یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو لا تعداد نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سے عظیم نعمت انسانی جان ہے۔انسانی جان کو شریعت میں اتنی اہمیت حاصل ہے کہ ایک شخص کے قتل کو تمام انسانیت کا قتل اور ایک جان بچانے کو تمام انسانیت کا بچانا کہا گیا ہے۔‘‘جان’’اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اس لیے خود کشی کرنے اور خود کو ہلاک میں ڈالنے کی شریعت میں انتہائی مذمت کی گئی ہے تاہم اسلام کے دفاع کے لیے، اللہ تعالیٰ کے کلمہ کی سربلندی کے لیے اور مسلمانوں کی جان ،مال،عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے اگر کوئی شخص اپنی جان قربان کر دے تو اس کے لیے جنت کی بشارت ہے اور ایسے شخص کو ’’شہید‘‘کہا جاتا ہے۔ہر قوم و مذہب میں کسی عظیم مقصد کے لیے اپنی جان قربان کرنے اور شہید ہونے کا تصور پایا جاتا ہے۔ انسان کی زندگی میں بعض اشیاء اس کے نزدیک اس قدر محبوب ہوتی ہیں کہ وہ ان کی خاطر اپنی جان دینے اور دوسرے کی جان لینے سے گریز نہیں کرتا۔وہ شخص جو اپنی قوم ،مذہب یا سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنی جان قربان کر دے اسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس کا اس قدر احترام کیا جاتا ہے آئندہ آنے والی نسلیں اس کے طریقے کو اختیار کرتے ہوئے اپنی جان قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق شہادت ایک عظیم رتبہ ہے جس کی بدولت شہید کو اللہ کی رضا کا مقام جنت عطا ہوتا ہے۔مقام شہادت اس قدر لائق تعظیم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خود شہادت کی تمنا کا اظہار ان کلمات سے فرمایا:
’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے میں یہ اس بات سے شدید محبت کرتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں جہادد کروں پھر شہید کردیا جاؤں پھر جہاد کروں پھر شہید کردیا جاؤں پھر جہاد کروں پھر شہید کر یا جاؤں۔‘‘
[صحيح مسلم:1876، سنن ابن ماجه:2753]
نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق شہادت کی حقیقت یہ ہے کہ ایک مسلمان اللہ کے کلمہ کی سربلندی کے لیے خلوص نیت کے ساتھ اللہ کے لیے اپنی جان قربان کر دے۔جس طرح قربانی کے جانور میں اللہ کو جانور کا گوشت و خون مطلوب نہیں ہوتا اسی طرح شہات میں بھی خون نہیں بلکہ اخلاص اور رضا و تسلیم مطلوب ہے جس کے پیش نظر ایک مجاہد اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کرتا ہے۔اسی لیے قیامت کے دن ان لوگوں کا خون رائیگاں جائے گا جنہوں نے خود کو شہید کہلوانے کے لیے دنیاوی مقاصد کے تحت اپنی جان دی ہو گی اور اللہ رب العزت کے نزدیک آخرت میں ان کے لیے کوئی جزاء نہ ہوگی۔
’’جو اللہ کی راہ میں شہید ہوا تھا اس کو بلوایا جائے گا اللہ اس سے فرمائے گا تو کس راہ میں قتل کیا گیا؟وہ کہے گا مجھے تیری راہ میں جہاد کا حکم دیا گیا تو میں سے قتال کیا یہاں تک کہ میں شہید ہو گیا اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا تو نے جھوٹ بولا اور اللہ فرمائے گا بلکہ تو نے یہ ارادہ کیا کہ یہ کہا جائے کہ فلاں بہت بہادر تھا اورتجھے یہ کہا گیا پھر رسول رسول اللہ ﷺ نے(راوی کہتے ہیں)میرے گھٹنے پر ہاتھ مار کر فرمایا اے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یہ تینوں اللہ کی پہلی مخلوق ہوں گے جنہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جہنم میں داخل فرمائے گا۔‘‘
[سنن الترمذي:2382، السنن الكبرى - النسائي:11824، صحيح ابن خزيمة:2482]
کیا شہید ہونے کے لیے دشمن کے ہاتھوں قتل ہونا ضروری ہے؟
کتب فقہ میں شہید کامل کے لیے کچھ شرائط ذکر کی گئی ہیں۔ جیسے مقتول کا مظلوما قتل ہونا، مسلمان ہونا، وغیرہ وغیرہ۔ ان شرائط کی بنیاد پر جب کسی کے بارے یہ کہا جائے کہ یہ شہید نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پر شہید الدنیا و الآخرۃ کے احکامات جاری نہ ہوں گے بلکہ دنیاوی اعتبار سے اسے غسل بھی دیا جائے اور اس کی تکفین کا بھی اہتمام ہو گا۔ شہید کامل کے حوالے سے کتب فقہ میں ایک بحث یہ بھی ہے کہ کیا میدان جنگ میں مسلمان کے شہید ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کی موت کے حصول کی نسبت دشمن کے فعل کی طرف ہو؟ جوہرہ نیرہ میں ہے کہ شہید وہ ہے جس کو براست کفار قتل کریں یا اس کے قتل کا سبب بنیں۔پھر اس کے بعد مصنف لکھتے ہیں:
’’اور اسی طرح اگر مسلمان شکست کھا جائیں اور خود کو خندق میں گرا دیں یا دیوار سے پھینک دیں اور مر جائیں تو و ہ شہید نہیں ہوں گے مگر یہ کہ دشمن ان کو نیزہ مار کر یا دھکا دے کر یا مار کر ڈال دے۔‘‘
