’’اہلِ بیت‘‘ کا معنی ہے: گھر والے، جیسے کہا جاتا ہے:’’اہلِ مکہ‘‘ مکہ والے، ’’اہلِ علم‘‘ علم والے، گھر والوں میں سب سے پہلے بیویاں آتی ہیں، اس لیے اہلِ بیت میں سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیویاں (ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن ) داخل ہیں، سورۂ احزاب کی آیتِ تطہیر ’’إِنَّمَا یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمَ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ‘‘ بھی ازواجِ پیغمبر رضی اللہ عنہن کے حق میں اُتری، جیسا کہ آگے پیچھے کی تمام آیات سے واضح ہے۔ (روح المعانی)
صحابیِ رسول حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ:
’’نساء ہٗ من أہل بیتہٖ‘‘ کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں آپ کے اہل بیت ہیں۔ ‘‘(تفسیر ابن کثیر،ج: ۳، ص:۵۰۲۔ کنزالعمال،ج: ۱۱، ص:۵۸۶)
علامہ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں:
’’وہٰذا نص في دخول أزواج النبي صلی اللہ علیہ وسلم في أہل البیتؓ ہاہنا۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر)
’’یہ آیت ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے اہل بیت میں داخل ہونے پر نص ہے۔‘‘
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ تحریر فرماتے ہیں:
’’چونکہ آگے پیچھے سارا ذکر ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کا چل رہا ہے، اس لیے وہ تو اہلِ بیتؓ میں براہِ راست داخل ہیں، لیکن الفاظ کے عموم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیاں اور ان کی اولاد بھی داخل ہیں۔‘‘ (آسان ترجمہ قرآن، تفسیر آیۂ تطہیر)
البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بچوں کو بھی چادر میں لے کر اہلِ بیتؓ کی اس تطہیر و تقدُّس میں شامل فرمایا، چنانچہ درج ذیل روایت ملاحظہ فرمائیں:
’’عَنْ عَائِشَۃَ رضي اللہ عنہا قَالَتْ: خَرَجَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم غَدَاۃً وَ عَلَیْہِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ، مِنْ شَعْرٍ اَسْوَدَ. فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ رضي اللہ عنہما فَاَدْخَلَہٗ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَیْنُ رضي اللہ عنہ فَدَخَلَ مَعَہٗ، ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَۃُ رضي اللہ عنہا فَاَدْخَلَہَا، ثُمَّ جاَءَ عَلِیٌّ رضي اللہ عنہ فَاَدْخَلَہٗ، ثُمَّ قَالَ : ’’إِنَّمَا یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا‘‘ (الاحزاب:۳۳) (صحیح مسلم)
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت ایک اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے تو آپ کے پاس حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور وہ بھی ان کے ہمراہ چادر میں داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی اس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیتِ مبارکہ پڑھی: اے اہلِ بیت! اللہ تعالیٰ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے اور تم کو (گناہوں سے) خوب پاک و صاف کر دے۔‘‘
’’عَنْ سَعْدٍ بْنِ اَبِي وَقَّاصٍ رضي اللہ عنہ قَالَ: لَـمَّا نَزَلَتْ ہٰذِہِ الآیَۃُ: (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَ کُمْ)، (آل عمران، :۶۱)، دَعَا رَسُوْلُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَلِیًّا وَ فَاطِمَۃَ وَ حَسَنًا وَ حُسَیْنًا فَقَالَ: اللَّہُمَّ، ہَؤُلَاءِ اَہْلِيْ۔‘‘ (صحیح مسلم، جامع ترمذی)
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیتِ مباہلہ نازل ہوئی، یعنی: ’’آپ فرما دیں: آؤ! ہم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے۔‘‘ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا، پھر فرمایا: یا اللہ! یہ میرے اہل (بیت) ہیں۔‘‘
اس حدیث کو ’’حدیثِ کساء‘‘ کہا جاتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر (کساء) میں حضرت علی المرتضیٰ کرّمَ اللہ وَجْہَہ کو بھی لیا اور اہلِ بیت میں داخل فرمایا، کیونکہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بچوں کے حکم میں ہیں، ان کی پرورش آغوشِ نبوت میں ہوئی، چنانچہ نصاریٰ نجران کے خلاف مباہلہ میں بھی اُن کو لے گئے۔ آیتِ مباہلہ میں ’’أَبْنَاءَ نَا‘‘کے الفاظ میں سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ داخل و شامل ہیں، جیسا کہ معارف القرآن میں حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے۔
اہلِ بیت کی تیسری قسم وہ ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اعزازی طور پر اپنے اہلِ بیت میں شامل فرمایا، جیسا کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا کہ:
’’سَلْمَانُ مِنَّا اَہْلَ الْبَیْتِ۔‘‘ (مستدرک حاکم) ’’سلمان ہمارے اہل بیت میں سے ہیں۔‘‘
خلاصہ یہ ہے کہ اہلِ بیت اطہار میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیویاں، آپ کی اولاد (تین بیٹے اور چار بیٹیاں) اور اولاد کی اولاد (پانچ نواسے اور تین نواسیاں) حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ اور دیگر وہ شخصیات شامل ہیں، جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ بیت کے مفہوم میں داخل فرمایا۔ اہلِ بیت کا لفظ بولتے ہی ہمارا ذہن جو صرف خاندانِ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی طرف جاتا ہے، یہ شیعی تأثر معلوم ہوتا ہے اور غلط فہمی پر مبنی ہے، کیونکہ شیعہ شنیعہ کے نزدیک اہلِ بیت صرف حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے گھرانے کے لوگ ہیں، اسی لیے انہوں نے پنجتن پاک کا نعرہ لگایا، ھدانا اللہ إلی الصراط المستقیم۔
محبتِ اہلِ بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم
’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم: اَحِبُّوْا اللہَ لِـمَا یَغْذُوْکُمْ مِنْ نِعَمِہٖ، وَاَحِبُّوْنِيْ بِحُبِّ اللہِ عزوجل وَاَحِبُّوْا اَہْلَ بَیْتِيْ لِحُبِّيْ۔‘‘ (جامع ترمذی)
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے محبت کرو ان نعمتوں کی وجہ سے جو اس نے تمہیں عطا فرمائیں اور مجھ سے محبت کرو اللہ کی محبت کے سبب اور میری محبت کی وجہ سے اہلِ بیتؓ سے محبت کرو۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے اہلِ بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی سی ہے، جو اس میں سوار ہوگیا وہ نجات پاگیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ غرق ہوگیا۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی)
