یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو لا تعداد نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سے عظیم نعمت انسانی جان ہے۔انسانی جان کو شریعت میں اتنی اہمیت حاصل ہے کہ ایک شخص کے قتل کو تمام انسانیت کا قتل اور ایک جان بچانے کو تمام انسانیت کا بچانا کہا گیا ہے۔‘‘جان’’اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اس لیے خود کشی کرنے اور خود کو ہلاک میں ڈالنے کی شریعت میں انتہائی مذمت کی گئی ہے تاہم اسلام کے دفاع کے لیے، اللہ تعالیٰ کے کلمہ کی سربلندی کے لیے اور مسلمانوں کی جان ،مال،عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے اگر کوئی شخص اپنی جان قربان کر دے تو اس کے لیے جنت کی بشارت ہے اور ایسے شخص کو ’’شہید‘‘کہا جاتا ہے۔ہر قوم و مذہب میں کسی عظیم مقصد کے لیے اپنی جان قربان کرنے اور شہید ہونے کا تصور پایا جاتا ہے۔ انسان کی زندگی میں بعض اشیاء اس کے نزدیک اس قدر محبوب ہوتی ہیں کہ وہ ان کی خاطر اپنی جان دینے اور دوسرے کی جان لینے سے گریز نہیں کرتا۔وہ شخص جو اپنی قوم ،مذہب یا سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنی جان قربان کر دے اسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس کا اس قدر احترام کیا جاتا ہے آئندہ آنے والی نسلیں اس کے طریقے کو اختیار کرتے ہوئے اپنی جان قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق شہادت ایک عظیم رتبہ ہے جس کی بدولت شہید کو اللہ کی رضا کا مقام جنت عطا ہوتا ہے۔مقام شہادت اس قدر لائق تعظیم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خود شہادت کی تمنا کا اظہار ان کلمات سے فرمایا:
’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے میں یہ اس بات سے شدید محبت کرتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں جہاد کروں پھر شہید کردیا جاؤں پھر جہاد کروں پھر شہید کردیا جاؤں پھر جہاد کروں پھر شہید کر یا جاؤں۔‘‘
[صحيح مسلم:1876، سنن ابن ماجه:2753]
نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق شہادت کی حقیقت یہ ہے کہ ایک مسلمان اللہ کے کلمہ کی سربلندی کے لیے خلوص نیت کے ساتھ اللہ کے لیے اپنی جان قربان کر دے۔جس طرح قربانی کے جانور میں اللہ کو جانور کا گوشت و خون مطلوب نہیں ہوتا اسی طرح شہات میں بھی خون نہیں بلکہ اخلاص اور رضا و تسلیم مطلوب ہے جس کے پیش نظر ایک مجاہد اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کرتا ہے۔اسی لیے قیامت کے دن ان لوگوں کا خون رائیگاں جائے گا جنہوں نے خود کو شہید کہلوانے کے لیے دنیاوی مقاصد کے تحت اپنی جان دی ہو گی اور اللہ رب العزت کے نزدیک آخرت میں ان کے لیے کوئی جزاء نہ ہوگی۔
کیا کرے گا اللہ تمہیں عذاب دیکر، اگر تم شکر کرو، اور ایمان لاؤ؟ اور ہے اللہ قدردان خوب جاننے والا۔
[سورۃ النساء:147]
تشریح:
اس قدر رحمت ومحبت سے پُر نرم الفاظ ، عظیم اللہ کی طرف سے، جو ہر چیز کا خالق، مالک، رب، سب جاننے والا، مکمل قدرت والا، ہر کام بنانے والا ، سب پر رحم کرنے والا ہے۔
اس ذات کی عظمت ومنزلت جاننے-پہچاننے سے ہی شکر اور ایمان میں ترقی ہوتی رہتی ہے۔
لہٰذا علاجِ شکر اور ایمان کو سمجھیں اور مومن وشکرگذار رہیں۔
فرض نمازوں کے بعد امام و مقتدی کا دعا کرنا احادیثِ نبویہ و روایات فقہیہ سے ثابت ہے جو کہ سنتِ مستحبہ ہے، لہٰذا اس کو بدعت سمجھنا درست نہیں، مگر اس اجتماع کو لازم سمجھنا اور جو ایسا نہ کرے اسے بنظرِ حقارت دیکھنا وغیرہ درست نہیں، اس سے احتراز چاہیے۔
جس کو اللہ عزوجل سے حاجت ہو وہ اسے ہر فرض نماز کے بعد دعا مانگے۔
[مسند المقلين من الأمراء والسلاطين-تمام بن محمد الدمشقي:6]