[الجوهرة النيرة على مختصر القدوري: 1 / 111]
یعنی اگر مسلمانوں نے کسی معرکہ میں شکست کھانے کے بعد اپنے آپ کو دشمن کے حوالے کرنے کے بجائے خود کو خندق میں پھینک دیا یا دیوار سے چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی تو اس صورت میں انہیں شہید نہیں کہا جائے گا۔ان کا یہ عمل اس وقت ان کی بزدلی پر دلالت کرتا ہے ۔ان کو چاہئے تھا کہ وہ خودکشی کرنے کے بجائے دشمن سے لڑتے لڑتے شہید ہوجاتے کیونکہ ان کی موت کا سبب کفار نہیں بنے اس لیے ان کا شمار شہداء میں نہیں ہو گا۔البتہ اگر کفار نے خو ان کو دھکا دے کر خندق میں ڈال دیا تو اس صورت میں وہ شہداء میں شمار ہوں گے۔اس مسئلہ میں امام محمد اور امام ابو یوسف علیہما الرحمۃ کےمابین اختلاف ہے۔امام محمد کے نزدیک اگر کوئی شخص دشمن پر حملہ آور ہو اور اپنے گھوڑے سے گر مر جائے تو اس صورت میں وہ شہید نہیں ہو گا۔ان کے اس بیان کی بنیا اس بات پر ہے :
‘‘جب وہ مقتول ہو ایسے فعل کی وجہ سے جو منسوب ہو دشمن کی طرف تو وہ شہید ہو گا ورنہ نہیں۔’’
[بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع-الكاساني: 1/ 324، شرح الزيادات - قاضي خان:1 /193]
یعنی مرنے والے کے قتل کی نسبت کا دشمن کی طرف ہونا ضروری ہے اگر اس کی نسبت دشمن کی طرف نہ ہو تو اسے شہید کامل قرار نہیں دیا جائے۔امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ کے نزدیک میدان جنگ میں مسلمان کی موت کے فعل کی نسبت دشمن کی طرف ہونا ضروری نہیں ۔آپ کی رائے کے بارے میں علامہ کاسانی لکھتےہیں:
یعنی آپ کے نزدیک شہید ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ مسلمان کے قتل کا سبب بالواسطہ یا بلا واسطہ دشمن کا فعل ہو۔مسلمان جنگ میں کسی بھی طور پر جنگ و قتال میں جاں بحق ہو وہ شہید کہلائے گا چاہے اس کی موت کی نسبت دشمن کی طرف ہو یا نہ ہو۔بہر صورت اسے شہید شمار کیا جائے گا اور اس پر دنیاوی اعتبار سے شہید کے احکامات جا ری ہوں گے۔
’’حسن بن زیاد کے نزدیک اصل یہ ہے کہ جب وہ براہ راست دشمن کے فعل سے قتل ہو تو وہ شہید ہے اگر وہ مسلمانوں کے درمیا ن دار الاسلام میں مقتول پایا جائے تو ووہ وجوب قصاص یا کفارہ سے خالی نہ ہوگا اور جب وہ کسی سبب سے مقتول ہو تو وہ شہید نہیں ہو گا۔‘‘
[بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع-الكاساني: 1/ 324، شرح الزيادات - قاضي خان:1 /193]
یعنی آپ کے نزدیک مسلمان کی موت کا سبب براہ راست دشمن سے قتال کرنا ہو ۔اگر مسلمان دشمن سے براہ راست قتل کے بجائے کسی اورسبب سے مر جائے تو اس صورت میں آپ کے نزدیک وہ شہید نہیں ہو گا۔
اگر امام محمد کے اصول کو تسلیم کر لیا جائے تو مسلمان فوج کے وہ تمام لوگ جو جنگ میں کسی ہوائی یا بحری جہاز کے حادثہ میں جاں بحق ہو جائیں ان میں سے کوئی بھی شہید نہیں ہو گا۔جنگ کے دوران بہت سےفوجی پل بنانے،سامان رسد لے جانے اور مرمت وغیرہ کے کام کے دوران یا سفر کی شدت کی وجہ سے یا گاڑی سے گر کرمر جاتے ہیں۔اس اصول کی بنیاد پر ان میں سے کسی کو بھی شہید قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ان کی موت کے فعل کی نسبت دشمن کے فعل کی طرف نہیں۔ اسی طرح امام حسن نے تو تسبب کی بھی نفی کر دی جس کے نتیجے میں بہت سے وہ مسلمان فوجی جو دشمن کے بچھائے ہوئے بارود کی زد میں آکر یا دشمن کی کھودی ہوئی خندق میں خو دگر کر یا مسلمانوں کے جنگی مال کی حفاظت کے دوران جاں بحق ہوتے ہیں ان میں سے کوئی بھی شہید نہ ہو گا۔ہماری رائے میں اس حوالے سے حضر ت امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ کے مذہب میں توسع ہے۔یہ بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کہ جنگ میں عمل حراب و قتال میں مسلمان کسی بھی طور پر مقتول ہو چاہے اس کی موت کے فعل کی نسبت دشمن کی طرف ہو یا نہ ہو وہ مجاہد بہر صورت شہید کہلائے گا۔لہذا شہید وہ شخص ہو گا جو جنگ میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے اللہ کی راہ میں کسی بھی طور پر مارا جائے۔اس مسئلہ میں امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ کے قول پر ہی فتویٰ دینا چاہئے تا کہ اس سے مسلمان فوج کا مورال بلند ہو اور ان میں اللہ کی راہ میں جان دینے کا جذبہ بیدار رہے۔
شہادت میں نیت کا بہت دخل ہے۔ایک انسان اگر چہ بظاہر شہید ہو لیکن اگر اس کی نیت اللہ کی رضا کی نہیں تو اگر چہ لوگ اسے شہید کہتے رہیں یا اس کو طمغے دیئے جاتے رہیں وہ عند اللہ شہید نہ ہو گا۔ہم یہاں چند احادیث طیبہ نقل کریں گے جس سے یہ بات مزید واضح ہو جائے گی۔حضرت امام ابو داؤد روایت فرماتے ہیں:
’’ایک صحابیؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے جہینہ کے ایک محلے پر حملہ کیا تو مسلمانوں میں نے ایک شخص نے ان کے ایک آدمی کو للکارا تو اس نے جب وار کیا وہ خطا گیا اور وہ تلوار کا وار اس کے خود لگا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے مسلمانو! تمہارا بھائی! لوگ اس کی طرف لپکے وہ مر چکا تھا رسول اللہ ﷺ نے اس کو لپیٹا اس کے کپڑوں میں اور اس کے خون میں اور اس پر نماز جنازہ ادا کی اور اسے دفن کیا ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ کیا یہ شہید ہے؟ فرمایا : ہاں اور میں اس پر گواہ ہوں۔‘‘
[سنن أبي داود:2539، السنن الكبرى - البيهقي:16393]
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر چہ بظاہر اس صحابی رسول ﷺ نے غلطی سے خودکشی کا ارتکاب کیا تا ہم رسول اللہ ﷺ نے اسے اس کی نیت کے درست ہونے کی وجہ سے شہید قرار دیا۔اس مسئلہ میں اس کی خطا کو عذر تسلیم کرتے ہوئے اس کی نیت کا اعتبار کیا گیا اور نبی کریم ﷺ نے انہیں شہید قرار دیا کیونکہ اس کا مقصود اصلی دشمن کو قتل کرنا تھا نہ کہ خودکشی کرنا۔اس سے یہ معلوم ہوا کہ حصول شہادت میں اصل نیت کا اعتبار ہے۔حضرت امام مسلم علیہ الرحمۃ غزوہ خیبر کا ایک واقعہ حضرت عامر بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’حضرت عامر رضی اللہ عنہ کی تلوار چھوٹی تھی۔ آپ نے اس سے ایک یہودی کی ٹانگ پر وار کیا تاکہ اسے قتل کریں ۔ آپ کی تلوار کی دونوں طرف کی دھار آپ ہی کو لگی، جس سے حضرت عامرؓ کا گھٹنا زخمی ہو گیا اور آپ اس سے شہید ہو گئے۔راوی کہتے ہیں کہ جب فوج واپس جانے لگی تو حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اور وہ میرا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مجھے دیکھا کہ میں خاموش ہوں تو فرمایا کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ﷺ ! میرے ماں باپ آپ ﷺ پر فدا ہو جائیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت عامر رضی اللہ عنہ کے اعمال ضائع ہو گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ کس نے کہا ہے؟ میں نے عرض کی : فلاں بن فلاں نے اور اسید بن حضیر انصاری رضی اللہ عنہ نے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : جس نے بھی یہ کہا ہے اس نے جھوٹ کہا اس کے لیے دو اجر ہیں۔ آپ ﷺ نے اپنی دونوں مبارک انگلیوں کو جمع فرمایا اور فرمایا کہ اس نے تو مجاہد بن کر جنگ کی ہے ۔‘‘
[صحيح البخاري:4196+6148+6891، صحيح مسلم:1802]
اس حدیث شریف سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کسی مجاہد سے میدان جہاد میں دشمن پر حملہ کرتے ہوئے غلطی ہو جائے اور دشمن پر وار کرتے ہوئے بظاہر وہ خود کشی کا مرتکب ہو تو اس حدیث کے مطابق اس کی موت کو حرام موت قرار دینا درست نہیں۔جو ایسے مجاہد کی موت کو خودکشی قرار دیتے ہوئے اس کے اعمال برباد ہونے کی خبر دیں ان کی تکذیب رسول ﷺ نے خود فرمائی ہے۔ اسی طرح حضرت امام بخاری فرماتے ہیں کہ اہل اسلام اور اہل شرک کے ایک معرکہ میں ایک شخص بہت زیادہ بہادری سے لڑ رہا تھا تو لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ آج کے دن یہ اجر میں سب پر سبقت لے جائے گا مگر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ اہل جہنم مں سے ہے ۔ایک صحابی فرماتے ہیں کہ میں نے سوچا اب میں اس کے ساتھ رہوں گا یہاں تک کہ آپ ہر مقام پر اس کے ساتھ ہی لڑتے رہے ۔ جب وہ شخص شدید زخمی ہوا تو اس نے زخم کی شدت کے باعث موت کو جلدی طلب کیا اور تلوار کا پھل اور اس کی دھار اپنے سینے کے درمیان میں رکھ کر زور لگایا اور خود کشی کر لی ۔وہ صحابی اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں ۔۔۔۔اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
”بے شک ایک شخص اہل جنت والے کام کرتا ہے یہاں تک کہ لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ جنتی ہے جبکہ وہ جہنمی ہوتا ہے اور ایک شخص اہل جہنم والے کام کرتا ہے اور لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ جہنمی ہے لیکن وہ جنتیوں میں سے ہوتا ہے ۔“
[صحيح البخاري:2898+4202+4207، صحيح مسلم:112]
اس حدیث شریف سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر چہ کوئی شخص میدان جہاد میں اپنی تلوار سے کفار کو قتل کرتا رہے لیکن اگر اس کا اختتام خودکشی پر ہو تو وہ شہید نہیں کہلا سکتا۔ اس مسئلہ میں اس کا مقصود اصلی خود کشی کرنا تھا تا کہ وہ زخموں کی تکلیف سے خود کو نجات دے سکے۔ہماری رائے میں ان تمام احادیث میں غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان مختلف واقعا ت میں نیت اور مقاصد کا اعتبار کیا ہے۔لہذا جہاد کے جدید مسائل اور بالخصوص فدائی حملوں میں بھی احکامات کے بیان میں مقاصد ، نیت اور مسلمانوں کے فائدے کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