’’عَنْ اَبِيْ ہُرَیْرَۃَ رضي اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: مَنْ سَرَّہُ اَنْ یَّکْتَالَ بِالْمِکْیَالِ الْاَوْفَی إِذَا صَلّٰی عَلَیْنَا اَہْلَ الْبَیْتِ، فَلْیَقُلْ: اللّٰہُمَّ، صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ وَاَزْوَاجِہٖ اُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَذُرِّیَتِہٖ وَاَہْلِ بَیْتِہٖ کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی إِبْرَاہِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ.‘‘ (سنن ابی داؤد)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے یہ خوشی حاصل کرنا ہو کہ اس کے نامۂ اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے، جب وہ ہم اہلِ بیت پر درود بھیجے تو اسے چاہیے کہ یوں کہے:اے اللہ!تو درود بھیج حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات امہات المومنین پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذریت اور اہل بیت پر، جیسا کہ تو نے درود بھیجا حضرت ابراہیم ( علیہ السلام ) پر، بے شک تو بہت زیادہ تعریف کیا ہوا اور بزرگی والا رب ہے۔‘‘
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ارْقُبُوْا مُحَمَّدًا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ اَہْلِ بَیْتِہٖ۔‘‘ (صحیح بخاری:۳۷۱۳)
’’اہل بیتؓ کا اکرام و تعظیم کرکے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال اور لحاظ رکھو۔‘‘
حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’لکل شيء أساس و أساس الإسلام حب أصحاب رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم و حبّ أہل بیتہٖ۔‘‘ (کنزالعمال)
’’ ہر چیز کی ایک بنیاد ہوتی ہے اور اسلام کی اَساس و بنیاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت سے محبت کرنا ہے۔‘‘
حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک آنکھ اور اہلِ بیت اطہار رضی اللہ عنہم دوسری آنکھ ہیں، ایک کو پھوڑ دیں تو بھی اپنا نقصان ہے اور اگر دوسری آنکھ کو پھوڑیں تو بھی اپنا نقصان ہے، نیز اگر کسی خوب صورت نقش نین والے شخص کی بھی ایک آنکھ خراب ہو جائے تو دوسری آنکھ کا حسن بھی ختم ہوجاتا ہے۔
حضرت نانوتویؒ کے الفاظ یہ ہیں:
’’راہ کی بات یہ ہے کہ ہم کو دونوں فریق (صحابہ کرام اور اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم ) بمنزلہ دو آنکھوں کے ہیں، کس کو پھوڑیں؟ جس کو پھوڑیں اپنا ہی نقصان ہے، بلکہ جیسے کوئی حسین متناسب الاعضاء ہو کہ اس کی آنکھ ناک سب کی سب مناسب اور متناسب ہوں اور پھر اس کی ایک آنکھ بیٹھ جائے تو دوسری آنکھ کی زیب بھی جاتی رہے گی۔‘‘ (ہدیۃ الشیعہ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن
1- حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲۵؍ برس کی عمر میں مکہ میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی۔ اس طرح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پہلی خاتون تھیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں۔ ان کا نام خدیجہ اور لقب طاہرہ تھا۔ والد کا نام خویلد اور والدہ کا نام فاطمہ تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آنے سے قبل ان کا نکاح پہلے ابو ہالہ بن بناش تمیمی سے ہوا تھا۔ ان کے بعد عتیق بن عابد مخزومی کے نکاح میں آئیں۔ ان کے انتقال کے بعد۴۰برس کی عمر میں حرمِ نبوت میں داخل ہوئیں اور ام المؤمنین کا شرف حاصل ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملی تو نبوت کی تصدیق کے ساتھ ساتھ سب سے پہلے اسلام لانے کی سعادت انہوں نے ہی حاصل کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آنے کے بعد ۲۵؍برس تک زندہ رہیں۔ نبوت کے دسویں سال انتقال کیا۔
2- حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی، جو قریش کے ایک قبیلے عامر بن لوی سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کی پہلی شادی سکران بن عمرو سے ہوئی تھی، جن کا انتقال ہو گیا تو ۷؍ رمضان (بعض روایات میں شوال) سن۱۰ نبوی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں انتقال کیا۔ سخاوت و فیاضی ان کے نمایاں اوصاف تھے۔
3- حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں۔ والدہ کا نام زینب تھا، جن کی کنیت امِ رومان ہے۔ ان کا نام عائشہ، لقب صدیقہ اور کنیت ام عبد اللہ تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سن ۱۱؍نبوی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اور۱؍ہجری میں ان کی رخصتی ہو ئی۔ رخصتی کے وقت ان کی عمر نو برس تھی۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نو برس گزارے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے ۴۸سال بعد۶۷برس کی عمر رمضان المبارک ۵۸ھ میںسیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں انتقال ہوا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو علمی حیثیت سے عورتوں میں سب سے زیادہ فقیہ اور صاحب ِعلم ہونے کی بنا پر چند صحابہ کرامؓ پر بھی فوقیت حاصل تھی۔ فتویٰ دیتی تھیں اور بے شمار احادیث ان سے مروی ہیں۔
4- حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا
خلیفۂ راشد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں۔ والدہ کا نام زینب بنت مظعون رضی اللہ عنہا تھا۔ غزوۂ بدر میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے شوہر حضرت خنیس رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح ہوا۔ ۴۵ھ میں مدینہ میں انتقال کیا۔
5- حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا
اُم المساکین سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے والد کا نام خزیمہ تھا۔ اُم المساکین کنیت تھی، فقراء اور مساکین کے ساتھ فیاضی کرتی تھیں، اس لیے اس کنیت سے مشہور ہوگئیں۔ پہلے شوہر حضرت عبد اللہ بن جحش رضی اللہ عنہ تھے جو غزوۂ احد میں شہید ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح ہوا، لیکن صرف دو تین ماہ کے بعد ہی تیس (۳۰) سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نمازِ جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔
6- حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ عنہا
