توا صوابالحق میں جماعت کی ضرورت اور اہمیت کا مسئلہ بھی آ گیا۔ صبر کی تلقین فلاح کا چوتھا اصول جو یہاں بیان کیا گیا ہے وہ وتوا صوا بالصبر یعنی ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنا۔ ہمارے مشن میں یہ بھی ضروری ہے۔ خواہشات نفسانی کو روکنے کے لئے صبر ایک ضروری امر ہے۔ انسان خواہشات کی بجائے عبادات اور نیکی کے دوسرے کاموں کی طرف راغب ہوتا ہے۔ کوئی حادثہ پیش آجائے یا کوئی مصیبت آجائے تو۔ ” استعینوا بالصبر والصلوۃ کے مطابق اسے برداشت کرتا ہے اور صبر و نماز کے ساتھ استعانت حاصل کرتا ہے۔ تو یہ گویا نفس پر کنٹرول کرنے کا چوتھا اصول ہے ، جو یہاں بیان ہوا ہے کہ تکلیف کے وقت صبر سے کام لے جزع فزع نہ کرے۔ دوسروں کو بھی صبر کی تلقین کرے۔ فلاح کے چار اصول ان چار اصولوں کو اس طرح سمجھنا چاہئے جیسے گاڑی کے چار پہیے ہوتے ہیں جس طرح گاڑی چار پہیوں کے بغیر نہیں چل سکتی ، اسی طرح ان چار اصولوں کو اپنائے بغیر کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ جو انسان ان اصولوں کو اپنا لے گا۔ ہمیشہ کیلئے کامیابی حاصل کرلے گا۔ اور دنیا میں انقلاب برپا کرے گا ورنہ ہمیشہ کے لئے نقصان میں پڑجائے گا۔ انسانی تاریخ یہی بتلا رہی ہے کہ ان الانسان لفی خسر انسان ہمیشہ گھاٹے میں ہیں ، کیونکہ وہ کفر کرتے ہیں ان کے نظریات درست نہیں ، شرک کرتے ہیں بدعات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایمان صحیح نہیں ، سنت کا اتباع نہیں۔ برے اعمال کی کثرت ہے یہ سب ناکامی کے اسباب ہیں … انسان نے عمر کے قیمتی سرمائے سے غلط عقیدہ اور فاسد فکر خریدی ہے۔ ان کے قلب کی حالت اور اخلاق خراب ہوگئے ہیں حق کی بجائے باطل کی تشہیر ہو رہی ہے ۔ غلط چیزوں کا پراپیگنڈا ہو رہا ہے۔ حرام خوری ، بد اخلاقی ، بد نظمی ، کفر ، شرک ، فضول رسومات کی وصیت ہو رہی ہے حق گوئی سے روگردانی کی جا رہی ہے اس کا نتیجہ ہمیشہ کے لئے نقصان کی صورت میں نکلے گا۔ اس کے علاوہ یہ ہے کہ لوگ مصائب کے وقت اور نفس پر کنٹرول کرنے کے وقت صبر کا دامن چھوڑ رہے ہیں۔ نہ اطاعت پر دلجعی ہے اور نہ جہاد فی سبیل اللہ کی طرف توجہ ہے صبر کی بجائے شور و شر ، واویلا اور نوحہ ہو رہا ہے۔ زندگی کے ان چار اصولوں کو قرآن پاک میں مختلف مقامات پر تفصیل کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے اور آخر میں خلاصے کے طور پر یہ اصول اس سورة میں یکجا کردیے ہیں۔ یعنی ایمان ، اعمال صالحہ ، ایک دوسرے کو حق کی تلقین اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین۔ اسی لئے فرمایا ” اصبروا وصابروا و رابطوا قف “ صبر کرو ، حق پر جمے رہو ، دوسروں کو بھی حق کی تلقین کرو اور خود ھبی صبر کرو۔ خدا سے ڈرتے رہو۔ ایمان میں پختگی ختیار کرو ” واتقوا اللہ لعلکم تفلحون “ تاکہ تم فلاح پا جائو۔ یہی باتیں لمبی سورتوں میں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ یہاں پر مختصر طریقے سے ایک ایک لفظ اور ایک ایک جملہ میں بات کا خلاصہ بیان کردیا ہے۔ انسان کی عمر ، تاریخ ، زمانہ ، یا عصر کا وقت یہ سب چیزیں شاہد ہیں کہ بیشک انسان البتہ خسارے میں ہیں۔ مگر وہ لوگ جو ایمان لائے ، اچھے عمل کئے جنہوں نے ایک دوسرے کے حق اور سچے دین پر قائم رہنے کی تلقین کی اور ایک دوسرے کو صبر کی تاکید کی ، وہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فلاح پا جائیں گے۔