Saturday, 28 June 2025

اہل بیت اور آلِ محمد ﷺ کون؟ ان کا مقام اور حقوق


تمام اہل سنت والجماعۃ، اہل بیت سے محبت کرتے ہیں اور عقیدت رکھتے ہیں ۔ اس لیے کہ رسول اللہ کے اہل بیت کی محبت اور ان کی تعظیم وتکریم دراصل آپ ﷺ ہی کی تعظیم وتکریم ہے۔ خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیقؓ کہا کرتے تھے:
ارْقُبُوا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَهْلِ بَيْتِهِ
ترجمہ:
اے لوگو! رسول اللہﷺ کے گھرانے کے لوگوں کا پاس ولحاظ رکھو، انھیں کسی قسم کی تکلیف مت پہنچائو اورنہ ہی انھیں برا بھلا کہو۔
[بخاری:3713، کتاب فضائل الصحابہ، باب مناقب قرابۃ رسول اللہ]




آل بیت کون ہیں؟

علماء کرام نے اہل بیت کی تحدید میں کئ ایک اقوال ذکر کيۓ ہیں :

بعض کا کہنا ہے کہ اہل بیت سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ، ان کی اولاد اوربنوھشم اور بنو مطلب اوران کے موالی ہیں ۔

اور کچھ کا کہنا ہے کہ :

ازواج مطہرات اہل بیت میں شامل نہیں ۔

اورایک قول یہ بھی ہے کہ :

اہل بیت قريش ہیں۔

بعض علماء کا کہنا ہے :

امت محمدیہ میں سے متقی لوگ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہيں ۔

اورکچھ نے کہا ہے کہ :

ساری کی ساری امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔

ازواج مطہرات کے بارہ میں راجح قول یہ ہے کہ وہ اہل بیت میں داخل ہيں اس لیے کہ اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کوپردہ کا حکم دینے کے بعد فرما یا ہے کہ :

اللہ تعالی یہی چاہتا ہے کہ اے اہل بیت تم سے وہ ( ہرقسم کی ) گندگی کودورکردے اور تمہیں خوب پاک کرے  الاحزاب ( 33 ) ۔

اورابراھیم علیہ السلام کی زوجہ سارہ رضی اللہ تعالی عنہا کوبھی اہل بیت کہنا جیسا کہ اس فرمان ہے :

فرشتوں نے کہا کیا تم اللہ تعالی کی قدرت سے تعجب کررہی ہو ؟ اے گھروالوں تم پر اللہ تعالی کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں  ھود ( 73 ) ۔

اوراس لیے بھی کہ اللہ تعالی نے لوط علیہ السلام کی بیوی کوآل لوط سے خارج کرتے ہوۓ فرمایا :

سواۓ لوط علیہ السلام کی آل کے ہم ان سب کوتو ہم ضرور بچا لیں گے مگر اس کی بیوی ۔۔۔  الحجر ( 59 – 60 ) ۔

تویہ سب آیات اس پردلالت کرتی ہیں کہ زوجہ اہل بیت اورآل میں داخل ہے ۔

اورآل مطلب کے بارہ میں امام احمد سے روایت ہے کہ وہ اہل بیت میں سےہیں اورامام شافعی رحمہ اللہ تعالی نے بھی یہی کہا ہے ۔

امام ابوحنیفہ اورامام مالک رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ آل مطلب آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل نہيں اورامام احمد رحمہ اللہ تعالی سے یہ قول بھی مروی ہے ۔

اس مسئلہ میں راجح قول یہی ہے کہ بنو عبدالمطلب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آل میں شامل ہیں اس کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے :

جبیربن مطعم رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اورعثمان بن عفان رضي اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گۓ اورہم نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے بنومطلب کودیا اورہیں محروم رکھا ہے حالانکہ ہمارا اوران کا مرتبہ آپ کے ہاں ایک ہی ہے ۔

تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : بلاشبہ بنومطلب اوربنوھاشم ایک ہی چیز ہیں ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2907 ) سنن نسائ حدیث نمبر ( 4067 ) وغیرہ نے بھی روایت کی ہے ۔

اہل بیت میں بنوھاشم بن عبدمناف جو کہ آل علی ، آل عباس ، آل جعفر ، آل عقیل ، اورآل حارث بن عبدالمطلب شامل ہیں اس کا ذکر اس حدیث میں موجود ہے جسے امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے زيد بن ارقم رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے ۔

زیدبن ارقم رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ اورمدینہ کےدرمیان ماءخما کے مقام پر ہمیں خطبہ ارشادفرمایا اللہ تعالی کی حمدوثنا بیان کی اوروعظ ونصیحت فرمائ پھر فرمانے لگے :

اما بعد : اے لوگو بلاشبہ میں ایک بشر اورانسان ہوں قریب ہے کہ میرے پاس میرے رب کا بھیجا ہوا آجاۓ تومیں اس کی دعوت پرلبیک کہوں ( موت کی طرف اشارہ ہے ) اوریقینا میں تم میں دواشیاء چھوڑ کر جارہا ہوں ان میں سے پہلی اللہ عزوجل کی کتاب جس میں نورو ھدایت ہے ، اللہ تعالی کی کتاب کوتھام لو اوراس پرمضبوطی اختیار کرو ، توانہوں نے کتاب اللہ پرعمل کرنے کی ابھارا اوراس میں رغبت دلائ ۔

اورفرمایا : میرے اہل بیت ، میں تمہیں اہل بیت کے بارہ میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں ، میں تمہیں اہل بیت کے بارہ میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں ، میں تمہیں اہل بیت کے بارہ میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں ، حصین نے کہا کہ اے زيد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کون ہیں ؟ کیا ان ازواج مطہرات اہل بیت نہیں ، توانہوں نے کہ ازواج مطہرات اہل بیت میں شامل ہیں ، لیکن اہل بیت وہ ہیں جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صدقہ حرام ہے ، انہوں نے کہا وہ کون ہیں ؟ وہ کہنے لگے :

وہ آل علی اور آل عقیل ، اورآل جعفر ، اور آل عباس رضي اللہ تعالی عنہم ہیں ، انہوں نے پوچھا کیا ان سب پر صدقہ حرام ہے ؟ زید نے جواب دیا جی ہاں ۔ مسند احمد حدیث نمبر ( 18464 ) ۔

اورموالی کے متعلق حدیث میں کچھ طرح ذکر ہے :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مولی ( غلام ) مھران بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

بلاشبہ ہم آل محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پرصدقہ حلال نہیں اورقوم کے مولی انہیں میں سے ہوتے ہیں ۔ مسند احمد حديث نمبر ( 15152 ) ۔

تواس طرح نبی صلی اللہ علیہ کی آل اوراہل بیت میں ان کی ازواج مطہرات ، ان کی اولاد ، اوربنو ھاشم ، اوربنو عبدالمطلب ، اوران کے موالی شامل ہوۓ ۔

واللہ تعالی اعلم .

اہل بیت سے مراد کون ہیں؟

نبی کریم ﷺ کے اہل بیت کے بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد آپ کے وہ رشتہ دار ہیں جن پر صدقہ حرام ہے۔ یعنی آپ کی ازواج مطہرات اور اولاد نیز عبدالمطلب کی نسل میں سے ہر مسلمان مرد و عورت جنھیں بنو ہاشم کہا جاتا ہے۔ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ولد هاشم بن عبد مناف: شيبة، وهو عبد المطلب، وفيه العمود والشرف، ولم يبق لهاشم عقب إلا من عبد المطلب فقط
”ہاشم بن عبد مناف کے گھر شیبہ پیدا ہوئے، جنہیں عبد المطلب کہا جانے لگا۔ ہاشم کے شرف و مرتبہ کے وہی وارث ہوئے، اور ان کے علاوہ کسی اور بیٹے سے ہاشم کی نسل نہیں چلی۔“
[جمھرۃ انساب العرب: 14]

اور عبد المطلب کی نسل کے بارے میں علامہ ابن حزم رحمہ اللہ کی کتاب جمھرۃ انساب العرب: 14-15، ابن قدامہ رحمہ اللہ کی کتاب التبیین فی انساب القرشیین: 76، علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی منہاج السنۃ: 7/304-305 اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی فتح الباری: 7/78-79 کا مطالعہ کیا جائے۔
اس بات کی دلیل کہ ”آپ کے چاچاؤں کی نسل بھی اہل بیت میں داخل ہے“ صحیح مسلم کی وہ حدیث ہے جو عبد المطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ میں اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم ﷺ کی خدمت میں یہ درخواست لے کر حاضر ہوئے کہ آپ ہمیں صدقہ کی وصولی پر مقرر فرما دیں تاکہ ہم اس کام کی تنخواہ سے اپنی شادی کا سامان کر سکیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَنْبَغِي لِآلِ مُحَمَّدٍ، إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ
”آل محمد ﷺ کے لئے صدقہ حلال نہیں، یہ تو لوگوں کی میل کچیل ہے۔“
[صحیح مسلم: 1072]

پھر آپ نے خمس کے مال سے ان کی شادی کرنے کا حکم دیا۔ امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ جیسے بعض اہل علم نے صدقہ کی حرمت کے مسئلہ میں بنو ہاشم کے ساتھ بنو مطلب بن عبد مناف کو بھی شامل کیا ہے۔ کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے خمس کے خمس سے ان کو بھی حصہ دیا تھا جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے، جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ ”نبی کریم ﷺ نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کو خمس سے حصہ دیا لیکن عبد شمس اور نوفل کی اولاد کو کچھ نہ دیا۔ (حالانکہ ہاشم، مطلب، عبد شمس اور نوفل آپس میں بھائی ہیں) اور وجہ یہ بتائی کہ بنو ہاشم اور بنو مطلب ایک ہیں۔“
[صحیح بخاری: 3140]

آپ کی ازواج مطہرات کے اہل بیت میں سے ہونے کی دلیل اللہ ﷻ کا یہ فرمان ہے:

وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا[33] وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا[34]
”اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکوٰة دیتی رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو۔ اللہ ﷻ یہی چاہتا ہے کہ اے نبی کی گھر والیو! تم سے وه (ہر قسم کی) گندگی کو دور کردے اور تمہیں خوب پاک کردے۔ [33] اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور رسول کی احادیث پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کرتی رہو، یقیناً اللہ ﷻ لطف کرنے واﻻ خبردار ہے۔ [34]“
[سورۃ الاحزاب: 33-34]

یہ آیت مبارکہ قطعی طور پر دلالت کرتی ہے کہ ازواج مطہرات اہل بیت میں داخل ہیں کیونکہ اس سے ما قبل و ما بعد کی آیات میں انہیں سے خطاب ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث کو اس کے منافی خیال نہ کیا جائے جو کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةً، وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ، فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ فَدَخَلَ مَعَهُ، ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا، ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا
”رسول اللہ ﷺ صبح کو نکلے اور آپ ﷺ ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے جس پر کجاووں کی صورتیں یا ہانڈیوں کی صورتیں بنی ہوئی تھیں۔ اتنے میں حسن رضی اللہ عنہ آئے تو آپ ﷺ نے ان کو اس چادر کے اندر کر لیا۔ پھر حسین رضی اللہ عنہ آئے تو ان کو بھی اس میں داخل کر لیا۔ پھر فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں تو ان کو بھی انہیں کے ساتھ شامل کر لیا پھر علی رضی اللہ عنہ آئے تو ان کو بھی شامل کر کے فرمایا کہ ”اللہ ﷻ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی کو دور کرے اور تم کو پاک کرے اے گھر والو۔‘‘ (سورۃ الاحزاب: 33)۔
[صحیح مسلم: 2424]

کیونکہ اس آیت میں صراحتاً خطاب ازواج مطہرات کو ہے لہذا وہ تو قطعا داخل ہیں، البتہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم بھی ان کے ساتھ اہل بیت میں داخل ہیں، اس حدیث میں ان چار حضرات کے ذکر کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے رشتہ دار اہل بیت میں داخل نہیں بلکہ اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ چاروں آپ کے گہرے رشتے دار ہیں۔ اس کی ایک اور مثال آپ ملاحظہ کرنا چاہیں تو وہ یوں ہے:
لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ
”وہ مسجد جس کی بنیاد ابتدا ہی سے تقویٰ اور خلوص پر رکھی گئی۔“
[سورۃ التوبۃ: 108]

یہ فرمان الہی مسجد قبا کے بارے میں ہے۔ جبکہ صحیح مسلم کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسجد سے مراد مسجد نبوی ہے۔ (صحیح مسلم: 1398) گویا دونوں مسجدیں اس فرمان کے مصداق ہیں۔ کیونکہ دونوں کی بنیاد نبی اکرم ﷺ نے اپنے دست مبارک سے رکھی۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہ مثال اپنے رسالہ میں ذکر فرمائی ہے۔ (فضل اھل البیت و حقوقھم: 20-21) آپ کی ازواج مطہرات لفظ ”آل“ کے تحت داخل ہیں کیونکہ آپ ﷺ کا فرمان ہے:
أَنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَحِلُّ لِآلِ مُحَمَّدٍ
”صدقہ (و زکوۃ) آل محمد کے لئے حلال نہیں۔“
[مسند احمد: 7758]

اس لئے ان کو خمس سے حصہ دیا جاتا تھا۔ نیز مسند ابن ابی شیبہ میں حضرت ابن ابی ملیکہ سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے:
أَنَّ خَالِدَ بْنَ سَعِيدٍ بَعَثَ إلَى عَائِشَةَ بِبَقَرَةٍ مِنْ الصَّدَقَةِ فَرَدَّتْهَا وَقَالَتْ إنَّا آلَ مُحَمَّدٍ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَةُ
”خالد بن سعید نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر صدقہ کی ایک گائے بھیج دی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے واپس لوٹایا اور فرمایا: ہم آل محمد کے لئے صدقہ حلال نہیں۔“
[المصنف لابن ابی شیبۃ: 10708]

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اس مسلک کے قائلین کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”یہ لوگ کہتے ہیں کہ بیویاں بھی آل میں داخل ہوتی ہیں خصوصا ازواج مطہرات آل محمد (ﷺ) میں داخل ہیں، کیونکہ زوجیت والا رشتہ بھی تو نسب جیسا ہے۔ ازواج مطہرات کا رشتہ نبی اکرم ﷺ سے منقطع نہیں ہوا تبھی تو وہ آپ کی زندگی میں آپ کی وفات کے بعد بھی دوسرے مردوں پر حرام ہیں۔ وہ دنیا میں بھی آپ کی بیویاں ہیں اور آخرت میں بھی آپ کی بیویاں ہوں گی۔ لہذا ان کا نبی کریم ﷺ کے ساتھ رشتہ نسب کی طرح قائم و دائم ہے۔ آپ نے درود میں ان کو صراحتاً شامل فرمایا ہے، اس لئے صحیح بات یہی ہے کہ صدقہ ازواج مطہرات پر بھی حرام ہے کیونکہ یہ لوگوں کی میل کچیل ہے اور اللہ ﷻ نے آپ کی ذات اور آپ کی آل کو انسانوں کی اس میل کچیل سے بچا کر رکھا ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ پھر تعجب کی بات ہے کہ اگر ازواج مطہرات آپ کے مندرجہ ذیل فرامین میں داخل ہیں:
اللَّهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوتًا
”اے اللہ علی محمد ﷺ کو صرف ضرورت کی حد تک رزق دے۔“
[صحیح مسلم: 1055]

عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خُبْزِ بُرٍّ مَأْدُومٍ، ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ حَتَّى لَحِقَ بِالله
”آل رسول ﷺ کبھی پے در پے تین دن تک سالن کے ساتھ گیہوں کی روٹی نہیں کھا سکے یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ اللہ سے جا ملے۔“
[صحیح بخاری: 6687، صحیح مسلم: 2970]

اسی طرح ازواج مطہرات درود میں بھی داخل ہیں، تو کیا وجہ ہے کہ وہ آپ کے اس فرمان میں داخل نہیں؟
أَنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَحِلُّ لِآلِ مُحَمَّدٍ
”صدقہ (و زکوۃ) آل محمد کے لئے حلال نہیں۔“
[مسند احمد: 7758]

حالانکہ صدقہ لوگوں کی میل کچیل ہے۔ ازواج مطہرات کو تو اس سے بچانے اور دور رکھنے کی بہت ضرورت تھی۔

شبہ: اگر کہا جائے کہ اگر صدقہ ازواج مطہرات پر حرام ہوتا تو ان کے غلاموں اور لونڈیوں پر بھی حرام ہونا چاہئے تھا جس طرح بنو ہاشم کے غلاموں اور لونڈیوں پر تھا، حالانکہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو صدقہ کا گوشت بھیجا گیا اور انہوں نے کھایا۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں منع نہیں کیا، جبکہ بریرہ رضی اللہ عنہا عائشہ رضی اللہ عنہا کی آزاد کردہ لانڈی تھیں۔
جواب: درحقیقت اسی بات سے ان لوگوں کو اشتباہ ہوا جنہوں نے ازواج مطہرات کے لئے صدقے کا استعمال جائز کہا ہے۔ اس اشتباہ کا جواب یہ ہے کہ ازواج مطہرات پر صدقے کی حرمت ذاتی نہیں، بلکہ نبی کریم ﷺ کی وجہ سے ہے ورنہ آپ کے ساتھ نکاح سے پہلے ان پر صدقہ حرام نہیں تھا، اس لئے یہ حرمت ان کے غلاموں پر لاگو نہ ہوگی۔ جبکہ بنو ہاشم پر صدقے کی حرمت ذاتی ہے اس لئے یہ ان کے غلاموں پر بھی لاگو ہوگی۔
اس بحث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ازواج مطہرات اہل بیت میں داخل ہیں، کیونکہ اہل بیت والی آیت سے ما قبل چند آیات اور بعد والی آیت میں خطاب ازواج مطہرات سے ہے لہذا ان کو اہل بیت سے نکالنا ممکن نہیں۔
[جلاء الافہام: 113-114]

بنو ہاشم کے غلاموں پر صدقے کی حرمت کی دلیل یہ حدیث ہے:
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ رَجُلًا عَلَى الصَّدَقَةِ مِنْ بَنِي مَخْزُومٍ، فَقَالَ لِأَبِي رَافِعٍ: اصْحَبْنِي؛ فَإِنَّكَ تُصِيبُ مِنْهَا. قَالَ: حَتَّى آتِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْأَلَهُ. فَأَتَاهُ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: مَوْلَى الْقَوْمِ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، وَإِنَّا لَا تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَةُ
”نبی اکرم ﷺ نے بنی مخزوم کے ایک شخص کو صدقہ وصول کرنے کے لئے بھیجا، اس نے ابو رافع سے کہا: میرے ساتھ چلو اس میں سے کچھ تمہیں بھی مل جائے گا، انہوں نے کہا: میں رسول ﷺ کے پاس جا کر پوچھ لوں، چنانچہ وہ آپ کے پاس آئے اور دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: قوم کا غلام انہیں میں سے ہوتا ہے اور ہمارے لئے صدقہ لینا حلال نہیں۔“
[سنن ابی داؤد: 1650، سنن الترمذی: 657]

اللہ ﷻ کا فرمان ہے:

وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا[33] وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا[34]
”اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکوٰة دیتی رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو۔ اللہ ﷻ یہی چاہتا ہے کہ اے نبی کی گھر والیو! تم سے وه (ہر قسم کی) گندگی کو دور کردے اور تمہیں خوب پاک کردے۔ [33] اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور رسول کی احادیث پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کرتی رہو، یقیناً اللہ ﷻ لطف کرنے واﻻ خبردار ہے۔ [34]“
[سورۃ الاحزاب: 33-34]

امام الانبیاء، خاتم النبین، سید ولد آدم، جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے متعلق وصیت و تلقین فرمائی کہ میرے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کو برا نہ کہنا، انہیں طعن و تشنیع اور تنقید کا نشانہ نہ بنانا، ان سے محبت و الفت کا اظہار کرنا، ان کے متعلق اللہ سے ڈرنا۔ اسی طرح آپ ﷺ نے اہل بیت کے متعلق نصیحت و تاکید فرمائی: آپ ﷺ نے فرمایا:
’’لوگو! میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں ایک تو اللہ کی کتاب ہے جس میں ہدایت ہے نور ہے اور وہ اللہ کی رسی ہے۔ جس نے اس کی پیروی کی وہ ہدایت پر رہے گا اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ گمراہی میں مبتلا ہو جائے گا۔ لہذا اللہ کی کتاب کو پکڑ لو اور اس پر سختی سے عمل کرو۔ اور (دوسری بھاری چیز) میرے اہل بیت ہیں۔ میں اپنے اہل بیت کے متعلق تمہیں اللہ سے ڈراتا ہوں (تین بار یہ کلمات دہرائے مطلب یہ ہے کہ اللہ سے ڈرتا اور میرے اہل بیت کے ساتھ بدسلوکی نہ کرنا ان کی بے حرمتی نہ کرنا)‘‘
[صحیح مسلم، كتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علی بن ابی طالب، رقم 6228)]

رسول اللہ ﷺ نے اپنے اس ارشاد گرامی میں کتاب اللہ اور اہل بیت کو احترام و عظمت کے حوالے سے دو بھاری اور وزنی چیزیں قرار دیا اور قرآن کریم پر عمل کرنے اور اہل بیت کا احترام کرنے کی خصوصی نصیحت فرمائی۔
آج بعض لوگوں نے اہل بیت کے حوالے سے چند انتہائی غلط باتیں مشہور کر رکھی ہیں اور وہ باتیں رسول اللہ ﷺ کی مذکورہ نصیحت و وصیت کے بالکل بر خلاف ہیں:

پہلی غلط بات:
وہ اہل بیت میں رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو تسلیم نہیں کرتے اور یہ بات اللہ اور اس کے رسولﷺ کی کھلی بغاوت مخالفت اور نافرمانی ہے۔

دوسری غلط بات:
وہ اہل بیت میں رسول اللہ ﷺ کی بعض بیٹیوں کو تسلیم نہیں کرتے: اور یہ بات بھی اللہ اور اس کے رسولﷺ کی کھلی بغاوت مخالفت اور نافرمانی ہے۔

تیسری غلط بات:
وہ بعض اہل بیت کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے بھی بڑھا چڑھا کر بیان کرتے اور انہیں حاجت روا، مشکل کشا اور مختار کل مانتے ہیں، جبکہ یہ عقیدہ شرکیہ عقیدہ ہے اور قرآن وسنت میں بیان کردہ اسلامی عقائد کے بالکل منافی اور خلاف ہے۔

چوتھی غلط بات:
وہ اہل بیت کی کھوکھلی محبت کی آڑ میں صحابہ و صحابیات رضی اللہ تعالی عنہم پر کیچڑ اچھالتے اور ہدفِ تنقید بناتے ہیں اور ان کی یہ روش دین کی بنیادیں کھوکھلی کرنے اور اسلام کو منہدم کرنے کے مترادف ہے۔

اس لیے آج کے خطبہ جمعہ میں قرآن وسنت کے مضبوط دلائل اور دیگر شواہد کی روشنی میں واضح کیا جائے گا کہ اہل بیت کون ہیں؟

تو یاد رکھئے! اہل بیت میں سب سے پہلے رسول اللہﷺ کی بیویاں آپ کی ازواج مطہرات میں ہیں۔ اور اس کی ایک نہیں بہت ساری دلیلیں ہیں:

پہلی دلیل:
اللہ رب العزت نے سورۃ الاحزاب کے ایک پورے رکوع میں ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن کے لیے چند احکام و مسائل بیان کرتے ہوئے آخر میں فرمایا:
﴿إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا﴾ [الاحزاب: 33]
’’اے پیغمبر کے گھر والو! اے اہل بیت! اے ازواج رسول اللہ! ﷺ (ان احکام کے ذریعے) تم سے ہر قسم کی آلائش دور کرنا چاہتا ہے اور تمہیں خوب پاک صاف کرنا چاہتا ہے۔‘‘
قرآن مجید کی یہ آیت نص صریح ہے کہ اہل بیت میں سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی بیویاں شامل ہیں۔

دوسری دلیل:
سورۂ ہود میں رب کائنات نے خلیل اللہ جناب ابراہیم علیہ السلام کی بیوی کے لیے یہی لفظ ’’اہل بیت‘‘ بولا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے۔ جب ابراہیم علیہ السلام کی بیوی جناب سارہ علیہا السلام نے بیٹے اور پوتے کی خوشخبری پر تعجب کیا تو فرشتوں نے کہا:
﴿ قَالُوْۤا اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَ بَرَكٰتُهٗ عَلَیْكُمْ اَهْلَ الْبَیْتِ ؕ اِنَّهٗ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ﴾ [هود:73]
’’کیا تم اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہو، اے اہل بیت تم پر تو اللہ کی رحمت اور برکت ہے، یقینًا اللہ تعریفوں والا بڑی بزرگی والا ہے۔‘‘
یہ آیت بھی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اہل بیت میں سب سے پہلے بیویاں شامل ہیں۔

ایک اہم نکتہ:
گزشتہ آسمانی شریعتوں میں اور ابتداء اسلام میں مشرکہ عورتوں سے نکاح کی اجازت تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے دونوں خلیلوں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت محمدﷺ کو مشرکہ بیویوں سے محفوظ رکھا۔ دونوں عظیم المرتبت پیغمبروں کی تمام بیویاں مؤمنات مسلمات صالحات طیبات طاہرات اور مطہرات ہیں۔

تیسری دلیل:
صحیح البخاری میں ہے: جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح کیا تو دوسرے دن آپ تمام بیویوں کے پاس تشریف لائے اور ہر بیوی کو اس طرح سلام کہا:
(السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ وَرَحْمَةُ اللهِ) [صحيح البخاري، كتاب التفسير، تفسير سورة الأحزاب، رقم: 4793]
’’اے اہل بیت! تم پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت ہو۔‘‘

چوتھی دلیل:
صحیح مسلم میں ہے: اس موقعہ پر رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن کو ان الفاظ کے ساتھ حال مزاج پوچھا:
( كَيْفَ أَنْتُمُ يَا أَهْلَ الْبَيْتِ) [صحیح مسلم، كتاب النكاح، باب فضيلة إعتاقي أمته .. الخ، رقم: 3500]
’’اے اہل بیت! تمہارے مزاج کیسے ہیں کیا حال چال ہے۔‘‘

پانچویں دلیل:
صحیح البخاری میں ہے: جب صدیقہ کائنات ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا پر تہمت لگائی گئی اس وقت آپ نے خطاب عام کرتے ہوئے فرمایا:
’’لوگو! تم میں سے کون اس شخص کے مقابلے میں میرا ساتھ دے گا جس شخص نے میرے اہل بیت کے سلسلے میں مجھے اذیت دی ہے۔‘‘

چھٹی دلیل:
اہل بیت کا معنی ’’گھر والے‘‘ ہیں ہمارے عرف میں بھی اس لفظ میں بیوی بچے سب آتے ہیں۔
غور کیجئے! قرآن مجید کی آیات اور صیح البخاری وصحیح مسلم کی مستند ترین احادیث کس قدر وضاحت و صراحت کے ساتھ اعلان کر رہی ہیں کہ پیغمبر ﷺ کے اہل بیت میں خانہ نبوت میں، کا شانہ رسالت میں آپﷺ کی بیویاں ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن شامل ہیں۔
ہاں بیویوں کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کی تمام بیٹیاں حضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہن، تمام بیٹے حضرت علی اور حضرت حسن، حضرت حسین اور حضرت امامہ بنت زینب رضی اللہ تعالی عنہم بھی شامل ہیں۔ جس طرح صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا حضرت علی، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہم کو ایک چادر میں چھپایا اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی:
﴿إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ﴾ [الاحزاب:33]
[صحیح مسلم، فضائل الصحابة، باب فضائل أهل بيت النبي و (6261)]

معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے اہل بیت میں شامل ہونے کی بھی وضاحت فرمادی کیونکہ آیت میں تذکرہ صرف بیویوں کا تھا تو آپ نے انہیں بھی شامل کیا معلوم ہوا ازواج مطہرات کا اہل بیت میں شامل ہونا قرآن اور حدیث دونوں سے ثابت ہے اور باقیوں کا اہل بیت سے ہونا صرف حدیث سے ثابت ہے۔

ایک ضروری وضاحت:
اہل بیت سے ملتا جلتا لفظ آل رسول ﷺ ہے۔ لیکن لفظ آل ’’اہل بیت‘‘ سے وسیع اور کھلا مفہوم رکھتا ہے۔ اس لفظ میں ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن اور بیٹے، بیٹیوں کے ساتھ پیروکار بھی شامل ہیں۔ آل کا لفظ ’’متبعین‘‘ کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں لفظ آل پیروکاروں کے معنی میں متعدد مقامات پہ مذکور ہے۔ احادیث مبارکہ میں بھی آل کا لفظ ازواج مطہرات، اولاد رسول اور دیگر متبعین پر بولا گیا ہے۔
بہر حال لفظ اہل بیت ہو یا لفظ آل رسول ہو ان دونوں لفظوں میں رسول اللہ ﷺ کی بیویاں شامل ہیں۔ اس لیے اہل بیت کی محبت کا دعوی کرنا اور رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات امہات المومنین کو اہل بیت سے خارج سمجھنا بلکہ ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن کے خلاف زبان درازی کرنا اور ان کی شان میں گستاخی کرنا اللہ اور اس کے رسول کی کھلی مخالفت ہے۔
یاد رکھئے! بیوی انسان کی عزت ناموس اور حرمت ہے لہٰذا ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن اور امہات المومنین رضی اللہ تعالی عنہن کی بے حرمتی اور گستاخی بالواسطہ رسول اللہ ﷺ کی گستاخی و بے حرمتی ہے اور ناموس رسالت پر ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس لیے آئندہ خطبہ جمعہ میں رسول اللہ مسلم کی ازواج مطہرات بیان کے فضائل و خصائل اور مناقب و محامد بیان کیے جائیں گے۔ تاکہ ہمارے دلوں میں امت کی ان عظیم محسنہ ماؤں کی عقیدت محبت اور عظمت مزید پختہ ہو اور یاد رکھیے اہل بیت کی محبت کا مطلب انہیں پوجنا، مدد کے لیے پکارنا، حاجت روا، مشکل کشا سمجھنا، ہرگز نہیں۔ بلکہ ان کی محبت دل میں رکھنا، زبان سے ان کی شان و منقبت بیان کرنا اور دل و جان سے ان کا احترام کرنا ہے۔

کھلی تضاد بیانی:
وہ لوگ جو بعض اہل بیت (حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہم کے متعلق غلو کرتے ہیں اور انہیں اللہ تعالی کے اختیارات میں شریک قرار دیتے ہیں اور انہیں حاجت روا مشکل کشا بگڑی بنانے والا سمجھتے ہوئے انہیں مدد کے لیے پکارتے ہیں وہی لوگ دوسری طرف انہی شخصیات کو مظلوم بے بس اور عاجز ثابت کرتے ہیں، کبھی کہتے ہیں (معاذ اللہ) حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ جیسے عمر رسیدہ بزرگ صحابی نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے خلافت چھین لی (ایک طرف حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ مشکل کشاء اور دوسری طرف حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے خلافت چھین لی؟ کیسا تضاد ہے؟)۔ کبھی کہتے ہیں: (معاذ اللہ) حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا حق وراثت چھین لیا (غور کیجئے! ایک طرف حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا مشکل کشا حاجت روا اور دوسری طرف حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے حق وراثت غصب کر لیا، کیسی تضاد بیانی ہے؟ سچ کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ اسی طرح کبھی کہتے ہیں: حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھیوں نے پانی کے ایک ایک قطرے کو ترستے ہوئے تڑپ تڑپ کر جانیں دیں اور دوسری طرف حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ مشکل کشا، حاجت روا۔ یہ اپنے منہ اپنے ہی عقائد کی نفی ہے ظاہر ہے جب غلو سے کام لیا جائے گا عقید ہ بھی بگڑے گا اور غلو کرنے والوں کی حقیقت بھی کھل جائے گی۔ لہٰذا اہل بیت کی محبت کا یہ مطلب قطعاً درست نہیں کہ انہیں بڑھا چڑھا کر خدائی اختیارات کا مالک عالم الغیب اور گنج بخش قرار دیا جائے بلکہ اہل بیت کی سچی محبت اور سچی عقیدت تو یہ ہے کہ انہیں وہ مقام دیا جائے جو مقام قرآن وسنت نے بیان کیا ہے اللہ اصلاح اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے اور ہمیں اہل بیت کی محبت کے کھوکھلے دعوؤں کی بجائے حقیقی سچی محبت کی توفیق بخشے اور ہر قسم کے غلو سے محفوظ رکھے۔


اہل بیت وآل محمد ﷺ

حضور ﷺ سے محبت ایمان کا جزء ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: قُلْ إِنْ کَانَ آبَاؤُکُمْ وَأَبْنَاؤُکُمْ وَإِخْوَانُکُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیرَتُکُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا أَحَبَّ إِلَیْکُمْ مِنَ اللَّہِ وَرَسُولِہِ وَجِہَادٍ فِی سَبِیلِہِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّی یَأْتِیَ اللَّہُ بِأَمْرِہِ وَاللَّہُ لا یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ (التوبہ:۲۴) (آپ کہہ دیجیے اے لوگو! اگر تمہیں تمہارے آباء تمہاری اولاد، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں اور تمہارا کنبہ اور خاندان اور مال جو تم نے کماکے جمع کیا ہے اور تمہاری تجارت جسے تم کسادبازاری سے بچاتے ہو اور تمہارے عمدہ گھر اگر اللہ اور اس کے رسول کے مقابلہ میں زیادہ محبوب ہیں اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے، تو تم انتظار کرو اللہ کے فیصلہ کا، یہ سمجھ لو کہ اللہ کسی فاسق کو ہدایت نہیں دیتا)۔

اسی طرح سورہ احزاب میں فرمایا گیا: النَّبِیُّ أَوْلَی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أَنْفُسِہِمْ (احزاب:۶) (پیغمبرمومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتے ہیں )۔

آیات کی تشریح میں آپ نے فرمایا: لا یؤمن احدکم حتی اکون احب إلیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین (صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب حب الرسول من الایمان) (کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ ’’میں ‘‘ اس کے والدین،اولاد اور دوسرے تمام لوگوں کے مقابلہ میں زیادہ محبوب نہ ہوجائوں )۔

دوسری صحیح حدیث میں ہے: ثلاث من کن فیہ وجد بہن حلاوۃ الایمان، من کان اللّٰہ ورسولہ احب إلیہ مما سواہما (صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب حلاوۃ الایمان) (جس شخص میں تین باتیں ہوں گی وہ ایمان کی مٹھاس محسوس کرے گا۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ بندہ اللہ اوراس کے رسول سے ہر ایک رشتہ اور چیز سے زیادہ محبت کرے)۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ کے محبوب (بلکہ اعظم محبوب من الخلق) ہیں اور ظاہرسی بات ہے جو اللہ سے محبت کرتا ہے وہ اللہ کے محبوب سے بھی محبت کرے گا۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ رسول مومنوں کے سب سے بڑے ہمدرد اور مشفق ہیں ۔ ان پر مومنوں کی تکلیف نہایت گراں گذرتی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: لَقَدْ جَائکُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوفٌ رَّحِیْمٌ (توبہ:۱۲۸) (تمہارے پاس تمہیں میں سے ایسا رسول آیا ہے جس پر تمہاری تکلیف نہایت شاق گذرتی ہے۔ وہ تمہاری بھلائی کے حریص ہیں اور نہایت شفقت والے اور رحم والے ہیں ایمان والوں پر)۔

آپ ﷺ کی شفقت کی انتہاء یہ ہے کہ نماز میں اگر کسی بچے کے رونے کی آواز آپ سن لیتے تو نماز ہلکی کردیتے، صحیح بخاری میں ہے: اذا سمع البکاء یخفف من صلاتہ رأفۃ وشفقۃ علی قلب امہ بہ (صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب من أخف الصلوٰۃ عند بکاء الصبی) (جب آپ نماز میں کسی بچے کے رونے کی آواز سنتے تو آپ نماز مختصر کردیتے، اس وجہ سے کہ کہیں بچے کے رونے کی وجہ سے اس کی ماں پریشان نہ ہوجائے)۔

نہ معلوم کتنی مرتبہ آپ نے فرمایا: لولا ان أشق علی أمتی لامرتہم۔۔۔۔ (صحیح بخاری، کتاب الجمعۃ، باب السواک، ابن حبان، باب مواقیت الصلوٰۃ، دارمی، باب ینزل اللّٰہ الی السماء الدنیا) (اگر مجھے امت پرتنگی کا خیال نہ ہوتا تو میں یہ اور یہ حکم دیتا، مگر امت کا خیال رکھتے ہوئے وہ حکم نہیں سنایا کہ کہیں وہ حکم ان پر گراں نہ گذرے)۔

ایسے مشفق اور سراپا رحمت رسول سے اللہ بھی محبت کرتا ہے، اس کے فرشتے ان کے لیے علومرتبت اور رحمت کی دعا کرتے ہیں ؛ لہٰذا مومنین کو حکم دیا کہ وہ بھی اللہ سے رحمت کی دعا کریں ، ارشاد فرمایا: إِنَّ اللّٰہَ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیْمًا(احزاب:۵۶)۔ بیشک اللہ اپنی رحمتیں بھیجتا ہے نبی پر اور فرشتے رحمت کی دعا کرتے ہیں ان کے لیے اور اے ایمان والو! تم بھی ان پر صلاۃ (درود) وسلام بھیجو۔

مؤمنین کا حضور پر صلاۃ (درود) بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ سے درخواست کریں کہ اللہ اپنی بیش از بیش رحمتیں ابدالآباد تک نبی اور ان کی ازواج وذریات پر نازل فرماتا رہے۔ اس لیے کہ حضور کے احسانات کا بدلہ چکانا کسی کے بس کی بات نہیں ۔ حضور کا احسان صرف یہ نہیں کہ انھو ں نے دین کو آسان صورت میں پیش کیا؛ بلکہ ان کا احسان تمام انسانیت پر ہے، انھوں نے گمراہ لوگوں کو راہ راست پر چلنا سکھایا، جہنم کے دہانے پر کھڑے انسانوں کو جنت کا راستہ دکھایا، جو انسان اخلاقی پستیوں میں گراہوا تھا اسے وہاں سے اٹھاکر بلندیاں عطا کیں ، جو دوسروں کے غلام تھے انھیں حکمرانی کے ہنرسکھائے۔ کفر کی دنیا اس لیے اس شخص سے خارکھائے ہوئے ہے کہ اس نے یہ احسانات تم پر کیے، ورنہ اس نے کسی کے ساتھ ذاتی طور پر کوئی برائی نہیں کی تھی۔ اس لیے اب تمہاری احسان شناسی کا لازمی تقاضہ ہے کہ جتنا بغض وہ خیرمجسم کے خلاف رکھتے ہیں اسی قدر؛ بلکہ اس سے زیادہ تم ان سے محبت کرو جتنی وہ مذمت کرتے ہیں اتنی تم ان کی تعریف کرو، ان کے حق میں دعا کرو جو اللہ کے فرشتے شب وروز کررہے ہیں ؛ کیوں کہ ہم ان کے احسانوں کا بدلہ کبھی نہیں چکاسکتے، اس لیے اللہ سے کہتے ہیں اللہ ان کی خدمات کے بدلے انھیں بہتراز بہتر مقام ومرتبہ عطا فرما (تفہیم القرآن حاشیہ آیت:۵۶، سورہ احزاب)۔

جب حکم صلاۃ (درود) نازل ہوا تو صحابہ نے کہا یا رسول اللہ! سلام کا طریقہ تو ہمیں آپ نے سکھادیا کہ – یعنی – السلام علیک ایہا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، جو نماز کے تشہد میں پڑھا جاتا ہے اور اب صلاۃ (درود) کا طریقہ بھی تعلیم فرمادیجیے، آپ نے یہ درود تلقین فرمایا: اللّٰہم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی آل ابراہیم انک حمید مجید۔ اللّٰہم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی آل ابراہیم انک حمید مجید (متفق علیہ۔ بخاری، کتاب الدعوات، باب الصلاۃ علی النبی ﷺ، مسلم، کتاب الصلوٰۃ باب الصلوٰۃ علی النبی بعد التشہد)

صحیح بخاری ومسلم کی دوسری روایات میں یہ درود اس طرح بھی ہے: اللّٰہم صلی علی محمد وازواجہ وذریتہ کما صلیت علی آل ابراہیم وبارک علی محمد وازواجہ وذریتہ کما بارکت علی آل ابراہم انک حمید مجید (متفق علیہ۔ بخاری، کتاب الدعوات، باب الصلاۃ علی النبی ﷺ۔ مسلم، کتاب الصلوٰۃ، باب یصلی علی النبی بعد التشہد)۔

واضح رہے کہ آیت میں صرف آپﷺ کے لیے صلاۃ (درود) کا حکم تھا کہ مؤمنین آپ پر درود بھیجیں ، مگر حضورﷺ نے اپنے ساتھ اپنی آل، ازواج اور ذریت کو بھی شامل کرلیا۔ اس پر ابن حجر الہیثمی مکی نے فرمایا کہ الفاظ صلاۃ (درود) میں اپنے ساتھ اپنے اہل بیت کو شامل کرنا اس بات کی ظاہر دلیل ہے کہ اللہ نے اہل بیت پر صلاۃ کا حکم فرمایا اور یہ آپ کے لیے اور آپ کے گھر والوں کے لیے نہایت شرف وعظمت کی بات ہے (الصواعق المحرقہ، ص:۱۳۱، الباب الحادی عشر فی فضائل اہل البیت النبوی، الفصل الاول فی الآیات الواردۃ فیہم)۔

بلاشبہ اللہ کے رسول ﷺ بغیرحکم ومنشاء الٰہی کچھ نہیں کہتے،آپﷺ نے آیت یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیْمًا کے سوا درج ذیل آیات کے معنی ومفہوم کو سامنے رکھ کر اپنے ساتھ دوسروں کو صلاۃ میں شامل فرمایا:

أُولَـئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ وَأُولَـئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُونَ (البقرۃ:۱۵۷)

خُذْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِم بِہَا وَصَلِّ عَلَیْہِمْ إِنَّ صَلاَتَکَ سَکَنٌ لَّہُمْ (التوبہ:۱۰۳)

ہُوَ الَّذِی یُصَلِّی عَلَیْکُمْ وَمَلَائِکَتُہُ لِیُخْرِجَکُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ(الاحزاب:۴۳)

پہلی آیت میں اللہ رب العزت کی طرف سے ان لوگوں کو صلاۃ اور رحمت بطور خراج تحسین پیش کیاگیا جو راہ خدا میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے اوران کو ہدایت یافتہ ہونے کی مزید سند عطا کی گئی۔ دوسری آیت میں رضی اللّٰہ عن المومنین (الفتح:۱۸) کے مصداق صحابہ پرآپ کو صلاۃ (دعاء رحمت) بھیجنے کا حکم دیاگیا۔ تیسری آیت میں قیامت تک آنے والے تمام مؤمنوں پر اللہ ارحم الراحمین کی طرف سے صلاۃ (رحمت) کاوثیقہ عطا کیاگیا۔

حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے ان تمام آیات کی غرض وغایت اور منشاء الٰہی کو دیکھتے ہوئے ایک جامع درود کی تعلیم فرمائی۔ اس درود میں بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج وذریت اور اقارب سرفہرست ہیں ؛ کیوں کہ اسلام میں ان کی خدمات گراں قدر ہیں ۔
حضورﷺ کے اقرباء:

آپ ﷺ کے اقرباء کے لیے نہایت شرف وعظمت کی بات ہے کہ اللہ رب العزت نے ان کو مال غنیمت اور فئی میں سے خمس عطا فرمایا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَاعْلَمُوا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِن شَیْء فاِنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہُ ولِلرَّسُولِ ولِذِی القُربٰی(الانفال:۴۱) (اور جان لو کہ جو چیز تم کو غنیمت میں ملے اس میں پانچواں حصہ اللہ کے لیے ہے اور رسول کے لیے اور رسول کے رشتہ داروں کے لیے ہے)۔

اس آیت سے یہ بات بھی طے ہوگئی کہ حضور کے قرابت دار کون ہیں ؟ یعنی قرابت دار وہ ہیں جن کو حضور ﷺمال غنیمت اور فے میں حصہ دیتے تھے اور وہ بنوہاشم اوربنومطلب ہیں ۔ صحیح بخاری میں ہے حضرت جبیر بن مطعمؓ بیان کرتے ہیں : مشیت انا وعثمان بن عفان الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقلنا یا رسول اللّٰہ! اعطیت بنی المطلب وترکتنا ونحن وہم منک بمنزلۃ واحدۃ، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم انما بنو المطلب وبنوہاشم شیٔ واحد (بخاری، کتاب فرض الخمس، باب ومن الدلیل علی ان الخمس للامام) (میں اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہما رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یا رسول اللہ! آپ نے خمس میں سے بنومطلب کو توحصہ دیا ہے؛ لیکن ہمیں چھوڑدیا، حالانکہ ہم اوربنو مطلب آپ کے نزدیک رشتہ میں ایک ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں ، بلکہ بنومطلب اور بنوہاشم ایک ہیں )۔

بنوہاشم سے مراد آل علی، آل عباس، آل جعفر،آل عقیل اورآل حارث ہیں اور خود حضور ﷺ کا تعلق بھی اسی خاندان سے ہے۔ اور عبدالمطلب نے بنوہاشم کی جاہلیت اوراسلام میں بڑی مدد کی تھی اور انھیں کے ساتھ گھاٹی میں قید ہونا بھی منظور کیاتھا۔ یہ لوگ پورے طور پر حضور کی حمایت میں تھے۔ ان میں مسلمان تو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی وجہ سے اورجو اس وقت ایمان نہیں لائے تھے وہ خاندان کی طرفداری اور رشتوں وناطوں کی حمایت کی وجہ سے۔ رہے بنوشمس اور بنونوفل، گو یہ بھی حضور کے چچازاد بھائی تھے؛ لیکن وہ اس وقت حضورﷺ کی حمایت میں نہیں تھے؛ بلکہ ان کی وفاداریاں قریش کے ان تمام قبائل کے ساتھ تھیں جنھوں نے مل کر حضور کے خاندان بنوہاشم کا بائیکاٹ کیاتھا۔ حضرت جبیربن مطعم (راوی حدیث) اور حضرت عثمان بن عفان کا تعلق علی الترتیب بنونوفل اور بنوعبدشمس سے تھا، اللہ کے رسول نے انھیں خمس میں شامل نہیں فرمایا۔

حضور ﷺ کے اقرباء (بنوہاشم اور بنومطلب) حضور سے شرف قرابت اور ابتداء اسلام میں نصرت وامداد کی وجہ سے تمام دوسروں سے افضل ہیں ؛ لیکن ان کی محبت میں کسی قسم کا غلو جائز نہیں کہ انھیں مقام نبوت یا مقام عصمت تک پہنچادیں ۔ مقام عصمت انبیاء کا امتیاز ہے۔ اسی طرح ان کے مطلق طور پرافضل ہونے کا مطلب بھی یہ نہیں کہ علم وفضل میں ان سے بڑھ کر کوئی دوسرا نہیں ؛ بلکہ خلفائے ثلاثہ امت کے دوسرے تمام افراد میں افضل ہیں باوجود اس کے کہ حضرت علیؓ بعض خصوصیات میں خلفائے ثلاثہ میں ممتاز ہیں ۔

تمام اہل سنت والجماعۃ اہل بیت سے محبت کرتے ہیں اور عقیدت رکھتے ہیں ۔ اس لیے کہ رسول اللہ کے اہل بیت کی محبت اور ان کی تعظیم وتکریم دراصل آپ ﷺ ہی کی تعظیم وتکریم ہے۔ خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیقؓ کہاکرتے تھے ارقبوا محمداً صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی أہل بیتہ
(اے لوگو! رسول اللہﷺ کے گھرانے کے لوگوں کا پاس ولحاظ رکھو، انھیں کسی قسم کی تکلیف مت پہنچائو اورنہ ہی انھیں برا بھلا کہو)۔
[بخاری:3713، کتاب فضائل الصحابہ، باب مناقب قرابۃ رسول اللہ]

ایک اور موقع پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا رسول کی قرابت اور ان کے ساتھ حسن سلوک مجھے زیادہ عزیز ہے بہ نسبت اپنے رشتہ داروں کے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کے (قرابۃ رسول اللّٰہ احب إلی أن اصل من قرابتی)
[مسلم، کتاب الجہاد، باب قول النبی ﷺ لانورث]۔

حضرت عمرؓ بھی حضور کی قرابت کا بہت لحاظ رکھتے تھے۔ انھیں عطایا اور تقسیم وظائف میں خود پر بھی مقدم رکھتے تھے اور دوسرے تمام پر بھی۔ ابن تیمیہؒ نے فرمایا: فان عمر ابن الخطاب لما وضع دیوان العطاء کتب الناس علی قدر انسابہم، فبدأ فأقربہم نسبا إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلما انقضت العرب ذکر العجم ہکذا کان دیوان علی عہد الخلفاء الراشدین وسائر الخلفاء من بنی امیہ وولد العباس إلی أن تغیر الأمر بعد ذلک
(اقتضاء الصراط المستقیم فی مخالفۃ اصحاب الجحیم ۱/۳۹۹، مطبوعہ: ریاض سعودی عرب)۔
(حضرت عمرؓنے جب اپنے عہد خلافت میں وظیفہ کا رجسٹرتیار کرایا تو اس میں لوگوں کا وظیفہ رسول اللہ ﷺسے قرابت کی بنیاد پر رکھا۔ اس میں سب سے پہلے ان لوگوں کو رکھا جو نسب میں رسول اللہ ﷺ سے قریب تر تھے۔ جب تمام عرب کے قبائل کا ذکر مکمل ہوا تو اس کے بعد عجم کے لوگوں کا ذکر کیا۔ یہ رجسٹر اور اس پر عمل عہد خلفائے راشدین اور بنوامیہ کے تمام خلفاء اور بنوعباس کے زمانہ تک ہوتا رہا یہاں تک کہ اس کے بعد حالات میں تبدیلی آئی)۔

ازواج مطہرات:

آپ ﷺ کے گھرانے میں آپ کی ازواج مطہرات پر اللہ کی خاص رحمت اور برکت رہی۔ اللہ رب العزت نے آپ کی ازواج کو امت کی ’’اولین خواتین‘‘ کا درجہ عطا فرمایا۔ انھیں دنیا بھر کی تمام عورتوں کے لیے قدوہ اورپیشوا بنایا، ارشاد فرمایا: یَا نِسَاء النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاء (احزاب:۳۲)۔ اے نبی کی بیویوں تم عام عورتوں میں سے نہیں ہو۔

اللہ عزوجل نے ان کے گھروں کو مہبط وحی (نزول وحی کا مقام) بنایا، ارشاد فرمایا: وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلَی فِیْ بُیُوتِکُنَّ مِنْ آیَاتِ اللّٰہِ وَالْحِکْمَۃِ (احزاب:۳۴) (اور تلاوت کرتے رہو اس چیز کی جو پڑھی جاتی ہے تمہارے گھروں میں اللہ کی آیات اور حکمت)۔

جب اللہ عزوجل نے ان ازواج کو یہ اعلیٰ ترین مقام عطا فرمایا تو انھیں اپنے مقام ومرتبہ کا خیال رکھنے اور اللہ کی ناراضگی سے بچنے کی بھی تلقین فرمائی، ارشاد فرمایا: یَا نِسَاء النَّبِیِّ مَن یَأْتِ مِنْکُنَّ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ یُضَاعَفْ لَہَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ وَکَانَ ذَلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا(احزاب:۳۰) اے ازواج نبی! تم میں سے جو بھی اپنے مقام ومرتبہ سے ہٹ کر کوئی عمل کرے گا اس کے لیے دوگنا عذاب ہوگا۔

ان سب باتوں کا مقصد گھرانہ نبوت کو تمام کھوٹ اور عیوب سے اعلیٰ درجہ کی تطہیر سے نوازنا تھا، ارشاد فرمایا: إنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا(احزاب:۳۳) (اللہ چاہتاہے کہ تم دی گئی ہدایات پر عمل کرو اور تمہارے گھروں سے کثافت دور کردے اور تمہیں پورے طور پر پاک وصاف کردے)۔

آیت کی تفسیر میں حضرت عکرمہ، عطا، مقاتل اور سعید بن جبیر نے ابن عباس کے حوالہ سے فرمایا کہ اہل بیت سے مراد صرف ازواج مطہرات ہیں ۔ دلیل یہ ہے کہ سیاق وسباق کی تمام آیات میں ازواج مطہرات ہی کاذکر ہے (تفسیر بغوی وتفسیر ابن کثیر، سورہ احزاب:۳۳)۔ حضرت عکرمہ تو بازاروں میں اعلان کرتے تھے کہ آیت میں اہل بیت سے مراد ازواج مطہرات ہیں ؛ کیونکہ یہ آیت انھیں کی شان میں نازل ہوئی اور فرماتے تھے کہ میں اس پر مباہلہ کرنے کو تیار ہوں (تفسیر قرطبی و ابن کثیر، تفسیر سورہ احزاب:۳۳)۔

اس میں شک نہیں کہ یہ آیت ازواج مطہرات کی شان میں نازل ہوئی اوراہل بیت سے وہی مراد ہیں ؛ لیکن یہ بات اس کے منافی نہیں کہ تبعا کچھ دوسرے لوگ (داماد اور اولاد الاولاد) بھی اہل بیت میں شامل ہوجائیں ؛ چنانچہ ابن کثیرؒ کی یہی رائے ہے۔ اس لحاظ سے اہل بیت میں آپ ﷺ کے تمام داماد (حضرت ابوالعاص، حضرت عثمان اور حضرت علی)، بیٹیاں (حضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ) اور بیٹیوں کی اولاد (حضرت زینب کی اولاد: حضرت امامہ اور حضرت علی اور حضرت فاطمہ کی اولاد: حضرت حسن، حسین، زینب اور ام کلثوم) سب شامل ہیں ۔
حضرت خدیجہ بنت خویلدؓ:

حضرت خدیجہؓ مکہ کی ایک نہایت معزز خاتون تھیں ۔ ان کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں آنحضرت ﷺ کے خاندان سے مل جاتا ہے، اس رشتہ کے لحاظ سے وہ آپ کی چچازاد بہن تھیں ۔ ان کی دو شادیاں ہوچکی تھیں ، پہلی شادی ابوہالہ بن زرارہ تمیمی سے ہوئی۔ ان سے ہند اورہالہ پیدا ہوئے۔ دوسری شادی عتیق بن عائذ مخزومی سے ہوئی، ان سے ہند پیداہوئیں ۔ عتیق کے انتقال کے بعد حضرت خدیجہؓ رسول اکرم ﷺ کے عقد نکاح میں آئیں ۔ رسول اللہ ﷺ سے نکاح کے وقت ان کی عمر چالیس سال تھی اور حضورﷺ کی پچیس برس۔

حضرت خدیجہؓ اپنے زمانہ کے لوگوں میں نہایت عقلمند، دانا اور بابصیرت خاتون تھیں ۔ ان کے اخلاقی فضائل میں سخاوت، جاں نثاری، صبر واستقامت جیسے اوصاف نمایاں تھے۔ وہ اپنے معاشرے میں ایک پاک دامن اور بلندمرتبہ خاتون تھیں ۔ ایام جاہلیت میں وہ طاہرہ اور سیدہ قریش کے نام سے مشہور تھیں ۔ ان کا در دولت ہمیشہ حاجت مندوں اور فقیروں کے لیے کھلا رہتا تھا، کوئی بھی محتاج ان کے دروازے سے خالی نہیں جاتا تھا۔

حضرت خدیجہ حسین وجمیل اور مکہ کی سب سے دولت مند خاتون تھیں ۔ ان کی ذاتی تجارت تھی۔ ان کا کاروبار اتنا بڑا تھا کہ جب اہل مکہ کا قافلہ تجارت کے لیے روانہ ہوتا تھا تو اکیلا ان کا سامان تمام قریش کے سامان تجارت کے برابر ہوتا تھا۔ ان کے حسن وجمال، دولت اور سماج میں اعلیٰ مقام کی وجہ سے اس زمانے کے عرب کے بڑے بڑے سردار مثلا عقبہ بن معیط بن امیہ، ابوصلت، ابوجہل اور ابوسفیان وغیرہ نے ان سے رشتہ ازدواج کی خواستگاری کی؛ لیکن وہ ان میں سے کسی کو اپنی شان کے مطابق نہیں سمجھتی تھیں ۔ حضرت خدیجہؓ نے حضورﷺ کے رشتہ کو یہ کہتے ہوئے قبول کیا کہ ان کے اخلاق نہایت عمدہ ہیں ، وہ امانت دار اور سچے ہیں ۔