ان کا نام ہند اور کنیت ام سلمہ تھی۔ پہلے ابو سلمہ عبداللہ بن عبدالاسد رضی اللہ عنہ سے نکاح ہوا تھا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں دونوں اسلام لائے تھے۔ حبشہ اور مدینہ ہجرت بھی کی تھی۔ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ غزوۂ احد میں زخمی ہوئے اورشہید ہوگئے تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح ہوا۔علمی اعتبار سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بعد آپ کا نمبر آتا تھا۔ بہت سی احادیث ان سے مروی ہیں۔سن۶۳ھ (واقعۂ حرہ کے سال) ۸۴ ؍برس کی عمر میں انتقال ہوا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔
7- حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا
نام زینب اور کنیت ام الحکم تھی۔ والد کا نام جحش بن رباب اور والدہ کا نام اُمیمہ بنت عبدالمطلب تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں۔ اس طرح حضرت زینب رضی اللہ عنہا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی زاد تھیں۔ آپ کی دو بیوہ بھابھیاں بھی ازواج مطہراتؓ میں تھیں۔ (ام حبیبہ جو عبید اللہ بن جحش کی بیوہ تھیں اور زینب بنت خزیمہ جو عبد اللہ بن جحشؓ کی بیوہ تھیں)۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے ہوا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے، دونوں کے تعلقات خوشگوار نہ رہ سکے اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے طلاق دے دی۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا ذکر مبارک قرآن مجید میں نام کے ساتھ آیا ہے اور آپ واحد صحابی رسول ہیں جن کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا۔ ان کا انتقال۲۰ھ ۵۳ ؍سال کی عمر میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں ہوا۔
8- حضرت جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا
بنی مصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی تھیں۔ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح مسافع بن صفوان(ذی شفر) سے ہوا تھا، جو ان کے قبیلے سے تھا، لیکن غزوۂ مریسع میں قتل ہو گیا تو مسلمانوں کے ہاتھ آنے والے لونڈی و غلاموں میں حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں اور مالِ غنیمت کی تقسیم میں ثابت بن قیس کے حصے میں آئیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رقم دے کر آزاد کرایا اور ان سے نکاح کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کے بعد بنی مصطلق قبیلہ کے دیگر لونڈی غلام بھی آزاد کر دیئے گئے۔
حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ۶۵ ؍سال کی عمر میں ربیع الاول ۵۰ھ میں ہوا۔
9- حضرت امِ حبیبہ رضی اللہ عنہا
ان کا اصل نام رملہ تھا۔ حضرت ابو سفیان بن حرب رضی اللہ عنہ کی بیٹی اور سیدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما کی ہمشیرہ تھیں۔ والدہ صفیہ بنت العاص تھیں، جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی پھوپھی تھیں۔ پہلا نکاح عبید اللہ بن جحش سے ہوا اور مسلمان ہوئیں، حبشہ ہجرت بھی کی۔ عبید اللہ نے اسلام چھوڑ کر مسیحیت اختیار کرلی تو آپؓ نے اُس سے علیحدگی اختیار کرلی، پھر عبیداللہ کا انتقال بھی وہیں حبشہ میں ہوگیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کے پاس عمرو بن امیہ کو نکاح کے پیغام کے لیے بھیجا، نجاشی نے خود نکاح پڑھایا اور امِ حبیبہ رضی اللہ عنہا مدینہ آگئیں۔ سن۴۴ھ میں تہتر برس کی عمر میں اپنے بھائی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں انتقال ہوا۔
10- حضرت صفیہ بنت حی بن اخطب رضی اللہ عنہا
ان کا اصل نام زینب تھا، جو غزوۂ خیبر کے قیدیوں میں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے میں آئی تھیں جو قبیلہ بنو نضیر کے سردار حی بن اخطب کی بیٹی تھیں، ان کی ماں بھی رئیسِ قریظہ کی بیٹی تھیں۔ ان کی پہلی شادی مشکم القرظی سے ہوئی، اس سے طلاق کے بعد کنانہ بن ابی الحقیق کے نکاح میں آئیں جو جنگ خیبر میں قتل ہوا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا جنگ میں گرفتار ہو کر آئیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کر کے نکاح کیا۔ رمضان المبارک ۵۰ھ میں ۶۰ ؍سال کی عمر میں انتقال کیا۔
11- حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا
ان کے والد کا نام حارث بن حزن تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح سے قبل مسعود بن عمیر ثقفی سے نکاح ہوا، ان سے علیحدگی کے بعد ابورہم بن عبدالعزیٰ کے نکاح میں آئیں، جن کی۷ھ میں وفات ہوئی اور۷ھ میں ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سفرِ عمرہ کے دوران مقامِ سرِف پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح ہوا اور سفرِ عمرہ سے واپسی پر یہیں مقام سرِف پر رخصتی اور عروسی ہوئی، اور عجیب اتفاق کہ یہیں مقامِ سرف میں سن۵۱ھ میں انتقال فرمایا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں
1- سیدہ زینب رضی اللہ عنہا
یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی صاحبزادی ہیں، بعثتِ نبوی سے دس سال قبل پیدا ہوئیں، ان کا نکاح اپنے خالہ زاد حضرت ابوالعاص لقیط بن ربیع رضی اللہ عنہ سے ہوا۔
۸؍ہجری میں اکتیس سال کی عمر میں وفات پائی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نمازِ جنازہ پڑھائی، خود قبر مبارک میں اُترے اور اپنی لختِ جگر کو حزن و ملال کے ساتھ قبر میں اُتارا۔ (طبقات ابن سعد)
سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا ایک بیٹا حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ایک بیٹی سیدہ امامہ رضی اللہ عنہا تھیں۔
2- سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا
یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری صاحبزادی ہیں، ان کا نکاح حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے ہوا۔ سن ۲ھ میں جب غزوہ ٔ بدر ہوا، انہی دنوں میں وفات پائی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ انہی کی دیکھ بھال کی وجہ سے غزوۂ بدر میں شریک نہیں ہوسکے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعزازاً اُن کو بدریین میں شامل فرمایا اور غنائم سے حصہ بھی دیا۔
سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا ایک بیٹا ہوا، جس کا نام عبداللہ رضی اللہ عنہ تھا۔
3- سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا
حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعدسن ۳ھ میں ان کا نکاح بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ہوا۔ چھ برس حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہیں، سن۹ھ میں رحلت فرمائی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت صدمہ پہنچا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نمازِ جنازہ پڑھائی، تدفین کے بعد قبر پر بیٹھے تھے اور آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
4- سیدہ فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی، لاڈلی اور چہیتی صاحبزادی ہیں، نام فاطمہ اور لقب زہراء ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے۔‘‘ اور فرمایا کہ: ’’فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)
ان کا نکاح پندرہ یا اٹھارہ سال کی عمر میں ذی الحجہ سن۲ھ میں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے چھ ماہ بعد ۳؍ رمضان المبارک سن۱۱ھ میں وفات پائی۔ سیدنا ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیوی حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے غسل دیا، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور بعض روایات کے مطابق سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جنازہ پڑھایا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پانچ بچے ہوئے، تین بیٹے: حضرت حسن، حضرت حسین، حضرت محسن رضی اللہ عنہم ۔ دوبیٹیاں: سیدہ زینب اور سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہما ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تین صاحبزادے تھے :
1- حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ
ان کو طیب اور طاہر بھی کہتے ہیں۔ بچپن میں انتقال کرگئے۔
2- حضرت قاسم رضی اللہ عنہ
انہی کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ابو القاسم تھی۔بچپن میں وفات پاگئے۔
3- حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھی، صرف حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باندی حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے تھے۔ آپ کی ولادت باسعادت۸ھ میں ہوئی، مدینہ منورہ کے قریب مقامِ عالیہ کے اندر حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے شکم مبارک سے پیدا ہوئے، اس لیے مقامِ عالیہ کادوسرا نام مشربۂ ابراہیم بھی ہے۔ ان کی ولادت کی خبر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ابو رافع رضی اللہ عنہ نے مقامِ عالیہ سے مدینہ آکر بارگاہِ اقدس میں سنائی۔ یہ خو ش خبری سن کر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انعام کے طور پر حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کو ایک غلام عطا فرمایا، ان کے سر کے بال کے وزن کے برابر چاندی خیرات فرمائی اور ان کے بالوں کو دفن کرادیا اور ابراہیم نام رکھا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: ’’میں نے اپنے اہل و عیال پر نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )سے بڑھ کر کسی کو شفیق نہیں پایا، حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ عوالیِ مدینہ میں دودھ پیتے بچے تھے، نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) انہیں ملنے جایا کرتے تھے، ہم بھی نبی( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھ ہوتے، نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جب اس گھر میں داخل ہوتے تو وہ دھوئیں سے بھرا ہوتا تھا، (کیونکہ خاتونِ خانہ کا شوہر لوہار تھا) نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )انہیں پکڑ کر پیار کرتے اور کچھ دیر بعد واپس آجاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹوں میں سب سے زیادہ عمر انہوں نے پائی، تقریباً ڈیڑھ پونے دوسال کی عمر میں وفات پائی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ جنازہ پڑھائی، اورجنت البقیع میں حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبر کے پاس دفن فرمایا اور اپنے دستِ مبارک سے ان کی قبر پر پانی کا چھڑکاؤ کیا۔ (اسدالغابہ، ج:۱، ص:۴۹)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پانچ نواسے
1- حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما
جنت کی عورتوں کی سردار حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے بطن سے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے سب سے بڑے صاحبزادے ہیں، سن ۳ھ میں پیدا ہوئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام حسن رکھا، ساتویں دن ان کا عقیقہ کیا، ان کے بال مونڈوائے اور بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کی۔ صحابیِ رسول، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لاڈلے نواسے، جنتی جوانوں کے سردار، گلشنِ نبوت کے گلِ سرسبد اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھے۔ (اسدالغابہ)
سیدہ خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کی گود جب سبط ِ رسول خوشبوئے نبوت سے مہکی تو آنحضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس تشریف لائے، نومولود کو اپنے دست ِمبارک میں اُٹھایا، گھٹی دی، لعاب ِ دہن منہ میں ڈالا اور خوب صورت نام’’حسن‘‘ رکھا۔ نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے کان میں اذان دی اور ساتویں روز عقیقہ کیا۔ (الاستیعاب، اسدالغابہ)
آپ کا اسم سامی حسن، کنیت ابوعبداللہ اور’’ سید شباب أہل الجنۃ‘‘ (اہلِ جنت کے سردار) اور ’’ریحانۃ النبي‘‘ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خوشبودار پھول/خوشبوئے نبوت ) لسانِ نبوت سے ملے ہوئے القاب ہیں۔حضرت حسن رضی اللہ عنہ ’’خامس أہل الکساء‘‘ ہیں، یعنی ان پانچ مبارک شخصیات میں سے ہیں، آیتِ تطہیر اُترنے کے بعد جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت ِ تطہیر کے مصداق میں داخل اور شامل فرمایا۔ (اسدالغابہ،ج: ۱، ص:۴۹۶)
’’سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ایک بار سیدنا حضر ت حسن رضی اللہ عنہ کو کھیلتے ہوئے دیکھا تو پیار سے اُن کو کندھوں پر اُٹھالیا اور فرمایا کہ: حسن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہیں، علی ( رضی اللہ عنہ ) کے مشابہ نہیں ہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ دیکھ کر اور سن کر ہنس رہے تھے۔‘‘ (صحیح البخاری، رقم:۳۵۴۲، ۳۷۵۰)
