کر کرنے والا رمضان میں بخشا ہوا ہے اور اس (رمضان) میں اللہ تعالیٰ سے سوال کرنے والا کبھی نامراد نہیں ہوتا۔
حوالہ
ذَاكِرُ اللهِ فِي رَمَضَانَ يُغْفَرُ لَهُ، وَسَائِلُ اللهِ فِيهِ لَا يَخِيبُ۔
[شعب الایمان:3355، المعجم الاوسط:7341]
القرآن:
۔۔۔اور یقیناً اللہ کی یاد سب سے بڑی (چیز) ہے۔۔۔
[سورۃ العنکبوت:45]
*************************
تمہید
بِسْمِ الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحمَدُہٗ وَنُصَلِّيْ عَلیٰ رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ، وَعَلیٰ اٰلِہٖ وَأَصحَابِہٖ وَأَتبَاعِہٖ حَمَلَۃِ الدِّینِ القَوِیمِ.
اللہ جَلَّ جَلالُہٗ عَمَّ نَوالُہٗ کے پاک نام میں جو برکت، لَذَّت، حَلاوَت، سُرور [مزا]، طَمانِینَت ہے وہ کسی ایسے شخص سے مَخفِی[پوشیدہ] نہیں جو کچھ دن اِس پاک نام کی رَٹ لگا چُکا ہو، اور ایک زمانے تک اِس کو حِرزِ جان[جان کی غذا، بہت پیارا] بناچکا ہو۔ یہ پاک نام دِلوں کا سُرور اور طَمانِینَت کا باعِث [سبب]ہے، خود حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کا ارشاد ہے:
﴿أَلَا بِذِکرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ﴾
[سورۃ الرعد:28،ع:۴]
ترجَمہ:
خوب سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر (میں یہ خاصِیت ہے کہ اِس) سے دِلوں کو اطمینان ہوجاتا ہے۔
آج کل عام طور سے عالَم میں پریشانی ہے، روزانہ ڈاک میں اَکثر وبَیش تَر مختلف نَوع[قِسم] سے پریشانیوں ہی کا تذکرہ اور تفکُّرات ہی کی داستان ہوتی ہے، اِس رسالے کا مقصد یہی ہے کہ جو لوگ پریشان حال ہیں - خواہ اِنفِرادی طور پر یا اِجتِماعی طریقے سے - اُن کو اپنے دَرد کی دوا معلوم ہوجائے، اور اللہ کے ذکر کے فضائل کی عام اِشاعت[پھیلانا] سے سَعید ومبارک ہَستیاں بَہرہ مَند[فائدہ مند] ہوجائیں۔ کیا بعید ہے کہ اِس رسالے کے دیکھنے سے کسی کو اِخلاص سے اِس پاک نام کے لینے کی توفیق ہوجائے! اور یہ مجھ ناکارہ و بے عمل کے لیے بھی ایسے وقت میں کام آجائے جس وقت صِرف عمل ہی کام آتا ہے، باقی اللہ تعالیٰ بِلاعمل بھی اپنے فَضل سے کسی کی دَستگِیری [مدد] فرمالیں یہ دوسری بات ہے۔
اِس کے عِلاوہ اِس وقت ایک خاص مُحرِّک[اُکسانے والا] یہ بھی پیش آیا کہ، حق تَعَالیٰ شَانُہٗٗ عمَّ نَوالُہٗ نے اپنے لُطف واحسان سے میرے عمِّ محترم حضرت مولانا الحافظ الحاج محمد الیاس صاحب کاندھلوی - مقیم نظام الدین دہلی - کو تبلیغ میں ایک خاص مَلکہ[مَہارت] اور جذبہ عطا فرمایا ہے، جس کی وہ سَرگرمیاں جو ہِند سے مُتجاوِز[آگے بڑھنا] ہوکر حِجاز تک بھی پہنچ گئی ہیں کسی تعارُف کی محتاج نہیں رہِیں، اِس کے ثمرات سے ہند و بیرون ہند عموماً اور خطۂ میوات خُصوصاً جس قدر مُتمتِّع [فائدہ اٹھانے والا] اور مُنتفع ہوا اور ہورہا ہے، وہ واقِفین سے مَخفی نہیں، اُن کے اُصولِ تبلیغ سب ہی نہایت پُختہ، مضبوط اور ٹھوس ہیں، جن کے لیے عادۃً ثمرات وبرکات لازم ہیں، اُن کے اہم تَرِین اُصول میں سے یہ بھی ہے کہ: مُبلِّغین ذکر کا اہتمام رکھیں، اور بِالخُصوص تبلیغی اَوقات میں ذکرِ الٰہی کی کثرت کی جائے۔ اِس ضابطے کی برکات آنکھوں سے دیکِھیں، کانوں سے سُنِیں، جس کی وجہ سے اِس کی ضرورت خود بھی محسوس ہوئی اور آںمَخدُوم کا بھی ارشاد ہوا کہ: فضائلِ ذکر کو اِن لوگوں تک پہنچایا جائے؛ تاکہ جو لوگ مَحض تعمیلِ ارشاد[حکم کو پورا کرنے] میں اب تک اِس کا اِہتمام کرتے ہیں وہ اِس کے فضائل معلوم ہونے کے بعد خود اپنے شوق سے بھی اِس کا اہتمام کریں، کہ اللہ کا ذکر بڑی دولت ہے۔ اِس کے فضائل کا اِحاطہ[گھیرنا] نہ تو مجھ جیسے بے بِضاعت[بے حوصلہ] کے اِمکان میں ہے اور نہ واقع میں ممکن ہے؛ اِس لیے مختصر طور پر اِس رسالے میں چند روایات ذکر کرتا ہوں، اور اُس کو تین بابوں پر مُنقَسِم[تقسیم] کرتا ہوں:
بابِ اوَّل: مُطلَق ذِکر کے فضائل میں۔
بابِ دوم: اَفضلُ الذِّکر کلمۂ طیبہ کے بیان میں۔
بابِ سوم: کلمۂ سویم یعنی تسبیحاتِ فاطمہؓ کے بیان میں۔
بابِ اوّل
فضائل ذکر
اللہ تَعَالیٰ شَانُہٗ کے پاک ذکر میں اگر کوئی آیت یا حدیثِ نبوی ﷺ نہ بھی وَارِد ہوتی تب بھی اُس مُنعمِ حقیقی[حقیقی انعام کرنے والا] کا ذکر ایسا تھا کہ، بندے کو کسی آن[وقت] بھی اِس سے غافل نہ ہونا چاہیے تھا، کہ اُس ذات پاک کے اِنعام واحسان ہر آن[وقت] اِتنے کثیر ہیں جن کی نہ کوئی اِنتِہا ہے نہ مثال؛ ایسے مُنعِم کا ذکر، اُس کی یاد، اُس کا شکر، اُس کی اِحسان مَندی فِطری چیز ہے:
خداوَندِ عالَم کے قربان مَیں
کَرم جس کے لاکھوں ہیں ہر آن میں
لیکن اِس کے ساتھ جب قرآن وحدیث اور بزرگوں کے اَقوال واَحوال اِس پاک ذکر کی ترغیب وتَحرِیض[اُبھارنا] سے بھرے ہوئے ہیں تو پھر کیا پوچھنا ہے اِس پاک ذکر کی برکات کا! اور کیا ٹھکانہ ہے اِس کے اَنوار کا! تاہم اوَّل چند آیات پھر چند احادِیث اِس مبارک ذکر کے مُتعلِّق پیش کرتا ہوں:
فصلِ اوّل آیاتِ ذکر میں
(۱) فَاذْکُرُوْنِيْ أَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِي وَلَاتَکْفُرُوْنِ. [سورۃ البقرۃ:152]
ترجَمہ:
پس تم میری یاد کرو (میرا ذکر کرو) مَیں تمھیں یاد رکھوں گا، اور میرا شکر ادا کرتے رہو اور ناشکری نہ کرو۔
(۲) فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْکُرُوْا اللہَ عِنْدَ المَشْعَرِ الحَرَامِ، وَاذْکُرُوْہُ کَمَا هَدٰکُمْ وَإِنْ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّالِّیْنَ.
[سورۃ البقرۃ:108]
ترجَمہ:
پھر جب تم (حج کے موقع پر) عرفات سے واپس آجاؤ تو مُزدَلَفہ میں (ٹھہر کر) اللہ کو یاد کرو، اور اِس طرح یاد کرو جس طرح تم کو بتلا رکھا ہے؛ درحقیقت تم اِس سے پہلے محض ناواقف تھے۔
(۳) فَإِذَا قَضَیْتُمْ مَنَاسِکَکُمْ فَاذْکُرُوا اللہَ کَذِکْرِکُمْ اٰبَآئَ کُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِکْراً، فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَا اٰتِنَا فِيْ الدُّنْیَا، وَمَا لَہٗ فِي الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ. وَمِنہُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَا اٰتِنَا فِي الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِيْ الاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ، أُولٰئِکَ لَہُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا کَسَبُوْا، وَاللہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ.
[سورۃ البقرۃ:202]
ترجَمہ:
پھر جب تم حج کے اعمال پورے کرچکو تو اللہ کا ذکر کیا کرو جس طرح تم اپنے آباء (واجداد) کا ذکر کیا کرتے ہو، (کہ اُن کی تعریفوں میں رَطبُ اللِّسان ہوتے ہو)؛ بلکہ اللہ کا ذکر اِس سے بھی بڑھ کر ہونا چاہیے، پھر (جو لوگ اللہ کو یاد بھی کرلیتے ہیں) اُن میں سے بعض تو ایسے ہیں جو اپنی دُعاؤں میں یوں کہتے ہیں: اے پروردگار! ہمیں تو دنیا ہی میں دے دے (سو اُن کو تو جو ملنا ہوگا دنیا ہی میں مل جائے گا) اور اُن کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اور بعض آدمی یوں کہتے ہیں کہ: اے ہمارے پروردگار! ہم کو دنیا میں بھی بہتری عطا فرما اور آخرت میں بھی بہتری عطا کر، اور ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچا، سو یہی ہیں جن کو اُن کے عمل کی وجہ سے (دونوں جہاں میں)حصہ ملے گا، اور اللہ جلدی ہی حساب لینے والے ہیں۔
فائدہ:
حدیث میں آیا ہے کہ: تین شخصوں کی دُعا رَد نہیں کی جاتی؛ (بلکہ ضرور قَبول ہوتی ہے): ایک وہ جو کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہو، دوسرے مَظلُوم، تیسرے وہ بادشاہ جو ظلم نہ کرتا ہو۔
(جامعُ الصَّغِیر۔۔۔۔۔۔)
(۴) وَاذْکُرُوا اللہَ فِيْ أَیَّامٍ مَّعْدُوْدَاتٍ.
[ البقرۃ:203،ع:۲۵]
ترجَمہ:
اور(حج کے زمانے میں مِنیٰ میں بھی ٹھہر کر) کئی روز تک اللہ کو یاد کیا کرو (اُس کا ذکر کیا کرو)۔
(۵) وَاذْکُرْ رَبَّکَ کَثِیْراً وَّسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالإِبْکَارِ.
[اٰل عمران:41، ع:۴]
ترجَمہ:
اور کثرت سے اپنے رب کو یاد کیا کیجیے، اور صبح شام تسبیح کیا کیجیے۔
(۶) اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُونَ اللہَ قِیَاماً وَقُعُوداً وَّعَلیٰ جُنُوبِہِمْ، وَیَتَفَکَّرُونَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالأَرْضِ، رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذا بَاطِلًا، سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ.
[اٰل عمران:191، ع:۲۰]
ترجَمہ:
(پہلے سے عقل مَندوں کا ذِکر ہے)وہ ایسے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں کھڑے بھی اور بیٹھے بھی اور لیٹے ہوئے بھی، اور آسمانوں اور زمینوں کے پیدا ہونے میں غور کرتے ہیں، (اور غور کے بعد یہ کہتے ہیں)کہ: اے ہمارے رب! آپ نے یہ سب بے کار تو پیدا کیا نہیں، ہم آپ کی تسبیح کرتے ہیں، آپ ہم کو عذابِ جہنَّم سے بچا لیجیے۔
(۷) فَإِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلوٰۃَ فَاذْکُرُوا اللہَ قِیَاماً وَّقُعُوْداً وَّعَلیٰ جُنُوْبِکُمْ.
[النساء:103 ع:۱۵]
ترجَمہ:
جب تم نمازِ (خوف، جس کا پہلے سے ذکر ہے)پوری کرچکو تو اللہ کی یاد میں مشغول ہوجاؤ کھڑے بھی، بیٹھے بھی اور لیٹے بھی،(کسی حال میں بھی اُس کی یاد اور اُس کے ذکر سے غافل نہ ہو)۔
(۸) وَإِذَا قَامُوْا إلَی الصَّلوٰۃِ قَامُوْا کُسَالیٰ، یُرَاءُ وْنَ النَّاسَ وَلَا یَذْکُرُوْنَ اللہَ إِلَّا قَلِیْلًا.
[النساء:142،ع:۲۱]
ترجَمہ:
(مُنافِقوں کی حالت کابیان ہے) اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بہت ہی کاہِلی(سُستی) سے کھڑے ہوتے ہیں، صرف لوگوں کو اپنا نمازی ہونا دِکھلاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کا ذِکر بھی نہیں کرتے مگر یوں ہی تھوڑا سا۔
(۹) إِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ أَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ، وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللہِ وَعَنِ الصَّلوٰۃِ، فَہَلْ أَنْتُمْ مُنْتَہُوْنَ.
[المائدۃ:91،ع: ۱۲]
ترجَمہ:
شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جُوئے کے ذریعے سے تم میں آپس میں عَداوَت(دشمنی) اور بُغض(کِینہ) پیدا کردے، اور تم کو اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے، بتاؤ اب بھی (اِن بُری چیزوں سے)باز آجاؤگے؟۔
(۱۰) وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدوٰۃِ وَالْعَشِيِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ.
[الأنعام،ع:۶]
ترجَمہ:
اور اُن لوگوں کو اپنی مجلس سے علاحدہ نہ کیجیے جو صبح شام اپنے پروردگار کو پُکارتے رہتے ہیں، جس سے خاص اُس کی رَضا(خوشی) کا اِرادہ کرتے ہیں۔
(۱۱) وَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ.
[الأعراف:29، ع:۳]
ترجَمہ:
اور پُکارا کرو اُس کو (یعنی اللہ کو) خالص کرتے ہوئے اُس کے لیے دِین کو۔
(۱۲) ادْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْیَۃً، إِنَّہُ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ. وَلَا تُفْسِدُوْا فِيْ الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوہُ خَوْفاً وَّطَمَعاً، إِنَّ رَحْمَتَ اللہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ.
[الأعراف:55-56، ع:۷]
ترجَمہ:
تم لوگ پکارتے رہو اپنے رَب کو عاجزی کرتے ہوئے اور چپکے چپکے (بھی)، بے شک حق تَعَالیٰ شَانُہٗ حد سے بڑھنے والوں کو ناپسند کرتے ہیں، اور دنیا میں بعد اِس کے کہ اُس کی اِصلاح کردی گئی فَساد نہ پھیلاؤ، اور اللہ جَلَّ شَانُہٗ کو پکارا کرو خوف کے ساتھ (عذاب سے)،اور طَمع کے ساتھ (رحمت میں)؛ بے شک اللہ کی رحمت اچھے کام کرنے والوں کے بہت قریب ہے۔
(۱۳) وَلِلّٰہِ الأَسْمَآئُ الْحُسْنیٰ فَادْعُوْہُ بِہَا.
[الأعراف:180، ع:۲۳]
ترجَمہ:
اللہ ہی کے واسطے ہیں اچھے اچھے نام، پس اُن کے ساتھ اللہ کو پکارا کرو۔
(۱۴) وَاذْکُر رَّبَّکَ فِيْ نَفْسِکَ تَضَرُّعاً وَّخِیْفَۃً وَّدُونَ الْجَہْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالآصَالِ، وَلَا تَکُن مِّنَ الْغَافِلِیْنَ.
[الأعراف:205، ع:۲۴]
ترجَمہ:
اور اپنے رب کی یاد کیا کر اپنے دل میں اور ذرا دھیمی آواز سے بھی، اِس حالت میں کہ عاجزی بھی ہو اور اللہ کا خوف بھی ہو، (ہمیشہ)صبح کو بھی اور شام کو بھی، اور غافِلین میں سے نہ ہو۔
(۱۵) إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِیْنَ إِذَا ذُکِرَ اللہُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ، وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ آیَاتُہُ زَادَتْہُمْ إِیْمَاناً، وَّعَلیٰ رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ.
[الأنفال:2، ع:۱]
ترجَمہ:
ایمان والے تو وہی لوگ ہیں کہ جب اُن کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو (اُس کی بَڑائی کے تصوُّر سے) اُن کے دِل ڈر جاتے ہیں، اور جب اُن پر اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو اُن کے ایمان کو بڑھادیتی ہیں، اور وہ اپنے اللہ پر توکُّل کرتے ہیں۔ (آگے اُن کی نماز وغیرہ کے ذکر کے بعد ارشاد ہے:) یہی لوگ سچے ایمان والے ہیں، اِن کے لیے بڑے بڑے درجے ہیں اِن کے رب کے پاس، اور مغفرت ہے اور عزَّت کی روزی ہے۔
(۱۶) وَیَہْدِيْ إِلَیْہِ مَنْ أَنَابَ، الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُہُم بِذِکْرِ اللہِ، أَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ.
[الرعد:28، ع:۴]
ترجَمہ:
اور جو شخص اللہ کی طرف مُتوجَّہ ہوتا ہے اُس کو ہدایت فرماتے ہیں، وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اللہ پر ایمان لائے، اور اللہ کے ذکر سے اُن کے دِلوں کو اطمینان ہوتا ہے، خوب سمجھ لو کہ اللہ کے ذِکر میں ایسی خاصِیت ہے کہ اِس سے دِلوں کو اطمینان ہوجاتا ہے۔
(۱۷) قُلِ ادْعُوااللہَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـنَ، أَیًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الأَسْمَاءُ الْحُسْنیٰ.
[الإسراء:110، ع: ۱۲]
ترجَمہ:
آپ فرمادیجیے کہ: خواہ اللہ کہہ کر پکارو یا رَحمن کہہ کر پکارو، جس نام سے بھی پکاروگے (وہی بہتر ہے)؛ کیونکہ اُس کے لیے بہت سے اچھے اچھے نام ہیں۔
(۱۸) وَاذْکُرْ رَبَّکَ إِذَا نَسِیْتَ.
[الکہف:24، ع:۴]
وفي مسائل السلوك: فیہ مطلوبیۃ الذکر ظاہرٌ.
ترجَمہ:
اور جب آپ بھول جاویں تو اپنے رب کا ذِکر کرلیجیے۔
(۱۹) وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِيِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہُ، وَلَا تَعْدُ عَیْنَاکَ عَنْہُمْ تُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا، وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ، وَکَانَ أَمْرُہُ فُرُطاً. [الکہف:28، ع:۴]
ترجَمہ:
آپ اپنے کو اُن لوگوں کے ساتھ (بیٹھنے کا) پابند رکھا کیجیے جو صبح شام اپنے رب کو پکارتے رہتے ہیں محض اُس کی رَضاجوئی[خوشی] کے لیے، اور محض دُنیا کی رونق کے خیال سے آپ کی نظر (یعنی توجُّہ) اُن سے ہٹنے نہ پاوے، (رونق سے یہ مراد ہے کہ رَئیس[مال دار] مسلمان ہوجائیں تو اِسلام کو فَروغ ہو)، اور ایسے شخص کا کہنا نہ مانیں جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کر رکھا ہے، اور وہ اپنی خواہشات کا تابع ہے، اور اُس کا حال حد سے بڑھ گیا ہے۔
(۲۰) وَعَرَضْنَا جَہَنَّمَ یَوْمَئِذٍ لِّلْکٰفِرِیْنَ عَرْضاً، الَّذِیْنَ کَانَتْ أَعْیُنُہُمْ فِيْ غِطَائٍ عَن ذِکْرِيْ.
[الکہف:101، ع:۱۱]
ترجَمہ:
اور ہم دوزخ کو اُس روز(یعنی قِیامت کے دن)کافروں کے سامنے پیش کر دیں گے، جن کی آنکھوں پر ہماری یاد سے پردہ پڑا ہوا تھا۔
(۲۱) ذِکْرُرَحْمَتِ رَبِّکَ عَبْدَہٗ زَکَرِیَّا، إذْ نَادیٰ رَبَّہٗ نِدَائً خَفِیًّا.
[مریم:2-3،ع:۱]
ترجَمہ:
یہ تذکرہ ہے آپ کے پروردگار کی مہربانی فرمانے کا اپنے بندے زکریا (ں) پر، جب کہ اُنھوں نے اپنے پروردگار کو چپکے سے پُکارا۔
(۲۲) وَأَدْعُوْا رَبِّيْ عَسیٰ أَلَّا أَکُوْنَ بِدُعَائِ رَبِّيْ شَقِیًّا.
[مریم:48، ع:۳]
ترجَمہ:
اور پکارتا ہوں مَیں اپنے رب کو، (قَطعی)اُمید ہے کہ مَیں اپنے رب کو پُکار کر محروم نہ رہوں گا۔
(۲۳) إِنَّنِيْ أَنَا اللہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِيْ، وَأَقِمِ الصَّلَاۃَ لِذِکْرِيْ، إِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ أَکَادُ أُخْفِیْہَا لِتُجْزیٰ کُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعیٰ.
[طٰہٰ:15، ع:۱]
ترجَمہ:
بے شک مَیں ہی اللہ ہوں، میرے سِوا کوئی معبود نہیں، پس تم (اے موسیٰ!) میری ہی عبادت کیا کرو، اور میری ہی یاد کے لیے نماز پڑھا کرو؛ بِلاشُبہ قِیامت آنے والی ہے، مَیں اُس کو پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں؛ تاکہ ہر شخص کو اُس کے کِیے کا بدلہ مل جائے۔
(۲۴) وَلَاتَنِیَا فِي ذِکْرِيْ.
[طٰہٰ:42، ع:۳]
ترجَمہ:
(حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا السَّلَامُ کو ارشاد ہے:) اور میری یاد میں سُستی نہ کرنا۔
(۲۵) وَنُوْحاً إِذْ نَادیٰ مِنْ قَبْلُ.
[الأنبیاء:76، ع:۶]
ترجَمہ:
اور نوح(کا تذکرہ اُن سے کیجیے)جب کہ پکارا اُنھوں نے اپنے رب کو (حضرت ابراہیم ںکے قِصَّے سے)پہلے۔
(۲۶) وَأَیُّوْبَ إِذْ نَادیٰ رَبَّہٗ، أَنِّيْ مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ.
[الأنبیاء:83، ع:۶]
ترجَمہ:
اور ایوب (کا ذکر کیجیے)جب کہ اُنھوں نے اپنے رب کو پکارا، کہ مجھ کو بڑی تکلیف پہنچی اور آپ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہیں۔
(۲۷) وَذَا النُّونِ إِذ ذَّہَبَ مُغَاضِباً فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَیْہِ، فَنَادیٰ فِيْ الظُّلُمٰتِ أَن لَّا إِلٰہَ إِلَّا أَنتَ سُبْحٰنَکَ إِنِّيْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ.
[الأنبیاء:87 ،ع:۶]
ترجَمہ:
اور مچھلی والے (پیغمبر یعنی: حضرت یونس ں کا ذکر کیجیے)جب (وہ اپنی قوم سے) خَفا(ناراض) ہوکر چلے گئے، اور یہ سمجھے کہ ہم اُن پر دَارگِیر(پکڑ دھکڑ) نہ کریں گے؛ پس اُنھوں نے اندھیروں میں پکارا کہ: آپ کے سِوا کوئی معبود نہیں، آپ ہر عیب سے پاک ہیں، بے شک مَیں قُصوروَار ہوں۔
(۲۸)وَزَکَرِیَّا إِذْ نَادیٰ رَبَّہٗ، رَبِّ لَاتَذَرْنِيْ فَرْداً وَّأَنْتَ خَیْرُ الْوَارِثِیْنَ.
[الأنبیاء:89، ع: ۶]
ترجَمہ:
اور زکریا (کا ذکر کیجیے)جب اُنھوں نے اپنے رب کو پکارا کہ: اے میرے رب! مجھے لاوَارِث نہ چھوڑو، (اور یوں تو)سب وارثوں سے بہتر (اور حقیقی وَارِث) آپ ہی ہیں۔
(۲۹) إِنَّہُمْ کَانُوْا یُسَارِعُونَ فِي الْخَیْرَاتِ وَیَدْعُوْنَنَا رَغَباً وَّرَہَباً، وَّکَانُوا لَنَا خٰشِعِیْنَ.
[الأنبیاء:90،ع:۶]
ترجَمہ:
بے شک یہ سب (انبیاء جن کا پہلے سے ذکر ہورہا ہے) نیک کاموں میں دوڑتے تھے، اور پکارتے تھے ہم کو (ثواب کی) رَغبت اور (عذاب کا)خوف کرتے ہوئے، اور تھے سب کے سب ہمارے لیے عاجزی کرنے والے۔
(۳۰) وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ، الَّذِیْنَ إِذَا ذُکِرَ اللہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ.
[الحج:34، ع:۵]
ترجَمہ:
اور آپ (جنت وغیرہ کی)خوش خبری سنادیجیے ایسے خشوع کرنے والوں کو جن کا یہ حال ہے کہ، جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو اُن کے دِل ڈر جاتے ہیں۔
(۳۱) إِنَّہُ کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْ عِبَادِيْ یَقُولُونَ: رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنتَ خَیْرُ الرَّاحِمِیْنَ، فَاتَّخَذْتُمُوہُمْ سِخْرِیًّا حَتّٰی أَنسَوْکُمْ ذِکْرِيْ وَکُنْتُم مِّنْہُمْ تَضْحَکُوْنَ، إِنِّيْ جَزَیْتُہُمُ الْیَوْمَ بِمَا صَبَرُوْا أَنَّہُمْ ہُمُ الْفَائِزُوْنَ.
[المؤمنون:109-111، ع:۶]
ترجَمہ:
(قِیامت میں کُفَّار سے گفتگو کے ذیل میں کہا جائے گا کہ: تم کو یاد نہیں) میرے بندوں کا ایک گِروہ(جماعت) تھا (جو بیچارے ہم سے)یوں کہا کرتے تھے: اے ہمارے پروردگار! ہم ایمان لے آئے، سو ہم کو بخش دیجیے اور ہم پر رحمت فرمائیے، آپ سب سے زیادہ رحم کرنے والے ہیں؛ پس تم نے اُن کا مذاق اُڑایا، حتیٰ کہ اِس مَشغَلے نے تم کو ہماری یاد بھی بھُلادی، اور تم اُن سے ہنسی کیا کرتے تھے، مَیں نے آج اُن کو اُن کے صبر کا بدلہ دے دیا، کہ وہی کامیاب ہوئے۔
(۳۲) رِجَالٌ لَّا تُلْہِیْہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَابَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللہِ،الاٰیۃ.
[النور:37، ع:۵]
ترجَمہ:
(کامِل ایمان والوں کی تعریف کے ذیل میں ہے:) وہ ایسے لوگ ہیں کہ اُن کو اللہ کے ذکر سے نہ خرید غفلت میں ڈالتی ہے نہ فروخت(بیچنا)۔
(۳۳) وَلَذِکْرُ اللہِ أَکْبَرُ.
[العنکبوت:45، ع:۵]
ترجَمہ:
اور اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے۔
(۳۴) تَتَجَافیٰ جُنُوبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُونَ رَبَّہُمْ خَوْفاً وَّطَمَعاً، وَّمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ. فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَہُم مِّنْ قُرَّۃِ أَعْیُنٍ، جَزَائً بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ.
[السجدۃ:16-17، ع:۲]
في الدر عن الضحاك: ہم قوم لایزالون یذکرون اللہ، وروی نحوہ عن ابن عباس.
خواب گاہ: بستر۔ مُقرَّب: نزدیک۔ مانع: رُکاوَٹ۔
ترجَمہ:
اُن کے پہلُو خواب گاہوں سے علاحدہ رہتے ہیں اِس طرح پر کہ عذاب کے ڈر سے اور رحمت کی اُمید سے وہ اپنے رب کوپکارتے ہیں، اور ہماری دی ہوئی چیزوں سے خرچ کرتے ہیں، پس کسی کو بھی خبر نہیں کہ ایسے لوگوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کیا سامان خزانۂ غیب میں محفوظ ہے ،جو بدلہ ہے اُن کے اعمال کا۔
فائدہ:
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: بندہ اخیر شب میں اللہ کے یہاں بہت مُقرَّب ہوتا ہے، اگر تجھ سے ہوسکے تو اُس وقت اللہ کاذکر کیا کر۔
(جامعُ الصَّغیر۔۔۔۔۔۔۔)
(۳۵) لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُولِ اللہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَن کَانَ یَرْجُو اللہَ وَالْیَوْمَ الآخِرَ وَذَکَرَ اللہَ کَثِیْراً.
[الأحزاب، ع:۳]
ترجَمہ:
بے شک تم لوگوں کے لیے رسولُ اللہ ﷺ کا نمونہ موجود تھا، یعنی ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ سے اور آخرت سے ڈرتا ہو اور کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہو، (کہ جب حضور ﷺ لڑائی میں شریک ہوئے اور جہاد کیا تو اُس کے لیے کیا مانع ہوسکتا ہے!۔)
(۳۶) وَالذَّاکِرِیْنَ اللہَ کَثِیْراً وَّالذَّاکِرَاتِ، أَعَدَّ اللہُ لَہُم مَّغْفِرَۃً وَأَجْراً عَظِیْماً.
[الأحزاب، ع:۵]
ترجَمہ:
(پہلے سے مومنوں کی صِفات کا بیان ہے، اِس کے بعد ارشاد ہے):اور بہ کثرت اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور اللہ کا ذکر کرنے والی عورتیں، اِن سب کے لیے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اَجرِ عظیم تیار کر رکھا ہے۔
(۳۷) یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اذْکُرُوا اللہَ ذِکْراً کَثِیْراً، وَسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَأَصِیْلًا.
[الأحزاب، ع:۶]
ترجَمہ:
اے ایمان والو! تم اللہ تعالیٰ کا خوب کثرت سے ذکرکیا کرو، اور صبح شام اُس کی تسبیح کرتے رہو۔
(۳۸) وَلَقَدْ نَادٰنَا نُوْحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجِیْبُوْنَ.
[الصّٰفّٰتِ، ع:۳]
ترجَمہ:
اور پکارا تھا ہم کو نوح(ں)نے، پس ہم خوب فریاد سننے والے ہیں۔
(۳۹) فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَۃِ قُلُوْبُہُمْ مِّنْ ذِکْرِ اللہِ، أُولٰئِکَ فِيْ ضَلَالٍ مُبِیْنٍ.
[الزمر، ع:۳]
ترجَمہ:
پس ہلاکت ہے اُن لوگوں کے لیے جن کے دل اللہ کے ذکر سے مُتأثِّر نہیں ہوتے، یہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔
(۴۰) اَللہُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتَاباً مُّتَشَابِہاً مَّثَانِيَ، تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ، ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُہُمْ وَقُلُوبُہُمْ إِلیٰ ذِکْرِ اللہِ، ذٰلِکَ ہُدَی اللہِ یَہْدِيْ بِہٖ مَنْ یَّشَائُ.
[الزمر، ع:۳]
ترجَمہ:
اللہ دنے بڑا عمدہ کلام (یعنی قرآن)نازل فرمایا، جو ایسی کتاب ہے کہ باہم ملتی جُلتی ہے، بار بار دُہرائی گئی، جس سے اُن لوگوں کے بدن کانپ اٹھتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر اُن کے بدن اور دل نرم ہوکر اللہ کے ذکر کی طرف متوجَّہ ہوجاتے ہیں، یہ اللہ کی ہدایت ہے، جس کو چاہتا ہے اِس کے ذریعے سے ہدایت فرمادیتا ہے۔
(۴۱) فَادْعُوا اللہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ.
[المؤمن، ع:۲]
ترجَمہ:
پس پَکارو اللہ کو خالص کرتے ہوئے اُس کے لیے دِین کو، گو کافروں کو ناگَوار(ناپسند) ہو۔
(۴۲) ہُوَ الْحَيُّ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ، فَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنِ.
[المؤمن، ع:۷]
ترجَمہ:
وہی زندہ ہے، اُس کے سِوا کوئی لائق عبادت کے نہیں، پس تم خالص اعتقاد کرکے اُس کو پُکارا کرو۔
(۴۳) وَمَن یَّعْشُ عَن ذِکْرِ الرَّحْمَنِ نُقَیِّضْ لَہُ شَیْطٰناً فَہُوَ لَہُ قَرِیْنٌ.
[الزخرف، ع:۴]
ترجَمہ:جو شخص رَحمن کے ذکر سے (جان بوجھ کر)اندھا ہوجائے ہم اُس پر ایک شیطان مُسلَّط(مقرر) کر دیتے ہیں، پس وہ (ہروقت)اُس کے ساتھ رہتاہے۔
(۴۴) مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہِ، وَالَّذِیْنَ مَعَہُ أَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ، تَرٰہُمْ رُکَّعاً سُجَّداً یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَاناً، سِیْمَاہُمْ فِيْ وُجُوہِہِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُوْدِ، ذَلِکَ مَثَلُہُمْ فِیْ التَّوْرَاۃِ وَمَثَلُہُمْ فِیْ الإِنْجِیْلِ، کَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَہُ فَآزَرَہُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَویٰ عَلیٰ سُوقِہِ، یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ، وَعَدَ اللہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُم مَّغْفِرَۃً وَأَجْراً عَظِیْماً.
[الفتح، ع:۴]
ترجَمہ:
محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، اورجو لوگ آپ کے صُحبت یافتہ(صحبت میں رہے ہوئے) ہیں وہ کافروں کے مقابلے میں تیز ہیں اور آپس میں مہربان، اور اے مخاطَب! تُو اُن کو دیکھے گا کہ کبھی رکوع کررہے ہیں اور کبھی سجدہ، اور اللہ کے فضل اور رَضامندی کی جُستجو(تلاش) میں لگے ہوئے ہیں، (اور خُشوع خُضُوع کے) آثار(نشانیاں) بوجہِ تاثیرِ سجدہ کے اُن کے چہروں پر نُمایاں(واضح، صاف) ہیں، یہ اُن کے اَوصاف تورات میں ہیں اور انجیل میں، جیسا کہ کھیتی کہ اُس نے اوَّل اپنی سُوئی نکالی، پھر اُس کو قَوِی(مضبوط) کیا، پھر وہ کھیتی اَور موٹی ہوئی، پھر اپنے تَنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی کہ کسانوں کو بھلی معلوم ہونے لگی؛ (اِسی طرح صحابہ ث میں اوَّل ضُعف(کمزوری) تھا، پھر روزانہ قوَّت بڑھتی گئی، اور اللہ نے یہ نَشو ونُما(پھولنا، پھَلنا) اِس لیے دیا تاکہ اُن سے کافروں کو جَلائے، اللہ نے تو اُن لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک عمل کررہے ہیں، مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ کر رکھا ہے۔
فائدہ:
آیتِ شریفہ میں گو ظاہر طور پر رکوع وسجود اور نماز کی فضیلت زیادہ تر مقصود ہے، اور وہ تو ظاہر ہے؛ لیکن کلمۂ طیبہ کے دوسرے جُزو مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کی فضیلت بھی اِس سے ظاہر ہے۔ امام رازیؒ نے لکھا ہے کہ: اُوپر سے صُلحِ حُدیبِیہ میں کُفَّار کے انکار پر اور اِس بات کے اِصرار کرنے پر کہمُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ نہ لکھو، محمد بن عبداللہ لکھو، حق تَعَالیٰ شَانُہٗ فرماتے ہیں کہ: اللہ خود گواہ ہیں اِس بات پر کہ ’’محمد‘‘ اللہ کے رسول ہیں، اور جب بھیجنے والا خود اقرار کرے کہ، فلاں شخص میرا قاصد ہے، تو لاکھ کوئی انکار کرے اُس کے انکار سے کیا ہوتا ہے؟ اِسی گواہی کے اقرار کے لیے اللہ جَلَّ شَانُہٗنے ﴿مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ﴾ ارشاد فرمایا۔
(تفسیر رازی۲۸؍۹۳)
مِن جُملہ: سب میں سے۔ مُحقَّق: طے شُدہ۔ لَہو ولَعِب: کھیل تماشہ۔ اِستِدلال: دلیل پکڑنا۔ تَسلُّط: غلبہ۔ گِروہ: ۔
اِس کے بعد آیتِ شریفہ میں اَور بھی کئی اہم مضامین ہیں، مِن جُملہ اُن کے یہ ہے کہ: چہرہ کے آثار نُمایاں ہونے کی فضیلت ہے، اِس کی تفسیر میں مختلف اَقوال ہیں: ایک یہ بھی ہے کہ:شب بیداروں کے چہروں پر جو اَنوار وبرکات ظاہر ہوتے ہیں وہ مراد ہیں۔
امام رازیؒ نے لکھا ہے کہ: یہ مُحقَّق اَمر ہے کہ رات کو دو شخص جاگیں: ایک لَہو ولَعِب میں مشغول رہے، دوسرا نماز، قرآن اور علم کے سیکھنے میں مشغول رہے، دوسرے دن دونوں کے چہرے کے نور میں کھلا ہوا فرق ہوگا، جو شخص لَہو ولَعِب میں مشغول ہے وہ اُس جیسا ہو ہی نہیں سکتا جو ذِکر وشُکر میں رات بھر لگارہے۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ: حضرت امام مالکؒ اور ایک جماعت نے عُلَما کی اِس آیت سے اُن لوگوں کے کُفر پر اِستِدلال کیا ہے جو صحابۂ کرامث کو گالیاں دیتے ہیں، بُرا کہتے ہیں، اُن سے بُغض(کِینہ) رکھتے ہیں۔
(تفسیر ابنِ کثیر۔۔۔۔۔۔)
(۴۵) أَلَمْ یَأْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُہُمْ لِذِکْرِ اللہِ.
[الحدید،ع:۲]
ترجَمہ:
کیا ایمان والوں کے لیے اِس کاوقت نہیں آیا کہ اُن کے دل خدا کی یاد کے واسطے جھُک جائیں!۔
(۴۶)اِسْتَحْوَذَ عَلَیْہِمُ الشَّیْطٰنُ فَأَنسٰہُمْ ذِکْرَ اللہِ، أُولٰئِکَ حِزْبُ الشَّیْطٰنِ، أَلَا إِنَّ حِزْبَ الشَّیْطٰنِ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ.
[المجادلۃ، ع:۳]
ترجَمہ:
(پہلے سے منافِقوں کاذکر ہے)اُن پر شیطان کا تَسلُّط ہوگیا، پس اُس نے اُن کو ذکرُاللہ سے غافل کردیا، یہ لوگ شیطان کا گِروہ(لشکر) ہیں، خوب سمجھ لو، یہ بات مُحقَّق ہے کہ، شیطان کا گِروہ خَسارے والا ہے۔
(۴۷) فَإِذَا قُضِیَتِ الصَّلوٰۃُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوْا مِن فَضْلِ اللہِ، وَاذْکُرُوا اللہَ کَثِیْراً لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ.
[الجمعۃ،ع:۲]
فَلاح:کامیابی۔ رُوگَردانی: منھ پھیرنا۔ مُنقَطِع: ختم۔ مَغلُوب: نیچے۔ شِدَّتِ عَداوَت: دشمنی کی زیادتی۔ کِنایہ: اشارہ۔
ترجَمہ:
پھر جب (جمعہ کی)نماز پوری ہوچکے تو (تم کو اجازت ہے کہ)تم زمین پر چلو پھرو، اور خدا کی روزی تلاش کرو، (یعنی دنیا کے کاموں میںمشغول ہونے کی اجازت ہے؛لیکن اِس میں بھی)اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کرتے رہو؛ تاکہ تم فَلاح(کامیابی) کو پہنچ جاؤ۔
(۴۸) یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تُلْہِکُمْ أَمْوَالُکُمْ وَلَا أَوْلَادُکُمْ عَن ذِکْرِ اللہِ، وَمَن یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَأُولٰئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ.
[المنٰفقون، ع:۲]
ترجَمہ:
اے ایمان والو! تم کوتمھارے مال اور اولاد اللہ کے ذکر سے، اُس کی یاد سے غافل نہ کرنے پائیں، اور جو لوگ ایسا کریںگے وہی خَسارے والے ہیں؛ (کیوںکہ یہ چیزیں تو دنیا ہی میں ختم ہوجانے والی ہیں، اور اللہ کی یاد آخرت میں کام دینے والی ہے۔)
(۴۹) وَمَن یُعْرِضْ عَن ذِکْرِ رَبِّہٖ یَسْلُکْہُ عَذَاباً صَعَداً.
[الجن، ع:۱]
ترجَمہ:
اور جو شخص اپنے پروردگار کی یاد سے رُوگَردانی اور اِعراض کرے گا اللہ تعالیٰ اُس کو سخت عذاب میں داخل کرے گا۔
(۵۰) وَأَنَّہُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللہِ یَدْعُوہُ کَادُوا یَکُونُونَ عَلَیْہِ لِبَداً، قُلْ إِنَّمَا أَدْعُوْ رَبِّيْ وَلَا أُشْرِکُ بِہٖ أَحَداً.
[الجن، ع:۱]
ترجَمہ:
جب اللہ کا خاص بندہ (یعنی محمدﷺ)خدا کو پکارنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو یہ کافر لوگ اُس بندے پر بھِیڑ لگانے کو ہوجاتے ہیں، آپ کہہ دیجیے کہ: مَیں تو صرف اپنے پروردگار ہی کوپکارتا ہوں اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔
(۵۱) وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ إِلَیْہِ تَبْتِیْلًا.
[المزمل، ع:۱]
ترجَمہ:
اور اپنے رب کا نام لیتے رہیں، اور سب سے تعلُّقات مُنقَطِع کرکے اُسی کی طرف مُتوجَّہ رہیں۔(’’منقطع کرکے‘‘ کامطلب یہ ہے کہ: اللہ کے تعلُّق کے مقابلے میں سب مَغلُوب ہوں۔)
(۵۲) وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ بُکْرَۃً وَأَصِیْلًا، وَمِنَ اللَّیْلِ فَاسْجُدْ لَہٗ وَسَبِّحْہُ لَیْلًا طَوِیْلًا، إِنَّ ہٰٓؤُلآئِ یُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ وَیَذَرُوْنَ وَرَائَ ہُمْ یَوْماً ثَقِیْلًا.
[الدہر، ع:۲]
ترجَمہ:
اور اپنے رب کا صبح اور شام نام لیتے رہا کیجیے، اور کسی قدر رات کے حصے میں بھی اُس کو سجدہ کیا کیجیے، اور رات کے بڑے حصے میں اُس کی تسبیح کیا کیجیے، (مراد اِس سے تہجُّد کی نماز ہے)، یہ لوگ (جو آپ کے مُخالِف ہیں)دنیا سے محبت رکھتے ہیں، اور اپنے آگے (آنے والے) ایک بھاری دن کو چھوڑ بیٹھے ہیں۔
(۵۳) وَإِن یَّکَادُ الَّذِیْنَ کَفَرُوا لَیُزْلِقُوْنَکَ بِأَبْصَارِہِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکْرَ، وَیَقُولُونَ إِنَّہُ لَمَجْنُونٌ.
[القلم، ع:۲]
ترجَمہ:
یہ کافر لوگ جب ذکر (قرآن)سنتے ہیں (توشِدَّتِ عَداوَت سے) ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ، گویا آپ کو اپنی نگاہوں سے پھِسلاکر گِرا دیںگے، اور کہتے ہیں کہ: (نَعُوْذُبِاللّٰہِ)یہ تو مجنون ہیں۔
فائدہ:
نگاہ سے پھِسلاکر گِرادینا کِنایہ ہے دُشمنی کی زِیادتی سے، جیسا کہ ہمارے یہاںبولتے ہیں: ’’ایسا دیکھ رہا ہے کہ کھاجائے گا‘‘۔ حسن بصریؒ کہتے ہیں کہ: جس کو نظر لگ گئی ہو اُس پر اِس آیتِ شریفہ کو پڑھ کر دَم کرنا مُفِید ہے۔ (جُمل۔فتح البیان في مقاصد القرآن۔۔۔۔۔)
(۵۴) قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی، وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی.
[الأعلیٰ، ع:۱]
ترجَمہ:
بے شک بامراد ہوگیا وہ شخص جو (بُرے اخلاق سے)پاک ہوگیا، اور اپنے رب ترجَمہ:پھرجب (جمعہ کی)نماز پوری ہوچکے تو (تم کو اجازت ہے کہ)تم زمین پر چلو پھرو، اور خدا کی روزی تلاش کرو، (یعنی دنیا کے کاموں میںمشغول ہونے کی اجازت ہے؛لیکن اِس میں بھی)اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کرتے رہو؛ تاکہ تم فَلاح(کامیابی) کو پہنچ جاؤ۔
(۴۸) یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تُلْہِکُمْ أَمْوَالُکُمْ وَلَا أَوْلَادُکُمْ عَن ذِکْرِ اللہِ، وَمَن یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَأُولٰئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ.
[المنٰفقون، ع:۲]
ترجَمہ:
اے ایمان والو! تم کو تمھارے مال اور اولاد اللہ کے ذکر سے، اُس کی یاد سے غافل نہ کرنے پائیں، اور جو لوگ ایسا کریں گے وہی خَسارے والے ہیں؛ (کیوںکہ یہ چیزیں تو دنیا ہی میں ختم ہوجانے والی ہیں، اور اللہ کی یاد آخرت میں کام دینے والی ہے۔)
(۴۹) وَمَن یُعْرِضْ عَن ذِکْرِ رَبِّہٖ یَسْلُکْہُ عَذَاباً صَعَداً.
[الجن، ع:۱]
ترجَمہ:
اور جو شخص اپنے پروردگار کی یاد سے رُوگَردانی اور اِعراض کرے گا اللہ تعالیٰ اُس کو سخت عذاب میں داخل کرے گا۔
(۵۰) وَأَنَّہُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللہِ یَدْعُوہُ کَادُوا یَکُونُونَ عَلَیْہِ لِبَداً، قُلْ إِنَّمَا أَدْعُوْ رَبِّيْ وَلَا أُشْرِکُ بِہٖ أَحَداً. [الجن، ع:۱]
ترجَمہ:
جب خدا کا خاص بندہ (یعنی محمدﷺ)خدا کو پکارنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو یہ کافر لوگ اُس بندے پر بھِیڑ لگانے کو ہوجاتے ہیں، آپ کہہ دیجیے کہ: مَیں تو صرف اپنے پروردگار ہی کوپکارتا ہوںاور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔
(۵۱) وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ إِلَیْہِ تَبْتِیْلًا.
[المزمل، ع:۱]
ترجَمہ:
اور اپنے رب کا نام لیتے رہیں، اور سب سے تعلُّقات مُنقَطِع کرکے اُسی کی طرف مُتوجَّہ رہیں۔(’’منقطع کرکے‘‘ کامطلب یہ ہے کہ: اللہ کے تعلُّق کے مقابلے میں سب مَغلُوب ہوں۔)
(۵۲) وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ بُکْرَۃً وَأَصِیْلًا، وَمِنَ اللَّیْلِ فَاسْجُدْ لَہٗ وَسَبِّحْہُ لَیْلًا طَوِیْلًا، إِنَّ ہٰٓؤُلآئِ یُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ وَیَذَرُوْنَ وَرَائَ ہُمْ یَوْماً ثَقِیْلًا.
[الدہر، ع:۲]
ترجَمہ:
اور اپنے رب کا صبح اور شام نام لیتے رہا کیجیے، اور کسی قدر رات کے حصے میں بھی اُس کو سجدہ کیا کیجیے، اور رات کے بڑے حصے میں اُس کی تسبیح کیا کیجیے، (مراد اِس سے تہجُّد کی نماز ہے)، یہ لوگ (جو آپ کے مُخالِف ہیں)دنیا سے محبت رکھتے ہیں، اور اپنے آگے (آنے والے) ایک بھاری دن کو چھوڑ بیٹھے ہیں۔
(۵۳) وَإِن یَّکَادُ الَّذِیْنَ کَفَرُوا لَیُزْلِقُوْنَکَ بِأَبْصَارِہِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکْرَ، وَیَقُولُونَ إِنَّہُ لَمَجْنُونٌ.
[القلم، ع:۲]
ترجَمہ:
یہ کافر لوگ جب ذکر (قرآن)سنتے ہیں (تو شِدَّتِ عَداوَت سے) ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ، گویا آپ کو اپنی نگاہوں سے پھِسلاکر گِرا دیںگے، اور کہتے ہیں کہ: (نَعُوْذُبِاللّٰہِ)یہ تو مجنون ہیں۔
فائدہ:نگاہ سے پھِسلاکر گِرادینا کِنایہ ہے دُشمنی کی زِیادتی سے، جیسا کہ ہمارے یہاںبولتے ہیں: ’’ایسا دیکھ رہا ہے کہ کھاجائے گا‘‘۔ حسن بصریؒ کہتے ہیں کہ: جس کو نظر لگ گئی ہو اُس پر اِس آیتِ شریفہ کو پڑھ کر دَم کرنا مُفِید ہے۔ (جُمل۔فتح البیان في مقاصد القرآن۔۔۔۔۔)
(۵۴) قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی، وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی. [الأعلیٰ، ع:۱]
ترجَمہ:بے شک بامراد ہوگیا وہ شخص جو (بُرے اخلاق سے)پاک ہوگیا، اور اپنے رب کانام لیتا رہا، اور نماز پڑھتا رہا۔
فصلِ ثانی اَحادِیثِ ذِکر میں
جب کہ اِس مضمون میں قرآنِ پاک کی آیات اِس کثرت سے موجود ہیں تو احادیث کا کیا پوچھنا!؛ کیوںکہ قرآن شریف کے کُل تیس پارے ہیں، اور حدیث شریف کی لاتعداد(بے شمار) کتابیں ہیں، اور ہر کتاب میں بے شمار حدیثیں ہیں، ایک بخاری شریف ہی کے بڑے بڑے تیس پارے ہیں، اور ابوداؤد شریف کے بتیس پارے ہیں، اور کوئی کتاب بھی ایسی نہیں کہ اِس مبارک ذِکر سے خالی ہو؛ اِس لیے اَحادیث کا اِحاطہ(شمار کرنا) تو کون کرسکتا ہے؟ نمونہ اور عمل کے واسطے ایک آیت اورایک حدیث بھی کافی ہے، اور جس کو عمل ہی نہیں کرنا اُس کے لیے دَفتر کے دَفتر بھی بے کار ہیں، کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ أَسْفَاراً۔(جیسے کہ گدھا کتابوں کو اُٹھائے ہوئے ہو۔)
(۱) عَنْ أَبِيْ هُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: یَقُوْلُ اللہُ تَعَالیٰ: أنَا عِندَ ظَنِّ عَبدِيْ بِي، وَأَنَا مَعَہٗ إِذَا ذَکَرَنِيْ؛ فَإِنْ ذَکَرَنِيْ فِيْ نَفسِہٖ ذَکَرتُہٗ فِي نَفسِي، وَإنْ ذَکَرَنِي فِي مَلَأٍ ذَکَرتُہٗ فِي مَلَأٍ خَیْرٌ مِنهُمْ، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ شِبراً تَقَرَّبتُ إِلَیہِ ذِرَاعاً، وَإِن تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعاً تَقَرَّبتُ إِلَیہِ بَاعاً، وَإنْ أَتَانِي یَمشِيْ أَتَیتُہٗ هَروَلَۃً.
(رواہ أحمد والبخاري ومسلم والترمذي والنسائي وابن ماجہ والبیهقي في الشعب، وأخرج أحمد والبیهقي في الأسماء والصفات عن أنس بمعناہ بلفظ: ’’یَا ابنَ اٰدَمَ! إِذَا ذَکرَتَنِي فِي نَفسِكَ‘‘ الحدیث. وفي الباب: عن معاذ بن أنس عند الطبراني بإسناد حسن، وعن ابن عباس عند البزار بإسناد صحیح، والبیهقي وغیرهما، وعن أبي هریرۃ عند ابن ماجہ وابن حبان وغیرهما، بلفظ: ’’أَنَا مَعَ عَبدِي إذَا ذَکَرَنِي وَتَحَرَّکَتْ بِي شَفَتَاہُ‘‘، کما في الدر المنثور والترغیب للمنذري والمشکاۃ مختصراً، وفیہ بروایۃ مسلم عن أبي ذر بمعناہ، وفي الاتحاف: علقہ البخاري عن أبي هریرۃ بصیغۃ الجزم، ورواہ ابن حِبان من حدیث أبي الدرداء، اھ)
ترجَمہ:
حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: حق تَعَالیٰ شَانُہٗ ارشاد فرماتے ہیں کہ: مَیں بندے کے ساتھ ویسا ہی مُعاملہ کرتا ہوں جیسا کہ وہ میرے ساتھ گمان رکھتا ہے، اور جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو مَیں اُس کے ساتھ ہوتا ہوں؛ پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو مَیں بھی اُس کو اپنے دِل میں یاد کرتا ہوں، اور اگر وہ میرا مجمع میں ذکر کرتا ہے تو مَیں اُس مجمع سے بہتر یعنی فرشتوں کے مجمع میں (جو معصوم اور بے گناہ ہیں)تذکِرہ کرتا ہوں، اور اگر بندہ میری طرف ایک بالِشت مُتوجَّہ ہوتا ہے تو مَیں ایک ہاتھ اُس کی طرف متوجَّہ ہوتا ہوں، اور اگر وہ ایک ہاتھ بڑھتا ہے تو مَیں دو ہاتھ اُدھر متوجَّہ ہوتا ہوں، اور اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو مَیں اُس کی طرف دوڑ کر چلتا ہوں۔
۔ مُشاہَدے: ۔ اَشرفُ المَخلُوقات: مخلُوقات میں سب سے بہتر۔
فائدہ:
اِس حدیث شریف میں کئی مضمون وَارِد ہیں:
اوَّل یہ کہ، بندے کے ساتھ اُس کے گمان کے موافق مُعاملہ کرتا ہوں، جس کا مطلب یہ ہے کہ، حق تَعَالیٰ شَانُہٗ سے اُس کے لُطف وکرم کی اُمید رکھنا چاہیے، اُس کی رحمت سے ہرگز مایوس نہ ہونا چاہیے، یقینا ہم لوگ گنہ گار ہیں اور سراپا گناہ، اور اپنی حرکتوں اور گناہوں کی سزا اور بدلے کا یقین ہے؛ لیکن اللہ کی رحمت سے مایوس بھی نہیں ہونا چاہیے، کیا بعید ہے کہ حق تَعَالیٰ شَانُہٗ محض اپنے لُطف وکرم سے بالکل ہی مُعاف فرماویں! کہ ﴿إِنَّ اللہَ لَایَغْفِرُ أَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَادُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ﴾ کلامُ اللہ شریف میں وَارِد ہے۔
ترجَمہ:
حق تَعَالیٰ شَانُہٗ شرک کے گناہ کو تو مُعاف نہیں فرمائیں گے، اِس کے عِلاوہ جس کو چاہیں گے سب کچھ مُعاف فرمائیں گے؛
لیکن ضروری نہیں کہ مُعاف فرما ہی دیں، اِسی وجہ سے عُلَما فرماتے ہیں کہ: ایمان اُمید وخوف کے درمیان ہے۔ حضور اقدس ﷺ ایک نوجوان صحابی صکے پاس تشریف لے گئے، وہ نَزع(سکرات) کی حالت میں تھے، حضورﷺ نے دریافت فرمایا: کس حال میں ہو؟ عرض کیا: یا رسولَ اللہ! اللہ کی رحمت کا اُمید وار ہوں اور اپنے گناہوں سے ڈر رہا ہوں، حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: یہ دونوں یعنی: اُمید وخوف جس بندے کے دل میں ایسی حالت میں ہوں تو اللہ جَلَّ شَانُہٗ جو اُمید ہے وہ عطا فرمادیتے ہیں، اور جس کا خوف ہے اُس سے اَمن عطا فرمادیتے ہیں۔(جمعُ الفَوائد)
(ترمذی،ابواب الجنائز، حدیث:۹۸۳،۱؍۱۹۲ )
ایک حدیث میں آیاہے کہ: مومن اپنے گناہ کو ایسا سمجھتا ہے کہ گویا ایک پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہے اور وہ پہاڑ اُس پر گرنے لگا، اور فاجِر(فاسق) شخص گناہ کو ایسا سمجھتا ہے گویا ایک مَکھی بیٹھی تھی اُڑا دی، یعنی ذرا پرواہ نہیں ہوتی۔
(بخاری،کتاب الدعوات،باب التوبۃ،۲؍۹۳۲ حدیث:۶۳۰۸)
مقصود یہ ہے کہ، گناہ کا خوف اُس کے مُناسب ہونا چاہیے اور رحمت کی اُمید اُس کے مناسب۔ حضرت مُعاذ﷽ طاعون میں شہید ہوئے، انتقال کے قریب زمانے میں بار بار غَشی(بے ہوشی) ہوتی تھی، جب اِفاقہ ہوتا تو فرماتے: ’’یا اللہ! تجھے معلوم ہے کہ مجھ کو تجھ سے محبت ہے، تیری عزت کی قَسم! تجھے یہ بات معلوم ہے‘‘، جب بالکل موت کا وقت قریب آگیا تو فرمایا کہ: ’’اے موت! تیرا آنا مبارک ہے، کیا ہی مبارک مہمان آیا!؛ مگر فاقے کی حالت میں یہ مہمان آیا ہے‘‘، اِس کے بعد فرمایا: ’’اے اللہ! تجھے معلوم ہے کہ مَیں ہمیشہ تجھ سے ڈرتا رہا، آج تیرا اُمید وار ہوں، یا اللہ! مجھے زندگی کی محبت تھی؛ مگر نہر کھودنے اور باغ لگانے کے واسطے نہیں تھی؛ بلکہ گرمیوں کی شِدَّتِ پیاس برداشت کرنے، اور (دِین کی خاطر) مَشقَّتیں جھیلنے کے واسطے، اور ذِکر کے حلقوں میں عُلَماء کے پاس جَم کر بیٹھنے کے واسطے تھی۔
(تہذیبُ الاسماء واللُّغات۲؍۱۰۰)
بعض عُلَماء نے لکھا ہے کہ: حدیثِ بالا میں گمان کے موافق مُعاملہ عام حالات کے اعتبار سے ہے، خاص مغفرت کے متعلِّق نہیں، دُعا، صِحَّت، وُسعت(کُشادگی)، اَمن؛ وغیرہ سب چیزیں اِس میں داخل ہیں، مثلاً دُعا ہی کے متعلِّق سمجھو، مطلب یہ ہے کہ، اگر بندہ یہ یقین کرتا ہے کہ میری دعا قَبول ہوتی ہے اور ضرور ہوگی، تو اُس کی دعا قبول ہوتی ہے، اور اگر یہ گمان کرے کہ، میری دعاقبول نہیں ہوتی، تو ویسا ہی مُعاملہ کیا جاتا ہے۔ چناںچہ دوسری احادیث میں آیا ہے کہ: بندے کی دعا قَبول ہوتی ہے جب تک یہ نہ کہنے لگے کہ: میری تو دعا قَبول نہیں ہوتی۔(۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
ٍ اِسی طرح صِحَّت، توَنگری(مال داری) وغیرہ سب اُمور کا حال ہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ: جس شخص کو فاقے کی نوبت(حالت) آئے، اگر اُس کو لوگوں سے کہتا پھرے تو تَوَنگری نصیب نہیں ہوتی، اللہ کی بارگاہ میں عَرض مَعروض(درخواست پیش کرنا) کرے تو جلد یہ حالت دور ہوجائے۔
(مسند احمد،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حدیث: ۴۲۱۹)
لیکن یہ ضروری ہے کہ اللہ تَعَالیٰ شَانُہٗ کے ساتھ حُسنِ ظن اَور چیز ہے اور اللہ پر گھمنڈ دوسری چیز ہے، کلامُ اللہ شریف میں مختلف عُنوانات سے اِس پر تنبیہ کی گئی، ارشاد ہے: ﴿وَلَایَغُرَّنَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَرُوْرُ﴾: (اور دھوکے میں نہ ڈالے تم کو دھوکے باز) یعنی شیطان تم کو یہ نہ سمجھائے کہ گناہ کیے جاؤ، اللہ غَفُورٌ رَّحِیم ہے۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: ﴿أَطَّلَعَ الْغَیْبَ أَمِ اتَّخَذَ عِنْدَالرَّحْمٰنِ عَہْداً، کَلَّا﴾ (کیا وہ غیب پر مُطّلِع(خبردار) ہوگیا یا اللہ تعالیٰ سے اُس نے عہد کرلیا ہے؟ ایسا ہرگز نہیں۔)
دوسرا مضمون یہ ہے کہ، جب بندہ مجھے یاد کرتا ہے تومَیں اُس کے ساتھ ہوتا ہوں۔
دوسری حدیث میں ہے کہ: جب بندہ مجھے یاد کرتا ہے تو جب تک اُس کے ہونٹ میری یاد میں حرکت کرتے رہتے ہیں مَیں اُس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ (۔۔۔۔۔۔۔) یعنی میری خاص توجُّہ اُس پر رہتی ہے، اور خُصوصی رحمت کا نُزول(اُترنا) ہوتا رہتا ہے۔
تیسرا مضمون یہ ہے کہ، مَیںفرشتوں کے مجمع میں ذکر کرتا ہوں، یعنی تَفاخُر کے طور پر اِس کا ذکر فرمایا جاتا ہے، ایک تو اِس وجہ سے کہ، آدمی کی خِلقَت(پیدائش) جس ترکیب سے ہوئی ہے اُس کے موافق اُس میں اِطاعت اور مَعصِیَت(گناہ) دونوں کا مادَّہ رکھا ہے، -جیسا کہ حدیث نمبر ۸؍ کے ذیل میں آرہا ہے- اِس حالت میں طاعت کا کرنا یقیناً تفاخُر کا سبب ہے۔ دوسرے اِس وجہ سے کہ، فرشتوں نے ابتدائے خِلقَت کے وقت عَرض کیا تھا: آپ ایسی مخلوق کو پیدا فرماتے ہیں جو دنیا میں خون ریزی(خون بہانا) اور فَساد کرے گی، اور اِس کی وجہ بھی وہی مادۂ فساد کا اُن میں ہونا ہے، بخلاف فرشتوں کے، کہ اُن میں یہ مادَّہ نہیں؛ اِسی لیے اُنھوں نے عرض کیا تھا کہ: تیری تَسبیح وتَقدِیس ہم کرتے ہی ہیں۔ تیسرے اِس وجہ سے کہ، انسان کی اطاعت، اُس کی عبادت فرشتوں کی عبادت سے اِس وجہ سے بھی اَفضل ہے کہ، انسان کی عبادت غیب کے ساتھ ہے، اور فرشتوں کی عالَمِ آخرت کے مُشاہَدے کے ساتھ ہے، اِسی کی طرف اللہ پاک کے اِس کلام میں اشارہ ہے کہ: اگر وہ جنت ودوزخ کو دیکھ لیتے تو کیا ہوتا؟۔
(بخاری،کتاب الدعوات، باب فضل ذکر اللہ،۲؍۹۴۸حدیث: ۶۴۰۸)
اِن وُجوہ سے حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اپنے یاد کرنے والوں اور اپنی عبادت کرنے والوں کے کارنامے جَتاتے ہیں۔
چوتھا مضمون حدیث میں یہ ہے کہ، بندہ جس درجے میں حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کی طرف متوجَّہ ہوتا ہے اُس سے زیادہ توجُّہ اور لُطف اللہ جَلَّ شَانُہٗ کی طرف سے اُس بندے پر ہوتا ہے، یہی مطلب ہے قریب ہونے اور دوڑ کر چلنے کا، کہ میرا لُطف اور میری رحمت تیزی کے ساتھ اُس کی طرف چلتی ہے، اب ہر شخص کو اپنا اِختیار ہے کہ جس قدر رحمت ولُطفِ اِلٰہی کو اپنی طرف متوجَّہ کرنا چاہتا ہے اُتنی ہی اپنی توجُّہ اللہ تَعَالیٰ شَانُہٗ کی طرف بڑھائے۔
پانچوِیں بحث اِس حدیث شریف میں یہ ہے کہ، اِس میں فرشتوں کی جماعت کو بہتر بتایا ہے ذکر کرنے والے شخص سے؛ حالانکہ یہ مشہور اَمر ہے کہ انسان اَشرفُ المَخلُوقات ہے، اِس کی وجہ تو ترجَمے میں ظاہر کردی گئی، کہ اُن کا بہتر ہونا ایک خاص حیثیت سے ہے، کہ وہ معصوم ہیں، اُن سے گناہ ہو ہی نہیں سکتا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ، یہ بہ اعتباراکثر اَفراد کے ہے، کہ اکثر افراد فرشتوں کے، اکثر آدمیوں؛ بلکہ اکثر مومنوں سے افضل ہیں، گو خاص مومن جیسے انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَامُ سارے ہی فرشتوں سے افضل ہیں۔ اِس کے عِلاوہ اَور بھی وُجوہ ہیں جن میں بحث طَوِیل ہے۔
(۲) عَنْ عَبدِاللہِ بنِ بُسرٍ: أَنَّ رَجُلًا قَالَ: یَارَسُولَ اللہِ! إنَّ شَرَائِعَ الإسْلَامِ قَدْ کَثُرَتْ عَلَيَّ، فَأَخْبِرْنِي بِشَيئٍ أَسْتَنُّ بِہٖ، قَالَ: لَایَزَالُ لِسَانُكَ رَطَباً مِن ذِکرِ اللہِ.
(أخرجہ ابن أبي شیبۃ، وأحمد، والترمذي وحسنہ، وابن ماجہ، وابن حبان في صحیحہ، والحاکم وصححہ، والبیهقي؛ کذا في الدر. وفي المشکاۃ بروایۃ الترمذي وابن ماجہ، وحکی عن الترمذي حسن غریب،اھ. قلت: وصححہ الحاکم وأقرہ علیہ الذهبي، وفي الجامع الصغیر بروایۃ أبي نُعیم في الحِلیۃ مختصرا بلفظ: ’’أَنْ تُفَارِقَ الدُّنیَا وَلِسَانُكَ رَطْبٌ مِن ذِکرِ اللہِ‘‘، ورقم لہ بالضعف. وبمعناہ عن مالك بن یخامر: ’’أَنَّ مُعَاذَ ابنِ جَبَلٍ قَالَ لَهُم: إِنَّ اٰخِرَ کَلَامٍ فَارَقْتُ عَلَیہِ رَسُولَ اللہِﷺ أَنْ قُلتُ: أَيُّ الأَعمَالِ أَحَبُّ إلَی اللہِ؟ قَالَ: أَن تَمُوْتَ وَلِسَانُكَ رَطْبٌ مِن ذِکرِ اللہِ‘‘. أخرجہ ابن أبي الدنیا، والبزار، وابن حبان، والطبراني، والبیهقي؛ کذا في الدر، والحصن الحصین، والترغیب للمنذري، وذکرہ في الجامع الصغیر مختصرا وعزاہ إلی ابن حبان في صحیحہ، وابن السني في ’’عمل الیوم واللیلۃ‘‘، والطبراني في ’’الکبیر‘‘، والبیهقي في ’’الشعب‘‘، وفي ’’مجمع الزوائد‘‘ رواہ الطبراني بأسانید)
ترجَمہ:
ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسولَ اللہ! احکام توشریعت کے بہت سے ہیںہی، مجھے ایک چیز کوئی ایسی بتادیجیے جس کو مَیں اپنا دَستور اور اپنا مَشغَلہ بنالوں، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: اللہ کے ذکر سے تو ہر وَقت رَطبُ اللِّسان[بہت تعریف کرنے والا] رہے۔
ایک اَور حدیث میں ہے: حضرت مُعاذ فرماتے ہیں کہ:
جُدائی کے وقت آخری گفتگو جو حضور ﷺ سے ہوئی وہ یہ تھی: مَیں نے دریافت کیا کہ: سب اعمال میں محبوب ترین عمل اللہ کے نزدیک کیا ہے؟ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: اِس حال میں تیری موت آوے کہ اللہ کے ذکر میں رَطبُ اللِّسان[بہت تعریف کرنے والا] ہو۔
فائدہ:
جدائی کے وقت کا مطلب یہ ہے کہ، حضورِ اقدس ﷺ نے حضرت مُعاذ کو اہلِ یمن کی تبلیغ وتعلیم کے لیے یَمن کا اَمیر بناکر بھیجا تھا، اُس وقت رُخصت کے وقت حضور ﷺ نے کچھ وَصِیَّتیں بھی فرمائی تھیں، اور اِنھوں نے بھی کچھ سوالات کیے تھے۔ شریعت کے احکام بہت سے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ: ہر حکم کی بَجا آوری[عمل کرنا] تو ضروری ہے ہی؛ لیکن ہرچیز میں کمال پیدا کرنا اور اُس کو مُستَقل مَشغَلہ بنانا دشوارہے؛ اِس لیے اُن میں سے ایک چیز جو سب سے اَہم ہو مجھے ایسی بتادیجیے کہ اُس کومضبوط پکڑلوں، اور ہر وقت، ہرجگہ، چلتے، پھرتے، اُٹھتے، بیٹھتے کرتا رہوں۔
ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ: چار چیزیں ایسی ہیں کہ جس شخص کو یہ مل جائیں اُس کو دِین ودُنیا کی بھلائی مل جائے: ایک وہ زبان جو ذکر میں مشغول رہنے والی ہو، دوسرے وہ دل جو شکر میں مشغول رہتا ہو،تیسرے وہ بدن جو مَشقَّت برداشت کرنے والا ہو، چوتھے وہ بیوی جو اپنے نفس میں اور خاوند کے مال میں خِیانت نہ کرے۔ نفس میں خِیانت یہ ہے کہ، کسی قِسم کی گندگی میں مُبتَلا ہوجائے۔
(درمنثور۱؍۲۷۵)
رَطبُ اللِّسان کا مطلب اکثر عُلَماء نے کثرت کا لکھا ہے، اور یہ عام مُحاوَرہ ہے، ہمارے عُرف میں بھی جو شخص کسی کی تعریف یا تذکرہ کثرت سے کرتا ہے تو یہ بولا جاتا ہے کہ: ’’فلاں کی تعریف میں رَطبُ اللِّسان ہے‘‘؛ مگر بندۂ ناچیز کے خَیال میں ایک دوسرا مطلب بھی ہوسکتا ہے، وہ یہ کہ: جس سے عِشق ومحبت ہوتی ہے اُس کے نام لینے سے منھ میں ایک لَذَّت اور مزہ محسوس ہوا کرتا ہے، جن کو بابِ عشق سے کچھ سابِقہ[واسطہ] پڑچکا ہے وہ اِس سے وَاقف ہیں، اِس بِنا پر مطلب یہ ہے کہ، اِس لَذَّت سے اللہ پاک کا نام لیا جائے کہ مزہ آجائے۔ مَیں نے اپنے بعض بزرگوں کو بہ کثرت دیکھا ہے کہ ذِکر بِالجہر کرتے ہوئے ایسی تَراوَٹ[تازگی] آجاتی ہے کہ پاس بیٹھنے والا بھی اُس کو محسوس کرتا ہے، اور ایسا منھ میں پانی بھر جاتا ہے کہ ہر شخص اُس کو محسوس کرتا ہے؛ مگر یہ جب حاصل ہوتا ہے کہ جب دِل میں چَسک[مزا] ہو، اور زبان کثرتِ ذکر سے مانوس ہوچکی ہو۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: اللہ سے محبت کی علامت اُس کے ذکر سے محبت ہے، اور اللہ سے بُغض(کِینہ) کی علامت اُس کے ذکر سے بُغض ہے۔
(شعب الایمان، ۔۔۔۔۔۔۔حدیث:۴۰۶)
حضرت ابو درداء ص فرماتے ہیں کہ: جن لوگوں کی زبان اللہ کے ذکر سے تروتازہ رہتی ہے وہ جنت میں ہنستے ہوئے داخل ہوں گے۔
(ابن مبارک،ابواب الزہد، ۔۔۔۔۔۔ حدیث:۱۱۲۶)
(۳)عَن أَبِي الدَّردَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: أَلَا أُنَبِّئُکُم بِخَیرِ أَعمَالِکُمْ، وَأَزکَاهَا عِندَ مَلِیکِکُمْ، وَأَرْفَعِهَا فِي دَرَجَاتِکُم، وَخَیرٍ لَکُم مِن إِنفَاقِ الذَّهَبِ وَالوَرَقِ، وَخَیرٍلَّکُمْ مِن أَنْ تَلقُوْا عَدُوَّکُمْ فَتَضرِبُوْا أَعنَاقَهُمْ وَیَضرِبُوا أَعنَاقَکُمْ؟ قَالُوْا: بَلیٰ! قَالَ: ذِکرُ اللہِ.
(أخرجہ أحمد، والترمذي، وابن ماجہ، وابن أبي الدنیا، والحاکم، وصححہ البیهقي؛ کذا في الدر والحصن الحصین. قلت: قال الحاکم: صحیح الإسناد ولم یخرجاہ، وأقرہ علیہ الذهبي، ورقم لہ في الجامع الصغیر بالصحۃ، وأخرجہ أحمد عن معاذ بن جبل، کذا في الدر. وفیہ أیضا بروایۃ أحمد، والترمذي، والبیهقي: عَن أَبِي سَعِیدٍ سُئِلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: أَيُّ العِبَادِ أَفضَلُ دَرَجَۃً عِندَ اللہِ یَومَ القِیَامَۃِ؟ قَالَ: اَلذَّاکِرُونَ اللہَ کَثِیراً، قُلتُ: یَا رَسُولَ اللہِ! وَمِنَ الغَازِيْ فِي سَبِیلِ اللہِ؟ قَالَ: لَو ضَرَبَ بِسَیفِہٖ فِي الکُفَّارِ وَالمُشرِکِینَ حَتّٰی یَنکَسِرَ وَیَختَضِبَ دَماً لَکَانَ الذَّاکِرُونَ اللہَ أَفضَلُ مِنہُ دَرَجَۃً)
ترجَمہ:
حضورِ اقدس ﷺ نے ایک مرتبہ صحابہ سے ارشاد فرمایا کہ: مَیں تم کو ایسی چیز نہ بتاؤں جو تمام اعمال میں بہترین چیز ہے، اور تمھارے مالک کے نزدیک سب سے زیادہ پاکیزہ اور تمھارے دَرجوں کو بہت زیادہ بلند کرنے والی اور سونے چاندی کو (اللہ کے راستے میں)خرچ کرنے سے بھی زیادہ بہتر، اور (جہاد میں) تم دشمنوں کو قتل کرو وہ تم کو قتل کریں اِس سے بھی بڑھی ہوئی؟ صحابہ نے عرض کیا: ضرور بتادیں، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کا ذکر ہے۔
فائدہ:
یہ عام حالت اور ہر وقت کے اعتبار سے ارشاد فرمایا ہے؛ ورنہ وَقتی ضرورت کے اعتبار سے صدقہ، جِہاد، وغیرہ اُمور سب سے اَفضل ہوجاتے ہیں، اِسی وجہ سے بعض احادیث میں اِن چیزوں کی اَفضلِیَّت بھی بیان فرمائی گئی ہے، کہ اِن کی ضرورتیں وقتی ہیں اور اللہ پاک کا ذِکر دَائمی[ہمیشہ کی] چیز ہے اور سب سے زیادہ اَہم اور اَفضل۔
ایک حدیث میں حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: ہر چیز کے لیے کوئی صاف کرنے والی اور مَیل کُچیل دُور کرنے والی چیز ہوتی ہے (مثلاً: کپڑے اور بدن کے لیے صابُن، لوہے کے لیے آگ کی بھٹّی، وغیرہ وغیرہ)، دِلوں کی صفائی کرنے والی چیز اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے، اور کوئی چیز اللہ کے عذاب سے بچانے والی اللہ کے ذکر سے بڑھ کر نہیں ہے۔
(درمنثور:۱؍۲۷۵)
اِس حدیث میں چونکہ ذکر کو دِل کی صفائی کا ذریعہ اور سبب بتایا ہے اِس سے بھی اللہ کے ذکر کا سب سے افضل ہونا ثابت ہوتا ہے؛ اِس لیے کہ ہر عبادت اُسی وقت عبادت ہوسکتی ہے جب اخلاص سے ہو، اور اِس کا مَدار دلوں کی صفائی پر ہے۔ اِسی وجہ سے بعض صُوفیا نے کہا ہے کہ: اِس حدیث میں ذکر سے مراد ذکرِ قلبی ہے نہ کہ زبانی ذکر، اور ذکرِ قلبی یہ ہے کہ: دل ہر وقت اللہ کے ساتھ وَابَستہ[متعلِّق] ہوجائے، اور اِس میں کیا شک ہے کہ یہ حالت ساری عبادتوں سے افضل ہے!؛ اِس لیے کہ جب یہ حالت ہوجائے تو پھر کوئی عبادت چھوٹ ہی نہیں سکتی، کہ سارے اَعضائے ظاہِرہ وباطِنہ دِل کے تابع ہیں، جس چیز کے ساتھ دِل وابَستہ ہوجاتا ہے سارے ہی اَعضا اُس کے ساتھ ہوجاتے ہیں، عُشَّاق[عاشق لوگ] کے حالات سے کون بے خبر ہے؟۔ اَور بھی بہت سی احادیث میں ذکر کا سب سے افضل ہونا وارد ہوا ہے۔ حضرت سَلمان ص سے کسی نے پوچھا کہ: سب سے بڑا عمل کیا ہے؟ اُنھوں نے فرمایا کہ: تم نے قرآن شریف نہیں پڑھا؟ قرآن پاک میں ہے: ﴿وَلَذِکرُ اللہِ أَکبَرُ﴾، کوئی چیز اللہ کے ذکر سے اَفضل نہیں۔ (درمنثور۵؍۲۸۱)
حضرت سلمان ص نے جس آیتِ شریفہ کی طرف اشارہ فرمایا وہ اکیسویں پارے کی پہلی آیت ہے۔ صاحبِ ’’مَجالسُ الاَبرار‘‘ کہتے ہیں کہ: اِس حدیث میں اللہ کے ذکر کو صدقہ اور جہاد اور ساری عبادات سے افضل اِس لیے فرمایا کہ، اصل مقصود اللہ کاذکر ہے، اور ساری عبادتیں اُس کا ذریعہ اور آلہ ہیں، اور ذِکر بھی دوقسم کا ہوتا ہے: ایک زبانی، اور ایک قَلبی، جو زبان سے بھی افضل ہے، اور وہ مُراقَبہ اور دل کی سوچ ہے، اور یہی مراد ہے اُس حدیث سے جس میں آیا ہے کہ: ایک گھڑی کا سوچنا سَتَّر برس کی عبادت سے افضل ہے۔
(کتاب العظمۃ،حدیث:۴۳،۲۔۱؍۳۰۰)
’’مُسندِ احمد‘‘ میں ہے: حضرت سَہَل ص حضورِ اقدس ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ: اللہ کا ذکر اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے سات لاکھ حصہ زیادہ ہوجاتا ہے۔
(مُسند احمد،۔۔۔۔۔حدیث:۱۵۶۱۳)
اِس تقریر سے یہ معلوم ہوگیا کہ صدقہ اور جہاد وغیرہ -جو وقتی چیزیں ہیں- وقتی ضرورت کے اعتبار سے اُن کی فضیلت بہت زیادہ ہوجاتی ہے؛ لہذا اُن احادیث میں کوئی اِشکال نہیں جن میں اِن چیزوں کی فضیلت وارد ہوئی ہے؛ چناںچہ ارشاد ہے کہ: تھوڑی دیر کا اللہ کے راستے میں کھڑا ہونا اپنے گھر پر سَتَّر سال کی نماز سے افضل ہے؛(۔۔۔۔۔۔)
حالانکہ نماز بِالاتِّفاق اَفضل تَرِین عبادت ہے؛ لیکن کُفَّار کے ہُجوم کے وقت جہاد اِس سے بہت زیادہ اَفضل ہوجاتا ہے۔
(۴) عَن أَبِي سَعِیدِنِ الخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللہِﷺ قَالَ: لَیَذْکُرَنَّ اللہَ أَقوَامٌ فِي الدُّنْیَا عَلَی الفُرُشِ المُمَهَّدَۃِ، یُدخِلُهُمُ اللہُ فِي الدَّرَجَاتِ العُلیٰ.
(أخرجہ ابن حبان، کذا في الدر. قلت: ویؤیدہ الحدیث المتقدم قریباً بلفظ: أَرفَعِهَا فِي دَرَجَاتِکُم، وأیضا قولہﷺ: سَبَقَ الْمُفَرِّدُونَ، قَالُوْا: وَمَا المُفَرِّدُوْنَ یَا رَسُولَ اللہِ؟ قَالَ: اَلذَّاکِرُونَ اللہَ کَثِیراً وَّالذَّاکِرَاتِ. رواہ مسلم، کذا في الحصن. وفي روایۃ: قال: اَلمُسْتَهزِءُ وْنَ فِي ذِکرِ اللہِ یَضَعُ الذِّکرُ عَنهُمْ أَثقَالَهُم، فَیَأْتُونَ یَومَ القِیَامَۃِ خِفَافاً. رواہ الترمذي والحاکم مختصرا، وقال: صحیح علیٰ شرط الشیخین، وفي الجامع: رواہ الطبراني عن أبي الدرداء أیضا)
ترجَمہ:
حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ دنیا میں نرم نرم بستروں پر اللہ تَعَالیٰ شَانُہٗ کا ذکر کرتے ہیں، جس کی وجہ سے حق تَعَالیٰ شَانُہٗ جنت کے اَعلیٰ درجوں میں اُن کو پہنچا دیتا ہے۔
۔ بَری: آزاد۔ تیزرَو: تیز چلنے والے۔
فائدہ:
یعنی دنیا میں مَشقَّتیں جھیلنا، صَعُوبتیں[پریشانیاں] برداشت کرنا، آخرت کے رفعِ دَرجات کا سبب ہے، اور جتنی بھی دِینی اُمور میں یہاں مَشقَّت اُٹھائی جائے گی اُتنا ہی بلند مرتبوں کا اِستِحقاق[حق دار] ہوگا؛ لیکن اللہ پاک کے ذکر کی یہ برکت ہے کہ راحت وآرام سے نرم بستروں پر بیٹھ کر بھی کیا جائے تب بھی رَفعِ درجات کا سبب ہوتا ہے۔ نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: اگر تم ہر وقت ذکر میں مشغول رہو تو فرشتے تمھارے بستروں پر اور تمھارے راستوں میں تم سے مُصافَحہ کرنے لگیں۔
(مسلم شریف،کتاب التوبۃ،حدیث:۲۷۵۰، ۱؍۳۵۵)
ایک حدیث میں حضور ﷺ کا ارشاد وارِد ہوا ہے کہ: مُفرِّد لوگ بہت آگے بڑھ گئے، صحابہ ث نے عرض کیا کہ: مُفرِّد کون ہیں؟ حضورﷺنے ارشاد فرمایا: جو اللہ کے ذکر میں وَالِہانہ[عاشقانہ] طریقے پر مشغول ہیں۔
(مسلم شریف،کتاب الذکر والدعا،باب الحث علیٰ ذکر اللہ،حدیث:۲۶۷۶،۱؍۳۴۱)
اِس حدیث کی بِنا پر صوفیاء نے لکھا ہے کہ: سَلاطِین[بادشاہ] اور اُمَرا[مال دار] کو اللہ کے ذکر سے نہ روکنا چاہیے، کہ وہ اِس کی وجہ سے دَرجاتِ اعلیٰ حاصل کرسکتے ہیں۔ حضرت ابودرداء فرماتے ہیں کہ: تُو اللہ کے ذکر کو اپنی مَسرَّتوں اور خوشیوں کے اوقات میں کر، وہ تجھ کو مَشقَّتوں اور تکلیفوں کے وقت کام دے گا۔
(ابونُعیم،۱؍۲۲۵)
حضرت سَلمان فارسی فرماتے ہیں کہ: جب بندہ راحت کے، خوشی کے، ثَروت[مال داری] کے اَوقات میں اللہ کا ذکر کرتا ہے، پھر اُس کو کوئی مَشقَّت اور تکلیف پہنچے تو فرشتے کہتے ہیں کہ: مانُوس[پسندیدہ] آواز ہے جو ضعیف بندے کی ہے، پھر اللہ کے یہاں اُس کی سِفارش کرتے ہیں۔ اور جو شخص راحت کے اوقات میں اللہ کو یاد نہ کرے، پھر کوئی تکلیف اُس کو پہنچے اور اُس وقت یاد کرے تو فرشتے کہتے ہیں: کیسی غیرمانوس آواز ہے!۔(مسندابن ابی شیبہ،۔۔۔۔۔۔۔۔حدیث:۳۵۸۰۹)
حضرت ابنِ عباس ص فرماتے ہیں کہ: جنت کے آٹھ دروازے ہیں، ایک اُن میں سے صرف ذَاکِرین کے لیے ہے۔ (معجم الصغیر۲؍۷۶،۷۷)
ایک حدیث میں ہے کہ: جو شخص اللہ کا ذکر کثرت سے کرے وہ نِفاق سے بَری(آزاد) ہے۔(ایضاً)
دوسری حدیث میں ہے کہ: اللہ جَلَّ شَانُہٗ اُس سے محبت فرماتے ہیں۔ ایک سفر سے واپسی ہورہی تھی، ایک جگہ پہنچ کر حضورﷺ نے فرمایا: آگے بڑھنے والے کہاں ہیں؟ صحابہ نے عرض کیا: بعض تیزرَو آگے چلے گئے، حضورﷺ نے فرمایا: وہ آگے بڑھنے والے کہاں ہیں جو اللہ کے ذکر میں والِہانہ مشغول ہیں؟ جو شخص یہ چاہے کہ جنت سے خوب سیراب ہو وہ اللہ کا ذکر کثرت سے کرے۔
(طبرانی، حدیث:۳۲۶،۲۰؍۱۵۷)
(۵) عَن أَبِي مُوَسیٰ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّﷺ: مَثَلُ الَّذِي یَذکُرُ رَبَّہٗ وَالَّذِيْ لَایَذکُرُ رَبَّہٗ مَثَلُ الحَيِّ وَالْمَیِّتِ.
(أخرجہ البخاري، ومسلم، والبیهقي؛ کذا في الدر والمشکوٰۃ)
ترجَمہ:
حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ: جو شخص اللہ کاذکر کرتا ہے اور جونہیں کرتا اُن دونوں کی مثال زندہ اور مُردے کی سی ہے، کہ ذکر کرنے والا زندہ ہے اور ذکر نہ کرنے والا مردہ ہے۔
وِصال: ملنا۔ تشبیہ: مُشابَہت۔ خُشک: سوکھنا۔
فائدہ:
زندگی ہر شخص کومحبوب ہے، اور مرنے سے ہر شخص ہی گھبراتا ہے، حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: جو اللہ کاذکر نہیں کرتا وہ زندہ بھی مُردے ہی کے حکم میں ہے، اُس کی زندگی بھی بے کار ہے:
زندگانی نَتُواں گُفت حَیاتیکہ مُرا ست
ء
زندہ آںست کہ بادوست وِصالے دَارَد
کہتے ہیں کہ: وہ زندگی ہی نہیں ہے جو میری ہے، زندہ وہ ہے جس کو دوست کا وِصال حاصل ہو۔
بعض عُلَماء نے فرمایا ہے: یہ دل کی حالت کا بیان ہے، کہ جو شخص اللہ کاذکر کرتا ہے اُس کا دل زندہ رہتا ہے، اور جو ذکر نہیں کرتا اُس کا دل مرجاتا ہے۔ اور بعض عُلَمانے فرمایا ہے کہ: تشبیہ نفع اور نقصان کے اعتبار سے ہے، کہ اللہ کے ذکر کرنے والے شخص کو جو ستائے وہ ایساہے جیسا کسی زندہ کو ستائے، کہ اُس سے اِنتِقام لیاجائے گا اور وہ اپنے کِیے کو بھُگتے گا، اور غیرِذاکر کو ستانے والا ایسا ہے جیسا مُردے کو ستانے والا، کہ وہ خود انتقام نہیں لے سکتا۔ صُوفیاء کہتے ہیں کہ: اِس سے ہمیشہ کی زندگی مراد ہے، کہ اللہ کا ذکر کثرت سے اخلاص کے ساتھ کرنے والے مرتے ہی نہیں؛ بلکہ وہ اِس دنیا سے مُنتَقِل ہوجانے کے بعد بھی زندوں ہی کے حکم میں رہتے ہیں، جیسا کہ قرآن پاک میں شہید کے متعلِّق وارد ہوا ہے: ﴿بَلْ أَحیَائٌ عِندَ رَبِّہِمْ﴾ ، اِسی طرح اُن کے لیے بھی ایک خاص قِسم کی زندگی ہے۔ حکیم ترمذیؒ کہتے ہیں کہ: اللہ کا ذکر دل کو تَر کرتا ہے اور نرمی پیدا کرتا ہے، اور جب دل اللہ کے ذکر سے خالی ہوتا ہے تو نفس کی گرمی اور شہوت کی آگ سے خُشک ہوکر سخت ہوجاتا ہے، اور سارے اَعضا سخت ہوجاتے ہیں، اِطاعت سے رُک جاتے ہیں، اگراُن اَعضا کو کھینچو تو ٹوٹ جائیںگے جیسے کہ خُشک لکڑی، کہ جھکانے سے نہیں جھکتی، صرف کاٹ کر جَلا دینے کے کام کی رہ جاتی ہے۔
(روض الریاحین ص:۸۸،حکایت:۸۶)
(۶) عَن أَبِي مُوسیٰ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: لَوْ أَنَّ رَجُلًا فِي حِجْرِہٖ دَرَاهِمٌ یُقْسِمُهَا وَاٰخَرُ یَذْکُرُ اللہَ لَکَانَ الذَّاکِرُ لِلّٰہِ أَفضَلُ.
(أخرجہ الطبراني، کذا في الدر، وفي مجمع الزوائد: رواہ الطبراني في الأوسط، ورجالہ وثقوا)
ترجَمہ: حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: اگر ایک شخص کے پاس بہت سے روپئے ہوں اور وہ اُن کو تقسیم کررہا ہو، اور دوسرا شخص اللہ کے ذکر میں مشغول ہوتو ذکر کرنے والا افضل ہے۔
زِراعت: کھیتی باڑی۔ کارآمد: نفع دینے والا۔فی الجُملَہ: یوںہی۔ واقِفِیَّت:معلوم ہونا۔
فائدہ: یعنی اللہ کے راستے میں خرچ کرنا کتنی ہی بڑی چیز کیوں نہ ہو؛ لیکن اللہ کی یاد اُس کے مقابلے میں بھی افضل ہے، پھر کس قدر خوش نصیب ہیں وہ مال دار اللہ کے راستے میں خرچ کرنے والے، جن کو اللہ کے ذکر کی بھی توفیق نصیب ہوجائے!!۔ ایک حدیث میں ہے کہ: اللہ تَعَالیٰ شَانُہٗ کی طرف سے بھی روزانہ بندوں پر صدقہ ہوتا رہتا ہے، اور ہر شخص کو اُس کی حیثیت کے موافق کچھ نہ کچھ عطا ہوتا رہتا ہے؛ لیکن کوئی عطا اِس سے بڑھ کر نہیں کہ اُس کو اللہ کے ذکر کی توفیق ہوجائے۔(ترغیب۲؍۲۳۰)
جو لوگ کاروبار میں مشغول رہتے ہیں، تجارت، زِراعت، مُلازَمت میں گھِرے رہتے ہیں، اگر تھوڑا بہت وقت اللہ کی یاد کے لیے اپنے اوقات میں سے نکال لیں تو کیسی مُفت کی کمائی ہے! دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں سے دو چار گھنٹے اِس کام کے لیے نکال لینا کون سی مشکل بات ہے! آخر فُضُولیات، لَغوِیات میں بہت سا وقت خرچ ہوتا ہے، اِس کارآمد چیز کے واسطے وقت نکالنا کیا دشوار ہے؟۔
ایک حدیث میں حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: اللہ کے بہترین بندے وہ ہیں جو اللہ کے ذکر کے واسطے چاند، سورج، ستارے اور سایے کی تحقیق رکھتے ہیں۔(شرح السنۃ، ۔۔۔۔۔۔حدیث:۳۹۸)
یعنی اوقات کی تحقیق کا اِہتِمام کرتے ہیں؛ اگرچہ اِس زمانے میں گھڑی گھنٹوں کی کثرت نے اِس سے بے نیاز کردیا، پھر بھی فی الجُملَہ واقِفِیَّت اِن چیزوں کی مناسب ہے، کہ گھڑی کے خراب اور غلط ہوجانے کی صورت میں اَوقات ضائع نہ ہوجائیں۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ: زمین کے جس حصے پر اللہ کا ذکر کیا جائے وہ حصہ نیچے ساتوں زمینوں تک دوسرے حصوں پر فَخر کرتاہے۔(کنز العمال،حدیث: ۱۸۱۷۰، ۱؍۴۲۳،۴۲۴)
(۷) عَن مُعَاذِ بنِ جَبَلٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: لَیسَ یَتَحَسَّرُ أَهلُ الجَنَّۃِ إِلَّا عَلیٰ سَاعَۃٍ مَرَّتْ بِهِم لَم یَذکُرُوْا اللہَ تَعَالیٰ فِیهَا.
(أخرجہ الطبراني والبیهقي، کذا في الدر. وفي الجامع: رواہ الطبراني في الکبیر، والبیهقي في الشعب، ورقم لہ بالحسن. وفي مجمع الزوائد: رواہ الطبراني ورجالہ ثقات، وفي شیخ الطبراني خلاف، وأخرج ابن أبي الدنیا والبیهقي عن عائشۃ بمعناہ مرفوعاً، کذا في الدر. وفي الترغیب بمعناہ عن أبي هریرۃ مرفوعاً، وقال: رواہ أحمد بإسناد صحیح، وابن حبان، والحاکم؛ وقال: صحیح علیٰ شرط البخاري)
ترجَمہ:حضور ِاقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: جنت میں جانے کے بعد اہلِ جنت کو دنیا کی کسی چیز کا بھی قَلَق وافسوس نہیں ہوگا بجُز اُس گھڑی کے جو دنیا میں اللہ کے ذکر بغیر گزر گئی ہو۔
قَلَق: غم۔ بجُز: سِوائے۔ دِیدار: دیکھنا۔
فائدہ:جنت میں جانے کے بعد جب یہ منظر سامنے ہوگا کہ، ایک دفعہ اِس پاک نام کو لینے کا اجر وثواب کتنی زیادہ مقدار میں ہے کہ پہاڑوں کے برابر مل رہا ہے، تو اُس وقت اُس اپنی کمائی کے نقصان پر جس قدر افسوس ہوگا ظاہر ہے۔ ایسے خوش نصیب بندے بھی ہیں جن کو دنیا ہی بغیر ذکرُ اللہ کے اچھی نہیں معلوم ہوتی، حافظ ابن حجرؒ نے مُنبِّہات میں لکھا ہے کہ: یحییٰ بن مُعاذ رازیؒ اپنی مُناجات میں کہا کرتے تھے: إِلٰہِي! لَایَطِیبُ اللَّیلُ إِلَّا بِمُنَاجَاتِكَ، وَلَایَطِیبُ النَّهَارُ إِلَّا بِطَاعَتِكَ، وَلَایَطِیبُ الدُّنیَا إِلَّا بِذِکرِكَ، وَلَایَطِیبُ الاٰخِرَۃُ إلَّا بِعَفوِكَ، وَلَاتَطِیبُ الجَنَّۃُ إِلَّا بِرُؤْیَتِكَ: یا اللہ! رات اچھی نہیں لگتی مگر تجھ سے راز ونیاز کے ساتھ، اور دن اچھا معلوم نہیں ہوتا مگر تیری عبادت کے ساتھ، اور دنیا اچھی نہیں معلوم ہوتی مگر تیرے ذکر کے ساتھ، اور آخرت بھلی نہیں مگر تیری مُعافی کے ساتھ، اور جنت میں لُطف نہیں مگر تیرے دِیدار کے ساتھ۔ (منبہات، آخر باب الخماسی،ص:۵۰)
حضرت سِرِّیؒ فرماتے ہیں کہ: مَیں نے جُرجانیؒ کو دیکھا کہ سَتُّو پھانک رہے ہیں، مَیں نے پوچھا کہ: یہ خشک ہی پھانک رہے ہو؟ کہنے لگے کہ: مَیںنے روٹی چبانے اور پھانکنے کا جب حساب لگایا تو چَبانے میں اِتنا وقت زیادہ خرچ ہوتا ہے کہ اُس میں آدمی سَتَّر مرتبہ سُبحَان اللہ کہہ سکتا ہے؛ اِس لیے مَیں نے چالیس برس سے روٹی کھانا چھوڑ دی، سَتُّو پھانک کر گزر کرلیتا ہوں۔(اِحیاء العلوم۲؍۲۸۶)
مَنصُور بن مُعتمَرؒ کے مُتعلِّق لکھا ہے کہ: چالیس برس تک عشاء کے بعد کسی سے بات نہیں کی۔ رَبِیع بن خَیثَمؒ کے مُتعلِّق لکھا ہے کہ: بیس برس تک جو بات کرتے اُس کو ایک پرچے پرلکھ لیتے، اور رات کو اپنے دل سے حساب کرتے کہ: کتنی بات اُس میں ضروری تھی اور کتنی غیر ضروری؟۔(اِحیاء العلوم،کتاب آفات اللسان،۳؍۱۱۲)
(۸) عَن أَبِي هُرَیرَۃَ وَأَبِي سَعِیدٍ أَنَّهُمَا شَهِدَا عَلیٰ رَسُولِ اللہِﷺ أَنَّہٗ قَالَ: لَا یَقعُدُ قَومٌ یَذکُرُونَ اللہَ إِلَّا حَفَّتْهُمُ الْمَلَائِکَۃُ، وَغَشِیَتْهُمُ الرَّحمَۃُ، وَنَزَلَتْ عَلَیهِمُ السَّکِینَۃُ، وَذَکَرَهُمُ اللہُ فِي مَن عِندَہٗ.
(أخرجہ ابن أبي شیبۃ، وأحمد، ومسلم، والترمذي، وابن ماجہ، والبیهقي؛ کذا في الدر والحصن والمشکاۃ. وفي حدیث طویل لأبي ذر: ’’أُوصِیكَ بِتَقْوَی اللہِ؛ فَإِنَّہٗ رَأْسُ الأَمرِ کُلِّہٖ، وَعَلَیكَ بِتِلَاوَۃِ القُراٰنِ وَذِکرِ اللہِ؛ فَإِنَّہٗ ذِکرٌ لَكَ فِي السَّمَاءِ وَنُورٌ لَكَ فِي الأَرضِ‘‘الحدیث. ذکرہ في الجامع الصغیر بروایۃ الطبراني، وعبد بن حمید في تفسیرہ؛ ورقم لہ بالحسن)
ترجَمہ:
حضرت ابوہریرہ﷽ اور حضرت ابوسعید﷽ دونوں حضرات اِس کی گواہی دیتے ہیں کہ: ہم نے حضورﷺسے سنا، ارشاد فرماتے تھے کہ: جو جماعت اللہ کے ذکر میں مشغول ہو فرشتے اُس جماعت کو سب طرف سے گھیر لیتے ہیں، اور رحمت اُن کو ڈھانک لیتی ہے، اور سَکِینہ اُن پر نازل ہوتی ہے، اوراللہ جَلَّ شَانُہٗ اُن کا تذکرہ اپنی مجلس میں تَفاخُر(فخر) کے طور پر فرماتے ہیں۔
قَرابت: رشتے داری۔ تردُّد: آگے پیچھے،سوچ۔ مَلامَت: بُرا بھلا۔ عیب بِینی: عیب دیکھنا۔ شَرافت: بزرگی۔ جُزو: حصَّہ۔قابلِ مَدح: تعریف کے قابل۔ حتیّٰ کہ: یہاں تک کہ۔
حضرت ابوذَرص نبیٔ اکرم ﷺکا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ: مَیں تجھے اللہ کے تقویٰ کی وَصِیَّت کرتا ہوں کہ تمام چیزوں کی جڑ ہے، اور قرآن شریف کی تلاوت اور اللہ کے ذکر کا اہتمام کر، کہ اِس سے آسمانوں میں تیرا ذکر ہوگا اور زمین میں نور کا سبب بنے گا، اکثر اوقات چپ رہا کر کہ بھلائی بغیر کوئی کلام نہ ہو، یہ بات شیطان کو دُور کرتی ہے اور دِین کے کاموں میں مددگار ہوتی ہے، زیادہ ہنسی سے بچتا رہ کہ اِس سے دِل مَرجاتا ہے اور چہرے کا نور جاتا رہتا ہے، جہاد کرتے رہنا کہ میری اُمَّت کی فقیری یہی ہے، مسکینوں سے محبت رکھنا، اُن کے پاس اکثر بیٹھتے رہنا، اور اپنے سے کم حیثیت لوگوں پرنگاہ رکھنا، اور اپنے سے اونچے لوگوں پرنگاہ نہ کرنا کہ اِس سے اللہ کی اُن نعمتوں کی ناقدری پیدا ہوتی ہے جو اللہ نے تجھے عطا فرمائی ہیں، قَرابت والوں سے تعلُّقات جوڑنے کی فکر رکھنا وہ اگرچہ تجھ سے تعلقات توڑ دیں، حق بات کہنے میں تردُّد نہ کرنا گو کسی کو کڑوی لگے، اللہ کے معاملے میں کسی کی مَلامَت کی پَروا نہ کرنا، تجھے اپنی عیب بِینی دوسروں کے عیوب پر نظر نہ کرنے دے، اور جس عیب میں خود مُبتَلا ہو اُس میں دوسرے پر غصہ نہ کرنا۔ اے ابو ذر! حُسنِ تدبیر سے بڑھ کر کوئی عقل مندی نہیں، اور ناجائز اُمور سے بچنا بہترین پرہیزگاری ہے، اور خوش خُلقی کی برابر کوئی شَرافت نہیں۔
فائدہ: سَکینہ کے معنیٰ سکون ووَقار کے ہیں یا کسی مخصوص رحمت کے، جس کی تفسیر میں مختلف اَقوال ہیں، جن کو مختصر طور پر مَیں اپنے رسالہ ’’چہل حدیثِ جدید در فضائلِ قرآن‘‘ میں لکھ چکا ہوں۔ امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ: یہ کوئی ایسی مخصوص چیز ہے جو طمانینت، رحمت، وغیرہ سب کو شامل ہے، اور ملائکہ کے ساتھ اُترتی ہے۔
حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کا اِن چیزوں کو فرشتوں کے سامنے تفاخُر(فخر) کے طور پر فرمانا ایک تو اِس وجہ سے ہے کہ: فرشتوں نے حضرت آدم ں کی پیدائش کے وقت عرض کیا تھا کہ: یہ لوگ دنیا میں فساد کریں گے، جیسا کہ پہلی حدیث کے ذیل میں گزر چکا ہے۔ دوسرے اِس وجہ سے ہے کہ: فرشتوں کی جماعت اگرچہ سراپاعبادت، سراپا بندگی واطاعت ہے؛ لیکن اُن میں مَعصِیت(گناہ) کا مادّہ بھی نہیں ہے، اور انسان میں چوںکہ دونوں مادے موجود ہیں، اور غفلت اور نافرمانی کے اسباب اُس کو گھیرے ہوئے ہیں، شَہوَتیں اورلَذَّتیں اُس کا جُزو ہیں؛ اِس لیے اُس سے اِن سب کے مقابلے میں جو عبادت، جو اِطاعت ہو، اور جو مَعصِیت(گناہ) کا مقابلہ ہو، وہ زیادہ قابلِ مَدح اور قابلِ قدر ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ: جب حق تَعَالیٰ شَانُہٗنے جنت کو بنایا تو حضرت جبرئیل ںکو ارشاد ہوا کہ: اُس کو دیکھ کر آؤ، اُنھوں نے آکرعرض کیا: یا اللہ! آپ کی عزت کی قَسم! جو شخص بھی اُس کی خبرسن لے گا اُس میں جائے بغیر نہیں رہے گا، یعنی لَذَّتیں اور راحتیں، فَرحتیں، نعمتیں جس قدر اُس میں رکھی گئی ہیں، اُن کے سننے اور یقین آجانے کے بعد کون ہوگا جو اُس میں جانے کی اِنتِہائی کوشش نہ کرے گا؟ اِس کے بعد حق تَعَالیٰ شَانُہٗ نے اُس کو مَشقَّتوں سے ڈھانک دیا، کہ نمازیں پڑھنا، روزے رکھنا، جہاد کرنا، حج کرنا؛ وغیرہ وغیرہ اُس پر سوار کردیے گئے، کہ اِن کوبَجالاؤ تو جنت میں جاؤ، اور پھر حضرت جبرئیل ں کو ارشاد ہوا کہ: اب دیکھو، اُنھوں نے عرض کیا کہ: اب تو یا اللہ! مجھے یہ اندیشہ ہے کہ کوئی اُس میں جاہی نہیں سکے گا۔ اِسی طرح جب جہنَّم کو بنایا تو حضرت جبرئیل ں کو اُس کے دیکھنے کا حکم ہوا، وہاں کے عذاب، وہاں کے مَصائب، گَندگیاں اور تکلیفیں دیکھ کر اُنھوں نے عرض کیا کہ: یا اللہ! آپ کی عزت کی قَسم! جو شخص اِس کے حالات سن لے گا کبھی بھی اِس کے پاس نہ جائے گا، حق سُبْحَانَہٗ وَتَقَدُّس نے دنیا کی لَذَّتوں سے اُس کو ڈھانک دیا، کہ زناکرنا، شراب پینا، ظلم کرنا، اَحکام پر عمل نہ کرنا؛ وغیرہ وغیرہ کا پردہ اُس پر ڈال دیا گیا، پھر ارشاد ہوا کہ: اب دیکھو، اُنھوں نے عرض کیا کہ: یا اللہ! اب تو مجھے اندیشہ ہوگیا کہ شاید ہی کوئی اِس سے بچے۔(نسائی،کتاب الأیمان والنذور،باب الحلف بعزۃ اللہ تعالیٰ،حدیث:۳۷۹۴،۲؍۱۲۹)
اِسی وجہ سے جب کوئی بندہ اللہ کی اطاعت کرتا ہے، گناہ سے بچتا ہے، تو اُس ماحول کے اعتبار سے جس میں وہ ہے، قابلِ قدر ہوتا ہے، اِسی وجہ سے حق تَعَالیٰ شَانُہٗاظہارِ مَسرَّت فرماتے ہیں۔
جن فرشتوں کا اِس حدیثِ پاک میں اور اِس قِسم کی بہت سی حدیثوں میں ذکر آیا ہے، وہ فرشتوں کی ایک خاص جماعت ہے جواِسی کام پرمُتعیَّن ہے، کہ جہاں اللہ کے ذِکر کی مَجالس ہوں، اللہ کا ذکر کیا جارہا ہو، وہاں جمع ہوں اور اُس کو سُنیں۔چناںچہ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ: فرشتوں کی ایک جماعت مُتفرِّق طور پر پھرتی رہتی ہے، اور جس جگہ اللہ کا ذکر سنتی ہے اپنے ساتھیوں کو آواز دیتی ہے کہ: آجاؤ، اِس جگہ تمھارامقصود اور غرض موجود ہے، اور پھر ایک دوسرے پر جمع ہوتے رہتے ہیں، حتیّٰ کہ آسمان تک اُن کا حلقہ پہنچ جاتا ہے۔(بخاری،کتاب الدعوات،باب فضل اللہ عزوجل،حدیث:۶۴۰۸،۲؍۹۴۸)
جیسا کہ تیسرے باب کی دوسری فصل کے نمبر ۱۴؍ پر آرہاہے۔
(۹) عَن مُعَاوِیَۃَ: أَنَّ رَسُولَ اللہِﷺ خَرَجَ عَلیٰ حَلْقَۃٍ مِن أَصحَابِہٖ، فَقَالَ: مَا أَجْلَسَکُم؟ قَالُوا: جَلَسْنَا نَذکُرُ اللہَ، وَنَحمَدُہٗ عَلیٰ مَاهَدَانَا لِلإسلَامِ وَمَنَّ بِہٖ عَلَینَا، قَالَ: اَللہُ مَاأَجْلَسَکُم إِلَّا ذٰلِكَ؟ قَالُوْا: اَللہُ مَا أَجلَسَنَا إِلَّا ذٰلِكَ، قَالَ: أَمَا إِنِّي لَمْ أَسْتَحْلِفَکُمْ تُهْمَۃً لَکُم؛ وَلٰکِنْ أَتَانِي جِبرَئِیلُ، فَأَخبَرَنِي أَنَّ اللہَ یُبَاهِي بِکُمُ المَلَائِکَۃَ.