آپ ﷺ بچپن ہی سے تجارت سے منسلک تھے۔ سولہ سال کی عمر تک آپ اپنے چچا ابوطالب کے ساتھ کئی تجارتی سفر کرچکے تھے۔ عمر کے ساتھ ساتھ آپ کا دنیاوی اور تجارتی تجربہ بڑھتا گیا۔ اس زمانہ میں لوگ عموماً اپنا سرمایہ کسی تجربہ کار اور امین شخص کے ہاتھ میں دے کر اسے تجارت کے نفع میں شریک کرتے تھے۔ آں حضرت ﷺ خوشی کے ساتھ اس شرکت کو گوارا فرماتے تھے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے تجارت کی غرض سے شام وبصرہ اوریمن کے متعدد سفر کیے۔ پچیس برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے آپ کے حسن معاملہ، راست بازی، صدق، امانت اورپاکیزہ اخلاق کی عام شہرت ہوچکی تھی۔ یہاں تک کہ لوگ آپ کو امین کہہ کر پکارتے تھے۔ حضرت خدیجہؓ نے ان اسباب کی بناء پر آنحضرت ﷺ کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ میرا مال تجارت لے کر شام کو جائیں اور کہا کہ جو معاوضہ دوسروں کو دیا جاتا ہے اس سے دو چند معاوضہ آپ کو دیا جائے گا۔ آنحضرت ﷺ نے اسے قبول فرمایا اور مال تجارت لے کر سفر پر روانہ ہوگئے۔ واپس آکر حضرت خدیجہ کو اتنا زیادہ نفع لوٹایا جتنا اب تک کسی نے بھی نہیں لوٹایا تھا۔ حضرت خدیجہؓ آپ کی محنت اورایمانداری سے بہت متاثر ہوئیں ۔ سفر سے واپسی کے دو یا تین مہینہ بعد حضرت خدیجہؓ نے آپ کے پاس شادی کا پیغام بھیج دیا۔ اس زمانہ میں عورتوں کو اس قسم کی آزادی حاصل تھی۔ حضورﷺ نے آپ کا رشتہ قبول فرمایا اور پانچ سو درہم مہر پر آپ کے چچا ابوطالب نے آپ کا نکاح حضرت خدیجہؓ سے کردیا۔

نکاح کے بعد حضور نے ان کے ساتھ زندگی کے پچیس برس گذارے اس کے بعد حضرت خدیجہ کا انتقال ہوگیا۔ حضورﷺ حضرت خدیجہ سے بہت محبت فرماتے تھے۔ وہ جب تک حیات رہیں آپ نے کبھی دوسری شادی نہیں کی۔ حالاں کہ عرب کے ماحول میں ایک سے زائد شادی کرنا عام بات تھی۔

حضرت خدیجہ نے حضور کی بڑی مدد کی۔ ابتداء اسلام میں جب رسول اللہﷺ کا کوئی معاون ومددگار نہ تھا تو انھوں نے اپنی تمام دولت آپ کے قدموں میں ڈال دی۔ آپ ہی حضور کی وزیراور مشیر تھیں ۔ مکہ میں جب ہر طرف مخالفت کا طوفان تھا تو صرف وہی ایک حضور کی تسکین کا باعث تھیں ۔ وہ جب تک زندہ رہیں حضور کو کوئی غم لاحق نہیں ہوا؛ مگر جس سال حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہوا، وہ سال آپ ﷺ کی زندگی کا عام الحزن (غم کا سال) بن گیا۔ حضور زندگی بھر انھیں بھلا نہیں پائے۔

آنحضرتﷺ کی تمام اولاد سوائے حضرت ابراہیم کے حضرت خدیجہ سے ہوئیں ۔ ان میں تین صاحبزادے، جن کا بچپن ہی میں انتقال ہوگیا اور چار صاحبزادیاں : حضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ ہیں ۔

حضرت خدیجہ کی ایک بہن حضرت ہالہؓ بھی تھیں جن کے بیٹے ابوالعاص سے حضورﷺ کی بڑی بیٹی حضرت زینب کا نکاح ہوا تھا۔ حضرت ہالہؓ قدیم الاسلام تھیں اور حضرت حدیجہ کی وفات کے بعد تک حیات رہیں ۔ ایک مرتبہ وہ مدینہ میں آنحضرت ﷺ سے ملنے آئیں اور استئذان کے قاعدہ سے اندر آنے کی اجازت مانگی۔ ان کی آواز حضرت خدیجہ سے ملتی تھی۔ آپ کے کانوں میں آواز پڑی تو حضرت خدیجہؓ یاد آگئیں اور بے جھجک اٹھے اور فرمایاکہ ’’ہالہ ہوں گی‘‘۔ وہاں حضرت عائشہؓ بھی موجود تھیں ان کو رشک ہوا، بولیں کہ آپ ایک بوڑھی عورت کو یاد کیے جاتے ہیں جو مرچکیں ، خدا نے آپ کو ان سے اچھی بیویاں عطا کیں ۔ حضورﷺ نے فرمایا اللہ نے مجھے ان کی محبت دی ہے۔

حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد جب بھی گھر میں کوئی جانور ذبح ہوتا تو آپ ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر حضرت خدیجہؓ کی ہم نشیں عورتوں کے پاس گوشت بھجوایا کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ گو میں نے خدیجہؓ کو کبھی نہیں دیکھا؛ لیکن مجھ کو جس قدر ان پر رشک آتا تھا کسی اور پر نہیں آتا تھا۔ آپ ﷺ نے حضرت خدیجہ کو ’’خیرنساء العالمین‘‘ کا لقب عطا فرمایا۔ یعنی وہ دنیا کی چار سب سے بہتر خواتین میں سے ایک تھیں ۔ ان چار میں بقیہ تین: حضرت مریم، فرعون کی بیوی حضرت آسیہ اور آپ کی سب سے چھوٹی بیٹی حضرت فاطمہ ہیں (رضی اللہ عنہم اجمعین)۔
حضرت سودہ بنت زمعہؓ:

ام المومنین حضرت سودہ بنت زمعہؓ ابتداء نبوت میں مشرف باسلام ہوئیں ۔ اس بناء پر انھیں قدیم الاسلام ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ ان کی پہلی شادی حضرت سکران بن عمرؓ سے ہوئی تھی۔ حضرت سودہؓ انھیں کے ساتھ اسلام لائیں اورانھیں کے ساتھ حبشہ ہجرت (ثانی) کی، پھر حبشہ سے مکہ واپس آنے کے کچھ دنوں بعد حضرت سکران کی وفات ہوگئی اور ایک لڑکا یادگار چھوڑا،اس کا نام عبدالرحمن تھا۔ انھوں نے اسلامی جہاد میں شہادت حاصل کی۔

حضرت خدیجہؓ کے انتقال کے بعد حضور اکرم ﷺ نہایت غمگین اور اداس رہتے تھے۔ یہ حالت دیکھ کر حضرت خولہ بنت حکیمؓ نے عرض کی کہ آپ کو ایک مونس وغمخوار کی ضرورت ہے، آپ نے فرمایا ہاں ، گھربار بال بچوں کا انتظام سب خدیجہؓ کے حوالے تھا۔ آپ کے ایماء سے وہ حضرت سوداء کے گھر گئیں اور نکاح کا پیغام دیا، گھر والوں نے رشتہ کو منظوری دی۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ کا نکاح چار سودرہم مہر پر حضرت سودہ سے ہوگیا۔ نکاح کے وقت ان کی عمر پچاس سال تھی اور حضور ﷺ کی عمر مبارک بھی پچاس سال تھی۔ نکاح کے بعد حضرت سودہؓ نے آپ کی چہیتی اور لاڈلی بیٹیوں کی دل وجان سے پرورش کی۔ جب مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو مسجد نبوی سے متصل آپؓ کا حجرہ بنایاگیا۔ اس کے بعد دوسری ازواج کے حجرے تعمیر ہوئے۔ ان حجرات (کمروں ) کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آپؓ نے حضورﷺ کے ساتھ فریضہ حج ادا کیا۔ آپ ﷺ کی وفات کے بعدانھوں نے گھر میں ہی رہنا پسند کیا۔ حجۃ الوداع کے بعدکبھی کسی طرح کا سفر نہیں کیا، نہ ہی کسی حاجت سے باہر نکلیں ۔

حضرت سودہؓ نے جب نبی ﷺ کا دلی میلان حضرت عائشہؓ کی جانب محسوس کیا تو آپ ﷺ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی باری حضرت عائشہؓ کو دے دی تھی۔ اس طرح آپ ﷺ حضرت عائشہؓ کے گھر دو دن رہتے تھے۔ ایک دن حضرت عائشہ کی باری کا اور ایک دن حضرت سودہ کی باری کا۔ حضرت سودہؓ کی وفات حضرت عمرؓ کی خلافت کے اواخرلگ بھگ ۲۲ہجری میں ہوئی۔ سخاوت اور فیاضی ان کے اوصاف نمایاں تھے۔
حضرت عائشہؓ:

۱۰؍نبوی میں آپ ﷺ کے نکاح میں آئیں ، چار سودرہم مہر مقرر ہوا۔ نکاح کے وقت وہ کمسن تھیں ، اس لیے اس وقت ان کی رخصتی نہیں ہوسکی۔ ۱۳؍نبوی میں آپ نے مدینہ ہجرت کی تو حضرت ابوبکرؓ (والد حضرت عائشہ) ساتھ تھے۔مدینہ میں جب اطمینان ہوا تو حضرت ابوبکرؓ نے عبداللہ بن اریقط کو بھیجا کہ ام رومان (حضرت عائشہؓ کی والدہ) اور اسمائؓ (حضرت عائشہ کی بہن) اور عائشہؓ کو لے آئیں ۔ ادھر آں حضرتﷺ نے حضرت زید بن حارثہ اور ابورافع کو حضرت فاطمہؓ، ام کلثومؓ اور حضرت سودہؓ وغیرہ کو لانے کے لیے روانہ فرمایا۔ مدینہ آکر حضرت عائشہؓ سخت بخار میں مبتلا ہوگئیں ۔ صحت حاصل ہوئی تو ان کی والدہ کو رسم رخصتی ادا کرنے کا خیال آیا۔ حضرت عائشہؓ کا نکاح شوال کے مہینہ میں ہوا تھا اور رخصتی بھی اسی ماہ میں ہوئی۔ زمانہ قدیم میں اسی ماہ میں طاعون آیا تھا اس بناء پر اہل عرب اس ماہ کو خوشی کی تقریب کے لیے ناموزوں سمجھتے تھے؛ مگر اس نکاح سے جاہلیت کا یہ وہم ہمیشہ کے لیے نابود ہوگیا۔

حضرت عائشہؓ آپ ﷺ کی محبوب بیوی تھیں ۔ آپؐ نے مرض الموت میں تمام ازواج سے اجازت لے کر اپنے زندگی کے آخری ایام حضرت عائشہؓ کے حجرے میں گذارے تھے۔

حضرت عائشہؓ کی علمی زندگی بہت نمایاں ہے، اللہ نے انھیں دین کی فہم عطا فرمائی تھی۔ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے زمانے میں فتویٰ دیتی تھیں ۔ متعدد اصحاب رسول پر ان کے استدراکات ہیں ۔ ان سے ۲۲۱۰؍حدیثیں مروی ہیں ۔ لگ بھگ احکام شرعیہ کا ایک چوتھائی حصہ ان ہی سے منقول ہے۔ ترمذی میں ہے کہ صحابہ کے سامنے جب کوئی مشکل سوال آجاتا تو اس کو حضرت عائشہؓ ہی حل کرتی تھیں ۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب من فضل عائشہؓ)۔ خصوصا عورتوں کے مسائل ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا تھا۔

حضرت عائشہؓ نے ۹؍برس تک آں حضرت ﷺ کے ساتھ زندگی بسر کی۔ حضورؐ کے بعد وہ تقریباً ۴۸؍سال حیات رہیں ، ۵۷ھ میں وفات پائی اس وقت ان کی عمر ۶۶ سال کی تھی۔
حضرت حفصہؓ:

حضرت حفصہؓ حضرت عمرؓ کی صاحبزادی تھیں ۔ بعثت سے پانچ برس قبل پیدا ہوئیں ۔ ان کی پہلی شادی خنیس بن حذافہ السہمی سے ہوئی اور انھیں کے ساتھ مدینہ ہجرت کی۔ خنیس کو جنگ بدر میں کاری زخم لگا، واپس آکر وہ انھیں زخموں کی وجہ سے انتقال فرماگئے۔ اس کے بعد حضور نے ۳ہجری میں حضرت حفصہؓ کو اپنی زوجیت میں لے لیا۔

حضرت حفصہؓ کے مزاج میں سختی تھی۔ حضرت عائشہؓ کہتی تھیں : انہا ابنۃ ابیہا (وہ اپنے باپ کی بیٹی ہیں )۔ حضرت عمرؓ سخت مزاج مشہور تھے۔ حضورؐ نے ان کے متعلق فرمایا تھا کہ عمر سے شیطان بھاگتا ہے۔

حضرت عائشہ اور حضرت حفصہؓ تقریب نبوی میں دوش بدوش رہتی تھیں ۔ اس بناء پر یہ دونوں دیگر ازواج کے مقابلہ میں باہم ایک تھیں ؛ لیکن کبھی کبھی خود بھی باہم رشک ورقابت کا اظہار ہوجایا کرتا تھا۔

حضرت حفصہؓ نے ۴۵ھ میں دوران خلافت حضرت امیر معاویہؓ وفات پائی۔مروان بن الحکم گورنر مدینہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔
حضرت زینب بنت خذیمہؓ ؍ام المساکین:

زینب نام تھا، زمانہ جاہلیت سے فقراء ومساکین کو نہایت فیاضی کے ساتھ کھلاتی تھیں اسی لیے ام المساکین کی کنیت کے ساتھ مشہور ہوگئیں ۔ آنحضرتﷺ سے پہلے عبداللہ بن جحش کے نکاح میں تھیں ۔ عبداللہ بن جحش نے جنگ احد میں شہادت پائی۔ احد کے بعد ۳ہجری میں آنحضرت ﷺ نے ان سے نکاح کرلیا۔ نکاح کے بعد آنحضرت ﷺ کے پاس صرف دو تین مہینے رہنے پائی تھیں کہ ان کا انتقال ہوگیا۔ آنحضرت ﷺ کی زندگی میں حضرت خدیجہؓ کے بعد صرف یہی ایک بی بی تھیں جن کی وفات پہ آنحضرت ﷺ نے خود نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں ۔ وفات کے وقت ان کی عمر ۳۰سال تھی۔
حضرت ام سلمہ بنت ابوامیہؓ:

ہند نام اور ام سلمہ کنیت تھی، والد کا نام سہیل اورماں کا نام عاتکہ تھا۔ حضرت خالد بن الولید کی چچازاد بہن تھیں ، حضرت ام سلمہؓ مکہ کی خوبصورت اور شریف زادیوں میں سے تھیں ۔ پہلے عبداللہ بن عبدالاسد کے نکاح میں تھیں ، جو زیادہ تر ابوسلمہ کے نام سے مشہور ہیں ۔ ان کے ساتھ اسلام لائیں اور ان ہی کے ساتھ سب سے پہلے حبشہ ہجرت کی۔ چنانچہ سلمہ (ان کے بیٹے) حبشہ ہی میں پیداہوئے۔ حبشہ سے مکہ آئیں اور یہاں سے مدینہ ہجرت کی۔ وہ پہلی خاتون اسلام ہیں جو ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائیں ۔ ان کے شوہر ابوسلمہ اچھے شہسوار تھے۔ جنگ بدر واحد میں دادشجاعت حاصل کی۔ غزوہ احد میں زخم آئے جن کے صدمہ سے جاں بر نہ ہوسکے اور ۴ھ میں وفات پاگئے۔ ان کے جنازہ کی نماز نہایت اہتمام سے پڑھی گئی۔ آنحضرت ﷺ نے ان کی نماز جنازہ میں ۹؍تکبیریں کہیں ، لوگوں نے نماز کے بعد پوچھا یا رسول اللہ! نماز میں کچھ خلاف معمول تو نہیں ہوا؟ فرمایا کہ یہ ہزار تکبیر کے مستحق تھے۔

ابوسلمہ کے وفات کے وقت ام سلمہ حمل سے تھیں ۔ وضع حمل کے بعد جب عدت گذر گئی تو حضور نے ان سے نکاح کرنا چہا تو انھوں نے چند عذر پیش کیے، وہ بولیں کہ میں بچہ والی ہوں ، میرا سن زیادہ ہے اور میں سخت غیور ہوں ۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ میں اللہ سے دعا کروں گا کہ وہ تم سے تمہاری اس خوکو رفع کردے گا۔ رہی بات بچوں کی، تو ان کی کفالت میرے ذمہ ہوگی۔ عمر کے بارے میں فرمایا کہ میرا سن تم سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد ام سلمہؓ نکاح کے لیے راضی ہوگئیں اور نکاح ہوگیا۔

ازواج مطہرات میں سب سے بعد ۶۰ ہجری کے لگ بھگ آپ نے وفات پائی، وفات کے وقت ان کی عمر ۸۴ سال تھی۔

ازواج مطہرات میں حضرت عائشہؓ کے بعدفضل وکمال میں انھیں کا مقام ومرتبہ ہے۔ روایت حدیث اور نقل احکام میں حضرت عائشہؓ کو چھوڑ کر انھیں دوسری تمام بیبیوں پر فضیلت حاصل ہے۔ ان کی اصابت رائے اور کمال عقل پر حدیبیہ کا واقعہ شاہد ہے۔ صلح حدیبیہ کے وقت جب صحابہ کو حلق اور قربانی میں تامل تھا تو حضرت ام سلمہؓ ہی کی تدبیر سے یہ مشکل حل ہوئی۔ یہ واقعہ صحیح بخاری میں بھی منقول ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ ﷺ کے جاں نثار صحابہ دب کر صلح ہونے پر افسردہ تھے۔ اسی دوران آپ نے حدیبیہ ہی میں قربانی کرنے کا حکم فرمایا۔ مگر بار بار کہنے کے باوجود لوگوں نے آپ کے حکم کی تعمیل میں تاخیر کی۔ آپ ﷺ اپنے خیمہ میں تشریف لے گئے اور ام سلمہ سے شکایت کی۔ انھوں نے کہا اب آپ کسی سے کچھ مت کہیے؛ بلکہ باہر نکل کر خود قربانی کیجیے اور بال منڈوالیں ۔ آپ نے باہر آکر قربانی کی اور بال منڈوائے۔ اب جب لوگوں کو یقین ہوگیا کہ اس فیصلہ میں تبدیلی نہیں ہوسکتی تو سب نے جلدی جلدی قربانیاں کیں اور احرام اتارا۔ہجوم اور عجلت کا یہ حال تھا کہ ہر شخص ان کاموں سے سب سے پہلے فارغ ہونا چاہتا تھا۔

۹ہجری میں ایلاء کا واقعہ پیش آیا۔ حضرت عمر نے اپنی بیٹی ام المومنین حضرت حفصہؓ کو تنبیہ کی تو حضرت عمرؓ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کے پاس بھی آئے وہ ان کی عزیز ہوتی تھیں ۔ ان سے بھی گفتگو کی۔ ام سلمہ نے جواب دیا عمر تم ہر معاملہ میں دخل دینے لگے، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ اور ان کی ازواج کے معاملہ میں بھی دخل دیتے ہو؛ چونکہ جواب نہایت مسکت تھا اس لیے حضرت عمر چپ ہوگئے اوراٹھ کر چلے آئے۔ رات کو یہ خبرمشہور ہوگئی کہ آپ ﷺ نے ازواج کو طلاق دے دی، صبح کو جب حضرت عمرؓ آپ ﷺ کی خدمت میں آئے اور تمام واقعہ بیان کیا، جب ام سلمہ کا قول نقل کیا تو آپ ﷺ مسکرادیے۔
حضرت زینب بنت جحشؓ:

ام المومنین حضرت زینب رسول اکرم ﷺ کی پھوپھی زاد بہن تھیں ۔ حسن وجمال میں ممتاز تھیں ، حضرت عائشہؓ کی ہمسری کا دعویٰ بھی رکھتی تھیں ۔ آنحضرت ﷺ کو بھی ان سے نہایت محبت تھی۔ زہدو ورع کا حال یہ تھا کہ جب حضورؐ نے ان سے حضرت عائشہؓ کی بابت دریافت کیا تو انھوں نے صاف لفظوں میں کہا: ما علمت الا خیرا۔ میں ان کے بارے میں سوائے خیر کے کچھ نہیں جانتی۔ ان کا پہلا نکاح حضرت زیدبن حارثہ سے ہوا۔ حضرت زیدؓ حضورؐ کے منہ بولے بیٹے تھے وہ اس وقت مسلمان ہوئے تھے جب حضرت خدیجہؓ اور حضرت ابوبکرؓ مسلمان ہوئے تھے۔ وہ حضورؐ کے ساتھ رہتے رہتے زید بن محمد کے نام سے مشہور ہوگئے۔ حضور کی ان پر خاص عنایت تھی، حضورؐ نے حضرت زینب کا نکاح حضرت زیدؓ سے کردیا؛ مگر یہ رشتہ قائم نہ رہ سکا۔ طلاق وعدت کے بعد حضرت زینبؓ حضورؐ کی زوجیت میں آئیں ۔

صحیحین میں ہے کہ حضرت زینبؓ تمام ازواج کے مقابلہ میں فخر کیا کرتی تھیں ، کہتی تھیں کہ تمہارا نکاح تمہارے اولیاء نے کیا؛ مگرمیرا نکاح خود اللہ نے اپنے رسول کے ساتھ کیا۔ سورہ احزاب میں ہے: فَلَمَّا قَضَی زَیْدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنَاکَہَا لِکَیْ لَا یَکُونَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْ أَزْوَاجِ أَدْعِیَائِہِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْہُنَّ وَطَرًا (الاحزاب:۳۷) پھر جب زید حاجت پوری کرچکا (یعنی طلاق دے چکا) تو ہم نے اس کو آپ کے نکاح میں دے دیا تاکہ مسلمانوں کو متبنّیٰ کی زوجہ سے نکاح کرنے میں تنگی نہ رہے۔

ایک مرتبہ حضور ﷺ نے فرمایا تم میں سے مجھ سے جلد وہ ملے گا جس کا ہاتھ لمبا ہوگا۔ یہ اشارہ تھا فیاضی کی طرف؛ لیکن ازواج مطہرات نے اس کو حقیقت سمجھا۔ حضرت زینبؓ اپنی فیاضی کی بناء پر اس پیشین گوئی کا مصداق ثابت ہوئیں ؛ چنانچہ آپ ﷺ کی وفات کے بعد ازواج مطہرات میں سب سے پہلے انھوں نے ہی انتقال کیا۔ مرنے سے پہلے کفن کا سامان خود تیار کرلیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی، ۲۰ھ میں انتقال ہوا، ۵۳برس کی عمر پائیں ۔ حضور ﷺ سے نکاح کے وقت ان کی عمر ۳۵سال تھی۔

حضرت زینبؓ عبادت میں نہایت خشوع وخضوع کے ساتھ مشغول رہتی تھیں ، طبیعتاً نہایت قانع اور فیاض تھیں ۔ خود اپنے دست وبازو سے معاش پیدا کرتی تھیں ۔ اس سے جو بھی حاصل ہوتا تھا اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کردیتی تھیں ۔
حضرت جویریہؓ:

حضرت جویریہ حارث بن ضرار (یہودی) کی بیٹی تھیں ، جو قبیلہ نبو مصطلق کا سردار تھا۔ مسافع بن صفوان سے شادی ہوئی تھی جو غزوہ مریسیع میں قتل ہوا۔ اس لڑائی میں جو لوگ قیدی بنائے گئے ان میں حضرت جویریہ بھی تھیں ۔ تقسیم غنیمت کے وقت وہ ثابت بن قیس بن سماس انصاری کے حصہ میں آئیں ۔ حضرت جویریہؓ نے حضرت ثابت بن قیس سے ۹؍اوقیہ سونے پر مکاتبت کرلی، یعنی اپنی آزادی کے بدلے ۹؍اوقیہ سونا ادا کرنے پر معاہدہ کرلیا؛ لیکن یہ رقم ان کی اسطاعت سے بہت زیادہ تھی۔ وہ رسول اللہﷺ کے پاس آئیں اور کہا یا رسول اللہ! میں مسلمان کلمہ گو عورت اور جویریہ بنت حارث ہوں جو اپنی قوم کا سردار ہے۔ مجھ پر جو مصیبتیں آئیں وہ آپ سے مخفی نہیں ۔ میں نے ثابت بن قیس کے حصہ میں آنے کے بعد ۹؍اوقیہ سونے پر ان سے عہد کتابت کرلی؛ مگر یہ رقم اداکرنا میرے بس میں نہیں تھی، تاہم میں نے آپ کے بھروسے اس کو منظور کرلیا اوراس وقت آپ سے اسی رقم کا سوال کرنے کی غرض سے آئی ہوں ۔ آپ نے فرمایا کہ کیا تم کو اس سے بہتر چیز کی خواہش نہیں ؟ انھوں نے کہا وہ کیا چیز ہے، آپ نے فرمایا کہ میں یہ رقم ادا کیے دیتا ہوں اور تم راضی ہوتو میں تم سے نکاح کرلیتا ہوں ، تاکہ تمہارا خاندانی اعزاز ووقار برقرار رہے، وہ راضی ہوگئیں ۔ آپ نے ثابت بن قیس کو بلایا وہ بھی راضی ہوگئے۔ آپ نے رقم ادا کرکے انھیں آزاد کردیا اور پھر ان سے نکاح کرلیا۔

مدینہ واطراف مدینہ میں جب یہ خبر پھیلی کہ حضورؐ نے حضرت جویریہ سے نکاح فرمالیا تو مسلمانوں نے قبیلہ مصطلق کے تمام کے تمام لونڈی اور غلاموں کو اس بناء پر آزاد کردیا کہ آنحضرت ﷺ نے اس قبیلہ سے رشتہ مصاہرت قائم کرلیا۔ آزادہونے والوں کی تعداد تقریباً سات سو تھی۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ میں نے نہیں دیکھا کہ کوئی عورت جویریہ سے زیادہ اپنی قوم کے لیے عظیم البرکت ثابت ہوئی ہو۔

۵ہجری میں حضور ﷺ نے ان سے عقد کیا تھا، اس وقت ان کی عمر بیس سال تھی۔ ۵۰ ہجری میں ان کا انتقال ہوا،انتقال کے وقت ان کی عمر ۶۵سال تھی۔ آپؓ جنت البقیع میں مدفون ہوئیں ۔
حضرت ام حبیبہؓ:

ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ ابوسفیان کی بیٹی اور حضرت امیرمعاویہؓ کی بہن تھیں ، ان کا نام رملہ اور کنیت ام حبیبہ تھی۔ بعثت سے ۱۷سال قبل پیدا ہوئیں اور عبید اللہ بن جحش سے عقد ہوا۔ آنحضرت ﷺجب مبعوث ہوئے تو دونوں مشرف باسلام ہوئے اور حبشہ کی طرف ہجرت (ثانیہ) کی۔ حبشہ جاکر عبید اللہ نے عیسائیت قبول کرلی؛ لیکن ام حبیبہ اسلام پر قائم رہیں ۔ اختلاف مذہب کی بنیاد پر دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔ ایک روز کسی نے رسول رحمت ﷺ کو حبشہ میں آباد مہاجرین کے حالات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ یا رسول اللہ! ابوسفیان کی بیٹی انتہائی مشکل اور کٹھن حالات سے دوچار ہے۔ اس کا خاوند مرتد ہوکر فوت ہوچکا ہے، گود میں ایک چھوٹی سی بچی ہے؛ لیکن صبرواستقامت کے ساتھ وہ دین اسلام پر قائم ہے، رشتہ دار بھی اس کی خبر نہیں لیتے؛ لہٰذا وہ ہماری مدد کی مستحق ہیں ۔ آپ ﷺنے سن کر حضرت عمروبن امیہ ضمری کو شاہ حبشہ نجاشی کے دربار میں ایک مراسلہ دے کر روانہ کیا۔ آپ نے اس میں لکھا کہ ام حبیبہؓ اگر پسند کریں تو ان کا نکاح میرے ساتھ کردیں ۔ نجاشی کو جب یہ پیغام پہنچا تواس نے اپنی خاص لونڈی کو ام حبیبہؓ کے پاس بھیجا اور رسولاللہ کے پیغام کی خبر دی۔ ام حبیبہ یہ سن کر بہت خوش ہوئیں اور اپنا سارا زیور اتار کر اس خوشخبری کے انعام میں اس لونڈی کو دے دیا۔

خالد بن سعید بن ابوالعاص جو ام حبیبہؓ کے ماموں کے لڑکے تھے، ان کو وکیل بناکر نجاشی کے دربار میں بھیجا۔ نجاشی نے حضرت جعفرؓ اور دوسرے صحابہؓ کو جو اس وقت حبشہ میں موجود تھے، بلایا اور سب کے سامنے نکاح کیا۔ خود خطبہ پڑھا اور چار سو دینار مہر اپنے پاس سے ادا کیا جو اسی وقت خالد بن سعید کے سپرد کیے گئے۔ نکاح کے بعد لوگوں نے اٹھنا چاہا؛ لیکن نجاشی نے کہا کہ دعوت لیمہ تمام پیغمبروں کی سنت ہے۔ چنانچہ کھانا آیا لوگ دعوت کھاکر رخصت ہوئے۔ جب مہر کی رقم ام حبیبہؓ کو ملی تو انھوں نے اس میں سے پچاس دینار اسی لونڈی کو دینا چاہا جس نے حضور کے پیغام نکاح کا مژدہ سنایا تھا؛ مگر اس نے یہ کہہ کر منع کردیاکہ بادشاہ نے ہدیہ قبول کرنے سے منع کیا ہے۔ ساتھ ہی اس نے کنگن اور انگوٹھی بھی واپس کردی جو ام حبیبہؓ نے اسے پہلے سے دی ہوئی تھی۔ اس نے کہا کہ میں رسول مبعوث پر ایمان رکھتی ہوں ، میری حاجت آپ سے صرف اتنی ہے کہ آپ رسول ﷺ تک میرا سلام پہنچادیجیے اور ان سے کہیے کہ میں ان کے دین کی اتباع کرتی ہوں ۔ عقد کے بعد شاہ نجاشی کی طرف سے بہت سے تحفہ وتحائف کے ساتھ ام حبیبہؓ کو شرجیل بن حسنہ کے ذریعہ مدینہ بھیج دیاگیا۔ جب حضرت ام حبیبہؓ مدینہ تشریف لائیں تو نجاشی کے دربار کے تمام واقعات، خطبہ نکاح اور باندی کی باتوں کو حضور ﷺ تک پہنچایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وعلیہا السلام ورحمۃ اللہ۔ یہ ہجری ۷ کی بات ہے، اس وقت ام حبیبہؓ کی عمر ۳۶ سال کی تھی۔

ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ نہایت پرہیزگار اور عابد خاتون تھیں ، اکثر خداکی یاد میں رہتی تھیں ۔ ایک دفعہ رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ جو شخص بارہ رکعت نفل روزانہ پڑھے گا اس کے لیے جنت میں گھر بنایا جائے گا۔ حضرت ام حبیبہؓ نے اس کے بعد ساری زندگی کبھی بھی ان نوافل کو نہیں چھوڑا۔ فتح مکہ سے پہلے صلح حدیبیہ کی تجدید کے لیے آپؓ کے والد ابوسفیان مدینہ آئے تو آپؓ کے گھر بھی آئے، استراحت کی خاطر رسول اللہ ﷺ کے بستر پر بیٹھنے کا ارادہ کیا، حضرت ام حبیبہؓ نے اسے فوراً اٹھالیا، ان کے والد نے برامانا اور بیٹی سے پوچھا کہ تم نے بستر کیوں سمیٹ دیا۔ آپؓ نے فرمایا تم مشرک ونجس ہو اور یہ رسول اللہ کا پاک بستر ہے تم اس پر بیٹھنے کے لائق نہیں ۔ ام حبیبہؓ نے ۴۴ھ میں وفات پائی اور مدینہ میں مدفون ہوئیں ۔
حضرت میمونہؓ:

آپ کا نام میمونہ تھا، آپ کے والد کا نام حارث بن حزن بن عبدالعزی۔ پہلے مسعود بن عمرو بن عمیرالثقفی کے نکاح میں تھیں ۔ مسعود نے طلاق دے دی تو ابورہم بن عزہ نے نکاح کیا۔ ابورہم کے انتقال کے بعد ۷ہجری میں رسول اللہﷺ کے نکاح میں آئیں ۔ روایات کے مطابق سن ۷ہجری میں حضورﷺ عمرۃ القضاء کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لائے تو سیدہ میمونہ مسلمانوں کی ہیئت کو دکھ کر حیران ہوئیں اورانھیں رسول اللہ ﷺ سے گائو ہوگیا۔ انھوں نے اس موضوع کو اپنی بہن ام الفضل لبابہ کے سامنے رکھا جو رسول اللہ کے چچا حضرت عباس کی زوجہ محترمہ تھیں ۔ انھوں نے اپنے شوہر حضرت عباس سے اس رشتہ کے لیے درخواست کی۔ عباس نے اس بات کا اظہاررسول اللہ کے سامنے کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے جعفر بن ابی طالب کو اس رشتہ کی خواستگاری کے لیے بھیجا۔ جب رسول اللہ کی طرف سے انھیں نکاح کا پیغام پہنچا تو اونٹ پر سوار تھیں انھوں نے کہا: اونٹ اور اس کا سوار ان کے اللہ اور اللہ کے رسول کی یاد میں ہے۔ اس موقع پر آیت یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ اللَّاتِیْ۔۔۔۔۔ (احزاب:۵۰) نازل ہوئی۔

سیدہ میمونہ نے اپنی شادی کا اختیار عباس بن عبدالمطلب کے سپرد کردیا، جنھوں نے مکہ سے دس میل کے فاصلے پر مقامِ سرف پر آ پ کا نکاح کردیا اور چار سو درہم حق مہر قرار دیا۔ رسم عروسی ادا ہوئی۔ یہ رسول اللہ کا آخری نکاح تھا اور سیدہ میمونہ آپ کی آخری بیوی تھیں ، یہاں سے آپ رسول اللہ کے ہمراہ مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوگئیں ۔

یہ حسن اتفاق ہے کہ حضورﷺ سے ان کا نکاح مقام سرف میں ہوا تھا اور ۱۵ہجری میں سفرحج سے واپسی کے وقت مقام سرف میں ان کا انتقال بھی ہوا اور اسی مقام پر دفن ہوئیں جہاں زفاف کا قبہ تھا۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ صحاح میں ہے کہ جب ان کا جنازہ اٹھایا گیا تو حضرت عبداللہ بن عباسؓ (ان کے بھانجے) نے فرمایا یہ رسول اللہ کی بیوی ہیں ۔ جنازہ کو زیادہ حرکت نہ دو۔ باادب اورآہستہ لے چلو۔ وفات کے وقت ان کی عمر ۸۰؍۸۱ سال تھی۔
حضرت صفیہؓ:

آپ کا اصل نام زینب تھا۔ دستور عرب کے مطابق مال غنیمت کا جو بہترین حصہ بادشاہ کے لیے مخصوص ہوجاتا تھا اس کو صفیہ کہتے تھے؛ چونکہ جنگ خیبر میں اسی طریقہ کے موافق آنحضرت ﷺ کے نکاح میں آئی تھیں ، اس لیے صفیہ کے نام سے مشہور ہوگئیں ۔ آپؓ حضرت ہارون بن عمران علیہ السلام کی اولاد میں سے تھیں ۔ ان کے والد کا نام حییّ بن اخطب اور ماں کا نام برہ بنت سموال تھا۔ حضرت صفیہ کو باپ اور ماں دونوں کی جانب سے سیادت حاصل تھی۔ باپ قبیلہ بنونضیر کا سردار اور ماں قریظہ کے رئیس کی بیٹی تھیں ۔

حضرت صفیہ کی پہلی شادی سلام بن مشکم القرظی سے ہوئی تھی۔ ابن مشکم نے طلاق دے دی۔ اس کے بعد کنانہ بن ابی الحُقیق کے نکاح میں آئیں ۔ کنانہ سے نکاح ہوئے تھوڑے ہی دن ہوئے تھے کہ محرم ۷ہجری میں غزوہ خیبر برپا ہوگیا۔ کنانہ جنگ خیبر میں مارا گیا، ساتھ ہی حضرت سفیہ کے باپ اور بھائی بھی مارے گئے اور خود بھی گرفتار ہوئیں ۔ جب خیبر کے تمام قیدی جمع کیے گئے تو حضرت دحیہ کلبی نے آنحضرت ﷺ سے ایک لونڈی کی درخواست کی، آنحضرتؐ نے انھیں انتخاب کی اجازت دے دی، انھوں نے حضرت صفیہ کو منتخب؛ مگر جب لوگوں نے آپؐ کو اطلاع دی کہ دحیہؓ نے جس لونڈی کو منتخب کیاہے وہ بنوقریظہ اور بنونضیر کے سردار کی لڑکی ہے۔ خاندانی وقار ان کے لباس سے عیاں ہے، وہ ہمارے سردار یعنی سرکار دوعالم ﷺ کے لیے موزوں ہیں ۔ آپؐ نے حکم دیا کہ دحیہؓ اس لونڈی کو لے کر حاضر ہوں ۔ چنانچہ حضرت دحیہؓ صفیہؓ کو لے کر آئے توآپ نے ان کو دوسری لونڈی عنایت فرمائی اور صفیہ کوآزاد کردیا اور انھیں یہ اختیار دیا کہ چاہیں وہ اپنے گھر چلی جائیں یا پسند کریں تو نکاح میں آجائیں ۔ حضرت صفیہؓ نے حضورﷺ کے نکاح میں آنا پسند کیا، ان کی رضامندی سے حضور نے ان سے نکاح کرلیا۔ خیبر سے روانہ ہونے کے بعد مقام صہباء میں جب قافلہ نے پڑائو ڈالا تو وہاں ام سلیم،والدہ حضرت انس بن مالک، نے ان کی کنگھی چوٹی کی، کپڑے بدلے، خوشبو لگائی اور وہیں رسم عروسی ادا ہوئی۔ کھانے کی چیزوں میں سے جو کچھ لوگوں کے پاس تھا اس کو جمع کرکے دعوت ولیمہ کا اہتمام کیاگیا۔ حضور نے یہاں تین روز قیام کیا جب روانہ ہوئے تو آپؐ نے انھیں اونٹ پر سوار کرلیا اور اپنے عباء سے ان پر پردہ کیا۔ یہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ وہ ازواج مطہرات میں داخل ہوگئی ہیں ؛ کیوں کہ اس وقت پردہ کا حکم صرف حرّہ (آزاد عورت) کے لیے ہی تھا، لونڈی کے لیے نہیں تھا۔

حضرت صفیہؓ نہایت حسین وجمیل تھیں ۔ وہ جب خیبر سے مدینہ آئیں ، تو یہاں ان کے حسن وجمال کا شہرہ ہوا، چنانچہ قبیلہ انصار کی عورتیں ان کو دیکھنے آئیں ۔ حضرت عائشہؓ بھی نقاب اوڑھ کر آئیں ؛ مگر رسول اللہ ﷺ نے انھیں پہچان لیا۔ جب واپس جانے لگیں تو حضورؐ ان کے ساتھ کچھ دور تک ساتھ چلے اور پوچھا کہ صفیہ کو تم نے کیسا دیکھا۔ حضرت عائشہؓ نے کہا کہ دیکھا کہ وہ یہودیہ ہیں ۔ حضورؐ نے فرمایا یہ نہ کہو وہ مسلمان ہوگئی ہیں ۔

حضرت صفیہؓ کے ساتھ آنحضرت ﷺ کو نہایت محبت تھی اور ہر موقع پر ان کی دلجوئی فرماتے تھے۔ ایک بار آپ حضرت صفیہؓ کے پاس تشریف لے گئے، دیکھا کہ وہ رورہی ہیں ۔ آپ نے رونے کی وجہ پوچھی، انھوں نے کہا کہ عائشہ اور زینب کہتی ہیں کہ ہم تمام ازواج میں افضل ہیں اس لیے کہ وہ آپ ﷺ کی زوجہ ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کی چچازاد بہن بھی ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے یہ کیوں نہیں کہا کہ ہارون میرے باپ، موسیٰ میرے چچا اور محمد (علیہم الصلاۃ والسلام) میرے شوہر ہیں ، اس لیے تم لوگ کیوں کہ مجھ سے افضل ہوسکتی ہو۔

حضرت صفیہؓ جب حضورؐ کی زوجیت میں آئیں تو ان کی عمر سترہ سال تھی اور لگ بھگ ۵۰ھ میں وفات ہوئی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔
اولاد واحفاد:

حضرت زینبؓ: آپ ﷺکی اولاد میں چار حقیقی بیٹیاں ہیں اور چاروں حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے بطن سے ہیں ۔ ان میں حضرت زینبؓ سب سے بڑی بیٹی ہیں ، بعثت سے دس برس قبل پیداہوئیں ، اس وقت آپ ﷺ کی عمر ۳۰ سال تھی۔ جب حضور نے اعلان نبوت فرمایا تو سیّدہ خدیجہ کے ساتھ آپ نے بھی اسلام قبول فرمایا۔ اس وقت حضرت زینبؓ کی عمر ۱۰؍سال تھی۔ بڑے ہونے پر ان کی شادی حضرت ابوالعاص بن الربیع سے ہوئی، جو رشتہ میں ان کے خالہ زاد بھائی تھے۔ ان سے دو بچے (حضرت علی اور امامہ) پیدا ہوئے۔ نبی اکرم ﷺ نے جب نبوت کے تیرہویں سال مدینہ ہجرت کی تو حضرت زینب اپنے شوہر کے گھر تھیں ۔ حضرت ابوالعاص کفر پر قائم ہونے کے باوجود ان کا بہت خیال رکھتے تھے۔

ہجرت کے بعد ۲ہجری میں جنگ بدر ہوئی۔ اس جنگ میں ابوالعاص کفار کی طرف سے جنگ میں شریک ہوئے۔ وہ ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے۔ جنگ بدر میں اہل اسلام کو فتح ہوئی تو جنگی قاعدہ کے مطابق شکست خوردہ افراد کو قید کرلیا گیا۔ ان قیدیوں میں آپ ﷺ کے چچا حضرت عباس اور آپ کے داماد ابوالعاص بھی تھے۔ مسلمانوں کی طرف سے یہ فیصلہ ہوا کہ قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ اہل مکہ نے اپنے اپنے قیدی چھڑانے کے لیے فدیہ اورمعاوضے بھیجنے شروع کیے۔ مدینہ طیبہ میں یہ تمام فدیے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کیے گئے اور حضرت ابوالعاص کا فدیہ حضرت زینب کی طرف سے ہار کی شکل میں پیش ہوا۔ نبی کی جب اس پرنظر پڑی تو آپ ﷺ پربلا اختیار رقت طاری ہوگئی۔ اس ہار کو دیکھ کر حضرت خدیجہ کی یاد تازہ ہوگئی۔ نبی ﷺ کی اس کیفیت کو دیکھ کر تمام صحابہ متاثر ہوئے۔ آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا اگر تم ابوالعاص کو رہا کردو اور زینب کا ہار واپس کردو تو تم ایسا کرسکتے ہو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! آپ کا ارشاد درست ہے ہم ابوالعاص کوبلافدیہ رہا کرتے ہیں اور حضرت زینب کا ہار واپس کرتے ہیں ۔ اس وقت آنحضرت ﷺ نے ابوالعاص سے وعدہ لیا کہ مکہ پہنچ کر زینب کو مدینہ بھیج دیں گے۔ ابوالعاص نے وعدہ کرلیا اور انھیں بلامعاوضہ رہا کردیاگیا۔

حضرت ابوالعاص مکہ آئے اور حسب وعدہ حضرت زینبؓ کو مدینہ جانے کی نہ صرف اجازت دی؛ بلکہ اپنے چھوٹے بھائی کنانہ کو ان کے ساتھ روانہ کیا۔ انھوں نے اپنی تلوار اور تیروکمان لیے اور سفر کے لیے نکل گئے۔ حضرت زینبؓ سواری کے کجاوے میں تھیں اور کنانہ آگے آگے۔ مکہ سے باہر نکلتے ہی اہل مکہ کو اطلاع ہوگئی کہ زینب بنت محمد مدینہ جارہی ہیں ، تو کفار نے انھیں چاروں طرف سے گھیر کو ان پر حملہ کردیا۔ ہباربن اسود (بعد میں مسلمان ہوگئے تھے) نے آگے بڑھ کر سیدہ زینبؓ پر نیزہ سے وار کیا۔ شہزادی رسول زخم کھاکر سواری سے نیچے گرگئیں اور ایک چٹان سے ٹکراگئیں ، جس سے وہ کافی زخمی ہوگئیں ، ان کا حمل بھی ضائع ہوگیا۔ کنانہ نے ان کا تیروں سے مقابلہ کیا، ہبار اور ان کے ساتھی پیچھے ہٹ گئے۔ قریب تھاکہ حالات مزید خراب ہوتے مگر اس بیچ ابوسفیان نے آکر معاملہ کو رفع دفع کردیا۔ مگر سیدہ زینب کی حالت اس وقت ایسی نہ تھی کہ وہ سفر کرسکیں ۔ انھیں مکہ واپس جانا پڑا۔ کچھ عرصہ بعد حضور ﷺ نے زید بن حارثہ کو انھیں مکہ سے لانے کے لیے بھیجا۔ اس بار پھر لوگوں نے مدینہ ہجرت سے انھیں روکنا چاہا، مگر اس بار ابوسفیان کی بیوی کی مداخلت سے انھیں مدینہ جانے دیاگیا۔ حضرت زیدؓ جو شہر سے باہر شہزادی رسول کی سواری کا انتظار کررہے تھے تمام آداب بجا لاتے ہوئے شہزادی کونین کو بحفاظت مدینہ پہنچادیا۔ حضرت زینبؓ نے مدینہ پہنچنے کے بعداپنے ابا جان سے کفار کی طرف سے پہنچنے والے تمام مظالم کا ذکر کیا تو سن کر حضوراقدس ﷺ کا دل بھر آیا، پھر فرمایا: زینب میری سب سے اچھی بیٹی ہے، جسے میری وجہ سے سب سے زیادہ مظالم سہنے پڑے۔ کچھ دنوں بعدابوالعاص بھی ایمان لے آئے تو آپ ﷺ نے حضرت زینب کا ابوالعاص کے ساتھ دوبارہ نکاح کردیا۔ اب سیدہ زینبؓ کے لیے آرام کے دن آئے تو زندگی نے وفا نہ کی۔ مکہ سے مدینہ سفر کرتے ہوئے ہبار بن الاسود کے نیزے سے جو زخم آپ کو آئے تھے وہ پھر تازہ ہوگئے۔ آخر کار وہی زخم آپ کی وفات کا سبب بن گئے۔ ۳۰سال کی عمر میں ۸ھ میں آپؓ اس دنیا سے پردہ فرماگئیں ۔ حضور اقدس ﷺ نے کفن میں رکھنے کے لیے اپنا تہہ بند مرحمت فرمایا۔ نماز جنازہ آپ ﷺ نے پڑھائی پھر اپنے جگرگوشہ کو قبر میں اپنے دست مبارک سے اتار کر خالق حقیقی کے سپرد فرمادیا۔

حضرت زینب کی بیٹی امامہ سے آپ ﷺ بہت محبت کرتے تھے۔ دوران نماز انھیں کندھے پر بٹھالیتے تھے، جب رکوع میں جاتے تو دوش مبارک سے اتار دیتے اور جب سجدہ سے سراٹھاتے تو پھر سوار کرلیتے تھے۔ صحیح بخاری میں ہے: ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلی وہو حامل امامۃ بنت زینب بنت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔۔ فاذا سجد وضعہا وإذا قام حملہا (بخاری، کتاب الصلوٰۃ، باب اذا حمل جاریۃ صغیر علی عنقہ فی الصلاۃ) (رسول اللہ ﷺ جب نماز پڑھتے تو حضرت امامہ بنت زینب کو اپنے کندھے پر بٹھالیتے، پھر جب رکوع وسجدہ کرتے تواتار دیتے اورجب کھڑے ہوتے تو انھیں سوار کرلیتے)۔

ایک مرتبہ بادشاہ نجاشی نے ایک نہایت قیمتی انگوٹھی آپ کی خدمت میں بطور تحفہ ارسال کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ انگوٹھی میں اس کو دوں گا جو مجھے اہل بیت میں سب سے بڑھ کر محبوب ہے۔ لوگ یہ سمجھے کہ شاید یہ انگوٹھی آپ ﷺ حضرت عائشہؓ کو عطا فرمائیں گے؛ لیکن یہ انگوٹھی آپ ﷺ نے اپنی نواسی حضرت امامہؓ بنت زینبؓ کو عطا کی۔

بڑے ہونے پر حضرت فاطمہ (خالہ) کے انتقال کے بعد (حضرت فاطمہؓ کی وصیت کے مطابق) ان کا نکاح حضرت علیؓ بن ابی طالب سے ہوا۔ حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد حضرت امامہؓ کا نکاح حضرت مغیرہ بن نوفل سے ہوا۔

حضرت زینبؓ کے صاحبزادے حضرت علیؓ سے بھی آپ ﷺ بہت محبت کرتے تھے۔ فتح مکہ دن حضور نے انھیں اپنی اونٹنی پر سوار فرمایا تھا (ولما دخل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مکۃ یوم الفتح ادرف علیا خلفہ) (اسدالغابہ، ۴؍۴۱، لابن اثیر)۔ ابن الاثیر کے مطابق اس سبط رسول سیدنا علی بن ابوالعاصؓ نے رسول اللہ ﷺ کی حیات ہی میں قریب البلوغ عمر میں وفات پائی۔ (اسدالغابہ، ۴؍۴۱، لابن اثیر)

حضرت رقیہؓ: آپ ﷺ کی دوسری صاحبزادی حضرت رقیہؓ ہیں ۔ بعثت سے سات سال قبل پیدا ہوئیں ، ان کا نکاح ابولہب (آپ ﷺ کے چچا) کے بیٹے عتبہ سے ہوا تھا؛ مگر جب سورۃ تبت یدا نازل ہوئی تو باپ کے کہنے پر عتبہ نے حضرت رقیہ کو طلاق دے دی۔ پھر ان کی شادی مکہ مکرمہ میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ مکہ میں جب کفار کے مظالم حدبرداشت سے بڑھ گئے تو آپ حضرت عثمان کے ساتھ حبشہ ہجرت کرگئیں ۔ کچھ وقت کے بعد حضرت عثمانؓ کو پتہ چلا کہ نبی کریم ﷺ مدینہ کی طرف ہجرت فرمانے والے ہیں تو حضرت عثمانؓ چند صحابہ کے ساتھ مکہ آئے، اس دوران نبی کریم ﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے جاچکے تھے۔ حضرت عثمانؓ نے حضرت رقیہ ؓ کو لے کر مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ حبشہ کے زمانہ قیام میں ان کے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام عبداللہ رکا گیا، جس کی وجہ سے حضرت عثمانؓ کی کنیت ابوعبداللہ مشہور ہوئی۔ عبداللہ کا چار سال کی عمر میں مدینہ منورہ میں انتقال ہوگیا۔

۲ہجری غزوہ بدر کا سال تھا، حضرت رقیہؓ کو خسرہ کے دانے نکلے اور سخت تکلیف ہوئی۔ حضور ﷺ بدر کی تیاری میں مصروف تھے۔ حضور اور صحابہ کرام غزوہ میں شرکت کے لیے روانہ ہونے لگے تو حضرت عثمانؓ بھی تیار ہوگئے، نبی ﷺ نے ان سے فرمایا کہ رقیہ بیمار ہے آپ ان کی تیمارداری کے لیے مدینہ میں ہی مقیم رہیں ۔ آپ کے لیے بدر میں شرکت کرنے والوں کے برابر اجر ہے۔

جب نبی کریم ﷺ غزوئہ بدر میں شریک تھے، مدینہ میں حضرت رقیہؓ نے آخری سانس لی۔ کفن دفن کی تمام تیاری حضرت عثمانؓ نے انجام دی۔ غزوہ بدر کی فتح کی بشارت لے کر جب حضرت زید بن حارثہؓ مدینہ پہنچے تو اس وقت حضرت رقیہؓ کو دفن کرنے کے بعد لوگ اپنے ہاتھوں سے مٹی جھاڑ رہے تھے۔ چند دن بعد حضور ﷺ جب مدینہ پہنچے تو جنت البقیع میں قبررقیہ پر تشریف لے گئے اور ان کے لیے دعا فرمائی۔ انتقال کے وقت ان کی عمر ۲۰سال تھی۔

حضرت ام کلثومؓ: ام کلثوم آپ ﷺ کی تیسری صاحبزادی ہیں ۔ ان کا شادی ابولہب کے دوسرے بیٹے عتیبہ کے ساتھ ہوئی تھی، رخصتی نہیں ہوپائی تھی کہ سورہ ابی الہب نازل ہونے کے بعد ابولہب کے کہنے پر عتیبہ نے بھی حضرت ام کلثوم کو طلاق دے دی۔ حضرت رقیہ کے انتقال کے بعد حضور نے ان کی شادی حضرت عثمان غنیؓ سے کردی۔ ۹ھ میں آپؓ کا بھی انتقال ہوگیا۔ انتقال کے وقت ان کی عمر ۲۵سال تھی۔ حضرت ام کلثوم کے انتقال کے وقت آپ نے فرمایا کہ اگر میرے پاس کوئی اور لڑکی ہوتی تو اس کا نکاح بھی عثمان سے کردیتا۔ حضورﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں ان کو دفن فرمایا۔

حضرت فاطمہؓ: فاطمہ زہراء آپ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں ، آغاز بعثت یا بعثت سے ۴؍۵سال قبل پیداہوئیں ۔ آپ ان سے بہت محبت فرماتے تھے۔ ان کا نکاح دو ہجری میں واقعہ بدر کے بعد حضرت علیؓ کے ساتھ ہوا۔ اس وقت حضرت علیؓ کی عمر ۲۱ سال تھی اور حضرت فاطمہ کی عمر ۱۵سال اور ساڑھے پانچ ماہ، دوسرے قول کے مطابق ۱۹سال تھی۔ حضرت فاطمہؓ چال ڈھال اور سیرت میں حضورﷺ کے بہت مشابہ تھیں ۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے اٹھنے بیٹھنے اور عادات واطوار میں حضرت فاطمہؓ سے زیادہ کسی کو رسول اللہ سے مشابہ نہیں دیکھا۔

حضرت فاطمہؓ حضورﷺکی سب سے چھوٹی بیٹی ہونے کی وجہ سے آپ کی بہت لاڈلی تھیں ۔ حضور ﷺ کی زندگی کے آخری سالوں میں تو وہ رسول اللہ کی تمام ترتوجہات اور محبت کا مرکز بن گئی تھیں ۔ اس لیے کہ ہجری۸ تک حضرت فاطمہ کی تینوں بڑی بہنوں کا انتقال ہوچکا تھا۔

ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے ابوجہل کی بیٹی سے پیغام نکاح بھیجا تو حضرت فاطمہؓ حضورﷺ کے پاس حاضر ہوئیں اورکہنے لگیں کہ علیؓ ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ رسول اللہ نے سنا تو فرمایا: فاطمۃ بضعۃ منی، فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے میں اسے ناپسند کرتا ہوں کہ کوئی اسے تکلیف پہنچائے۔ خدا کی قسم رسول اللہ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتیں ۔ یہ سن کر حضرت علیؓ نے اپنا ارادہ ترک کردیا۔ (بخاری، کتاب اصحاب النبی، باب ذکر اصہارالنبی ﷺ)

حضرت فاطمہؓ جب حضور سے ملاقات کے لیے آتیں تو حضور کھڑے ہوکر ان کا استقبال کرتے اور ان کے سرکا بوسہ لیتے۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت فاطمہ حضور کے وصال سے کچھ پہلے ملاقات کے لیے آئیں ، ان کی چال ڈھال رسول اللہ کے مشابہ تھی۔ رسول اللہ نے بیٹی کو خوش آمدید کہا۔ اس کے بعد آپ نے ان کو اپنے داہنی یا بائیں جانب بٹھایا، پھر آہستہ سے آپ نے حضرت فاطمہ کے کان میں کچھ کہا جس پر وہ رونے لگیں ۔ پھر سرگوشی کی تو وہ مسکرانے لگیں ۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ بعد میں میں نے فاطمہؓ سے پوچھا کہ حضورﷺ نے کیا فرمایا، تو انھوں نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے راز کو افشاء نہیں کرنا چاہتی۔ رسول اللہ کی وفات کے بعد ایک دن پھر میں نے فاطمہ سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ حضرت جبرئیل ہر سال مجھ سے ایک بار قرآن کا ورد کیا کرتے تھے مگر اس سال انھوں نے مجھ سے دوبار کیا۔ اس سے میرا خیال ہے کہ میرا آخری وقت قریب ہے تو میں رونے لگی، پھر مجھ سے کہا کہ سب سے پہلے تم مجھ سے ملوگی اورتم جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہوگی تو میں یہ سن کر ہنسنے لگی۔ (بخاری، کتاب فضائل الصحابہ، باب مناقب فاطمہؓ)۔

حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ وصال سے کچھ پہلے رسول اللہ مرض کی زیادتی سے بے ہوش ہوگئے۔ حضرت فاطمہؓ آپ کے پاس تھیں وہ رونے لگیں ، کہنے لگیں کہ میرے والد کو بہت تکلیف ہے، آپ نے فرمایا: آج کے بعد پھر کبھی نہیں ہوگی۔ جب آپ ﷺ کی وفات ہوگئی تو حضرت فاطمہ یہ کہہ کر روئیں کہ میرے والد! اللہ نے آپ کو قبول کرلیا۔ اباجان آپ کا مقام جنت الفردوس ہے۔ اے میرے ابا جان! میں آپ کے وفات کی خبرجبرئیل کو سنائوں گی۔ جب آپ ﷺ کو دفن کیا جاچکا تو حضرت فاطمہؓ نے غم سے نڈھال ہوکر حضرت انسؓ سے کہا تم لوگوں نے کیسے گوارا کرلیا کہ اللہ کے رسول کو مٹی میں چھپادو۔

حضرت فاطمہ زہراء سے حضرت حسن، حسین، زینب، ام کلثوم اورمحسن پیدا ہوئے، حضرت محسن کا انتقال بچپن میں ہی ہوگیا تھا۔ حضرت زینب کی شادی حضرت عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب سے اور حضرت ام کلثوم کی شادی حضرت عمر بن الخطاب سے ہوئی۔ حضرت فاطمہؓ کا انتقال رمضان ۱۱ھ، حضور کے ۶ماہ بعد ہوگیا۔ اس وقت ان کا سن ۳۰ سال سے کم (۲۹ سال) تھا۔

حضورﷺ کے صاحبزادے: آنحضرت ﷺ کے صاحبزادوں میں سب سے بڑے حضرت قاسم ہیں جو بعثت سے قبل پیدا ہوئے۔ دوسال بعد ان کی وفات ہوگئی۔ حضورﷺ کی کنیت ابوالقاسم انھیں کی وجہ سے تھی۔ دوسرے صاحبزادے عبداللہ ہیں جو بعثت کے بعد پیدا ہوئے، اسی لیے ان کا لقب طیب وطاہر تھا۔ صغرسنی میں ہی وفات پاگئے، یہ دونوں صاحبزادے حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے بطن سے تھے۔ تیسرے صاحبزادے حضرت ابراہیم تھے جو ام المومنین حضرت ماریہ قبطیہؓ سے پیدا ہوئے۔ تقریباً ڈیڑھ سال بعد وہ بھی وفات پاگئے۔
شیعہ اور اہل بیت:

لفظ اہل بیت عربی زبان میں ٹھیک انھیں معنوں میں استعمال ہوتا ہے جن میں ہم ’’گھروالوں ‘‘ کا لفظ بولتے ہیں اوراس کے مفہوم میں آدمی کی بیوی اور بچے دونوں شامل ہوتے ہیں ۔ بیوی کو مستثنیٰ کرکے ’’اہل خانہ‘‘ یا ’’گھروالوں ‘‘ کا لفظ کوئی نہیں بولتا۔ انھیں معنوں میں یہ لفظ قرآن کریم میں بھی استعمال ہوا ہے۔ لہٰذا جمہور اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ آپ ﷺ کی تمام ازواج مطہرات واولاد اہل بیت ہیں ۔ اس کے برعکس شیعوں کے نزدیک اہل بیت میں صرف پنج تن -یعنی- حضورﷺ، حضرت علیؓ، فاطمہؓ، حسنؓ اور حسینؓ ہی شامل ہیں ۔ اس میں کوئی چھٹا تن داخل نہیں ۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ کے چچا حضرت عباسؓ اور آپ کی محبوب بیوی حضرت خدیجہؓ بھی نہیں ۔ دلیل یہ بیان کی جاتی ہے کہ آیت: انما یرید اللّٰہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت ویطہرکم تطہیرا میں مذکر صیغوں سے خطاب ہے، اگر اہل بیت سے حضورﷺ کی ازواج مراد ہوتیں تو آیت کے الفاظ عنکم ویطہرکم کے بجائے عنکن ویطہرکن ہوتے۔

آیت کی تشریح میں علامہ شبیر احمد عثمانیؒ فرماتے ہیں : جو انسان ذرا بھی عربی سے واقفیت رکھتا ہے وہ آیت پڑھ کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس میں ازواج مطہرات شامل نہیں ؛ بلکہ اگر کسی عام آدمی کو ان آیات کا ترجمہ پڑھنے کے لیے کہا جائے تو اس کی بھی سمجھ میں آجائے گا کہ یہاں اہل بیت سے مراد ازواج مطہرات ہیں ؛ کیوں کہ نظم قرآن میں تدبر کرنے والے کو ایک لمحہ کے لیے اس میں شک وشبہ نہیں ہوسکتا کہ یہاں اہل بیت کے مدلول میں ازواج مطہرات یقینا داخل ہیں ؛ کیوں کہ آیت ہذا سے پہلے اور بعد میں تمام تر خطابات انھیں سے ہوئے ہیں ۔ ماقبل آیت: ’’وقرن فی بیوتکن۔۔۔۔‘‘ اور اس کے بعد ’’واذکرن ما یتلی فی بیوتکن۔۔۔‘‘ میں ان ہی کی طرف نسبت کی گئی ہے۔ ان دونوں کے درمیان: انما یرید اللّٰہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت ویطہرکم تطہیرا ہے۔ اس درمیانی جزء کے بارے میں یہ کہنا کہ چوں کہ اہل بیت کو صیغہ مذکر سے بیان کیاگیا ہے اس لیے وہ اہل بیت میں شامل نہیں ، یہ بات وہی کہہ سکتا ہے جسے عربی زبان و ادب سے کوئی واسطہ نہ ہو (ترجمہ شیخ الہند، تفسیر ازمولانا شبیر احمد عثمانی، سورہ احزاب، آیت:۳۳)۔

قرآن کریم میں یہ لفظ اسی صیغہ میں سورہ ہود میں بھی آیا ہے، چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سارہ کو خطاب کرتے ہوئے ملائکہ نے کہا: أَتَعْجَبِیْنَ أَمْرِ اللّٰہِ رَحْمَتُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ عَلَیْکُمْ أَہْلَ الْبَیْتِ (ہود:۷۳) (کیا تم اللہ کے حکم میں تعجب کرتی ہو۔ اللہ کی رحمت اور برکت ہے تم پر اے گھر والو)۔

اس جگہ اہل البیت سے مراد زوجہ ابراہیم خلیل اللہ ہی ہیں ۔ شیعہ مفسرین طبرسی (مجمع البیان) اور کاشانی (منہج السالکین) نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں اہل البیت سے مراد حضرت سارہ ہیں ، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی چچازاد بہن تھیں ۔ (اگرچہ انھوں نے اس کی بے بنیاد تاویل کی ہے)۔

اسی طرح حضرت موسیؑ کے واقعہ میں بھی قرآن کریم میں ضمیرمذکر کا استعمال ہوا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: فَلَمَّا قَضَی مُوسَی الْأَجَلَ وَسَارَ بِأَہْلِہِ آنَسَ مِن جَانِبِ الطُّورِ نَاراً قَالَ لِأَہْلِہِ امْکُثُوا إِنِّی آنَسْتُ نَاراً لَّعَلِّیْ آتِیکُم مِّنْہَا بِخَبَرٍ أَوْ جَذْوَۃٍ مِنَ النَّارِ لَعَلَّکُمْ تَصْطَلُونَ (القصص:۲۹) (پھر جب پوری کرچکے موسیٰ وہ مدت (بعوض مہر) اور لے کر چلے اپنے گھر والوں کو، تو انھیں طور کی جانب سے آگ دکھائی دی، تو اپنی زوجہ سے کہا تم ٹھہرو مجھے آگ نظر آئی ہے۔ شاید میں وہاں سے راستہ کا کچھ پتہ لائوں یا آگ کا انگارہ، تاکہ تم سینکو)۔

اس آیت میں دو جگہ اہل کا لفظ آیا ہے اور دونوں ہی جگہ تمام شیعہ بلاکسی تاویل کے متفق ہیں کہ اہل سے مراد حضرت موسیٰؑ کی زوجہ ہیں جو حضرت شعیب کی بیٹی تھیں ۔ (دیکھئے: تفسیر مجمع البیان، ۷؍۳۶۴، (الاحزاب:۳۳)، للطبرسی (ابوالفضل بن الحسن)، طبرسی چھٹی صدی ہجری کے فاضل ترین شیعہ علماء میں سے ہیں ان کی تفسیر کئی جلدوں میں شائع ہے۔ ان کے علاوہ قمی (ابوالحسن علی بن ابراہیم) بھی تیسری صدی ہجری کے شیعہ علماء میں ممتاز سمجھے جاتے ہیں اور ابتدائی شیعہ مفسرین کے امام ہیں )۔ ان سب کے نزدیک اس جگہ زوجہ موسیٰؑ مراد ہیں ۔ اس جگہ انھوں نے صیغہ مذکر ومونث کی کوئی بحث نہیں کی۔

جہاں تک ان تمام مذکورہ مقامات میں ازواج کو صیغہ مذکر میں مخاطب کرنے کی بات ہے تو اس کی وجہ یہ ہے (قد اجمع اہل اللسان العربی علی تغلیب الذکور علی الاناث فی الجموع ونحوہا) عرب میں جب ایک سے زیادہ لوگوں کو خطاب کیا جاتا ہے جس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہوں تو وہاں صیغہ مذکر لایا جاتا ہے۔ اس قاعدہ کے تحت حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور سردار انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی زوجات مطہرات کے لیے ضمیر مذکرلائی گئی ہے۔

الغرض اہل بیت میں حضور ﷺ کی ازواج مطہرات کا داخل ہونا یقینی ہے؛ بلکہ آیت کاخطاب ہی ان سے ہے؛ لیکن چونکہ اولاد وداماد بھی اہل بیت (گھروالوں ) میں شمار ہوتے ہیں ۔ اس لیے روایات، مثلاً آپ ﷺ کا حضرت فاطمہ زہرا، علی، حسن وحسین رضی اللہ عنہم کو ایک چادر میں لے کر اللّٰہم ہولاء اہل بیتی وغیرہ فرمانا اور حضرت فاطمہ کے مکان کے قریب سے گذرتے ہوئے: الصلاۃ اہل البیت! اور یرید اللّٰہ لیذہب عنکم الرجس الخ سے خطاب کرنا اگر سنداً اور درایۃً درست ہے تو وہ اسی حقیقت کو ظاہر کرنے کے لیے تھا کہ یہ حضرات بھی اس لقب کے مستحق اور فضیلت تطہیر کے اہل ہیں ۔ وگرنہ ہجری ۵ یا ۶ کے اوائل میں جس وقت حضور ﷺ نے حضرت فاطمہؓ، علیؓ اور حسنؓ وحسینؓ کو ایک چادر میں لے کر یہ فرمایا تھا کہ یہ میرے اہل بیت ہیں ۔ حضور ﷺ اپنی بیمار بیٹی زینب جس کا گھر بار سب کچھ اجڑچکا تھا اپنے بچوں کے ساتھ آپ ﷺ کے گھر پناہ لیے ہوئے تھی، حضور اس کو اپنی چادر میں لینے سے کیسے بھول سکتے تھے۔ حضرت فاطمہؓ کے سوا حضور کی تمام بیٹیوں میں ایک وہی حیات تھی، بقیہ دونوں حضرت رقیہؓ اور ام کلثومؓ کا انتقال ہوچکا تھا۔

دوسرے یہ کہ واقعہ کساء سے متعلق تمام روایات اکٹھا کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ایک بار کا نہیں ؛ بلکہ کئی بار کا ہے۔ اور آیت تطہیر ایک بار نہیں ، کئی بار نازل ہوئی۔ اس لیے کہ یہ واقعہ کہیں ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کے گھر کا بتایا جاتا ہے، کہیں حضرت فاطمہ کے گھر کا اور کہیں حضرت عائشہؓ کے گھر کا۔ اس لیے کہ یہ واقعہ حضرت عائشہؓ سے بھی مروی ہے۔ ان روایات میں آپس میں اتنا اضطراب ہے کہ ان سے کسی نتیجہ پر پہنچنا دشوار ہی نہیں ؛ بلکہ ناممکن ہے۔ مزیدبرآں یہ کہ ان تمام روایات کے رواۃ یا تو مجروح ہیں یا ان پر کلام ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ امام بخاری اس سلسلہ میں بالکل خاموش ہیں ، باوجود اس کے کہ انھوں نے اپنی صحیح میں اس سے متعلق کئی ابواب قائم کیے ہیں ۔

ان روایات کو اگر قابل قبول مان لیا جائے تب بھی ان سے حصر کے معنی نہیں نکلتے؛ بلکہ امام قرطبی فرماتے ہیں : فذہب الکلبی ومن وافقہ فصیرہا لہم خاصۃً (تفسیر قرطبی، سورہ احزاب، آیت:۳۳) کلبی (رافضی) اور سبائی ٹولہ ہی اس بات کا مدعی ہے کہ یہ (آیت تطہیر پنج تن کے بارے میں نازل ہوئی)۔

ابن عاشور فرماتے ہیں کہ یہ وہم (پنجتن کا) تابعین کے زمانہ کی دین ہے جو قرآن کریم سے متصادم ہے۔ جہاں تک حدیث کساء کی بات ہے کہ اس میں ایسا ایک لفظ بھی نہیں جس سے حصر کے معنی نکلتے ہوں (آیت تطہیر سے صرف پنجتن مراد ہوں )۔ صیغہ ہؤلاء اہل بیتی مانند کلام الٰہی ان ہؤلاء ضیفی (الحجر:۶۸) کے ہے، جس کے معنی یہ نہیں کہ ان کے سواء اس میں کوئی دوسرا شامل نہیں ۔ بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے اہل بیت (پنج تن) کے معنی کو حدیث کساء سے غصب کیا ہے اور قرآن کریم کو پیچھے چھوڑدیا۔ جس میں ازواج نبوی کو مخاطب کیاگیا ہے۔ (تفسیر التحریر والتنویر، تالیف: محمد طاہر بن عاشور، سورہ احزاب، آیت:۳۳)۔

واضح رہے کہ حضور ﷺ جس طرح حسن وحسین سے محبت کرتے تھے انھیں کندھوں پر بٹھاتے تھے اسی طرح حضرت زینب کی بیٹی امامہؓ اور بیٹے علیؓ سے بھی محبت کرتے تھے (پیچھے گذرچکا کہ) آپؐ امامہ کو گود میں لے کر نماز پڑھتے تھے۔ اسی طرح علی بن زینبؓ کو فتح مکہ کے دن اپنی سواری پر اپنے ساتھ بٹھانے کا اعزاز بخشا تھا؛ مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت اپنے نبی کے سب سے بڑے نواسے اور نواسی کو جانتی تک نہیں ۔ حتیٰ کہ اکثر علمائے کرام بھی اپنے خطبات میں ان کا تذکرہ نہیں کرتے۔ اہل بیت میں صرف حسن وحسین شامل ماننا اور حضور کے دوسرے نواسے ونواسیوں کو اس سے خارج کرنا ان کے ساتھ غایت درجہ نا انصافی کی بات ہے۔

آل محمد ﷺ : عربوں میں کسی شخص کے آل سے مراد وہ سب لوگ سمجھے جاتے ہیں جو اس کے ساتھی،مددگار اور متبع ہوں خواہ وہ اس کے رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں ۔ قرآن کریم میں بھی یہ لفظ انھیں سب معنوں میں استعمال ہوا ہے جیسے:

آل بمعنی قرابت دار: ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَکَذَلِکَ یَجْتَبِیکَ رَبُّکَ وَیُعَلِّمُکَ مِن تَأْوِیلِ الأَحَادِیثِ وَیُتِمُّ نِعْمَتَہُ عَلَیْکَ وَعَلَی آلِ یَعْقُوبَ کَمَا أَتَمَّہَا عَلَی أَبَوَیْکَ مِن قَبْلُ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْحَاقَ (یوسف:۶) (اور اس طرح تمہارا رب تمہیں برگزیدہ کرے گا اور تم کو معافلہ فہمی (یا خوابوں کی تعبیر) سکھائے گا اور اپنی نعمت تم پر پوری کرے گا اور یعقوب کے گھرانے پر بھی جیساکہ اس نے اس سے پہلے تمہارے دادا اور پردادا، اسحاق وابراہیم، کو بھی نعمتوں سے نوازا)۔

اس جگہ آل یعقوب سے مراد حضرت یوسف کے بھائی اور ان کی اولاد ہیں ۔ جن کی نسل سے اللہ نے سیکڑوں انبیاء مبعوث فرمائے۔

مثال دوم: ارشاد باری تعالیٰ ہے: إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفَی آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاہِیْمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَی الْعَالَمِیْنَ (آل عمران:۳۳) (بیشک اللہ نے چن لیا آدم اور نوح اور خاندان ابراہیم اور خاندان عمران کو تمام جہانوں کے لوگوں میں سے۔ یہ سب آپس میں ایک دوسرے کی نسل سے ہیں )۔

اللہ رب العزت نے خود اس آیت میں آل سے نسل اور ذریت کو مراد لیا ہے۔

مثال سوم: ارشاد باری تعالیٰ ہے: إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ حَاصِبًا إِلَّا آلَ لُوطٍ نَّجَّیْنَاہُم بِسَحَر (القمر:۳۴) (ہم نے قوم لوط پر عذاب بھیجا سوائے آل لوط کے ہم نے کسی کو نہیں چھوڑا)۔

یہاں آل سے مراد حضرت لوطؑ کی اولاد (بیٹیاں ) ہیں ؛ کیوں کہ ان کی قوم میں سوائے ان کی دوبیٹیوں کے کوئی ایمان نہیں لایا تھا حتیٰ کہ ان کی بیوی بھی نہیں ، جسے اللہ نے عذاب میں ہلاک کردیا۔

حدیث میں بھی آل کا لفظ حضور کے رشتہ داروں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرات حسنین بچپن میں کھجور کے ڈھیر کے پاس کھیل رہے تھے، کھیلتے کھیلتے ان میں سے کسی نے ایک کھجور اپنے منھ میں ڈال لی۔ آپؐ کی نگاہ پڑی تو منھ سے کھجور نکلوادی اور فرمایا: اما علمت ان آل محمد لا یاکلون الصدقۃ (کیا تمہیں پتہ نہیں کہ آل محمد صدقہ کا مال نہیں کھاتے)۔

آل بمعنی اصحاب ومتبعین: قولہ تعالیٰ: وَإِذْ نَجَّیْنَاکُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَسُومُونَکُمْ سُوء الْعَذَابِ (البقرہ:۴۹) (اور یاد کرو جب فرعون کے کارندے تمہیں سخت عذاب دیتے تھے)۔

یہاں آل سے مراد فرعون کی پولیس اور حفاظتی دستے ہیں ، جو اسرائیلیوں کو پکڑ پکڑ کر سزا دیتے تھے، جنھیں اللہ نے ہلاک کردیا،ارشاد فرمایا: وَإِذْ فَرَقْنَا بِکُمُ الْبَحْرَ فَأَنْجَیْنَاکُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ (البقرہ:۵۰) (اور یاد کرو جب ہم نے تمہارے لیے سمندر کو (راستہ دینے کے واسطے) بیچ سے پھاڑ دیا، پس تم کو ہم نے نجات دی اور آل فرعون کو غرق کردیا)۔

سمندر میں جو لوگ غرق ہوئے تھے، وہ فرعون کا لشکر تھا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: فَأَتْبَعَہُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُودِہِ فَغَشِیَہُم مِّنَ الْیَمِّ مَا غَشِیَہُمْ (طہٰ:۷۸) (فرعون نے اسرائیلیوں کا پیچھا کیا اپنے تمام لائولشکر کے ساتھ پس وہ سمندر کی لہروں میں غرق ہوگیا)۔

اسی طرح جب ملک فرعون میں عذاب آیا تو وہ بھی تمام قوم پر آیا جو فرعون کی پرستش کرتے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ولقد اخذنا آل فرعون بالسنین (اعراف:۱۳۰) (ہم نے نافرمانیوں کے سبب فرعون کی قوم کو قحط سالی میں پکڑا)۔ اس جگہ بھی آل فرعون سے مراد فرعون کی قوم ہے جو اللہ کی طرف سے عذاب کا شکار ہوئی۔

اسی طرح ایک آیت میں فرعونیوں کے لیے سخت عذاب کی پیشین گوئی کی گئی، ارشاد ہوا: النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَعَشِیًّا وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَۃُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ (الغافر:۴۶) (فرعونیوں پر ان کے بعد مرنے کے پیش کی جاتی ہے آگ ہر صبح وشام اور جب قیامت ہوگی تو کہا جائے گا کہ سخت عذاب (نارجہنم) میں داخل ہوجائو)۔

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آل سے مراد خاندان ہی نہیں ؛ بلکہ متبعین بھی ہیں ۔ قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر آل فرعون کالفظ آیا ہے، ان میں کسی جگہ بھی آل سے مراد محض فرعون کے خاندان والے نہیں ہیں ؛ بلکہ وہ سب مراد ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں فرعون کے طرفدار تھے۔

یہ لفظ حدیث میں ازواج مطہرات کے لیے بھی استعمال ہوا ہے، صحیح بخاری میں ہے، حضرت انسؓ فرماتے ہیں : ما امسی عند آل محمد ﷺ صاع بر ولا صاع حب وان عندہ لتسع نسوۃ (صحیح بحاری، کتاب البیوع، باب شراء النبی ﷺ بالنسیئۃ) (کوئی شام آل محمد ﷺ پر ایسی نہیں گذرتی تھی جب ان کے پاس ایک صاع گیہوں یاکوئی دوسرا اناج ہو؛ جبکہ آپ کی نوبیویاں تھیں )۔

صحیح مسلم میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں : انا کنا آل محمد لنمکث شہرا ما نستوقد بنار ان ہو الا التمر والماء (صحیح مسلم، کتاب الزہد والرقاق، باب ما بین النفختین) (ہم آل محمد کے گھروں میں ایک ایک مہینہ گذرجاتا تھا چولھا نہیں جلتا تھا، صرف کھجور اور پانی پر گذارا کرتے تھے)۔

معلومہوا کہ لفظ ’’آل‘‘ اقرباء وازواج رسول ﷺ اور اصحاب ومتبعین سب کے لیے استعمال ہوتا ہے، صرف رشتہ داروں کے لیے نہیں ۔

کلمہ اہل اورآل میں فرق: کسی شخص کے اہل بیت وہ ہوتے ہیں جو اس کے قریبی اور رشتہ دار ہوں ، خواہ وہ اس کے متبع ہوں یا نہ ہوں اورآل وہ کہلاتے ہیں جو کسی کے متبع ہوں خواہ وہ رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں ۔ دوسری بات یہ کہ آل عام لوگوں کی اولاد کے لیے استعمال نہیں ہوتا، یہ صرف شاہان مملکت اور عظیم شخصیات کی اولاد اور ان کی نسل یا ان کے اصحاب ومتبعین کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

درود ابراہیمی میں آل کے معنی: نماز میں پڑھے جانے والے درود میں آل محمد وآل ابراہیم کا مطلب اوراس کی تفصیل میں جانے سے پیشتر یہ جان لینا مناسب ہے کہ غیرنبی پر درود بھیجنا جائز ہے یا نہیں ؟

درود علیٰ غیرالنبی: صحیح بخاری میں امام بخاری نے ترجمۃ الباب قائم کیا: ہل یصلی علی غیرالنبی ﷺ (کیا غیرنبی پر درود بھیجا جاسکتا ہے؟) اور پھر اس کے تحت درج ذیل حدیث لائے ہیں : عن ابن ابی اوفٰی قال کان اذا اتی رجل النبی ﷺ بصدقۃ قال اللّٰہم صل علیہ فاتاہ ابی بصدقۃ فقال اللّٰہم صل علی آل ابی اوفی (صحیح بخاری، کتاب الدعوات، باب ہل یصلی علی غیرالنبی) (حضرت ابن اوفی بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کے پاس جو کوئی صدقہ لے کر آتا تو آپ فرماتے، اے اللہ اس پر صلاۃ (رحمت) نازل فرما۔ اسی دوران میرے والد (ابواوفی) بھی صدقہ لے کر حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا: اے اللہ آل ابی اوفی پر صلاۃ (رحمت) نازل فرما)۔

اسی طرح امام ابودائود نے ترجمۃ الباب قائم کیا: الصلاۃ علی غیرالنبی ﷺ۔ اس باب کے تحت امام ابودائود یہ حدیث لائے ہیں : عن جابر بن عبد اللّٰہؓ ان امرأۃ قالت للنبی ﷺ صل علیّ و علی زوجی فقال النبی ﷺ وعلی زوجک (ابودائود، کتاب الصلاۃ، (باب تفریع ابواب الوتر) باب الصلاۃ علی غیرالنبی) (اک عورت نے کہا کہ میرے اورمیرے شوہر کے لیے دعاء رحمت فرمائیں ۔ آپ نے فرمایا: اللہ تم پر اور تمہارے خاوند پر رحمت نازل فرمائے)۔

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں حضور کے سوا دوسروں پر بھی درود بھیجنا جائز ہے؛ لیکن مستقلاً اور علیحدہ طور پر درود علی غیرالنبی کے سلسلہ میں اہل علم کی رائے یہ ہے کہ یہ درست نہیں ۔ یہ رائے امام مالک امام شافعی اور احناف سے منقول ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: ما اعلم الصلاۃ ینبغی علی احد من احد الا علی النبی ﷺ (فتح الباری، شرح صحیح بخاری، کتاب الدعوات، باب ہل یصلی علی غیرالنبی ﷺ) (رسول اللہ ﷺ کی ذات مبارک کے سوا کسی پر بھی تنہا درود پڑھنا درست نہیں )۔

حضرت ابن عباس غیرنبی پر درود بھیجنے کو جائز اس لیے نہیں سمجھتے تھے کہ ان کے زمانہ میں شیعہ صرف اپنے ائمہ کے نام پر ہی درود پڑھنے لگے تھے، ان کے ساتھ وہ حضور ﷺ کو بھی شریک نہیں کرتے تھے جو ایک طرح کا غلو تھا۔ (جلاء الافہام لابن قیم، باب السادس، فصل: وہل یصل علی آلہ منفردین)

انھیں وجوہات کے پیش نظر حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے ملکی سطح پر اس فعل کو ممنوع قرار دیا۔ آپؒ نے اپنے اعمال کو لکھا اما بعد،فان ناسا من الناس قد التمسوا الدنیا بعمل الآخرۃ وان من القصاص قد احدثوا فی الصلوۃ علی خلفائہم وامرائہم عدل صلاتہم علی النبی ﷺ فاذا جائک کتابی فمرہم ان تکون صلاتہم علی النبیین ودعائہم للمسلمین عامۃ (جلاء الافہام لابن قیم، باب السادس، فصل:وہل یصلی علی آلہ منفردین) کہ میں نے سنا ہے کہ کچھ لوگ اعمال آخرت کے ذریعہ دنیا حاصل کرتے ہیں ، ان میں سے بعض واعظین نے یہ نیا طریقہ ایجاد کیا ہے کہ وہ نبی پر درود بھیجنے کے بجائے اپنے خلفاء اورامراء کے لیے صلاۃ کالفظ استعمال کرنے لگے ہیں ، میرا یہ خط پہنچنے کے بعد ان لوگوں کو اس فعل سے روک دو اور انھیں حکم دو کہ وہ صلاۃ کو انبیاء کے لیے محفوظ رکھیں اور عام مسلمانوں کے لیے دعا۔

خلاصہ یہ کہ اب چونکہ یہ اہل اسلام کا شعار بن چکا ہے کہ وہ صلاۃ وسلام کو انبیاء علیہم السلام کے لیے خاص کرتے ہیں ، اس لیے جمہور امت کا یہ فیصلہ ہے کہ نبی کے سوا کسی کے لیے درود بھیجنا جائز نہیں )

آل محمد کے معنی: آل محمد سے مراد آپ ﷺ کے خاندان والے ہی نہیں ؛ بلکہ اس میں وہ سب لوگ آجاتے ہیں جو آپ کے پیروہوں اورآپ کے طریقے پر چلیں ، خواہ وہ آپ ﷺ کے رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں ۔ امام نوویؒ لکھتے ہیں : واختلف العلماء فی آل النبی ﷺ علی اقوال اظہرہا وہو الاختیار الازہری وغیرہ من المحققین انہم جمیع الامۃ والثانی بنوہاشم وبنو المطلب والثالث اہل بیتہ ﷺ وذریتہ (صحیح مسلم شرح نووی، باب الصلاۃ علی النبی) (علماء نے آل نبی ﷺ کے معنوں میں اختلاف کیا ہے۔ اس سلسلہ میں کئی اقوال وارد ہیں ، ان میں راجح قول وہ ہے جسے ازہری اور دوسرے محققین نے اختیار کیا ہے کہ آل سے مراد تمام امت ہے)۔

اسی قول (راجح) کو امام مالک، حافظ ابن عبدالبر، احناف اور امام ابن تیمیہ وغیرہ نے بھی اختیار کیا ہے۔ صحابی رسول حضرت جابرعبداللہ ان اولین لوگوں میں سے ہیں جن سے یہ قول منقول ہے۔ چنانچہ امام بیہقی اور سفیان ثوری نے حضرت جابرؓ سے یہی قول نقل کیا ہے۔ امام شافعی کے بعض اصحاب نے بھی اسی قول کو اختیارکیا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے جلاء الافہام لابن قیم، باب السادس، فصل: وہل یصلی علی آلہ منفردین)۔ اسی طرح عرب اسکالر شیخ ابن عثیمینؒ نے فرمایا: اذا ذکر الآل وحدہ فالمراد جمیع اتباعہ علی دینہ (مجموع فتاویٰ فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین، باب صلاۃ التطوع،۱۵۶، سعودی عرب، ۱۹۹۹) (جب لفظ آل تنہا مذکور ہو تو اس سے مراد جملہ متبعین دین ہیں )۔

درودابراہیمی میں آل محمد سے اگر صرف بنوہاشم وبنومطلب مراد لیے جائیں ، جو نسبا آل محمد ہیں ، تو اس میں نیک وبد اورمومن وکافر سب شامل ہوجائیں گے۔ دوسری طرف آل ابراہیم میں مغضوب وضالین بھی شریک ہوجائیں گے جو نسبا آل ابراہیم ہیں ؛ حالاں کہ قرآن میں فرمایا گیا: إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِإِبْرَاہِیمَ لَلَّذِینَ اتَّبَعُوہُ وَہَـذَا النَّبِیُّ وَالَّذِینَ آمَنُواْ وَاللّہُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِینَ (آل عمران:۶۸) (ابراہیم سے قرب رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو ان کی پیروی کرتے ہیں اور پیغمبر آخرالزماں اور وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور اللہ مومنوں کا کارساز ہے)۔



لہٰذا آل ابراہیم وآل محمد میں صرف وہ لوگ شامل ہیں جومتبع شریعت ہیں ، نہ کہ وہ جو دین میں غلو کرتے ہیں اورآیات الٰہیہ میں تحریف؛ بلکہ وہ متبع رسول ہیں اورکہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اس پرجسے اللہ نے اتارا اوراپنے گذرے ہوئے بھائیوں کے لیے یہ دعا کرتے ہیں : رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلإِخْوَانِنَا الَّذِینَ سَبَقُونَا بِالإِیمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِی قُلُوبِنَا غِلّاً لِّلَّذِینَ آمَنُوا (الحشر:۱۰)۔ (اے ہمارے رب! ہماری مغفرت فرما اور ہمارے ان دینی بھائیوں کی جو ہم سے پہلے گذرچکے اور نہ پیدا فرما ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے خلاف کسی طرح کا بغض)۔



اہلِ بیتِ اطہار  رضی اللہ عنہم 

’’اہلِ بیت‘‘ کا معنی ہے: گھر والے، جیسے کہا جاتا ہے:’’اہلِ مکہ‘‘ مکہ والے، ’’اہلِ علم‘‘ علم والے، گھر والوں میں سب سے پہلے بیویاں آتی ہیں، اس لیے اہلِ بیت میں سب سے پہلے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی پاک بیویاں (ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن ) داخل ہیں، سورۂ احزاب کی آیتِ تطہیر ’’إِنَّمَا یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمَ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ‘‘ بھی ازواجِ پیغمبر  رضی اللہ عنہن  کے حق میں اُتری، جیسا کہ آگے پیچھے کی تمام آیات سے واضح ہے۔ (روح المعانی)
صحابیِ رسول حضرت زید بن ارقم  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ:
’’نساء ہٗ من أہل بیتہٖ‘‘ کہ ’’نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیویاں آپ کے اہل بیت ہیں۔ ‘‘(تفسیر ابن کثیر،ج: ۳، ص:۵۰۲۔ کنزالعمال،ج: ۱۱، ص:۵۸۶)
علامہ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں:
’’وہٰذا نص في دخول أزواج النبي صلی اللہ علیہ وسلم في أہل البیتؓ ہاہنا۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر)
’’یہ آیت ازواجِ مطہرات  رضی اللہ عنہن  کے اہل بیت میں داخل ہونے پر نص ہے۔‘‘
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ تحریر فرماتے ہیں:
’’چونکہ آگے پیچھے سارا ذکر ازواجِ مطہرات  رضی اللہ عنہن  کا چل رہا ہے، اس لیے وہ تو اہلِ بیتؓ میں براہِ راست داخل ہیں، لیکن الفاظ کے عموم میں آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی صاحبزادیاں اور ان کی اولاد بھی داخل ہیں۔‘‘          (آسان ترجمہ قرآن، تفسیر آیۂ تطہیر)
البتہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے بچوں کو بھی چادر میں لے کر اہلِ بیتؓ کی اس تطہیر و تقدُّس میں شامل فرمایا، چنانچہ درج ذیل روایت ملاحظہ فرمائیں:
’’عَنْ عَائِشَۃَ رضي اللہ عنہا قَالَتْ: خَرَجَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم غَدَاۃً وَ عَلَیْہِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ، مِنْ شَعْرٍ اَسْوَدَ. فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ رضي اللہ عنہما فَاَدْخَلَہٗ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَیْنُ رضي اللہ عنہ فَدَخَلَ مَعَہٗ، ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَۃُ رضي اللہ عنہا فَاَدْخَلَہَا، ثُمَّ جاَءَ عَلِیٌّ رضي اللہ عنہ فَاَدْخَلَہٗ، ثُمَّ قَالَ : ’’إِنَّمَا یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا‘‘ (الاحزاب:۳۳)     (صحیح مسلم)
’’حضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  صبح کے وقت ایک اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے تو آپ کے پاس حضرت حسن بن علی  رضی اللہ عنہ  آئے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اُنہیں اُس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  آئے اور وہ بھی ان کے ہمراہ چادر میں داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ  رضی اللہ عنہا  آئیں اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں بھی اس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ آئے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اُنہیں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ آیتِ مبارکہ پڑھی: اے اہلِ بیت! اللہ تعالیٰ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے اور تم کو (گناہوں سے) خوب پاک و صاف کر دے۔‘‘
’’عَنْ سَعْدٍ بْنِ اَبِي وَقَّاصٍ رضي اللہ عنہ قَالَ: لَـمَّا نَزَلَتْ ہٰذِہِ الآیَۃُ: (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَ کُمْ)، (آل عمران، :۶۱)، دَعَا رَسُوْلُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَلِیًّا وَ فَاطِمَۃَ وَ حَسَنًا وَ حُسَیْنًا فَقَالَ: اللَّہُمَّ، ہَؤُلَاءِ اَہْلِيْ۔‘‘  (صحیح مسلم، جامع ترمذی)
’’حضرت سعد بن ابی وقاص  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ جب آیتِ مباہلہ نازل ہوئی، یعنی: ’’آپ فرما دیں: آؤ! ہم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے۔‘‘ تو حضور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حسین  رضی اللہ عنہم  کو بلایا، پھر فرمایا: یا اللہ! یہ میرے اہل (بیت) ہیں۔‘‘
اس حدیث کو ’’حدیثِ کساء‘‘ کہا جاتا ہے۔
نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے چادر (کساء) میں حضرت علی المرتضیٰ کرّمَ اللہ وَجْہَہ کو بھی لیا اور اہلِ بیت میں داخل فرمایا، کیونکہ حضرت علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  بھی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بچوں کے حکم میں ہیں، ان کی پرورش آغوشِ نبوت میں ہوئی، چنانچہ نصاریٰ نجران کے خلاف مباہلہ میں بھی اُن کو لے گئے۔ آیتِ مباہلہ میں ’’أَبْنَاءَ نَا‘‘کے الفاظ میں سیدنا علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  داخل و شامل ہیں، جیسا کہ معارف القرآن میں حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی  رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے۔
اہلِ بیت کی تیسری قسم وہ ہے جو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بعض صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کو اعزازی طور پر اپنے اہلِ بیت میں شامل فرمایا، جیسا کہ حضرت سلمان فارسی  رضی اللہ عنہ  کے بارے میں فرمایا کہ:
’’سَلْمَانُ مِنَّا اَہْلَ الْبَیْتِ۔‘‘ (مستدرک حاکم) ’’سلمان ہمارے اہل بیت میں سے ہیں۔‘‘
خلاصہ یہ ہے کہ اہلِ بیت اطہار میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی پاک بیویاں، آپ کی اولاد (تین بیٹے اور چار بیٹیاں) اور اولاد کی اولاد (پانچ نواسے اور تین نواسیاں) حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ اور دیگر وہ شخصیات شامل ہیں، جن کو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اہلِ بیت کے مفہوم میں داخل فرمایا۔ اہلِ بیت کا لفظ بولتے ہی ہمارا ذہن جو صرف خاندانِ سیدنا علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  کی طرف جاتا ہے، یہ شیعی تأثر معلوم ہوتا ہے اور غلط فہمی پر مبنی ہے، کیونکہ شیعہ شنیعہ کے نزدیک اہلِ بیت صرف حضرت علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  کے گھرانے کے لوگ ہیں، اسی لیے انہوں نے پنجتن پاک کا نعرہ لگایا، ھدانا اللہ إلی الصراط المستقیم۔

محبتِ اہلِ بیتِ اطہار  رضی اللہ عنہم 

’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم: اَحِبُّوْا اللہَ لِـمَا یَغْذُوْکُمْ مِنْ نِعَمِہٖ، وَاَحِبُّوْنِيْ بِحُبِّ اللہِ عزوجل وَاَحِبُّوْا اَہْلَ بَیْتِيْ لِحُبِّيْ۔‘‘ (جامع ترمذی)
’’حضرت عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے محبت کرو ان نعمتوں کی وجہ سے جو اس نے تمہیں عطا فرمائیں اور مجھ سے محبت کرو اللہ کی محبت کے سبب اور میری محبت کی وجہ سے اہلِ بیتؓ سے محبت کرو۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’میرے اہلِ بیت کی مثال حضرت نوح  علیہ السلام  کی کشتی کی سی ہے، جو اس میں سوار ہوگیا وہ نجات پاگیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ غرق ہوگیا۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی)
’’عَنْ اَبِيْ ہُرَیْرَۃَ رضي اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: مَنْ سَرَّہُ اَنْ یَّکْتَالَ بِالْمِکْیَالِ الْاَوْفَی إِذَا صَلّٰی عَلَیْنَا اَہْلَ الْبَیْتِ، فَلْیَقُلْ: اللّٰہُمَّ، صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ وَاَزْوَاجِہٖ اُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَذُرِّیَتِہٖ وَاَہْلِ بَیْتِہٖ کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی إِبْرَاہِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ.‘‘   (سنن ابی داؤد)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے روایت کرتے ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: جسے یہ خوشی حاصل کرنا ہو کہ اس کے نامۂ اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے، جب وہ ہم اہلِ بیت پر درود بھیجے تو اسے چاہیے کہ یوں کہے:اے اللہ!تو درود بھیج حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ازواجِ مطہرات امہات المومنین پر اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذریت اور اہل بیت پر، جیسا کہ تو نے درود بھیجا حضرت ابراہیم ( علیہ السلام ) پر، بے شک تو بہت زیادہ تعریف کیا ہوا اور بزرگی والا رب ہے۔‘‘

سیدنا صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں:
’’ارْقُبُوْا مُحَمَّدًا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ اَہْلِ بَیْتِہٖ۔‘‘ (صحیح بخاری:۳۷۱۳)
’’اہل بیتؓ کا اکرام و تعظیم کرکے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا خیال اور لحاظ رکھو۔‘‘
حضرت حسن  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں:
’’لکل شيء أساس و أساس الإسلام حب أصحاب رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم و حبّ أہل بیتہٖ۔‘‘   (کنزالعمال)
’’ ہر چیز کی ایک بنیاد ہوتی ہے اور اسلام کی اَساس و بنیاد نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہؓ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اہلِ بیت سے محبت کرنا ہے۔‘‘
حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  ایک آنکھ اور اہلِ بیت اطہار  رضی اللہ عنہم  دوسری آنکھ ہیں، ایک کو پھوڑ دیں تو بھی اپنا نقصان ہے اور اگر دوسری آنکھ کو پھوڑیں تو بھی اپنا نقصان ہے، نیز اگر کسی خوب صورت نقش نین والے شخص کی بھی ایک آنکھ خراب ہو جائے تو دوسری آنکھ کا حسن بھی ختم ہوجاتا ہے۔ 
حضرت نانوتویؒ کے الفاظ یہ ہیں:
’’راہ کی بات یہ ہے کہ ہم کو دونوں فریق (صحابہ کرام اور اہل بیت کرام  رضی اللہ عنہم ) بمنزلہ دو آنکھوں کے ہیں، کس کو پھوڑیں؟ جس کو پھوڑیں اپنا ہی نقصان ہے، بلکہ جیسے کوئی حسین متناسب الاعضاء ہو کہ اس کی آنکھ ناک سب کی سب مناسب اور متناسب ہوں اور پھر اس کی ایک آنکھ بیٹھ جائے تو دوسری آنکھ کی زیب بھی جاتی رہے گی۔‘‘ (ہدیۃ الشیعہ)
 

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن 

1-  حضرت خدیجۃ الکبریٰ  رضی اللہ عنہا 

آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ۲۵؍ برس کی عمر میں مکہ میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا  سے شادی کی۔ اس طرح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا  پہلی خاتون تھیں جو حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے نکاح میں آئیں۔ ان کا نام خدیجہ اور لقب طاہرہ تھا۔ والد کا نام خویلد اور والدہ کا نام فاطمہ تھا۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے نکاح میں آنے سے قبل ان کا نکاح پہلے ابو ہالہ بن بناش تمیمی سے ہوا تھا۔ ان کے بعد عتیق بن عابد مخزومی کے نکاح میں آئیں۔ ان کے انتقال کے بعد۴۰برس کی عمر میں حرمِ نبوت میں داخل ہوئیں اور ام المؤمنین کا شرف حاصل ہوا۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کو نبوت ملی تو نبوت کی تصدیق کے ساتھ ساتھ سب سے پہلے اسلام لانے کی سعادت انہوں نے ہی حاصل کی۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے نکاح میں آنے کے بعد ۲۵؍برس تک زندہ رہیں۔ نبوت کے دسویں سال انتقال کیا۔

2- حضرت سودہ بنت زمعہ  رضی اللہ عنہا 

حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا  کے انتقال کے بعد حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا  سے شادی کی، جو قریش کے ایک قبیلے عامر بن لوی سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کی پہلی شادی سکران بن عمرو سے ہوئی تھی، جن کا انتقال ہو گیا تو ۷؍ رمضان (بعض روایات میں شوال) سن۱۰ نبوی میں حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے نکاح میں آئیں اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  کے زمانۂ خلافت میں انتقال کیا۔ سخاوت و فیاضی ان کے نمایاں اوصاف تھے۔
3-  حضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا 
سیدنا حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ  کی صاحبزادی تھیں۔ والدہ کا نام زینب تھا، جن کی کنیت امِ رومان ہے۔ ان کا نام عائشہ، لقب صدیقہ اور کنیت ام عبد اللہ تھی۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے سن ۱۱؍نبوی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  سے نکاح کیا اور۱؍ہجری میں ان کی رخصتی ہو ئی۔ رخصتی کے وقت ان کی عمر نو برس تھی۔ انہوں نے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ نو برس گزارے۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے وصال کے ۴۸سال بعد۶۷برس کی عمر رمضان المبارک ۵۸ھ میںسیدنا امیر معاویہ  رضی اللہ عنہ  کے دور میں انتقال ہوا۔ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  کو علمی حیثیت سے عورتوں میں سب سے زیادہ فقیہ اور صاحب ِعلم ہونے کی بنا پر چند صحابہ کرامؓ پر بھی فوقیت حاصل تھی۔ فتویٰ دیتی تھیں اور بے شمار احادیث ان سے مروی ہیں۔ 

4-  حضرت حفصہ بنت عمر  رضی اللہ عنہا 

خلیفۂ راشد حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ  کی صاحبزادی تھیں۔ والدہ کا نام زینب بنت مظعون رضی اللہ عنہا  تھا۔ غزوۂ بدر میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا  کے شوہر حضرت خنیس  رضی اللہ عنہ  شہید ہوئے تو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  سے نکاح ہوا۔ ۴۵ھ میں مدینہ میں انتقال کیا۔

5-  حضرت زینب بنت خزیمہ  رضی اللہ عنہا 

اُم المساکین سیدہ زینب  رضی اللہ عنہا  کے والد کا نام خزیمہ تھا۔ اُم المساکین کنیت تھی، فقراء اور مساکین کے ساتھ فیاضی کرتی تھیں، اس لیے اس کنیت سے مشہور ہوگئیں۔ پہلے شوہر حضرت عبد اللہ بن جحش  رضی اللہ عنہ  تھے جو غزوۂ احد میں شہید ہوئے تو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  سے نکاح ہوا، لیکن صرف دو تین ماہ کے بعد ہی تیس (۳۰) سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا۔آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے خود نمازِ جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔

6-  حضرت اُمِ سلمہ  رضی اللہ عنہا 

ان کا نام ہند اور کنیت ام سلمہ تھی۔ پہلے ابو سلمہ عبداللہ بن عبدالاسد  رضی اللہ عنہ  سے نکاح ہوا تھا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں دونوں اسلام لائے تھے۔ حبشہ اور مدینہ ہجرت بھی کی تھی۔ حضرت ابو سلمہ  رضی اللہ عنہ  غزوۂ احد میں زخمی ہوئے اورشہید ہوگئے تو ام سلمہ  رضی اللہ عنہا  کا آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  سے نکاح ہوا۔علمی اعتبار سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کے بعد آپ کا نمبر آتا تھا۔ بہت سی احادیث ان سے مروی ہیں۔سن۶۳ھ (واقعۂ حرہ کے سال) ۸۴ ؍برس کی عمر میں انتقال ہوا۔ سیدنا ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔

7-  حضرت زینب بنت جحش  رضی اللہ عنہا 

نام زینب اور کنیت ام الحکم تھی۔ والد کا نام جحش بن رباب اور والدہ کا نام اُمیمہ بنت عبدالمطلب تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی پھوپھی تھیں۔ اس طرح حضرت زینب رضی اللہ عنہا  حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی پھوپھی زاد تھیں۔ آپ کی دو بیوہ بھابھیاں بھی ازواج مطہراتؓ میں تھیں۔ (ام حبیبہ جو عبید اللہ بن جحش کی بیوہ تھیں اور زینب بنت خزیمہ جو عبد اللہ بن جحشؓ کی بیوہ تھیں)۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا  کا پہلا نکاح حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ  سے ہوا جو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے آزاد کردہ غلام تھے، دونوں کے تعلقات خوشگوار نہ رہ سکے اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ  نے طلاق دے دی۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ  کا ذکر مبارک قرآن مجید میں نام کے ساتھ آیا ہے اور آپ واحد صحابی رسول ہیں جن کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا  سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے نکاح کیا۔ ان کا انتقال۲۰ھ ۵۳ ؍سال کی عمر میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  کے زمانۂ خلافت میں ہوا۔

8-  حضرت جویریہ بنت حارث  رضی اللہ عنہا 

بنی مصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی تھیں۔ حضرت جویریہ  رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح مسافع بن صفوان(ذی شفر) سے ہوا تھا، جو ان کے قبیلے سے تھا، لیکن غزوۂ مریسع میں قتل ہو گیا تو مسلمانوں کے ہاتھ آنے والے لونڈی و غلاموں میں حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا  بھی تھیں اور مالِ غنیمت کی تقسیم میں ثابت بن قیس کے حصے میں آئیں۔حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے رقم دے کر آزاد کرایا اور ان سے نکاح کیا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے نکاح کے بعد بنی مصطلق قبیلہ کے دیگر لونڈی غلام بھی آزاد کر دیئے گئے۔ 

حضرت جویریہ  رضی اللہ عنہا  کا انتقال ۶۵ ؍سال کی عمر میں ربیع الاول ۵۰ھ میں ہوا۔

9-  حضرت امِ حبیبہ  رضی اللہ عنہا 

ان کا اصل نام رملہ تھا۔ حضرت ابو سفیان بن حرب  رضی اللہ عنہ  کی بیٹی اور سیدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما  کی ہمشیرہ تھیں۔ والدہ صفیہ بنت العاص تھیں، جو حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ  کی پھوپھی تھیں۔ پہلا نکاح عبید اللہ بن جحش سے ہوا اور مسلمان ہوئیں، حبشہ ہجرت بھی کی۔ عبید اللہ نے اسلام چھوڑ کر مسیحیت اختیار کرلی تو آپؓ نے اُس سے علیحدگی اختیار کرلی، پھر عبیداللہ کا انتقال بھی وہیں حبشہ میں ہوگیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے نجاشی کے پاس عمرو بن امیہ کو نکاح کے پیغام کے لیے بھیجا، نجاشی نے خود نکاح پڑھایا اور امِ حبیبہ  رضی اللہ عنہا  مدینہ آگئیں۔ سن۴۴ھ میں تہتر برس کی عمر میں اپنے بھائی سیدنا معاویہ  رضی اللہ عنہ  کے دورِ خلافت میں انتقال ہوا۔

10-  حضرت صفیہ بنت حی بن اخطب  رضی اللہ عنہا 

ان کا اصل نام زینب تھا، جو غزوۂ خیبر کے قیدیوں میں سے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے حصے میں آئی تھیں جو قبیلہ بنو نضیر کے سردار حی بن اخطب کی بیٹی تھیں، ان کی ماں بھی رئیسِ قریظہ کی بیٹی تھیں۔ ان کی پہلی شادی مشکم القرظی سے ہوئی، اس سے طلاق کے بعد کنانہ بن ابی الحقیق کے نکاح میں آئیں جو جنگ خیبر میں قتل ہوا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا  جنگ میں گرفتار ہو کر آئیں، حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے آزاد کر کے نکاح کیا۔ رمضان المبارک ۵۰ھ میں ۶۰ ؍سال کی عمر میں انتقال کیا۔

11-  حضرت میمونہ بنت حارث  رضی اللہ عنہا 

ان کے والد کا نام حارث بن حزن تھا۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  سے نکاح سے قبل مسعود بن عمیر ثقفی سے نکاح ہوا، ان سے علیحدگی کے بعد ابورہم بن عبدالعزیٰ کے نکاح میں آئیں، جن کی۷ھ میں وفات ہوئی اور۷ھ میں ہی حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے سفرِ عمرہ کے دوران مقامِ سرِف پر آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  سے نکاح ہوا اور سفرِ عمرہ سے واپسی پر یہیں مقام سرِف پر رخصتی اور عروسی ہوئی، اور عجیب اتفاق کہ یہیں مقامِ سرف میں سن۵۱ھ میں انتقال فرمایا۔ حضرت عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں 

1-  سیدہ زینب  رضی اللہ عنہا 

یہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سب سے بڑی صاحبزادی ہیں، بعثتِ نبوی سے دس سال قبل پیدا ہوئیں، ان کا نکاح اپنے خالہ زاد حضرت ابوالعاص لقیط بن ربیع  رضی اللہ عنہ  سے ہوا۔
۸؍ہجری میں اکتیس سال کی عمر میں وفات پائی، آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے خود نمازِ جنازہ پڑھائی، خود قبر مبارک میں اُترے اور اپنی لختِ جگر کو حزن و ملال کے ساتھ قبر میں اُتارا۔ (طبقات ابن سعد)
سیدہ زینب  رضی اللہ عنہا  کا ایک بیٹا حضرت علی رضی اللہ عنہ  اور ایک بیٹی سیدہ امامہ  رضی اللہ عنہا  تھیں۔

2-  سیدہ رقیہ  رضی اللہ عنہا 

یہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی دوسری صاحبزادی ہیں، ان کا نکاح حضرت عثمان بن عفان  رضی اللہ عنہ  سے ہوا۔ سن ۲ھ میں جب غزوہ ٔ بدر ہوا، انہی دنوں میں وفات پائی۔ حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ  انہی کی دیکھ بھال کی وجہ سے غزوۂ بدر میں شریک نہیں ہوسکے تھے، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اعزازاً اُن کو بدریین میں شامل فرمایا اور غنائم سے حصہ بھی دیا۔

سیدہ رقیہ  رضی اللہ عنہا  کا ایک بیٹا ہوا، جس کا نام عبداللہ رضی اللہ عنہ  تھا۔

3-  سیدہ امِ کلثوم  رضی اللہ عنہا 
 

حضرت رقیہ  رضی اللہ عنہا  کی وفات کے بعدسن ۳ھ میں ان کا نکاح بھی حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ  سے ہوا۔ چھ برس حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ رہیں، سن۹ھ میں رحلت فرمائی، آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کو سخت صدمہ پہنچا، آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے خود نمازِ جنازہ پڑھائی، تدفین کے بعد قبر پر بیٹھے تھے اور آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔

4- سیدہ فاطمۃ الزھراء  رضی اللہ عنہا 

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سب سے چھوٹی، لاڈلی اور چہیتی صاحبزادی ہیں، نام فاطمہ اور لقب زہراء ہے۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: ’’فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے۔‘‘ اور فرمایا کہ: ’’فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)
ان کا نکاح پندرہ یا اٹھارہ سال کی عمر میں ذی الحجہ سن۲ھ میں حضرت علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  سے ہوا۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کے وصال کے چھ ماہ بعد ۳؍ رمضان المبارک سن۱۱ھ میں وفات پائی۔ سیدنا ابوبکر صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ  کی بیوی حضرت اسماء بنت عمیس  رضی اللہ عنہا  نے غسل دیا، حضرت علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور بعض روایات کے مطابق سیدنا صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ  نے جنازہ پڑھایا۔
حضرت فاطمہ  رضی اللہ عنہا  کے پانچ بچے ہوئے، تین بیٹے: حضرت حسن، حضرت حسین، حضرت محسن رضی اللہ عنہم  ۔ دوبیٹیاں: سیدہ زینب اور سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہما ۔

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے صاحبزادے

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے تین صاحبزادے تھے :

1-  حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ 

ان کو طیب اور طاہر بھی کہتے ہیں۔ بچپن میں انتقال کرگئے۔

2-  حضرت قاسم رضی اللہ عنہ 

انہی کی وجہ سے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی کنیت ابو القاسم تھی۔بچپن میں وفات پاگئے۔