رمضان المبارک سن۴۰ھ میں خلیفۂ راشد حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی، تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے، تقریباً چھ ماہ بعد کاتب ِ وحی سیدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح کرلی اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی، اپنے ساتھیوں کو بھی حکم ارشاد فرمایا کہ سیدنا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرلیں، یوں آپ کی بدولت اُمت کے دومنتشر گروہ جمع ہوگئے، اسلامی اتحاد کی ایک مضبوط شکل قائم ہوئی، اُمت کا بکھرا شیرازہ مجتمع ہوگیا، تمام امت ایک امیر اور امام عادل سیدنا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے امر کے تحت جمع ہوگئی اور اس سال کو ’’عام الجماعۃـ‘‘ (اتحاد و اتفاق کا سال) قرار دیا گیا۔ صلح کے بعد سیدنا حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ دونوں حضرات سواری پر بیٹھ کر کوفہ میں داخل ہوئے۔ (البدایہ والنہایہ، سیر اعلام النبلاء)
یہ دراصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی پوری ہوئی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی تھی:
’’إِنَّ ابْنِيْ ہٰذَا سَیِّدٌ وَلَعَلَّ اللہَ اَنْ یُصْلِحَ بِہٖ بَیْنَ فِئَتَیْنِ عَظِیْمَتَیْنِ مِنَ المُسْلِمِینَ۔‘‘ (صحیح البخاری، رقم:۲۷۰۴، ۳۷۴۶)
’’ میرا یہ سردار بیٹا مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں میں صلح کرائے گا۔‘‘
مشہور قول کے مطابق حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا انتقال ربیع الاول ۴۹ھ میں ۴۶ سال کی عمر میں ہوا۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بیٹوں کے نام یہ ہیں: حسن (حسن مثنیٰ)، زید، عمر، قاسم، عبداللہ، ابوبکر، عبدالرحمٰن، حسین، طلحہ ۔ پانچ بیٹیوں کے نام : فاطمہ، رقیہ، اُمِ سلمہ، امِ عبداللہ، ام الخیر ہیں۔رحمہم اللہ اجمعین
عمرؒ، قاسمؒ اور عبداللہؒ میدانِ کربلا میں شہید ہوئے۔
2- حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما
سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ جنت کی عورتوں کی سردار حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا اور خلیفۂ راشد سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے دوسرے صاحبزادے ہیں، آپ صحابیِ رسول، نواسۂ رسول، باغِ نبوت کے مہکتے پھول، جنتی جوانوں کے سردار اور شہید ِ کربلا ہیں، شکل و صورت میں اپنے والد سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے مشابہ تھے اور بدن مبارک حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن کے مشابہ تھا۔ (جامع الترمذی، رقم:۳۷۷۹، البدایۃ والنہایۃ، اسدالغابۃ)
آپ کا اسم سامی حسین، کنیت ابوعبداللہ اور’’ سید شباب أہل الجنۃ‘‘ (اہلِ جنت کے سردار) اور ’’ریحانۃ النبي‘‘ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خوشبودار پھول/خوشبوئے نبوت ) لسانِ نبوت سے ملے ہوئے القاب ہیں۔ آپ کی تاریخِ پیدائش میں مؤ رخین کے مختلف اقوال ہیں، مشہور قول ۴ ہجری ہے۔جنت کی عورتوں کی سردارحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی گود جب سبط ِ رسول خوشبوئے نبوت سے مہکی تو آنحضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس تشریف لائے، نومولود کو اپنے دستِ مبارک میں اُٹھایا، گھٹی دی، لعاب ِ دہن منہ میں ڈالا اور خوب صورت نام ’’حسین‘‘ رکھا۔ نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے کان میں اذان دی اور ساتویں روز عقیقہ کیا۔
(مستدرک ِ حاکم، رقم:۴۸۲۷۔ المعجم الکبیر: ۹۲۶۔ ابن کثیر، ج:۸، ص:۱۶۰)
حضرت حسین رضی اللہ عنہ ’’خامس أہل الکساء‘‘ ہیں، یعنی ان پانچ مبارک شخصیات میں سے ہیں، جن کو آیتِ تطہیر اُترنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت ِ تطہیر کے مصداق میں داخل اور شامل فرمایا۔
(اسد الغابہ،ج: ۱، ص:۴۹۶)
مؤرخ ابن کثیرؒ تحریر فرماتے ہیں:
’’حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم آپ کی تکریم و تعظیم کیا کرتے تھے، (باوجودیکہ اس وقت تک حضرت حسین رضی اللہ عنہ صغیر السن تھے، مگر یہ جانثارانِ رسول قرابت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کیوں کر لحاظ نہ کرتے؟) پھر آپؓ اپنے والدگرامی قدر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے، ان کے ساتھ جنگوں میں شرکت کی، مشاجرہ ٔ جمل اور صفین میں بھی شرکت کی، والد ماجد کی بہت توقیر کرتے تھے، ان کی شہادت تک اطاعت گزاری کی، پھر مصالحتِ سیدنا حسن با سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہما کو بھی تسلیم کیا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ان دونوں صاحبزادوں رضی اللہ عنہما کا خصوصی اکرام کرتے، انہیں خوش آمدید اور مرحبا کہتے، عطایا دیتے، دو لاکھ درہم تک ان کی خدمت میں پیش کرتے، حضرت حسن رضی اللہ عنہ وفات پاگئے تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ ہر سال وفد کے ساـتھ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آـتے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اُن کی خوب خدمت اور عزت کرـتے۔ خلافت ِ معاویہ رضی اللہ عنہ میں ہونے والے غزوہ ٔ قسطنطنیہ میں بھی آپ شریک تھے۔‘‘ (البدایۃ والنہایۃ، ج:۸، ص:۱۶۲)
آپ کی ازواجِ طاہرات علیہن الرحمۃ والرضوان میں لیلیٰ، حباب، حرار اور غزالہ شامل ہیں۔
اولا د درج ذیل ہے: صاحبزادیوں میں سُکَینہ، فاطمہ اور زینب۔ (سیرالصحابہؓ) بیٹوں میں: علی اکبر، علی اصغر، زید، ابراہیم، محمد، حمزہ، ابوبکر، جعفر، عمر، یزید۔ رحمہم اللہ اجمعین (تاریخ الائمہ، ص:۸۳)
آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت کا المناک اور دردناک واقعہ ۱۰ ؍محرم الحرام ۶۱ھ بروز جمعہ یزید کے دور ِ جور و جفا میں پیش آیا۔
3- حضرت محسن بن علی رضی اللہ عنہما
سیدنا حضرت محسن رضی اللہ عنہ خاتونِ جنت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا اور خلیفۂ راشد سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے تیسرے صاحبزادے ہیں، آپ صحابیِ رسول، نواسۂ رسول اور باغِ نبوت کے مہکتے پھول ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ یکے بعد دیگرے اپنے تین بیٹوں کا نام ’’حرب‘‘ رکھتے رہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیل فرماکر بالترتیب حسن، حسین اور محسّن نام رکھا اور فرمایا کہ: میں نے ان کے نام حضرت ہارون علیہ السلام کے صاحبزادوں شبیر، شبر اور مشبر کے ناموں پر رکھے ہیں۔ (المستدرک علی الصحیحین، رقم:۴۷۷۳، اسدالغابہ،ج: ۱، ص:۴۹۶)یہ بچپن میں وفات پاگئے تھے۔