(أخرجہ ابن أبي شیبۃ وأحمد ومسلم والترمذي والنسائي، وکذا في الدر والمشکاۃ)
ترجَمہ: حضورِ اقدس ﷺایک مرتبہ صحابہ کی ایک جماعت کے پاس تشریف لے گئے اور دریافت فرمایا کہ: کس بات نے تم لوگوں کو یہاں بٹھایا ہے؟ عرض کیا کہ: اللہجَلَّ شَانُہٗ کا ذکر کر رہے ہیں، اور اِس بات پر اُس کی حَمد وثنا کررہے ہیں کہ اُس نے ہم لوگوں کو اسلام کی دولت سے نوازا، یہ اللہ کا بڑا ہی احسان ہم پر ہے، حضورﷺنے فرمایا: کیا خدا کی قَسم صرف اِسی وجہ سے بیٹھے ہو؟ صحابہث نے عرض کیا: خدا کی قَسم! صرف اِسی وجہ سے بیٹھے ہیں، حضورﷺ نے فرمایا کہ: کسی بدگمانی کی وجہ سے مَیں نے تم لوگوں کو قَسم نہیں دی؛ بلکہ جبرئیلں میرے پاس ابھی آئے تھے، اور یہ خبر سنا گئے کہ: اللہ جَلَّ شَانُہٗ تم لوگوں کی وجہ سے ملائکہ پر فخر فرمارہے ہیں۔
مُسلَّط:مقرر۔ مانِع:رُکاوَٹ۔
فائدہ:یعنی مَیں نے جو قَسم دے کر پوچھا اُس سے مقصود اِہتِمام اور تاکید تھی، کہ ممکن ہے کوئی اَور خاص بات بھی اِس کے عِلاوہ ہو، اور وہ بات اللہجَلَّ شَانُہٗکے فخر کا سبب ہو، اب معلوم ہوگیا کہ صرف یہ تذکرہ ہی سببِ فخر ہے۔ کس قدر خوش قسمت تھے وہ لوگ جن کی عبادتیں مقبول تھیں! اور اُن کی حَمد وثَنا پر حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کے فَخر کی خوش خبری اُن کو نبی ﷺ کی زبان سے دنیا ہی میں معلوم ہوجاتی تھی؛ اور کیوں نہ ہوتا کہ اُن حضرات کے کارنامے اِسی کے مُستَحق تھے۔ اُن کے کارناموں کا مختصر تذکرہ مَیں اپنے رسالہ ’’حکایاتِ صحابہ ث‘‘ میں نمونے کے طور پر لکھ چکا ہوں۔
مُلَّا علی قاریؒ فرماتے ہیں کہ: فخر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ: حقتَعَالیٰ شَانُہٗ فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ: ’’دیکھو! یہ لوگ باوجودیکہ نفس اُن کے ساتھ ہے، شیطان اُن پر مُسلَّط ہے، شَہوتیں اُن میں موجودہیں، دنیا کی ضرورتیں اُن کے پیچھے لگی ہوئی ہیں؛ اِن سب کے باوجود اُن سب کے مقابلے میں اللہ کے ذکر میں مشغول ہیں، اور اِتنی کثرت سے ہٹانے والی چیزوں کے باوجود میرے ذکر سے نہیں ہٹتے، تمھارا ذکر وتسبیح -اِس لحاظ سے کہ تمھارے لیے کوئی مانِع بھی اُن میں سے نہیں ہے- اُن کے مقابلے میں کوئی چیز نہیںہے‘‘۔
(مرقاۃ المفاتیح،کتاب الدعوات،باب ذکر اللہ عزوجل والتقرب إلیہ،الفصل الثالث،۵؍۶۹)
(۱۰) عَن أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِﷺ قَالَ: مَا مِن قَومٍ اِجتَمَعُوْا یَذْکُرُونَ اللہَ لَایُرِیدُونَ بِذٰلِكَ إِلَّا وَجهَہٗ؛ إِلَّا نَادَاهُمْ مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ: أَنْ قُومُوا مَغفُوْراً لَکُمْ، قَدْ بَدَّلْتُ سَیِّئَاتِکُمْ حَسَنَاتٍ.
(أخرجہ أحمد والبزار وأبو یعلیٰ والطبراني. وأخرجہ الطبراني عن سهل بن الحنظلیۃ أیضا، وأخرجہ البیهقي عن عبداللہ بن مغفل، وزاد: وَمَا مِنْ قَومٍ اِجتَمَعُوا فِي مَجلِسٍ فَتَفَرَّقُوا وَلَم یَذکُرُوا اللہَ؛ إِلَّا کَانَ ذٰلِكَ عَلَیهِمْ حَسْرَۃً یَومَ القِیَامَۃِ. کذا في الدر، قال المنذري: رواہ الطبراني في الکبیر والأوسط، ورواتہ محتج بهم في الصحیح. وفي الباب عن أبي هریرۃ عند أحمد، وابن حبان وغیرهما؛ وصححہ الحاکم علیٰ شرط مسلم في موضع، وعلیٰ شرط البخاري في موضع أخریٰ. وعزا السیوطي في الجامع حدیث سهل إلی الطبراني، والبیهقي في الشعب والضیاء؛ ورقم لہ بالحسن. وفي الباب روایات ذکرها في مجمع الزوائد)
ترجَمہ:
حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ: جو بھی لوگ اللہ کے ذکر کے لیے مُجتَمع ہوں اور اُن کا مقصود صرف اللہ ہی کی رَضا(خوشی) ہو، تو آسمان سے ایک فرشتہ ندا کرتا ہے کہ: تم لوگ بخش دیے گئے، اور تمھاری برائیاں نیکیوں سے بدل دی گئی۔ دوسری حدیث میں ہے: اِس کے بِالمُقابل جو اجتماع ایسا ہو کہ اُس میں اللہ پاک کا کوئی ذکر ہو ہی نہیں، تو یہ اِجتِماع قِیامت کے دن حَسرت وافسوس کا سبب ہوگا۔
اِضاعت: ضائع کرنا۔ راہ گِیر: مسافر۔ پاسَنگ: ترازو کے پلڑوں کی کمی بیشی کو پورا کرنے کی غرض سے جو وزن ترازو کی ڈنڈی سے باندھا جاتا ہے۔سَیِّئات: بُرائیاں۔۔تَوضِیح: وَضاحت۔ ضَربُ المَثَل: کہاوَت کی طرح مشہور۔ جَبَل گَردَد جِبِلَّت نہ گَردَد: پہاڑ بدل سکتا ہے؛ لیکن عادت نہیں بدل سکتی۔ ماخوذ: لیا گیا۔
فائدہ:یعنی اِس اجتماع کی بے برکتی اوراِضاعت پر حَسرت ہوگی، اور کیا بعید ہے کہ وَبال کا سبب کسی وجہ سے بن جائے!۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: جس مجلس میں اللہ کا ذکر نہ ہو، حضور ﷺ پر درود نہ ہو، اُس مجلس والے ایسے ہیں جیسے مَرے ہوئے گدھے پر سے اُٹھے ہو۔
(ابوداود،کتاب الادب،باب کراہیۃ الرجل أن یقوم من مجلسہ ولایذکر اللہ،حدیث:۴۸۵۵،ص:۶۶۶)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: مَجلِس کا کَفَّارہ یہ ہے کہ: اُس کے اِختِتام پر یہ دعا پڑھ لے: سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ، سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوْبُ إِلَیْكَ.
(ترمذی،کتاب الدعوات،باب مایقول إذا قام من مجلسہ، حدیث: ۳۴۳۳، ۲؍ ۱۸۱)
ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ: جوبھی مجلس ایسی ہو جس میں اللہ کا ذکر، حضور ﷺ پر درود شریف نہ ہو، وہ مجلس قِیامت کے دن حسرت اور نقصان کاسبب ہوگی، پھر حقتَعَالیٰ شَانُہٗ اپنے لُطف سے چاہے مغفرت فرماویں چاہے مُطالَبہ اور عذاب فرماویں۔
(ترمذی،باب الدعوات،باب ماجاء في القوم یجلسون ولایذکرون اللہ،حدیث:۳۳۸۰،۲؍۱۷۵)
ایک حدیث میں ہے کہ: مجلسوں کا حق ادا کیا کرو، اور وہ یہ ہے کہ: اللہ کا ذکر اُن میں کثرت سے کرو، راہ گِیروں کو بہ وقتِ ضرورت راستہ بتاؤ، اور (ناجائزچیز سامنے آجائے تو)آنکھیں بند کرلو، (یا نیچی کرلو کہ اُس پرنگاہ نہ پڑے)۔
(مسند احمد،۔۔۔۔۔۔۔۔۔حدیث:۱۶۳۶۷)
حضرت علی کَرَّم اللہُ وَجْہَہٗ ارشاد فرماتے ہیں کہ: جو شخص یہ چاہے کہ اُس کا ثواب بہت بڑی ترازو میں تُلے( یعنی: ثواب بہت زیادہ مقدار میں ہو کہ وہی بڑی ترازو میں تُلے گا، معمولی چیز تو بڑی ترازو کے پاسَنگ میں آجائے گی) اُس کو چاہیے کہ مَجلِس کے ختم پر یہ دعا پڑھاکرے: سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُونَ، وَسَلَامٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ. (حِصن وهَامِشُہٗ)
(تفسیر بغوی۔۔۔۔۔۔۔)
حدیثِ بالا میں بُرائیوںکے نیکیوںسے بدل دینے کی بَشارت بھی ہے، قرآنِ پاک میں بھی سورۂ فرقان کے ختم پر مؤمنین کی چند صفات ذکر فرمانے کے بعد ارشاد ہے: ﴿فَأُولٰئِکَ یُبَدِّلُ اللہُ سَیِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ، وَّکَانَ اللہُ غَفُوراً رَّحِیماً﴾ (پس یہی لوگ ہیں جن کی بُرائیوں کو حق تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ غفورٌ رَحیم ہیں)۔ اِس آیتِ شریفہ کے مُتعلِّق عُلَمائے تفسیر کے چند اَقوال ہیں:
ایک یہ کہ: سَیِّئات مُعاف فرمادی جائیںگی اور حَسنَات باقی رہ جائیںگی، گویا یہ بھی تبدیل ہے کہ سیئہ کوئی باقی نہیں رہی۔
دوسرے یہ کہ: اُن لوگوں کو بجائے بُرے اعمال کرنے کے نیک اعمال کی توفیق حق تَعَالیٰ شَانُہٗکے یہاں نصیب ہوگی، جیسا کہ بولتے ہیں: ’’گرمی کے بجائے سردی ہوگئی‘‘۔
تیسرے یہ کہ: اُن کی عادتوں کا تعلُّق بجائے بُری چیزوں کے اچھی چیزوں کے ساتھ وَابَستہ[متعلِّق] ہوجاتا ہے، اِس کی تَوضِیح یہ ہے کہ: آدمی کی عادتیں طَبعی ہوتی ہیں جو بدلتی نہیں، اِسی وجہ سے ضَربُ المَثَل ہے: ’’جَبَل گَردَد جِبِلَّت نہ گَردَد‘‘، اور یہ مَثَل بھی ایک حدیث سے ماخوذ ہے، جس میں ارشاد ہے کہ: اگر تم سنو کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹَل گیا اور دوسری جگہ چلاگیا تو اُس کی تصدیق کرلو؛ لیکن اگر سنو کہ طبیعت بدل گئی تو اُس کی تصدیق نہ کرو۔
(مسند احمد،۔۔۔۔۔۔۔حدیث:۲۷۴۹۹)
۔ اِجارہ: قبضہ۔ مَظاہِر: ظاہر ہونے کی جگہیں۔ اَنواع: قِسمیں۔ مَخفِی: پوشیدہ۔ چارۂ کار: چھُٹکارا۔ نوع: قِسم۔ باز پُرس: پوچھ گچھ۔
گویا حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ: عادات کا زائل[ختم] ہونا پہاڑ کے زائل ہونے سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ اِس کے بعد پھر اشکال ہوتا ہے کہ: صوفیا اور مَشائخ جو عادات کی اِصلاح کرتے ہیں اُس کا کیا مطلب ہوگا؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ: عادتیں نہیں بدلتیں؛ بلکہ اُن کا تعلُّق بدل جاتا ہے، مثلاً: ایک شخص کے مزاج میں غصہ ہے، وہ مشائخ کی اِصلاح اور مجاہَدوں سے ایسا ہوجائے کہ غُصَّہ بالکل نہ رہے، تو دشوار ہے، ہاں! اِس غصے کا تعلُّق پہلے سے جن چیزوں کے ساتھ تھا مثلاً: بے جا ظلم، تکبُّر، وغیرہ؛ اب بجائے اُن کے اللہ کی نافرمانیوں پر، اُس کے اَحکام کی خلاف وَرزِی وغیرہ وغیرہ کی طرف مُنتَقِل ہوجاتا ہے، وہی حضرت عمرص جو ایک زمانے میں مسلمانوں کی اِیذا رَسانی[تکلیف پہنچانا] میں کوئی دَقِیقہ[کَسَر] نہ چھوڑتے تھے، ایمان کے بعد حضورﷺ کے فیضِ صُحبت سے کُفَّار وفُسَّاق پر اِسی طرح ٹوٹتے تھے، اِسی طرح اَور اخلاق کا بھی حال ہے۔ اِس توضِیح کے بعد اب مطلب یہ ہوا کہ: حق تَعَالیٰ شَانُہٗ ایسے لوگوں کے اخلاق کا تعلق بجائے مَعاصی کے حَسَنات سے فرمادیتے ہیں۔
چوتھے یہ کہ: حق تَعَالیٰ شَانُہٗاُن کو اپنی بُرائیوں پر توبہ کی توفیق عطا فرماتے ہیں،جس کی وجہ سے پُرانے پُرانے گناہ یاد آکر ندامت اور توبہ کا سبب ہوتا ہے، اور ہر گناہ کے بدلے ایک توبہ -جو عبادت ہے اور نیکی ہے- ثَبَت[تحریر] ہوجاتی ہے۔
پانچویں یہ ہے کہ: اگر مولائے کریم کوکسی کی کوئی ادا پسند ہو اور اُس کو اپنے فضل سے برائیوں کے برابر نیکیاں دے تو کسی کے باپ کاکیا اِجارہ ہے؟وہ مالک ہے، بادشاہ ہے، قدرت والا ہے، اُس کی رحمت کی وُسعت(کُشادگی) کا کیا کہنا! اُس کی مغفر ت کا دروازہ کون بند کرسکتا ہے؟ اُس کی عطا کو کون روک سکتا ہے؟ جو دے رہا ہے وہ اپنی ہی مِلک سے دیتا ہے، اُس کو اپنی قدرت کے مَظاہِر بھی دِکھانا ہیں، اپنی مغفرت کے کرشمے بھی اُسی دن ظاہر کرنا ہیں۔ اَحادیث میں مَحشر کا نَظَارہ اور حساب کی جانچ مختلف طریقوں سے وارد ہوئی ہے، جس کو ’’بَهجۃُ النُّفُوس‘‘ نے مختصر طور پر ذکر کیا ہے، اور لکھا ہے کہ: حساب چند اَنواع پرمُنقَسِم ہوگا: ایک نوع یہ ہوگی کہ: بعض بندوں سے نہایت مَخفِی رحمت کے پردے میں مُحاسَبہ ہوگا، اور اُن کے گناہ اُن کو گِنوائے جائیںگے، اور کہاجائے گا کہ: تُو نے فلاں وقت یہ گناہ کیا، فلاں وقت ایسا کیا، اور اُس کو اقرار بغیرچارۂ کار نہ ہوگا، حتیٰ کہ وہ گناہوں کی کثرت سے یہ سمجھے گا کہ مَیں ہلاک ہوگیا، تو ارشاد ہوگا کہ: ہم نے دنیا میں بھی تجھ پر سَتَّاری کی، آج بھی ستاری کرتے ہیں اور مُعاف کرتے ہیں؛ چناںچہ جب یہ شخص اور اِس جیسا جو ہوگا وہ حساب کے مَقام سے واپس جائے گا تو لوگ دیکھ کر کہیںگے کہ: یہ کیسا مبارک بندہ ہے کہ اِس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں؛ اِس لیے کہ اُن کو اِس کے گناہوں کی خبر ہی نہ ہوئی۔ اِسی طرح ایک نوع ایسی ہوگی کہ: اُن کے لیے چھوٹے بڑے گناہ ہوںگے، اِس کے بعد ارشاد ہوگا: اچھا اِن کے چھوٹے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دو، تو وہ جلدی سے کہیںگے کہ: ابھی اَور بھی گناہ ایسے ہیں جو یہاں ذکر نہیں کیے گئے۔ اِسی طرح اَور انواع کا ذکر کیا ہے، کہ کس کس طرح سے پیشی اور حساب ہوگا؟۔(بہجۃ النفوس۔۔۔۔۔)
حدیث میں ایک قصہ آتا ہے، نبیٔ کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ: مَیں اُس شخص کو پہچانتا ہوں جو سب سے اخیر میں جہنَّم سے نکالاجائے گا اور سب سے اخیر میں جنت میں داخل کیا جائے گا، ایک شخص کو بلایاجائے گا اور فرشتوں سے کہاجائے گا کہ: اِس کے بڑے بڑے گناہ تو ابھی ذکر نہ کیے جائیں، چھوٹے چھوٹے گناہ اِس کے سامنے پیش کیے جائیں، اُن پر باز پُرس کی جائے؛ چناںچہ یہ شروع ہوجائے گا، اور ایک ایک گناہ وقت کے حوالے کے ساتھ اُس کوجَتایا جائے گا، وہ اِنکار کیسے کرسکتا ہے؟ اقرار کرتا جائے گا، اِتنے میں ارشادِ ربِّی ہوگا کہ: اِس کو ہرگناہ کے بدلے ایک نیکی دی جائے، تو وہ جلدی سے کہے گا کہ: ابھی تو اَور بھی بہت سے گناہ باقی ہیں، اُن کاتوذکر ہی نہیں آیا۔ اِس قصے کو نقل فرماتے ہوئے حضورﷺ کو بھی ہنسی آگئی۔(مسلم،کتاب الایمان،باب إثبات الشفاعۃ وإخراج الموحدین من النار،حدیث:۱۹۰۔۱؍۱۰۶)
اِس قصے میں اوَّل توجہنَّم میں سب سے اخیر میں نکلنا ہے، یہی کیا کم سزاہے؟ دوسرے کیا معلوم کون خوش قسمت ایسا ہوسکتا ہے کہ جس کے گناہوں کی تبدیل ہو! اِس لیے اللہ کی پاک ذات سے اُمید کرتے ہوئے فضل کا مانگتے رہنا بندگی کی شان ہے؛ لیکن اُس پر مُطمَئِن ہونا جُرأت ہے؛ البتہ سَیِّئات کو حَسَنات سے بدلنے کا سبب اخلاص سے مَجالسِ ذکر میں حاضری حدیثِ بالا سے معلوم ہوتی ہی ہے؛ لیکن اِخلاص بھی اللہ ہی کی عطا سے ہوسکتاہے۔
مُعتَد بِہٖ: لائقِ شمار۔ قال: کہنا۔ حال: عمل کرنا۔ جابِر: ظالم۔ مُتشدِّد: سخت مزاج۔ ٹھِلیاں: پانی بھرنے کا مٹی کا چھوٹا برتن۔ تَشدُّد: سختی۔ پِیر: بوڑھا۔ مُہمَل: بے معنیٰ۔ خوشامد: مَنَّت سَماجت۔ اعِزَّہ: رشتے دار۔ نہ دارد: نہ ملے۔
ایک ضروری بات یہ ہے کہ، جہنَّم سے اخیر میں نکلنے والے کے بارے میں مختلف روایات وارد ہوئی ہیں؛ لیکن اُن میں کوئی اشکال نہیں، ایک مُعتَد بِہٖ جماعت اگر نکلے گی تو بھی ہر شخص اخیر میں نکلنے والا ہے، اور جو قریب اخیر کے نکلے وہ بھی اخیر ہی کہلاتا ہے؛ نیز خاص خاص جماعت کا اخیر بھی مراد ہوسکتا ہے۔ اِس حدیث میں اہم مسئلہ اخلاص کا ہے، اور اخلاص کی قید اَور بھی بہت سی احادیث میں اِس رسالے میں نظر سے گزرے گی، حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اخلاص ہی کی قدر ہے، جس درجے کا اخلاص ہوگا اُسی درجے کی عمل کی قیمت ہوگی۔ صوفیاء کے نزدیک اخلاص کی حقیقت یہ ہے کہ: قال اور حال برابر ہو۔ ایک حدیث میں آئندہ آرہا ہے کہ: اخلاص یہ ہے کہ گناہوں سے روک دے۔
’’بَہجَۃُ النُّفوس‘‘ میں لکھا ہے: ایک بادشاہ کے لیے -جو نہایت ہی جابِر اور مُتشدِّد تھا- ایک جہاز میں بہت سی شراب لائی جارہی تھی، ایک صاحب کا اُس جہاز پر گُزر ہوا، اور جس قدرٹھِلیاں شراب سے بھری ہوئی تھیں سب ہی توڑ دِیں، ایک چھوڑ دی، کسی شخص کو ہمَّت اُن کو روکنے کی نہ پڑی؛ لیکن اِس پر حیرت تھی کہ اُس بادشاہ کیتَشدُّد کا مقابلہ بھی کوئی نہیں کرسکتا تھا، پھر اِس نے کس طرح جُرأت کی! بادشاہ کو اِطِّلاع دی گئی، اُس کو بھی تعجُّب ہوا، اوّلاً اِس بات پر کہ: اُس کے مال پر کس طرح ایک معمولی آدمی نے جرأت کی! اور پھر اِس پر کہ ایک مَٹکی کیوں چھوڑ دی! اُن صاحب کو بلایا گیا، پوچھا کہ: یہ کیوں کیا؟ اُنھوں نے جواب دیا کہ: میرے دل میں اِس کا تقاضا ہوا؛ اِس لیے ایسا کیا، تمھارا جو دل چاہے سزا دے دو، اُس نے پوچھا کہ: یہ ایک کیوں چھوڑی؟ اُنھوں نے کہا کہ: مجھے اوّلاً اِسلامی غیرت کا تقاضا تھا؛ اِس لیے مَیں نے توڑِیں؛ مگر جب ایک رہی تو میرے دل میں ایک خوشی سی پیدا ہوئی کہ مَیں نے ایک ناجائز کام کو مِٹادیا، تو مجھے اُس کے توڑنے میں یہ شبہ ہوا کہ یہ حَظِّ نفس: دل کی خوشی کی وجہ سے ہے؛ اِس لیے ایک کو چھوڑ دیا، بادشاہ نے کہا: اِس کو چھوڑ دو، یہ مجبور تھا۔(بہجۃ النفوس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
’’اِحیاء ُالعلوم‘‘ میںلکھا ہے کہ: بنی اسرائیل میں ایک عابد تھا جو ہروقت عبادت میں مشغول رہتا تھا، ایک جماعت اُس کے پاس آئی اور کہا کہ: یہاں ایک قوم ہے جو ایک درخت کوپُوجتی ہے، یہ سن کر اُس کو غصہ آیا، اور کُلہاڑا کندھے پر رکھ کر اُس کو کاٹنے کے لیے چل دیا، راستے میں شیطان ایک پِیر مرد کی صورت میں مِلا، عابدسے پوچھا: کہاں جارہے ہو؟ اُس نے کہا: فلاں درخت کاٹنے جاتا ہوں، شیطان نے کہا: تمھیں اُس درخت سے کیا واسطہ؟ تم اپنی عبادت میں مشغول رہو، تم نے اپنی عبادت کو ایک مُہمَل کام کے واسطے چھوڑ دیا، عابد نے کہا: یہ بھی عبادت ہے، شیطان نے کہا کہ: مَیں نہیں کاٹنے دوںگا، دونوں میں مُقابلہ ہوا، وہ عابد اُس کے سینے پر چڑھ گیا، شیطان نے اپنے کو عاجز دیکھ کر خوشامد کی اور کہا: اچھا! ایک بات سن لے، عابد نے اُس کو چھوڑ دیا، شیطان نے کہا: اللہ نے تجھ پر اُس کو فرض تو کیا نہیں، تیرا اُس سے کوئی نقصان نہیں، تو اُس کی پرستش نہیں کرتا، اللہ کے بہت سے نبی ہیں، اگر وہ چاہتا تو کسی نبی کے ذریعے سے اُس کو کٹوا دیتا، عابد نے کہا: مَیں ضرور کاٹوں گا، پھر مقابلہ ہوا، وہ عابد پھر اُس کے سینے پر چڑھ گیا، شیطان نے کہا: اچھا! سُن، ایک فیصلے والی بات تیرے نفع کی کہوں؟ اُس نے کہا: کہہ، شیطان نے کہا: تُو غریب ہے، دنیا پر بوجھ بناہوا ہے، تُو اِس کام سے باز آ، مَیں تجھے روزانہ تین دینار (اشرفی)دیا کروںگا جو روزانہ تیرے سِرہانے رکھے ہوئے مِلاکریںگے، تیری بھی ضرورتیں پوری ہوجائیں گی، اپنے اعِزَّہ پر بھی احسان کرسکے گا، فقیروں کی مدد کرسکے گا، اور بہت سے ثواب کے کام کرسکے گا، اِس میںایک ہی ثواب ہوگا اور وہ بھی بے کار، کہ وہ لوگ پھر دوسرا لگالیںگے؛ عابد کی سمجھ میں آگیا، قَبول کرلیا، دو دن تو وہ ملے، تیسرے دن سے نہ دارد؛ عابد کوغُصَّہ آیا اور کُلہاڑی لے کر پھر چلا، راستے میں وہ بوڑھاملا، پوچھا: کہاں جارہا ہے؟ عابد نے بتایا کہ: اُسی درخت کوکاٹنے جارہا ہوں، بوڑھے نے کہا کہ: تُو اُس کونہیں کاٹ سکتا، دونوں میں جھگڑا ہوا، وہ بوڑھا غالب آگیا اور عابد کے سینے پر چڑھ گیا، عابد کو بڑا تعجُّب ہوا، اُس سے پوچھا کہ: یہ کیا بات ہے کہ تُو اِس مرتبہ غالب ہوگیا؟ اُس بوڑھے نے کہا کہ: پہلی مرتبہ تیرا غصہ خالص اللہ کے واسطے تھا؛ اِس لیے اللہ جَلَّ شَانُہٗ نے مجھے مغلوب کردیا تھا، اِس مرتبہ اِس میں دِیناروں کا دخل تھا؛ اِس لیے تُو مغلوب ہوا۔
(احیاء العلوم، فضیلۃ الاخلاص،۴؍۳۷۷)
حق یہ ہے کہ جو کام خالص اللہ کے واسطے کیا جاتا ہے اُس میں بڑی قوَّت ہوتی ہے۔
(۱۱) عَن مُعَاذِ بنِ جَبَلٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: مَا عَمِلَ اٰدَمِيٌّ عَمَلًا أَنجیٰ لَہٗ مِن عَذِابِ القَبرِ مِنْ ذِکرِ اللہِ.
(أخرجہ أحمد، کذا في الدر. وإلیٰ أحمد عزاہ في الجامع الصغیر بلفظ: أَنجیٰ لَہٗ مِنْ عَذَابِ اللہِ، ورقم لہ بالصحۃ. وفي مجمع الزوائد: رواہ أحمد ورجالہ رجال الصحیح؛ إلا أن زیاداً لم یدرك معاذاً، ثم ذکرہ بطریق اٰخر، وقال: رواہ الطبراني ورجالہ رجال الصحیح. قلت: وفي المشکاۃ عنہ موقوفاً بلفظ: مَاعَمِلَ العَبدُ عَمَلًا أَنجیٰ لَہٗ مِن عَذَابِ اللہِ مِن ذِکرِ اللہِ. وقال: رواہ مالك والترمذي وابن ماجہ. اھ. قلت: وهکذا رواہ الحاکم، وقال: صحیح الإسناد، وأقرہ علیہ الذهبي؛ وفي المشکاۃ بروایۃ البیهقي في الدعوات عن ابن عمر مرفوعا بمعناہ، قال القاري: رواہ ابن أبي شیبۃ وابن أبي الدنیا، وذکرہ في الجامع الصغیر بروایۃ البیهقي في الشعب، ورقم لہ بالضعف، وزاد في أولہ: لِکُلِّ شَيئٍ صِقَالَۃٌ وَصِقَالَۃُ القُلُوبِ ذِکرُ اللہِ. وفي مجمع الزوائد بروایۃ جابر مرفوعاً نحوہ، وقال: رواہ الطبراني في الصغیر والأوسط، ورجالهما رجال الصحیح. اھ )
ترجَمہ:نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے: اللہ کے ذِکر سے بڑھ کر کسی آدمی کا کوئی فعل عذابِ قبر سے زیادہ نجات دینے والا نہیں ہے۔
سَہَل: آسان۔ غُربت: مُفلِسی۔ وَسیع: کُشادہ۔ مُنتہائے نظر: جہاں تک نظر جائے۔ بھِینچتی: دبانا۔ مُسلَّط: متعیَّن۔ نوچتے: ڈسنا۔ مُہذَّب: تہذیب یافتہ۔ بِالجُملہ: خلاصہ یہ کہ۔
فائدہ: عذابِ قبر کتنی سخت چیز ہے اُس سے وہی لوگ واقف ہیں جن کے سامنے وہ اَحادیث ہیں جو عذابِ قبر کے بارے میں وارد ہوئی ہیں۔ حضرت عثمان ص جب کسی قبرپر تشریف لے جاتے تو اِس قدر روتے کہ ڈاڑھی مبارک تَر ہوجاتی، کسی نے پوچھا کہ: آپ جنت کے، دوزخ کے ذکر سے ایسا نہیں روتے جیسا کہ قبر کے سامنے آجانے سے روتے ہیں، آپ نے ارشاد فرمایا کہ: قبر آخرت کی منزلوں میں سے سب سے پہلی منزل ہے، جو شخص اِس سے نجات پالے بعد کی سب منزلیں اُس پر سَہَل ہوجاتی ہیں، اور جو اِس سے نجات نہ پائے بعد کی منزلیںدشوار ہی ہوتی جاتی ہیں، پھر آپ نے حضورِ اقدس ﷺکا پاک ارشاد سنایا کہ: حضورﷺ یہ ارشاد فرماتے تھے کہ: مَیں نے کوئی مَنظَر قبر سے زیادہ گھبراہٹ والا نہیں دیکھا۔ (ترمذی ،ابواب الزہد، باب ماجاء في فظاعۃ القبر، حدیث:۲۳۰۸، ۲؍۵۷)
حضرت عائشہ رَضِيَ اللہُعَنھَا ارشاد فرماتی ہیں کہ: حضورِ اقدس ﷺہرنماز کے بعد عذابِ قبر سے پناہ مانگتے تھے۔(بخاری،ابواب الجنائز،حدیث:۱۳۷۲،۱؍۱۸۳)
حضرت زیدص ارشاد فرماتے تھے کہ: حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: مجھے یہ اندیشہ ہے کہ تم ڈر اور خوف کی وجہ سے مُردوں کادفن کرنا چھوڑ دوگے؛ ورنہ مَیں اِس کی دعا کرتا کہ، اللہجَلَّ شَانُہٗ تمھیںبھی عذابِ قبر سُنادے۔(مسلم،باب عرض مقعد المیت من الجنۃ والنار علیہ،حدیث:۲۸۶۷،۲؍۳۸۶)
آدمیوں اور جِنَّات کے سِوا اَور جاندار عذابِ قبر کو سنتے ہیں۔(بخاری،ابواب الجنائز،حدیث: ۱۳۷۴، ۱؍۱۸۳)
ایک حدیث میںن آیا ہے کہ: نبیٔ اکرم ﷺایک مرتبہ سفر میں تشریف لے جارہے تھے کہ حضور ﷺ کی اونٹنی بِدکنے لگی، کسی نے پوچھا: حضور ﷺکی اونٹنی کو کیا ہوا؟ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ایک آدمی کوقبر کاعذاب ہورہا ہے اُس کی آواز سے بِدکنے لگی۔ (مسلم،باب عرض مقعد المیت من الجنۃ والنار علیہ،حدیث:۲۸۶۷،۲؍۳۸۶)
ایک مرتبہ نبیٔ کریم ﷺ مسجد میں تشریف لے گئے، تو چند آدمیوں کودیکھا کہ کھِل کھِلاکر ہنس رہے ہیں، حضورﷺنے ارشاد فرمایا کہ: اگر موت کو اکثر یاد کیا کرو تو یہ بات نہ ہو، کوئی دن قبر پر ایسا نہیں گزرتا جس میں وہ یہ اعلان نہیں کرتی کہ: مَیں غُربت کاگھر ہوں، تنہائی کا گھر ہوں، کِیڑوں اور جانوروں کا گھر ہوں؛ جب کوئی مومن (کامل ایمان والا)دفن ہوتا ہے تو قبر اُس سے کہتی ہے: تیرا آنامبارک ہے، تُونے بہت ہی اچھا کیا کہ آگیا، جتنے لوگ میری پُشت پر (یعنی زمین پر) چلتے تھے تُو اُن سب میں مجھے بہت محبوب تھا، آج تُو میرے سپرد ہوا ہے تو میرا حُسنِ سلوک بھی دیکھے گا، اِس کے بعد وہ اِس قدر وَسیع ہوجاتی ہے کہ مُنتہائے نظر تک کھُل جاتی ہے، اور جنت کا ایک دروازہ اُس میں کھل جاتا ہے، جس سے وہاں کی ہَوائیں، خوشبوئیں وغیرہ پہنچتی رہتی ہیں؛ اور جب کافر یا فاجِر(فاسق) دفن کیاجاتا ہے تو قبر کہتی ہے کہ: تیرا آنا مَنحوس اورنامبارک ہے، کیا ضرورت تھی تیرے آنے کی؟ جتنے آدمی میری پُشت پر چلتے تھے سب میں زیادہ بُغض(کِینہ) مجھے تجھ سے تھا، آج تُو میرے حوالے ہوا تو میرا مُعاملہ بھی دیکھے گا، اِس کے بعد اُس کو اِس قدر زور سے بھِینچتی ہے کہ پَسْلِیاں ایک دوسری میں گھُس جاتی ہیں، جس طرح ہاتھ میں ہاتھ ڈالنے سے انگلیاں ایک دوسری میں گھُس جاتی ہیں، اِس کے بعد نوّے یا نِنَّانوے اَژدَہے اُس پر مُسلَّط ہوجاتے ہیں جو اُس کو نوچتے رہتے ہیں، اور قِیامت تک یہی ہوتا رہے گا۔ حضورﷺ فرماتے ہیں کہ: اگر ایک اَژدہا بھی اُن میں سے زمین پر پھُنکار مار دے تو قِیامت تک زمین میں گھاس نہ اُگے۔ اِس کے بعد حضورﷺ نے ارشادفرمایا کہ: قبر یا جنت کا ایک باغ ہے یا جہنم کا ایک گڑھا۔ (ترمذی،ابواب صفۃ القیامۃ،حدیث:۲۴۶۰،۲؍۷۲)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: نبیٔ اکرم ﷺ کا دوقبروں پر گزر ہوا، ارشاد فرمایا کہ: اِن دونوں کو عذاب ہورہا ہے، ایک کو چُغل خوری کے جُرم میں، دوسرے کو پیشاب کی اِحتِیاط نہ کرنے میں، کہ بدن کو اِس سے بچاتا نہ تھا۔(بخاری،باب الوضوء،حدیث:۲۱۶،۱؍۳۵)
ہمارے کتنے مُہذَّب لوگ ہیں جو اِستنجے کو عیب سمجھتے ہیں، اُس کامَذاق اُڑاتے ہیں، عُلَما نے پیشاب سے نہ بچنا گناہِ کبیرہ بتایا ہے۔ ابنِ حَجر مکیؒ نے لکھا ہے کہ: صحیح روایت میں آیاہے کہ: اکثر عذابِ قبر پیشاب کی وجہ سے ہوتا ہے۔(مسنداحمد،۔۔۔۔۔حدیث:۸۳۳۱)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: قبر میں سب سے پہلے مُطالَبہ پیشاب کا ہوتا ہے۔ (طبرانی،۔۔ ۔۔۔۔۔حدیث:۷۶۰۵،۷۶۰۶)
بِالجُملہ عذابِ قبر نہایت سخت چیز ہے، اور جیسا کہ اِس کے ہونے میں بعض گناہوں کو خاص دَخَل ہے، اِسی طرح اِس سے بچنے میں بھی بعض عبادات کو خُصوصی شرافت حاصل ہے؛ چناںچہ متعدَّد احادیث میں وارد ہے کہ: سورۂ تَبَارَکَ الَّذِيْ کا ہررات کو پڑھتے رہنا عذابِ قبر سے نَجات کا سبب ہے، اور عذابِ جہنَّم سے بھی حفاظت کا سبب ہے۔ (ترمذی،ابواب فضائل القرآن، حدیث:۲۸۹۰،۲؍۱۱۷)اور اللہ کے ذکر کے بارے میں تو حدیثِ بالاہے ہی۔
(۱۲) عَن أَبِي الدَّردَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: لَیَبعَثَنَّ اللہُ أَقوَاماً یَومَ القِیَامَۃِ فِي وُجُوهِهُمُ النُّورُ عَلیٰ مَنَابِرِ اللُّؤْلُؤِ، یَغْبِطُهُمُ النَّاسُ، لَیسُوْا بِأَنبِیَاءَ وَلَاشُهَدَاءَ، فَقَالَ أَعرَابِيٌّ: حُلْهُمْ لَنَا نَعرِفُهُمْ، قَالَ: هُمُ المُتَحَابُّونَ فِي اللہِ مِن قَبَائِلٍ شَتّٰی وَبِلَادٍ شَتّٰی، یَجتَمِعُونَ عَلیٰ ذِکرِ اللہِ یَذکُرُونَہٗ.
(أخرجہ الطبراني بإسناد حسن-کذا في الدر- ومجمع الزوائد والترغیب للمنذري، وذکر أیضا لہ متابعۃ بروایۃ عمرو بن عبسۃ عند الطبراني مرفوعا، قال المنذري: وإسنادہ مقارب، لابأس بہ، ورقم لحدیث عمرو بن عبسۃ في الجامع الصغیر بالحسن، وفي مجمع الزوائد: رجالہ موثوقون، وفي مجمع الزوائد بمعنیٰ هذا الحدیث مطولًا، وفیہ: ’’حُلهُم لَنَا یَعنِي صِفهُمْ لَنَا، شَکِّلْهُمْ لَنَا، فَسُرَّ وَجہُ رَسُولِ اللہِﷺ بِسُوَالِ الأَعرَابِيِّ‘‘. الحدیث. قال: رواہ أحمد والطبراني بنحوہ، ورجالہ وثقوا. قلت: وفي الباب عن أبي هریرۃ عند البیهقي في الشعب: ’’إِنَّ فِي الجَنَّۃِ لَعُمُداً مِن یَاقُوتٍ، عَلَیهَا غُرَفٌ مِن زَبرَجَدٍ، لَهَا أَبوابٌ مُفَتَّحَۃٌ، تُضِيئُ کَمَا یُضِيْئُ الکَوکَبُ الدُّرِّيُّ؛ یَسکُنُهَا المُتَحَابُّونَ فِي اللہِ تَعَالیٰ، وَالمُتَجَالِسُونَ فِي اللہِ تَعَالیٰ، وَالمُتَلَاقُونَ فِي اللہِ‘‘. کذا في الجامع الصغیر، ورقم لہ بالضعف؛ وذکر في مجمع الزوائد لہ شواهد، وکذا في المشکاۃ)
ترجَمہ: حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: قِیامت کے دن اللہجَلَّ شَانُہٗ بعض قوموں کا حشر ایسی طرح فرمائیں گے کہ اُن کے چہروں میں نور چمکتا ہوا ہوگا، وہ موتیوں کے منبروں پر ہوں گے، لوگ اُن پر رَشک کرتے ہوں گے، وہ اَنبیاء اور شُہَداء نہیں ہوںگے، کسی نے عرض کیا: یا رسولَ اللہ! اُن کا حال بیان کردیجیے کہ ہم اُن کو پہچان لیں، حضورﷺنے فرمایا: وہ لوگ ہوںگے جو اللہ کی مَحبَّت میںمُختلِف جگہوں سے، مختلف خاندانوں سے آکر ایک جگہ جمع ہوگئے ہوں اور اللہ کے ذکر میں مشغول ہوں۔ دوسری حدیث میں ہے کہ: جنت میں یاقُوت کے سُتون ہوں گے، جن پر زَبرجَد (زُمُرَّد) کے بالاخانے(اوپر کے کمرے) ہوں گے، اُن میں چاروں طرف دَروازے کھُلے ہوئے ہوں گے، وہ ایسے چمکتے ہوں گے جیسے کہ نہایت روشن سِتارہ چمکتا ہے، اُن بالاخانوں میں وہ لوگ رہیں گے جو اللہ کے واسطے آپس میں مَحبت رکھتے ہوں، اور وہ لوگ جو اللہ ہی کے واسطے ایک جگہ اِکَٹھے ہوں، اور وہ لوگ جو اللہ ہی کے واسطے آپس میں مِلتے جُلتے ہوں۔
حدیثِ قُدسی: وہ حدیث جو آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کی جانب سے بیان کریں۔ مَوضُوع: گھَڑی ہوئی۔ دَفعۃً: اچانک۔
فائدہ: اِس میں اَطِبَّاء(ڈاکٹر) کا اِختلاف ہے کہ: زَبرجَد اور زُمُرَّد ایک ہی پتھر کے دونام ہیں، یا ایک پتھر کی دوقِسمیں ہیں، یاایک ہی نوع(قِسم) کے دو پتھر ہیں؛ بہرحال یہ ایک پتھر ہوتا ہے جو نہایت ہی روشن،چَمک دار ہوتا ہے، اُس کے پَنے(کاغذ) بنتے ہیں جو بازار میں چمک دارکاغذ کی طرح سے بِکتے ہیں۔ آج خانقاہوں کے بیٹھنے والوں پر ہر طرح اِلزام ہے، ہر طرف سے فِقرے(جملے) کَسے جاتے ہیں، آج اُنھیں جتنا دل چاہے بُرا بھلا کہہ لیں، کَل جب آنکھ کھلے گی اُس وقت حقیقت معلوم ہوگی، کہ یہ بوریوں پر بیٹھنے والے کیا کچھ کماکر لے گئے؟ جب وہ اُن منبروں اور بالاخانوں پر ہوںگے، اور ہنسنے والے اور گالیاں دینے والے کیا کما کرلے گئے:
فَسَوْفَ تَریٰ إذَا انْکَشَفَ الْغُبَارُ
ء
أَفَرْسٌ تَحْتَ رِجْلِكَ أَمْ حِمَارٌ
(عَن قریب جب غُبار ہٹ جائے گا تومعلوم ہوگا کہ، گھوڑے پر سوار تھے یا گدھے پر؟)
اِن خانقاہوں کی اللہ کے یہاں کیاقدر ہے جن پر آج چاروں طرف سے گالیاں پڑتی ہے، یہ اُن اَحادیث سے معلوم ہوتا ہے جن میں اِن کی فضیلتیں ذکر کی گئی ہیں:
ایک حدیث میں وارد ہے کہ: جس گھر میں اللہ کاذکر کیا جاتا ہو وہ آسمان والوں کے لیے ایسا چمکتا ہے جیسے زمین والوں کے لیے ستارے چمکتے ہیں۔
(معرفۃ الصحابۃ لا ٔبي نعیم،۔۔۔۔۔حدیث:۳۶۵۲)
ایک حدیث میں ہے کہ: ذکر کی مجالس پر جو سکینہ (ایک خاص نعمت) نازل ہوتی ہے، فرشتے اُن کو گھیر لیتے ہیں، رحمتِ الٰہی اُن کو ڈھانک لیتی ہے، اور اللہد عرش پر اُن کاذکر فرماتے ہیں۔
(مسلم،باب فضل الاجتماع علیٰ تلاوۃ القرآن،حدیث:۲۷۰۰،۲؍۳۴۵)
ابو زَینص ایک صحابی ہیں، وہ کہتے ہیں: حضورﷺ نے فرمایا کہ: تجھے دین کی تَقوِیت(مضبوطی) کی چیز بتاؤں جس سے تُو دونوں جہاں کی بھلائی کوپہنچے؟ وہ اللہ کاذکر کرنے والوں کی مجلسیں ہیں، اُن کو مضبوط پکڑ، اور جب تُو تنہا ہوا کرے توجتنی بھی قدرت ہو اللہ کا ذکر کرتا رہ۔(شعب الایمان، ۔۔۔۔حدیث: ۶۸۰۶)
حضرت ابوہریرہص فرماتے ہیں کہ: آسمان والے اُن گھروں کو جن میں اللہ کا ذکر ہوتا ہے، ایسا چمک دار دیکھتے ہیں جیسا کہ زمین والے ستاروںکو چمک دار دیکھتے ہیں۔ (مسند ابن مبارک،باب الزہد،حدیث:۹۶۳،ص:۳۴۹)
یہ گھر جن میں اللہ کا ذکر ہوتاہے ایسے روشن اور مُنوَّر ہوتے ہیں کہ اپنے نور کی وجہ سے سِتاروں کی طرح چمکتے ہیں، اور جن کو اللہجَلَّ شَانُہٗ نور کے دیکھنے کی آنکھیں عطا فرماتے ہیں وہ یہاں بھی اُن کی چمک دیکھ لیتے ہیں، بہت سے اللہ کے بندے ایسے ہیں جو بزرگوںکانور، اُن کے گھروں کا نور اپنی آنکھوں سے چمکتا ہوا دیکھتے ہیں؛ چناںچہ حضرت فُضیل بن عَیاضؒ -جومشہور بزرگ ہیں- فرماتے ہیں کہ: جن گھروں میں اللہ کاذکر ہوتا ہے وہ آسمان والوں کے نزدیک ایسا چمکتے ہیں جیسا کہ چَراغ۔ شیخ عبدالعزیزؒدَبَّاغ ابھی قریب ہی زمانے میں ایک بزرگ گزرے ہیں، جو بالکل اُمِّی(اَن پڑھ) تھے؛ مگر قرآن شریف کی آیت، حدیثِ قُدسی، حدیثِ نبوی اور مَوضُوع حدیث کو علاحدہ علاحدہ بتادیتے تھے، اور کہتے تھے کہ: مُتکلِّم کی زبان سے جب لفظ نکلتے ہیں تو اُن اَلفاظ کے نور سے معلوم ہوجاتا ہے کہ: کس کاکلام ہے؟ کہ اللہ پاک کے کلام کا نور علاحدہ ہے، اور حضورﷺکے کلام کانور دوسرا ہے، اور دوسرے کلاموں میں دونوں نور نہیں ہوتے۔
’’تذکرۃُ الخلیل‘‘ یعنی سوانحِ حضرت اقدس مولانا خلیل احمد نَوَّرَ اللہُ مَرقَدَہٗ میں بہ روایت مولانا ظفر احمد صاحب لکھا ہے کہ: حضرتؒ کے پانچویں حج میں جس وقت حضرتؒ مسجدُالحرام میں طوافِ قُدوم کے لیے تشریف لائے، تو اَحقر مولانا مُحِبُّ الدِّین صاحبؒ (جو اعلیٰ حضرت مولانا الحاج امدادُ اللہ صاحب مہاجرِ مکی نَوَّرَ اللہُ مَرقَدَہٗ کے خاص خُلَفا میں تھے، اور صاحبِ کَشف مشہور تھے) کے پاس بیٹھا تھا، مولانا اُس وقت دُرود شریف کی کتاب کھولے ہوئے اپنا وِرد پڑھ رہے تھے، کہ دَفعۃً میری طرف مُخاطَب ہوکر فرمانے لگے: اِس وقت حرم میںکون آگیا کہ دَفعۃً سارا حرم اَنوار سے بھر گیا؟ مَیں خاموش رہا، کہ اِتنے میں حضرتؒ طواف سے فارغ ہوکر مولانا کے پاس کو گزرے، مولانا کھڑے ہوگئے اور ہنس کر فرمایا کہ: مَیں بھی تو کہُوں آج حَرم میں کون آگیا؟۔ (تذکرۃ الخلیل۔۔۔۔۔۔۔)
مجالسِ ذکر کی فضیلت مختلف عنوانات سے بہت سی احادیث میں وارد ہوئی ہے، ایک حدیث میں وارد ہے کہ: افضل ترین رِباط نماز ہے اور ذِکر کی مجالس۔(۔۔۔۔۔۔۔۔)
رِباط کہتے ہیں دَارُالاسلام کی سَرحَد کی حفاظت کرنے کو؛ تاکہ کُفَّار اُس طرف سے حملہ نہ کریں۔
(۱۳) عَن أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِﷺ قَالَ: إِذَا مَرَرْتُمْ بِرِیَاضِ الجَنَّۃِ فَارتَعُوْا، قَالَ: وَمَا رِیَاضُ الجَنَّۃِ؟ قَالَ: حِلَقُ الذِّکرِ.
(أخرجہ أحمد والترمذي وحسنہ، وذکرہ في المشکاۃ بروایۃ الترمذي، وزاد في الجامع الصغیر، والبیهقي في الشعب ورقم لہ بالصحۃ. وفي الباب عن جابر عند ابن أبي الدنیا، و البزار، وأبي یعلیٰ، والحاکم وصححہ، والبیهقي في الدعوات؛ کذا في الدر. وفي الجامع الصغیر بروایۃ الطبراني عن ابن عباس بلفظ ’’مجالس العلم‘‘، وبروایۃ الترمذي عن أبي هریرۃ بلفظ ’’المساجد‘‘ محل ’’حلق الذکر‘‘، وزاد الرتع. سُبْحَانَ اللہِ اَلحَمدُ لِلّٰہِ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ اَللہُ أَکبَر)
ترجَمہ: حضورِ اقدس ﷺنے ارشاد فرمایا کہ: جب جنت کے باغوں پر گزرو تو خوب چَرو، کسی نے عرض کیا: یارسولَ اللہ! جنت کے باغ کیا ہیں؟ ارشاد فرمایا کہ: ذِکر کے حلقے۔
رَسائی: پہنچنا۔ تفکُّرات:خَیالات۔ مَوانِع:رُکاوَٹیں۔ مُداوَمت: ہمیشگی۔ ہم نشین: ساتھ بیٹھنے والا۔ مُتفَرِّع: موقوُف۔
فائدہ:مقصود یہ ہے کہ کسی خوش قِسمت کی اِن مجالس، اِن حلقوں تک رَسائی ہوجائے تو اُس کو بہت زیادہ غنیمت سمجھنا چاہیے، کہ یہ دنیا ہی میں جنت کے باغ ہیں۔ اور ’’خوب چَرو‘‘ سے اِس طرف اشارہ فرمایا کہ: جیسے جانور جب کسی سبزہ زار یا کسی باغ میں چَرنے لگتا ہے تو معمولی سے ہٹانے سے بھی نہیں ہٹتا؛ بلکہ مالک کے ڈنڈے وغیرہ بھی کھاتا رہتا ہے؛ لیکن اُدھر سے منھ نہیں موڑتا، اِسی طرح ذکر کرنے والے کو بھی دُنیاوی تفکُّرات اور مَوانِع کی وجہ سے اِدھر سے منھ نہ موڑنا چاہیے۔ اور ’’جنت کے باغ‘‘ اِس لیے فرمائے کہ: جیسا کہ جنت میں کسی قِسم کی آفت نہیں ہوتی اِسی طرح یہ مجالس بھی آفات سے محفوظ رہتی ہیں۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: اللہ کا ذکر دِلوں کی شفا ہے۔
(شعب الایمان، ۔۔۔۔حدیث:۷۰۵)
یعنی دل میں جس قِسم کے اَمراض پیدا ہوتے ہیں: تکبُّر،حَسد، کِینہ، وغیرہ؛ سب ہی اَمراض کا علاج ہے۔
’’صَاحِبُ الفَوائِد فِي الصَّلَاتِ وَالعَوَائِد‘‘نے لکھا ہے کہ: آدمی ذکر پر مُداوَمت سے تمام آفتوں سے محفوظ رہتا ہے۔
اور صحیح حدیث میں آیا ہے: حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ: مَیں تمھیں ذکرُ اللہ کی کثرت کا حکم کرتا ہوں، اور اِس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کے پیچھے کوئی دشمن لگ جائے اور وہ اُس سے بھاگ کر کسی قلعے میں محفوظ ہوجائے۔ اور ذکر کرنے والا اللہ جَلَّ شَانُہٗکا ہم نشین ہوتا ہے۔
(ترمذی، ابواب الأمثال، باب ماجاء مثل الصلاۃ والصیام والصدقۃ،حدیث:۲۸۶۳،۲؍۱۱۴)
اور اِس سے بڑھ کر اَور کیا فائدہ ہوگا کہ وہ مالکُ المُلک کا ہم نشین ہوجائے۔ اِس کے عِلاوہ اِس سے شرحِ صَدر ہوجاتا ہے، دل مُنوَّر ہوجاتا ہے، اُس کے دل کی سختی دُور ہوجاتی ہے، اِس کے عِلاوہ اَور بھی بہت سے ظاہری اور باطنی مَنافِع ہوتے ہیں جن کو بعض عُلَما نے سو تک شمار کیا ہے۔ اِنتہیٰ
حضرت اَبواُمامہ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوئے اور عرض کیا: مَیں نے خواب میں دیکھا کہ: جب بھی آپ اندر جاتے ہیں، یا باہر آتے ہیں، یا کھڑے ہوتے ہیں، یا بیٹھتے ہیں؛ تو فرشتے آپ کے لیے دعا کرتے ہیں، ابواُمامہ ص نے اُسے فرمایا: اگر تمھارادل چاہے تو تمھارے لیے بھی وہ دعا کرسکتے ہیں، پھر یہ آیت پڑھی: ﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللہَ ذِکراً کَثِیراً﴾ سے ﴿رَحِیماً﴾ تک۔
(مستدرَک حاکم ۲؍ ۴۵۳، حدیث: ۳۵۶۴؍ ۷۰۲)
گویا اِس طرف اشارہ ہے کہ حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کی رحمت اور ملائکہ کی دعا تمھارے ذکر پر مُتفَرِّع ہے، جتنا تم ذکر کروگے اُتنا ہی اُدھر سے ذکر ہوگا۔
(۱۴) عَن ابنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: مَن عَجِزَ مِنکُمْ عَنِ اللَّیلِ أَن یُّکَابِدَہٗ، وَبَخِلَ بِالمَالِ أَن یُّنفِقَہٗ، وَجَبُنَ عَنِ العَدُوِّ أَن یُّجَاهِدَہٗ فَلیُکْثِرْ ذِکرَ اللہِ.
(رواہ الطبراني، والبیهقي، والبزار؛ واللفظ لہ، وفي سندہ أبو یحییٰ القتات، وبقیۃ محتج بهم في الصحیح، کذا في الترغیب. قلت: هو من رواۃ البخاري في الأدب المفرد، والترمذي، وأبي داود، وابن ماجہ؛ وثَّقہ ابن معین وضعَّفہ آخرون. وفي التقریب: لین الحدیث، وفي مجمع الزوائد: رواہ البزار، والطبراني؛ وفیہ القتات قد وثق، وضعفہ الجمهور. وبقیۃ رجال البزار رجال الصحیح)
ترجَمہ:
حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ: جو تم میں سے عاجز ہو راتوں کومحنت کرنے سے، اور بُخل کی وجہ سے مال بھی خرچ نہ کیا جاتا ہو (یعنی نفلی صدقات)،اور بُزدِلی کی وجہ سے جِہاد میں بھی شرکت نہ کرسکتا ہو، اُس کو چاہیے کہ اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرے۔
تَلافی: کمی پوری کرنا۔ مَنافِع: فائدے۔ تَسلُّط: غلبہ۔قَوِی: مضبوط۔ قوَّتِ قَلبِیہ:دل کی طاقت۔ ضَربیں: کلمہ پڑھنے کا خاص طریقہ۔ بُعد: دُوری۔ مُقوِّیٔ قَلب خَمیرہ: دل کو مضبوط کرنے والی دوا۔ مَاؤف: بے حِس۔ بَسا: بہت۔ مُنکَشِف: کھُل۔
فائدہ:
یعنی ہر قِسم کی کوتاہی جو عباداتِ نفلیہ میں ہوتی ہے، اللہ کے ذکر کی کثرت اُس کی تَلافی کرسکتی ہے۔
حضرت انس نے حضور ﷺ سے نقل کیا ہے کہ: اللہ کاذکر ایمان کی علامت ہے، اور نِفاق سے براء ت ہے، اور شیطان سے حفاظت ہے، اور جہنَّم کی آگ سے بچاؤ ہے۔(۔۔۔۔)
اور اِنھیں مَنافِع کی وجہ سے اللہ کاذکر بہت سی عبادتوں سے اَفضل قرار دیا گیا ہے، بِالخُصُوص شیطان کے تَسلُّط سے بچنے میں اِس کو خاص دَخَل ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: شیطان گھٹنے جمائے ہوئے آدمی کے دل پر مُسلَّط رہتا ہے، جب وہ اللہ کا ذکر کرتا ہے تو یہ عاجز وذلیل ہوکر پیچھے ہٹ جاتا ہے، آدمی غافل ہوتا ہے تو یہ وَسوسے ڈالنا شروع کردیتا ہے۔
(مسند ابن ابی شیبہ،۱۹؍۲۴۲،حدیث:۳۵۹۱۹)
اِسی لیے صوفیائے کِرام ذکر کی کثرت کراتے ہیں؛ تاکہ قلب میں اُس کے وَساوِس کی گنجائش نہ رہے، اور وہ اِتنا قَوِی ہوجائے کہ اُس کامقابلہ کرسکے، یہی راز ہے کہ صحابۂ کرامث کو حضورِ اقدس ﷺ کے فیضِ صُحبت سے یہ قوَّتِ قَلبِیہ اَعلیٰ درجے پر حاصل تھی، تو اُن کو ضَربیں لگانے کی ضرورت پیش نہ آتی تھی، حضورﷺ کے زمانے سے جتنا بُعد ہوتا گیا اُتنی ہی قلب کے لیے اِس مُقوِّیٔ قَلب خَمیرہ کی ضرورت بڑھتی گئی، اب قلوب اِس درجہ مَاؤف ہوچکے ہیں کہ بہت سے علاج سے بھی وہ درجہ قوَّت کا تو حاصل نہیں ہوتا؛ لیکن جتنا بھی ہوجاتا ہے وہی بَسا غنیمت ہے، کہ وَبائی مَرض میں جس قدر بھی کمی ہو بہتر ہے۔
ایک بزرگ کا قِصَّہ نقل کیا ہے کہ: اُنھوں نے اللہ جَلَّ شَانُہٗسے دعا کی کہ: شیطان کے وَسوسہ ڈالنے کی صورت اُن پر مُنکَشِف ہوجائے کہ کس طرح ڈالتا ہے؟ تو اُنھوں نے دیکھا کہ: دِل کے بائیں طرف مونڈھے کے پیچھے مچھر کی شکل سے بیٹھا ہے، ایک لمبی سی سُونڈ منھ پر ہے جس کوسُوئی کی طرح سے دل کی طرف لے جاتا ہے، اُس کو ذَاکِر پاتا ہے تو جلدی سے اُس سونڈ کو کھینچ لیتا ہے، غافل پاتا ہے تو اُس سونڈ کے ذریعے سے وَساوِس اور گناہوں کا زَہر اِنجِکشن کے طریقے سے دل میں بھرتا ہے۔(دُرِّمنثور۔۔۔۔۔۔۔)
ایک حدیث میں بھی یہ مضمون آیا ہے کہ: شیطان اپنی ناک کا اگلا حصہ آدمی کے دل پر رکھے ہوئے بیٹھا رہتا ہے، جب وہ اللہ کا ذکر کرتا ہے تو ذِلَّت سے پیچھے ہٹ جاتا ہے، اور جب وہ غافل ہوتا ہے تو اُس کے دل کولُقمہ بنالیتا ہے۔
(شعب الایمان للبیہقی،۔۔۔۔۔۔حدیث:۵۳۶)
(۱۵)عَن أَبِي سَعِیدٍ الخُدرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللہِﷺ قَالَ: اَکثِرُوْا ذِکرَ اللہِ حَتّٰی یَقُولُوا مَجنُونٌ.
(رواہ أحمد وأبویعلیٰ وابن حبان والحاکم في صحیحہ، وقال: صحیح الإسناد. وروي عن ابن عباس مرفوعاً بلفظ: اُذکُرُوا اللہَ ذِکراً یَقُولُ المُنَافِقُونَ إِنَّکُمْ مُرَاءُ وْنَ. رواہ الطبراني، ورواہ البیهقي عن أبي الجوزاء مرسلا، کذا في الترغیب، والمقاصد الحسنۃ للسخاوي، وهکذا في الدر المنثور للسیوطي؛ إلا أنہ عز حدیث أبي الجوزاء إلیٰ عبداللہ ابن أحمد في زوائد الزهد، وعزاہ في الجامع الصغیر إلیٰ سعید بن منصورفي سننہ، والبیهقي في الشعب، ورقم لہ بالضعف. وذکر في الجامع الصغیر أیضا بروایۃ الطبراني عن ابن عباس مسندا، ورقم لہ بالضعف. وعزا حدیث أبي سعید إلیٰ أحمد وأبي یعلیٰ في مسندہ، وابن حبان والحاکم والبیهقي في الشعب، ورقم لہ بالحسن)
ترجَمہ: حضور ِاقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: اللہ کا ذکر ایسی کثرت سے کیا کرو کہ لوگ مَجنون کہنے لگیں۔ دوسری حدیث میں ہے کہ: ایسا ذکر کرو کہ مُنافِق لوگ تمھیں رِیا کار کہنے لگیں۔
فائدہ: اِس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ: مُنافِقوں یا بے وَقوفوں کے رِیاکار کہنے یا مجنون کہنے سے ایسی بڑی دولت چھوڑنا نہ چاہیے؛ بلکہ اِس کثرت اور اِہتمام سے کرنا چاہیے کہ یہ لوگ تم کو پاگل سمجھ کر تمھارا پیچھا چھوڑ دیں، اور مجنون جب ہی کہا جائے گا جب نہایت کثرت سے اور زور سے ذکر کیاجائے، آہستہ میں یہ بات نہیں ہوسکتی۔
دَریغ: کوتاہی۔ بَلا سے: کیا پرواہ ہے۔بیزار: تنگ۔ اَوَّاہِین: رجوع ہونے والے۔ اَذِیَّت: تکلیف۔
ابنِ کثیرؒ نے حضرت عبداللہ بن عباس ص سے نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ: حق تَعَالیٰ شَانُہٗنے کوئی چیز بندوں پر ایسی فرض نہیں فرمائی جس کی کوئی حد مُقرَّر نہ کردی ہو اور پھر اُس کے عُذر کو قبول نہ فرمالیا ہو،بجُز اللہ کے ذکر کے، کہ نہ اُس کی کوئی حد مقرر فرمائی اور نہ عقل رہنے تک کسی کو مَعذور قرار دیا ہے؛ چناںچہ ارشاد ہے: ﴿اُذکُرُوا اللہَ ذِکْراً کَثِیراً﴾ (اللہ جَلَّ شَانُہٗکا خوب کثرت سے ذکر کیا کرو)رات میں، دن میں، جنگل میں، دریا میں، سفر میں،حَضَر میں، فَقر میں، تَوَنگَری(مال داری) میں، بیماری میں، صحت میں، آہستہ اور پُکار کر، اور ہر حال میں۔(تفسیر ابن جریر۔۔۔۔۔۔۔)
حافظ ابنِ حجرؒ نے ’’مُنبِّہات‘‘ میں لکھا ہے کہ: حضرت عثمان ص سے قرآنِ پاک کے ارشاد ﴿وَکَانَ تَحْتَہٗ کَنْزٌ لَّہُمَا﴾ میںمنقول ہے کہ: وہ سونے کی ایک تختی تھی جس میںسات سطریں لکھی ہوئی تھیں، جن کا ترجَمہ یہ ہے: (۱) مجھے تعجب ہے اُس شخص پر جو موت کو جانتا ہو پھر بھی ہنسے۔ (۲) مجھے تعجب ہے اُس شخص پر جو یہ جانتا ہے کہ دنیا آخر ایک دن ختم ہونے والی ہے پھر بھی اُس میں رَغبت کرے۔ (۳)مجھے تعجب ہے اُس شخص پر جو یہ جانتا ہو کہ ہر چیز مُقدَّر سے ہے پھر بھی کسی چیز کے جاتے رہنے پر اَفسوس کرے۔ (۴)مجھے تعجب ہے اُس شخص پر جس کو آخرت میں حساب کا یقین ہو پھر بھی مال جمع کرے۔ (۵)مجھے تعجب ہے اُس شخص پر جس کو جہنَّم کی آگ کا علم ہو پھر بھی گناہ کرے۔ (۶) مجھے تعجب ہے اُس شخص پر جو اللہ کو جانتا ہو پھر کسی اَور چیز کا ذکر کرے۔ (۷)مجھے تعجب ہے اُس شخص پرجس کو جنَّت کی خبر ہو پھر دنیا میں کسی چیز سے راحت پائے۔ بعض نُسخوں میں یہ بھی ہے کہ: مجھے تعجب ہے اُس شخص پر جو شیطان کو دشمن سمجھے پھر بھی اُس کی اِطاعت کرے۔(منبہات، ص:۶۰)
حافظؒ نے حضرت جابرص سے حضورﷺ کا یہ ارشادبھی نقل کیا ہے کہ: حضرت جبرئیل ں مجھے اللہ کے ذِکر کی اِس قدر تاکید کرتے رہے، کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ بغیر ذکر کے کوئی چیز نفع نہ دے گی۔(منبہات ص:۶۲)
اِن سب رِوایات سے یہ معلوم ہوا کہ: ذکر کی جتنی بھی کثرت ممکن ہو دَریغ نہ کرے، لوگوں کے مجنون یا رِیاکار کہنے کی وجہ سے اِس کو چھوڑدینا اپنا ہی نقصان کرنا ہے۔ صوفیا نے لکھا ہے کہ: یہ بھی شیطان کا ایک دھوکہ ہے، کہ اوَّل وہ ذکر سے اِس خیال سے روکتا ہے کہ لوگ دیکھیںگے، کوئی دیکھے گا تو کیا کہے گا، وغیرہ وغیرہ؛ پھر شیطان کے روکنے کے لیے یہ ایک مُستَقِل ذریعہ اور حِیلہ مل جاتا ہے؛ اِس لیے یہ تو ضروری ہے کہ دِکھلانے کی نیت سے کوئی عمل نہ کرے؛ لیکن اگر کوئی دیکھ لے تو بَلا سے دیکھے، اِس وجہ سے چھوڑنا بھی نہ چاہیے۔
حضرت عبداللہ ذُوالبَجادَین ص ایک صحابی ہیں، جو لَڑکپن میں یتیم ہوگئے تھے، چچا کے پاس رہتے تھے، وہ بہت اچھی طرح رکھتا تھا، گھر والوں سے چھپ کرمسلمان ہوگئے تھے، چچا کو خبر ہوگئی تو اُس نے غُصے میں بالکل ننگا کرکے نکال دیا، ماں بھی بیزار تھی؛ لیکن پھرماں تھی، ایک موٹی سی چادر ننگا دیکھ کر دے دی، جس کو اُنھوں نے دو ٹکڑے کرکے ایک سے سَتر ڈَھکا، دوسرا اوپر ڈال لیا، مدینۂ طَیبہ حاضر ہوگئے، حضورﷺ کے دروازے پر پڑے رہا کرتے، اور بہت کثرت سے بلند آواز کے ساتھ ذکر کرتے تھے، حضرت عمرص نے فرمایا کہ: کیا یہ شخص رِیاکار ہے کہ اِس طرح ذکر کرتا ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا: نہیں؛ بلکہ یہ اَوَّاہِین میں ہے۔ (حلیۃ الاولیاء۱؍۳۶۵)
غزوۂ تبوک میں انتقال ہوا، صحابہث نے دیکھا کہ: رات کو قبروں کے قریب چَراغ جَل رہا ہے، قریب جاکر دیکھا کہ: حضورﷺ قبر میں اُترے ہوئے ہیں، حضرت ابوبکرص، حضرت عمرص کو ارشاد فرمارہے ہیں کہ: لاؤ! اپنے بھائی کو مجھے پکڑا دو، دونوں حضرات نے نعش کو پکڑا دیا، دفن کے بعد حضورﷺ نے فرمایا: ’’اے اللہ! مَیں اِس سے راضی ہوں تُو بھی اِس سے راضی ہوجا‘‘۔ حضرت ابنِ مسعود ص فرماتے ہیں کہ: یہ سارا منظر دیکھ کر مجھے تمنا ہوئی کہ یہ نعش تومیری ہوتی!۔ (حلیۃ الاولیاء۱؍۱۲۲)
حضرت فُضیلؒ جو اکابرِ صوفیا میں ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ: کسی عمل کو اِس وجہ سے نہ کرنا کہ لوگ دیکھیںگے یہ بھی رِیا میں داخل ہے، اور اِس وجہ سے کسی عمل کو کرنا تاکہ لوگ دیکھیں یہ شرک میں داخل ہے۔(حلیۃ الاولیاء۸؍۹۵)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: بعض آدمی ذکر کی کُنجیاں ہیں، کہ جب اُن کی صورت دیکھی جائے تو اللہ کا ذکر کیا جائے، یعنی اُن کی صورت دیکھ کر ہی اللہ کا ذکر یاد آجائے۔ (طبرانی،۱۰؍۲۵۳۔ حدیث: ۱۰۴۷۶)
ایک اَور حدیث میں وارد ہے کہ: اللہ کے وَلی ہیں وہ لوگ جن کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ یاد آتے ہیں۔(طبرانی،۱۲؍۱۳حدیث:۱۲۳۲۵)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: تم میں بہترین وہ لوگ ہیں جن کو دیکھ کر اللہ کی یاد تازہ ہو۔
ایک حدیث میں ہے: تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس کے دیکھنے سے اللہ تعالیٰ یاد آتے ہوں، اور اُس کے کلام سے علم میں ترقی ہوتی ہو، اور اُس کے اعمال سے آخرت کی رَغبت پیدا ہوتی ہو۔(کنز العمال،مسند ابویعلیٰ۲؍۲۸۵حدیث:۲۴۴۰)
اور یہ بات جب ہی حاصل ہوسکتی ہے جب کوئی شخص کثرت سے ذکر کا عادی ہو، اور جس کو خود ہی توفیق نہ ہو اُس کو دیکھ کر کیا کسی کو اللہ کی یاد آسکتی ہے!۔
بعض لوگ پُکار کر ذکر کرنے کو بدعت اور ناجائز بتاتے ہیں، یہ خَیال حدیث پر نظر کی کمی سے پیدا ہوگیا ہے، مولانا عبدالحی صاحبؒ نے ایک رِسالہ ’’سَبَاحَۃُ الْفِکْر‘‘ اِسی مسئلے میںتصنیف فرمایا ہے، جس میں تقریباً پچاس حدیثیں ایسی ذکر فرمائی ہیں جن میںجَہر (پکار کر)ثابت ہوتا ہے؛ البتہ یہ ضروری اَمر ہے کہ: شرائط کے ساتھ اپنی حُدود کے اندر رہے، کسی کی اَذِیَّت کا سبب نہ ہو۔
(۱۶) عَن أَبِي هُرَیرَۃَ قَالَ: سَمِعتُ رَسُولَ اللہِﷺ یَقُولُ: سَبعَۃٌ یُظِلُّهُمُ اللہُ فِي ظِلِّہٖ یَومَ لَاظِلَّ إِلَّا ظِلُّہٗ: اَلإِمَامُ الْعَادِلُ، وَالشَّابُّ نَشَأَ فِي عِبَادَۃِ اللہِ، وَرَجُلٌ قَلبُہٗ مُعَلَّقٌ بِالمَسَاجِدِ، وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اللہِ اِجتَمَعَا عَلیٰ ذٰلِكَ وَتَفَرَّقَا عَلَیہِ، وَرَجُلٌ دَعَتْہُ اِمرَأَۃٌ ذَاتَ مَنصَبٍ وَجَمَالٍ، فَقَالَ: إِنِّيْ أَخَافُ اللہَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ فَأَخْفَاهَا حَتّٰی لَاتَعلَمُ شِمَالُہٗ مَاتُنفِقُ یَمِینُہٗ، وَرَجُلٌ ذَکَرَ اللہَ خَالِیاً فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ.
(رواہ البخاري ومسلم وغیرهما، کذا في الترغیب والمشکوۃ. وفي الجامع الصغیر بروایۃ مسلم عن أبي هریرۃ وأبي سعید معا، وذکر عدۃ طرقہ أخریٰ)
ترجَمہ: حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: سات آدمی ہیں جن کو اللہجَلَّ شَانُہٗاپنے (رحمت کے) سایے میں ایسے دن جگہ عطا فرمائے گا جس دن اُس کے سایے کے سِوا کوئی سایہ نہ ہوگا: ایک عادل بادشاہ، دوسرے وہ جوان جو جوانی میں اللہ کی عبادت کرتا ہو، تیسرے وہ شخص جس کا دل مسجد میں اَٹک رہا ہو، چوتھے وہ دو شخص جن میں اللہ ہی کے واسطے محبت ہو، اِسی پر اُن کا اِجتِماع ہو اِسی پر جُدائی، پانچویں وہ شخص جس کو کوئی حَسِین شریف عورت اپنی طرف مُتوجَّہ کرے اور وہ کہہ دے کہ: مجھے اللہ کا ڈر مانع ہے، چھٹے وہ شخص جو ایسے مَخفِی طریق سے صدقہ کرے کہ دوسرے ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو، ساتویں وہ شخص جو اللہ کا ذکر تنہائی میں کرے اور آنسو بہنے لگیں۔
مَخفِی: پوشیدہ۔ دِیدہ ودَانِستہ: جان بوجھ کر۔ مَقُولہ: بات۔ دلبر:محبوب۔مَحو خَیال یار: دوست کے خَیال میں گم ہونا۔اَغیار: اللہ کے عِلاوہ۔ دَرکِنار: ایک طرف۔ مُضِر: نقصان دینے والا۔ مُیسّر: حاصل۔
فائدہ: آنسو بہنے کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دِیدہ ودَانِستہ اپنے مَعاصی اور گناہوں کو یاد کرکے رونے لگے۔ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ، غلبۂ شوق میں بے اختیار آنکھوں سے آنسو نکلنے لگیں۔ بہ روایتِ ثابت بُنانیؒ ایک بزرگ کا مَقُولہ نقل کیاہے، وہ فرماتے ہیں: مجھے معلوم ہوجاتا ہے کہ میری کون سی دعا قبول ہوئی، لوگوں نے پوچھا کہ: کس طرح معلوم ہوجاتا ہے؟ فرمانے لگے کہ: جس دعا میں بدن کے بال کھڑے ہوجاتے ہیں، اور دل دَھڑکنے لگتا ہے، اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں وہ دعا قبول ہوتی ہے۔(حلیۃ الاولیاء۲؍۳۲۴)
اُن سات آدمیوں میں جن کا ذکر حدیثِ پاک میں وارد ہوا ایک وہ شخص بھی ہے جو اللہ کا ذکر تنہائی میں کرے اور رونے لگے، اِس شخص میں دو خوبیاں جمع ہیں اور دونوں اعلیٰ درجے کی ہیں: ایک اخلاص، کہ تنہائی میں اللہ کی یاد میں مشغول ہوا، دوسرا اللہ کا خوف یا شوق، کہ دونوں میں رونا آتا ہے، اور دونوں کمال ہیں:
ہمارا کام ہے راتوں کو رونا یادِ دِلبَرمیں
ء
ہماری نیند ہے محوِ خَیالِ یار ہوجانا
حدیث کے الفاظ ہیں: ’’رَجُلٌ ذَکَرَ اللہَ خَالِیاً‘‘ (ایک وہ آدمی جو اللہ کا ذکر کرے اِس حال میں کہ وہ خالی ہو)صوفیا نے لکھا ہے کہ: خالی ہونے کے دومطلب ہیں: ایک یہ کہ آدمیوں سے خالی ہو جس کے معنیٰ تنہائی کے ہیں، یہ عام مطلب ہے۔ دوسرے یہ کہ: دل اَغیار سے خالی ہو، وہ فرماتے ہیں کہ: اصل خَلوت یہی ہے۔ اِس لیے اَکمل درجہ تو یہ ہے کہ: دونوں خلوتیں حاصل ہوں؛ لیکن اگر کوئی شخص مجمع میں ہو اور دل غیروں سے بالکل خالی ہو، اور ایسے وقت اللہ کے ذکر سے کوئی شخص رونے لگے تو وہ بھی اِس میں داخل ہے، کہ مجمع کا ہونا نہ ہونا اُس کے حق میں برابر ہے، جب اُس کا دل مجمع تو دَرکِنار ، غیرُ اللہ کے اِلتِفات(توجُّہ) سے بھی خالی ہے تو اُس کو مجمع کیا مُضِر ہوسکتا ہے؟۔
اللہ کی یاد میں اُس کے خوف سے رونا بڑی ہی دولت ہے، خوش نصیب ہے وہ شخص جس کو حق تَعَالیٰ شَانُہٗ مُیسّر فرماویں۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: جو شخص اللہ کے خوف سے روئے وہ اُس وقت تک جہنَّم میں نہیں جاسکتا جب تک کہ دودھ تھنوں میں واپس جائے، (اور ظاہر ہے کہ یہ ناممکن ہے، پس ایسے ہی اُس کا جہنَّم میں جانا بھی ناممکن ہے)۔(ترمذی، ابواب فضائل الجہاد،باب ماجاء في فضل الغبار في سبیل اللہ،۱؍۲۹۲،حدیث:۱۶۳۳)
ایک اَور حدیث میں آیا ہے کہ: جو شخص اللہ کے خوف سے روئے حتیٰ کہ اُس کے آنسوؤں میں سے کچھ زمین پر ٹپک جائے، تو اُس کوقِیامت کے دن عذاب نہیں ہوگا۔(حاکم۴؍۲۸۹، حدیث: ۷۶۶۸؍۶۸)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: دو آنکھوں پر جہنم کی آگ حرام ہے: ایک وہ آنکھ جو اللہ کے خوف سے رَوئی ہو، اور دوسری وہ جو اسلام کی اور مسلمانوں کی کُفَّار سے حِفاظت کرنے میں جاگی ہو۔ (ترمذی، ابواب فضائل الجہاد، باب ماجاء في فضل الحرس في سبیل اللہ، ۱؍ ۲۹۳، حدیث: ۱۶۳۹)
ایک اَور حدیث میں ہے کہ: جو آنکھ اللہ کے خوف سے روئی ہو اُس پر جہنم کی آگ حرام ہے، اور جو آنکھ اللہ کی راہ میں جاگی ہو اُس پر بھی حرام ہے، اور جو آنکھ ناجائز چیز (مثلاً نامَحرَم وغیرہ) پر پڑنے سے رُک گئی ہو اُس پر بھی حرام ہے، اور جو آنکھ اللہ کی راہ میں ضائع ہوگئی ہو اُس پر بھی جہنم کی آگ حرام ہے۔(مسند احمد،حدیث:۱۷۲۱۳،۔۔۔۔۔۔۔۔)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: جو شخص تنہائی میں اللہ کا ذکر کرنے والا ہو وہ ایسا ہے جیسے اَکیلا کُفَّار کے مقابلے میں چل دیا ہو۔(مسند أحمد،۔۔۔۔۔۔حدیث:۱۷۲۱۳)
(۱۷) عَن أَبِي هُرَیرَۃَص قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: یُنَادِي مُنَادٍ یَومَ القِیَامَۃِ: أَینَ أُولُوا الأَلبَابِ؟ قَالُوا: أَيُّ أُولِي الأَلبَابِ تُرِیدُ؟ قَالَ:الَّذِیْنَ یَذْکُرُونَ اللہَ قِیَاماً وَّقُعُوداً وَّعَلیٰ جُنُوبِهِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالأَرْضِ، رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا، سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ؛ عُقِدَ لَهُم لِوَاءٌ فَاتَّبَعَ القَومُ لِوَاءَ هُمْ، وَقَالَ لَهُمْ: اُدخُلُوهَا خَالِدِینَ.(أخرجہ الأصبهاني في الترغیب، کذا في الدر)
ترجَمہ: حضورِاقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: قِیامت کے دن ایک آواز دینے والا آواز دے گا کہ: عقل مند لوگ کہاں ہیں؟ لوگ پوچھیں گے کہ: عقل مندوں سے کون مراد ہیں؟ جواب ملے گا: وہ لوگ جو اللہ کا ذکر کرتے تھے کھڑے اور بیٹھے اورلیٹے ہوئے، (یعنی ہر حال میں اللہ کا ذکر کرتے رہتے تھے)،اور آسمانوں اور زمینوں کے پیدا ہونے میں غور کرتے تھے، اور کہتے تھے کہ: یا اللہ! آپ نے یہ سب بے فائدہ تو پیدا کیا ہی نہیں، ہم آپ کی تسبیح کرتے ہیں، آپ ہم کو جہنَّم کے عذاب سے بچالیجیے؛ اِس کے بعد اُن لوگوں کے لیے ایک جھنڈا بنایا جائے گا جس کے پیچھے یہ سب جائیںگے، اور اُن سے کہاجائے گا کہ: ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل ہوجاؤ۔
مَظاہِر: ظاہر ہونے کی جگہیں۔مَعرفَت: پہچان۔ مُرسَل: وہ حدیث جس میں تابعی کے اوپر کا راوی ساقط ہو۔ وَراء ُالوراء: دُور سے دُور۔ شکرگُزار: شکر کرنے والا۔ اِضافہ: زیادتی۔کُنجی: چابی۔ خَفی: آہستہ۔ دوچند: دوگنا۔ کِراماً کاتِبین: اعمال لکھنے والے فرشتے۔ رَمز: اشارہ۔ لَحظہ: گھڑی۔مزید براں: اِس سے بڑھ کر۔ دِق:تنگ۔ فَواحِش: گناہ۔ تجویز: متعیَّن۔
فائدہ: آسمانوں اور زمینوں کے پیدا ہونے میں غور کرتے ہیں، یعنی اللہ کی قدرت کے مَظاہِر اور اُس کی حِکمتوں کے عَجائب سوچتے ہیں، جس سے اللہ د کی مَعرفَت میں قوَّت پیدا ہوتی ہے۔ع اِلٰہی! یہ عالَم ہے گلزار تیرا
ابنِ اَبی الدُّنیاؒ نے ایک مُرسَل روایت نقل کی ہے کہ: نبیٔ اکرم ﷺ ایک مرتبہ صحابہث کی ایک جماعت کے پاس تشریف لے گئے جو چُپ چاپ بیٹھے تھے، حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا بات ہے؟ کس سوچ میں بیٹھے ہو؟ عرض کیا: مَخلُوقاتِ اِلٰہِیَّہ کی سوچ میںہیں، حضورﷺنے ارشاد فرمایا: ہاں! اللہ کی ذات میں غور نہ کیا کرو (کہ وہ وَراء ُالوراء ہے)،اُس کی مخلوقات میں غور کیا کرو۔(ابن ابی الدنیا۔۔۔۔۔۔)
حضرت عائشہرَضِيَ اللہُ عَنْہَاسے ایک شخص نے عرض کیا کہ: حضورﷺ کی کوئی عجیب بات سنا دیجیے، فرمایا: حضورﷺکی کون سی بات ایسی تھی جو عجیب نہ تھی؟ ایک مرتبہ رات کو تشریف لائے، میرے بسترے پر میرے لِحاف میں لیٹ گئے، پھر ارشاد فرمایا: چھوڑ مَیں تو اپنے رب کی عبادت کروں، یہ فرماکر اُٹھے، وُضو فرمایا، اور نماز کی نیت باندھ کر رونا شروع کردیا، یہاں تک کہ آنسو سینۂ مبارک پر بہتے رہے، پھر اِسی طرح رکوع میں روتے رہے، پھر سجدہ میں اِسی طرح روتے رہے، ساری رات اِسی طرح گزار دی؛ حتیٰ کہ صبح کی نماز کے واسطے حضرت بلال ص بُلانے کے لیے آگئے، مَیں نے عرض کیا: یا رسولَ اللہ! آپ تو بخشے بخشائے ہیں پھر آپ اِتنا کیوں روئے؟ ارشاد فرمایا کہ: کیا مَیں اللہ کا شکرگُزار بندہ نہ بنوں؟ پھر فرمایا: مَیں کیوں نہ روتا حالاںکہ آج یہ آیتیں نازل ہوئیں: (یعنی آیاتِ بالا: ﴿إِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالأَرْضِ﴾ سے ﴿فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ تک)، پھر فرمایا کہ: ہلاکت ہے اُس شخص کے لیے جو اِن کو پڑھے اور غور وفکر نہ کرے۔(ابن حبان،حدیث:۶۲۰)
عامِر بن عَبدِقَیسؒ کہتے ہیں کہ: مَیں نے صحابۂ کرام ث سے سنا ہے: ایک سے، دو سے، تین سے نہیں؛ (بلکہ اِن سے زیادہ سے سنا ہے)کہ: ایمان کی روشنی اور ایمان کا نور غور وفکر ہے۔ (درمنثور۔۔۔۔ )
حضرت ابوہریرہ ص حضورﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ: ایک آدمی چھت پر لیٹا ہوا آسمان اور سِتاروں کو دیکھ رہا تھا، پھر کہنے لگا: خدا کی قَسم! مجھے یقین ہے کہ تمھارا پیدا کرنے والا بھی کوئی ضرور ہے، اے اللہ! تُومیری مغفرت فرمادے، نظرِ رحمت اُس کی طرف مُتوجَّہ ہوئی اور اُس کی مغفرت ہوگئی۔(دُرِّمنثور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
حضرت ابن عباس ص فرماتے ہیں کہ: ایک ساعت کا غور تمام رات کی عبادت سے افضل ہے۔ حضرت ابودرداء ص اور حضرت انسص سے بھی یہی نقل کیا گیا ہے۔ حضرت اَنسص سے یہ بھی نقل کیا گیا کہ: ایک ساعت کا غور اِن چیزوں میں اَسِّی سال کی عبادت سے افضل ہے۔اُمِّ درداءؓ سے کسی نے پوچھا کہ: ابودرداء ص کی افضل ترین عبادت کیا تھی؟ فرمایا: غور وفکر۔ بروایتِ ابوہریرہ ص حضورِ اقدس ﷺسے یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ: ایک ساعت کا غور وفکر ساٹھ برس کی عبادت سے اَفضل ہے۔
لیکن اِن روایتوں کا یہ مطلب نہیں کہ پھر عبادت کی ضرورت نہیں رہتی، ہر عبادت اپنی جگہ جو درجہ رکھتی ہے- فرض ہو یا واجب، سُنَّت ہو یامُستَحب- اُس کے چھوڑنے پر اُسی درجے کی وعید، عذاب یا مَلامَت ہوگی جس درجے کی وہ عبادت ہوگی۔
اِمام غزالیؒ نے لکھا ہے کہ: غوروفکر کو افضلِ عبادات اِس لیے کہاگیا کہ، اِس میں معنیٰ ذکر کے تو موجود ہوتے ہی ہیں، دو چیزوں کا اِضافہ اَور ہوتا ہے: ایک اللہ کی مَعرفَت؛ اِس لیے کہ غوروفکر معرفت کی کُنجی ہے، دوسری: اللہ کی محبت، کہ فکر پر یہ مُرتَّب ہوتی ہے۔(احیاء العلوم، ۴؍۴۲۶)
یہی غوروفکر ہے جس کو صوفیا ’’مُراقَبہ‘‘ سے تعبیر فرماتے ہیں۔ بہت سی روایات سے اِس کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، ’’مُسندِ ابویَعلیٰ‘‘ میں بہ روایتِ حضرت عائشہرَضِيَ اللہُ عَنْہَاحضورِ اقدس ﷺکا ارشاد نقل کیا ہے کہ: وہ ذکرِخَفی جس کو فرشتے بھی نہ سُن سکیں سَتَّر درجہ دوچند ہوتا ہے، جب قِیامت کے دن حق تَعَالیٰ شَانُہٗ تمام مخلوق کو حساب کے لیے جمع فرمائیں گے، اور کِراماً کاتِبین اَعمال نامے لے کر آئیںگے تو ارشاد ہوگا کہ: فلاں بندے کے اعمال دیکھو، کچھ اَور باقی ہیں؟ وہ عرض کریںگے کہ: ہم نے کوئی بھی ایسی چیز نہیں چھوڑی جو لکھی نہ ہو اور محفوظ نہ ہو، تو ارشاد ہوگا کہ: ہمارے پاس اُس کی ایسی نیکی باقی ہے جو تمھارے علم میں نہیں، وہ ذکرِ خَفی ہے۔(مسند أبویعلیٰ ۴؍۷۵،حدیث:۴۷۳۶)
’’بَیہَقی‘‘ نے ’’شُعب‘‘ میں حضرت عائشہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا سے بھی یہ حدیث نقل کی ہے کہ: جس ذکر کو فرشتے بھی نہ سن سکیں وہ اُس ذکر پر جس کو وہ سنیں، سَتَّر درجے بڑھا ہوا ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی،۔۔۔۔حدیث:۵۵۲۔۵۵۳)
یہی مراد ہے اُس شعر سے جس میں کہا گیاہے:
مِیانِ عاشق ومَعشُوق رَمزے ست
ء
کِراماً کاتِبِین رَا ہَم خبر نِیسْت
کہ عاشق ومعشوق میں ایسی رَمز بھی ہوتی ہے جس کی فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہوتی۔ کتنے خوش قِسمت ہیں وہ لوگ جن کو ایک لَحظہ بھی غفلت نہیں ہوتی! کہ اُن کی ظاہری عبادات تو اپنے اپنے اَجر وثواب حاصل کریںگی ہی، یہ ہروقت کا ذکر وفکر پوری زندگی کے اوقات میں سَتَّر گُنا مزید براں۔ یہی چیز ہے جس نے شیطان کو دِق کر رکھا ہے۔
حضرت جنیدؒ سے نقل کیا گیا ہے کہ: اُنھوں نے ایک مرتبہ خواب میں شیطان کو بالکل ننگا دیکھا، اُنھوں نے فرمایا: تجھے شرم نہیں آتی کہ آدمیوں کے سامنے ننگا ہوتا ہے، وہ کہنے لگا کہ: یہ کوئی آدمی ہیں؟ آدمی وہ ہیں جو ’’شونِیزیہ‘‘ کی مسجد میں بیٹھے ہیں، جنھوں نے میرے بدن کو دُبلا کردیا اور میرے جِگر کے کباب کر دیے، حضرت جنیدؒ فرماتے ہیں کہ: مَیں شونیزیہ کی مسجد میں گیا، مَیں نے دیکھا کہ چند حضرات گھٹنوں پرسر رکھے ہوئے مُراقَبے میں مشغول ہیں، جب اُنھوں نے مجھے دیکھا تو کہنے لگے کہ: خَبِیث کی باتوں سے کہیں دھوکے میں نہ پڑجانا۔(روض الریاحین،ص:۱۱۲،حکایت:۱۲۷)
مَسُوحیؒ سے بھی اِس کے قریب ہی نقل کیا گیا ہے، اُنھوں نے شیطان کو ننگا دیکھا، اُنھوں نے کہا: تجھے آدمیوں کے درمیان اِس طرح چلتے شرم نہیں آتی، کہنے لگا: خدا کی قَسم! یہ آدمی نہیں، اگر یہ آدمی ہوتے تو مَیں اِن کے ساتھ اِس طرح نہ کھیلتا جس طرح لڑکے گیند سے کھیلتے ہیں، آدمی وہ لوگ ہیں جنھوں نے میرے بدن کو بیمار کردیا، اور صوفیا کی جماعت کی طرف اشارہ کیا۔
ابوسعید خَزَّارؒ کہتے ہیں کہ: مَیں نے خواب میں دیکھا کہ، شیطان نے مجھ پر حملہ کیا، مَیں لکڑی سے مارنے لگا، اُس نے ذرا بھی پروانہ کی، غیب سے ایک آواز آئی کہ: یہ اِس سے نہیں ڈرتا، یہ دل کے نور سے ڈرتا ہے۔
حضرت سعدص حضورﷺسے نقل کرتے ہیں کہ: بہترین ذکر، ذکرِ خَفی ہے، اور بہترین رِزق وہ ہے جو کِفایت کا درجہ رکھتا ہو۔(مسندابن ابی شیبہ،۔۔۔۔۔۔حدیث:۳۰۲۷۹)
حضرت عُبادہ صنے بھی حضورِ اقدس ﷺسے یہی نقل کیا ہے کہ: بہترین ذکر، ذکرِ خفی ہے، اور بہترین رزق وہ ہے جو کِفایت کا درجہ رکھتا ہو؛ (یعنی نہ کم ہو کہ گُذر نہ ہوسکے، نہ زیادہ ہو کہ تکبُّر اور فَواحِش میں مُبتَلا کرے)۔ ابنِ حِبانؒ اور ابویعلیٰؒ نے اِس حدیث کو صحیح بتایا ہے۔ (ابن حبان،۔۔۔۔۔۔۔۔۔أبویعلیٰ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
ایک حدیث میں حضورﷺ کا ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ: اللہ کو ذکرِ خامِل سے یاد کیا کرو، کسی نے دریافت کیا کہ: ذکرِ خامل کیا ہے؟ ارشاد فرمایا کہ: مَخفی ذکر۔
(مسند عبداللہ بن مبارک،ص:۵۰،حدیث:۱۵۵)
اِن سب روایات سے ذِکرِ خفی کی اَفضَلِیَّت معلوم ہوتی ہے، اور ابھی قریب ہی وہ روایت گزر چکی جس میں مجنون کہنے کا ذکر گزرا، دونوں مُستَقل چیزیں ہیں جو حالات کے اعتبار سے مختلف ہیں، اُس کو شیخ تجویز(متعیَّن) کرتا ہے کہ کس شخص کے لیے کس وقت کیا مناسب ہے؟۔
(۱۸) عَن عَبدِالرَّحمٰنِ بنِ سَهلٍ بنِ حُنَیفٍ قالَ: نَزَلَتْ عَلیٰ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَهُوَ فِي بَعضِ أَبیَاتِہٖ: ﴿وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ﴾ فَخَرَجَ یَلتَمِسُهُمْ، فَوَجَدَ قَوماً یَذکُرُونَ اللہَ، فِیهِمْ ثَائِرُ الرَّأْسِ، رَجَافُ الجِلدِ وَذُو الثَّوبِ الوَاحِدِ؛ فَلَمَّا رَاٰهُمْ جَلَسَ مَعَهُم وَقَالَ: اَلْحَمدُ لِلّٰہِ الَّذِي جَعَلَ فِي أُمَّتِيْ مَن أَمَرَنِي أَن أَصبِرَ نَفسِيْ مَعَهُمْ.