3-  حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ 

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تمام اولاد حضرت خدیجۃ الکبریٰ  رضی اللہ عنہا  کے بطن سے تھی، صرف حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ  آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی باندی حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا  سے تھے۔ آپ کی ولادت باسعادت۸ھ میں ہوئی، مدینہ منورہ کے قریب مقامِ عالیہ کے اندر حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا  کے شکم مبارک سے پیدا ہوئے، اس لیے مقامِ عالیہ کادوسرا نام مشربۂ ابراہیم بھی ہے۔ ان کی ولادت کی خبر حضورِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے آزاد کردہ غلام ابو رافع رضی اللہ عنہ  نے مقامِ عالیہ سے مدینہ آکر بارگاہِ اقدس میں سنائی۔ یہ خو ش خبری سن کر حضورِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے انعام کے طور پر حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ  کو ایک غلام عطا فرمایا، ان کے سر کے بال کے وزن کے برابر چاندی خیرات فرمائی اور ان کے بالوں کو دفن کرادیا اور ابراہیم نام رکھا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ: ’’میں نے اپنے اہل و عیال پر نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )سے بڑھ کر کسی کو شفیق نہیں پایا، حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ  عوالیِ مدینہ میں دودھ پیتے بچے تھے، نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) انہیں ملنے جایا کرتے تھے، ہم بھی نبی( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھ ہوتے، نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جب اس گھر میں داخل ہوتے تو وہ دھوئیں سے بھرا ہوتا تھا، (کیونکہ خاتونِ خانہ کا شوہر لوہار تھا) نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )انہیں پکڑ کر پیار کرتے اور کچھ دیر بعد واپس آجاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بیٹوں میں سب سے زیادہ عمر انہوں نے پائی، تقریباً ڈیڑھ پونے دوسال کی عمر میں وفات پائی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے نمازِ جنازہ پڑھائی، اورجنت البقیع میں حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ  کی قبر کے پاس دفن فرمایا اور اپنے دستِ مبارک سے ان کی قبر پر پانی کا چھڑکاؤ کیا۔ (اسدالغابہ، ج:۱، ص:۴۹)

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پانچ نواسے

1-  حضرت حسن بن علی  رضی اللہ عنہما 

جنت کی عورتوں کی سردار حضرت فاطمۃ الزہراء  رضی اللہ عنہا  کے بطن سے حضرت علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  کے سب سے بڑے صاحبزادے ہیں، سن ۳ھ میں پیدا ہوئے، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کا نام حسن رکھا، ساتویں دن ان کا عقیقہ کیا، ان کے بال مونڈوائے اور بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کی۔ صحابیِ رسول، آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کے لاڈلے نواسے، جنتی جوانوں کے سردار، گلشنِ نبوت کے گلِ سرسبد اور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے مشابہ تھے۔ (اسدالغابہ)
سیدہ خاتونِ جنت  رضی اللہ عنہا  کی گود جب سبط ِ رسول خوشبوئے نبوت سے مہکی تو آنحضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم  بنفس نفیس تشریف لائے، نومولود کو اپنے دست ِمبارک میں اُٹھایا، گھٹی دی، لعاب ِ دہن منہ میں ڈالا اور خوب صورت نام’’حسن‘‘ رکھا۔ نیز رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے آپ کے کان میں اذان دی اور ساتویں روز عقیقہ کیا۔ (الاستیعاب، اسدالغابہ)
 آپ کا اسم سامی حسن، کنیت ابوعبداللہ اور’’ سید شباب أہل الجنۃ‘‘ (اہلِ جنت کے سردار) اور ’’ریحانۃ النبي‘‘ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے خوشبودار پھول/خوشبوئے نبوت ) لسانِ نبوت سے ملے ہوئے القاب ہیں۔حضرت حسن  رضی اللہ عنہ  ’’خامس أہل الکساء‘‘ ہیں، یعنی ان پانچ مبارک شخصیات میں سے ہیں، آیتِ تطہیر اُترنے کے بعد جن کو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے آیت ِ تطہیر کے مصداق میں داخل اور شامل فرمایا۔ (اسدالغابہ،ج: ۱، ص:۴۹۶)
’’سیدنا صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ  نے ایک بار سیدنا حضر ت حسن  رضی اللہ عنہ  کو کھیلتے ہوئے دیکھا تو پیار سے اُن کو کندھوں پر اُٹھالیا اور فرمایا کہ: حسن نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے مشابہ ہیں، علی ( رضی اللہ عنہ ) کے مشابہ نہیں ہیں، حضرت علی  رضی اللہ عنہ  یہ دیکھ کر اور سن کر ہنس رہے تھے۔‘‘ (صحیح البخاری، رقم:۳۵۴۲، ۳۷۵۰)
رمضان المبارک سن۴۰ھ میں خلیفۂ راشد حضرت علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  کی شہادت ہوئی، تو حضرت حسن  رضی اللہ عنہ  خلیفہ بنے، تقریباً چھ ماہ بعد کاتب ِ وحی سیدنا معاویہ بن ابوسفیان  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ صلح کرلی اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی، اپنے ساتھیوں کو بھی حکم ارشاد فرمایا کہ سیدنا حضرت معاویہ  رضی اللہ عنہ  کے ہاتھ پر بیعت کرلیں، یوں آپ کی بدولت اُمت کے دومنتشر گروہ جمع ہوگئے، اسلامی اتحاد کی ایک مضبوط شکل قائم ہوئی، اُمت کا بکھرا شیرازہ مجتمع ہوگیا، تمام امت ایک امیر اور امام عادل سیدنا حضرت معاویہ  رضی اللہ عنہ  کے امر کے تحت جمع ہوگئی اور اس سال کو ’’عام الجماعۃـ‘‘ (اتحاد و اتفاق کا سال) قرار دیا گیا۔ صلح کے بعد سیدنا حضرت حسن  رضی اللہ عنہ  اور حضرت سیدنا معاویہ  رضی اللہ عنہ  دونوں حضرات سواری پر بیٹھ کر کوفہ میں داخل ہوئے۔ (البدایہ والنہایہ، سیر اعلام النبلاء)
یہ دراصل نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیشین گوئی پوری ہوئی جو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمائی تھی:
’’إِنَّ ابْنِيْ ہٰذَا سَیِّدٌ وَلَعَلَّ اللہَ اَنْ یُصْلِحَ بِہٖ بَیْنَ فِئَتَیْنِ عَظِیْمَتَیْنِ مِنَ المُسْلِمِینَ۔‘‘      (صحیح البخاری، رقم:۲۷۰۴، ۳۷۴۶)
’’ میرا یہ سردار بیٹا مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں میں صلح کرائے گا۔‘‘
مشہور قول کے مطابق حضرت حسن  رضی اللہ عنہ  کا انتقال ربیع الاول ۴۹ھ میں ۴۶ سال کی عمر میں ہوا۔
حضرت حسن  رضی اللہ عنہ  کے بیٹوں کے نام یہ ہیں: حسن (حسن مثنیٰ)، زید، عمر، قاسم، عبداللہ، ابوبکر، عبدالرحمٰن، حسین، طلحہ ۔ پانچ بیٹیوں کے نام : فاطمہ، رقیہ، اُمِ سلمہ، امِ عبداللہ، ام الخیر ہیں۔رحمہم اللہ اجمعین
عمرؒ، قاسمؒ اور عبداللہؒ میدانِ کربلا میں شہید ہوئے۔

2-  حضرت حسین بن علی  رضی اللہ عنہما 

سیدنا حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  جنت کی عورتوں کی سردار حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا  اور خلیفۂ راشد سیدنا علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  کے دوسرے صاحبزادے ہیں، آپ صحابیِ رسول، نواسۂ رسول، باغِ نبوت کے مہکتے پھول، جنتی جوانوں کے سردار اور شہید ِ کربلا ہیں، شکل و صورت میں اپنے والد سیدنا علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  کے مشابہ تھے اور بدن مبارک حضرت رسولِ خدا  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بدن کے مشابہ تھا۔ (جامع الترمذی، رقم:۳۷۷۹، البدایۃ والنہایۃ، اسدالغابۃ)
 آپ کا اسم سامی حسین، کنیت ابوعبداللہ اور’’ سید شباب أہل الجنۃ‘‘ (اہلِ جنت کے سردار) اور ’’ریحانۃ النبي‘‘ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے خوشبودار پھول/خوشبوئے نبوت ) لسانِ نبوت سے ملے ہوئے القاب ہیں۔ آپ کی تاریخِ پیدائش میں مؤ رخین کے مختلف اقوال ہیں، مشہور قول ۴ ہجری ہے۔جنت کی عورتوں کی سردارحضرت فاطمہ  رضی اللہ عنہا  کی گود جب سبط ِ رسول خوشبوئے نبوت سے مہکی تو آنحضرت رسولِ خدا  صلی اللہ علیہ وسلم  بنفس نفیس تشریف لائے، نومولود کو اپنے دستِ مبارک میں اُٹھایا، گھٹی دی، لعاب ِ دہن منہ میں ڈالا اور خوب صورت نام ’’حسین‘‘ رکھا۔ نیز رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے آپ کے کان میں اذان دی اور ساتویں روز عقیقہ کیا۔

(مستدرک ِ حاکم، رقم:۴۸۲۷۔ المعجم الکبیر: ۹۲۶۔ ابن کثیر، ج:۸، ص:۱۶۰)
حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  ’’خامس أہل الکساء‘‘ ہیں، یعنی ان پانچ مبارک شخصیات میں سے ہیں، جن کو آیتِ تطہیر اُترنے کے بعد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے آیت ِ تطہیر کے مصداق میں داخل اور شامل فرمایا۔

(اسد الغابہ،ج: ۱، ص:۴۹۶)
مؤرخ ابن کثیرؒ    تحریر فرماتے ہیں:
’’حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان  رضی اللہ عنہم  آپ کی تکریم و تعظیم کیا کرتے تھے، (باوجودیکہ اس وقت تک حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  صغیر السن تھے، مگر یہ جانثارانِ رسول قرابت ِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کا کیوں کر لحاظ نہ کرتے؟) پھر آپؓ اپنے والدگرامی قدر حضرت علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ رہے، ان کے ساتھ جنگوں میں شرکت کی، مشاجرہ ٔ جمل اور صفین میں بھی شرکت کی، والد ماجد کی بہت توقیر کرتے تھے، ان کی شہادت تک اطاعت گزاری کی، پھر مصالحتِ سیدنا حسن با سیدنا معاویہ  رضی اللہ عنہما  کو بھی تسلیم کیا۔ حضرت معاویہ  رضی اللہ عنہ  ان دونوں صاحبزادوں  رضی اللہ عنہما  کا خصوصی اکرام کرتے، انہیں خوش آمدید اور مرحبا کہتے، عطایا دیتے، دو لاکھ درہم تک ان کی خدمت میں پیش کرتے، حضرت حسن  رضی اللہ عنہ  وفات پاگئے تو حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  ہر سال وفد کے ساـتھ حضرت معاویہ  رضی اللہ عنہ  کے پاس آـتے تو حضرت معاویہ  رضی اللہ عنہ  اُن کی خوب خدمت اور عزت کرـتے۔ خلافت ِ معاویہ  رضی اللہ عنہ  میں ہونے والے غزوہ ٔ قسطنطنیہ میں بھی آپ شریک تھے۔‘‘ (البدایۃ والنہایۃ، ج:۸، ص:۱۶۲)
آپ کی ازواجِ طاہرات علیہن الرحمۃ والرضوان میں لیلیٰ، حباب، حرار اور غزالہ شامل ہیں۔
اولا د درج ذیل ہے: صاحبزادیوں میں سُکَینہ، فاطمہ اور زینب۔ (سیرالصحابہؓ) بیٹوں میں: علی اکبر، علی اصغر، زید، ابراہیم، محمد، حمزہ، ابوبکر، جعفر، عمر، یزید۔ رحمہم اللہ اجمعین (تاریخ الائمہ، ص:۸۳)
آپ  رضی اللہ عنہ  کی شہادت کا المناک اور دردناک واقعہ ۱۰ ؍محرم الحرام ۶۱ھ بروز جمعہ یزید کے دور ِ جور و جفا میں پیش آیا۔

3-  حضرت محسن بن علی  رضی اللہ عنہما 

سیدنا حضرت محسن  رضی اللہ عنہ  خاتونِ جنت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا  اور خلیفۂ راشد سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ  کے تیسرے صاحبزادے ہیں، آپ صحابیِ رسول، نواسۂ رسول اور باغِ نبوت کے مہکتے پھول ہیں۔
 حضرت علی  رضی اللہ عنہ  یکے بعد دیگرے اپنے تین بیٹوں کا نام ’’حرب‘‘ رکھتے رہے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے تبدیل فرماکر بالترتیب حسن، حسین اور محسّن نام رکھا اور فرمایا کہ: میں نے ان کے نام حضرت ہارون علیہ السلام  کے صاحبزادوں شبیر، شبر اور مشبر کے ناموں پر رکھے ہیں۔ (المستدرک علی الصحیحین، رقم:۴۷۷۳، اسدالغابہ،ج: ۱، ص:۴۹۶)یہ بچپن میں وفات پاگئے تھے۔

4-  حضرت علی بن ابی العاص  رضی اللہ عنہما 

آپ کا اسم گرامی علی تھا۔ آپ حضرت ابو العاص لقیط بن ربیع  رضی اللہ عنہ  اور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سب سے بڑی بیٹی سیدہ زینب بنت محمد رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے صاحبزادے اور امامہ بنت ابی العاص رضی اللہ عنہا  کے بھائی تھے، قبیلہ بنی غاضرہ کی ایک عورت کا دودھ پیا تھا۔
رضاعت کی مدت پوری ہونے کے بعد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے نواسے حضرت علی بن ابی العاص  رضی اللہ عنہما  کو اپنے زیرِ کفالت لے لیا تھا، ان کے باپ ابو العاص بن ربیع اس وقت مکہ میں مقیم تھے اور اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ ابو العاص بن ربیع جب غزوۂ بدر میں گرفتار ہوئے تو اس شرط پر رہا ہوئے کہ وہ اپنی بیوی کو مدینہ بھیج دیں گے، چنانچہ انہوں نے رہائی کے بعد زینبؓ بنت رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے دونوں بچوں (علیؓ بن ابو العاص اور امامہؓ بنت ابو العاص) کو بھی ساتھ بھیج دیا۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے نواسے کی تربیت اور پرورش خود فرمائی۔ (الاستیعاب)
رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  فتحِ مکہ کے روز شان و شوکت اور جاہ و جلال کے ساتھ مکرمہ میں داخل ہوئے تھے تواپنے پیچھے اپنی سواری پر علی بن ابو العاص  رضی اللہ عنہما کو سوار کیا تھا، یوں آپؓ کو ردیفِ پیغمبر اور ہم رکابِ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہونے کا شرف حاصل ہے۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب)
علی بن ابو العاص رضی اللہ عنہ  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی ہی میں بلوغت کے قریب پہنچ کر وفات پائی۔ البتہ ابن عساکرؒ نے بعض اہلِ علم کا قول نقل کیا ہے کہ جنگِ یرموک کے موقع پر شہید ہوئے۔

5-  حضرت عبداللہ بن عثمان  رضی اللہ عنہما 

نواسۂ رسول سیدنا حضرت عبداللہ  رضی اللہ عنہ ، حضرت نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی دوسری صاحبزادی سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا  کے بطن مبارک سے خلیفۂ راشد حضرت عثمان بن عفان  رضی اللہ عنہ  کے بیٹے ہیں۔ انہی کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  کی کنیت ابوعبداللہ ہے، بچپن میں چھ سال کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نواسیاں

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تین نواسیاں ہیں:

1-  سیدہ زینب بنت علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہما 

یہ حضرت فاطمۃ الزہراء  رضی اللہ عنہا  کی صاحبزادی ہیں، ان کا نکاح اپنے چچا زاد حضرت عبداللہ بن جعفر طیار رضی اللہ عنہما  سے ہوا، یہ اپنے بھائی حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ میدانِ کربلا میں تھیں، تمام مصائب نہایت صبر و استقلال سے برداشت کیے، ان کے بیٹے حضرت عدی v بھی میدانِ کربلا میں شہید ہوئے۔

2-  سیدہ امِ کلثوم بنت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہما 

حضرت فاطمہ اور حضرت علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہما  کی لختِ جگر ہیں، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حیات میں پیدا ہوئیں۔
ان کا نکاح حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم  رضی اللہ عنہ  سے ہوا، چالیس ہزار درہم حق مہر مقرر ہوا، اسی وجہ سے سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  کو دامادِ علیؓ کہا جاتا ہے، ان کے بطن سے حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  کے دو بچے ہوئے، زید اکبر اور رقیہ۔
سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا  اور ان کے بیٹے زید کا انتقال ایک وقت میں ہوا، حضرت حسن  رضی اللہ عنہ  نے نمازِ جنازہ کی امامت کے لیے حضرت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  کو آگے کیا۔

3-  سیدہ اُمامہ بنت ابی العاص  رضی اللہ عنہا 

یہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بڑی بیٹی سیدہ زینب  رضی اللہ عنہا  کے بطن سے حضرت ابوالعاص لقیط بن ربیع  رضی اللہ عنہ  کی بیٹی ہیں، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حیاتِ طیبہ میں پیدا ہوئیں، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  ان سے بہت محبت کرتے تھے، ان کو کندھوں پر سوار کرکے نماز ادا فرماتے تھے، جب سجدہ کرتے تو اُتار دیتے، قیام میں پھر اُٹھالیتے، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں ایک ہار بطور ہدیہ آیا، آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: میرے گھر والوں میں جو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہوگا، میں اسے یہ ہار دوں گا، ازواجِ مطہرات  رضی اللہ عنہن  کا خیال تھا کہ یہ ہار حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  کے حصہ میں آئے گا، مگر نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی لاڈلی نواسی سیدہ اُمامہ  رضی اللہ عنہا  کو بلاکراپنے دست ِمبارک سے وہ ہار اُن کے گلے میں ڈال دیا۔ سیدہ امامہؓ کی آنکھ میں کچھ لگا ہوا تھا، آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے ہاتھ سے اسے صاف کیا۔ نجاشی نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  خدمت میں چاندی کی انگوٹھی بھیجی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نے وہ انگوٹھی سیدہ امامہ  رضی اللہ عنہا  کو عطا فرمائی۔
حضرت فاطمہ  رضی اللہ عنہا  کی وفات کے بعد سیدہ فاطمۃ الزہراء  رضی اللہ عنہا  کی وصیت کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ  نے ان سے نکاح کیا۔ حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کی شہادت کے بعد سیدہ امامہ  رضی اللہ عنہا  کا نکاح حضرت مغیرہ بن نوفل رضی اللہ عنہ  سے ہوا۔ (الاصابہ، الاستیعاب)
یہ سب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اہلِ بیت ہیں، اہلِ ایمان کی آنکھوں کے تارے، دل کا سرور، ایمان کا مرکز و مِحوَر، سفینۂ نجات، محبت کا مرجع ہیں، مودت و عقیدت ان سے واجب اور اتباع ان کی ضروری ہے، تعظیم و توقیر ناگزیر اور اکرام و احترام لازم ہے، یہ سب تسلیم و رضا اور صبر و استقلال کے کوہِ گراں تھے، ان کی زندگی کا مقصدِ وحید رضائے الٰہی کا حصول تھا۔ جینا اور مرنا فقط منشائے الٰہی کے مطابق و موافق تھا، حق کے لیے ڈٹ جانا اور باطل سے لڑ جانا ان کا وصفِ ممتاز تھا، وہ دنیا و آخرت میں سرخرو ٹھہرے، نجات و ہدایت کی تمام راہیں انہی سے کھلتی ہیں اور انہی پر بند ہوجاتی ہیں۔

    اہل سنت کی نظر میں اہل بیت کا مقام

     آپ ﷺِ نے ابوبکر صدیق ؓ کے بارے میں فرمایا ، اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا ۔ میں سب کے احسانوں کا بدلہ دے چکا ہوں، ابوبکرؓ کا بدلہ خدا دے گا ۔ حضرت عمر ؓ کے بارے میں فرمایا ، عمر ؓ کی زبان پر حق بولتا ہے ۔ اورجس راستے پر عمرؓ جاتا ہے اس راستے پر شیطان نہیں جاسکتا ۔ اس طرح اور بہت ساری باتیں ان کے متعلق فرمائی ۔ حضرت عثمان ؓ کو ذو النورین کے لقب سے نوازا ۔ ان کو دو بیٹیاں دیں اور ان کے فوت ہونے پر فرمایا کہ اگر میری اور بیٹیاں ہوتیں تو وہ بھی میں ان کے عقد میں دے دیتا ۔ اور پھر فرمایا کہ آج کے بعد عثمانؓ جو کرے گا اس کو کوئی مسئلہ نہیں، وہ جنتی ہیں ۔ اس طرح حضرت علی ؓ کے بارے میں بھی فرمایا ، علیؓ تمہاری مثال ہم میں ایسی ہے جیسے عیسیٰ علیہ السلام کی انبیاءمیں تھی ۔ عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ زائد محبت کرنے والے لوگ وہ بھی گمراہ اور جو ان کے ساتھ عناد رکھنے والے لوگ تھے وہ بھی گمراہ ۔ تو تمہاری مثال اس طرح ہے ۔ اب دیکھ لیں ایسا ہوا یا نہیں ہوا ۔ تو حضرت علی ؓ کو با ب العلم فرمایا ۔ اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ دو چیزیں میں آپ کے پاس چھوڑے جارہا ہوں ، ایک دوسرے سے اونچا ہے ۔ ایک کتاب اللہ ہے دوسری میری اولاد ۔ حضرت امام احمد بن حنبل ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا حضرت علی ؓ کو ، کہ اے علیؓ مجھے حضور ﷺِ کی رشتہ داری اپنی رشتہ داری سے زیادہ محبوب ہے ۔ اس طرح حضرت عمر ؓ کا ارشاد ہے حضرت عباس ؓسے ۔ کہ آپ کا اسلام لانا مجھے اپنے باپ کے اسلام لانے سے زیادہ محبوب ہے ۔ کیونکہ آپ ﷺِ کو آپ کا اسلام لانا زیادہ محبوب تھا ۔ تو اللہ جل شانہ نے آپ ﷺ کی زبان اطہر سے پہلے ہی سے وہ باتیں نکلوا دیں یا کہلوا دیں تاکہ بعد میں ان لوگوں کی حفاظت ہو ۔ اہلسنت والجماعت الحمد اللہ سب کو مانتے ہیں ۔ وہ کسی کی تنقیص نہیں کرتے ۔ سب کو محفوظ مانتے ہیں ۔ ہاں تفضیل کو مانتے ہیں ، ہمارے تفضیل کا طریقہ یہ ہے کہ جو خلافت کی ترتیب ہے وہ فضیلت کی بھی ترتیب ہے ۔ کیونکہ صحابہ کرامؓ اسی ترتیب سے متفق چلے آرہے ہیں ۔ پہلے ابوبکر صدیق ؓ پر جمع ہوئے لہذا وہ سب سے افضل ۔ پھر حضرت عمرؓ پر جمع ہوئے تو وہی اس کے بعد افضل ، پھر حضرت عثمان ؓ پر جمع ہوئے وہی ان کے بعد افضل ۔ پھر بدرین صحابہ جمع ہوئے حضرت علیؓ پر ۔ تو وہ افضل ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ترتیب اسی ترتیب سے ہے جس ترتیب پر خلافت ہے ۔ میں آپ کو دو بزرگوں کی رائے بتاتا ہوں اس سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ ہمارے اہلسنت و الجماعت کا مسلک کیا ہے ۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ سے پوچھا گیا ، کہ عمر بن عبدالعزیز ؒ کی حکومت اچھی تھی یا حضرت معاویہ ؓ کی ۔ اب جذبات یہ کہتے ہیں کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒحضرت معاویہ ؓ کے حق میں بات نہ کرے کیونکہ ان کا اختلاف تھا حضرت علی ؓ سے اور شیخ عبد القادر جیلانی ؒ حضرت علی ؓ کی اولاد میں سے ہیں ۔ لیکن نہیں ۔ وہ فرماتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز ؒ کا مقام اس گھوڑے کے نتھنے میں پہنچنے والے گرد تک بھی پہنچے، جس پر بیٹھ کر حضرت معاویہ ؓ نے حضورر ﷺِ کی معیت میں جنگ لڑی ہے ، تو عمر بن عبدالعزیز کا بڑا مقام ہوگا۔ یہ ہے شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کا فتویٰ ۔ دوسری طرف عمر بن عبدالعزیز ؒ کا فتویٰ سن لیں ۔ اس کے سامنے کسی نے یزید کو امیر المومنین کہا ۔ تو حضرت عمر بن عبدالعزیز نے کہا تو یزید کو امیر المومنین کہتا ہے فرمایا اس کو بیس کوڑے مارو ۔ تو اس کو بیس کوڑے لگوادیے ۔حضرت معاویہ ؓ کی مذمت کرنے والے کو بھی بیس کوڑے لگوائے تھے ، اور جس نے یزید کو امیر المومنین کہا تھا اس کو بھی بیس کوڑے لگوائے ۔ معاملہ باپ بیٹے کا ہے ۔ حضرت معاویہ ؓ باپ ہیں ۔ یزید بیٹا ہے ۔ لیکن مسئلہ سادہ نہیں ہے ۔ مسئلہ صحابیؓ اور تابعیؒ کا ہے ۔فرق ظاہر ہے۔ یہی ہمارے اہلسنت والجماعت کا معیار ہے ۔ آپ جب بھی کسی حدیث کو سنیں گے تو کہیں گے عن فلاں ، عن فلاں ، عن فلاں اور جب صحابی کی بات آئے گی تو کہیں گے وھو الصحابی والصحابہ کلہم عدول ۔اس پربات ختم ہوجاتی ہے ۔ رجال کے تمام رجسٹر کو دیکھ لو ، اس میں تابعین کے بارے میں تو تفصیلات ہوں گی ، اس میں تبع تابعین کے بارے میں تفصیلات ہوں گی لیکن جب صحابی کی بات آئے گی تو الصحابہ کلہم عدول کا ایک ہی فتویٰ ملے گا ۔ اس کے متعلق دوسری بات ہی نہیں ہے ۔ تو ہمارا معیار یہ ہے کہ جب صحابہؓ کی بات ہو تو معاملہ او ر، اور جب تابعین اور اس کے بعد کی بات ہو ، تو بات اور۔ وہا ںپرعلمائے رجال سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ اب رجال کے علم کی بات کرتے ہیں ۔ فن رجال کا متفقہ فیصلہ ۔ تاریخ و فن رجال کی تمام کتابوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ یزید کی عدالت مجروح ہے اور وہ اس کا اہل نہیں کہ اس کی روایت قبول کی جائے چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی ٌ تقریب التھذیب ٌ میں فرماتے : یزید بن معاویہ بن ابی سفیان الاموی ابوخالد 60ہجری میں متولی خلافت ہوا اور 64ہجری میں مرگیا ۔پورے چالیس سال کا بھی نہیں ہوسکا ۔یہ اس کا اہل نہیں کہ اس سے کوئی حدیث روایت کی جائے۔ یزید کے بارے میں البدایہ و النھایہ کو دیکھ لیں۔لکھتے ہیں ۔


    فانہ، لم یمھل بعد وقعۃ الحرۃ و قتل حسین الا یسیراً حتیٰ قصمہ اﷲ الذی قصم الجابرۃ قبلہ و بعدہ، انہ، کان علیماً قدیراً

    یعنی بلا شبہ واقعہ حرہ اور امام حسین ؓ کو شھید کرنے کے بعد یزید کو ڈھیل نہیں دی گئی مگر ذرا سی تآنکہ حق تعالیٰ نے اس کو ہلاک کردیا جو اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی ظالموں کو ہلاک کرتا رہا ہے ۔بے شک وہ بڑا علم رکھتا ہے اور بڑی قدرت والا ہے۔ یاد رکھیئے البدایہ و النھایہ کسی شیعہ کی کتاب نہیں ہے بلکہ علامہ ابن کثیر ؒ جو تفسیر ابن کثیر کا مصنف اور ابن تیمیہ ؒ کا شاگرد ہے ،کی تصنیف ہے۔ تاریخ الخلفاء کو دیکھ لیں اور جو رجال کے علوم والے دوسری کتابیں ہیں ان کو بھی پڑھیں کہ یزید کے بارے میں اس میں کیا لکھا ہے ۔ تاریخ الخلفاء علامہ جلاالدین سیوطی ؒ کی لکھی ہوئی ہے ۔ انہوںنے اور بہت ساری کتابیں بھی لکھی ہیں ۔ حضرت جب تاریخ الخلفاء میں واقعہ حرہ اور شہادت حسین ؓ اور یزید کا خانہ کعبہ پر سنگ باری کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلم سے فوراً حالانکہ وہ انتہائی محتاط عالم ہیں ، بہت احتیاط سے بات کرتے ہیں بہت ہی احتیاط سے لکھتے ہیں لیکن یہاں حضرت کا قلم فوراً لکھنے لگتا ہے ، لعن اﷲ قاتلہ وا بن زیاد معہ و یزید ایضاً لعنت ہو اس کے قاتل پر اور ابن زیاد اور اس کے ساتھیوں پر اور یزید پر بھی ، اس طرح کے لعنت کے الفاظ نکلے ہیں ۔جہاں تک یزید پر لنتت کرنے کا تعلق ہے تو اس میں اہل سنت میں دو مذہب پائے جاتے ہیں ۔بعض اکابر ان پر لعنت سے رکتے ہیں اس لئے نہیں کہ اس کو اس سے بری سمجھتے ہیں وہ بھی ان کو شقی اور فاسق قرار دیتے ہیں ۔صرف یہ کہ اس پر لعنت کرنا کوئی فرض تو نہیں تو اس وقت میں کوئی اچھا کام کیوں نہ کیا جائے ،نیز اپنے انجام کا بھی پتہ نہیں ۔ہمیں کیا پتہ کہ ہمارا انجام کیسا ہے ۔بعض اکابر اس پر لعنت کو ازروئے قرآن و حدیث جائز سمجھتے ہیں کیونکہ جن چھ چیزوں کی وجہ سے حدیث شریف میں لعنت وارد ہوا ہے ان میں چار یزید میں یقینی پائے جاتے ہیں۔



    سِتَّةٌ لَعَنَهُمْ اللَّهُ وَكُلُّ نَبِيٍّ مُجَاب الدعوۃ لزَّائِدُ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالْمُكَذِّبُ بِقَدَرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالْمُتَسَلِّطُ بِالْجَبَرُوتِ يُذِلُّ بِهِ مَنْ أَعَزَّ اللَّهُ - عَزَّ وَجَلَّ - وَيُعِزُّ بِهِ مَنْ أَذَلَّ اللَّهُ - عَزَّ وَجَلَّ وَالْمُسْتَحِلُّ لِحُرُمِ اللَّهِ - عَزَّ وَجَلَّ - وَالْمُسْتَحِلُّ مِنْ عِتْرَتِي مَا حَرَّمَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَالتَّارِكُ لِسُنَّتِي

    اس حدیث کی تخریج ابوداؤد نے ،ابن ماجہ نے اور حاکم نے اپنی مستدرک میں کی ہے اور اس کو صحیح بتایا ہے۔اس میں تقدیر کے منکر ،ظلم سے حکومت حاصل کرنے والے جس کے ذریعے وہ معزز کو ذلیل ار ذلیل کو مغزز کرتا ہے اور اﷲ کے حرم کے حلال کرنے والے اور آپ کی اولاد کی حرمت کو حلال کرنے والے اور تارک سنت پر لعنت کی گئی۔شاہ ولی اﷲ ؒ نے اس حدیث شریف کو شرح تراجم بخاری میں نقل کیا ہے۔اب یزید نے ظلم سے حکومت حاصل کی ،صحابہ ؓ کوبے عزت اور قتل کیا ،مفسدین کو عزت دی ،حرمین شریفین اور اولاد رسول کی حرمت کو پامال کیا ۔اس لئے ان اکابر کے نزدیک اس پر لعنت جائز ہے۔امام غزالی ؒ اور ابن تیمیہ ؒ سے یزید کے بارے میں گو کہ کچھ نرمی منقول ہے جس کے وجوہات مختلف ہیں مثلاً امام غزالی ؒ تو شیطان پر بھی لعنت کے قایل نہیں اور ذکر اﷲ کو اس سے بہتر خیال کرتے ہیں لیکن ان دو بزرگوں کے اپنے ہم مسلکوں اور ان کے ہم پلہ بزرگ نے ان کی اس کمزوری کا توڑ کرکے ناصبیت کے لئے نرم گوشے کا موقع ختم کردیا ہے۔مثلاً غزالی ثانی اور امام غزالی ؒ کے استاد بھائی شمس الاسلام امام ابوالحسن علی بن محمد طبری الملقب عماد الدین المعروف بالکیا ہراسی ؒ نے جب ان سے یزید کے بارے میں فتویٰ پوچھا گیا تو لکھا یزید صحابی نہیں کیونکہ وہ حضرت عمر بن خطاب کے ایام خلافت میں پیدا ہوا تھا ۔رہا سلف کا اس پر لعنت کے بارے میں دو قول ہیں ۔ایک میں اس کے ملعون ہونے کے بارے میں اشارہ ہے اور ایک میں تصریح ہے ﴿اس طرح امام مالک ؒ اور امام ابوحنیفہ ؒ کے بارے میں بھی یہی لکھا﴾ اٰور اپنے بارے میں لکھا کہ ہم تو اس قول کے قائل ہیں جس میں اس پر لعنت کی تصریح ہے اور وہ کیوں ملعون نہیں ہوگا حالانکہ وہ نر د کھیلتا تھا، چیتوں سے شکار کرتا تھا ، شراب کا رسیا تھا ۔۔۔۔ تاریخ ابن خلکان﴾۔یزید کے بارے میں اگر کچھ زیادہ تحقیق درکار ہو تو متاخرین میں حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے ،مکتوبات شریف ، شاہ ولی ؒ کے تراجم بخاری میں شاہ عبد العزیز ؒ کے تضفہ اثنائ عشری، مفتی شفیع ؒ کا شہید کربلا اور حضرت مولانا عبد ارشید نعمانی ﷲ کے کتابوں اکابر صحابہ پر بہتان ، شہید کربلا پر افتراء اور یزید کی شخصیت اہل سنت کی نظر میں ملاحظہ فرمائیں ۔متقدمین میں البدایہ و النھایہ ، تاریخ الخلفائ ،لسان المیزان ،عقائد نسفیہ ،فتح الباری ،تاریخ ابن خلکان ، تاریخ ابن کثیر دیکھیئے۔


    جو لوگ قسطنطنیہ والے حدیث سے استدلال کرکے یہ کہتے ہیں کہ اس جہاد میں جو شامل ہوئے ہیں ان کے لئے مغفورٌ لہ کی بشارت ہے اور یزید کی اس میں شرکت ثابت ہے تو اس کا جواب مولانا عبد الرشید نعمانی ؒ نے اپنی کتاب میں خوب دیا ہے کہ حدیث شریف اول جیش من امتی یغزون مدینۃ قیصر مغفورٌ لہم میں دو باتیں ہیں ایک’’ اول جیش‘‘ اور دوسرا ’’مدینۃ قیصر‘‘ ۔ان دونوں کو پہلے طے کرنا ہوگا کہ ان کا کیا مطلب ہے ۔اگر اول جیش سے محض جیش مراد ہے تو یہ لشکر اس لشکر جس کی امارت یزید کے ہاتھ میں تھی سے بہت پہلے عبدا لرحمن بن خالد بن ولید کے سرکردگی میں ہوئی جو 46ھ میں شہید کردیئے گئے تھے قسطنطنیہ ہو آئے تھے۔ جبکہ یزید جس لشکر میں تھے اس کو کسی نے بھی 49ھ سے پہلے نہیں بتایا۔خود محمود عباسی نے بھی نہیں ۔اس پہلے لشکر کی تفصیل سنن ابوداؤد میں دیکھی جاسکتی ہے۔اور اگر اس سے فتح اور کامرانی والا جیش مراد ہو تو پھر اس سے مراد سلطان محمد فاتح قسطنطنیہ مراد ہوسکتے ہیں جن کا عرف ہی یہی ہے۔اس لئے مولانا کی تحقیق کے مطابق یزید اس بشارت والی جہاد میں شامل نہیں تھا ۔بقول حضرت ؒ کے یہ شوشہ شارح بخاری مہلب المتوفی 433ھ نے چھوڑا تھا کہ اس حدیث سے یزید کی منقبت نکلتی ہے ۔اس وقت یہ اندلس میں قاضی تھے اور وہاں امویوں کی حکومت تھی۔اس علمی تحقیق کو ایک طرف رکھ کر اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ اس حدیث شریف سے یزید کی مغفرت کی بشارت نکلتی ہے تو ہم یزید کے کفر کے قائل نہیں بلکہ فسق کے قایل ہیں اور فاسق کو اﷲ چاہے تو معاف کرسکتا ہے لیکن فاسق کو اگر آخرت میں معاف بھی کردیا جائے لیکن اگر دنیا میں اس کا توبہ ثابت نہ ہو تو اس کو رحمۃ اﷲ علیہ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ رحمۃ اﷲ علیہ تکریم کا کلمہ ہے اور بدعتی اور فاسق کی تکریم ازروئے حدیث دین کے انہدام کے مترادف ہے ۔خود یزید کا بیٹا اس کو خلافت کا اہل نہیں سمجھتا تھا اور اس کی بری عاقبت کا خوف تھا جیسا کہ الصواعق المحرقہ میں اس کی تصریح ہے اور اموی خلیفہ عمر بن عبد العزیز ؒ کے سامنے جب یزید کو امیر امؤمنین کہا گیا تو اس کو بیس کوڑے لگوائے ۔


    ہمارے علماء کرام فرماتے ہیں ، یزید کو فاسق کہنا تو ضروری ہے ، کافر نہیں ۔ کیوں ؟ یہ میں حضرت تھانوی کی تحقیق بتا رہا ہوں ۔ فرماتے ہیں کہ شہادت حسین ؓ کا الزام اگر ان کو نہیں دیا جاسکتا تو یہ الزام تو ان کو دیا جاسکتا ہے کہ اس کا بدلہ اس نے کیوں نہیں لیا ۔ اگر اتنا بڑا کام اس سے پوچھے بغیر ہوا تو ان کے قاتلوں سے انتقام کیوں نہیں لیا گیا ۔ دوسری بات مدینہ منورہ پر اس نے جو فوج کشی کرائی ، مدینہ منورہ کو تین دن تک فوج کے حوالے کیا کہ وہاں جو مرضی ہو وہ کرو ۔ اس کے علاوہ مسجد نبوی تین دن بند رہا ۔ اور وہاں ریاض الجنتہ میں گھوڑے باندھے گئے جو وہاں لید اور پیشاب کرتے رہے ، بہت سارے صحابہ کرام ؓاور صحابیات شہید ہوگئیں ، اور نعوذبااللہ بہت سارے صحابہ کرامؓ کی بیٹیوں کی عصمت دری ہوئی ۔ اصول یہ ہے کہ جس معیار کا جرم ہوتا ہے اسی معیار کی توبہ ہوتی ہے ۔ خفیہ گناہ کی توبہ خفیہ ہوسکتی ہے ، اور اعلانیہ گناہ کی توبہ اعلانیہ ہوتی ہے ۔عالم جب گناہ کرے گا تو وہ منبر پر بیٹھ کر اعلان کرے گا کہ یہ میں نے غلط کیا ہے ۔یہ نہیں کہ یہا ں منبر پر غلط بات کرلے اورجاکر کمرے میں کہہ دے کہ میں نے غلط بات کی ہے ۔ تو کیا وہ توبہ ہوگا ۔ کتاب میں کسی نے غلط لکھا ہے تو اس کو کتاب میں لکھنا پڑے گا کہ میں نے غلط لکھا ہے ۔ حضرت تھانوی ؓکی کتابیں دیکھ لیں ، جہاں جہاں غلطی ہوئی ، آگے جا کر کتاب شائع کرادی کہ یہاں یہاں پر غلطی ہوئی ہے ا س کو ٹھیک کردو ۔ حضرت سید سلیمان ندوی نے بھی ایسا کیا ۔ عالم کی توبہ اعلانیہ ہوتی ہے ۔ وہ علمی توبہ ہوتی ہے ۔ جس لیول پر غلطی ہوتی ہے اسی لیول کی توبہ ہونی چاہیے ۔ تو جو یزید کا حملہ تھا کیا اس کے بعد اس کا اس سے اس طرح کا توبہ ثابت ہے ؟کیونکہ اس کے فوراً بعد اس نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ جاو اب خانہ کعبہ پر سنگ باری کرو ۔ وہاں پر اس کی فوج نے سنگ باری کی اور اسی دوران یزید مر گیا ۔ حضرت عبد اﷲ بن زبیر ؓاس وقت ان کی فوج سے لڑ رہے تھے ۔ پتہ نہیں حضرت کو کشف ہوا یا اور کوئی بات ہوئی ، انہوںنے یزید کی فوج سے کہا جائو تمہارا فاسق امیر مر گیا ۔ تویہ فاسق کا لفظ بھی حضرت عبد اﷲ زبیرؓ کا ہے ۔ جب اسکی فوج نے پتہ کیا تو وہ واقعی مر گیا تھا ۔ تو وہ توبہ کیے بغیر مرا ہے ۔ اس لئے ان تین باتوں کی وجہ سے وہ فاسق ہے ۔ ابن حجر مکیؒ بھی الصواعق محرقہ میں بصراحت لکھتے ہیں ۔اور اس کو مسلمان کہنے کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ وہ فاسق تھا ، شریر تھا ، نشہ کا متوالا تھا اور ظالم تھا۔


    ہاں البتہ فاسق کے لئے مغفرت کی دعا ہوسکتی ہے ۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں یا اللہ یزید کو بخش دے ۔ یہ دعا ہم بھی کرسکتے ہیں ۔ ہاں مسلما ن تھا،اس کے کفر کا کوئی یقینی ثبوت نہیں اور مسلمان چاہے کتنا ہی گناہگار کیوں نہ ہو اس کو کافر نہیں کہنا چاہیئے نیزاس کے لئے مغفرت کی دعا کرنی چاہیے ۔ کیونکہ اگر ایک مسلمان کو اللہ تعالیٰ جہنم لے جائے تو ہمیں کیا خوشی ہوگی ؟ بالکل نہیں ہوگی ۔ اور اگر یزید کو اللہ پاک جنتی بنا دے تو ہمیں خوشی ہوگی ۔ کیونکہ ہمیں اس کے ساتھ یہ دشمنی تو نہیں ہے ۔اگر اللہ پاک کسی کو معاف کرنا چاہیے بالکل صحیح ہے ، یہ اس کا کام ہے ۔ لیکن اصول تو نہیں بدلے جاسکتے ،فاسق کو فاسق کہنا چاہیے ۔ لیکن اللہ پاک فاسق کو بھی بخش سکتے ہیں ۔ اللہ پاک کی قدرت سے وہ نکلا ہوا نہیں ہے ۔ ہاں کافر کو نہیں بخشتا ۔ مشرک کو نہیں بخشتا ۔ یہ اللہ پاک کا قانون ہے ۔ یہاں سے اگر کوئی ایمان کے ساتھ چلا گیا تو اللہ پاک اس کو بخش سکتے ہیں ۔ لیکن ہم اپنے اصول کو تبدیل نہیں کریں گے ۔ ہم یزید کو رحمتہ اللہ علیہ نہیں کہہ سکتے ۔ اب جو لوگ یزید کو رحمتہ اللہ علیہ کہنے کے شوقیں ہوں ور اس کے مقابلے میں حسین ؓ کو باغی کہیں تو ان لوگوں کا مقام کیا ہوگا ۔وہ اس حدیث شریف جس میں یزید کو مغفور ثابت کیا جاتا لیکن علمی لحاظ سے یہ مشکوک ہے جیسا کہ بتایا گیا کی وجہ سے تو یزید کا کرام کرتے ہیں اور وہ جو احادیث شریفہ ہیں جن اممین کریمین ؓ کو نوجوانان جنت کا سردار کہا گیا اور حسین اور حسین رضی اﷲ عنھما دنیا میں میرے پھول ہیں اور اس طرح اور احادیث شریفہ سے صرف نظر کررہے ہیں ۔ان کو ناصبی نہ کہا جائے تو کن کو کہا جائے ۔ ان ہی کو ناصبی کہتے ہیں جن کو ازروئے حدیث گمراہ فرقہ کہا گیا ہے کیونکہ ایک فرقہ حضرت علی ؓ کی محبت کی غلو میں گمراہ ہوگیا ،ان کو شیعہ کہتے ہیں،انہوں نے اکثر حضرات صحابہ کرامؓ کو مرتد کہا،دوسرا فرقہ علی ؓ کی عداوت میں گمراہ ہوگیا ،ان کو ناصبی کہتے ہیں ۔درحقیقت یہ بھی شیعہ ہیں کیونکہ ان کا پرانا نام مروانی شیعہ ہے۔یہ بالکل شیعوں کی طرح تقیہ کرتے ہیں ۔اپنے آپ کو اہل سنت میں شامل کرتے ہیں اور موقع ملتے ہی یہ اپنا زہر اہل سنت کے قلوب میں پہنچا دیتے ہیں ۔ان سے بھی ہوشیار رہنا چاہیًے ۔یہ دونوں صحابہ ؓ کے دشمن ہیں۔ الحمد اللہ پورے بیان میں میری زبان سے کسی صحابیؓ کے بارے میں نعوذ بااللہ کوئی بات نکلی ہے ؟ اور مجھے اس کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ ۔ میں کیوں اپنی عاقبت خراب کرتا ۔کسی سنی کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ کسی صحابی ؓکے بارے میں کوئی غلط بات کرے ۔ الحمد اللہ ہم سب صحابہؓ کا دفاع کرتے ہیں ، محمود احمد عباسی کے لٹریچر کو اگر دیکھا جائے ، احمد حسین کمال کے لٹریچر کو دیکھا جائے ، اس میں کئی صحابہؓ پر ، خصوصاً حضرت علی ؓ پر کئی چوٹیں لگائی گئی ہیں ۔ تو آپ حضرات سے عرض ہے کہ اپنے ایمان کو ضائع نہیں کرنا چاہیے ۔ محرم کی مناسبت سے یہ بات اس لئے کہی گئی کہ صحابہ کرام ؓکے بارے میں اگر کوئی ایسی ویسی بات کرے گا تو غصہ تو آئے گا لیکن اس غصّے میں کوئی غلط حرکت نہیں کرنی۔ اگر عیسائی نعوذبااللہ حضور ﷺِکو گالی دیں تو کیا ہم اس کے مقابلے میں نعوذ بااللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گالی دے سکتے ہیں ؟ نہیں ، ہم نے اپنے آپ کو بچانا ہے ۔ کسی صحابی ؓکے خلاف بھی بات نہیں کرنی ۔ دونوں طرف کے صحابہ ؓ ہمارے ہیں ۔ تین راستے ہیں ایک راستہ عام صحابہ کا ہے ۔ اور ایک راستہ اہل بیت کا ہے جس سے گھر کی باتیں مروی ہیں ۔ اور ایک راستہ آپ ﷺِ کے ازواج مطہرات کا ہے جن سے خاص مخفی باتیں مروی ہیں ،ایسی باتیں کوئی اور نہیں کہہ سکتا تھا ۔ میاں بیوی کے تعلقات کے بارے میں کوئی بات کرسکتا ہے ؟ حضرت عائشہ ؓکو کم عمر میں آپ ﷺ کی عقد میں لایا گیا ، اس میں تکوینی حکمت تھی ۔ کیونکہ فرماتے ہیں کہ تقریباً آدھے علم کی امین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ہیں ۔ اس طرح ہمارے جتنے بھی صحابہ کرام ؓہیں وہ اپنے اپنے حصے کے دین کے امین ہیں ۔ اگر کسی کی رسائی باقی صحابہ ؓ تک تو ہے ، اہل بیت تک نہیں ہے تو نتیجتاً وہ اتنے ہی دین سے محروم ہوجائیں گے ۔ اگر ازواج مطہرات تک نہیں تو اتنی دین سے محروم رہ جائیں گے اور اگر ان کی مخالفت کریں گے تو پھر آپ ﷺ کی اﷲ اﷲ فی اصحابی والی بات کو یاد رکھا جائے ۔ حضرت امام مالک ؒ کا فتویٰ تو بالکل واضح ہے ۔امام مالک ؒ قرآن پاک سے استدلال کرتے ہیں ، فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام ؓسے بغض رکھنے والا کافر ہے ۔کیونکہ اللہ پاک نے قرآن میں کفر کی طرف ان کی نسبت کی ہے لیغیظ بھم الکفار تاکہ اس کے ذریعے کفار کے دل جلائیں ، اس کا براہ راست مفہوم تو یہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ کی تعریف سے کافروں کے دل جلتے ہیںاور یہی مفہوم جمہور کے نزدیک ہے لیکن امام مالک ؒ اس کے بالعکس کے بھی قایل ہیں کہ جن کا دل صحابہ ؓ کی تعریف سے جلتا ہے وہ کافر ہیں ۔یہ امام مالک ؒ کا فتویٰ ہے ۔ لہذا یہ معاملہ بہت خطرنا ک ہے ،پس اپنے آپ کو بچانا چاہیے ۔ہم ایک دفعہ ایک اجتماع میں شامل تھے ، کسی وجہ سے بھگدڑ مچ گئی ، سارے لوگ اٹھ گئے ۔ سٹیج والے بڑے ہوشیار تھے ، وہاں سے ایک ہی بات ہورہی تھی ، بزرگو اور دوستو اپنے آپ کو بٹھاؤ ، کسی اور کو نہ بٹھاؤ۔ یہی ایک بات مسلسل آرہی تھی اور پورا مجمع پانچ منٹ میں بیٹھ گیا ۔ کیا ایسا دوسرے مجمع میں ہوسکتا ہے ؟ جو دوسرے کو بٹھائیں گے تو کیا وہ خود بیٹھ سکتے ہیں ۔ بعض دفعہ دوسروں کو بٹھانے کے شوق میں لوگ کھڑے ہوجاتے ہیں ، نتیجتاً انتشار پیدا ہوجاتا ہے ۔ تو اس طرح نہیں کرنا چاہیے ۔ سب سے پہلے اپنے آپ کو تبلیغ ، سب سے پہلے اپنے آپ کو سمجھانا ۔ عقیدہ سب سے اہم چیز ہے ۔ خدا نخواستہ اگر ہمارا عقیدہ گڑ بڑ ہوگیا ، تو کچھ بھی باقی نہیں رہے گا ۔ عقیدہ سمت ہے ۔ اگر کوئی آدمی لاہور جانا چاہتا ہے اور کسی بس کی خوبصورتی کو دیکھ کر اس میں بیٹھ جائے یہ نہ دیکھے کہ یہ کہاں جارہی ہے ، اور بعد میں پتہ چلا کہ یہ تو پشاور جارہی ہے ۔ تو اب جس تیزی کے ساتھ یہ بس جائے گی اتنی تیزی سے وہ اپنی منزل سے دور ہوتا جارہا ہے ۔ نقصان میں جارہا ہے ۔ بالکل یہی بات ہے کہ جس کا عقیدہ خراب ہو ، چاہے وہ جتنے اچھے اعمال کرے گا وہ اتنا ہی خراب ہوتا جائے گا ۔ حضرت تھانوی ؒ فرماتے ہیں کہ جو مسلمان نہیں ہیں ان کو ذکر نہ سکھائو ، کیوں ؟ اس لئے کہ ذکر کے اپنے طبعی خواص ہیں ، مثلاً اس میں مزہ آتا ہے ، سکون ہوتا ہے،اطمینان ہوتا ہے ۔ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب ۔ یہ تو نہیں فرمایا کہ مسلمان کے دل کو اطمینان دیتا ہے اور کافر کے دل کو اطمینان نہیں دیتا ۔ یہ عام بات ہے ۔ تو یہ جودلوں کو ذکر سے اطمینان ملتا ہے تو اگر کافر کو ذکر سکھا دیا اور اس کے دل کو اس سے اطمینان نصیب ہوجائے تو وہ سمجھے گا بس یہ کافی ہے ۔ چونکہ اس اطمینان میں اوراس اطمینان میں فرق ہے ۔کسی ہیپنٹائز کرنے والے نے جو کہ عیسائی تھے نے مولانا اشرف صاحب ؒ سے پوچھا کہ ہم لوگ بھی یہ کرتے ہیں آپ لوگ بھی یہ کرتے ہیں ، فرق کیا ہے ؟ حضرت نے فرمایا ، پانی سے کسی گندی چیز کو دھونا اور پیشاب سے دھونا ، بظاہر نتیجہ ایک نظر آتا ہے لیکن یہ ایک جیسا نتیجہ نہیں ہے،ایک میں پاکی ہے دوسرے میں نہیں ۔ پیشاب سے بھی چیز دھل جاتی ہے ۔ پانی سے بھی چیز دھل جاتی ہے ۔ لیکن پانی کے ساتھ پاکی ہے اور پیشاب کے ساتھ نہیں ہے ۔ اس لئے ایمان بڑی اونچی چیز ہے ۔ اپنے ایمان کو ہم نے بچانا ہے ۔ آج کا دور بڑا خطرناک دور ہے ۔ آپ ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ صبح لوگ مسلمان ہونگے اور شام کو کافر ہونگے ، اور اگر شام کو مسلمان ہونگے تو صبح کو کافر ہونگے ۔ اور یہ فتنے ایسے کھل کر اور مسلسل آئیں گے جیسے تسبیح کے دانے بکھر کر ایک دوسرے کے اوپر گرتے ہیں ، تو ایسا وقت آنے والا ہے ، اور بظاہر لگتا ہے کہ ایسا وقت آگیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے ، ایسے وقت میں اپنے ایمان کو قبر تک لے جانا بہت بڑی بات ہے ۔ اور ایمان کو بچا کر لے گئے تو وہاں انشاء اللہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا ۔ اور وہاں ٹھیک ہونے کے بہت امکانات ہیں ۔ پتہ نہیں کس کی سفارش سے کس کی شفاعت سے کام بن جائے یہ پھر اللہ پاک کے بہت سے ذریعے ہیں جس کے ذریعے اللہ پاک معاف فرماسکتے ہیں ، تو ایمان کو بچانا لازمی ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں گناہوں پر جرأت ہوجائے ۔گناہوں سے بچنا بھی ضروری ہے،کیونکہ کبھی کبھی گناہوں کی کثرت کی وجہ سے ایمان سلب ہوجاتا ہے ۔ مثلاً حج نہ کرنا ، جس پر حج فرض ہے اور وہ حج نہ کرے تو اس کے سوئے خاتمہ کا اندیشہ ہے ۔ جو دنیا کے لئے اپنے مسلک کو بدل دے اس کا بھی سوئے خاتمہ کا اندیشہ ہے ۔ ایک دفعہ کسی صاحب نے ایک امام مسلک کو چھوڑ کر دوسرے امام کا مسلک اختیار کیا تھا ، اس وجہ سے کہ وہ وہاں شادی کرنا چاہتا تھا ۔ حالانکہ شادی کرنا اچھا فعل ہے لیکن اسوقت کے علمائ نے کہہ دیا تھا کہ اس آدمی کے سوئے خاتمہ کا اندیشہ ہے ، کیونکہ اس نے دنیاوی مقصد کیلئے اپنے مسلک کو بغیر تحقیق کے تبدیل کردیا ۔ مطلب یہ ہوا کہ انسان کو اس سلسلے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے ۔ اور کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے دین کی کوئی تخفیف ہوجائے ۔ ایمان کی حفاظت گناہوں سے بچنے کے ذریعے بھی ہوسکتی ہے ۔ ایک دفعہ ایک قادیانی ایک عالم کے پاس آئے ، اور کہا کہ حضرت پہلے میں نماز پڑھتا تھا تو اس میں بڑے وسوسے آتے تھے ، جب سے میں احمدی بن گیا ہوں اب تو مجھے وسوسے نہیں آتے ، اب تو میں بالکل سکون سے نماز پڑھتا ہوں ۔ تو حضرت نے پوچھا ، یہ بتائو کہ چور کہاں ڈاکہ ڈالتا ہے ۔ جہاں مال ہو یا جہاں اور کوئی گندوغیرہ ہو ؟ پہلے تمہارے پاس ایمان کا خزانہ تھا تو اس کو چوری کرنے کیلئے شیطان بار بار آتا تھا ۔ اب تو تمہارے پاس بول وبراز ہے ، اب شیطان کیوں آئے گا ۔ اب بے شک تو اعمال کے لحاظ سے آسمان تک بھی پہنچ جائے تمہارا آخری ٹھکانہ جہنم ہی ہے ۔ تو یہی والی بات ہے ۔ اعمال کو اعمال والا مقام اور عقائد کو عقائد والا مقام دینا چاہیے ۔صحیح عقائد کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں ۔ لیکن اعمال کو بھی کم نہ سمجھو ۔ کیونکہ بعض دفعہ اعمال کی کمی ایمان کے سلب ہونے کا بھی سبب بنتی ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو اپنی حفاظت میں لے لے ۔ آمین ۔

    ازواج مطہرات اور دیگر اہل بیت کی علمی خدمات:

    اسلام میں ”اہلِ بیت“ کی اصطلاح نہایت محترم اور معزز ہے۔ کلام الٰہی یعنی قرآن کریم میں دو مقامات پر اور حدیث پاک میں متعدد احادیث اور روایات میں اہل بیت کا ذکر ہے۔ قرآن کریم میں سورئہ ہود: آیت، ۷۳ اور سورہٴ احزاب: آیت:۳۳ میں اہل بیت کا صراحتاً ذکر ہے۔ سورہٴ ہوو میں ابوالانبیاء حضرت ابراہیم   کے اہل بیت کا ذکر ہے، جبکہ سورہٴ احزاب میں خاتم النّبیین فخرالانبیاء والرسل نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کا ذکر ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اہل بیت سے متعلق آیت کے الفاظ اس طرح ہیں: ”قَالُوا أتَعْجَبِیْنَ مِنْ أمْرِ اللہِ رَحمةُ اللہِ وَبَرَکَاتُہ عَلَیْکُمْ أہْلَ الْبَیْتِ انَّہ حَمِیْدٌ مَجِید“ (سورہ ہود: آیت،۳۷) ترجمہ: (وہ بولے کیا تو تعجب کرتی ہے اللہ کے حکم سے، اللہ کی رحمت ہے اور برکتیں تم پر اے گھروالو! تحقیق اللہ ہے تعریف کیاگیا بڑائیوں والا)۔


                    اور سید خاتم النّبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے متعلق الفاظ قرآنی اس طرح ہیں: ”انَّمَا یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْراً“ (سورئہ احزاب: آیت،۳۳) ترجمہ: (اور اللہ یہی چاہتا ہے کہ دور کرے تم سے گندی باتیں۔ اے نبی کے گھر والو اور ستھرا کردے تم کو ایک ستھرائی)۔


    اہل بیت کی علمی خدمات پر بحث کرنے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بذاتِ خود اہل بیت کی حقیقت کا تعین ہوجائے۔ قرآن کریم، احادیث نبوی اور علماء اسلام کی تصنیفات (جن میں حضرات صحابہٴ کرام، حضرات تابعین اور بہت سے علمائے متقدمین اورمتاخرین شامل ہیں) ان تمام حضرات کی تصنیفات کا خلاصہ یہ ہے کہ ظاہراً اہل بیت کی اصطلاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ یعنی زواجِ مطہرات و اولاد کے لیے خصوصاً اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عشیرہ اور عترت کے لیے عموماً استعمال ہوتی ہے۔ بعض علمائے کرام وسعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بنومطلب اور بنو ہاشم کو بھی اس اصطلاح میں شامل کرتے ہیں؛ لیکن اہل سنت والجماعت کے اس واضح موقف کے برخلاف اہل تشیع یعنی علمائے شیعہ کے نزدیک اہلِ بیت کی اصطلاح کا حامل، نہایت ہی محدود مفہوم جس میں وسعت کی کوئی گنجائش نہیں۔ بعض علمائے حق نے اہلِ بیت سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو لیا ہے، ان حضرات کے نزدیک بیت سے مراد رسول اللہ کا گھر اور اہل بیت سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروالے ہیں۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات۔


    اپنے موقف کی حمات میں سورہٴ احزاب کی آیت پیش کی ہے: وَقَرْنَ فِی بُیُوتِکُنَّ وَلا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الجَاہِلِیَّةِ الأولٰی وَأقِمْنَ الصَّلاَةَ وَاٰتِیْنَ الزَّکوٰة وَاطعْنَ اللہَ وَرَسُولَہ انَّما یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أھْلَ البَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا“ (سورہٴ احزاب: آیت،۳۳) ترجمہ: (اور قرار پکڑو اپنے گھروں میں اور دکھاتی نہ پھرو جیسا کہ دکھانا دستور تھا پہلے جہالت کے وقت میں اور قائم رکھو نماز اور دیتی رہو زکوٰة اور اطاعت میں رہو اللہ کی اور اللہ یہی چاہتا ہے کہ دور کرے تم سے گندی باتیں۔ اے نبی کے گھر والو اور ستھرا کردے تم کو ایک ستھرائی سے) اور اس موقف کے سلسلہ میں اتنی شدت برتی ہے کہ حضرت عکرمہ بازار میں منادی کرتے تھے کہ آیت: ”انَّما یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أھْلَ البَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا“ (سورہٴ احزاب: آیت،۳۳) ترجمہ: (اور اللہ یہی چاہتا ہے کہ دو کرے تم سے گندی باتیں۔ اے نبی کے گھر والو اور ستھرا کردے تم کو ایک ستھرائی سے) میں اہل بیت سے مراد ازواج مطہرات ہی ہیں؛ کیوں کہ یہ آیت انھیں محترم ومعزز خواتین کے یہاں نازل ہوئی تھی، اور فرمایا کرتے تھے کہ میں اس معاملے میں مباہلہ کرنے کو تیار ہوں؛ لیکن حدیث شریف میں الفاظ اس طرح سے ہیں: ”اللّٰھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلی آل ابراھیم انک حمید مجید،․ اللّٰھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراھیم وعلی آل ابراھیم انک حمید مجید“ جس طرح سے قرآن کریم میں اہل بیت کی اصطلاح حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے استعمال ہوئی ہے، اسی طرح درودِ ابراہیمی میں بھی لفظ آل ابراہیم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اہل کی ایک شکل آل بھی ہے۔ امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں تحریر فرمایا ہے کہ بعض حضرات آل النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقارب مراد لیتے ہیں اور بعض حضرات کے نزدیک آل النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد اہل علم ہیں، جن کا آپ کے ساتھ خصوصی تعلق تھا، یا تعلق پایا جائے۔


    امام راغب اصفہانی نے اہل دین کی دو قسمیں بیان کی ہیں: ایک قسم وہ ہے جن میں وہ لوگ شامل ہیں، جو علم وعمل کے لحاظ سے راسخ العقیدہ ہوئے ہیں، ان کے لیے آل النبی یا امت کے الفاظ استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ دوسری قسم وہ ہے، جن میں وہ لوگ شامل ہیں جن کا علم صرف تقلیدی ہوتا ہے، انھیں امتِ محمد کہا جاسکتا ہے؛ لیکن آل محمد نہیں کہا جاسکتا۔ اس سلسلہ میں امام راغب نے امام جعفر صادق سے منسوب ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ: کسی شخص نے حضرت جعفر صادق سے دریافت کیا کہ اس سلسلہ میں آپ کی رائے کیا ہے کہ بعض لوگ تمام مسلمانوں کو آل النبی میں داخل سمجھتے ہیں؟ حضرت جعفر نے فرمایا: ”یہ رائے صحیح بھی ہے اور غلط بھی۔ غلط تو اس لیے ہے کہ تمام امت آل النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں شامل نہیں ہے اور صحیح اس لیے کہ اگر تمام لوگ شریعت کے کما حقہ پابند ہوجائیں تو ان کو آل النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہا جاسکتا ہے۔ ابن خالویہ کے مطابق آل کی ۲۵ سے زائد اصناف ہیں، جیساکہ الجرائی کی کتاب ”منار الہوا“ میں مذکور ہے۔


    لیکن شیعہ حضرات اہل بیت میں صرف اہل الکساء کو ہی شمار کرتے ہیں، یہ لقب حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین کو مجموعی اعتبار سے اس واسطے دیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ جب کہ اہل نجران کے نصاریٰ کا وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ہوا تھا، تو توحید اور تثلیث میں حق وباطل کے انتخاب کے سلسلہ میں مباہلے کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چاروں حضرات کو اپنی چادر میں لپیٹ لیا اور قرآن کریم کی آیت: ”انَّما یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أھْلَ البَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا“ (سورئہ احزاب: آیت،۳۳) ترجمہ: (اور اللہ یہی چاہتا ہے کہ دور کرے تم سے گندی باتیں۔ اے نبی کے گھر والو اور ستھرا کردے تم کو ایک ستھرائی سے)۔


    ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حضرات حسنین کے علاوہ آپ نے حضرت عباس (چچا) اور ان کے بیٹوں کو بھی اہل بیت میں شامل کیا ہے؛ کیونکہ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس اور ان کے بیٹوں کے اوپر اپنی چادر ڈال دی تھی اور فرمایا تھا: اے اللہ! انھیں دوزخ کی آگ اسی طرح چھپائے رکھ جیسے میں نے انھیں اپنی چادر میں چھپالیا ہے (بعض علماء اہل الکساء کے لیے اہل العباء کی اصطلاح بھی استعمال کرتے ہیں)


    خلاصہٴ کلام یہ کہ اگر ایک طرف قرآن کریم سے ازواج مطہرات کا اہل بیت میں شامل ہونا ثابت ہوتا ہے، تو دوسری طرف احادیث کثیرہ اور بہت سے روایات سے حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حضرات حسنین کا اہل بیت ہونا اظہر من الشمس ہے۔ اگر ان دونوں حقائق کو ملادیا جائے، تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اہل بیت میں ازواج مطہرات کے ساتھ حضرات حسنین اور ان کے والدین بھی شامل ہیں۔ اگر قرآن کریم کی آیات کا بغور مطالعہ کیا جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ آیات قرآنی سورہٴ احزاب ۷۳ ازواج مطہرات کی شان میں نازل ہوئی ہے اور اہل بیت سے وہی مراد ہیں؛ لیکن اہل بیت میں اور نفوس مقدسہ کا شامل ہونا قرآنی آیات کے منافی نہیں؛ کیوں کہ ”انَّما یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أھْلَ البَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا“ (سورہٴ احزاب: آیت،۳۳) ترجمہ: (اور اللہ یہی چاہتاہے کہ دور کرے تم سے گندی باتیں۔ اے نبی کے گھروالو اور ستھرا کردے تم کو ایک ستھرائی سے) والی آیت میں مذکر وموٴنث دونوں شامل ہیں۔ یعنی اگر اس آیت سے ماسبق اور مابعد والی آیات قرآنی ازواج مطہرات کی طرف مشیر ہیں، تو یہ آیت تمام اہل بیت مذکر وموٴنث دونوں کو شامل ہے؛ اس لیے حق یہ ہے کہ اہل بیت میں ازواج مطہرات کے ساتھ دوسرے حضرات بھی شامل ہیں اور حدیث شریف اور دیگر روایات اگر حضرت حسنین اوران کے والدین کو اہل بیت میں شمار کررہی ہیں تو احادیث سے یہ بات کہیں بھی ثابت نہیں ہوتی؛ بلکہ اشارہ بھی نہیں ملتا کہ اہل بیت میں حضرات حسنین اور ان کے والدین کے علاوہ کوئی دیگر شخص (ازواج مطہرات وغیرہ) شامل نہیں ہیں۔


    شیعہ حضرات کا یہ موقف کہ اہل بیت میں صرف حضرات حسنین اور ان کے والدین ہی شامل ہیں، باقی اور کوئی نہیں۔ قرآنی آیت ۷۳ سورئہ احزاب کے سیاق وسباق کے منافی ہے؛ کیوں کہ مذکورہ آیت کے الفاظ قرآنی سے قبل اور بعد دونوں جگہ یا نساء النبی کے عنوان سے خطاب اور ان کے واسطے صیغہٴ موٴنث کا استعمال فرمایا گیا ہے۔ سابقہ آیات: ”فَلَا تَخْضَعْنَ بالقول“ سب صیغہ موٴنث استعمال ہوئے ہیں اورآگے پھر ”وَاذْکُرْ مَا یُتْلٰی“ میں بصیغہ تانیث خطاب ہوا ہے، اس درمیانی آیت کو سیاق وسباق سے کاٹ کر بصیغہٴ مذکر ”اِنَّکمْ“ اور ”یُطَھِّرَکُم“ فرمانا بھی اس پر شاہد ہے کہ اس آیت میں اہل بیت میں صرف ازواج مطہرات ہی داخل نہیں ہیں؛ بلکہ کچھ رجال بھی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شارع اور مفسر قرآن کی حیثیت سے کچھ رجال اور نساء کو اہل بیت میں شمار کرلیا ہے۔ مثلاً ازواج مطہرات کے ساتھ حضرت فاطمہ (عورت کی حیثیت میں اور کچھ رجال بھی مثلاً حضرت علی، حضرات حسنین، حضرت عباس اور ان کے بیٹے وغیرہ) واللہ اعلم بالصواب۔ اس طرح اسلامی مصادر دین کی اہمیت کے پیش نظر وہ اہل بیت جو قرآن کریم سے واضح طور پر ثابت ہیں، ان کو اس مضمون میں طبقہٴ اولیٰ میں رکھا جارہا ہے۔ یعنی ازواج مطہرات، اور وہ حضرات اہل بیت جو احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں، ان کو طبقہ ثانیہ میں رکھا جارہا ہے اور دیگر حضرات جو بعض دوسری روایات سے اہل بیت میں شامل نظر آتے ہیں، ان کو طبقہ ثالثہ میں رکھا جارہا ہے۔ مندرجہ ذیل سطور میں ان تینوں طبقات اہل بیت کی علمی خدمات کو نقل کیا جارہا ہے۔


    اہلِ بیت کی خدمات (طبقہٴ اولیٰ- ازواجِ مطہرات)

    اس طبقہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سبھی ازواج مطہرات شامل ہیں؛ لیکن حدیث شریف میں اور دیگر کتب میں حضرت عائشہ، حضرت ام سلمہ، حضرت حفصہ اور حضرت میمونہ کو اس طبقے میں شمار کیا ہے۔


    حضرت عائشہ کی علمی خدمات

                    حضرت عائشہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جب نکاح ہوا، تو آپ کی عمر صرف ۶ سال تھی اور جب رخصتی ہوئی تو ۹ سال تھی اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو آپ کی عمر ۱۸ سال تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد آپ ۴۸ سال تک زندہ رہیں، اس دوران طویل عرصے میں یعنی تقریباً ۵۷ سال آپ شب وروز دین کی خدمت کرتی رہیں۔ علمِ دین کو پھیلاتی رہیں، صحابیات میں سب سے زیادہ احادیث آپ سے ہی مروی ہیں۔ آپ کا حافظہ نہایت قوی تھا، جو سنتی تھیں وہ صرف وقتی طور پر یاد ہی نہیں ہوجاتا تھا؛ بلکہ دل ودماغ میں نقش ہوکر رہ جاتا تھا۔ حدیث شریف سے آپ کو گہرا تعلق تھا، کسی حدیث کے سلسلے میں اگر اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی شبہ ہوتا تھا، تو آپ ہی کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔ آپ بڑی آسانی کے ساتھ مدلل طور پر شک وشبہ کو رفع کردیتی تھیں، مثلاً ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”لوگ قربانی کے گوشت کو ۳ دن سے زیادہ نہ رکھیں“ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوسعید خدری نے یہ سمجھا کہ یہ حکم دائمی ہے۔ حضرت عائشہ نے جب یہ بات سنی تو فرمایا کہ یہ حکم نہ تو دائمی ہے اور نہ ہی واجب ہے؛ بلکہ مستحب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ قربانی کے گوشت کو جمع نہ کریں؛ بلکہ دوسروں کو کھلائیں۔ حضرت عائشہ کی ایک قابل ذکر خوبی یہ تھی کہ جب آپ روایت کرتی ہیں تو ساتھ ہی ساتھ اس کی علم وحکمت پر بھی روشنی ڈالتی ہیں، مثلاً ابوسعید خدری اور عبداللہ بن عمر سے غسلِ جمعہ کے سلسلہ میں صرف اس قدر مروی ہے کہ جمعہ کے دن غسل کرلینا چاہیے؛ لیکن اس حدیث شریف کو حضرت عائشہ صدیقہ نے ذکر فرمایا تویہ بھی فرمایا کہ لوگ اپنے گھروں اور مدینہ کے آس پاس کی آبادیوں سے نماز جمعہ کو آیا کرتے تھے، وہ گردوغبار سے اٹے ہوئے اور پسینے سے تر ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک صاحب آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم آج کے دن غسل کرلیتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ حضرت عائشہ کے تفقہ فی الدین دقت نظر قوت حافظہ اور شوق حدیث کے موضوع پر بہت سے حضرات نے قلم اٹھایا ہے، ان میں حضرت علامہ سیوطی بھی ہیں۔ آپ نے ایک رسالہ ”عین الاصابہ“ میں اس قسم کی ۴۰ روایات کا تذکرہ کیا ہے، جس سے آپ کی دقیق نظر، تفقہ فی الدین، دور اندیشی اور دوربینی کا اندازہ ہوتا ہے۔


    حضرت عائشہ کے شاگرد: آپ سے تقریباً ۱۰۰ صحابہ اور صحابیات نے روایت کی ہے، مثلاً عروہ بن زبیر، سعید بن المسیب، عبداللہ بن عامر، مسروق بن اجدع، عکرمہ جیسے جلیل القدر حضرات آپ کے تلامذہ میں شامل ہیں۔


    مرویات کی تعداد: محدثینِ عظام کے مطابق حضرت عائشہ کا شمار ان حضرات میں ، جن سے کثیر تعداد میں حدیث شریف کی روایات ذکر کی گئی ہیں، چھٹے نمبر پر آتا ہے؛ بلکہ بعض حضرات کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرنے والوں میں آپ کا نمبر چوتھا ہے۔ صحابہ کرام کی مرویات کی فہرست دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ صرف حضرت ابوہریرہ، عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر کی مرویات آپ سے زیادہ ہیں۔ محدثین عظام نے آپ کی مرویات کی تعداد ۲۲۱۰ (دوہزار دو سو دس) بتلائی ہیں، ان میں تقریباً ۲۷۳ صحیحین یعنی بخاری شریف اور مسلم شریف میں موجود ہیں۔


    حضرت ام سلمہ کی علمی خدمات

    حضرت ام سلمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان ازواج مطہرات میں شامل ہیں، جن کو علم حدیث سے بہت ہی شغف تھا، آپ ہی کے حجرہ شریف میں اہل بیت سے متعلق آیات نازل ہوئیں، یعنی ”انَّما یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أھْلَ البَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا“ (سورہٴ احزاب: آیت،۳۳) آپ کی علمی اور دینی خدمات اتنی زیادہ ہیں کہ آپ کا شمار محدثین کے تیسرے طبقے میں ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کو سننے کے لیے اپنی ذاتی ضروریات کو بھی موٴخر کردیتی تھیں، مثلاً ایک مرتبہ آپ بال بندھوارہی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ کی آواز سنائی دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے ”أیھا الناس“ (اے لوگو!) یہ سنتے ہی آپ نے مشاطہ سے فرمایا کہ بس بال باندھ دو۔ مشاطہ نے کہا ایسی بھی کیاجلدی ہے، ابھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ”أیھا الناس“ فرمایا ہے، تو آپ نے یہ جواب دیا کہ کیاہم انسانوں میں شمار نہیں ہیں؟ یہ کہہ کر خود ہی بال باندھ کر کھڑی ہوگئیں اور خطبہ سننے میں مشغول ہوگئیں۔


    آپ کے شاگرد: حضرت ام سلمہ کے شاگردوں میں اسامہ بن زید، سلیمان بن یسار، عبداللہ بن رافع، سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر، زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہما شامل ہیں۔


    مرویات کی تعداد اور افتاء: آپ کی مرویات کی تعداد محدثین عظام کے مطابق ۳۷۸ ہے، جن میں سے بہت سی احادیث بخاری اور مسلم وغیرہ کتب میں شامل ہیں۔ آپ مفتیہ بھی تھیں، آپ کے متعدد فتاویٰ موجود ہیں۔ حضرت ابن قیم کے مطابق اگر آپ کے فتاویٰ جمع کیے جائیں تو ایک رسالہ تیار ہوجائے۔


    حضرت حفصہ کی علمی خدمات

                    آپ کوازواج مطہرات میں شامل ہونے کی وجہ سے آپ کو بلا واسطہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث مبارکہ سننے کا موقع ملا تھا۔ آپ کی مرویات کی تعداد ۶۰ ہے۔ آپ سے بڑے بڑے صحابہ نے حدیث شریف کی روایت کی ہیں۔


    حضرت میمونہ کی علمی خدمات

                    آپ کو بھی ازواج مطہرات میں شامل ہونے کی وجہ سے بلاواسطہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث سننے کا موقع وقتاً فوقتاً فراہم ہوتا رہتا تھا۔

    مرویات کی تعداد: آپ کی مرویات کی تعداد ۴۶ ہے۔


    شاگرد: آپ کے شاگردوں میں یعنی آپ سے روایت کرنے والوں میں مشاہیر صحابہ اور علمائے حدیث شامل ہیں: مثلاً حضرت عبداللہ بن عباس، زید بن حاصم، عطا بن یسار۔


    حضرت جویریہ کی علمی خدمات

                    آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں شامل ہیں۔ آپ سے حدیث شریف کی ۷ روایات مذکور ہیں۔


    حضرت سودہ کی علمی خدمات

                    آپ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں شامل ہیں۔ آپ سے حدیث شریف کی ۸ روایات مذکور ہیں۔


    اہل بیت طبقہ ثانیہ کی علمی خدمات

                    اس طبقہ میں حدیث شریف کے مطابق حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حضرات حسنین شمار ہوتے ہیں۔ شیعہ حضرات اس طبقہ کے صحابہ کو اہل الکساء یا اہل القباء بھی کہتے ہیں۔ اس طبقہ کی علمی خدمات احاطے سے باہر ہیں، لیکن پر بھی ثواب دارین کی تحصیل کے لیے اور تبلیغ دین کے واسطے سے اس طبقہ کی خدمات حدیث اجاگر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

    حضرت علی کی علمی خدمات

                    آپ کا مبارک نام علی بن ابی طالب ہے۔ لقب اسداللہ اور اسد الرسول ہے۔ آپ جس طرح میدان جنگ میں بہادری کے جوہر دکھاتے تھے، اسی طرح تصنیف وتالیف میں بھی اعلیٰ درجہ کے صحابہ میں شمار ہوتے ہیں۔ خلافت فاروقی میں ایسے بہت سے مواقع آئے ہیں کہ جب خود حضرت عمر فاروق نے حضرت علی کی تعلمی تفہیم کو سراہا تھا، آپ کی علمی خدمات کا آغاز اس طرح سے ہوتا ہے کہ آپ لڑکوں میں سب سے پہلے اسلام میں داخل ہوئے اور بچپن سے ہی دامن نبوت میں تعلیم وتربیت پائی، آپ کا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گوناگوں تعلق تھا، جس کی وجہ سے آپ کو تحصیل علم کے بہت سے مواقع حاصل ہوئے؛ کیوں کہ اگر بچپن میں حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلیم وتربیت کی سمت میں آگے بڑھے تو آغاز نبوت میں ہی آپ اسلام میں داخل ہوگئے، جس طرح مردوں میں حضرت ابوبکر صدیق کو اسلام میں داخلے میں اولیت حاصل ہے، اسی طرح لڑکوں میں آپ کو اسلام میں داخلے میں پہلا مقام حاصل ہے اور جب آپ نے شباب کی منزل میں قدم رکھا تو آپ کو حضور  صلی اللہ علیہ وسلم سے دامادی (مصاہرت) کا شرف حاصل ہوا اور جب غزوات کا دور شروع ہوا تو پوری دس سالہ مدنی دور نبوت میں آپ ہر غزوہ میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے۔

                    اس بناء پر آپ کو اقوال نبوی کے سننے، اعمال نبوی کو دیکھنے اور منشا نبوت کو سمجھنے کے نادر مواقع نصیب ہوئے، جس کی وجہ سے آپ کا علمی درجہ نہایت بلند ہوگیا اور آپ مختلف علوم میں امامت کے درجہ پر فائز ہوگئے۔ بعض علماء کے مطابق (صاحب تہذیب الاسماء) ”کان من العلوم بالمحلل العالی“ اور عبداللہ بن عباس کے مطابق علوم کے دس درجوں میں سے ۹درجہ حضرت علی کے پاس تھے اور دسویں درجہ میں بھی ان کا کچھ حصہ تھا۔ حتی کہ ایک روایت کے مطابق حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انا مدینة العلم وعلی بابھا“ آپ کی علمی صفات میں سب سے پہلی صفت آپ کا قرآن کریم کا حافظ ہونا ہے؛ حتی کہ آپ یہاں تک فرمایا کرتے تھے کہ قرآن کریم کی کوئی بھی آیت ایسی نہیں ہے، جس کے متعلق مجھے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ اس بارے میں کہاں اور کب نازل ہوئی۔ آپ کو قرآن کریم اور اس کے احکام ومسائل کے استنباط میں مہارت حاصل تھی، تفسیر کے مضمون میں بحرالعلوم یعنی عبداللہ بن عباس کے علاوہ آپ کا کوئی ہمسر نہ تھا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ نے قرآن کریم کی آیات اور سورتوں کے نزوال کے اعتبار سے ایک نسخہ تیار کیا جس کا تذکرہ ابن ندیم کی فہرست میں کیاگیا ہے۔

                    علم حدیث سے آپ کو اتنا شغف تھا کہ آج بھی تقریباً ۶۸۵ روایات حدیث آپ کی جانب منسوب ہیں، جو مختلف کتب حدیث میں موجود ہیں۔ آپ نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے سماعت کے بعد ایک صحیفہ تیار کیا تھا، جس میں مختلف احکام ومسائل کے ساتھ ساتھ خطبہ حجة الوداع، حرمت حرمین شریفین وغیرہ کے احکام مندرج تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے ان دو چیزوں یعنی قرآن کریم اور صحیفہ علی کے علاوہ کچھ نہیں لکھا۔ آپ کو علم فقہ اور افتاء میں اس درجہ مہارت حاصل تھی کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی آپ ان چند لوگوں کی مبارک جماعت میں شامل تھے، جن کو دور نبوت میں ہی فتویٰ دینے کی اجازت حاصل تھی، جب اہل یمن نے اسلام قبول کیا تو آپ ہی کو سب سے پہلے یمن کا قاضی مقرر کیاگیا تھا۔ آپ کو علم قضا میں اتنی مہارت حاصل تھی کہ حضرات صحابہ میں اس میدان میں آپ کا کوئی ہمسر نہ تھا، جس کے نتیجہ میں زمان نبوت میں ہی آپ کو ”اقضٰھم علی“ کا خطاب ملا تھا۔ آپ کو علوم شریعت میں صرف وسعت ہی حاصل نہیں تھی؛ بلکہ اعلیٰ درجہ کی ذہانت ودقیقہ سنجی حاصل تھی۔ اصول وکلیات سے فروعی اور جزوی احکام بڑی آسانی سے اخذ کرلیتے تھے۔ اکثر وبیشتر مشکل مسائل میں صحابہ کرام آپ ہی کی طرف رجوع فرمایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ حضرت عمر بذات خود امام ومجتہد ہونے کے باوجود آپ سے اکثر وبیشتر مسائل میں مشورہ کیاکرتے تھے، ایک بار حضرت عمر نے ایک پاگل زانیہ کو حد کی سزا دینی چاہی، تو حضرت علی نے سزا دینے سے روک دیا اور وجہ بتلائی کہ پاگلوں اور مجنونوں پر شریعت کے احکام لاگو نہیں ہوتے۔ موافقین تو آپ کی فقہ وافتاء کے مداح تھے ہی آپ کے مخالفین بھی شریعت کے معاملے میں آپ سے رجوع کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتے تھے، مثلاً امیر معاویہ جو چار پانچ سال تک آپ سے میدان جنگ میں اور میدان سیاست میں مدمقابل رہے وہ بھی آپ سے شرعی مسائل میں فتویٰ لیا کرتے تھے۔ فقیہ الامت حضرت عبداللہ بن مسعود جن کے تفقہ فی الدین کی بنیاد پر فقہ حنفی کا قصرعالیشان پچھلے سیکڑوں سالوں سے مسلمانوں کی شرعی حاجات کی تکمیل کررہا ہے، وہ بھی شرعی مسائل میں آپ سے رجوع فرمایا کرتے تھے۔ علم فرائض میںآ پ مدینہ کے ممتاز علماء میں شمار ہوتے تھے۔

                    علم الفقہ ہی میں نہیں؛ بلکہ تزکیہ نفس کے سلسلے میں یعنی تصوف کے میدان میں بھی تمام سلاسل تصوف حضرت حسن بصری کے واسطے سے آپ (حضرت علی) پر ہی منتہی ہوتے ہیں، اس سلسلے میں حضرت شاہ ولی اللہ اور حضرت احمد قشاشی بھی اس دعوے کے اسباب میں شامل ہوتے نظر آتے ہیں۔

                    علم ادب کے میدان میں بھی آپ کا کوئی ہمسر نہیں تھا۔ آپ فصحاء عرب میں شمار ہوتے تھے۔ خطابت (کلام وبلاغت) میں آپ حضرات صحابہ کرام میں صفِ اوّل کے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ جیساکہ بہت سے خطبات سے ظاہر ہے․․․․․․․․․․

                    آپ کو اشعار سے بھی کافی شغف تھا؛ لیکن گوناگوں مشغولیات کی وجہ سے خاص طور سے دور نبوی میں غزوات کی مشغولی اور دور خلافت میں خلافت کی مشغولی اور مخالفین کی مخالفت کی وجہ سے اس میدان میں نمایاں طور سے ظاہر نہ ہوسکے؛ البتہ آپ سے منسوب ایک دیوان ملتا ہے؛ لیکن اشعار اس کے اتنے غیر معیاری ہیں کہ آپ جیسے فصیح اللسان عالی مرتبت لوگوں کی طرف ان کو منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ آپ کے اشعار کا ایک نمونہ غزوہٴ خیبر کے رجز کی شکل میں بخاری شریف میں موجود ہے۔

                    فن لسان اللغات میں آپ صرف ونحو کے امام سمجھے جاتے ہیں۔ آپ نے مدینہ کے ایک بزرگ حضرت ابوالاسود دولی کو چند اصول بتلائے تھے، جن کو اس نے ترقی دے کر علم نحو کو مکمل فن کی حیثیت سے متعارف کروایا۔ شیعہ حضرات کے مطابق نہج البلاغة آپ کی علمی خدمات، مواعظ حسنہ پر مبنی مشہور ومعروف کتاب ہے جس کے مرتب علامہ شریف رضی ہیں۔

    حضرت فاطمہ کی علمی خدمات

                    رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں میں سب سے چھوٹی بیٹی حضرت فاطمہ تھیں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری اولاد آپ کی زندگی میں ہی وفات پاچکی تھیں، صرف حضرت فاطمہ ہی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ۶ مہینے بعد تک زندہ رہیں۔ حضرت فاطمہ نکاح سے پہلے بھی اور نکاح کے بعد بھی آپ ہی کے قرب وجوار میں رہیں۔ علم فقہ کے میدان میں بھی آپ کی خدمات مسلم ہیں؛ لیکن حدیث شریف میں آپ کی زیادہ روایات موجود نہیں ہیں۔ قاضی عبدالصمد صارم کے مطابق حضرت فاطمہ الزہراء کی ۱۸ روایات مختلف کتب حدیث میں مذکور ہیں۔

    حضرت حسن کی علمی خدمات

                    حضرت حسن بن علی، حضرت فاطمہ کے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو اس وقت حضرت حسن بن علی کی عمر تقریباً ۸ سال تھی۔ اس قلیل مدت میں بھی آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریباً ۱۳ روایات حدیث یاد کرلی تھی، جو آج تک کتب حدیث میں موجود ہیں۔ مثلاً فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے صدقہ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور اپنے منہ میں رکھ لی، جیسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کھجور کھاتے دیکھا تو فوراً کخ کخ کرکے میرے منہ سے نکال لی اور یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یعنی آل رسول کو صدقہ کا مال کھانے سے منع کردیا ہے۔

    حضرت حسین کی علمی خدمات

                    حضرت حسین بن علی حضرت فاطمہ کے دوسرے بیٹے ہیں جن کی عمر شریف رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت تقریباً ۷ سال تھی۔ آپ سے اتنی کم عمری میں تقریباً ۸ روایات مختلف کتب حدیث میں مذکور ہیں۔

    طبقہ ثالثہ

    حضرت عباس بن عبدالمطلب کی علمی خدمات

                    آپ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں۔ آپ غزوہ بدر کے بعداسلام میں داخل ہوئے، باطنا آپ مکی دور میں ہی مسلمان ہوگئے تھے، آپ سے حدیث شریف کی ۳۵ روایات مذکور ہیں۔

    عبداللہ بن عباس کی خدمات

                    آپ حبرالامت کہلاتے ہیں۔ آپ علم تفسیر میں کمال رکھتے تھے۔ حضرت علی کے علاوہ کوئی آپ کا اس میدان میں ہمسر نہیں تھا۔ آپ تفقہ فی الدین کی وجہ سے حضرت عمر کے یہاں آپ کا خاص مقام تھا۔ حالانکہ آپ عمر میں چھوٹے تھے؛ لیکن پھر بھی آپ کی فہم وفراست کی وجہ سے آپ کو حضرت عمر اجلہٴ صحابہ میں جگہ دیتے تھے۔ آپ سے حدیث کے سلسلے میں ۱۶۶۰ احادیث کی روایات کی گئی ہیں۔ آپ کی تفسیر، تفسیر ابن عباس کے نام سے مشہور ہے، جس کے الفاظ تفسیر کی مختلف کتب میں پائے جاتے ہیں۔

    حضرت ام ہانی

                    آپ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپی تھیں۔ رشتہ دار ہونے کی وجہ سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے سماعت کے بہت سے مواقع نصیب ہوئے، آپ سے حدیث شریف میں تقریباً ۴۶ روایات منقول ہیں۔ ایک روایت اس طرح سے ہے کہ آپ نے ایک بار رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاکہ یا رسول اللہ! میں بہت بوڑھی ہوگئی ہوں زیادہ عبادت وغیرہ نہیں کرسکتی، آپ مجھے کوئی ایسی چیز بتادیجیے جس کو آسانی سے انجام دے سکوں۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ روزانہ (۱۰۰) سوبار سبحان اللہ کہہ لیاکرو، اس کا ثواب اتنا ہے کہ جیسے کسی نے اللہ کے راستے میں ۱۰۰ اونٹ قربان کیے ہوں اور وہ سب قبول ہوگئے ہوں۔ ۱۰۰ بار الحمدللہ کہہ لیا کرو اس کا ثواب اتنا ہے کہ جیسے کسی نے ۱۰۰ گھوڑے جہاد فی سبیل اللہ کے لیے دیے ہوں اور وہ قبول ہوگئے ہوں اور ۱۰۰ بار اللہ اکبر کہہ لیا کرو اس کا ثواب اتنا زیادہ ہے جیساکہ کسی نے ۱۰۰ غلام اللہ کے لیے آزاد کیے ہوں اور ۱۰۰ بار لا الہ الا اللہ کہہ لیا کرو اس کا ثواب تو زمین وآسمان کے درمیان کے خلاء کو پر کردیتا ہے۔

    عبداللہ بن جعفر

                     آپ حضرت جعفر بن ابی طالب کے بیٹے ہیں۔ آپ کے والد محترم غزوہٴ موتہ میں شہید ہوگئے تھے، اس وقت حضرت جعفر کی عمر ۳۳ سال تھی۔ حضرت عبداللہ بن جعفر اس وقت بچے ہی تھے۔ اس لیے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم سے سماعت کا زیادہ موقع نہیں ملا؛ لکن پھر بھی آپ سے ۲۵ روایات حدیث منقول ہیں۔

    ***

    حوالہ وحواشی

    (۱)                   قرآن کریم۔

    (۲)                  مشکوٰة شریف۔

    (۳)                 حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا: فضائل اعمال (حکایت صحابہ) باب: ۱۱۔

    (۴)                 حافظ فروغ حسن: ازواج مطہرات، اسلامک بک فاؤنڈیشن نئی دہلی۔

    (۵)                 مفتی محمد شفیع: معارف القرآن۔

    (۶)                  فاروق خاں: حدیث کا تعارف۔

    (۷)                 مولاناابوالاعلیٰ مودودی: تفہیم القرآن۔

    (۸)                 دائرة المعارف الاسلامیہ (اردو)

    رسائل

    (۱)                   تہذیب الاخلاق                        مدیر                 پروفیسر ابوالکلام قاسمی

    (۲)                  فکر ونظر                                   مدیر                 مولانا احمد حبیب

    (۳)                 تحقیقات اسلامی، علی گڑھ          مدیر                 سید جلال الدین عمری

    ******
    حضرت زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہما اہل سنت والجماعت کی نظر میں
    اہل سنت والجماعت کا اعتدال:

                    الحمدلله اہل سنت والجماعت ہی فرقہٴ ناجیہ اور طائفہٴ منصورہ ہے ، جس طرح الله تبارک وتعالیٰ نے اسلام کو اعتدال والا دین قرار دیا ہے ، ایسے ہی امت محمدیہ ،صلوات الله وسلامہ علی صاحبہا، کو امتِ وسط بنایا ہے او راس کا صحیح اور حقیقی مصداق ہر زمانہ میں اہل سنت ہی رہے ہیں اور تاقیامت رہیں گے۔

                    عقائد، عبادات، معاملات، افکار ونظریات، عصمتِ انبیاء علیہم الصلاة والسلام، مقام صحابہٴ کرام رضی الله عنہم اجمعین، احترامِ سلف صالحین، مجتہدین، محدثین او رعلمائے امت پراعتماد، غرض دین ودنیا کے ہر معاملے میں الله تعالیٰ نے اہل سنت کو اعتدال کے اعلیٰ مرتبے سے نوازا ہے ، دوسرا کوئی گروہ اور فرقہ اس صفت میں ان کا شریک نہیں، اگرچہ اہل بدعت، زیغ وضلال کے داعی، اسلام کے نام پر اسلام کی بنیادوں پر تیشہ چلانے والے کتنے ہی بناوٹی دعوے اور پروپیگنڈے کرتے رہیں، لیکن یہ بات روزِروشن کی طرح واضح ہے او رخود اہل باطل بھی اس کے معترف ہیں کہ اسلام کے حقیقی پیروکار اور ”ما أنا علیہ وأصحابی“ کا یقینی مصداق ہمیشہ اہل سنت ہی رہے ہیں۔

                    اسی وسطیت او راعتدال کا نتیجہ ہے کہ اہل سنت فرق مراتب کے نہ صرف قائل ہیں؛ بلکہ عملی طور سے اس کا اظہار بھی ہوتا ہے ، مزید برآں فرق مراتب کا لحاظ نہ رکھنے اور کسی بھی شخصیت کو اس کے مقام سے بڑھا کر پیش کرنے، یا اس کی شان میں ادنی درجے کی گستاخی کو علمائے اہل سنت نے زندیقیت سے تعبیر کیا ہے۔

                    اہل سنت حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کو الله تعالیٰ کا آخری نبی اوررسول سمجھتے ہیں، ان کے بعد کسی طرح کے دعوائے نبوت، چاہے ظلی ہو یا بروزی ، یا امامت اہل بیت کے نام سے نبوی صفات سے متصف ائمہ کاا عتقاد رکھنے کو علی الاعلان کفر وزندقہ گردانتے ہیں ، اسی طرح حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق اور نسبت رکھنے والی ہر شخصیت، چاہے وہ حضرات اہل بیت ہوں ، یا صحابہ کی مقدس جماعت، سب کی عزت وعظمت، ان کی محبت واتباع او ران سے تعلق کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔

    اہل بیت کے نام پر گم راہی وزندقہ:

                    حضرت عثمان رضی الله عنہ کے آخری زمانے میں دشمنان اسلام کا ایک ایسا گروہ وجود میں آیا جس نے اسلام کی بنیادوں کو کمزور کرنے اوراسلامی تعلیمات او رحاملینِ دعوت اسلام او ران کی دعوت کو مشکوک بنانے کے لیے ” اہل بیت“ کی محبت او ران سے موالات کے خوش نما نعرے کا سہارا لے کر اسلام اور ملت اسلامیہ کے خلاف اپنے گھناؤنے منصوبوں کا آغاز کر دیا تھا، جس کی پھیلائی ہوئی فتنہ انگیزی کی لپیٹ میں آج بھی سارا عالمِ اسلام گھر ہوا نظر آتا ہے ۔

                    اسلام کے مقابلے میں اہل بیت کے ان مقدس نفوس کی طرف منسوب کرکے ایک نیا دین گھڑا گیا ، سیکڑوں اور ہزاروں نہیں؛ بلکہ لاکھوں جعلی روایات واحادیث وضع کرکے ان لوگوں نے ان ائمہٴ ہدی کی طرف منسوب کیں؛ حالاں کہ اہلِ بیت کے یہ پاک طینت لوگ عقائد وعبادات او رتمام تر دینی ودنیوی معاملات میں ظاہری وباطنی طور سے اہل سنت کی تعلیمات پر عمل پیرا تھے ؛ بلکہ ان جھوٹے او ردجال لوگوں پر واضح نکیر بھی فرمایا کرتے تھے۔

    حضرت زین العابدین علی بن حسین رضی الله عنہما:

                    اہل بیت کے ان باصفا ائمہ میں سے ایک شخصیت حضرت زین العابدین رحمة الله علیہ کی بھی ہے، جن کی طرف روافض نے بے انتہا جھوٹی باتیں منسوب کی ہیں اور ان کو اپنے من گھڑت او رمزعومہ نظریے کے مطابق معصوم، مفترض الطاعہ، امام منصوص، محلل ومحرم ، نہ جانے کن کن خدائی، نبوی صفات کے ساتھ متصف کیا ہے ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ان سب باتوں سے بری اور اہل سنت کے دیگر ائمہٴ ہدی کی طرح ایک جلیل القدر او رعالی مرتبت بزرگ ہیں۔

                    آج کی اس تحریر کا مقصد حضرت حسین رضی الله عنہ کے اس جلیل القدر صاحب زادے کا صحیح تعارف او ران کی زندگی کا حقیقی روپ پیش کرنا ہے، جو اہل باطل کے بے بنیاد پروپیگنڈے کی وجہ سے لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہے ، اس مختصر سی یادداشت میں ان شاء الله اس کی کوشش ہو گی کہ ان کا تعارف ، مقام مرتبہ ، طرززندگی ، علمی انتساب ، ان کی نصیحتیں او رخاص کروہ اقوال ذکر کیے جائیں گے جن سے نہ صرف روافض کی تردید ہوتی ہے؛ بلکہ اہل سنت کے معتدل مسلک کی واضح تائید بھی ہوتی ہے۔

    نام ونسب اور تعلیم وتربیت:

                     زین العابدین کے لقب سے معروف اس بزرگ کی نسبت خاندان نبوت کی طرف ہے، یہ حضرت علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کے صاحب زادے سیدنا حسین رضی الله عنہ کے بیٹے ہیں ، علی بن حسین ان کا نام ہے ، قرشی اور ہاشمی ہیں ، ابوالحسن ان کی کنیت ہے، ابو الحسن ، ابو محمد اور ابو عبدالله بھی کہا جاتا ہے۔(تہذیب الکمال:382/20،سیر اعلام النبلاء :386/4،حلیة الاولیا:133/3،تذکرة الحفاظ:74/1،تہذیب التہذیب:304/7،الثقات:159/5،الجرح والتعدیل:229/6،التاریخ الکبیر:266/6،تاریخ الاسلام:180/3،الکاشف:37/2)

                    علامہ ذہبی رحمة الله علیہ نے ” تاریخ اسلام“ (181/3)میں یعقوب بن سفیان فسوی سے نقل کیا ہے کہ علی بن حسین رحمة الله علیہ 33 ہجری میں پیدا ہوئے، لیکن ” سیر اَعلام النبلاء“ (386/4) میں علامہ موصوف نے یہ لکھا ہے کہ (شاید) ان کی پیدائش38 ہجری میں ہوئی ہے، علامہ ابوالحجاج جمال الدین یوسف مزّی رحمة الله علیہ نے بھی تھذیب الکمال میں(402/20) یعقوب بن سفیان سے سن وفات33 ہجری نقل کیا ہے اور یہی راجح ہے۔

                    علی بن حسین رحمة الله علیہ کی والدہ کا نام سلامہ یا سلافہ ہے، جو اس وقت کے شاہ فارس یزدجرد کی بیٹی تھیں، سیدنا عمر فاروق رضی الله عنہ کے زمانہٴ خلافت میں ایران فتح ہوا تو یہ لونڈی بنالی گئی تھی(سیر اَعلام النبلاء:386/4،تہذیب الکمال:383/20)۔ ابن سعد نے”طبقات“ (211/5)میں اس کا نام ” غزالہ“ نقل کیا ہے ، بعض حضرات کہتے ہیں کہ ان کی والدہ خلیفہ یزید بن ولید بن عبدالملک کی پھوپی تھی۔(سیراعلام النبلاء:399/4)لیکن یہ ضعیف قول ہے۔

                    ان کو علی اصغر کہا جاتا ہے، ان کے دوسرے بھائی جوان سے عمر میں بڑے تھے، ان کو علی اکبر کہا جاتا تھا ، جو معرکہٴ کربلا میں اپنے والد حضرت حسین رضی الله عنہ کے ساتھ اہل کوفہ کے ہاتھوں شہید ہو گئے تھے، (تاریخ الاسلام:181/3،الطبقات الکبری: 211/5)علی اصغر یعنی علی بن حسین المعروف زین العابدین رحمة الله علیہ بھی اپنے والد گرامی حضرت حسین رضی الله عنہ کے ساتھ معرکہٴ کربلا میں شریک تھے ، اس وقت ان کی عمر 23 یا 25 برس تھی، اس موقعہ پر یہ بیمار اور صاحب فراش تھے، جب حضرت حسین رضی الله عنہ شہید کر دیے گئے تو شمر نے کہا کہ اسے بھی قتل کر دو ، شمر کے ساتھیوں میں سے کسی نے کہا : سبحان الله! کیا تم ایسے جوان کو قتل کرنا چاہتے ہو جو مریض ہے اور اس نے ہمارے خلاف قتال میں شرکت بھی نہیں کی؟ اتنے میں عمر بن سعد بن ابی وقاص آئے او رانھوں نے کہا کہ ان عورتوں اور اس مریض یعنی علی اصغر سے کوئی تعرض نہ کرے ، اس کے بعد ان کووہاں سے دمشق لایا گیا اورعزت کے ساتھ ان کو مع اہل مدینہ منورہ واپس روانہ کر دیا گیا۔ (الطبقات:212,211/5،تاریخ الاسلام:181/3،سیر اعلام النبلاء: 387,386/4)

    تحصیل علم اور علمی مقام:

                    حضرت زین العابدین رحمة الله علیہ نے کبار صحابہٴ کرام وتابعین عظام سے کسب فیض کیا، آپ نے امہات المومنین میں سے حضرت عائشہ ، حضرت ام سلمہ، حضرت صفیہ رضی الله عنہن ، اپنے والد حضرت حسین ، اپنے چچا حضرت حسن، حضرت ابوہریرہ، حضرت ابن عباس رضی الله عنہم اور ابو رافع ، مسور بن مخرمہ، زینب بنت ابی سلمہ، سعید بن مسیب، سعید بن مرجانہ ، مروان بن حکم، ذکوان، عمروبن عثمان بن عفان اور عبیدالله بن ابی رافع رحمہم الله وغیرہ سے حدیث شریف کا علم حاصل کیا او راپنے جدا مجد حضرت علی رضی الله عنہ سے بھی مرسل روایت کرتے ہیں۔(تہذیب الکمال:383/20،سیر اعلام النبلاء:387/4ِِِِِِِِِِِ،تہذیب التہذیب:304/7،المراسیل:139)

                    تاریخ ابن عساکر (17/12ب)میں ہے کہ نافع بن جبیر نے علی بن حسین سے کہا: آپ ہمارے علاوہ دوسرے لوگوں کے پاس ( تحصیل علم کی خاطر ) بیٹھتے ہیں؟ علی بن حسین نے جواباً فرمایا: میں ان لوگوں کی مجلس میں بیٹھتا ہوں جن سے مجھے دینی فائدہ پہنچے ۔

                    ابن سعد نے ”طبقات“(216/5) اپنی سند کے ساتھ ہشام بن عروہ سے نقل کیا ہے کہ علی بن حسین حضرت عمر رضی الله عنہ کے غلام اسلم کی مجلس میں ( تحصیل علم کے لیے ) بیٹھا کرتے تھے، ان سے کہاگیا کہ آپ قریش کو چھوڑ بنی عدی کے ایک غلام کے پاس بیٹھتے ہیں ؟ تو انھوں نے فرمایا: آدمی کوجہاں فائدہ پہنچے وہاں بیٹھتا ہے۔

                    ابو نعیم نے ” حلیة“ (138,137/3)میں عبدالرحمن بن ازدک سے نقل کیا ہے کہ علی بن حسین مسجد میں آتے، لوگوں کے درمیان سے ہوتے ہوئے زید بن اسلم کے حلقے میں تشریف لے جاتے، نافع بن جبیر نے ان سے کہا: الله آپ کی مغفرت کرے! آپ لوگوں کے سردار ہیں، لوگوں کی گردنوں کو پھلانگ کر اس غلام کے حلقے میں بیٹھتے ہیں؟ علی بن حسین نے فرمایا: علم کو طلب کیا جاتا ہے او راس کے لیے آیا جاتا ہے او راسے حاصل کیا جاتا ہے جہاں وہ ہو۔

                    ابن سعد نے ” طبقات“ (217,216/5)میں اپنی سند کے ساتھ یزید بن حازم سے نقل کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے علی بن حسین او رسلیمان بن یاسر کو منبر اور روضہ شریف کے درمیان چاشت کے وقت تک علمی مذاکرہ کرتے ہوئے دیکھا، جب اٹھنے کا ارادہ ہوتا تو عبدالله بن ابی سلمہ قرآن پاک کی کوئی سورت تلاوت کرتے ، اس کے بعد یہ حضرات دعا مانگتے تھے۔

                    علی بن حسین رحمة الله علیہ سے بہت سارے تابعین عظام نے فیض حاصل کیا ہے ، آپ سے حدیث شریف کی روایت کرنے والوں میں ان کے چار بیٹے ابو جعفر محمد، عمر بن علی بن حسین ، زید بن علی بن حسین ، عبدالله بن علی بن حسین ، ان کے علاوہ ابن شہاب زہری ، عمر وبن دینار، حکم بن عیینہ، زید بن اسلم ، یحییٰ بن سعید، ہشام بن عروہ، ابوحازم، محمدبن فرات تمیمی، عاصم بن عبیدالله بن عامر بن عمر بن خطاب اور یحییٰ بن سعید انصاری رحمہم الله وغیرہ شامل ہیں۔(تہذیب الکمال: 384,383/20، سیر اَعلام النبلاء: 387/4،تہذیب التہذیب:304/7)

                    آپ رحمة الله علیہ سفید رنگ کا عمامہ پہنا کرتے تھے او راس کا شملہ پشت یعنی کمر کی جانب لٹکا دیتے تھے۔(الطبقات:218/5)

                    ان سب تصریحات سے واضح ہو جاتا ہے کہ اہل بیت کے بڑے اور سادات حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم خاص کر ازواج مطہرات رضی الله عنہن سے علم دین حاصل کرتے تھے، جیسا کہ عام مسلمانوں کا معمول تھا، اس سے روافض کے اس زعمِ باطل کی بھی تردید ہوتی ہے کہ اہل بیت کے یہ پاک باز نفوس تحصیل علم میں دوسروں کے محتاج نہیں او ران کے پاس مخصوص علم ہے ، ان کے سوا تمام لوگ انکے محتاج ہیں اور وہ کسی کے محتاج نہیں، اس عالمی جھوٹ کی حضرت باقر اور حضرت زین العابدین رحمہما الله وغیرہ، علماء اہل بیت نے نہ صرف زبانی تردید کی ہے، بلکہ ان کا عمل بھی ان کی تردید کی واضح دلیل ہے، جیسا کہ ابن رجب حنبلی رحمة الله علیہ نے فتح الباری میں لکھا ہے ۔(145/1)

    عبادت گزاروں کی زینت:

                    حضرت علی بن حسین رحمة الله علیہ بڑے عابد وزاہد اور شب بیدار تھے، وہ بنی ہاشم کے فقہاء وعابدین میں سے تھے اس زمانے میں ان کو مدینہ منورہ میں ” سید العابدین“ یعنی عابدوں کا سردار کہا جاتا تھا، ان کی اسی عبادت گزاری کی کثرت کی وجہ سے ان کو ” زین العابدین“ عبادت گزاروں کی زینت بھی کہا جاتا تھا۔(الثقات:160,159/5)

                    امام مالک رحمة الله علیہ نے فرمایا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ علی بن حسین رحمة الله علیہ کا موت تک روزانہ ایک ہزار رکعت نفل پڑھنے کا معمول تھا اوران کو کثرت عبادت کی وجہ سے ”زین العابدین“ کہا جاتا تھا۔(تہذیب الکمال:390/20،سیر اعلام النبلاء: 392/4،تہذیب التہذیب:306/7) امام زہری رحمة الله علیہ علی بن حسین کا تذکرہ کرتے ہوئے روتے تھے اور انھیں زین العابدین کے نام سے یاد کرتے تھے۔ (حلیة الاولیاء:135/3)ابو نعیم نے ” حلیة “ (133/3)میں ان کے بارے میں فرمایا کہ وہ عبادت گزاروں کی زینت، قانتین کی علامت، عبادت کا حق ادا کرنے والے او رانتہائی سخی ومشفق تھے۔

                    ابن عیینہ نے زہری سے نقل کیا ہے کہ میں اکثرعلی بن حسین کی صحبت میں بیٹھا کرتا تھا، میں نے ان سے بڑھ کر کسی کو فقیہ نہیں پایا؛ لیکن وہ بہت کم گو تھے ۔ امام مالک رحمة الله علیہ نے فرمایا کہ اہل بیت میں ان جیسا کوئی نہیں؛ حالاں کہ وہ ایک باندی کے بیٹے تھے۔ (تہذیب الکمال: 386/20، سیر اَعلام النبلاء:389/4)

                    حضرت زین العابدین رحمة الله علیہ جب نماز کے لیے وضو کرتے تھے توان کا رنگ پیلا پڑ جاتا اور وضو واقامت کے درمیان ان کے بدن پر ایک کپکپی کی کیفیت طاری ہوتی تھی ، کسی نے اس کے بارے میں پوچھا تو فرمایا: تمہیں معلوم ہے کہ میں کس کے سامنے کھڑا ہونے جارہاہوں اور کس سے مناجات کرنے لگا ہوں( یعنی الله تعالیٰ سے)۔(الطبقات:216/5،تھذیب الکمال:390/20،سیر اَعلام النبلاء:392/4)

                    کسی نے حضرت سعید بن مسیب رحمة الله علیہ سے کہا کہ آپ نے فلاں سے بڑھ کر کسی کو پرہیز گار پایا؟ انھوں نے فرمایا کیا تم نے علی بن حسین کو دیکھا ہے ؟ تو سائل کہا کہ نہیں، تو فرمایا کہ میں نے ان سے بڑھ کر کسی کو بھی پرہیز گار نہیں پایا۔ (حلییة الاولیاء: 141/3،تھذیب الکمال: 389/20)طاؤس رحمة الله علیہ کہتے ہیں میں نے علی بن حسین کو سجدے کی حالت میں یہ دعا مانگتے ہوئے سنا، وہ فرمارہے تھے :”عَبِیْدُکَ بِفِنَائِکَ، وَمِسْکِیْنُکَ بِفِنَائِکَ، سَائِلُکَ بِفِنَائِکَ، فَقِیْرُکَ بِفِنَائِکَ“․(تھذیب الکمال:391/20،سیر اَعلام النبلاء:393/4)

                    حضرت طاوس کہتے ہیں کہ میں نے جب بھی کسی مشکل میں ان الفاظ کے ساتھ دعاکی تو الله تعالیٰ نے میری مشکل کو آسان فرما دیا۔(حوالہٴ سابق)

                     ابو نوح انصاری کہتے ہیں کہ علی بن حسین کسی گھر میں نماز پڑھ رہے تھے اور وہ سجدے کی حالت میں تھے کہ وہاں آگ لگ گئی ، تو لوگوں نے کہنا شروع کیا: اے رسول الله کے فرزند، آگ آگ۔ انھوں نے اس وقت تک سجدے سے سر نہیں اٹھایا جب تک آگ بجھ نہ پائی، ان سے کسی نے کہا کہ کس چیز نے آپ کو آگ سے بے خبر رکھا تھا؟ انھوں نے فرمایا: مجھے آخرت کی فکر نے اس آگ سے بے خبر کر دیا تھا۔(تاریخ ابن عساکر:19/12 ب، تھذیب الکمال: 390,389/20، سیر اعلام النبلاء:392,391/4)

                    جعفر صادق رحمة الله علیہ کہتے ہیں کہ میرے والد ایک رات ایک دن میں ہزار رکعت نماز پڑھا کرتے تھے ، ان کی موت کا وقت قریب آیا تو رونے لگے، میں نے کہا آپ کیوں رو رہے ہیں؟ حالاں کہ میں نے آپ کی طرح کسی کو الله کا طالب نہیں دیکھا اور یہ میں اس لیے نہیں کہہ رہا ہوں کہ آپ میرے والد ہیں، انھوں نے کہا اے میرے بیٹے! میرے رونے کی وجہ یہ ہے کہ قیامت کے دن ملک مقرب ہو یا نبی مرسل، ہر ایک الله کی مشیت وارادے کے تحت ہو گا جس کو چاہیں عذاب دیں گے اور جس کوچاہیں معاف فرمادیں گے۔(تاریخ ابن عساکر: 20/12، سیراَعلام النبلاء:392/4،تہذیب الکمال:391/20)