شہادت کے فضائل:
شہید کے بارے میں امام مسلم حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا :
’’اے اللہ کے رسول ﷺ ایک آدمی قتال کرتا ہے مال غنیمت کے لیے اور ایک آدمی قتال کرتا ہے اس لیے کہ اس کا ذکر کیا جائے اور ایک آدمی قتال کرتا ہے کہ اس کی شان بڑھ جائے اللہ کی راہ میں کون ہے ؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے قتال کیا تا کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو تو اس نے اللہ کی اللہ میں قتال کیا۔‘‘
[صحيح مسلم:1904، مسند أحمد:19596، صحيح الترغيب والترهيب:1328]
’’حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا ایک آدمی کے بارے میں جو بہادری کے لیے قتال کرتا ہے اور حمیت کے لیے اور ریا کے لیے ان میں سے اللہ کی راہ میں کو ن ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اس لیے قتال کیا کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو جائے تو وہ اللہ کی راہ میں ہے۔‘‘
[صحيح مسلم:1904، سنن ابن ماجه:2783، سنن الترمذي:1646]
’’حضرتابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے اللہ عزوجل کی راہ میں قتال کے بارے میں سوال کیا تو عرض کی کہ ایک آدمی غصہ میں قتال کرتا ہے اور ایک آدمی حمیت میں قتال کرتا ہے کہا آپ ﷺ نے اسک ی طرف اپنا سر اٹھا یا کیونکہ وہ کھڑا ہوا تھا فرمایا:جس نے اس لیے قتال کیا کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو جائے اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔‘‘
[صحيح البخاري:123، صحيح مسلم:1904]
ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے شہید کے بارے میں فرمایا:
’’حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو اپنے مال کی حفاظت میں مارا گیا وہ شہید ہے اور جو اپنے دین کی حفاظت میں مارا گیا وہ شہید ہے اور کو اپنے خون کی حفاظت میں مارا گیا وہ شہید ہے اور جو اپنے خاندان والوں کی حفاظت میں مارا گیا وہ شہید ہے۔‘‘
ایک اور حدیث شریف میں ہے:
عن أبي مالك الأشعري قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : " من فصل في سبيل الله فمات أو قتل أو وقصه فرسه أو بعيره أو لدغته هامة أو مات في فراشه بأي حتف شاء الله فإنه شهيد وإن له الجنة " .
ترجمہ:
’’حضرت ابو مالک اشعریؓ مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو اللہ کی راہ میں نکلا اور مر گیا یا قتل کر دیا گیا یا اس کے گھوڑے نے اس کو پھینک دیا یا اس کے اونٹ نے یا اس کو کسی موذی نے کاٹ لیا یا وہ اپنے بستر پر مر گیا چاہے وہ جیسے اللہ نے چاہا کسی بھی طرح سے مرے وہ شہید ہے اور اس لے لیے جنت ہے۔‘‘
ان روایات سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کوئی مسلمان قومی حمیت و غیرت کے لیے یا شہرت و ریا کے لیے یا مال غنیمت کے حصول کے لیے یا بدلہ لینے کےلیے لڑتے لڑتے اپنی جان دے دیتا ہے تو وہ عند اللہ شہید نہیں ہو سکتا۔اللہ کے نزدیک شہادت کا رتبہ اسی کو ملے گا جس نے اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے کے لیے تلوار اٹھائی ہو اور اس کے پیش نظر فقط اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا ہو۔اسی طرح اگر کسی شخص نے اپنی جان ، مال اور اہل و عیال کی حفاظت میں جان دی تو وہ بھی شہید ہے۔
”بیشک اﷲ نے اہلِ ایمان سے ان کی جانیں اور ان کے مال، ان کے لئے جنت کے عوض خرید لئے ہیں، (اب) وہ اللہ کی راہ میں قتال کرتے ہیں، سو وہ (حق کی خاطر) قتل کرتے ہیں اور (خود بھی) قتل کئے جاتے ہیں۔ (اﷲ نے) اپنے ذمۂ کرم پر پختہ وعدہ (لیا) ہے، تَورات میں (بھی) انجیل میں (بھی) اور قرآن میں (بھی)، اور کون اپنے وعدہ کو اﷲ سے زیادہ پورا کرنے والا ہے، سو (ایمان والو!) تم اپنے سودے پر خوشیاں مناؤ جس کے عوض تم نے (جان و مال کو) بیچا ہے، اور یہی تو زبردست کامیابی ہے۔“
ایک اور مقام پر شہدا کے بارے میں کہا گیا کہ انہیں مردہ نہ کہ و وہ زندہ ہیں :
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں انہیں ہرگز مردہ خیال (بھی) نہ کرنا، بلکہ وہ اپنے ربّ کے حضور زندہ ہیں انہیں (جنت کی نعمتوں کا) رزق دیا جاتا ہے۔
ایک اور مقام پر اللہ کے لیے جان دینے والوں کے بارے میں کہا گیا اللہ کی راہ میں جان وہی شخص دیتا ہے جس کا عقیدہ آخرت پر ایمان ہو :
”پس ان (مؤمنوں) کو اللہ کی راہ میں (دین کی سربلندی کے لئے) لڑنا چاہئے جو آخرت کے عوض دنیوی زندگی کو بیچ دیتے ہیں، اور جو کوئی اللہ کی راہ میں جنگ کرے، خواہ وہ (خود) قتل ہو جائے یا غالب آجائے توہم (دونوں صورتوں میں) عنقریب اسے عظیم اجر عطا فرمائیں گے۔“