(أخرجہ ابن جریر والطبراني وابن مردویہ، کذا في الدر)
ترجَمہ:
حضورِ اقدس ﷺ دولت کدے میں تھے کہ آیت ﴿وَاصْبِرْنَفْسَکَ﴾ نازل ہوئی جس کا ترجَمہ یہ ہے: اپنے آپ کو اُن لوگوں کے پاس (بیٹھنے کا)پابند کیجیے جو صبح شام اپنے رب کو پُکارتے ہیں، حضورِ اقدس ﷺ اِس آیت کے نازل ہونے پر اُن لوگوں کی تلاش میںنکلے، ایک جماعت کو دیکھا کہ: اللہ کے ذکر میں مشغول ہے، بعض لوگ اُن میں بِکھرے ہوئے بالوں والے ہیں، اور خشک کھالوں والے اور صرف ایک کپڑے والے ہیں (کہ ننگے بدن، ایک لُنگی صرف اُن کے پاس ہے)،جب حضور ﷺنے اُن کو دیکھا تو اُن کے پاس بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا کہ: تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے میری اُمَّت میں ایسے لوگ پیدا فرمائے کہ خود مجھے اُن کے پاس بیٹھنے کا حکم ہے۔
دولت کدے: مکان۔ اِستِنباط: نکالنا۔اِختِلاط: ملنا۔ غَیرمُہذَّب: بے سلیقہ۔ تحمُّل: برداشت۔اِنقِیاد: فرماں برداری، پابندی۔اِنکِسار: عاجزی۔ رَأفت: مہربانی۔ یارانہ: دوستانہ۔لَہو ولَعِب: سَیر تماشہ۔ خََفگی: ناراضگی۔
فائدہ: ایک دوسری حدیث میں ہے کہ: حضورﷺ نے اُن کو تلاش فرمایا تو مسجد کے آخری حصے میں بیٹھے ہوئے پایا کہ ذکرُ اللہ میں مشغول تھے، حضورﷺ نے فرمایا کہ: تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے میری زندگی ہی میں ایسے لوگ پیدا فرمادیے کہ مجھے اُن کے پاس بیٹھنے کا حکم فرمایا، پھر فرمایا: تم ہی لوگوں کے ساتھ زندگی ہے اور تمھارے ہی ساتھ مرنا ہے، یعنی مرنے جینے کے ساتھی اور رَفیق تم ہی لوگ ہو۔ (دُرِّمنثور۔۔۔۔۔۔)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: حضرت سلمان فارسی ص وغیرہ حضرات صحابۂ کرامث کی ایک جماعت ذکرُ اللہ میں مشغول تھی، حضورﷺ تشریف لائے تو یہ لوگ چپ ہوگئے، حضورﷺ نے فرمایا: تم کیا کررہے تھے؟ عرض کیا: ذکرِ الٰہی میں مشغول تھے، حضورﷺنے فرمایا کہ: مَیں نے دیکھا کہ رحمتِ الٰہی تم لوگوں پر اُتر رہی ہے تو میرا بھی دِل چاہا کہ آکر تمھارے ساتھ شِرکَت کروں، پھر ارشاد فرمایا کہ: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، اللہ جَلَّ شَانُہٗنے میری اُمَّت میں ایسے لوگ پیدا کیے جن کے پاس بیٹھنے کا مجھے حکم ہوا۔(دُرِّمنثور بہ حوالۂ مسند احمد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
ابراہیم نَخعیؒ کہتے ہیں کہ: ﴿اَلَّذِینَ یَدْعُوْنَ﴾ سے مراد ذاکِرین کی جماعت ہے۔ اِن ہی جیسے اَحکام سے صوفیا نے اِستِنباط کیا ہے کہ، مَشائخ کو بھی مُریدین کے پاس بیٹھنا ضروری ہے، کہ اِس میں عِلاوہ فائدہ پہنچانے کے اِختِلاط سے شیخ کے نفس کے لیے بھی مُجاہَدۂ تامَّہ ہے، کہ غَیرمُہذَّب لوگوں کی بَدعُنوانیوں کے تحمُّل اور برداشت سے نفس میں اِنقِیاد پیدا ہوگا،اِس کی قوَّت میں اِنکِسار پیدا ہوگا؛ اِس کے عِلاوہ قُلوب کے اِجتِماع کو اللہ دکی رحمت ورَأفت کے مُتوجَّہ کرنے میں خاص دَخَل ہے، اِسی وجہ سے جماعت کی نماز مشروع ہوئی، اور یہی بڑی وجہ ہے کہ عرفات کے میدان میں سب حُجَّاج بہ یک حال ایک میدان میںاللہ کی طرف مُتوجَّہ کیے جاتے ہیں، جیسا کہ ہمارے حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے ’’حُجَّۃُ اللہِ البَالِغَۃ‘‘ میں مُتعدِّد جگہ اِس مضمون کو اِہتمام سے ارشاد فرمایا ہے۔
یہ سب اُس جماعت کے بارے میں ہے جو اللہ کا ذکر کرنے والی ہو، کہ احادیث میں کثرت سے اِس کی ترغیب آئی ہے، اِس کے بِالمُقابِل اگر کوئی شخص غَافِلین کی جماعت میں پھنس جائے اور اُس وقت اللہ کے ذکر میں مشغول ہوتو اُس کے بارے میں بھی احادیث میں کثرت سے فضائل آئے ہیں، ایسے موقع پر آدمی کو اَور بھی زیادہ اِہتمام اور توجُّہ سے اللہ کی طرف مَشغُول رہنا چاہیے؛ تاکہ اُن کی نَحوست سے محفوظ رہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ: غافِلین کی جماعت میں اللہ کا ذکر کرنے والا ایسا ہے جیسے کہ جہاد میں بھاگنے والوں کی جماعت میں سے کوئی شخص جَم کر مُقابلہ کرے۔(معجم الکبیرللطبرانی،۱۰؍۱۹، حدیث:۹۷۹۷)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: غافِلین میں اللہ کا ذکر کرنے والا ایسا ہے جیسے بھاگنے والوں کی طرف سے کُفَّار کا مُقابَلہ کرے، نیز وہ ایسا ہے جیسے اندھیرے گھر میں چراغ، نیز وہ ایسا ہے جیسے پَت جھڑ والے درختوں میں کوئی شاداب سَر سبز درخت ہو؛ ایسے شخص کو حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اُس کا جنت کا گھرپہلے ہی دِکھا دیںگے، اور ہرآدمی اورحیوان کی برابر اُس کی مغفرت کی جاوے گی۔(حلیۃ الاولیاء۶؍۱۸۱حدیث:۔۔۔۔۔۔)
یہ جب ہے کہ اُن مَجالِس میں اللہ کے ذکر میں مشغول ہو؛ ورنہ ایسی مَجالِس کی شرکت کی مُمانَعت آئی ہے۔ حدیث میں ہے کہ: عَشِیرہ یعنی یارانہ کی مَجالس سے اپنے آپ کو بچاؤ، عزیزیؒ کہتے ہیں: یعنی ایسی مجالس سے جن میں غیرُ اللہ کا ذکر کثرت سے ہوتا ہو، لَغویات اورلَہو ولَعِب میں مشغول ہوتی ہو۔
ایک بزرگ کہتے ہیں: مَیں ایک مرتبہ بازار جارہا تھا، ایک حبشاً باندی میرے ساتھ تھی، مَیں نے بازار میں ایک جگہ اُس کو بٹھادیا کہ مَیں واپسی میں اُس کو لے لو ںگا، وہ وہاں سے چلی آئی، جب مَیں نے واپسی پر اُس کو وہاں نہ دیکھا تو مجھے غُصَّہ آیا، مَیں گھر واپس ا ٓیا تو وہ باندی آئی اور کہنے لگی: میرے آقا! خََفگی میں جلدی نہ کریں، آپ مجھے ایسے لوگوں کے پاس چھوڑ گئے جو اللہ کے ذکرسے غافل تھے، مجھے یہ ڈرہوا کہ اُن پر کوئی عذاب نازل نہ ہو، وہ زمین میں دَھنس نہ جائیں، اور مَیں بھی اُن کے ساتھ عذاب میں دھنس نہ جاؤں۔
(۱۹) عَن أَبِي هُرَیرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ فِیمَا یَذکُرُ عَنْ رَبِّہٖ تَبَارَكَ وَتَعَالیٰ: اُذکُرْنِي بَعدَ العَصرِ وَبَعدَ الفَجْرِ سَاعَۃً أَکفِكَ فِیمَا بَینَهُمَا.(أخرجہ أحمد، کذا في الدر)
ترجَمہ: حضورِ اقدس ﷺاللہ دکا پاک ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ: تُو صبح کی نماز کے بعد اور عصر کی نماز کے بعدتھوڑی دیر مجھے یاد کرلیا کر،مَیں درمیانی حِصَّے میں تیری کِفایت کروںگا۔ (ایک حدیث میں آیا ہے کہ: اللہ کاذکر کیا کر، وہ تیریمَطلَب بَراری میں مُعِین ہوگا۔)
مَطلَب بَراری: مطلب پورا ہونا۔ مُعِین: مددگار۔ اَورَاد: وَظائف۔ اَشغال: …۔ اَورَاد: …۔ ہَیئَت: حالت۔ مَکروہات: ناگواریاں۔
فائدہ:آخرت کے واسطے نہ سَہی، دنیا کے واسطے ہم لوگ کیسی کیسی کوششیں کر ڈالتے ہیں! کیا بگڑ جائے اگر تھوڑی سی دیر صبح اور عصر کے بعد اللہ کا ذکر بھی کرلیا کریں! کہ احادیث میں کثرت سے اِن دووقتوں میں اللہ کے ذکر کے فضائل وارد ہوئے، اور جب اللہ د کِفایت کا وعدہ فرماتے ہیں پھر کسی دوسری چیز کی کیا ضرورت باقی ہے!۔
ایک حدیث میں آیا ہے، حضورِ اقدس ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ: مَیں ایسی جماعت کے ساتھ بیٹھوں جو صبح کی نماز کے بعد آفتاب نکلنے تک اللہ کے ذکر میں مشغول ہو، مجھے زیادہ پسند ہے اِس سے کہ چار عرب غلام آزاد کروں، اِسی طرح ایسی جماعت کے ساتھ بیٹھوں جو عصر کی نماز کے بعد سے غروب تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہے یہ زیادہ پسند ہے چار غلام آزاد کرنے سے۔(ابوداؤد، کتاب العلم،باب في القصص،۲؍۵۱۶،حدیث:۳۶۶۷)
ایک حدیث میں ہے کہ: جو شخص صبح کی نمازجماعت سے پڑھے پھر آفتاب نکلنے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہے، اورپھر دورکعت نفل پڑھے، اُس کو ایسا ثواب ملے گا جیسا کہ حج اور عمرہ پر ملتا ہے، اور حج اور عمرہ بھی وہ جو کامل ہو۔(معجم کبیرللطبرانی، ۸؍ ۱۷۴، حدیث: ۷۶۴۹)
حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: مَیں ایک جماعت کے ساتھ صبح کی نماز کے بعدسے آفتاب نکلنے تک ذکر میں مشغول رہوں یہ مجھے دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے، اِسی طرح عصر کی نماز کے بعد سے غروب تک ایک جماعت کے ساتھ ذکر میں مشغول رہوں یہ مجھے دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ پسند ہے۔(شعب الایمان للبیہقی،۔۔۔۔۔حدیث:۵۵۵)
اِن ہی وُجوہ سے صبح کی نماز کے بعد اور عصر کی نماز کے بعد اَورَاد کا معمول ہے، اورحضراتِ صوفیا کے یہاں تو اِن دونوں وقتوں کاخاص اہتمام ہے، کہ صبح کی نماز کے بعد عموماً اَشغال میں اِہتِمام فرماتے ہیں اور عصر کے بعد اَورَاد کا اِہتمام فرماتے ہیں؛ بِالخصوص فجر کے بعد فُقَہا بھی اِہتمام فرماتے ہیں۔ ’’مُدَوَّنہ‘‘ میں امام مالکؒ سے نقل کیا گیا ہے کہ: فجر کی نماز کے بعد طلوعِ آفتاب تک باتیں کرنا مکروہ ہیں، اور حَنفِیَّہ میں سے صاحبِ دُرِّمختارؒنے بھی اِس وقت باتیں کرنا مکروہ لکھا ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: جو شخص صبح کی نماز کے بعد اُسی ہَیئَت سے بیٹھے ہوئے بولنے سے قبل یہ دعا دس مرتبہ پڑھے: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیكَ لَہٗ، لَہُ الْمُلْكُ وَلَہُ الحَمْدُ، یُحْیِيْ وَیُمِیْتُ، وَہُوَعَلیٰ کُلِّ شَيْئٍ قَدِیْرٌ: اللہ کے سِوا کوئی معبود نہیں، وہ اپنی ذات اورصِفات میں اَکیلا ہے، کوئی اُس کا شریک نہیں، سارا مُلک -دنیا اور آخرت کا- اُسی کا ہے، اور جتنی خوبیاں ہیں وہ اُسی پاک ذات کے لیے ہیں، وہی زندہ کرتا ہے، وہی مارتا ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ تو اُس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں، دس بُرائیاں مُعاف فرمائی جائیں، اور جنت میں دس درجے بلند کیے جائیں، اور تمام دن شیطان سے اور مَکروہات سے محفوظ رہے۔(ترمذی،کتاب الدعوات،باب ماجاء فی فضل التسبیح والتکبیر والتہلیل،۲؍۱۸۵حدیث:۳۴۷۴)
ایک حدیث میں آیا ہے: جو صبح اور عصر کے بعد أَسْتَغْفِرُ اللہَ الَّذِيْ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَيُّ الْقَیُّوْمُ وَأَتُوبُ إِلَیْہِ (مَیں اُسی اللہ سے جو زندہ ہے ہمیشہ رہنے والا ہے، اُس کے سِوا کوئی معبود نہیں، اپنے گناہوں کی مغفرت مانگتا ہوں، اور اُسی کی طرف رُجوع کرتا ہوں، توبہ کرتا ہوں)تین مرتبہ پڑھے، اُس کے گناہ مُعاف ہوجاتے ہیں خواہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔(عمل الیوم واللیلۃ،۔۔۔۔۔۔۔حدیث:۱۲۴)
(۲۰) عَن أَبِي هُرَیرَۃَ قَالَ: سَمِعتُ رَسُولَ اللہِﷺ یَقُولُ: اَلدُّنیَا مَلعُوْنَۃٌ وَمَلعُوْنٌ مَافِیهَا؛ إِلَّا ذِکرُاللہِ، وَمَا وَالَاہُ، وَعَالِماً، وَمُتَعَلِّماً.
(رواہ الترمذي وابن ماجہ والبیهقي؛ وقال الترمذي: حدیث حسن، کذا في الترغیب. وذکرہ في الجامع الصغیر بروایۃ ابن ماجہ، ورقم لہ بالحسن. وذکرہ في مجمع الزوائد بروایۃ الطبراني في الأوسط عن ابن مسعود، وکذا السیوطي في الجامع الصغیر، وذکرہ بروایۃ البزارعن ابن مسعود بلفظ: ’’إِلَّا أَمراً بِالمَعرُوفِ أَو نَهیاً عَنِ المُنکَرِ أوْ ذِکرُ اللہِ‘‘، رقم لہ بالصحۃ)
ترجَمہ:
حضورِ اقدس ﷺکا ارشاد ہے کہ: دنیا مَلعُون ہے، اور جوکچھ دنیا میں ہے سب ملعون (اللہ کی رحمت سے دور ہے)؛مگر اللہ کا ذکر اور وہ چیز جو اُس کے قریب ہو، اور عالم اور طالبِ علم۔
قَبِیل: قِسم۔ قُربت: نزدیکی۔ تَر: گیلا۔ خُشک: سوکھا۔ اِلہام: دل میں ڈالنا۔ مَبسُوط: مُفصَّل۔ دَفع: دُور۔ اِنبِساط: خوشی۔ سَعادت: نیک بختی۔رَسائی: پہنچ۔مُنتَہائے مَقصَد:آخری مقصد۔ رَفتہ رَفتہ: آہستہ آہستہ۔
ماویٰ: ٹھکانہ۔ مَلْجا: پناہ گاہ۔ اِضافہ: زیادتی۔
فائدہ:
اُس کے قریب ہونے سے مراد ذکر کے قریب ہونا بھی ہوسکتا ہے، اِس صورت میں وہ چیزیں مراد ہوںگی جو اللہ کے ذکر میں مُعِین ومددگار ہوں، جن میں کھانا پینا بھی بہ قدرِ ضرورت داخل ہے، اور زندگی کے اسبابِ ضروریہ بھی اِس میں داخل ہیں، اور اِس صورت میں اللہ کا ذکر ہر چیز کو جو عبادت کی قَبِیل سے ہو، شامل ہے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اُس کے قریب ہونے سے اللہ کا قُرب مراد ہو، تو اِس صورت میں ساری عبادتیں اُس میں داخل ہوںگی اور ’’اللہ کے ذکر‘‘ سے مخصوص ذکرمراد ہوگا، اور دونوں صورتوں میں علم اُن میںخود داخل ہوگیا تھا، پہلی صورت میں اِس وجہ سے کہ علم ہی اللہ کے ذکر کے قریب لے جاتا ہے، کہ ’’بے علم نَتُواں خدا رَا شَناخت‘‘ (بغیر علم کے اللہ کوپہچان نہیں سکتا)، اور دوسری صورت میں اِس وجہ سے کہ، علم سے بڑھ کر کون سی عبادت ہوگی! لیکن اِس کے باوجود پھر عالم اور طالب علم کو علاحدہ اِہتمام کی وجہ سے فرمایا، کہ علم بہت ہی بڑی دولت ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: علم کا صرف اللہ کے لیے سیکھنا اللہ کے خوف کے حکم میں ہے، اور اُس کی طَلَب (یعنی تلاش کے لیے کہیں جانا)عبادت ہے، اور اُس کا یاد کرناتسبیح ہے، اور اُس کی تَحقِیقات میں بَحث کرنا جِہاد ہے، اور اُس کا پڑھنا صدقہ ہے، اور اُس کا اَہل پر خرچ کرنا اللہ کے یہاں قُربت ہے؛ اِس لیے کہ علم جائز ناجائز کے پہچاننے کے لیے علامت ہے، اور جنت کے راستوں کانشان ہے، وَحشت میں جی بَہلانے والا ہے، اور سفر کاساتھی ہے (کہ کتاب کا دیکھنا دونوں کام دیتا ہے، اِسی طرح) تنہائی میں ایک مُحدِّث ہے، خوشی اور رنج میں دلیل ہے، دشمنوں پر ہتھیار ہے دوستوں کے لیے، حق تَعَالیٰ شَانُہٗاِس کی وجہ سے ایک جماعت (عُلَما)کو بلند مرتبہ کرتا ہے، کہ وہ خَیر کی طرف بُلانے والے ہوتے ہیں، اور ایسے امام ہوتے ہیں کہ اُن کے نشانِ قدم پر چلا جائے، اور اُن کے اَفعال کا اِتِّباع کیا جائے، اُن کی رائے کی طرف رُجوع کیاجائے، فرشتے اُن سے دوستی کرنے کی رَغبت کرتے ہیں، اپنے پَروں کو (برکت حاصل کرنے کے لیے یا محبت کے طور پر) اُن پر مَلتے ہیں، اور ہر تَر اور خُشک چیز دنیا کی اُن کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کرتی ہے، حتیٰ کہ سمندر کی مچھلیاں اورجنگل کے درندے اور چوپائے اور زہریلے جانور (سانپ وغیرہ) تک بھی دُعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں، اور یہ سب اِس لیے کہ علم دلوں کی روشنی ہے، آنکھوں کا نور ہے، علم کی وجہ سے بندہ اُمَّت کے بہترین اَفراد تک پہنچ جاتا ہے، دنیا اور آخرت کے بلند مرتبوں کو حاصل کرلیتا ہے، اُس کامُطالَعہ روزوں کے برابر ہے، اُس کا یاد کرنا تہجُّد کے برابر ہے، اُسی سے رِشتے جوڑے جاتے ہیں، اور اُسی سے حلال وحرام کی پہچان ہوتی ہے، وہ عمل کا اِمام ہے، اور عمل اُس کا تابع ہے، سَعِید لوگوں کو اُس کا اِلہام کیا جاتا ہے اور بدبخت اُس سے محروم رہتے ہیں۔
(حلیۃ الاولیاء۱؍۲۳۹)
اِس حدیث پر مجموعی طور سے بعض نے کلام کیا ہے؛ لیکن جس قِسم کے فضائل اِس میں ذکر کیے گئے ہیں اُن کی تائید دوسری روایات سے بھی ہوتی ہے، نیز اِن کے عِلاوہ بہت سے فضائل حدیث کی کتابوں میں بہ کثرت آئے ہیں؛ اِسی وجہ سے عالم اور طالبِ علم کو خاص طور سے حدیثِ بالا میں ذکر فرمایا ہے۔
حافظ ابن قَیِّمؒ ایک مشہور مُحدِّث ہیں، اِنھوں نے ایکمَبسُوط رِسالہ عربی میں ’’اَلْوَابِلُ الصَّیِّب‘‘ کے نام سے ذکر کے فضائل میں تصنیف کیا ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں کہ: ذکر میں سو سے بھی زیادہ فائد ے ہیں، اُن میں سے نمبر وار اُناسِّی(۷۹) فائدے اُنھوں نے ذکر فرمائے ہیں، جن کو مختصراً اِس جگہ ترتیب وار نقل کیا جاتا ہے، اور چوںکہ بہت سے فوائداِن میں ایسے ہیں جو کئی کئی فائدوں کو شامل ہیں، اِس لِحاظ سے یہ سو سے زیادہ کومُشتمِل ہیں:
(۱)ذکر شیطان کو دَفع کرتا ہے اور اُس کی قوَّت کوتوڑتا ہے۔ (۲)اللہ د کی خوش نُودی کا سبب ہے۔ (۳)دل سے فکر وغم کو دُور کرتاہے۔ (۴)دل میں فَرحت، سُرور اور اِنبِساط پیدا کرتا ہے۔ (۵)بدن کو اور دل کو قوَّت بخشتا ہے۔ (۶)چہرے اور دل کو مُنوَّر کرتا ہے۔ (۷) رِزق کو کھینچتا ہے۔ (۸)ذکر کرنے والے کو ہَیبت اور حَلاوت کا لباس پہناتا ہے، یعنی اُس کے دیکھنے سے رُعب پڑتا ہے، اور دیکھنے والوں کو حَلاوت نصیب ہوتی ہے۔ (۹)اللہتَعَالیٰ شَانُہٗ کی مَحبت پیدا کرتا ہے، اور مَحبت ہی اِسلام کی رُوح اور دین کا مرکز ہے، اور سَعادت اور نجات کا مَدار ہے، جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ کی مَحبت تک اُس کی رَسائی ہو، اُس کو چاہیے کہ اُس کے ذکر کی کثرت کرے، جیسا کہ پڑھنا اور تکرار کرنا علم کا دروازہ ہے اِسی طرح اللہ کاذکر اُس کی محبت کا دروازہ ہے۔ (۱۰) ذکر سے مُراقبہ نصیب ہوتا ہے جو مرتبۂ احسان تک پہنچادیتا ہے، یہی مرتبہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی عبادت ایسی نصیب ہوتی ہے گویااللہجَلَّ شَانُہٗ کو دیکھ رہا ہے، (یہی مرتبہ صوفیا کا مُنتَہائے مَقصَد ہوتا ہے)۔ (۱۱)اللہ کی طرف رُجوع پیدا کرتا ہے، جس سے رَفتہ رَفتہ یہ نوبت(حالت) آجاتی ہے کہ ہرچیز میں حق تَعَالیٰ شَانُہٗاُس کی جائے پناہ اور ماویٰ، مَلْجا بن جاتے ہیں، اورہر مصیبت میں اُسی کی طرف توجُّہ ہوجاتی ہے۔ (۱۲)اللہ کا قُرب پیدا کرتا ہے، اور جتنا ذکر میں اِضافہ ہوتا ہے اُتنا ہی قُرب میں اِضافہ ہوتا ہے، اور جتنی ذکر سے غفلت ہوتی ہے اُتنی ہی اللہ سے دُوری ہوتی ہے۔ (۱۳)اللہ کی مَعرفَت کا دروازہ کھولتاہے۔ (۱۴) اللہجَلَّ شَانُہٗکی ہَیبت اور اُس کی بَڑائی دل میں پیدا کرتاہے، اور اللہ کے ساتھ حُضوری پیدا کرتا ہے۔ (۱۵)اللہجَلَّ شَانُہٗ کی بارگاہ میں ذکر کا سبب ہے؛ چناںچہ کلامِ پاک میں ارشادہے: ﴿فَاذْکُرُونِي أَذکُرْکُمْ﴾، اور حدیث میںوارد ہے: مَنْ ذَکَرَنِيْ فِيْ نَفْسِہٖ ذَکَرْتُہٗ فِيْ نَفْسِيْ. الحدیث. چناںچہ آیات اور احادیث کے بیان میںپہلے مُفصَّل گزر چکا ہے۔ اگر ذکر میں اِس کے سِوا اَور کوئی بھی فضیلت نہ ہوتی تب بھی شَرافت اور کَرامت کے اِعتِبار سے یہی ایک فضیلت کافی تھی، چہ جائیکہ اِس میں اَور بھی بہت سی فضیلتیں ہیں۔
وَحشت: دُوری۔ بدگوئی: بُری بات کہنا۔ لَغو گوئی: فُضُول بات کہنا۔ نوع: قِسم۔ بِلبِلا: تڑپنا۔ سَہَل ترین: سب سے آسان۔ دَوامِ ذکر: ہمیشہ ذکرکرنا ۔ شَقاوَت: بدبختی۔ مَصالِح: مصلَحتیں۔ خَبر گِیری: دیکھ بھال۔ لامَحالہ: یقینا۔ شَب بیداروں: رات بھر جاگنے والا۔
(۱۶)دل کو زندہ کرتا ہے، حافظ ابنِ تَیمِیہؒ کہتے ہیں کہ: اللہ کا ذکر دل کے لیے ایسا ہے جیسا مچھلی کے لیے پانی، خود غور کرلو کہ بغیرپانی کے مچھلی کا کیا حال ہوتا ہے؟۔ (۱۷)دل اور رُوح کی روزی ہے، اگر اِن دونوں کو اپنی روزی نہ ملے تو ایسا ہے جیسا کہ بدن کو اُس کی روزی (یعنی کھانا)نہ ملے۔ (۱۸)دل کو زَنگ سے صاف کرتا ہے، جیسا کہ حدیث میں بھی وَارِد ہوا ہے، ہرچیز پر اُس کے مُناسِب زَنگ اور مَیل کُچیل ہوتا ہے، دل کا مَیل اور زَنگ خواہشات اور غفلت ہیں، یہ اُس کے لیے صفائی کا کام دیتاہے۔ (۱۹) لَغزشوں اور خَطاؤں کو دُور کرتا ہے۔ (۲۰)بندے کو اللہ جَلَّ شَانُہٗسے جو وَحشت ہوتی ہے اُس کو دُور کرتا ہے، کہ غافل کے دل پر اللہ کی طرف سے ایک وَحشت رہتی ہے جوذکر ہی سے دُور ہوتی ہے۔ (۲۱)جو اَذکار بندہ کرتا ہے وہ عرش کے چاروں طرف بندے کا ذکر کرتے رہتے ہیںجیسا کہ حدیث میںوارد ہے: (باب نمبر ۳؍ فصل نمبر۲؍ حدیث نمبر۱۷)۔ (۲۲) جو شخص راحت میں اللہ جَلَّ شَانُہٗ کا ذکر کرتا ہے اللہ دمصیبت کے وقت اُس کو یاد کرتا ہے۔ (۲۳)اللہ کے عذاب سے نجات کاذریعہ ہے۔ (۲۴) سَکِینہ اور رحمت کے اُترنے کا سبب ہے، اور فرشتے ذِکر کرنے والے کو گھیر لیتے ہیں۔ (سکینہ کے معنیٰ بابِ ہٰذا کی فصل نمبر ۲؍ حدیث نمبر ۸؍ میں گزر چکے ہیں)۔ (۲۵)اِس کی برکت سے زبان غِیبت، چُغل خوری، جھوٹ، بدگوئی، لَغو گوئی سے محفوظ رہتی ہے؛ چناںچہ تجربے اور مُشاہَدے(دیکھنے) سے ثابت ہے کہ جس شخص کی زبان اللہ کے ذکر کی عادی ہوجاتی ہے وہ اِن اشیاء سے عُمُوماً محفوظ رہتا ہے، اور جس کی زبان عادی نہیں ہوتی ہر نوع کی لَغوِیات میں مُبتَلا رہتاہے۔ (۲۶)ذکر کی مَجلِسیں، فرشتوں کی مجلسیں ہیں، اور لَغویات اور غفلت کی مَجلسیں شیطان کی مجلسیں ہیں، اب آدمی کو اِختیار ہے جس قِسم کی مجلسوں کو چاہے پسند کرلے، اور ہر شخص اُسی کو پسند کرتا ہے جس سے مُناسَبت رکھتا ہے۔ (۲۷)ذکر کی وجہ سے ذکر کرنے والا بھی سَعید (نیک بخت) ہوتا ہے اور اُس کے پاس بیٹھنے والا بھی، اور غفلت یا لَغویات میںمُبتَلا ہونے والا خود بھی بدبخت ہوتا ہے اور اُس کے پاس بیٹھنے والا بھی۔ (۲۸) قِیامت کے دن حَسرت سے محفوظ رکھتا ہے؛ اِس لیے کہ حدیث میں آیا ہے کہ: ہر وہ مجلس جس میں اللہ کا ذکر نہ ہو قِیامت کے دن حسرت اور نقصان کا سبب ہے۔ (۲۹)ذکر کے ساتھ اگر تنہائی کا رونا بھی نصیب ہوجائے تو قِیامت کے دن کی تَپِش اور گرمی میں -جب کہ ہر شخص میدانِ حشر میں بِلبِلا رہا ہوگا- یہ عرش کے سایے میں ہوگا۔ (۳۰)ذکر میں مشغول رہنے والوں کو اُن سب چیزوں سے زیادہ ملتا ہے جو دعائیں مانگنے والوں کو ملتی ہیں، حدیث میں اللہجَلَّ شَانُہٗکا ارشاد نقل کیا گیاہے کہ: جس شخص کو میرے ذکرنے دعا سے روک دیا اُس کو مَیں دعائیں مانگنے والوں سے اَفضل عطا کروںگا۔ (ترمذی،أبواب فضائل القرآن،باب ۲؍۱۲۰۔حدیث:۲۹۲۷)
(۳۱)باوجود سَہَل ترین عبادت ہونے کے تمام عبادتوں سے افضل ہے؛ اِس لیے کہ زبان کو حرکت دینا بدن کے اَور تمام اَعضا کو حرکت دینے سے سَہَل ہے۔ (۳۲)اللہ کا ذکر جنت کے پودے ہیں (چناںچہ باب ۳؍ فصل ۲؍حدیث۴؍میں مُفصَّل آرہا ہے)۔ (۳۳)جس قدر بخشش اور اِنعام کا وعدہ اِس پر ہے اِتنا کسی اَور عمل پر نہیں ہے۔
چناںچہ ایک حدیث میں وَارِد ہے کہ: جو شخص لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیكَ لَہٗ، لَہُ الْمُلْكُ وَلَہُ الحَمْدُ، وَہُوَ عَلیٰ کُلِّ شَيْئٍ قَدِیْرٌ سومرتبہ کسی دن پڑھے، تو اُس کے لیے دس غلام آزاد کرنے کا ثواب ہوتا ہے، اور سو نیکیاں اُس کے لیے لکھی جاتی ہیں، اور سو بُرائیاں اُس سے مُعاف کر دی جاتی ہیں، اور شام تک شیطان سے محفوظ رہتا ہے، اور دوسرا کوئی شخص اُس سے افضل نہیں ہوتا؛ مگر وہ شخص کہ اُس سے زیادہ عمل کرے۔ (۔۔۔۔۔۔)
(اِسی طرح اَور بہت سی احادیث ہیں جن سے ذکر کا افضلِ اَعمال ہونا معلوم ہوتا ہے، اور بہت سی اُن میں سے اِس رسالے میں مذکور ہیں)۔
(۳۴)دَوامِ ذکر کی بہ دولت اپنے نفس کو بھولنے سے اَمن نصیب ہوتا ہے، جو سبب ہے دارین کی شَقاوَت کا؛ اِس لیے کہ اللہ کی یاد کو بھلادینا سبب ہوتا ہے خود اپنے نفس کے بھلا دینے کا، اور اپنے تمام مَصالِح کے بھلادینے کا؛ چناںچہ ارشادِ خداوندی ہے: ﴿وَلَاتَکُونُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللہَ فَأَنْسٰہُمْ أَنْفُسَہُمْ، أُولٰئِکَ ہُمُ الفَاسِقُوْنَ﴾ [الحشر، ع:۳] (تم اُن لوگوں کی طرح نہ بنو جنھوں نے اللہ سے بے پَروائی کی، پس اللہ نے اُن کو اپنی جانوں سے بے پروا کردیا، یعنی اُن کی عقل ایسی ماری گئی کہ اپنے حقیقی نفع کو نہ سمجھا)اور جب آدمی اپنے نفس کو بھلادیتا ہے تو اُس کی مَصالِح سے غافل ہوجاتا ہے، اور یہ سبب ہلاکت کا بن جاتا ہے، جیسا کہ کسی شخص کی کھیتی ہو یا باغ ہو اور اُس کو بھول جائے، اُس کی خَبر گِیری نہ کرے تو لامَحالہ وہ ضائع ہوگا، اور اِس سے اَمن جب ہی مِل سکتاہے جب اللہ کے ذِکر سے زبان کو ہر وقت تَروتازہ رکھے، اور ذکر اُس کو ایسا محبوب ہوجائے جیسا کہ پیاس کی شدت کے وقت پانی، اور بھوک کے وقت کھانا، اور سخت گرمی اور سخت سردی کے وقت مکان اور لباس؛ بلکہ اللہ کاذکر اِس سے زیادہ کامستحق ہے؛ اِس لیے کہ اِن اَشیا کے نہ ہونے سے بدن کی ہلاکت ہے، جو رُوح کی اور دِل کی ہلاکت کے مُقابلے میںکچھ بھی نہیں ہے۔ (۳۵)ذِکر آدمی کی ترقی کرتا رہتا ہے، بسترے پر بھی اور بازار میں بھی، صِحَّت میں بھی اور بیماری میں بھی، نعمتوں اور لَذَّتوں کے ساتھ مشغولی میں بھی؛ اَور کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو ہر وقت ترقی کا سب بنتی ہو، حتیٰ کہ جس کا دل نورِ ذکر سے مُنوَّر ہوجاتا ہے وہ سوتا ہوا بھی غافل شَب بیداروں سے بڑھ جاتاہے۔
مُہتَم بِالشَّان: عظمت والا۔ مُبالَغہ: بہت زیادہ۔ سرتاپا: سر سے پیر تک۔ رَائج: جاری۔ گوشہ: کنارہ۔ مُسلَّط: غالب۔ غَنی: مال دار۔ کُنبے: خاندان۔ ہُموم: خَیالات۔ جَمعیَّتِ خاطِر: بے فکری، دل جَمعی۔ مُسلَّط: غالب۔ مَنافِع: فائدے۔ مَعِیَّت: ساتھ ہونا۔
(۳۶)ذکر کا نور دنیا میں بھی ساتھ رہتا ہے اور قبر میں بھی ساتھ رہتا ہے، اور آخرت میں پُل صراط پر آگے آگے چلتا ہے، حقتَعَالیٰ شَانُہٗکا ارشاد ہے: ﴿أَوَمَنْ کَانَ مَیْتاً فَأَحْیَیْنٰہُ وَجَعَلْنَا لَہٗ نُوْراًیَّمْشِيْبِہٖ فِيْ النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُہٗ فِي الظُّلُمٰتِ لَیسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا﴾ [الأنعام، ع:۱۵] (ایسا شخص جو پہلے مُردہ یعنی گمراہ تھا، پھر ہم نے اُس کو زندہ یعنی مسلمان بنادیا، اور اُس کو ایسا نور دے دیا کہ وہ اُس نور کو لیے ہوئے آدمیوں میں چلتا پھرتا ہے، یعنی وہ نور ہر وقت اُس کے ساتھ رہتا ہے، کیا ایسا شخص بدحالی میں اُس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو گمراہیوں کی تاریکیوں میں گھِرا ہو، کہ اُن سے نکلنے ہی نہیں پاتا!۔) پس اوَّل شخص مؤمن ہے جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے، اور اُس کی محبت اور اُس کی مَعرفت اور اُس کے ذکر سے مُنوَّر ہے، اور دوسرا شخص اُن چیزوں سے خالی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نور نہایت مُہتَم بِالشَّان چیز ہے، اور اِسی میں پوری کامیابی ہے؛ اِسی لیے نبیٔ اکرم ﷺاِس کی طلب اور دعا میں مُبالَغہ فرمایا کرتے تھے، اور اپنے ہر جُزو میں نور کو طلب فرماتے تھے؛ چناںچہ احادیث میں مُتعدَّد دعائیں ایسی ہیں جن میں حضورِ اقدس ﷺ نے اِس کی دعا فرمائی ہے کہ: حق تَعَالیٰ شَانُہٗ آپ کے گوشت میں، ہَڈِّیوں میں، پَٹھوں میں، بال میں، کھال میں، کان میں، آنکھ میں، اُوپر ،نیچے، دائیں، بائیں، آگے، پیچھے نور ہی نور کردے، حتیٰ کہ یہ بھی دعا کی کہ: خود مجھی کو سرتاپا نور بنا دے، کہ آپ کی ذات ہی نور بن جائے، اِسی نور کی بہ قدر اعمال میں نور ہوتا ہے، حتیٰ کہ بعض لوگوں کے نیک عمل ایسی حالت میں آسمان پرجاتے ہیں کہ اُن پر آفتاب جیسا نور ہوتا ہے، اور ایسا ہی نور اُن کے چہروں پر قِیامت کے دن ہوگا۔ (۳۷)ذکر تصوُّف کا اصلِ اُصول ہے اور تمام صوفیا کے سب طریقوں میں رَائج ہے، جس شخص کے لیے ذکر کا دروازہ کھل گیا ہے اُس کے لیے اللہ جَلَّ شَانُہٗتک پہنچنے کا دروازہ کھل گیا، اور جو اللہجَلَّ شَانُہٗتک پہنچ گیا وہ جو چاہتا ہے پاتا ہے، کہ اللہجَلَّ شَانُہٗکے پاس کسی چیز کی بھی کمی نہیں ہے۔ (۳۸)آدمی کے دل میں ایک گوشہ ہے جو اللہ کے ذکر کے عِلاوہ کسی چیز سے بھی پُر نہیں ہوتا، اور جب ذکر دل پر مُسلَّط ہوجاتا ہے تو وہ نہ صرف اُس گوشے کو پُرکرتا ہے؛ بلکہ ذکر کرنے والے کو بغیرمال کے غَنی کردیتا ہے، اور بغیر کُنبے اور جماعت کے لوگوں کے دلوں میں عزَّت والا بنادیتا ہے، اور بغیر سَلطَنت کے بادشاہ بنا دیتا ہے، اور جوشخص ذکر سے غافل ہوتا ہے وہ باوجود مال ودولت، کُنبہ اور حکومت کے ذَلیل ہوتا ہے۔ (۳۹)ذکر پَراگَندہ کو مُجتَمع کرتا ہے اور مُجتمع کو پَراگَندہ کرتا ہے، دُور کو قریب کرتا ہے اور قریب کو دُور کرتا ہے۔ پَراگندہ کو مُجتمَع کرنے کامطلب یہ ہے کہ: آدمی کے دل پر جو مُتفرِّق ہُموم، غُمُوم، تَفکُّرات، پریشانیاں ہوتی ہیں اُن کودُور کرکے جَمعیَّتِ خاطِر پیدا کرتا ہے، اور مُجتمع کو پَراگَندہ کرنے کامطلب یہ ہے کہ: آدمی پر جو تفکُّرات مجتمع ہیں اُن کو مُتفرِّق کردیتا ہے، اور آدمی کی جولَغزشیں اور گناہ جمع ہوگئے ہیں اُن کوپَراگَندہ کردیتا ہے، اور جو شیطان کے لشکر آدمی پر مُسلَّط ہیں اُن کو پَراگَندہ کردیتا ہے، اور آخرت کو جو دُور ہے قریب کر دیتا ہے، اوردنیا کو جو قریب ہے دُور کردیتا ہے۔ (۴۰)ذکر آدمی کے دل کو نیند سے جگاتا ہے، غفلت سے چوکنَّا کرتا ہے، اور دل جب تک سوتا رہتا ہے اپنے سارے ہی مَنافِع کھوتا رہتا ہے۔
(۴۱)ذکر ایک درخت ہے جس پر مَعارِف کے پھل لگتے ہیں، صوفیا کی اِصطِلاح میں اَحوال اور مَقامات کے پھل لگتے ہیں، اور جتنی بھی ذکر کی کثرت ہوگی اُتنی ہی اُس درخت کی جڑ مضبوط ہوگی، اور جتنی جڑ مضبوط ہوگی اُتنے ہی زیادہ پھل اُس پرآئیںگے۔ (۴۲)ذکر اُس پاک ذات کے قریب کردیتا ہے جس کا ذکر کر رہا ہے، حتیٰ کہ اُس کے ساتھ مَعِیَّت نصیب ہوجاتی ہے؛ چناںچہ قرآن پاک میں ہے: ﴿إِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا﴾ (اللہجَلَّ شَانُہٗمُتَّقیوں کے ساتھ ہے)۔
اور حدیث میں وارد ہے: أَنَا مَعَ عَبدِيْ مَا ذَکَرَنِي: (بخاری، تعلیقاً۱۳؍ ۴۳ ۔۔ ۔ ۔ ) (مَیں اپنے بندے کے ساتھ رہتا ہوں جب تک وہ میرا ذکر کرتا رہے)۔
حَبِیب: دوست۔ طَبیب: ڈاکٹر۔ مُعزَّز: عزت والا۔ مُنتَہا: انجام،پھل۔ مُداوَمَت: ہمیشگی۔ سَبقَت لے جاتے: غالب آجانا۔ بار: بوجھ۔ خِفَّت: ہلکا پن۔۔ہِراس: گھبراہٹ۔ آڑ: رُکاوَٹ۔ مُحاصَرہ: گھیراؤ۔ تَفاضُل: بڑھا ہوا ہونا۔
ایک حدیث میں ہے کہ: میرا ذکر کرنے والے میرے آدمی ہیں، مَیں اُن کو اپنی رحمت سے دُور نہیں کرتا ،اگر وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں تو مَیں اُن کا حَبِیب ہوں، اور اگر وہ توبہ نہ کریں تو مَیں اُن کا طَبیب ہوں کہ اُن کو پریشانیوں میں مُبتَلا کرتا ہوں؛ تاکہ اُن کو گناہوں سے پاک کروں۔ (۔۔۔۔۔۔۔)
نیز ذکر کی وجہ سے جو اللہجَلَّ شَانُہٗ کی مَعِیَّت نصیب ہوتی ہے وہ ایسی مَعِیَّت ہے جس کی برابر کوئی دوسری مَعِیَّت نہیں ہے، نہ وہ زبان سے تعبیر ہوسکتی ہے نہ تحریر میں آسکتی ہے، اُس کی لَذَّت وہی جان سکتا ہے جس کو یہ نصیب ہوجاتی ہے۔ اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنِيْ مِنہُ شَیْئاً. (۴۳) ذکر غلاموں کے آزاد کرنے کے برابر ہے، مالوں کے خرچ کرنے کے برابر ہے، اللہ کے راستے میں جہاد کی برابر ہے۔ بہت سی روایات میں اِس قِسم کے مَضامین گزر بھی چکے ہیں اور آئندہ بھی آنے والے ہیں۔
(۴۴)ذکر، شکر کی جڑ ہے، جو اللہ کا ذکر نہیں کرتا وہ شکر بھی ادا نہیں کرتا۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: حضرت موسیٰ عَلیٰ نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ نے اللہ دسے عرض کیا: آپ نے مجھ پر بہت احسانات کیے ہیں مجھے طریقہ بتادیجیے کہ مَیں آپ کا بہت شکر ادا کروں، اللہ دنے ارشاد فرمایا کہ: جتنا بھی تم میرا ذکر کروگے اُتنا ہی شکر ادا ہوگا۔ دوسری حدیث میں حضرت موسیٰں کی یہ درخواست ذکر کی گئی ہے کہ: یا اللہ! تیری شان کے مناسب شکر کس طرح ادا ہو؟ اللہ دنے فرمایا کہ: تمھاری زبان ہر وقت ذکر کے ساتھ تروتازہ رہے۔ (بیہقی۔۔۔۔۔۔۔)
(۴۵)اللہ کے نزدیک پرہیزگار لوگوں میں زیادہ مُعزَّز وہ لوگ ہیں جو ذکر میں ہر وقت مشغول رہتے ہوں؛ اِس لیے کہ تقویٰ کا مُنتَہا جنت ہے، اور ذِکر کامُنتَہا اللہ کی مَعِیَّت ہے۔ (۴۶)دل میں ایک خاص قِسم کی قَسوَت (سختی)ہے جو ذِکر کے عِلاوہ کسی چیز سے بھی نرم نہیں ہوتی۔ (۴۷)ذکر دل کی بیماریوں کا علاج ہے۔ (۴۸)ذکر اللہ کے ساتھ دوستی کی جڑ ہے، اور ذکر سے غفلت اُس کے ساتھ دشمنی کی جڑ ہے۔ (۴۹)اللہ کے ذکر کے برابر کوئی چیزنعمتوں کی کھینچنے والی اور اللہ کے عذاب کو ہٹانے والی نہیں ہے۔ (۵۰)ذکر کرنے والے پر اللہ کی صَلاۃ (رحمت) اور فرشتوں کی صَلَاۃ(دعا) ہوتی ہے۔
(۵۱)جو شخص یہ چاہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے بھی جنت کے باغوں میں رہے وہ ذکر کی مَجالس میں بیٹھے؛ کیوںکہ یہ مجالِس جنت کے باغ ہیں۔ (۵۲)ذکر کی مجلسیں فرشتوں کی مجلسیں ہیں۔ (اَحادیثِ مذکورہ میں یہ مضمون مُفصَّل گزر چکا ہے۔) (۵۳)اللہجَلَّ شَانُہٗ ذکر کرنے والوں پر فرشتوں کے سامنے فخر کرتے ہیں۔ (۵۴)ذکر پر مُداوَمَت کرنے والا جنت میں ہنستا ہوا داخل ہوتا ہے۔ (۵۵)تمام اَعمال اللہ کے ذکر ہی کے واسطے مُقرَّر کیے گئے ہیں۔ (۵۶)تمام اعمال میں وہی عمل اَفضل ہے جس میں ذکر کثرت سے کیا جائے، روزوں میں وہ روزہ افضل ہے جس میں ذکر کی کثرت ہو، حج میں وہ حج افضل ہے جس میں ذکر کی کثرت ہو؛ اِسی طرح اَور اعمال: جہاد، وغیرہ کا ہے۔ (۵۷)یہ نوافل اور دوسری نفل عبادات کے قائم مقام ہے؛ چناںچہ حدیث میں آیا ہے کہ: فُقَرا نے حضورﷺ سے شکایت کی کہ: یہ مال دار لوگ بڑے بڑے درجے حاصل کرتے ہیں، یہ روزے نماز میں ہمارے شریک ہیں، اوراپنے مالوں کی وجہ سے حج، عمرہ، جہاد میں ہم سے سَبقَت لے جاتے ہیں، حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: مَیں تمھیں ایسی چیز بتاؤں جس سے کوئی شخص تم تک نہ پہنچ سکے؛ مگر وہ شخص جویہ عمل کرے؟ اِس کے بعد حضورﷺ نے ہرنماز کے بعدسُبحَانَ اللہِ، اَلْحَمدُ لِلّٰہِ، اَللہُ أَکْبَرُ پڑھنے کو فرمایا (جیسا کہ باب نمبر ۳؍ فصل نمبر ۲؍ حدیث نمبر ۷؍ میں آرہا ہے) کہ حضور ﷺ نے حج، عمرہ، جہاد وغیرہ ہر عبادت کا بدلہ ذکر کو قراردیا ہے۔ (۵۸) ذکر دوسری عبادات کے لیے بڑا مُعِین ومددگارہے، کہ اِس کی کثرت سے ہر عبادت محبوب بن جاتی ہے، اور عبادات میں لَذَّت آنے لگتی ہے، اور کسی عبادت میں بھی مَشقَّت اور بار نہیں پڑتا۔ (۵۹)ذکر کی وجہ سے ہر مَشقَّت آسان بن جاتی ہے، اور ہر دُشوار چیز سَہَل ہوجاتی ہے، اور ہر قِسم کے بوجھ میں خِفَّت ہوجاتی ہے، اور ہر مُصیبت زائل[ختم] ہوجاتی ہے۔ (۶۰)ذکر کی وجہ سے دل سے خوف وہِراس دُور ہوجاتا ہے، ڈر کے مقام پر اطمینان پیدا کرنے اور خوف کے زائل[ختم] کرنے میں اللہ کے ذکر کو خُصوصی دَخَل ہے، اور اُس کی یہ خاص تاثیرہے، جتنی بھی ذکر کی کثرت ہوگی اُتناہی اطمینان نصیب ہوگا اور خوف زائل[ختم] ہوگا۔
(۶۱) ذکر کی وجہ سے آدمی میں ایک خاص قوَّت پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے ایسے کام اُس سے صادِر ہونے لگتے ہیں جو دُشوار نظر آتے ہیں، حضورِ اقدس ﷺ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓکو جب اُنھوں نے چَکی کی مَشقَّت اور کاروبار کی دُشواری کی وجہ سے ایک خادم طلب کیا تھا تو سوتے وقت سُبْحَانَ اللہِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ۳۳-۳۳ مرتبہ اوراَللہُ أَکْبَرُ ۳۴؍ مرتبہ پڑھنے کا حکم فرمایا تھا، اور یہ ارشاد فرمایا تھا کہ: یہ خادم سے بہتر ہے۔(بخاری،کتاب الدعوات، باب التسبیح والتکبیر عند المنام،۲؍۹۳۵ حدیث:۶۰۷۳) (۶۲)آخرت کے لیے کام کرنے والے سب دوڑ رہے ہیں اور اِس دوڑ میں ذاکِرین کی جماعت سب سے آگے ہے۔ عُمر مَولیٰ غُفرہؒ سے نقل کیا گیا ہے کہ: قِیامت میں جب لوگوں کو اعمال کا ثواب ملے گا تو بہت سے لوگ اُس وقت حسرت کریںگے کہ: ہم نے ذکر کااِہتمام کیوں نہ کیا! کہ سب سے زیادہ سَہَل عمل تھا۔ ایک حدیث میں حضورﷺ کا ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ: مُفرِّد لوگ آگے بڑھ گئے؟ صحابہثنے عرض کیا کہ: مُفرِّد لوگ کون ہیں؟ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ذکر پر مَرمِٹنے والے، کہ ذکر اُن کے بوجھوں کوہلکا کر دیتا ہے۔ (۶۳)ذکر کرنے والے کی اللہتَعَالیٰ شَانُہٗ تصدیق کرتے ہیں اور اُس کو سچا بتاتے ہیں، اور جس شخص کو اللہ تعالیٰ خود سچا بتائیں اُس کا حَشر جھوٹوں کے ساتھ نہیں ہوسکتا۔
حدیث میں آیاہے کہ: جب بندہ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ کہتا ہے تو حق تَعَالیٰ شَانُہٗفرماتے ہیں: میرے بندے نے سچ کہا، میرے سِوا کوئی معبود نہیں ہے، اور مَیں سب سے بڑا ہوں۔ (ترمذی،ابواب الدعوات،باب مایقول العبد إذا مرض،۲؍۱۸۱حدیث:۳۴۳۰)
(۶۴)ذکر سے جنت میں گھر تعمیر ہوتے ہیں، جب بندہ ذکر سے رُک جاتا ہے تو فرشتے تعمیر سے رُک جاتے ہیں، جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ: فلاں تعمیر تم نے کیوں روک دی؟ تو وہ کہتے ہیں کہ: اُس تعمیر کاخرچ ابھی تک آیا نہیں ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: جو شخص سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ سات مرتبہ پڑھے، ایک گنبداُس کے لیے جنت میں تعمیر ہوجاتا ہے۔(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
(۶۵)ذکر جہنَّم کے لیے آڑ ہے، اگر کسی بدعملی کی وجہ سے جہنم کا مُستَحق ہوجائے تو ذکر درمیان میں آڑ بن جاتا ہے، اور جتنی ذکر کی کثرت ہوگی اُتنی ہی پُختہ آڑ ہوگی۔ (۶۶)ذکر کرنے والے کے لیے فرشتے اِستِغفار کرتے ہیں۔
حضرت عَمرو بنُ العاصص سے ذکر کیا گیا ہے کہ: جب بندہ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ کہتا ہے یا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ کہتا ہے توفرشتے دعا کرتے ہیں کہ: اے اللہ! اِس کی مغفرت فرما۔(۔۔۔۔۔۔)
(۶۷)جس پہاڑ پر یا میدان میں اللہ کاذکر کیا جائے وہ فخر کرتے ہیں۔
حدیث میں آیاہے کہ: ایک پہاڑ دوسرے پہاڑ کو آواز دے کر پوچھتا ہے کہ: کوئی ذکر کرنے والا تجھ پر آج گزرا ہے؟ اگر وہ کہتا ہے کہ: گزرا ہے، تو وہ خوش ہوتاہے۔(۔۔۔۔۔۔۔)
(۶۸)ذکر کی کثرت نِفاق سے بَری(آزاد) ہونے کا اِطمینان (اورسَنَد) ہے؛ کیوںکہ اللہجَلَّ شَانُہٗ نے منافقوں کی صفت یہ بیان کی ہے کہ: ﴿لَایَذْکُرُونَ اللہَ إِلَّا قَلِیْلًا﴾: (نہیں ذکرکرتے اللہ کا مگر تھوڑا سا)۔ کَعب اَحبارص سے نقل کیا گیا ہے کہ: جو کثرت سے اللہ کا ذکر کرے وہ نِفاق سے بَری ہے۔(۔۔۔۔۔۔۔)
(۶۹) تمام نیک اعمال کے مقابلے میں ذکر کرنے کے لیے ایک خاص لَذَّت ہے جو کسی عمل میں بھی نہیں پائی جاتی، اگر ذکر میں اِس لَذَّت کے سِوا کوئی بھی فضیلت نہ ہوتی تو یہی چیز اُس کی فضیلت کے لیے کافی تھی۔ مالک بن دینارؒ کہتے ہیں کہ: لَذت پانے والے کسی چیزمیں بھی ذکر کے برابر لَذَّت نہیں پاتے۔ (۷۰)ذکر کرنے والوں کے چہروں پر دنیا میں رونق اور آخرت میں نور ہوگا۔
(۷۱ )جو شخص راستوں اور گھروں میں، سفر میں اور حَضَر میں؛کثرت سے ذکر کرے قِیامت میں اُس کے گواہی دینے والے کثرت سے ہوںگے۔ حق تَعَالیٰ شَانُہٗ قِیامت کے دن کے بارے میں فرماتے ہیں:﴿یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَہَا﴾ (اُس دن زمین اپنی خبریں بیان کرے گی)، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جانتے ہو اُس کی خبریں کیا ہیں؟ صحابہث نے لاعِلمی ظاہر کی تو حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: جس مردوعورت نے جو کام زمین پر کیا ہے وہ بتائے گی کہ: فلاںدن فلاں وقت مجھ پر یہ کام کیا ہے، (نیک ہو یابرا)۔(۔۔۔۔۔۔۔)
اِس لیے مُختلف جگہوں میں کثرت سے ذکر کرنے والے کے گواہ بھی بہ کثرت ہوںگے۔
(۷۲)زبان جتنی دیر ذکر میں مشغول رہے گی لَغوِیات، جھوٹ، غیبت وغیرہ سے محفوظ رہے گی؛ اِس لیے کہ زبان چپ تو رہتی ہی نہیں، یا ذکرُ اللہ میں مشغول ہوگی ورنہ لغویات میں۔ اِسی طرح دل کا حال ہے کہ اگر وہ اللہ کی مَحبت میں مشغول نہ ہوگا تو مخلوق کی محبت میں مُبتَلا ہوگا۔ (۷۳)شیاطین آدمی کے کھُلے دشمن ہیں، اور ہر طرح سے اُس کو وَحشت میں ڈالتے رہتے ہیں، اور ہر طرف سے اُس کو گھیرے رہتے ہیں، جس شخص کا یہ حال ہو کہ اُس کے دشمن ہر وقت اُس کا مُحاصَرہ کیے رہتے ہیں اُس کا جو حال ہوگا ظاہر ہے، اور دشمن بھی ایسے کہ ہر ایک اُن میں سے یہ چاہے کہ جو تکلیف بھی پہنچا سکو پہنچاؤ، اِن لشکروں کو ہٹانے والی چیز ذکر کے سِوا کوئی نہیں ہے۔(الوابل الصیب،ص:۵۲ تا ص:۱۲۰ )
بہت سی اَحادیث میں بہت سی دعائیں آئی ہیں جن کے پڑھنے سے شیطان قریب بھی نہیں آتا، اور سوتے وقت پڑھنے سے رات بھر حفاظت رہتی ہے۔حافظ ابن قَیِّمؒ نے بھی ایسی دعائیں مُتعدِّد ذکر کی ہیں، اِن کے عِلاوہ مُصنِّف نے چھ نمبروں میںاَنواعِ ذکر کاتَفاضُل اور ذکر کی بعض کُلی فضیلتیں ذکر کی ہیں،اور اِس کے بعد پَچھتَّر (۷۵) فصلیں خُصوصی دعاؤں میں -جو خاص خاص اَوقات میں وارد ہوئی ہیں- ذکر کی ہیں، جن کو اِختِصارکی وجہ سے چھوڑ دیا گیا ہے، کہ توفیق والے کے لیے جو ذکر کیا گیا ہے یہ بھی کافی سے زیادہ ہے، اور جس کو توفیق نہیں ہے اُس کے لیے ہزارہا فضائل بھی بے کار ہیں۔ وَمَاتَوْفِیقِيْ إِلَّا بِاللّٰہِ، عَلَیہِ تَوَکَّلْتُ وَإِلَیہِ أُنِیبُ.
بابِ دوم
کلمۂ طیبہ
بَعثت: بھیجنا۔ قَرینِ قِیاس: عقل کے مطابق۔ مُنقَسِم: تقسیم۔ تغیُّر: تبدیلی۔
کلمۂ طیبہ -جس کو ’’کلمۂ توحید‘‘ بھی کہا جاتا ہے- جس کثرت سے قرآنِ پاک اور حدیث شریف میں ذکر کیا گیا ہے شاید ہی اِس کثرت سے کوئی دوسری چیز ذکر کی گئی ہو، اور جب کہ اصل مقصود تمام شرائع اور تمام اَنبیا کی بَعثت سے توحید ہی ہے تو پھر جتنی کثرت سے اُس کا بیان ہو وہ قَرینِ قِیاس ہے۔ کلامِ پاک میں مختلف عنوانات اور مختلف ناموں سے اِس پاک کلمہ کو ذکر کیا گیا ہے، چناںچہ ’’کلمۂ طیبہ، قولِ ثابت، کلمۂ تقویٰ، مَقَالِیدُ السَّمٰوَاتِ وَالأَرضِ، آسمانوں اور زمینوں کی کنجیاں‘‘؛ وغیرہ الفاظ سے ذکر کیاگیا ہے، جیسا کہ آئندہ آیات میں آرہا ہے۔ امام غزالیؒ نے اِحیاء میں نقل کیا ہے کہ: یہ کلمۂ توحید ہے، کلمۂ اخلاص ہے، کلمۂ تقویٰ ہے، کلمۂ طیبہ ہے، عُروَۃُ الوُثقیٰ ہے، دَعوَۃُ الحَقِّ ہے،ثَمنُ الجَنَّۃ ہے۔(اِحیاء العلوم۱؍۲۹۸)
اور چوںکہ قرآنِ پاک میں مختلف عنوانات سے اِس کو ذکر فرمایا گیا؛ اِس لیے اِس باب کو تین فَصلوں پرمُنقَسِم کیا گیا: پہلی فصل میں اُن آیات کاذکر ہے جن میں کلمۂ طیبہ مراد ہے اورکلمۂ طیبہ کا لفظ نہیں ہے؛ اِس لیے اُن آیات کی مختصر تفسیر حضرات صحابۂ کرام ث اور خود سَیِّدُ البَشر -عَلَیہِ أَفضَلُ الصَّلَوَاتِ وَالسَّلَامِ- سے نقل کی گئی، دوسری فصل میں اُن آیات کا حوالہ ہے جن میں کلمۂ طیبہ پورا یعنی لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ تمام کا تمام ذکر کیا گیا ہے، یا کسی معمولی تغیُّر کے ساتھ، جیسے: لَا إِلٰہَ إلَّا ہُو، اور چوںکہ اُن میں یہ کلمہ خود ہی موجود ہے یا اُس کاترجَمہ دوسرے الفاظ سے کیا گیا ہے؛ اِس لیے اُن آیات کے ترجَمے کی ضرورت نہیں سمجھی، صرف حوالۂ سورت اور رکوع پر اِکتفا کیا گیا، اور تیسری فصل میں اُن احادیث کا ترجَمہ اور مطلب ذکر کیا گیا جن میں اِس پاک کلمے کی ترغیب اور حکم فرمایا گیا۔ وَمَاتَوْفِیقِيْ إِلَّا بِاللّٰہِ.
فصلِ اوّل
اُن آیات میں جن میں لفظ کلمۂ طیبہ کا نہیں ہے اور مراد کلمۂ طیبہ ہے:
(۱) أَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرۃٍ طَیِّبَۃٍ، أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِيْ السَّمَائِ، تُؤْتِيْ أُکُلَہَا کُلَّ حِیْنٍ بِإِذْنِ رَبِّہَا، وَیَضْرِبُ اللہُ الأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُونَ. وَمَثلُ کَلِمَۃٍ خَبِیْثَۃٍ کَشَجَرَۃٍ خَبِیْثَۃٍ اجْتُثَّتْ مِن فَوْقِ الأَرْضِ مَا لَہَا مِن قَرَارٍ. [إبراہیم، ع:۴]
ترجَمہ: کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیسی اچھی مثال بیان فرمائی ہے کلمۂ طیبہ کی؟ کہ وہ مُشابَہ ہے ایک عمدہ پاکیزہ درخت کے، جس کی جڑ زمین کے اندر گَڑی ہوئی ہو اور اُس کی شاخیں اوپر آسمان کی طرف جارہی ہوں، اور وہ درخت اللہ کے حکم سے ہر فَصل میں پھل دیتا ہو(یعنی خوب پھلتاہو)، اور اللہ تعالیٰ مثالیں اِس لیے بیان فرماتے ہیں؛ تاکہ لوگ خوب سمجھ لیں، اور خبیث کلمہ (یعنی کلمۂ کفر)کی مثال ہے جیسے ایک خراب درخت ہو، کہ وہ زمین کے اوپر ہی اوپر سے اُکھاڑ لیا جاوے، اور اُس کو زمین میں کچھ ثُبات نہ ہو۔
فَصل: موسم۔ ثُبات: جماؤ۔اِعتِدال: برابری۔ بِچْلا: بہکانا۔
فائدہ:حضرت ابنِ عباسص فرماتے ہیں کہ: کلمۂ طیبہ سے کلمۂ شہادت: أَشْہَدُ أَنْ لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ مراد ہے، جس کی جڑ مومن کے قول میں ہے اور اُس کی شاخیں آسمان میں، کہ اِس کی وجہ سے مومن کے اعمال آسمان تک جاتے ہیں، اور کلمۂ خبیثہ شِرک ہے، کہ اِس کے ساتھ کوئی عمل قَبول نہیں ہوتا۔
(تفسیر ابن جریر،۷؍۴۳۷،حدیث:۲۰۶۵۹)
ایک دوسری حدیث میں ابنِ عباسص فرماتے ہیں کہ: ہر وقت پھل دینے کا مطلب یہ ہے کہ: اللہ کو دن رات ہر وقت یاد کرتا ہو۔
(تفسیر طبری،۷؍۴۴۱،حدیث:۲۰۷۰۰)
حضرت قَتادہ تابعیؒ نقل کرتے ہیں کہ: حضورِ اقدس ﷺ سے کسی نے عرض کیا: یا رسولَ اللہ! یہ مال دار (صدقات کی بہ دولت) سارا ثواب اُڑا لے گئے، حضور ﷺنے فرمایا: بھلا بتا تو سَہی! اگر کوئی شخص سامان کو اوپر نیچے رکھتا چلا جائے تو کیا آسمان پرچڑھ جائے گا؟ مَیں تجھے ایسی چیز بتاؤں جس کی جڑ زمین میں ہو اور شاخیں آسمان پر؟ ہر نماز کے بعد لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکبَرُ وَسُبحَانَ اللہِ وَالحَمْدُلِلّٰہِ دس دس مرتبہ پڑھاکر، اِس کی جڑزمین میں ہے اور شاخیں آسمان پر۔(دُرِّمنثور۔۔۔۔۔)
(۲) مَن کَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعاً، إِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ، وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ. [الفاطر،ع:۲]
ترجَمہ:جو شخص عزت حاصل کرنا چاہے وہ اللہ ہی سے عزت حاصل کرلے؛ کیوںکہ ساری عزت اللہ ہی کے واسطے ہے، اُسی تک اچھے کلمے پہنچتے ہیں اور نیک عمل اُن کو پہنچاتاہے۔
فائدہ:اچھے کلموں سے مراد بہت سے مُفسِّرین کے نزدیک لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ ہے جیسا کہ عام مُفسِّرین نے نقل کیا ہے۔ اور دوسری تفسیر یہ ہے کہ: اِس سے مراد کلماتِ تسبیح ہیں جیسا کہ دوسرے باب میں آئے گا۔
(۳) وَتَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ صِدْقاً وَّعَدْلًا. [الأنعام، ع:۱۴]
ترجَمہ:اور تیرے رب کا کلمہ سچائی اور اِنصاف(واِعتِدال) کے اعتبار سے پورا ہے۔
فائدہ: حضرت انس ص حضورِاقدس ﷺسے نقل کرتے ہیں کہ: رب کے کلمے سے مراد لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ ہے۔(دُرِّمنثور)
اور اکثر مُفسِّرین کے نزدیک اِس سے کلامُ اللہ شریف مرادہے۔
(۴) یُثَبِّتُ اللہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِيْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِيْ الآخِرَۃِ، وَیُضِلُّ اللہُ الظّٰلِمِیْنَ وَیَفْعَلُ اللہُ مَا یَشَاءُ. [إبراہیم، ع:۴]
ترجَمہ:اللہ تعالیٰ ایمان والوں کوپکی بات (یعنی کلمۂ طیبہ)سے دنیا اور آخرت دونوں میں مضبوط رکھتا ہے، اور کافروں کو دونوں جہاں میں بِچْلادیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ (اپنی حکمت سے) جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
فائدہ:حضرت براء ص فرماتے ہیں کہ: حضورِ اقدس ﷺنے ارشاد فرمایا کہ: جب قبر میں سوال ہوتا ہے تو مسلمان لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ محمدٌ رسولُ اللّٰہ کی گواہی دیتا ہے، اور آیتِ شریفہ میں ’’پکی بات‘‘ سے یہی مراد ہے۔(مسلم ،کتاب الجنۃ،باب عرض مقعد المیت من الجنۃ،۲؍۳۸۶حدیث: ۲۸۷۱)
حضرت عائشہرَضِيَ اللہُ عَنْہَا سے بھی یہی نقل کیا گیا ہے کہ: اِس سے مراد قبر کا سوال جواب ہے۔(دُرِّمنثور ۔۔۔۔۔۔۔۔)
حضرت ابن عباسص فرماتے ہیں کہ: مسلمان جب مرتا ہے تو فرشتے اُس وقت حاضر ہوتے ہیں، اُس کو سلام کرتے ہیں، جنت کی خوش خبری دیتے ہیں، جب وہ مرجاتا ہے تو فرشتے اُس کے ساتھ جاتے ہیں، اُس کی نمازِ جنازہ میں شریک ہوتے ہیں، اور جب وہ دفن ہوجاتا ہے تو اُس کو بِٹھاتے ہیں، اور اُس سے سوال جواب ہوتے ہیں، جن میں یہ بھی پوچھاجاتا ہے کہ: تیری گواہی کیا ہے؟ وہ کہتا ہے: أَشْہَدُ أَن لَا إلٰہَ إلَّا اللہُ وَأَشہَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَّسُولُ اللہِ، یہی مرادہے آیتِ شریفہ میں۔
(تفسیر ابن جریر، ۷؍ ۴۹۹ حدیث: ۲۰۷۶۵)
حضرت ابوقَتادہ صفرماتے ہیں کہ: دنیا میںپکی بات سے مراد لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ ہے اور آخرت میں قبر کا سوال جواب مراد ہے۔
(درِّمنثور۔۔۔۔۔۔۔)
حضرت طاؤسؒ سے بھی یہی نقل کیاگیاہے۔(تفسیر طبری۷؍۴۵۱،حدیث:۲۰۷۷۵)
(۵) لَہُ دَعْوَۃُ الْحَقِّ، وَالَّذِیْنَ یَدْعُونَ مِن دُونِہٖ لَایَسْتَجِیْبُونَ لَہُم بِشَيْئٍ إِلَّا کَبَاسِطِ کَفَّیْہِ إِلَی الْمَائِ لِیَبْلُغَ فَاہُ وَمَا ہُوَ بِبَالِغِہِ، وَمَا دُعَائُ الْکٰفِرِیْنَ إِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ. [الرعد، ع:۲]
ترجَمہ:
سچا پُکارنا اُسی کے لیے خاص ہے، اور خدا کے سِوا جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ اُن کی درخواست کو اِس سے زیادہ منظور نہیں کرسکتے جتنا پانی اُس شخص کی درخواست کو منظور کرتا ہے جو اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے(اور اُس پانی کو اپنی طرف بلائے)؛ تاکہ وہ اُس کے منھ تک آجائے، اور وہ (پانی اُڑکر)اُس کے منھ تک آنے والا کسی طرح بھی نہیں، اور کافروں کی درخواست محض بے اَثر ہے۔
فائدہ:
حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہُ فرماتے ہیں کہ: دَعْوَۃُ الحَقِّ سے مراد توحید یعنی: لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ ہے۔
(تفسیر طبری۷؍۴۶۴حدیث:۲۰۲۸۱)
حضرت ابن عباس ص سے بھی یہی مَنقُول ہے کہ: دَعوَۃُ الْحَقِّ سے شہادت لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ کی مراد ہے۔
(تفسیر طبری۷؍۳۶۴حدیث:۲۰۲۸۵)
اِسی طرح اِن کے عِلاوہ دوسرے حضرات سے بھی یہی نقل کیا گیا ہے۔
(۶) قُلْ یٰأَہْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا إِلیٰ کَلِمَۃٍ سَوَائٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ، أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللہَ، وَلَانُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا، وَلَایَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللہِ، فَإِن تَوَلَّوْا فَقُوْلُوْا اشْہَدُوْا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ. [اٰل عمران، ع:۷]
ترجَمہ:
(اے محمدﷺ!)آپ فرمادیجیے کہ: اے اہلِ کتاب! آؤ ایک ایسے کلمے کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان (مُسلَّم ہونے میں) برابر ہے، وہ یہ کہ: بجُز اللہ تعالیٰ کے ہم کسی اَور کی عبادت نہ کریں، اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، اور ہم میں سے کوئی کسی دوسرے کو رب قرار نہ دے خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر، پھر اِس کے بعد بھی وہ اِعراض کریں تو تم لوگ کہہ دو کہ: تم اِس کے گواہ رہو کہ ہم لوگ تو مسلمان ہیں۔
مُسلَّم: تسلیم کیا ہوا۔ اِعراض: منھ پھیرنا۔ صَراحَت: صاف لفظوں میں۔صادِر: عمل ہونا۔مُکافات: بدلہ۔
فائدہ:
آیتِ شریفہ کامضمون خود ہی صاف ہے، کہ کلمے سے مراد توحید اور کلمۂ طیبہ ہے۔ حضرت ابوالعالیہؒ اورمجاہدؒ سے صَراحَت کے ساتھ مَنقُول ہے کہ: کلمے سے مراد لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ ہے۔
(تفسیر طبری۳؍۳۰۲حدیث:۷۱۹۵)
(۷) کُنتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ، وَلَوْ آمَنَ أَہْلُ الْکِتَابِ لَکَانَ خَیْراً لَّہُمْ، مِنْہُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَکْثَرُہُمُ الْفٰسِقُونَ. [اٰل عمران، ع:۱۲]
ترجَمہ: (اے امتِ محمدﷺ!) تم لوگ (سب اہلِ مذاہب سے)بہترین جماعت ہو، کہ وہ جماعت لوگوں کو نفع پہنچانے کے لیے ظاہر کی گئی ہے، تم لوگ نیک کاموں کو بتلاتے ہو اور بُری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو؛ اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آئے تو اُن کے لیے بہتر تھا، اُن میںسے بعض تو مسلمان ہیں (جو ایمان لے آئے)؛لیکن اکثر حصہ اُن میں سے کافر ہیں۔
فائدہ:حضرت ابنِ عباس فرماتے ہیں کہ: ﴿تَأْمُرُوْنَ بِالمَعْرُوْفِ﴾(اچھی بات کا حکم کرتے ہو)کا مطلب یہ ہے کہ: اِس کا حکم کرتے ہو کہ وہ لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ کی گواہی دیں، اور اللہ کے اَحکام کا اِقرار کریں، اورلَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ ساری اچھی چیزوںمیں سے بہترین چیز ہے اور سب سے بڑھی ہوئی۔
(تفسیر طبری۱؍۳۹۱حدیث:۷۶۲۲)
(۸)وَأَقِمِ الصَّلوٰۃَطَرَفَيِ النَّہَارِ وَزُلَفاً مِّنَ الَّیْلِ، إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّـیِّئَاتِ، ذٰلِکَ ذِکْریٰ لِلذَّاکِرِیْنَ. [ہود،ع:۱۰]
ترجَمہ:
(اورمحمدﷺ!) آپ نماز کی پابندی رکھیے دن کے دونوں سِروں پر، اور رات کے کچھ حصوں میں، بے شک نیک کام مِٹادیتے ہیں (نامۂ اعمال سے)بُرے کاموں کو؛ یہ بات ایک نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں کے لیے۔
فائدہ:اِس آیتِ شریفہ کی تفسیر میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں، جن میں حضور ﷺ نے آیتِ شریفہ کی توضِیح فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ: نیکیاں (اعمال نامہ سے) برائیوں کو مِٹادیتی ہیں۔ حضرت ابوذرص ارشاد فرماتے ہیں کہ: مَیں نے حضورِ اقدس ﷺ سے عرض کیا کہ: مجھے کچھ نصیحت فرمادیجیے، حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ سے ڈرتے رہو، جب کوئی بُرائی صادِر ہوجائے فوراً کوئی بھلائی اُس کے بعد کرو؛ تاکہ اُس کی مُکافات ہوجائے اور وہ زائل[ختم] ہوجائے، مَیں نے عرض کیا: یا رسولَ اللہ! کیا لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ بھی نیکیوں میں شمار ہے؟ یعنی اُس کا وِرد، اُس کا پڑھنا بھی اِس میں داخل ہے؟ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: یہ تو نیکیوں میں افضل ترین چیز ہے۔ (مسند احمد،۔۔۔۔۔۔حدیث:۲۱۴۸۷)
حضرت انسص حضورِ اقدس ﷺسے نقل کرتے ہیں کہ: جو بندہ رات میں یادن میں کسی وقت بھی لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ پڑھتا ہے اُس کے اعمال نامے سے برائیاں دُھل جاتی ہیں۔(مسند ابویعلیٰ۳؍۱۸۹ حدیث:۳۶۱۱)
(۹) إِنَّ اللہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِیْتَائِ ذِيْ الْقُرْبیٰ، وَیَنْہیٰ عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنکَرِ وَالْبَغْيِ، یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ. [النحل، ع:۱۳]
ترجَمہ:
بے شک اللہ تعالیٰ حکم فرماتے ہیں عَدل کا اور اِحسان کا اور قَرابت داروں کو دینے کا، اور منع فرماتے ہیں فَحش باتوں سے اور بُری باتوں سے اور کسی پر ظلم کرنے سے، حق تَعَالیٰ شَانُہٗ تم کو نصیحت فرماتے ہیں؛ تاکہ تم نصیحت کو قبول کرو۔
قَرابت داروں:رشتے دار۔ راستی: سچائی۔فَراخی: مال داری۔
فائدہ:
عَدل کے معنیٰ تفاسیر میں مختلف آئے ہیں: ایک تفسیر حضرت عبداللہ بن عباس ص سے بھی منقول ہے کہ: عدل سے مراد لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ کا اقرار کرنا ہے، اور اِحسان سے مراد فرائض کا ادا کرنا ہے۔
(تفسیر طبری۷؍۶۳۴حدیث:۲۱۸۶۲)
(۱۰) یٰأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوا اللہَ وَقُولُوْا قَوْلًا سَدِیْداً، یُصْلِحْ لَکُمْ أَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ، وَمَن یُّطِعِ اللہَ وَرَسُولَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزاً عَظِیْماً. [الأحزاب، ع:۹]
ترجَمہ:
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور راستی کی (پکی) بات کہو، اللہ تعالیٰ تمھارے اعمال اچھے کردے گا، اور گناہ مُعاف فرمادے گا، اور جو شخص اللہ اور اُس کے رسول کی اِطاعت کرے گا وہ بڑی کامیابی کو پہنچے گا۔
فائدہ:حضرت عبداللہ بن عباسص اور حضرت عِکرمہ دونوں حضرات سے یہ نقل کیا گیاہے کہ: ﴿قُولُوْا قَوْلًا سَدِیْداً﴾ کے معنیٰ یہ ہیں کہ: لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ کہا کرو۔
(بیہقي،باب ماجاء في فضل الکلمۃ الطیبۃ،ص:۳۸۔تفسیر طبری۱۰؍۳۳۸حدیث:۲۸۶۸)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: سب سے زیادہ پکے اعمال تین چیزیں ہیں: ہر حال میں اللہ کا ذکر کرنا (غمی ہو یا خوشی، تنگی ہو یا فَراخی)؛دوسرے: اپنے بارے میں اِنصاف کا مُعاملہ کرنا،(یہ نہ ہو کہ دوسروں پر تو زور دِکھلائے اور جب کوئی اپنا مُعاملہ ہوتو اِدھر اُدھر کی کہنے لگے)؛ تیسرے: بھائی کے ساتھ مالی ہمدردی کرنا۔
(مسندابن ابی شیبہ،۔۔۔۔۔ حدیث:۳۵۴۸۱)
(۱۱) فَبَشِّرْ عِبَادِ الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُونَ أَحْسَنَہٗ، أُولٰئِکَ الَّذِیْنَ ہَدٰہُمُ اللہُ وَأُولٰئِکَ ہُمْ أُولُوْا الْأَلْبَابِ. [الزمر،ع:۲]
ترجَمہ:
پس آپ میرے ایسے بندوں کو خوش خبری سنا دیجیے جو اِس کلام پاک کو کان لگاکر سنتے ہیں، پھر اِس کی بہترین باتوں کا اِتِّباع کرتے ہیں، یہی ہیں جن کو اللہ نے ہدایت کی، اور یہی ہیں جو اہلِ عقل ہیں۔
فائدہ:
حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ: حضرت سعید بن زید، حضرت ابوذر غِفَاری، اور حضرت سلمان فارسی؛ یہ تینوں حضرات جاہِلِیَّت کے زمانے ہی میں لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ پڑھا کرتے تھے، اور یہی مراد ہے اِس آیت شریفہ میں’’أَحسَنُ القَوْلِ‘‘ سے۔
(دُرِّمنثور۔۔۔۔۔۔)
حضرت زید بن اسلم ص سے بھی اِس کے قریب ہی منقول ہے، کہ یہ آیتیں اُن تین آدمیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جو جاہلیت کے زمانے میں بھی لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ پڑھا کرتے تھے: زید بن عَمرو بن نُفیل، اور ابوذر غِفاری، اور سلمان فارسیث۔
(طبری،۱۰؍۶۲۵،حدیث:۳۰۱۰۸)
(۱۲) وَالَّذِيْ جَائَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖ أُولٰئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُونَ، لَہُم مَّا یَشَاء ُوْنَ عِندَ رَبِّہِمْ ذٰلِکَ جَزَائُ الْمُحْسِنِیْنَ. [الزمر،ع:۴]
ترجَمہ:
اور جو لوگ (اللہ کی طرف سے یا اُس کے رسول کی طرف سے )سچی بات لے کر آئے، اور خود بھی اُس کی تصدیق کی(اُس کو سچا جانا)، تو یہ لوگ پرہیزگار ہیں، یہ لوگ جو کچھ چاہیںگے اُن کے لیے اُن کے پروردگار کے پاس سب کچھ ہے، یہ بدلہ ہے نیک کام کرنے والوں کا؛ تاکہ اللہ تعالیٰ اُن کے بُرے اعمال کو اُن سے دور کردے (اور مُعاف کر دے)، اورنیک کاموں کا بدلہ (ثواب)دے۔
شَکَرَ اللہُ سَعْیَہُمْ: اللہ تعالیٰ ان کی محنتوں کو قبول فرمائے۔ رَفیق: دوست۔فَلاح: کامیابی۔خیر باد کہے:چھوڑ دینا۔
فائدہ:
جو لوگ اللہ کی طرف سے لانے والے ہیں وہ اَنبِیا عَلیٰ نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ ہیں، اور جولوگ اُس کے رسول کی طرف سے لانے والے ہیں وہ عُلَمائے کرام ہیں؛ شَکَرَ اللہُ سَعْیَہُمْ۔ حضرت ابن عباسص سے منقول ہے کہ: سچی بات سے مراد لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ ہے۔
(تفسیر طبری،۱۱؍۴حدیث:۳۰۱۴۳)
بعض مُفسِّرین سے نقل کیا گیاہے کہ: ﴿اَلَّذِيْ جَآئَ بِالصِّدْقِ﴾(جو شخص سچی بات اللہ کی طرف سے لے کر آیا) سے مراد نبیٔ اکرم ﷺہیں، اور ﴿صَدَّقَ بِہٖ﴾ (وہ لوگ جنھوں نے اُس کی تصدیق کی)سے مراد مؤمنین ہیں۔
(۱۳) إِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰئِکَۃُ، أَلَّاتَخَافُوا وَلَاتَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّۃِ الَّتِيْ کُنتُمْ تُوعَدُونَo نَحْنُ أَوْلِیَاؤُکُمْ فِي الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِيْ الآخِرَۃِ، وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَشْتَہِيْ أَنفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَدَّعُونَo نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِیْمٍ. [حم السجدۃ،ع:۴]
ترجَمہ:
بے شک جن لوگوں نے کہا کہ: ہمارا رب اللہ (د)ہے، پھر مستقیم رہے، (یعنی جَمے رہے، اُس کو چھوڑا نہیں)،اُن پر فرشتے اُتریں گے (موت کے وقت، اور قِیامت میں یہ کہتے ہوئے)کہ: نہ اندیشہ کرو نہ رنج کرو، اور خوش خبری لو اُس جنت کی جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے، ہم تمھارے رَفیق تھے دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی رہیں گے، اور آخرت میں تمھارے لیے جس چیز کو تمھارا دل چاہے وہ موجود ہے، اور وہاں جو تم مانگو گے وہ ملے گا، (اور یہ سب اِنعام واِکرام )بہ طورِ مہمانی کے ہے اللہ جَلَّ شَانُہٗ کی طرف سے، (کہ تم اُس کے مہمان ہوگے اورمہمان کا اِکرام کیاجاتاہے۔)
فائدہ:
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ: ﴿ثُمَّ اسْتَقَامُوْا﴾ کے معنیٰ یہ ہیں کہ: پھر لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ کے اقرار پر قائم رہے۔(دُرِّمنثور۔۔۔۔۔۔۔۔)
حضرت ابراہیمؒ اور حضرت مجاہدؒ سے بھی یہی نقل کیا گیا ہے، کہ: پھر لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ پر مرنے تک قائم رہے، شِرک وغیرہ میںمُبتَلا نہیں ہوئے۔(دُرِّمنثور۔۔۔۔۔۔۔۔)
(۱۴) وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَی اللہِ وَعَمِلَ صَالِحاً، وَّقَالَ إِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ.[حم السجدۃ،ع:۵]
ترجَمہ:
بات کی عُمدگی کے لحاظ سے کون شخص اُس سے اچھا ہوسکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے!، اور یہ کہے کہ: مَیں مسلمانوں میں سے ہوں۔
فائدہ:
حضرت حسنص کہتے ہیں کہ: ﴿دَعَاإِلَی اللہِ﴾ سے مُؤذِّن کا لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ کہنا مراد ہے۔(دُرِّمنثور)
عاصم بن ہُبیرہؒ کہتے ہیں کہ: جب تُو اذان سے فارغ ہو تو لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ کہاکر۔(دُرِّمنثور۔۔۔۔۔۔۔۔)
(۱۵) ہَلْ جَزَائُ الإِحْسَانِ إِلَّاالإِحْسَانُ، فَبِأَیِّ آلَائِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ. [الرحمن، ع:۳]
ترجَمہ:
بھلا اِحسان کا بدلہ اِحسان کے سِوا اَور بھی کچھ ہوسکتا ہے؟ سو اَے (جِنَّ واِنس!) تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کے مُنکِر ہوجاؤگے؟۔
فائدہحضرت ابن عباس حضورِاقدس ﷺسے نقل فرماتے ہیں کہ: آیتِ شریفہ کا مطلب یہ ہے کہ: جس شخص پر مَیں نے دنیا میں لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ کہنے کا اِنعام کیا بھلا آخرت میں جنت کے سِوا اَور کیا بدلہ ہوسکتا ہے؟۔
(دُرِّمنثور۔۔۔۔۔۔۔۔)
حضرت عِکرمہ سے بھی یہی منقول ہے، کہ لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ کہنے کا بدلہ جنت کے سِوا اَور کیا ہوسکتا ہے؟ حضرت حسنص سے بھی یہی نقل کیا گیا ہے۔
(دُرِّمنثور۔۔۔۔۔۔۔۔)
(۱۶) فَأَنْزَلَ اللہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلیٰ رَسُولِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ، وَأَلْزَمَہُمْ کَلِمَۃَ التَّقْویٰ وَکَانُوْا أَحَقَّ بِہَا وَأَہْلَہَا. [الفتح،ع:۳]
ترجَمہ:
پس اللہ تعالیٰ نے اپنی سکینہ (سکون، تحمُّل یا خاص رحمت) اپنے رسول پر نازل فرمائی اور مومنین پر، اور اُن کو تقویٰ کے کلمے پر (تقویٰ کی بات پر) جَمائے رکھا، اور وہی اُس تقویٰ کے کلمے کے مُستحِق تھے اور اہل تھے۔
فائدہ:
تقویٰ کے کلمے سے مراد اکثر روایات میں یہی وارد ہوا ہے کہ: کلمۂ طیبہ ہے؛ چناںچہ حضرت ابوہریرہص وحضرت سلمہ ص نے حضورِاقدس ﷺ سے یہی نقل کیاہے کہ: اِس سے مراد لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ ہے۔
(دُرِّمنثور)
اور حضرت اُبی بن کَعب، حضرت علی، حضرت عمر، حضرت ابنِ عباس، حضرت ابنِ عمرث وغیرہ بہت سے صحابہ سے یہی نقل کیا گیا ہے۔
(تفسیر طبری۱۱؍۳۶۵حدیث:۳۱۵۸۲)
عطاء خُراسانیؒ سے پورا کلمہ: لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ، مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ نقل کیا گیا ہے۔ حضرت علیص سے لَا إلٰہَ إِلَّا اللہُ اَللہُ أَکْبَرُ بھی نقل کیا گیا ہے۔ ترمذیؒ نے حضرت بَراء ص سے نقل کیا ہے کہ: اِس سے مراد لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ ہے۔
(۱۷) قَد أَفلَحَ مَن تَزَکّٰی. [الأعلیٰ، ع:۱]
ترجَمہ:
فَلاح(کامیابی) کو پہنچ گیا وہ شخص جس نے تَزکِیہ کرلیا (پاکی حاصل کی)۔
فائدہ:
حضرت جابر﷽ حضورِ اقدس ﷺسے نقل کرتے ہیں کہ: ﴿تَزَکّٰی﴾ سے مراد یہ ہے کہ: لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہِ کی گواہی دے اور بُتوں کو خیر باد کہے۔
(مسند بزار۳؍۸۰حدیث:۲۲۸۴)
حضرت عِکرمہ﷽ کہتے ہیں کہ:﴿تَزَکّٰی﴾ کے یہ معنیٰ ہیں کہ، لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ پڑھے۔
(تفسیر طبری،۱۲؍۵۴۷حدیث:۳۶۹۸۷)
یہی حضرت ابنِ عباس﷽ سے بھی نقل کیا گیا ہے۔(بیہقی ص:۸۳)
(۱۸) فَأَمَّا مَنْ أَعْطیٰ وَاتَّقیٰ، وَصَدَّقَ بِالْحُسْنیٰ فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْریٰ. [اللیل، ع:۱]
ترجَمہ:
پس جس شخص نے (اللہ کی راہ میں مال ) دیا اور اللہ سے ڈرا، اور اچھی بات کی تصدیق کی، تو آسان کردیں گے ہم اُس کو آسانی کی چیز کے لیے۔
مُیسَّر: حاصل۔ تکذِیب: جھُٹلانا۔دَرج: لکھنا۔بَدی: بُرائی۔ شِکَستگی: ٹوٹنا۔
فائدہ:
آسانی کی چیز سے جنت مراد ہے، کہ ہر قِسم کی راحت اور سَہولتیں وہاں مُیسَّر ہیں، اورمطلب یہ ہے کہ، ایسے اعمال کی توفیق اُس کو دیں گے جس سے وہ اعمال سَہولت سے ہونے لگیں گے جو جنت میں جلد پہنچادینا والے ہوں۔
اکثر مُفسِّرین سے نقل کیا گیا ہے کہ: یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ: اچھی بات کی تصدیق سے لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ کی تصدیق مراد ہے۔
(طبری۱۲؍۶۱۳حدیث:۳۷۴۵۰)
ابوعبدالرحمن سُلمِی سے بھی یہی نقل کیا گیاہے کہ: اچھی بات سے لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ مراد ہے۔
(دُرِّمنثور۔۔۔۔۔۔۔۔)
حضرت امام اعظمؒ نے بہ روایتِ ابو الزبیر ص حضرت جابرصسے نقل کیا ہے کہ: حضورِ اقدس ﷺ نے ﴿صَدَّقَ بِالْحُسْنیٰ﴾ پڑھا اور ارشاد فرمایا کہ: لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ کی تصدیق کرے، اور ﴿کَذَّبَ بِالْحُسْنیٰ﴾ پڑھا، اور ارشاد فرمایا کہ: لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ کی تکذِیب کرے۔
(۱۹) مَن جَاء بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ أَمْثَالِہَا، وَمَن جَائَ بِالسَّیِّئَۃِ فَلَا یُجْزیٰ إِلَّا مِثْلَہَا، وَہُمْ لَایُظْلَمُونَ. [الأنعام،ع:۲۰]
ترجَمہ:
جو شخص نیک کام کرے گا اُس کو (کم سے کم)دس حصے ثواب کے ملیںگے، اور جو بُرا کام کرے گا اُس کو اُس کے برابر ہی بدلہ ملے گا، اور اُن لوگوں پرظلم نہ ہوگا (کہ کوئی نیکی دَرج نہ کی جائے، یابَدی کو بڑھاکر لکھ لیاجائے۔)
فائدہ:
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: جب آیتِ شریفہ ﴿مَنْ جَائَ بِالْحَسَنَۃِ﴾ نازل ہوئی تو کسی شخص نے عرض کیا: یا رسولَ اللہ! لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ بھی حَسَنہ (نیکی) میں داخل ہے؟ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: یہ تو ساری نیکیوں میں افضل ہے۔
(دُرِّمنثور۔۔۔۔۔۔۔۔)
حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ: حَسَنَۃٌ سے لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ مراد ہے۔
(دُرِّمنثور۔۔۔۔۔۔۔۔)
حضرت ابوہُریرہ غالباً حضور ﷺ سے نقل فرماتے ہیں کہ: حَسَنَۃٌ سے لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ مراد ہے۔
(دُرِّمنثور۔۔۔۔۔۔۔۔)
حضرت ابوذر نے حضور ﷺ سے نقل کیا ہے کہ: لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ تو ساری نیکیوں میں افضل ہے، جیسا کہ آیت نمبر۸؍ کے ذیل میں گزر چکا ہے۔
حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ: دس گُنا ثواب عوام کے لیے ہے، مُہاجِرین کے لیے سات سو گُناتک ثواب ہوجاتا ہے۔
(دُرِّمنثور۔۔۔۔۔۔۔۔)
(۲۰)حٰمٓ، تَنْزِیْلُ الْکِتَابِ مِنَ اللہِ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ، غَافِرِ الذَّنبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِ ذِيْ الطَّوْلِ؛ لَا إِلٰہَ إِلَّاہُوَ إِلَیْہِ الْمَصِیْرُ. [الغافر، ع:۱]
ترجَمہ:
یہ کتاب اُتاری گئی ہے اللہ کی طرف سے، جو زبردست ہے ہرچیز کا جاننے والا ہے، گناہ کا بخشنے والا ہے اور توبہ کا قبول کرنے والا ہے، سخت سزا دینے والا ہے، قدرت (یا عطا) والاہے؛ اُس کے سِوا کوئی لائقِ عبادت نہیں،اُسی کے پاس لوٹ کرجاناہے۔
فائدہ:
حضرت عبداللہ بن عمر سے اِس آیتِ شریفہ کی تفسیر میں نقل کیا گیا ہے کہ: گناہ کی مغفرت فرمانے والا ہے اُس شخص کے لیے جولَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ کہے، اور توبہ قبول کرنے والا ہے اُس شخص کی جو لَا إلٰہَ إِلَّا اللہُ کہے، سخت عذاب والا ہے اُس شخص کے لیے جو لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ ہے کہے، ﴿ذِيْ الطَّوْلِ﴾ کے معنیٰ غِنا والا ہے، ﴿لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ﴾ رَد ہے کُفَّارِ قریش پر، جو توحید کے قائل نہ تھے، اور ﴿إِلَیْہِ الْمَصِیْرُ﴾ کے معنیٰ اُسی کی طرف لوٹنا ہے اُس شخص کا جو لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ کہے؛ تاکہ اُس کو جنت میں داخل کرے، اور اُسی کی طرف لوٹنا ہے اُس شخص کا جولَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ نہ کہے؛ تاکہ اُس کو جہنَّم میں داخل کرے۔
(طبرانی فی الأوسط،۔۔۔۔۔۔۔۔حدیث:۹۴۸۱)
(۲۱) فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَیُؤْمِنم بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقَیٰ، لَاانْفِصَامَ لَہَا. [البقرۃ، ع:۳۴]
ترجَمہ:
پس جو شخص شیطان سے بداِعتِقاد ہو اور اللہ کے ساتھ خوش عقیدہ ہوتو اُس نے بڑا مضبوط حلقہ پکڑلیا، جس کو کسی طرح شِکَستگی نہیں۔
فائدہ:
حضرت ابنِ عباس فرماتے ہیں کہ: ﴿عُرْوَۃُ الْوُثْقیٰ﴾ (مضبوط حلقہ) پکڑ لیا ، یعنیلَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ کہا۔(طبری۳؍۲۲حدیث:۵۸۵۱)
سفیان ؒ سے بھی یہی منقول ہے کہ: عُروَۃُ الوُثْقیٰ سے کلمۂ اخلاص مراد ہے۔
تکمیل: قُلْتُ: وَقَدْ وَرَدَ فِي تَفسِیرِ اٰیَاتِ أُخَرَ عَدِیدَۃٍ أَیْضاً، أَنَّ الْمُرَادَ بِبَعضِ الأَلفَاظِ فِي هٰذِہِ الاٰیَاتِ کَلِمَۃُ التَّوحِیْدِ عِندَ بَعضِهِمْ؛ فَقَدْ قَالَ الرَّاغِبُ فِي قَولِہٖ فِي قِصَّۃِ زَکَرِیَّا: ﴿مُصَدِّقاً بِکَلِمَۃٍ﴾ قِیْلَ: کَلِمَۃُ التَّوحِیدِ، وَکَذَا قَالَ فِي قَولِہٖ تَعَالیٰ: ﴿إنَّاعَرَضْنَا الأَمَانَۃَ﴾ الَاٰیَۃ، قِیلَ: هِيَ کَلِمَۃُ التَّوحِیدِ. وَاقْتَصَرْتُ عَلیٰ مَرَّ لِلاِختِصَارِ.
فصلِ دوم
(اِس فصل)میں اُن آیات کا ذکر ہے جن میں کلمۂ طیبہ ذکر کیاگیا ہو، اکثر جگہ پورا کلمہ مذکور ہے اور کہیں مختصر، اور کہیں دوسرے اَلفاظ میں بِعینِہٖ کلمۂ طیبہ کے معنیٰ مذکور ہیں، کہ کلمۂ طیبہ (لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ)کے معنیٰ ہیں: کوئی معبود نہیں ہے اللہ پاک کے سِوا، یہی معنیٰ ﴿مَا مِنْ إلٰہٍ غَیرُہٗ﴾ کے ہے، کہ: کوئی معبودنہیں ہے اُس کے سِوا، یہی معنیٰ لَاإلٰہَ إِلَّا ھُوَ کے ہیں، اوریہی معنیٰ قریب قریب ہیں ﴿لَانَعبُدُ إِلَّا اللہَ﴾ کے، کہ: نہیں عبادت کرتے ہم اللہ کے سِوا کسی کی، اور یہی معنیٰ ہیں ﴿لَانَعبُدُ إِلَّا إِیَّاہُ﴾ کے، کہ: نہیں عبادت کرتے ہیں ہم اُس کے سِوا کسی کی، اِسی طرح ﴿إِنَّمَا ہُوَ إِلٰہٌ وَّاحِدٌ﴾ کے معنیٰ ہیں:اِس کے سِوا نہیں کہ معبود وہی ایک ہے۔ اِسی طرح اَور آیات بھی ہیں جن کا مفہوم کلمۂ طیبہ ہی کے ہم معنیٰ ہے، اِن آیات کی سورتوں اور رُکوعوں کاحوالہ اِسی لیے لکھا جاتا ہے کہ پوری آیت کا ترجَمہ کوئی دیکھنا چاہے تو مُترجَم قرآن شریف کو سامنے رکھ کر حوالوں سے دیکھتا رہے، اور حق تو یہ ہے کہ سارا ہی کلام مجید کلمۂ طیبہ کا مفہوم ہے، کہ اصل مقصد تمام قرآن شریف کا اور تمام دین کا توحید ہی ہے، توحید ہی کی تعلیم کے لیے مختلف زمانوں میں مختلف اَنبیا عَلَیْہِمُ الصَّلَوَاتُ وَالسَّلَامُ مَبعُوث ہوئے، توحید ہی سب مَذاہِب میں مُشتَرک رہی ہے، اورتوحید کے اِثبات کے لیے مختلف عُنوانات اِختِیار فرمائے گئے ہیں، اور یہی مفہوم کلمۂ طیبہ کا ہے۔
(۱)وَإِلٰہُکُمْ إِلٰہٌ وَّاحِدٌ، لَّا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِیْمُ. [البقرۃ:۱۶۳] (۲)اَللہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَيُّ الْقَیُّومُ. [البقرۃ:۲۵۵] (۳)اَللہُ لَا إِلٰـہَ إِلَّا ہُوَ الْحَيُّ الْقَیُّومُ. [اٰل عمران: ۲] (۴)شَہِدَ اللہُ أَنَّہٗ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ وَالْمَلَائِکَۃُ وَأُولُوْا الْعِلْمِ. [اٰل عمران: ۱۸] (۵) لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ. [اٰل عمران: ۱۸] (۶) وَمَا مِنْ إِلٰہٍ إِلَّا اللہُ، وَإِنَّ اللہَ لَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ. [اٰل عمران:۶۲] (۷) تَعَالَوْا إِلیٰ کَلِمَۃٍ سَوَائٍم بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللہَ. [اٰل عمران:۶۴] (۸)اَللہُ لَاإِلٰہَ إِلَّا ہُوَ، لَیَجْمَعَنَّکُمْ إِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ. [النساء: ۸۷] (۹)وَمَا مِنْ إِلٰہٍ إِلَّا إِلٰہٌ وَّاحِدٌ. [المائدۃ:۷۳] (۱۰)قُلْ إِنَّمَا ہُوَ إِلٰہٌ وَاحِدٌ. [الأنعام: ۱۸] (۱۱) مَنْ إِلٰہٌ غَیْرُ اللہِ یَأْتِیْکُم بِہٖ. [الأنعام:۴۶] (۱۲) ذٰلِکُمُ اللہُ رَبُّکُمْ، لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ. [الأنعام: ۱۰۲] (۱۳)لَاإِلٰہَ إِلَّا ہُوَ، وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ. [الأنعام:۴۶] (۱۴) قَالَ أَغَیْرَ اللہِ أَبْغِیْکُمْ إِلٰہاً. [الأعراف:۱۴۰] (۱۵) لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ، یُحْیِيْ وَیُمِیْتُ. [الأعراف: ۱۵۸] (۱۶)وَمَا أُمِرُوْا إِلَّا لِیَعْبُدُوْا إِلٰہاً وَاحِداً، لَّا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ. [التوبۃ:۳۱] (۱۷)حَسْبِيَ اللہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ، عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ. [التوبۃ: ۱۲۹] (۱۸) ذٰلِکُمُ اللہُ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوہُ. [یونس:۳] (۱۹)فَذٰلِکُمُ اللہُ رَبُّکُمُ الْحَقُّ. [یونس: ۳۲] (۲۰) قَالَ آمَنتُ أَنَّہُ لا إِلٰہَ إِلَّا الَّذِيْ آمَنَتْ بِہٖ بَنُو إِسْرَائِیْلَ، وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ. [یونس:۹۰] (۲۱) فَلَا أَعْبُدُ الَّذِیْنَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللہِ. [یونس: ۱۰۴] (۲۲) فَاعْلَمُوْا أَنَّمَا أُنزِلَ بِعِلْمِ اللہِ وَأَن لَّا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ. [ہود:۱۴] (۲۳)أَن لَّا تَعْبُدُوْا إِلَّا اللہَ. [ھود: ۲۶] (۲۴، ۲۵، ۲۶) قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوْا اللہَ مَا لَکُم مِّنْ إِلٰہٍ غَیْرُہٗ [ھود: ۵۰، ۶۱، ۸۴] (۲۷) أَأَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُونَ خَیْرٌ أَمِ اللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ [یوسف: ۳۹] (۲۸) أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوْا إِلَّا إِیَّاہُ. [یوسف:۴] (۲۹) قُلْ ہُوَ رَبِّيْ لا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ. [الرعد:۳۰] (۳۰) وَلِیَعْلَمُوْا أَنَّمَا ہُوَ إِلٰہٌ وَّاحِدٌ. [إبراہیم:۵۲] (۳۱)أَنَّہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنَا فَاتَّقُونِ. [النحل:۲] (۳۲) إِلٰہُکُمْ إِلٰہٌ وَّاحِدٌ. [النحل: ۲۲] (۳۳)إِنَّمَا ہُوَ إِلٰہٌ وَاحِدٌ. [النحل:۵۱] (۳۴) وَلَاتَجْعَلْ مَعَ اللہِ إِلٰہاً آخَرَ. [الإسراء: ۳۹] (۳۵)قُل لَّوْ کَانَ مَعَہُ آلِہَۃٌ کَمَا یَقُولُونَ. [الإسراء: ۴۲] (۳۶) فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ، لَن نَّدْعُوَ مِن دُونِہٖ إِلٰہاً. [الکہف:۱۴] (۳۷)ہٰٓؤُلَائِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖ اٰلِہَۃً. [الکہف: ۱۵] (۳۸) یُوْحیٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلٰہُکُمْ إِلٰہٌ وَّاحِدٌ. [الکہف: ۱۱۰] (۳۹)وَإِنَّ اللہَ رَبِّيْ وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوہُ. [مریم:۳۶] (۴۰)اللہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ. [طٰہٰ: ۸] (۴۱)إِنَّنِيْ أَنَا اللہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنَا، فَاعْبُدْنِيْ [طٰہٰ: ۱۴] (۴۲)إِنَّمَا إِلٰہُکُمُ اللہُ الَّذِيْ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ. [طٰہٰ: ۹۸] (۴۳)لَوْ کَانَ فِیْہِمَا اٰلِہَۃٌ إِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا. [الأنبیاء:۲۳] (۴۴)أَمِ اتَّخَذُوْا مِن دُونِہٖ آلِہَۃً. [الأنبیاء:۲۴](۴۵) إِلَّا نُوحِيْ إِلَیْہِ أَنَّہٗ لَاإِلٰہَ إِلَّا أَنَا. [الأنبیاء:۲۵] (۴۶)أَمْ لَہُمْ آلِہَۃٌ تَمْنَعُہُم مِّن دُونِنَا. [الأنبیاء:۴۳] (۴۷)أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللہِ مَا لَایَنفَعُکُمْ شَیْئاً وَّلَایَضُرُّکُمْ. [الأنبیاء: ۶۶] (۴۸)لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ. [الأنبیاء: ۸۷] (۴۹)إِنَّمَا یُوْحیٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلٰہُکُمْ إِلٰہٌ وَّاحِدٌ. [الأنبیاء: ۱۰۸] (۵۰) فَإِلٰہُکُمْ إِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗ أَسْلِمُوْا. [الحج: ۳۴] (۵۱، ۵۲) اُعْبُدُوْااللہَ مَالَکُم مِّنْ إِلٰہٍ غَیْرُہٗ.[المؤمنون:۲۳] (۵۳)وَمَا کَانَ مَعَہٗ مِنْ إِلٰہٍ. [المؤمنون: ۹۱] (۵۴) فَتَعَالَی اللہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ، لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ. [المؤمنون: ۱۱۶] (۵۵)وَمَن یَّدْعُ مَعَ اللہِ إِلٰہاً آخَرَ لَابُرْہَانَ لَہٗ بِہٖ، فَإِنَّمَا حِسَابُہٗ عِندَ رَبِّہٖ. [المؤمنون: ۱۱۷] (۵۶) أَإِلَہٌ مَّعَ اللہِ. [النمل: ۶۰، ۶۱، ۶۲، ۶۳، ۶۴] (۵۷) وَہُوَ اللہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ، لَہُ الْحَمْدُ. [القصص:۷۰] (۵۸) مَنْ إِلٰہٌ غَیْرُ اللہِ یَأْتِیْکُم بِلَیْلٍ. [القصص:۷۲] (۵۹)وَلَاتَدْعُ مَعَ اللہِ إِلٰہاً آخَرَ، لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ. [القصص: ۸۸] (۶۰)وَإِلٰہُنَا وَإِلٰہُکُمْ وَاحِدٌ. [العنکبوت: ۴۶] (۶۱) لَاإِلٰہَ إِلَّا ہُوَ، فَأَنّٰی تُؤْفَکُوْنَ. [فاطر: ۳] (۶۲)إِنَّ إِلٰہَکُمْ لَوَاحِدٌ. [الصٰفٰت: ۴] (۶۳) إِنَّہُمْ کَانُوْا إِذَا قِیْلَ لَہُمْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ یَسْتَکْبِرُونَ. [الصٰفٰت:۳۵] (۶۴) أَجَعَلَ الآلِہَۃَ إِلٰہاً وَّاحِداً. [ص:۵] (۶۵)وَمَا مِنْ إِلٰہٍ إِلَّا اللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ [ص: ۶۵] (۶۶) ہُوَ اللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ. [الزمر:۴] (۶۷)ذٰلِکُمُ اللہُ رَبُّکُمْ، لَہُ الْمُلْکُ، لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ. [الزمر: ۶] (۶۸) لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ، إِلَیْہِ الْمَصِیْرُ. [مؤمن: ۳] (۶۹) لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ، فَأَنّٰی تُؤْفَکُونَ. [مؤمن: ۶۲] (۷۰)ہُوَ الْحَيُّ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ فَادْعُوہُ. [مؤمن:۶۵] (۷۱) یُوحیٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلٰہُکُمْ إِلٰہٌ وَّاحِدٌ. [حٰم السجدۃ: ۶] (۷۲) أَلَّاتَعْبُدُوا إِلَّا اللہَ. [حم السجدۃ:۱۴] (۷۳)اللہُ رَبُّنَا وَرَبُّکُمْ. [شوریٰ:۱۵] (۷۴) أَجَعَلْنَا مِن دُونِ الرَّحْمَنِ آلِہَۃً یُّعْبَدُونَ. [الزخرف: ۴۵] (۷۵)رَبِّ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا. [الدخان:۷] (۷۶) لَاإِلٰہَ إِلَّا ہُوَ، یُحْیِيْ وَیُمِیْتُ. [الدخان:۸] (۷۷)أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللہَ. [الأحقاف: ۲۱] (۷۸) فَاعْلَمْ أَنَّہٗ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ. [محمد:۱۹] (۷۹) وَلَاتَجْعَلُوْا مَعَ اللہِ إِلٰہاً آخَرَ. [الذاریات:۵۱] (۸۰)ہُوَ اللہُ الَّذِيْ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ. [الحشر:۲۲] (۸۱)إِنَّا بُرَئَ اؤُا مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللہِ. [الممتحنۃ:۴] (۸۲) اَللہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ.[التغابن:۱۳] (۸۳) رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ. [المزمل:۹] (۸۴)لَاأَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ، وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ. [الکافرون: ۲، ۳] (۸۵)قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ. [الإخلاص:۱]
اِنہِماک: مشغولی۔شَغَف: بے حد محبت۔ ما سِوا: عِلاوہ۔
یہ پچاسی آیات ہیں جن میں کلمۂ طیبہ یا اُس کامضمون وارد ہوا ہے، اِن کے عِلاوہ اَور بھی آیات بہ کثرت ہیں جن میں اُس کے معنیٰ اور مفہوم وارد ہوا ہے۔ اور جیسا مَیں اِس فصل کے شروع میں لکھ چُکا ہوں: توحید ہی اَصل دِین ہے؛ اِس لیے جتنا اِس میں اِنہِماک اورشَغَف ہوگا دین میں پُختگی پیدا ہوگی؛ اِسی لیے اِس مضمون کو مختلف عبارات میں مختلف طریقوں سے ذکر فرمایا ہے، کہ دل کی گہرائیوں میں اُتر جائے، اور اندرونِ دل میں پُختہ ہوجائے، اور دل میں اللہ کے ما سِوا کی کوئی جگہ باقی نہ رہے۔
فصلِ سوم
اِحاطہ: گھیرنا۔ تردُّد: شک۔ ثَنا: تعریف۔ قَصیدہ خوانی: نظم پڑھنا۔ گِرد: آس پاس۔ مُتبَحِّر: ماہر۔ زِندیقی: بے دینی۔
(اِس فصل)میں اُن اَحادیث کا ذکر ہے جن میں کلمۂ طیبہ کی ترغِیب وفَضائل ذکر فرمائے گئے ہیں۔ اِس مضمون میں جب آیات اِتنی کثرت سے ذکرفرمائی ہیں تو احادیث کا کیا پوچھنا! سب کا اِحاطہناممکن ہے؛ اِس لیے چند اَحادیث بہ طورنمونہ کے ذکر کی جاتی ہے۔
(۱)عَن جَابِرٍعَنِ النَّبِيِّﷺ قَالَ:أَفْضَلُ الذِّکْرِلَاإلٰہَ إِلَّااللہُ، وَأَفْضَلُ الدُّعَاءِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ.