    انفاق فی سبیل الله:

                    حضرت زین العابدین رحمة الله علیہ بدنی عبادات کے ساتھ ساتھ مالی عبادات کا بھی غیر معمولی اہتمام کیا کرتے تھے، وہ انتہائی درجے کے سخی اور خیر کے کاموں میں خرچ کرنے والے تھے ، حجاج بن ارطاة نے جعفر صادق رحمة الله علیہ سے نقل کیا ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے دو مرتبہ اپنا سارا مال الله کی راہ میں صدقہ کر دیا تھا۔(حلیة الاولیاء:140/3، الطبقات: 219/5، تہذیب التہذیب:306/7)

                    ابو حمزہ ثمالی کہتے ہیں کہ علی بن حسین رات کے اندھیرے میں پشت پر روٹی لادے مساکین کو تلاش کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ رات کے اندھیرے میں چھپاکرصدقہ کرنا الله کے غصے کو ٹھنڈا کرتا ہے، (حلیة الاولیاء:136,135/3،تہذیب الکمال: 396/20،سیر اعلام النبلاء: 393/4) شیبہ بن نعامہ کہتے ہیں کہ علی بن حسین کو لوگ ان کی زندگی میں بخیل تصور کرتے تھے، لیکن جب ان کا انتقال ہوا تو پتہ چلا کہ وہ مدینہ منورہ کے سو گھرانوں کی کفالت کرتے تھے۔ (الطبقات:222/5،حلیة الاولیاء:136/3، تہذیب الکمال:392/20)

                    محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں کچھ لوگ ایسے تھے کہ ان کو معلوم نہیں تھا کہ ان کے معاش کا انتظام کون کرتا ہے؟ لیکن جب علی بن حسین کا انتقال ہوا تو وہ اس ذریعہٴ معاش سے محروم ہو گئے، جو رات کو ان کے لیے سبب بنتا تھا، (تاریخ ابن عساکر:21/12أ،حلیة الاولیاء: 136/3، تھذیب الکمال :392/20،سیر اعلام النبلاء:393/4)جریر بن عبدالحمید نے عمروبن ثابت سے نقل کیا ہے کہ جب علی بن حسین کا انتقال ہوا تو لوگوں نے ان کی کمر پر کچھ نشان پائے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو بتایا گیا کہ یہ اس بوجھ کی وجہ سے ہے جو رات کے اندھیرے میں یتیموں کے لیے لے جایا کرتے تھے۔ ((تاریخ ابن عساکر:21/12أ،حلیة الاولیاء:136/3، سیر اعلام النبلاء:393/4،تہذیب الکمال:392/20)علی بن حسین فرمایا کرتے تھے کہ جب میں کسی مسلمان بھائی کو دیکھتا ہوں تو میں اس کے لیے الله سے جنت کا سوال کرتا ہوں تو دنیا میں اس کے ساتھ بخل کا معاملہ کیسے کروں؟!جب کل کا دن ہوگا تو مجھ سے کہا جائے گا:اگر جنت تیرے ہاتھ مین ہوتی تو تواس کے ساتھ اس سے زیادہ بخل کا معاملہ کرتا۔(تاریخ ابن عساکر: 12/21ب، تہذیب الکمال:393/20،سیر اعلام النبلاء:394/4)

    جلالت شان:

                    حضرت زین العابدین رحمة الله علیہ اپنے زمانے کے بہت ہی جلیل القدراور عالی مرتبت بزرگوں میں سے تھے ، لوگ ان کی بہت زیادہ عزت وتکریم کیا کرتے تھے، مشہور واقعہ ہے، جسے علامہ مزی نے تھذیب(400/20۔402) میں، ابو نعیم نے حلیہ (139/3) میں اور علامہ ذہبی نے تاریخ اسلام(184,183/3) اور سیر اعلام(398/4) میں نے نقل کیا ہے کہ ہشام بن عبدالملک اپنے زمانہ خلافت سے قبل ایک دفعہ حج کے لیے گئے ، بیت الله شریف کے طواف کے دوران حجر اسود کا استیلام کرنے کا ارادہ کیا، لیکن اژدھام کی وجہ سے نہیں کر پائے۔

                    اتنے میں حضرت علی بن حسین تشریف لائے، ایک چادر او رتہہ بندباندھے ہوئے، انتہائی خوب صورت چہرے والے، بہترین خوش بو والے، ان کی آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) سجدے کا نشان تھا، طواف شروع کیا او رجب حجر اسود کے قریب پہنچے تو لوگ ان کی ہیبت اور جلالت شان کی وجہ سے پیچھے ہٹے اور آپ نے اطمینان کے ساتھ استیلام کیا، ہشام کو یہ بات اچھی نہیں لگی ، اہل شام میں سے کسی نے کہا یہ کون ہے کہ جس کی ہیبت اور جلال نے لوگوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا؟ ہشام نے یہ سوچ کر کہ کہیں اہل شام ان کی طرف مائل نہ ہو جائیں ، کہا میں نہیں جانتا کہ یہ کون ہیں؟

                    مشہور شاعر فرزدق قریب ہی کھڑا تھا، اس نے کہا میں انھیں جانتا ہوں ۔ اس پر اس شامی نے کہا اے ابو فراس! یہ کون ہیں؟ اس وقت فرزدق نے حضرت زین العابدین رحمة الله علیہ کی تعریف میں بہت سارے اشعار کہے، ان میں سے چند یہ ہیں۔

    ھذا الذي تعرف البطحاء وطأتہ            والبیت یعرفہ والحل والحرم

    ھذا ابن فاطمة إن کنت جاھلہ               بجدّہ انبیاء اللہ قد ختموا

                    ترجمہ: یہ وہ شخص ہے جس کے چلنے کو بطحاء، بیت الله، حل اور حرم بھی جانتے ہیں، یہ حضرت فاطمہ کے فرزند ہیں، اگرچہ تم تجاہل سے کام لے رہے ہو، انھیں کے دادا ( محمد صلی الله علیہ وسلم) کے ذریعہ انبیا کا سلسلہ ختم کیا گیا ہے۔

                    ہشام بن عبدالملک کو غصہ آیا اس نے فرزدق کو قید کرنے کا حکم دیا، ان کو مکہ ومدینہ کے درمیان ” عسفان“ نامی جگہ میں مقید کر دیا گیا، حضرت علی بن حسین کو پتہ چلا تو انھوں نے فرزدق کے پاس 12 ہزار دینار بھیجے او رکہا ابو فراس! اگر ہمارے پاس اس سے زیادہ ہوتے تو ہم وہ بھی بھجوادیتے، فرزدق نے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ اے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند !میں نے جو کہا الله او راس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر کہا ہے او رمیں اس پر کچھ کمانا نہیں چاہتا، حضرت زین العابدین نے یہ کہہ کر واپس بھجوا دیا کہ تمہارے اوپر جو میرا حق ہے، اس کا واسطہ ہے کہ تم انھیں قبول کرلو، بے شک الله تیرے دل کے حال او رنیت کو جانتے ہیں۔ تو انھوں نے قبول کر لیا۔(سیر اَعلام النبلاء: 399/4، تہذیب الکمال:402/20)

    عقیدئہ امامت پرنکیر:

                    حضرت زین العابدین رحمة الله علیہ حضرات صحابہ کرام کے بارے میں عموماً او رحضرات خلفائے راشدین کے بارے میں خصوصاً اہلِ سنت کے ہم مسلک ومشرب تھے اور ائمہ کے بارے میں روافض کے مخصوص عقائد وافکار کا انکار کرتے تھے؛ چنانچہ فضیل بن مرزوق کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن علی اور حسین بن علی سے سوال کیا، کہ اہل بیت میں کوئی شخص ایسا بھی ہے جس کی اطاعت فرض قرار دی گئی ہو؟ کیا آپ اس کو جانتے ہیں اور جو اس کو نہ پہچانتا ہو تو کیا وہ جاہلیت کی موت مرے گا؟ تو انھوں نے کہا: الله کی قسم! اہل بیت میں ایسا کوئی شخص نہیں جو مفترض الطاعة ہو اور جو شخص اہل بیت کے بارے میں ایسی بات کہے وہ کذاب ہے، فضیل کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ روافض یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کے لیے ، انھوں نے حضرت حسن کے لیے ، انھوں نے حضرت حسین کے لیے ، انھوں نے اپنے بیٹے علی کے لیے او رانھوں نے اپنے بیٹے محمد کے لیے (امامت) کی وصیت کی تھی، عمر بن علی نے جواب میں فرمایا: الله کی قسم! میرے والد کا اس حال میں انتقال ہوا ہے کہ انھوں نے دو حرفوں کی بھی وصیت نہیں کی تھی، ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ ہماری طرف جھوٹ منسوب کرتے ہیں، الله انھیں ہلاک کرے ، الله کی قسم! یہ لوگ (روافض) اہل بیت کے نام پر اپنے پیٹ بھرتے ہیں، پھر فرمایا: یہ خنیس پرندے کی بیٹ ہے اور تمہیں معلوم ہے کہ خنیس کون ہے ؟ راوی کہتے ہیں میں نے کہا معلی بن خنیس، فرمایا: ہاں معلی بن خنیس، پھر فرمایا کہ میں دیر تک سوچتا رہا کہ الله نے ان (روافض) کی عقلوں پر پردہ ڈال دیا ہے، یہاں تک کہ معلی بن خنیس نے انھیں گم راہ کر دیا ہے۔(تہذیب الکمال:396,395/20)

                     عیسٰی بن دینار نے ابو جعفر محمد بن علی بن حسین سے نقل کیا ہے کہ علی بن حسین رحمة الله علیہ کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر مختار بن ابی عبید پر لعنت کر رہے تھے، کسی نے کہا: اے ابوالحسین! آپ ان پر کیوں لعنت کر رہے ہیں؟ حالاں کہ وہ اہل بیت کے نام پر ذبح کیے گئے ہیں، علی بن حسین نے فرمایا، بے شک وہ جھوٹا تھا ،الله اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ گھڑتا تھا۔ (الطبقات: 213/5، تہذیب الکمال:396/20،سیراعلام النبلاء:397/4) حکم نے ابوجعفر سے نقل کیا ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ ہم بنی امیہ کے پیچھے بغیر کسی” تقیہ“ کے نمازپڑھتے ہیں، میں اپنے والد کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ بھی بنی امیہ کی اقتدا میں بغیر کسی ”تقیہ“ کے نماز پڑھا کرتے تھے۔ (الطبقات:217/5،سیر اعلام النبلاء:397/4)

    زین العابدین رحمة اللہ علیہ اورحضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم:

                    اہل بیت کے یہ پاک باز نفوس حضرات صحابہ کرام وخلفائے راشدین رضی الله عنہم کے بارے میں اہل سنت کے نہ صرف ہم مسلک وہم مشرب تھے؛ بلکہ ان کا بھرپور دفاع کیا کرتے تھے؛ چناں چہ ابو حازم کہتے ہیں کہ علی بن حسین سے کسی نے پوچھا کہ حضرت ابوبکر وعمر رضی الله عنہما کا حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کیا مرتبہ تھا؟ انھوں نے حضور صلی الله علیہ وسلم کے روضہٴ مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: جو تقرب ان کو آج اس روضہ میں حاصل ہے ایسا ہی حضور صلی الله علیہ وسلم کی زندگی میں بھی تھا۔(تھذیب الکمال: 393/20،سیر اعلام النبلاء:395/4)

                     محمد بن علی بن حسین نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ ان کے پاس عراق سے کچھ لوگ آئے او رانھوں نے ابو بکر وعمر کا تذکرہ سبّ وشتم کے ساتھ کیا اور حضرت عثمان کی شان میں گستاخی کرنے لگے، (والعیاذ باللہ)حضرت علی بن حسین نے ان عراقیوں سے کہا: کیا تم ان مہاجرین اولین میں سے ہو جن کے بارے میں الله تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا:﴿لِلْفُقَرَاء الْمُھَاجِرِیْنَ الَّذِیْنَ أُخْرِجُوا مِن دِیْارِھِمْ وَأَمْوَالِھِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللہِ وَرِضْوَاناً وَیَنصُرُونَ اللہَ وَرَسُولَہُ أُوْلَئِکَ ھُمُ الصَّادِقُون﴾َ ․ (الحشر:8)

                    اہل عراق نے کہا: ہم ان لوگوں میں سے نہیں جن کے بارے میں الله تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے۔ حضرت علی بن حسین نے پھر کہا: کیا تم لوگ ان لوگوں میں سے ہو جن کے بارے میں الله تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا:﴿وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُوا الدَّارَ وَالإِیْمَانَ مِن قَبْلِھِمْ یُحِبُّونَ مَنْ ھَاجَرَ إِلَیْھِمْ وَلَا یَجِدُونَ فِیْ صُدُورِھِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَةٌ وَمَن یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُوْلٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ ․(الحشر:9)

                    اہل عراق نے کہا، ہم ان لوگوں میں سے بھی نہیں جن کے بارے میں الله نے یہ ارشاد فرمایا ہے ۔ اس کے بعد حضرت زین العابدین نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگوں نے خود اقرار کیا کہ تم آیات میں مذکور دونوں فریقوں میں سے نہیں اور میں اس بات کی گواہی دیتاہوں کہ تم ان لوگوں میں سے بھی نہیں جن کے بارے میں الله نے یہ ارشاد فرمایا:﴿وَالَّذِیْنَ جَاؤُوا مِن بَعْدِھِمْ یَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلإِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُونَا بِالْإِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوبِنَا غِلّاً لِّلَّذِیْنَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّکَ رَؤُوفٌ رَّحِیْمٌ﴾․ (الحشر:10) ، پھرفرمایا:تم لوگ میرے پاس سے اٹھ جاوٴ، اللہ تمہارا گھر قریب نہ کرے،تم اپنے آپ کو اسلام کے لبادے میں چھپاتے ہو جب کہ تم اہل اسلام میں سے نہیں ہو۔(حلیة الاولیاء:137,136/3،تھذیب الکمال:395,394/20،سیر اعلام النبلاء:395/4)

                    جعفر بن محمد نے اپنے والد سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ میرے والدکے پاس ایک آدمی آیا او رکہنے لگا مجھے ابوبکر وعمر کے بارے میں بتائیں۔ انھوں نے فرمایا: صدیق کے بارے میں پوچھ رہے ہو؟ اس آدمی نے کہا آپ انہیں”صدیق“ کہہ رہے ہیں ؟ انھوں نے فرمایا: تیری ماں تجھے گم کردے! مجھ سے بہتر یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم او رمہاجرین وانصار نے ان کو ”صدیق“ کہا ہے، پس جو ان کو صدیق نہ کہے، الله اس کی بات کو سچا نہ کرے ، جاؤ! ابوبکر وعمر سے محبت کرو اور انھیں عزیز رکھو، اس کی تمام ذمہ داری میری گردن پر ہے۔(،تہذیب الکمال: 394,393/20،سیر اعلام النبلاء:395/4))یحییٰ بن سعید کہتے ہیں علی بن حسین المعروف زین العابدین رحمة الله علیہ نے فرمایا: الله کی قسم! حضرت عثمان کو ناحق شہید کیا گیا ہے۔ (الطبقات: 216/5،سیر اعلام النبلاء:397/4)

    زین العابدین رحمة الله علیہ کے چندبیش بہا اقوال:

    *جسم اگر بیمار نہ ہوتو وہ مست ومگن ہو جاتا ہے اور کوئی خیر نہیں ایسے جسم میں جو مست ومگن ہو۔(حلیة الاولیاء:134/3،سیر اعلام النبلاء:396/4)

    *دوستوں کا نہ ہونا پردیسی ( اجنبیت) ہے۔(حلیة الاولیاء:134/3)

    *جو الله کے دیے ہوئے پر قناعت اختیار کر لے وہ لوگوں میں سب سے غنی آدمی ہو گا۔(حلیة الاولیاء:135/3)

    *جو باتیں معروف نہیں وہ علم میں سے نہیں ، علم تو وہ ہے جو معروف ہو اوراہل علم کا اس پر اتفاق ہو۔(تھذیب الکمال:398/20،سیر اعلام النبلاء:391/4)

    *لوگوں میں سب سے زیادہ خطرے میں وہ شخص ہے جو دنیا کو اپنے لیے خطرے والی نہ سمجھے۔(حوالہ بالا)

    *کوئی کسی کی ایسی اچھائی بیان نہ کرے جو اسے معلوم نہ ہو ، قریب ہے کہ وہ اس کی وہ برائی بیان کر بیٹھے جو اس کے علم میں نہیں ۔(تھذیب الکمال:398/20)

    *جن دو شخصوں کا ملاپ الله کی اطاعت کے علاوہ ہوا ہو تو قریب ہے کہ ان کی جدائی بھی اسی پر ہو۔(تھذیب الکمال:398/20)

    *اے بیٹے !مصائب پر صبر کرو اور حقوق سے تعرض نہ کرو اوراپنے بھائی کو اس معاملے کے لیے پسند نہ کرو جس کا نقصان تمہارے لیے زیادہ ہو اس بھائی کو ہونے والے فائدے سے۔(تہذیب الکمال:399/20،حلیة الاولیاء:138/3)

    *الله تعالیٰ توبہ کرنے والے گناہ گار مومن سے محبت فرماتے ہیں۔(حلیة الاولیاء :140/3، الطبقات: 219/5،تھذیب الکمال:391/20)

    وفات:

                    خانوادئہ نبوت کے اس چشم وچراغ نے ساری زندگی سنتِ نبوی اورحضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم کے نقش قدم پر چل کر بالآخر داعی اجل کو لبیک کہا، ان کے سنہ وفات کے بارے میں اختلاف ہے ،,99,95, 94,93,92 اور100 ہجری کے مختلف اقوال منقول ہیں، مگر صحیح قول کے مطابق زین العابدین رحمة الله علیہ بروز منگل14 ربیع الاول94 ہجری میں دار فانی سے داربقاکی طرف کوچ کر گئے، جنت البقیع میں جنازہ پڑھا گیا اور وہیں پر مدفون ہوئے۔(تہذیب الکمال: 404,403/20،سیر اعلام النبلاء:400/4، الثقات:160/5،تھذیب التھذیب:307/7، تاریخ الاسلام:184/3،الطبقات:221/5،الکاشف:37/2)

                    الله تعالیٰ ہمیں پاک طینت اور نیک سیرت اہلِ بیت کی اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی طرف منسوب جھوٹ اورمن گھڑت باتوں سے تمام امت کی حفاظت فرمائے۔

    ***

    عظمتِ اہل بیت اطہارؓ

    دین اسلام میں صحابۂ کرام اور اہل بیت اطہار (رضوان اللہ علیہم اجمعین)کی عظمتِ شان اور بلندیِ مقام کا کون انکار کرسکتاہے؟یہ وہی پاک باز ہستیاں ہیں جن کو رب العالمین نے اپنے نبی کی صحبت کے لیے چنا، جن کی آنکھوں نے نبی کے رخ انور کا دیدار کیا،جنہوں نے مشکوۃ نبوت سے بہ راہ راست استفادہ کیا، جن کی وساطت اورپیہم قربانیوں سے دین ہم تک پہنچا، قرآن وحدیث کا علم ہمیں حاصل ہوا اور ہم عرفان حق کی منزل تک رسائی میں کام یاب ہوئے۔لہٰذا جس طرح نبی پاکﷺ پر ایمان لانا،آپ سے محبت کرنا ہرمسلمان کے لیے لازم و ضروری ہے، اسی طرح صحابۂ کرام اور خصوصاً اہل بیت سے محبت کرنا بھی ایمان کا جز اورتعلیمات اسلام کا حصہ ہے،جس کے بغیر دین ناقص و ادھورا ہے۔

                یہ حضرات دین اسلام کے نقیب ومنادی، قرآن مجید کے امین وپاسبان اور احادیث مبارکہ کے شارح وترجمان ہیں ،جو اعلیٰ اخلاق وکردار کے حامل اور ہمت وعزیمت،شجاعت وحمیت اور حق گوئی وبے باکی کے علم بردار ہیں نیز اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لیے ہمہ وقت سرگرداں ،امت کی اصلاح وتربیت کے لیے مسلسل کوشاں اور دنیا وآخرت میں امت کی کامیابی وکامرانی کے خواہاں ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرماجانے کے بعدسے کربلا تک، حضرات اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی دعوت وتبلیغ، جہاد وسرفروشی اور شہادت وجاں سپاری کی ناقابل فراموش خدمات وکارناموں کا ایک زریں تسلسل ہے جس کا تذکرہ ان شاء اللہ قیامت تک جاری وساری رہے گا۔

                اس میں ذرہ برابر کوئی شبہ نہیں کہ جس کو جس قدر نسبتِ قریبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہے اس کی تعظیم و محبت بھی اسی پیمانے پر واجب و لازم ہے اورفطری طور پر انسان اپنی ازواج اور صلبی اولاد سے محبت کرتا ہے؛ اس لیے جہاں ہمیں نبی پاک ﷺ سے محبت کا حکم ہے، وہیں آپ کی آل و اولاد اور آپ کے صحابہ سے بھی محبت کاحکم ہے۔مختصر یہ کہ ُحبِّ اہل بیت وآل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مسئلہ امت میں کبھی زیر اختلاف نہیں رہا، باجماع واتفاق ان کی محبت وعظمت لازم ہے۔ اختلافات وہاں پیدا ہوتے ہیں جہاں دوسروں کی عظمتوں پر حملہ کیا جاتا ہے ورنہ آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی حیثیت سے عام سادات خواہ ان کا سلسلہ نسبت کتنا ہی بعید ہو ان کی محبت و عظمت عین سعادت واجر ثواب ہے، یہی جمہور امت کا مسلک ومذہب ہے۔

    اہل بیت سے کون مراد ہیں ؟
                یہ حقیقت قابل ذکر ہے کہ اہل بیت نبوی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن (جن کی تعداد گیارہ ہے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذریات طیبات رضی اللہ عنہن (جن کی تعداد سات ہے) اور بنو ہاشم کی آل واولاد سب ہی شامل ہیں ؛ کیوں کہ قرآن مجید نے حضرات ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ہی کو اہل بیت کہا ہے؛ چنانچہ سورہ احزاب کی آیت تطہیر میں مذکور ’’اہل بیت‘‘ کا لفظ ازواج مطہرات کے لیے استعمال ہوا ہے او را س کی اولین مصداق حضرات ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ہی ہیں ، اس آیت کریمہ کا سیاق وسباق بھی اسی کا متقاضی ہے۔ نیز قرآن مجید کی دیگر آیات کریمہ (سورہ ہود اور سورہ قصص) میں بھی بیوی (گھروالی) کو اہل بیتؓ کہا گیا ہے۔ اور اس آیت (آیت تطہیر) کے ذیل میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بھی یہی قول منقول ہے۔(فتح القدیر)

    اہل بیت کے حقوق
                حضرات اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہ کے فضائل احادیث و آثار اور اقوال صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ میں کثرت سے بیان ہوئے ہیں ۔ احادیث وسیرت کی مشہور کتابوں میں ان کے فضائل ومناقب کے ابواب قائم کیے گئے ہیں اور بہت تفصیل کے ساتھ ان کے فضائل مذکور ہیں ۔ اسی کے ساتھ ساتھ احادیث مبارکہ میں ان کے کچھ حقوق بھی بیان کیے گئے ہیں ، ان حقوق میں سب سے اہم حق یہ ہے کہ حضرات اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہ کی تعظیم وتکریم کی جائے، ان کے شایان شان ان کا احترام واکرام کیا جائے،ان کا ذکرخیر کیاجائے، ان سے ربط وتعلق رکھا جائے اور ان سے خصوصی محبت وعقیدت کا معاملہ کیا جائے؛ کیوں کہ حضرات اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہ سے محبت وعقیدت رکھنا کامل ایمان کے حصول کا باعث ہے، ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے شکوہ پر نہایت ہی بلیغ وموثر انداز میں ارشاد فرمایا کہ’’قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کسی شخص کے دل میں ایمان داخل نہیں ہوگا، اگر وہ تم (اہل بیت رضی اللہ عنہما) کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت وخوشنودی حاصل کرنے کے لیے دوست نہیں رکھے۔ (ترمذی)۔فی الواقع حضرات اہل بیت سے محبت رکھنا، اللہ تعالیٰ ورسول سے محبت کی دلیل ہے، ایک حدیث میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: ’’تم (سب) اللہ تعالیٰ سے محبت رکھو کیوں کہ وہی اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی نعمتوں سے رزق پہنچاتا ہے اور تمہاری پرورش کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کی بنا پر مجھ سے محبت رکھو اور میری محبت کی وجہ سے میرے اہل بیت رضی اللہ عنہما کو عزیز ومحبوب رکھو‘‘۔(ترمذی) ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چہیتی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مخاطب کرکے پوری امت کو حضرات ازواج مطہرات خصوصاً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  سے محبت وعقیدت رکھنے کا حکم عام دیا ہے، حدیث پاک کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’پیاری بیٹی! جس سے میں محبت کرتا ہوں کیا تم اس سے محبت نہیں رکھتی؟ حضرت فاطمہ  رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ کیوں نہیں ! (میں پوری طرح محبت رکھتی ہوں ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تب تم بھی حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا سے محبت رکھا کرو‘‘۔ (بخاری ومسلم)

                حضرات اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کا دوسرا اہم حق یہ ہے کہ ان کی سیرت وکردار کو اور ان کے اعمال وافعال کو اختیار کیا جائے، دینی معاملات میں ان کی اتباع وپیروی کی جائے کیوں کہ قرآن مجید کے بعد حضرات اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہما ہی اطاعت واقتدا کے قابل ہیں ، احادیث مبارکہ میں ان کی اتباع وپیروی کی تاکید وترغیب بہت ہی موثر انداز میں بیان ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت مسلمہ کو یہ مژدہ سنایا ہے کہ میں دنیا سے جارہا ہوں ؛لیکن (ہدایت ورہنمائی کے لیے) تمہارے درمیان قرآن مجید اور اپنے خاندان والوں کو چھوڑ رہا ہوں ، میرے بعد جب تک تم انہیں پکڑے رہو گے،کبھی گمراہ نہ ہوگے، ایک چیز ان میں دوسری چیز سے عظیم تر ہے، وہ ایک تو اللہ تعالیٰ کی کتاب (قرآن مجید) ہے اور وہ آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی اللہ تعالیٰ کی رسی ہے، اور دوسری (چیز) میری اولاد، میرے گھر والے ہیں ‘‘۔ (ترمذی) اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم اور اہل بیت کے اتباع کی تاکیدفرمائی ہے،جس کی وجہ یہ ہے کہ حضرات اہل بیت رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سب کے سب اعلی درجہ کے متبع سنت تھے، اس اعتبار سے ان کی اتباع بھی سنت ہی کی اتباع تھی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اہل بیت کی طرف اگر کوئی ایسی بات منسوب ہو جو قرآن وسنت کے واضح حکم کے خلاف ہو، تو اس کا قطعاً اعتبار نہیں کیا جائے گا، پیغمبر علیہ السلام کے اہلِ بیت کے اتباع کے حکم کو آڑ بنا کر شیعوں نے حضرات اہل بیت کی طرف بہت سی ایسی باتیں منسوب کی ہیں جو قطعاً خلافِ واقعہ ہیں ۔ حضرات اہل بیت اس طرح کی جھوٹی اور من گھڑت باتوں سے بالکل بری ہیں ، اور امت کے لیے ایسی باتوں پر اعتماد کرنا جائز نہیں ۔حضرات اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہما کے مذکورہ بالا حقوق کے علاوہ اور بھی کچھ چھوٹے بڑے حقوق ہیں ، ان میں ’خیر خواہی وہمدردی‘اور ’مددوتعاون‘ سرفہرست حقوق ہیں ۔ (ملخص از خطبات حبان)

    اہل بیت نبی کے مجاہدات
                اہل بیت اطہار کی قربانیاں ان کی جدوجہد اور دین کے سلسلہ میں ان کی مساعی جمیلہ بے حد وحساب ہیں ؛اس لیے کہ یہ حضرات اہل بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین اللہ تبارک وتعالیٰ کے خصوصی ہدایت یافتہ اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثالی تربیت سے سرفراز ہیں ۔سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرح آپ کے اہل بیت کی زندگی بھی سراپا زہد ومجاہدہ تھی، قربانی کے ہر موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور اہل بیت آگے رہتے تھے اور منافع کے ہر موقع پر پیچھے رہتے تھے، روایات میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اصحاب کو خادم عطا فرمائے؛ مگر اپنی لخت جگر حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کو ضرورت کے باوجود نہیں دیا؛ بلکہ انہیں تسبیحات واذکار کی پابندی کا حکم دیتے ہوئے اسے خادم سے بہتر بتایا۔ (بخاری شریف)آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواجِ مطہرات بے انتہا قناعت پسند اور صبر شعار خواتین تھیں ، اکثر فقروفاقہ کی زندگی گزارتی تھیں ۔ فتح خیبر کے بعد جب مسلمانوں کو مالی وسعت اچھی خاصی ہوگئی تو ازواج مطہرات کو، جو ظاہر ہے کہ نبی اور صاحب وحی نہ تھیں ، محض امتی تھیں ، فطری طورپر یہ خیال گزرا کہ اب ہمارے نفقہ میں بھی معقول اضافہ ہونا چاہیے، اسی خواہش کا اظہار رسول اللہ ﷺ  کے سامنے کیا اور ذرا تقاضے کے ساتھ۔ رسول اکرم ﷺ   کے قلب مبارک کی اذیت کے لیے دنیا طلبی کی اتنی جھلک بھی بہت تھی، یہ آیتیں اس پر نازل ہوئیں ۔ یہ اختیار دینے کو تو دے دیا گیا؛لیکن اس کے مل جانے کے بعد حضرت عائشہ ؓ سے لے کر کسی ایک بیوی صاحبہ تک نے عیش دنیاکو ترجیح نہ دی، سب کی سب بدستور اللہ و رسول کے ساتھ وابستہ رہیں ۔

                امام ابن ماجہ نے کتاب الفتن میں باب خروج المہدی کے تحت ایک روایت نقل فرمائی ہے،حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں بنی ہاشم کے چند نوجوان آئے، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا، تو آپ کی آنکھیں بھر آئیں ، اور آپ کا رنگ بدل گیا، میں نے عرض کیا: ہم آپ کے چہرے میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور دیکھتے ہیں جسے ہم اچھا نہیں سمجھتے (یعنی آپ کے رنج سے ہمیشہ صدمہ ہوتا ہے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہم اس گھرانے والے ہیں جن کے لیے اللہ نے دنیا کے مقابلے آخرت پسند کی ہے، میرے بعد بہت جلد ہی میرے اہل بیت مصیبت، سختی، اخراج اور جلا وطنی میں مبتلا ہوں گے، یہاں تک کہ مشرق کی طرف سے کچھ لوگ آئیں گے، جن کے ساتھ سیاہ جھنڈے ہوں گے، وہ خیر (خزانہ) طلب کریں گے، لوگ انہیں نہ دیں گے تو وہ لوگوں سے جنگ کریں گے، اور (اللہ کی طرف سے) ان کی مدد ہو گی، پھر وہ جو مانگتے تھے وہ انہیں دیا جائے گا، (یعنی لوگ ان کی حکومت پر راضی ہو جائیں گے اور خزانہ سونپ دیں گے)، یہ لوگ اس وقت اپنے لیے حکومت قبول نہ کریں گے یہاں تک کہ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو یہ خزانہ اور حکومت سونپ دیں گے، وہ شخص زمین کو اس طرح عدل سے بھر دے گا جس طرح لوگوں نے اسے ظلم سے بھر دیا تھا، لہٰذا تم میں سے جو شخص اس زمانہ کو پائے وہ ان لوگوں کے ساتھ (لشکر میں ) شریک ہو، اگرچہ اسے گھٹنوں کے بل برف پر کیوں نہ چلنا پڑے‘‘۔

    المختصر
                آج ملت کا شیرازہ مختلف جماعتوں ،فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہوکر ملتِ واحدہ کی شناخت کھوچکا ہے ، ہر جماعت خود کو برحق ،ہر فرقہ خود کو صحیح اور ہر گروہ خود کو جنتی باور کروارہا ہے، ایسے میں ہمیں صحابۂ کرام اور اہل بیت کے طریق کو لازم پکڑنا چاہیے اور نبی اکرم ﷺ کی سنت اورخلفائے راشدین کے طریقے پر عمل پیراہونا چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماسے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’میری امت۷۳ فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی، سوائے ایک جماعت کے سب دوزخ میں جائیں گے ، عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول! صلی اللہ علیہ وسلم وہ کونسا گروہ ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ وہ جماعت ہوگی جو اس راستے پر چلے گی جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں ۔‘‘(ترمذی )


    سادات، آلِ رسول، اور اہلِ بیت کا مصداق
    ’’سید‘‘  کے مصداق وہ لوگ ہیں جو حضرت علی، حضرت جعفر ،حضرت عباس اورحضرت عقیل اورحضرت حارث  رضوان اللہ علیہم اجمعین  کی اولاد میں سے ہیں، ان سب پر صدقہ حرام ہے۔

    اور اہلِ بیت سے مراد  ازواجِ مطہرات اور نبی کریم ﷺ  کی آل و اولاد اور داماد یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ شامل ہیں، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نور اللہ مرقدہ ’’معارف القرآن‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں: 

    ’’ بعض آئمہ تفسیر نے اہلِ بیت سے مراد  صرف ازواجِ مطہرات کو قرار دیا ہے۔ حضرت عکرمہ و مقاتل نے یہی فرمایا ہے اور سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس سے بھی یہی روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے آیت میں اہلِ بیت سے مراد ازواجِ مطہرات کو قرار دیا۔ اور استدلال میں اگلی آیت پیش فرمائی،(آیت) {واذکرن مایتلی في بیوتکن} (رواه ابن أبي حاتم وابن جریر) اور سابقہ آیات میں نساءالنبی کے الفاظ سے خطاب بھی  اس کا قرینہ ہے۔ حضرت عکرمہ تو بازار میں منادی کرتے تھے، کہ آیت میں اہلِ بیت سے مراد ازواجِ مطہرات ہیں؛ کیوں کہ یہ آیت اِن ہی کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ اور فرماتے تھے کہ میں اس پر مباہلہ کرنے کے لیے تیار ہوں ۔
    لیکن حدیث کی متعدد روایات جن کو ابنِ کثیر نے اس جگہ نقل کیا ہے اس پر شاہد  ہیں کہ اہلِ بیت میں حضرت فاطمہ اور علی اور حضرت حسن وحسین بھی شامل ہیں،  جیسے ’’صحیح مسلم‘‘  کی حدیث حضرت عائشہ کی روایت سے ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے باہر تشریف لے گئے اور اس وقت آپ ایک سیاہ رومی چادر اوڑھے ہوئے تھے، حسن بن علی آ گئے تو ان کو اس چادر میں لے لیا، پھر حسین آ گئے، ان کو بھی اسی چادر کے اندر داخل فرما لیا، اس کے بعد حضرت فاطمہ پھر حضرت علی مرتضیٰ ؓ آ گئے، ان کو بھی چادر میں داخل فرما لیا، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی (آیت) {انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت ویطهركم تطهيرًا}.  اور بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ آیت پڑھنے کے بعد فرمایا: "اللّٰهم هٰولاء أهل بیتي". (رواہ ابن جریر)
    ابن کثیر نے اس مضمون کی متعدد احادیثِ معتبرہ نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ درحقیقت ان دونوں اقوال میں جو آئمہ تفسیر سے منقول ہیں کوئی تضاد نہیں، جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ یہ آیت ازواجِ مطہرات کی شان میں نازل ہوئی اور اہلِ بیت سے وہی مراد ہیں یہ اس کے منافی نہیں کہ دوسرے حضرات بھی اہلِ بیت میں شامل ہوں‘‘۔ (معارف القرآن)

    اور آلِ رسول کے مصداق میں متعدد اقوال ہیں، بعض محقیقن نے اس سے آپ ﷺ کی اولاد مراد لی ہے، اور اکثر  نے قرابت دار مراد لیے ہیں جن پر صدقہ حرام ہے، اور بعض نے مجازاً اسے تمام امتِ مسلمہ مراد لی ہے۔

    باقی مختلف صحابہ کرام کے مختلف فضائل وارد ہوئے ہیں، اور اہلِ بیت کے مستقل فضائل وارد ہوئے ہیں،  اور ان سے محبت ایمان کی علامت ہے۔ اور اہلِ بیت بھی صحابہ کرام  میں ہی داخل ہیں، اور عمومی صحابہ کرام کی درجہ بندی میں سب سے پہلے چاروں خلفاءِ راشدین بالترتیب، پھر عشرہ مبشرہ، پھر اصحابِ بدر، اس کے بعد اصحابِ احد، اور پھر بیعتِ رضوان کے شرکاء، اور اس کے بعد فتح مکہ اور اس کے بعد مسلمان ہونے والے صحابہ کرام کا شمار ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمومی فضائل اور تمام درجہ بندیوں میں جو جو اہلِ بیت شامل ہیں وہ فضائل ان کے بھی ہیں۔

    صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اہلِ بیتِ کرام کے فضائل کی تفصیل کے لیے کتبِ احادیث کے ’’ابواب المناقب‘‘ ملاحظہ کیے جائیں۔ نیز اہلِ بیت کے فضائل کے لیے علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ کے رسائل (رسائل ابن عابدین) میں مستقل رسالہ موجود ہے، اس سے استفادہ کیا جاسکتاہے۔صحيح مسلم (4 / 1873):
    "(2408) حدثني زهير بن حرب، وشجاع بن مخلد، جميعًا عن ابن علية، قال زهير: حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، حدثني أبو حيان، حدثني يزيد بن حيان، قال: انطلقت أنا وحصين بن سبرة، وعمر بن مسلم، إلى زيد بن أرقم، فلما جلسنا إليه قال له حصين: لقد لقيت يا زيد خيرًا كثيرًا، رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وسمعت حديثه، وغزوت معه، وصليت خلفه لقد لقيت، يا زيد خيرًا كثيرًا، حدثنا يا زيد ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: يا ابن أخي والله لقد كبرت سني، وقدم عهدي، ونسيت بعض الذي كنت أعي من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فما حدثتكم فاقبلوا، وما لا، فلاتكلفونيه، ثم قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم يومًا فينا خطيبًا بماء يدعى خمًا بين مكة والمدينة، فحمد الله وأثنى عليه، ووعظ وذكر، ثم قال: " أما بعد، ألا أيها الناس! فإنما أنا بشر يوشك أن يأتي رسول ربي فأجيب، وأنا تارك فيكم ثقلين: أولهما كتاب الله فيه الهدىوالنور فخذوا بكتاب الله، واستمسكوا به"؛ فحث على كتاب الله ورغب فيه، ثم قال: «وأهل بيتي، أذكركم الله في أهل بيتي، أذكركم الله في أهل بيتي، أذكركم الله في أهل بيتي». فقال له حصين: ومن أهل بيته؟ يا زيد! أليس نساؤه من أهل بيته؟ قال: نساؤه من أهل بيته، ولكن أهل بيته من حرم الصدقة بعده، قال: ومن هم؟ قال: هم آل علي وآل عقيل، وآل جعفر، وآل عباس قال: كل هؤلاء حرم الصدقة؟ قال: نعم".

     ترجمہ: ۔۔۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:  رسول اللہ ﷺ نے ایک دن مقامِ (غدیرِ) ’’خم‘‘ پر  جو مکہ و مدینہ کے درمیان ہے، خطبہ دیا، چناں چہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی، اور وعظ و نصیحت فرمائی، پھر فرمایا: اما بعد! آگاہ رہو اے لوگو! میں بھی ایک انسان ہوں،  ممکن ہے کہ میرے رب کا پیغام رساں (موت کا فرشتہ) میرے پاس آئے تو میں اسے لبیک کہوں، اور میں تم میں دو بہت اہم (اور بھاری چیزیں) چھوڑ رہاہوں: پہلی چیز ’’کتاب اللہ‘‘ ہے، اس میں ہدایت اور نور ہے، لہٰذا اللہ کی کتاب کو پکڑ لو اور مضبوطی سے تھام لو؛ پھر آپ ﷺ نے اللہ کی کتاب کے حوالے سے کافی شافی ترغیب ارشاد فرمائی۔ پھر فرمایا: (اور دوسری چیز) میرے اہلِ بیت،  میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے لحاظ (یاد رکھنے) کی تاکید کرتاہوں،  میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے لحاظ (یاد رکھنے) کی تاکید کرتاہوں،  میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے لحاظ (یاد رکھنے) کی تاکید کرتاہوں۔   (یہ سن کر) راوی حدیث حصین رحمہ اللہ نے حضرت زید بن ارقم سے کہا: اہلِ بیت سے مراد کون ہیں؟ اے زید کیا آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات اہلِ بیت میں سے نہیں ہیں؟ (کیوں کہ بنیادی طور پر مذکورہ خطبہ ’’غدیرِ خم‘‘  کے مقام پر درحقیقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ارشاد فرمایا تھا، اس پس منظر کی وجہ سے راوی نے مذکورہ سوال کیا)  تو حضرت زید بن ارقم نے فرمایا: (ہاں!) آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات اہلِ بیت میں ہیں، لیکن (یہاں مراد) اہلِ بیت (سے) وہ ہیں جن پر رسول اللہ ﷺ کے بعد صدقہ حرام ہے۔ راوی نے پوچھا: وہ کون ہیں؟ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ آلِ علی،  آلِ عقیل، آلِ جعفر اور آلِ عباس ہیں۔ راوی نے کہا: کیا ان سب پر صدقہ حرام ہے؟ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جی ہاں!

    الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 13):
    "(قوله: وعلى آله) اختلف في المراد بهم في مثل هذا الموضع؛ فالأكثرون أنهم قرابته صلى الله عليه وسلم الذين حرمت عليهم الصدقة على الاختلاف فيهم، وقيل: جميع أمة الإجابة، وإليه مال مالك، واختاره الأزهري والنووي في شرح مسلم، وقيل غير ذلك، شرح التحرير.وذكر القهستاني: أن الثاني مختار المحققين".
    فقط واللہ اعلم

    حضور نبی اکرم ﷺ کے اہل بیت اور قرابت داروں کے مناقب

    الْبَابُ الْأَوَّلُ : مَنَاقِبُ أَهْلِ الْبَيْتِ وَ قَرَابَةِ الرَّسُولِ عليهم السلام

    (حضور نبی اکرم ﷺ کے اہل بیت اور قرابت داروں کے مناقب)




    1. فَصْلٌ فِي وَصِيَّةِ النَّبِيِّ ﷺ بِأَهْلِ بَيْتِهِ

    (حضور نبی اکرم ﷺ کی اپنے اھلِ بیت کے بارے میں وصیت کا بیان)

    1 / 1. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : أَلاَ إِنَّ عَيْبَتِيَ الَّتِي آوِي إِلَيْهَا أَهْلُ بَيْتِي، وَ إِنَّ کَرَشِيَ الْأَنْصَارُ. فَاعْفُوْا عَنْ مُسِيْئِهِمْ وَاقْبَلُوْا مِنْ مُحْسِنِهِمْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

    وَقَالَ أَبُوعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

    ’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آگاہ ہو جاؤ! میرا جامہ دان جس سے میں آرام پاتا ہوں میرے اہل بیت ہیں اور میری جماعت انصار ہیں۔ ان کے بُروں کو معاف کر دو اور ان کے نیکوکاروں سے (اچھائی کو) قبول کرو۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔

    الحديث رقم 1 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : في فضل الأنصار وقريش، 5 / 714، الرقم : 3904، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 399، الرقم : 32357، و الشيباني في الآحاد و المثاني، 3 / 332، الرقم : 1716، و ابن سعد في الطبقات الکبري، 2 / 252.

    2 / 2. عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنِّي تَارِکٌ فِيْکُمْ خَلِيْفَتَيْنِ : کِتَابَ اللهِ حَبْلٌ مَمْدُوْدٌ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ. أَوْ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَي الْأَرْضِ، وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي، وَإِنَّهُمَا لَنْ يَّتَفَرَّقَا حَتَّي يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

    ’’حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بے شک میں تم میں دو نائب چھوڑ کر جا رہا ہوں. ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب جو کہ آسمان و زمین کے درمیان پھیلی ہوئی رسی (کی طرح) ہے اور میری عترت یعنی میرے اہل بیت اور یہ کہ یہ دونوں اس وقت تک ہرگز جدا نہیں ہوں گے جب تک یہ میرے پاس حوض کوثر پر نہیں پہنچ جاتے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 2 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 181، الرقم : 21618، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 162.

    3 / 3. عَنْ عَبْدِ الرحمٰن بْنِ عَوْفٍ قَالَ : افْتَتَحَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مَکَّةَ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَي الطَّاءِفِ فَحَاصَرَهُمْ ثَمَانِيَةً أَوْسَبْعَةً، ثُمَّ أَوْغَلَ غَدْوَةً أَوْ رَوْحَةً ثُمَّ نَزَلَ ثُمَّ هَجَرَ. ثُمَّ قَالَ : أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي لَکُمْ فَرَطٌ وَ إِنِّي أُوْصِيْکُمْ بِعِتْرَتِي خَيْرًا، وَإِنَّ مَوْعِدَکُمْ الْحَوْضُ . . . الحديث.

    رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

    وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.

    ’’حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے مکہ فتح کیا پھر طائف کا رخ کیا اور اس کا آٹھ یا سات دن محاصرہ کئے رکھا پھر صبح یا شام کے وقت اس میں داخل ہو گئے پھر پڑاؤ کیا پھر ہجرت فرمائی اورفرمایا : اے لوگو! بے شک میں تمہارے لئے تم سے پہلے حوض پر موجود ہوں گا اور بے شک میں تمہیں اپنی عترت کے ساتھ نیکی کی وصیت کرتا ہوں اور بے شک تمہارا ٹھکانہ حوض ہو گا ۔ ۔ ۔ الحديث۔‘‘ اِس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

    الحديث رقم 3 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 131، الرقم : 2559.

    4 / 4. عَنِ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي تَارِکٌ فِيْکُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوْا إِنِ اتَّبَعْتُمُوْهُمَا، وَهُمَا : کِتَابُ اللهِ، وَأَهْلُ بَيْتِي عِتْرَتِي. ثُمَّ قَالَ : أَ تَعْلَمُوْنَ أَنِّي أَوْلَي بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ قَالُوْا : نَعَمْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيُّ مَوْلَاهُ.

    رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

    وَقَالَ الْحَاکِمُ : صَحِيْحٌ.

    ’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے لوگو! میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جانے والا ہوں اور اگر تم ان کی اتباع کرو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے اور وہ دو چیزیں کتاب اللہ اور میرے اہل بیت ہیں پھر آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو میں مؤمنین کی جانوں سے بڑھ کر ان کو عزیز ہوں آپ ﷺ نے ایسا تین مرتبہ فرمایا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : ہاں یا رسول اللہ! تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس کا میں مولی ہوں علی بھی اس کا مولی ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

    الحديث رقم 4 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 118، الرقم : 4577.

    5 / 5. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : لَمَّانَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ : (قُلْ لاَّ أَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمًوَدَّةَ فِي الْقُرْبَي) قَالُوْا : يَارَسُوْلَ اللهِ، مَنْ قَرَابَتُکَ هَؤُلاءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ : عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ وَابْنَاهُمَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

    ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت : (قُلْ لاَّ أَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمًوَدَّةَ فِي الْقُرْبَي) نازل ہوئی تو صحابہ کرام نے عرض کیا :

    یا رسول اللہ! آپ کی قرابت کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : علی، فاطمہ اور ان کے دو بیٹے (حسن و حسین)۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 5 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 47، الرقم : 2641، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 168.

    6 / 6. عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضي الله عنه في رواية طويلة : قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : انْظُرُوْا کَيْفَ تَخْلُفُوْنِي فِي الثَّقَلَيْنِ. فَنَادَي مُنَادٍ وَ مَا الثَّقَلاَنِ يَا رَسُوْلَ اللهِ، قَالَ : کِتَابُ اللهِ طَرَفٌ بِيَدِ اللهِ وَ طَرَفٌ بِأَيْدِيْکُمْ فَاسْتَمْسِکُوْا بِهِ لاَ تَضِلُّوْا، وَالآخَرُ عِتْرَتِي وَ إِنَّ اللَّطِيْفَ الْخَبِيْرَ نَبَّأَنِي أَنَّهُمَا لَنْ يَّتَفَرَّقَا حَتَّي يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ، سَأَلْتُ رَبِّي ذَلِکَ لَهُمَا، فَلاَ تَقَدَّمُوْهُمَا فَتَهْلِکُوْا، وَلاَ تَقْصُرْوا عَنْهُمَا فَتَهْلِکُوْا، وَلاَ تُعَلِّمُوْهُمْ فَإِنَّهُمْ أَعْلَمُ مِنْکُمْ ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ فَقَالَ : مَنْ کُنْتُ أَوْلَي بِهِ مِنْ نَفْسِي فَعَلِيٌّ وَلِيُّهُ اللَّهُمَّ، وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُِّ.

    ’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : پس یہ دیکھو کہ تم دو بھاری چیزوں میں مجھے کیسے باقی رکھتے ہو. پس ایک نداء دینے والے نے ندا دی یا رسول اللہ! وہ دو بھاری چیزیں کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کی کتاب جس کا ایک کنارا اللہ کے ہاتھ میں اور دوسرا کنارا تمہارے ہاتھوں میں ہے پس اگر تم اسے مضبوطی سے تھامے رہو تو کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے اور دوسری چیز میری عترت ہے اور بے شک اس لطیف خبیر رب نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں چیزیں کبھی بھی جدا نہیں ہوں گی یہاں تک کہ یہ میرے پاس حوض پر حاضر ہوں گی اور ایسا ان کے لئے میں نے اپنے رب سے مانگا ہے۔ پس تم لوگ ان پر پیش قدمی نہ کرو کہ ہلاک ہو جاؤ اور نہ ہی ان سے پیچھے رہو کہ ہلاک ہو جاؤ اور نہ ان کو سکھاؤ کیونکہ یہ تم سے زیادہ جانتے ہیں پھر آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا : پس میں جس کی جان سے بڑھ کر اسے عزیز ہوں تو یہ علی اس کا مولیٰ ہے اے اللہ! جو علی کو اپنا دوست رکھتا ہے تو اسے اپنا دوست رکھ اور جو علی سے عداوت رکھتا ہے تو اس سے عداوت رکھ۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 6 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 5 / 166، الرقم : 4971.

    7 / 7. عَنْ مُصْعَبِ بْنِ عَبْدِ الرحمٰن بْنِ عَوْفٍ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : لَمَّا فَتَحَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مَکَّةَ انْصَرَفَ إِلَي الطَّائِفِ فَحَاصَرَهَا سَبْعَ عَشَرَةَ، أَوْتِسْعَ عَشَرَةَ، ثُمَّ قَامَ خَطِيْباً فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَي عَلِيْهِ. ثُمَّ قَالَ : أُوْصِيْکُمْ بِعِتْرَتِي خَيْرًا، وَأَنَّ مَوْعِدَکُمُ الْحَوْضُ. وَالَّذِيْ نَفْسِي بِيَدِهِ لتُقِيْمُنَّ الصَّلَاةَ وَلَتُؤْتُنَّ الزَّکَاةَ، أَوْ لَأَبْعَثَنَّ إِلَيْکُمْ رَجُلاً مِّنِّي. أَوْکَنَفْسِي يَضْرِبُ أَعْنَاقَکُمْ.ثُمَّ أَخَذَبِيَدِ علي رضي الله عنه فَقَالَ : بِهَذَا. رَوَاهُ الْبَزَّارُ.

    ’’حضرت مصعب بن عبدالرحمٰن بن عوف اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضور ﷺ نے مکہ فتح کیا اس کے بعد آپ ﷺ طائف کی طرف روانہ ہوئے اور آپ ﷺ نے سترہ دن یا انیس دن طائف کا محاصرہ کئے رکھا پھر آپ ﷺ خطاب کے لئے کھڑے ہوئے آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی پھر فرمایا : میں اپنی عترت کے بارے میں تمہیں بھلائی کی وصیت کرتا ہوں اور بے شک تمہارا ٹھکانہ حوض کوثر ہو گا اور نماز قائم کرو گے اور زکوٰۃ ادا کرو گے یا میں تمہاری طرف ایک ایسے آدمی کو بھیجوں گا جو مجھ میں سے ہے یا میری طرح کا ہے اور جو تمہاری گردنیں مارے گا پھر آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : اس آدمی سے میری مراد یہ ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام بزار نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 7 : أخرجه البزار في المسند، 3 / 258، 259، الرقم : 1050، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 163.

    2. فَصْلٌ فِي حَثِّ النَّبِيِّ ﷺ عَلَي حُبِّهِمْ

    (حضور نبی اکرم ﷺ کا لوگوں کو اھلِ بیت کی محبت پر اُبھارنے کا بیان)

    8 / 8. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَحِبُّوْا اللهَ لِمَا يَغْذُوْکُمْ مِنْ نِعَمِهِ، وَأَحِبُّوْنِي بِحُبِّ اللهِ عزوجل. وَأَحِبُّوا أَهْلَ بَيْتِي لِحُبِّي.

    رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ.

    وَقَالَ أَبُوعِيْسَي : هَذَا حَدَيْثٌ حَسَنٌ.

    ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ سے محبت کرو ان نعمتوں کی وجہ سے جو اس نے تمہیں عطا فرمائیں اور مجھ سے محبت کرو اللہ کی محبت کے سبب اور میرے اہل بیت سے میری محبت کی خاطر محبت کرو۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔

    الحديث رقم 8 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب أهل البيت النبي ﷺ، 5 / 664، الرقم : 3789، والحاکم في المستدرک 3 / 162، الرقم : 4716، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 366، الرقم : 408.

    9 / 9. عَنِ الْعَبَاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي الله عنهما قَالَ : کُنَّا نَلْقَي النَّفَرَ مِنْ قُرَيْشٍ، وَهُمْ يَتَحَدَّثُوْنَ فَيَقْطَعُوْنَ حَدِيْثَهُمْ، فَذَکَرْنَا ذَلِکَ لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ، فَقَالَ : مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَتَحَدَّثُوْنَ فَإِذَا رَأَوْا الرَّجُلَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي قَطَعُوْا حَدِيْثَهُمْ وَاللهِ، لاَ يَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الإِيْمَانُ حَتَّي يُحِبَّهُمْ لِلّهِ وَلِقَرَابَتِهِمْ مِنِّي. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ وَالْحَاکِمُ.

    ’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم جب قریش کی جماعت سے ملتے اور وہ باہم گفتگو کررہے ہوتے تو گفتگو روک دیتے ہم نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں اس امر کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا : لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جب میرے اہل بیت سے کسی کو دیکھتے ہیں تو گفتگو روک دیتے ہیں؟ اللہ رب العزت کی قسم! کسی شخص کے دل میں اس قت تک ایمان داخل نہیں ہوگا جب تک ان سے اللہ تعالیٰ کے لیے اور میرے قرابت کی وجہ سے محبت نہ کرے۔‘‘ اسے امام ابن ماجہ اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 9 : أخرجه ابن ماجة في السنن، المقدمة، باب : فضل العباس بن عبد المطلب رضي الله عنه، 1 / 50، الرقم : 140، والحاکم في المستدرک، 4 / 85، الرقم : 6960، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 8 / 382، الرقم : 472، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 113، الرقم : 6350، والسيوطي في شرح سنن ابن ماجة، 1 / 13، الرقم : 140.

    10 / 10. عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي الله عنه قَالَ : قُلْتُ : يَارَسُولَ اللهِ، إِنَّ قُرَيْشًا إِذَا لَقِيَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا لَقُوهُمْ بِبَشْرٍ حَسَنٍ، وَإِذَا لَقُوْنَا لَقُوْنَا بِوُجُوهٍ لاَ نَعْرِفُهَا. قَالَ : فَغَضِبَ النَّبِيُّ ﷺ غَضَبًا شَدِيْداً، وَقَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لاَ يَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الإِيْمَانُ حَتَّي يُحِبَّکُمْ لِلّهِ وَلِرَسُوْلِهِ وَ لِقَرَابَتِي. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالْبَزَّارُ.

    و في رواية : قَالَ : وَاللهِ، لَا يَدْخُلُ قَلْبَ امْرِيءٍ إِيْمَانٌ حَتَّي يُحِبَّکُمْ لِلّهِ وَلِقَرَابَتِي.