ایک حدیث شریف میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
سیدنا مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”شہید کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ انعامات ہیں: (۱) اس کے خون کے پہلے قطرے کے گرتے ہی اسے بخش دیا جاتا ہے۔ (۲) وہ جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے۔ (۳) اسے ایمان کے زیور سے مزین کیا جاتا ہے۔ (۴) بہتر مو ٹی آنکھوں والی حوروں سے اس کی شادی کی جائے گی۔ (۵) اسے عذ اب قبر سے محفوظ رکھا جائے گا۔ (۶) وہ (قیامت کی) بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہے گا۔ (۷) اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جائے گا، جس کا ایک موتی دنیا و مافیہا سے بہتر ہو گا اور (۸) اس کے گھر کے ستر افراد کے حق میں اس کی سفارش قبول کی جائے گی۔“
ان تمام حوالہ جات سے ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اسلام کے مطابق انسانی جان کی بہت اہمیت ہے اور یہ جان اللہ کی امانت ہے اسی لیے خود کشی اور ہر ایسا اقدام حرام ہے جس میں انسان کو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنا پڑےلیکن اللہ کے کلمہ کی سربلندی کے لیے میدان جنگ میں گولیوں کی تڑ تڑاہٹ اور جہازوں کی بمباری کا سامنا کرتے ہوئے اپنی جان خطرے میں ڈالنا اور اللہ کی رضا کے لیے اپنی جان کی قربان دینا خود کو ہلاکت میں ڈالنا نہیں بلکہ مطلوب و مقصود مؤمن ہے۔ایسے خوش نصیب افراد کے لیے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے اجر عظیم کا وعدہ ہے۔
خلاصہ:
جو شخص محض اس نیت سے جہاد کرے تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہو اپنے ملک، وطن، قوم اور زمین ، علاقے کے لیے نہیں، اور پھر وہ اس جہاد میں مارا جائے تو وہ اصلی دنیاوی شہید ہے، ا س کا حکم یہ ہے کہ اسے نہ تو غسل دیا جائے گا نہ ہی کفن دیا جائے گا، بلکہ اس کو بلا غسل اور بلا کفن کے دفن کردیا جائے گا اور وہ شہید جو کہ اخروی شہید کہلاتے ہیں جیسے کوئی ٹرین و بس وغیرہ میں دب کر مر گیا، ہیضہ وطاعون میں یا ولادت میں کسی عورت کی موت ہوگئی تو وہ بھی شہید ہے یعنی شہیدوں جیسا اجرو ثواب اسے بھی ملے گا، مگر اس کو دنیا میں غسل بھی دیا جائے گا اور کفن بھی دیا جائے گا، اور نماز جنازہ بھی پڑھی جائے گی۔
شہید کو شہید کیوں کہتے ہیں؟
شہید یا تو فاعِل کے معنی میں ہے یعنی حاضر ہونے والا چونکہ شہید موت سے پہلے ہی اپنے مقام پر حاضر ہوجاتا ہے یعنی دیکھ لیتا ہے اس لئے اسے شہید کہتے ہیں یا یہ مَفْعُول کے معنی میں ہے یعنی جس پر حاضر ہوا جائے چونکہ فرشتے شہید کے پاس حاضر ہوکر اسے خوش خبری سناتے ہیں اس لئے اسے شہید کہتے ہیں۔
من قتله اهل الحرب و البغی و قطاع الطريق او وجد في معرکة و به جرح او يخرج الدم من عينه او اذنه او جوفه او به اثر الحرق او وطئته دابة العدوّ و هو راکبها او سائقها او کدمته او صدمته بيدها او برجلها او نفروا دابيه بضرب او زجر فقتلته او طعنوه فالقوه في ماء او نار او رموه من سور او اسقطوا عليه حائطا او رموا نارا فينا او هبت بها ريح الينا او جعلوها في طرف خشب راسها عندنا او ارسلوا اليناما فاحترق او غرق مسلم او قتله مسلم ظلماً ولم تجب به دية ... ومن قتل مد افع عن نفسه او ماله او عن المسلين او اهل الذمة بای آلة قتل بحديد او حجر او خشب فهو شهيد.
ترجمہ:
’’جسے حربی کافر، باغی اور راہزنوں نے قتل کیا، یا میدان جنگ میں پایا گیا اور اس پر زخم تھے، یا اس کی آنکھ، کان یا پیٹ سے خون بہہ رہا تھا، یا جسم پر جلنے کا نشان تھا یا دشمن کے جانور (سواری) نے اسے روندا، یا سوار تھا یا اپنی سواری کو ہانک رہا تھا یا جانور نے کاٹا یا جانور نے روند ڈالا یا مارنے (ڈانٹنے) سے جانور بدکا، بھاگا اور اسے مار ڈالا یا کسی کو نیزہ مار کر پانی یا آگ میں پھینک کر جلا ڈالا یا جانور کو آندھی ہماری طرف لے آئی، یا لکڑی جلا کر ہماری طرف پھینک دی اور آدمی جل گیا ، یا کسی مسلمان نے ڈبو دیا ، یا ظلم سے مسلمان نے قتل کر دیا اور اس قتل سے قاتل پر دیت واجب نہ ہوئی۔ یونہی جو شخص اپنی جان، مال بچاتے ہوئے قتل ہو گیا، یا مسلمان کی یا ذمیوں (دار الاسلام میں رہنے والے غیر مسلم) حفاظت کرتے ہوئے قتل ہو گیا، کسی بھی آلہ سے لوہا ہو یا پتھر یا لکڑی، وہ شہید ہے۔‘‘
[الفتاوی الهندية المعروف فتاوی عالمگيری، 1: 167، 168، دار الفکر، بيروت]