(کذا في المشکوۃ بروایۃ الترمذي وابن ماجہ، وقال المنذري: رواہ ابن ماجہ والنسائي وابن حبان في صحیحہ والحاکم؛ کلهم من طریق طلحۃ بن خراش عنہ. وقال الحاکم: صحیح الإسناد، قلت: رواہ الحاکم بسندین وصححهما، وأقرہ علیهما الذهبي، وکذا رقم لہ بالصحۃ السیوطي في الجامع)
ترجَمہ: حضورِاقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: تمام اَذکار میں افضل لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ ہے، اور تمام دعاؤں میں افضل اَلْحَمْدُلِلّٰہِ ہے۔
فائدہ:لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ کا اَفضلُ الذِّکر ہونا تو ظاہر ہے، اور بہت سی احادیث میں کثرت سے وارد ہوا ہے، نیزسارے دِین کا مدار ہی کلمۂ توحید پر ہے توپھر اُس کے افضل ہونے میں کیا تردُّد ہے۔ اور اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کو اَفضلِ دعا اِس لِحاظ سے فرمایا کہ، کریم کی ثَنا کا مطلب سوال ہی ہوتا ہے، عام مُشاہَدہ ہے کہ کسی رَئیس، اَمیر، نواب کی تعریف میں قَصیدہ خوانی کا مطلب اُس سے سوال ہی ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباسص فرماتے ہیں کہ: جو شخص لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ پڑھے اُس کے بعد اُس کو اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ بھی کہنا چاہیے؛ اِس لیے کہ قرآن پاک میں ﴿فَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنِ﴾ کے بعد ﴿اَلحَمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَ﴾ وارد ہے۔
(مستدرک حاکم۲؍۴۷۶حدیث: ۳۶۳۹؍۷۷۶)
مُلاَّعلی قاریؒ فرماتے ہیں: اِس میں ذَرا بھی شک نہیں کہ تمام ذکروں میں افضل اور سب سے بڑھا ہوا ذکر کلمۂ طیبہ ہے، کہ یہی دِین کی وہ بنیاد ہے جس پر سارے دین کی تعمیر ہے، اور یہ وہ پاک کلمہ ہے کہ دِین کی چکی اُسی کے گِرد گھومتی ہے۔
(مرقاۃ المفاتیح،کتاب الدعوات،باب ثواب التسبیح والتحمید،باب ذکر اللہ والتقرب الیہ۔ص:۔۔۔۔۔۔۔۔)
اِسی وجہ سے صوفیاء اور عارِفین اِسی کلمے کا اِہتِمام فرماتے ہیں، اور سارے اَذکار پر اِس کو ترجیح دیتے ہیں، اور اِسی کی جتنی ممکن ہو کثرت کراتے ہیں، کہ تجربے سے اِس میں جس قدر فوائد اور مَنافِع معلوم ہوئے ہیں کسی دوسرے میں نہیں۔ چناںچہ سید علی بن مَیمُون مَعرَبیؒ کا قِصَّہ مشہور ہے، کہ جب شیخ عُلوان حَموِیؒ -جو ایک مُتبَحِّرعالم اور مفتی اور مُدرِّس تھے- سید صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور سید صاحب کی اُن پر خُصوصی توجُّہ ہوئی تو اُن کو سارے مَشاغِل: دَرس تدریس، فتویٰ وغیرہ سے روک دیا، اور سارا وقت ذکر میں مشغول کردیا، عوام کا تو کام ہی اِعتِراض اور گالیاں دینا ہے، لوگوں نے بڑا شور مچایا، کہ شیخ کے مَنافِع سے دنیا کو محروم کردیا، اور شیخ کو ضائع کردیا، وغیرہ وغیرہ؛ کچھ دنوں بعد سید صاحب کو معلوم ہوا کہ شیخ کسی وقت کلامُ اللہ کی تلاوت کرتے ہیں، سید صاحب نے اُس کو بھی منع کردیا، تو پھر توپوچھنا ہی کیا؟ سید صاحبؒ پر زِندیقی اور بددینی کا اِلزام لگنے لگا؛ لیکن چند ہی روز بعد شیخ پر ذکر کا اَثر ہوگیا اور دل رنگ گیا تو سید صاحبؒ نے فرمایا کہ: اب تلاوت شروع کردو، کلام پاک جو کھولا تو ہر ہر لفظ پر وہ وہ عُلوم ومَعارف کھُلے کہ پوچھنا ہی کیا ہے! سید صاحبؒ نے فرمایا کہ: مَیں نے خدانہ خواستہ تلاوت کو منع نہیں کیا تھا؛ بلکہ اِس چیز کو پیدا کرنا چاہتا تھا۔
(مرقاۃ المفاتیح،کتاب الدعوات،باب ذکر اللہ عزوجل والتقرب الیہ،الفصل الثانی۴؍۶۳)
چوںکہ یہ پاک کلمہ دِین کی اصل ہے، ایمان کی جڑ ہے؛ اِس لیے جتنی بھی اِس کی کثرت کی جائے گی اُتنی ہی ایمان کی جڑ مضبوط ہوگی، ایمان کا مدار اِسی کلمے پر ہے؛ بلکہ دنیا کے وُجود کا مدار اِسی کلمے پر ہے؛ چناںچہ صحیح حدیث میں وارد ہے کہ: قِیامت اُس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ کہنے والا کوئی زمین پر ہو۔
(مسند احمد،۔۔۔۔۔۔۔۔حدیث:۱۳۸۳۳)
دوسری حدیثوں میں آیا ہے کہ: جب تک کوئی بھی اللہ اللہ کہنے والا رُوئے زمین پر ہو، قِیامت نہیں ہوگی۔(۔۔۔۔۔۔۔۔)
(۲)عَن أَبِي سَعِیدٍ الخُدرِيِّ عَنِ النَّبِيِّﷺ أَنَّہٗ قَالَ: قَالَ مُوسیٰں:یَارَبِّ! عَلِّمْنِي شَیئًا أَذکُرُكَ بِہٖ وَأَدْعُوكَ بِہٖ، قَالَ: قُلْ: لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ، قَالَ: یَارَبِّ! کُلُّ عِبَادِكَ یَقُولُ هٰذَا، قَالَ: قُلْ: لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ، قَالَ: إِنَّمَا أُرِیدُ شَیئًا تَخُصُّنِي بِہٖ، قَالَ: یَامُوسیٰں لَو أَنَّ السَّمٰوَاتِ السَّبعِ وَالأَرضِینَ السَّبعِ فِي کَفَّۃٍ وَ لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ فِي کَفَّۃٍ مَالَتْ بِهِمْ لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ.
(رواہ النسائي وابن حبان والحاکم؛ کلهم من طریق دراج عن أبي الهیثم عنہ، وقال الحاکم: صحیح الإسناد، کذا في الترغیب. قلت: قال الحاکم: صحیح الإسناد ولم یخرجاہ، وأقرہ علیہ الذهبي. وأخرج في المشکوۃ بروایۃ شرح السنۃ نحوہ، زاد في منتخب الکنز أبا یعلیٰ والحکیم، وأبانعیم في الحلیۃ، والبیهقي في الأسماء، وسعید بن منصور في سننہ، وفي مجمع الزوائد رواہ أبویعلیٰ، ورجالہ وثقوا، وفیهم ضعف)
ترجَمہ:
حضور ِاقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: ایک مرتبہ حضرت موسیٰ عَلیٰ نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ نے اللہد کی پاک بارگاہ میں عرض کیا کہ: مجھے کوئی وِرد تعلیم فرمادیجیے جس سے آپ کو یاد کیا کروں اور آپ کو پُکارا کروں، ارشادِ خداوندی ہوا کہ: لَا إلٰہَ إِلَّا اللہُ کہا کرو، اُنھوں نے عرض کیا: اے پروردگار! یہ تو ساری ہی دنیا کہتی ہے، ارشاد ہوا کہ: لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ کہا کرو، عرض کیا: میرے رب! مَیں تو کوئی ایسی مخصوص چیز مانگتا ہوں جو مجھی کو عطا ہو، ارشاد ہوا کہ: اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں ایک پلڑے میں رکھ دی جائیں اور دوسری طرف لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ کو رکھ دیا جائے تو لَا إلٰہَ إِلَّا اللہُ والا پلڑا جھک جائے گا۔
اِضافہ: زیادتی۔
فائدہ:
اللہ جَلَّ جَلَالُہٗ عَمَّ نَوَالُہٗ کی عادتِ شریفہ یہی ہے کہ، جو چیز جس قدر ضرورت کی ہوتی ہے اُتنی ہی عام عطاکی جاتی ہے، ضروریاتِ دنیویہ ہی میں دیکھ لیا جائے کہ: سانس، پانی، ہواکیسی عام ضرورت کی چیزیں ہیں! اللہجَلَّ شَانُہٗنے اُن کو کس قدر عا م فرما رکھا ہے! البتہ یہ ضروری چیز ہے کہ، اللہ کے یہاں وزن اِخلاص کاہے، جس قدر اخلاص سے کوئی کام کیا جائے گا اُتنا ہی وزنی ہوگا، اور جس قدر اخلاص کی کمی اور بے دِلی سے کیا جائے گا اُتنا ہی ہلکا ہوگا۔ اِخلاص پیدا کرنے کے لیے بھی جس قدر مُفِید اِس کلمے کی کثرت ہے اُتنی کوئی دوسری چیز نہیں، کہ اِس کلمے کا نام ہی’’جِلَاءُ الْقُلُوب‘‘ (دِلوں کی صفائی)ہے۔ اِسی وجہ سے حضراتِ صوفیا اِس کا وِرد کثرت سے بتاتے ہیں، اور سیکڑوں نہیں؛ بلکہ ہزاروں کی مقدار میں روزانہ کا معمول تجویز(متعیَّن) کرتے ہیں۔
مُلَّا علی قاریؒ نے لکھا ہے کہ: ایک مرید نے اپنے شیخ سے عرض کیا کہ: مَیں ذکر کرتا ہوں مگر دل غافل رہتا ہے، اُنھوں نے فرمایا کہ: ذکر برابر کرتے رہو اور اِس پراللہ کا شکر کرتے رہو کہ اُس نے ایک عضو یعنی زبان کو اپنی یاد کی توفیق عطا فرمائی، اور اللہ سے دل کی توجُّہ کے لیے دعا کرتے رہو۔ (مرقاۃ المفاتیح،کتاب الدعوات، باب ذکر اللہ والتقرب الیہ، الفصل الثانی۴؍۶۵)
اِس قِسم کا واقعہ ’’اِحیاء العُلوم‘‘ میں بھی ابوعثمان مغربیؒ کے متعلِّق نقل کیا گیا، کہ اُن سے کسی مُرید نے شکایت کی تھی جس پر اُنھوں نے یہ جواب دیا تھا۔(احیاء العلوم۴؍۴۸)
درحقیقت بہترین نسخہ ہے، حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کا کلامِ پاک میں ارشاد ہے کہ: اگر تم شکر کرو گے تو مَیں اِضافہ کروںگا۔ (إبراہیم آیت:۷)
ایک حدیث میں وارد ہے کہ: اللہ کا ذکر اُس کی بڑی نعمت ہے، اُس کا شکر ادا کیا کرو کہ اللہ نے ذکر کی توفیق عطا فرمائی۔(جامع الصغیر۔۔۔۔۔۔۔۔)
(۳) عَن أَبِي هُرَیرَۃَ قَالَ: قُلتُ: یَا رَسُولَ اللہِ! مَنْ أَسعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِكَ یَومَ القِیَامَۃِ؟ قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: لَقَدْ ظَنَنتُ یَا أَبَاهُرَیرَۃَ! أَنْ لَایَسْئَلَنِي عَن هٰذَا الحَدِیثِ أَحَدٌ أَوَّلَ مِنكَ لِمَا رَأَیتُ مِن حِرصِكَ عَلَی الحَدِیثِ، أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي یَومَ القِیَامَۃِ مَن قَالَ لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ خَالِصاً مِن قَلبِہٖ أَو نَفسِہٖ.
(رواہ البخاري، وقد أخرجہ الحاکم بمعناہ، وذکر صاحب بهجۃ النفوس في الحدیث أربعا وثلاثین بحثاً)
ترجَمہ: حضرت ابوہریرہص نے ایک مرتبہ حضورِاقدس ﷺ سے دریافت کیا کہ: آپ کی شَفاعت کا سب سے زیادہ نفع اُٹھانے والا قِیامت کے دن کون شخص ہوگا؟ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: مجھے احادیث پر تمھاری حِرص دیکھ کر یہی گمان تھا کہ اِس بات کوتم سے پہلے کوئی دوسرا شخص نہ پوچھے گا،(پھر حضورﷺ نے سوال کا جواب ارشاد فرمایا کہ:)سب سے زیادہ سَعادت مَند اور نفع اُٹھانے والا میری شفاعت کے ساتھ وہ شخص ہوگا جو دِل کے خُلوص کے ساتھ لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ کہے۔
حِرص: رغبت۔ خَلاصی: چھُٹکارا۔ جَلِیلُ القَدر: بڑے مرتبے والا۔یکے بعد دِیگرے:ایک دوسرے کے بعد۔ جُرأت: ہِمَّت۔ مُنتفِع: فائدہ اُٹھانے والا۔ تَخفِیفِ عذاب: عذاب کا ہَلکا۔
فائدہ: سعادت کہتے ہیں کہ آدمی کو خیر کی طرف پہنچانے کے لیے توفیقِ الٰہی کے شاملِ حال ہونے کو، اب اخلاص سے کلمۂ طیبہ پڑھنے والے کا سب سے زیادہ مُستحقِ شفاعت ہونے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں: ایک تو یہ کہ، اِس حدیث سے وہ شخص مراد ہے جو اخلاص سے مسلمان ہو اور کوئی نیک عمل بجُز کلمۂ طیبہ پڑھنے کے اُس کے پاس نہ ہو، اِس صورت میںظاہر ہے کہ سب سے زیادہ سَعادت اُس کو شَفاعت ہی سے حاصل ہوسکتی ہے، کہ اپنے پاس تو کوئی عمل نہیں ہے، اِس مطلب کے مُوافِق یہ حدیث اُن اَحادیث کے قریب قریب ہوگی جن میں ارشاد ہے کہ: میری شفاعت میری اُمَّت کے کَبِیرہ گناہ والوں کے لیے ہے، کہ وہ اپنے اَعمال کی وجہ سے جہنَّم میں ڈالے جائیںگے؛ لیکن کلمۂ طیبہ کی برکت سے حضورﷺ کی شَفاعت اُن کو نصیب ہوگی۔ (بخاری،کتاب التوحید،باب کلام الرب یوم القیامۃ مع الانبیاء،۲؍۱۱۱۸حدیث:۷۵۱۰)
دوسرا مطلب یہ ہے کہ: اِس کے مِصداق وہ لوگ ہیں جو اخلاص سے اِس کلمے کا وِرد رکھیں اور نیک اعمال ہوں، اُن کے سب سے زیادہ سعادت مند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ: زیادہ نفع حضورﷺ کی شفاعت سے اُن کو پہنچے گا کہ ترقیٔ دَرجات کا سبب بنے گی۔
علامہ عینیؒ نے لکھا ہے کہ: حضورِاقدس ﷺ کی شَفاعت قِیامت کے دن چھ طریقے سےہوگی:
اوَّل میدانِ حَشر کی قَید سے خَلاصی کی ہوگی، کہ حشر میں ساری مخلوق طرح طرح کے مَصائب میں مُبتَلا پریشان حال یہ کہتی ہوئی ہوگی کہ: ہم کوجہنَّم ہی میں ڈال دیا جائے؛ مگر اِن مَصائب سے تو خَلاصی ہو، اُس وقت جَلِیلُ القَدر اَنبیا عَلَیْہِمُ السَّلَامُ کی خدمت میں یکے بعد دِیگرے حاضری ہوگی، کہ آپ ہی اللہ کے یہاں سِفارش فرمائیں؛ مگر کسی کو جُرأت نہ ہوگی کہ سفارش فرماسکیں، بِالآخر حضورﷺ شفاعت فرمائیںگے، یہ شفاعت تمام عالَم، تمام مخلوق، جِنَّ واِنس،مُسلِم کافر؛ سب کے حق میں ہوگی، اور سب ہی اِس سے مُنتفِع ہوںگے۔ اَحادیثِ قِیامت میں اِس کا مُفصَّل قِصَّہ مذکور ہے۔ (بخاری،کتاب الرقاق،باب صفۃ الجنۃ والنار،۲؍۹۷۱حدیث:۶۵۶۵)
دوسری شفاعت بعض کُفَّارکے حق میں تَخفِیفِ عذاب کی ہوگی، جیسا ابوطالب کے بارے میں صحیح حدیث میں وارد ہوا ہے۔ (مسلم،کتاب الایمان،باب شفاعۃ النبيﷺ لا ٔبي طالب، ۱؍۱۱۵حدیث:۲۰۹)
تیسری شفاعت بعض مومنوں کو جہنَّم سے نکالنے کے بارے میں ہوگی جو اُس میں داخل ہوچکے ہیں۔
چوتھی شفاعت بعض مومن جو اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے جہنَّم میں داخل ہونے کے مستحِق ہوچکے ہیں، اُن کی جہنم سے مُعافی اور جہنَّم میں نہ داخل ہونے کے بارے میں ہوگی۔
پانچوِیں شفاعت بعض مومنین کے بغیر حساب کتاب جنت میں داخل ہونے میں ہوگی۔
اور چھٹی شفاعت مؤمنین کے درجات بلند ہونے میں ہوگی۔(عمدۃ القاری،کتاب العلم،باب الحرص علی الحدیث۲؍۱۲۸)
(۴) عَن زَیدِ بنِ أَرقَمَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: مَن قَالَ لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ مُخلِصاً دَخَلَ الجَنَّۃَ، قِیلَ: وَمَا إِخْلَاصُهَا؟ قَالَ: أَن تَحجُزَہٗ عَن مَحَارِمِ اللہِ. (رواہ الطبراني في الأوسط والکبیر)
ترجَمہ: حضرت زید بن ارقم ص حضورﷺسے نقل کرتے ہیں: جو شخص اخلاص کے ساتھ لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ کہے وہ جنت میںداخل ہوگا، کسی نے پوچھا کہ: کلمے کے اخلاص کی علامت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ: حرام کاموں سے اُس کو روک دے۔
قائل: کہنے والا۔تَردُّد: شک۔ سَلب: ختم۔ ہَم بستری: صُحبت۔ قُفل: تالا۔ مُتکبِّر:تکبُّر کرنے والا۔ جابِر: ظالم۔
فائدہ: اور یہ ظاہر ہے کہ: جب حرام کاموں سے رُک جائے گا اور لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ کا قائل ہوگاتو اُس کے سیدھا جنت میں جانے میں کیا تَردُّد ہے؟ لیکن اگر حرام کاموں سے نہ بھی رُکے تب بھی اِس کلمۂ پاک کی یہ برکت تو بِلاتردُّد ہے کہ، اپنی بداَعمالیوں کی سزا بھُگتنے کے بعد کسی نہ کسی وقت جنت میں ضرور داخل ہوگا؛ البتہ اگر خدا نہ خواستہ بداعمالیوں کی بہ دولت اِسلام وایمان ہی سے محروم ہوجائے تو دوسری بات ہے۔
حضرت فقیہ ابو اللَّیث سَمرقَندیؒ ’’تَنبِیہُ الغَافِلِین‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ہر شخص کے لیے ضروری ہے کہ کثرت سے لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ پڑھتا رہا کرے، اور حق تَعَالیٰ شَانُہٗ سے ایمان کے باقی رہنے کی دعا بھی کرتا رہے، اور اپنے کو گناہوں سے بچاتا رہے؛ اِس لیے کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ گناہوں کی نَحوست سے آخر میں اُن کا ایمان سَلب ہوجاتا ہے اور دنیا سے کُفر کی حالت میں جاتے ہیں‘‘۔(تنبیہ الغافلین۲؍۴۴۹)
اِس سے بڑھ کر اَور کیا مصیبت ہوگی؟ کہ ایک شخص کا نام ساری عمر مسلمانوں کی فہرست میں رہا ہو؛ مگر قِیامت میں وہ کافروں کی فہرست میں ہو، حقیقی حسرت اور کمالِ حسرت ہے، اُس شخص پر اَفسوس نہیں ہوتا جو گِرجا یا بُت خانے میں ہمیشہ رہا ہو اور وہ کافروں کی فَہرست میں آخرمیں شمار کیا جائے، اَفسوس اُس پر ہے جو مسجد میں رہاہو اور کافروں میں شمار ہوجائے،اور یہ بات گناہوں کی کثرت سے اور تنہائیوں میںحرام کاموں میں مُبتَلاہونے سے پیدا ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس دُوسروں کا مال ہوتا ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ دوسروں کا ہے؛ مگر دل کو سمجھاتے ہیں کہ، مَیں کسی وقت اُس کو واپس کردوںگا اور صاحبِ حق سے مُعاف کرالوںگا؛ مگر اِس کی نوبت(موقع) نہیں آتی اور موت اِس سے قبل آجاتی ہے۔ بہت سے لوگ ہیں کہ، بیوی کو طلاق ہوجاتی ہے اور وہ اُس کو سمجھتے ہیں؛ مگر پھر بھی اُس سے ہَم بستری کرتے ہیں، اور اِسی حالت میں موت آجاتی ہے کہ توبہ کی بھی توفیق نہیں ہوتی ہے۔ ایسے ہی حالات میں آخر میں ایمان سَلْب ہوجاتا ہے۔ اَللّٰہُمَّ احْفَظْنَا مِنہُ.
حدیث کی کتابوں میں ایک قِصَّہ لکھا ہے کہ: حضورﷺکے زمانے میں ایک نوجوان کا اِنتِقال ہونے لگا، حضورﷺسے عرض کیا گیاکہ: اُس سے کلمہ نہیں پڑھا جاتا، حضورﷺ تشریف لے گئے اور اُس سے دریافت فرمایا: کیا بات ہے؟ عرض کیا کہ: یا رسولَ اللہ! ایک قُفل سا دل پر لگا ہوا ہے، تحقیقِ حالات سے معلوم ہوا کہ: اُس کی ماں اُس سے ناراض ہے اور اُس نے ماں کو ستایا ہے، حضور ﷺنے ماں کو بلایا اور دریافت فرمایا کہ: اگر کوئی شخص بہت سی آگ جلاکر اِس تمھارے لڑکے کو اُس میں ڈالنے لگے تو تم سفارش کروگی؟ اُنھوں نے عرض کیا: ہاںحضور! کروںگی، تو حضورﷺنے فرمایا کہ: ایسا ہے تو اِس کا قُصورمُعاف کردے، اُنھوں نے سب مُعاف کردیا، پھر اُس سے کلمہ پڑھنے کو کہا گیا تو فوراً پڑھ لیا، حضورﷺنے اللہ کا شکر ادا کیا، کہ حضورﷺکی وجہ سے اُنھوں نے آگ سے نجات پائی۔(مسند احمد،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حدیث:۱۹۴۱۱)
اِس قِسم کے سیکڑوں واقعات پیش آتے ہیں، کہ ہم لوگ ایسے گناہوں میں مُبتَلا رہتے ہیں جن کی نحوست دِین اور دنیا دونوں میں نقصان پہنچاتی ہے۔ صاحبِ ’’اِحیاء‘‘ نے لکھا ہے کہ: ایک مرتبہ حضورﷺ نے خطبہ پڑھا، جس میں ارشاد فرمایا کہ: جو شخص لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ کو اِس طرح سے کہے کہ خَلَط مَلَط نہ ہوتو اُس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے، حضرت علیصنے عرض کیا کہ: حضور! اِس کو واضح فرمادیں، خَلَط مَلَط کا کیا مطلب ہے؟ ارشاد فرمایا کہ: دنیا کی محبت اور اُس کی طلب میں لگ جانا، بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ اَنبِیا کی سی باتیں کرتے ہیں اورمُتکبِّر اور جابِر لوگوں کے سے عمل کرتے ہیں، اگر کوئی اِس کلمے کو اِس طرح کہے کہ یہ کام نہ کرتا ہوتو جنت اُس کے لیے واجب ہے۔(احیاء العلوم،۔۔۔۔۔۔۔)
(۵) عَن أَبِي هُرَیرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: مَا قَالَ عَبدٌ لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ إِلَّا فُتِحَتْ لَہٗ أَبوَابُ السَّمَاءِ حَتّٰی یُفضِي إِلَی العَرشِ مَا اجْتَنَبَتِ الکَبَائِرَ.
(رواہ الترمذي، وقال: حدیث حسن غریب، کذا في الترغیب، وهکذا في المشکوۃ؛ ولکن لیس فیها حسن بل غریب فقط. قال القاري: رواہ النسائي وابن حبان، وعزاہ السیوطي في الجامع إلی الترمذي، ورقم لہ بالحسن؛ وحکاہ السیوطي في الدر من طریق ابن مردویہ عن أبي هریرۃ، ولیس فیہ: ’’مَا اجْتَنَبَتِ الکَبَائِرَ‘‘، وفي الجامع الصغیر بروایۃ الطبراني عن معقل ابن یسار: ’’لِکُلِّ شَيئٍ مِفتَاحٌ، وَمِفتَاحُ السَّمٰوَاتِ قَولُ لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ‘‘، ورقم لہ بالضعف)
ترجَمہ:
حضور ِاقدس ﷺکا ارشاد ہے کہ: کوئی بندہ ایسا نہیں کہ لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ کہے اور اُس کے لیے آسمانوں کے دروازے نہ کھل جائیں، یہاں تک کہ یہ کلمہ سیدھا عرش تک پہنچتا ہے، بہ شرطے کہ کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے۔
براہِ راست: سیدھا۔ مُنتَہا: ختم ہونے کی جگہ۔
فائدہ:کتنی بڑی فضیلت ہے! اور قَبولِیت کی اِنتِہا ہے، کہ یہ کلمہ براہِ راست عرشِ مُعلیّٰ تک پہنچتا ہے، اور یہ ابھی معلوم ہوچکا ہے کہ اگر کبیرہ گناہوں کے ساتھ بھی کہاجائے تونفع سے اُس وقت بھی خالی نہیں۔
مُلَّاعلی قاریؒ فرماتے ہیں کہ: کَبائر سے بچنے کی شرط قَبول کی جلدی اور آسمان کے سب دروازے کھلنے کے اعتبار سے ہے؛ ورنہ ثواب اور قَبول سے کبائر کے ساتھ بھی خالی نہیں۔
(مرقاۃ المفاتیح،باب ثواب التسبیح والتہلیل،الفصل الثانی۔۔۔۔۔۔۔)
بعض عُلَماء نے اِس حدیث کا یہ مطلب بیان فرمایا ہے کہ: ایسے شخص کے واسطے مرنے کے بعد اُس کی رُوح کے اعزاز میں آسمان کے سب دروازے کھل جائیں گے۔
ایک حدیث میں آیا ہے: دو کلمے ایسے ہیں کہ اُن میں سے ایک کے لیے عرش سے نیچے کوئی مُنتَہا نہیں، دوسرا آسمان اور زمین کو (اپنے نور سے یا اَجر سے)بھردے: ایک، لَا إلٰہَ إِلَّااللہُ، دوسرا ،اَللہُ أَکبَرُ.
(طبرانی،۲۰؍۱۶۰حدیث:۳۳۴)
(۶) عَن یَعلَی بنِ شَدَّادٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي: شَدَّادُ بنُ أَوسٍ -وَعُبَادَۃُ بنُ الصَّامِتِ حَاضِرٌ یُصَدِّقُ- قَالَ: کُنَّا عِندَ النَّبِيِّﷺ فَقَالَ: هَلْ فِیکُمْ غَرِیبٌ یَعنِي أَهلَ الکِتَابِ؟ قُلنَا: لَا یَارَسُولَ اللہِ! فَأَمَرَ بِغَلقِ الأَبوَابِ، وَقَالَ: اِرفَعُوا أَیدِیکُم، وَقُولُوا: لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ، فَرَفَعناَ أَیدِینَا سَاعَۃً، ثُمَّ قَالَ: اَلحَمدُ لِلّٰہِ، اَللّٰهُمَّ إِنَّكَ بَعَثْتَنِي بِهٰذِہِ الکَلِمَۃِ وَوَعَدْتَّنِي عَلَیهَا الجَنَّۃَ، وَأَنتَ لَاتُخلِفُ المِیعَادَ؛ ثُمَّ قَالَ: أَبشِرُوْا فَإِنَّ اللہَ قَد غَفَرَلَکُم.
(رواہ أحمد بإسناد حسن، والطبراني وغیرهما؛ کذا في الترغیب. قلت: وأخرجہ الحاکم، وقال: إسماعیل بن عیاش أحد أئمۃ أهل الشام، وقد نسب إلیٰ سوء الحفظ، وأنا علیٰ شرطيفي أمثالہ؛ وقال الذهبي: راشد ضعفہ الدارقطني وغیرہ، ووثقہ رحیم. اھ وفي مجمع الزوائد: رواہ أحمد والطبراني والبزار، ورجال موثقون. اھ)
ترجَمہ:
حضرت شَدَّاد فرماتے ہیں -اور حضرت عُبادہ اِس واقعے کی تصدیق کرتے ہیں- کہ: ایک مرتبہ ہم لوگ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے، حضور ﷺ نے دریافت فرمایا: کوئی اَجنبی (غیر مسلم) تو مجمع میں نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا: کوئی نہیں، ارشاد فرمایا: کِواڑ بند کردو، اِس کے بعداِرشاد فرمایا: ہاتھ اُٹھاؤ اور کہو: لَا إلٰہَ إِلَّا اللہُ، ہم نے تھوڑی دیر ہاتھ اُٹھائے رکھے (اور کلمۂ طیبہ پڑھا)، پھر فرمایا: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، اے اللہ! تُونے مجھے یہ کلمہ دے کر بھیجا ہے، اور اِس کلمے پر جنت کاوعدہ کیا ہے اور تُو وعدہ خلاف نہیں ہے، اِس کے بعد حضور ﷺ نے ہم سے فرمایا کہ: خوش ہوجاؤ، اللہ نے تمھاری مغفرت فرمادی۔
کِواڑ: دروازہ۔ تَلقِین: تعلیم۔ اِستِدلال:دلیل پکڑنا۔ مُستفِیدین: فائدہ حاصل کرنے والے۔ تام: مکمَّل۔ تشتُّت: پریشانی۔
فائدہ:
غالباً اَجنبی کو اِسی لیے دریافت فرمایا تھا، اور اِسی لیے کِواڑ بند کرائے تھے کہ اِن لوگوں کے کلمۂ طیبہ پڑھنے پر تو حضورِاقدس ﷺ کو مغفرت کی بشارت کی امید ہوگی، اَوروں کے مُتعلِّق یہ اُمید نہ ہو۔ صوفیاء نے اِس حدیث سے مَشائخ کا اپنے مُریدین کی جماعت کو ذِکر تَلقِین کرنے پر اِستِدلال کیا ہے؛ چناںچہ ’’جامعُ الاصول‘‘ میں لکھا ہے کہ: حضور ﷺ کا صحابہ ث کو جماعۃً اور مُنفَرِداً ذکر تلقین کرنا ثابت ہے، جماعت کو تلقین کرنے میں اِس حدیث کوپیش کیا ہے۔ اِس صورت میں کِواڑوں کابند کرنا مُستفِیدین کی توجُّہ کے تام کرنے کی غرض سے ہو، اور اِسی وجہ سے اجنبی کو دریافت فرمایا، کہ غیر کامجمع میںہونا حضورﷺپر تشتُّت کا سبب اگرچہ نہ ہو؛ لیکن مُستفیدین کے تشتُّت کا اِحتِمال تو تھا ہی:
چہ خوش اَست باتُو بَزمے بنَہُفتَہ ساز کَردَن
ء
دَرِخانہ بند کَردن سرِشِیشہ باز کردن
(کیسی مزے کی چیز ہے تیرے ساتھ خُفیہ ساز کرلینا! گھر کا دروازہ بند کردینا اور بوتل کا منھ کھول دینا۔)
(۷) عَنْ أَبِي هُرَیرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: جَدِّدُوْا إِیمَانَکُم، قِیلَ: یَا رَسُولَ اللہِ! وَکَیفَ نُجَدِّدُ إِیمَانَنَا؟ قَالَ: أَکثِرُوْا مِن قَولِ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ.
(رواہ أحمد والطبراني، وإسناد أحمد حسن؛ کذا في الترغیب. قلت: ورواہ الحاکم في صحیحہ، وقال: صحیح الإسناد، وقال الذهبي: صدقۃ (الراوي) ضعفوہ، قلت: هو من رواۃ أبي داود والترمذي، وأخرج لہ البخاري في الأدب المفرد، وقال في التقریب: صدوق لہ أوهام، وذکرہ السیوطي في الجامع الصغیر بروایۃ أحمد والحاکم، ورقم لہ بالصحۃ. وفي مجمع الزوائد رواہ أحمد، وإسنادہ جید، وفي موضع اٰخر رواہ أحمد والطبراني، ورجال أحمد ثقات)
ترجَمہ: حضورِاقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: اپنے ایمان کی تَجدِید کرتے رہا کرو یعنی تازہ کرتے رہا کرو، صحابہث نے عرض کیا: یارسولَ اللہ! ایمان کی تجدید کس طرح کریں؟ ارشاد فرمایا کہ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کو کثرت سے پڑھتے رہاکرو۔
فائدہ: ایک روایت میں حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد وارد ہوا ہے کہ: ایمان پُرانا ہوجاتا ہے جیسا کہ کپڑا پُرانا ہوجاتا ہے؛ اِس لیے اللہ جَلَّ شَانُہٗسے ایمان کی تجدید مانگتے رہا کرو۔ (طبرانی، ۱؍۵۷)
پُرانے ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ، مَعاصی سے قوَّتِ اِیمانِیَّہ اور ایمان جاتا رہتا ہے۔
زَنگ آلُود: زنگ لگا ہوا۔ سِرایت: اندر جانا۔ کثرتِ اِختِلاط: زیادہ مَیل جول۔ اکَڑ: گھمنڈ۔
چناںچہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ: جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو ایک سِیاہ نشان (دَھبَّہ) اُس کے دل میں ہوجاتا ہے، اگر وہ سچی توبہ کرلیتا ہے تو وہ نشان دُھل جاتا ہے، ورنہ جَما رہتا ہے، اور پھر جب دوسرا گناہ کرتا ہے تو دوسرا نشان ہوجاتاہے، اِسی طرح سے آخر دل بالکل کالا ہوجاتا اور زَنگ آلُود ہوجاتا ہے، جس کو حق تَعَالیٰ شَانُہٗنے سورۂ تطفیف میں ارشاد فرمایا ہے: ﴿کَلَّا بَلْسکتہ رَانَ عَلیٰ قُلُوبِہِم مَّا کَانُوا یَکسِبُونَ﴾ (ترمذی،ابواب التفسیر،سورۃ ویل للمطففین، ۲؍۱۷۱، حدیث: ۳۳۳۴)
اِس کے بعد اُس کے دل کی حالت ایسی ہوجاتی ہے کہ حق بات اُس میں اَثر اور سِرایت ہی نہیں کرتی۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: چار چیزیں آدمی کے دل کو برباد کردیتی ہے: اَحمقوں سے مُقابَلہ، گناہوں کی کثرت، عورتوں کے ساتھ کثرتِ اِختِلاط، اورمُردہ لوگوں کے پاس کثرت سے بیٹھنا؛ کسی نے پوچھا: مُردوں سے کیامراد ہے؟ فرمایا: ہر وہ مال دار جس کے اندر مال نے اکَڑ پیدا کردی ہو۔(دُرِّمنثور)
(۸) عَن أَبِي هُرَیرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: أَکثِرُوا مِن شَهَادَۃِ أَن لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ قَبلَ أَن یُحَالَ بَینَکُم وَبَینَهَا.
(رواہ أبویعلیٰ بإسناد جید قوي، کذا في الترغیب. وعزاہ في الجامع إلیٰ أبي یعلیٰ وابن عدي في الکامل، ورقم لہ بالضعف، وزاد: ’’لَقِّنُوْهَا مَوْتَاکُمْ‘‘. وفي مجمع الزوائد: رواہ أبویعلیٰ، ورجالہ رجال الصحیح غیرضمام، وهو ثقۃ)
ترجَمہ:حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کا اقرار کثرت سے کرتے رہا کرو قَبل اِس کے کہ ایسا وقت آئے کہ تم اِس کلمے کو نہ کہہ سکو۔
تُخم:بیج۔ وَسِیع: زیادہ۔
فائدہ: یعنی موت حائل ہوجائے، کہ اُس کے بعد کسی عمل کا بھی وقت نہیں رہتا، زندگی کا زمانہ بہت ہی تھوڑا سا ہے، اور یہ ہی عمل کرنے کا اور تُخم بونے کا وقت ہے، اور مرنے کے بعد کا زمانہ بہت ہی وَسِیع ہے، اور وہاں وہی مل سکتا ہے جویہاں بو دِیاگیا۔
(۹)عَن عَمْروٍ قَالَ: سَمِعتُ رَسُولَ اللہِﷺ یَقُولُ: إِنِّيْ لَأَعلَمُ کَلِمَۃً لَایَقُولُهَا عَبدٌ حَقًّا مِن قَلبِہٖ فَیمُوتُ عَلیٰ ذٰلِكَ إِلَّاحُرِّمَ عَلَی النَّارِ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ.
(رواہ الحاکم، وقال: صحیح علیٰ شرطهما، ورویاہ بنحوہ؛ کذا في الترغیب)
ترجَمہ: حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: مَیں ایک ایساکلمہ جانتا ہوں کہ کوئی بندہ ایسا نہیں ہے کہ، دل سے حق سمجھ کر اُس کو پڑھے اور اِسی حال میں مرجائے؛ مگر وہ جہنَّم پر حرام ہوجائے، وہ کلمہ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ ہے۔
مُنافی: خلاف۔ عارِض: وقتی چیز۔سَقمُونیا: ایک قِسم کی دوا۔ اِسہال: دَست۔ قابِض: قَبض کرنے والی۔ جُزو: حصہ۔
فائدہ: بہت سی روایات میں یہ مضمون وارد ہوا ہے، اِن سب سے اگر یہ مراد ہے کہ وہ مسلمان ہی اُس وقت ہوا ہے تب تو کوئی اِشکال ہی نہیں، کہ اسلام لانے کے بعد کُفرکے گناہ بِالاتِّفاق مُعاف ہیں، اور اگر یہ مراد ہے کہ پہلے سے مسلمان تھا اور اِخلاص کے ساتھ اِس کلمے کو کہہ کر مَرا ہے، تب بھی کیا بعیدہے کہ حقتَعَالیٰ شَانُہٗ اپنے لُطف سے سارے ہی گناہ مُعاف فرماویں! حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کا تو خود ہی ارشاد ہے کہ: شِرک کے عِلاوہ سارے ہی گناہ جس کے چاہیںگے مُعاف فرمادیںگے۔ مُلَّاعلی قاریؒ نے بعض عُلَما سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ: یہ اور اِس قِسم کی اَحادیث اُس وقت کے اعتبار سے ہیں جب تک دوسرے اَحکام نازل نہیں ہوئے تھے۔ بعض عُلَما نے فرمایا ہے کہ: اِس سے مراد اِس کلمے کو اُس کے حق کی ادائیگی کے ساتھ کہنا جیسا کہ پہلے حدیث نمبر ۴؍ میں گزر چکا ہے۔ حسن بصریؒ وغیرہ حضرات کی بھی یہی رائے ہے۔ امام بخاریؒ کی تحقیق یہ ہے کہ: نَدامت کے ساتھ اِس کلمے کو کہا ہو، کہ یہی حقیقت توبہ کی ہے، اور پھر اِسی حال پر انتقال ہوا ہو۔ مُلَّا علی قاریؒ کی تحقیق یہ ہے کہ: اِس سے ہمیشہ جہنَّم میں رہنے کی حُرمت مراد ہے۔ اِن سب کے عِلاوہ ایک کھلی ہوئی بات اَور بھی ہے، وہ یہ کہ: کسی چیز کا کوئی خاص اَثر ہونا اِس کے مُنافی نہیں کہ کسی عارِض کی وجہ سے وہ اَثر نہ کرسکے،سَقمُونیا کا اثر اِسہال ہے؛ لیکن اگر اِس کے بعد کوئی سخت قابِض چیز کھالی جائے تو یقینا سَقمُونیا کا اثر نہ ہوگا؛ لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ اُس دوا کا وہ اثر نہیں رہا؛ بلکہ اِس عارض کی وجہ سے اُس شخص پر اثر نہ ہوسکا۔
(۱۰) عَن مُعَاذِ بنِ جَبَلٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: مَفَاتِیحُ الجَنَّۃِ شَهَادَۃُ أَن لَا إِلٰہَ إِلَّااللہُ.
(رواہ أحمد،کذا في المشکوۃ، والجامع الصغیر، ورقم لہ بالضعف.وفي مجمع الزوائد: رواہ أحمد ورجالہ وثقوا؛ إلا أن شهرا لم یسمعہ عن معاذ. اھ رواہ البزار، وکذا في الترغیب. وزاد السیوطي في الدر: ابن مردویہ، والبیهقي، وذکرہ في المقاصد الحسنۃ بروایۃ أحمد بلفظ: ’’مِفتَاحُ الجَنَّۃِ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ‘‘. واختلف في وجہ حمل الشهادۃ، وهي مفرد علی المفاتیح، وهي جمع علیٰ أقوال أوجهها عندي: أنها لما کانت مفتاحا لکل باب من أبوابہ صارت کالمفاتیح)
ترجَمہ:حضورِاقدس ﷺکا ارشاد ہے کہ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کا اِقرار کرنا جنت کی کُنجیاں ہیں۔
فائدہ: کُنجیاں اِس لحاظ سے فرمایا کہ، ہر دروازے کی اور ہر جنت کی کنجی یہ ہی کلمہ ہے؛ اِس لیے ساری کنجیاں یہی کلمہ ہوا، یا اِس لِحاظ سے کہ یہ کلمہ بھی دو جُزو لیے ہوئے ہے: ایک لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُکا اقرار، دوسرے مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہِ کااقرار؛ اِس لیے دو ہوگئے، کہ دونوں کے مجموعے سے کھل سکتا ہے۔ اَور بھی اِن روایات میں جہاں جہاں جنت کے دُخول یاجہنَّم کے حرام ہونے کا ذکر ہے اُس سے مراد پورا ہی کلمہ ہے۔
ایک حدیث میں وارد ہے کہ: جنت کی قیمت لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُہے۔ (۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
(۱۱) عَن أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: مَامِن عَبدٍ قَالَ:لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ فِي سَاعَۃٍ مِن لَیلٍ أَو نَهَارٍ إِلَّا طُمِسَتْ مَا فِي الصَّحِیفَۃِ مِنَ السَّیِّئَاتِ، حَتّٰی تَسکُنَ إِلیٰ مِثلِهَا مِنَ الحَسَنَاتِ.
(رواہ أبویعلیٰ، کذا في الترغیب. وفي مجمع الزوائد: فیہ عثمان بن عبدالرحمن الزهري، وهو متروك. اھ )
ترجَمہ: حضورِاقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: جو بھی بندہ کسی وقت بھی دن میں یا رات میں لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کہتا ہے، تو اعمال نامے میں سے بُرائیاں مِٹ جاتی ہیں اور اُن کی جگہ نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔
فائدہ: برائیاں مٹ کر نیکیاں لکھی جانے کے متعلِّق بابِ اول فصلِ ثانی کے نمبر ۱۰؍ پر مُفصَّل گزر چکا ہے، اور اِس قِسم کی آیات اور روایات کے چند معنیٰ لکھے گئے ہیں، ہر معنیٰ کے اعتبار سے گناہوں کا اِس حدیث میں اعمال نامے سے مِٹانا تومعلوم ہوتا ہی ہے؛ البتہ اخلاص ہونا ضروری ہے، اور کثرت سے اللہ کا پاک نام لینا اور کلمۂ طیبہ کا کثرت سے پڑھنا خود بھی اخلاص پیدا کرنے والا ہے؛ اِسی لیے اِس پاک کلمے کا نام ’’کلمۂ اخلاص‘‘ ہے۔
(۱۲) عَن أَبِي هُرَیرَۃَ عَنِ النَّبِيِّﷺ قَالَ: إِنَّ لِلّٰہِ تَبَارَكَ وَتَعَالیٰ عُمُوداً مِن نُوْرٍ بَینَ یَدَيِ العَرشِ، فَإِذَا قَالَ العَبدُ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ، اِهتَزَّ ذٰلِكَ العُمُودُ، فَیقُولُ اللہُ تَبَارَكَ وَتَعَالیٰ: اُسْکُنْ، فَیَقُولُ: کَیفَ أَسکُنُ وَلَمْ تُغفَرْ لِقَائِلِهَا؟ فَیَقُولُ: إِنِّي قَد غَفَرتُ لَہٗ، فَیَسْکُنُ عِندَ ذٰلِكَ.
(رواہ البزار، وهو غریب؛ کذا في الترغیب. وفي مجمع الزوائد: فیہ عبداللہ بن إبراهیم بن أبي عمرو، وهو ضعیف جدا. اھ قلت: وبسط السیوطي في اللاٰلي علیٰ طرقہ، وذکر لہ شواهد)
ترجَمہ: حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: عرش کے سامنے نور کا ایک ستون ہے، جب کوئی شخص لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ کہتا ہے تو وہ ستون ہِلنے لگتا ہے، اللہ کا ارشاد ہوتا ہے کہ: ٹھہرجا،وہ عرض کرتا ہے: کیسے ٹھہروں حالاںکہ کلمۂ طیبہ پڑھنے والے کی ابھی تک مغفرت نہیں ہوئی؟ ارشاد ہوتا ہے کہ: اچھا مَیں نے اُس کی مغفرت کردی، تو وہ سُتون ٹھہرجاتاہے۔
فائدہ: مُحدِّثین حضرات رَحِمَہُمُ اللہُ کو اِس روایت میں کلام ہے؛ لیکن علامہ سِیوطیؒ نے لکھا ہے کہ: یہ روایت کئی طریقوں سے مختلف اَلفاظ سے نقل کی گئی ہے۔ بعض روایتوں میں اِس کے ساتھ اللہ جَلَّ شَانُہٗ کا یہ بھی ارشاد وَارِد ہے کہ: مَیں نے کلمۂ طیبہ اُس شخص کی زبان پر اِسی لیے جاری کرادیا تھا کہ اُس کی مغفرت کروں۔(دیلمی۔۔۔۔۔۔۔)
تکمیل: پورا۔
کس قدر لُطف وکرم ہے اللہ کا! کہ خود ہی توفیق عطا فرماتے ہیں، اور پھر خود ہی اُس لُطف کی تکمیل میں مغفرت فرماتے ہیں۔
حضرت عطاءؒ کا قِصَّہ مشہور ہے ،کہ وہ ایک مرتبہ بازار تشریف لے گئے، وہاں ایک دِیوانی باندی فروخت ہورہی تھی، اُنھوں نے خرید لی، جب رات کا کچھ حصہ گزرا تووہ دِیوانی اُٹھی اور وُضو کرکے نماز شروع کردی، اور نماز میں اُس کی یہ حالت تھی کہ آنسوؤں سے دَم گھُٹا جا رہا تھا،اِس کے بعد اُس نے کہا: اے میرے معبود! آپ کو مجھ سے مَحبت رکھنے کی قَسم، مجھ پر رحم فرمادیجیے، عطاءؒ نے یہ سن کرفرمایا کہ: لونڈی! یوں کہہ: اے اللہ! مجھے آپ سے مَحبت رکھنے کی قَسم، یہ سُن کر اُس کوغُصَّہ آیا اور کہنے لگی: اُس کے حق کی قَسم! اگر اُس کو مجھ سے محبت نہ ہوتی تو تمھیں یوں میٹھی نیند نہ سلاتا اور مجھے یوں کھڑا نہ کرتا، اِس کے بعد اُس نے یہ اشعار پڑھے:
اَلْکَرْبُ مُجتَمِعٌ وَالقَلْبُ مُحتَرِقٌ
ء
وَالصَّبرُ مُفتَرِقٌ وَالدَّمْعُ مُستَبِقٌ
کَیفَ القَرَارُ عَلیٰ مَن لَا قَرَارَ لَہٗ
ء
مِمَّا جَنَاہُ الهَویٰ وَالشَّوقُ وَالقَلَقُ
یَارَبِّ! إنْ کَانَ شَيئٌ فِیہِ لِيفَرَجٌ
ء
فَامنُن عَلَيَّ بِہٖ مَا دَامَ بِي رَمَقُ
ترجَمہ:بے چینی جمع ہورہی ہے اور دِل جَل رہا ہے، اور صبر جُدا ہوگیا اور آنسو بہہ رہے ہیں، اُس کو کس طرح قرار آسکتا ہے جس کو عِشق وشوق اور بے چینی کے حملوں کی وجہ سے ذرا بھی سکون نہیں!۔ اے اللہ! اگر کوئی چیز ایسی ہوسکتی ہے جس میں غم سے نجات ہوتو زندگی میں اُس کو عطا فرماکر مجھ پر احسان فرما۔
اِس کے بعد اُس نے کہا: اے اللہ! میرااور آپ کا مُعاملہ اب راز میں نہیں رہا، مجھے اُٹھالیجیے، یہ کہہ کر ایک چیخ ماری اور مرگئی۔
اِس قِسم کے اَور بھی بہت سے واقعات ہیں، اورکھلی ہوئی بات ہے کہ، توفیق جب تک شاملِ حال نہ ہو، کیا ہوسکتاہے؟ ﴿وَمَا تَشَائُ وْنَ إِلَّا أَن یَّشَائَ اللہُ رَبُّ العَالَمِینَ﴾:اور تم بِدونِ خدائے ربُّ العالمین کے چاہے کچھ نہیں چاہ سکتے ہو۔
(۱۳) عَن ابنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: لَیسَ عَلیٰ أَهلِ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحشَۃٌ فِي قُبُورِهِم وَلَا مَنشَرِهِم، وَکَأَنِّيْ أَنظُرُ إِلیٰ أَهلِ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَهُم یَنفُضُونَ التُّرَابَ عَن رُؤُسِهِمْ، وَیَقُولُونَ: اَلحَمدُلِلّٰہِ الَّذِي أَذهَبَ عَنَّا الحَزَنَ. وفي روایۃ: لَیسَ عَلیٰ أَهلِ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحشَۃٌ عِندَ المَوتِ وَلَاعِندَ القَبرِ.
(رواہ الطبراني والبیهقي؛ کلاهما من روایۃ یحییٰ بن عبدالحمید الحماني، وفي متنہ نکارۃ؛ کذا في الترغیب. وذکرہ في الجامع الصغیر بروایۃ الطبراني عن ابن عمر، ورقم لہ بالضعف. وفي أسنی المطالب: رواہ الطبراني وأبو یعلیٰ بسند ضعیف، وفي مجمع الزوائد: رواہ الطبراني، وفي روایۃ: ’’لَیسَ عَلیٰ أَهلِ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحشَۃٌ عِندَ المَوتِ وَلَاعِندَ القَبرِ‘‘، في الأولیٰ یحییٰ الحماني، وفي الأخریٰ مجاشع بن عمر؛ وکلاهما ضعیف. اھ وقال السخاوي في المقاصد الحسنۃ: رواہ أبویعلیٰ والبیهقي في الشعب، والطبراني بسند ضعیف عن ابن عمر اھ. قلت: وما حکم علیہ المنذري بالنکارۃ مبناہ أنہ حمل أهل لا إلہ إلا اللہ علی الظاهر علیٰ کل مسلم، ومعلوم أن بعض المسلمین یُعذَّبون في القبر والحشر، فیکون الحدیث مخالفا للمعروف، فیکون منکرا؛ لکنہ إن أرید بہ المخصوص بهذہ الصفۃ فیکون موافقاً للنصوص الکثیرۃ من القراٰن والحدیث: ﴿فَالسَّابِقُونَ السَّابِقُوْنَ أُولٰئِکَ المُقَرَّبُوْنَ﴾، ﴿وَمِنْہُمْ سَابِقٌ بِالخَیْرَاتِ بِإِذْنِ اللہِ﴾، وَسَبْعُوْنَ أَلْفاً یَدخُلُونَ الجَنَّۃَ بِغَیرِ حِسَابٍ؛ وغیر ذلك من الاٰیات والروایات؛ فالحدیث موافق لها لامخالف، فیکون معروفا لامنکرا. وذکر السیوطي في الجامع الصغیر بروایۃ ابن مردویہ، والبیهقي في البعث عن عمر بلفظ: ’’سَابِقُنَا سَابِقٌ، وَمُقتَصِدُنَا نَاجٍ، وَظَالِمُنَا مَغفُورٌ لَہٗ‘‘، ورقم لہ بالحسن، قلت: ویؤیدہ حدیث: ’’سَبَقَ المُفَرِّدُونَ المُسْتَهْتِرُ ونَ فِي ذِکرِ اللہِ، یَضَعُ الذِّکرُ عَنهُم أَثقَالَهُم، فَیَأْتُونَ یَومَ القِیَامَۃِ خِفَافاً‘‘، رواہ الترمذي والحاکم عن أبي هریرۃ، والطبراني عن أبي الدرداء؛ کذا في الجامع، ورقم لہ بالصحۃ. وفي الاتحاف عن أبيالدرداء موقوفا: اَلَّذِینَ لَاتَزَالُ أَلسِنَتُهُم رَطَبَۃً مِن ذِکرِ اللہِ یَدخُلُونَ الجَنَّۃَ وَهُم یَضحَکُونَ. وفي الجامع الصغیر بروایۃ الحاکم، ورقم لہ بالصحۃ: اَلسَّابِقُ المُقتَصِدُ یَدخُلَانِ الجَنَّۃَ بِغَیرِ حِسَابٍ، وَالظَّالِمُ لِنَفسِہٖ یُحَاسَبُ حِسَاباً یَسِیراً ثُمَّ یُدخَلُ الجَنَّۃَ)
ترجَمہ:حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ والوں پرنہ قبروں میں وَحشت ہے نہ میدانِ حشر میں، اِس وقت گویا وہ منظر میرے سامنے ہے کہ جب وہ اپنے سَروں سے مِٹی جھاڑتے ہوئے (قبروں سے)اُٹھیںگے، اور کہیںگے کہ: تمام تعریف اُس اللہ کے لیے ہے جس نے ہم سے (ہمیشہ کے لیے) رَنج وغم دور کردیا۔ دوسری حدیث میں ہے کہ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ والوں پر نہ موت کے وقت وَحشت ہوگی نہ قبر کے وقت۔
وَحشت: گھبراہٹ۔ بھید: پوشیدہ باتیں۔ اِظہارِ شَرافت: بزرگی کو ظاہر کرنا۔ مَقبَرے: قبرستان۔ کَیری: نیلا یا فاختہ رنگ۔ بِکری: تجارت۔
فائدہ: حضرت ابنِ عباس ص فرماتے ہیں کہ: ایک مرتبہ حضرت جبرئیل ں حضورِ اقدس ﷺکے پاس تشریف لائے، حضورﷺ نہایت غمگین تھے، حضرت جبرئیلں نے عرض کیا کہ: اللہ دنے آپ کو سلام فرمایا ہے، اور ارشاد فرمایا کہ: آپ کو رنجیدہ اور غمگین دیکھ رہا ہوں،یہ کیا بات ہے؟ (حالاںکہ حق تَعَالیٰ شَانُہٗدِلوں کے بھید جاننے والے ہیں؛ لیکن اِکرام واِعزاز اور اِظہارِ شَرافت کے واسطے اِس قِسم کے سوال کرائے جاتے تھے) حضور ﷺ نے اِرشاد فرمایا کہ: جبرئیل! مجھے اپنی اُمَّت کا فکر بہت بڑھ رہا ہے، کہ قِیامت میں اُن کا کیا حال ہوگا؟ حضرت جبرئیلں نے دریافت کیا کہ: کُفَّار کے بارے میں یا مسلمانوں کے بارے میں؟ حضورﷺنے اِرشاد فرمایا کہ: مسلمانوں کے بارے میں فکر ہے، حضرت جبرئیلںنے حضورﷺ کو ساتھ لیا اور ایک مَقبَرے پر تشریف لے گئے، جہاں قبیلۂ بنو سلمہ کے لوگ دفن تھے، حضرت جبرئیلں نے ایک قبر پر ایک پَر مارا اور ارشاد فرمایا کہ: قُمْ بِإِذنِ اللہِ: (اللہ کے حکم سے کھڑا ہوجا)،اُس قبر سے ایک شخص نہایت حَسِین، خوب صورت چہرے والا اُٹھا، وہ کہہ رہا تھا: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ، مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہِ، اَلحَمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِینَ، حضرت جبرئیل ںنے ارشاد فرمایا کہ: اپنی جگہ لوٹ جا، وہ چلا گیا؛ پھر دوسری قبر پر دوسرا پَر مارا اور ارشاد فرمایا کہ: اللہ کے حکم سے کھڑا ہوجا، اُس میں سے ایک شخص نہایت بد صورت، کالا منھ، کَیری آنکھوں والا کھڑا ہوا، وہ کہہ رہا تھا: ہائے افسوس! ہائے شرمندگی! ہائے مصیبت!! پھر حضرت جبرئیل ں نے فرمایا: اپنی جگہ لوٹ جا، اِس کے بعد حضورِاقدس ﷺ سے عرض کیا کہ: جس حالت پر یہ لوگ مرتے ہیں اُسی حالت پر اُٹھیںگے۔ (۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
حدیثِ بالا میں لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُوالوں سے بہ ظاہر وہ لوگ مراد ہیں جن کو اِس پاک کلمے کے ساتھ خصوصی لَگاؤ، خصوصی مُناسَبت، خُصوصی اِشتِغال ہو؛ اِس لیے کہ دودھ والا، جوتوں والا، موتی والا، برف والا وہی شخص کہلاتا ہے جس کے یہاں اِن چیزوں کی خُصوصی بِکری اور خصوصی ذَخیرہ موجود ہو؛ اِس لیے لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ والوں کے ساتھ اِس مُعاملے میں کوئی اِشکال نہیں۔
قرآنِ پاک میں سورۂ فاطر میں اِس اُمَّت کے تین طبقے بیان فرمائے ہیں: ایک طبقہ سَابِقٌ بِالخَیرَاتِ کا بیان فرمایا، جن کے مُتعلِّق حدیث میں آیا ہے کہ: وہ بے حساب جنت میں داخل ہوںگے۔ ایک حدیث میں وارد ہے کہ: جو شخص سو مرتبہ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ پڑھا کرے اُس کو حق تَعَالیٰ شَانُہٗ قِیامت کے دن ایسی حالت میں اُٹھائیں گے کہ چودھویں رات کے چاند کی طرح اُن کاچہرہ روشن ہوگا۔
حضرت ابودَرداء ص فرماتے ہیں کہ: جن لوگوں کی زبانیں اللہ کے ذِکر سے تَروتازہ رہتی ہیں وہ جنت میں ہنستے ہوئے داخل ہوں گے۔
(ابن مبارک،ابواب الزہد،۔۔۔۔۔۔حدیث:۱۱۲۶)
(۱۴) عَن عَبدِاللہِ بنِ عَمروٍ بنِ العَاصِ أَنَّ رَسُولَ اللہِﷺ قَالَ: إِنَّ اللہَ یَستَخْلِصُ رَجُلًا مِن أُمَّتِي عَلیٰ رُءُ وْسِ الخَلَائِقِ یَومَ القِیَامَۃِ، فَیَنشُرُ عَلَیہِ تِسعَۃً وَّتِسعِینَ سِجِلًّا، کُلُّ سِجِلٍّ مِثلَ مَدِّ البَصَرِ، ثُمَّ یَقُولُ: أَتُنکِرُ مِنْ هٰذَا شَیئًا؟ أَظَلَمَكَ کَتَبَتِيَ الحَافِظُونَ؟ فَیَقُولُ: لَا، یَارَبِّ! فَیَقُولُ: أَفَلَكَ عُذرٌ؟ فَیَقُولُ: لَا، یَارَبِّ! فَیَقُولُ اللہُ تَعَالیٰ: بَلیٰ! إِنَّ لَكَ عِندَنَا حَسَنَۃٌ، فَإِنَّہٗ لَاظُلْمَ عَلَیكَ الیَومَ، فَتُخرَجُ بِطَاقَۃٌ، فِیهَا: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ، وَأَشهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبدُہٗ وَرَسُولُہٗ، فَیَقُولُ: اُحضُرْ وَزَنَكَ، فَیَقُولُ: یَارَبِّ! مَاهٰذِہِ البِطَاقَۃُ مَعَ هٰذِہِ السِّجِلَّاتِ؟ فَقَالَ: فَإِنَّكَ لَاتُظلَمُ الیَومَ، فَتُوضَعُ السِّجِلَّاتُ فِي کَفَّۃٍ وَالِبطَاقَۃُ فِي کَفَّۃٍ، فَطَاشَتِ السِّجِلَّاتُ وَثَقُلَتِ البِطَاقَۃُ؛ فَلَا یَثقُلُ مَعَ اللہِ شَيئٌ.
(رواہ الترمذي، وقال: حسن غریب، وابن ماجہ، وابن حبان في صحیحہ، والبیهقي، والحاکم وقال: صحیح علیٰ شرط مسلم؛ کذا في الترغیب. قلت:کذا قال الحاکم في کتاب الإیمان، وأخرجہ أیضا في کتاب الدعوات، وقال: صحیح الإسناد، وأقرہ في الموضعین الذهبي، وفي المشکاۃ أخرجہ بروایۃ الترمذي وابن ماجہ، وزاد السیوطي في الدر في من عزاہ إلیهم أحمد، وابن مردویہ واللألکائي والبیهقي في البعث، وفیہ اختلاف في بعض الألفاظ، کقولہ في أول الحدیث: ’’یُصَاحُ بِرَجُلٍ مِن أُمَّتِي عَلیٰ رُءُ وْسِ الخَلَائِقِ‘‘، وفیہ أیضا: ’’فَیَقُولُ: أَفَلَكَ عُذرٌ أَو حَسَنَۃٌ؟ فَیُهَابُ الرَّجُلُ، فَیَقُولُ: لَا، یَارَبِّ! فَیَقُولُ: بَلیٰ! إِنَّ لَكَ عِندَنَا حَسَنَۃٌ. الحدیث. وعلم منہ أن الاستدراك في الحدیث علیٰ محلہ، ولاحاجۃ إذا إلیٰ ما أولہ القاري في المرقاۃ، وذکر السیوطي ما یؤید الروایۃ من الروایات الأخر)
ترجَمہ:
حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: حق تَعَالیٰ شَانُہٗ قِیامت کے دن میری اُمَّت میں سے ایک شخص کو مُنتخب فرماکر تمام دنیا کے سامنے بلائیں گے، اور اُس کے سامنے نَنانوے دفتر اَعمال کے کھولیں گے، ہر دفتر اِتنا بڑا ہوگا کہ مُنتہائے نظر تک (یعنی جہاں تک نگاہ جاسکے وہاں تک) پھیلا ہوا ہوگا، اِس کے بعد اُس سے سوال کیاجائے گا کہ: اِن اعمال ناموں میں سے تُو کسی چیز کا انکار کرتا ہے؟ کیا میرے اُن فرشتوں نے جو اعمال لکھنے پر مُتعَیَّن تھے تجھ پر کچھ ظلم کیا ہے؟ (کہ کوئی گناہ بغیر کیے ہوئے لکھ لیا ہو، یا کرنے سے زیادہ لکھ لیا ہو؟)وہ عرض کرے گا: نہیں، (نہ اِنکار کی گنجائش ہے نہ فرشتوں نے ظلم کیا)، پھر ارشاد ہوگا کہ: تیرے پاس اِن بداعمالیوں کا کوئی عذر ہے؟ وہ عرض کرے گا کہ: کوئی عذر بھی نہیں، ارشاد ہوگا:اچھا! تیری ایک نیکی ہمارے پاس ہے، آج تجھ پر کوئی ظلم نہیں ہے، پھر ایک کاغذ کا پُرزہ[ٹکڑا] نکالا جائے گا جس میں أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَأَشهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبدُہٗ وَرَسُولُہٗ لکھا ہوا ہوگا، ارشاد ہوگا کہ: جا، اِس کو تُلوالے، وہ عرض کرے گا کہ: اِتنے دفتروں کے مُقابلے میں یہ پُرزہ[ٹکڑا] کیا کام دے گا؟ ارشاد ہوگا کہ: آج تجھ پر ظلم نہیں ہوگا، پھر اِن سب دفتروں کو ایک پَلڑے میں رکھ دیا جاوے گا اور دوسری جانب وہ پُرزہ[ٹکڑا] ہوگا، تو دفتروں والا پلڑا اُڑنے لگے گا اُس پُرزے کے وَزن کے مقابلے میں۔ پس بات یہ ہے کہ، اللہ کے نام سے کوئی چیز وزنی نہیں۔
۔۔ مُہلِک: برباد کرنے والا۔ مُقتَدا: امام۔ سِمِّ قاتِل: قتل کردینے والا زَہر۔ مُنہدِم: گِرانا۔ اِعانت: مدد۔ مَکَّار: دھوکے باز۔ کَذَّاب : جھوٹے۔
فائدہ:
یہ اخلاص ہی کی برکت ہے کہ ایک مرتبہ کلمۂ طیبہ اخلاص کے ساتھ کا پڑھا ہوا اُن سب دَفتروں پر غالب آگیا؛ اِسی لیے ضروری ہے کہ آدمی کسی مسلمان کوبھی حقیر نہ سمجھے اور اپنے کو اُس سے اَفضل نہ سمجھے، کیا معلوم کہ اُس کا کون سا عمل اللہ کے یہاں مَقبول ہوجائے جو اُس کی نجات کے لیے کافی ہوجائے؟ اور اپنا حال معلوم نہیں کہ کوئی عمل قابل قبول ہوگا یا نہیں؟۔
حدیث شریف میں ایک قِصَّہ آتا ہے کہ: بنی اسرائیل میں دو آدمی تھے: ایک عابد تھا دوسرا گنہ گار، وہ عابد اُس گنہ گار کو ہمیشہ ٹوکا کرتا تھا، وہ کہہ دیتا کہ: مجھے میرے خدا پر چھوڑ، ایک دن اُس عابد نے غُصے میں آکر کہہ دیا کہ: خدا کی قَسم! تیری مَغفِرت کبھی نہیں ہوگی، حق تَعَالیٰ شَانُہٗ نے عالَمِ ارواح میںدونوں کو جمع فرمایا، اور گنہگار کو اِس لیے کہ وہ رحمت کا اُمیدوار تھا، مُعاف فرمایا، اور عابد کو اِس قََسم کھانے کی پاداش[سزا] میں عذاب کا حکم فرمادیا۔
(مسلم،باب فضل الضعفاء والخاملین، کتاب البر والصلۃ، ۲؍۳۲۹حدیث:۲۶۲۱)
اور اِس میں کیا شک ہے کہ یہ قَسَم نہایت سخت تھی، خود حق تَعَالیٰ شَانُہٗ تو ارشاد فرمائیں: ﴿إِنَّ اللہَ لَایَغفِرُ أَن یُّشْرَکَ بِہٖ، وَیَغفِرُ مَادُونَ ذٰلِکَ لِمَن یَّشَآئُ﴾ (حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کُفر وشِرک کی مَغفِرت نہیں فرمائیں گے، اِس کے عِلاوہ ہر گناہ کی جس کے لیے چاہیں گے مغفرت فرماویں گے) تو کسی کو کیا حق ہے یہ کہنے کا کہ: فلاں کی مغفرت نہیں ہوسکتی؟ لیکن اِس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ مَعاصی پر، گناہوں پر، ناجائز باتوں پر گِرفت[پکڑ] نہ کی جائے، ٹوکا نہ جائے، قرآن وحدیث میں سیکڑوں جگہ اِس کا حکم ہے، نہ ٹوکنے پر وَعید ہے۔
احادیث میں بہ کثرت آیا ہے کہ: جو لوگ کسی گناہ کو کرتے دیکھیں اور اُس کے روکنے پر قادر ہوں اور نہ روکیں تو وہ خود اُس کی سزا میں مبتلا ہوںگے، عذاب میں شریک ہوں گے۔
(ابوداؤد،کتاب الملاحم،باب الأمر والنہي،ص:۵۹۶،حدیث:۴۳۳۹)
اِس مضمون کو مَیں اپنے رسالہ ’’تبلیغ‘‘ میں مُفصَّل لکھ چکا ہوں، جس کا دل چاہے اُس کو دیکھے۔ یہاں ایک ضروری چیز یہ بھی قابلِ لحاظ ہے کہ جہاں دِین داروں کا گنہ گاروں کو قَطعی[یقینی] جہنَّمی سمجھ لینا مُہلِک ہے، وہاں جُہَلا کا ہر شخص کو مُقتَدا اور بڑا بنالینا خواہ کتنے ہی کُفرِیات بکے، سِمِّ قاتِل اور نہایت مُہلِک ہے۔
نبیٔ اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: جو شخص کسی بدعتی کی تعظیم کرتا ہے وہ اسلام کے مُنہدِم کرنے پر اِعانت کرتا ہے۔
(طبرانی،۔۔۔۔۔۔۔حدیث:۶۷۷۲)
بہت سی احادیث میں آیا ہے کہ: آخر زمانے میں دَجَّال، مَکَّار ، کَذَّاب پیدا ہوں گے، جو ایسی احادیث تم کو سناویں گے جو تم نے نہ سنی ہوں گی، ایسا نہ ہو کہ وہ تم کو گمراہ کریں اور فتنے میں ڈال دیں۔
(مقدمۂ مسلم،باب النہي عن الروایۃ عن الضعفاء والاحتیاط فیہا،۱؍۹حدیث:۷)
(۱۵) عَن ابنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: وَالَّذِي نَفسِي بِیَدِہٖ لَو جِيئَ بِالسَّمٰوَاتِ وَالأَرضِ وَمَن فِیهِنَّ وَمَابَینَهُنَّ وَمَاتَحتَهُنَّ، فَوُضِعْنَ فِي کَفَّۃِ المِیزَانِ وَوُضِعَتْ شَهَادَۃُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ فِي الکَفَّۃِ الأُخْریٰ لَرَجَحَتْ بِهِنَّ.
(أخرجہ الطبراني، کذا في الدر، وهکذا في مجمع الزوائد، وزاد في أولہ: لَقِّنُوا مَوتَاکُمْ شَهَادَۃَ أَن لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ، فَمَنْ قَالَهَا عِندَ مَوتِہٖ وَجَبَتْ لَہُ الجَنَّۃُ، قَالُوْا: یَا رَسُولَ اللہِ! فَمَنْ قَالَهَا فِي صِحَّتِہٖ؟ قَالَ: تِلْكَ أَوجَبُ وَأَوجَبُ، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِي نَفسِيْ بِیَدِہٖ. الحدیث. قال: رواہ الطبراني ورجالہ ثقات؛ إلا أن ابن أبي طلحۃ لم یسمع من ابن عباس)
ترجَمہ:
حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: اُس پاک ذات کی قَسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر تمام آسمان وزمین اور جو لوگ اُن کے درمیان میں ہیں وہ سب، اور جو چیزیں اُن کے درمیان میں ہیں وہ سب کچھ، اور جو کچھ اُن کو نیچے ہے وہ سب کا سب ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے، اور لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کا اقرار دوسری جانب ہو، تو وہی تول میں بڑھ جائے گا۔
فائدہ:
اِس قِسم کا مضمون بہت سی مختلف روایتوں میں ذکر کیا گیا ہے، اِس میں شک نہیں کہ اللہ کے پاک نام کے برابر کوئی بھی چیز نہیں، بدقِسمتی اور محرومی ہے اُن لوگوں کی جو اِس کو ہلکا سمجھتے ہیں۔ البتہ اِس میں وزن اخلاص سے پیدا ہوتا ہے، جس قدر اخلاص ہوگا اُتنا ہی وزنی یہ پاک نام ہوسکتاہے، اِسی اِخلاص کے پیدا کرنے کے واسطے مشائخِ صوفیا کی جوتیاںسیدھی کرنا پڑتی ہے۔ ایک حدیث میں اِس ارشادِ خداوندی سے پہلے ایک اَور مضمون مذکور ہے، وہ یہ کہ: حضور ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا کہ: مَیِّت کو لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ تَلقِین کیا کرو، جو شخص مرتے وقت اِس پاک کلمے کو کہتا ہے اُس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے، صحابہ ث نے عرض کیا: یا رسولَ اللہ! اگر کوئی تندرستی ہی میں کہے؟ حضور ﷺ نے فرمایا: پھر تو اَور بھی زیادہ جنت کو واجب کرنے والا ہے، اِس کے بعد یہ قَسَمِیہ مضمون ارشاد فرمایا جو اوپر ذکرکیا گیا۔
(طبرانی،۱۲؍۲۵۴حدیث:۱۳۰۲۴)
(۱۶) عَن اِبنِ عَبَّاسٍ قَالَ: جَاءَ النُّخَامُ ابنُ زَیدٍ، قُرَدُ بنُ کَعبٍ، وَبَحرِيُّ بنُ عَمروٍ؛ فَقَالُوا: یَامُحَمَّدُ! مَاتَعلَمُ مَعَ اللہِ إِلٰهاً غَیرَہٗ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللہِﷺ:لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ، بِذٰلِكَ بُعِثتُ، وَإِلیٰ ذٰلِكَ أَدعُوْ، فَأَنْزَلَ اللہُ تَعَالیٰ فِي قَولِهِم: ﴿قُلْ أَيُّ شَيْئٍ أَکْبَرُ شَهَادۃً﴾ الاٰیَۃَ.
(أخرجہ ابن اسحاق، وابن المنذر، وابن أبي حاتم، وأبو الشیخ؛ کذا في الدر المنثور)
ترجَمہ:
حضورِ اقدس ﷺ کی خدمت میں ایک مرتبہ تین کافر حاضر ہوئے اور پوچھا کہ: اے محمد !تم اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں جانتے (نہیں مانتے)؟ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ (نہیں کوئی معبود اللہ کے سِوا)، اِسی کلمے کے ساتھ مَیں مَبعُوث ہُوا ہُوں، اور اِسی کی طرف لوگوں کو بُلاتاہوں؛ اِسی بارے میں آیت:﴿قُلْ أَيُّ شَيْئٍ أَکْبَرُ شَهَادۃً﴾ نازل ہوئی۔
فائدہ:
حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: اِسی کلمے کے ساتھ مَیں مبعوث ہوا ہوں یعنی نبی بناکر بھیجا گیا ہوں، اور اِسی کلمے کی طرف لوگوں کو بلاتا ہوں، حضور ﷺ کے ارشاد کا یہ مطلب نہیں کہ: حضور ﷺ کی اِس میں خُصوصِیَّت ہے؛ بلکہ سارے ہی نبی اِسی کلمے کے ساتھ نبی بناکر بھیجے گئے، اور سب ہی اَنبیا نے اِسی کلمے کی طرف دعوت دی ہے، حضرت آدم عَلیٰ نَبِیِّنَا وَعَلَیہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ سے لے کر خَتمُ الانبیاء، فخرِ رُسل ﷺ تک کوئی بھی نبی ایسا نہیں ہے جو اِس مبارک کلمے کی دعوت نہ دیتا ہو۔ کس قدر بابرکت اور مُہتَم بِالشَّان[نہایت اہم] کلمہ ہے! کہ سارے انبیاء اور سارے سچے مذہب اِسی پاک کلمے کی طرف بُلانے والے اور اُس کے شائع کرنے والے رہے۔ آخر کوئی تو بات ہے کہ اِس سے کوئی بھی سچا مذہب خالی نہیں، اِسی کلمے کی تصدیق میں قرآن پاک کی آیت ﴿قُلْ أَيُّ شَيْئٍ أَکْبَرُ شَهَادۃً﴾ [الأنعام، ع:۲]نازل ہوئی، جس میں نبیٔ اکرم ﷺکی تصدیق میں حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کی گواہی کا ذکر ہے۔ ایک حدیث میں وارد ہے کہ: جب بندہ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کہتا ہے تو حق تَعَالیٰ شَانُہٗاُس کی تصدِیق فرماتے ہیں، اور ارشاد فرماتے ہیں: میرے بندے نے سچ کہا ہے، میرے سِوا کوئی معبود نہیں۔
(ترمذی،ابواب الدعوات،باب مایقول العبد إذا مرض،۲؍۱۸۱حدیث:۳۴۳۰)
(۱۷) عَن لَیثٍ قَالَ: قَالَ عِیسَی بنُ مَریَمَں:أُمَّۃُ مُحَمَّدٍ (ﷺ) أَثْقَلُ النَّاسِ فِي المِیزَانِ، ذَلَّتْ أَلسِنَتُهُم بِکَلِمَۃٍ ثَقُلَتْ عَلیٰ مَن کَانَ قَبلَهُم: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ.
(أخرج الأصبهاني في الترغیب؛ کذا في الدر)
ترجَمہ:
حضرت عیسیٰ عَلیٰ نَبِیِّنَا وَعَلَیہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ فرماتے ہیں کہ: محمد ﷺ کی اُمَّت کے اعمال (حَشر کی ترازُومیں اِس لیے )سب سے زیادہ بھاری ہیں کہ، اُن کی زبانیں ایک ایسے کلمے کی ساتھ مانُوس[عادی] ہیں جو اِن سے پہلی اُمَّتوں پر بھاری تھا، وہ کلمہ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ ہے۔
۔ تردُّد: شک۔ تردُّد: شک۔ مُنقاد: فرماں بردار۔
فائدہ: یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ اُمَّتِ محمَّدیہ -عَلیٰ صَاحِبِهَا أَلفُ أَلفُ صَلَاۃٍ وَتَحِیَّۃٍ- کے درمیان کلمۂ طیبہ کا جتنا زور اور کثرت ہے کسی اُمَّت میں بھی اِتنی کثرت نہیں ہے، مشائخِ سلوک کی لاکھوں نہیں، کڑوڑوں کی مقدار ہے، اور پھر ہر شیخ کے کم وبیش سیکڑوں مرید، اور تقریباً سب ہی کے یہاں کلمۂ طیبہ کا وِرد ہزاروں کی مقدار میں روزانہ کے معمولات میں داخل ہے۔ ’’جامعُ الاصول‘‘ میں لکھا ہے کہ: لفظ ِ’’اللہ‘‘ کاذکر وِرد کے طور پر کم از کم پانچ ہزار کی مقدار ہے، اور زیادہ کے لیے کوئی حد نہیں، اور صوفیا کے لیے کم از کم پچیس ہزار روزانہ؛ اورلَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کی مقدار کے متعلِّق لکھا ہے کہ: کم ازکم پانچ ہزار روزانہ ہو۔ یہ مقداریں مشائخِ سلوک کی تجویز(رائے) کے موافق کم وبیش ہوتی رہتی ہے، میرا مقصود حضرت عیسیٰ عَلیٰ نَبِیِّنَا وَعَلَیہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ کی تائید میں مشائخ کا انداز بیان کرنا ہے، کہ ایک ایک شخص کے لیے روزانہ کی مقداریں کم از کم یہ بتائی گئی ہیں۔ ہمارے حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے ’’قولِ جمیل‘‘ میں اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ: مَیں ابتدائے سلوک میں ایک سانس میں لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ دوسو مرتبہ کہا کرتا تھا۔
شیخ ابویزید قُرطُبیؒ فرماتے ہیں: مَیں نے یہ سنا کہ: جو شخص سَتَّر ہزار مرتبہ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ پڑھے اُس کو دوزخ کی آگ سے نجات ملے، مَیں نے یہ خبر سن کر ایک نصاب یعنی ستر ہزار کی تعداد اپنی بیوی کے لیے بھی پڑھا، اور کئی نصاب خود اپنے لیے پڑھ کر ذخیرۂ آخرت بنایا، ہمارے پاس ایک نوجوان رہتا تھا، جس کے متعلِّق یہ مشہور تھا کہ: یہ صاحبِ کَشف ہے، جنت دوزخ کا بھی اِس کو کَشف ہوتا ہے، مجھے اُس کی صِحَّت میں کچھ تردُّد تھا، ایک مرتبہ وہ نوجوان ہمارے ساتھ کھانے میں شریک تھا کہ دفعۃً اُس نے ایک چیخ ماری اور سانس پھولنے لگا، اور کہا کہ: میری ماںدوزخ میں جل رہی ہے اُس کی حالت مجھے نظر آئی، قُرطُبیؒ کہتے ہیں کہ: مَیں اُس کی گھبراہٹ دیکھ رہا تھا، مجھے خیال آیا کہ ایک نصاب اُس کی ماں کو بخش دوں جس سے اِس کی سچائی کا بھی مجھے تجربہ ہوجائے گا؛ چناںچہ مَیں نے ایک نصاب سَتَّر ہزار کا -اُن نصابوں میں سے جو اپنے لیے پڑھے تھے- اُس کی ماں کو بخش دیا، مَیں نے اپنے دل میں چُپکے ہی سے بخشا تھا اور میرے اِس پڑھنے کی خبر بھی اللہ کے سِوا کسی کو نہ تھی؛ مگر وہ نوجوان فوراً کہنے لگا: چچا! میری ماں دوزخ کے عذاب سے ہٹادی گئی۔ قرطبیؒ کہتے ہیں کہ: مجھے اِس قِصَّے سے دوفائدے ہوئے: ایک تو اُس برکت کا جو سَتَّر ہزار کی مقدار پر مَیں نے سنی تھی، اُس کاتجربہ ہوا، دوسرے: اُس نوجوان کی سچائی کا یقین ہوگیا۔
(روض الریاحین،ص:۲۱۹حکایت:۳۴۸)
یہ ایک واقعہ ہے، اِس قِسم کے نہ معلوم کتنے واقعات اِس اُمَّت کے اَفراد میں پائے جاتے ہیں!!۔
صوفیا کی اِصطِلاح میں ایک معمولی چیز ’’پاس اَنفاس‘‘ ہے، یعنی اِس کی مشق کہ کوئی سانس اللہ کے ذکر بغیر نہ اندر جائے نہ باہر آئے، اُمتِ محمدیہ ﷺکے کڑوڑوں افراد ایسے ہیں جن کو اِس کی مشق حاصل ہے، تو پھر کیا تردُّد ہے حضرت عیسیٰ عَلیٰ نَبِیِّنَا وَعَلَیہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ کے اِس ارشاد میں کہ: اُن کی زبانیں اِس کلمۂ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کے ساتھ مانوس اور مُنقاد ہوگئیں!۔
(۱۸) عَن ابنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِﷺ قَالَ: مَکتُوبٌ عَلیٰ بَابِ الجَنَّۃِ: إِنَّنِيْ أَنَا اللہُ، لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنَا، لَا أُعَذِّبُ مَن قَالَهَا. (أخرجہ أبو الشیخ، کذا في الدر)
ترجَمہ: حضورِاقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: جنت کے دروازے پر لکھا ہوا ہے: إِنَّنِيْ أَنَا اللہُ، لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنَا، لَا أُعَذِّبُ مَن قَالَهَا: مَیں ہی اللہ ہوں، میرے سِوا کوئی معبود نہیں، جو شخص اِس کلمے کو کہتا رہے گا مَیں اُس کو عذاب نہیں کروںگا۔
فائدہ: گناہوں پر عذاب کا ہونا دوسری احادیث میں بہ کثرت آیا ہے؛ اِس لیے اِس سے اگر دائمی[ہمیشہ کی] عذاب مراد ہوتو کوئی اشکال نہیں؛ لیکن کوئی خوش قسمت ایسے اِخلاص سے اِس جملے کا وِرد رکھنے والا ہو کہ باوجود گناہوں کے اُس کو بالکل عذاب نہ کیا جائے، یہ بھی رحمتِ خداوندی سے بعید نہیں ہے، جیسا حدیث نمبر ۱۴؍ میں گزرا۔ اِس کے عِلاوہ نمبر ۹؍ میں بھی کچھ تفصیل گزرچکی ہے۔
(۱۹)عَن عَلِيٍّ قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللہِﷺ عَن جِبرَئِیلَں قَالَ: قَالَ اللہُ عَزَّوَجَلَّ: إِنِّي أَنَا اللہُ، لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنَا فَاعبُدنِي، مَن جَاءَ نِي مِنکُم بِشَهَادَۃِ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ بِالإخلَاصِ دَخَلَ فِي حِصنِي، وَمَن دَخَلَ حِصنِي أَمِنَ عَذَابِيْ.
(أخرجہ أبونعیم في الحلیۃ، کذا في الدر، وابن عساکر، کذا في الجامع الصغیر، وفیہ أیضا بروایۃ الشیرازي عن علي، ورقم لہ بالصحۃ. وفي الباب عن عتبان ابن مالك بلفظ: ’’أَنَّ اللہَ قَد حَرَّمَ عَلَی النَّارِ مَن قَالَ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ یَبتَغِي بِذٰلِكَ وَجہُ اللہِ‘‘، رواہ الشیخان، وعن ابن عمر بلفظ: أَنَّ اللہَ لَایُعَذِّبُ مِن عِبَادِہٖ إِلَّا المَارِدَ المُتَمَرِّدَ، الَّذِي یَتَمَرَّدُ عَلَی اللہِ وَأَبیٰ أَن یَّقُولَ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ. رواہ ابن ماجہ)
ترجَمہ:حضور ِاقدس ﷺ حضرت جبرئیل ں سے نقل کرتے ہیں کہ: اللہدکا ارشاد ہے کہ: مَیں ہی اللہ ہوں، میرے سِوا کوئی معبود نہیں؛ لہٰذا میری ہی عبادت کیا کرو، جو شخص تم میں سے اخلاص کے ساتھ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کی گواہی دیتا ہوا آوے گا وہ میرے قلعے میں داخل ہوجائے گا، اور جو میرے قلعے میںداخل ہوگا وہ میرے عذاب سے مامون ہوگا۔
مامون: محفوظ۔ ہیکڑی: سرکَشی۔
فائدہ:اگر یہ بھی کبائر سے بچنے کے ساتھ مَشرُوط ہے -جیسا کہ حدیث نمبر ۵؍ میں گزر چکا- تب تو کوئی اشکال ہی نہیں، اور اگر کَبائر کے باوجود یہ کلمہ کہے تو پھر قواعد کے موافق تو عذاب سے مراد دائمی[ہمیشہ] عذاب ہے، ہاں! اللہ جَلَّ شَانُہٗ کی رحمت قواعد کی پابند نہیں، قرآن پاک کا صاف ارشاد ہے کہ: اللہجَلَّ شَانُہٗ شِرک کو مُعاف نہیں فرمائیں گے، اِس کے عِلاوہ جس کو چاہیں گے مُعاف کر دیں گے۔
چناںچہ ایک حدیث میں ہے کہ: حق تَعَالیٰ شَانُہٗاُسی شخص کو عذاب کرتے ہیں جو اللہ پر تَمرُّد (ہیکڑی)کرے، اور لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کہنے سے اِنکار کرے۔
(ابن ماجہ،ابواب الزہد،باب مایرجیٰ من رحمۃ اللہ یوم القیامۃ،ص:۳۱۸،حدیث:۴۲۹۷)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ حق تَعَالیٰ شَانُہٗکے غُصَّے کو دُور کرتا ہے جب تک کہ دنیا کو دِین پر ترجیح دینے نہ لگیں، اور جب دنیا کو دِین پر ترجیح دینے لگیں اور لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کہتے رہیں تو حقتَعَالیٰ شَانُہٗ فرماتے ہیں کہ: تم اپنے دعوے میں سچے نہیں ہو۔(کنز العمال۱؍۶۲حدیث:۲۲۱)
(۲۰) عَن عَبدِاللہِ بنِ عَمروٍ عَنِ النَّبِيِّﷺ قَالَ: أَفضَلُ الذِّکرِ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ، أَفضَلُ الدُّعَاءِ اَلاِستِغفَارُ، ثُمَّ قَرَأَ: ﴿فَاعْلَمْ أَنَّہٗ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاسْتَغفِرْ لِذَنْبِکَ﴾ اَلاٰیَۃ.
(أخرجہ الطبراني، وابن مردویہ، والدیلمي؛ کذا في الدر. وفي الجامع الصغیر بروایۃ الطبراني: ’’مَا مِنَ الذِّکرِ أَفضَلُ مِن لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ ، وَلَا مِنَ الدُّعَاءِ أَفضَلُ مِنَ الاِستِغفَارِ‘‘. ورقم لہ بالحسن)
ترجَمہ: حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: تمام ذکروں میں افضل لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ ہے، اور تمام دُعاؤں میں افضل اِستِغفار ہے؛ پھر اِس کی تائید میں سورۂ محمد کی آیت: ﴿فَاعْلَمْ أَنَّہٗ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاسْتَغفِرْ لِذَنْبِکَ﴾تلاوت فرمائی۔
فائدہ: اِس فَصل کی سب سے پہلی حدیث میں بھی یہ مضمون گزر چکا ہے کہ: لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ سب اَذکار سے اَفضل ہے، جس کی وجہ صوفِیا نے یہ لکھی ہے کہ: دل کے پاک ہونے میں اِس ذکر کو خاص مُناسَبت ہے، اِس کی برکت سے دل کی ساری ہی گندگیوں سے پاک ہوجاتا ہے، اور جب اِس کے ساتھ اِستِغفار بھی شامل ہوجائے تو پھر کیا ہی کہنا!۔
ایک حدیث میں وارد ہے کہ: حضرت یونس ں کو جب مچھلی نے کھا لیا تھا، تو اُس کے پیٹ میں اُن کی دعا یہ تھی: ﴿لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنتَ سُبحَانَکَ، إِنِّي کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِینَ﴾، جو شخص بھی اِن الفاظ سے دعا مانگے گا وہ ضرور قَبول ہوگی۔ (ترمذی،ابواب الدعوات،باب دعوۃ ذی النون،۲؍۱۸۸حدیث:۳۵۰۵)
مَضرَّتیں: نقصانات۔
اِس فصل کی سب سے پہلی حدیث میں بھی یہ مضمون گزرا ہے کہ: سب سے افضل اور بہترین ذکر لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ ہے؛ لیکن وہاں سب سے افضل دعا اَلحَمدُ لِلّٰہِارشاد ہوا تھا اور یہاں اِستغفار وارد ہے، اِس قِسم کا اختلاف حالات کے اعتبار سے بھی ہوتا ہے، ایک مُتقی، پرہیزگار ہے، اُس کے لیے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِسب سے افضل ہے، ایک گنہ گار ہے، وہ توبہ اور استغفار کابہت محتاج ہے، اُس کے حق میں اِستغفار سب سے اہم ہے۔ اِس کے عِلاوہ اَفضَلِیَّت بھی مختلف وُجوہ سے ہوتی ہے، مَنافِع کے حاصل کرنے کے واسطے اللہ کی حَمدوثنا سب سے زیادہ نافع ہے، اور مَضرَّتیں اور تنگیاں دُور کرنے کے لیے اِستغفار سب سے زیادہ مُفِید ہے؛ اِن کے عِلاوہ اَور بھی وُجوہ اِس قِسم کے اِختلاف کی ہوتی ہیں۔
(۲۱) عَن أَبِي بَکرٍ الصِّدِّیقِ عَن رَسُولِ اللہِﷺ: عَلَیکُمْ بِلَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَالاِستِغفَارَ، فَأَکثِرُوا مِنهُمَا، فَإنَّ إِبلِیسَ قَالَ: أَهلَکتُ النَّاسَ بِالذُّنُوبِ وَأَهلَکُونِي بِلَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَالاِستِغفَارَ، فَلَمَّا رَأَیتُ ذٰلِكَ أَهلَکْتُهُمْ بِالأَهوَاءِ وَهُم یَحسَبُونَ أَنَّهُم مُّهتَدُونَ.
(أخرجہ أبویعلیٰ، کذا في الدر. والجامع الصغیر، ورقم لہ بالضعف)
ترجَمہ: حضرت ابوبکر صدیق ص حضور ِاقدس ﷺسے نقل کرتے ہیں کہ: لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ اور اِستِغفار کو بہت کثرت سے پڑھاکرو ،شیطان کہتا ہے کہ: مَیں نے لوگوں کو گناہوں سے ہلاک کیا اور اُنھوں نے مجھے لَاإِلٰہَ إِلَّااللہُ اور اِستغفار سے ہلاک کردیا، جب مَیں نے دیکھا کہ یہ تو کچھ بھی نہ ہوا، تو مَیں نے اُن کو ہَوائے نفس (یعنی بدعات)سے ہلاک کیا، اور وہ اپنے کو ہدایت پر سمجھتے رہے۔
مُنتَہائے مَقصَد: آخری مقصد۔ رائیگاں: ضائع۔ مَذَمَّت: بُرائی۔ دِق: تنگ۔ مُحسِن: اِحسان کرنے والا۔ عَیَّاری: چالاکی۔
فائدہ:لَاإِلٰہَ إِلَّااللہُ اور اِستِغفار سے ہلاک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ، شیطان کا مُنتَہائے مَقصَد دل پر اپنا زَہر چڑھانا ہے، جس کا ذکر بابِ اول فصلِ دوم کے نمبر ۲۴؍ پر گزر چکا، اور یہ زہر جب ہی چڑھتا ہے جب دل اللہ کے ذکر سے خالی ہو؛ ورنہ شیطان کو ذِلَّت کے ساتھ دِل سے واپس ہونا پڑتا ہے، اور اللہ کا ذکر دلوں کی صفائی کا ذریعہ ہے۔
چناںچہ مشکوۃ میں حضورِ اقدس ﷺ سے نقل کیا ہے کہ: ہر چیز کے لیے ایک صَفائی ہوتی ہے، دلوں کی صفائی اللہ کا ذکر ہے۔(شعب الایمان للبیہقی،۔۔۔۔۔۔۔۔حدیث:۵۱۹)
اِسی طرح اِستِغفار کے بارے میں کثرت سے احادیث میں یہ وارد ہوا ہے کہ: وہ دلوں کے مَیل اور زَنگ کو دُور کرنے والا ہے۔(طبرانی،۔۔۔۔۔۔۔حدیث:۶۸۹۴)
ابو علی دَقَّاقؒ کہتے ہیں کہ: جب بندہ اخلاص سے لَا إِلٰہَ کہتا ہے تو ایک دَم دل صاف ہوجاتا ہے (جیسا آئینہ پر بھیگا ہوا کپڑا پھیرا جاوے)،پھر وہ إِلَّا اللہُ کہتا ہے تو صاف دل پر اُس کا نور ظاہر ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ شیطان کی ساری ہی کوشش بے کار ہوگئی، اور ساری محنت رائیگاں گئی۔
ہَوائے نفس سے ہلاک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ، ناحق کوحق سمجھنے لگے، اور جو دل میں آجائے اُسی کو دِین اور مذہب بنالے، قرآن شریف میں کئی جگہ اِس کی مَذَمَّت وارد ہوئی ہے، ایک جگہ ارشاد ہے: ﴿أَفَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلٰهَہُ هَوَاہُ وَأَضَلَّہُ اللہُ عَلیٰ عِلْمٍ، وَّخَتَمَ عَلیٰ سَمْعِہٖ وَقَلْبِہٖ وَجَعَلَ عَلیٰ بَصَرِہٖ غِشَاوَۃً، فَمَن یَّہْدِیْہِ مِن بَعْدِ اللہِ، أَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ﴾ [الجاثیۃ، ع: ۲] (کیا آپ نے اُس شخص کی حالت بھی دیکھی جس نے اپنا خدا اپنی خواہشِ نفس کو بنا رکھا ہے، اور خدا تعالیٰ نے اُس کو باوجود سمجھ بوجھ کے گمراہ کردیا ہے، اور اُس کے کان اور دل پر مُہر لگادی، اور آنکھ پر پردہ ڈال دیا، (کہ حق بات کونہ سنتا ہے، نہ دیکھتا ہے، نہ دل میں اُترتی ہے)؛پس اللہ کے (گمراہ کر دینے کے بعد)کون ہدایت کرسکتا ہے! پھر بھی تم نہیں سمجھتے)۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: ﴿وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاہُ بِغَیْرِہُدیً مِّنَ اللہِ، إِنَّ اللہَ لَایَہْدِيْ الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ﴾[القصص،ع:۱۵]: ایسے شخص سے زیادہ گمراہ کون ہوگا جو اپنی نفسانی خواہش پر چلتا ہو بغیر اِس کے کہ کوئی دلیل اللہ کی طرف سے (اُس کے پاس)ہو، اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا۔
اَور بھی مُتعدِّد جگہ اِس قِسم کا مضمون وارد ہوا ہے، یہ شیطان کا بہت ہی سخت حملہ ہے کہ وہ غیرِ دین کو دین کے لباس میں سمجھاوے، اور آدمی اُس کو دِین سمجھ کر کرتا رہے، اور اُس پر ثواب کا اُمید وار بنا رہے، اور جب وہ اُس کو عبادت اور دین سمجھ کر کررہا ہے تو اُس سے توبہ کیوںکر کر سکتا ہے؟ اگر کوئی شخص زِناکاری، چوری، وغیرہ گناہوں میں مُبتَلا ہو تو کسی نہ کسی وقت توبہ اور چھوڑ دینے کی اُمید ہے؛ لیکن جب کسی ناجائز کام کو وہ عبادت سمجھتا ہے تو اُس سے توبہ کیوں کرے؟ اور کیوں اُس کو چھوڑے؟ بلکہ دن بہ دن اُس میں ترقی کرے گا، یہی مطلب ہے شیطان کے اِس کہنے کا کہ: مَیں نے گناہوں میں مُبتَلا کیا؛ لیکن ذِکر اذکار، توبہ، اِستِغفار سے وہ مجھے دِق کرتے رہے، تومَیں نے ایسے جال میں پھانس دیا کہ اُس سے نکل ہی نہیں سکتے؛ اِس لیے دِین کے ہر کام میں نبیٔ اکرم ﷺ اور صحابۂ کرام ث کے طریقے کو اپنا رہبر بنانا بہت ہی ضروری اَمر ہے، اور کسی ایسے طریقے کو اختیار کرنا جو خلافِ سنت ہو ’’نیکی برباد گناہ لازم‘‘ ہے۔
اِمام غزالیؒ نے حَسَن بصریؒ سے بھی نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: ہمیں یہ روایت پہنچی کہ: شیطان کہتاہے: مَیں نے اُمَّتِ محمَّدیہ کے سامنے گناہوں کو زَیب وزِینت کے ساتھ پیش کیا؛ مگر اُن کے اِستِغفار نے میری کمر توڑ دی، تو مَیں نے ایسے گناہ اُن کے پاس پیش کیے جن کو وہ گناہ ہی نہیں سمجھتے، کہ اُن سے استغفار کریں، اور وہ اَہوا یعنی بدعات ہیں، کہ وہ اُن کو دِین سمجھ کر کرتے ہیں۔ (احیاء العلوم،بیان تفصیل مداخل الشیطان۳؍۳۵)
وَہَب بن مُنبَّہؒ کہتے ہیںکہ: اللہ سے ڈر، تُو شیطان کو مجمعوں میں لَعنت کرتا ہے اور چُپکے سے اُس کی اِطاعت کرتا ہے اور اُس سے دوستی کرتا ہے۔(احیاء العلوم۳؍۳۸)
بعض صوفیا سے مَنقُول ہے کہ: کس قدر تعجب کی بات ہے کہ حق تَعَالیٰ شَانُہٗجیسے مُحسِن کے اِحسانات معلوم ہونے کے بعد، اُن کے اِقرار کے بعد اُس کی نافرمانی کی جائے! اور شیطان کی دُشمنی کے باوجود، اُس کی عَیَّاری اور سَرکشی معلوم ہونے کے باوجود اُس کی اِطاعت کی جائے۔(احیاء العلوم۳؍۳۸)
(۲۲)عَن مُعَاذِ بنِ جَبَلٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: لَایَمُوتُ عَبدٌ یَشهَدُ أَن لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَأَنِّي رَسُولُ اللہِ، یَرجِعُ ذٰلِكَ إِلیٰ قَلبِ مُوقِنٍ إِلَّا دَخَلَ الجَنَّۃَ، وَفِي رِوَایَۃٍ: إِلَّا غَفَرَ اللہُ لَہٗ.