4- حضرت علی بن ابی العاص رضی اللہ عنہما
آپ کا اسم گرامی علی تھا۔ آپ حضرت ابو العاص لقیط بن ربیع رضی اللہ عنہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی بیٹی سیدہ زینب بنت محمد رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے صاحبزادے اور امامہ بنت ابی العاص رضی اللہ عنہا کے بھائی تھے، قبیلہ بنی غاضرہ کی ایک عورت کا دودھ پیا تھا۔
رضاعت کی مدت پوری ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسے حضرت علی بن ابی العاص رضی اللہ عنہما کو اپنے زیرِ کفالت لے لیا تھا، ان کے باپ ابو العاص بن ربیع اس وقت مکہ میں مقیم تھے اور اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ ابو العاص بن ربیع جب غزوۂ بدر میں گرفتار ہوئے تو اس شرط پر رہا ہوئے کہ وہ اپنی بیوی کو مدینہ بھیج دیں گے، چنانچہ انہوں نے رہائی کے بعد زینبؓ بنت رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے دونوں بچوں (علیؓ بن ابو العاص اور امامہؓ بنت ابو العاص) کو بھی ساتھ بھیج دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسے کی تربیت اور پرورش خود فرمائی۔ (الاستیعاب)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتحِ مکہ کے روز شان و شوکت اور جاہ و جلال کے ساتھ مکرمہ میں داخل ہوئے تھے تواپنے پیچھے اپنی سواری پر علی بن ابو العاص رضی اللہ عنہما کو سوار کیا تھا، یوں آپؓ کو ردیفِ پیغمبر اور ہم رکابِ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہونے کا شرف حاصل ہے۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب)
علی بن ابو العاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں بلوغت کے قریب پہنچ کر وفات پائی۔ البتہ ابن عساکرؒ نے بعض اہلِ علم کا قول نقل کیا ہے کہ جنگِ یرموک کے موقع پر شہید ہوئے۔
5- حضرت عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہما
نواسۂ رسول سیدنا حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ ، حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری صاحبزادی سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے بطن مبارک سے خلیفۂ راشد حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں۔ انہی کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوعبداللہ ہے، بچپن میں چھ سال کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسیاں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تین نواسیاں ہیں:
1- سیدہ زینب بنت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہما
یہ حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی صاحبزادی ہیں، ان کا نکاح اپنے چچا زاد حضرت عبداللہ بن جعفر طیار رضی اللہ عنہما سے ہوا، یہ اپنے بھائی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ میدانِ کربلا میں تھیں، تمام مصائب نہایت صبر و استقلال سے برداشت کیے، ان کے بیٹے حضرت عدی v بھی میدانِ کربلا میں شہید ہوئے۔
2- سیدہ امِ کلثوم بنت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہما
حضرت فاطمہ اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہما کی لختِ جگر ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں پیدا ہوئیں۔
ان کا نکاح حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے ہوا، چالیس ہزار درہم حق مہر مقرر ہوا، اسی وجہ سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دامادِ علیؓ کہا جاتا ہے، ان کے بطن سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دو بچے ہوئے، زید اکبر اور رقیہ۔
سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا اور ان کے بیٹے زید کا انتقال ایک وقت میں ہوا، حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ کی امامت کے لیے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو آگے کیا۔
3- سیدہ اُمامہ بنت ابی العاص رضی اللہ عنہا
یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی بیٹی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے بطن سے حضرت ابوالعاص لقیط بن ربیع رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں پیدا ہوئیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بہت محبت کرتے تھے، ان کو کندھوں پر سوار کرکے نماز ادا فرماتے تھے، جب سجدہ کرتے تو اُتار دیتے، قیام میں پھر اُٹھالیتے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ہار بطور ہدیہ آیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: میرے گھر والوں میں جو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہوگا، میں اسے یہ ہار دوں گا، ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کا خیال تھا کہ یہ ہار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حصہ میں آئے گا، مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لاڈلی نواسی سیدہ اُمامہ رضی اللہ عنہا کو بلاکراپنے دست ِمبارک سے وہ ہار اُن کے گلے میں ڈال دیا۔ سیدہ امامہؓ کی آنکھ میں کچھ لگا ہوا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اسے صاف کیا۔ نجاشی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدمت میں چاندی کی انگوٹھی بھیجی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ انگوٹھی سیدہ امامہ رضی اللہ عنہا کو عطا فرمائی۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی وصیت کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے نکاح کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد سیدہ امامہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت مغیرہ بن نوفل رضی اللہ عنہ سے ہوا۔ (الاصابہ، الاستیعاب)
یہ سب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت ہیں، اہلِ ایمان کی آنکھوں کے تارے، دل کا سرور، ایمان کا مرکز و مِحوَر، سفینۂ نجات، محبت کا مرجع ہیں، مودت و عقیدت ان سے واجب اور اتباع ان کی ضروری ہے، تعظیم و توقیر ناگزیر اور اکرام و احترام لازم ہے، یہ سب تسلیم و رضا اور صبر و استقلال کے کوہِ گراں تھے، ان کی زندگی کا مقصدِ وحید رضائے الٰہی کا حصول تھا۔ جینا اور مرنا فقط منشائے الٰہی کے مطابق و موافق تھا، حق کے لیے ڈٹ جانا اور باطل سے لڑ جانا ان کا وصفِ ممتاز تھا، وہ دنیا و آخرت میں سرخرو ٹھہرے، نجات و ہدایت کی تمام راہیں انہی سے کھلتی ہیں اور انہی پر بند ہوجاتی ہیں۔