    ’’حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ میں نے بارگاہِ رسالت ﷺ میں عرض کیا : یا رسول اللہ! قریش جب آپس میں ملتے ہیں تو حسین مسکراتے چہروں سے ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو ایسے چہروں سے ملتے ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے (یعنی جذبات سے عاری چہروں کے ساتھ) حضرت عباس فرماتے ہیں : حضور نبی اکرم ﷺ یہ سن کر شدید جلال میں آگئے اور فرمایا : اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کسی بھی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ اور میری قرابت کی خاطر تم سے محبت نہ کرے۔‘‘ اسے امام احمد، نسائی، حاکم اور بزار نے روایت کیا ہے۔

    ایک روایت میں ہے کہ فرمایا : خدا کی قسم کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہ ہوگا جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ اور میری قرابت کی وجہ سے تم سے محبت نہ کرے۔‘‘

    الحديث رقم 10 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 207، الرقم : 1772، 1777، 17656، 17657، 17658، والحاکم في المستدرک، 3 / 376، الرقم : 5433، 2960، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 51 الرقم : 8176، والبزار في المسند، 6 / 131، الرقم : 2175، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 188، الرقم : 1501، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 361، الرقم : 7037.

    11 / 11. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُوْلُ عَلَي هَذَا الْمِنْبَرِ : مَا بَالُ رِجَالٍ يَقُوْلُوْنَ : إِنَّ رَحِمَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ لاَ تَنْفَعُ قَوْمَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، بَلَي وَاللهِ، إِنَّ رَحِمِي مَوْصُوْلَةٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ. وَأَنِّي أَيُّهَا النَّاسُ، فَرَطٌ لَکُمْ عَلَي الْحَوْضِ فَإِذَا جِئْتُمْ قَالَ رَجُلٌ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَنَا فُلَانٌ بْنُ فَلَانٍ وَقَالَ : يَتَحَقَّقُ أَنَا فُلَانٌ بْنُ فُلَانٍ وَ قَالَ لَهُمْ : أَمَّا النَّسَبُ فَقَدْ عَرَّفْتُهُ وَ لَکِنَّکُمْ أَحْدَثْتُمْ بَعْدِي وَ أَرْتَدَدْتُمْ الْقَهْقَرِيَّ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ الْحَاکِمُ.

    ’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا ان لوگوں کا کیا ہو گا جو یہ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے نسبی تعلق قیامت کے روز ان کی قوم کو کوئی فائدہ نہیں دے گا کیوں نہیں! اللہ کی قسم بے شک میرا نسبی تعلق دنیا و آخرت میں آپس میں باہم ملا ہوا ہے اور اے لوگو! بے شک (قیامت کے روز) میں تم سے پہلے حوض پر موجود ہوں گا پس جب تم آ گئے تو ایک آدمی کہے گا یا رسول اللہ! میں فلاں بن فلاں ہوں پس حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس کا فلاں بن فلاں کہنا پایۂ ثبوت کو پہنچے گا اور رہا نسب تو تحقیق اس کی پہچان میں نے تمہیں کرا دی ہے لیکن تم میرے بعد تم احداث کرو گے اور الٹے پاؤں پھر جاؤ گے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور امام حاکم نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 11 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 18، الرقم : 11154، و الحاکم في المستدرک، 4 / 84، الرقم : 6958، و أبو يعلي في المسند، 2 / 433، الرقم : 1238، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 364.

    12 / 12. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه : قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : خَيْرُکُمْ، خَيْرُکُمْ لِأَهْلِي مِنْ بَعْدِي. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَ أَبُوْ يَعْلَي.

    ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے بہترین وہ ہے جو میرے بعد میری اہل کے لئے بہترین ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم اور امام ابویعلی نے بیان کیا ہے۔

    الحديث رقم 12 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 352، الرقم : 5359، وأبو يعلي في المسند، 10 / 330، الرقم : 5924، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 616، الرقم : 1414، و الديلمي في مسند الفردوس، 2 / 170، الرقم : 2851، و الخطيب في تاريخ بغداد، 7 / 276، الرقم : 3765، و المناوي في فيض القدير، 3 / 497، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 174.

    13 / 13. عَنْ عَبْدِ الرحمٰن بْنِ أَبِي لَيْلَي عَنْ أَبيْهِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لاَ يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّي أَکُوْنَ أَحَبَّّ إِلَيْهِ مِنْ نَفْسِهِ وَأَهْلِي أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَهْلِهِ وَعِتْرَتِي أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ عِتْرَتِهِ. وَذَاتِي أَحَبََّ إِلَيْهِ مِنْ ذَاتِهِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

    ’’حضرت عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی جان سے بھی محبوب تر نہ ہو جاؤں اور میرے اھلِ بیت اسے اس کے اہل خانہ سے محبوب تر نہ ہو جائیں اور میری اولاد اسے اپنی اولاد سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جائے اور میری ذات اسے اپنی ذات سے محبوب تر نہ ہو جائے۔‘‘ اسے امام طبرانی اور امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 13 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 7 / 75، الرقم : 6416، و في المعجم الأوسط، 6 / 59، الرقم : 5790، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 189، الرقم : 1505، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 154، الرقم : 7795، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 88.

    14 / 14. عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : الْزِمُوْا مَوَدَّتَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ، فَإِنَّهُ مَنْ لَقِيَ اللهَ عزوجل وَ ُهوَ يَوَدُّنَا دَخَلَ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَتِنَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ : لاَ يَنْفَعُ عَبْدًا عَمَلُهُ إِلاَّ بِمَعْرِفَةِ حَقِّنَا.

    رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

    ’’حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہم اہل بیت کی محبت کو لازم پکڑو پس بے شک وہ شخص جو اس حال میں اللہ سے ملا کہ وہ ہمیں محبت کرتا تھا تو وہ ہماری شفاعت کے صدقے جنت میں داخل ہوگا اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کسی شخص کو اس کا عمل فائدہ نہیں دے گا مگر ہمارے حق کی معرفت کے سبب۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے بیان کیا ہے۔

    الحديث رقم 14 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 360، الرقم : 2230، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 172.

    15 / 15. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ : کَانَ لِآلِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ خَادِمٌ تَخْدُمُهُمْ يُقَالَ لَهَا : بَرِيْرَةُ، فَلَقِيَهَا رَجُلٌ فَقَالَ : يَابَرَيْرَةُ، غَطِّي شُعَيْفَاتِکِ، فَإِنَّ مُحَمَّدًا لَنْ يُغْنِيَ عَنْکِ مِنَ اللهِ شَيْئاً قَالَ : فَأَخْبَرَتِ النَّبِيَّ ﷺ : فَخَرَجَ يَجُرُّ رِدَاءَهُ مُحُمَّرَةً وَجْنَتَاهُ، وَکُنَّا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ نَعْرِفُ غَضَبَهَ بِجَرِّ رِدَاءِهِ وَ حُمْرَةِ وَجَنَتَيْهِ. فَأَخَذْنَا السِّلاَحَ، ثُمَّ أَتَيْنَاهُ فَقُلْنَا : يَارَسُوْلَ اللهِ، مُرْنَا بِمَا شِئْتَ، فَوَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ، لَوْ أَمَرْتَنَا بِأُمَّهَاتِنَا وَآبَاءِنَا وَأَوْلاَدِنَا، لَأَمْضَيْنَا قَوْلَکَ فِيْهِمْ، فَصَعِدَ ﷺ الْمِنْبَرَ فَحَمِدَ اللهَ عزوجل وَأَثْنَي عَلَيْهِ. وَ قَالَ : مَنْ أَنَا؟، فَقُلْنَا : أَنْتَ رَسُوْلُ اللهِ. قَالَ : نَعَمْ، وَلَکِنْ مَنْ أَنَا؟ فَقُلْنَا : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ بْنِ هَاشِمٍ بْنِ عَبْدِ مُنَافٍ. قَالَ : أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ وَلاَ فَخْرَ، وَأَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ وَلاَ فَخْرَ، وَأَوَّلُ مَنْ يُنْفَضُ التُّرَابُ عَنْ رَأْسِهِ وَلاَ فَخْرَ، وَأَوَّلُ دَاخِلِ الْجَنَّةِ وَلاَ فَخْرَ، مَا باَلُ أَقْوَامٍ يَزْعَمُوْنَ أَنَّ رَحِمِي لاَ تَنْفَعُ. لَيْسَ کَمَا زَعَمُوْا، إِنِّي لَأَشْفَعُ وَأُشَفَّعُ، حَتَّي أَنَّ مَنْ أَشْفَعُ لَهُ لَيَشْفَعُ فَيُشَفَّعُ، حَتَّي إِنَّ إِبْلِيْسَ لَيَتَطَاوَلُ طَمْعًا فِي الشَّفَاعَةِ.

    رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

    ’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آل رسول ﷺ کی ایک خادمہ تھی جو ان کی خدمت بجا لاتی اسے ’’بریرہ‘‘ کہا جاتا تھا پس اسے ایک آدمی ملا اور کہا : اے بریرہ اپنی چوٹی کو ڈھانپ کر رکھا کرو بے شک محمد ﷺ تمہیں اللہ کی طرف سے کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ راوی بیان کرتے ہیں پس اس نے حضور نبی اکرم ﷺ کو اس واقع کی خبر دی پس آپ ﷺ اپنی چادر کو گھسیٹتے ہوئے باہر تشریف لائے درآنحالیکہ حضور نبی اکرم ﷺ کی دونوں رخسار مبارک سرخ تھے اور ہم (انصار کا گروہ) حضور ﷺ کے غصے کو آپ ﷺ کے چادر کے گھسیٹنے اور رخساروں کے سرخ ہونے سے پہچان لیتے تھے پس ہم نے اسلحہ اٹھایا اور حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس آ گئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ جو چاہتے ہیں ہمیں حکم دیں پس اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے! اگر آپ ہمیں ہماری ماؤں، آباء اور اولاد کے بارے میں بھی کوئی حکم فرمائیں گے تو ہم ان میں بھی آپ ﷺ کے قول کو نافذ کر دیں گے پس آپ ﷺ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی اور فرمایا : میں کون ہوں؟ ہم نے عرض کیا : آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں لیکن میں کون ہوں؟ ہم نے عرض کیا : آپ محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میں حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد کا سردار ہوں لیکن کوئی فخر نہیں، میں وہ پہلا شخص ہوں جس سے قبر پھٹے گی لیکن کوئی فخر نہیں اور میں وہ پہلا شخص ہوں جس کے سر سے مٹی جھاڑی جائے گی لیکن کوئی فخر نہیں اور میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والا ہوں لیکن کوئی فخر نہیں ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو یہ گمان کرتے ہیں کہ میرا رحم (نسب و تعلق) فائدہ نہیں دے گا ایسا نہیں ہے جیسا وہ گمان کرتے ہیں۔ بے شک میں شفاعت کروں گا اور میری شفاعت قبول بھی ہو گی یہاں تک کہ جس کی میں شفاعت کروں گا وہ یقیناً دوسروں کی شفاعت کرے گا اور اس کی بھی شفاعت قبول ہو گی یہاں تک کہ ابلیس بھی اپنی گردن کو بلند کرے گا شفاعت میں طمع کی خاطر (یا کسی طور اس کی شفاعت بھی کوئی کر دے)۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے بیان کیا ہے۔

    الحديث رقم 15 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 203، الرقم : 5082، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 376.

    16 / 16. عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ رضي الله عنهما : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : الْزِمُوْا مَوَدَّتَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ، فَإِنَّهُ مَنْ لَقِيَ اللهَ عزوجل وَهُوَ يَوَدُّنَا، دَخَلَ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَتِنَا. وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا يَنْفَعُ عَبْدًا عَمَلُهُ إلَّا بِمَعْرِفَةِ حَقِّنَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

    ’’حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہم اہل بیت کی محبت کو لازم پکڑو پس وہ شخص جو اس حال میں اللہ سے (وصال کے بعد) ملا کہ وہ ہم سے محبت کرتا ہو تو وہ ہماری شفاعت کے وسیلہ سے جنت میں داخل ہو گا اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں مجھ محمد کی جان ہے کسی بھی شخص کو اس کا عمل ہمارے حق کی معرفت حاصل کئے بغیر فائدہ نہیں دے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 16 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 360، الرقم : 2230، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 172.

    17 / 17. عَنْ أَبِي رَافِعٍ رضي الله عنه : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ لِعَلِيٍّ رضي الله عنه : أَنْتَ وَشِيْعَتُکَ تَرِدُوْنَ عَلَيَّ الْحَوْضَ رُوَاءَ مُرَوَّييْنَ، مُبَيَّضَةً وُجُوْهُکُمْ. وَإِنَّ عَدُوَّکَ يَرِدُوْنَ عَلَيَّ ظُمَاءً مُقَبَّحِيْنَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

    ’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اے علی! تو اور تیرے (چاہنے والے) مددگار (قیامت کے روز) میرے پاس حوض کوثر پر چہرے کی شادابی اور سیراب ہو کر آئیں گے اور ان کے چہرے (نور کی وجہ سے) سفید ہوں گے اور بے شک تیرے دشمن (قیامت کے روز) میرے پاس حوض کوثر پر بدنما چہروں کے ساتھ اور سخت پیاس کی حالت میں آئیں گے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 17 : أخرجه الطبراني فيالمعجم الکبير، 1 / 319، الرقم : 948، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 131.

    18 / 18. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّمَا سَمَّيْتُ بِنْتِي فَاطِمَةَ لِأَنَّ اللهَ عزوجل فَطَمَهَا وَ فَطَمَ مُحِبِّيْهَا عَنِ النَّارِ.

    رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.

    ’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بے شک میں نے اپنی بیٹی کا نام فاطمہ رکھا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس کے چاہنے والوں کو آگ سے چھڑا (اور بچا) لیا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 18 : أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 1 / 346، الرقم : 1385، و الخطيب في تاريخ بغداد، 12 / 331، و المناوي في فيض القدير، 3 / 432.

    19 / 19. عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : حُبُّ آلِ مُحَمَّدٍ يَوْماً، خَيْرٌ مِنْ عِبَادَةِ سَنَة وَ مَنْ مَاتَ عَلَيْهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.

    ’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : اہل بیت مصطفیٰ ﷺ کی ایک دن کی محبت پورے سال کی عبادت سے بہتر ہے اور جو اسی محبت پر فوت ہوا تو وہ جنت میں داخل ہو گیا۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 19 : أخرجه الديلمي فی مسند الفردوس، 2 / 142، الرقم : 2721.

    20 / 20. عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضي الله عنه مَرْفُوْعا. خَمْسٌ مَنْ أوْتِيَهُنَّ لَمْ يُقْدَرْ عَلَي تَرْکِ عَمَلِ الْآخِرَةِ زَوْجَةٌ صَالِحَةٌ وَ بَنُوْنَ أَبْرَارٌ وَ حَسَنُ مُخَالَطَةِ النَّاسِ وَ مَعِيْشَةٌ فِي بَلَدِهِ وَ حُبُّ آلِ مُحَمَّدٍ ﷺ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.

    ’’حضرت زید بن ارقم سے مرفوعاً روایت ہے کہ پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ اگر کسی کو نصیب ہو جائیں تو وہ آخرت کے عمل کا تارک نہیں ہو سکتا (اور وہ پانچ چیزیں یہ ہیں) : نیک بیوی، نیک اولاد، لوگوں کے ساتھ حسن معاشرت اور اپنے ملک میں روزگار اور آل محمد ﷺ کی محبت۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 20 : أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 2 / 196، الرقم : 2974.

    21 / 21. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما رَفَعَهُ : أَنَا شَجَرَةٌ، وَ فَاطِمَةُ حَمْلُهَا، وَ عَلِيٌ لِقَاحُهَا وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ ثَمَرُهَا، وَ الْمُحِبُّوْنَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَرَقُهَا، هُمْ فِي الْجَنَّةِ حَقًا حَقًا. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.

    ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں درخت ہوں اور فاطمہ اس کے پھل کی ابتدائی حالت ہے اور علی اس کے پھول کو منتقل کرنے والا ہے اور حسن اور حسین اس درخت کا پھل ہیں اور اہل بیت سے محبت کرنے والے اس درخت کے اوراق ہیں وہ یقیناً یقیناً جنت میں (داخل ہونے والے) ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 21 : أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 1 / 52، الرقم : 135.

    22 / 22. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه رَفَعَهُ : أَرْبَعَةٌ أَنَا لَهُمْ شَفِيْعٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ : الْمُکْرِمُ ذُرِّيَّتِي، وَالْقَاضِي لَهُمْ حَوَائِجَهُمْ، وَ السَّاعِي لَهُمْ فِي أُمُوْرِهِمْ عِنْدَ مَا اضْطَرُّوْا إِلَيْهِ، وَ الْمُحِبُّ لَهُمْ بِقَلْبِهِ وَ لِسَانِهِ.

    رَوَاهُ الْمُتَّقِيُّ الْهِنْدِيُّ.

    ’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : چار شخص ایسے ہیں قیامت کے روز جن کے لئے میں شفاعت کرنے والا ہوں گا (اور وہ یہ ہیں : ) میری اولاد کی عزت و تکریم کرنے والا، اور ان کی حاجات کو پورا کرنے والا، اور ان کے معاملات کے لئے تگ و دو کرنے والا جب وہ مجبور ہو کر اس کے پاس آئیں اور دل و جان سے ان کی محبت کرنے والا۔‘‘ اس حدیث کو امام متقی ہندی نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 22 : أخرجه الهندي في کنز العمال، 12 / 100، الرقم : 34180.

    3. فَصْلٌ فِي مَشْرُوْعِيَّةِ الصَّلَاةِ عَلَيْهِمْ تَبْعًا لِلنَّبِيِّ ﷺ

    (حضور نبی اکرم ﷺ کی اِتباع میں آپ ﷺ کے اھلِ بیت پر درود بھیجنے کا بیان)

    23 / 23. عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ رضي الله عنه : أَنَّهُمْ قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اللهِ، کَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْکَ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : قُوْلُوْا : اللَّهُمَّ، صَلِّ عَلَي مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، کَمَا صَلَّيْتَ عَلَي آلِ إِبْرَاهِيْمَ. وَبَارِکْ عَلَي مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرَّيَتِهِ، کَمَا بَارَکْتَ عَلَي إِبْرَاهِيْمَ إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

    ’’حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہم آپ پر کیسے درود بھیجیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : (یوں) کہو : اے اللہ تو درود بھیج محمد ﷺ اور آپ ﷺ کی ازواج مطہرات اور آپ ﷺ کی ذریت طاہرہ پر جیسا کہ تو نے درود بھیجا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آل پر اور برکت عطا فرما محمد ﷺ کو اور آپ ﷺ کی ازواج مطہرات کو اور آپ ﷺ کی ذریت طاہرہ کو جیسا کہ تو نے برکت عطا کی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بے شک تو حمید مجید ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

    الحديث رقم 23 : أخرجه البخاريفي الصحيح، کتاب : الأنبياء، باب : يزفان النسلان في المشي، 3 / 1232، الرقم : 3189، ومسلم في الصحيح، کتاب : الصلاة، باب : الصلاة علي النبي ﷺ بعد التشهد، 1 / 306، الرقم : 407، و مالک في الموطأ، 1 / 165، الرقم : 395، و النسائي في السنن الکبري، 1 / 384، الرقم : 1217، و أبو عوانة في المسند، 1 / 546، الرقم : 4039، و البيهقي في السنن الکبري، 2 / 150، الرقم : 2685.

    24 / 24. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَکْتَالَ بِالْمِکْيَالِ الْأَوْفَي إِذَا صَلَّي عَلَيْنَا أَهْلَ الْبَيْتِ، فَلْيَقُلْ : اللَّهُمَّ، صَلِّ عَلَي مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ وَأَزْوَاجِهِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِيْنَ وَذُرِّيَتِهِ وَأَهْلِ بَيْتِهِ. کَمَا صَلَّيْتَ عَلَي إِبْرَاهِيْمَ إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ. رَوَاهُ أَبُودَاوُدَ.

    ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جسے یہ خوشی حاصل کرنا ہو کہ اس کے نامہ اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے جب وہ ہم اہل بیت پر درود بھیجے تو اسے چاہئے کہ یوں کہے : اے اللہ! تو درود بھیج حضرت محمد ﷺ اور آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات امہات المومنین پر اور آپ ﷺ کی ذریت اور اہل بیت پر جیسا کہ تو نے درود بھیجا حضرت ابراہیم علیہ السلام پر بے شک تو بہت زیادہ تعریف کیا ہوا اور بزرگی والا رب ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابوداود نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 24 : أخرجه أبوداود فيالسنن، کتاب : الصلاة، باب : الصلاة علي النبي بعد التشهد، 1 / 258، الرقم : 982، و البيهقي في السنن الکبري، 2 / 151، الرقم : 2686، و في شعب الإيمان، 2 / 189، الرقم : 1504، والمزي في تهذيب الکمال، 5 / 348.

    25 / 25. عَنْ أَبِي مَسْعُوْدٍ الْأَنْصَارِيِّ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : مَنْ صَلَّي صَلَاةً لَمْ يُصَلِّ فِيْهَا عَلَيَّ وَعَلَي أَهْلِ بَيْتِي، لَمْ تُقْبَلْ مِنْهُ. وَ قَالَ أَبُوْمَسْعُوْدٍ رضي الله عنه : لَوْ صَلَّيْتُ صَلَاةً لَا أُصَلِّي فِيْهَا عَلَي مُحَمَّدٍ، مَارَأَيْتُ أَنَّ صَلَاتِي تَتِمُّ. رَوَاهُ الدَّارُقُطْنِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

    ’’حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے نماز پڑھی اور مجھ پر اور میرے اہل بیت پر درود نہ پڑھا اس کی نماز قبول نہ ہوگی۔ حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر میں نماز پڑھوں اور اس میں حضور نبی اکرم ﷺ پر درود پاک نہ پڑھوں تو میں نہیں سمجھتا کہ میری نماز کامل ہو گی۔‘‘ اسے امام دارقطنی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 25 : أخرجه الدارقطني في السنن، 1 / 355، الرقم : 6.7، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 530، الرقم : 3969، و ابن الجوزي في التحقيق في أحاديث الخلاف، 1 / 402، الرقم : 544، والشوکاني في نيل الأوطار، 2 / 322.

    26 / 26. عَنْ عَبْدِ الرحمٰن بْنِ أَبِي لَيْلَي قَالَ : لَقِيَنِي کَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ رضي الله عنه فَقَالَ : أَلاَ أُهْدِي لَکَ هَدْيَةً سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِيِّ ﷺ ؟ قُلْتُ : بَلَي، قَالَ : فَأَهْدِهَا إِلَيَّ قَالَ : سَأَلْنَا رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فَقُلْنَا : يَا رَسُوْلَ اللهِ، کَيْفَ الصَّلَاةُ عَلَيْکُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ؟ قَالَ ﷺ : قُوْلُوْا : اللَّهُمَّ، صَلِّ عَلَي مُحَمَّدٍ وَ عَلَي آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّيْتَ عَلَي إِبْرَاهِيْمَ وَ عَلَي آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّکَ حَمِيْدٌ مُّجِيْدٌ. وَ اللَّهُمَّ، بَارِکْ عَلَي مُحَمَّدٍ وَ عَلَي آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا بَارَکْتَ عَلَي إِبْرَاهِيْمَ وَ عَلَي آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ.

    رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ.

    ’’حضرت عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ مجھے ملے اور کہا کیا میں تمہیں وہ (حدیث) ہدیہ نہ کروں جو میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سنی ہے؟ میں نے کہا کیوں نہیں۔ راوی بیان کرتے ہیں میں نے کہا کہ وہ مجھے ہدیہ کرو تو انہوں نے کہا : ہم نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا۔ سو ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ کے اہل بیت پر درود کیسے بھیجا جائے؟ تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (یوں) کہو : اے اللہ تو (بصورت رحمت) درود بھیج۔ محمد ﷺ اور آپ ﷺ کی آل پر جیسا کہ تو نے درود بھیجا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کی آل پر بے شک تو حمید مجید ہے اور اے اللہ تو برکت عطا کر محمد ﷺ اور آپ ﷺ کی آل کو جیسا کہ تو نے برکت عطا کی ابراہیم علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کی آل کو بے شک تو حمید مجید ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 26 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 160، الرقم : 4710، وأشارالحاکم إلي أن البخاري خرَّجه بلفظه، ولکنْ علّةُ ذکرهِ کما ذکره هنا، لإفادة أن آل البيت والآل جميعاً هم. ولابن المفضل جزئٌ في طريق حديث ابن أبي ليلي عن کعب بن عجرة، و الطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 29، الرقم : 2368.

    27 / 27. عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ قَالَ : خَرَجْتُ أَنَا أرِيْدُ عَلِيًّا فَقِيْلَ لِي هُوَ عِنْدَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَأَمَمْتُ إِلَيْهِمْ فَأَجِدَهُمْ فِي حَظِيْرَة مِّنْ قَصَبِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَ عَلِيٌّ وَ فَاطِمَةُ وَحَسَنٌ وَحُسَيْنٌ رضي الله عنهم قَدَ جَمَعَهُمْ تَحْتَ ثَوْبٍ فَقَالَ : اللَّهُمَّ، إِنَّکَ جَعَلْتَ صَلَوَاتِکَ وَرِضْوَانَکَ عَلَيَّ وَ عَلَيْهِمْ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

    ’’حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تلاش میں باہر نکلا تو مجھے کسی نے کہا کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس ہیں پس میں نے (وہاں) ان (کے پاس جانے) کا ارادہ کیا (اور جب میں وہاں پہنچا) تو میں نے انہیں حضور نبی اکرم ﷺ کی چادر کے اندر پایا اور حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حسن اور حسین رضی اللہ عنھم ان سب کو حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک کپڑے کے نیچے جمع کر رکھا تھا پس آپ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ! بے شک تو نے اپنے درود اور اپنی رضوان کو مجھ پر اور ان پر خاص کر دیا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 27 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 22 / 95، الرقم : 230، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 167.

    4. فَصْلٌ فِي بِشَارَةِ النَّبِيِّ ﷺ لَهُمْ بِالْجَنَّةِ وَجَزَائِهِ ﷺ لِمَنْ أَحْسَنَ إِلَيْهِمْ

    (حضور نبی اکرم ﷺ کا اپنے اھلِ بیت کو جنت کی بشارت دینے اور ان سے نیکی کرنے والوں کو جزاء دینے کا بیان)

    28 / 28. عَنْ أَبِي رَافِعٍ : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ لِعَلِيٍّ رضي الله عنه : إِنَّ أَوَّلَ أَرْبَعة يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ، أَنَا وَأَنْتَ وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ، وَ ذَرَارِيْنَا خَلْفَ ظَهُوْرِنَا، وَ أَزْوَاجُنَا خَلْفَ ذَرَارِيْنَا، وَ شِيْعَتُنَا عَنْ أَيْمَانِنَا وَ عَنْ شَمَائِلِنَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

    ’’حضرت ابورافع بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : بے شک پہلے چار اشخاص جو جنت میں داخل ہوں گے وہ میں، تم، حسن اور حسین ہوں گے اور ہماری اولاد ہمارے پیچھے ہوگی (یعنی ہمارے بعد وہ داخل ہو گی) اور ہماری بیویاں ہماری اولاد کے پیچھے ہوں گی (یعنی ان کے بعدجنت میں داخل ہوں گی) اور ہمارے چاہنے والے (ہمارے مدد گار) ہماری دائیں جانب اور بائیں جانب ہوں گے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 28 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 1 / 319، الرقم : 950، 3 / 41، الرقم : 2624، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 131.

    29 / 29. عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ قَالَ : سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ يَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ صَنَعَ إِلَي أَحَدٍ مِنْ وَلَدِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ يَدًا فَلَمْ يُکَافِئْهُ بِهَا فِي الدُّنْيَا فَعَلَيَّ مُکَافَأَتُهُ غَدًا إِذَا لَقِيَنِي. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

    ’’حضرت ابان بن عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے اولاد عبد المطلب میں سے کسی کے ساتھ کوئی بھلائی کی اور وہ اس کا بدلہ اس دنیا میں نہ چکا سکا تو اس کا بدلہ چکانا کل (قیامت کے روز) میرے ذمہ ہے جب وہ مجھ سے ملاقات کرے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا۔

    الحديث رقم 29 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 120، الرقم : 1446، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 1 / 439، الرقم : 315، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 173.

    30 / 30. عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ : أَنَّهُ ﷺ قَالَ : يَا عَلِيُّ، إِنَّ اللهَ قَدْ غَفَرَ لَکَ وَلِذُرِّيَّتِکَ وَ لِوَلَدِکَ وَ لِأَهْلِکَ، وَلِشِيْعَتِکَ وَ لِمُحِبِّي شِيْعَتِکَ. فَابْشِرْ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.

    ’’حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے علی! بے شک اللہ تعالیٰ نے تجھے اور تیری اولاد کو اور تیرے گھر والوں کو اور تیرے مددگاروں کو اور تیرے مددگاروں کے چاہنے والے کو بخش دیا ہے پس تجھے یہ خوشخبری مبارک ہو۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 30 : أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 5 / 329، الرقم : 8337.

    5. فَصْلٌ فِي أَنَّهُمْ أَمَانٌ وَنَجَاةٌ لِأمَّتِهِ ﷺ

    (اھلِ بیتِ اطہار کا آپ ﷺ کی امت کے لئے باعثِ امان اور نجات ہونے کا بیان)

    31 / 31. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ : يَا أَيُّهاالنَّاسُ، إِنِّي قَدْ تَرَکْتُ فِيْکُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا : کِتَابَ اللهِ، وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي. رَوَاهُ التِرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ.

    ’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے سنا حضور نبی اکرم ﷺ فرما رہے تھے : اے لوگو! میں تمہارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم انہیں پکڑے رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ (ان میں سے ایک) اللہ تعالیٰ کی کتاب اور (دوسری چیز) میرے گھر والے ہیں۔‘‘ اسے امام ترمذی نے روایت کیا اور حسن قرار دیا ہے۔

    الحديث رقم 31 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اللہ ﷺ، باب : في مناقب أهل بيت النبي ﷺ، 5 / 662، الرقم : 3786، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 89، الرقم : 4757، و في المعجم الکبير، 3 / 66، الرقم : 2680، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 114.

    32 / 32. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ : رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فِي حَجَّتِهِ يَوْمَ عَرَفَةَ وَ هُوَ عَلَي نَاقَتِهِ الْقُصْوَاءِ يَخْطُبُ فَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : ياَ أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي قَدْ تَرَکْتُ فِيْکُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوْا، کِتَابَ اللهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.

    ’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو دورانِ حج عرفہ کے دن دیکھا کہ آپ ﷺ اونٹنی قصواء پرسوار خطاب فرما رہے ہیں۔ پس میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اے لوگو! میں نے تم میں وہ چیز چھوڑی ہے کہ اگر تم اسے مضبوطی سے تھام لو تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے اور وہ چیز کتاب اللہ اور میری عترت اہل بیت ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 32 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب أهل بيت النبي ﷺ، 5 / 662، الرقم؛ 3786، و الطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 89، الرقم : 4757، و في المعجم الکبير، 3 / 66، الرقم : 2680، والحکيم الترمذي في نوادر الأصول، 1 / 258، و القزويني في التدوين في أخبار قزوين، 2 / 266.

    33 / 33. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : النُّجُوْمُ أَمَانٌ ِلأَهْلِ الْأَرْضِ مِنَ الْغَرْقِ وَ أَهْلُ بَيْتِي أَمَانٌ لِأمَّتِي مِنَ الإِخْتِلاَفِ، فَإِذَا خَالَفَتْهَا قَبِيْلَةٌ مِنَ الْعَرَبِ اخْتَلَفُوْا فَصَارُوْا حِزْبَ إِبْلِيْسَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

    وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ.

    ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ستارے اہل زمین کو غرق ہونے سے بچانے والے ہیں اور میرے اہل بیت میری امت کو اختلاف سے بچانے والے ہیں اور جب کوئی قبیلہ ان کی مخالفت کرتا ہے تو اس میں اختلاف پڑ جاتا ہے یہاں تک کہ وہ شیطان کی جماعت میں سے ہو جاتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا اور کہا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

    الحديث رقم 33 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 162، الرقم : 4715.

    34 / 34. عَنْ أَنَسٍ، قَالَ : قاَلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : وَعَدَنِي رَبِّي فِي أَهْلِ بَيْتِي مَنْ أَقَرَّ مِنْهُمْ بِالتَّوْحِيْدِ وُلِّيَ بِالْبَلاَغِ، أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ.

    رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

    وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ.

    ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے رب نے مجھ سے میرے اہل بیت کے بارے وعدہ کیا ہے کہ ان میں سے جو بھی میری توحید کا اقرار کرے گا اسے یہ بات پہنچا دی جائے کہ اللہ تعالیٰ اسے عذاب نہیں دے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

    الحديث رقم 34 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 163، الرقم : 4718، و الديلمي في مسند الفردوس، 4 / 382، الرقم : 7112.

    35 / 35. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ مَثَلُ أَهْلِ بَيْتِي مَثَلُ سَفِينَةِ نُوحٍ، مَنْ رَکِبَ فِيْهَا نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنَهَا غَرِقَ.

    و في رواية : عَنْ عَبْدِ اللهَ بْنِ الزُّبَيْرِ رضي الله عنهما قَالَ : مَنْ رَکِبَهَا سَلِمَ، وَمَنْ تَرَکَهَا غَرِقَ. رَوَاهُ الطَّّبَرَانِيُّ وَالْبَزَّارُ وَالْحَاکِمُ.

    ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے اھلِ بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی سی ہے جو اس میں سوار ہوگیا وہ نجات پاگیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ غرق ہو گیا۔

    اور ایک روایت میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ فرمایا : جو اس میں سوار ہوا وہ سلامتی پا گیا اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ غرق ہو گیا۔‘‘ اسے طبرانی، بزار اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 35 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 34، الرقم : 2388، 2638، 2638، 2636، و في المعجم الأوسط، 4 / 10، الرقم : 3478، 5 / 355، الرقم : 5536، 6 / 85، الرقم : 5870، في المعجم الصغير، 1 / 240، الرقم : 391، 2 / 84، الرقم : 825، والحاکم في المستدرک، 3 / 163، الرقم : 4720، والبزار في المسند، 9 / 343، الرقم : 3900، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 238، الرقم : 916، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 168.

    36 / 36. عَنِ أَبِي ذَرٍّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَثَلُ أَهْلِ بَيْتِي مَثَلُ سَفِيْنَةِ نُوْحٍ : مَنْ رَکِبَ فِيْهَا نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِقَ، وَ مَنْ قَاتَلَنَا فِي آخِرِ الزَّمَانِ فَکَأَنَّمَا قَاتَلَ مَعَ الدَّجَّالِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

    ’’حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے اہل بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام  کی کشتی کی سی ہے جو اس میں سوار ہو گیا نجات پاگیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ غرق ہوگیا اور آخری زمانہ میں جو ہمیں (اہل بیت کو) قتل کرے گا گویا وہ دجال کے ساتھ مل کر قتال کرنے والا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے بیان کیا ہے۔

    الحديث رقم 36 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 45، الرقم : 2637، و القضاعي في مسند الشهاب، 2 / 273، الحديث 1343، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 168.

    37 / 37. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : إِنَّ لِلّٰهِ حُرُمَاتٍ ثَلَاثًا مَنْ حَفِظَهُنَّ حَفِظَ اللهُ لَهُ أَمْرَ دِيْنِهِ وَ دُنْيَاهُ، وَ مَنْ ضَيَّعَهُنَّ لَمْ يَحْفَظِ اللهُ لَهُ شَيْئًا فَقِيْلَ : وَ مَا هُنَّ يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ : حُرْمَةُ الإِسْلاَمِ، وَحُرْمَتِي، وَ حُرْمَةُ رَحِمِي. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

    ’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ کی تین حرمات ہیں جو ان کی حفاظت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے اس کے دین و دنیا کے معاملات کی حفاظت فرماتا ہے اور جو ان تین کو ضائع کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی کسی چیز کی حفاظت نہیں فرماتا سو عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! وہ کون سی تین حرمات ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اسلام کی حرمت، میری حرمت اور میرے نسب کی حرمت۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 37 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 72، الرقم : 203، و في المعجم الکبير، 3 / 126، الرقم : 2881، 1 / 88، و الذهبي في ميزان الإعتدال، 5 / 294.

    38 / 38. عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : النُّجُوْمُ أَمَانٌ لِأَهْلِ السَّمَاءِ. فَإِذَا ذَهَبَتِ النُّجُوْمُ ذَهَبَ أَهْلُ السَّمَاءِ. وَأَهْلُ بَيْتِي أَمَانٌ لِأَهْلِ الْأَرْضِ. فَإِذَا ذَهَبَ أَهْلُ بَيْتِي ذَهَبَ أَهْلُ الْأَرْضِ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.

    ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ستارے اہل آسمان کے لئے امان ہیں پس جب ستارے چلے گئے تو اہل آسمان بھی چلے گئے اور میرے اہل بیت زمین والوں کے لئے امان ہیں پس جب میرے اہل بیت چلے گئے تو اہل زمین بھی چلے گئے۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 38 : أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 4 / 311، الرقم : 6913.

    6. فَصْلٌ فِي تَحْذِيْرِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ بُغْضِهِمْ وَعَدَاوَتِهِمْ

    (حضور نبی اکرم ﷺ کا اپنے اھلِ بیت سے بغض و عداوت رکھنے سے ڈرانے کا بیان)

    39 / 39. عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : سِتَّةٌ لَعَنْتُهُمْ، لَعَنَهُمُ اللهُ، وَ کُلُّ نَبِيٍّ مُجَابٍ کَانَ : الزَّائِدُ فِي کِتَابِ الله، وَ الْمُکَذِّبُ بِقَدْرِ اللهِ وَ الْمُسَلِّطُ بِالْجَبَرُوْتِ لِيُعِزَّ بِذَلِکَ مَنْ أَذَلَّ اللهُ، وَ يُذِلُّ مَنْ أَعَزَّ اللهُ، وَ الْمُسْتَحِلُّ لِحُرُمِ اللهِ، وَ الْمُسْتَحِلُّ مِنْ عِتْرَتِي مَا حَرَّمَ اللهُ، وَ التَّارِکُ لِسُنَّتِي. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ.

    ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : چھ بندوں پر میں لعنت کرتا ہوں اور اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور ہر نبی مستجاب الدعوات ہے وہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے : جو کتاب اللہ میں زیادتی کرنے والا ہو اور اللہ تعالیٰ کی قدر کو جھٹلانے والا ہو اور ظلم و جبر کے ساتھ تسلط حاصل کرنے والا ہو تاکہ اس کے ذریعے اے عزت دے سکے جسے اللہ نے ذلیل کیا ہے اور اسے ذلیل کر سکے جسے اللہ نے عزت دی ہے اور اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنے والا اور میری عترت یعنی اہل بیت کی حرمت کو حلال کرنے والا اور میری سنت کا تارک۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی، ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 39 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : القدر، باب : منه، (17)، 4 / 457، الرقم : 2154، و ابن حبان في الصحيح، 13 / 60، الرقم : 5749، و الحاکم في المستدرک، 2 / 572، الرقم : 3941، و الطبراني في المعجم الکبير، 17 / 43، الرقم : 89، و البيهقي في شعب الإيمان، 3 / 443، الرقم : 4010.

    40 / 40. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : وَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ : لاَ يُبْغِضُنَا أَهْلَ الْبَيْتِ رَجُلٌ إِلاَّ أَدْخَلَهُ اللهُ النَّارَ.

    رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ.

    ’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! ہم اہل بیت سے کوئی آدمی نفرت نہیں کرتا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اسے دوزخ میں ڈال کر دیتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 40 : أخرجه ابن حبان في الصحيح، 15 / 435، الرقم : 6978، و الحاکم في المستدرک، 3 / 162، الرقم : 4717، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 123، والهيثمي في موارد الظمان، 1 / 555، الرقم : 2246.

    41 / 41. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنِّي سَأَلْتُ اللهَ لَکُمْ ثَلَاثًا أَنْ يُّثْبِتَ قَائِمَکُمْ وَ أَنْ يَّهْدِيَ ضَالَّکُمْ، وَ أَنْ يُّعَلِّمَ جَاهِلَکُمَ، وَ سَأَلْتُ اللهَ أَنْ يَجْعَلَکُمْ جُوَدَاءَ نُجَدَاءَ رُحَمَاءَ، فَلَوْ أَنَّ رَجُلًا صَفَنَ بَيْنَ الرُّکْنِ وَ الْمَقَامِ، فَصَلَّي وَ صَامَ ثُمَّ لَقِيَ اللهَ وَ هُوَ مُبْغِضٌ لِأَهْلِ بَيْتِ مُحَمَّدٍ ﷺ دَخَلَ النَّارَ.

    رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ.

    وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

    ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے بنو عبدالمطلب بے شک میں نے تمہارے لئے اللہ تعالیٰ سے دس چیزیں مانگی ہیں پہلی یہ کہ وہ تمہارے قیام کرنے والے کو ثابت قدم رکھے اور دوسری یہ کہ وہ تمہارے گمراہ کو ہدایت دے اور تیسری یہ کہ وہ تمہارے جاہل کو علم عطاء کرے اور میں نے تمہارے لیے اللہ تعالیٰ سے یہ بھی مانگا ہے کہ وہ تمہیں سخاوت کرنے والا اور دوسروں کی مدد کرنے والا اور دوسروں پر رحم کرنے والا بنائے پس اگر کوئی رکن اور مقام کے درمیان دونوں پاؤں قطار میں رکھ کر کھڑا ہوجائے اور نماز پڑھے اور روزہ رکھے اور پھر (وصال کی شکل میں) اللہ سے ملے درآنحالیکہ وہ اہل بیت سے بغض رکھنے والا ہو تو وہ دوزخ میں داخل ہو گا۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے نیز امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

    الحديث رقم 41 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 161، الرقم : 4712، و الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 176، الرقم : 11412، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 171.

    42 / 42. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : بُغْضُ بَنِي هَاشِمٍ وَ الْأَنْصَارِ کُفْرٌ، وَ بُغْضُ الْعَرَبِ نِفَاقٌ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُِّ.

    ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بنو ہاشم اور انصار سے بغض رکھنا کفر ہے اوراہل عرب سے بغض رکھنا منافقت ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 42 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 145، الرقم : 11312، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 172، و المناوي في فيض القدير، 3 / 205.

    43 / 43. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ : خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَسَمِعْتُهُ وَهُوَ يَقُوْلُ : أَيَّهَا النَّاسُ، مَنْ أَبْغَضَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ حَشَرَهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَهُوْدِيًّا فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، وَإِنْ صَامَ وَصَلَّي قَالَ : وَإِنْ صَامَ وَصَلَّي وَزَعَمَ أَنَّهُ مُسْلِمٌ. أَيَّهَا النَّاسُ، احْتَجَرَ بِذَلِکَ مِنْ سَفْکِ دَمِهِ وَأَنْ يُّؤَدِّيَ الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُوْنَ. مُثِّلَ لِي أمَّتِي فِي الْبَطْنِ فَمَرَّبِي أَصْحَابُ الرَّايَاتِ فَاسْتَغْفَرْتُ لِعَلِيٍّ وَشِيْعَتِهِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

    ’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم ﷺ ہم سے مخاطب ہوئے پس میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اے لوگو! جو ہمارے اہل بیت سے بغض رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے روز قیامت یہودیوں کے ساتھ جمع کرے گا تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اگرچہ وہ نماز، روزہ کا پابند ہی کیوں نہ ہو اور اپنے آپ کو مسلمان گمان ہی کیوں نہ کرتا ہو؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : (ہاں) اگرچہ وہ روزہ اور نماز کا پابند ہی کیوں نہ ہو اور خود کو مسلمان تصور کرتا ہو، اے لوگو! یہ لبادہ اوڑھ کر اس نے اپنے خون کو مباح ہونے سے بچایا اور یہ کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں درآنحالیکہ وہ گھٹیا اور کمینے ہوں پس میری امت مجھے میری ماں کے پیٹ میں دکھائی گئی پس میرے پاس سے جھنڈوں والے گزرے تو میں نے حضرت علی اور شیعان علی کے لئے مغفرت طلب کی۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 43 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 212، الرقم : 4002، و الذهبي في ميزان الإعتدال، 3 / 171، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 172.

    44 / 44. عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ : أَنَّهُ قَالَ لِمُعَاوِيَةَ بْنِ خُدَيْجٍ : يَا مُعَاوِيَةَ بْنَ خُدَيْجٍ، إِيَّاکَ وَ بُغْضَنَا فَإِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : لاَ يُبْغِضُنَا أَحَدٌ، وَ لاَ يَحْسُدُنَا أَحَدٌ إِلاَّ ذِيْدَ عَنِ الْحَوْضِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِسَيَاطِ مِّنْ نَارٍ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

    ’’حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے معاویہ بن خدیج سے کہا : اے معاویہ بن خدیج! ہمارے (اھلِ بیت کے) بغض سے بچو کیونکہ بے شک حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کہ ہم (اھلِ بیت) سے کوئی بغض نہیں رکھتا اور کوئی حسد نہیں کرتا مگر یہ کہ قیامت کے دن اسے آگ کے چابکوں سے حوض کوثر سے دھتکار دیا جائے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 44 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 39، الرقم : 2405، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 172

    45 / 45. عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ لَمْ يَعْرِفْ حَقَّ عِتْرَتِي وَ الْأَنْصَارِ وَ الْعَرَبِ فَهُوَ لإِحْدَي ثَلاَثٍ : إِمَّا مُنَافِقٌ، وَ إِمَّا لِزِنْيَة، وَإِمَّا امْرَؤٌ حَمَلَتْ بِهِ أمُّهُ لِغَيْر طُهْرٍ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ.

    ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخض میرے اہل بیت اور انصار اور عرب کا حق نہیں پہچانتا تو اس میں تین چیزوں میں سے ایک پائی جاتی ہے : یا تو وہ منافق ہے یا وہ حرامی ہے یا وہ ایسا آدمی ہے جس کی ماں بغیر طہر کے اس سے حاملہ ہوئی ہو۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 45 : أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 2 / 232، الرقم؛ 1614، الديلمي في مسند الفردوس، 3 / 626، الرقم؛ 5955، و الذهبي في ميزان الإعتدال في نقد الرجال، 3 / 148.

    46 / 46. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اللَّهُمَّ ارْزُقْ مَنْ أَبْغَضَنِي وَأَبْغَضَ أَهْلَ بَيْتِي، کَثْرَةَ الْمَالِ وَالْعَيَالِ. کَفَاهُمْ بِذَلِکَ غَيَّا أَنْ يَکْثُرَ مَالُهُمْ فَيَطُوْلَ حِسَابُهُمْ، وَ أَنْ يَکْثُرَ الْوِجْدَانِيَاتُ فَيَکْثُرَ شَيَاطِيْنُهُمْ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.

    ’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے اللہ جو مجھ سے اور میرے اہل بیت سے بغض رکھتا ہے اسے کثرت مال اور کثرت اولاد سے نواز یہ ان کی گمراہی کے لئے کافی ہے کہ ان کا مال کثیر ہو جائے پس (اس کثرت مال کی وجہ سے) ان کا حساب طویل ہو جائے اور یہ کہ ان کی وجدانیات (جذباتی چیزیں) کثیر ہو جائیں تاکہ ان کے شیاطین کثرت سے ہو جائیں۔‘‘ اس کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 46 : أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 1 / 492، الرقم : 2007.

    47 / 47. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : ثَلاَثٌ مَنْ کُنَّ فِيْهِ فَلَيْسَ مِنِّي وَلَا أَنَا مِنْهُ : بُغْضُ عَلِيٍّ، وَ نَصْبُ أَهْلِ بَيْتِي، وَ مَنْ قَالَ : الإِيْمَانُ کَلَامٌ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.

    ’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تین چیزیں ایسی ہیں وہ جس میں پائی جائیں گی نہ وہ مجھ سے ہے اور نہ میں اس سے ہوں (اور وہ تین چیزیں یہ ہیں) : علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنا، میرے اہل بیت سے دشمنی رکھنا اور یہ کہنا کہ ایمان (فقط) کلام کا نام ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 47 : أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 2 / 85، الرقم : 2459.

    7. فَصْلٌ فِي جَامِعِ مَنَاقِبِ أَهْلِ الْبَيْتِ وَ الْقَرَابَةِ

    (حضور نبی اکرم ﷺ کے اھلِ بیت اور قرابت داروں کے جامع مناقب کا بیان)

    48 / 48. عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضي الله عنه قَالَ : قَامَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَوْمًا فِيْنَا خَطِيْبًا. بِمَاءٍ يُدْعَي خُمًّا. بَيْنَ مَکَّةَ وَالْمَدِيْنَةِ. فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَي عَلَيْهِ، وَ وَعَظَ وَذَکَّرَ ثُمَّ قَالَ : أَمَّا بَعْدُ . أَلَا أَيُّهَاالنَّاسُ، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِکُ أَنْ يَأْتِيَ رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيْبُ، وَأَنَا تَارِکٌ فِيْکُمْ ثَقَلَيْنِ : أَوَّلُهُمَا : کِتَابُ اللهِ فِيْهِ الْهُدَي وَالنُّوْرُ فَخُذُوْا بِکِتَابِ اللهِ. وَاسْتَمْسِکُوْا بِهِ. فَحَثَّ عَلَي کِتَابِ اللهِ وَرَغَّبَ فِيْهِ، ثُمَّ قَالَ : وَأَهْلُ بَيْتِي. أُذَکِّرُکُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي أُذَکِّرُکُمْ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَکِّرُکُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي.

    رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.

    ’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن حضور نبی اکرم ﷺ ہمیں خطبہ دینے کے لئے مکہ اور مدینہ منورہ کے درمیان اس تالاب پر کھڑے ہوئے جسے خُم کہتے ہیں۔ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء اور وعظ و نصیحت کے بعد فرمایا : اے لوگو! میں تو بس ایک آدمی ہوں عنقریب میرے رب کا پیغام لانے والا فرشتہ (یعنی فرشتہ اجل) میرے پاس آئے گا اور میں اسے لبیک کہوں گا۔ میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، ان میں سے پہلی اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرو اور اسے مضبوطی سے تھام لو، پھر آپ نے کتاب اللہ (کی تعلیمات پر عمل کرنے پر) ابھارا اور اس کی ترغیب دی پھر فرمایا : اور (دوسرے) میرے اہل بیت ہیں میں تمہیں اپنے اہل بیت کے متعلق اللہ کی یاد دلاتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے متعلق اللہ کی یاد دلاتا ہوں. میں تمہیں اپنے اہل بیت کے متعلق اللہ کی یاد دلاتا ہوں۔‘‘ اسے امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 48 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة : من فضائل علي بن أبي طالب رضي اللہ عنه، 3 / 1873، الرقم : 2408، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 366، الرقم : 19265، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 148، الرقم : 2679، وابن حبان في الصحيح، 1 / 145، الرقم : 123، واللالکائي في إعتقاد أهل السنة، 1 / 79، الرقم : 88، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 487.

    49 / 49. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ خَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ غَدَاةً وَ عَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ، مِنْ شَعَرٍ أَسْوَدَ. فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رضي الله عنهما فَأَدْخَلَهَ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ رضي الله عنه فَدَخَلَ مَعَهُ، ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ رضي الله عنها فَأَدْخَلَهَا، ثُمَّ جاَءَ عَلِيٌّ رضي الله عنه فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ قَالَ : (إِنَّمَا يُرِيْدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِرَکُمْ تَطْهِيْرًا) (الأحزاب، 33 : 33)

    رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالْحَاکِمُ.

    ’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ صبح کے وقت ایک اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے تو آپ کے پاس حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما آئے تو آپ ﷺ نے اُنہیں اُس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور وہ بھی ان کے ہمراہ چادر میں داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور آپ ﷺ نے انھیں بھی اس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ آئے تو آپ ﷺ نے اُنہیں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’اے اھلِ بیت! اللہ تعالیٰ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے اور تم کو (گناہوں سے) خوب پاک و صاف کر دے۔‘‘ اسے امام مسلم اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 49 : أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل أهل بيت النّبي ﷺ، 4 / 1883، 2424، والحاکم في المستدرک، 3 / 159، الرقم : 4707. 4709، وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 149، الرقم : 2680، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 370، الرقم : 32102، والطبري في جامع البيان، 22 / 6، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 486، والمبارکفوري في تحفة الأحوزي، 9 / 49.

    50 / 50. عَنْ سَعْدٍ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضي الله عنه قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ : (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَآءَنَا وَ أَبْنَآءَ کُم)، (آل عمران، 3 : 61)، دَعَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَلِيًّا وَ فَاطِمَةَ وَ حَسَنًا وَ حُسَيْنًا فَقَالَ : اللَّهُمَّ، هَؤُلَاءِ أَهْلِي. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَ التِّرْمِذِيُّ.

    وَقَالَ أَبُو عِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

    ’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیتِ مباہلہ نازل ہوئی : ’’آپ فرما دیں آؤ ہم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے۔‘‘ تو حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حسین علیہم السلام کو بلایا، پھر فرمایا : یا اللہ! یہ میرے اہل (بیت) ہیں۔‘‘ اسے امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

    الحديث رقم 50 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل علي بن أبي طالب رضي اللہ عنه، 4 / 1871، الرقم : 2404، والترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن عن رسول اللہ ﷺ، باب : و من سورة آل عمران، 5 / 225، الرقم : 2999، وفي کتاب : المناقب عن رسول اللہ ﷺ، باب : (21)، 5 / 638، الرقم : 3724، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 185، الرقم : 1608، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 107، الرقم : 8399، والحاکم في المستدرک، 3 / 163، الرقم : 4719، والبيهقي في السنن الکبري، 7 / 63، الرقم : 13169.13170.

    51 / 51. عَنْ زَيْدٍ بْنِ أَرْقَمَ رضي الله عنه : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : لِعَلِيٍّ وَ فَاطِمَةَ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ رضی الله عنهم : أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبْتُمْ، وَ سِلْمٌ لِمَنْ سَالَمْتُمْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَةَ.

    ’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھم سے فرمایا : تم جس سے لڑو گے میں اُس کے ساتھ حالت جنگ میں ہوں اور جس سے تم صلح کرنے والے ہو میں بھی اُس سے صلح کرنے والا ہوں۔‘‘ اسے امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 51 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول الله ﷺ، باب : فضل فاطمة بنت محمد ﷺ، 5 / 699، الرقم : 3870، وابن ماجة في السنن، المقدمة، باب : فضل الحسن والحسين ابنَي عَلِيِّ بْنِ أبي طالِبٍ رضي الله عنهم، 1 / 52، الرقم : 145، والحاکم في المستدرک، 3 / 161، الرقم : 4714، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 182، الرقم : 5015، وفي المعجم الکبير، 3 / 40، الرقم : 2620، والصيداوي في معجم الشيوخ، 1 / 133، الرقم : 85.

    52 / 52. عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : إِنِّي تَارِکٌ فِيْکُم مَا إِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي، أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الْآخَرِ : کِتَابُ اللهِ حَبْلٌ مَمْدُوْدٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَي الْأَرْضِ وَ عِتْرَتِي : أَهْلُ بَيْتِي وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّي يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ فَانْظُرُوْا کَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيْهِمَا. رَوَاهُ التِّرمِذِيُّ وَحَسَنَّهُ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.

    ’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں تم میں ایسی دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر میرے بعد تم نے انہیں مضبوطی سے تھامے رکھا تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی رسی ہے اور میری عترت یعنی اھلِ بیت اور یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گی یہاں تک کہ دونوں میرے پاس حوض کوثر پر آئیں گی پس دیکھو کہ تم میرے بعد ان سے کیا سلوک کرتے ہو؟‘‘ اسے امام ترمذی، نسائی اور احمد نے روایت کیا اور امام ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔

    الحديث رقم 52 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول الله ﷺ، باب : في مناقب أهل بيت النبي ﷺ، 5 / 663، الرقم : 3788 / 3786، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 45، الرقم : 8148، 8464، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 14، 26، 59، الرقم : 11119، 11227، 11578، والحاکم في المستدرک، 3 / 118، الرقم : 4576، والطبراني عن أبي سعيد رضي الله عنه في المعجم الأوسط، 3 / 374، الرقم : 3439، و في المعجم الصغير، 1 / 226، الرقم : 323، و في المعجم الکبير، 3 / 65، الرقم : 2678، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 133، الرقم : 30081، وأبويعلي في المسند، 2 / 303، الرقم : 10267، 1140، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 644، الرقم : 1553، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 66، الرقم : 194، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 163.