(أخرجہ أحمد، والنسائي، والطبراني، والحاکم، والترمذي في نوادر الأصول، وابن مردویہ، والبیهقي في الأسماء والصفات؛ کذا في الدر وابن ماجہ. وفي الباب عن عِمرَان بلفظ: ’’مَن عَلِمَ أَنَّ اللہَ رَبَّہٗ وَأَنِّي نَبِیُّہٗ مُوقِناً مِن قَلبِہٖ حَرَّمَہُ اللہُ عَلَی النَّارِ‘‘. رواہ البزار، ورقم لہ في الجامع بالصحۃ، وفیہ أیضا بروایۃ البزار: ’’عَن أَبِي سَعِیدٍ: مَن قَالَ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ مُخلِصاً دَخَلَ الجَنَّۃَ‘‘، ورقم لہ بالصحۃ)
ترجَمہ: حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: جو شخص بھی اِس حال میں مرے کہ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہِ کی پکے دل سے شہادت دیتا ہو، ضرور جنت میں داخل ہوگا۔ دوسری حدیث میں ہے کہ: ضرور اُس کی اللہ تعالیٰ مغفرت فرماویںگے۔
تردُّد: شک۔ مالکُ المُلک: بادشاہ۔ لُطف: مہربانی۔ مَراحِمِ خُسروانہ:شاہی عنایتیں۔ پیشی: حاضری۔
فائدہ:حضورِ اقدس ﷺسے صحیح حدیث میں یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ: خوش خبری سنو اور دوسروں کو بھی بَشارت سنادو کہ: جو شخص سچے دل سے لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کا اقرار کرے وہ جنت میں داخل ہوگا۔(مسند احمد،۔۔۔۔۔۔۔۔حدیث:۲۱۹۹۸)
اللہدکے یہاں اِخلاص کی قدر ہے، اور اخلاص کے ساتھ تھوڑا سا عمل بھی بہت زیادہ اَجر وثواب رکھتا ہے، دُنیا کے دِکھلاوے کے واسطے، لوگوں کے خوش کرنے کے واسطے کوئی کام کیا جاوے وہ تو اُن کی سرکار میں بے کار ہے؛ بلکہ کرنے والے کے لیے وَبال ہے؛ لیکن اِخلاص کے ساتھ تھوڑا سا عمل بھی بہت کچھ رنگ لاتا ہے؛ اِس لیے اخلاص سے جو شخص کلمۂ شہادت پڑھے اُس کی ضرور مغفرت ہوگی، وہ ضرور جنت میں داخل ہوکر رہے گا، اِس میں ذرا بھی تردُّد نہیں، یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے گناہوں کی وجہ سے کچھ دِنوں سزا بھُگت کر داخل ہو؛ لیکن ضروری نہیں، کسی مُخلِص کا اخلاص مالکُ المُلک کو پسند ہو، اُس کی کوئی خدمت پسند آجائے تو وہ سارے ہی گناہوں کو مُعاف فرماسکتے ہیں۔ ایسی کریم ذات پرہم نہ مَرمِٹیں کتنی سخت محرومی ہے!۔
بہرحال اِن احادیث میں کلمۂ طیبہ کے پڑھنے والے کے لیے بہت کچھ وعدے ہیں، جن میں دونوں اِحتِمال ہیں، قواعد کے موافق گناہوں کی سزا کے بعد مُعافی، اور کَرم، لُطف، اِحسان اور مَراحِمِ خُسروانہ میں بِلاعذاب مُعافی۔
یحییٰ بن اَکثمؒ ایک مُحدِّث ہیں، جب اِن کا اِنتقال ہوا تو ایک شخص نے اِن کو خواب میںدیکھا، اِن سے پوچھا: کیا گزری؟ فرمانے لگے کہ: میری پیشی ہوئی، مجھ سے فرمایا: اوگنہ گار بوڑھے! تُونے فلاں کام کیا، فلاں کیا، میرے گناہ گِنوائے گئے، اورکہا گیا:تُونے ایسے ایسے کام کیے، مَیں نے عرض کیا: یا اللہ! مجھے آپ کی طرف سے یہ حدیث نہیں پہنچی؟ فرمایا: اَور کیا حدیث پہنچی؟ عرض کیا: مجھ سے عبدالرزاق ؒنے کہا، اُن سے مَعمرؒ نے کہا، اُن سے زُہریؒ نے کہا، اُن سے عُروہ ؒنے کہا، اُن سے حضرت عائشہؓ نے کہا، اُن سے حضورِاقدس ﷺنے ارشاد فرمایا، اُن سے حضرت جبرئیل ں نے عرض کیا، اُن سے آپ نے فرمایا کہ: جو شخص اِسلام میں بوڑھا ہوا اور مَیں اُس کو (اُس کے اَعمال کی وجہ سے) عذاب دینے کا اِرادہ بھی کروں؛ لیکن اُس کے بڑھاپے سے شرماکر مُعاف کردیتا ہوں، اور یہ آپ کومعلوم ہے کہ: مَیں بوڑھاہوں، ارشاد ہوا کہ: عبدالرزاق نے سچ کہا، اور مَعمر نے بھی سچ کہا، زُہری نے بھی سچ کہا، عُروہ نے بھی سچ کہا، عائشہ نے بھی سچ کہا، اور نبی نے بھی سچ کہا، اور جبرئیل نے بھی سچ کہا، اور مَیںنے بھی سچی بات کہی۔ یحییٰ کہتے ہیں کہ: اِس کے بعد مجھے جنت میں داخلے کاارشاد فرمادیا۔(تاریخ دمشق۶۷؍۱۹۵)
(۲۳) عَن أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: لَیسَ شَيئٌ إلَّا بَینَہٗ وَبَینَ اللہِ حِجَابٌ؛ إِلَّا قَولُ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ، وَدُعَاءُ الوَالِدِ.
(أخرجہ ابن مردویہ، وکذا في الدر، وفي الجامع الصغیر بروایۃ ابن النجار -ورقم لہ بالضعف- وفي الجامع الصغیر بروایۃ الترمذي عن ابن عمرو -ورقم لہ بالصحۃ-: اَلتَّسبِیحُ نِصفُ المِیزَانِ، وَالحَمدُ لِلّٰہِ تَمَلَأُہٗ، وَلَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ لَیسَ لَهَا دُونَ اللہِ حِجابٌ حَتیٰ تَخلُصَ إِلَیہِ)
ترجَمہ: حضور ِاقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: ہر عمل کے لیے اللہ کے یہاں پہنچنے کے لیے درمیان میں حِجاب ہوتا ہے؛ مگر لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ، اور باپ کی دُعا بیٹے کے لیے؛ اِن دونوں کے لیے کوئی حجاب نہیں۔
حِجاب: پردہ۔ حائل: آڑ۔ براہِ راست: سیدھا۔مُتشَدِّد: سخت مزاج۔ مُتعَصِّب: تعصُّب رکھنے والا۔ گِرد: آس پاس۔ اُعجوبہ: عجیب چیز۔ مُتحیَّر: حیران۔ سَرگُذَشت: داستان۔
فائدہ: پردہ نہ ہونے کا یہ مطلب ہے کہ، اِن چیزوں کے قَبول ہونے میں ذرا سی بھی دیر نہیں لگتی، اَور اُمورکے درمیان میں قَبول تک اَور بھی واسطے حائل ہوتے ہیں؛ لیکن یہ چیزیں براہِ راست بارگاہِ الٰہی تک فوراً پہنچتی ہیں۔
ایک کافر بادشاہ کاقِصَّہ لکھا ہے کہ: نہایت مُتشَدِّد، مُتعَصِّب تھا، اِتِّفاق سے مسلمانوںکی ایک لڑائی میں گرفتار ہوگیا؛ چوںکہ مسلمانوں کو اُس سے تکلیفیں بہت پہنچی تھیں اِس لیے اِنتِقام کا جوش اُن میں بھی بہت تھا، اُس کو ایک دیگ میں ڈال کر آگ پر رکھ دیا، اُس نے اوَّل اپنے بُتوں کو پُکارنا شروع کیا اور مدد چاہی، جب کچھ نہ بَن پڑا تو وہیں مسلمان ہوا، اور لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کا وِرد شروع کیا، لگاتار پڑھ رہا تھا، اور ایسی حالت میں جس خُلوص اور جوش سے پڑھا جاسکتا ہے ظاہر ہے، فوراً اللہتَعَالیٰ شَانُہٗ کی طرف سے مدد ہوئی اور اِس زور سے بارش ہوئی کہ وہ ساری آگ بھی بجھ گئی اوردیگ ٹھنڈی ہوگئی، اِس کے بعد زور سے آندھی چلی، جس سے وہ دیگ اُڑی اور دُور کسی شہر میں -جہاں سب ہی کافر تھے- جاکر گِری، یہ شخص لگاتار کلمۂ طیبہ پڑھ رہا تھا، لوگ اُس کے گِرد جمع ہوگئے، اور اُعجوبہ دیکھ کر مُتحیَّر تھے، اُس سے حال دریافت کیا، اُس نے اپنی سَرگُذَشت سنائی، جس سے وہ لوگ بھی مسلمان ہوگئے۔
(روض الریاحین،ص:۱۵۰حکایت:۲۱۰)
(۲۴) عَن عُتبَانَ بنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: لَن یُّوَافِي عَبدٌ یَومَ القِیَامَۃِ یَقُولُ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ یَبتَغِي بِذٰلِكَ وَجہُ اللہِ إِلَّا حُرِّمَ عَلَی النَّارِ.
(أخرجہ أحمد، والبخاري، ومسلم، وابن ماجہ، والبیهقي في الأسماء والصفات؛ کذا في الدر)
ترجَمہ:
حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد ہے: نہیں آئے گا کوئی شخص قِیامت کے دن کہ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کو اِس طرح کہتا ہو کہ اللہ کی رَضا(خوشی) کے سِوا کوئی مقصود نہ ہو؛ مگر جہنَّم اُس پر حرام ہوگی۔
چارۂ کار: چھُٹکارا۔ بَہبُودی: نفع۔ دَریغ: کوتاہی۔
فائدہ: جو شخص اِخلاص کے ساتھ کلمۂ طَیَّبہ کا وِرد کرتا رہا ہو اُس پرجہنَّم کی آگ کا حرام ہونا ظاہری قواعد کے موافق تو مُقیَّد ہے کَبائر گناہ نہ ہونے کے ساتھ، یا جہنَّم کے حرام ہونے سے اُس میں ہمیشہ کا رہنا حرام ہے؛ لیکن اللہجَلَّ شَانُہٗاِس پاک کلمے کواِخلاص سے پڑھنے والے کو باوجود گناہوں کے بالکل ہی جہنَّم سے مُعاف فرمادیں توکون روکنے والا ہے؟۔ اَحادیث میں ایسے بندوں کا بھی ذکر آتا ہے کہ: قِیامت کے دن حقتَعَالیٰ شَانُہٗ بعض لوگوں کو فرمائیںگے: تُونے فلاں گناہ کیا، فلاں کیا، اِس طرح جب بہت سے گناہ گِنوائے جاچکیںگے اور وہ سمجھے گا کہ مَیں ہلاک ہوگیا، اور اِقرار بغیر چارۂ کار نہ ہوگا، تو ارشاد ہوگا کہ: ہم نے دنیا میں تیری سَتَّاری کی آج بھی سَتَّاری کرتے ہیں، تجھے مُعاف کردیا۔(مسلم،کتاب التوبۃ،باب سعۃ رحمۃ اللہ علی المؤمنین، ۲؍ ۳۶۰ حدیث: ۲۷۶۸)
اِس نوع کے بہت سے وَاقِعات احادیث میں موجود ہیں؛ اِس لیے اِن ذاکرین کے لیے بھی اِس قِسم کا مُعاملہ ہوتو بعید نہیں ہے۔ اللہ کے پاک نام میں بڑی برکت اور بَہبُودی ہے؛ اِس لیے جتنی بھی کثرت ہوسکے دَریغ نہ کرنا چاہیے۔ کیاہی خوش نصیب ہیں وہ مُبارک ہَستِیاں جنھوں نے اِس پاک کلمے کی برکات کو سمجھا اور اُس کے وِردمیں عُمریں ختم کردِیں!۔
(۲۵) عَن یَحْییٰ بنِ طَلحَۃَ بنِ عَبدِاللہِ قَالَ: رُؤِيَ طَلْحَۃُ حَزِیناً فَقِیلَ لَہٗ: مَالَكَ؟ قَالَ: إِنِّي سَمِعتُ رَسُولَ اللہِﷺ یَقُولُ: إِنِّي لَأَعْلَمُ کَلِمَۃً لَایَقُولُهَا عَبدٌ عِندَ مَوتِہٖ إِلَّا نَفَّسَ اللہُ عَنہُ کُربَتَہٗ، وَأَشرَقَ لَونُہٗ، وَرَأَی مَایَسُرُّہٗ؛ وَمَامَنَعَنِي أَنْ أَسْأَلَہٗ عَنهَا إِلَّا القُدرَۃُ عَلَیہِ حَتّٰی مَاتَ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنِّي لَأَعلَمُهَا، قَالَ: فَمَا هِيَ؟ قَالَ: لَانَعلَمُ کَلِمَۃً هِيَ أَعظَمُ مِن کَلِمَۃٍ أَمَرَ بِهَا عَمَّہٗ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ، قَالَ: فَهِيَ، وَاللہِ هِيَ.
(أخرجہ البیهقي في الأسماء والصفات، کذا في الدر. قلت: أخرجہ الحاکم، وقال: صحیح علیٰ شرط الشیخین، وأقرہ علیہ الذهبي. وأخرجہ أحمد، وأخرج أیضا من مسند عمر بمعناہ بزیادۃ فیهما، وأخرجہ ابن ماجہ عن یحییٰ بن طلحۃ عن أمہ، وفي شرح الصدور للسیوطي: وأخرج أبو یعلیٰ والحاکم بسند صحیح عن طلحۃ وعمر، قالا: ’’سَمِعْنَا رَسُولَ اللہِﷺ یَقُولُ: إِنِّي أَعلَمُ کَلِمَۃً‘‘، الحدیث.
ترجَمہ: حضرت طلحہص کو لوگوں نے دیکھا کہ: نہایت غمگین بیٹھے ہیں، کسی نے پوچھا: کیا بات ہے؟ فرمایا: مَیں نے حضور ﷺسے یہ سنا تھا کہ: مجھے ایک ایسا کلمہ معلوم ہے کہ جو شخص مرتے وقت اُس کو کہے تو موت کی تکلیف اُس سے ہٹ جائے، اور رنگ چمکنے لگے، اور خوشی کامنظر دیکھنے لگے؛ مگر مجھے حضور ﷺسے اُس کلمے کے پوچھنے کی قدرت نہ ہوئی، اِس کا رنج ہورہا ہے، حضرت عمر صنے فرمایا: مجھے معلوم ہے، طلحہص (خوش ہوکر)کہنے لگے: کیا ہے؟ حضرت عمرص نے فرمایا: ہمیںمعلوم ہے کہ کوئی کلمہ اُس سے بڑھا ہوا نہیں ہے جس کو حضور ا نے اپنے چچا (ابوطالب)پر پیش کیا تھا، اور وہ ہے: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ، فرمایا: واللہ! یہی ہے، واللہ! یہی ہے۔
سُرور: خوشی۔ چاندنا: اُجالا۔
فائدہ:کلمۂ طیبہ کا سَراسَر نور وسُرور ہونا بہت سی روایات سے معلوم اور مفہوم ہوتا ہے۔ حافظ ابن حَجر ؒنے ’’مُنبِّہات‘‘ میں حضرت ابوبکر صدیق صسے نقل کیا ہے کہ: اندھیرے پانچ ہیں اورپانچ ہی اُن کے لیے چراغ ہیں: دنیا کی محبت اندھیرا ہے جس کا چَراغ تقویٰ ہے، اور گناہ اندھیرا ہے جس کا چَراغ توبہ ہے، اور قبر اندھیرا ہے جس کا چَراغ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہِ ہے، اور آخرت اندھیرا ہے جس کا چَراغ نیک عمل ہے، اور پُل صراط اندھیرا ہے جس کا چَراغ یقین ہے۔(منبہات،باب الخماسی ص:۴۰،۴۱)
رابعہ عَدوِیہؒ -مشہور ولِیَّہ ہیں- رات بھر نماز میں مشغول رہتِیں، صبحِ صادق کے بعد تھوڑی دیر سو رہتِیں، اورجب صبح کا چاندنا اچھی طرح ہوجاتا توگھبراکر اُٹھتِیں اور نفس کو مَلامَت کرتِیں کہ: کب تک سوتا رہے گا؟ عن قریب قبر کا زمانہ آنے والا ہے جس میں صور پھونکنے تک سونا ہی ہوگا، جب اِنتِقال کا وقت قریب ہوا تو ایک خادِمہ کو وَصِیَّت فرمائی کہ: یہ اَدنیٰ گُدڑی جس کو وہ تہجُّد کے وقت پہنا کرتی تھیں، اِس میں مجھے کفن دے دینا، اور کسی کو میرے مرنے کی خبر نہ کرنا؛ چناںچہ حسبِ وَصیَّت تَجہِیز وتکفین کردی گئی، بعد میں اُس خادمہ نے خواب میں دیکھا کہ: وہ نہایت عمدہ لباس پہنے ہوئے ہیں، اُس نے دریافت کیا کہ: وہ آپ کی گُدڑی کیا ہوئی جس میں کفن دیا گیا تھا؟ فرمایا کہ: لَپیٹ کر میرے اعمال کے ساتھ رکھ دی گئی، اُنھوں نے درخواست کی کہ: مجھے کوئی نصیحت فرمائیں، کہاکہ: اللہ کا ذکر جتنا بھی کرسکو کرتی رہو، کہ اِس کی وجہ سے تم قبر میں قابلِ رَشک بن جاؤگی۔(صفۃ الصفوۃ لابن الجوزی۴؍۱۷)
(۲۶) عَن عُثمَانَ قَالَ: إِنَّ رِجَالًا مِن أَصحَابِ النَّبِيِّﷺ حِینَ تُوُفِّيَ حَزِنُوْا عَلَیہِ، حَتّٰی کَادَ بَعضُهُم یُوَسوِسُ، قَالَ عُثمَانُ: وَکُنتُ مِنهُم، فَبَینَا أَنَا جَالِسٌ مَرَّ عَلَيَّ عُمَرُ وَسَلَّمَ، فَلَم أَشعُرْ بِہٖ، فَاشْتَکیٰ عُمَرُ إِلیٰ أَبِي بَکرٍ، ثُمَّ أَقبَلَا حَتّٰی سَلَّمَا عَلَيَّ جَمِیعاً، فَقَالَ أَبُوبَکرٍ: مَا حَمَلَكَ عَلیٰ أَن لَاتَرُدَّ عَلیٰ أَخِیكَ عُمَرَ سَلَامَہٗ؟ قُلتُ: مَا فَعَلتُ، فَقَالَ عُمَرُ: بَلیٰ! وَاللہِ لَقَد فَعَلتَ، قَالَ: قُلتُ: وَاللہِ مَاشَعَرتُ أَنَّكَ مَرَرتَ وَلَاسَلَّمتَ، قَالَ أَبُوبَکرٍ: صَدَقَ عُثمَانُ، قَدَ شَغَلَكَ عَن ذٰلِكَ أَمرٌ، فَقُلتُ: أَجَلْ، قَالَ: مَا هُوَ؟ قُلتُ: تَوَفَّی اللہُ تَعَالیٰ نَبِیَّہٗﷺ قَبلَ أَن نَسْأَلَہٗ عَن نَجَاۃِ هٰذَا الأَمرِ، قَالَ أَبُوبَکرٍ: قَد سَأَلتُہٗ عَن ذٰلِكَ، فَقُمتُ إِلَیہِ وَقُلتُ لَہٗ: بِأَبِي أَنتَ وَأُمِّي، أَنتَ أَحَقُّ بِهَا، قَالَ أَبُوبَکرٍ: قُلتُ: یَا رَسُولَ اللہِ! مَا نَجَاۃُ هٰذَا الأَمرِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: مَن قَبِلَ مِنِّي اَلکَلِمَۃُ الَّتِي عَرَضْتُ عَلیٰ عَمِّي فَرَدَّهَا فَهِيَ لَہٗ نَجَاۃٌ.
(رواہ أحمد، کذا في المشکوۃ، وفي مجمع الزوائد: رواہ أحمد، والطبراني في الأوسط باختصار، وأبویعلیٰ بتمامہ، والبزار بنحوہ، وفیہ رجل لم یسم؛ لکن الزهري وثقہ وأبهمہ، اھ. قلت: وذکر في مجمع الزوائد لہ متابعات بألفاظ متقاربۃ)
ترجَمہ: حضورِ اقدس ﷺ(رُوْحِيْ فِدَاہُ)کے وِصال کے وقت صحابۂ کرا مث کو اِس قدر سخت صدمہ تھا کہ بہت سے مختلف وَساوِس میں مُبتَلا ہوگئے، حضرت عثمان ص فرماتے ہیں کہ: مَیں بھی اُن ہی لوگوں میں تھا جو وَساوِس میں گھِرے ہوئے تھے، حضرت عمرص میرے پاس تشریف لائے، مجھے سلام کیا؛ مگر مجھے مُطلَق پتہ نہ چلا، اُنھوں نے حضرت ابوبکرص سے شکایت کی کہ: عثمان ص بھی بہ ظاہر خَفا(ناراض) ہیں، کہ مَیں نے سلام کیا اُنھوں نے جواب بھی نہ دیا، اِس کے بعد دونوں حضرات اِکَٹَّھے تشریف لائے اور سلام کیا، اور حضرت ابوبکرص نے دریافت فرمایا کہ: تم نے اپنے بھائی عمرص کے سلام کا بھی جواب نہ دیا،کیا بات ہے؟ مَیں نے عرض کیا: مَیں نے تو ایسا نہیں کیا، حضرت عمر ص نے فرمایا: ایسا ہی ہوا، مَیں نے عرض کیا:مجھے تو آپ کے آنے کی بھی خبر نہیں ہوئی کہ: کب آئے؟ نہ سلام کا پتہ چلا، حضرت ابوبکرصنے فرمایا: سچ ہے، ایسا ہی ہوگا، غالباً تم کسی سوچ میں بیٹھے ہوںگے، مَیں نے عرض کیا: واقعی مَیں ایک گہری سوچ میں تھا، حضرت ابوبکرصنے دریافت فرمایا: کیا تھا؟ مَیں نے عرض کیا: حضورﷺ کا وِصال ہوگیا اور ہم نے یہ بھی نہ پوچھ لیا کہ اِس کام کی نجات کس چیز میں ہے؟ حضرت ابوبکرصدیقص نے فرمایا کہ: مَیں پوچھ چکا ہوں، مَیں اُٹھا اور مَیں نے کہا: تم پر میرے ماں باپ قربان! واقعی تم ہی زیادہ مستحق تھے اِس کے دریافت کرنے کے، (کہ دِین کی ہر چیز میں آگے بڑھنے والے ہو)،حضرت ابوبکر ص نے فرمایا: مَیں نے حضور ﷺ سے دریافت کیا تھا کہ: اِس کام کی نجات کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ: جو شخص اُس کلمے کو قبول کرلے جس کو مَیں نے اپنے چچا (ابوطالب پر اُن کے اِنتقال کے وقت )پیش کیاتھا اور اُنھوں نے رَد کردیا تھا، وہی کلمۂ نجات ہے۔
جَلیلُ القَدر: بڑے مرتبے والا۔ دَم: ہمَّت۔ لَلکار: پُکار۔ نِرے: صرف۔ مَدار: بنیاد۔چارۂ کار: چھُٹکارا۔ دِقَّتیں: تکلیفیں۔ رَخنہ اَندازی: خَلل۔
فائدہ:
وَساوِس میں مُبتَلا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ، صحابۂ کرام ث اُس وقت رَنج وغم کی شِدَّت میں ایسے پریشان ہوگئے تھے کہ حضرت عمرص جیسے جَلیلُ القَدر بہادُر تلوار ہاتھ میں لے کر کھڑے ہوگئے تھے، کہ جو شخص یہ کہے گا کہ: حضور ﷺ کا وِصال ہوگیا اُس کی گردن اُڑا دوںگا، حضور ﷺ تو اپنے رب سے مِلنے تشریف لے گئے ہیں جیسا کہ حضرت موسیٰ ں طُور پر تشریف لے گئے تھے۔
(تاریخ ابن جریر۲؍۲۳۲)
بعض صحابہ کو یہ خَیال پیدا ہوگیا تھا کہ دِین اب ختم ہوچکا، بعض اِس سوچ میں تھے کہ اب دِین کے فَروغ[ترقی] کی کوئی صورت نہیںہوسکتی، بعض بالکل گُم تھے کہ اُن سے بولا ہی نہیں جاتا تھا، ایک ابوبکر صدیقص کا دَم تھا جو حضور ﷺ کے ساتھ کمالِ عشق، کمالِ مَحبَّت کے باوجود اُس وقت ثابت قَدم اور جَمے ہوئے قدم سے کھڑے تھے، اُنھوں نے لَلکار کر خطبہ پڑھا، جس میں ﴿وَمَامُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ﴾ والی آیت پڑھی، جس کا ترجَمہ ہے کہ: محمدﷺ نِرے رسول ہی تو ہیں، (خدا تو نہیں ہیں جسے موت آہی نہ سکے)؛پس کیا اگر وہ مرجائیں یا شہید ہوجائیں تو تم لوگ (دِین سے)پھر جاؤگے؟ اور جو شخص (دِین سے)پھر جائے گا وہ خدا کا توکوئی نقصان نہیں کرے گا، (اپنا ہی کچھ کھووے گا)۔ مختصر طور پر اِس قِصَّے کو مَیں اپنے رِسالہ: ’’حکایات صحابہ‘‘ میں لکھ چکا ہوں۔
آگے جو ارشاد ہے کہ: ’’اِس کام کی نجات کیا ہے‘‘؟ اِس کے دو مطلب ہیں:
ایک یہ کہ دِین کے کام تو بہت سے ہیں، اُن سب کاموں میں مَدار کس چیز پر ہے کہ جس کے بغیر چارۂ کار نہ ہو؟ اِس مطلب کے موافق جواب ظاہر ہے کہ دِین کا سارامدار کلمۂ شہادت پر ہے، اور اِسلام کی جڑ ہی کلمۂ طیِّبہ ہے۔
دوسرا مطلب یہ ہے کہ، اِس کام یعنی دِین میں دِقَّتیں بھی پیش آتی ہیں، وَساوِس بھی گھیرتے ہیں، شیطان کی رَخنہ اَندازی بھی مُستَقل ایک مصیبت ہے، دُنیاوی ضروریات بھی اپنی طرف کھینچتی ہے، اِس صورت میں مطلب ارشادِ نبوی ﷺ کا یہ ہے کہ: کلمۂ طیبہ کی کثرت اِن سب چیزوں کا علاج ہے، کہ وہ اِخلاص پیدا کرنے والا ہے، دِلوں کا صاف کرنے والا ہے، شیطان کی ہلاکت کا سبب ہے، جیسا کہ اِن سب روایات میں اُس کے اثرات بہت سے ذکرکیے گئے ہیں۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کا کلمہ اپنے پڑھنے والے سے ننانوے قِسم کی بَلائیں دور کرتا ہے، جن میں سب سے کم غم ہے جو ہر وقت آدمی پر سوار رہتا ہے۔
(کنز العمال ۔۔۔۔۔)
(۲۷) عَن عُثمَانَ قَالَ: سَمِعتُ رَسُولَ اللہِﷺ یَقُولُ: إِنِّي لَأَعلَمُ کَلِمَۃً لَایَقُولُهَا عَبدٌ حَقًّا مِن قَلبِہٖ إِلَّا حُرِّمَ عَلَی النَّارِ، فَقَالَ لَہٗ عُمَرُ بنُ الخَطَّابِ: أَنَا أُحَدِّثُكَ مَا هِيَ؟ هِيَ کَلِمَۃُ الإخلَاصِ الَّتِي أَعَزَّ اللہُ تَبَارَكَ وَتَعَالیٰ بِهَا مُحَمَّداًﷺ وَأَصحَابَہٗ، وَهِيَ کَلِمَۃُ التَّقویٰ الَّتِي أَلَاصَ عَلَیهَا نَبِيُّ اللہِ ﷺ عَمَّہٗ أَبَاطَالِبٍ عِندَ المَوتِ: شَهَادَۃُ أَن لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ.
(رواہ أحمد، وأخرجہ الحاکم بهذا اللفظ، وقال: صحیح علیٰ شرطهما، وأقرہ علیہ الذهبي، وأخرجہ الحاکم بروایۃ عثمان عن عمر مرفوعا: ’’إِنِّي لَأَعلَمُ کَلِمَۃً لَایَقُولُهَا عَبدٌ حَقًّا مِن قَلبِہٖ، فَیَمُوتُ عَلیٰ ذٰلِكَ إِلَّا حَرَّمَہُ اللہُ عَلَی النَّارِ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ‘‘. وقال: هذا صحیح علیٰ شرطهما، ثم ذکر لہ شاهدین من حدیثهما)
ترجَمہ:
حضرت عثمان فرماتے ہیں کہ: مَیں نے حضورﷺ سے سنا تھا کہ: مَیں ایک کلمہ ایسا جانتا ہوں کہ جو شخص اُس کو حق سمجھ کر اخلاص کے ساتھ دل سے(یقین کرتے ہوئے) اُس کو پڑھے تو جہنَّم کی آگ اُس پر حرام ہے، حضرت عمرصنے فرمایا کہ: مَیں بتاؤں وہ کلمہ کیا ہے؟ وہ وہی کلمہ ہے جس کے ساتھ اللہ نے اپنے رسول کو اور اُس کے صحابہ کو عزت دی، وہ وہی تقویٰ کا کلمہ ہے جس کی حضورِ اقدس ﷺنے اپنے چچا ابوطالب سے اُن کے انتقال کے وقت خواہش کی تھی، وہ شہادت ہے لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کی۔
فائدہ:
حضور ﷺ کے چچا ابوطالب کا قِصَّہ حدیث، تفسیر اور تاریخ کی کتابوں میں مشہور معروف ہے کہ: جب اُن کے اِنتِقال کا وقت قریب ہوا تو چوںکہ اُن کے اِحسانات نبیٔ اکرم ﷺ اور مسلمانوں پر کثرت سے تھے؛ اِس لیے نبیٔ اکرم ﷺاُن کے پاس تشریف لے گئے، اور ارشاد فرمایا کہ: اے میرے چچا! لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کہہ لیجیے؛ تاکہ مجھے قِیامت کے دن آپ کی سفارش کا موقع مل سکے، اور مَیں اللہ کے یہاں آپ کے اِسلام کی گواہی دے سکوں، اُنھوں نے فرمایا کہ: لوگ مجھے یہ طعنہ دیںگے کہ موت کے ڈر سے بھتیجے کا دین قبول کرلیا، اگر یہ خَیال نہ ہوتا تو مَیں اِس وقت اِس کلمے کے کہنے سے تمھاری آنکھیں ٹھنڈی کردیتا، اِس پرحضور ﷺ رَنجیدہ[غمگین] واپس تشریف لائے۔ اِسی قِصَّے میں قرآنِ پاک کی آیت: ﴿إِنَّکَ لَاتَہدِيْ مَن أَحبَبْتَ﴾ [سورۃ القصص، ع:۶]نازل ہوئی، جس کا ترجَمہ یہ ہے کہ: آپ جس کو چاہیں ہدایت نہیں فرماسکتے؛ بلکہ اللہ جس کو چاہے ہدایت کرتا ہے۔
(مسلم،کتاب الایمان، باب الدلیل علیٰ صحۃ الاسلام من حضرہ الموت،۱؍۴۰حدیث:۲۴)
اِس قِصَّے سے یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ: جو لوگ فِسق وفُجور میں مُبتَلارہتے ہیں، خدا اور اُس کے رسول ﷺ سے بے گانہ[جُدا] رہتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ، کسی عزیز قریب بزرگ کی دعا سے بیڑا پار ہوجائے گا، غلَطی میں مُبتلا ہیں، کام چلانے والا صرف اللہ ہی ہے، اُسی کی طرف رُجوع کرنا چاہیے، اُسی سے سچا تعلُّق قائم کرنا ضروری ہے؛ البتہ اللہ والوں کی صُحبت، اُن کی دعا، اُن کی توجُّہ مُعِین ومددگار بن سکتی ہے۔
(۲۸) عَن عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: لَمَّا أَذنَبَ اٰدَمُ الذَّنبَ الَّذِي أَذْنَبَہُ رَفَعَ رَأْسَہٗ إِلَی السَّمَاءِ، فَقَالَ: أَسأَلُكَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ إِلَّا غَفَرتَ لِيْ، فَأَوحَی اللہُ إِلَیہِ: مَنْ مُحَمَّدٌ؟ فَقَالَ: تَبَارَكَ اسْمُكَ، لَمَّا خَلَقتَنِيْ رفَعَتُ رَأْسِي إِلیٰ عَرشِكَ، فَإذَا فِیہِ مَکتُوبٌ: ’’لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ، مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہِ‘‘، فَعَلِمتُ أَنَّہٗ لَیسَ أَحَدٌ أَعظَمُ عِندَكَ قَدراً عَمَّنْ جَعَلتَ اِسمَہٗ مَعَ اِسمِكَ، فَأَوحَی اللہُ إِلَیہِ: یَا اٰدَمُ! إِنَّہٗ اٰخِرُ النَّبِیِّیْنَ مِنْ ذُرِّیَّتِكَ، وَلَوْلَا هُوَ مَا خَلَقتُكَ.
(أخرجہ الطبراني في الصغیر، والحاکم، وأبونعیم، والبیهقي؛ کلاهما في الدلائل، وابن عساکر في الدر، وفي مجمع الزوائد: رواہ الطبراني فيالأوسط والصغیر، وفیہ من لم أعرفهم. قلت: ویؤید الأخر الحدیث المشهور: ’’لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الأَفْلَاكَ‘‘، قال القاري في الموضوعات الکبیر: موضوع؛ لکن معناہ صحیح، وفي التشرف: معناہ ثابت. ویؤید الأول ما ورد في غیر روایۃ، من: أَنَّہٗ مَکْتُوْبٌ عَلَی العَرْشِ وَأَوْرَاقِ الجَنَّۃِ:’’لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ، مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہِ‘‘، کما بسط طرقہ السیوطي في مناقب اللاٰلي فيغیر موضع، وبسط لہ شواهد أیضا في تفسیرہ في سورۃ ألم نشرح)
ترجَمہ:
حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: حضرت آدم (عَلیٰ نَبِیِّنَا وَعَلَیہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ) سے جب وہ گناہ صادِر ہوگیا (جس کی وجہ سے جنت سے دنیا میں بھیج دیے گئے، تو ہر وقت روتے تھے اور دعا واِستِغفار کرتے رہتے تھے، ایک مرتبہ)آسمان کی طرف منھ کیا اور عرض کیا: یا اللہ! محمد (ﷺ) کے وسیلے سے تجھ سے مغفرت چاہتا ہوں، وحی نازل ہوئی کہ: محمد کون ہیں(جن کے واسطے سے تم نے اِستِغفار کی؟)عرض کیا کہ: جب آپ نے مجھے پیدا کیا تھا تو مَیں نے عرش پر لکھا ہوا دیکھا تھا: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ، مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہِ، تومَیں سمجھ گیا تھا کہ محمد (ﷺ) سے اونچی ہَستی کوئی نہیں ہے جن کا نام تم نے اپنے نام کے ساتھ رکھا، وحی نازل ہوئی کہ: وہ خاتَم النَّبیِّین ہیں، تمھاری اولاد میں سے ہیں؛ لیکن وہ نہ ہوتے تو تم بھی پیدا نہ کیے جاتے۔
فائدہ:
حضرت آدم عَلیٰ نَبِیِّنَا وَعَلَیہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ اُس وقت کیا کیا دعائیں کیں اور کس کس طرح سے گِڑگِڑائے؟ اِس بارے میں بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں، اور اُن میں کوئی تَعارُض[یعنی ایک دوسرے کے خلاف] بھی نہیں، جس پر مالک کی ناراضگی، آقاکی خَفگی[ناراضگی] ہوئی ہو وہی جانتا ہے، اِن بے حقیقت آقاؤں کی ناراضگی کی وجہ سے نوکروں اور خادموں پر کیا کچھ گزر جاتا ہے؟ اور وہاں تو مالکُ المُلک، رَزَّاقِ عالَم، اور مختصر یہ کہ خدا کا عِتاب[غُصَّہ] تھا، اور گزر کس پر رہی تھی؟ اُس شخص پر جس کو فرشتوں سے سجدہ کرایا، اپنا مُقرَّب بنایا، جو شخص جتنا مُقرب ہوتا ہے اُتنا ہی عِتاب[غُصَّہ] کا اُس پر اَثر ہوتا ہے، بہ شرطے کہ کمینہ نہ ہو، اور وہ تو نبی تھے۔
حضرت ابنِ عباس فرماتے ہیں کہ: حضرت آدم اِس قدر روئے ہیں کہ تمام دنیا کے آدمیوں کا رونا اگر جمع کیا جائے تو اُن کے برابر نہیں ہوسکتا، چالیس برس تک سر اُوپر نہیں اُٹھایا۔
(تاریخ ابن عساکر۷؍۲۹۷)
حضرت بُریدہ خود حضورِ اقدس ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ: اگر حضرت آدم ں کے رونے کا تمام دنیا کے رونے سے مقابلہ کیا جاوے تو اُن کا رونا بڑھ جائے گا۔
(ابن عساکر۷؍۲۹۴)
ایک حدیث میں ہے کہ: اگر اُن کے آنسوؤں کو اُن کی تمام اولاد کے آنسوؤں سے وزن کیا جاوے تو اُن کے آنسو بڑھ جائیں گے۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
ایسی حالت میں کس کس طرح زاری فرمائی ہوگی، ظاہر ہے:
یاں لب[ہونٹ] پہ لاکھ لاکھ سخن[بات] اِضطِراب[بے چینی] میں
ء
وَاں ایک خاموشی مری سب کے جواب میں
اِس لیے جو رِوایات میں ذکر کیا گیا اُن سب کے مجموعے میں کوئی اِشکال نہیں، مِن جُملہ اُن کے یہ بھی ہے کہ: حضورﷺ کا وَسیلہ اِختِیار فرمایا۔
دوسرا مضمون عرش پر لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہِ لکھا ہوا ہونا، یہ اَور بھی بہت سی مختلف روایتوں میں آیا ہے۔ حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: مَیں جنت میں داخل ہواتو مَیں نے اُس کی دونوں جانبوں میں تین سَطریں سونے کے پانی سے لکھی ہوئی دیکھیں: پہلی سطر میں لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہِ لکھا ہوا تھا۔ دوسری سطر میں مَا قَدَّمْنَا وَجَدْنَا، وَمَا أَکَلْنَا رَبِحْنَا، وَمَا خَلَفْنَا خَسِرْنَا تھا: جو ہم نے آگے بھیج دیا یعنی صدقہ وغیرہ کردیا، وہ پالیا، اور جو دنیا میں کھایا وہ نفع میں رہا، اور جو کچھ چھوڑ آئے وہ نقصان میں رہا۔ اور تیسری سطر میں تھا: أُمَّۃٌ مُذنِبَۃٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ: اُمَّت گنہ گار اور مالک بخشنے والا۔
(کشف الخفاء۱؍۱۹۷حدیث:۵۹۳)
ایک بزرگ کہتے ہیں: مَیں ہندوستان کے ایک شہر میں پہنچا تو مَیں نے وہاں ایک درخت دیکھا، جس کے پھل بادام کے مُشابِہ[جیسا] ہوتے ہیں، اُس کے دو چھلکے ہوتے ہیں، جب اُن کو توڑا جاتا ہے تواُن کے اندر ایک سَبز[ہرا] پَتّہ لِپٹا ہوا نکلتا ہے، جب اُس کو کھولا جاتا ہے تو سُرخی[لال رنگ] سے لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہِ لکھا ہوا ملتا ہے، مَیںنے اِس قِصَّے کو ابویعقوب شکاریؒ سے ذکر کیا، اُنھوں نے کہا: تعجب کی بات نہیں، مَیں نے ’’اَیلَہ‘‘ میں ایک مچھلی شکار کی تھی، اُس کے ایک کان پر لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ اور دوسرے پر مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہِ لکھا ہوا تھا۔
(۲۹) عَن أَسمَاءِ بِنتِ یَزِیدِ بنِ السَّکَنِ عَن رَسُولِ اللہِﷺأَنَّہٗ قَالَ: اِسمُ اللہِ الأَعظَمُ فِي هَاتَینِ الاٰیَتَینِ: ﴿وَإِلٰـهُکُمْ إِلٰہٌ وَّاحِدٌ، لَا إِلٰہَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ﴾ و ﴿اَلم، اللہُ لا إِلٰہَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَیُّومُ﴾.
(أخرجہ ابن أبي شیبۃ، وأحمد، والدارمي، وأبوداود، والترمذي وصححہ، وابن ماجہ، وأبومسلم الکجي في السنن، وابن الضریس، وابن أبي حاتم، والبیهقي في الشعب؛ کذا في الدر)
ترجَمہ:
حضرت اسماء رَضِيَ اللہُ عَنْهَا حضورِ اقدس ﷺسے نقل کرتی ہیں کہ: اللہ کا سب سے بڑا نام (جو اسمِ اعظم کے نام سے عام طورپر مشہور ہے)اِن دو آیتوں میں ہے (بہ شرطے کہ اِخلاص سے پڑھی جائیں): ﴿وَإِلٰـہُکُمْ إِلٰہٌ وَّاحِدٌ، لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِیْمُ﴾ [البقرۃ، ع:۱۹] ﴿اَللہُ لا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَيُّ الْقَیُّومُ﴾. [اٰل عمران ع:۱]
۔ : ۔ مُتمرِّد: سرکَش۔ اِستِحضار: دھیان۔ ضَبط وتحمُّل: قابو اور برداشت۔اِستِدعا: درخواست۔
فائدہ:
اسمِ اَعظم کے متعلِّق روایاتِ حدیث میں کثرت سے یہ وارد ہوا ہے کہ: جو دعا بھی اُس کے بعد مانگی جاتی ہے وہ قَبول ہوتی ہے۔
(ترمذی،ابواب الدعوات، ۲؍ ۱۹۴ حدیث:۳۵۴۴)
البتہ اسمِ اعظم کی تعیین میں رِوایات مختلف وَارِد ہوئی ہیں، اور یہ عادتُ اللہ ہے کہ ہر ایسی مُہتَم بِالشَّان[نہایت اَہم] چیز میں اِخفا(پوشیدہ ہونا) کی وجہ سے اختلاف پیدا فرمادیتے ہیں، چنانچہ شبِ قدر کی تعیین میں، جمعہ کے دن میں دعا قَبول ہونے کے خاص وقت میں اختلاف ہوا، اِس میں بہت سی مَصالِح ہیں، جن کو مَیں اپنے رسالہ ’’فضائلِ رمَضان‘‘ میں لکھ چکا ہوں؛ اِسی طرح اسمِ اعظم کی تعیین میں بھی مختلف روایات وَارِد ہوئیں، مِن جُملہ اُن کے یہ روایت بھی ہے جو اُوپر ذکر کی گئی، اَور بھی روایات میں اِن آیتوں کے متعلِّق ارشاد وارد ہوا ہے:
حضرت انس حضور ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ: مُتمرِّد اور شَرِّی شیاطین پر اِن دو آیتوں سے زیادہ سخت کوئی آیت نہیں، وہ دو آیتیں ﴿وَإِلٰـہُکُمْ إِلٰہٌ وَّاحِدٌ﴾ سے شروع ہیں۔
(دُرِّمنثور۱؍۳۹۴)
ابراہیم بن دَسمہؒ کہتے ہیں کہ: مجنونانہ حالت، نظر وغیرہ کے لیے اِن آیات کا پڑھنا مُفِید ہے، جو شخص اِن آیات کے پڑھنے کا اِہتِمام رکھے اِس قِسم کی چیزوں سے محفوظ رہے۔ ﴿وَإِلٰـہُکُمْ إِلٰہٌ وَّاحِدٌ﴾ پوری آیت [البقرۃ، ع:۱۹]، ﴿اَللہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَيُّ الْقَیُّومُ﴾ آیۃ الکرسی، اور سورۂ بقرہ کی آخر آیت اور ﴿إِنَّ رَبَّکُمُ اللہُ الَّذِيْ خَلَقَ﴾ سے ﴿مُحْسِنِیْنَ﴾ تک [الأعراف ع:۱۴]، اور سورۂ حشر کی آخر آیتیں: ﴿ہُوَ اللہُ الَّذِيْ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ﴾سے؛ ہمیں یہ بات پہنچی کہ: سب آیات (جن کو گِنوایا) عرش کے کونوں پر لکھی ہوئی ہیں۔ اور ابراہیمؒ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ: بچوں کو اگر ڈر لگتا ہو یا نظرکا اندیشہ ہو تو یہ آیات اُن کے لیے لکھ دیا کرو۔
(تاریخ ابن عساکر۷؍۱۷۳)
علاَّمہ شامیؒ نے حضرت امامِ اعظمؒ سے نقل کیا ہے کہ: اسمِ اعظم لفظِ اللہ ہے، اور لکھا ہے کہ: یہی قول علامہ طحاویؒ اور بہت سے عُلَماء سے نقل کیا گیا ہے، اور اکثر عارِفین (اکابرِ صوفیا) کی یہی تحقیق ہے، اِسی وجہ سے اُن کے نزدیک ذکر بھی اِسی پاک نام کا کثرت سے ہوتا ہے۔
سَیِّدُ الطَّائِفہ حضرت شیخ عبدالقادر جِیلانی -نَوَّرَ اللہُ مَرقَدَہٗ- سے بھی یہی نقل کیا گیا، فرماتے ہیں کہ: اسمِ اعظم اللہ ہے بہ شرطے کہ جب تُو اِس پاک نام کو لے تو تیرے دل میں اُس کے سِوا کچھ نہ ہو۔ فرماتے ہیں کہ: عوام کے لیے اِس پاک نام کو اِس طرح لینا چاہیے کہ جب یہ زبان پر جاری ہو تو عَظمت اور خوف کے ساتھ ہو، اور خَواص کے لیے اِس طرح ہو کہ، اِس پاک نام والے کی ذات وصفات کا بھی اِستِحضار ہو، اور اَخَصُّ الخَواص کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ، اِس پاک ذات کے سِوا دل میں کوئی چیز بھی نہ ہو۔ کہتے ہیں کہ: قرآنِ پاک میں بھی یہ مبارک نام اِتنی کثرت سے ذکر کیا گیا کہ حد نہیں، جس کی مقدار دو ہزار تین سو ساٹھ بتاتے ہیں۔
شیخ اسماعیل فَرغانیؒ کہتے ہیں کہ: مجھے ایک عرصے سے اسمِ اعظم سیکھنے کی تمنا تھی، مُجاہَدے بہت کرتا تھا، کئی کئی دن فاقے کرتا، حتیٰ کہ فاقوں کی وجہ سے بے ہوش ہوکر گرجاتا، ایک روز مَیں دِمَشق کی مسجد میں بیٹھا تھا کہ دو آدمی مسجد میں داخل ہوئے، اور میرے قریب کھڑے ہوگئے، مجھے اُن کو دیکھ کر خَیال ہوا کہ یہ فرشتے معلوم ہوتے ہیں، اُن میں سے ایک نے دوسرے سے پوچھا: کیا تُو اسمِ اعظم سیکھنا چاہتا ہے؟ اُس نے کہا: ہاں! بتا دیجیے، مَیں یہ گفتگو سُن کر غور کرنے گا، اُس نے کہا: وہ لفظِ اللہ ہے بہ شرطے کہ صِدقِ لَجا سے ہو۔ شیخ اسماعیلؒ کہتے ہیں کہ: ’’صِدقِ لَجا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ، کہنے والے کی حالت اُس وقت ایسی ہو کہ جیسا کوئی شخص دَریا میں غَرق ہورہا ہو، اور کوئی بھی اُس کا بچانے والا نہ ہو، تو ایسے وقت جس خُلوص سے نام لیا جائے گا وہ حالت مراد ہے۔
(روض الریاحین، ص:۲۳۸،حکایت:۳۹۳)
اسمِ اعظم معلوم ہونے کے لیے بڑی اَہلِیَّت اور بڑے ضَبط وتحمُّل کی ضرورت ہے۔ ایک بزرگ کا قِصَّہ لکھا ہے کہ: اُن کو اسمِ اعظم آتا تھا، ایک فقیر اُن کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اُن سے تمنا واِستِدعا کی کہ: مجھے بھی سکھادیجیے، اُن بزرگ نے فرمایا کہ: تم میں اَہلیت نہیں ہے، فقیر نے کہا کہ: مجھ میں اِس کی اَہلیت ہے، تو بزرگ نے کہا کہ: اچھا! فلاں جگہ جاکر بیٹھ جاؤ، اور جو واقعہ وہاں پیش آئے اُس کی مجھے خبر دو، فقیر اُس جگہ گئے، دیکھا کہ ایک بوڑھا شخص گدھے پر لکڑیاں لادے ہوئے آرہا ہے، سامنے سے ایک سپاہی آیا جس نے اُس بوڑھے کو مار پیٹ کی اور لکڑیاں چھین لِیں، فقیر کو اُس سپاہی پر بہت غُصَّہ آیا، واپس آکر بزرگ سے سارا قِصَّہ سنایا اور کہا کہ: مجھے اگر اسمِ اعظم آجاتا تو اُس سپاہی کے لیے بددعا کرتا، بزرگ نے کہا کہ: اُس لکڑی والے ہی سے مَیں نے اسمِ اعظم سیکھا ہے۔
(روض الریاحین، ص: ۲۳۸، حکایت:۳۹۳)
(۳۰) عَن أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: یَقُولُ اللہُ تَبَارَكَ وَتَعَالیٰ: أَخرِجُوا مِنَ النَّارِ مَن قَالَ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ، وَفِي قَلبِہٖ مِثقَالَ ذَرَّۃٍ مِنَ الإِیمَانِ، أَخرِجُوا مِنَ النَّارِ مَن قَالَ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ، أَو ذَکَرَنِي أَوخَافَنِي فِي مَقَامٍ.
(أخرجہ الحاکم بروایۃ المومل عن المبارك بن فضالۃ، وقال: صحیح الإسناد، وأقرہ علیہ الذهبي. وقال الحاکم: قد تابع أبوداود مؤملا علیٰ روایتہ، واختصرہ)
ترجَمہ:
حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ: (قِیامت کے دن ) حق تَعَالیٰ شَانُہٗ ارشاد فرمائیں گے کہ: جہنَّم سے ہر اُس شخص کو نکال لو جس نے لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کہا ہو، اور اُس کے دل میں ایک ذَرَّہ برابر بھی ایمان ہو، اور ہر اُس شخص کو نکال لو جس نے لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کہا ہو ،یا مجھے (کسی طرح بھی)یاد کیا ہو، یا کسی موقعے پر مجھ سے ڈرا ہو۔
رَاز دَار: راز کی باتوں کو جاننے والا۔
فائدہ:
اِس پاک کلمے میں حق تَعَالیٰ شَانُہٗ نے کیا کیا برکات رکھی ہیں اِس کا معمولی سا اندازہ اِتنی ہی بات سے ہوجاتا ہے کہ سوبرس کا بوڑھا جس کی تمام عمر کُفر وشِرک میں گذری ہو، ایک مرتبہ اِس پاک کلمے کو ایمان کے ساتھ پڑھنے سے مسلمان ہوجاتا ہے، اور عمر بھر کے سارے گناہ زائل[ختم] ہوجاتے ہیں، اور ایمان لانے کے بعد اگر گناہ بھی کیے ہوں تب بھی اِس کلمے کی برکت سے کسی نہ کسی وقت جہنَّم سے ضرور نکلے گا۔
حضرت حُذیفہ -جو حضورِ اقدس ﷺ کے رَاز دَار ہیں- فرماتے ہیں کہ: نبیٔ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: (ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے) کہ اسلام ایسا دُھندلا رہ جائے گاجیسے کپڑے کے نقش ونِگار (پُرانے ہوجانے سے) دُھندلے ہوجاتے ہیں، کہ نہ کوئی روزے کو جانے گا، نہ حج کو، نہ زکوۃ کو؛ آخر ایک رات ایسی ہوگی کہ قرآنِ پاک بھی اُٹھالِیا جائے گا، کوئی آیت اُس کی باقی نہ رہے گی، بوڑھے مرد اور بوڑھی عورتیں یہ کہیںگی کہ: ہم نے اپنے بڑوں کو کلمۂ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ پڑھتے سنا تھا، ہم بھی اِسی کو پڑھیںگے، حضرت حُذیفہ کے ایک شاگرد نے عرض کیا کہ: جب زکوۃ، حج، روزہ کوئی رُکن نہ ہوگا تو یہ کلمہ ہی کیا کام دے گا؟ حضرت حُذیفہص نے سُکوت فرمایا، اُنھوں نے پھر یہی عرض کیا، تیسری مرتبہ میں حضرت حذیفہ ص نے فرمایا کہ: (کسی نہ کسی وقت)جہنَّم سے نکالے گا، جہنم سے نکالے گا، جہنم سے نکالے گا، یعنی ارکانِ اسلام کے ادا نہ کرنے کا عذاب بھگتنے کے بعد کسی نہ کسی وقت اِس کلمے کی برکت سے نجات پائے گا۔
(۔۔۔۔۔)
یہی مطلب ہے حدیثِ بالا کا، کہ اگر ایمان کا ذرا سا حِصَّہ بھی ہے تب بھی جہنَّم سے کسی نہ کسی وقت نکالا جائے گا۔
ایک حدیث میں ہے: جو شخص لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ پڑھے وہ اُس کو کسی نہ کسی دن ضرور کام دے گا، گو اُس کو کچھ نہ کچھ سزا بھگتنا پڑے۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
(۳۱) عَن عَبدِاللہِ بنِ عَمروٍ قَالَ: أَتَی النَّبِيَّﷺ أَعرَابِيٌّ، عَلَیہِ جُبَّۃٌ مِن طَیَالِسَۃٍ مَکفُوفَۃٌ بِالدِّیبَاجِ، فَقَالَ: إنَّ صَاحِبَکُم هٰذَا یُرِیدُ یَرفَعُ کُلَّ رَاعٍ وَابنَ رَاعٍ، وَیَضَعُ کُلَّ فَارِسٍ وَابنَ فَارِسٍ، فَقَامَ النَّبِيُّ ﷺ مُغضِباً، فَأَخَذَ بِمَجَامِعِ ثَوبِہٖ فَاجتَذَبَہٗ، وَقَالَ: أَلَا أَریٰ عَلَیكَ ثِیَابَ مَن لَایَعقِلُ؟ ثُمَّ رَجَعَ رَسُولُ اللہِﷺ فَجَلَسَ، فَقَالَ: إِنَّ نُوحاً لَمَّا حَضَرَتْہُ الوَفَاۃُ دَعَا اِبنَیْہِ، فَقَالَ: إِنِّي قَاصٌّ عَلَیکُمَا الوَصِیَّۃَ، اٰمُرُکُمَا بِاثنَینِ وَأَنْهَاکُمَا عَن اِثنَینِ: أَنهٰکُمَا عَنِ الشِّركِ وَالکِبَرِ، وَاٰمُرُکُمَا بِلَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ؛ فَإِنَّ السَّمٰوَاتِ وَالأَرضَ وَمَا فِیهِمَا لَو وُضِعَتْ فِي کَفَّۃِ المِیزَانِ وَوُضِعَتْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ فِي الکَفَّۃِ الأُخریٰ کَانَتْ أَرجَحَ مِنهُمَا، وَلَو أَنَّ السَّمٰوَاتِ وَالأَرضَ وَمَا فِیهِمَا کَانَتْ حَلَقَۃً فَوُضِعَتْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ عَلَیهَا لَقَصَعَتْهُمَا، وَاٰمُرُکُمَا بِسُبحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ؛ فَإِنَّهُمَا صَلَاۃُ کُلِّ شَيْئٍ، وَبِهِمَا یُرزَقُ کُلُّ شَيْئٍ.
(أخرجہ الحاکم، وقال: صحیح الإسناد، ولم یخرجہ للصقعب ابن زهیر؛ فإنہ ثقۃ قلیل الحدیث. اھ وأقرہ علیہ الذهبي، وقال: الصقعب ثقۃ، ورواہ ابن عجلان عن زید بن أسلم مرسلا.اھ قلت: ورواہ أحمد في مسندہ بزیادۃ فیہ بطریق، وفي بعض منها: ’’فَإِنَّ السَّمٰوَاتِ السَّبعَ وَالأَرضِینَ السَّبعِ کُنَّ حَلْقَۃً مُبهَمَۃً قَصَمَتْهُنَّ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ‘‘، وذکرہ المنذري في الترغیب عن ابن عمر مختصرا، وفیہ: ’’لَوکَانَتْ حَلْقَۃً لَقَصَمَتْهُنَّ حَتّٰی تَخلُصَ إِلَی اللہِ‘‘، ثم قال: رواہ البزار، ورواتہ محتج بهم في الصحیح؛ إلاأن ابن إسحاق، وهو في النسائي عن صالح بن سعید رفعہ إلیٰ سلیمان بن یسار، إلیٰ رجل من الأنصار لم یسمہ، ورواہ الحاکم عن عبداللہ، وقال: صحیح الإسناد، ثم ذکر لفظہ. قلت: وحدیث سلیمان بن یسار یأتي في بیان التسبیح، وفي مجمع الزوائد: رواہ أحمد، ورواہ الطبراني بنحوہ، ورواہ البزار من حدیث ابن عمر، ورجال أحمد ثقات، وقال: في روایۃ البزار محمد بن إسحاق، وهو مدلس، وهو ثقۃ)
ترجَمہ:
حضورِ اقدس ﷺ کی خدمت میں ایک شخص گاؤں کا رہنے والا آیا، جو ریشمی جُبَّہ پہن رہا تھا اور اُس کے کِناروں پر دِیباکی گوٹ تھی (صحابہ ثسے خِطاب کرکے) کہنے لگا کہ: تمھارے ساتھی(محمدﷺ)یہ چاہتے ہیں کہ: ہر چَرواہے (بکری چَرانے والے)اور چَرواہے زادے کو بڑھادیں، اور شَہ سوار اور شَہ سواروں کی اولاد کو گِرادیں، حضورﷺ ناراضگی سے اُٹھے اور اُس کے کپڑوں کو گِریبان سے پکڑ کر ذرا کھینچا، اور ارشاد فرمایا کہ: (تُوہی بتا)تُو بے وَقُوفوں کے سے کپڑے نہیں پہن رہا ہے؟ پھر اپنی جگہ واپس آکر تشریف فرماہوئے اور ارشاد فرمایا کہ: حضرت نوح عَلیٰ نَبِیِّنَا وَعَلَیہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ کا جب اِنتِقال ہونے لگا تو اپنے دونوں صاحب زادوں کوبُلایا، اور ارشاد فرمایا کہ: مَیں تمھیں (آخری)وَصیَّت کرتا ہوں، جس میں دو چیزوں سے روکتا ہوں اور دو چیزوں کا حکم کرتاہوں، جن سے روکتا ہوں: ایک شِرک ہے، دوسرا تکبُّر؛ اور جن چیزوں کا حکم کرتا ہوں: ایک لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ ہے، کہ تمام آسمان وزمین اور جو کچھ اُن میں ہے اگر سب ایک پلڑے میں رکھ دیاجائے، اور دوسرے میں اِخلاص سے کہا ہوا لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ رکھ دیا جائے تو وہی پلڑا جھک جائے گا، اور اگر تمام آسمان وزمین اور جو کچھ اُن میں ہے ایک حلقہ بناکر اِس پاک کلمے کو اُس پر رکھ دیا جاوے تو وہ وزن سے ٹوٹ جائے، اور دوسری چیز جس کا حکم کرتا ہوں وہ سُبحَانَ اللہِ وَبِحَمدِہٖ ہے، کہ یہ دو لفظ ہر مخلوق کی نماز ہیں، اور اُنھِیں کی برکت سے ہر چیز کو رِزق عطا کیاجاتا ہے۔
دِیبا: ایک قِسم کا ریشمی کپڑا۔ گوٹ: کنارہ۔ سَعی: کوشش۔
فائدہ: حضورِ اقدس ﷺ کا کپڑوں کے متعلِّق اِرشاد فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ، ظاہر سے باطن پر اِستِدلال کیا جاتا ہے، جس شخص کا ظاہرِ حال خراب ہے اُس کے باطن کا حال بھی بہ ظاہر ویسا ہی ہوگا؛ اِس لیے ظاہر کو بہتر رکھنے کی سَعی کی جاتی ہے کہ باطن اُس کے تابع ہوتا ہے؛ اِسی لیے صوفیائے کرام ظاہری طَہارت: وُضو وغیرہ کا اِہتِمام کراتے ہیں؛ تاکہ باطن کی طَہارت حاصل ہوجائے۔ جو لوگ یہ کہہ دیتے ہیں: ’’اَجی! باطن اچھا ہونا چاہیے، ظاہر چاہے کیسا ہی ہو‘‘ صحیح نہیں، باطن کا اچھا ہونا مُستَقِل مقصود ہے اور ظاہر کا بہتر ہونا مُستَقِل۔
نبیٔ اَکرم ﷺ کی دُعاؤں میں ہے: اَللّٰہُمَّ اجعَلْ سَرِیرَتِيخَیراً مِّنْ عَلَانِیَتِيْ، وَاجْعَلْ عَلَانِیَتِي صَالِحَۃً. (اے اللہ! میرے باطن کو میرے ظاہر سے زیادہ بہتر بنا، اور میرے ظاہر کو صالِح اور نیک بنادے)۔حضرت عمر ص فرماتے ہیں کہ: مجھے حضورِ اقدس ﷺ نے یہ دعا تعلیم فرمائی ہے۔
(ترمذی، ابواب الدعوات،۲؍۱۹۹حدیث:۳۵۸۶)
(۳۲) عَن أَنَسٍ: أَنَّ أَبَابَکرٍ دَخَلَ عَلَی النَّبِيِّﷺ وَهُوَ کَئِیْبٌ، فَقَالَ لَہُ النَّبِيُّﷺ: مَالِيَ أَرَاكَ کَئِیباً؟ قَالَ: یَا رَسُولَ اللہِ! کُنتُ عِندَ ابنِ عَمٍّ لِيْ اَلبَارِحَۃَ فُلَانٌ وَهُوَ یَکِیدُ بِنَفسِہٖ، قَالَ: فَهَل لَقَّنْتَہٗ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ؟ قَالَ: قَدْ فَعَلتُ یَارَسُولَ اللہِ! قَالَ: فَقَالَهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَجَبَتْ لَہُ الجَنَّۃُ، قَالَ أَبُوبَکرٍ: یَا رَسُولَ اللہِ! کَیفَ هِيَ للِأَحیَاءِ؟ قَالَ: هِيَ أَهدَمُ لِذُنُوبِهِم، هِيَ أَهدَمُ لِذُنُوبِهِم.
(رواہ أبویعلیٰ والبزار، وفیہ زائدۃ بن أبي الرقاد، وثقہ القواریري وضعفہ البخاري وغیرہ؛ کذا في مجمع الزوائد. وأخرج بمعناہ عن ابن عباس أیضا. قلت: وروي عن علي مرفوعاً: مَن قَالَ إِذَا مَرَّ بِالمَقَابِرِ: ’’اَلسَّلَامُ عَلیٰ أَهلِ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ مِن أَهلِ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ، کَیفَ وَجَدتُمْ قَولَ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ؟ یَا لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ! اِغفِرْ لِمَنْ قَالَ: لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ، وَاحشُرْنَا فِي زُمرَۃِ مَنْ قَالَ: لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ‘‘، غُفِرَلَہٗ ذُنُوبُ خَمسِینَ سَنَۃً؛ قِیلَ: یَارَسُولَ اللہِ! مَن لَمْ یَکُنْ لَہٗ ذُنُوبُ خَمسِینَ سَنَۃً؟ قَالَ لِوَالِدَیہِ وَلِقَرَابَتِہٖ وَلِعَامَّۃِ المُسلِمِینَ. رواہ الدیلمي في تاریخ همدان، والرافعي، وابن النجار؛کذافي منتخب کنز العمال؛ لکن روي نحوہ السیوطي في ذیل اللاٰلي وتکلم علیٰ سندہ، وقال: الإسناد کلہ ظلمات، ورمی رجالہ بالکذب. وفي تنبیہ الغافلین: ’’وَرُوِيَ عَنْ بَعضِ الصَّحَابَۃِ: مَن قَالَ: لَا إلٰہَ إِلَّا اللہُ مِن قَلبِہٖ خَالِصاً وَمَدَّهَا بِالتَّعظِیْمِ، کَفَّرَ اللہُ عَنہُ أَربَعَۃَ اٰلافٍ ذَنبٍ مِنَ الکَبَائِرِ، قِیلَ: إنْ لَم یَکُن لَہٗ أَربَعَۃُ اٰلَافٍ ذَنبٍ؟ قَالَ یُغفَرُ مِن ذُنُوبِ أَهلِہٖ وَجِیرَانِہٖ‘‘اھ. قلت: وروي بمعناہ مرفوعا؛ لکنهم حکموا علیہ بالوضع، کما في ذیل اللاٰلي؛ نعم یؤیدہ الأمر بدفن جوارالصالح وتاذیہ بجوار السوء، ذکرہ السیوطي في اللاٰلي بطرق، وورد السلام علیٰ أهل القبور بألفاظ مختلفۃ في کنز العمال وغیرہ)
ترجَمہ: حضرت ابوبکرصدیقص حضورِاقدس ﷺ کی خدمت میں رَنجیدہ سے ہوکر حاضر ہوئے، حضورﷺ نے دریافت فرمایا کہ: مَیں تمھیں رَنجیدہ دیکھ رہا ہوں، کیا بات ہے؟ اُنھوں نے عرض کیا کہ: گذشتہ شب میرے چچازاد بھائی کاانتقال ہوگیا، مَیں نزع(سکرات) کی حالت میں اُن کے پاس بیٹھا تھا،(اِس مَنظر سے طبیعت پر اَثرہے)،حضورﷺ نے فرمایا: تم نے اُس کو لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ کی تَلقِین بھی کی تھی؟ عرض کیا: کی تھی، ارشاد فرمایا کہ: اُس نے یہ کلمہ پڑھ لیا تھا؟ عرض کیاکہ: پڑھ لیا تھا، ارشاد فرمایا کہ: جنت اُس کے لیے واجب ہوگئی، حضرت ابوبکرص نے عرض کیا: یارسولَ اللہ! زندہ لوگ اِس کلمے کو پڑھیں تو کیا ہو؟ حضورﷺنے دومرتبہ یہ ارشاد فرمایا کہ: یہ کلمہ اُن کے گناہوں کو بہت ہی مُنہَدِم کردینے والا ہے، بہت ہی مُنہَدِم کردینے والا ہے، (یعنی بالکل ہی مِٹا دینے والا ہے)۔
رَنجیدہ: غمگین۔ بَسااَوقات: بہت سی مرتبہ۔ سُرخ: لال۔طَباق: تھال۔
فائدہ: مَقابِر میں اور مَیِّت کے قریب کلمۂ طَیِّبہ پڑھنے کے مُتعلِّق بھی کثرت سے احادیث میں ارشاد ہوا ہے:
ایک حدیث میں ہے کہ: جنازے کے ساتھ کثرت سے لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ پڑھا کرو۔(۔۔۔۔۔)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: میری اُمَّت کا شِعار (نشان)جب وہ پُل صراط پر چلیںگے تو لَاإِلٰہَ إِلَّا أَنتَہوگا۔(کنزالعمال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)دوسری حدیث میں ہے کہ: جب وہ اپنی قبروں سے اُٹھیںگے تو اُن کا نشان لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ، وَعَلیٰ اللہِ فَلیَتَوَکَّلِ المُؤْمِنُونَ ہوگا۔ (کنزالعمال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)تیسری حدیث میں ہے کہ: قِیامت کے اندھیروں میں اُن کا نشان لَاإِلٰہَ إِلَّا أَنتَ ہوگا۔
(کنزالعمال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ کو کثرت سے پڑھنے کی برکتیں مرنے سے پہلے بھی بَسااَوقات نَزع کے وقت سے محسوس ہوجاتی ہیں، اور بعض اللہ کے بندوں کو اِس سے بھی پہلے ظاہر ہوجاتی ہیں۔
ابُوالعبَّاسؒ کہتے ہیں کہ: مَیں اپنے شہر’’اَشبِیلہ‘‘ میں بیمار پڑا ہوا تھا، مَیں نے دیکھا کہ: بہت سے پرند بڑے بڑے اور مختلف رنگ کے سفید، سُرخ،سَبز[ہرا] ہیں؛ جو ایک ہی دَفعہ سب کے سب پَر سَمیٹ لیتے ہیں اور ایک ہی مرتبہ کھول دیتے ہیں، اور بہت سے آدمی ہیں جن کے ہاتھ میں بڑے بڑے طَباق ڈَھکے ہوئے ہیں جن کے اندر کچھ رکھا ہوا ہے، مَیں اِس سب کو دیکھ کر یہ سمجھا کہ یہ موت کے تحفے ہیں، مَیں جلدی جلدی کلمۂ طیبہ پڑھنے لگا، اُن میں سے ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ: تمھارا وقت ابھی نہیں آیا، ایک اَور مومن کے لیے تحفہ ہے جس کا وقت آگیا ہے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا جب اِنتِقال ہونے لگا تو فرمایا: مجھے بٹھادو، لوگوں نے بٹھادیا، پھر فرمایا: (یا اللہ!)تُونے مجھے بہت سے کاموں کاحکم فرمایا تھا مجھ سے اُس میں کوتاہی ہوئی، تُو نے مجھے بہت سی باتوں سے منع فرمایا مجھ سے اُس میں نافرمائی ہوئی، تین مرتبہ یہی کہتے رہے، اِس کے بعد فرمایا: لیکن لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ، یہ فرماکر ایک جانب غور سے دیکھنے لگے، کسی نے پوچھا: کیا دیکھتے ہو؟ فرمایا: کچھ سَبز[ہرا] چیزیں ہیں کہ نہ وہ آدمی ہیں نہ جن، اِس کے بعد اِنتقال فرمایا۔ (تاریخ ابن عساکر۴۸؍۱۶۸، ۱۶۹)
زُبیدہؒ کو کسی نے خواب میں دیکھا، اُس سے پوچھا: کیا گزری؟ اُس نے کہا کہ: اِن چار کلموں کی بہ دولت میری مغفرت ہوگئی: لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ أَفنِي بِهَا عُمْرِي، لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ أَدخُلُ بِهَا قَبرِيْ، لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ أَخلُو بِهَا وَحدِي، لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ أَلقِي بِهَا رَبِّي.(لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُکے ساتھ اپنی عمر کو ختم کروںگی، اورلَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ ہی کو قبر میں لے کر جاؤںگی؛ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُہی کے ساتھ تنہائی کا وقت گزاروںگی اور لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُہی کو لے کر اپنے رب کے پاس جاؤںگی۔)(احیاء العلوم،بیان منامات المشایخ،۴؍۵۰۸)
(۳۳) عَن أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قُلتُ: یَا رَسُولَ اللہِ! أَوصِنِي، قَالَ: إذَا عَمِلتَ سَیِّئَۃً فَأَتْبِعْهَا حَسَنَۃً تَمْحُهَا، قُلتُ: یَا رَسُولَ اللہِ! أَمِنَ الحَسَنَاتِ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ؟ قَالَ: هِيَ أَفضَلُ الحَسَنَاتِ.
(رواہ أحمد، وفي مجمع الزوائد: رواہ أحمد ورجالہ ثقات؛ إلا أن شمر بن عطیۃ حدثہ عن أشیاخہ ولم یسم أحدا منهم. قال السیوطي في الدر: أخرجہ أیضا ابن مردویہ، والبیهقي في الأسماء والصفات. قلت: وأخرجہ الحاکم بلفظ: ’’یَا أَبَاذَرٍّ! اِتَّقِ اللہَ حَیثُ کُنتَ، وَاتْبِعِ السَّیِّئَۃَ الحَسَنَۃَ تَمحُهَا، وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ‘‘، وقال: صحیح علیٰ شرطهما، وأقرہ علیہ الذهبي؛ وذکرہ السیوطي في الجامع مختصرا، ورقم لہ بالصحۃ.
ترجَمہ: حضرت ابوذرغِفاری صنے عرض کیا: یا رسولَ اللہ! مجھے کوئی وَصیت فرما دیجیے، ارشاد ہوا کہ: جب کوئی بُرائی سَرزَد ہوجائے تو کَفَّارے کے طور پر فوراً کوئی نیک کام کرلیا کرو؛ (تاکہ بُرائی کی نَحوست دُھل جائے)،مَیں نے عرض کیا: یا رسولَ اللہ! لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ پڑھنا بھی نیکیوں میں داخل ہے؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ: یہ تو ساری نیکیوں میں افضل ہے۔
سَرزَد: واقع۔ مَحو: ختم۔ کِراماً کاتِبین: اعمال لکھنے والے فرشتے۔ نَدامَت:افسوس۔ مَخفی: پوشیدہ۔عَلی الاِعلاَن: کھُلَّم کھُلاَّ۔
فائدہ: بُرائی اگر گناہِ صغیرہ ہے تو نیکی سے اُس کا مَحو ہوجانا اور مِٹ جانا ظاہر ہے، اور اگر کبیرہ ہے تو قواعد کے موافق توبہ سے مَحو ہوسکتی ہے یا محض اللہ کے فضل سے، جیسا پہلے بھی گزر چکا ہے۔ بہر صورت مَحو ہونے کا مطلب یہ ہے کہ، پھر وہ گناہ اَعمال نامے میں رہتا ہے نہ کہیں اُس کا ذِکر ہوتا ہے۔
چناںچہ ایک حدیث میں وارد ہے کہ: جب بندہ توبہ کرتا ہے تو حق تَعَالیٰ شَانُہٗ وہ گناہ کِراماً کاتِبین کو بھُلادیتے ہیں، اور اُس گنہ گار کے ہاتھ پاؤں کو بھی بھلا دیتے ہیں، اورزمین کے اُس حِصَّے کو بھی جس پر وہ گناہ کیا گیا ہے، حتیٰ کہ کوئی بھی اُس گناہ کی گواہی دینے والا نہیں رہتا۔(ترغیب وترہیب للمنذری،کتاب التوبۃ والزہد۴؍۷۵)
گواہی کا مطلب یہ ہے کہ، قِیامت میں آدمی کے ہاتھ، پاؤں اور بدن کے دوسرے حِصے نیک یا بد اعمال جو بھی کیے ہوں، اُن کی گواہیاں دیںگے، جیسا کہ بابِ سوم فصلِ دوم حدیث ۱۸؍ کے تحت آرہا ہے۔
حدیثِ بالا کی تائید اُن رِوایات سے بھی ہوتی ہے جن میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ: گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ گناہ کیا ہی نہیں۔(ابن ماجہ، کتاب الزہد،باب ذکر التوبۃص:۳۱۳حدیث:۴۲۵۰)
یہ مضمون کئی حدیثوں میں وارد ہوا ہے۔ توبہ اِس کو کہتے ہیں کہ: جو گناہ ہوچکا اُس پر اِنتِہائی نَدامَت اور شرم ہو، اور آئندہ کے لیے پَکا ارادہ ہو کہ پھر کبھی اِس گناہ کو نہیں کروںگا۔
ایک دوسری حدیث میں حضورﷺ کا ارشاد وارد ہوا ہے کہ: اللہ کی عبادت کر، اور کسی کو اُس کا شریک نہ بنا، اور ایسے اخلاص سے عمل کیا کر جیسا کہ وہ پاک ذات تیرے سامنے ہو، اور اپنے آپ کو مُردوں میں شمار کر، اور اللہ کی یاد ہر پتھر اور ہردرخت کے قریب کر؛ (تاکہ بہت سے گواہ قِیامت کے دن ملیں)،اور جب کوئی بُرائی ہوجائے تو اُس کے کَفَّارے میں کوئی نیکی کیا کر: اگر بُرائی مَخفی کی ہے تو نیکی بھی مخفی ہو، اور بُرائی کوعَلی الاِعلاَن کیا ہے تو اُس کے کَفَّارے میں نیکی بھی عَلی الاِعلان ہو۔(طبرانی۲۰؍۱۷۵حدیث:۳۷۴)
(۳۴) عَن تَمِیمِ الدَّارِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: مَنْ قَالَ: ’’لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاحِداً أَحَداً صَمَداً لَم یَتَّخِذْ صَاحِبَۃً وَلَا وَلَداً وَلَم یَکُنْ لَہٗ کُفُواً أَحَدٌ‘‘ عَشرَ مَرَّاتٍ کُتِبَتْ لَہٗ أَربَعُونَ أَلفَ حَسَنَۃٍ.
(أخرجہ أحمد. قلت: أخرج الحاکم شواهدہ بألفاظ مختلفۃ)
ترجَمہ: حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ: جو شخص لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاحِداً أَحَداً صَمَداً، لَم یَتَّخِذْ صَاحِبَۃً وَلَا وَلَداً، وَلَم یَکُنْ لَہٗ کُفُواً أَحَدٌ کو دس مرتبہ پڑھے گا، چالیس ہزار نیکیاں اُس کے لیے لکھی جائیں گی۔
فائدہ: کلمۂ طیبہ کی خاص خاص مقدار پر بھی حدیث کی کتابوں میں بڑی فضیلتیں ذکر فرمائی گئی ہیں۔
ایک حدیث میں آیا ہے: جب تم فرض نماز پڑھاکرو تو ہر فرض کے بعد دس مرتبہ ’’لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحدَہٗ لَا شَرِیكَ لَہٗ، لَہُ المُلْكُ وَلَہُ الحَمْدُ، یُحْیِيْ وَیُمِیتُ، وَہُوَ عَلیٰ کُلِّ شَيْئٍ قَدِیْرٌ‘‘ پڑھاکرو، اِس کاثواب ایسا ہے کہ جیسے ایک غلام آزاد کیا۔(مسند احمد،۔۔۔۔۔حدیث:۱۸۵۱۸)
(۳۵) عَن عَبدِاللہِ بنِ أَبِي أَوفیٰ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: مَن قَالَ: ’’ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحدَہٗ لَا شَرِیكَ لَہٗ، أَحداً صَمَداً، لَم یَلِدْ وَلَم یُولَدْ، وَلَم یَکُن لَہٗ کُفُواً أَحَدٌ‘‘ کَتَبَ اللہُ لَہٗ أَلفَيْ حَسَنَۃً.
(رواہ الطبراني، کذا في الترغیب، وفي مجمع الزوائد: فیہ فائد أبو الورقا متروك)
ترجَمہ: دوسری حدیث میں ارشاد ہے کہ: جو شخص لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحدَہٗ لَا شَرِیكَ لَہٗ، أَحداً صَمَداً، لَم یَلِدْ وَلَم یُولَدْ، وَلَم یَکُن لَہٗ کُفُواً أَحَدٌ پڑھے، اُس کے لیے بیس لاکھ نیکیاں لکھی جائیںگی۔
اَلطاف: انعامات۔
فائدہ:کس قدر اللہجَلَّ شَانُہٗکے یہاں سے اِنعام واِحسان کی بارش ہے! کہ ایک معمولی سی چیز کے پڑھنے پر جس میں نہ مَشقَّت، نہ وقت خرچ ہو، پھر بھی ہزار ہزار، لاکھ لاکھ نیکیاں عطا ہوتی ہیں؛ لیکن ہم لوگ اِس قدر غفلت اور دُنیاوی اَغراض کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ اِن اَلطاف کی بارشوں سے کچھ بھی وُصول نہیں کرتے۔ اللہ جَلَّ شَانُہٗکے یہاں ہر نیکی کے لیے کم از کم دس گُنا ثواب تو مُتعیَّن ہی ہے بہ شرطے کہ اِخلاص سے ہو، اِس کے بعد اِخلاص ہی کے اِعتِبار سے ثواب بڑھتا رہتا ہے۔
حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: اسلام لانے سے جتنے گناہ حالتِ کُفر میں کیے ہیں وہ مُعاف ہوجاتے ہیں، اِس کے بعد پھر حساب ہے، ہر نیکی دس گُنے سے لے کر سات سو تک اور جہاں تک اللہ چاہیں لکھی جاتی ہے، اور بُرائی ایک ہی لکھی جاتی ہے، اور اگر اللہ جَلَّ شَانُہٗ اُس کو مُعاف فرماویں تو وہ بھی نہیں لکھی جاتی۔
(بخاری،کتاب الایمان،باب حسن إسلام المرء،۱؍۱۱حدیث:۴۳)
دوسری حدیث میں ہے: جب بندہ نیکی کا ارادہ کرتا ہے تو صرف اِرادے سے ایک نیکی لکھی جاتی ہے، اور جب عمل کرتا ہے تو دس نیکیاں سات سو تک، اور اُس کے بعد جہاں تک اللہ تَعَالیٰ شَانُہٗ چاہیں لکھی جاتی ہیں۔
(بخاری،کتاب الرقاق، باب من ہم بحسنۃ أو سیئۃ،۲؍۹۶۰حدیث:۶۴۹۱)
اِس قِسم کی اَور بھی احادیث بہ کثرت ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ جَلَّ شَانُہٗ کے یہاں دینے میں کوئی کمی نہیں، کوئی لینے والا ہو، یہی چیز اللہ والوں کی نگاہ میں ہوتی ہے جس کی وجہ سے دنیا کی بڑی سے بڑی دولت بھی اُن کو نہیں لُبھا سکتی۔ اَللّٰہُمَّ اجْعَلْنِيْ مِنہُمْ.
حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: اعمال چھ طریقے کے ہیں اور آدمی چار طریقے کے: دو عمل تو واجب کرنے والے ہیں، اور دو برابر سرابر، اور ایک دس گُنا، اور ایک سات سو گُنا؛ دو عمل جو واجب کرنے والے ہیں: ایک یہ کہ، جو شخص اِس حال میں مَرے کہ شِرک نہ کرتاہو وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔ دوسرے، جو شخص شرک کی حالت میں مَرے ضرور جہنَّم میں جائے گا۔ اور جو عمل برابر سرابر ہے وہ نیکی کا ارادہ ہے، کہ دل اُس کے لیے پختہ ہوگیا ہو؛(مگر اُس عمل کی نوبت نہ آئی ہو)۔اور دس گُنا اَجر ہے اگر عمل بھی کرلے۔ اور اللہ کے راستے میں (جہاد وغیرہ میں)خرچ کرنا سات سو درجے کا اَجر رکھتا ہے۔ اور گناہ اگر کرے تو ایک کا بدلہ ایک ہی ہے۔ اور چار قِسم کے آدمی یہ ہیں کہ: بعض لوگ ایسے ہیں کہ جن پر دنیا میں وُسعت(کُشادگی) ہے آخرت میں تنگی ہے، بعض ایسے ہیں جن پر دنیا میں تنگی ہے آخرت میں وُسعت، بعض ایسے ہیں جن پر دونوں جگہ تنگی ہے (کہ دنیا میں فَقر، آخرت میں عذاب ہے)،بعض ایسے ہیں کہ دونوں جہاں میں وُسعت ہے۔
(حاکم،کتاب الجہاد۲؍۹۶حدیث:۲۴۴۲؍ ۶۷)
ایک شخص حضرت ابوہریرہ﷽ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: مَیں نے سنا ہے: آپ یہ نقل کرتے ہیں کہ: اللہ جَلَّ شَانُہٗ بعض نیکیوں کا بدلہ دس لاکھ گُنا عطا فرماتے ہیں؟ حضرت ابوہریرہ﷽ نے فرمایا: اِس میں تعجب کی کیا بات ہے؟ مَیں نے خدا کی قَسم! ایسا ہی سنا ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ: مَیں نے حضورﷺسے سنا ہے کہ: بعض نیکیوں کا ثواب بیس لاکھ تک ملتا ہے۔
(مسند ابن ابی شیبہ،کتاب الزہد، ۱۹؍ ۲۱۹ حدیث: ۳۵۸۴۸)
اور جب حق تَعَالیٰ شَانُہٗ﴿یُضَاعِفْهَا وَیُؤْتِ مِنْ لَّدُنْہُ أَجراً عَظِیماً﴾ (اُس کے ثواب کو اللہ بڑھاتے ہیں، اور اپنے پاس سے بہت سا اَجر دیتے ہیں)ارشاد فرمائیں، جس چیز کو اللہ اَجرِ عَظیم فرمائیںاُس کی مقدار کا اندازہ کون کرسکتا ہے؟۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ: ثواب کی اِتنی بڑی مقدار یں جب ہی ہوسکتی ہے جب اِن الفاظ کے مَعانی کا تصوُّر(خیال) اور لِحاظ کرکے پڑھے، کہ یہ اللہ تَعَالیٰ شَانُہٗکی اہم صفات ہیں۔
(۳۶) عَن عُمَرَ بنِ الخَطَّابِ عَنِ النَّبِيِّﷺ قَالَ: مَا مِنکُمْ مِن أَحَدٍ یَتَوَضَّأُ فَیَبْلُغُ أَو فَیُسبِغُ الوُضُوءَ، ثُمَّ یَقُولُ: ’’أَشهَدُ أَنْ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحدَہٗ لَا شَرِیكَ لَہٗ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبدُہٗ وَرَسُولُہٗ‘‘ إِلَّا فُتِحَتْ لَہٗ أَبوَابُ الجَنَّۃِ الثَّمَانِیَۃِ، یَدخُلُ مِنْ أَیِّهَا شَاءَ.
(رواہ مسلم، وأبوداود، وابن ماجہ؛ وقالا: فَیُحْسِنُ الوُضُوءَ، زاد أبوداود: ’’ثُمَّ یَرفَعُ طَرفَہٗ إِلَی السَّمَاءِ ثُمَّ یَقُولُ‘‘، فذکرہ، ورواہ الترمذي کأبي داؤد، وزاد: اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنِيْ مِنَ التَّوَّابِینَ وَاجعَلْنِي مِنَ المُتَطَهِّرِیْنَ، الحدیث، وتکلم فیہ. کذا في الترغیب. زاد السیوطي في الدر ابن أبي شیبۃ والدارمي)
ترجَمہ: حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: جو شخص وُضو کرے اور اچھی طرح کرے، (یعنی: سنتوں اور آداب کی پوری رِعایت کرے)پھر یہ دعا پڑھے: أَشهَدُ أَنْ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحدَہٗ لَا شَرِیكَ لَہٗ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبدُہٗ وَرَسُولُہٗ،اُس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جاتے ہیں، جس دروازے سے چاہے داخل ہو۔
غایتِ اِعزاز واِکرام: عزت واِکرام کی اِنتِہا۔
فائدہ: جنت میںداخل ہونے کے لیے ایک دروازہ بھی کافی ہے، پھر آٹھوں کا کھل جانا یہ غایتِ اِعزاز واِکرام کے طور پر ہے۔
ایک حدیث میں وارد ہوا ہے کہ: جو شخص اِس حال میں مَرے کہ اللہ کے ساتھ شِرک نہ کرتا ہو اور ناحق کسی کا خون نہ کیا ہو، وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو۔(مستدرک حاکم ۴؍۳۶۳حدیث:۸۰۳۴؍۱۱)
(۳۷) عَن أَبِي الدَّردَاءِ عَنِ النَّبِيِّﷺ قَالَ: لَیسَ مِن عَبِیدٍ یَقُولُ: ’’لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ‘‘ مِائَۃَ مَرَّۃً؛ إِلَّا بَعَثَہُ اللہُ یَومَ القِیَامَۃِ وَوَجْهُہٗ کَالقَمَرِ لَیلَۃَ البَدْرِ، وَلَمْ یَرفَعْ لِأَحَدٍ یَومَئِذٍ عَمَلٌ أَفضَلُ مِنْ عَمَلِہٖ إِلَّا مَنْ قَالَ مِثلَ قَولِہٖ أَو زَادَ.
(رواہ الطبراني، وفیہ عبدالوهاب بن ضحاك متروك؛ کذا في مجمع الزوائد. قلت: هو من رواۃ ابن ماجہ، ولا شك أنهم ضعفوہ جدا؛ إلا أن معناہ مؤید بروایات منها ماتقدم من روایات یحییٰ بن طلحۃ، ولاشك أنہ أفضل الذکر، ولہ شاهد من حدیث أم هاني الاٰتي)
ترجَمہ: حضورﷺ کا ارشاد ہے: جو شخص سو مرتبہ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُپڑھا کرے حق تَعَالیٰ شَانُہٗ قِیامت کے دن اُس کو ایسا روشن چہرے والا اُٹھائیںگے جیسے چودھویں رات کا چاند ہوتا ہے، اور جس دن یہ تسبیح پڑھے اُس دن اُس سے افضل عمل والا وہی شخص ہوسکتا ہے جو اُس سے زیادہ پڑھے۔
فائدہ: مُتعدَّد روایات اور آیات سے یہ مضمون ثابت ہوتا ہے کہ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ دل کے لیے بھی نور ہے اور چہرے کے لیے بھی نور ہے، اور یہ تومُشاہَدہ بھی ہے کہ، جن اکابر کا اِس کلمے کی کثرت کا معمول ہے اُن کا چہرہ دنیا ہی میں نورانی ہوتاہے۔
(۳۸) عَن ابنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّﷺ قَالَ: اِفتَحُوْاعَلیٰ صِبیَانِکُم أَوَّ لَ کَلِمَۃٍ بِلَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ، وَلَقِّنُوهُم عِندَ المَوتِ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ؛ فَإِنَّہٗ مَن کَانَ أَوَّلُ کَلَامِہٖ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاٰخِرُ کَلَامِہٖ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ، ثُمَّ عَاشَ أَلْفَ سَنَۃٍ لَمْ یُسئَلْ عَن ذَنبٍ وَاحِدٍ.
(موضوع ابن محمویۃ وأبوہ مجهولان، وقد ضعف البخاري إبراهیم بن مهاجر؛ حکاہ السیوطي عن ابن الجوزي، ثم تعقبہ بقولہ: الحدیث في المستدرك، وأخرجہ البیهقي في الشعب عن الحاکم، وقال: متن غریب لم نکتبہ إلا بهذا الإسناد، وأوردہ الحافظ ابن حجر في أمالیہ ولم یقدح فیہ بشيء؛ إلا أنہ قال: إبراهیم فیہ لین، وقد أخرج لہ مسلم في المتابعات؛ کذا في اللاٰلي، وذکرہ السیوطي في شرح الصدور ولم یقدح فیہ بشيء. قلت: وقد ورد في التلقین أحادیث کثیرۃ، ذکرها الحافظ في التلخیص، وقال: في جملۃ من رواها وعن عروۃ بن مسعود الثقفي رواہ العقیلي بإسناد ضعیف، ثم قال: روي في الباب أحادیث صحاح عن غیر واحد من الصحابۃ، ورواہ ابن أبي الدنیا في کتاب المحتضرین من طریق عروۃ بن مسعود عن أبیہ عن حذیفۃ بلفظ: ’’لَقِّنُوا مَوتَاکُم لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ، فَإِنَّهَا تَهدِمُ مَاقَبلَهَا مِنَ الخَطَایَا‘‘، وروي فیہ أیضا عن عمر وعثمان وابن مسعود وأنس وغیرهم،اھ. وفي الجامع الصغیر: لَقِّنُوا مَوتَاکُم لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ‘‘. رواہ أحمد ومسلم والأربعۃ عن أبي سعید، ومسلم وابن ماجہ عن أبي هریرۃ، والنسائي عن عائشۃ؛ ورقم لہ بالصحۃ. وفي الحصن: إِذَا أَفصَحَ الوَلَدُ فَلْیُعَلِّمْہُ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ‘‘، وفي الحرز: رواہ ابن السني عن عمرو بن العاص، اھ. قلت: ولفظہ في عمل الیوم واللیلۃ: ’’عَن عَمرِو بنِ شُعَیبٍ: وَجَدتُ فِي کِتَابِ جَدِّي الَّذِيْحَدَّثَہٗ عَن رَسُولِ اللہِﷺ قَالَ: إِذَا أَفصَحَ أَولَادَکُم فَعَلِّمُوهُمْ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ، ثُمَّ لَاتَبَالُوْا مَتیٰ مَاتُوا، وَإِذَا أَثفَرُوْا فَمُرُوهُمْ بِالصَّلَاۃِ‘‘. وفي الجامع الصغیر -بروایۃ أحمد وأبي داود والحاکم- عن معاذ: ’’مَن کَانَ اٰخِرُ کَلَامِہٖ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ دَخَلَ الجَنَّۃَ‘‘، ورقم لہ بالصحۃ. وفي مجمع الزوائدعن علي رفعہ: ’’مَن کَانَ اٰخِرُ کَلَامِہٖ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ لَم یَدخُلِ النَّارَ‘‘، وفي غیر روایۃ مرفوعۃ: مَن لُقِّنَ عِندَ المَوتِ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ دَخَلَ الجَنَّۃَ)
ترجَمہ:حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: بچے کو شروع میں -جب وہ بولنا سیکھنے لگے- لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ یاد کراؤ، اور جب مرنے کا وقت آئے جب بھی لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ تلقین کرو، جس شخص کا اوَّل کلمہ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ ہو اور آخری کلمہ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ ہو، وہ ہزار برس بھی زندہ رہے تو (انشاء اللہ) کسی گناہ کا اُس سے مُطالَبہ نہیں ہوگا،(یا اِس وجہ سے کہ گناہ صادر نہ ہوگا، یا اگر صادر ہوا تو توبہ وغیرہ سے مُعاف ہوجائے گا، یا اِس وجہ سے کہ اللہجَلَّ شَانُہٗ اپنے فضل سے مُعاف فرماویںگے۔)
جَبر: زبردستی۔ بھُس:اناج کا چھلکا۔
فائدہ: تلقین اِس کوکہتے ہیں کہ: مرتے وقت آدمی کے پاس بیٹھ کر کلمہ پڑھا جائے؛ تاکہ اُس کو سن کر وہ بھی پڑھنے لگے، اُس پر اُس وقت جَبر یا تَقاضا نہیں کرنا چاہیے کہ وہ شِدَّتِ تکلیف میں ہوتا ہے۔ اَخیر وقت میں کلمہ تلقین کرنے کا حکم اَور بھی بہت سی احادیثِ صحیحہ میں وارد ہوا ہے، مُتعدَّد حدیثوں میں یہ بھی ارشادِ نبوی وارد ہوا ہے کہ: جس شخص کو مرتے وقت لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ نصیب ہوجائے اُس سے گناہ ایسے گِرجاتے ہیں جیسے سیلاب کی وجہ سے تعمیر۔(کنز العمال۔۔۔۔)
بعض احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ: جس شخص کو مرتے وقت یہ مبارک کلمہ نصیب ہوجاتا ہے تو پچھلی خطائیں مُعاف ہوجاتی ہیں۔(مسند احمد، ۔۔۔۔۔۔۔ حدیث: ۲۳۳۲۴)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: مُنافِق کو اِس کلمے کی توفیق نہیں ہوتی۔(کنز العمال۔۔۔۔۔)
ایک حدیث میں آیا ہے: اپنے مُردوں کو لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ کا توشہ دیا کرو۔(کنز العمال۔۔۔۔۔)
ایک حدیث میں آیاہے کہ: جو شخص کسی بچے کی پرورش کرے یہاں تک کہ وہ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ کہنے لگے، اُس سے حساب مُعاف ہے۔ (طبرانی فی الاوسط، ۔۔۔۔ ۔۔۔ حدیث: ۴۸۶۵)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: جو شخص نماز کی پابندی کرتا ہے، مرنے کے وقت ایک فرشتہ اُس کے پاس آتا ہے جو شیطان کودُور کرتا ہے، اور مرنے والے کو لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہِ کی تلقین کرتا ہے۔(معجم الکبیر،۴؍۲۲۰،حدیث:۳۱۸۸)
ایک بات کثرت سے تجرَبے میں آئی ہے کہ، اکثر وبیشتر تلقین کا فائدہ جب ہی ہوتا ہے کہ زندگی میں بھی اِس پاک کلمے کی کثرت رکھتا ہو۔
ایک شخص کا قِصَّہ لکھا ہے کہ: وہ بھُس فروخت کیا کرتا تھا، جب اُس کے مرنے کا وقت آیا تو لوگ اُس کو کلمۂ طیبہ کی تلقین کرتے تھے اور وہ کہتا تھا کہ: یہ گَٹھَّا اِتنے کا ہے اور یہ اِتنے کا ہے۔(روض الریاحین،حکایت:۱۵۴،۱۵۴۔ص:۱۲۹،۱۳۰)
اِسی طرح اَوربھی متعدَّد واقعات ’’نُزہۃُ البساتین‘‘ میں بھی لکھے ہیں، اور مشاہَدہ میں بھی آتے ہیں۔بسا اَوقات کسی گناہ کا کرنا بھی اِس کا سبب بن جاتا ہے، کہ مرتے وقت کلمۂ طیبہ نصیب نہیں ہوتا۔ عُلَما نے لکھا ہے کہ: اَفیون کھانے میں سَتّر نقصان ہیں، جن میںسے ایک یہ ہے کہ، مرتے وقت کلمہ یاد نہیں آتا، اِس کے بِالمُقابل مسواک میں سَتّر فائدے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ: مرتے وقت کلمۂ طیبہ یاد آتا ہے۔
ایک شخص کا قِصَّہ لکھا ہے کہ: مرتے وقت اُس کو کلمۂ شہادت تلقین کیاگیا، وہ کہنے لگا کہ: اللہ سے دعا کرو میری زبان سے نکلتا نہیں، لوگوں نے پوچھا: کیا بات ہے؟ اُس نے کہا: مَیں تولنے میں بے احتیاطی کرتاتھا۔
ایک دوسرے شخص کاقِصَّہ لکھا ہے کہ: جب اُس کو تلقین کی گئی تو کہنے لگا کہ: مجھ سے کہا نہیں جاتا، لوگوں نے پوچھا: کیا بات ہے؟ اُس نے کہا کہ: ایک عورت مجھ سے تولیہ خریدنے آئی تھی، مجھے وہ اچھی لگی، مَیں اُس کودیکھتا رہا۔
اَور بھی بہت سے واقعات اِس نوع کے ہیں، جن میں سے بعض ’’تذکرۂ قُرطَبِیَّہ‘‘ میں بھی لکھے ہیں، بندے کا کام ہے کہ گناہوںسے توبہ کرتا رہے، اور اللہتَعَالیٰ شَانُہٗسے توفیق کی دعا کرتا رہے۔
(۳۹) عَن أُمِّ هَانِيٍّ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ لَا یَسبِقُهَا عَمَلٌ وَلَا تَترُكُ ذَنباً.
(رواہ ابن ماجہ، کذا في منتخب کنز العمال. قلت: وأخرجہ الحاکم في حدیث طویل وصححہ، ولفظہ: ’’قَولُ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ لَایَترُكُ ذَنباً وَلَایَشبَہُهَا عَمَلٌ‘‘ اھ. وتعقب علیہ الذہبي بأن زکریا ضعیف، وسقط بین محمد وأم ہاني. وذکرہ في الجامع بروایۃ ابن ماجہ ورقم لہ بالضعف)
ترجَمہ: حضورِاقدس ﷺکا ارشاد ہے کہ: لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُسے نہ تو کوئی عمل بڑھ سکتا ہے اور نہ یہ کلمہ کسی گناہ کو چھوڑ سکتاہے۔
کارآمد: نفع دینے والا۔ صَیقَل: چمکانا۔ مُستعِد: تیار۔
فائدہ:کسی عمل کا اُس سے نہ بڑھ سکنا تو ظاہرہے، کہ کوئی بھی عمل ایسا نہیں ہے جو بغیر کلمۂ طیبہ پڑھے کارآمد ہوسکتا ہو، نماز، روزہ، حج، زکوۃ؛ غرض ہرعمل ایمان کامحتاج ہے، اگر ایمان ہوتو وہ اعمال بھی مَقبول ہوسکتے ہیں، ورنہ نہیں، اور کلمۂ طیبہ جو خود ایمان لانا ہی ہے، وہ کسی عمل کا بھی محتاج نہیں؛ اِسی وجہ سے اگر کوئی شخص فقط ایمان رکھتا ہو اور ایمان کے عِلاوہ کوئی عملِ صالح نہ ہوتو بھی وہ کسی نہ کسی وقت إِنْ شَاءَ اللہُ جنت میں ضرور جائے گا، اور جو شخص ایمان نہ رکھتا ہو خواہ وہ کتنے ہی پسندیدہ اعمال کرے، نجات کے لیے کافی نہیں۔
دوسرا جُزو کسی گناہ کو نہ چھوڑنا ہے، اگر اِس اِعتبار سے دیکھا جائے کہ جو شخص آخری وقت میں مسلمان ہواور کلمۂ طیبہ پڑھنے کے بعد فوراً ہی مرجائے، تو ظاہر ہے کہ اِس ایمان لانے سے کُفر کی حالت میں جتنے گناہ کیے تھے وہ سب بِالاجماع جاتے رہے۔ اور اگر پہلے سے پڑھنا مراد ہو تو حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ: یہ کلمہ دلوں کی صفائی اور صَیقَل ہونے کا ذریعہ ہے، جب اِس پاک کلمے کی کثرت ہوگی تو دل کی صفائی کی وجہ سے توبہ کیے بغیرچین ہی نہ پڑے گا، اور آخرکار گناہوں کی مُعافی کا ذریعہ بن جائے گا۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ: جس شخص کو سونے کے وقت اور جاگنے کے وقت لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ کا اِہتمام ہو اُس کو دنیا بھی آخرت پر مُستعِد کرے گی، اور مصیبت سے اُس کی حفاظت کرے گی۔
(۴۰)عَن أَبِي هُرَیرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: اَلإِیمَانُ بِضعٌ وَسَبعُونَ شُعبَۃً، فَأَفضَلُهَا قَولُ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ، وَأَدنَاهَا إِمَاطَۃُ الأَذیٰ عَنِ الطَّرِیقِ، وَالحَیَاءُ شَعبَۃٌ مِنَ الإِیمَانِ.
(رواہ الستۃ وغیرهم بألفاظ مختلفۃ واختلاف یسیر في العدد وغیرہ)
وهذا اٰخر ماأردت إیرادہ في هذا الفصل رعایۃ لعدد الأربعین، واللہ الموفق لما یحب ویرضیٰ.