شہید عربی زبان میں حاضر ہونے والے اور گواہ کو کہا جاتا ہے۔اصطلاح شریعت میں شہید کو شہید اس لیے کہتے ہیں کہ شہادت کے وقت ملائکہ اس کے اکرام میں حاضر ہوتے ہیں اور اس کی روح کو اللہ کی بارگاہ میں حاضر کیا جاتا ہے۔قیامت کے دن اس کا خون اس کے لیے گواہی دے گا نیز یہ کہ اللہ کی رضا کی خاطر اپنی جان قربان کرنے والا در حقیقت اسلام کی حقانیت پر گواہی یتا ہے۔فقہاء نے شہید کی تین اقسام بیان کی ہیں۔شہید کامل،شہید الآخرۃ اور شہید الدنیا۔شہید کامل سے مراد وہ شہید ہے جو دنیا اور آخرت کے اعتبار سے شہید قرار پائے ۔اس صورت میں اس کو غسل نہیں یا جائے گااور اسی کے لباس میں اسے کفن دیا جائے گا البتہ اس کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی اور اللہ تعالیٰ کے پاس اس کے لیے اجر عظیم ہے۔شہید دنیا سے مراد وہ شخص ہے جس کاجان دینااللہ کی رضا کے لیے نہ ہو بلکہ مال غنیمت،شہرت یا عصبیت کے لیے جان دی ہو۔ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی اجر نہیں۔شہید آخرت سے مراد وہ مسلمان ہیں جو دنیاوی احکامات کے اعتبار سے تو شہید نہیں یعنی ان کو غسل بھی دیا جائے گا۔ان کی تکفین بھی عام طریقے سے ہو گی اور ان کی نماز جنازہ بھی ادا کی جائے البتہ آخرت میں ان کو شہید کا ثواب عطا کیا جائےگا۔ جیسے ایک شخص کا پانی میں ڈوب کر مرنا یا جنگ میں زخمی ہونے کے بعد اپنے بستر پر مرنا۔
حدیث شریف میں ہے:
عن جابر بن عتيك قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " الشهادة سبع سوى القتل في سبيل الله : المطعون شهيد والغريق شهيد وصاحب ذات الجنب شهيد والمبطون شهيد وصاحب الحريق شهيد والذي يموت تحت الهدم شهيد والمرأة تموت بجمع شهيد " .
ترجمہ:
’’حضرت جابر بن عتیکؓ مروی ہے کہ کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: شہادت کی اللہ کی راہ میں قتل کیے جانے کے علاوہ ساتھ اقسام ہیں۔طاعون زدہ شہید ہے اور پانی میں غرق ہونے والا شہید ہے اور پھیپھڑوں کے مرض والا اور پیٹ کے مرض میں مرنے والا اور جل کر مرنے والا اور وہ جو دیوار کے نیچے آکر مر جائے اور عورت جو حاملہ ہو مر جائے تو شہید ہے۔‘‘
[]
شہید کون ہے اور کون نہیں اس کے بارے میں فقہاء نے تفصیلاً کتب فقہ میں بحث کی ہے۔یہاں ہم صرف اس بات کا ذکر کریں گے کہ کیا شہید ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ مقتول ہونے کی اضافت دشمن کی طرف ہو یا نہیں؟
اور مت کہو تم ان لوگوں کے بارے میں جو مارے جائیں اللہ کی راہ میں، کہ وہ مردہ ہیں، (کہ ایسے لوگ حقیقت میں مردہ نہیں) بلکہ وہ زندہ ہیں، مگر تم لوگ (ان کی اس زندگی کا) شعور نہیں رکھتے.
اور تو نہ سمجھ ان لوگوں کو جو مارے گئے اللہ کی راہ میں مردے بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس کھاتے پیتے. خوشی کرتے ہیں اس پر جو دیا ان کو اللہ نے اپنے فضل سے اور خوش وقت ہوتے ہیں انکی طرف سے جو ابھی تک نہیں پہنچے ان کے پاس ان کے پیچھے سے اس واسطے کہ نہ ڈر ہے ان پر اور نہ انکو غم. خوش وقت ہوتے ہیں اللہ کی نعمت اور فضل سے اور اس بات سے کہ اللہ ضائع نہیں کرتا مزدوری ایمان والوں کی.
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ : مجھے رسول اللہ ﷺ کے قتل پر نو (٩) قسمیں کھانا اس سے زیادہ پسند ہے کہ ان کے قتل نہ ہونے پر ایک (١) قسم کھاؤں، اس لئے کہ الله نے آپ کو نبی بھی بنایا اور شہید بھی. [مسند أحمد: 3742؛ المستدركالحاکم: 3/57، 4332؛دلائل النبوة للبيهقي:3102]
600 کے قریب کتب کے مصنف علامہ جلال الدین سیوطیؒ الشافعی(۸۴۹–۹۱۱ ھہ) فرماتے ہیں :
قال البيهقي في كتاب الاعتقاد : الأنبياء بعدما قبضوا ردت إليهم أرواحهم فهم أحياء عند ربهم كالشهداء ، وقال القرطبي في التذكرة في حديث الصعقة نقلا عن شيخه : الموت ليس بعدم محض ، وإنما هو انتقال من حال إلى حال ، ويدل على ذلك أن الشهداء بعد قتلهم وموتهم أحياء يرزقون فرحين مستبشرين وهذه صفة الأحياء في الدنيا ، وإذا كان هذا في الشهداء فالأنبياء أحق بذلك وأولى، وقد صح أن الأرض لا تأكل أجساد الأنبياء ، وأنه صلى الله عليه وسلم اجتمع بالأنبياء ليلة الإسراء في بيت المقدس وفي السماء ، ورأى موسى قائما يصلي في قبره وأخبر صلى الله عليه وسلم بأنه يرد السلام على كل من يسلم عليه ، إلى غير ذلك مما يحصل من جملته القطع بأن موت الأنبياء إنما هو راجع إلى أن غيبوا عنا بحيث لا ندركهم وإن كانوا موجودين أحياء ، وذلك كالحال في الملائكة فإنهم موجودون أحياء ولا يراهم أحد من نوعنا إلا من خصه الله بكرامته من أوليائه ، انتهى
ترجمہ:
امام بیہقی نے "کتاب الاعتقاد" میں بیان کیا ہے کہ انبیاء علیہ السلام کی روحیں وفات کے بعد پھر ان کی اجسام میں واپس کردی گئیں چنانچہ وہ اپنے رب کے پاس شہیدوں کی طرح زندہ ہیں.