اہل سنت کی نظر میں اہل بیت کا مقام
آپ ﷺِ نے ابوبکر صدیق ؓ کے بارے میں فرمایا ، اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا ۔ میں سب کے احسانوں کا بدلہ دے چکا ہوں، ابوبکرؓ کا بدلہ خدا دے گا ۔ حضرت عمر ؓ کے بارے میں فرمایا ، عمر ؓ کی زبان پر حق بولتا ہے ۔ اورجس راستے پر عمرؓ جاتا ہے اس راستے پر شیطان نہیں جاسکتا ۔ اس طرح اور بہت ساری باتیں ان کے متعلق فرمائی ۔ حضرت عثمان ؓ کو ذو النورین کے لقب سے نوازا ۔ ان کو دو بیٹیاں دیں اور ان کے فوت ہونے پر فرمایا کہ اگر میری اور بیٹیاں ہوتیں تو وہ بھی میں ان کے عقد میں دے دیتا ۔ اور پھر فرمایا کہ آج کے بعد عثمانؓ جو کرے گا اس کو کوئی مسئلہ نہیں، وہ جنتی ہیں ۔ اس طرح حضرت علی ؓ کے بارے میں بھی فرمایا ، علیؓ تمہاری مثال ہم میں ایسی ہے جیسے عیسیٰ علیہ السلام کی انبیاءمیں تھی ۔ عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ زائد محبت کرنے والے لوگ وہ بھی گمراہ اور جو ان کے ساتھ عناد رکھنے والے لوگ تھے وہ بھی گمراہ ۔ تو تمہاری مثال اس طرح ہے ۔ اب دیکھ لیں ایسا ہوا یا نہیں ہوا ۔ تو حضرت علی ؓ کو با ب العلم فرمایا ۔ اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ دو چیزیں میں آپ کے پاس چھوڑے جارہا ہوں ، ایک دوسرے سے اونچا ہے ۔ ایک کتاب اللہ ہے دوسری میری اولاد ۔ حضرت امام احمد بن حنبل ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا حضرت علی ؓ کو ، کہ اے علیؓ مجھے حضور ﷺِ کی رشتہ داری اپنی رشتہ داری سے زیادہ محبوب ہے ۔ اس طرح حضرت عمر ؓ کا ارشاد ہے حضرت عباس ؓسے ۔ کہ آپ کا اسلام لانا مجھے اپنے باپ کے اسلام لانے سے زیادہ محبوب ہے ۔ کیونکہ آپ ﷺِ کو آپ کا اسلام لانا زیادہ محبوب تھا ۔ تو اللہ جل شانہ نے آپ ﷺ کی زبان اطہر سے پہلے ہی سے وہ باتیں نکلوا دیں یا کہلوا دیں تاکہ بعد میں ان لوگوں کی حفاظت ہو ۔ اہلسنت والجماعت الحمد اللہ سب کو مانتے ہیں ۔ وہ کسی کی تنقیص نہیں کرتے ۔ سب کو محفوظ مانتے ہیں ۔ ہاں تفضیل کو مانتے ہیں ، ہمارے تفضیل کا طریقہ یہ ہے کہ جو خلافت کی ترتیب ہے وہ فضیلت کی بھی ترتیب ہے ۔ کیونکہ صحابہ کرامؓ اسی ترتیب سے متفق چلے آرہے ہیں ۔ پہلے ابوبکر صدیق ؓ پر جمع ہوئے لہذا وہ سب سے افضل ۔ پھر حضرت عمرؓ پر جمع ہوئے تو وہی اس کے بعد افضل ، پھر حضرت عثمان ؓ پر جمع ہوئے وہی ان کے بعد افضل ۔ پھر بدرین صحابہ جمع ہوئے حضرت علیؓ پر ۔ تو وہ افضل ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ترتیب اسی ترتیب سے ہے جس ترتیب پر خلافت ہے ۔ میں آپ کو دو بزرگوں کی رائے بتاتا ہوں اس سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ ہمارے اہلسنت و الجماعت کا مسلک کیا ہے ۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ سے پوچھا گیا ، کہ عمر بن عبدالعزیز ؒ کی حکومت اچھی تھی یا حضرت معاویہ ؓ کی ۔ اب جذبات یہ کہتے ہیں کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒحضرت معاویہ ؓ کے حق میں بات نہ کرے کیونکہ ان کا اختلاف تھا حضرت علی ؓ سے اور شیخ عبد القادر جیلانی ؒ حضرت علی ؓ کی اولاد میں سے ہیں ۔ لیکن نہیں ۔ وہ فرماتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز ؒ کا مقام اس گھوڑے کے نتھنے میں پہنچنے والے گرد تک بھی پہنچے، جس پر بیٹھ کر حضرت معاویہ ؓ نے حضورر ﷺِ کی معیت میں جنگ لڑی ہے ، تو عمر بن عبدالعزیز کا بڑا مقام ہوگا۔ یہ ہے شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کا فتویٰ ۔ دوسری طرف عمر بن عبدالعزیز ؒ کا فتویٰ سن لیں ۔ اس کے سامنے کسی نے یزید کو امیر المومنین کہا ۔ تو حضرت عمر بن عبدالعزیز نے کہا تو یزید کو امیر المومنین کہتا ہے فرمایا اس کو بیس کوڑے مارو ۔ تو اس کو بیس کوڑے لگوادیے ۔حضرت معاویہ ؓ کی مذمت کرنے والے کو بھی بیس کوڑے لگوائے تھے ، اور جس نے یزید کو امیر المومنین کہا تھا اس کو بھی بیس کوڑے لگوائے ۔ معاملہ باپ بیٹے کا ہے ۔ حضرت معاویہ ؓ باپ ہیں ۔ یزید بیٹا ہے ۔ لیکن مسئلہ سادہ نہیں ہے ۔ مسئلہ صحابیؓ اور تابعیؒ کا ہے ۔فرق ظاہر ہے۔ یہی ہمارے اہلسنت والجماعت کا معیار ہے ۔ آپ جب بھی کسی حدیث کو سنیں گے تو کہیں گے عن فلاں ، عن فلاں ، عن فلاں اور جب صحابی کی بات آئے گی تو کہیں گے وھو الصحابی والصحابہ کلہم عدول ۔اس پربات ختم ہوجاتی ہے ۔ رجال کے تمام رجسٹر کو دیکھ لو ، اس میں تابعین کے بارے میں تو تفصیلات ہوں گی ، اس میں تبع تابعین کے بارے میں تفصیلات ہوں گی لیکن جب صحابی کی بات آئے گی تو الصحابہ کلہم عدول کا ایک ہی فتویٰ ملے گا ۔ اس کے متعلق دوسری بات ہی نہیں ہے ۔ تو ہمارا معیار یہ ہے کہ جب صحابہؓ کی بات ہو تو معاملہ او ر، اور جب تابعین اور اس کے بعد کی بات ہو ، تو بات اور۔ وہا ںپرعلمائے رجال سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ اب رجال کے علم کی بات کرتے ہیں ۔ فن رجال کا متفقہ فیصلہ ۔ تاریخ و فن رجال کی تمام کتابوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ یزید کی عدالت مجروح ہے اور وہ اس کا اہل نہیں کہ اس کی روایت قبول کی جائے چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی ٌ تقریب التھذیب ٌ میں فرماتے : یزید بن معاویہ بن ابی سفیان الاموی ابوخالد 60ہجری میں متولی خلافت ہوا اور 64ہجری میں مرگیا ۔پورے چالیس سال کا بھی نہیں ہوسکا ۔یہ اس کا اہل نہیں کہ اس سے کوئی حدیث روایت کی جائے۔ یزید کے بارے میں البدایہ و النھایہ کو دیکھ لیں۔لکھتے ہیں ۔
فانہ، لم یمھل بعد وقعۃ الحرۃ و قتل حسین الا یسیراً حتیٰ قصمہ اﷲ الذی قصم الجابرۃ قبلہ و بعدہ، انہ، کان علیماً قدیراً