ترجَمہ: حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: ایمان کی سَتَّر سے زیادہ شاخیں ہیں، (بعض روایات میں سَتتر (۷۷) آئی ہیں)،اُن میں سب سے افضل لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ کاپڑھنا ہے، اور سب سے کم درجہ راستے سے کسی تکلیف دَہ چیز (اینٹ، لکڑی، کانٹے وغیرہ) کا ہٹادینا ہے، اور حَیا بھی (ایک خصوصی)شعبہ ہے ایمان کا۔
تکلیف دَہ: تکلیف دینے والی۔ رُسوائی: ذِلَّت۔ میزان: کُل تعداد۔ مُکرَّرات: جو دوبارہ آئی ہو۔ نُقص: کمی۔ اُصول وفُروع:کُلِّیات وجزئیات۔ مُحقَّق: ثابت۔ مُضِر:نقصان دینے والا۔ دَفع: دُور۔ مِثل: برابر۔ ماسِوا: عِلاوہ۔ رِیا: دِکھلاوا۔ خودبینی: تکبُّر۔ خودسَتائی:اپنی تعریف کرنا۔ خَلِش: کھٹک۔ فَریب: دھوکہ۔ مَکر: چال بازی۔جاہ: مرتبہ۔
فائدہ:حیا کو خُصوصی اِہتمام کی وجہ سے ذکر فرمایا،کہ یہ بہت سے گناہوں: زنا، چوری، فحش گوئی، ننگا ہونا، گالی گلوچ وغیرہ سے بچنے کا سبب ہے، اِسی طرح رُسوائی کے خَیال سے بہت سے نیک کام کرنا ضروری ہوجاتے ہیں؛ بلکہ دنیا اور آخرت کی شرم سارے ہی نیک کاموں پر اُبھارتی ہے، نماز، زکوۃ، حج وغیرہ تو ظاہر ہیں، اِسی طرح سے اَور بھی تمام اَحکام بجا لانے کا سبب ہے۔ اِسی وجہ سے مَثل مشہور ہے: ’’تُو بے حَیا باش وہَرچہ خَواہی کُن‘‘:تُو بے غیرت ہوجا، پھر جو چاہے کر۔ اِس معنیٰ میں صحیح حدیث بھی وارد ہے: إِذَا لَم تَسْتَحْیِيْ فَاصنَعْ مَا شِئْتَ: (بخاری،کتاب الانبیاء، باب، ۱؍۴۹۵حدیث:۳۳۶۴)جب تُو حَیادار نہ رہے تو پھر جو چاہے کر، کہ ساری فکر غیرت اور شرم ہی کی ہے، اگر حیا ہے تو یہ خَیال بھی ضروری ہے کہ: نماز نہ پڑھوںگا تو آخرت میں کیا منھ دکھلاؤںگا؟ اور شرم نہیں ہے توپھر یہ خَیال ہوتا ہے کہ: کوئی کہہ کر کیا کرلے گا۔
تنبیہ: اِس حدیث شریف میں ایمان کی سَتَّر سے زیادہ شاخیں ارشاد فرمائی ہیں، اِس بارے میں روایات مختلف وارد ہوئی ہیں، اور مُتعدِّد روایات میں سَتَتر(۷۷) کا عدد آیا ہے؛ اِسی لیے ترجَمے میں اِس طرف اِشارہ بھی کردیا تھا۔ اِن سَتتر کی تفصیل میں عُلَما نے بہت سی مستقل تصانیف فرمائی ہیں۔
امام ابو حاتِم بنِ حِبَّان فرماتے ہیں کہ: مَیں اِس حدیث کا مطلب ایک مدت تک سوچتا رہا، جب عبادتوں کو گنتا وہ ستتر سے بہت زیادہ ہوجاتیں، احادیث کوتلاش کرتا، اور حدیث شریف میں جن چیزوں کو خاص طور سے ایمان کی شاخوں کے ذیل میں ذکر کیا ہے اُن کو شمار کرتا، تو وہ اِس عدد سے کم ہوجاتِیں، مَیں قرآن پاک کی طرف مُتوجَّہ ہوا، اور قرآن شریف میں جن چیزوں کو ایمان کے ذیل میں ذکر کیا اُن کو شمار کیا تو وہ بھی اِس عدد سے کم تھیں، تو مَیں نے قرآن شریف اور حدیث شریف دونوں کوجمع کیا، اور دونوں میں جن چیزوں کوایمان کا جُزو قرار دیا اُن کو شمار کرکے جو چیزیں دونوں میں مُشترک تھیں اُن کو ایک ایک عدد شمار کرکیمیزان دیکھی، تو دونوں کامجموعہ مُکرَّرات کو نکال کر اِس عدد کے موافق ہوگیا، تو مَیںسمجھا کہ حدیث شریف کامفہوم یہی ہے۔ (صحیح ابن حبان،تحت حدیث:۱۶۷)
قاضی عَیاضؒ فرماتے ہیں کہ: ایک جماعت نے اِن شاخوں کی تفصیل بیان کرنے کا اِہتمام کیا ہے، اور اِجتہاد سے اِن تفصیلات کے مراد ہونے کاحکم لگایا ہے؛ حالاںکہ اِس مقدار کی خصوصی تفصیل نہ معلوم ہونے سے ایمان میں کوئی نُقص پیدا نہیں ہوتا، جب کہ ایمان کے اُصول وفُروع سارے بِالتَّفصیل معلوم ومُحقَّق ہیں۔(إکمال المعلم بفوائد مسلم، للقاضی عیاض،تحت حدیث:۳۵)
خَطَّابیؒ فرماتے ہیں کہ: اِس تعداد کی تفصیل اللہ کے اور اُس کے رسول ﷺکے علم میں ہے اور شریعتِ مُطہَّرہ میں موجود ہے، تو اِس تعداد کے ساتھ تفصیل کا معلوم نہ ہونا کچھ مُضِر نہیں۔(دلیل الفالحین شرح ریاض الصالحین، باب بیان کثرۃ طرق الخیر،۲؍۱۳۲)
امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ: نبیٔ اکرم ﷺنے اِن شاخوں میں سب سے اعلیٰ توحید یعنی کلمۂ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ کو قرار دیا ہے، جس سے معلوم ہوگیا کہ ایمان میں سب سے اوپر اِس کا درجہ ہے، اِس سے اوپر کوئی چیز ایمان کی شاخ نہیں ہے، جس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ اصل توحید ہے جوہر مُکلّف پر ضروری ہے، اور سب سے نیچے دَفع کرنا ہے اُس چیز کا جو کسی مسلمان کو نقصان پہنچانے کااِحتمال رکھتی ہو، باقی سب شاخیں اُن کے درمیان ہیں جن کی تفصیل معلوم ہونا ضروری نہیں، اِجمالاً اُن پر ایمان لانا کافی ہے، جیسا کہ سب فرشتوں پرایمان لانا ضروری ہے؛ لیکن اُن کی تفصیل اور اُن کے نام ہم نہیں جانتے۔(حاشیۂ مسلم۔۔۔۔۔۔۔)
لیکن ایک جماعتِ مُحدِّثین نے اِن سب شاخوں کی تفصیل میں مختلف تصانیف فرمائی ہیں۔ چناںچہ ابوعبداللہ حَلیمیؒ نے ایک کتاب اِسی مضمون میں تصنیف فرمائی ہے جس کا نام ’’فَوَائِدُ المِنْهَاج‘‘ رکھا ہے ،اور امام بَیہَقیؒ نے ایک کتاب تصنیف کی ہے جس کانام ہی ’’شُعَبُ الإِیمَان‘‘ رکھا ہے، اِسی طرح شیخ عبدالجلیلؒ نے بھی ایک کتاب لکھی ہے، اُس کانام بھی ’’شُعَبُ الإِیمَان‘‘ رکھا ہے ،اور اِسحاق بن قرطبیؒ نے ’’کِتَابُ النَّصَائِح‘‘ اِسی مضمون میں تصنیف فرمائی ہے، اور امام ابوحاتمؒ نے اپنی کتاب کا نام ’’وَصفُ الإیمَانِ وَشُعَبِہٖ‘‘ رکھا ہے۔
شُرَّاحِ بخاریؒ نے اِس باب میں مختلف تصانیف سے تلخیص کرتے ہوئے اُن کو مختصر طور پر جمع فرمایا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ: در اصل ایمانِ کامل تین چیزوں کے مجموعے کانام ہے: اوَّل تصدیق قلبی، یعنی دل سے جُملہ اُمور کا یقین کرنا۔ دوسرے: زبان کا اِقرار وعمل۔ تیسرے: بدن کے اعمال۔ یعنی: ایمان کی جُملہ شاخیں تین حِصوں پر مُنقَسِم ہیں: اوَّل، وہ جن کا تعلُّق نِیت واِعتِقاد اور عملِ قَلبی سے ہے۔ دوسرے، وہ جن کا تعلُّق زبان سے ہے۔ تیسرے، وہ جن کا تعلُّق باقی حصۂ بدن سے ہے۔ ایمان کی جملہ چیزیں اِن تین میں داخل ہیں، اِن میں سے پہلی قِسم جوتمام عقائد کو شامل ہے، اِس کاخلاصہ تیس چیزیں ہیں:
(۱)اللہ پر ایمان لانا، جس میں اُس کی ذات، اُس کی صفات پر ایمان لانا داخل ہے، اور اِس کایقین بھی کہ وہ پاک ذات ایک ہے، اور اُس کا کوئی شریک نہیں، اور نہ اُس کا کوئی مِثل ہے۔ (۲)اللہ کے ماسِوا سب چیزیں بعد کی پیداوارہیں، ہمیشہ سے وہی ایک ذات ہے۔ (۳) فرشتوں پرایمان لانا۔ (۴)اللہ کی اُتاری ہوئی کتابوں پر ایمان لانا۔ (۵)اللہ کے رسولوں پر ایمان لانا۔ (۶) تقدیر پرایمان لانا، کہ بھلی ہو یا بُری، سب اللہ کی طرف سے ہے۔ (۷) قِیامت کے حق ہونے پر ایمان لانا، جس میں قبر کاسوال جواب، قبر کا عذاب، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا، حساب ہونا، اعمال کاتُلنا اورپُل صراط پر گزرنا؛ سب ہی داخل ہے۔ (۸) جنت کا یقین ہونا، اور یہ کہ مومن إِنْ شَاءَ اللہُ ہمیشہ اُس میں رہیںگے۔ (۹)جہنَّم کایقین ہونا، اور یہ کہ اُس میں سخت سے سخت عذاب ہیں، اور وہ بھی ہمیشہ ہمیشہ رہے گی۔ (۱۰)اللہ تَعَالیٰ شَانُہٗسے محبت رکھنا۔ (۱۱) اللہ کے واسطے دوسروں سے محبت رکھنا اور اللہ ہی کے واسطے بُغض(کِینہ) رکھنا، (یعنی اللہ والوں سے محبت رکھنا اور اُس کی نافرمانی کرنے والوں سے بُغض رکھنا)،اور اِسی میں داخل ہے صحابۂ کرامث بِالخُصوص مُہاجِرین اور اَنصار کی محبت، اور آلِ رسول ﷺ کی محبت۔ (۱۲) حضورِاقدس ﷺسے محبت رکھنا، جس میں آپ کی تَعظِیم بھی آگئی، اور حضورﷺ پر درود شریف پڑھنا بھی اور آپ کی سنتوں کا اِتِّباع کرنا بھی داخل ہے۔ (۱۳) اِخلاص، جس میں رِیا نہ کرنا اور نِفاق سے بچنا بھی داخل ہے۔ (۱۴)توبہ، یعنی: دل سے گناہوں پر ندامت اورآئندہ نہ کرنے کا عَہد۔ (۱۵)اللہ کا خوف۔ (۱۶) اللہ کی رحمت کا اُمیدوار ہونا۔ (۱۷)اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔ (۱۸)شکر گذاری (۱۹)وَفا (۲۰)صبر (۲۱) تواضُع، جس میں بڑوں کی تعظیم بھی داخل ہے۔ (۲۲)شَفقَت ورحمت، جس میں بچوں پر شَفقَت کرنا بھی داخل ہے۔ (۲۳)مُقدَّر پر راضی رہنا۔ (۲۴) توکُّل(۲۵) خودبینی اور خودسَتائی کا چھوڑنا، جس میں اصلاحِ نفس بھی داخل ہے۔ (۲۶)کِینہ اور خَلِش نہ رکھنا، جس میںحسد بھی داخل ہے۔ (۲۷) ’’عینی‘‘ میں یہ نمبررہ گیا ہے، میرے خیال میں اِس جگہ ’’حَیا کرنا‘‘ ہے، جو کاتب کی غلطی سے رہ گیا ہے۔ (۲۸)غُصَّہ نہ کرنا۔ (۲۹) فَریب نہ دینا، جس میں بدگمانی نہ کرنا اور کسی کے ساتھ مَکر نہ کرنا بھی داخل ہے۔ (۳۰) دنیا کی محبت دل سے نکال دینا، جس میں مال کی اور جاہ کی محبت بھی داخل ہے۔
علَّامہ عینیؒ فرماتے ہیں کہ: اُمورِ بالا میں دل کے تمام اعمال داخل ہیں، اگر کوئی چیز بہ ظاہر خارج معلوم ہوتو وہ غور سے اِن نمبروں میں سے کسی نہ کسی نمبر میںداخل ہوگی۔
دوسری قِسم زبان کا عمل تھا، اِس کے سات شعبے ہیں:
(۱)کلمۂ طیبہ کا پڑھنا۔ (۲)قرآن پاک کی تلاوت کرنا۔ (۳)علم سیکھنا۔ (۴)علم دوسروں کوسکھانا۔ (۵)دُعا کرنا۔ (۶) اللہ کاذکر، جس میں اِستِغفار بھی داخل ہے۔ (۷)لَغو باتوں سے بچنا۔
تیسری قِسم: باقی بدن کے اعمال ہیں، یہ کُل چالیس ہیں جو تین حصوں پر مُنقَسِم ہیں: پہلا حِصَّہ اپنی ذاتوں سے تعلُّق رکھتا ہے، یہ سولہ شاخیں ہیں:
حیض:عورت کو ہرماہ آنے والا خون۔نِفاس: وہ خون جو بچہ پیدا ہونے کے بعد آئے۔ نِگَہداشت: دیکھ بھال۔ خبرگِیری: دیکھ بھال۔ حرام کاری: زنا۔ صِلہ رَحمی: رشتوں کوجوڑنا۔
(۱ )پاکی حاصل کرنا، جس میں بدن کی پاکی، کپڑے کی پاکی، مکان کی پاکی؛ سب ہی داخل ہے۔ اور بدن کی پاکی میں وُضو بھی داخل ہے اور حیض ونِفاس اور جَنابت کاغُسل بھی۔ (۲) نماز کی پابندی کرنا، اُس کو قائم کرنا[ح: نماز کاقائم کرنااُس کے آداب وشرائط کی رعایت کرتے ہوئے ادا کرنے کانام ہے، جیسا کہ ’’فضائلِ نماز‘‘ کے تیسرے باب میں مذکورہے۔۱۲]،جس میں فرض، نفل، ادا، قَضا؛ سب داخل ہے۔ (۳) صدقہ، جس میں زکوۃ، صدقۂ فطر وغیرہ بھی داخل ہے، اور بخشش کرنا، لوگوں کوکھانا کھلانا، مہمان کا اِکرام کرنا، اور غلاموں کا آزاد کرنا بھی داخل ہے۔ (۴) روزہ، فرض ہو یانفل۔ (۵)حج کرنا، فرض ہو یا نفل، اور اِسی میں عمرہ بھی داخل ہے اور طواف بھی۔ (۶)اِعتِکاف کرنا، جس میں لَیلَۃُ القَدر کو تلاش کرنا بھی داخل ہے۔ (۷)دِین کی حفاظت کے لیے گھر چھوڑنا، جس میں ہجرت بھی داخل ہے۔ (۸)نذر کا پورا کرنا۔ (۹)قَسموں کی نِگَہداشت رکھنا۔ (۱۰)کَفَّاروں کا ادا کرنا۔ (۱۱)ستَر کانماز میں اور نماز کے عِلاوہ ڈھانکنا۔ (۱۲)قربانی کرنا، اور قربانی کے جانوروں کی خبرگِیری اور اُن کا اِہتمام کرنا۔ (۱۳)جنازے کا اِہتمام کرنا، اُس کے جُملہ اُمور کا اِنتظام کرنا۔ (۱۴)قرض کا ادا کرنا۔ (۱۵) مُعاملات کا درست کرنا، سود سے بچنا۔ (۱۶)سچی بات کی گواہی دینا، حق کو نہ چھپانا۔
دوسراحصہ کسی دوسرے کے ساتھ برتاؤ کا ہے، اِس کی چھ شاخیں ہیں:
(۱)نکاح کے ذریعہ سے حرام کاری سے بچنا۔ (۲)اَہل وعَیال کے حقوق کی رِعایت کرنا اور اُن کا اَدا کرنا، اِس میں نوکروں اور خادموں کے حقوق بھی داخل ہیں۔ (۳)والدین کے ساتھ سلوک کرنا، نرمی بَرتنا، فرماںبرداری کرنا۔ (۴)اولاد کی اچھی تربیت کرنا۔ (۵)صِلہ رَحمی کرنا۔ (۶) بڑوں کی فرماںبرداری اور اِطاعت کرنا۔
تیسرا حِصَّہ حقوقِ عامَّہ کا ہے، جو اَٹھارہ شُعبوں پر مُنقَسِم ہے:
عَدل: انصاف۔حَقَّانی: حق سے نسبت رکھنے والی۔ باغِیوں: سرکشوں۔ مورچوں: وہ گڑھاجو قلعے کی چاروں طرف کھودتے ہیں۔ خُمس: پانچواں حصہ۔ اِسراف: فضول خرچی۔ لَہو ولَعِب: سَیر تماشہ۔ مُنضم: ملانا۔ اِضافہ: زیادتی۔
(۱)عَدل کے ساتھ حکومت کرنا۔ (۲)حَقَّانی جماعت کا ساتھ دینا۔ (۳)حُکَّام کی اِطاعت کرنا بہ شرطے کہ خِلافِ شَرع حکم نہ ہو۔ (۴)آپس کے مُعاملات کی اِصلاح کرنا، جس میں مُفسِدوں کو سزا دینا، باغِیوں سے جہاد کرنا بھی داخل ہے۔ (۵) نیک کاموں میں دوسروں کی مدد کرنا۔ (۶)نیک کاموں کاحکم کرنا اور بُری باتوں سے روکنا، جس میں تبلیغ ووَعظ بھی داخل ہے۔ (۷)حُدود قائم کرنا۔ (۸)جہاد کرنا، جس میں مورچوں کی حِفاظت بھی داخل ہے۔ (۹) اَمانت کا ادا کرنا، جس میں خُمس جو غنیمت کے مالوں میں ہوتا ہے، وہ بھی داخل ہے۔ (۱۰) قَرض کا دینا اور ادا کرنا۔ (۱۱)پڑوسیوں کاحق ادا کرنا، اُن کا اِکرام کرنا۔ (۱۲)مُعاملہ اچھا کرنا، جس میں جائز طریقے سے مال کاجمع کرنا بھی داخل ہے۔ (۱۳)مال کا اپنے محل (موقع)پر خرچ کرنا، اِسراف اور بُخل سے بچنا بھی اِس میں داخل ہے۔ (۱۴)سلام کرنا اور سلام کا جواب دینا۔ (۱۵)چھینکنے والے کو یَرْحَمُكَ اللہُ کہنا۔ (۱۶)دنیا کو اپنے نقصان سے، اپنی تکلیف سے بچانا۔ (۱۷) لَہو ولَعِب سے بچنا۔ (۱۸)راستے سے تکلیف دِہ چیز کا دُور کرنا۔
یہ سَتتر(۷۷)شاخیں ہوئیں، اِن میں بعض کو ایک دوسرے میں مُنضم بھی کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ اچھے مُعاملے میں مال کا جمع کرنا اور خرچ کرنا دونوں داخل ہوسکتے ہیں، اِسی طرح سے غور سے اَور بھی اَعداد کو کم کیاجاسکتا ہے، اور اِس لِحاظ سے ستر(۷۰) والی روایت، سرسٹھ (۶۷) والی روایت کے تحت میں بھی یہ تفصیل آسکتی ہے۔
اِس تفصیل میںبندے نے علامہ عینی کے کلام کو -جو بخاری شریف کی شرح میں ہے- اصل قرار دیا ہے، کہ اُنھوں نے نمبروار اِن چیزوں کا ذکر فرمایا ہے، اور حافظ ابن حجرؒ کی ’’فتح الباری‘‘ اور علامہ قاریؒ کی ’’مرقاۃ‘‘ سے توضِیح واِضافہ کیا ہے۔
عُلَمانے لکھا ہے کہ: ایمان کے سارے شعبے مُجملاًیہ ہیں جو مذکور ہوئے، آدمی کو چاہیے کہ اِن میں غور وفکر کرے، جو اَوصاف اُس میں اِن میں سے پائے جاتے ہیں اُن پر اللہ جَلَّ شَانُہٗ کاشکر ادا کرے، کہ اُسی کی توفیق ولُطف سے ہربھلائی حاصل ہوسکتی ہے، اور جن اَوصاف میں کمی ہو اُن کے حاصل کرنے کی سَعی کرے، اور اللہ تعالیٰ سے اُن کے حُصول کی توفیق مانگتا رہے۔ وَمَاتَوْفِیْقِيْ إِلَّا بِاللّٰہِ.
باب سوم
کلمۂ سوم کے فضائل میں
یعنی سُبْحَانَ اللہِ وَالحَمدُلِلّٰہِ وَلَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ، اور بعض روایات میں ان کلمات کے ساتھ لَاحَولَ وَلَاقُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ بھی وارد ہوا ہے۔ اَحادیث میں اِن کلمات کی بہت زیادہ فضیلت آئی ہے، یہ کلمات ’’تسبیحاتِ فاطمہ‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہے؛ اِس لیے کہ یہ کلمات حضورِ اقدس ﷺ نے اپنی سب سے زیادہ لاڈلی صاحبزادی حضرت سیدہ فاطمہرَضِيَ اللہُ عَنْهَا کو بھی تعلیم فرمائے ہیں، جیسا کہ آگے آرہا ہے۔
اِس باب میں بھی چوںکہ کلامِ پاک کی آیات اور احادیث بہ کثرت وارد ہوئی ہیں؛ اِس لیے دو فصلوں پر اِس کو مُنقَسِم کردیا: پہلی فصل، آیاتِ قرآنیہ میں۔ دوسری، احادیثِ نبویہ میں۔
فصلِ اوّل
مُہتَم بِالشَّان: نہایت اہم۔ مَقُولہ: بات۔ تَثلِیث: تین خدا ماننا۔
اُن آیات کے بیان میں جن میں سُبْحَانَ اللہِ وَالحَمدُلِلّٰہِ وَلَاإلٰہَ إِلَّااللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ کا مضمون کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ یہ قاعدے کی بات ہے کہ جو چیز جتنی مُہتَم بِالشَّان ہوتی ہے اُتنے ہی اِہتِمام سے ذِکر کی جاتی ہے، اور مختلف طریقے سے ذہن نشین کی جاتی ہے، چناںچہ اِن کلمات کا مفہوم بھی قرآنِ پاک میں مختلف طریقوں سے ذکر فرمایا گیا ہے، اُن میں سب سے پہلا کلمہ سُبْحَانَ اللہ ہے، سُبْحَانَ اللہ کے معنیٰ ہیں: اللہجَلَّ شَانُہٗ ہرعیب اور بُرائی سے پاک ہے، مَیں اُس کی پاکی کا پورا پورا اقرار کرتا ہوں۔ اِس مضمون کو حکم سے بھی ذکر فرمایا ہے کہ اللہ کی پاکی بیان کرو۔ خبر سے بھی ارشاد فرمایا ہے کہ: فرشتے اور دوسری مخلوقات اللہ کی پاکی کا اِقرار وبیان کرتی رہتی ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ اِسی طرح دوسرے الفاظ کا بھی یہی حال ہے، کہ مختلف عنوانات سے کلامُ اللہ شریف میں اِن مَضامین کاذِکر فرمایا ہے۔
(۱)وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ.[البقرۃ،ع:۴]
ترجَمہ:(فرشتوں کا مَقُولہ انسان کی پیدائش کے وقت:) اور ہم بِحمدِاللہ آپ کی تسبیح کرتے رہتے ہیں، اور آپ کی پاکی کا دل سے اِقرار کرتے رہتے ہیں۔
(۲)قَالُوْا سُبْحٰنَکَ لَاعِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا، إِنَّکَ أَنتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ. [البقرۃ، ع:۴]
ترجَمہ:(ملائکہ کا جب بہ مقابلۂ انسان امتحان ہوا تو)کہا: آپ تو ہرعیب سے پاک ہیں، ہم کوتو اِس کے سِوا کچھ بھی علم نہیں جتنا آپ نے بتادیا ہے، بے شک آپ بڑے علم والے ہیں، بڑی حکمت والے ہیں۔
(۳) وَاذْکُر رَّبَّکَ کَثِیْراً وَسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالإِبْکَارِ.[اٰل عمران، ع:۴]
ترجَمہ:اور اپنے رب کوبہ کثرت یاد کیجیو اور اس کی تسبیح کیجیو، دن ڈھلے بھی اور صبح کے وقت بھی۔
(۴) رَبَّنَامَاخَلَقْتَ هٰذابَاطِلًا،سُبْحَانَکَ فَقِنَاعَذَابَ النَّارِ.[اٰل عمران، ع:۲۰]
ترجَمہ:(سمجھ دار لوگ جو اللہ کے ذکر میں ہر وقت مشغول رہتے ہیں اور قدرت کے کارناموں میں غورو فکر کرتے رہتے ہیں) یہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب! آپ نے یہ سب بے فائدہ پیدا نہیں کیا ہے (بلکہ بڑی حکمتیں ہیں)،آپ کی ذات ہر عیب سے پاک ہے، ہم آپ کی تسبیح کرتے ہیں، آپ ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچادیجیے۔
(۵)سُبْحَانَہٗ أَن یَّکُونَ لَہٗ وَلَدٌ.[النساء، ع:۲۳]
ترجَمہ:وہ ذات اس سے پاک ہے کہ اُس کے اولاد ہو۔
(۶)قَالَ سُبْحٰنَکَ مَا یَکُونُ لِيْ أَنْ أَقُولَ مَا لَیْسَ لِيْ بِحَقٍّ.[المائدۃ،ع:۱۶]
ترجَمہ:(قِیامت میں جب حضرت عیسیٰ عَلیٰ نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ السَّلَامُ سے سوال ہوگا کہ: اپنی اُمَّت کو تَثلِیث کی تعلیم کیا تم نے دی تھی؟ تو)وہ کہیں گے:(توبہ توبہ)!مَیں تو آپ کو (شِرک سے اور ہرعیب سے) پاک سمجھتاہوں، مَیں ایسی بات کیسے کہتا جس کے کہنے کامجھ کو کوئی حق نہیں تھا۔
(۷) سُبْحَانَہٗ وَتَعَالیٰ عَمَّایَصِفُوْنَ.[الأنعام، ع:۱۲]
ترجَمہ:
اللہ د (اُن سب باتوں سے)پاک ہے جن کو (یہ کافر لوگ)اللہ کی شان میں کہتے ہیں، (کہ: اُس کے اولاد ہے، یا شریک ہے، وغیرہ وغیرہ۔)
(۸) فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَکَ، تُبْتُ إِلَیْکَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ.[الأعراف، ع:۱۷]
ترجَمہ:
(جب طُور پر حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کی ایک تَجلی سے حضرت موسیٰ عَلیٰ نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ السَّلَامُ بے ہوش ہوکر گِرگئے تھے،)پھر جب اِفاقہ ہوا تو عرض کیا کہ: بے شک آپ کی ذات (اِن آنکھوں کے دیکھنے سے اور ہرعیب سے)پاک ہیں، مَیں(دِیدار کی درخواست سے)توبہ کرتاہوں اور سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں۔
اِفاقہ: ہوش۔ اِزالہ: ختم ہونا۔ دِقَّتوں: تکلفیں۔ خَلاصی: چھُٹکارا۔ (۹)إِنَّ الَّذِیْنَ عِندَ رَبِّکَ لَا یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَیُسَبِّحُونَہٗ وَلَہٗ یَسْجُدُونَ. [الأعراف، ع:۲۴]
ترجَمہ:بے شک جو اللہ کے مُقرَّب ہیں (یعنی فرشتے)، وہ اُس کی عبادت سے تکبُّر نہیں کرتے، اور اُس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں اور اُسی کو سجدہ کرتے رہتے ہیں۔
فائدہ:
صوفیاء نے لکھا ہے کہ: آیت میں تکبُّر کی نفی کو مُقدَّم کرنے میں اِس طرف اشارہ ہے کہ تکبُّر کا اِزالہ عبادات پر اِہتِمام کاذریعہ ہے، اور تکبر سے عبادات میں کوتاہی واقع ہوتی ہے۔
(۱۰) سُبْحَانَہٗ عَمَّایُشرِکُونَ.[التوبۃ،ع:۵]
ترجَمہ:اُس کی ذات پاک ہے اُن چیزوں سے جن کو وہ (کافر اُس کا) شریک بناتے ہیں۔
(۱۱) دَعْوَاہُمْ فِیْهَا سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَتَحِیَّتُہُمْ فِیْهَا سَلٰمٌ، وَاٰخِرُ دَعْوَاہُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.[یونس،ع:۱]
ترجَمہ:(اُن جنتیوں کے )منھ سے یہ بات نکلے گی: سُبحَانَكَ اللّٰہُمَّ، اور آپس کا اُن کا سلام ہوگا: اَلسَّلَامُ(عَلَیْکُمْ، اور جب دنیا کی دِقَّتوں کو یاد کریںگے اورخَیال کریںگے کہ اب ہمیشہ کے لیے اُن سے خَلاصی ہوگئی تو) آخر میں کہیںگے: اَلحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِینَ.
(۱۲)سُبحَانَہٗ وَتَعَالیٰ عَمَّایُشرِکُونَ.[یونس، ع: ۱]
ترجَمہ:وہ ذات پاک اور برتر ہے اُن چیزوں سے جن کو وہ کافر شریک بناتے ہیں۔
(۱۳) قَالُوا اتَّخَذَ اللہُ وَلَداً سُبْحَانَہٗ ہُوَ الْغَنِيُّ. [یونس،ع:۷]
ترجَمہ:وہ لوگ کہتے ہیں کہ: اللہ جَلَّ شَانُہٗکے اولاد ہے، اللہ تعالیٰ اِس سے پاک ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں۔
(۱۴) وَسُبْحَانَ اللہِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ. [یوسف، ع:۱۲]
ترجَمہ:اور اللہ جَلَّ شَانُہٗ (ہرعیب سے)پاک ہے، اور مَیں مشرکین میںسے نہیں ہوں۔
(۱۵) وَیُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِہٖ وَالْمَلٰئِکَۃُ مِنْ خِیْفَتِہٖ.[الرعد،ع:۲]
ترجَمہ:اور رعد (فرشتہ)اُس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتا ہے، اور دوسرے فرشتے بھی اُس کے ڈر سے (تسبیح،تحمید کرتے ہیں)۔
فائدہ: عُلَما نے لکھا ہے کہ: جو شخص بجلی کے کڑکنے کے وقت سُبحَانَ الَّذِيْ یُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِہٖ وَالْمَلٰئِکَۃُ مِنْ خِیْفَتِہٖ پڑھے گا، اُس کو بجلی کے نقصان سے حفاظت حاصل ہوگی۔
ایک حدیث میںآیا ہے کہ: جب بجلی کی کڑک سناکرو تو اللہ کاذکر کیا کرو، بجلی ذکر کرنے والے تک نہیں جاسکتی۔(۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
دوسری حدیث میں وارد ہے کہ: بجلی کی کڑک کے وقت تسبیح کیا کرو، تکبیر نہ کہا کرو۔(۔۔۔۔)
(۱۶) وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّکَ یَضِیْقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُولُونَ، فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَکُن مِّنَ السّٰجِدِیْنَ، وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَأْتِیَکَ الْیَقِیْنُ. [الحجر، ع:۶]
ترجَمہ:
اور ہم کو معلوم ہے کہ یہ لوگ(جو نامناسب کلمات آپ کی شان میں) کہتے ہیں اُن سے آپ کو دل تنگی ہوتی ہے، پس (اُس کی پرواہ نہ کیجیے)،آپ اپنے رب کی تسبیح وتَحمِید کرتے رہیں، اور سجدہ کرنے والوں (یعنی نمازیوں)میں شامل رہیں، اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کی وفات کا وقت آوے۔
(۱۷) سُبْحَانَہٗ وَتَعَالیٰ عَمَّا یُشْرِکُونَ. [النحل، ع:۱]
ترجَمہ:
وہ ذات لوگوں کے شرک سے پاک اور بالاتر ہے۔
(۱۸) وَیَجْعَلُونَ لِلّٰہِ الْبَنَاتِ سُبْحَانَہٗ وَلَہُم مَّا یَشْتَہُونَ. [النحل، ع:۷]
ترجَمہ:
اور وہ اللہ کے لیے بیٹیاں تجویز(متعیَّن) کرتے ہیں، وہ ذات اِس سے پاک ہے، اور (تماشایہ ہے کہ) اپنے لیے ایسی چیز تجویز کرتے ہیں جس کو خود پسند کرتے ہیں۔
(۱۹) سُبْحَانَ الَّذِيْ أَسْریٰ بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الأَقْصیٰ.
[الإسراء، ع:۱]
ترجَمہ:
ہر عیب سے پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے (محمدﷺ)کو رات کے وقت مسجدِ حرام (یعنی مسجدِکعبہ) سے مسجدِ اَقصیٰ تک لے گئی،(معراج کاقِصَّہ)۔
(۲۰)سُبْحَانَہٗ وَتَعَالیٰ عَمَّا یَقُولُونَ عُلُوًّا کَبِیْراً. [الإسراء، ع:۵]
(۲۱) تُسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوَاتُ السَّبْعُ وَالأَرْضُ وَمَن فِیْہِنَّ. [الإسراء، ع:۵]
(۲۲) وَإِن مِّن شَيْئٍ إِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدَہٖ وَلٰـکِن لَّاتَفْقَہُونَ تَسْبِیْحَہُمْ. [الإسراء، ع:۵]
ترجَمہ:(۲۰ تا۲۲):یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں اللہ تَعَالیٰ شَانُہٗ اُس سے پاک اور بہت زیادہ بلند مرتبہ ہیں۔ تمام ساتوں آسمان اور زمین اور جتنے (آدمی اور فرشتے اور جن )اُن کے درمیان میں ہیں سب کے سب اُس کی تسبیح کرتے ہیں، (اور یہی نہیں، بلکہ)کوئی چیز بھی (جان دار ہو یابے جان)ایسی نہیں جو اُس کی تعریف کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو؛ لیکن تم لوگ اُن کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو۔
(۲۳) قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ هَلْ کُنتُ إَلَّا بَشَراً رَّسُولًا.[الإسراء،ع:۱۰]
ترجَمہ:(آپ اِن لَغو مُطالَبوں کے جواب میں جو وہ کرتے ہیں)کہہ دیجیے کہ: سبحان اللہ! مَیں تو ایک آدمی ہوں، رسول ہوں،(خدا نہیں ہوں کہ جو چاہے کروں)۔
(۲۴) وَیَقُولُونَ سُبْحٰنَ رَبِّنَا إِن کَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولًا. [الإسراء، ع:۱۲]
ترجَمہ:(اِن عُلَما پر جب قرآن شریف پڑھاجاتا ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بَل سجدے میں گِرجاتے ہیں)،اور کہتے ہیں کہ: ہمارا رب پاک ہے، بے شک اُس کا وعدہ ضرور پورا ہونے والا ہے۔
(۲۵) فَخَرَجَ عَلیٰ قَوْمِہٖ مِنَ الْمِحْرَابِ، فَأَوْحیٰ إِلَیْہِمْ أَن سَبِّحُوا بُکْرَۃً وَعَشِیًّا. [مریم، ع:۱]
ترجَمہ:پس (حضرت زکریا عَلیٰ نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ)حُجرے میں سے باہر تشریف لائے، اور اپنی قوم کو اِشارہ فرمایا کہ: تم لوگ صبح اورشام خدا کی تسبیح کیا کرو۔
(۲۶) مَا کَانَ لِلّٰہِ أَن یَتَّخِذَ مِن وَلَدٍ سُبْحٰنَہٗ.[مریم، ع:۲]
ترجَمہ:اللہ جَلَّ شَانُہٗکی یہ شان (ہی)نہیں کہ وہ اولاد اختیار کرے، وہ اِن سب قِصَّوں سے پاک ہے۔
(۲۷) وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا، وَمِنْ آنَاء اللَّیْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّکَ تَرْضَی. [طٰہٰ، ع:۸]
ترجَمہ:(محمدﷺ! آپ اُن لوگوں کی نامناسب باتوں پر صبر کیجیے)اور اپنے رب کی حمد (وثنا) کے ساتھ تسبیح کرتے رہا کیجیے آفتاب نکلنے سے پہلے اور غروب سے پہلے، اور رات کے اوقات میں تسبیح کیا کیجیے، اور دن کے اوَّل وآخر میں؛ تاکہ آپ (اُس ثواب اور بے اِنتِہا بدلے پر جو اِن کے مُقابلے میں ملنے والا ہے، بے حد) خوش ہوجائیں۔
(۲۸) یُسَبِّحُونَ اللَّیْلَ وَالنَّهَارَ لَا یَفْتُرُونَ. [الأنبیاء، ع:۲]
ترجَمہ:(اللہ کے مقبول بندے اُس کی عبادت سے تھکتے نہیں)، شب وروز اللہ کی تسبیح کرتے رہتے ہیں،کسی وقت بھی مَوقُوف نہیں کرتے۔
(۲۹) فَسُبْحَانَ اللہِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُونَ.[الأنبیاء، ع:۲]
ترجَمہ:اللہ تعالیٰ -جو کہ مالک ہے عرش کا-اِن سب اُمور سے پاک ہے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں(کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ اُس کے شریک ہیں یا اُس کی اولاد ہے)۔
(۳۰) وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَداً سُبْحٰنَہٗ. [الأنبیاء،ع:۲]
ترجَمہ:(یہ کافر لوگ)یہ کہتے ہیں کہ:(نَعُوْذُبِاللّٰہِ)رحمن نے (یعنی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو) اولاد بنایا ہے، اُس کی ذات اِس سے پاک ہے۔
(۳۱) وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَالطَّیْرَ. [الأنبیاء، ع:۶]
ترجَمہ:ہم نے پہاڑوں کو داؤد (عَلیٰ نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ)کے تابع کردیا تھا کہ اُن کی تسبیح کے ساتھ وہ بھی تسبیح کیا کریں، اور اِسی طرح پرندوں کو تابع کردیا تھا کہ وہ بھی (حضرت داؤدعَلیٰ نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُکی تسبیح کے ساتھ) تسبیح کیاکریں۔
(۳۲) لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنتَ سُبْحٰنَکَ إِنِّيْ کُنتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ. [الأنبیاء،ع:۶]
ترجَمہ:(حضرت یونس ں نے تاریکیوں میں پکارا)کہ: آپ کے سِوا کوئی معبود نہیں، آپ سب عُیوب سے پاک ہیں، مَیں بے شک قُصوروار ہوں۔
(۳۳) سُبْحَانَ اللہِ عَمَّا یَصِفُونَ. [المؤمنون، ع:۵]
ترجَمہ:اللہ تعالیٰ اُن سب اُمور سے پاک ہیں جو یہ بیان کرتے ہیں۔
(۳۴) سُبْحٰنَکَ هٰذَا بُہْتَانٌ عَظِیْمٌ. [النور،ع:۲]
ترجَمہ:سبحان اللہ! یہ (لوگ جو کچھ حضرت عائشہ رَضِيَ اللہُ عَنْهَا کی شان میں تُہمت لگاتے ہیں) بہت بڑا بُہتان ہے۔
(۳۵) یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْهَا بِالْغُدُوِّ وَالاٰصَالِ، رِجَالٌ لَّاتُلْہِیْہِمْ تِجَارَۃٌ وَلَا بَیْعٌ عَن ذِکْرِ اللہِ وَإِقَامِ الصَّلوٰۃِ وَإِیْتَاء الزَّکوٰۃِ، یَخَافُونَ یَوْماً تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ. [النور، ع:۵]
ترجَمہ:
اِن (مسجدوں میں)ایسے لوگ صبح شام اللہ کی تسبیح کرتے ہیں جن کو اللہ کی یاد سے اور نماز پڑھنے سے، اور زکوۃ دینے سے نہ خریدنا غفلت میں ڈالتا ہے نہ فروخت کرنا،وہ ایسے دن (کے عذاب)سے ڈرتے ہیں جس میں بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں اُلٹ جائیںگی (یعنی قِیامت کے دن سے)۔
(۳۶) أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللہَ یُسَبِّحُ لَہٗ مَن فِیْ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالطَّیْرُ صَافَّاتٍ، کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَتَسْبِیْحَہٗ، وَاللہُ عَلِیْمٌ بِمَا یَفْعَلُونَ. [النور، ع:۶]
ترجَمہ:
(اے مُخاطَب!)کیا تجھے (دَلائل اور مُشاہَدے(دیکھنے) سے)یہ معلوم نہیں ہوا کہ اللہ جَلَّ شَانُہٗ کی تسبیح کرتے ہیں وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، اور (خصوصاً)پرندے بھی جو پَر پھیلاتے ہوئے (اُڑتے پھرتے)ہیں، سب کو اپنی اپنی دعا (نماز)اور اپنی اپنی تسبیح (کا طریقہ) معلوم ہے، اور اللہ جَلَّ شَانُہٗ کو سب کا حال اور جو کچھ لوگ کرتے ہیں وہ سب معلوم ہے۔
(۳۷) قَالُوا سُبْحٰنَکَ مَا کَانَ یَنبَغِيْ لَنَا أَنْ نَتَّخِذَ مِن دُونِکَ مِنْ أَوْلِیَائَ، وَلٰکِن مَتَّعْتَہُمْ وَآبَائَ ہُمْ حَتّٰی نَسُوا الذِّکْرَ، وَکَانُوا قَوْماًمبُوراً. [الفرقان، ع:۲]
ترجَمہ:
(قِیامت کے روز جب اللہ تعالیٰ اِن کافروں کو اور جن کو یہ پوجتے تھے سب کو جمع کرکے اُن معبودوں سے پوچھے گا: کیا تم نے اِن کو گمراہ کیا؟ تو)وہ کہیںگے: سبحان اللہ! ہماری کیا طاقت تھی کہ آپ کے سِوا اَور کسی کو کارساز(کام بنانے والا) تجویز(متعیَّن) کرتے؟ بلکہ یہ (اَحمق خود ہی بجائے شکر کے کُفر میں مبتلا ہوئے،)کہ آپ نے اِن کو اور اِن کے بڑوں کو خوب ثَروَت(مال داری) عطا فرمائی، یہاں تک کہ یہ لوگ (دولت کے نشے میں شَہوتوں میں مُبتَلاہوئے، اور) آپ کی یاد کو بھُلا دیا اور خود ہی برباد ہوگئے۔
بالاتر: بہت بلند۔ پَرستِش: عبادت۔ صف بَستہ: صف لگائے ہوئے۔
(۳۸) وَتَوَکَّلْ عَلَی الْحَيِّ الَّذِيْ لَایَمُوتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِہٖ، وَکَفیٰ بِہٖ بِذُنُوبِ عِبَادِہٖ خَبِیْراً. [الفرقان، ع:۵]
ترجَمہ:
اور اُس ذات پاک پر توکُّل رکھیے جو زندہ ہے اور کبھی اُس کوفَنا نہیں، اور اُسی کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہیے، (یعنی تسبیح وتحمید میں مشغول رہیے، کسی کی مُخالَفت کی پرواہ نہ کیجیے)؛ کیوںکہ وہ پاک ذات اپنے بندوں کے گناہوں سے کافی خبردار ہے،(قِیامت میں ہر شخص کی مُخالَفت کا بدلہ دیاجائے گا)۔
(۳۹) وَسُبْحٰنَ اللہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.[النمل، ع:۱]
ترجَمہ:
اللہ ربُّ العالَمین ہر قِسم کی کُدورَت(گندگی) سے پاک ہے۔
(۴۰) سُبحَانَ اللہِ وَتَعَالیٰ عَمَّا یُشرِکُونَ. [القصص، ع:۷]
ترجَمہ:اللہ داُن سب چیزوں سے پاک ہے جن کو یہ مُشرک بیان کرتے ہیں، اور اُن سے بالاتر ہے۔
(۴۱) فَسُبْحٰنَ اللہِ حِیْنَ تُمْسُونَ وَحِیْنَ تُصْبِحُونَ، وَلَہُ الْحَمْدُ فِيْ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِیًّا وَحِیْنَ تُظْہِرُونَ.[الروم، ع:۲]
ترجَمہ:
پس تم اللہ کی تسبیح کیا کروشام کے وقت (یعنی رات میں)،اور صبح کے وقت، اور اُسی کی حمد (کی جاتی )ہے تمام آسمانوں میں اور زمین میں، اور اُسی کی (تسبیح وتحمید کیا کرو)شام کے وقت بھی (یعنی عصر کے وقت بھی )اور ظہر کے وقت بھی۔
(۴۲) سُبحٰنَہٗ وَتَعَالیٰ عَمَّا یُشرِکُونَ. [الروم، ع:۴]
ترجَمہ:اللہ جَلَّ شَانُہٗ کی ذات پاک اور بالاتر ہے اُن چیزوں سے جن کو یہ لوگ اُس کی طرف (منسوب کرکے)بیان کرتے ہیں۔
(۴۳) إِنَّمَا یُؤْمِنُ بِآیَاتِنَا الَّذِیْنَ إِذَا ذُکِّرُوا بِهَا خَرُّوا سُجَّداً وَسَبَّحُوا بِحَمْدِ رَبِّہِمْ، وَہُمْ لَایَسْتَکْبِرُونَ.[السجدۃ ع:۲]
ترجَمہ:پس ہماری آیتوں پر تو وہ لوگ ایمان لاتے ہیں کہ جب اُن کو وہ آیتیں یاد دِلائی جاتی ہیں تو وہ سجدے میں گِرپڑتے ہیں، اور اپنے رب کی تسبیح وتحمید کرنے لگتے ہیں، اور وہ لوگ تکبُّر نہیں کرتے۔
(۴۴)یٰأَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اذْکُرُوا اللہَ ذِکْراً کَثِیْراً وَسَبِّحُوہُ بُکْرَۃً وَأَصِیْلًا. [الأحزاب، ع:۶]
ترجَمہ:اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کا ذکر خوب کثرت سے کرو، اور صبح شام اُس کی تسبیح کرتے رہو۔
(۴۵) قَالُوا سُبْحٰنَکَ أَنتَ وَلِیُّنَا مِن دُونِہِم. [السبا،ع:۵]
ترجَمہ:(جب قِیامت میں ساری مخلوق کو جمع کرکے حق تَعَالیٰ شَانُہٗ فرشتوں سے پوچھیںگے: کیا یہ لوگ تمھاری پَرستِش کرتے تھے؟ تو)وہ کہیںگے آپ (شرک وغیرہ عیوب سے)پاک ہیں، ہمارا تو محض آپ سے تعلُّق ہے نہ کہ اِن سے۔
(۴۶) سُبْحَانَ الَّذِيْ خَلَقَ الْأَزْوَاجَ کُلَّهَا.[یس،ع:۳]
ترجَمہ:وہ ذات پاک ہے جس نے تمام جوڑ کی (یعنی ایک دوسرے کے مُقابِل) چیزیں پیدا کیں۔
(۴۷) فَسُبْحٰنَ الَّذِيْ بِیَدِہٖ مَلَکُوتُ کُلِّ شَيْئٍ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ.[یٰس، ع:۵]
ترجَمہ:پس پاک ہے وہ ذات جس کے قبضے میں ہرچیزکا پورا پورا اِختیار ہے، اور اُسی کی طرف لوٹائے جاؤگے۔
(۴۸) فَلَوْلَا أَنَّہٗ کَانَ مِنْ الْمُسَبِّحِیْنَ لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِہٖ إِلیٰ یَوْمِ یُبْعَثُونَ. [الصافَّات، ع:۵]
ترجَمہ:پس اگر (یونسں) تسبیح کرنے والوں میں نہ ہوتے تو قِیامت تک اسُی (مچھلی) کے پیٹ میں رہتے۔
(۴۹) سُبْحَانَ اللہِ عَمَّا یَصِفُونَ.[الصافَّات،ع:۵]
ترجَمہ:اللہ کی ذات پاک ہے اُن چیزوں سے جن کو یہ لوگ بتاتے ہیں۔
(۵۰) وَإِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُونَ. [الصافَّات، ع:۵]
ترجَمہ:فرشتے کہتے ہیں کہ: ہم سب اَدب سے صف بَستہ کھڑے رہتے ہیں، اور سب اُس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں۔
(۵۱) سُبْحٰنَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُونَ، وَسَلَامٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.
ترجَمہ:آپ کا رب -جو عزَّت (وعَظمت)والا ہے- پاک ہے اُن چیزوں سے جن کو یہ بیان کرتے ہیں، اور سلام ہو پیغمبروں پر، اور تمام تعریف اللہ ہی کے واسطے ثابت ہے جو تمام عالَم کا پروردگار ہے۔
(۵۲) إِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَہٗ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالإِشْرَاقِ، وَالطَّیْرَ مَحْشُورَۃً، کُلٌّ لَّہُ أَوَّابٌ. [ص، ع:۲]
ترجَمہ:ہم نے پہاڑوں کو حکم کر رکھا تھا کہ اُن کی (حضرت داؤد ں کی) ساتھ شریک ہوکر صبح شام تسبیح کیا کریں، اِسی طرح پرندوں کو بھی حکم کررکھا تھا (جو کہ تسبیح کے وقت)اُن کے پاس جمع ہوجاتے تھے، اور سب (پہاڑ اور پرندے مل کر حضرت داؤد ں کے ساتھ)اللہ کی طرف رُجوع کرنے والے (اور تسبیح وتحمید میں مشغول ہونے والے)ہوتے تھے۔
(۵۳) سُبْحٰنَہٗ، ہُوَ اللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ. [الزمر، ع:۱]
ترجَمہ:وہ عیوب سے پاک ہے، ایسا اللہ ہے جو اکیلا ہے، (کوئی اُس کا شریک نہیں) زبردست ہے۔
(۵۴) سُبْحٰنَہٗ وَتَعَالیٰ عَمَّا یُشْرِکُونَ. [الزمر، ع:۷]
ترجَمہ:وہ ذات پاک اور بَرتَر ہے اُس چیز سے جس کو یہ لوگ شریک کرتے ہیں۔
(۵۵) وَتَرَی الْمَلٰئِکَۃَ حَافِّیْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ یُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ، وَقُضِيَ بَیْنَہُم بِالْحَقِّ، وَقِیْلَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ. [الزمر، ع:۸]
ترجَمہ:آپ (قِیامت میں)فرشتوں کودیکھیںگے کہ: عرش کے چاروں طرف حلقہ باندھے کھڑے ہوںگے، اور اپنے رب کی تسبیح وتحمید میں مشغول ہوںگے، اور (اُس دن) تمام بندوں کا ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردیاجائے گا، اور (ہرطرف سے) کہاجائے گا: اَلحَمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِینَ: (تمام تعریف اللہ ہی کے لیے جو تمام عالَم کا پروردگار ہے)۔
(۵۶) الَّذِیْنَ یَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ یُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ، وَیُؤْمِنُونَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوا، رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَيْئٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْماً، فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِیْلَکَ، وَقِہِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ. [المؤمن، ع:۱]
ترجَمہ:جو فرشتے عرش کو اُٹھائے ہوئے ہیں اور جو فرشتے اُس کے چاروں طرف ہیں، وہ اپنے رب کی تسبیح کرتے رہتے ہیں، اور حمد کرتے رہتے ہیں، اور اُس پر ایمان رکھتے ہیں، اور ایمان والوں کے لیے اِستِغفار کرتے ہیں، اور (کہتے ہیں کہ:) اے ہمارے پروردگار! آپ کی رحمت اور علم ہر شیٔ کو شامل ہے، پس اُن لوگوں کو بخش دیجیے جنھوں نے توبہ کرلی ہے، اور آپ کے راستے پر چلتے ہیں، اور اُن کو جہنَّم کے عذاب سے بچائیے۔
(۵۷) وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ بِالْعَشِيِّ وَالإِبْکَارِ. [المؤمن ع:۶]
ترجَمہ:صبح اور شام (ہمیشہ)اپنے رب کی تسبیح وتحمید کرتے رہیے۔
(۵۸) فَالَّذِیْنَ عِندَ رَبِّکَ یُسَبِّحُونَ لَہٗ بِاللَّیْلِ وَالنَّهَارِ وَہُمْ لَا یَسْئَمُونَ. [حٰم السجدۃ، ع:۵]
ترجَمہ:جو آپ کے رب کے نزدیک ہیں (یعنی مُقرَّب ہیں، مراد فرشتے ہیں)وہ رات دن اُس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں، ذرا بھی نہیں اُکتاتے۔
(۵۹) وَالْمَلٰئِکَۃُ یُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ، وَیَسْتَغْفِرُونَ لِمَن فِيْ الْأَرْضِ. [الشوریٰ، ع:۱]
ترجَمہ:اورفرشتے اپنے رب کی تسبیح وتحمید کرتے رہتے ہیں، اور اُن لوگوں کے لیے جو زمین میں رہتے ہیں اُن کے لیے اِستِغفار کرتے رہتے ہیں۔
(۶۰) وَتَقُولُوا سُبْحٰنَ الَّذِيْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِیْنَ، وَإِنَّا إِلیٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ. [الزخرف، ع:۱]
ترجَمہ:اور تم سواریوں پر بیٹھ جانے کے بعد اپنے رب کی یاد کرو، اور کہو: پاک ہے وہ ذات جس نے اِن سواریوں کو ہمارے تابع کیا، اور ہم تو ایسے نہ تھے کہ اِن کو تابع کرسکتے، اور بے شک ہم کو اپنے رب کی طرف لوٹ کرجاناہے۔
(۶۱) سُبْحٰنَ رَبِّ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُونَ. [الزخرف، ع:۷]
ترجَمہ:آسمانوں اور زمین کا پروردگار -جو مالک ہے عرش کا بھی- پاک ہے اُن چیزوں سے جن کو یہ بیان کرتے ہیں۔
(۶۲) وَتُسَبِّحُوہُ بُکْرَۃً وَّأَصِیْلًا. [الفتح، ع:۱]
ترجَمہ:اور تسبیح کرتے رہو اُس کی صبح کے وقت اور شام کے وقت۔
(۶۳) فَاصْبِرْ عَلیٰ مَا یَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ، وَمِنَ الَّیْلِ فَسَبِّحْہُ وَأَدْبَارَ السُّجُودِ.[ق،ع:۳]
ترجَمہ:پس اُن لوگوں کی (نامناسب باتوں پر )جو کچھ وہ کہیں صبر کیجیے، اور اپنے رب کی تسبیح وتحمید کرتے رہیے آفتاب نکلنے سے پہلے اور آفتاب کے غروب کے بعد، اور رات میں بھی اُس کی تسبیح وتحمید کیجیے، اور (فرض) نمازوں کے بعد بھی تسبیح وتحمید کیجیے۔
(۶۴) سُبْحٰنَ اللہِ عَمَّا یُشْرِکُونَ. [الطور، ع:۲]
ترجَمہ:اللہ کی ذات پاک ہے اُن چیزوں سے جن کو وہ شریک کرتے ہیں۔
(۶۵) وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ حِیْنَ تَقُومُ، وَمِنَ الَّیْلِ فَسَبِّحْہُ وَإِدْبَارَ النُّجُومِ. [الطور، ع:۲]
ترجَمہ:اور اپنے رب کی تسبیح وتحمید کیاکیجیے (مجلس سے یا سونے سے )اُٹھنے کے بعد (یعنی تہجُّد کے وقت)، اور رات کے وقت بھی اُس کی تسبیح کیا کیجیے، اور سِتاروں کے (غروب ہونے کے) بعد بھی۔
(۶۶، ۶۷) فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ. [الواقعۃ ع:۱۔مرتین]
ترجَمہ:پس اپنے اُس بڑی عظمت والے رب کے نام کی تسبیح کیجیے۔
(۶۸)سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِيْ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ. [الحدید، ع:۱]
ترجَمہ:اللہجَلَّ شَانُہٗ کی تسبیح کرتے ہیں وہ سب کچھ جو آسمانوں میں ہیں اور زمین میں ہیں، اور وہ زبردست ہے اورحکمت والاہے۔
(۶۹) سَبَّحَ لِلَّہِ مَا فِيْ السَّمٰوَاتِ وَمَا فِيْ الْأَرْضِ، وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ. [الحشر، ع:۱]
ترجَمہ:اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہیں وہ سب چیزیں جو آسمانوں میں ہیں، اور وہ سب چیزیں جو زمین میں ہیں، وہ زبردست ہے اور حکمت والاہے۔
(۷۰) سُبْحٰنَ اللہِ عَمَّا یُشْرِکُونَ. [الحشر، ع:۳]
ترجَمہ:اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے اُس چیز سے جس کویہ شریک کرتے ہیں۔
(۷۱) یُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِيْ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ. [الحشر ع:۳]
ترجَمہ:اللہ تَعَالیٰ شَانُہٗ کی تسبیح کرتی رہتی ہیں وہ سب چیزیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، وہ زبردست ہے اور حکمت والا ہے۔
(۷۲) سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِيْ السَّمٰوَاتِ وَمَا فِيْ الْأَرْضِ، وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ. [الصف، ع:۱]
ترجَمہ:اللہجَلَّ شَانُہٗ کی تسبیح کرتی ہیں وہ سب چیزیں جو آسمانوں میں ہیں اور زمین میں ہیں، وہ زبردست ہے اور حکمت والاہے۔
(۷۳) یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِيْ السَّمٰوَاتِ وَمَا فِيْ الْأَرْضِ، الْمَلِکِ الْقُدُّوسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ. [الجمعۃ، ع:۱]
ترجَمہ:اللہ جَلَّ شَانُہٗ کی تسبیح کرتی ہیں وہ سب چیزیں جو آسمانوں میں ہیں، اور جو چیزیں زمین میں ہیں،وہ بادشاہ ہے، (سب عیبوں سے)پاک ہے، زبردست ہے اور حکمت والا ہے۔
(۷۴) یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِيْ السَّمٰوَاتِ وَمَا فِيْ الْأَرْضِ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ، وَہُوَ عَلیٰ کُلِّ شَيْئٍ قَدِیْرٌ. [التغابن، ع:۱]
ترجَمہ:اللہجَلَّ شَانُہٗ کی تسبیح کرتی ہیں وہ سب چیزیں جو آسمانوں میں ہیں، اور جو کچھ زمین میں ہے، اُسی کے لیے ساری سلطنت ہے، اور وہی تعریف کے قابل ہے اور وہ ہر شیٔ پر قادر ہے۔
(۷۵، ۷۶) قَالَ أَوْسَطُہُمْ أَلَمْ أَقُل لَّکُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُونَ، قَالُوا سُبْحٰنَ رَبِّنَا إِنَّا کُنَّا ظٰلِمِیْنَ. [القلم، ع:۱]
ترجَمہ:اُن میں سے جو اَفضل تھا وہ کہنے لگا کہ: مَیں نے تم سے (پہلے ہی) کہا نہ تھا: اللہ کی تسبیح کیوں نہیں کرتے؟ وہ لوگ کہنے لگے: سُبْحَانَ رَبِّنَا(ہمارا رب پاک ہے)بے شک ہم خطاوار ہیں۔
(۷۷) فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ. [الحاقۃ، ع:۲]
ترجَمہ:پس اپنے عظمت والے پروردگار کے نام کی تسبیح کرتے رہیے۔
(۷۸) وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ بُکْرَۃً وَأَصِیْلًا، وَمِنَ الَّیْلِ فَاسْجُدْ لَہٗ وَسَبِّحْہُ لَیْلًا طَوِیْلًا. [الدہر، ع:۲]
ترجَمہ:
اپنے پروردگار کا صبح وشام نام لیاکیجیے، اور رات کو بھی اُس کے لیے سجدہ کیجیے، اور رات کے بڑے حِصَّے میں اُس کی تسبیح کیاکیجیے۔
(۷۹)سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلیٰ. [الأعلیٰ، ع:۱]
ترجَمہ:
آپ اپنے عالی شان پروردگار کے نام کی تسبیح کیجیے۔
(۸۰) فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ، إِنَّہٗ کَانَ تَوَّاباً.[النصر، ع:۱]
ترجَمہ:
پس آپ اپنے رب کی تسبیح وتحمید کرتے رہیے اور اُس سے مغفرت طلب کرتے رہیے، بے شک وہ بڑا توبہ قَبول کرنے والاہے۔
مُہتَم بِالشَّان: نہایت اہم۔ تردُّد:شک۔۔
فائدہ:
یہ اَسِّی(۸۰) آیات ہیں جن میں اللہ جَلَّ جَلَالُہٗ وَعَمَّ نَوَالُہٗ کی تسبیح کا حکم ہے، اُس کی پاکی بیان کرنے اور اِقرار کرنے کا حکم ہے، یا اُس کی ترغیب ہے۔
جس مضمون کو اللہ مالکُ المُلک نے اِس اِہتِمام سے اپنے پاک کلام میں بار بار فرمایا ہو اُس کے مُہتَم بِالشَّان ہونے میں کیا تردُّد ہوسکتا ہے؟۔ اِن میں سے بہت سی آیات میں تسبیح کے ساتھ دوسرے کلمۂ توحید یعنی اللہ کی تعریف کرنا، اُس کی حمد بیان کرنا، اور اُسی میںاَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہنا بھی ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ اُوپر کی آیات سے معلوم ہوگیا، اِن کے عِلاوہ خاص طور پر اللہ کی تعریف کا بیان جو مفہوم ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِکا، اَور آیات میں بھی آیا ہے، اور سب سے اہم یہ کہ اللہ جَلَّ شَانُہٗ کی پاک کلام کا شروع ہی اَلحَمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِینَسے ہے ،اِس سے بڑھ کر اِس پاک کلمے کی اَور کیا فضیلت ہوگی،کہ اللہ دنے قرآن پاک کا شروع اِس سے فرمایا ہے!۔
(۱)الْحَمْدُ للّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ. [الفاتحۃ، ع:۱]
ترجَمہ:سب تعریفیں اللہ کو لائق ہیں جو تمام جَہانوں کا پروردگار ہے۔
(۲) الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالأَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّورَ، ثُمَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّہِم یَعْدِلُونَ. [الأنعام، ع:۱]
ترجَمہ:تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا فرمایا، اور اندھیروں کو اور نور کو بنایا، پھر بھی کافر لوگ (دوسروں کو)اپنے رب کے برابر کرتے ہیں۔
(۳) فَقُطِعَ دَابِرُالْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ. [الأنعام، ع:۵]
ترجَمہ:پھر(ہماری گِرفت سے)ظالم لوگوں کی جڑکٹ گئی، اور تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے، (اُس کا شکرہے)،جو تمام جہانوں کا پروردگارہے۔
(۴) وَقَالُوْاالْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ هَدَانَا لِہٰـذَا، وَمَا کُنَّا لِنَہْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللہُ. [الأعراف، ع:۵]
ترجَمہ:اور( جنت میں پہنچنے کے بعد)وہ لوگ کہنے لگے: تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے ہم کو اِس مُقام تک پہنچادیا، (اور ہم کبھی بھی یہاں تک نہ پہنچتے) اگر اللہ جَلَّ شَانُہٗ ہم کو نہ پہنچاتے۔
(۵)الَّذِیْنَ یَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الأُمِّيَّ الَّذِيْ یَجِدُونَہٗ مَکْتُوباً عِندَہُمْ فِيْ التَّوْرَاۃِ وَالإِنْجِیْلِ. [الأعراف، ع:۱۹]
ترجَمہ:
جو لوگ ایسے رسول نبیٔ اُمِّی ﷺ کا اِتِّباع کرتے ہیں جن کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور اِنجیل میں لکھا ہواپاتے ہیں۔
فائدہ:
توریت میں جو صِفات حضورﷺ کی نقل کی گئی ہیں اُن میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ: اُن کی اُمَّت بہت کثرت سے اللہ کی حمد کرنے والی ہے۔ چناںچہ دُرِّمنثور میں کئی روایات سے یہ مضمون نقل کیاگیاہے۔
(۶)التَّائِبُونَ الْعٰبِدُونَ الْحٰمِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاکِعُونَ السّٰجِدونَ الآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاہُونَ عَنِ الْمُنکَرِ وَالْحٰفِظُونَ لِحُدُودِ اللہِ، وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ. [التوبۃ، ع:۱۴]
ترجَمہ:(اُن مُجاہِدین کے اَوصاف جن کے نُفوس کو اللہجَلَّ شَانُہٗ نے جنت کے بدلے میں خرید لیا ہے، یہ ہیں کہ:)وہ گناہوں سے توبہ کرنے والے ہیں، اللہ کی عبادت کرنے والے ہیں، اللہ کی حَمد کرنے والے ہیں، روزہ رکھنے والے ہیں (یا اللہ کی رَضا کے لیے سفر کرنے والے ہیں)، رکوع اور سجدہ کرنے والے ہیں (یعنی نمازی ہیں)،نیک باتوں کا حکم کرنے والے ہیں اور بُری باتوں سے روکنے والے ہیں، (تبلیغ کرنے والے ہیں)، اور اللہ کی حُدود کی (یعنی اَحکام کی) حِفاظت کرنے والے ہیں؛ (ایسے)مومنوں کو آپ خوش خبری سنادیجیے۔
(۷) وَآخِرُ دَعْوَاہُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.[یونس، ع:۱]
ترجَمہ:اور آخری پُکار اُن کی یہی ہے: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ:(تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے)۔
(۸) الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ وَهَبَ لِيْ عَلَی الْکِبَرِ إِسْمٰعِیْلَ وَإِسْحَاقَ. [إبراہیم، ع:۶]
ترجَمہ:تمام تعریف اللہ ہی کے لیے جس نے بُڑھاپے میں مجھ کو (دوبیٹے:) اسماعیل اور اِسحاق (عَلیٰ نَبِیِّنَا وَعَلَیہِمَا الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ)عطا فرمائے۔
(۹) الْحَمْدُ لِلّٰہِ بَلْ أَکْثَرُہُمْ لَایَعْلَمُونَ. [النحل:۱۰]
ترجَمہ:تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے (پھر بھی وہ لوگ اِس طرف مُتوجَّہ نہیں ہوتے)؛ بلکہ اکثر اُن میں سے ناسمجھ ہیں۔
(۱۰) یَوْمَ یَدْعُوکُمْ فَتَسْتَجِیْبُونَ بِحَمْدِہٖ وَتَظُنُّونَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا قَلِیْلًا. [الإسراء، ع:۵]
ترجَمہ:جس دن (صور پھُنکے گا، اور تم کو زندہ کرکے) پُکارا جائے گا، توتم (مجبوراً) اُس کی حمد (وثنا) کرتے ہوئے حکم کی تعمیل کروگے، اور اُن حالات کو (دیکھ کر)گمان کروگے کہ ہم (دنیا میں اور قبر میں) بہت ہی کم مُدَّت ٹھہرے تھے۔
(۱۱)وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَداً، وَّلَم یَکُن لَّہٗ شَرِیْکٌ فِي الْمُلْکِ، وَلَمْ یَکُن لَّہٗ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیْراً.[الإسراء، ع:۱۲]
ترجَمہ:اور آپ (عَلی الاِعلان)کہہ دیجیے کہ: تمام تعریف اُسی اللہ کے لیے ہے جو نہ اولاد رکھتا ہے اور نہ اُس کا کوئی سلطنت میں شریک ہے، اور نہ کمزوری کی وجہ سے اُس کا کوئی مددگار ہے، اور اُس کی خوب تکبیر (بَڑائی بیان)کیاکیجیے۔
عَلی الاِعلان: کھُلَّم کھُلاَّ۔ کَجی: ٹیڑھاپن۔
(۱۲)الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَنزَلَ عَلیٰ عَبْدِہِ الْکِتٰبَ وَلَمْ یَجْعَل لَّہٗ عِوَجاً. [الکہف، ع:۱]
ترجَمہ:تمام تعریف اُس اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے (محمدﷺ) پر کتاب نازل فرمائی، اور اُس کتاب میں کسی قِسم کی ذرا سی بھی کَجی نہیں رکھی۔
(۱۳) فَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ نَجَّانَا مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ. [المؤمنون، ع:۲]
ترجَمہ:(حضرت نوح ں کو خِطاب ہے کہ: جب تم کشتی میں بیٹھ جاؤ)تو کہنا کہ: تمام تعریف اُس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں ظالموں سے نجات دی۔
(۱۴) وَقَالَا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ فَضَّلَنَا عَلیٰ کَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِیْنَ. [النمل ع:۲]
ترجَمہ:اور (حضرت سلیمان ں اور حضرت داؤدںنے) کہا: تمام تعریف اُس اللہ کے لیے ہے جس نے ہم کو اپنے بہت سے ایمان والے بندوں پر فضیلت دی۔
(۱۵) قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسَلٰمٌ عَلیٰ عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفیٰ. [النمل، ع:۵]
ترجَمہ:آپ(خطبے کے طورپر)یوں کہیے: تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اور اُس کے اُن بندوں پر سلام ہو جن کو اُس نے مُنتخب فرمایا۔
(۱۶) وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ سَیُرِیْکُمْ آیَاتِہٖ فَتَعْرِفُونَهَا. [النمل ع:۷]
ترجَمہ:اور آپ کہہ دیجیے کہ: سب تعریفیں اللہ ہی کے واسطے ہیں، وہ عن قریب تم کو اپنی نشانیاں دِکھاوے گا، پس تم اُن کو پہچان لوگے۔
(۱۷) لَہُ الْحَمْدُ فِیْ الْأُولیٰ وَالآخِرَۃِ، وَلَہُ الْحُکْمُ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ. [القصص ع:۷]
ترجَمہ:حمدوثنا کے لائق دنیا اور آخرت میں وہی ہے، اور حکومت بھی اُسی کے لیے ہے، اور اُسی کی طرف لوٹائے جاؤگے۔
(۱۸) قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ بَلْ أَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُونَ. [العنکبوت، ع:۶]
ترجَمہ:آپ کہیے: تمام تعریف اللہ ہی کے واسطے ہے (یہ لوگ مانتے نہیں)؛بلکہ اکثر اِن میں سمجھتے بھی نہیں۔
(۱۹) وَمَن کَفَرَ فَإِنَّ اللہَ غَنِيٌّ حَمِیْدٌ. [لقمان، ع:۲]
ترجَمہ:اور جو شخص کُفر کرے (ناشکری کرے)تو اللہ تعالیٰ تو بے نیاز ہے، تمام خوبیوں والا ہے۔
(۲۰) قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ بَلْ أَکْثَرُہُمْ لَایَعْلَمُونَ.[لقمان، ع:۳]
ترجَمہ:آپ کہہ دیجیے: تمام تعریف اللہ کے لیے ہے (یہ لوگ مانتے نہیں)؛بلکہ اکثر اُن میں کے جاہل ہیں۔
(۲۱)إِنَّ اللہَ ہُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِیْدُ. [لقمان، ع:۳]
ترجَمہ:بے شک اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے، تمام خوبیوں والا ہے۔
(۲۲)الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ لَہٗ مَا فِي السَّمٰوَاتِ وَمَا فِيْ الْأَرْضِ، وَلَہُ الْحَمْدُ فِيْ الآخِرَۃِ. [سبا، ع:۱]
ترجَمہ:تمام تعریف اُسی اللہ کے لیے ہے جس کی مِلک ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، اُسی کی حمد (وثنا) ہوگی آخرت میں، (کسی دوسرے کی پوچھ نہیں)۔
(۲۳) الْحَمْدُ لِلّٰہِ فَاطِرِ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ.[فاطر، ع:۱]
ترجَمہ:تمام تعریف اللہ کے لیے ہے جو آسمانوں کا پیدا کرنے والا ہے اور زمین کا۔
(۲۴)یٰأَیُّهَاالنَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَآءُ إِلَی اللہِ، وَاللہُ ہُوَ الْغَنِيُّالْحَمِیْدُ. [فاطر، ع:۳]
ترجَمہ:اے لوگو! تم محتاج ہو اللہ کے اور وہ بے نیاز ہے، اور تمام خوبیوں والا ہے۔
(۲۵)وَقَالُوا الْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِيْ أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ، إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَکُورٌ، الَّذِيْ أَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَۃِ مِن فَضْلِہٖ، لَایَمَسُّنَا فِیْهَا نَصَبٌ وَّلَا یَمَسُّنَا فِیْهَا لُغُوبٌ.[فاطر، ع:۴]
ترجَمہ:جب مسلمان جنت میں داخل ہوںگے تو ریشمی لباس پہنائے جائیںگے، اور کہیںگے: تمام تعریف اُس اللہ کے لیے ہے جس نے ہم سے (ہمیشہ کے لیے)رَنج دُور کردیا، بے شک ہمارا رب بڑا بخشنے والا، بڑا قَدر کرنے والا ہے، جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشہ کے رہنے کے مُقام میں پہنچادیا، نہ ہم کو کوئی کُلفت پہنچے گی اور نہ ہم کو کوئی خَستگی پہنچے گی۔
کُلفت: تکلیف۔ خَستگی: تھکاوَٹ۔
(۲۶) وَسَلٰمٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ. [الصافات، ع:۵]
ترجَمہ:اور سلام ہو رَسولوں پر، اور تمام تعریف اللہ ہی کے واسطے ہے جو تمام جَہانوں کا پروردگار ہے۔
(۲۷)الْحَمْدُ لِلّٰہِ، بَلْ أَکْثَرُہُمْ لَایَعْلَمُونَ. [الزمر، ع:۳]
ترجَمہ:
تمام تعریف اللہ کے واسطے ہے (مگر یہ لوگ سمجھتے نہیں)؛بلکہ اکثر جاہل ہیں۔
(۲۸) وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ صَدَقَنَا وَعْدَہٗ وَأَوْرَثَنَا الْأَرْضَ نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَآئُ، فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِیْنَ. [الزمر، ع:۸]
ترجَمہ:
(اور جب مسلمان جنت میں داخل ہوںگے تو)کہیں گے کہ: تمام تعریف اُس اللہ کے واسطے ہے جس نے ہم سے اپنا وعدہ سچا کیا، اور ہم کو اُس زمین کا مالک بنادیا کہ ہم جنت میں جہاں چاہے مُقام کریں؛ نیک عمل کرنے والوں کا کیا ہی اچھا بدلہ ہے!!۔
(۲۹) فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ رَبِّ السَّمٰوَاتِ وَرَبِّ الْأَرْضِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.[الجاثیۃ ع:۴]
ترجَمہ:پس اللہ ہی کے لیے تمام تعریف ہے جو پروردگار ہے آسمانوں اور زمین کا، اور تمام جہانوں کا پروردگارہے۔
(۳۰)وَمَا نَقَمُوامِنْہُمْ إِلَّا أَن یُّؤْمِنُوا بِاللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ، الَّذِيْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ. [البروج، ع:۱]
ترجَمہ:
(ایک کافر بادشاہ کے مسلمانوں کو ستانے اور تکلیفیں دینے کا اوپر سے ذکر ہے) اور اُن کافروں نے اِن مسلمانوں میں اَور کوئی عیب نہیں پایا تھا بہ جُز اِس کے کہ وہ خدا پر ایمان لے آئے تھے، جو زبردست ہے اور تعریف کا مستحق ہے، اُسی کے لیے سلطنت ہے آسمانوں کی اور زمین کی۔
فائدہ:
اِن آیات میں اللہ کی حمد اور اُس کی تعریف کی ترغیب، اُس کاحکم، اُس کی خبر ہے۔ احادیث میں بھی کثرت سے اللہ کی تعریف کرنے والوں کے فضائل خاص طور پر ذکر کیے گئے ہیں۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: جنت کی طرف سب سے پہلے وہ لوگ بُلائے جائیںگے جو ہر حال میں -راحت ہو یا تکلیف- اللہ کی تعریف کرنے والے ہوں۔
(مستدرک حاکم ۱؍۶۸۱حدیث:۱۸۵؍۵۱)
ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ: اللہ جَلَّ شَانُہٗکو اپنی تعریف بہت پسند ہے۔
(ابویعلیٰ، ۔۔۔۔۔۔۔۔حدیث:۴۲۵۶)
اور ہونا بھی چاہیے، کہ در حقیقت تعریف کی مُستحِق صرف اللہ ہی کی پاک ذات ہے، غیر اللہ کی تعریف کیا! جس کے قبضے میں کچھ بھی نہیں، حتیٰ کہ وہ خود بھی اپنے قبضے میں نہیں۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: قِیامت کے دن اَفضل بندے وہ ہوںگے جو کثرت سے اللہ کی حمد وثنا کرتے ہوں۔
(مسند احمد،۔۔۔۔۔۔۔۔حدیث:۱۹۸۹۵)
ایک حدیث میں وارد ہے کہ: حمد، شکر کی اَصل اور بنیاد ہے، جس نے اللہ کی حمد نہیں کی اُس نے اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کیا۔(۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
مُضایَقہ: حرج۔ مُہتَم بِالشَّان: نہایت اہم۔ مُسخَّر: تابع۔
ایک حدیث میں آیا ہے: کسی نعمت پر حمد کرنا اُس نعمت کے زائل[ختم] ہوجانے سے حفاظت ہے۔
(کنز العمال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
ایک حدیث میں ہے کہ: اگر دنیا ساری کی ساری میری اُمَّت میں سے کسی کے ہاتھ میں ہو اور وہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہے، تو یہ کہنا اُس سب سے افضل ہے۔
(تاریخ دمشق ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: جب حق تَعَالیٰ شَانُہٗ کوئی نعمت کسی بندے کو عطا فرماتے ہیںاور وہ اُس نعمت پر حمد کرتا ہے تو وہ حمد بڑھ جاتی ہے، خواہ نعمت کتنی ہی بڑی ہو۔ (۔۔۔۔۔۔۔۔)
ایک صحابی ص حضورﷺکے پاس بیٹھے تھے، اُنھوں نے آہستہ سے اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کَثِیراً طَیِّباً مُبَارَکاً فِیْہِ کہا، حضورﷺنے دریافت فرمایا کہ: یہ دعا کس نے پڑھی؟ وہ صحابی اِس سے ڈرے کہ شاید کوئی نامناسب بات ہوگئی ہو، حضورﷺنے فرمایا کہ: کچھ مُضایَقہ نہیں ہے، اُس نے بُری بات نہیں کہی، تب اُن صحابی نے عرض کیا کہ: یہ دعا مَیں نے پڑھی تھی، حضورﷺ نے فرمایا کہ: مَیں نے تیرہ فرشتوں کو دیکھا ہے کہ ہر ایک اُن میں سے اِس کی کوشش کرتا تھا کہ اُس کلمے کو سب سے پہلے وہ لے جائے۔
(شعب الایمان،۔۔۔۔۔۔۔۔حدیث:۴۰۹۲)
اور یہ حدیث تو مشہور ہے کہ: جومُہتَم بِالشَّان کام بغیر اللہ کی تعریف کے شروع کیاجائے گا وہ بے برکت ہوگا۔
(بیہقی،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حدیث:۴۰۶۲)
اِسی وجہ سے عام طور پر ہر کتاب اللہ کی تعریف کے ساتھ شروع کی جاتی ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: جب کسی کا بچہ مرجاتا ہے تو حق تَعَالیٰ شَانُہٗ فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ: میرے بندے کے بچے کی روح نکال لی؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ: نکال لی، پھر ارشاد ہوتا ہے کہ: اُس کے دل کے ٹکڑے کو لے لیا؟ وہ عرض کرتے ہیں: بے شک لے لیا، ارشاد ہوتاہے کہ: پھر میرے بندے نے اُس پر کیا کہا؟ عرض کرتے ہیں: تیری حمد کی، اورإِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیہِ رَاجِعُونَ پڑھا، ارشاد ہوتا ہے کہ: اچھا! اِس کے بدلے میں جنت میں ایک گھر اُس کے لیے بنادو، اور اُس کانام ’’بَیتُ الحَمْدِ‘‘ (تعریف کاگھر) رکھو۔
(ترمذی،ابواب الجنائز،باب فضل المصیبۃ إذا احتسب،۱؍۱۹۸،حدیث:۱۰۲۱)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: حقتَعَالیٰ شَانُہٗاِس سے بے حد راضی ہوتے ہیں کہ، بندہ کوئی لقمہ کھائے یا پانی کا گھونٹ پیے اور اُس پر اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہے۔
(ترمذی، ابواب الاطعمۃ،باب ماجاء في الحمد علی الطعام إذا فرغ منہ،۲؍۳،حدیث:۱۸۱۶)
تیسرا کلمہ تَہلِیل تھا، یعنی: لَا الٰہَ إِلَّا اللہُ کہنا، جس کا مُفصَّل بیان اِس سے پہلے باب میں گزر چکاہے۔
چوتھا کلمہ تکبیر کہلاتا ہے، یعنی اللہ کی بَڑائی بیان کرنا، اُس کی بلندی اور عَظمت کا اِقرار کرنا، جس کا مِصداق اَللہُ أَکبَرُ کہنا بھی ہے، وہ اِن آیات میں بھی گزر چکا ہے، اِن کے عِلاوہ صرف تکبیر کا یعنی اللہ کی عظمت اور بڑائی کا بیان بھی بہت سی آیات میں وارد ہوا ہے، جن میں سے چند آیات ذکر کی جاتی ہے:
(۱) وَلِتُکَبِّرُوْا اللہَ عَلیٰ مَا هَدَاکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ. [البقرۃ،ع:۲۳]
ترجَمہ:اور تاکہ تم اللہ کی بَڑائی بیان کرو اِس بات پر کہ تم کو ہدایت فرمائی، اور تاکہ تم شکر کرو اللہ تعالیٰ کا۔
(۲)عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَۃِ الْکَبِیْرُ الْمُتَعَالِ.[الرعد، ع:۲]
ترجَمہ:وہ تمام پوشیدہ اور ظاہر چیزوں کا جاننے والا ہے، (سب سے)بڑا ہے، اور عالی شان رُتبے والا ہے۔
(۳)کَذٰلِکَ سَخَّرَهَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوْا اللہَ عَلیٰ مَا هَدَاکُمْ، وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ. [الحج، ع:۵]
ترجَمہ:اِسی طرح اللہجَلَّ شَانُہٗنے (قربانی کے جانوروں کو)تمھارے لیے مُسخَّر کر دیا؛ تاکہ تم اللہ کی بَڑائی بیان کرو اِس بات پر کہ اُس نے تم کو ہدایت کی، اور قربانی کرنے کی توفیق دی، اور (اے محمد!) اِخلاص والوں کو (اللہ کی رَضا کی)خوش خبری سُنا دیجیے۔
(۴، ۵) وَأَنَّ اللہَ ہُوَ الْعَلِيُّ الْکَبِیْرُ. [الحج، ع:۸۔ لقمان، ع:۳]
ترجَمہ:اور بے شک اللہ جَلَّ شَانُہٗ ہی عالی شان اور بَڑائی والا ہے۔
(۶) حَتّٰی إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِہِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ، قَالُوا الْحَقَّ وَہُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ. [سبا، ع:۳]
ترجَمہ:جب فرشتوں کو اللہ کی طرف سے کوئی حکم ہوتا ہے تو وہ خوف کے مارے گھبرا جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب اُن کے دِلوںسے گھبراہٹ دُور ہوجاتی ہے تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ: پروردگار کا کیا حکم ہے؟ وہ کہتے ہیں (کہ: فلانی) حق بات کا حکم ہوا، واقعی وہ عالی اور بڑے مرتبے والا ہے۔
(۷) فَالْحُکْمُ لِلّٰہِ الْعَلِيِّ الْکَبِیْرِ. [مؤمن، ع:۲]
ترجَمہ:پس حکم اللہ ہی کے لیے ہے جو عالی شان ہے، بڑے رُتبے والاہے۔
(۸)وَلَہُ الْکِبْرِیَائُ فِيْ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ. [الجاثیۃ ع:۴]
ترجَمہ:اور اُسی (پاک ذات)کے لیے بَڑائی ہے آسمانوں میں اور زمین میں، اور وہی زبردست حِکمت والاہے۔
(۹)ہُوَ اللہُ الَّذِيْ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ، الْمَلِکُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ. [الحشر، ع:۳]
ترجَمہ:وہ ایسا معبود ہے کہ اُس کے سِوا کوئی معبود نہیں، وہ بادشاہ ہے، (سب عیبوں سے) پاک ہے، (سب نقصانات سے )سالم ہے، اَمن دینے والا ہے، نِگہبانی کرنے والا ہے (یعنی آفتوں سے بچانے والا ہے)، زبردست ہے، خرابی کا درست کرنے والا ہے،بَڑائی والا ہے۔
فائدہ:اِن آیات میں اللہجَلَّ شَانُہٗکی بَڑائی اور عظمت کی ترغیب اور اِس کا حکم فرمایا گیا ہے، اَحادیث میں بھی خُصوصِیَّت کے ساتھ اللہ کی بَڑائی کاحکم، اُس کی ترغیب کثرت سے وارد ہوئی ہے۔
ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ: جب یہ دیکھو کہ کہیں آگ لگ گئی تو تکبیر (یعنی اَللہُ أَکْبَرُ کثرت سے)پڑھا کرو، یہ اُس کو بجھادے گی۔
(ابن عساکر،۳۴؍۱۰۴)
دوسری حدیث میں ہے کہ: تکبیر (یعنی اَللہُ أَکْبَرُ کہنا)آگ کو بجھادیتا ہے۔
(طبرانی فی الأوسط،۔۔۔۔۔۔۔حدیث:۸۵۶۱۔عمل الیوم واللیلۃ،۔۔۔۔۔۔حدیث:۲۹۴،۲۹۵،۲۹۶،۲۹۷)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: جب بندہ تکبیر کہتا ہے تو(اس کا نور) زمین سے آسمان تک سب چیزوں کو ڈھانک لیتا ہے۔
(تاریخ الخطیب،۱۱؍۸۶)
ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ: مجھے حضرت جبرئیل ں نے تکبیر کا حکم کیا۔
(حلیۃ الاولیاء ۸؍۱۷۴)
عُلُوِّ شان: شان کی بلندی۔
اِن آیات واحادیث کے عِلاوہ اللہ تعالیٰ کی عَظمت ورَفعت، اُس کی حمد وثنا اورعُلُوِّ شان کو مختلف عنوانات سے کلامُ اللہ شریف میں بہت سے مختلف اَلفاظ سے ذکر فرمایا ہے۔ اِن کے عِلاوہ بہت سی آیات ایسی ہیں جن میں اِن تسبیحات کے الفاظ ذکر نہیں فرمائے؛ لیکن مراد یہ تسبیحات ہیں؛ چناںچہ چند آیات حَسبِ ذیل ہیں:
(۱) فَتَلَقّٰی آدَمُ مِن رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ، إِنَّہٗ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ. [البقرۃ، ع:۴]
ترجَمہ:پس حاصل کرلیے حضرت آدم ں نے اپنے رب سے چند کلمے، (اُن کے ذریعے سے توبہ کی)، پس اللہ تعالیٰ نے رحمت کے ساتھ اُن پر توجُّہ فرمائی، بے شک وہی ہے بڑی توبہ قَبول کرنے والا، بڑا مہربان۔
فائدہ:
اِن کلمات کی تفسیر میں مختلف احادیث وارد ہوئی ہیں، مِن جملہ اُن کے یہ ہے کہ: وہ کلمات یہ تھے: لَاإِلٰہَ إِلَّا أَنتَ سُبحَانَكَ وَبِحَمدِكَ،رَبِّ عَمِلتُ سُوْء اً وَظَلَمتُ نَفسِي فَاغْفِرْلِي، إِنَّكَ أَنتَ خَیرُالغَافِرِینَ. لَاإِلٰہَ إِلَّا أَنتَ سُبحَانَكَ وَبِحَمدِكَ، رَبِّ عَمِلتُ سُوْء اً وَظَلَمتُ نَفسِي فَارحَمْنِي، إِنَّكَ أَنتَ أَرحَمُ الرَّاحِمِینَ. لَاإِلٰہَ إِلَّا أَنتَ سُبحَانَكَ وَبِحَمدِكَ، رَبِّ عَمِلتُ سُوْء اً وَظَلَمتُ نَفسِي فَتُبْ عَلَيَّ، إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ.
اِس قِسم کے مضمون کی اَور بھی متعدِّد احادیث وارد ہوئی ہیں، جن کو علاَّمہ سِیُوطیؒ نے ’’دُرِّ مَنثُور‘‘ میں لکھا ہے، اور اُن میں تسبیح وتحمید مذکور ہے۔(دُرِّمنثور۔۔۔۔۔۔۔۔)
(۲) مَنْ جَائَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ أَمْثَالِهَا، وَمَن جَائَ بِالسَّیِّئَۃِ فَلَایُجْزیٰ إِلَّا مِثْلَهَا، وَہُمْ لَایُظْلَمُونَ.[الأنعام، ع:۲]
ترجَمہ:جو شخص ایک نیکی لے کر آوے گا اُس کو دَس گُنااَجر مِلے گا، اور جو شخص بُرائی لے کر آوے گا اُس کو اُس کے برابرہی سزا ملے گی، اور اُن پر ظلم نہ ہوگا۔
فائدہ:نبیٔ اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: دو خَصلتیں ایسی ہیں کہ جو مسلمان اُن کا اِہتِمام کرے جنت میںداخل ہو، اور وہ دونوں بہت معمولی چیزیں ہیں؛ مگر اُن پر عمل کرنے والے بہت کم ہیں: ایک یہ کہ، سُبْحَانَ اللہِ، اَلحَمدُ لِلّٰہِ، اَللہُ أَکبَرُ ہرنماز کے بعد دس دس مرتبہ پڑھ لیا کرے تو روزانہ ایک سو پچاس مرتبہ (پانچوں نمازوں کے بعدکا مجموعہ)ہوجائے گا، اور دس گنا ہوجانے کی وجہ سے پندرہ سو نیکیاں حساب میں شمار کی جائیںگی۔ اور دوسری چیز یہ کہ، سوتے وقت اَللہُ أَکبَرُ چونتیس مرتبہ، اَلحَمدُ لِلّٰہِ تینتیس مرتبہ، سُبْحَانَ اللہِ تینتیس مرتبہ پڑھ لیا کرے تو سوکلمے ہوگئے، جن کا ثواب ایک ہزار نیکیاں ہوگئیں،اب اِن کی اور دن بھر کی نمازوں کے بعد کی میزان کُل دوہزار پانچ سو نیکیاں ہوگئیں، بھلا اعمال تولنے کے وقت ڈھائی ہزار بُرائیاں روزانہ کی کس کی ہوںگی جو اِن پر غالب آجائیں؟۔
(ترمذی،ابواب الدعوات،باب ماجاء في التسبیح والتکبیر والتحمید عند المنام، ۲؍۱۷۸ حدیث:۳۴۱۰)
بندۂ ناچیز کہتا ہے: صحابۂ کرام میں اگرچہ ایسا کوئی نہ ہوگا جس کی ڈھائی ہزار بُرائیاں روزانہ ہوں؛ مگر اِس زمانے میں ہم لوگوں کی بد اعمالیاں روزانہ کی اِس سے بھی بہ درجہازائد ہیں؛ لیکن نبیٔ اکرم ﷺ (رُوْحِيْ فِدَاہُ) نے اپنی شَفقَت سے بُرائیوں پر نیکیوں کے غالب آجانے کا نسخہ ارشاد فرما دیا، عمل کرنا نہ کرنا بیمار کا کام ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: صحابہ ث نے عرض کیا کہ: یارسولَ اللہ! یہ کیا بات ہے کہ یہ دونوں چیزیں ایسی سَہل اور اُن کو کرنے والے بہت کم ہیں؟ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا کہ: سونے کا وقت ہوتا ہے تو شیطان اِن کے پڑھنے سے پہلے ہی سُلادیتا ہے، اور نماز کا وقت ہوتا ہے تو وہ کوئی ایسی بات یاد دلاتا ہے کہ پڑھنے سے پہلے ہی اُٹھ کر چلا جاوے۔
(ابوداؤد،کتاب الادب،باب فی التسبیح عند النوم،ص:۶۹۰حدیث:۵۰۶۵)
ایک حدیث میں حضور ﷺنے ارشاد فرمایا: کیا تم اِس سے عاجز ہو کہ ہزار نیکیاں روزانہ کما لیا کرو؟ کسی نے عرض کیا: یارسولَ اللہ! ہزار نیکیاںروزانہ کس طرح کمائیں؟ ارشاد فرمایا کہ: سُبْحَانَ اللہِ سو مرتبہ پڑھو ہزار نیکیاں ہوجائیںگی۔
(مسلم،کتاب الذکر والدعاء،باب التہلیل والتسبیح والدعاء،۲؍ ۳۴۵،حدیث:۲۶۹۸)
(۳) الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا، وَالْبَاقِیَاتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِندَ رَبِّکَ ثَوَاباً وَخَیْرٌ أَمَلًا.[الکہف،ع:۶]
ترجَمہ:
مال اور اولاد دُنیاوی زندگی کی ایک رونق (فقط)ہے، اور باقیاتِ صالحات (وہ نیک اعمال جو ہمیشہ رہنے والے ہیں)وہ تمھارے رب کے نزدیک ثواب کے اِعتِبار سے بھی (بہ درجہا)بہتر ہیں،اور اُمِید کے اِعتِبار سے بھی بہترہیں (کہ اُن کے ساتھ اُمیدیں قائم کی جائیں ،بہ خلاف مال اور اَولاد کے، کہ اِن سے اُمیدیں قائم کرنا بے کار ہے)۔
(۴) وَیَزِیْدُ اللہُ الَّذِیْنَ اہْتَدَوْا ہُدًی، وَالْبَاقِیَاتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِندَ رَبِّکَ ثَوَاباً وَخَیْرٌ مَّرَدًّا. [مریم، ع:۵]
ترجَمہ:
اور اللہ تعالیٰ ہدایت والوں کی ہدایت بڑھاتا ہے، اور باقیاتِ صالحات تمھارے رب کے نزدیک ثواب کے اِعتبار سے بھی بہتر ہیں، اور انجام کے اِعتبار سے بھی۔
فائدہ:
اگرچہ باقیاتِ صالحات (وہ نیک عمل جو ہمیشہ رہنے والے ہیں)میں سارے ہی ایسے اَعمال داخل ہیں جن کا ثواب ہمیشہ ملتا رہتا ہے؛ لیکن بہت سی احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ: اِس کا مِصداق یہی تسبیحیں ہیں۔
حضورِ اقدس ﷺ نے ارشادفرمایا ہے کہ: باقیاتِ صالحات کو کثرت سے پڑھا کرو، کسی نے دریافت کیا کہ: وہ کیا چیزیں ہیں؟ حضورﷺنے ارشاد فرمایا کہ: تکیبر (اَللہُ أَکبَرُ کہنا)، تہلیل (لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُکہنا)، تسبیح ( سُبْحَانَ اللہِکہنا)،تحمید (اَلحَمدُ لِلّٰہِ کہنا) اور لَاحَولَ وَلَاقُوَّۃَإِلَّابِاللّٰہِ.
(مسند احمد،کتاب۔۔۔۔، باب۔۔۔۔ ۳؍۷۵، حدیث:۔۔۔۔۔۔)
دوسری حدیث میں آیا ہے: حضورﷺنے ارشاد فرمایا کہ: دیکھو، خبردار رہو، سُبْحَانَ اللہِ، اَلحَمدُ لِلّٰہِ، لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ، اَللہُ أَکبَرُ؛ باقیاتِ صالحات میں ہیں۔
(مسند احمد،کتاب۔۔۔۔،باب۔۔۔۔، ۔۔۔۔۔۔حدیث:۳۰۳۴۸)
دَرپیش: سامنے۔ کُنجیاں: چابیاں۔ گِرداگِرد: آس پاس۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: دیکھو اپنی حفاظت کا اِنتِظام کرلو، کسی نے پوچھا: یا رسولَ اللہ! کسی دشمن کے حملے سے جو دَرپیش ہے؟ حضورﷺنے فرمایا: نہیں؛ بلکہ جہنَّم کی آگ سے حفاظت کا اِنتظام کرو، اور وہ سُبْحَانَ اللہِ، اَلحَمدُ لِلّٰہِ، لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ، اَللہُ أَکبَرُ کا پڑھنا ہے، کہ یہ قِیامت کے دن آگے بڑھنے والے کلمے ہیں (کہ سِفارش کریں، یا آگے بڑھانے والے ہیں کہ پڑھنے والے کو جنت کی طرف بڑھاتے ہیں)، اور پیچھے رہنے والے ہیں (کہ حفاظت کریں)، اِحسان کرنے والے ہیں، اور یہی باقیاتِ صالحات ہیں۔ (مسند ابن ابی شیبہ، ۔۔۔۔۔۔۔۔ حدیث:۳۰۳۴۸)
اَور بھی بہت سی روایات میں یہ مضمون وارد ہوا ہے، جن کو علاَّمہ سِیوطیؒ نے ’’دُرِّ منثور‘‘ میں ذکر فرمایا ہے۔
(۵) لَہٗ مَقَالِیْدُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ.[الزمر، ع:۶۔ الشوریٰ، ع:۲]
ترجَمہ:اللہ ہی کے واسطے ہیں کُنجیاں آسمانوں کی اور زمین کی۔
فائدہ: حضرت عثمان ص سے نقل کیا گیا ہے کہ: مَیں نے حضورﷺ سے ﴿مَقَالِیْدُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ یعنی: آسمانوں اور زمین کی کنجیوں کے بارے میں دریافت کیا، تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ :لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ، اَللہُ أَکبَرُ؛ سُبْحَانَ اللہِ، وَالحَمدُ لِلّٰہِ، اَستَغفِرُ اللہَ الَّذِي لَاإِلٰہَ إِلَّا هُوَ، اَلأَوَّلُ وَالاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالبَاطِنُ، یُحْیِيْ وَیُمِیْتُ، وَهُوَ حَيٌّ لَایَمُوتُ، بِیَدِہِ الخَیرُ، وَهُوَ عَلیٰ کُلِّ شَيْئٍ قَدِیْرٌ ہیں۔ (دُرّمنثور۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
دوسری حدیث میں ہے کہ: ﴿مَقَالِیْدُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ سُبْحَانَ اللہِ، اَلحَمدُ لِلّٰہِ، لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ، اَللہُ أَکبَرُ ہیں، اوریہ عرش کے خزانے سے نازل ہوئی۔ (دُرِّمنثور۔۔۔۔۔۔۔تحت ہذہ الاٰیۃ)
اَور بھی روایات میں یہ مضمون وارد ہوا ہے۔
(۶) إِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ. [فاطر، ع:۲]
ترجَمہ:اُسی کی طرف اچھے کلمے پہنچتے ہیں، اور نیک عمل اُن کوپہنچاتاہے۔
فائدہ: کلمۂ طیبہ کے بیان میں بھی اِس آیت کا ذکر گزر چکا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود ص فرماتے ہیں کہ: جب تمھیں ہم کوئی حدیث سناتے ہیں تو قرآن شریف سے اُس کی سند اور تائید بتادیتے ہیں، مسلمان جب سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ اور اَلحَمْدُ لِلّٰہِ، لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ، اَللہُ أَکبَرُ، تَبَارَكَ اللہُ پڑھتا ہے تو فرشتہ اپنے پَروں میں نہایت اِحتیاط سے اِن کلموں کو آسمان پر لے جاتا ہے، اور جس آسمان پر گزرتا ہے اُس آسمان کے فرشتے اُس پڑھنے والے کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں، اور اُس کی تائید یہ آیت شریفہ ﴿إِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ﴾ ہے۔(حاکم،۲؍۴۶۱ حدیث:۳۵۸۹؍۷۲۶)
حضرت کَعب اَحبارص فرماتے ہیں کہ: سُبْحَانَ اللہِ، اَلحَمدُ لِلّٰہِ، لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ، اَللہُ أَکبَرُ کے لیے عرش کے گِرداگِرد ایک بھِنبِھناہٹ ہے، جس میں اپنے پڑھنے والوں کاتذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ بعض رِوایات میں حضرت کعب ص نے حضورﷺسے یہ مضمون نقل کیا ہے، اور ایک دوسرے صحابی حضرت نعمان ص نے بھی اِس قِسم کامضمون خود حضورِ اقدس ﷺہی سے نقل کیا ہے۔(مسند احمد، ۔۔۔۔۔۔۔ حدیث: ۱۸۳۶۲)
فصلِ دوم
اُن اَحادیث کے بیان میں جن میں اِن کَلِمات کی فضیلت اور ترغیب ذکر فرمائی گئی ہے ۔
(۱)عَنْ أَبِي هُرَیرَۃَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّﷺ: کَلِمَتَانِ خَفِیفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ، ثَقِیلَتَانِ فِي المِیزَانِ، حَبِیبَتَانِ إِلَی الرَّحْمٰنِ: سُبحَانَ اللہِ وَبِحَمدِہٖ سُبحَانَ اللہِ العَظِیمِ.
(رواہ البخاري ومسلم والترمذي والنسائي وابن ماجہ؛ کذا في الترغیب)
ترجَمہ: حضورِاقدس ﷺکا ارشاد ہے کہ: دو کلمے ایسے ہیں کہ زبان پر بہت ہلکے، اور ترازُو میں بہت وَزنی، اور اللہ کے نزدیک بہت محبوب ہیں؛وہ سُبحَانَ اللہِ وَبِحَمدِہٖاور سُبحَانَ اللہِ العَظِیمِ ہیں۔
دِقَّت: تکلیف۔
فائدہ: زبان پر ہلکے کا مطلب یہ ہے کہ، پڑھنے میں نہ وقت خرچ ہو کہ بہت مختصر ہیں، نہ یاد کرنے میں کوئی دِقَّت یا دیر لگے، اور اِس کے باوجود جب اعمال کے تُولنے کا وقت آئے گا تو ترازو میں اِن کلموں کی کثرت کی وجہ سے بہت زیادہ وزن ہوجائے گا، اور اگر کوئی بھی فائدہ نہ ہوتا تو بھی اِس سے بڑھ کر کیا چیز تھی کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ دوکلمے سب سے زیادہ محبوب ہیں!۔ امام بخاریؒ نے اپنی کتاب صحیح بخاری کو اِن ہی دوکلموں پر ختم فرمایا، اور یہی حدیث کتاب کے ختم پر ذکر فرمائی ہے۔
ایک حدیث میں ارشادِ نبوی ہے کہ: کوئی شخص تم میں سے اِس بات کو نہ چھوڑے کہ ہزار نیکیاں روزانہ کرلیا کرے،سُبحَانَ اللہِ وَبِحَمدِہٖ سومرتبہ پڑھ لیا کرے، ہزار نیکیاں ہوجائیںگی۔ اِتنے گناہ تو إِنْ شَاءَ اللہُ روزانہ کے ہوںگے بھی نہیں، اور اِس تسبیح کے عِلاوہ جتنے نیک کام کیے ہوںگے اُن کا ثواب علاحدہ نفع میں رہا۔ (مسند احمد،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حدیث:۲۱۷۴۱)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: جو شخص صبح وشام ایک ایک تسبیح سُبحَانَ اللہِ وَبِحَمدِہٖکی پڑھے، اُس کے گناہ مُعاف ہوجائیںگے خواہ سمندر کے جھاگوں سے بھی زیادہ ہوں۔(بخاری،کتاب الدعوات،باب فضل التسبیح،۲؍۹۴۸حدیث:۶۴۰۵)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: سُبْحَانَ اللہِ، اَلحَمدُ لِلّٰہِ، لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ، اَللہُ أَکبَرُ سے گناہ ایسے جھڑتے ہیں جیسے (سردی میں) درخت سے پَتے جھڑتے ہیں۔(ترمذی،ابواب الدعوات،باب،۲؍۱۹۳، حدیث:۳۵۳۳)
(۲)عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: أَلَاأُخبِرُكَ بِأَحَبِّ الکَلَامِ إِلَی اللہِ؟ قُلتُ: یَا رَسُولَ اللہِ! أَخبِرْنِي بِأَحَبِّ الکَلَامِ إِلَی اللہِ، فَقَالَ: إِنَّ أَحَبَّ الکَلَامِ إِلَی اللہِ سُبحَانَ اللہِ وَبِحَمدِہٖ.