امام قرطبی نے "تذکرہ" میں حدیث صعقه کے متعلق اپنے شیخ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ "موت عدم محض کو نہیں کہتے بلکہ وہ خاص ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہونے کا نام ہے، اس کا ثبوت یہ ہے کہ شہید لوگ اپنے قتل وموت کے بعد زندہ رہتے ہیں، روزی دیے جاتے ہیں ، ہشاش بشاش رہتے ہیں اور یہ صفت دنیا میں زندوں کی ہے اور جب یہ حال شہداء کا ہے تو انبیاء علیہ السلام بدرجہ اولیٰ اس کے مستحق ہیں. یہ بات بھی پایۂ صحت کو پہنچ چکی ہے کہ زمین انبیاء کرامؑ کے اجسام کو نہیں کھاتی، نیز آنحضرتؐ نے شب معراج میں انبیاءؑ سے بیت المقدس اور آسمان پر ملاقات کی اور حضرت موسیٰؑ کو دیکھا کہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں اور خود آپؐ نے فرمایا کہ"جو شخص مجھ پر سلام بھیجے گا ، میں اس کو اس کے سلام کا جواب دوں گا". اس کے علاوہ اور بھی روایات ہیں. ((ان سب کے مجموعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انبیاءؑ کی موت کا مآل صرف یہ ہے کہ وہ ہم سے اس طرح غائب ہیں کہ ہم ان کو نہیں پاسکتے گو زندہ وموجود ہیں اور ان کا حال فرشتوں کے جیسا ہے کہ وہ زندہ وموجود ہیں ہم میں سے کوئی ان کو نہیں دیکھتا بجز ان اولیاء کرامؒ کے جن کو الله تعالیٰ نے اپنی کرامات کے ساتھ مخصوص فرمایا ہے)).
[المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم-أبو العباس القرطبي (م656ھ) : ج6 / ص 232]
آپؒ یہ بھی فرماتے ہیں :
حياة النبي صلى الله عليه وسلم في قبره هو وسائر الأنبياء معلومة عندنا علما قطعيا لما قام عندنا من الأدلة في ذلك وتواترت [به] الأخبار ، وقد ألف البيهقي جزءا في حياة الأنبياء في قبورهم ، فمن الأخبار الدالة على ذلك
نبی اقدس ﷺ اور دوسرے انبیاء (علیھم السلام) کا اپنی اپنی قبر میں(یعنی برزخی) حیات ہونا ہمیں یقینی طور پر معلوم ہے، اس لئے کہ ہمارے نزدیک اس پر دلائل قائم ہیں اور اس مسئلہ پر اور اس مسئلہ پر دلالت کرنے والی روایات ہمارے نزدیک متواتر ہیں.
اس آیت کے بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے فرمایا:
اور جب یہ ثابت ہوا کہ وہ زندہ ہیں نقل کے لحاظ سے تو اس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ قرآن کی نص(واضح بیان) کے مطابق شہداء زندہ ہیں اور انبیاء شہداء سے افضل ہیں۔
[فتح الباري لابن حجر: جلد 6ص448 الناشر: دار المعرفة - بيروت، ١٣٧٩]
حضرت راشد بن حبیش سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ حضرت عبادہ بن صامتؓ کی عیادت کے لئے ان کے یہاں تشریف لائے تو فرمایا کہ کیا تم لوگ جانتے ہو کہ میری امت کے شہید کون لوگ ہیں؟ لوگ خاموش رہے، حضرت عبادہ نے لوگوں سے کہا کہ مجھے سہ ارادے کر بٹھادو، لوگوں نے بٹھادیا، وہ کہنے لگے: یا رسول اللہ! جو شخص صابر اور اس پر ثواب کی نیت رکھے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اس طرح تو میری امت کے شہداء بہت تھوڑے رہ جائیں گے۔ اللہ کے راستے میں قتل ہوجانا بھی شہادت ہے، طاعون میں مرجانا بھی شہادت ہے، دریاء میں غرق ہوجانا بھی، اور پیٹ کی بیماری میں بھی مرنا بھی شہادت ہے، اور نفاس کی حالت میں مرنے والی عورت کا اس کا بچہ اپنے ہاتھ سے کھینچ کر جنت میں لے جائے گا۔(یعنی وہ عورت بھی شہید ہے جو حالت نفاس میں پیدائش کی تکلیف برداشت نہ کرسکے اور فوت ہوجائے۔)
ابوعوام نامی راوی نے اس میں
بیت المقدس کے کنجی برادر، جل کر مرنے والے، اور سیلاب میں مرنے والوں کو بھی شامل کیا ہے۔
گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
[مسند احمد : حدیث نمبر 15998 (15428)]
اس حدیثِ پاک میں بیان کیا گیا کہ شہادت جو کہ ایک عظیمُ الشّان منصب ہے وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑتے ہوئے جان دینے کے علاوہ بھی بعض صورتوں میں حاصل ہوتا ہے ، یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑتے ہوئے جان دینے کو شہادتِ حقیقیہ سے مَوسُوم کیا جاتا ہے جبکہ اس کے علاوہ کو شہادتِ حُکمیہ کہا جاتا ہے۔