    53 / 53. عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ رَبِيْبِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ عَلَي النَّبِيِّ ﷺ : (إِنَّمَا يُرِيْدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِرَکُمْ تَطْهِيْرًا) (الأحزاب، 33 : 33)، فِي بَيْتِ أمِّ سَلَمَةَ فَدَعَا فَاطِمَةَ، وَ حَسَنًا، وَ حُسَيْنًا فَجَلَّلَهُمْ بِکِسَاءٍ وَ عَلِيٌّ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَجَلَّلَهُ بِکِسَاءٍ. ثُمَّ قَالَ : اللَّهُمَّ، هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي، فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَ طَهِرْهُمْ تَطْهِيْرًا، قَالَتْ أمُّ سَلَمَةَ : وَ أَنَا مَعَهُمْ يَا نَبِيَّ اللهِ، قَالَ : أَنْتِ عَلَي مَکَانِکِ وَ أَنْتِ عَلَي خَيْرٍ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

    وَقَالَ أَبُوعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

    ’’حضور نبی اکرم ﷺ کے پروردہ حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اُم المؤمنین اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر حضور نبی اکرم ﷺ پر یہ آیت ’’اے اہل بیت! اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح) کی آلودگی دور کر دے اور تمہیں خوب پاک و صاف کر دے‘‘ نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے سیدہ فاطمہ اور حسنین کریمین سلام اللہ علیہم کو بلایا اور انہیں اپنی کملی میں ڈھانپ لیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے پیچھے تھے، آپ ﷺ نے انہیں بھی اپنی کملی میں ڈھانپ لیا، پھر فرمایا : اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں، پس ان سے ہر قسم کی آلودگی دور فرما اور انہیں خوب پاک و صاف کر دے۔ سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی : اے اللہ کے نبی! میں (بھی) ان کے ساتھ ہوں، فرمایا : تم اپنی جگہ رہو اور تم تو بہتر مقام پر فائز ہو۔‘‘ اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

    الحديث رقم 53 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن عن رسول اللہ ﷺ، باب : و من سورة الأحزاب، 5 / 351، الرقم : 3205، و في کتاب : المناقب عن رسول اللہ ﷺ، باب : فضل فاطمة بنت محمد ﷺ، 5 / 699، الرقم : 3871، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 134، الرقم : 3799.

    54 / 54. عَنْ عَبْدِ السَّلامِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ أَبِي الصَّلْتِ الْهَرَوِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُوْسَي الرِّضَا، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنهم، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : الإِيْمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ وَ قَوْلٌ بِاللِّسَانِ وَ عَمَلٌ بِالْأَرْکَانِ. قَالَ أَبُو الصَّلْتِ : لَوْ قُرِءَ هَذَا الإِسْنَادُ عَلَي مَجْنُوْنٍ لَبَرَأَ.

    رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ وَ الطَّبَرَانِيُّ وَ الْبَيْهَقِيُّ.

    ’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ایمان نام ہے دل سے پہچاننے، زبان سے اقرار کرنے اور ارکان پر عمل کرنے کا۔ (راوی) ابو صلت ہروی فرماتے ہیں : اگر اس حدیث کی سند پاگل پر پڑھ کر دم کی جائے تو وہ ٹھیک ہو جائے۔‘‘ اسے امام ابن ماجہ، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 54 : أخرجه ابن ماجة في السنن، المقدمة، باب : في الإيمان، 1 / 25، الرقم : 65، والطبراني في العمجم الأوسط، 6 / 226، الرقم : 6254، و في المعجم الأوسط، 8 / 262، الرقم : 8580، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 47، الرقم : 16، والمروزي في تعظيم قدر الصلاة، 2 / 742، والسيوطي في شرح سنن ابن ماجة، 1 / 8، الرقم : 65، وابن القيم في حاشية علي سنن أبي داود، 2 / 294.

    55 / 55. عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ فَاطِمَةَ أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا، فَحَرَّمَ اللهُ ذُرِّيَّتَهَا عَلَي النَّارِ.

    رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَزَّارُ وَأَبُونُعَيْمٍ.

    وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

    ’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بے شک فاطمہ نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کی اولاد کو آگ پر حرام کر دیا۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا اور کہا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

    الحديث رقم 55 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 165، الرقم : 4726، و البزار في المسند، 5 / 223، الرقم : 1829، و أبو نعيم في حلية الأولياء، 4 / 188، و المناوي في فيض القدير، 2 / 462.

    56 / 56. عَنِ الْمِسْوَرِ : أَنَّهُ بَعَثَ إِلَيْهِ حَسَنُ بْنُ حَسَنٍ عليه السلام يَخْطُبُ ابْنَتَهُ فَقَالَ لَهُ : قُلْ لَهُ فَيَلْقَانِي فِي الْعَتَمَةِ، قَالَ : فَلَقِيَهُ فَحَمِدَ اللهَ الْمِسْوَرُ وَ أَثْنَي عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ : أَمَا بَعْدُ وَ أَيْمِ اللهِ مَا مِنْ نَسَبٍ وَلاَ سَبَبٍ وَلاَ صِهْرٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَسَبِکُمْ وَ سَبَبِکُمْ وَ صِهْرِکُمْ وَلَکِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي يَقْبِضُنِي مَا يَقْبِضُهَا وَ يَبْسُطُنِي مَا يَبْسُطُهَا، وَ إِنَّ الْأَنْسَابَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَنْقَطِعُ غَيْرَ نَسَبِي وَ سَبَبِي وَ صِهْرِي وَ عِنْدَکَ إِبْنَتُهَا وَلَوْ زَوَّجْتُکَ لَقَبَضَهَا ذَلِکَ فَانْطَلَقَ عَاذِرًا لَهُ.

    رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

    وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

    ’’حضرت عبید اللہ بن ابی رافع سے حضرت مسور رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت حسن بن حسن علیہ السلام نے انہیں بلا بھیجا اپنی بیٹی کی منگنی کرنے کے لئے آپ نے ان سے کہا کہ آپ رات کے وقت مجھے ملیں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ پس وہ ان سے ملے پھر حضرت مسور رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی پھر کہا : خدا کی قسم کوئی ایسا نسب اور نہ ہی سبب اور نہ ہی سسرالی رشتہ ایسا ہے جو مجھے آپ کے نسب، سبب اور سسرال سے بڑھ کر پیارا ہے مگر یہ کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جو چیز اسے پریشان کرتی ہے وہ مجھے بھی پریشان کرتی ہے اور جو چیز اسے خوش کرتی ہے وہ مجھے بھی خوش کرتی ہے اور بے شک انساب قیامت کے روز منقطع ہو جائیں گے سوائے میرے نسب، سبب اور سسرال کے اور تمہارے پاس حضرت فاطمہ کی بیٹی ہے (یعنی تمہاری بیٹی گویا ان کی بیٹی ہے) اور اگر میں اس سے شادی کرتا ہوں تو یہ چیز انہیں نا خوش کرے گی اور پھر وہ معذرت کرتے ہوئے چل پڑے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

    الحديث رقم 56 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 172، الرقم : 4747.

    57 / 57. عَنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ حَنْطَبٍ قَالَ : خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِالْجَحْفَةِ فَقَالَ : أَلَسْتُ أَوْلَي بِأَنْفُسِکُمْ؟ قَالُوْا : بَلَي يَا رَسُوْلَ اللهِ، قَالَ : فَإِنِّي سَائِلُکُمْ عَنِ اثْنَيْنِ : عَنِ الْقُرَآنِ وَعَنْ عِتْرَتِي. أَلاَ وَلاَ تَقَدَّمُوْا قُرَيْشًا فَتَضِلُّوْا وَلاَ تَخْلُفُوْا عَنْهَا فَتَهْلِکُوْا وَلاَ تُعَلِّمُوْهَا فَهُمْ أَعْلَمُ مِنْکُمْ قُوَّةَ رَجُلَيْنِ مِنْ غَيْرِهِمْ. لَوْلاَ أَنْ تَبْطُرَ قُرَيْشٌ لَأَخْبَرْتُهَا بِمَا لَهَا عِنْدَ اللهِ خِيَارُ قرَيْشٍ خِيَارُ النَّاِس. رَوَاهُ أَبُونُعَيْمٍ.

    ’’حضرت عبد اللہ بن حنطب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم ﷺ جحفہ کے مقام پر ہم سے مخاطب ہوئے اور فرمایا : کیا میں تمہاری جانوں سے بڑھ کر تمہیں عزیز نہیں ہوں؟ صحابہ نے عرض کیا : کیوں نہیں یا رسول اللہ! آپ ﷺ نے فرمایا : پس میں تم سے دو چیزوں کے بارے سوال کرنے والا ہوں. قرآن کے بارے اور اپنی عترت اہل بیت کے بارے۔ آگاہ ہو جاؤ کہ قریش پر پیش قدمی نہ کرو کہ تم گمراہ ہو جاؤ اور نہ انہیں سکھاؤ کہ وہ تم سے زیادہ جانے والے ہیں اور اگر قریش فخر نہ کرتے تو میں ضرور ان کو اللہ کے ہاں ان کے مقام کے بارے بتاتا قریش میں بہترین لوگ تمام لوگوں سے بہترین ہیں۔‘‘ اسے امام ابونعیم نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 57 : أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 9 / 64، و ابن الأثير في أسد الغابة، 3 / 147، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 5 / 195.

    58 / 58. عَنْ عَلِيِّ رضي الله عنه : أَنَّهُ دَخَلَ عَلَي النَّبِيِّ ﷺ، وَقَدْ بَسَطَ شَمْلَةً، فَجَلَسَ عَلَيْها هُوَ وَفَاطِمَةُ وَعَلِيٌّ وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ، ثُمُّ أَخَذَ النَّبِيُّ ﷺ بِمَجَامِعِهِ فَعَقَدَ عَلَيْهِمْ ثُمَّ قَالَ : اللَّهُمَّ، ارْضَ عَنْهُمْ کَمَا أَنَا عَنْهُمْ رَاضٍ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

    ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ درآں حالیکہ آپ ﷺ نے چادر بچھائی ہوئی تھی۔ پس اس پر حضور نبی اکرم ﷺ (بنفسِ نفیس) حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین علیھم السلام بیٹھ گئے پھر آپ ﷺ نے اس چادر کے کنارے پکڑے اور ان پر ڈال کر اس میں گرہ لگا دی۔ پھر فرمایا : اے اللہ! تو بھی ان سے راضی ہو جا، جس طرح میں ان سے راضی ہوں۔‘‘ اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 58 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 348، الرقم : 5514، و الهيثي في مجمع الزوائد، 9 / 169.

    59 / 59. عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ : کَانَ آخِرَ مَا تَکَلَّمَ بِهِ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَخْلِفُوْنِي فِي أَهْلِ بَيْتِي. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

    ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آخری چیز جو حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمائی وہ یہ تھی کہ مجھے میرے اہل بیت میں تلاش کرو۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 59 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 157، الرقم : 3860، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 163.

    60 / 60. عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَوَّلُ مَنْ أَشْفَعُ لَهُ مِنْ أمَّتِي أَهْلُ بَيْتِي ثُمَّ الْأَقْرَبُ مِنَ الْقُرَيْشِ، ثُمَّ الْأَنْصَارُ، ثُمَّ مَنْ آمَنَ بِي، وَاتَّبَعَنِي مِنَ الْيَمَنِ، ثُمَّ سَائِرُ الْعَرَبِ ثُمَّ الْأَعَاجِمُ وَ أَوَّلُ مَنْ أَشْفَعُ لَهُ أوْلُوْا الْفَضْلِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

    ’’حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اپنی امت میں سے سب سے پہلے جس کے لئے میں شفاعت کروں گا وہ میرے اہل بیت ہیں، پھر جو قریش میں سے میرے قریبی رشتہ دار ہیں، پھر انصار کی پھر ان کی جو یمن میں سے مجھ پر ایمان لائے اور میری اتباع کی، پھر تمام عرب کی، پھر عجم کی اور سب سے پہلے میں جن کی شفاعت کروں گا وہ اہل فضل ہوں گے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

    الحديث رقم 60 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 421، و الديلمي في مسند الفردوس، 1 / 23، الرقم : 29، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 380.

    61 / 61. عَنْ أَبِي بَرْزَةَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لاَ يَنْعَقِدُ قَدَمَا عَبْدٍ حَتَّي يُسْأَلَ عَنْ أَرْبَعَة : عَنْ جَسَدِهِ فِيْمَا أَبْلَاهُ، وَعُمْرِهِ فِيْمَا أَفْنَاهُ، وَ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اکْتَسَبَهُ وَ فِيْمَا أَنْفَقَهُ، وَعَنْ حُبِّ أَهْلِ الْبَيْتِ فَقِيْلَ يَا رَسُوْلَ اللهِ، فَمَا عَلاَمَةُ حُبِّکُمْ فَضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَي مَنْکَبِ عَلِيٍّ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

    ’’حضرت ابوبرزہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آدمی کے دونوں قدم (روزِ قیامت) اس وقت تک استقامت نہیں پاتے جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے سوال نہ کر لیا جائے اس کے جسم کے بارے میں کہ کس چیز میں اس نے اس کو امتحان میں ڈالا اور اس کی عمر کے بارے میں کہ کس چیز میں اس نے اس کو فنا کیا اور اس کے مال کے بارے میں کہ کہاں سے اس نے اسے کمایا؟ اور کس چیز میں اس نے اس کو خرچ کیا؟ اور اہل بیت کی محبت کے بارے۔ پس عرض کیا گیا : یا رسول اللہ ﷺ ! آپ کی محبت کی کیا علامت ہے؟ تو آپ ﷺ نے اپنا دست اقدس حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کندھے پر مارا۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔








    اہل بیت کے حقوق

    حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان درحقیقت علی، فاطمہ اور ان کی اولاد اور قیامت تک ان کی اولاد ہیں۔




    مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں سے محبت اور شفقت رکھیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم کتاب میں حکم دیا ہے:





    {کہہ دو کہ میں تم سے اس پر کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اپنے رشتہ داروں کی محبت کے}}۔
    [سورہ شوری، آیت: 23]





    خاندانِ نبوی کی محبت صرف اس خاندان کے سربراہ کی خاطر تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں...





    محبت کا یہ مسئلہ ماضی اور حال دونوں طرح کے بہت سے لوگوں کے ذہنوں پر چھایا ہوا ہے... اور اس میں انحراف نفسیاتی محبت اور فکری، دلی محبت میں فرق کرنے میں ناکامی کی وجہ سے تھا۔





    نفسیاتی محبت چیزوں کی ظاہری شکل پر ان کے اندرونی معنی اور ان کی خوبصورتی کے رازوں کو تلاش کیے بغیر ظاہری ردعمل ہے جو اس ردعمل کی ضرورت ہے۔





    نفسیاتی محبت کا تعلق صرف ظاہری شکلوں سے ہے، اور اس طرح ایک شخص کسی ایسی چیز سے محبت کر سکتا ہے جو اس کی ظاہری شکل اور جوہر میں خوبصورت ہو، جیسے کہ سونے اور ہیرے جیسے قیمتی جواہر کی تعریف کرنا... اور وہ ایسی چیز سے محبت کر سکتا ہے جو ظاہری شکل میں تو خوبصورت ہو لیکن جوہر میں نہ ہو، جیسے چمکدار مصنوعی زیورات کی ایک قسم سے محبت کرنا دونوں صورتوں میں ایسا نہیں ہوتا کہ یہ دونوں صورتوں میں خوبصورت ہو...





    ظاہری چیز پوشیدہ نہیں ہے اور نہ ہی چمک وہی ہے جو قدر کے برابر ہے.. عاشق کو جو کچھ ملتا ہے وہ فوری جذبات اور تعریف ہے جو بغیر کسی رحم کے جذبات کو جھاڑ دیتی ہے۔




    جہاں تک عقلی محبت کی بات ہے تو اس کا مطلب باطنی معانی اور اقدار کے سوا کچھ نہیں ہے، چاہے محبوب چیز کی ظاہری شکل میں کچھ بھی نہ ہو جسے حسن کہا جاتا ہے۔

    انسان اچھے آدمی سے محبت کرتا ہے خواہ وہ غریب ہی کیوں نہ ہو، جس طرح وہ اس سے محبت کرتا ہے چاہے وہ امیر اور خوبصورت کیوں نہ ہو۔

    وہ ایک پاک دامن عورت سے محبت کرتا ہے، خواہ وہ بہت خوبصورت نہ ہو یا اس کے پاس پیسے کم ہوں، جس طرح وہ ایک امیر، خوبصورت عورت سے محبت کرتا ہے، اسی طرح وہ ایک امیر، خوبصورت عورت سے محبت کرتا ہے۔

    وہ خوبصورت پھولوں سے اس لیے محبت نہیں کرتا کہ وہ میزیں اور محفلیں سجاتے ہیں، بلکہ اس لیے کہ ان کے خالق کی تخلیقی صلاحیتوں کے مفہوم گننے کے قابل نہیں ہیں۔

    وہ مال سے اس لیے محبت نہیں کرتا کہ یہ عیش و عشرت اور زینت کا ذریعہ ہے، بلکہ اس لیے کہ یہ کسی غریب کو مالا مال کر سکتا ہے، مومن کے ایمان کو محفوظ رکھتا ہے اور اس کے خاندان اور لوگوں میں کھوئے ہوئے شخص کی عزت کی حفاظت کرتا ہے۔

    اپنے آپ سے پیار کرنے اور اپنے دماغ اور دل سے پیار کرنے میں یہی فرق ہے۔

    لہٰذا، اس محبت کا اظہار روح کی صلاحیتوں، دماغ سے الگ، یا اس کی صلاحیتوں کو دماغ کی صلاحیتوں اور دل کے گہرے ضمیر کے ساتھ ملا کر مختلف ہوتا ہے...

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کی روحوں کو ان کے ذہنوں سے جوڑنے میں کامیابی حاصل کی۔

    اس نے ان کے جواب میں بعض مواقع پر اس محبت کا اظہار نفسیاتی طور پر کیا جب ان میں سے بعض نے ان سے کہا: کیا ہم آپ کو سجدہ نہ کریں؟ اس نے اعلان کیا کہ وہ ایک بندہ ہے اور خدا اور اس کے رسول کے سوا کچھ نہیں ہے، اور یہ کہ سجدہ کا حقدار صرف خدا ہے...




    ان سے ان کی ملاقات اور عمل میں ان کی مشابہت ان کی نفسیاتی محبت کو عقلی اور جذباتی محبت میں بدلنے کا ایک بڑا سبب تھی جو انصار کے الفاظ میں اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی: "خدا کی قسم، اے خدا کے رسول اگر آپ ہمیں یہ سمندر دکھائیں تو ہم آپ کے ساتھ اس کو عبور کر لیں گے ۔ "

    اس کے ساتھ ان کے معاہدوں میں یہ شرط تھی کہ وہ اس کی حفاظت کریں گے جیسا کہ وہ اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت کریں گے... اور انہوں نے اپنا خون خدا اور اس کے رسول سے اپنی محبت اور خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کے اظہار کے طور پر بہایا۔

    {جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔}۔

    [سورہ نساء، آیت:80]



    انہوں نے اس کی سنت اور قرآن کے مطابق کام کر کے اپنی محبت کا اظہار کیا، نہ انحراف کیا اور نہ ہی سست ہو کر۔

    وہ جانتے تھے کہ محبت قول و فعل میں، برتاؤ اور زینت میں اتفاق ہے۔ اور عمل کی راہ میں انہوں نے ہر اس زینت اور ہر رونق کو پامال کیا جس کی روح اپنے فریب اور گمراہی کے ذریعے چاہتی ہے اور اپنے مالک کو راہ راست سے ہٹانے کی کوشش کرتی ہے۔

    برسوں گزر گئے، اور خاندانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم عمل میں پیش پیش رہے، اور کچھ لوگوں نے ان کی نفسیاتی تعریف کی جو شور مچانے، خوشامد کرنے، ہجوم کو بڑھانے اور توہم پرستی پھیلانے میں دکھائی دی، یہاں تک کہ امام زین العابدین علی بن الحسین علیہ السلام نے کچھ انتہا پسند شیعوں سے کہا: "تم نے ہم سے محبت کی یہاں تک کہ تمھاری محبت ہم سے بڑھ گئی ۔ "

    یہ ناممکن ہے کہ ان کے لیے ان کی محبت ان کے لیے رسوائی کا باعث ہو کیونکہ وہ قول و فعل میں ان کے نمونے کی پیروی کرتے ہیں۔ سوائے اس کے کہ وہ کسی قسم کی فریب آمیز نفسیاتی توہم پرستی میں مبتلا نہ ہوں، جس نے امام کو اس بیان کی طرف راغب کیا۔



    شیعہ انتہاپسندوں نے امام کی عصمت اور امام کی آزادی کے بارے میں بارہا بیان دیا ہے۔




    قیامت کے دن اس کے پیروکاروں کے حساب کے مطابق، یہ وہ شہد کی مکھی ہے جو "موت " میں قاتلوں کے رہنما حسن الصباح کے ہاتھوں پوری طرح پختہ ہو گئی تھی ۔

    الوہیت کی صفات ائمہ، مبلغین اور درودیواروں میں، شیطان کی گاڑی، خود فریبی کے ساتھ مخلوط محبت کے خالص نفسیاتی اظہار کے طور پر سرکنے لگیں۔

    اس لیے انہوں نے امام زین العابدین سے پوچھا: امام کب بھیجا جائے گا؟ ان سے مراد علی رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے قیامت کے دن بھیجا جائے گا اور اسے صرف اپنی ہی فکر ہو گی اور سب سے زیادہ انصاف کرنے والے کے سامنے اسے کسی کی فکر نہیں ہو گی ۔

    خود فریبی پروان چڑھی، اور محبت کے اظہار کے طور پر لوگوں کو کام سے ہٹانے کا رواج جائز کام سے کوسوں دور دوسرے مظاہر میں پروان چڑھا... پیغمبر کے خاندان اور صالحین کی قبروں پر ایک مخصوص انداز میں مزار بنائے گئے جو دنیا کے ہر کونے میں تقریباً ایک جیسا تھا۔ چراغ جلائے گئے، بخور جلائے گئے، قربانیاں دی گئیں، اور جو لوگ ان سے فائدہ اٹھاتے تھے وہ ان کے آس پاس رہتے تھے، توہم پرستی پھیلاتے تھے، پیسے بٹورتے تھے، اور ہر وہ چیز گھڑتے تھے جو رازوں کی دنیا کے لیے روح کی تڑپ کو جگائے۔

    سچی بات یہ ہے کہ یہ طرز عمل کام کرنے سے عاجز تھا، دماغ کی اس مشکل سفر کو کرنے میں ناکامی تھی جس کے ذریعے وہ خدا پر یقین تک پہنچتا ہے۔ پس نفس نے اس کے لیے غیب کی دنیا سے یکے بعد دیگرے یقین کا آسان ذریعہ پیدا کیا۔ انسان کو صرف یہ کرنا ہے کہ مادی دنیا کے راز کا یقین ہو جائے اور پھر اس بندے کے لیے غیب میں یقین لکھ دیا جاتا ہے اور نہ اس سے تجاوز کرنا۔

    میں یہ کہنے والا پہلا نہیں ہوں۔



    لیکن عظیم نقاد اور امام الحارث بن اسد المحاسبی نے اپنی کتاب "آداب النفوس للمحاسبي" میں اس کی وضاحت کی ہے اور محبت کی گمراہی کا ٹھوس ثبوت قائم کیا ہے۔




    کسی بھی شکل میں سوائے اس کام کے جو خداتعالیٰ کی رضا کے مطابق ہو۔

    یہ کہتا ہے: بھوکا کھانا پسند کرتا ہے، اور پیاسے کو پانی پسند ہے، اور بھوکا اپنے سامنے کھانا رکھ کر سیر نہیں ہوتا، اور پیاسے کے گلے میں پانی لٹکانے سے سیر نہیں ہوتا، تاکہ پانی سے کچھ کھانے پینے کو حاصل کر سکے۔ پس اگر بھوکے اور پیاسے کے پاس کھانے پینے کا سامان لایا جائے اور ان دونوں میں سے کسی کو بھی دوسرے سے کچھ نہ ملے تو وہ بھوک اور پیاس کے اپنے دعوے میں جھوٹا ہے۔

    پس جو شخص خدا اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہے اگر وہ خدا اور اس کے رسول کے احکام کے مطابق عمل نہ کرے۔

    درحقیقت، ایک دوسرے سے محبت کرنے والوں کی دنیاوی دنیا میں یہی مشاہدہ ہوتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جو شخص کسی سے محبت کرتا ہے وہ اسے خوش کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے اور جب تک وہ مطمئن نہیں ہوتا وہ کرتا ہے۔

    تو کیا ہوگا اگر خدا اور اس کے رسول کی محبت خوش کرنے کی خواہش سے چیخ و پکار، موم بتیاں اور جھوٹی قسموں میں بدل جائے؟!!

    جیسا کہ المحصبی کہتے ہیں: " تم خدا کے قریب ہو جاؤ گے اس چیز سے جو خدا کو ناراض کرتا ہے۔"

    ہم تمام چاہنے والوں پر اس بے وقوفی کا الزام نہیں لگاتے اور سوچ میں ناپختگی کا الزام نہیں لگاتے... بلکہ وہ مخلوق کا ایک فرقہ ہیں جو جہالت میں اندھے، نامردی سے بہرے اور اپنی بے چارگی اور جہالت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ چنانچہ وہ اپنے اردگرد اور اپنے چاہنے والوں کے ارد گرد ایک راز کی دنیا پھیلانے لگے جس سے شاید محبت کرنے والے معصوم تھے۔ انہوں نے اپنے لیے محبوبوں کے لیے وہی دعویٰ کیا جیسا کہ اسرار کے مندر میں وہ محافظ قریب آتے تھے، اور انھوں نے انھیں خبردار کیا کہ ان کے اعمال پر اعتراض نہ کریں اس خوف سے کہ محبوب انھیں تباہی و بربادی سے دوچار کر دیں گے۔



    ہم راز کی دنیا میں ایسے اقوال سنتے آئے ہیں جو نہ تو اسلاف کے اقوال میں تھے، نہ قرآن میں نازل ہوئے اور نہ سنت میں ان کا ذکر ہے، اس راہ میں انحراف کے نتیجے میں جب...




    جاہل اپنے رب، اس کے رسول اور اپنے دین کے نیک لوگوں سے محبت کرتا ہے۔

    بشمول: محبوب کو منسوب کیا جاتا ہے خواہ وہ عیبوں سے بھرا ہو ۔

    "جو اعتراض کرے گا نکال دیا جائے گا "!!

    "اپنے شیخ پر اعتراض کرنے سے بچو، خواہ تم اسے کبیرہ گناہ کا مرتکب پاؤ، کیونکہ اس کی ایسی حالت ہے جس کے بارے میں تم نہیں جانتے"!!

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ مستحق تھے جب عمر رضی اللہ عنہ نے ان پر اعتراض کیا جب وہ نفاق کے سردار عبداللہ بن ابی سلول پر نماز پڑھنے گئے، جب ان کی وفات ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اعتراض کرنے سے منع نہیں فرمایا، بلکہ آپ کو جواب دیتے ہوئے ایک عقلمند، نرم مزاج اور شفیق استاد کی شان میں اپنا نقطہ نظر بیان فرمایا۔



    یہ اس کتاب کا مسئلہ ہے جسے امام ابن تیمیہ نے عقلی اور فقہی طور پر خطاب کرتے ہوئے مکتب امام علی علیہ السلام سے شیعہ انتہا پسندوں کے انحراف اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جاہل عاشقوں کے انحراف کو ظاہر کیا ہے۔




    [ابن تیمیہ اور ان کے مخالفین کے درمیان تنازعہ]

    امام ابن تیمیہ نے اس دور میں زندگی بسر کی جس میں ملت اسلامیہ کے حالات فکر و عمل میں بدل چکے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ کتاب خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے بھٹک گئی تھی۔ نتیجتاً، وہ قائدانہ کردار میں پیچھے رہ گیا جو خدا نے اس کے لیے مقرر کیا تھا اور اسے جہاد کے راستے پر چلنے کا حکم دیا۔ قوم نے دوسروں کی سوچ سے وہ چیز لے لی جس پر کتاب و سنت کا حکم نہیں تھا اس حد تک کہ اس نے اسلامی شریعت کے ان دو اہم ذرائع کو ترک کر دیا۔

    قوم، حکمرانوں اور حکمرانوں، علمائے کرام اور عوام الناس سے پرخلوص صدائے احتجاج بلند کی گئی کہ وہ اصلاح کی وہ روش اختیار کریں جس سے اس قوم کی حالت پہلے بہتر ہو گئی تھی، جو کہ قرآن و سنت کی طرف لوٹنا ہے اور صالح پیشواؤں کے فہم سے رہنمائی حاصل کرنا ہے اور قرآن و سنت میں موجود نشاۃ ثانیہ کے اصولوں اور تعمیری اجزا پر عمل کرنا ہے۔

    قوم کو جس بیماری نے مبتلا کیا وہ فکری جھوٹ اور خدا کے قانون اور اس کے رسول کی سنت کی جھوٹی اختراع تھی۔

    اس جھوٹی بدعت نے ان لوگوں کے درمیان تلخ کشمکش کا باعث بنا جو پیشروؤں، صحابہ اور تابعین کے طرز عمل کی طرف لوٹ کر اصلاح کی وکالت کرتے تھے، اور جنہوں نے اپنے آپ کو اپنی مرضی کے مطابق شامل کرنے اور حذف کرنے کی آزادی دی، حتیٰ کہ ان معاملات میں بھی جو درست نہیں تھے۔

    اس تصادم نے نظریے اور طرز عمل کے گرد گھومنے والے متعدد مکاتب فکر کے ظہور کی ضرورت پیش کی، یعنی اسلامی تحریک۔



    ان لڑائیوں میں سب سے زیادہ واضح اور واضح شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی فریاد تھی:

    آٹھویں صدی ہجری تصوف اور صوفیاء کے مقابلہ میں، جیسا کہ ابن تیمیہ نے اسے نظریات میں بدعنوانی اور طرز عمل میں بدعت کے بہت سے مظاہر کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

    اگرچہ ابن تیمیہ اور ان کے مخالفین کے درمیان مکالمہ گرم، تیز اور سخت تھا، اس لیے کہ ابن تیمیہ ایک ایسے حملے کی نمائندگی کرتے تھے جو حق کو واضح کرنے اور اسے باطل سے تمیز کرنے سے متعلق تھا، لیکن اس سے ان کے مخالفین اپنے زمانے کے صوفیاء پر حملوں میں ان سے اتفاق کرنے سے نہیں روک سکے۔

    جو کوئی بھی ابن تیمیہ کی تحریروں کو پڑھے گا وہ آسانی سے سمجھ جائے گا کہ وہ ابتدائی سنیوں کی طرف مائل تھے اور جائز تصوف کے شیخوں کی تعریف کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ابن عربی اور اس کے پیروکاروں پر تنقید کی اور روشن خیالوں کو صابیوں سے جوڑ دیا۔

    شیخ الاسلام ابن تیمیہ پر صوفیوں کی طرف سے سخت اور سخت دل ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔

    درحقیقت وہ نہ تو سخت مزاج تھے اور نہ ہی سخت، لیکن سلفیت کے جھنڈے تلے اتحاد فکر اور طرز عمل کی دعوت دیتے ہوئے ان کے اور مخالفین کے درمیان جو گرما گرم مکالمہ ہوا، اس نے ان کی شخصیت میں نرمی اور روحانیت کے بہت سے پہلوؤں کو چھایا۔ درحقیقت جب وہ ویران مساجد میں پناہ لیتا تھا تو وہ اپنے رب سے کسی معاملے میں اس کے لیے فکر کے قفل کھولنے کی دعا کرتے ہوئے کہتے تھے: "اے ابراہیم کے استاد، مجھے سکھاؤ ۔ "

    درحقیقت، ابن تیمیہ نے اپنے حملے کو ان مکاتب پر مرکوز کیا جن میں اوتار اور اتحاد کا وہم ظاہر ہوا، جیسے کہ ابن عربی، ابن سبین، ابن الفرید اور الحلاج کے مکاتب فکر۔

    ابن تیمیہ نے ان خیالات کا سراغ لگایا جنہوں نے الحلاج کو اپنے ہم عصروں یا اپنے دور کے قریبی لوگوں سے متاثر کیا، جیسے ابن بساویہ (369ھ) اور الحافظ البغدادی (463ھ) ۔



    اس نے الحلاج کی باطنیت اور اس کے جھوٹے دعووں کو ثابت کیا، جیسے شیطان کا فتویٰ، اور اس نے کیا کہا: "میں سچ ہوں۔" اس نے حلاج کے لیے صوفیوں کی معافی پر حملہ کیا، اور انکشاف کیا کہ الحلاج نے ان کو اپنے کہنے سے دھوکہ دینے کی کوشش کی: " اپنا خیال رکھو، اگر تم اپنے آپ کو حق کے ساتھ نہیں لگاؤ ​​گے تو یہ تم پر قبضہ کر لے گا باطل سے."



    یہ نہیں تھا کہ تیمیہ نے حلج کے مسئلہ پر اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا، بلکہ یہ تھا کہ اس نے شریعت کے معاملے پر فیصلہ کیا، کیونکہ اس نے اسلام سے حج کے ستون کو گرانے کی کوشش کی۔

    ہمیں ان برائیوں پر شدید افسوس ہے جو تصوف کے پیروکاروں کے ہاتھوں پڑی ہیں، جن کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ یہ خود ایمان کے لیے خطرہ ہے۔ ان خطرات کا خلاصہ اس طرح کیا جا سکتا ہے:

    1- بنیادی صوفی اصطلاحات تصوف کی دنیا کے گوشے گوشے سے پھوٹنے والے بہکاوے اور روحانی پاکیزگی کی پیروی کرنے والی شفافیت کی وجہ سے خطرناک حد تک ترقی کر چکی ہے جس نے مادی کثافت اور اس کے پس پردہ معانی کو چھپا رکھا ہے۔ یہ سب اصطلاحات میں ایک خطرناک ترقی کا باعث بنے ہیں، جس نے اسے اپنی صحیح اصل سے ہٹا کر ایسی غلط شاخوں کی طرف لے جایا ہے جن کی مذہب میں کوئی بنیاد نہیں ہے، ایسے وقت میں جب یہ بدعت کی لپیٹ میں ہے۔

    مثال کے طور پر، "شاگرد" کی اصطلاح لفظ "وِل " سے نکلی ہے، سائنسی طرز عمل کی اصطلاح میں، جسے ہم صوفی اصطلاحات کہہ سکتے ہیں، ایک ایسا عمل ہے جو عمل میں نیت سے پہلے ہوتا ہے۔ کرنے والا اپنے عمل کے لیے اپنی مرضی کا تعین کرتا ہے کہ وہ یہ عمل کیوں کر رہا ہے۔ جب وہ خدا کی مرضی کا تعین کر لیتا ہے تو وہ خدا کی مرضی کو ہر ناپاکی اور ہر خیال سے پاک کرنا شروع کر دیتا ہے جو اس ارادے کے ساتھ مل کر اسے خراب کر سکتی ہے۔

    یہ تعریف مرضی ہے، اور اس کا ایجنٹ شاگرد ہے۔ تاہم، یہ اصطلاح اس طرح تیار ہوئی کہ شاگرد راستے کا شاگرد بن گیا، اور پھر یہ اس طرح تیار ہوا کہ شاگرد ایک مخصوص شیخ کا شاگرد بن گیا۔ پس خدا کی مرضی سے لے کر شیخ تک ایسی آفتیں آئیں جن کی حد صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے اور جو علم میں پختہ ہیں۔



    2- اس اصطلاح کی خرابی کا نتیجہ خود ایمان پر حملہ آور ہوا۔ جاہل شیخ اپنے اردگرد اپنے شاگردوں کے جمع ہونے سے لالچ میں آ گیا، اور اس دنیاوی شان کو بچانے میں مشغول ہو گیا جس نے اپنے ارد گرد لوگوں کو جمع کیا، اس کے حکم کے پابند اور تعظیم کرنے والے۔

    اس کے حکم کے تابع، اس نے پھر شاگرد اور اپنے شیخ کے آداب کے لیے ہدایات اور اصول بنائے، بشمول:

    ج- اگر وہ اسے کبیرہ گناہ کرتے ہوئے دیکھے تو کیا اسے اپنے شیخ کے بارے میں برا خیال نہیں رکھنا چاہیے؟ یہاں، جوازات مختلف تھے۔

    بعض کہتے ہیں: شیخ کا خدا کے ساتھ یہ حال ہے کہ صرف خدا ہی جانتا ہے، اس لیے اس پر اعتراض کرنا جائز نہیں۔

    اور کون کہتا ہے کہ شیخ راہنما ہیں لیکن معصوم نہیں

    لیکن دونوں صورتوں میں، ہمیں نیکی کرنے اور برائی سے منع کرنے کے حکم کو معطل کرنے اور خدا، اس کے رسول، اس کی کتاب، مسلمانوں کے ائمہ اور ان کے عام لوگوں کو مخلصانہ نصیحت کرنے کے اصول کی کوئی معقول وجہ معلوم نہیں ہے۔

    ایک ایسے بوڑھے پر اعتراض کرنے سے کیونکر باز رہ سکتا ہے جس نے کبیرہ گناہ کیا ہو، جب اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کیا جائے تو اس سے باز نہیں آیا، عمر سے شروع کرتے ہوئے جب وہ منافقوں کے سردار کے لیے دعا کرنے گئے تھے، اور حدیبیہ کے معاہدے میں ان سے اور دوسروں کی طرف سے۔

    ب- وہ اپنے نمازی قالین پر نہ بیٹھے، اس کی موجودگی میں کھانا نہ کھائے، اور نہ زندگی کے اسباب استعمال کرے جو شیخ استعمال کرتے ہیں، ایسا نہ ہو کہ خدا کی نفرت اس پر نازل ہو!!؟؟

    انہوں نے اس کی وضاحت یہ کہہ کر کی کہ شیخ کی نماز کے قالین پر ایسی حالت ہو سکتی ہے کہ شاگرد اسے برداشت نہ کر سکے اور اس کے معاملات بگڑ جائیں!!

    یہ ایک جھوٹ ہے جس کی ہمیں اللہ کے قانون یا اس کے رسول کی سنت میں کوئی بنیاد معلوم نہیں ہے۔

    ج- یہ کہ وہ اپنے شیخ کی آنکھوں کے درمیان تصویر بناتا ہے جب وہ خدا کا ذکر کر رہا ہوتا ہے اور اس کی تصویر کو اس وقت تک نہیں جانے دیتا جب تک کہ وہ ذکر کے دوران غائب نہ ہو جائے... یہ صریح شرک ہے جس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔

    د- اپنے شیخ کے ہاتھ میں اس طرح ہونا جیسے ایک مردہ اس کے دھوبی کے ہاتھ میں، نہ ہلتا ​​نہ بولتا!!؟؟



    ح- اپنے شیخ کی آنکھیں بند کرکے اطاعت کرنا، خواہ وہ اس کے حکم کے پیچھے ظاہری حکمت کو نہ جانتا ہو!!؟




    اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہے جو شاگرد کے اپنے شیخ کے ساتھ صوفی طرز عمل کی کتابوں میں درج ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ... "فرد کی عبادت" یا مسلمان کی تذلیل اور اس کی فکر کو محدود کرنا، چاہے وہ نیکی کا حکم دے یا برائی سے روکے۔

    یہ وہ آفات ہیں جن میں صوفیانہ رویے کا ارتقاء ہوا ہے، جن میں سے کچھ یا تمام ابن تیمیہ کے دور میں موجود تھے، جو اس امام کو اسلام کا دفاع کرنے اور ان تمام وہموں کی تردید کرنے کا پورا حق دیتا ہے جو اسے قریب سے یا دور سے خطرہ لاحق ہیں، تاکہ اس بہانے کو روکا جا سکے اور جرم کو رونما ہونے سے پہلے روکا جا سکے۔

    تاہم، ہم نہیں جانتے کہ تصوف ہمارے موجودہ دور میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے فائدہ مند چیز بن گیا ہے... سوائے جاہل شیخوں کے جن میں سے مخلصین گم ہو چکے ہیں... اور خدا کا ذکر کرتے ہوئے ڈھول بجانے، رونے اور کپڑے اتارنے کی کافرانہ رسومات... پھر رقص و طنطنہ، پھر اس کے درمیان جنس کے مبہم حالات، پھر دنیا کے درمیان شہوت انگیزی کے واقعات۔ جس پر کوئی مخلوق اعتراض نہ کرے ورنہ اعتراض کرنے والے پر خدا کی لعنت ہو!!

    ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے دین اور دنیاوی زندگی میں سلامتی، ہر گناہ کی بخشش اور ہر معاملے سے حفاظت کا سوال کرتے ہیں۔



    الحمد للہ رب العالمین، اور درود و سلام ہو ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر، ان کی آل پر، ان کے تمام ساتھیوں پر، اور ان پر جو قیامت تک نیکی کے ساتھ ان کی پیروی کرتے ہیں۔




    [خاندان رسول کے حقوق پر پہلی کتاب]

    ...

    خدا کے نام سے جو بڑا مہربان، نہایت رحم کرنے والا ہے۔

    شیخ، امام، عالم، کارکن، اپنے زمانے میں منفرد، فرقوں کے مفتی، شیخ اسلام، تقی الدین ابو العباس احمد، شیخ کے بیٹے، امام، عالم، شہاب الدین عبد الحلیم، شیخ کے بیٹے، امام، عالم، مجد الدین عبد السلام ابن تیمیہ، رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ کہا:

    یہ کتاب ان مومن بھائیوں کے لیے ہے جو اللہ اور اس کے رسول کو اپنا ساتھی بناتے ہیں اور جو ایمان لائے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور رکوع کی حالت میں نماز ادا کرتے ہیں۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والوں کو اپنا دوست بنائے گا تو یقیناً اللہ کی جماعت ہی غالب رہے گی۔ وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتے ہیں، کیونکہ اللہ کی محبت اور اس کی اطاعت میں سے اس کے رسول کی محبت اور اطاعت ہے، اور اس کے رسول کی محبت اور اطاعت میں سے ان لوگوں کی محبت ہے جن سے رسول محبت کرتے ہیں اور ان کی اطاعت ہے جن کی اطاعت کا رسول حکم دیتا ہے۔

    جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے صاحبان امر کی اطاعت کرو۔ اور اگر تم کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے خدا اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم خدا اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی بہترین اور موزوں نتیجہ ہے۔}۔

    [سورہ نساء، آیت: 59]



    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میرے سردار کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے میرے سردار کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔

    [صحيح البخاري:2957 ،7137، صحيح مسلم:4747، 4749، سنن النسائى :4198، سنن ابن ماجه:2859، 3]





    اور اس نے کہا، خدا ان پر رحم کرے اور ان کو سلام کرے، جیسا کہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے: "اطاعت تو صرف نیکی میں کرنا ہے"۔

    [صحيح البخاري:7257-4340-7145، صحيح مسلم:4766-4765، سنن أبي داود:2625، سنن النسائى:4210]



    فرمایا: خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں ہے۔

    [شرح السنة للبغوي :2455]




    آپ پر خدا کی سلامتی، رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں۔ ہم اللہ کی حمد کرتے ہیں، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اور وہ تعریف کے لائق ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ہم پرہیزگاروں کے سردار اور خاتم النبیین محمد، اس کے بندے اور رسول پر درود بھیجتے ہیں، آپ پر کثرت سے درود و سلام بھیجیں۔ اس کے بعد:"

    [قرآن و سنت کے ذریعے مسلمانوں کا اتحاد]

    اللہ تعالیٰ نے محمد کو کتاب اور حکمت کے ساتھ بھیجا تاکہ لوگوں کو ان کے رب کے حکم سے اندھیروں سے روشنی کی طرف لایا جائے، اللہ تعالیٰ کے راستے کی طرف۔

    ارشاد باری تعالیٰ ہے: {یقیناً اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا جب کہ ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیات پڑھتا اور ان کا تزکیہ کرتا اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا، حالانکہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔

    [سورہ آل عمران، آیت: 164]



    ارشاد باری تعالیٰ ہے: {اور یاد کرو اللہ کی اس نعمت کو جو تم پر ہے اور جو اس نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے تاکہ تمھیں نصیحت کی جائے}

    [سورہ البقرہ، آیت: 231]



    اور اپنے نبی کی ازواج سے فرمایا: {اور یاد کرو جو تمہارے گھروں میں آیات الٰہی اور حکمت کی تلاوت کی جاتی ہے}

    [سورہ الاحزاب، آیت: 34]



    اور جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کے گھروں میں پڑھا کرتے تھے وہ یہ تھا: کتاب خدا اور حکمت۔



    خدا کی کتاب قرآن ہے اور حکمت وہ ہے جس کا اس نے اپنے الفاظ میں ذکر کیا ہے اور یہ اس کی سنت ہے۔ مسلمانوں کو دونوں کو سیکھنا چاہیے۔




    امام ترمذی اور دیگر نے امیر المومنین علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی روایت سے مشہور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”آزمائش ہوگی “ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ اس سے نکلنے کا کیا راستہ ہے؟ آپ نے فرمایا: " خدا کی کتاب، اس میں تم سے پہلے کی خبریں، تمہارے بعد آنے والی خبریں اور تمہارے درمیان فیصلہ ہے، یہ فیصلہ کن عنصر ہے، مذاق نہیں، جو اسے ظالموں کے درمیان چھوڑے گا، اللہ اسے توڑ دے گا، اور جو اس کے علاوہ کسی اور چیز میں ہدایت تلاش کرے گا، اللہ اسے گمراہ کر دے گا، یہ اللہ کی رسی ہے، اور یہ مضبوط رسی ہے، اور یہ اللہ کی رسی ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جو نہ وسوسے سے منحرف ہوتا ہے، نہ بار بار کہنے سے بوڑھا ہوتا ہے، اور نہ ہی اس کے عجائبات کا خاتمہ ہوتا ہے، جو اس پر عمل کرتا ہے، اس کو اجر ملتا ہے، اور جو اس پر عمل کرتا ہے، وہ راہ راست پر ہوتا ہے۔"

    [ترمذي :2906)، الدارمي:3334، 3335]


    اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا: {اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو}

    [سورة آل عمران, آية:103]


    آپ نے اپنی کتاب میں فرمایا: {یقیناً جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور فرقے بن گئے، تم ان میں سے کسی چیز میں نہیں ہو۔ }

    [سورة الأنعام, آية:159]


    اس نے ان لوگوں کی مذمت کی جو تقسیم ہو گئے اور گروہ اور فرقے بن گئے، اور اس نے ان لوگوں کی تعریف کی جنہوں نے انبیاء کے ایک فرقے کے طور پر خدا کی رسی کو جو اس کی کتاب ہے، کو مضبوطی سے تھامے ہوئے اور اکٹھے ہو کر آگے بڑھے۔



    جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {اور درحقیقت ابراہیم علیہ السلام ان کے پیروکاروں میں سے تھے} [سورة الصافات, آية:83]، اور ابراہیم انبیاء کے سردار ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

    {اور جب ابراہیم کو ان کے رب نے بعض احکام کے ساتھ آزمایا اور اس نے انہیں پورا کیا تو اس نے کہا کہ میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بناؤں گا۔ اس نے کہا اور میری اولاد میں سے؟ فرمایا میرے عہد میں ظالم شامل نہیں ہیں ۔

    [سورہ البقرہ، آیت: 124]



    ارشاد باری تعالیٰ ہے: {یقینا ابراہیم علیہ السلام ایک قوم تھے جو خدا کے فرمانبردار تھے، حق کی طرف مائل تھے اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھے۔}

    [سورہ النحل، آیت: 120]



    یہاں تک کہ اس نے کہا: {پھر ہم نے آپ کو وحی کی کہ ابراہیم کے دین کی پیروی کرو، حق کی طرف مائل ہو اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے}

    [سورہ النحل، آیت: 123]



    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو بیدار ہونے پر یہ کہنا سکھایا: "ہم اسلام کی فطرت، کلمہ توحید، ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین، اور ہمارے باپ ابراہیم کے طریقے سے بیدار ہوئے، جو ایک توحید پرست، مسلمان تھے، اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھے۔"

    [مسند احمد:15364، السنن الکبریٰ للنسائی:9745، الصحیحۃ:3096]


    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے کتاب اور اس کے ساتھ ملتی جلتی چیز دی گئی ہے، میں کسی آدمی کو اپنے پلنگ پر لیٹے ہوئے نہیں دیکھوں گا کہ یہ کہہ رہا ہو کہ ہمارے اور تمہارے درمیان یہ قرآن ہے، ہم اس میں جو چیز حلال پاتے ہیں اسے حلال کر دیتے ہیں، اور جو چیز اس میں حرام پاتے ہیں، اس کو ہم نے کتاب کے ساتھ دیا اور اس کے ساتھ ملتا جلتا بنا دیا ہے۔ یہ."

    [سنن أبي داود:4604، جامع الترمذي:2664، سنن ابن ماجه:12]




    یہ حدیث کتاب الٰہی کے موافق ہے کیونکہ اس کی کتاب میں مذکور ہے۔ "خدا ان پر رحمت نازل فرمائے"۔

    وہ کتاب اور حکمت کی تلاوت کرتا ہے، جو اسے کتاب کے ساتھ دیا گیا تھا۔

    اور اس نے اپنی کتاب میں حکم دیا ہے کہ ہم سب کو اس کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا چاہیے، اور اس نے تفرقہ اور اختلاف سے منع کیا ہے، اور اس نے حکم دیا ہے کہ ہم شیعہ بنیں، تفرقہ نہ کریں۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا:

    {اور اگر مومنوں میں سے دو گروہ لڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دو۔ لیکن اگر ان میں سے ایک دوسرے پر ظلم کرے تو ظلم کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔ پھر اگر وہ واپس آجائے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کراؤ اور عدل سے کام لو۔ بے شک اللہ عدل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ بے شک اللہ عدل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے } مومن بھائی بھائی ہیں پس اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔

    [سورۃ الحجرات، آیات: 9، 10]


    اس نے مومنوں کو بھائی بھائی بنایا اور لڑائی اور ظلم کے باوجود ان کے درمیان انصاف کے ساتھ صلح کرانے کا حکم دیا۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومنوں کی باہمی محبت، رحمدلی اور ہمدردی میں مثال ایک جسم جیسی ہے، اگر اس کا ایک حصہ بیمار ہو تو باقی جسم درد محسوس کرتا ہے اور بے خوابی کا شکار ہوتا ہے“۔

    [البخاري :6011، مسلم :2586]


    فرمایا: مومن کے لیے مومن عمارت کی مانند ہے جس کا ہر حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے۔

    [صحيح البخاري:6026-481-2446، صحيح مسلم:6586، جامع الترمذي:1928، سنن النسائى:2561]

    اور اُس نے اپنی انگلیاں آپس میں بند کر لیں۔



    یہ اسلام کے اصول ہیں، جو کتاب و حکمت ہیں، اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا اہل ایمان کے لیے ان سب پر عمل کرنا "واجب" ہے۔

    [گھر کے لوگ اور ان کی خصوصیات]

    گھر کے لوگ کون ہیں؟

    اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر خلفائے راشدین، ان کے اہل بیت، اولین اور ان کی پیروی کرنے والوں کا احترام واجب کیا ہے۔

    ارشاد باری تعالیٰ ہے: {اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ، میں تمہیں رزق دیتا ہوں اور تمہیں بخوشی رہائی دوں گا اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کا گھر چاہو تو یقیناً اللہ نے تم میں سے نیکو کاروں کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے ۔

    [سورة الأحزاب: آية:28]


    امام احمد، ترمذی اور دیگر نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو ڈھانپ لیا اور فرمایا: "اے اللہ، یہ میرے اہل بیت ہیں، تو ان سے نجاست دور کر اور ان کو خوب پاک کر۔"

    [جامع الترمذي:3205-3787-3871]



    اس کی سنت خدا کی کتاب کی وضاحت کرتی ہے، اسے واضح کرتی ہے، اس کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس کا اظہار کرتی ہے۔




    جب اس نے کہا: "یہ میرے خاندان ہیں"، اگرچہ قرآن کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ خطاب ان کی بیویوں سے تھا، لیکن ہم جانتے ہیں کہ اگرچہ اس کی بیویاں اس کے خاندان سے تھیں، جیسا کہ قرآن بتاتا ہے، یہ اس کے خاندان ہونے کے زیادہ مستحق ہیں، کیونکہ نسب کا رشتہ نکاح کے رشتہ سے زیادہ مضبوط ہے۔

    عرب اس قول کو کمال کے لیے استعمال کرتے ہیں، نہ کہ حکم کی اصل کے لیے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "فقیر وہ نہیں ہے جو گھومتا پھرے اور ایک لقمہ، ایک یا دو کھجور سے راضی ہو جائے، بلکہ مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال نہ ہو کہ اسے خود مختار بنا دے، اور نہ ہی کوئی اسے توجہ دے، اور نہ ہی اس کی طرف توجہ کرے اور نہ ہی لوگوں کو اس کی طرف توجہ کرے۔ اصرار سے۔"

    [صحيح البخاري:1476-1479-4539، صحيح مسلم:2393-2394، سنن أبي داود:1631، سنن النسائى:2574-2573-2572]


    انہوں نے وضاحت کی کہ یہ طواف کے برعکس مکمل غربت کے لیے مخصوص ہے، جس میں غربت مکمل نہیں ہوتی، کیونکہ کوئی ہے جو اسے کبھی کبھی دیتا ہے، حالانکہ وہ غریب بھی ہے۔

    کہا جاتا ہے: یہ عالم ہے، یہ دشمن ہے، اور یہ اس کے لیے مسلمان ہے جس نے اسے مکمل کر لیا، خواہ کوئی اور اس کے ساتھ شریک ہو لیکن اس سے کم ہو۔



    اس سے ملتا جلتا اس حدیث "میں" ہے جسے مسلم نے اپنی صحیح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ سے اس مسجد کے بارے میں پوچھا گیا جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میری یہ مسجد" یعنی مدینہ کی مسجد۔ مسجد حرام کے بارے میں اپنے بیان میں قرآن کے سیاق و سباق کے ساتھ: {اس میں کبھی کھڑے نہ ہو۔ جس مسجد کی بنیاد اول دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہو وہ تمہارے لیے زیادہ اس لائق ہے کہ تم اس میں کھڑے رہو۔

    اس میں وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو پاک کرنا پسند کرتے ہیں، اور خدا ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اپنے آپ کو پاک کرتے ہیں۔} [سورہ توبہ، آیت: 108] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسجد قبا ہے۔

    روایت ہے کہ آپ نے اہل قبا سے فرمایا: یہ کیا پاکیزگی ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے تمہاری تعریف کی ہے؟ انہوں نے کہا: "کیونکہ ہم اپنے آپ کو پانی سے صاف کرتے ہیں۔"

    [سنن ابن ماجہ:355، مستدرک حاکم:3287]



    لیکن اس کی مسجد قباء کی نسبت تقویٰ پر قائم ہونے کی زیادہ مستحق ہے، حالانکہ ان دونوں کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی تھی، اور وہ مسجد حرام سے زیادہ اس میں قائم ہونے کا مستحق ہے۔

    ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتہ کے دن سواری اور پیدل قبا تشریف لاتے تھے۔ وہ جمعہ کے دن باجماعت نماز کے لیے اپنی مسجد میں کھڑے ہوتے اور پھر ہفتہ کے دن کھڑے ہوتے۔ اور ان میں سے ہر ایک میں تقویٰ پر قائم ہونے والی مسجد میں کھڑا ہوتا۔

    [صحيح البخاری:1191-3425،صحيح مسلم:512]





    اور جب اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا کہ وہ اپنے گھر والوں سے نجاست کو دور کرنا اور انہیں اچھی طرح پاک کرنا چاہتا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کے سب سے قریبی اور سب سے زیادہ عقیدت رکھنے والوں کو بلایا، یعنی: علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہا، اور جوانوں کے جنت کے سردار۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے یہ ملایا کہ اس نے ان کے لیے طہارت کا حکم دیا تھا، اور یہ کہ اس نے ان کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا کمال مقرر کیا تھا۔ اسی سے ہمیں معلوم ہوا کہ ان سے نجاست کو دور کرنا اور ان کا تزکیہ کرنا خدا کی طرف سے ایک نعمت ہے جو اس نے انہیں عطا کی ہے اور خدا کی طرف سے ایک رحمت اور ایک ایسی نعمت ہے جسے وہ اپنی طاقت اور طاقت سے حاصل نہیں کر سکتے تھے، کیونکہ اگر ایسا ہوتا۔







    No comments:

    Post a Comment