(رواہ مسلم والنسائي والترمذي؛ إلا أنہ قال: سُبحَانَ رَبِّيْ وَبِحَمدِہٖ، وقال: حسن صحیح، وعزاہ السیوطي في الجامع الصغیر إلیٰ مسلم وأحمد والترمذي، ورقم لہ بالصحۃ. وفي روایۃ لمسلم: أَنَّ رَسُولَ اللہِﷺ سُئِلَ: أَيُّ الکَلَامِ أَفضَلُ؟ قَالَ: مَااصْطَفَی اللہُ لِمَلٰئِکَتِہٖ أَو لِعِبَادِہٖ: سُبحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ. کذا في الترغیب. قلت: وأخرج الأخیر الحاکم وصححہ علیٰ شرط مسلم، وأقرہ علیہ الذہبي، وذکرہ السیوطي في الجامع بروایۃ أحمد عن رجل مختصرا، ورقم لہ بالصحۃ)
ترجَمہ: حضرت ابوذَر ص فرماتے ہیں کہ: ایک مرتبہ حضورﷺنے ارشاد فرمایا کہ: مَیں تجھے بتاؤں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ کلام کیا ہے؟ مَیں نے عرض کیا: ضرور بتاویں، ارشاد فرمایا: سُبحَانَ اللہِ وَبِحَمدِہٖ۔ دوسری حدیث میں ہے: سُبحَانَ رَبِّيْ وَبِحَمدِہٖ۔ ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ: اللہ نے جس چیزکو اپنے فرشتوں کے لیے اختیار فرمایا وہی اَفضل تَرین ہے، اور وہ سُبحَانَ اللہِ وَبِحَمدِہٖہے۔
فائدہ: پہلی فصل میں کئی آیتوں میں یہ مضمون گزرچکا ہے کہ: ملائکہ جو عرش کے قریب ہیں، اور اُن کے عِلاوہ سب اللہجَلَّ شَانُہٗکی تسبیح وتحمید میں مشغول رہتے ہیں، اُن کامَشغلہ یہی ہے کہ وہ اللہ کی پاکی بیان کرنے میں اور حمد کرنے میں مشغول رہیں، اِسی وجہ سے جب آدم ں کو پیدا فرمانے کاوقت ہوا تو اُنھوں نے یہی بارگاہِ اِلٰہی میں ذکر کیا کہ: ﴿نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ﴾،جیسا کہ اِس سے پہلی فصل کی پہلی آیت میں گزر چکا ہے۔
ہَیبت: عظمت۔ کَالعَدم: نہ ہونے کے برابر۔ دَست گیری: مدد۔
ایک حدیث میں وارد ہے کہ: آسمان (عظمتِ اِلٰہی کے بوجھ سے)بولتا ہے، (چِرچِراتا ہے، جیسا کہ چارپائی وغیرہ وزن سے بولنے لگتی ہے)، اور آسمان کے لیے حق ہے کہ وہ بولے (کہ ہَیبت کا بوجھ سخت ہوتاہے)، قَسم ہے اُس پاک ذات کی جس کے قبضے میں محمد(ﷺ)کی جان ہے، کہ آسمان میں ایک بالشت جگہ بھی ایسی نہیں جہاں کوئی فرشتہ سجدے کی حالت میں اللہ کی تسبیح وتحمید میں مشغول نہ ہو۔(۔۔۔۔۔۔۔۔)
(۳) عَن إِسحَاقَ بنِ عَبدِاللہِ بنِ أَبِي طَلحَۃَ عَن أَبِیہِ عَن جَدِّہٖ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: مَن قَالَ: ’’لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ‘‘ دَخَلَ الجَنَّۃَ، أَوْ وَجَبَتْ لَہُ الجَنَّۃُ، وَمَن قَالَ: ’’سُبحَانَ اللہِ وَبِحَمدِہٖ‘‘ مِائَۃَ مَرَّۃٍ، کَتَبَ اللہُ لَہٗ مِائَۃَ أَلفَ حَسَنَۃٍ وَأَربَعاً وَّعِشرِینَ أَلفَ حَسَنَۃٍ؛ قَالُوْا: یَارَسُولَ اللہِ! إِذاً لَایَهلِكُ مِنَّا أَحَدٌ، قَالَ: بَلیٰ! إِنَّ أَحَدَکُم لَیَجِیْیُٔ بِالحَسَنَاتِ لَو وُضِعَتْ عَلیٰ جَبَلٍ أَثْقَلَتْہُ، ثُمَّ تَجِیْیُٔ النِّعَمُ فَتَذهَبُ بِتِلكَ، ثُمَّ یَتَطَاوَلُ الرَّبُّ بَعدَ ذٰلِكَ بِرَحمَتِہٖ.
(رواہ الحاکم، وقال: صحیح الإسناد، کذا في الترغیب. قلت: وأقرہ علیہ الذهبي)
ترجَمہ: حضورِ اقدس ﷺ نے ارشادفرمایا کہ: جو شخصلَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ کہے اُس کے لیے جنت واجب ہوجائے گی، اور جو شخص سُبحَانَ اللہِ وَبِحَمدِہٖ سو مرتبہ پڑھے گا اُس کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار نیکیاں لکھی جائیںگی، صحابہ ث نے عرض کیا: یا رسولَ اللہ! ایسی حالت میں تو کوئی بھی (قِیامت میں)ہلاک نہیں ہوسکتا (کہ نیکیاں ہی غالب رہیںگی)،حضورﷺ نے فرمایا: (بعض لوگ پھر بھی ہلاک ہوںگے، اور کیوں نہ ہوں)بعض آدمی اِتنی نیکیاں لے کر آئیںگے کہ اگر پہاڑ پر رکھ دی جائیں تو وہ دَب جائے؛ لیکن اللہ کی نعمتوں کے مُقابلے میں وہ کَالعَدم ہوجائیںگی؛ البتہ اللہجَلَّ شَانُہٗپھر اپنی رحمت اور فضل سے دَست گیری فرمائیںگے۔
مُحاسَبہ: حساب۔ اَز سرِ نَو:نئے سِرے سے۔ مُیَسَّر: حاصل۔ مَزید بَراں: اِس کے سِوا۔
فائدہ:اللہ کی نعمتوں کے مُقابلے میں دَب جانے اور کَالعَدم ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ: قِیامت میں جہاں نیکیاں اور بُرائیاں تولی جائیںگی وہاں اِس چیز کابھی مُطالَبہ اورمُحاسَبہ ہوگا کہ :اللہ د نے جو نعمتیں عطا فرمائی تھیں اُن کا کیا حق ادا کیا؟ اور کیا شکر ادا کیا؟ بندے کے پاس ہرچیز اللہ ہی کی عطا کی ہوئی ہے، ہر چیز کا ایک حق ہے، اُس حق کی ادائیگی کا مطالبہ ہونا ہے؛
چناںچہ حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: یُصْبِحُ عَلیٰ کُلِّ سُلَامیٰ مِن أَحَدِکُم صَدَقَۃٌ، الحدیث.(في المشکوۃ بروایۃ المسلم(مسلم،کتاب الصلاۃ،باب استحباب صلاۃ الضحیٰ،۱؍۲۵۰،حدیث:۷۲۰) قلت: رواہ أبوداود وابن ماجہ) جس کا مطلب یہ ہے کہ: ہر صبح کو ہر آدمی کے ہر جوڑ اور ہڈی پر ایک صدقہ واجب ہوتا ہے۔
دوسری حدیث میں ہے کہ: آدمی میں تین سو ساٹھ جوڑ ہیں، اُس کے ذِمے ضروری ہے کہ ہر جوڑ کی طرف سے ایک صدقہ کرے۔ یعنی اِس بات کے شکر میں کہ حق تَعَالیٰ شَانُہٗ نے سونے کے بعد -جو مر جانے کے مُشابِہ حالت تھی- پھر اَز سرِ نَو زندگی بخشی اور ہر عضو صحیح سالم رہا، صحابہ نے عرض کیا: اِتنے صدقے روزانہ کرنے کی طاقت کون رکھتا ہے؟ حضورﷺنے فرمایا: ہر تسبیح صدقہ ہے، ہرتکبیر صدقہ ہے، لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ ایک مرتبہ کہنا صدقہ ہے، اَللہُ أَکبَرُ کہنا صدقہ ہے، راستے سے کسی تکلیف دینے والی چیزکا ہٹادینا صدقہ ہے؛ غرض بہت سے صدقات شمار کرائے۔(مسلم،باب بیان ان اسم الصدقۃ یقع علیٰ کل نوع من المعروف،۱؍۳۲۵حدیث:۱۰۰۷)
اِس قِسم کی اَور بھی احادیث ہیں جن سے آدمی کی اپنی ذات میں جو اللہ کی نعمتیں ہیں اُن کا بیان ہے، اِس کے عِلاوہ کھانے، پینے، راحت وآرام کے مُتعلِّق جتنی اللہ کی نعمتیں ہر وقت مُیَسَّر ہوتی ہیں وہ مَزید بَراں۔
قرآن پاک میں سورۂ اَلهٰکُمُ التَّکَاثُرُ میں بھی اِس کا ذکر ہے، کہ قِیامت میں اللہ کی نعمتوں سے بھی سوال ہوگا۔
حضرت ابن عباس ص فرماتے ہیں کہ: بدن کی صِحَّت، کانوں کی صِحَّت، آنکھوں کی صِحَّت سے سوال ہوگا کہ: اللہ نے یہ نعمتیں اپنے لُطف سے عطا فرمائیں، اِن کو اللہ کے کس کام میں خرچ کیا؟ (یاچوپاؤں کی طرح صرف پیٹ پالنے میںخرچ کیا؟)۔ چناںچہ دوسری جگہ سورۂ بنی اسرائیل میں ارشاد ہے: ﴿إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَوَالْفُؤَادَکُلُّ أُولٰـئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْؤُولًا﴾ (کان، آنکھ، دل؛ ہر شخص سے اِن سب کی قِیامت کے دن پوچھ ہوگی کہ: اِن چیزوں کا استعمال کہاں کیا؟)۔(شعب الایمان، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدیث: ۴۲۹۳)
حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: جن نعمتوں سے سوال ہوگا اُن میں بے فکری -جو اللہ کی بڑی دولت ہے- اور صِحَّتِ بدن بھی ہے۔(شعب الایمان، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدیث:۴۲۹۵)
مُجاہِدؒ کہتے ہیں کہ: دنیا کی ہرلَذَّت نعمتوں میں داخل ہے جن سے سوال ہوگا۔ (تفسیر ابن جریر۔۔۔۔۔۔۔)
حضرت علی ص فرماتے ہیں کہ: اِس میں عافیت بھی داخل ہے۔(شعب الایمان،۔۔۔۔۔ حدیث:۴۲۹۳)
ایک شخص نے حضرت علی ص سے پوچھا کہ: ﴿ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ﴾ (پھر اُس دن نعمتوں سے بھی سوال کیے جاؤگے)کا مطلب کیا ہے؟ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ: گیہوں کی روٹی اور ٹھنڈاپانی مراد ہے، کہ اِس سے بھی سوال ہوگا، اور رہنے کے مکان سے بھی۔(دُرِّمنثور۔۔۔۔)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: جب یہ آیت نازل ہوئی تو بعض صحابہ ث نے عرض کیا کہ: یارسولَ اللہ! کن نعمتوں کا سوال ہوگا؟ آدھی بھوک روٹی ملتی ہے، وہ بھی جَو کی، (پیٹ بھرائی روٹی بھی مُیسَّر نہیں)،وحی نازل ہوئی: کیا پاؤں میں جوتا نہیں پہنتے؟ کیا ٹھنڈا پانی نہیں پیتے؟ یہ بھی تو اللہ کی نعمتیں ہیں۔(دُرّمنثور۔۔۔۔۔۔)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: بعض صحابہ ث نے اِس آیتِ شریفہ کے نازل ہونے پر عرض کیا: یارسولَ اللہ! کن نعمتوں سے سوال ہوگا؟ کھجور اور پانی، صرف یہ دو چیزیں کھانے پینے کو ملتی ہیں، اور ہماری تلواریں (جہاد کے لیے )ہر وقت کندھوں پر رہتی ہیں اور دشمن (کافر کوئی نہ کوئی)مُقابِل، (جس کی وجہ سے وہ دو چیزیں بھی اِطمینان اور بے فکری سے نصیب نہیں ہوتیں)، حضورِاکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: عَن قریب نعمتیں مُیسَّر ہونے والی ہیں۔ (شعب الایمان،۔۔۔۔۔۔۔۔حدیث:۴۲۷۸)
بے تابی: بے چینی۔ مُضطَرِب: بے چین۔ مُسرَّت واِفتِخار: خوشی اور عزت۔ فَرطِ خوشی: خوشی کی زیادتی۔ سَیر: پیٹ بھر کر۔ گِرانی: بوجھ۔
ایک حدیث میں حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: قِیامت میں جن نعمتوں سے سوال ہوگا اُن میں سب سے اوَّل یہ ہوگا کہ: ہم نے تیرے بدن کو تندرستی عطا فرمائی (یعنی اُس تندرستی کا کیاحق ادا کیا؟ اور اُس میں اللہ کی رَضا(خوشی) کی کیا خدمت ادا کی؟) اور ہم نے ٹھنڈے پانی سے تجھ کو سَیراب کیا۔
(ترمذی،ابواب التفسیر،سورۃ الہٰکم التکاثر، ۲؍۱۷۳ حدیث: ۳۳۵۸)
(درحقیقت اللہ کی بڑی نعمت ہے، جہاں ٹھنڈاپانی مُیسَّر نہیں ہوتا اُن سے کوئی اِس کی قدر پوچھے، یہ اللہ کی اِتنی بڑی نعمت ہے کہ حد نہیں؛ مگر ہم لوگوں کو اِس کے نعمتِ عَظِیمہ ہونے کی طرف اِلتِفات(توجُّہ) بھی نہیں ہوتا، چہ جائیکہ اُس کا شکر اور اُس کی ادائیگیٔ حق)۔
ایک حدیث میں وارد ہے کہ: جن نعمتوںسے سوال ہوگا یہ ہیں: وہ روٹی کا ٹکڑا جس سے پیٹ بھرا جاتا ہے، وہ پانی جس سے پیاس بجھائی جاتی ہے، وہ کپڑا جس سے بدن ڈھانکا جاتا ہے۔ (دُرِّمنثور۔۔۔۔۔۔۔۔)
ایک مرتبہ دوپہر کے وقت سخت دھوپ میں حضرت ابوبکر صدیق ص پریشان ہوکر گھر سے چلے، مسجد میں پہنچے ہی تھے کہ حضرت عمرص بھی اِسی حالت میں تشریف لے آئے، حضرت ابوبکرص کو بیٹھا ہوا دیکھ کر دریافت کیا کہ: تم اِس وقت یہاں کہاں؟ فرمایا کہ: بھوک کی بے تابی نے پریشان کیا، حضرت عمرص نے عرض کیا: وَاللہ، اِسی چیز نے مجھے بھی مجبور کیا کہ کہیں جاؤں، یہ دونوں حضرات یہ گفتگو کر ہی رہے تھے کہ سردارِ دو عالَم، نبیٔ اکرم ﷺ تشریف لے آئے، اِن کو دیکھ کر دریافت فرمایا کہ: تم اِس وقت کہاں؟ عرض کیا: یارسولَ اللہ! بھوک نے پریشان کیا، جس سے مُضطَرِب ہوکر نکل پڑے، حضورﷺنے ارشاد فرمایا: اِسی مجبوری سے مَیں بھی آیا ہوں، تینوں حضرات اِکَٹَّھے ہوکر حضرت ابو اَیوب اَنصاری ص کے مکان پر پہنچے، وہ تشریف نہیں رکھتے تھے، بیوی نے بڑی مُسرَّت واِفتِخار سے اِن حضرات کو بٹھایا، حضورﷺنے دریافت فرمایا: ابو ایوب کہاں گئے ہیں؟ عرض کیا: ابھی حاضر ہوتے ہیں، کسی ضرورت سے گئے ہوئے ہیں، اِتنے میں ابوایوب ص بھی حاضرِ خدمت ہوگئے، اور فَرطِ خوشی میں کھجور کا ایک بڑا سا خوشہ توڑ کر لائے، حضور ﷺنے ارشاد فرمایا کہ: سارا خوشہ کیوں توڑا؟ اِس میں کچی اور اَدھ کَچری بھی ٹوٹ گئیں، چھانٹ کر پکی ہوئی توڑ لیتے! اُنھوں نے عرض کیا: اِس خَیال سے توڑا کہ ہر قِسم کی سامنے ہوں، جو پسند ہو وہ نوش فرماویں، (کہ بعض مرتبہ پکی ہوئی سے اَدھ کَچری زیادہ پسند ہوتی ہے)،خوشہ سامنے رکھ کر جلدی سے گئے اور ایک بکری کا بچہ ذبح کیا، اور جلدی جلدی کچھ تو ویسے ہی بھُون لیا، کچھ سالن تیار کرلیا، حضورﷺنے ایک روٹی میں تھوڑا سا گوشت رکھ کر ابوایوب ص کو دیا، کہ یہ فاطمہ کو پہنچادو، اُس کو بھی کئی دن سے کچھ نہیں مل سکا، وہ فوراً پہنچاکر آئے، اِن حضرات نے بھی سَیر ہوکر نوش فرمایا، اِس کے بعد حضورﷺنے ارشاد فرمایا کہ: دیکھو! یہ اللہ کی نعمتیں ہیں، روٹی ہے، گوشت ہے، ہر قِسم کی کَچی اور پکی کھجوریں ہیں؛ یہ فرماکر نبیٔ اکرم ﷺکی پاک آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، اور ارشاد فرمایا: اُس پاک ذات کی قَسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، یہی وہ نعمتیں ہیں جن سے قِیامت میں سوال ہوگا،(جن حالات کے تحت میں اِس وقت یہ چیزیں مُیسَّر ہوئی تھیں اُن کے لِحاظ سے) صحابہ ث کو بڑی گِرانی اور فکر پیدا ہوگیا، (کہ ایسی مجبوری اور اِضطِرار کی حالت میں یہ چیزیں مُیسَّر آئیں، اور اُن پر بھی سوال وحساب ہو!)حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: اللہ کا شکر ادا کرنا تو ضروری ہے ہی، جب اِس قِسم کی چیزوں پر ہاتھ ڈالو تو اوَّل بِسْمِ اللہِ پڑھو، اور جب کھاچکو تو کہو: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ ہُوَ أَشْبَعَنَا وَأَنعَمَ عَلَینَا وَأَفضَلَ: (تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے ہم کو پیٹ بھر کر کھلایا اور ہم پر اِنعام فرمایا، اور بہت زیادہ عطا کیا)،اِس دعا کا پڑھنا شکر ادا کرنے میں کافی ہے۔
(مسند ابن حبان، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدیث:۵۲۱۶)
اِس قِسم کے واقعات کئی مرتبہ پیش آئے جو مُتعدِّد احادیث میں مختلف عنوانات سے ذکر کیے گئے ہیں۔
کوڑھی: سفید داغ کا مریض۔ پیشی: حاضری۔حائل: آڑ۔ اَنبار: ڈھیڑ۔ دَفع: دُور۔
چناںچہ ایک مرتبہ اَبوالہَیثَم مالک ابن تَیِّہان صکے مکان پر تشریف لے جانے کی نوبت(موقع) آئی۔
(کشف الاستار،۴؍۲۶۳،۲۶۵)
اِسی قِسم کا ایک واقعہ ایک اَور صاحب کے ساتھ پیش آیا جن کو واقِفی کہاجاتا تھا۔ (دُرِّمنثور۔۔۔۔۔)
حضرت عمرص کا گزر ایک شخص پر ہوا جو کوڑھی بھی تھا اور اندھا، بہرا ، گونگا بھی تھا، آپ نے ساتھیوںسے دریافت فرمایا کہ: تم لوگ اللہ کی کچھ نعمتیں اِس شخص پر بھی دیکھتے ہو؟ لوگوں نے عرض کیا: اِس کے پاس کونسی نعمت ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: کیا پیشاب سَہولت سے نہیں کرسکتا؟۔(دُرِّمنثور۔۔۔۔۔)
حضرت عبداللہ بن مسعود ا فرماتے ہیں کہ: قِیامت میں تین دربار ہیں: ایک دربار میں نیکیوں کا حساب ہے، دوسرے میں اللہ کی نعمتوں کا حساب ہے، تیسرے میں گناہوں کا مُطالَبہ ہے؛ نیکیاں نعمتوں کے مُقابلے میں ہوجائیںگی، اور بُرائیاں باقی رہ جائیںگی جو اللہ کے فضل کے تحت میں ہوںگی۔(مسند ابن ابی شیبہ،۔۔۔۔۔۔۔حدیث:۳۵۶۸۸)
اِن سب کا مطلب یہ ہے کہ اللہ جَلَّ شَانُہٗ کی جس قدر نعمتیں ہر آن اور ہر دم آدمی پر ہوتی ہیں اُن کا شکر کرنا، اُن کا حق ادا کرنابھی آدمی کے ذِمے ہے؛ اِس لیے جتنی مقدار بھی نیکیوں کی پیدا ہوسکے اُن کو حاصل کرنے میں کمی نہ کرے، اور کسی مقدار کوبھی زیادہ نہ سمجھے، کہ وہاں پہنچ کر معلوم ہوگا کتنے کتنے گناہ ہم نے اپنی آنکھ، ناک، کان اور دوسرے بدن کے حِصَّوں سے ایسے کیے ہیں جن کو ہم گناہ بھی نہ سمجھے!۔
حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کی قِیامت میں اللہ کے یہاں پیشی نہ ہو، اُس وقت نہ کوئی پردہ درمیان میں حائل ہوگا نہ ترجَمان (وَکیل وغیرہ)، دائیں طرف دیکھے گا تو اپنے اعمال کا اَنبار ہوگا، بائیں طرف دیکھے گا تب یہی مَنظر ہوگا، جس قِسم کے بھی اَچھے یا بُرے اَعمال کیے ہیں وہ سب ساتھ ہوںگے، جہنَّم کی آگ سامنے ہوگی؛ اِس لیے جہاں تک ممکن ہو صدقے سے جہنَّم کی آگ کو دَفع کرو خواہ کھجور کا ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔ (مسلم،کتاب الزکاۃ،باب الحث علی الصدقۃ،۱؍۳۲۶حدیث:۱۰۱۶)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: قِیامت میںسب سے اوَّل یہ سوال ہوگا کہ: ہم نے تجھے بدن کی صِحَّت عطا کی اور ٹھنڈا پانی پینے کو دیا، (یعنی اِن چیزوں کا کیا حق ادا کیا؟)۔(ترمذی، ابواب التفسیر،سورۃ الہکم التکاثر،۲؍۱۷۳حدیث:۳۳۵۸)
دوسری حدیث میں ہے کہ: اُس وقت تک آدمی حساب کے میدان سے نہ ہٹے گا جب تک پانچ چیزوں کا سوال نہ ہوجائے: (۱)عمر کس کام میں خرچ کی؟ (۲)جوانی (کی قُوَّت) کس مَشغلے میں صَرف کی؟ (۳)مال کس طریقے سے کمایا؟ اور(۴) کس طریقے سے خرچ کیا؟ (یعنی کمائی اور خرچ کے طریقے جائز تھے یا ناجائز؟) (۵)جو کچھ علم حاصل کیا (خواہ کسی درجے کا ہو)اُس میں کیا عمل کیا؟(یعنی جومسائل معلوم تھے اُن پر عمل کیا یانہیں؟)۔(ترمذی،ابواب صفۃ القیامۃ،باب ماجاء فی شأن الحساب والقصاص، ۲؍۶۷ حدیث: ۲۴۱۶)
(۴)عَن ابنِ مَسعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: لَقِیتُ إِبرَاهِیمَ لَیلَۃً أُسْرِيَ بِي، فَقَالَ: یَامُحَمَّدُ! اِقْرَأْ أُمَّتَكَ مِنِّي السَّلَامَ، وَاَخبِرْهُم أَنَّ الجَنَّۃَ طَیِّبَۃُ التُّربَۃِ، عُذْبَۃُ المَاءِ، وَأَنَّهَا قَیعَانُ، وَأَنَّ غِرَاسَهَا: سُبْحَانَ اللہِ وَالحَمدُ لِلّٰہِ وَ لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکبَرُ.
(رواہ الترمذي والطبراني في الصغیر والأوسط، وزاد: لَاحَولَ وَلَاقُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ، وقال الترمذي: حسن غریب من هذا الوجہ؛ ورواہ الطبراني أیضا بإسناد رواہ من حدیث سلمان الفارسي، وعن ابن عباس مرفوعا: ’’مَن قَالَ: سُبْحَانَ اللہِ وَالحَمدُ لِلّٰہِ وَ لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکبَرُ غُرِسَ لَہٗ بِکُلِّ وَاحِدٍ مِنهُنَّ شَجَرَۃً فِي الْجَنَّۃِ‘‘. رواہ الطبراني وإسنادہ حسن، لابأس بہ في المتابعات. وعن جابر مرفوعا:’’مَنْ قَالَ: ’’سُبحَانَ اللہِ الْعَظِیمِ وَبِحَمدِہٖ‘‘ غُرِسَتْ لَہٗ نَخْلَۃٌ فِي الجَنَّۃِ‘‘. رواہ الترمذي وحسنہ، والنسائي؛ إلا أنہ قال: شجرۃ، وابن حبان فيصحیحہ، والحاکم في الموضعین بإسنادین، قال فيأحدهما: علیٰ شرط مسلم، وفي الاٰخر: علیٰ شرط البخاري، وذکرہ في الجامع الصغیربروایۃ الترمذي، وابن حبان، والحاکم ورقم لہ بالصحۃ. ’’وَعَن أَبِي هُرَیرَۃَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَرَّ بِہٖ وَهُوَ یَغرِسُ‘‘ الحدیث. رواہ ابن ماجہ بإسناد حسن، والحاکم وقال: صحیح الإسناد؛ کذا في الترغیب. وعزاہ في الجامع إلیٰ ابن ماجہ والحاکم، ورقم لہ بالصحۃ. قلت: وفي الباب من حدیث أبي أیوب مرفوعا رواہ أحمد بإسناد حسن، وابن أبي الدنیا، وابن حبان في صحیحہ، ورواہ ابن أبي الدنیا والطبراني من حدیث ابن عمر أیضا مرفوعاً مختصراً، إلا أن في حدیثهما الحوقلۃ فقط؛ کما في الترغیب. قلت: وذکر السیوطي في الدر حدیث ابن عباس مرفوعا بلفظ حدیث ابن مسعود، وقال: أخرجہ ابن مردویہ، وذکر أیضا حدیث ابن مسعود، وقال: أخرجہ الترمذي وحسنہ، والطبراني وابن مردویہ. قلت: وذکرہ في الجامع الصغیر بروایۃ الطبراني ورقم لہ بالصحۃ، وذکر في مجمع الزوائد عدۃ روایات في معنیٰ هذا الحدیث)
ترجَمہ:حضورِاقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: شبِ معراج میں جب میری ملاقات حضرت ابراہیم ں سے ہوئی تو اُنھوں نے فرمایا کہ: اپنی اُمَّت کو میرا سلام کہہ دینا، اور یہ کہنا کہ: جنت کی نہایت عمدہ پاکیزہ مٹی ہے اور بہترین پانی؛ لیکن وہ بالکل چَٹیَل میدان ہے، اور اُس کے پودے (درخت) سُبْحَانَ اللہِ وَالحَمدُ لِلّٰہِ وَلَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکبَرُ ہیں، (جتنے کسی کا دل چاہے درخت لگالے)۔ایک حدیث میں اِس کے بعد لَاحَولَ وَلَاقُوَّۃَإِلَّابِاللّٰہِ بھی ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ: اِن کلموں میں سے ہرکلمے کے بدلے ایک درخت جنت میں لگایا جاتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ: جو شخص سُبحَانَ اللہِ الْعَظِیمِ وَبِحَمدِہٖپڑھے گا، ایک درخت جنت میں لگایا جاوے گا۔ ایک حدیث میں ہے کہ: حضورِ اقدس ﷺ تشریف لے جارہے تھے، حضرت ابوہریرہ ص کو دیکھا کہ ایک پودا لگارہے ہیں، دریافت فرمایا: کیا کررہے ہو؟ اُنھوں نے عرض کیا: درخت لگارہا ہوں، ارشاد فرمایا: مَیں بتاؤں بہترین پودے جو لگائے جاویں؟سُبْحَانَ اللہِ وَالحَمدُ لِلّٰہِ وَلَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکبَرُ؛ ہر کلمے سے ایک درخت جنت میں لگتا ہے۔
چَٹیَل: خالی۔ مَسکَن: گھر۔ مُہَیَّا: حاصل۔ نَشو ونُما: ترقی۔
فائدہ: حضورِاقدس ﷺکے ذریعے سے حضرت ابراہیم خلیلُ اللہعَلیٰ نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ نے سلام بھیجا ہے؛ اِس لیے عُلَما نے لکھا ہے کہ: جس شخص کے پاس یہ حدیث پہنچے اُس کو چاہیے کہ، حضرت خلیلُ اللہ کے سلام کے جواب میں وَعَلَیہِ السَّلَامُ وَرَحمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ کہے۔
اِس کے بعد ارشاد ہے کہ: جنت کی مٹی بہترین مٹی ہے اور پانی میٹھا، اِس کے دومطلب ہیں: اوَّل یہ کہ، صرف اُس جگہ کی حالت کابیان کرنا ہے کہ بہترین جگہ ہے، جس کی مٹی کے مُتعلِّق احادیث میں آیا ہے کہ: مُشک وزعفران کی ہے اور پانی نہایت لَذیذ۔(مسند احمد،۲؍۴۴۵، حدیث:۸۰۴۳) ایسی جگہ ہر شخص اپنا مَسکَن بنانا چاہتا ہے، اور تفریح وراحت کے لیے باغ وغیرہ لگانے کے اَسباب مُہَیَّا ہوں تو کون چھوڑ سکتا ہے؟۔
دوسرا مطلب یہ ہے کہ، جس جگہ زمین بہتر اور پانی بہتر ہو وہاں پیداوار بہت اچھی ہوتی ہے، اِس صورت میں مطلب یہ ہے کہ ایک مرتبہ سُبْحَانَ اللہِ کہہ دینے سے ایک درخت وہاں قائم ہوجاوے گا، اور پھر وہ جگہ اور پانی کی عُمدگی کی وجہ سے خود ہی نَشو ونُما پاتا رہے گا، صرف ایک مرتبہ بیج ڈال دینا ہے، باقی سب کچھ خود ہی ہوجائے گا۔
اِس حدیث میں جنت کو چَٹیل میدان فرمایا ہے، اور جن احادیث میں جنت کا حال بیان کیا گیا ہے اُن میںجنت میں ہر قِسم کے میوے، باغ، درختوں وغیرہ کا موجود ہونا بتایاگیا ہے؛ بلکہ جنت کے معنیٰ ہی باغ کے ہیں؛ اِس لیے بہ ظاہر اِشکال واقع ہوتا ہے، بعض عُلَما نے فرمایا ہے کہ: اصل کے اِعتِبار سے وہ میدان ہے؛ لیکن جس حالت پر وہ نیک عمل لوگوں کو دی جائے گی اُن کے اَعمال کے موافق اُس میں باغ اور درخت وغیرہ موجود ہوںگے۔
دوسری توجِیہ بعض عُلَمانے یہ فرمائی ہے کہ: جنت کے وہ باغ وغیرہ اُن اَعمال کے موافق ملیںگے، جب اُن اعمال کی وجہ سے اور اُن کے برابر ملے تو گویا یہ اعمال ہی درختوں کا سبب ہوئے۔
تیسری توجِیہ یہ فرمائی گئی ہے کہ: کم سے کم مقدار جو ہر شخص کے حصے میں ہے وہ ساری دنیا سے کہیں زائد ہے، اِس میں بہت سے حصے میںخود اپنے اَصلی باغ موجود ہیں اور بہت سا حِصَّہ خالی پڑا ہوا ہے، جتنا کوئی ذکر، تسبیح وغیرہ کرے گا اُتنے ہی درخت اَور لگ جائیںگے۔
شیخ المشائخ حضرت مولانا گنگوہیؒ کا ارشاد -جو ’’کوکب دُرِّی‘‘ میں نقل کیا گیا ہے- یہ ہے کہ: اُس کے سارے درخت خَمیر کی طرح سے ایک جگہ مجتمع ہیں، ہر شخص جس قدر اَعمالِ خیر کرتا رہتا ہے اُتنا ہی اُس کے حِصَّے کی زمین میں لگتے رہتے ہیں اور نَشو ونُما پاتے رہتے ہیں۔
(۵) عَن أَبِي أُمَامَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: مَن هَالَہُ اللَّیلُ أَن یُّکَابِدَہٗ، أَوبُخلٌ بِالمَالِ أَن یُّنفِقَہُ، أَو جُبنٌ عَنِ العَدُوِّ أَن یُّقَاتِلَہٗ، فَلیُکْثِرْ مِنْ سُبحَانَ اللہِ وَبِحَمدِہٖ؛ فَإِنَّهَا أَحَبُّ إِلَی اللہِ مِن جَبَلِ ذَهَبٍ یُنفِقُہُ فِي سَبِیلِ اللہِ.
(رواہ الفریابي والطبراني، واللفظ لہ، وهو حدیث غریب، ولا بأس بإسنادہ إن شاء اللہ؛ کذا في الترغیب. وفي مجمع الزوائد: رواہ الطبراني، وفیہ سلیمان بن أحمد الواسطي، وثَّقہ عبدان وضعَّفہ الجمهور، والغالب علیٰ بقیۃ رجالہ التوثیق. وفي الباب عن أبي هریرۃ مرفوعا أخرجہ ابن مردویہ، وابن عباس أیضا عند ابن مردویہ؛ کذا في الدر)
ترجَمہ: حضور ﷺکا ارشاد ہے کہ: جو شخص رات کی مَشقَّت جھِیلنے سے ڈرتا ہو (کہ راتوں کو جاگنے اور عبادت میں مشغول رہنے سے قاصِر ہو)،یابُخل کی وجہ سے مال خرچ کرنا دشوار ہو، یا بُزدِلی کی وجہ سے جہاد کی ہِمَّت نہ پڑتی ہو، اُس کو چاہیے کہ سُبحَانَ اللہِ وَبِحَمدِہٖ کثرت سے پڑھا کرے، کہ اللہ کے نزدیک یہ کلام پہاڑ کی بہ قدر سونا خرچ کرنے سے بھی زیادہ محبوب ہے۔
قاصِر: عاجز۔
فائدہ: کس قدر اللہ کا فضل ہے، کہ ہر قِسم کی مَشقَّت سے بچنے والوں کے لیے بھی فضائل اور دَرجات کا دروازہ بند نہیں فرمایا!! راتوں کو نہیں جاگا جاتا، کنجوسی سے پیسہ خرچ نہیں ہوتا، بُزدلی اور کم ہِمَّتی سے جہاد جیسا مُبارک عمل نہیں ہوتا، اِس کے بعد بھی اگر دِین کی قدر ہے، آخرت کا فکر ہے، تو اُس کے لیے بھی راستہ کھلا ہوا ہے، پھر بھی کچھ نہ کماسکے تو کم نصیبی کے سِوا اَور کیا ہے!۔ پہلے یہ مضمون ذرا تفصیل سے گزر چکاہے۔
(۶) عَن سَمُرَۃَ بنِ جُندُبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: أَحَبُّ الکَلَامِ إِلَی اللہِ أَربَعٌ: سُبْحَانَ اللہِ، وَالحَمدُ لِلّٰہِ، وَلَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ، وَاللہُ أَکبَرُ، لَایَضُرُّكَ بِأَیِّهِنَّ بَدَأْتَ.
(رواہ مسلم وابن ماجہ والنسائي، وزاد: ’’وَهُنَّ مِنَ القُراٰنِ‘‘. ورواہ النسائي أیضا، وابن حبان في صحیحہ من حدیث أبي هریرۃ؛ کذا في الترغیب. وعزا السیوطي حدیث سمرۃ إلیٰ أحمد أیضا، ورقم لہ بالصحۃ؛ وحدیث أبي هریرۃ إلیٰ مسند الفردوس للدیلمي، ورقم لہ أیضا بالصحۃ)
ترجَمہ:حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ: اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کلام چار کلمے ہیں: سُبْحَانَ اللہِ، اَلحَمدُ لِلّٰہِ، لَاإلٰہَ إِلَّااللہُ، اَللہُ أَکبَرُ؛ اِن میں سے جس کو چاہے پہلے پڑھے اور جس کو چاہے بعد میں، کوئی خاص ترتیب نہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ: یہ کلمے قرآن پاک میں بھی موجود ہے۔
فائدہ: یعنی قرآن پاک کے الفاظ میں بھی یہ کلمے کثرت سے وارد ہوئے ہیں، اور قرآن پاک میں بھی اِن کاحکم، اِن کی ترغیب وارد ہوئی ہے؛ چناںچہ پہلی فصل میں مُفصَّل بیان ہوچکا ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: عِیدوں کو اِن کلموں کے ساتھ مُزیَّن کیا کرو، یعنی عید کی زینت یہ ہے کہ اِن کلموں کا کثرت سے ورد کیاجائے۔(حلیۃ الاولیاء، کتاب ۔۔۔۔۔ باب ۔۔۔۔۔ ۲؍۲۸۸)
(۷) عَن أَبِي هُرَیرَۃَ قَالَ: إِنَّ الفُقَرَاءَ المُهَاجِرِینَ أَتَوْا رَسُولَ اللہِﷺ، فَقَالُوا: قَدْ ذَهَبَ أَهلُ الدُّثُورِبِالدَّرَجَاتِ الْعُلیٰ وَالنَّعِیمِ المُقِیمِ، فَقَالَ: ’’وَمَاذَاكَ‘‘؟ قَالُوا: یُصَلُّونَ کَمَا نُصَلِّيْ، وَیَصُومُونَ کَمَا نَصُومُ، وَیَتَصَدَّقُونَ وَلَانَتَصَدَّقُ، وَیُعتِقُونَ وَلَانُعتِقُ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: ’’أَفَلَا أُعَلِّمُکُمْ شَیئًا تُدرِکُونَ بِہٖ مَن سَبَقَکُم، وَتَسبِقُونَ بِہٖ مَن بَعدَکُم، وَلَایَکُونُ أَحدٌ أَفضَلَ مِنکُم إِلَّا مَن صَنَعَ مِثلَ مَا صَنَعتُم‘‘؟ قَالُوا: بَلیٰ یَا رَسُولَ اللہِ! قَالَ: ’’تُسَبِّحُونَ وَتُکَبِّرُونَ وَتُحَمِّدُونَ دُبُرَ کُلِّ صَلَاۃٍ ثَلَاثاً وَّثَلَاثِینَ مَرَّۃً‘‘، قَالَ أَبُو صَالِحٍ: فَرَجَعَ فُقَرَاءُ المُهَاجِرِینَ إِلیٰ رَسُولِ اللہِﷺ، فَقَالُوا: سَمِعَ إِخوَانُنَا أَهلُ الأَموَالِ بِمَا فَعَلنَا فَفَعَلُوا مِثلَہٗ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: ’’ذٰلِكَ فَضلُ اللہِ یُؤْتِیہِ مَن یَّشَاءُ‘‘.
(متفق علیہ، ولیس قول أبي صالح إلیٰ اٰخرہ إلا عند مسلم. وفي روایۃ البخاري: ’’تُسَبِّحُونَ فِي دُبُرِ کُلِّ صَلَاۃٍ عَشراً، وَتُحَمِّدُونَ عَشراً، وَتُکَبِّرُونَ عَشراً‘‘ بدل ’’ثَلَاثاً وَّثَلَاثِینَ‘‘؛ کذا في المشکوۃ.وعن أبيذر بنحوهذا الحدیث، وفیہ:إِنَّ بِکُلِّ تَسبِیحَۃٍ صَدَقَۃٌ،وَبِکُلِّ تَحمِیدَۃٍ صَدَقَۃٌ، وَفِي بُضعِ أَحدِکُم صَدَقَۃٌ؛ قَالُوا: یَارَسُولَ اللہِ! یَأْتِي أَحدُنَا شَهوَتَہٗ یَکُونُ لَہٗ فِیهَا أَجرٌ. الحدیث، أخرجہ أحمد، وفي الباب عن أبي الدرداء عند أحمد)
ترجَمہ: حضورِ اقدس ﷺکی خدمت میں ایک مرتبہ فُقَرائے مُہاجِرین جمع ہوکر حاضر ہوئے، اور عرض کیا: یارسولَ اللہ! یہ مال دار سارے بلند درجے لے اُڑے اورہمیشہ کی رہنے والی نعمت اُنھیں کے حِصَّے میں آگئی، حضورﷺنے فرمایا: کیوں؟ عرض کیا کہ: نماز روزے میں تو یہ ہمارے شریک کہ ہم بھی کرتے ہیں یہ بھی، اور مال دار ہونے کی وجہ سے یہ لوگ صدقہ کرتے ہیں، غلام آزاد کرتے ہیں، اورہم اِن چیزوں سے عاجز ہیں، حضور ﷺنے فرمایا کہ: مَیں تمھیں ایسی چیز بتاؤں کہ تم اُس پرعمل کرکے اپنے سے پہلوں کو پکڑلو، اور بعدوالوں سے بھی آگے بڑھے رہو، اور کوئی شخص تم سے اُس وقت تک افضل نہ ہو جب تک اِن ہی اعمال کو نہ کرے؟ صحابہ ث نے عرض کیا: ضرور بتادیجیے، ارشاد فرمایا کہ: ہرنمازکے بعدسُبْحَانَ اللہِ، اَلحَمدُ لِلّٰہِ، اَللہُ أَکبَرُ؛ ۳۳-۳۳ مرتبہ پڑھ لیا کرو، اور (اُن حضرات نے شروع کردیا ؛مگر اُس زمانے کے مال دار بھی اِسی نمونے کے تھے، اُنھوں نے بھی معلوم ہونے پر شروع کردیا) تو فُقَرا دوبارہ حاضر ہوئے، کہ یا رسولَ اللہ! ہمارے مال دار بھائیوں نے بھی سن لیا اور وہ بھی یہی کرنے لگے، حضور ﷺ نے فرمایا: یہ اللہ کا فضل ہے جس کو چاہے عطا فرمائے، اُس کو کون روک سکتا ہے؟۔ ایک دوسری حدیث میں بھی اِسی طرح یہ قِصَّہ ذکر کیا گیا، اُس میں حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: تمھارے لیے بھی اللہ نے صدقے کا قائم مقام بنا رکھا ہے: سُبْحَانَ اللہِ ایک مرتبہ کہنا صدقہ ہے، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ایک مرتبہ کہنا صدقہ ہے، بیوی سے صحبت کرنا صدقہ ہے، صحابہ ث نے تعجب سے عرض کیا: یارسولَ اللہ! بیوی سے ہم بستری میں اپنی شہوت پوری کرے اور یہ صدقہ ہوجائے! حضورﷺ نے فرمایا: اگر حرام میں مُبتَلا ہوتو گناہ ہوگا یا نہیں؟ صحابہ ث نے عرض کیا: ضرور ہوگا، ارشاد فرمایا: اِسی طرح حلال میں صدقہ اور اَجر ہے۔
مُقتضیٰ:تقاضہ۔ اِضافہ:زیادتی۔ تجویز: ۔
فائدہ:مطلب یہ ہے کہ اِس نیت سے صحبت کرنا کہ حرام کاری سے بچے، ثواب اور اَجر کا سبب ہے۔
اِسی قِصے کی ایک دوسری حدیث میں اِس اِشکال کے جواب میں کہ: بیوی سے ہم بستری اپنی شہوت کا پورا کرنا ہے؟ حضورﷺ کا یہ جواب نقل کیا گیا ہے: بتاؤ! اگر بچہ پیدا ہوجائے پھر وہ جوان ہونے لگے اور تم اُس کی خوبیوں کی اُمید باندھنے لگو پھر وہ مرجائے، کیاتم ثواب کی اُمید رکھتے ہو؟ عرض کیا گیا: بے شک، اُمید ہے، حضورﷺنے فرمایا: کیوں؟ تم نے اُس کو پیدا کیا؟ تم نے اُس کو ہدایت کی تھی؟ تم نے اُس کو روزی دی تھی؟ بلکہ اللہ ہی نے پیدا کیا ہے، اُسی نے ہدایت دی ہے، وہی روزی عطا کرتا تھا، اِسی طرح صحبت سے تم نطفے کوحلال جگہ رکھتے ہو، پھر اللہ کے قبضے میں ہے کہ چاہے اُس کو زندہ کرے کہ اُس سے اولاد پیدا کرے، یا مُردہ کرے کہ اولاد پیدا نہ ہو۔ (۔۔۔۔۔۔ ۔)
اِس حدیث کا مُقتضیٰ یہ ہے کہ، یہ اَجر وثواب بچے کے پیدا ہونے کا سبب ہونے کی وجہ سے ہے۔
(۸) عَن أَبِي هُرَیرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ:مَن سَبَّحَ اللہَ فِي دُبُرِ کُلِّ صَلَاۃٍ ثَلَاثاً وَّثَلَاثِینَ، وَحَمِدَ اللہَ ثَلَاثاً وَّثَلَاثِینَ، وَکَبَّرَ اللہَ ثَلَاثاً وَّثَلَاثِینَ، فَتِلكَ تِسعَۃً وَّتِسعُونَ، وَقَالَ تَمَامَ المِائَۃِ: ’’لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیكَ لَہٗ لَہُ الْمُلْكُ وَلَہُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلیٰ کُلِّ شَيْئٍ قَدِیْرٌ‘‘ غُفِرَتْ خَطَایَاہُ وَإِنْ کَانَت مِثلَ زَبَدِ البَحرِ. (رواہ مسلم، کذا في المشکوۃ، وکذا في مسند أحمد)
ترجَمہ:حضورِ اقدس ﷺکا ارشاد ہے کہ: جو شخص ہر نماز کے بعد سُبْحَانَ اللہِ ۳۳؍ مرتبہ، اَلْحَمْدُلِلّٰہ ۳۳؍مرتبہ، اَللہُ أَکْبَرُ۳۳؍مرتبہ اور ایک مرتبہ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیكَ لَہٗ لَہُ الْمُلْكُ وَلَہُ الحَمْدُ، وَہُوَ عَلیٰ کُلِّ شَيْئٍ قَدِیْرٌ پڑھے ، اُس کے گناہ مُعاف ہوجاتے ہیں خواہ اِتنی کثرت سے ہوں جتنے سمندر کے جھاگ۔
فائدہ:
خطایا کی مغفرت کے بارے میں پہلے کئی حدیثوں کے تحت میں بحث گزر چکی ہے، کہ اِن خطایا سے مراد عُلَما کے نزدیک صغیرہ گناہ ہیں۔ اِس حدیث میں تین کلمے ۳۳- ۳۳ مرتبہ اور لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ ایک مرتبہ وارد ہوا ہے، اِس سے اگلی حدیث میں دو کلمے ۳۳- ۳۳ مرتبہ اور اَللہُ أَکْبَرُ ۳۴؍ مرتبہ آرہا ہے۔
حضرت زید﷽ سے نقل کیا گیا ہے کہ: ہم کو حضورِ اقدس ﷺ نے سُبْحَانَ اللہِ، اَلحَمدُ لِلّٰہِ، اَللہُ أَکبَرُ؛ ہر ایک کو ۳۳؍ مرتبہ ہر نماز کے بعد پڑھنے کا حکم فرمایا۔ ایک انصاری ص نے خواب میں دیکھا، کوئی شخص کہتا ہے کہ: ہر ایک کلمے کو پچیس مرتبہ کرلو، اور اُن کے ساتھ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ ۲۵؍ مرتبہ کا اِضافہ کرلو، حضورِ اقدس ﷺ سے عرض کیا گیا، حضورﷺ نے قَبول فرمالیا اور اِس کی اجازت فرمادی، کہ ایسا ہی کر لیا جائے۔ (ترمذی،باب ماجاء في التسبیح والتکبیر والتحمید عند المنام،۲؍۱۷۸حدیث:۳۴۱۳)
ایک حدیث میں سُبْحَانَ اللہِ، اَلحَمدُ لِلّٰہِ،اَللہُ أَکبَرُ؛ ہر کلمے کو ہرنماز کے بعد گیارہ مرتبہ کاحکم ہے۔(بخاری،کتاب الاذان،باب الذکربعدالصلاۃ،۱؍۱۱۶حدیث:۸۴۳)
اور ایک حدیث میں ۱۰-۱۰ مرتبہ وارد ہوا ہے۔(بخاری،کتاب الدعوات،باب الدعاء بعد الصلاۃ، ۲؍۹۳۷،حدیث:۶۳۳۹)
ایک حدیث میں لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ ۱۰؍ مرتبہ، باقی تینوں کلمے ہر ایک ۳۳؍مرتبہ۔
(نسائی،کتاب الصلاۃ،عدد التسبیح بعد التسلیم،ص:۱۵۳حدیث:۱۳۵۳)
ایک حدیث میں ہرنماز کے بعد چاروں کلمے ۱۰۰- ۱۰۰ مرتبہ وارد ہوئے ہیں۔
(مسند احمد،۔۔۔۔۔۔۔۔۔حدیث:۲۱۵۱۲)
جیسا کہ ’’حِصنِ حَصِین‘‘ میں اِن روایات کو ذکر کیاگیا ہے۔ یہ اختلاف بہ ظاہر حالات کے اِختلاف کی وجہ سے ہے، کہ آدمی فراغت اور مَشاغِل کے اِعتبار سے مُختلف ہیں، جو لوگ دوسرے ضروری کاموں میں مشغول ہیں اُن کے لیے کم مقدار تجویز(متعیَّن) فرمائی، اور جو لوگ فارغ ہیں اُن کے لیے زیادہ مقدار؛ لیکن مُحقِّقین کی رائے یہ ہے کہ، جو عدد احادیث میں مذکور ہیں اُن کی رِعایت ضروری ہے، کہ جو چیز دوا کے طور پر استعمال کی جاتی ہے اُس میں مقدار کی رعایت بھی اَہم ہے۔
(۹)عَن کَعبِ بنِ عُجْرَۃَ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ:مُعَقِّبَاتٌ لَایَخِیبُ قَائِلُهُنَّ -أَو فَاعِلُهُنَّ- دُبُرَ کُلِّ صَلَاۃٍ مَکتُوبَۃٍ: ثَلَاثٌ وَّثَلَاثِینَ تَسبِیحَۃً، وَثَلَاثٌ وَّثَلَاثُونَ تَحمِیدَۃً، وَأَربَعٌ وَثَلَاثُونَ تَکبِیرَۃً.
(رواہ مسلم، کذا في المشکوۃ، وعزاہ السیوطي فيالجامع إلیٰ أحمد ومسلم والترمذي والنسائي، ورقم لہ بالضعف. وفي الباب عن أبي الدرداء عند الطبراني)
ترجَمہ: حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ: چند پیچھے آنے والے (کلمات) ایسے ہیں جن کا کہنے والا نامُراد نہیں ہوتا، وہ یہ ہیں کہ: ہرفرض نماز کے بعد ۳۳؍مرتبہ سُبْحَانَ اللہِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ۳۳؍ مرتبہ، اور ۳۴؍ مرتبہاَللہُ أَکْبَرُ.
فائدہ: اِن کلمات کو پیچھے آنے والے یا تو اِس وجہ سے فرمایا کہ، یہ نمازوں کے بعد پڑھے جاتے ہیں، یا اِس وجہ سے کہ گناہوں کے بعد پڑھنے سے اُن کو دھونے اور مِٹادینے والے ہیں، یا اِس وجہ سے کہ یہ کلمات ایک دوسرے کے بعد پڑھے جاتے ہیں۔
حضرت ابو درداء ص فرماتے ہیں کہ: ہمیں نمازوں کے بعد سُبْحَانَ اللہِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ۳۳-۳۳ مرتبہ، اوراَللہُ أَکْبَرُ ۳۴؍ مرتبہ پڑھنے کا حکم کیاگیاہے۔(مجمع الزوائد،۱۰؍۱۰۴)
(۱۰)عَن عِمرَانَ بنِ حُصَینٍ رَفَعَہٗ:أَمَا یَستَطِیعُ أَحَدُکُم أَن یَّعمَلَ کُلَّ یَومٍ مِثلَ أُحُدٍ عَمَلًا؟ قَالُوا: یَا رَسُولَ اللہِ! وَمَن یَستَطِیعُ؟ قَالَ: کُلُّکُم یَستَطِیعُ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللہِ! مَاذَا؟ قَالَ: سُبحَانَ اللہِ أَعظَمُ مِن أُحُدٍ، وَلَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ أَعظَمُ مِن أُحُدٍ، وَالحَمدُ لِلّٰہِ أَعظَمُ مِن أُحُدٍ، وَاللہُ أَکبَرُ أَعظَمُ مِن أُحُدٍ.
(للکبیر والبزار؛ کذا في جمع الفوائد، وإلیهما عزاہ في الحصن ومجمع الزوائد، وقال: رجالها رجال الصحیح)
ترجَمہ: حضورِاقدس ﷺنے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا: کیا تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے کہ روزانہ اُحُد (جومدینۂ مُنوَّرہ کے ایک پہاڑ کانام ہے)کے برابر عمل کرلیا کرے؟ صحابہ ث نے عرض کیا: یارسولَ اللہ! اِس کی کون طاقت رکھتا ہے (کہ اِتنے بڑے پہاڑ کے برابر عمل کرے)؟ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: ہر شخص طاقت رکھتا ہے، صحابہ ث نے عرض کیا: اِس کی کیا صورت ہے؟ ارشاد فرمایا کہ: سُبحَانَ اللہِ کا ثواب اُحُد سے زیادہ ہے، لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ کا اُحُد سے زیادہ ہے، اَلحَمدُ لِلّٰہِ کا اُحُد سے زیادہ ہے، اللہُ أَکبَرُ کا اُحُد سے زیادہ ہے۔
فائدہ:یعنی اِن کلموں میں سے ہر کلمہ ایسا ہے جس کا ثواب اُحُد پہاڑ سے زیادہ ہے، اور ایک پہاڑ کیا، نہ معلوم کتنے ایسے پہاڑوں سے زیادہ ہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ: سُبْحَانَ اللہِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہسارے آسمانوں اور زمینوں کو ثواب سے بھردیتے ہیں۔(مسلم،کتاب الطہارۃ،باب فضل الوضوء،۱؍۱۱۸حدیث:۲۲۳)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: سُبْحَانَ اللہِکا ثواب آدھی ترازو ہے اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اُس کو پُر کردیتی ہے، اوراَللہُ أَکْبَرُ آسمان زمین کے درمیان کو پُرکردیتی ہے۔
(ترمذی،ابواب الدعوات،باب،۲؍۱۹۱ حدیث:۳۵۱۹)
ایک حدیث میں حضورِ اقدس ﷺکا ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ: سُبْحَانَ اللہِ، اَلحَمدُ لِلّٰہِ، لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ، اَللہُ أَکبَرُ؛ مجھے ہر اُس چیز سے زیادہ محبوب ہے جس پر آفتاب نکلے۔
(مسلم،کتاب الدعوات،باب فضل التہلیل والتسبیح والدعاء،۲؍۳۴۵حدیث:۳۶۹۵)
مُلَّا علی قاریؒ فرماتے ہیں کہ: مراد یہ ہے کہ ساری ہی دنیا اللہ کے واسطے خرچ کر دُوں تو اِس سے بھی یہ زیادہ محبوب ہیں۔
کہتے ہیں کہ: حضرت سلیمان ں ہوائی تخت پر تشریف لے جارہے تھے، پرندے آپ پر سایہ کِیے ہوئے تھے، اور جِنَّ واِنس وغیرہ لشکر دوقَطار، ایک عابد پر گزر ہوا جس نے حضرت سلیمان ں کے اِس وُسعتِ مُلکی(کشادہ بادشاہت) اور عُمومِ سَلطَنت(سب پر حکومت) کی تعریف کی، آپ نے ارشاد فرمایا کہ: مومن کے اعمال نامے میں ایک تسبیح سلیمان بن داؤد کے سارے مُلک سے اچھی ہے، کہ یہ مُلک فَنا ہوجائے گااور تسبیح باقی رہنے والی چیزہے۔
(روض الریاحین،ص:۱۴۸،حکایت:۲۰۷)
(۱۱)عَن أَبِي سَلَّامٍ -مَولیٰ رَسُولِ اللہِﷺ- أَنَّ رَسُولَ اللہِﷺ قَالَ: بَخَّ بَخَّ، خَمسٌ مَا أَثْقَلَهُنَّ فِيالمِیزَانِ!:لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ، وَاللہُ أَکبَرُ، وَسُبْحَانَ اللہِ، وَالحَمدُ لِلّٰہِ، وَالْوَلَدُ الصَّالِحُ یُتَوَفّٰی لِلْمَرْءِ المُسْلِمِ فَیَحْتَسِبُہٗ؛ الحدیث.
(أخرجہ أحمد في مسندہ، ورجالہ ثقات کما في مجمع الزوائد، والحاکم، وقال: صحیح الإسناد، وأقرہ علیہ الذهبي؛ وذکرہ في الجامع الصغیر بروایۃ البزار عن ثوبان، وبروایۃ النسائي وابن حبان والحاکم عن أبي سلمیٰ، وبروایۃ أحمد عن أبي أمامۃ، ورقم لہ بالحسن؛ وذکرہ في مجمع الزوائد بروایۃ ثوبان، وأبي سلمیٰ راعي رسول اللہﷺ وسفینۃ، ومولیٰ لرسول اللہﷺ لم یسم، وصحح بعض طرقها)
ترجَمہ: ایک مرتبہ حضورِ اقدس ﷺنے ارشاد فرمایا کہ: واہ واہ! پانچ چیزیں (اعمال نامہ تُلنے کی) ترازُو میں کتنی زیادہ وزنی ہیں: لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ، اللہُ أَکبَرُ، سُبْحَانَ اللہِ، الحَمدُ لِلّٰہِ، اور وہ بچہ جو مرجائے اور باپ (اِسی طرح ماں بھی)اُس پر صبرکرے۔
سُرور:خوشی۔ قدر دَانی: قدر کرنا۔
فائدہ:یہ مضمون کئی صحابہ ث سے مُتعدِّد احادیث میں نقل کیا گیا ہے۔ ’’بخ بخ‘‘ بڑے سُرور اور فَرحت کاکلمہ ہے، جس چیز کو حضورِ اقدس ﷺ اِس خوشی اور مَسرَّت سے ارشاد فرما رہے ہوں، عطا فرمارہے ہوں، کیا محبت کا دعویٰ کرنے والوں کے ذمے نہیں ہے کہ اِن کلموں پر مَرمِٹیں؟ حضورﷺ کی اِس خوشی کی قدر دَانی اور اِس کا اِستِقبال یہی ہے۔
(۱۲) عَن سُلَیمَانَ بنِ یَسَارٍ عَن رَجُلٍ مِنَ الأَنصَارِ، أَنَّ النَّبِيَّﷺ قَالَ: قَالَ نُوحٌ لِابنِہٖ: إِنِّي مُوصِیكَ بِوَصِیَّۃٍ، وَقَاصِرُهَا لِکَي لَاتَنسَاهَا، أُوصِیكَ بِإثنَینِ وَأَنهَاكَ عَن إِثنَینِ: أَمَّا الَّتِي أُوصِیكَ بِهِمَا فَیَستَبْشِرُ اللہُ بِهِمَا وَصَالِحُ خَلقِہٖ، وَهُمَا یُکثِرَانِ الوُلُوجَ عَلَی اللہِ، أُوصِیكَ بِلَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ؛ فَإِنَّ السَّمٰوَاتِ وَالأَرضِ لَو کَانَتَا حَلَقَۃً قَصَمَتْهُمَا وَلَوْ کَانَتَا فِي کَفَّۃٍ وَزَنَتْهُمَا، وَأُوصِیكَ بِسُبحَانَ اللہِ وَبِحَمدِہٖ؛ فَإِنَّهُمَا صَلَاۃُ الخَلقِ، وَبِهَا یُرزَقُ الخَلقُ، ﴿وَإِن مِن شَيْئٍ إِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰکِن لَاتَفْقَهُونَ تَسبِیحَهُم، إِنَّہٗ کَانَ حَلِیماً غَفُوراً﴾؛ وَأَمَّا اللَّتَانِ أَنهَاكَ عَنهُمَا فَیَحتَجِبُ اللہُ مِنهُمَا وَصَالِحُ خَلقِہٖ، أَنهَاكَ عَنِ الشِّركِ وَالکِبْرِ.
(رواہ النسائي واللفظ لہ، والبزار والحاکم من حدیث عبداللہ بن عمرو، قال: صحیح الإسناد؛ کذا في الترغیب. قلت: وقد تقدم في بیان التهلیل حدیث عبداللہ بن عمرو مرفوعا، وتقدم فیہ أیضا ما في الباب، وتقدم في الاٰیات قولہ عز اسمہ: ﴿وَإِن مِن شَيْئٍ إِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ﴾ الاٰیۃ. وأخرج ابن جریر وابن أبي حاتم وأبو الشیخ في العظمۃ عن جابر مرفوعاً: ’’أَلَا أُخبِرُکُم بِشَيْئٍ أَمَرَ بِہٖ نُوحٌ ابنَہٗ؟ إِنَّ نُوحاً قَالَ لِابنِہٖ: یَابُنَيَّ! اٰمُرُكَ أَن تَقُولَ: سُبحَانَ اللہِ؛ فَإنَّهَاصَلَاۃُ الخَلقِ، وَتَسْبِیْحُ الخَلقِ، وَبِهَا یُرزَقُ الخَلقُ‘‘. وأخرج أحمد وابن مردویہ عن ابن عمر مرفوعاً: ’’أَنَّ نُوحاً لَمَّا حَضَرَتْہُ الوَفَاۃُ قَالَ لِابنَیْہٖ: اٰمُرُکُمَا بِسُبحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ؛ فَإِنَّهَا صَلَاۃُ کُلِّ شَيْئٍ، وَبِهَا یُرزَقُ کُلُّ شَيْئٍ‘‘، کذا في الدر)
ترجَمہ: حضورِاقدس ﷺکا ارشاد ہے کہ: حضرت نوح ںنے اپنے صاحبزادے سے فرمایا کہ: مَیں تمھیں وَصِیَّت کرتاہوں، اور اِس خَیال سے کہ بھول نہ جاؤ نہایت مختصر کہتا ہوں، اور وہ یہ ہے کہ: دو کام کرنے کی وصیت کرتا ہوں، اور دوکاموںسے روکتا ہوں، جن دوکاموں کے کرنے کی وصیت کرتا ہوں وہ دونوں ایسے ہیں کہ اللہ داُن سے نہایت خوش ہوتے ہیں، اور اللہ کی نیک مخلوق اُن سے خوش ہوتی ہے، اُن دونوں کاموں کی اللہ کے یہاں رَسائی (اور مَقبولِیَّت) بھی بہت زیادہ ہے، اُن دو میں سے ایک لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ ہے، کہ اگر تمام آسمان ایک حلقہ ہوجائیں توبھی یہ پاک کلمہ اُن کو توڑکر آسمان پرجائے بغیر نہ رہے، اور اگر تمام آسمان وزمین کو ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اوردوسرے میں یہ پا ک کلمہ ہو تب بھی وہی پلڑا جھک جائے گا، اور دوسرا کام جو کرنا ہے وہ سُبحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ کا پڑھنا ہے، کہ یہ کلمہ ساری مخلوق کی عبادت ہے، اور اِسی کی برکت سے تمام مخلوق کو روزی دی جاتی ہے، کوئی بھی چیز مخلوق میں ایسی نہیں جو اللہ کی تسبیح نہ کرتی ہو؛ مگر تم لوگ اُن کا کلام سمجھتے نہیں ہو۔ اور جن دوچیزوں سے منع کرتا ہوں وہ شرک اور تکبُّر ہے، کہ اِن دونوں کی وجہ سے اللہ سے حِجاب ہوجاتا ہے اور اللہ کی نیک مخلوق سے حجاب ہوجاتاہے۔
رَسائی: پہنچ۔ حِجاب: پردہ،آڑ۔ ثَرید: ایک قِسم کا کھانا۔ بہ درجۂ اَتَم: پورے طور پر۔ جَمادات: بے جان چیزیں۔ مُوجِبِ قُرب: قریب کرنے والی۔ مُضِر: نقصان دینے والا۔ مُبتدی: نیا نیا راہِ سلوک میں لگا ہوا شخص۔ مانِع: رُکاوَٹ۔ مَبادا: ایسا نہ ہو۔ تکدُّر: دل کی پریشانی۔ حِسِّی: محسوس ہونے والا۔ لَہو ولَعِب: سَیر تماشہ۔ ۔ مُتَعَفِّن: بدبو دار۔ تردُّد: شک۔
فائدہ: لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ کے بیان میں بھی اِس حدیث کامضمون گزرچکا ہے۔ تسبیح کے مُتعلِّق جو ارشاد اِس حدیث میں ہے قرآنِ پاک کی آیات میں بھی گزر چکا ہے،﴿وَإِن مِن شَيْئٍ إِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ﴾ قرآنِ پاک کی آیت ہے۔نبیٔ اکرم ﷺ کا ارشاد بہت سی احادیث میں وارد ہوا ہے کہ: شبِ معراج میں آسمانوں کی تسبیح حضورِ اقدس ﷺ نے خود سنی۔
ایک مرتبہ حضورﷺ کا ایسی جماعت پر گزر ہوا جو اپنے گھوڑوں اور اُونٹوں پرکھڑی ہوئی تھی، حضورﷺنے ارشاد فرمایا کہ: جانوروں کو منبر اور کرسیاں نہ بناؤ، بہت سے جانور سواروں سے بہتر اور اُن سے زیادہ اللہ کاذکر کرنے والے ہوتے ہیں۔(مسند احمد،۔۔۔۔۔۔حدیث:۱۵۶۲۹)
حضرت ابن عباس ص فرماتے ہیں کہ: کھیتی بھی تسبیح کرتی ہے اور کھیتی والے کو اُس کاثواب ملتا ہے۔(دُرِّمنثورتحت الاٰیۃ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کتاب العظمۃ،۵؍۱۷۲۸حدیث:۱۱۹)
ایک مرتبہ حضورِ اقدس ﷺکی خدمت میں ایک پیالہ پیش کیاگیا جس میں ثَرید تھا، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: یہ کھانا تسبیح کررہا ہے، کسی نے عرض کیا:آپ اِس کی تسبیح سمجھتے ہیں؟ حضورﷺنے ارشاد فرمایا: ہاں! سمجھتا ہوں، اِس کے بعد آپ ﷺنے ایک شخص سے فرمایا کہ: اِس کو فلاں شخص کے قریب کردو، وہ پیالہ اُن کے قریب کیا گیا تو اُنھوں نے بھی تسبیح سنی، اِس کے بعد پھر ایک تیسرے صاحب کے قریب اِسی طرح کیا گیا اُنھوں نے بھی سنا، کسی نے درخواست کی کہ مجمع کے سب ہی لوگوں کو سنوایاجائے، حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: اگر کسی کو اِن میں سے سنائی نہ دے تو لوگ سمجھیںگے کہ یہ گنہ گار ہے۔ (کتاب العظمۃ،۵؍۱۷۲۶حدیث:۱۱۹۲)
اِس چیز کا تعلُّق کَشف سے ہے، حضراتِ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام کوتو یہ چیز بہ درجۂ اَتَم حاصل تھی اور ہونا چاہیے تھی، حضراتِ صحابۂ کرام ث کو بھی بسااَوقات حضورِ اقدس ﷺ کے فیضِ صحبت اور اَنوارِ قُرب کی بہ دولت یہ چیز حاصل ہوجاتی تھی۔ سینکڑوں واقعات اِس کے شاہد ہیں، صُوفیا کو بھی اکثر یہ چیز مُجاہَدوں کی کثرت سے حاصل ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ جَمادات اور حیوانات کی تسبیح، اُن کاکلام، اُن کی گفتگو سمجھ لیتے ہیں؛ لیکن مُحقِّقِین مشائخ کے نزدیک چوںکہ یہ چیز نہ دلیلِ کمال ہے نہ مُوجِبِ قُرب، کہ جو بھی اِس قِسم کے مُجاہَدے کرتا ہے وہ حاصل کرلیتا ہے، خواہ اُس کو حق تَعَالیٰ شَانُہٗکے یہاں قُرب حاصل ہویا نہ ہو؛ اِس لیے مُحقِّقین اِس کو غیراَہم سمجھتے ہیں، بلکہ اِس لِحاظ سے مُضِر سمجھتے ہیں کہ جب مُبتدی اِس میں لگ جاتا ہے تو دنیا کی سَیر کا ایک شوق پیداہوکر ترقی کے لیے مانِع بن جاتا ہے۔ مجھے اپنے حضرت مولانا خلیل صاحبؒ کے بعض خُدَّام کے مُتعلِّق معلوم ہے، کہ جب اُن کو یہ صورتِ کشف پیدا ہونے لگی توحضرت نے چند روز کے لیے اِہتِمام سے سب ذِکرشُغل چھُڑا دیا تھا، کہ مَبادا یہ حالت ترقی پکڑ جائے۔
اِس کے عِلاوہ یہ حضرات اِس لیے بھی بچتے ہیں کہ، اِس صورت میں دوسروں کے گناہوں کا اِظہار ہوتا ہے، جو اِن حضرات کے لیے تکدُّر کا سبب ہوتا ہے۔
علاَّمہ شَعرانیؒ نے ’’مِیزانُ الکُبریٰ‘‘ میں لکھا ہے کہ: حضرت امام اعظمؒ جب کسی شخص کو وُضو کرتے ہوئے دیکھتے تو اُس پانی میں جوگناہ دُھلتا ہوا نظر آتا اُس کومعلوم کرلیتے، یہ بھی معلوم ہوجاتا کہ کبیرہ گناہ ہے یا صَغیرہ، مکروہ فعل ہے یاخلافِ اَولیٰ؛ جیسا کہ حِسِّی چیزیں نظر آیا کرتی ہیں اِسی طرح یہ بھی معلوم ہوجاتا تھا۔ چناںچہ ایک مرتبہ کُوفہ کی جامع مسجد کے وُضو خانے میں تشریف فرماتھے، ایک جوان وُضو کر رہا تھا، اُس کے عُضو کاپانی گِرتے ہوئے آپ نے دیکھا، اُس کو چپکے سے نصیحت فرمائی کہ: بیٹا! والدین کی نافرمانی سے توبہ کرلے، اُس نے توبہ کی۔ ایک دوسرے شخص کو دیکھا تو اُس کو نصیحت فرمائی کہ: بھائی! زنا نہ کیا کر، بہت بُرا عیب ہے، اُس وقت اُس نے بھی زنا سے توبہ کی۔ ایک اَور شخص کو دیکھا کہ شراب خوری اور لَہو ولَعِب کا پانی گِررہا ہے، اُس کو بھی نصیحت فرمائی، اُس نے بھی توبہ کی؛ اَلغرض اِس کے بعد امام صاحبؒ نے اللہ دسے دعا کی کہ: اے اللہ! اِس چیز کو مجھ سے دُور فرما دے، کہ مَیں لوگوں کی بُرائیوں پر مُطَّلَع(خبردار) ہونا نہیں چاہتا، حق تَعَالیٰ شَانُہٗ نے دعاقَبول فرمالی اور یہ چیز زائل[ختم] ہوگئی۔ کہتے ہیں کہ اُسی زمانے میں امام صاحبؒ نے مستعمَل پانی کے ناپاک ہونے کا فتویٰ دیا تھا، کیوںکہ جب وہ پانی گندہ اور مُتَعَفِّن نظر آتا تھا تو کیسے اُس کو پاک فرماتے؛ مگر جب یہ چیز زائل[ختم] ہوگئی تو اُس کو ناپاک فرمانا بھی چھوڑ دیا۔
(میزان، الکبریٰ،کتاب الطہارۃ۱؍۸۷)
ہمارے حضرت مولانا اَلشَّاہ عبدالرحیم صاحب رائے پوری نَوَّرَاللہُ مَرْقَدَہٗ کے خُدَّام میں ایک صاحب تھے جو کئی کئی روز اِس وجہ سے اِستِنجا نہیں جا سکتے تھے کہ ہرجگہ اَنوار نظر آتے تھے۔
اَور بھی سینکڑوں ہزاروں واقعات اِس قِسم کے ہیں جن میں کسی قِسم کے تردُّد کی گنجائش نہیں، کہ جن لوگوں کو کَشف سے کوئی حِصَّہ ملتا ہے وہ اُس حصے کے بہ قدر اَحوال کومعلوم کرلیتے ہیں۔
(۱۳) عَن أُمِّ هَانِیٍٔ قَالَتْ: مَرَّ بِيْ رَسُولُ اللہِﷺ، فَقُلتُ: یَارَسُولَ اللہِ! قَد کَبُرتُ وَضَعُفتُ -أَو کَمَا قَالَت-، فَمُرْنِي بِعَمَلٍ أَعمَلُہٗ وَأَنَا جَالِسَۃٌ، قَالَ: سَبِّحِيْ اللہَ مِائَۃَ تَسبِیحَۃً؛ فَإِنَّہٗ تَعدِلُ لَكِ مِائَۃَ رَقَبَۃً تَعتِقُهَا مِن وُلْدِ إِسمَاعِیلَ، وَاحمِدِي اللہَ مِائَۃَ تَحمِیدَۃٍ؛ فَإِنَّهَا تَعدِلُ لَكِ مِائَۃَ فَرَسٍ مُسرَجَۃٍ مُلجَمَۃٍ تَحمِلِینَ عَلَیهَا فِي سَبِیلِ اللہِ، وَکَبِّرِي اللہَ مِائَۃَ تَکبِیرَۃٍ؛ فَإِنَّهَا تَعدِلُ لَكِ مِائَۃَ بَدَنَۃٍ مُقَلَّدَۃٍ مُتَقَبَّلَۃٍ، وَهَلِّلِيْ اللہَ مِائَۃَ تَهلِیلَۃٍ؛ قَالَ أَبُوخَلفٍ: أَحسِبُہٗ قَالَ: تَملَأُ مَابَینَ السَّمَاءِ وَالأَرضِ، وَلَایَرفَعُ لِأَحَدٍ عَمَلٌ أَفضَلُ مِمَّا یَرفَعُ لَكِ؛ إِلَّا أَن یَّأْتِيَ بِمِثلِ مَا أَتَیتَ.
(رواہ أحمد بإسناد حسن واللفظ لہ، والنسائي ولم یقل: ’’ولایرفع‘‘ إلیٰ اٰخرہ، والبیهقي بتمامہ، وابن أبي الدنیا؛ فجعل ثواب الرقاب في التحمید والفرس في التسبیح، وابن ماجہ بمعناہ باختصار، والطبراني في الکبیر بنحو أحمد، ولم یقل: ’’أَحْسِبُہٗ‘‘، وفي الأوسط بإسناد حسن بمعناہ؛ کذا في الترغیب باختصار. قلت: رواہ الحاکم بمعناہ وصححہ، وعزاہ في الجامع الصغیر إلیٰ أحمد والطبراني والحاکم ورقم لہ بالصحۃ، وذکرہ في مجمع الزوائد بطرق، وقال: أسانیدهم حسنۃ، وفي الترغیب أیضا عن أبي أمامۃ مرفوعاً بنحو حدیث الباب مختصرا، وقال: رواہ الطبراني ورواتہ رواۃ الصحیح؛ خلا سلیم بن عثمان الفوزي، یکشف حالہ؛ فإنہ لایحضرني الاٰن، فیہ جرح ولاعدالۃ، اھ. وفي الباب عن سلمیٰ أم بني أبي رافع، قَالَتْ: یَارَسُولَ اللہِ! أَخْبِرْنِيْ بِکَلِمَاتٍ وَلَاتُکْثِرْ عَلَيَّ، الحدیث مختصرا. وفیہ التکبیر والتسبیح عشرا عشرا واللهم اغفرلي عشرا، قال المنذري: رواہ الطبراني ورواتہ محتج بهم فيالصحیح، اھ. قلت: وبمعناہ عن عمرو ابن شعیب عن أبیہ عن جدہ مرفوعاً بلفظ: مَن سَبَّحَ اللہَ مِائَۃً بِالغَدَاۃِ وَمِائَۃً بِالعَشِيِّ کَانَ کَمَنْ حَجَّ مِائَۃَ حَجَّۃٍ، الحدیث. وجعل فیہ التحمید کمن حمل علیٰ مائۃ فرس، والتهلیل کمن أعتق مائۃ رقبۃ من ولد إسماعیل؛ ذکرہ في المشکوۃ بروایۃ الترمذي، وقال: حسن غریب.
ترجَمہ: حضرت اُمِّ ہانی فرماتی ہیں: ایک مرتبہ حضورﷺ تشریف لائے، مَیں نے عرض کیا: یا رسولَ اللہ! مَیں بوڑھی ہوگئی ہوں اورضعیف ہوں، کوئی عمل ایسا بتادیجیے کہ بیٹھے بیٹھے کرتی رہا کروں، حضور ﷺنے فرمایا: سُبْحَانَ اللہِسومرتبہ پڑھا کرو، اِس کا ثواب ایسا ہے گویا تم نے سو غلام عرب آزاد کیے، اوراَلْحَمْدُ لِلّٰہِ سو مرتبہ پڑھا کرو، اِس کا ثواب ایسا ہے گویا تم نے سو گھوڑے مع سامان لَگام وغیرہ جہاد میں سواری کے لیے دے دیے، اوراَللہُ أَکْبَرُ سو مرتبہ پڑھا کرو، یہ ایسا ہے گویاتم نے سو اُونٹ قربانی میں ذبح کیے اور وہ قَبول ہوگئے، اور لَاإِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ سو مرتبہ پڑھا کرو، اِس کا ثواب تو تمام آسمان زمین کے درمیان کو بھردیتاہے، اِس سے بڑھ کر کسی کا کوئی عمل نہیں جو مَقبول ہو۔ حضرت ابورافع ص کی بیوی حضرت سَلمیٰ نے بھی حضورﷺ سے عرض کیا کہ: مجھے کوئی وظیفہ مختصر سا بتادیجیے زیادہ لمبا نہ ہو، حضورﷺنے ارشاد فرمایا کہ: اَللہُ أَکْبَرُ دس مرتبہ پڑھا کرو، اللہجَلَّ شَانُہٗ اُس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ: یہ میرے لیے ہے، پھر سُبْحَانَ اللہِ دس مرتبہ کہا کرو، اللہ تعالیٰ پھر یہی فرماتے ہیں کہ: یہ میرے لیے ہے، پھر اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِي دس مرتبہ پڑھا کرو، حق تَعَالیٰ شَانُہٗ فرماتے ہیں کہ: ہاں! مَیں نے مغفرت کردی، دس مرتبہ تم اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِيکہو، دس مرتبہ اللہ جَلَّ شَانُہٗ فرماتے ہیں کہ: مَیں نے مغفرت کردی۔ضُعَفا: کمزور۔ تجویز: متعیَّن۔
فائدہ: ضُعَفا اور بوڑھوں کے لیے بِالخُصوص عورتوں کے لیے کس قدر سَہل اور مختصر چیز حضورِاقدس ﷺ نے تجویز فرمادی ہے، دیکھیے ایسی مختصر چیزوں پرجن میں نہ زیادہ مَشقَّت ہے نہ چلنا پھرنا ہے، کتنے بڑے بڑے ثوابوں کاوعدہ ہے! کتنی کم نصیبی ہوگی اگر اِن کو وُصول نہ کیا جائے!۔
حضرت ام سُلَیمؓ کہتی ہیں: مَیں نے حضورﷺسے عرض کیا:کوئی چیز مجھے تعلیم فرما دیجیے جس کے ذریعے سے نماز میں دعا کیاکروں، حضورﷺنے ارشاد فرمایا کہ: سُبْحَانَ اللہِ، الحَمدُ لِلّٰہِ، اللہُ أَکبَرُ، ۱۰ - ۱۰ مرتبہ پڑھ لیا کرو، اور جو چاہے اِس کے بعد دعا کیا کرو۔ دوسری حدیث میں اِس کے بعد یہ ارشاد ہے کہ: جو چاہے دعا کیا کرو حق تَعَالیٰ شَانُہٗ اِس دعا پر فرماتے ہیں:ہاں ہاں! (مَیں نے قبول کی)۔(طبرانی فی الکبیر، ۲۴ ؍ ۳۰۲ حدیث: ۷۶۶)
کتنے سَہل اور معمولی الفاظ ہیں! جن کو نہ یاد کرنا پڑتا ہے نہ اُن میں کوئی محنت اُٹھانی پڑتی ہے! دن بھر ہم لوگ بکواس میں گزار دیتے ہیں، تجارت کے ساتھ دُوکان پر بیٹھے بیٹھے یا کھیتی کے ساتھ زمین کے اِنتِظامات میں مشغول رہتے ہیں، اگر زبان سے اِن تسبیحوں کو پڑھتے رہیں تو دنیا کی کمائی کے ساتھ ہی آخرت کی کتنی بڑی دولت ہاتھ آجائے!۔
(۱۴)عَن أَبِي هُرَیرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: إِنَّ لِلّٰہِ مَلَائِکَۃً یَطُوفُونَ فِي الطُّرُقِ یَلتَمِسُونَ أَهلَ الذِّکرِ، فَإِذَا وَجَدُوْا قَوماً یَذْکُرُونَ اللہَ تَنَادَوْا: هَلُمُّوا إِلیٰ حَاجَتِکُم، فَیَحُفُّونَهَا بِأَجنِحَتِهِم إِلَی السَّمَاءِ، فَإِذَا تَفَرَّقُوْا عَرَجُوا وَصَعَدُوْا إِلَی السَّمَاءِ، فَیَسْأَلُهُم رَبُّهُم وَهُوَ یَعلَمُ: مِن أَینَ جِئْتُمْ؟ فَیَقُولُونَ: جِئْنَا مِن عِندِ عِبَادٍ لَكَ یُسَبِّحُونَكَ وَیُکَبِّرُونَكَ وَیُحَمِّدُونَكَ، فَیَقُولُ: هَلْ رَأَوْنِيْ؟ فَیَقُولُونَ: لَا، فَیَقُولُ: کَیفَ لَو رَأَوْنِي؟ فَیَقُولُونَ: لَو رَأَوكَ کَانُوا أَشَدَّ لَكَ عِبَادَۃً، وَأَشَدَّ لَكَ تَمجِیداً، وَأَکثَرَ لَكَ تَسبِیحاً؛ فَیَقُولُ: فَمَا یَسأَلُونَ؟ فَیَقُولُونَ: یَسأَلُونَكَ الجَنَّۃَ، فَیَقُولُ: وَهَلْ رَأَوْهَا؟ فَیَقُولُونَ: لَا، فَیَقُولُ: فَکَیفَ لَورَأَوهَا؟ فَیَقُولُونَ: لَو أَنَّهُم رَأَوهَا کَانُوْا أَشَدَّ عَلَیهَا حِرْصاً، وَأَشَدَّ لَهَا طَلَباً، وَأَعظَمَ فِیهَا رَغبَۃً؛ قَالَ: فَمِمَّ یَتَعَوَّذُونَ؟ فَیَقُولُونَ: یَتَعَوَّذُونَ مِنَ النَّارِ، فَیَقُولُ: وَهَل رَأَوهَا؟ فَیَقُولُونَ: لَا، فَیَقُولُ: فَکَیفَ لَو رَأَوهَا؟ فَیَقُولُونَ: لَو أَنَّهُم رَأَوهَا کَانُوا أَشَدَّ مِنهَا فِرَاراً، وَأَشَدَّ لَهَا مَخَافَۃً؛ فَیَقُولُ: أُشهِدُکُم أَنِّي قَد غَفَرتُ لَهُم، فَیَقُولُ مَلِكٌ مِنَ المَلَائِکَۃِ: فُلَانٌ لَیسَ مِنهُم، إِنَّمَا جَاءَ لِحَاجَۃٍ، قَالَ: هُمُ القَومُ لَایَشقیٰ بِهِمْ جَلِیسُهُمْ.
(رواہ البخاري ومسلم، والبیهقي في الأسماء والصفات؛ کذا في الدر والمشکوۃ)
ترجَمہ:حضورِ اقدس ﷺکا ارشاد ہے کہ: فرشتوں کی ایک جماعت ہے جو راستوں وغیرہ میں گَشت کرتی رہتی ہے، اور جہاں کہیں اُن کو اللہ کا ذکر کرنے والے ملتے ہیں تو وہ آپس میں ایک دوسرے کو بُلاکر سب جمع ہوجاتے ہیں، اور ذِکر کرنے والوں کے گِرد آسمان تک جمع ہوتے رہتے ہیں، جب وہ مجلس ختم ہوجاتی ہے تو وہ آسمان پر جاتے ہیں، اللہ دباوجودیکہ ہر چیز کو جانتے ہیں، پھر بھی دریافت فرماتے ہیں کہ: تم کہاں سے آئے ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ: تیرے بندوں کی فلاں جماعت کے پاس سے آئے ہیں جو تیری تسبیح اور تکبیر اور تحمید (بَڑائی بیان کرنے)اور تعریف کرنے میں مشغول تھے، ارشاد ہوتا ہے: کیا اُن لوگوں نے مجھے دیکھا ہے؟ عرض کرتے ہیں: یا اللہ! دیکھا تو نہیں، ارشاد ہوتا ہے کہ: اگر وہ مجھے دیکھ لیتے تو کیا حال ہوتا؟ عرض کرتے ہیں کہ: اَور بھی زیادہ عبادت میں مشغول ہوتے، اور اِس سے بھی زیادہ تیری تعریف اور تسبیح میں مُنہمِک ہوتے، ارشاد ہوتا ہے کہ: وہ کیاچاہتے ہیں؟ عرض کرتے ہیں کہ: وہ جنت چاہتے ہیں، ارشاد ہوتا ہے: کیا اُنھوں نے جنت کو دیکھا ہے؟ عرض کرتے ہیں کہ: دیکھاتو نہیں، ارشاد ہوتا ہے: اگر دیکھ لیتے تو کیا ہوتا؟ عرض کرتے ہیںکہ: اِس سے بھی زیادہ شوق اور تمنا اور اُس کی طَلَب میں لگ جاتے، پھر ارشاد ہوتا ہے کہ: کس چیز سے پناہ مانگ رہے تھے؟ عرض کرتے ہیں کہ: جہنَّم سے پناہ مانگ رہے تھے، اِرشاد ہوتاہے: کیا اُنھوں نے جہنَّم کو دیکھا ہے؟ عرض کرتے ہیں کہ: دیکھا تو ہے نہیں، ارشاد ہوتا ہے: اگر دیکھتے توکیاہوتا؟ عرض کرتے ہیں: اَور بھی زیادہ اِس سے بھاگتے اور بچنے کی کوشش کرتے، ارشاد ہوتا ہے: اچھا! تم گواہ رہو کہ مَیں نے اُس مجلس والوں کو سب کو بخش دیا، ایک فرشتہ عرض کرتا ہے: یا اللہ! فلاں شخص اِس مجلس میں اِتِّفاقاً اپنی کسی ضرورت سے آیا تھا، وہ اِس مجلس کا شریک نہیں تھا، ارشاد ہوتا ہے کہ: یہ جماعت ایسی مبارک ہے کہ اُن کا پاس بیٹھنے والا بھی محروم نہیں ہوتا؛ (لہٰذا اُس کو بھی بخش دیا)۔
گِرد: آس پاس۔ مُنہمِک: مشغول۔ مَبادا: ایسا نہ ہو۔ شاہدِ عَدل: سچے گواہ۔ مُحِب: محبت کرنے والا۔ خُودی: تکبُّر۔ وابَستہ: متعلِّق۔ہَیبت: عظمت۔ تسکین: تسلی۔قابلِ اِلتِفات: توجُّہ کے قابل۔ طَعن وتَشنِیع: بُرا بھلا کہنا۔ کِواڑ: دروازہ۔ ناگوار: ناپسند۔ وَلیٔ عَہد: بادشاہِ وقت کا ہونے والا جانشین۔
فائدہ: اِس قِسم کامضمون مُتعدَّد اَحادِیث میں وَارِد ہوا ہے کہ: فرشتوں کی ایک جماعت ذکر کی مَجالس اور ذکر کرنے والی جماعتوں اور اَفراد کی تلاش میں رہتی ہے، اور جہاں مل جاتی ہے اُن کے پاس یہ جماعت بیٹھتی ہے، اُن کا ذکر سنتی ہے؛ چناںچہ پہلے باب کی حدیث ۸؍ میں یہ مضمون گزر چکا ہے، اور اُس میں یہ گذر چکا ہے کہ: فرشتوں سے تفاخُر کے طور پر اللہداِس کا ذکر کیوں فرماتے ہیں؟۔
فرشتے کا یہ عرض کرنا کہ: ’’ایک شخص مجلس میں ایسابھی تھا کہ جو اپنی ضرورت سے آیا تھا‘‘ واقعے کا اِظہار ہے، کہ اُس وقت یہ حضرات بہ منزلۂ گواہوں کے ہیں، اور اِن لوگوں کی عبادت اور ذِکرُ اللہ میں مشغولی کی گواہی دے رہے ہیں، اِسی وجہ سے اِس کے اِظہار کی ضرورت پیش آئی، کہ مَبادا اعتراض ہوجائے؛ لیکن یہ اللہ کا لُطف ہے کہ ذاکرین کی برکت سے اُن کے پاس اپنی ضرورت سے بیٹھنے والے کو بھی محروم نہ فرمایا۔ اللہجَلَّ شَانُہٗکا ارشاد ہے: ﴿یٰأَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَکُونُوْا مَعَ الصّٰدِقِینَ﴾ (التوبۃ،ع:۱۵) (اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو)۔
صوفیا کا ارشاد ہے کہ: اللہدکے ساتھ رہو، اور اگر یہ نہیں ہوسکتا تو پھر اُن لوگوں کے ساتھ رہو جوکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ساتھ رہنے کا مطلب یہ ہے -جیسا کہ صحیح بخاری میں ارشادہے- حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: بندہ نوافل کے ذریعے میرے قُرب میں ترقی کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ مَیں اُس کو اپنا محبوب بنا لیتا ہوں، اور جب مَیں محبوب بنالیتا ہوں تو مَیں اُس کا کان بن جاتا ہوںجس سے وہ سُنے، اُس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے دیکھے، اُس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے پکڑے، اُس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلے، جو وہ مجھ سے مانگتا ہے مَیں اُس کو دیتا ہوں۔ (بخاری،کتاب الرقاق،باب التواضع،۲؍۹۶۲حدیث:۶۵۰۲)
ہاتھ، پاؤں بن جانے کا مطلب یہ ہے کہ، اُس کاہرکام اللہ کی رَضا اور محبت کے ذیل میں ہوتا ہے، اُس کا کوئی عمل بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف نہیں ہوتا۔ صوفیا کے اَحوال اور اُن کے واقعات جو کثرت سے تواریخ میں موجود ہیں، وہ شاہدِ عَدل ہیں، اور وہ اِتنی کثرت سے ہیں کہ اُن کے اِنکار کی بھی گنجائش نہیں۔ ایک رسالہ اِس باب میں ’’نُزہَۃُ البَساتِین‘‘ کے نام سے مشہور ہے، جس سے اِس قِسم کے حالات کا پتہ چلتا ہے۔
شیخ ابوبکر کَتَّانیؒ کہتے ہیں کہ: ایک مرتبہ حج کے موقع پر مکہ مکرمہ میں چند صوفیا کا اِجتِماع تھا، جن میں سب سے کم عمر حضرت جنید بغدادیؒ تھے، اُس مجمع میں محبتِ اِلٰہی پر بحث شروع ہوئی، کہ مُحِب کون ہے؟ مختلف حضرات ارشادات فرماتے رہے، حضرت جنیدؒ چپ رہے، اُن حضرات نے اُن سے فرمایا کہ: تم بھی کچھ کہو، اِس پر اُنھوں نے سر جھکاکر روتے ہوئے فرمایا کہ: ’’عاشق وہ ہے جو اپنی خُودی سے جاتا رہے، خدا کے ذکر کے ساتھ وابَستہ ہوگیا ہو، اور اُس کا حق ادا کرتا ہو، دل سے اللہ کی طرف دیکھتا ہو، اُس کے دل کو اَنوارِہَیبت نے جَلادیا ہو، اُس کے لیے خدا کا ذکر شراب کا پیالہ ہو، اگر کلام کرتا ہوتو اللہ ہی کا کلام ہو، گویا حق تَعَالیٰ شَانُہٗہی اُس کی زبان سے کلام فرماتا ہے، اگر حرکت کرتا ہو تو اللہ ہی کے حکم سے، اگر تسکین پاتا ہوتو اللہ ہی کے ساتھ، اور جب یہ حالت ہوجاتی ہے تو پھر کھانا، پینا،سونا، جاگنا؛ سب کاروبار اللہ ہی کی رَضا کے واسطے ہوجاتے ہیں، نہ دنیا کا رَسم ورِواج قابلِ اِلتِفات رہتا ہے نہ لوگوں کی طَعن وتَشنِیع قابلِ وَقعت‘‘۔(روض الریاحین،ص:۹۳حکایت:۱۰۰)
حضرت سعید بن المُسیِّبؒ مشہور تابعی ہیں، بڑے مُحدِّثین میں شمار ہیں، اُن کی خدمت میں ایک شخص عبداللہ بن اَبی وَداعہ کثرت سے حاضر ہوا کرتے تھے، ایک مرتبہ چند روز حاضر نہ ہوسکے، کئی روز کے بعد جب حاضر ہوئے تو حضرت سعیدؒ نے دریافت فرمایا: کہاں تھے؟ عرض کیا کہ: میری بیوی کا انتقال ہوگیا ہے، اُس کی وجہ سے مَشاغل میں پھنسا رہا، فرمایا: ہم کو خبر نہ کی، ہم بھی جنازے میں شریک ہوتے، تھوڑی دیر کے بعد مَیں اُٹھ کر آنے لگا، فرمایا: دوسرا نکاح کرلیا؟ مَیںنے عرض کیا: حضرت! مجھ سے کون نکاح کردے گا؟ دو تین آنے کی میری حیثیت ہے، آپ نے فرمایا: ہم کر دیںگے، اور یہ کہہ کر خطبہ پڑھا اور اپنی بیٹی کا نکاح نہایت معمولی مہر آٹھ، دس آنے پر مجھ سے کردیا، (اِتنی مقدار مہر کی اُن کے نزدیک جائز ہوگی جیسا کہ بعض اماموں کا مذہب ہے، حَنفِیَّہ کے نزدیک ڈھائی روپئے سے کم جائز نہیں)نکاح کے بعد مَیں اُٹھا اور اللہ ہی کو معلوم ہے کہ مجھے کس قدر مَسرَّت تھی! خوشی میں سوچ رہا تھا کہ، رخصتی کے انتظام کے لیے کس سے قرض مانگوں؟ کیا کروں؟ اِسی فکر میں شام ہوگئی، میرا روزہ تھا، مغرب کے وقت روزہ افطار کیا، نماز کے بعد گھر آیا، چَراغ جَلایا، روٹی اور زیتون کا تیل موجود تھا، اُس کو کھانے لگا کہ کسی شخص نے دروازہ کھَٹکھٹایا، مَیں نے پوچھا: کون ہے؟ کہا: سعید ہے، مَیں سوچنے لگا کہ: کون سعید ہے؟ حضرت کی طرف میرا خَیال بھی نہ گیا، کہ چالیس برس سے اپنے گھر یامسجد کے سِوا کہیں آنا جا نا تھا ہی نہیں، باہر آکر دیکھا کہ: سعید بن المُسیِّب ہیں، مَیں نے عرض کیا:آپ نے مجھے نہ بُلا لیا، فرمایا: میرا ہی آنا مناسب تھا، مَیں نے عرض کیا: کیا ارشاد ہے؟ فرمایا: مجھے یہ خَیال آیا کہ اب تمھارا نکاح ہوچکا ہے، تنہا رات کو سونا مناسب نہیں؛ اِس لیے تمھاری بیوی کو لایا ہوں، یہ فرماکر اپنی لڑکی کو دروازے کے اندر کردیا، اور دروازہ بند کرکے چلے گئے، وہ لڑکی شرم کی وجہ سے گِر گئی، مَیں نے اندر سے کِواڑ بند کیے، اور وہ روٹی اور تیل -جو چَراغ کے سامنے رکھا تھا- وہاں سے ہٹادیا، کہ اُس کی نظر نہ پڑے، اور مکان کی چھت پر چڑھ کر پڑوسیوں کو آواز دی، لوگ جمع ہوگئے تو مَیں نے کہا کہ: حضرت سعیدؒ نے اپنی لڑکی سے میرا نکاح کر دیا ہے، اور اِس وقت وہ اُس کو خود ہی پہنچاگئے ہیں، سب کو بڑا تعجب ہوا، کہنے لگے: واقعی وہ تمھارے گھر میں ہے، مَیں نے کہا: ہاں! اِس کا چرچا ہوا، میری والدہ کو خبر ہوئی، وہ بھی اُسی وقت آگئیں، اور کہنے لگیں کہ: اگر تین دن تک تُونے اِس کو چھیڑا تو تیرا منھ نہ دیکھوںگی، ہم تین دن میں اِس کی تیاری کرلیں، تین دن کے بعد جب مَیں اُس لڑکی سے مِلا تو دیکھا: نہایت خوب صورت، قرآن شریف کی بھی حافظ، اور سنتِ رسول سے بھی بہت زیادہ واقف، شوہر کے حقوق سے بھی بہت زیادہ باخبر، ایک مہینے تک نہ تو حضرت سعیدؒ میرے پاس آئے نہ مَیں اُن کی خدمت میں گیا، ایک ماہ کے بعد مَیں حاضر ہوا تو وہاں مجمع تھا، مَیں سلام کرکے بیٹھ گیا، جب سب چلے گئے توفرمایا: اُس آدمی کو کیسا پایا؟ مَیں نے عرض کیا: نہایت بہتر ہے کہ دوست دیکھ کر خوش ہوں، دشمن جَلیں، فرمایا: اگر کوئی بات ناگوار ہوتو لکڑی سے خبرلینا، مَیں واپس آگیا تو ایک آدمی کو بھیجا جو بیس ہزار درہم (تقریباً پانچ ہزار روپیہ) مجھے دے گیا۔اُس لڑکی کو عبدالملک بن مَروان بادشاہ نے اپنے بیٹے ولید کے لیے -جو وَلیٔ عَہدبھی تھا- مانگا تھا؛ مگر حضرت سعیدؒ نے عُذر کردیا تھا، جس کی وجہ سے عبدالملک ناراض بھی ہوا، اور ایک حِیلے سے حضرت سعیدؒ کے سوکوڑے سخت سردی میں لگوائے، اور پانی کا گھڑا اُن پرگِروایا۔(حلیۃ الاولیاء۲؍۱۶۷)
(۱۵) عَن ابنِ عُمَرَ قَالَ: سَمِعتُ رَسُولَ اللہِﷺ یَقُولُ: مَن قَالَ: ’’سُبْحَانَ اللہِ، وَالحَمدُ لِلّٰہِ،وَلَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ، وَاللہُ أَکبَرُ‘‘ کُتِبَتْ لَہٗ بِکُلِّ حَرفٍ عَشْرُ حَسَنَاتٍ، وَمَن أَعَانَ عَلیٰ خُصُومَۃٍ بَاطِلٍ لَم یَزَلْ فِيسَخطِ اللہِ حَتّٰی یَنزِعَ،وَمَن حَالَتْ شَفَاعَتُہٗ دُونَ حَدٍّمِن حُدُودِاللہِ فَقَد ضَادَّ اللہَ فِي أَمرِہٖ، وَمَن بَهَّتَ مُؤْمِناًأَومُؤْمِنَۃً حَبَسَہُ اللہُ فِيرَدغَۃِ الخِبَالِ یَومَ القِیَامَۃِ حَتّٰی یَخرُجَ مِمَّا قَالَ وَلَیسَ بِخَارِجٍ.
(رواہ الطبراني في الکبیر والأوسط، ورجالهما رجال الصحیح؛ کذا في مجمع الزوائد. قلت: أخرجہ أبوداود بدون ذکر التسبیح فیہ)
ترجَمہ: حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: جو شخص سُبْحَانَ اللہِ، اَلحَمدُ لِلّٰہِ، لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ، اللہُ أَکبَرُ پڑھے، ہر حرف کے بدلے میں دس نیکیاں ملیںگی، اور جو شخص کسی جھگڑے میں ناحق کی حِمایت کرتا ہے وہ اللہ کے غُصے میں رہتا ہے جب تک کہ اُس سے توبہ نہ کرے، اور جو اللہ کی کسی سزا میں سفارش کرے اور شرعی سزا کے ملنے میں حارِج ہو وہ اللہ کا مقابلہ کرتا ہے، اور جو شخص کسی مومن مرد یا عورت پر بہتان باندھے وہ قِیامت کے دن رَدغَۃُ الخِبال میں قید کیاجائے گا یہاں تک کہ اُس بہتان سے نکلے، اور کس طرح اُس سے نکل سکتا ہے!!۔
حِمایت: طرف داری۔ حارِج: رُکاوَٹ۔ کُنبہ: خاندان۔ اَذیَّت: تکلیف۔ چَرب لِسانی: میٹھی باتیں۔
فائدہ:
ناحق کی حِمایت آج کل ہماری طبیعت بن گئی ہے، ایک چیز کو ہم سمجھتے ہیں کہ ہم غلَطی پر ہیں؛ مگر رشتے داروں کی طرف داری ہے، پارٹی کا سوال ہے، لاکھ اللہ کے غصے میں داخل ہوں، اللہ کی ناراضگی ہو، اُس کا عِتاب ہو؛ مگر کُنبہ، بِرادری کی بات کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، ہم اُس ناحق کرنے والے کو ٹوک نہ سکیں اور سکوت کریں یہ بھی نہیں، بلکہ ہر طرح سے اُس کی حِمایت کریںگے، اگر اِس پر کوئی دوسرا مُطالَبہ کرنے والا کھڑا ہوا تو اُس کامقابلہ کریںگے، کسی دوست نے چوری کی، ظلم کیا، عَیَّاشی کی، اُس کے حوصلے بلند کریںگے، اُس کی ہر طرح مدد کریںگے، کیا یہی ہے ہمارے ایمان کامُقتَضیٰ؟ یہی ہے دین داری؟ اِسی پر اسلام کے ساتھ ہم فخر کرتے ہیںیا اپنے اسلام کو دوسروں کی نگاہ میں بھی بدنام کرتے ہیں اور اللہ کے یہاں خود بھی ذلیل ہوتے ہیں؟۔
ایک حدیث میں ہے کہ: جو شخص عَصَبِیَّت پر کسی کو بُلائے یا عصبیت پر لڑے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔(مسلم،کتاب الامارۃ،باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین عند ظہورالفتن، ۲؍۱۲۷ حدیث: ۱۸۴۸)دوسری حدیث میں ہے کہ: عصبیت سے یہ مراد ہے کہ ظلم پر اپنی قوم کی مدد کرے۔(ابوداود، کتاب الادب،باب العصبیۃ،ص:۶۹۸حدیث:۵۱۱۹)
’’رَدغَۃُ الخِبال‘‘ وہ کیچڑ ہے جو جہنَّمی لوگوں کے لَہُو، پِیپ وغیرہ سے جمع ہوجائے۔ کس قدر گندی اور اَذیَّت دینے والی جگہ ہے! جس میں ایسے لوگوں کو قید کردیاجائے گا جو مسلمانوں پر بہتان باندھتے ہوں۔ آج دنیا میں بہت سَرسَری معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کے مُتعلِّق جو چاہا منھ بھر کر کہہ دیا، کَل جب زبان سے کہی ہوئی ہربات کو ثابت کرنا پڑے گا، اور ثبوت بھی وہی جو شرعاً مُعتبر ہو، دنیا کی طرح نہیں کہ چَرب لِسانی اور جھوٹی باتیں ملاکر دوسرے کو چُپ کر دیا جائے، اُس وقت آنکھیں کھلیںگی کہ ہم نے کیا کہا تھا اور کیا نکلا؟۔
نبیٔ کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ: آدمی بعض کلام زبان سے ایسا نکلتا ہے جس کی پرواہ بھی نہیں کرتا؛ لیکن اُس کی وجہ سے جہنَّم میں پھینک دیا جاتا ہے۔(بخاری،کتاب الرقاق،باب حفظ اللسان۲؍۹۵۹ حدیث:۶۴۷۸)
ایک حدیث میں ہے کہ: آدمی بعض بات صرف اِس وجہ سے کہتا ہے کہ لوگ ذرا ہنس پڑیںگے؛ لیکن اُس کی وجہ سے اِتنی دُور جہنَّم میں پھینک دیا جاتا ہے جتنی دُور آسمان سے زمین ہے۔ پھر ارشاد فرمایا کہ: زبان کی لغزش، پاؤں کی لغزش سے زیادہ سخت ہے۔(مسند احمد،۔۔۔۔۔حدیث:۱۱۳۳۱)
ایک حدیث میں ہے: جو شخص کسی کو کسی گناہ سے عار دِلاوے وہ خود مرنے سے پہلے اُس گناہ میں مُبتلا ہوتا ہے۔(ترمذی، ابواب صفۃ القیامۃ،باب،۲؍۷۷حدیث:۲۵۰۵)
امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ: وہ گناہ مراد ہے جس سے گنہ گار توبہ کرچکا ہو۔
حضرت ابوبکر صدیق ص اپنی زبان مبارک کو پکڑ کر کھینچتے تھے، کہ تیری بہ دولت ہم ہلاکتوں میں پڑتے ہیں۔(موطا مالک،کتاب الجامع،باب مایخاف من اللسان، ۔۔۔۔۔۔۔ حدیث:۱۸۱۰)
ابنُ المُنکَدِرؒ -مشہور مُحدِّثین میں ہیں اور تابعی ہیں- اِنتقال کے وقت رونے لگے، کسی نے پوچھا: کیابات ہے؟ فرمانے لگے: مجھے کوئی گناہ تو ایسا معلوم نہیں جو مَیں نے کیا ہو، اِس پر روتا ہوں کوئی بات ایسی ہوگئی ہو جس کو مَیں نے سَرسَری سمجھا ہو اور وہ اللہ کے نزدیک سخت ہو۔
(۱۶)عَن أَبِي بَرزَۃِ الأَسلَمِيِّ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللہِﷺ یَقُولُ بِاٰخِرِہٖ إِذَا أَرَادَ أَن یَقُومَ مِنَ المَجلِسِ:’’سُبحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمدِكَ، أَشهَدُ أَن لَاإِلٰہَ إِلَّا أَنتَ، أَستَغفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَیكَ‘‘، فَقَالَ رَجُلٌ: یَارَسُولَ اللہِ! إِنَّكَ لَتَقُولُ قَولًا مَاکُنتَ تَقُولُہٗ فِیمَا مَضیٰ؟ قَالَ: کَفَّارَۃٌ لِمَایَکُونُ فِي المَجلِسِ.