امام کا دعا کے لئے اپنے آپ کو مخصوص کرنا مکروہ ہے:
حضرت ثوبان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی کے گھر کے اندر جھانک کر دیکھے جب تک کہ گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ لے لے۔ اگر اس نے (جھانک کر) دیکھا تو گویا وہ اندر داخل ہوگیا۔ اور کوئی لوگوں کی امامت اس طرح نہ کرے کہ ان کو چھوڑ کر دعا کو صرف اپنے لیے خاص کرے، اگر اس نے ایسا کیا تو اس نے ان سے خیانت کی، اور نہ کوئی نماز کے لیے کھڑا ہو اور حال یہ ہو کہ وہ پاخانہ اور پیشاب کو روکے ہوئے ہو۔
[سنن الترمذي:357، سنن ابوداؤد:90، سنن ابن ماجة:923]
جماعت کے بعد امام کا دائیں، بائیں یا مقتدیوں کی جانب رُخ کر کے بیٹھنا:
جابر بن یزید بن اسود العامری اپنے والد (حضرت اسود العامریؓ) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فجر کے وقت نماز پڑھی، اور جب آپ ﷺ نے سلام فرمایا تو آپ (نمازیوں کی طرف) مڑ گئے۔ اور اپنے ہاتھوں کو اٹھایا اور دعا فرمائی۔
صحيح؛ جابر ثقة، أخرجه أحمد (1474)، وأبو داود (614)، والترمذي (219)، والنسائي 2/ 112، وابن خزيمة (1279)، وابن حبان (1565)، والحاكم 1/ 414، والطيالسي (1564)، وابن أبي عاصم في الآحاد (1462)، والدارمي (1367)، والطبراني 22/ 614، وعبد الرزاق (3934)، والدارقطني 1/ 413، والبيهقي 2/ 301، وابن نافع 3/ 222
حضرت مطلب ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: نماز دو دو رکعت ہے، اس طرح کہ تم ہر دو رکعت کے بعد تشہد پڑھو اور پھر اپنی محتاجی اور فقر و فاقہ ظاہر کرو اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگو اور کہو: اے میرے اللہ! اے میرے اللہ! جس نے ایسا نہیں کیا (یعنی دل نہ لگایا، اور اپنی محتاجی اور فقر و فاقہ کا اظہار نہ کیا) تو اس کی نماز ناقص ہے۔
[سنن أبي داود:1296، السنن الكبرى-النسائي:619-1445،مسند أبي داود الطيالسي:1463، مسند ابن الجعد:1568، مسند أحمد:17523-17528-17529، صحيح ابن خزيمة:1212، سنن الدارقطني:1548، السنن الكبرى - البيهقي:4578]
حضرت فضل بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نماز دو دو رکعت ہے اور ہر دو رکعت کے بعد تشہد ہے، نماز خشوع و خضوع، مسکنت اور گریہ وزاری کا اظہار ہے، اور تم اپنے دونوں ہاتھ اٹھاؤ۔ یعنی تم اپنے دونوں ہاتھ اپنے رب کے سامنے اٹھاؤ اس حال میں کہ ہتھیلیاں تمہارے منہ کی طرف ہوں اور کہہ: یا رب! یا رب! اور جس نے ایسا نہیں کیا وہ ایسا ایسا ہے۔
[سنن الترمذي:385، السنن الكبرى-النسائي:618-1444، الزهد والرقائق - ابن المبارك:1152، مسند ابن المبارك:53، مسند أحمد:1799-17525، مسند البزار:2169، مسند أبي يعلى:6738،صحيح ابن خزيمة:1213، المعجم الكبير للطبراني:757، المعجم الأوسط للطبراني:8632، الدعاء - الطبراني:210، السنن الكبرى - البيهقي:4577, ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:954]
حضرت مطلب بن ابی وداعہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: رات کی نماز دو دو رکعت ہے، اور ہر دو رکعت کے بعد تشہد ہے، اور اللہ کے سامنے اپنی محتاجی و مسکینی ظاہر کرنا، اور دعا مانگنا، اور کہنا ہے کہ اے اللہ! مجھ کو بخش دے۔ جو کوئی ایسا نہ کرے (یعنی اپنی محتاجی اور فقر و فاقہ ظاہر نہ کرے تو) اس کی نماز ناقص ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سلام پھیرنے کے بعد قبلے کی طرف منہ کئے ہوئے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی: اے اللہ! ولید بن ولید کو عیاش بن ابو ربیعہ کو، سلمہ بن ہشام کو اور تمام ناتواں بےطاقت مسلمانوں کو اور جو بےحیلے کی طاقت رکھتے ہیں نہ راہ پانے کی کافروں کے ہاتھوں سے نجات دے۔