اور درحقیقت یہ دو قسمیں دنیاوی اَحکام کے اعتبار سے ہیں؛ چناں چہ ’’حقیقی شہید‘‘ وہ کہلاتا ہے جس پر شہید کے دنیاوی احکام لاگو ہوتے ہیں، یعنی اس کو غسل وکفن نہیں دیا جائے گا، اور جنازہ پڑھ کر اُن ہی کپڑوں میں دفن کر دیا جائے جن میں شہید ہوا ہے، مثلاً: اللہ کے راستہ میں شہید ہونے والا، یا کسی کے ہاتھ ناحق قتل ہونے والا بشرطیکہ وہ بغیر علاج معالجہ اور وصیت وغیرہ اسی جگہ دم توڑجائے اور اس پر زخمی ہونے کے بعد دم توڑنے تک ایک نماز کا وقت نہ گزرا ہو۔ نیز یہ بھی ضروری ہے کہ یہ قتلِ ناحق ایسا ہو کہ اصولًا اس کے قاتل پر قصاص واجب ہوتا ہو، یعنی آلۂ قتل سے قصدًا قتل کیا ہو۔
اور ’’حکمی شہید‘‘ وہ کہلاتا ہے جس کے بارے میں احادیث میں شہادت کی بشارت وارد ہوئی ہو، ایسا شخص آخرت میں تو شہیدوں کی فہرست میں شمار کیا جائے گا، البتہ دنیا میں اس پر عام میتوں والے اَحکام جاری ہوں گے، یعنی اس کو غسل دیا جائے گا، اور کفن بھی دیا جائے گا۔ متفرق احادیث میں ایسے شہداء کی چالیس سے زیادہ قسمیں مذکور ہیں،تمام اقسام کےاحاطے کی یہاں گنجائش نہیں، ان میں سے چند یہ ہیں:
ڈوب کر موت آئے یا کسی آسمانی آفت میں اس کی موت آجائے یا ہیضہ، طاعون یا دیگر ایسے اسباب سے اس کی موت واقع ہو یا مسافر کا سفر میں انتقال ہوجائے وغیرہ۔
علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ نے حاشیہ رد المحتار میں تمام اقسام کو جمع کیا ہے ، جس کا لب لباب ڈاکٹر عبدالحئی عارفی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’احکامِ میت‘‘ میں ذکر کیا ہے، وہاں ملاحظہ کرلیا جائے۔
جہاں تک اجر و ثواب کی بات ہے اس کی بنیاد پر یہ دو قسمیں نہیں ہیں۔ بعض شہیدِ حکمی اجر و ثواب میں شہیدِ حقیقی کے ساتھ شامل ہوں گے، اور بعض شہیدِ حکمی کا اجر شہیدِ حقیقی سے کم بھی ہوسکتاہے۔ مثلاً جو شخص میدانِ جہاد میں کفار سے لڑتے ہوئے جان دے دے، لیکن دم توڑنے سے پہلے اسے علاج و معالجہ وغیرہ کی سہولت حاصل ہوجائے، یا اپنے علاقے میں ظلماً اس پر قاتلانہ حملہ ہوجائے اور وہ زخمی ہوکر علاج و غذا سے مستفید ہو اور پھر جان دے دے تو اس طرح کی صورتوں میں وہ حقیقی شہید کے درجات کا ہی مستحق ہوگا، مثلاً: حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت وغیرہ۔
جب کہ شہیدِ حکمی کی بعض صورتیں وہ ہیں جو عام مسلمان اموات کے مقابلے میں فضیلت کی وجہ سے شہید کہلائے، مثلاً: طاعون میں یا پیٹ کے درد میں مرنے والا، یا بچہ جنتے ہوئے عورت جان دے دے وغیرہ۔
ظاہر ہے کہ قرآنِ مجید اور اَحادیثِ مبارکہ میں جہاں شہداء کے فضائل ہیں ان کا سیاق و سباق بتاتا ہے کہ یہ فضائل شہداء فی سبیل اللہ کے لیے ہیں، اور جہاں احادیثِ مبارکہ میں شہداءِ حکمی کا بیان ہے وہاں ان کی خصوصیت کا بیان ہے، الغرض نصوص میں جو اجر و ثواب جس قسم کے شہید کے لیے بیان کیا گیا ہے، اس اجر و ثواب کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید رکھی جائے گی کہ یہ شہید اس اجر کا مستحق ہے، اور ان فضائل کو اس شہید کے لیے بیان کیا جاسکتاہے، اور جہاں ضرورت ہو بیان بھی کرنا چاہیے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کے تحفظ، دفاع اور نصرت کے لیے جو شخص اپنے جان و مال کی قربانی دیتے ہوئے میدانِ جہاد میں شہید ہو اس کی فضیلت زیادہ بلند اور سِوا ہوگی، اس کے مقابلے میں جو طاعون یا پیٹ کے درد وغیرہ میں یا چھت سے گر کر مرجائے۔ لیکن ہر ہر شہید کو ہر فضیلت حاصل ہو، یہ ضروری بھی نہیں ہے، اور اس کا دعویٰ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ آخرت کے اَحکام اور اجر و ثواب کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردینا چاہیے۔
*ذکر دعا و استغفار کا بیان:*
حضرت عائشہ بنت قدامہؓ سے روایت ہے کہ میں نے سنا رسول اللہ ﷺ کو (یہ دعا) کہتے:
تلقین کیا کرواپنے مردوں کو لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُکی(یعنی نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے) ، کیونکہ یہ گناہوں کو یوں گرادیتا ہے جیسے سیلاب عمارتوں کو لوگوں نے عرض کی کیسے یہ تو زندوں کے لیے ہے؟ آپ نے فرمایا: بس گرادیتا ہے گرادیتا ہے۔
[معرفة الصحابة لأبي نعيم:5488، أسد الغابة في معرفة الصحابة:3658، جامع المسانيد والسنن-ابن كثير:7451]