(رواہ ابن أبي شیبۃ وأبوداود والنسائي والحاکم وابن مردویہ؛ کذا في الدر، وفیہ أیضا بروایۃ ابن أبي شیبۃ عن أبي العالیۃ بزیادۃ: عَلَّمَنِیهِنَّ جِبرَئِیلُ)
ترجَمہ: حضورِ اقدس ﷺ کا معمول اخیر زمانۂ عمر شریف میں یہ تھا کہ، جب مجلس سے اُٹھتے تو پڑھا کرتے: ’’سُبحَانَكَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمدِكَ، أَشهَدُ أَن لَاإِلٰہَ إِلَّا أَنتَ، أَستَغفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَیكَ‘‘ کسی نے عرض کیا کہ: آج کل ایک دعا کا معمول حضورﷺ کا ہے پہلے تو یہ معمول نہیں تھا؟ حضورﷺنے ارشاد فرمایا کہ: یہ مجلس کا کَفَّارہ ہے۔ دوسری روایت میں بھی یہ قِصَّہ مذکور ہے، اُس میں حضورِ اقدس ﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ: یہ کلمات مجلس کا کَفَّارہ ہیں، حضرت جبرئیل ں نے مجھے بتائے ہیں۔
فائدہ: حضرت عائشہ رَضِيَ اللہُ عَنْهَا سے بھی نقل کیاگیا ہے کہ: نبیٔ اَکرم ﷺ جب بھی مجلس سے اُٹھتے تو’’سُبحَانَكَ اللّٰہُمَّ رَبِّيْ وَبِحَمدِكَ، لَاإِلٰہَ إِلَّا أَنتَ، أَستَغفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَیكَ‘‘ پڑھتے، مَیں نے عرض کیا کہ: آپ اِس دعا کو بڑی کثرت سے پڑھتے ہیں، ارشاد فرمایا کہ: جو شخص مجلس کے ختم پر اِس کو پڑھ لیا کرے تو اُس مجلس میں جو لغزشیں اُس سے ہوئی ہوں وہ سب مُعاف ہوجائیںگی۔ (مسندحاکم، ۱؍ ۶۷۴ حدیث: ۱۸۲۷؍ ۲۷)
فُضول: لغو۔ خَلاصی: چھُٹکارا۔ مَرحَمت: عنایت۔
مجالِس میں عموماً فُضول باتیں، بے کار تذکرے ہو ہی جاتے ہیں، کتنی مختصر دعا ہے! اگر کوئی شخص اِن دعاؤں میں سے کوئی سی ایک دعا پڑھ لے تو مجلس کے وَبال سے خَلاصی پاسکتا ہے۔ حق تَعَالیٰ شَانُہٗ نے کیسی کیسی سَہولتیں مَرحَمت فرمائی ہیں!!۔
(۱۷) عَنِ النُّعمَانِ بنِ بَشِیرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: اَلَّذِینَ یَذکُرُونَ مِنْ جَلَالِ اللہِ مِن تَسبِیحِہٖ وَتَحمِیدِہٖ وَتَکبِیرِہٖ وَتَهلِیلِہٖ یَتَعَاطَفْنَ حَولَ العَرشِ، لَهُنَّ دَوِيٌّ کَدَوِیِّ النَّحْلِ، یَذکُرُونَ بِصَاحِبِهِنَّ؛ أَلَایُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَن لَایَزَالَ لَہٗ عِندَ اللہِ شَيْئٌ یَذکُرُ بِہٖ!.
(رواہ أحمد والحاکم، وقال: صحیح الإسناد، قال الذهبي: موسیٰ بن سالم قال أبوحاتم: منکرالحدیث، ولفظ الحاکم: ’’کَدَوِيِّ النَّحلِ یَقُلْنَ لِصَاحِبِهِنَّ‘‘، وأخرجہ بسند اٰخر، وصححہ علیٰ شرط مسلم، وأقرہ علیہ الذهبي، وفیہ: کَدَوِيِّ النَّحلِ یَذکُرُونَ بِصَاحِبِهِنَّ)
ترجَمہ: حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ :جو لوگ اللہ تعالیٰ کی بَڑائی بیان کرتے ہیں یعنی: سُبْحَانَ اللہِ، اَلحَمدُ لِلّٰہِ، اللہُ أَکبَرُ، لَاإلٰہَ إِلَّا اللہُپڑھتے ہیں، تو یہ کلمات عرش کے چاروں طرف گشت لگاتے ہیں کہ اُن کے لیے ہلکی سے آواز (بھِنبھِناہٹ)ہوتی ہے، اور اپنے پڑھنے والے کا تذکرہ کرتے ہیں، کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ کوئی تمھارا تذکرہ کرنے والا اللہ کے پاس موجود ہوجو تمھارا ذکرِ خیر کرتا رہے؟۔
حُکَّام رَس: بادشاہوں تک پہنچے ہوئے۔ وائسِرائے: بادشاہ کا نائب۔ مَول: خریدنا۔ بینکا: ٹیڑھا۔ وَقیع: عظمت والا۔
فائدہ: جولوگ حُکَّام رَس ہیں، کرسی نَشیں کہلاتے ہیں، کوئی اُن سے پوچھے کہ: بادشاہ نہیں، وزیر نہیں، وائسِرائے کو بھی چھوڑ دیجیے، کسی گورنر کے یہاں اُن کی تعریف جائے، اُن کا ذکرِ خیر آجائے، پھُولے نہیں سَماتے، دماغ آسمان پر پہنچ جاتا ہے؛ حالاںکہ اِس تذکرے سے نہ تو دِین کا نفع نہ دنیا کا، دین کانفع نہ ہونا تو ظاہر اور کھُلا ہوا ہے، اور دنیا کا نفع نہ ہونا اِس وجہ سے کہ شاید جتنا نفع اِس قِسم کے تذکروں سے ہوتا ہو اُس سے زیادہ نقصان اِس نوع کے مرتبے اور تذکرے حاصل کرنے میں پہنچ جاتا ہے، جائدادیں فروخت کرکے سودی قرض لے کر ایسے مرتبے حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، مُفت کی عَداوَتیں مَول لی جاتی ہیں، اور ہر قِسم کی ذِلَّتیں برداشت کی جاتی ہے۔ اِلکشنوں کے منظر سب کے سامنے ہیں، کیا کیا کرنا پڑتا ہے؟ اِس کے بِالمُقابل اللہدکے عرش پر تذکرہ، مالکُ المُلک کے حضور میں تذکرہ، اُس پاک ذات کے یہاں تذکرہ جس کے قبضے میں دین اور دنیا اور سارے جہانوں کی ہر چیز ہے، اُس قدرت والے کے یہاں تذکرہ جس کے قبضے میں بادشاہوں کے دل ہیں، حاکموں کے اِختیارات اُس کے اِختیار میں ہیں، نفع اورنقصان کا واحد مالک وہی ہے، سارے جہان کے تمام آدمی: حاکم ومحکوم، بادشاہ ورعایا کسی کو نقصان پہنچانا چاہیں اور وہ مالکُ المُلک نہ چاہے تو کوئی بال بھی بینکا نہیں کرسکتا، ساری مخلوق کسی کو نفع پہنچانا چاہے اور اُس کی رَضا نہ ہوتو ایک قَطرہ پانی کا نہیں پلا سکتی، ایسی پاک ذات کے یہاں اپنا ذکرِ خیر ہو، کوئی دولت دنیا کی اُس کا مُقابلہ کرسکتی ہے؟ کوئی عزت دنیا کی -خواہ کتنی ہی بڑی ہوجائے- اِس کی برابری کرسکتی ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں، اور اِس کے مقابلے میں دنیا کی کسی عزت کو اگر وَقیع سمجھاجائے تو کیا اپنے اوپر ظلم نہیں؟۔
(۱۸) عَن یَسِیرَۃَ -وَکَانَت مِنَ المُهَاجِرَاتِ- قَالَت: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللہِﷺ: عَلَیکُنَّ بِالتَّسبِیحِ وَالتَّهلِیلِ وَالتَّقدِیسِ، وَاعْقِدنَ بِالأَنَامِلِ، فَإِنَّهُنَّ مَسئُولَاتٌ مُستَنْطِقَاتٌ، وَلَاتَغفَلنَ فَتُنسِینَ الرَّحمَۃَ.
(رواہ الترمذي وأبوداود، کذا في المشکاۃ؛ وفي المنهل: أخرجہ أیضا أحمد والحاکم. اھ وقال الذهبي في تلخصیہ: صحیح، وکذا رقم لہ بالصحۃ في الجامع الصغیر، وبسط صاحب الاتحاف في تخریجہ. ’’وَقَالَ عَبدُاللہِ بنِ عَمروٍ رَأَیتُ رَسُولَ اللہِﷺ یَعقِدُ التَّسبِیحَ‘‘، رواہ أبوداود والنسائي والترمذي وحسنہ والحاکم؛ کذا في الاتحاف وبسط في تخریجہ، ثم قال: قال الحافظ: معنی العقد المذکور في الحدیث إحصاء العدد، وهو اصطلاح العرب بوضع بعض الأنامل علی بعض عقد أنملۃ أخریٰ، فالاٰحاد والعشرات بالیمین، والمئون والاٰلاف بالیسار)
ترجَمہ: حضرت یسیرہ رَضِيَ اللہُ عَنْهَا-جو ہجرت کرنے والی صحابیات میں سے ہیں- فرماتی ہیں کہ: حضورِ اقدس ﷺنے ارشاد فرمایا کہ: اپنے اوپر تسبیح ( سُبْحَانَ اللہِ)کہنا، اور تہلیل (لَاإِلٰہَ إِلَّااللہُپڑھنا)، اور تَقدِیس (اللہ کی پاکی بیان کرنا، مثلاً: سُبحَانَ المَلِكِ القُدُّوسِپڑھنا یا سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّنَا وَرَبُّ المَلٰئِکَۃِ وَالرُّوحِکہنا) لازم کرلو، اور انگلیوں پر گنا کرو؛ اِس لیے کہ انگلیوں سے قِیامت میں سوال کیاجاوے گا اور اُن سے جواب طلب کیا جائے گا، کہ کیا عمل کیے؟ اور جواب میں گویائی دی جائے گی، اور اللہ کے ذکر سے غفلت نہ کرنا، (اگر ایسا کروگی تو اللہ کی)رحمت سے محروم کردی جاؤگی۔
گویائی: بولنے کی طاقت۔ مُہلِک: ہلاک کردینے والا۔ مَحو: ختم۔ کَالعَدَم: نہ ہونے کے برابر۔ مُسلَّط: متعیَّن۔ مُسلَّط: متعیَّن۔ مُدَّعِی: دعویٰ کرنے والا۔ شِکَستہ حال: بے حال۔ دردِ فِراق: جُدائی کے غم۔ سَعادت: نیک بختی۔
فائدہ: قِیامت میں آدمی کے بدن سے، اُس کے ہاتھ پاؤں سے بھی سوال ہوگا، کہ ہر ہر حصۂ بدن نے کیا کیا نیک کام کیے اور کیا کیا ناجائز اور بُرے کام کیے؟ قرآن پاک میں متعدِّد جگہ اِس کا ذکر ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے: ﴿یَوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْہِمْ أَلْسِنَتُہُمْ وَأَیْدِیْہِمْ﴾ الاٰیۃ.(النور، ع:۱۳) (جس روز اُن کے خلاف گواہی دیںگی اُن کی زبانیں اور اُن کے ہاتھ اور پاؤں اُن کاموں کی (یعنی گناہوں کی)جن کو یہ کرتے تھے)۔دوسری جگہ ارشاد ہے: ﴿وَیَوْمَ یُحْشَرُ أَعْدَائُ اللہِ إِلَی النَّارِ﴾ الاٰیۃ (حم السجدۃ،ع:۳) اِس جگہ کئی آیتوں میں اِس کا ذکر ہے، جن کاترجَمہ یہ ہے کہ: جس دن (حشر میں)اللہ کے دشمن جہنَّم کی طرف جمع کیے جائیںگے، پھر اُن کو ایک جگہ روک دیا جاوے گا، پھر سب کے سب اُس جہنَّم کے قریب آجائیںگے تو اُن کے کان، اُن کی آنکھیں، اُن کی کھالیں اُن پرگواہیاں دیںگے، (اور بتائیںگی کہ ہمارے ذریعے سے اِس شخص نے کیا کیا گناہ کیے؟) اُس وقت وہ لوگ (تعجب سے) اُن سے کہیںگے کہ: تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی! (ہم تو دنیا میں تمھاری ہی لَذَّت اور راحت کے واسطے گناہ کرتے تھے،)وہ جواب دیںگے کہ: ہم کو اُس پاک اللہ نے گویائی عطا کی جس نے سب چیزوں کو گویائی عطا فرمائی، اُسی نے تم کو بھی اوَّل پیدا کیا تھا، اور اُسی کے پاس اب تم لوٹائے گئے ہو۔
احادیث میں اِس گواہی کے متعدِّد واقعات ذکر کیے گئے ہیں:
ایک حدیث میں وارد ہے کہ: قِیامت کے دن کافر باوجودیکہ اپنی بد اعمالیوں کو جانتا ہوگا، پھر بھی انکار کرے گا کہ مَیں نے گناہ نہیں کیے، اُس سے کہاجائے گا کہ: یہ تیرے پڑوسی تجھ پر گواہی دیتے ہیں، وہ کہے گا کہ: یہ لوگ دشمنی سے جھوٹ بولتے ہیں، پھر کہاجائے گا کہ: تیرے عزیز اَقارب گواہی دیتے ہیں، وہ اُن کو بھی جھُٹلائے گا، تو اُس کے اَعضاکو گواہ بنایاجائے گا۔(مسندحاکم،۴؍۶۴۸، حدیث:۸۷۹۰؍۱۱۵)
ایک حدیث میں ہے کہ: سب سے پہلے ران گواہی دے گی کہ کیا کیا بداعمالیاں اُس سے کَرائی گئی تھیں؟۔(مسند احمد،۔۔۔۔۔۔۔۔حدیث:۲۰۰۱۱)
ایک حدیث میں ہے کہ: پُل صراط سے آخری گذرنے والا اِس طرح گِرتا پڑتا گزرے گا جیسے کہ بچہ جب اُس کوباپ مار رہا ہو، کہ وہ کبھی اِدھر گرتا ہے کبھی اُدھر، فرشتے اُس سے کہیںگے کہ: اچھا! اگر تُو سیدھا چل کر پُل صراط سے گزر جائے تو اپنے سب اَعمال بتادے گا؟ وہ اِس کا وعدہ کرے گا کہ مَیں سچ مُچ سب بتادوںگا، اور اللہ کی عزت کی قَسم کھا کر کہے گا کہ: کچھ نہیں چھپاؤںگا، وہ کہیںگے کہ: اچھا! سیدھاکھڑا ہوجا اور چل، وہ سَہولت سے پُل صِراط پر گزر جائے گا، اورپار ہوجانے کے بعد اُس سے پوچھا جائے گا کہ: اچھا! اب بتا، وہ سوچے گا کہ: اگر مَیں نے اِقرار کرلیا تو ایسا نہ ہو کہ مجھ کو واپس کردیاجائے؛ اِس لیے صاف انکار کردے گا کہ مَیں نے کوئی بُرا عمل نہیں کیا، فرشتے کہیںگے کہ: اچھا! اگر ہم نے گواہ پیش کردیے تو؟ وہ اِدھر اُدھر دیکھے گاکہ کوئی آدمی آس پاس نہیں، اُس کو خَیال ہوگا کہ: اب گواہ کہاں سے آئیںگے؟ سب اپنے اپنے ٹھکانے پہنچ گئے ہیں؛ اِس لیے کہے گا کہ: اچھا! لاؤ گواہ، تو اُس کے اعضا کو حکم دیا جائے گا اور وہ کہنا شروع کریںگے، تومجبوراً اُس کو اقرار کرنا پڑے گا، اور کہے گا کہ: بے شک ابھی اَور بھی بہت سے مُہلِک گناہ بیان کرناباقی ہیں، تو ارشاد ہوگا کہ: اچھا! ہم نے مغفرت کردی۔(طبرانی فی الکبیر،۸؍۱۸۵حدیث:۷۶۶۹)
غرض اِن وُجوہ سے ضرورت ہے کہ، آدمی کے اعضا سے نیک کام بھی بہ کثرت ہوں؛ تاکہ گواہ دونوں قسم کے مل سکیں۔ اِسی لیے حضورِ اقدس ﷺنے اِس حدیثِ بالا میں انگلیوں پرشمار کرنے کا حکم فرمایا ہے، اِسی وجہ سے دوسری احادیث میں مسجد میں کثرت سے آنے جانے کاحکم ہے، کہ نشاناتِ قدم بھی گواہی دیںگے، اور اُن کا ثواب لکھا جاتا ہے۔ کس قدر خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے لیے بُرائی کا گواہ کوئی بھی نہ ہو کہ گناہ کیے ہی نہیں، یا توبہ وغیرہ سے مُعاف ہوگئے، اور بھلائی اور نیکی کے گواہ سینکڑوں ہزاروں ہوں!! جس کی سَہل ترین صورت یہ ہے کہ، جب کوئی گناہ صادر ہوجائے فوراً توبہ سے اُس کو مَحو کرڈالیں، پھر وہ کَالعَدَم ہوجاتے ہیں -جیسا کہ بابِ دوم فصلِ سوم حدیث ۳۳؍ کے تحت میں گزر چکا ہے- اور نیکیاں اعمال ناموں میں باقی رہیں جس کے گواہ بھی موجود ہیں، اور جن جن اَعضا سے یہ نیک اعمال کیے ہیں وہ سب گواہی دیں۔ مُتعدَّد احادیث میں خود نبیٔ اکرم ﷺ کا انگلیوں پر گِننا مختلف الفاظ سے نقل کیا گیا ہے، حضرت عبداللہ بن عَمروص فرماتے ہیں کہ: نبیٔ اکرم ﷺ (انگلیوں پر )تسبیح گنتے تھے۔
اِس کے بعد حدیثِ بالا میں اللہ کے ذکر سے غفلت پر رحمتِ اِلٰہیہ سے محروم کیے جانے کی وعید ہے، اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے محروم رہتے ہیں وہ اللہ کی رحمت سے بھی محروم رہتے ہیں۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ: تم مجھے یاد کرو، مَیں (رحمت کے ساتھ)تمھارا ذکر کروںگا۔ حق تَعَالیٰ شَانُہٗ نے اپنی یاد کو بندے کی یاد پر مُرتَّب فرمایا، قرآنِ پاک میں ارشاد ہے: ﴿وَمَن یَعْشُ عَن ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہٗ شَیْطَاناً فَہُوَ لَہٗ قَرِیْنٌ، وَإِنَّہُمْ لَیَصُدُّونَہُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَیَحْسَبُونَ أَنَّہُم مُّہْتَدُونَ﴾ (الزخرف، ع:۴) اور جو شخص اللہ کے ذکر سے (خواہ کسی قِسم کا ہو،قرآن پاک ہو یا کسی اَورقِسم کا، جان بوجھ کر)اندھا بن جائے، ہم اُس پر ایک شیطان کو مُسلَّط کردیتے ہیں، پس وہ شیطان ہر وقت اُس کے ساتھ رہتا ہے، اور (وہ شیطان اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر )سب کے سب اُن لوگوں کو(جو اللہ کے ذکر سے) اندھے بن گئے ہیں، سیدھے راستے سے ہٹاتے رہتے ہیں، اور یہ لوگ خَیال کرتے ہیں کہ ہم ہدایت پر ہیں۔
حدیث میں ہے کہ: ہر شخص کے ساتھ ایک شیطان مُقرَّر ہے، کافر کے ساتھ تو وہ ہر وقت شریکِ حال رہتا ہے، کھانے میںبھی، پینے میں بھی، سونے میں بھی؛ لیکن مومن سے ذرا دُور رہتا ہے، اور ہر وقت مُنتظِر رہتا ہے، جب اُس کو ذرا غافل پاتا ہے فوراً اُس پر حملہ کرتا ہے۔(دُرِّمنثور۔۔۔)
دوسری جگہ ارشاد ہے:﴿یٰأَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَاتُلْہِکُمْ أَمْوَالُکُمْ وَلَاأَوْلَادُکُمْ عَن ذِکْرِ اللہِ﴾ إلیٰ اٰخر السورۃ. (المنافقون، ع:۲)اے ایمان والو! تم کو تمھارے مال اور اولاد (اور اِسی طرح دوسری چیزیں) اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں، اور جو لوگ ایسا کریںگے وہی خسارے والے ہیں، اور ہم نے جوکچھ (مال ودولت)عطا کر رکھا ہے اُس میں سے (اللہ کے راستے میں)اِس سے پہلے پہلے خرچ کرلو کہ تم میں سے کسی کی موت آجائے اور پھر (حسرت وافسوس سے)کہنے لگے کہ: اے میرے پروردگار! مجھے کچھ دنوں اَور مہلت کیوں نہ دی تاکہ مَیں خیرات کرلیتا اور نیک بندوں میں شامل ہوجاتا؟ اور اللہدکسی شخص کو بھی موت کا وقت آجانے کے بعد مُہلت نہیں دیتے، اور اللہ کو تمھارے سارے اعمال کی پوری پوری خبر ہے، (جیسا کروگے بھلا یا بُرا ویساہی پاؤگے)۔
اللہجَلَّ شَانُہٗ کے ایسے بھی بندے ہیں جن کو کسی وقت بھی غفلت نہیںہوتی، حضرت شبلیؒ فرماتے ہیں کہ: مَیں نے ایک جگہ دیکھا کہ ایک مجنون شخص ہے، لڑکے اُس کے ڈِھیلے مار رہے ہیں، مَیں نے اُن کو دھمکایا، وہ لڑکے کہنے لگے کہ: یہ شخص یوں کہتا ہے کہ: مَیں خدا کو دیکھتا ہوں، مَیں اُس کے قریب گیا تو وہ کچھ کہہ رہاتھا، مَیں نے غور سے سنا تو وہ کہہ رہا تھا کہ: تُونے بہت ہی اچھا کیا کہ اِن لڑکوں کومجھ پر مُسلَّط کردیا، مَیں نے کہا کہ: یہ لڑکے تجھ پر ایک تُہمت لگاتے ہیں، کہنے لگا: کیا کہتے ہیں؟ مَیں نے کہا: یہ کہتے ہیں کہ: تم خدا کو دیکھنے کے مُدَّعِی ہو، یہ سن کر اُس نے ایک چیخ ماری، اور یہ کہا: شبلی! اُس ذات کی قَسم جس نے اپنی محبت میں مجھ کو شِکَستہ حال بنا رکھا ہے، اور اپنے قُرب وبُعد میں مجھ کو بھَٹکا رکھا ہے، اگر تھوڑی دیر بھی وہ مجھ سے غائب ہوجائے (یعنی حُضوری حاصل نہ رہے) تو مَیں دردِ فِراق سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاؤںگا، یہ کہہ کر وہ مجھ سے منھ موڑ کر یہ شعر پڑھتا ہوا بھاگ گیا:
خِیَالُكَ فِيْ عَینِيْ وَذِکرُكَ فِي فَمِي
ء
وَمَثْوَاكَ فِيْ قَلبِيْ فَأَینَ تَغِیْبُ
ترجَمہ:تیری صورت میری نگاہ میں جَمی رہتی ہے، اور تیرا ذکر میری زبان پر ہر وقت رہتا ہے، تیرا ٹھکانہ میرا دل ہے، پس تُو کہاں غائب ہوسکتا ہے؟۔ (روض الریاحین،ص:۵۲حکایت:۳۶)
حضرت جنید بغدادیؒ کا جب انتقال ہونے لگا تو کسی نے کلمۂ لَاإِلٰہَ إِلَّااللّٰہ تلقین کیا، فرمانے لگے: مَیں کسی وقت بھی اِس کو نہیں بھولا، (یعنی یاد تو اُس کو دِلاؤ جس کو کسی وقت بھی غفلت ہوئی ہو)۔
حضرت مَمشاد دِینوریؒ مشہور بزرگ ہیں، جس وقت اُن کا اِنتقال ہونے لگا تو کسی پاس بیٹھنے والے نے دعا کی: حق تَعَالیٰ شَانُہٗآپ کو (جنت کی)فلاں فلاں دولت عطا فرمائیں، تو ہنس پڑے، فرمانے لگے: تیس برس سے جنت اپنے سارے سازوسامان کے ساتھ میرے سامنے ظاہر ہوتی رہی ہے، ایک دفعہ بھی تو (اللہ جَلَّ شَانُہٗ کی طرف سے توجُّہ ہٹاکر) اُدھر توجُّہ نہیں کی۔
حضرت رُویمؒ کو اِنتقال کے وقت کسی نے کلمہ تلقین کیا تو فرمانے لگے: مَیں اُس کے غیر کو اچھی طرح جانتا ہی نہیں۔
احمد بن خَضرویہؒ کا اِنتقال کا وقت تھا، کسی شخص نے کوئی بات پوچھی، آنکھوں سے آنسو نکل پڑے، کہنے لگے: پچانویں برس سے ایک دروازہ کھٹکھٹا رہا ہوں وہ اِس وقت کھلنے والا ہے، مجھے معلوم نہیں کہ وہ سَعادت کے ساتھ کھلتا ہے یا بدبختی کے ساتھ؟ مجھے اِس وقت بات کی فرصت کہاں؟۔(احیاء العلوم،۴؍۴۸۲)
(۱۹) وَعَنْ جُوَیرِیَۃَ أَنَّ النَّبِيَّﷺ خَرَجَ مِن عِندِهَا بُکرَۃً حِینَ صَلَّی الصُّبحَ وَهِيَ فِي مَسجِدِهَا، ثُمَّ رَجَعَ بَعدَ أَن أَضْحیٰ وَهِيَ جَالِسَۃٌ، قَالَ: مَازِلتَ عَلَی الحَالِ الَّتِي فَارَقتُكِ عَلَیهَا؟ قَالَتْ: نَعَم، قَالَ النَّبِيُّﷺ: لَقَد قُلتُ بَعدَكِ أَربَعَ کَلِمَاتٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، لَو وُزِنَتْ بِمَا قُلتِ مُنذُ الیَومِ لَوَزَنَتْهُنَّ: سُبحَانَ اللہِ وَبِحَمدِہٖ عَدَدَ خَلقِہٖ، وَرِضَا نَفسِہٖ، وَزِنَۃَ عَرشِہٖ، وَمِدَادَ کَلِمَاتِہٖ.
(رواہ مسلم، کذا في المشکاۃ، قال القاري: وکذا أصحاب السنن الأربعۃ. وفي الباب: عَن صَفِیَّۃَ قَالَت: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللہِﷺ وَبَینَ یَدَيَّ أَربَعَۃُ اٰلَافٍ نَوَاۃٍ أُسَبِّحُ بِهِنَّ. الحدیث، أخرجہ الحاکم وقال الذهبي: صحیح)
وَعَن سَعدِ بنِ أَبِي وَقَاصٍ أَنَّہٗ دَخَلَ مَعَ النَّبِيِّﷺ عَلیٰ اِمرَأَۃٍ وَبَینَ یَدَیهَا نَویٰ أَو حَصیٰ تُسَبِّحُ بِہٖ، فَقَالَ: أَلَا أُخبِرُكَ بِمَا هُوَ أَیسَرُ عَلَیكَ مِن هٰذَا أَو أَفضَلَ؟ سُبحَانَ اللہِ عَدَدَ مَاخَلَقَ فِي السَّمَاءِ، وَسُبحَانَ اللہِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي الأَرضِ، وَسُبحَانَ اللہِ عَدَدَ مَابَینَ ذٰلِكَ، وَسُبحَانَ اللہِ عَدَدَ مَا هُوَ خَالِقٌ، وَاللہُ أَکبَرُ مِثلَ ذٰلِكَ، وَالحَمدُلِلّٰہِ مِثلَ ذٰلِكَ، وَلَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ مِثلَ ذٰلِكَ، وَلَاحَولَ وَلَاقُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ مِثلَ ذٰلِكَ.
(رواہ أبوداود والترمذي، وقال الترمذي: حدیث غریب؛ کذا في المشکوۃ، قال القاري: وفي نسخۃ: حسن غریب. اھ وفي المنهل: أخرجہ أیضا النسائي وابن ماجہ وابن حبان والحاکم والترمذي، وقال: حسن غریب من هذا الوجہ، اھ. قلت: وصححہ الذهبي)
ترجَمہ: اُمُّ المؤمِنین حضرت جُویریہ رَضِيَ اللہُ عَنْهَا فرماتی ہیں کہ: حضورِاقدس ﷺ صبح کی نماز کے وقت اُن کے پاس سے نماز کے لیے تشریف لے گئے، اور یہ اپنے مُصَلَّے پر بیٹھی ہوئی (تسبیح میں مشغول تھیں)، حضور ﷺ چاشت کی نماز کے بعد (دوپہر کے وقت)تشریف لائے تو یہ اُسی حال میں بیٹھی ہوئی تھیں، حضورﷺ نے دریافت فرمایا: تم اُسی حال پر ہو جس پر مَیں نے چھوڑا تھا؟ عرض کیا: جی ہاں، حضورﷺنے فرمایا: مَیں نے تم سے (جدا ہونے کے)بعد چار کلمے تین مرتبہ پڑھے، اگر اُن کو اُس سب کے مقابلے میں تولاجائے جو تم نے صبح سے پڑھا ہے تو وہ غالب ہوجائیں، وہ کلمے یہ ہیں: سُبحَانَ اللہِ وَبِحَمدِہٖ عَدَدَ خَلقِہٖ، وَرِضَا نَفسِہٖ، وَزِنَۃَ عَرشِہٖ، وَمِدَادَ کَلِمَاتِہٖ. (اللہ کی تسبیح کرتا ہوں اور اُس کی تعریف کرتا ہوں بقدر اُس کی مخلوقات کے عدد کے، اور بقدر اُس کی مرضی اور خوش نو دی کے، اور بقدر وَزن اُس کے عرش کے، اور اُس کے کلمات کی مقدار کے مُوافق)۔
دوسری حدیث میں ہے کہ: حضرت سعد ص حضورِاقدس ﷺکے ساتھ ایک صحابی عورت کے پاس تشریف لے گئے، اُن کے سامنے کھجور کی گٹھلیاں یا کنکریاں رکھی ہوئی تھیں جن پر وہ تسبیح پڑھ رہی تھیں، حضورﷺ نے فرمایا: مَیں تجھے ایسی چیز بتاؤں جو اِس سے سَہل ہو (یعنی کنکریوں پر گننے سے سَہل ہو)،یا(یہ ارشاد فرمایا کہ:) اِس سے افضل ہو؟ سُبحَانَ اللہِ عَدَدَ مَاخَلَقَاخیر تک: اللہ کی تعریف کرتی ہوں بہ قدر اُس مخلوق کے جو آسمان میں پیدا کی، اور بہ قدر اُس مخلوق کے جو زمین میں پیدا کی، اور بہ قدر اُس مخلوق کے جو اِن دونوں کے درمیان ہے یعنی آسمان زمین کے درمیان ہے، اور اللہ کی پاکی بیان کرتی ہوں بہ قدر اُس کے جس کو وہ پیدا کرنے والا ہے، اور اِس سب کے برابر اَللہُ أَکْبَرُ، اور اِس کے برابر ہی اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، اور اِسی کی مانند لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ۔
تدبُّر: غوروفکر۔ عِجز:عاجز ہونا۔ عَبدِیت: بندگی۔ جَواز: جائز ہونا۔ جُملہ: تمام۔ مُنتَہائے کمال: کمال کی اِنتِہا۔ سَرگِروہ: امام۔ گَوارا: پسند۔
فائدہ:مُلاَّعلی قاریؒ نے لکھا ہے کہ: اِن کیفیات کے ساتھ تسبیح کے افضل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ، اِن الفاظ کے ذکر کرنے سے اِن کیفیات اور صفات کی طرف ذہن مُتوجَّہ ہوگا، اور یہ ظاہر ہے کہ جتنابھی تدبُّر اور غوروفکرزیادہ ہوگا اُتنا ہی ذکر افضل ہوگا؛ اِس لیے قرآن پاک جو تدبُّر سے پڑھا جائے وہ تھوڑا سابھی اُس تلاوت سے بہت افضل ہے جو بِلاتدبُّر کے ہو۔(مرقاۃ المفاتیح۵؍۱۰۹)
اور بعض عُلَما نے کہا ہے کہ: اَفضَلِیَّت اِس حیثیت سے ہے کہ، اِس میں اللہدکی حمد وثنا کے شمار سے عِجز کا اِظہار ہے، جو کمال ہے عَبدِیت کا۔ اِسی وجہ سے بعض صوفیا سے نقل کیا گیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ: گناہ تو بِلا حساب اور بے شمار کرتے ہو اور اللہ کے پاک نام کو شمار سے اور گِن کر کہتے ہو!۔(مرقاۃ المفاتیح۵؍۱۱۵)
اِس کا مطلب یہ نہیں کہ شمار نہ کرنا چاہیے، اگر ایساہوتا تو پھر احادیث میں کثرت سے خاص خاص اوقات میں شمار کیوں بتائی جاتی؟ حالاںکہ بہت سی احادیث میں خاص خاص مقداروں پر خاص خاص وعدے فرمائے گئے ہیں؛ بلکہ اِس کامطلب یہ ہے کہ، صرف شمار پر قَناعت نہ کرنا چاہیے؛ بلکہ جو اَورَاد مخصوص اوقات میں مُتعیَّن ہیں اُن کو پورا کرنے کے عِلاوہ خالی اوقات میں جتنا ممکن ہو بے شمار اللہ کے ذکر میں مشغول رہنا چاہیے، کہ یہ ایسی بڑی دولت ہے جو شمار کی پابندیوں اور اس کے حُدود سے بالاتر ہے۔
اِن احادیث سے تسبیحِ مُتعارَف یعنی دھاگے میں پُروئے ہوئے دانوں کاجَواز ثابت ہوتا ہے، بعض لوگوں نے اِس کو بدعت کہہ دیا ہے؛ مگر یہ صحیح نہیں، جب اِس کی اصل ثابت ہے، حضورﷺنے کنکریوں اور گُٹھلِیوں پر گِنتے ہوئے دیکھا اور اُس پر اِنکار نہیں فرمایا تو پھر اصل ثابت ہوگئی، دھاگے میں پُرونے میں اور نہ پُرونے میں کوئی فرق نہیں، اِسی وجہ سے جُملہ مشائخ اور فُقَہا اِس کا استعمال فرماتے ہیں۔ مولانا عبدالحی صاحبؒ نے ایک مستقل رسالہ ’’نُزہۃُ الفِکرِ‘‘ اِس بارے میں تصنیف فرمایا ہے۔
مُلَّاعلی قاریؒ کہتے ہیں کہ: یہ حدیث صحیح دلیل ہے تسبیحِ مُتعارَف کے جواز کی؛ اِس لیے کہ نبیٔ کریم ﷺ نے اُن گٹھلیوں یا کنکریوں پر گنتے ہوئے دیکھا اور اُس پر اِنکار نہیں فرمایا، جو شرعی دلیل ہے، اور کھلے ہوئے دانے یا پُروئے ہوئے میں کوئی فرق نہیں ہے؛ اِس لیے جو لوگ اِس کو بدعت کہتے ہیں اُن کا قول قابلِ اعتماد نہیں ہے۔ فرماتے ہیں کہ: صوفیا کی اِصطلاح میں اِس کو شیطان کا کوڑا کہا جاتا ہے۔ حضرت جنید بغدادیؒ کے ہاتھ میں کسی نے ایسے وقت میں بھی تسبیح دیکھی جب وہ مُنتَہائے کمال پر پہنچ چکے تھے، تو اُن سے اِس بارے میںسوال کیا، فرمایا: جس چیز کے ذریعے سے ہم اللہ تک پہنچے ہیں اُس کو کیسے چھوڑ دیں!۔ (مرقاۃ المفاتیح۵؍۱۱۴)
بہت سے صحابہ ث سے یہ نقل کیاگیا ہے کہ: اُن کے پاس کھجور کی گٹھلیاں یا کنکریاں رہتی تھیں اور وہ اُن پر گِن کر تسبیح پڑھاکرتے تھے:
چناںچہ حضرت ابوصَفِیَّہ صحابی ص سے نقل کیاگیا ہے کہ، وہ کنکریوں پر گِنا کرتے تھے۔ (نزہۃ الفکر،ص:۵)
حضرت سعد بن ابی وَقاص ص سے گٹھلیاںاور کنکریاں دونوں نقل کی گئی ہیں۔(مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلاۃ،باب فی عقد التسبیح،حدیث:۷۷۴۰،۷۷۴۱)
حضرت ابوسعید خُدری ص سے بھی کنکریوں پر پڑھنا نقل کیاگیا ہے۔(ابن ابی شیبہ،حدیث:۷۷۴۲)
’’مِرقاۃ‘‘ میں لکھا ہے کہ: حضرت ابوہریرہ صکے پاس ایک دھاگا رہتا تھا جس میں گِرہیں لگی ہوئی تھیں، اُن پر شمار فرمایا کرتے تھے۔(مرقاۃ المفاتیح۵؍۱۱۹)
اور ’’ابوداؤد‘‘ میں ہے کہ: حضرت ابوہریرہ ص کے پاس ایک تھیلی تھی جس میں کھجور کی گٹھلیاں یاکنکریاں بھری رہتی، اُن پر تسبیح پڑھا کرتے، اور جب وہ تھیلی خالی ہوجاتی تو ایک باندی تھی جو اُن سب کو پھر اُس میں بھردیتی، اور حضرت ابوہریرہ ص کے پاس رکھ دیتی۔(ابوداؤد،کتاب النکاح،باب مایکرہ من ذکر الرجل مایکون من أصابتہ أہلہ، ص: ۲۹۵ حدیث: ۲۱۷۴)
خالی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ تھیلی میں سے نکالتے رہتے اور باہر ڈالتے رہتے تھے، اور جب وہ خالی ہوجاتی تو سارے دانے سَمیٹ کر وہ باندی پھر اُس تھیلی میں بھر دیتی۔
حضرت ابودرداء صسے بھی یہ نقل کیا گیا ہے کہ: اُن کے پاس ایک تھیلی میں عَجوہ کھجور کی گٹھلیاں جمع رہتیں، صبح کی نماز پڑھ کر اُس تھیلی کو لے کر بیٹھتے اور جب تک وہ خالی ہوتی بیٹھے پڑھتے رہتے۔(مسند احمد،کتاب الزہد،ص:۱۷۵حدیث:۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
حضرت ابو صفیہص -جو حضورِ اقدس ﷺ کے غلام تھے- اُن کے سامنے ایک چمڑا بچھا رہتا، اُس پر کنکریاں پڑی رہتیں، اور صبح سے زوال کے وقت تک اُن کو پڑھتے رہتے ،جب زوال کا وقت ہوتا تو وہ چمڑا اُٹھا لیا جاتا، وہ اپنی ضروریات میں مشغول ہوجاتے، ظہر کی نماز کے بعد پھر وہ بچھادیا جاتا اور شام تک اُن کو پڑھتے رہتے۔ (الاصابۃ۔۔۔۔۔۔۔۔)
حضرت ابوہریرہ صکے پوتے نقل کرتے ہیں کہ: دادے ابا کے پاس ایک دھاگا تھا جس میں دو ہزار گِرہیں لگی ہوئی تھیں، اُس وقت تک نہیں سوتے تھے جب تک ایک مرتبہ اُن پر تسبیح نہ پڑھ لیتے۔(حلیۃ الاولیاء۱؍۳۸۳)
حضرت امام حسین ص کی صاحب زادی حضرت فاطمہرَضِيَ اللہُ عَنْهَاسے بھی یہ نقل کیاگیا ہے کہ: اُن کے پاس ایک دھاگا تھا جس میں گِرہیں لگی ہوئی تھیں، اُن پر تسبیح پڑھاکرتی تھیں۔(طبقات ابن سعد۸؍۴۷۴)
صوفیا کی اصطلاح میں تسبیح کا نام مُذَکِّرہ (یاد دِلانے والی)بھی ہے، اِس وجہ سے کہ جب یہ ہاتھ میںہوتی ہے تو خواہ مخواہ پڑھنے کو دل چاہتا ہی ہے؛ اِس لیے گویا اللہ کے نام کو یاد دِلانے والی ہے۔ اِس بارے میں ایک حدیث بھی نقل کی جاتی ہے جو حضرت علی ص سے نقل کی گئی ہے، کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: تسبیح کیا ہی اچھی مُذَکِّرہ (یعنی یاد دلانے والی چیز) ہے۔(۔۔۔۔۔۔)
اِس باب میں ایک مسلسل حدیث مولانا عبدالحی صاحبؒ نے نقل فرمائی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ: مولانا سے لے کر اوپر تک ہر اُستاد نے اپنے اپنے شاگرد کو ایک تسبیح عطا فرمائی اور اُس کے پڑھنے کی اجازت بھی دی، اَخیر میں حضرت جُنید بغدادیؒ کے شاگرد تک یہ سلسلہ پہنچتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ: مَیں نے اپنے اُستاد حضرت جنیدؒ کے ہاتھ میں تسبیح دیکھی تو مَیںنے اُن سے کہا کہ: آپ اِس عُلُوِّ مرتبہ پر بھی تسبیح ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ اُنھوں نے فرمایا کہ: مَیں نے اپنے اُستاد سِرِّی سَقَطی کے ہاتھ میں تسبیح دیکھی، تو اُن سے یہی سوال کیا تھا جو تم نے کیا، اُنھوں نے فرمایا کہ: مَیں نے بھی اپنے اُستاد حضرت معروف کرخیؒ کے ہاتھ میں تسبیح دیکھی تھی تو یہی سوال کیاتھا، اُنھوں نے فرمایا تھا کہ: مَیں نے اپنے اُستادحضرت بِشر حافی کے ہاتھ میں تسبیح دیکھی تو یہی سوال کیا تھا، اُنھوں نے فرمایا تھا کہ: مَیں نے اپنے اُستاد حضرت عمر مکیؒ کے ہاتھ میں تسبیح دیکھی تھی تو یہی سوال کیا تھا، اُنھوں نے فرمایا کہ: مَیں نے اپنے اُستاد حضرت حسن بصریؒ (جو سارے مَشائخِ چِشتِیہ کے سَرگِروہ ہیں)کے ہاتھ میں تسبیح دیکھی تھی تو عرض کیا تھا کہ: آپ کی اِس رَفعتِ شان اور عُلُوِّ مرتبہ کے باوجود بھی اب تک تسبیح آپ کے ہاتھ میں ہے؟ تو اُنھوں نے فرمایا تھا کہ: ہم نے تصوُّف کی اِبتدا میںاِس سے کام لیا تھا، اور اِس کے ذریعے سے ترقی حاصل کی تھی، تو گَوارا نہیں کہ اب اَخیرمیں اِس کو چھوڑ دیں، مَیں چاہتا ہوں کہ اپنے دل سے، زبان سے، ہاتھ سے؛ ہر طرح اللہ کا ذکر کروں۔(نزہۃ الفکرص:۷)
مُحدِّثانہ حیثیت سے اِن میں کلام بھی کیاگیاہے۔
(۲۰)عَن ابنِ أَعبُدٍ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: أَلَاأُحَدِّثُكَ عَنِّي وَعَن فَاطِمَۃَ بِنتِ رَسُولِ اللہِﷺ وَکَانَت مِن أَحَبِّ أَهلِہٖ إِلَیہِ؟ قُلتُ: بَلیٰ، قَالَ: إِنَّهَا جَرَتْ بِالرَّحیٰ حَتّٰی أَثَرَ فِي یَدِهَا، وَاسْتَقَتْ بِالقِربَۃِ حَتّٰی أَثَر فِي نَحرِهَا، وَکَنَسَتِ البَیتَ حَتَّی اغْبَرَّتْ ثِیَابُهَا، فَأَتَی النَّبِيَّﷺ خَدَمٌ، فَقُلتُ: لَوأَتَیتِ أَبَاكِ فَسَأَلتِہٖ خَادِماً، فَأَتَتْہُ فَوَجَدَتْ عِندَہٗ حَدَاثاً فَرَجَعَتْ، فَأَتَاهَا مِنَ الغَدِ، فَقَالَ: مَا کَانَ حَاجَتُكِ؟ فَسَکَتَتْ، فَقُلتُ: أَنَا أُحَدِّثُكَ یَارَسُولَ اللہِ! جَرَتْ بِالرَّحیٰ حَتّٰی أَثَرَتْ فِي یَدِهَا، وَحَمَلَتْ بِالقِربَۃِ حَتّٰی أَثَرَتْ فِي نَحرِهَا، فَلَمَّا أَنْ جَاءَ كَ الخَدَمُ أَمَرتُهَا أَن تَأْتِیَكَ فَتُسْتَخْدِمَكَ خَادِماً یَقِیهَا حَرَّ مَا ھِيَ فِیہِ، قَالَ: اِتَّقِي اللہَ یَافَاطِمَۃَ! وَأَدِّي فَرِیضَۃَ رَبِّكَ، وَاعمَلِي عَمَلَ أَهْلِكِ، فَإِذَا أَخَذْتِ مَضجَعَكِ فَسَبِّحِيْ ثَلَاثاً وَثَلَاثِینَ، وَاحمِدِي ثَلَاثاً وَثَلَاثِینَ، وَکَبِّرِيْ أَربَعاً وَّثَلَاثِینَ؛ فَتِلْكَ مِائَۃٌ، فَهِيَ خَیرُ لَكِ مِنْ خَادِمٍ، قَالَتْ: رَضِیتُ عَنِ اللہِ وَعَنْ رَسُولِہٖ.
(أخرجہ أبوداود، وفي الباب عَنِ الفَضلِ بنِ الحَسَنِ الضَّمُرِي: أَنَّ أُمَّ الحَکَمِ أَو ضَبَاعَۃُ -اِبنَتَيْ الزُّبَیرِ بنِ عَبدِالمُطَّلِبِ- حَدَّثَتْہُ عَن أَحَدَیهِمَا أَنَّهَا قَالَتْ: أَصَابَ رَسُولَ اللہِﷺ سَبِیًّا، فَذَهَبَتُ أَنَا وَأُختِيْ وَفَاطِمَۃُ بنتِ رَسُولِ اللہِﷺ، فَشَکَونَا إِلَیہِ مَانَحنُ فِیہِ، وَسَأَلنَاہُ أَن یَأْمُرَ لَنَا بِشَيْئٍ مِنَ السَّبِيِّ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِﷺ: سَبَقَکُنَّ یَتَامیٰ بَدْرٍ؛ وَلٰکِنْ سَأَدُلُّکُنَّ عَلیٰ مَا هُوَ خَیرٌ لَکُنَّ مِن ذٰلِكَ، تُکَبِّرْنَ اللہَ عَلیٰ أَثَرِ کُلِّ صَلَاۃٍ ثَلَاثاً وَثَلَاثِینَ تَکبِیرَۃً، وَثَلَاثاً وَّثَلَاثِینَ تَسبِیحَۃً، وَثَلَاثاً وَّثَلَاثِینَ تَحمِیدَۃً، وَلَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحدَہٗ لَا شَرِیكَ لَہٗ، لَہُ المُلْكُ وَلَہُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلیٰ کُلِّ شَيْئٍ قَدِیْرٌ. رواہ أبوداود. وفي الجامع الصغیر بروایۃ ابن مندۃ عَن جَلِیسٍ کَانَ یَأْمُرُ نِسَاءَ ہٗ إِذَا أَرَادَتْ إِحدَاهُنَّ أَن تَنَامَ أَن تَحمَدَ. الحدیث، ورقم لہ بالضعف)
ترجَمہ: حضرت علی ص نے اپنے ایک شاگرد سے فرمایاکہ: مَیں تمھیں اپنا اور اپنی بیوی فاطمہ رَضِيَ اللہُ عَنْهَا کا -جو حضورﷺکی صاحب زادی اور سب گھروالوں میں زیادہ لاڈلی تھیں- قِصَّہ نہ سناؤں؟ اُنھوں نے عرض کیا: ضرور سنائیں، فرمایا کہ: وہ خود چکی پیستی تھی جس سے ہاتھوں میں گَٹے پڑ گئے تھے، اور خود ہی مَشک بھر کر لاتی تھیں جس سے سینے پر رَسی کے نشان پڑ گئے تھے، خود ہی جھاڑو دیتی تھیں جس کی وجہ سے کپڑے مَیلے رہتے تھے، ایک مرتبہ حضورِ اقدس ﷺکی خدمت میں کچھ لونڈی غلام آئے، مَیں نے حضرت فاطمہ سے کہا کہ: تم اگر اپنے والد صاحب کی خدمت میں جاکر ایک خادم مانگ لاؤ تو اچھا ہے، سَہولت رہے گی، وہ گئیں، حضورِ اقدس ﷺ کی خدمت میں لوگوں کا مجمع تھا؛ اِس لیے واپس چلی آئیں، حضور ﷺ دوسرے روز خودہی مکان پر تشریف لائے اورفرمایا: تم کل کس کام کو آئی تھیں؟وہ چپ ہوگئیں (شرم کی وجہ سے بول بھی نہ سکیں)،مَیں نے عرض کیا: حضور! چکی سے ہاتھ میں نشان پڑگئے، مَشکیزہ بھرنے کی وجہ سے سینے پر بھی نشان پڑگیا ہے، جھاڑو دینے کی وجہ سے کپڑے میلے رہتے ہیں، کَل آپ کے پاس کچھ لونڈی غلام آئے تھے؛ اِس لیے مَیں نے اِن سے کہا تھا کہ: ایک خادم اگر مانگ لائیں تو اِن مَشقَّتوں میں سَہولت ہوجائے، حضور ﷺ نے فرمایا: فاطمہ! اللہ سے ڈرتی رہو، اور اُس کے فرض ادا کرتی رہو، اور گھر کے کاروبار کرتی رہو، اور جب سونے کے لیے لیٹو تو سُبْحَانَ اللہِ ۳۳؍ مرتبہ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ۳۳؍ مرتبہ، اَللہُ أَکْبَرُ ۳۴؍ مرتبہ پڑھ لیا کرو، یہ خادم سے بہتر ہے، اُنھوں نے عرض کیا: مَیں اللہ (کی تقدیر) اور اُس کے رسول (کی تجویز) سے راضی ہوں۔ دوسری حدیث میں حضور ﷺ کی پھوپھی زاد بہنوں کا قِصَّہ بھی اِسی قِسم کا آیا ہے، وہ کہتی ہیں کہ: ہم دو بہنیںاور حضور ﷺ کی بیٹی فاطمہ تینوں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور اپنی مَشقَّت اور دِقَّتیں ذکر کرکے ایک خادم کی طلب کی، حضور ﷺ نے فرمایا کہ: خادم دینے میں توبدر کے یتیم تم سے مُقدَّم ہیں، مَیں تمھیںخادم سے بہتر چیز بتاؤں؟ ہرنماز کے بعد یہ تینوں کلمے یعنی: سُبحَانَ اللہِ، اَلْحَمدُ لِلّٰہِ، اَللہُ أَکْبَرُ؛ ۳۳؍ ۳۳ مرتبہ اور ایک مرتبہ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحدَہٗ لَا شَرِیكَ لَہٗ، لَہُ المُلْكُ وَلَہُ الحَمْدُ ، وَہُوَ عَلیٰ کُلِّ شَيْئٍ قَدِیْرٌ پڑھ لیا کرو، یہ خادم سے بہتر ہے۔
تجویز: فیصلہ۔ دِقَّتیں: تکلیفیں۔ قابلِ اِلتِفات: توجُّہ کے قابل۔ زائل: ختم۔ تکذِیب: جھُٹلانا۔
فائدہ: حضورِ اقدس ﷺ اپنے گھروالوں اور عزیزوں کو خاص طور سے اِن تسبیحات کا حکم فرمایا کرتے تھے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: حضورِ اقدس ﷺ اپنی بیویوں کو یہ حکم فرمایا کرتے تھے کہ: جب وہ سونے کا ارادہ کریں توسُبحَانَ اللہِ، اَلْحَمدُ لِلّٰہِ، اَللہُ أَکْبَرُ؛ہر ایک ۳۳؍ مرتبہ پڑھیں۔(جامع الصغیر بروایت ابن مندہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
حدیثِ بالا میں حضورِ اقدس ﷺ نے دُنیوی مَشقَّتوں اور تکلیفوں کے مقابلے میں اِن تسبیحات کو تَلقِین فرمایا، اِس کی ظاہری وجہ تو ظاہر ہے کہ مسلمان کے لیے دُنیوی مَشقَّت اور تکلیف قابلِ اِلتِفات نہیں ہے، اُس کو ہر وقت آخرت اورمرنے کے بعد کی راحت وآرام کی فکر ضروری ہے؛ اِس لیے حضورِ اقدس ﷺنے اِس چند روزہ زندگی کی مَشقَّت اور تکلیف کی طرف سے توجُّہ کو ہٹاکر آخرت کی راحت کے سامان بڑھانے کی طرف مُتوجَّہ فرمایا، اور اِن تسبیحات کا آخرت میں زیادہ سے زیادہ نافع ہونا اُن روایات سے جو اِس باب میں ذکر کی گئی، ظاہر ہے۔
اِس کے عِلاوہ دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ، اِن تسبیحات کو حق تَعَالیٰ شَانُہٗ نے جہاں دینی مَنافِع اور ثمَرات سے شرف بخشا ہے، دُنیوی مَنافع بھی اُن میں رکھے ہیں، اللہ کے پاک کلام میں، اُس کے رسول پاک کے کلام میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن میں آخرت کے ساتھ ساتھ دُنیاوی منافع بھی حاصل ہوتے ہیں۔
چناںچہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ: دَجَّال کے زمانے میں مومنوں کی غذا، فرشتوں کی غذا ہوگی، یعنی تسبیح وتقدیس ( سُبْحَانَ اللہِ وغیرہ اَلفاظ کا پڑھنا)کہ جس شخص کا کلام اِن چیزوں کا پڑھنا ہوگا حقتَعَالیٰ شَانُہٗ اُس سے بھوک کی مَشقَّت کو زائل کردیں گے۔
(مسند احمد،۔۔۔۔۔ حدیث:۲۴۴۷۰)
اِس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ، اِس دنیا میں بغیر کھائے پیے صرف اللہ کے ذکر پر گُذارہ ممکن ہوسکتا ہے، اور دَجَّال کے زمانے میں عام مومنین کو یہ دولت حاصل ہوگی تو اِس زمانے میں خواص کو اِس حالت کا مُیسَّر ہوجانا کچھ مشکل نہیں؛ اِس لیے جن بزرگوں سے اِس قِسم کے واقعات بہ کثرت منقول ہیں کہ، معمولی غذا پر یا بِلاغذا کے وہ کئی کئی دن گزار دیتے تھے، اُن میں کوئی وجہ اِنکار یا تکذِیب کی نہیں۔ایک حدیث میں آیا ہے کہ: اگر کہیں آگ لگ جائے تو تکبیر (یعنی اَللہُ أَکْبَرکثرت سے) پڑھا کرو، یہ اُس کو بجھادیتی ہے۔
(عمل الیوم واللیلۃ، ۲۹۴، ۲۹۵، ۲۹۶، ۲۹۷)
تَعَب: تھکان۔ اِستِنباط: مسئلہ نکالنا۔ مُداوَمت: ہمیشگی۔ مَضرَّت: نقصان۔ اِزالۂ تکان: تکان کا ختم ہونا۔ مُہتَم بِالشَّان: عظمت والا۔
’’حِصنِ حَصِین‘‘ میں نقل کیا ہے کہ: جب کسی شخص کو کسی کام میں تَعَب اور مَشقَّت معلوم ہو، یا قُوَّت کی زیادتی مطلوب ہوتو سوتے وقت سُبْحَانَ اللہِ ۳۳؍ مرتبہ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ۳۳؍ مرتبہ اور اَللہُ أَکْبَرُ ۳۴؍ مرتبہ پڑھے، یا تینوں کلمے ۳۳- ۳۳ مرتبہ پڑھے، یا کوئی سا ایک ۳۴؍ مرتبہ پڑھ لے؛ (چوںکہ مختلف احادیث میں مختلف عدد آئے ہیں؛ اِس لیے سب ہی کو نقل کردیا ہے)۔
حافظ ابن تَیمِیہؒ نے بھی اُن احادیث سے جن میں نبیٔ اکرم ﷺ نے حضرت فاطمہرَضِيَ اللہُ عَنْهَا کو خادم کے بدلے یہ تسبیحات تعلیم فرمائیں، یہ اِستِنباط کیا ہے کہ: جو شخص اِن پر مُداوَمت کرے اُس کو مَشقَّت کے کاموں میں تکان اور تَعب نہیں ہوگا۔
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ: اگر معمولی تعب ہوا بھی، تب بھی مَضرَّت نہ ہوگی۔
تَعَب: تھکان۔ اِستِنباط: مسئلہ نکالنا۔ مُداوَمت: ہمیشگی۔ مَضرَّت: نقصان۔ اِزالۂ تکان: تکان کا ختم ہونا۔ مُہتَم بِالشَّان: عظمت والا۔
’’حِصنِ حَصِین‘‘ میں نقل کیا ہے کہ: جب کسی شخص کو کسی کام میں تَعَب اور مَشقَّت معلوم ہو، یا قُوَّت کی زیادتی مطلوب ہوتو سوتے وقت سُبْحَانَ اللہِ ۳۳؍ مرتبہ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ۳۳؍ مرتبہ اور اَللہُ أَکْبَرُ ۳۴؍ مرتبہ پڑھے، یا تینوں کلمے ۳۳- ۳۳ مرتبہ پڑھے، یا کوئی سا ایک ۳۴؍ مرتبہ پڑھ لے؛ (چوںکہ مختلف احادیث میں مختلف عدد آئے ہیں؛ اِس لیے سب ہی کو نقل کردیا ہے)۔
حافظ ابن تَیمِیہؒ نے بھی اُن احادیث سے جن میں نبیٔ اکرم ﷺ نے حضرت فاطمہرَضِيَ اللہُ عَنْهَا کو خادم کے بدلے یہ تسبیحات تعلیم فرمائیں، یہ اِستِنباط کیا ہے کہ: جو شخص اِن پر مُداوَمت کرے اُس کو مَشقَّت کے کاموں میں تکان اور تَعب نہیں ہوگا۔
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ: اگر معمولی تعب ہوا بھی، تب بھی مَضرَّت نہ ہوگی۔
(فتح الباری،کتاب الدعوات،باب التکبیر والتسبیح عند المنام،ج۔۔۔۔ص:۔۔۔۔)
مُلَّاعلی قاریؒ نے لکھا ہے کہ: یہ عمل مُجرَّب ہے، یعنی تجرَبے سے بھی یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ، اِن تسبیحوںکا سوتے وقت پڑھنا اِزالۂ تکان اور زیادتیٔ قوَّت کا سبب ہوتا ہے۔
علامہ سِیوطیؒ نے ’’مِرقاۃُ الصَّعود‘‘ میں لکھا ہے کہ: اِن تسبیحوں کا خادم سے بہتر ہونا آخرت کے اِعتبار سے بھی ہوسکتا ہے، کہ آخرت میں یہ تسبیحیں جتنی مفید، کار آمد اور نافع ہوںگی دنیا میں خادم اِتنا کارآمد اور نافع نہیں ہوسکتا، اور دنیا کے اِعتبار سے بھی ہوسکتا ہے کہ، اِن تسبیحوں کی وجہ سے کام پر جس قدر قوت اور ہمَّت ہوسکتی ہے خادم سے اِتنا کام نہیں ہوسکتا۔
مُلَّاعلی قاریؒ نے لکھا ہے کہ: یہ عمل مُجرَّب ہے، یعنی تجرَبے سے بھی یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ، اِن تسبیحوںکا سوتے وقت پڑھنا اِزالۂ تکان اور زیادتیٔ قوَّت کا سبب ہوتا ہے۔
علامہ سِیوطیؒ نے ’’مِرقاۃُ الصَّعود‘‘ میں لکھا ہے کہ: اِن تسبیحوں کا خادم سے بہتر ہونا آخرت کے اِعتبار سے بھی ہوسکتا ہے، کہ آخرت میں یہ تسبیحیں جتنی مفید، کار آمد اور نافع ہوںگی دنیا میں خادم اِتنا کارآمد اور نافع نہیں ہوسکتا، اور دنیا کے اِعتبار سے بھی ہوسکتا ہے کہ، اِن تسبیحوں کی وجہ سے کام پر جس قدر قوت اور ہمَّت ہوسکتی ہے خادم سے اِتنا کام نہیں ہوسکتا۔
(مرقاۃ الصعود،ص:۱۲۷)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: دو خَصلتیں ایسی ہیں کہ جو اُن پر عمل کرے وہ جنت میں داخل ہو، اور وہ دونوں بہت سہل ہیں؛ لیکن اُن پر عمل کرنے والے بہت کم ہیں: ایک یہ کہ اِن تسبیحوں کو ہرنماز کے بعد دس دس مرتبہ پڑھے، کہ یہ پڑھنے میں تو ایک سو پچاس ہوئیں؛ لیکن اعمال کی ترازو میں پندرہ سو ہوںگی، دوسرے یہ کہ: سوتے وقت سُبْحَانَ اللہِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ۳۳- ۳۳ مرتبہ پڑھے، اور اَللہُ أَکْبَرُ۳۴؍ مرتبہ پڑھے، کہ یہ پڑھنے میں سو مرتبہ ہوئیں اور ثواب کے اِعتبار سے ایک ہزار ہوئیں، کسی نے پوچھا: یا رسولَ اللہ! یہ کیا بات ہے کہ اِن پر عمل کرنے والے بہت تھوڑے ہیں؟ حضورﷺنے ارشاد فرمایا کہ: نماز کے وقت شیطان آتا ہے اور کہتا ہے کہ: فلاں ضرورت ہے اور فلاں کام ہے، اور جب سونے کا وقت ہوتا ہے وہ اِدھر اُدھر کی ضرورتیں یاد دِلاتا ہے، جن سے پڑھنا رہ جاتا ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ: دو خَصلتیں ایسی ہیں کہ جو اُن پر عمل کرے وہ جنت میں داخل ہو، اور وہ دونوں بہت سہل ہیں؛ لیکن اُن پر عمل کرنے والے بہت کم ہیں: ایک یہ کہ اِن تسبیحوں کو ہرنماز کے بعد دس دس مرتبہ پڑھے، کہ یہ پڑھنے میں تو ایک سو پچاس ہوئیں؛ لیکن اعمال کی ترازو میں پندرہ سو ہوںگی، دوسرے یہ کہ: سوتے وقت سُبْحَانَ اللہِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ۳۳- ۳۳ مرتبہ پڑھے، اور اَللہُ أَکْبَرُ۳۴؍ مرتبہ پڑھے، کہ یہ پڑھنے میں سو مرتبہ ہوئیں اور ثواب کے اِعتبار سے ایک ہزار ہوئیں، کسی نے پوچھا: یا رسولَ اللہ! یہ کیا بات ہے کہ اِن پر عمل کرنے والے بہت تھوڑے ہیں؟ حضورﷺنے ارشاد فرمایا کہ: نماز کے وقت شیطان آتا ہے اور کہتا ہے کہ: فلاں ضرورت ہے اور فلاں کام ہے، اور جب سونے کا وقت ہوتا ہے وہ اِدھر اُدھر کی ضرورتیں یاد دِلاتا ہے، جن سے پڑھنا رہ جاتا ہے۔
(ابوداود،کتاب الادب،باب في التسبیح عند النوم،ص:۶۹۰حدیث:۵۰۶۵)
اِن احادیث میں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ، حضرت فاطمہ رَضِيَ اللہُ عَنْهَا جنت کی عورتوں کی سردار اور دو جہاں کے سردار کی بیٹی اپنے ہاتھ سے آٹا پیستیں، حتیٰ کہ ہاتھوں میں گَٹے پڑگئے، خود ہی پانی بھر کر لاتیں حتیٰ کہ سینے پر مَشک کی رسی کے نشان ہوگئے، خود ہی گھر کی جھاڑو وغیرہ سارا کام کرتیں جس سے ہر وقت کپڑے میلے رہتے، آٹا گوندھنا، روٹی پکانا؛ غرض سب ہی کام اپنے ہاتھوں سے کرتی تھیں، کیا ہماری بیبیاں یہ سارے کام تو کیا، اِن میں سے آدھے بھی اپنے ہاتھ سے کرتی ہیں؟ اور اگر نہیں کرتیں تو کتنی غیرت کی بات ہے! کہ جن کے آقاؤں کی یہ زندگی ہو اُن کے نام لیوا، اُن کے نام پر فخر کرنے والوں کی زندگی اُس کے آس پاس بھی نہ ہو!!چاہیے تو یہ تھا کہ خادموں کا عمل، اُن کی مَشقَّت آقاؤں سے کچھ آگے ہوتی؛ مگر افسوس! کہ یہاں اُس کے آس پاس بھی نہیں۔ فَإِلَی اللہِ المُشتَکیٰ وَاللہُ المُستَعَانُ.
خاتمہ
خاتمے میں ایک نہایت مُہتَم بِالشَّان چیز کو ذکر کرتا ہوں، اور اِسی پر اِس رسالے کو ختم کرتا ہوں۔ یہ تسبیحات -جن کا اوپر ذکر کیا گیا- نہایت ہی اہم اور دِین ودنیا میں کارآمد اور مُفید ہیں، جیسا کہ احادیثِ بالا سے معلوم ہوا، حضورِ اقدس ﷺ نے اِن کے اِہتمام اور فضیلت کی وجہ سے ایک خاص نماز کی ترغیب بھی فرمائی ہے، جو’’صَلَاۃُ التَّسبِیْح‘‘ (تسبیح کی نماز)کے نام سے مشہور ہے، اور اِسی وجہ سے اِس کو’’صَلَاۃُ التَّسبِیْح‘‘ کہا جاتا ہے کہ، یہ تسبیحات اِس میں تین سو مرتبہ پڑھی جاتی ہیں۔ حضور ﷺ نے بہت ہی اِہتمام اور ترغیبوں کے ساتھ اِس نماز کو تعلیم فرمایا، چناں چہ حدیث میں وارد ہے:
(۱)عَن ابنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِلعَبَّاسِ بنِ عَبدِالمُطِّلِبِ: یَا عَبَّاسَ! یَا عَمَّاہُ! أَلَا أُعطِیكَ؟ أَلَا أَمنَحُكَ؟ أَلَا أُخبِرُكَ؟ أَلَا أَفعَلُ بِكَ عَشرَ خِصَالٍ؟ إِذَا أَنتَ فَعَلتَ ذٰلِكَ غَفَرَ اللہُ لَكَ ذَنبَكَ: أَوَّلَہٗ وَاٰخِرَہٗ، قَدِیمَہٗ وَحَدِیثَہٗ، خَطَأَہٗ وَعَمَدَہٗ، صَغِیرَہٗ وَکَبِیرَہٗ، سِرَّہٗ وَعَلَانِیَتَہٗ؛ أَنْ تُصَلِّيَ أَربَعَ رَکْعَاتٍ: تَقْرَأُ فِي کُلِّ رَکْعَۃٍ فَاتِحَۃَ الکِتَابِ وَسُورَۃً، فَإِذَا فَرَغتَ مِنَ القِرَاءَ ۃِ فِي أَوَّلِ رَکْعَۃٍ وَأَنتَ قَائِمٌ قُلتَ: ’’سُبْحَانَ اللہِ وَالحَمدُ لِلّٰہِ وَلَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ‘‘ خَمسَ عَشَرَۃَ، ثُمَّ تَرکَعُ فَتَقُولُهَا وَأَنتَ رَاکِعٌ عَشراً، ثُمَّ تَرفَعُ رَأْسَكَ مِنَ الرُّکُوعِ فَتَقُولُهَا عَشراً، ثُمَّ تَهوِيْ سَاجِداً فَتَقُولُهَا وَأَنتَ سَاجِدٌ عَشراً، ثُمَّ تَرفَعُ رَأْسَكَ مِنَ السُّجُودِ فَتَقُولُهَا عَشراً، ثُمَّ تَسجُدُ فَتَقُولُهَا عَشراً، ثُمَّ تَرفَعُ رَأْسَكَ فَتَقُولُهَا عَشراً؛ فَذٰلِكَ خَمسٌ وَّسَبعُونَ فِي کُلِّ رَکْعَۃٍ، تَفعَلُ ذٰلِكَ مِن أَربَعِ رَکْعَاتٍ. إِنِ استَطَعتَ أَن تُصَلِّیهَا فِي کُلِّ یَومٍ مَرَّۃً فَافعَلْ، فَإِن لَم تَفعَلْ فَفِي کُلِّ جُمُعَۃٍ مَرَّۃً، فَإِن لَمْ تَفعَلْ فَفِي کُلِّ شَهرٍ مَرَّۃً، فَإِن لَم تَفعَلْ فَفِي کُلِّ سَنَۃٍ مَرَّۃً، فَإن لَم تَفعَلْ فَفِي عُمْرِكَ مَرَّۃً.
(رواہ أبوداود وابن ماجہ والبیهقي في الدعوات الکبیر، وروی الترمذي عن أبي رافع نحوہ؛ کذا في المشکوۃ. قلت: وأخرجہ الحاکم، وقال: ’’هذا حدیث وصلہ موسیٰ بن عبدالعزیز عن الحکم بن أبان، وقد أخرجہ أبوبکر محمد بن إسحاق، وأبوداود، وأبو عبدالرحمن أحمد بن شعیب في الصحیح‘‘؛ ثم قال بعد ما ذکر توثیق رواتہ: ’’وأما إرسال إبراهیم بن الحکم عن أبیہ فلایوهن وصل الحدیث، فإن الزیادۃ من الثقۃ أولیٰ من الإرسال، علیٰ أن إمام عصرہ في الحدیث إسحاق بن إبراهیم الحنظلي قد أقام هذا الإسناد عن إبراهیم بن الحکم ووصلہ‘‘اھ. قال السیوطي في اللاٰلي: هذا إسناد حسن، وما قال الحاکم ’’أخرجہ النسائي في کتابہ الصحیح‘‘ لم نرہ في شيء من نسخ السنن، لا الصغریٰ ولا الکبریٰ)
ترجَمہ:
حضور ِاقدس ﷺ نے ایک مرتبہ اپنے چچا حضرت عباس صسے فرمایا: اے عباس! اے میرے چچا! کیا مَیں تمھیں ایک عَطِیَّہ کروں؟ ایک بخشش کروں؟ ایک چیز بتاؤں؟ تمھیں دس چیزوں کا مالک بناؤں؟ جب تم اِس کام کو کروگے تو حق تَعَالیٰ شَانُہٗ تمھارے سب گناہ: پہلے اور پچھلے، پُرانے اور نئے، غلَطی سے کیے ہوئے اور جان بوجھ کر کیے ہوئے، چھوٹے اور بڑے، چھپ کر کیے ہوئے اور کھُلَّم کھلا کیے ہوئے؛ سب ہی مُعاف فرما دیں گے، وہ کام یہ ہے کہ: چار رکعت نفل (صلاۃ التسبیح کی نیت باندھ کر )پڑھو، اور ہر رکعت میں جب الحمد اور سورۃ پڑھ چکو تو رکوع سے پہلے سُبْحَانَ اللہِ وَالحَمدُلِلّٰہِ وَلَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ پندرہ مرتبہ پڑھو، پھر جب رکوع کرو تو دس مرتبہ اُس میں پڑھو، پھر جب رکوع سے کھڑے ہوتو دس مرتبہ پڑھو، پھر سجدہ کرو تو دس مرتبہ اُس میں پڑھو، پھر سجدے سے اٹھ کر بیٹھو تو دس مرتبہ پڑھو، پھر جب دوسرے سجدے میں جاؤ تو دس مرتبہ اُس میں پڑھو، پھر جب دوسرے سجدے سے اُٹھو تو (دوسری رکعت میں)کھڑے ہونے سے پہلے بیٹھ کر دس مرتبہ پڑھو، اِن سب کی میزان پَچہتر ہوئی، اِس طرح ہر رکعت میں پچھتر دفعہ ہوگا۔ اگر ممکن ہوسکے تو روزانہ ایک مرتبہ اِس نمازکو پڑھ لیا کرو، یہ نہ ہوسکے تو ہر جمعہ کو ایک مرتبہ پڑھ لیا کرو، یہ بھی نہ ہوسکے تو ہر مہینے میں ایک مرتبہ پڑھ لیا کرو، یہ بھی نہ ہوسکے تو ہر سال میں ایک مرتبہ پڑھ لیا کرو، یہ بھی نہ ہوسکے تو عمر بھر میں ایک مرتبہ تو پڑھ ہی لو۔
عَطِیَّہ: بخشش۔ میزان: کُل تعداد۔
(۲)وَعَن أَبِي الجَوزَاءِ عَن رَجُلٍ: کَانَتْ لِي صُحبَۃٌ -یَرَونَ أَنَّہٗ عَبدُاللہِ بنِ عَمروٍ- قَالَ: قَالَ لِيَ النَّبِيُّﷺ: إِئْتِنِي غَداً أَحبُوكَ، وَأُثِیبُكَ، وَأُعطِیكَ، حَتّٰی ظَنَنتُ أَنَّہٗ یُعطِینِيْ عَطِیَّۃً، قَالَ: إِذَا زَالَ النَّهَارَ فَقُم فَصَلِّ أَربَعَ رَکْعَاتٍ، فَذَکَرَ نَحوَہٗ، وَفِیہِ: وَقَالَ: فَإِنَّكَ لَوکُنتَ أَعظَمَ أَهلِ الأَرضِ ذَنباً غُفِرَلَكَ بِذٰلِكَ، قَالَ: قُلتُ: فَإن لَمْ أَستَطِعْ أَن أُصَلِّیهَا تِلكَ السَّاعَۃَ؟ قَالَ: صَلِّهَا مِنَ اللَّیلِ وَالنَّهَارِ. (رواہ أبوداود)
ترجَمہ:
ایک صحابی کہتے ہیں: مجھ سے حضور ﷺ نے فرمایا: کل صبح کو آنا تم کو ایک بخشش کروں گا، ایک چیز دُوں گا، ایک عطیہ کروں گا، وہ صحابی کہتے ہیں: مَیں اِن الفاظ سے یہ سمجھا کہ کوئی (مال) عطا فرمائیں گے، (جب مَیں حاضر ہوا)تو فرمایا کہ: جب دوپہر کو آفتاب ڈھل چکے تو چار رکعت نماز پڑھو، اُسی طریقے سے بتایا جو پہلی حدیث میں گزرا ہے، اور یہ بھی فرمایا کہ: اگر تم ساری دنیا کے لوگوں سے زیادہ گنہ گار ہوں گے توتمھارے گناہ مُعاف ہوجائیں گے، مَیں نے عرض کیا کہ: اگر اُس وقت میں کسی وجہ سے نہ پڑھ سکوں تو؟ ارشاد فرمایا کہ: جس وقت ہوسکے: دن میں یا رات میں، پڑھ لیا کرو۔
(۳) عَن نَافِعٍ عَن ابنِ عُمَرَ قَالَ: وَجَّہَ رَسُولُ اللہِﷺ جَعفَرَ بنِ أَبِي طَالِبٍ إِلیٰ بِلَادِ الحَبشَۃِ، فَلَمَّا قَدِمَ اِعتَنَقَہٗ وَقَبَّلَہٗ بَینَ عَینَیْہِ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا أَهَبُ لَكَ؟ أَلَا أُبَشِّرُكَ؟ أَلَا أَمنَحُكَ؟ أَلَا أَتْحَفُكَ؟ قَالَ: نَعَمْ یَا رَسُولَ اللہِ! قَالَ: تُصَلِّيَ أَربَعَ رَکْعَاتٍ، فَذَکَرَ نَحوَہٗ.
(أخرجہ الحاکم، وقال: إسناد صحیح لا غبارعلیہ، وتعقبہ الذهبي بأن أحمد بن داود کذبہ الدار قطني، کذا في المنهل، وکذا قال غیرہ تبعا للحافظ؛ لکن في النسخۃ التي بأیدینا من المستدرك، وقد صحت الروایۃ عن ابن عمر أن رسول اللہﷺ علَّم ابن عمہ جعفراً، ثم ذکر الحدیث بسندہ، وقال في اٰخرہ:’’هذا إسناد صحیح لاغبار علیہ‘‘، وهکذا قال الذهبي في أول الحدیث واٰخرہ. ثم لایذهب علیك أن في هذا الحدیث زیادۃ:لَاحَولَ وَلَاقُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ العَلِيِّ العَظِیمِ أیضاً علی الکلمات الأربع.
ترجَمہ:
حضورِ اقدس ﷺنے اپنے چچازاد بھائی حضرت جعفرص کو حبشہ بھیج دیا تھا، جب وہ وہاں سے واپس مدینۂ طیبہ پہنچے تو حضور ﷺ نے اُن کو گلے لگایا اور پیشانی پر بوسہ دیا، پھر فرمایا: مَیں تجھے ایک چیز دوں؟ ایک خوش خبری سناؤں؟ ایک بخشش کروں؟ ایک تحفہ دوں؟ اُنھوں نے عرض کیا: ضرور، حضور ﷺ نے فرمایا: چار رکعت نماز پڑھ، پھر اُسی طریقے سے بتائی جو اوپر گذرا۔ اِس حدیث میں اُن چار کلموں کے ساتھ لَاحَولَ وَلَاقُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ العَلِيِّ العَظِیمِ بھی آیا ہے۔
(۴)وَعَنِ العَبَّاسِ بنِ عَبدِالمُطِّلِبِ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللہِﷺ: أَلَاأَهَبُ لَكَ؟ أَلَاأُعطِیكَ؟ أَلَاأَمنَحُكَ؟ فَظَنَنتُ أَنَّہٗ یُعطِینِي مِنَ الدُّنیَا شَیئًا لَم یُعطِہٖ أَحَداً مِن قَبلِيْ، قَالَ: أَربَعَ رَکَعَاتٍ، فذکر الحدیث؛ وفي اٰخرہ: غَیرَأَنَّكَ إِذَا جَلَستَ لِلتَّشَهُّدِ قُلتَ ذٰلِكَ عَشرَ مَرَّاتٍ قَبلَ التَّشَهُّدِ، الحدیث.
(أخرجہ الدار قطني في الأفراد، وأبونعیم في القربان، وابن شاهین في الترغیب؛ کذا في اتحاف السادۃ شرح الإحیاء)
ترجَمہ:
حضرت عباس ص فرماتے ہیں: مجھ سے حضو رﷺ نے فرمایا کہ: مَیں تمھیں بخشش کروں؟ ایک عَطِیَّہ دوں؟ ایک چیز عطا کروں؟ وہ کہتے ہیں: مَیں یہ سمجھا کہ کوئی دنیا کی ایسی چیز دینے کا اِرادہ ہے جو کسی کو نہیں دی، (اِسی وجہ سے اِس قِسم کے الفاظ: بخشش، عطا، وغیرہ کو بار بار فرماتے ہیں)، پھر آپ نے چار رکعت نماز سکھائی جو اوپر گزری، اِس میں یہ بھی فرمایا کہ: جب اَلتَّحِیَّات کے لیے بیٹھو تو پہلے اِن تسبیحوں کو پڑھو پھر التحیات پڑھنا۔
(۵) قال الترمذي: وقد روی ابن المبارك وغیر واحد من أهل العلم صلاۃ التسبیح وذکروا الفضل فیہ، حدثنا أحمد بن عبدۃ نا أبو وهب سَأَلْتُ عَبدَاللہِ بنِ المُبَارَكِ عَنِ الصَّلَاۃِ الَّتِيْ یُسَبَّحُ فِیهَا، قَالَ: یُکَبِّرُ، ثُمَّ یَقُولُ:سُبحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمدِكَ وَتَبَارَكَ اسمُكَ وَتَعَالیٰ جَدُّكَ وَلَاإِلٰہَ غَیرُكَ، ثُمَّ یَقُولُ خَمسَ عَشَرَۃَ مَرَّۃً سُبحَانَ اللہِ وَالحَمدُ لِلّٰہِ وَلَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکبَرُ، ثُمَّ یَتَعَوَّذُ وَیَقرَأُ بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ، وَفَاتِحَۃَ الکِتَابِ وَسُورۃً، ثُمَّ یَقُولُ عَشْرَ مَرَّاتٍ سُبحَانَ اللہِ وَالحَمدُ لِلّٰہِ وَلَاإِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکبَرُ، ثُمَّ یَرکَعُ فَیَقُولُهَا عَشْراً، ثُمَّ یَرفَعُ رَأْسَہٗ فَیَقُولُهَا عَشْراً، ثُمَّ یَسجُدُ فَیَقُولُهَا عَشْراً، ثُمَّ یَرفَعُ رَأسَہٗ فَیَقُولُهَا عَشراً، ثُمَّ یَسجُدُ الثَّانِیَۃَ فَیَقُولُهَا عَشْراً؛ یُصَلِّيْ أَربَعَ رَکعَاتٍ عَلیٰ هٰذَا، فَذٰلِكَ خَمسٌ وَسَبعُونَ تَسبِیحَۃً فِي کُلِّ رَکَعۃٍ، ثُمَّ قَالَ: قَالَ أَبُووَهَبٍ أَخبَرَنِي عَبدُالعَزِیزِ عَن عَبدِاللہِ أَنَّہٗ قَالَ: یَبدَأُ فِي الرُّکُوعِ بِسُبحَانَ رَبِّيَ العَظِیمِ، وَفِي السَّجدَۃِ بِسُبحَانَ رَبِّيَ الأَعلیٰ ثَلَاثاً ثُمَّ یُسَبِّحُ التَّسبِیحَاتَ. قَالَ عَبدُالعَزِیزِ: قُلتُ لِعَبدِاللہِ بنِ المُبَارَكِ: إِنْ سَهَا فِیهَا یُسَبِّحُ فِي سَجدَتَيِ السَّهوِ عَشْراً عَشْراً؟ قَالَ: لَا، إِنَّمَا هِيَ ثَلَاثُ مِائَۃِ تَسبِیحَۃٍ، اھ مختصرا.
قلت: وهکذا رواہ الحاکم، وقال: رواتہ عن ابن المبارك کلهم ثقات إثبات، ولایتهم عبداللہ أن یعلمہ ما لم یصح عندہ سندہ، اھ. وقال الغزالي في الإحیاء بعد ما ذکر حدیث ابن عباس المذکور: وفي روایۃ أخریٰ: أَنَّہٗ یَقُولُ فِي أَوَّلِ الصَّلَاۃِ سُبحَانَكَ اللّٰهُمَّ، ثُمَّ یُسَبِّحُ خَمسَ عَشرَۃَ تَسبِیحَۃً قَبلَ القِرَاءَ ۃِ، وَعَشراً بَعدَ القِرَاءَ ۃِ، وَالبَاقِي کَمَا سَبَقَ عَشراً عَشراً، وَلَایُسَبِّحُ بَعدَ السُّجُودِ الأَخِیرِ؛ وهذا هو الأحسن، وهو اختیار ابن المبارك، اھ. قال الزبیدي في الاتحاف: ولفظ القوت هذہ الروایۃ أحب الوجهین إلي اھ. قال الزبیدي: أي لایسبح في الجلسۃ الأولیٰ بین الرکعتین ولافي جلسۃ التشهد شیئا کما في القوت، قال: وکذلك روینا في حدیث عبداللہ بن جعفر بن أبي طالب أن النبيﷺ علمہ صلاۃ التسبیح، فذکرہ اھ. ثم قال الزبیدي: وأما حدیث عبداللہ بن جعفر فأخرجہ الدار قطني من وجهین عن عبداللہ بن زیاد بن سمعان، قال في أحدهما: عن معاویۃ وإسماعیل بن عبداللہ ابني جعفر عن أبیهما، وقال في الأخریٰ: عن عون بدل إسماعیل قال: قَالَ لِي رَسُولُ اللہِﷺ: أَلَا أُعطِیَكَ؟ فذکر الحدیث، وابن سمعان ضعیف، وهذہ الروایۃ هي التي أشار إلیها صاحب القوت، وهي الثانیۃ عندہ، قال فیها: یَفتَتِحُ الصَّلَاۃَ فَیُکَبِّرُ ثُمَّ یَقُولُ، فذکر الکلمات، وزاد فیها الحوقلۃ، ولم یذکر هذا السجدۃ الثانیۃ عند القیام أن یقولها، قال: وهو الذي اختارہ ابن المبارك اھ. قال المنذري في الترغیب: وروی البیهقي من حدیث أبي جناب الکلبي عن أبي الجوزاء عن ابن عمرو (ابن العاص)، فذکر الحدیث بالصفۃ التي رواها الترمذي عن ابن المبارك، ثم قال: وهذا یوافق مارویناہ عن ابن المبارك، ورواہ قتیبۃ ابن سعید عن یحییٰ بن سلیم عن عمران بن مسلم عن أبي الجوزاء قال: نزل علیٰ عبداللہ بن عمرو بن العاص فذکر الحدیث، وخالفہ في رفعہ إلی النبيﷺ، ولم یذکر التسبیحات في ابتداء القراء ۃ، إنما ذکرها بعدها، ثم ذکر جلسۃ الاستراحۃ کما ذکرها سائر الرواۃ، اھ.
قلت: حدیث أبي الجناب مذکور في السنن علیٰ هذا الطریق طریق ابن المبارك، وما ذکرمن کلام البیهقي لیس في السنن بهذا اللفظ، فلعلہ ذکرہ في الدعوات الکبیر، وما في السنن: ’’أنہ ذکر أولا حدیث أبي جناب تعلیقا مرفوعا ثم قال: قال أبوداود: ورواہ روح بن المسیب وجعفر بن سلیمان عن عمرو بن مالك التکري عن أبي الجوزاء عن ابن عباس‘‘ قولہ: وقال في حدیث روح فقال حدیث النبيﷺ،اھ. وظاهرہ أن الاختلاف في السند فقط لا في لفظ الحدیث، وذکر شارح الإقناع من فروع الشافعیۃ صلاۃ التسبیح، واقتصر علیٰ صفۃ ابن المبارك فقط؛ قال البجیرمي: هذہ روایۃ ابن مسعود، والذي علیہ مشائخنا أنہ لایسبح قبل القراء ۃ بل بعدها خمسۃ عشر، والعشرۃ في جلسۃ الاستراحۃ، وهذا روایۃ ابن عباس، اھ مختصرا. علم منہ أن طریق ابن المبارك مروي عن ابن مسعود أیضا؛ لکن لم أجد حدیث ابن مسعود فیما عندي من الکتب؛ بل المذکور فیها علیٰ ما بسطہ صاحب المنهل وشارح الإحیاء وغیرهما، أن حدیث صلاۃالتسبیح مروي عن جماعۃ من الصحابۃ، منهم: عبداللہ والفضل ابن ا العباس، وأبوهما عباس بن عبدالمطلب، وعبداللہ بن عمروبن العاص، وعبداللہ بن عمر بن الخطاب، وأبو رافع مولیٰ رسول اللہﷺ،وعلي بن أبي طالب، وأخوہ جعفر بن أبي طالب، وابنہ عبداللہ بن جعفر، وأم المؤمنین أم سلمۃ، وأنصاري غیر مسمیٰ، وقد قیل أنہ جابر بن عبداللہ؛ قالہ الزبیدي، وبسط في تخریج أحادیثهم.
وعلم مما سبق أن حدیث صلاۃ التسبیح مروي بطرق کثیرۃ.وقد أفرط ابن الجوزي ومن تبعہ في ذکرہ في الموضوعات، ولذا تعقب علیہ غیر واحد من أئمۃ الحدیث، کالحافظ ابن حجر، والسیوطي، والزرکشي؛ قال ابن المدیني: قد أساء ابن الجوزي بذکرہ إیاہ في الموضوعات، کذا في اللاٰلي. قال الحافظ: وممن صححہ أو حسنہ ابن مندۃ،وألف فیہ کتابا، والأجریٰ، والخطیب، وبوسعد السمعاني، وأبوموسیٰ المدیني، وأبوالحسن بن الفضل، والمنذري، وابن الصلاح، والنووي في تهذیب الأسماء، والسبکي، واٰخرون؛ کذا في الاتحاف. وفي المرقاۃ عن ابن حجر: ’’صححہ الحاکم وابن خزیمۃ وحسنہ جماعۃ‘‘ اھ. قلت: وبسط السیوطي في اللاٰلي في تحسنیہ، وحکیٰ عن أبي منصور الدیلمي صلاۃ التسبیح أشهر الصلوات وأصحها إسناداً.
ترجَمہ:
حضرت عبداللہ بن مبارکؒ اور بہت سے عُلَماء سے اِس نماز کی فضیلت نقل کی گئی ہے، اور اِس کا یہ طریقہ نقل کیا گیا ہے کہ: سُبْحَانَكَ اللّٰہُمَّ پڑھنے کے بعد الحمد شریف پڑھنے سے پہلے پندرہ دفعہ اِن کلموں کو پڑھے، پھر اعوذ اور بسم اللہ پڑھ کر الحمد شریف، اور پھر کوئی سورۃ پڑھے، سورۃ کے بعد رکوع سے پہلے دس مرتبہ پڑھے، پھر رکوع میں دس مرتبہ، پھر رکوع سے اُٹھ کر، پھر دونوں سجدوں میں، اور دونوں سجدوں کے درمیان میں بیٹھ کر دس دس مرتبہ پڑھے؛ یہ پچہتر پوری ہوگئی؛ (لِہٰذا دوسرے سجدے کے بعد بیٹھ کر پڑھنے کی ضرورت نہیں رہی)،رکوع میں پہلے سُبحَانَ رَبِّيَ العَظِیم اور سجدہ میں پہلے سُبحَانَ رَبِّيَ الأَعلیٰ پڑھے، پھر اِن کلموں کو پڑھے، (حضورِ اقدس ﷺ سے بھی اِس طریقے سے نقل کیا گیا ہے)۔
مُقتَدا: جن کا اتِّباع کیا جائے۔ مُداوَمت: ہمیشگی۔ اِزالے:خاتمہ۔
فائدہ:
(۱)’’صلاۃ التسبیح‘‘ بڑی اہم نماز ہے، جس کا اندازہ کچھ احادیثِ بالا سے ہوسکتا ہے کہ نبیٔ اکرم ﷺ نے کس قدر شَفقَت اور اِہتمام سے اِس کو تعلیم فرمایا ہے، عُلَمائے اُمَّت، مُحدِّثین، فُقَہاء، صوفیاء ہر زمانے میں اِس کا اِہتمام فرماتے رہتے ہیں۔
امامِ حدیث حاکمؒ نے لکھا ہے کہ: اِس حدیث کے صحیح ہونے پر یہ بھی دلیل ہے کہ تبعِ تابعین کے زمانے سے ہمارے زمانے تک مُقتَدا حضرات اِس پر مُداوَمت کرتے اور لوگوں کو تعلیم دیتے رہے ہیں، جن میں عبداللہ بن مبارکؒ بھی ہیں، یہ عبداللہ بن مبارکؒ امام بخاری کے استادوں کے استاد ہیں۔(۔۔۔۔۔۔۔)
بیہقیؒ کہتے ہیں کہ: ابن مبارکؒ سے پہلے ’’ابو الجوزاء‘‘ -جومُعتمَد تابعی ہیں- اِس کا اِہتمام کیا کرتے تھے، روزانہ جب ظہر کی اذان ہوتی تو مسجد میں جاتے، اور جماعت کے وقت تک اِس کو پڑھ لیا کرتے۔(۔۔۔۔۔۔۔)
عبدالعزیز بن ابی رَوَّادؒ -جو ابنِ مبارکؒ کے بھی اُستاد ہیں، بڑے عابد، زاہد، متقی لوگوں میں ہیں- کہتے ہیں کہ: جو جنت کا اِرادہ کرے اُس کو ضروری ہے کہ ’’صَلَاۃُ التَّسْبِیْحِ‘‘ کو مضبوط پکڑے۔(۔۔۔۔۔۔۔)
ابوعثمان حِیَریؒ -جو بڑے زاہد ہیں- کہتے ہیں کہ: مَیں نے مصیبتوں اور غموں کے اِزالے کے لیے ’’صَلَاۃُ التَّسْبِیْحِ‘‘ جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی۔(۔۔۔۔۔۔۔)
علامہ تقی سُبکیؒ فرماتے ہیں کہ: یہ نماز بڑی اہم ہے، بعض لوگوں کے اِنکار کی وجہ سے دھوکے میں نہ پڑنا چاہیے، جو شخص اِس نماز کے ثواب کو سُن کر بھی غفلت کرے وہ دین کے بارے میں سُستی کرنے والا ہے، صُلَحاء کے کاموں سے دُور ہے، اُس کو پکّا آدمی نہ سمجھنا چاہیے۔(۔۔۔۔۔۔۔)
’’مِرقاۃ‘‘ میں لکھا ہے کہ: حضرت عبداللہ بن عباس صہرجمعہ کو پڑھاکرتے تھے۔(۔۔۔۔۔۔۔)
(۲)بعض عُلَماء نے اِس وجہ سے اِس حدیث کا انکار کیا ہے کہ اِتنا زیادہ ثواب صرف چار رکعت پر مشکل ہے، بِالخُصوص کبیرہ گناہوں کا مُعاف ہونا؛ لیکن جب روایت بہت سے صحابہ ث سے منقول ہے تو اِنکار مشکل ہے؛ البتہ دوسری آیات اور احادیث کی وجہ سے کبیرہ گناہوں کی مُعافی کے لیے توبہ کی شرط ہوگی۔
(۳)احادیثِ بالا میں اِس نماز کے دو طریقے بتائے گئے ہیں: اوَّل یہ کہ، کھڑے ہوکر الحمد شریف اور سورۃ کے بعد پندرہ مرتبہ چاروں کلمے: سُبْحَانَ اللہِ، وَالحَمدُ لِلّٰہِ، وَلَاإلٰہَ إِلَّا اللہُ، وَاللہُ أَکْبَرُ پڑھے، پھر رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِیْمِ کے بعد دس مرتبہ پڑھے، پھر رکوع سے کھڑے ہوکر سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ، رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ کے بعد دس مرتبہ پڑھے ،پھر دونوں سجدہ میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعْلیٰ کے بعد دس دس مرتبہ پڑھے، اور دونوں کے درمیان جب بیٹھے دس مرتبہ پڑھے، اور جب دوسرے سجدے سے اُٹھے تو اَللہُ أَکْبَرُ کہتا ہوا اُٹھے، اور بجائے کھڑے ہونے کے بیٹھ جائے، اور دس مرتبہ پڑھ کر بغیر اَللہُ أَکْبَرُ کے کہنے کے کھڑا ہوجائے، اور دو رکعت کے بعد اِسی طرح چوتھی رکعت کے بعد پہلے اِن کلموں کو دس دس مرتبہ پڑھے، پھر التحیات پڑھے ۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ، سبحانك اللہم کے بعد الحمد سے پہلے پندرہ مرتبہ پڑھے، اور پھر الحمد اور سورۃ کے بعد دس مرتبہ پڑھے، اور باقی سب طریقہ بہ دستور؛ البتہ اِس صورت میں نہ تو دوسرے سجدے کے بعد بیٹھنے کی ضرورت ہے، اور نہ التحیات کے ساتھ پڑھنے کی، عُلَماء نے لکھا ہے کہ: بہتر یہ ہے کہ کبھی اِس طرح پڑھ لیا کرے کبھی اُس طرح۔
(۴)چوں کہ یہ نماز عام طور سے رائج نہیں ہے؛ اِس لیے اِس کے مُتعلِّق چند مسائل بھی لکھے جاتے ہیں؛ تاکہ پڑھنے والوں کو سہولت ہو:
مسئلہ(۱): اِس نماز کے لیے کوئی سورت قرآن کی مُتعیَّن نہیں، جونسی سورت دل چاہے پڑھے؛ لیکن بعض عُلَماء نے لکھا ہے کہ: سورۂ حدید، سورۂ حشر، سورۂ صف، سورۂ جمعہ، سورۂ تغابن میں سے چار سورتیں پڑھے، بعض حدیثوں میں بیس آیتوں کی بہ قدر آیا ہے؛ اِس لیے ایسی سورتیں پڑھے جو بیس آیتوںکے قریب قریب ہوں، بعض نے إِذَا زُلْزِلَتْ، وَالعَادِیَات، تَکَاثُر، وَالعَصْر، کَافِرُون، نَصْر، اِخلَاص لکھا ہے، کہ اِن میں سے پڑھ لیاکرے۔(۔۔۔۔۔۔۔)
مسئلہ(۲): اِن تسبیحوں کو زبان سے ہرگز نہ گِنے، کہ زبان سے گِننے سے نماز ٹوٹ جائے گی، اُنگلیوں کو بند کرکے گننا اور تسبیح ہاتھ میں لے کر اُس پر گننا جائز ہے؛ مگر مکروہ ہے، بہتر یہ ہے کہ انگلیاں جس طرح اپنی جگہ پر رکھی ہیں ویسی ہی رہیں، اور ہر کلمے پر ایک ایک اُنگلی کو اُسی جگہ دَباتا رہے۔(۔۔۔۔۔۔۔)
مسئلہ(۳):اگر کسی جگہ تسبیح پڑھنا بھول جائے تو دوسرے رُکن میں اُس کو پورا کرلے؛ البتہ بھولے ہوئے کی قضا رکوع سے اُٹھ کر اور دو سجدوں کے درمیان نہ کرے، اِسی طرح پہلی اور تیسری رکعت کے بعد اگر بیٹھے تو اُن میں بھی بھولے ہوئے کی قضا نہ کرے؛ بلکہ صرف اُن کی ہی تسبیح پڑھے، اور اُن کے بعد جو رکن ہو اُس میں بھولی ہوئی بھی پڑھ لے، مثلاً: اگر رکوع میں پڑھنا بھول گیا تو اُن کو پہلے سجدے میں پڑھ لے، اِسی طرح پہلے سجدے کی دوسرے سجدے میں اور دوسرے سجدے کی دوسری رکعت میں کھڑا ہوکر پڑھ لے، اور اگر رہ جائے تو آخری قعدے میں التحیات سے پہلے پڑھ لے۔(۔۔۔۔۔۔۔)
مسئلہ(۴):اگر سجدۂ سہو کسی وجہ سے پیش آجائے تو اُس میں تسبیح نہیں پڑھنا چاہیے؛ اِس لیے کہ مقدار تین سو ہے، وہ پوری ہوچکی، ہاں! اگر کسی وجہ سے اِس مقدار میں کمی رہی ہو تو سجدۂ سہو میں پڑھ لے۔(۔۔۔۔۔۔۔)
مسئلہ (۵): بعض احادیث میں آیا ہے کہ التحیات کے بعد سلام سے پہلے یہ دعا پڑھے۔
رَوَاہُ أَبُوْ نُعَیْمٍ فِيْ ’’الْحِلْیَۃِ‘‘ مِنْ حَدِیْثِ ابنِ عَبَّاسٍ، وَلَفْظُہٗ: إِذَا فَرَغْتَ قُلْتَ بَعْدَ التَّشَهُّدِ قَبْلَ التَّسْلِیْمِ: اَللّٰهُمَّ إلخ، کَذَا فِيْ الاِتِّحَافِ، وَقَالَ: أَوْرَدَہُ الطَّبْرَانِيْ أَیْضاً مِنْ حَدِیْثِ الْعَبَّاسِ، وَفِيْ سَنَدِہٖ مَتْرُوْكٌ اھ. قُلْتُ: زَادَ فِيْ المِرْقَاۃِ فِيْ اٰخِرِ الدُّعَاءِ بَعْضَ الأَلْفَاظِ بَعْدَ قَوْلِہٖ: ’’خَالِق النُّوْرِ‘‘، زِدْتُهَا تَکْمِیْلًا لِلْفَائِدَۃِ. دعا یہ ہے:
اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْئَلُكَ تَوْفِیْقَ أَهْلِ الهُدٰی، وَأَعْمَالَ أَهْلِ الیَقِیْنِ، وَمُنَاصَحَۃَ أَهْلِ التَّوْبَۃِ، وَعَزْمَ أَهْلِ الصَّبْرِ، وَجِدَّ أَهْلِ الخَشْیَۃِ، وَطَلَبَ أَهْلِ الرَّغْبَۃِ، وَتَعَبُّدَ أَهْلِ الوَرْعِ، وَعِرْفَانَ أَهْلَ العِلْمِ حَتّٰی أَخَافَكَ. اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْئَلُكَ مَخَافَۃً تَحْجُزُنِيْ بِهَا عَنْ مَّعَاصِیْكَ، وَحَتّٰی أَعْمَلَ بِطَاعَتِكَ عَمَلًا أَسْتَحِقُّ بِہٖ رِضَاكَ، وَ حَتّٰی أُنَاصِحَكَ فِيْ التَّوْبَۃِ خَوْفًا مِّنْكَ، وَحتّٰی أُخْلِصَ لَكَ النَّصِیْحَۃَ حُبًّا لَّكَ، وَحَتّٰی أَتَوَکَّلَ عَلَیْكَ فِي الأُمُوْرِحُسْنَ الظَّنِّ بِكَ، سُبْحَانَ خَالِقِ النُّوْرِ. رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغفِرْلَنَا إِنَّكَ عَلیٰ کُلِّ شَيْئٍ قَدْیِرٌ بِرَحْمَتِكَ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ. (حلیۃ الاولیاء۔۔۔۔۔۔۔)
ترجَمہ:
اے اللہ! مَیں آپ سے ہدایت والوں کی سی توفیق مانگتا ہوں، اور یقین والوں کے عمل اور توبہ والوں کا خلوص مانگتا ہوں، اور صابرین کی پختگی اور آپ سے ڈرنے والوں کی سی کوشش (یا اِحتیاط)مانگتا ہوں، اور رغبت والوں کی سی طلب، اور پرہیزگاروں کی سی عبادت، اور عُلَماء کی سی معرفت؛ تاکہ مَیں آپ سے ڈرنے لگوں۔ اے اللہ! ایسا ڈر جو مجھے آپ کی نافرمانی سے روک دے، اور تاکہ مَیں آپ کی اطاعت سے ایسے عمل کرنے لگوں جن کی وجہ سے آپ کی رَضا وخوش نودی کا مُستحِق بن جاؤں، اور تاکہ خُلوص کی توبہ آپ کے ڈر سے کرنے لگوں، اور تاکہ سچا اِخلاص آپ کی محبت کی وجہ سے کرنے لگوں، اور تاکہ آپ کے ساتھ حُسنِ ظن کی وجہ سے آپ پر توکُّل کرنے لگوں، اے نور کے پیدا کرنے والے! تیری ذات پاک ہے، اے ہمارے رب! ہمیں کامل نور عطا فرما، اور تُو ہماری مغفرت فرما، بے شک تُو ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اَرحمَ الرَّاحِمین! اپنی رحمت سے درخواست کو قَبول فرما۔
مسئلہ(۶): اِس نماز کا اوقاتِ مکروہہ کے عِلاوہ باقی دن رات کے تمام اوقات میں پڑھنا جائز ہے؛ البتہ زوال کے بعد پڑھنا زیادہ بہتر ہے، پھر دن میں کسی وقت، پھر رات کو۔ (۔۔۔۔۔۔)
مسئلہ(۷): بعض حدیثوں میں سوم کلمہ کے ساتھ لاحول کو بھی ذکر کیا گیا ہے، جیسا کہ اوپر تیسری حدیث میں گزرا؛ اِس لیے اگر کبھی کبھی اِس کو بڑھالے تو اچھا ہے۔
وَاٰخِرُ دَعوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِینَ.
زکریا کاندھلوی
شبِ جمعہ، ۲۶؍ شوال ۱۳۵۸ھ