یعنی بلا شبہ واقعہ حرہ اور امام حسین ؓ کو شھید کرنے کے بعد یزید کو ڈھیل نہیں دی گئی مگر ذرا سی تآنکہ حق تعالیٰ نے اس کو ہلاک کردیا جو اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی ظالموں کو ہلاک کرتا رہا ہے ۔بے شک وہ بڑا علم رکھتا ہے اور بڑی قدرت والا ہے۔ یاد رکھیئے البدایہ و النھایہ کسی شیعہ کی کتاب نہیں ہے بلکہ علامہ ابن کثیر ؒ جو تفسیر ابن کثیر کا مصنف اور ابن تیمیہ ؒ کا شاگرد ہے ،کی تصنیف ہے۔ تاریخ الخلفاء کو دیکھ لیں اور جو رجال کے علوم والے دوسری کتابیں ہیں ان کو بھی پڑھیں کہ یزید کے بارے میں اس میں کیا لکھا ہے ۔ تاریخ الخلفاء علامہ جلاالدین سیوطی ؒ کی لکھی ہوئی ہے ۔ انہوںنے اور بہت ساری کتابیں بھی لکھی ہیں ۔ حضرت جب تاریخ الخلفاء میں واقعہ حرہ اور شہادت حسین ؓ اور یزید کا خانہ کعبہ پر سنگ باری کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلم سے فوراً حالانکہ وہ انتہائی محتاط عالم ہیں ، بہت احتیاط سے بات کرتے ہیں بہت ہی احتیاط سے لکھتے ہیں لیکن یہاں حضرت کا قلم فوراً لکھنے لگتا ہے ، لعن اﷲ قاتلہ وا بن زیاد معہ و یزید ایضاً لعنت ہو اس کے قاتل پر اور ابن زیاد اور اس کے ساتھیوں پر اور یزید پر بھی ، اس طرح کے لعنت کے الفاظ نکلے ہیں ۔جہاں تک یزید پر لنتت کرنے کا تعلق ہے تو اس میں اہل سنت میں دو مذہب پائے جاتے ہیں ۔بعض اکابر ان پر لعنت سے رکتے ہیں اس لئے نہیں کہ اس کو اس سے بری سمجھتے ہیں وہ بھی ان کو شقی اور فاسق قرار دیتے ہیں ۔صرف یہ کہ اس پر لعنت کرنا کوئی فرض تو نہیں تو اس وقت میں کوئی اچھا کام کیوں نہ کیا جائے ،نیز اپنے انجام کا بھی پتہ نہیں ۔ہمیں کیا پتہ کہ ہمارا انجام کیسا ہے ۔بعض اکابر اس پر لعنت کو ازروئے قرآن و حدیث جائز سمجھتے ہیں کیونکہ جن چھ چیزوں کی وجہ سے حدیث شریف میں لعنت وارد ہوا ہے ان میں چار یزید میں یقینی پائے جاتے ہیں۔
سِتَّةٌ لَعَنَهُمْ اللَّهُ وَكُلُّ نَبِيٍّ مُجَاب الدعوۃ لزَّائِدُ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالْمُكَذِّبُ بِقَدَرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالْمُتَسَلِّطُ بِالْجَبَرُوتِ يُذِلُّ بِهِ مَنْ أَعَزَّ اللَّهُ - عَزَّ وَجَلَّ - وَيُعِزُّ بِهِ مَنْ أَذَلَّ اللَّهُ - عَزَّ وَجَلَّ وَالْمُسْتَحِلُّ لِحُرُمِ اللَّهِ - عَزَّ وَجَلَّ - وَالْمُسْتَحِلُّ مِنْ عِتْرَتِي مَا حَرَّمَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَالتَّارِكُ لِسُنَّتِي
اس حدیث کی تخریج ابوداؤد نے ،ابن ماجہ نے اور حاکم نے اپنی مستدرک میں کی ہے اور اس کو صحیح بتایا ہے۔اس میں تقدیر کے منکر ،ظلم سے حکومت حاصل کرنے والے جس کے ذریعے وہ معزز کو ذلیل ار ذلیل کو مغزز کرتا ہے اور اﷲ کے حرم کے حلال کرنے والے اور آپ کی اولاد کی حرمت کو حلال کرنے والے اور تارک سنت پر لعنت کی گئی۔شاہ ولی اﷲ ؒ نے اس حدیث شریف کو شرح تراجم بخاری میں نقل کیا ہے۔اب یزید نے ظلم سے حکومت حاصل کی ،صحابہ ؓ کوبے عزت اور قتل کیا ،مفسدین کو عزت دی ،حرمین شریفین اور اولاد رسول کی حرمت کو پامال کیا ۔اس لئے ان اکابر کے نزدیک اس پر لعنت جائز ہے۔امام غزالی ؒ اور ابن تیمیہ ؒ سے یزید کے بارے میں گو کہ کچھ نرمی منقول ہے جس کے وجوہات مختلف ہیں مثلاً امام غزالی ؒ تو شیطان پر بھی لعنت کے قایل نہیں اور ذکر اﷲ کو اس سے بہتر خیال کرتے ہیں لیکن ان دو بزرگوں کے اپنے ہم مسلکوں اور ان کے ہم پلہ بزرگ نے ان کی اس کمزوری کا توڑ کرکے ناصبیت کے لئے نرم گوشے کا موقع ختم کردیا ہے۔مثلاً غزالی ثانی اور امام غزالی ؒ کے استاد بھائی شمس الاسلام امام ابوالحسن علی بن محمد طبری الملقب عماد الدین المعروف بالکیا ہراسی ؒ نے جب ان سے یزید کے بارے میں فتویٰ پوچھا گیا تو لکھا یزید صحابی نہیں کیونکہ وہ حضرت عمر بن خطاب کے ایام خلافت میں پیدا ہوا تھا ۔رہا سلف کا اس پر لعنت کے بارے میں دو قول ہیں ۔ایک میں اس کے ملعون ہونے کے بارے میں اشارہ ہے اور ایک میں تصریح ہے ﴿اس طرح امام مالک ؒ اور امام ابوحنیفہ ؒ کے بارے میں بھی یہی لکھا﴾ اٰور اپنے بارے میں لکھا کہ ہم تو اس قول کے قائل ہیں جس میں اس پر لعنت کی تصریح ہے اور وہ کیوں ملعون نہیں ہوگا حالانکہ وہ نر د کھیلتا تھا، چیتوں سے شکار کرتا تھا ، شراب کا رسیا تھا ۔۔۔۔ تاریخ ابن خلکان﴾۔یزید کے بارے میں اگر کچھ زیادہ تحقیق درکار ہو تو متاخرین میں حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے ،مکتوبات شریف ، شاہ ولی ؒ کے تراجم بخاری میں شاہ عبد العزیز ؒ کے تضفہ اثنائ عشری، مفتی شفیع ؒ کا شہید کربلا اور حضرت مولانا عبد ارشید نعمانی ﷲ کے کتابوں اکابر صحابہ پر بہتان ، شہید کربلا پر افتراء اور یزید کی شخصیت اہل سنت کی نظر میں ملاحظہ فرمائیں ۔متقدمین میں البدایہ و النھایہ ، تاریخ الخلفائ ،لسان المیزان ،عقائد نسفیہ ،فتح الباری ،تاریخ ابن خلکان ، تاریخ ابن کثیر دیکھیئے۔
جو لوگ قسطنطنیہ والے حدیث سے استدلال کرکے یہ کہتے ہیں کہ اس جہاد میں جو شامل ہوئے ہیں ان کے لئے مغفورٌ لہ کی بشارت ہے اور یزید کی اس میں شرکت ثابت ہے تو اس کا جواب مولانا عبد الرشید نعمانی ؒ نے اپنی کتاب میں خوب دیا ہے کہ حدیث شریف اول جیش من امتی یغزون مدینۃ قیصر مغفورٌ لہم میں دو باتیں ہیں ایک’’ اول جیش‘‘ اور دوسرا ’’مدینۃ قیصر‘‘ ۔ان دونوں کو پہلے طے کرنا ہوگا کہ ان کا کیا مطلب ہے ۔اگر اول جیش سے محض جیش مراد ہے تو یہ لشکر اس لشکر جس کی امارت یزید کے ہاتھ میں تھی سے بہت پہلے عبدا لرحمن بن خالد بن ولید کے سرکردگی میں ہوئی جو 46ھ میں شہید کردیئے گئے تھے قسطنطنیہ ہو آئے تھے۔ جبکہ یزید جس لشکر میں تھے اس کو کسی نے بھی 49ھ سے پہلے نہیں بتایا۔خود محمود عباسی نے بھی نہیں ۔اس پہلے لشکر کی تفصیل سنن ابوداؤد میں دیکھی جاسکتی ہے۔اور اگر اس سے فتح اور کامرانی والا جیش مراد ہو تو پھر اس سے مراد سلطان محمد فاتح قسطنطنیہ مراد ہوسکتے ہیں جن کا عرف ہی یہی ہے۔اس لئے مولانا کی تحقیق کے مطابق یزید اس بشارت والی جہاد میں شامل نہیں تھا ۔بقول حضرت ؒ کے یہ شوشہ شارح بخاری مہلب المتوفی 433ھ نے چھوڑا تھا کہ اس حدیث سے یزید کی منقبت نکلتی ہے ۔اس وقت یہ اندلس میں قاضی تھے اور وہاں امویوں کی حکومت تھی۔اس علمی تحقیق کو ایک طرف رکھ کر اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ اس حدیث شریف سے یزید کی مغفرت کی بشارت نکلتی ہے تو ہم یزید کے کفر کے قائل نہیں بلکہ فسق کے قایل ہیں اور فاسق کو اﷲ چاہے تو معاف کرسکتا ہے لیکن فاسق کو اگر آخرت میں معاف بھی کردیا جائے لیکن اگر دنیا میں اس کا توبہ ثابت نہ ہو تو اس کو رحمۃ اﷲ علیہ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ رحمۃ اﷲ علیہ تکریم کا کلمہ ہے اور بدعتی اور فاسق کی تکریم ازروئے حدیث دین کے انہدام کے مترادف ہے ۔خود یزید کا بیٹا اس کو خلافت کا اہل نہیں سمجھتا تھا اور اس کی بری عاقبت کا خوف تھا جیسا کہ الصواعق المحرقہ میں اس کی تصریح ہے اور اموی خلیفہ عمر بن عبد العزیز ؒ کے سامنے جب یزید کو امیر امؤمنین کہا گیا تو اس کو بیس کوڑے لگوائے ۔
ہمارے علماء کرام فرماتے ہیں ، یزید کو فاسق کہنا تو ضروری ہے ، کافر نہیں ۔ کیوں ؟ یہ میں حضرت تھانوی کی تحقیق بتا رہا ہوں ۔ فرماتے ہیں کہ شہادت حسین ؓ کا الزام اگر ان کو نہیں دیا جاسکتا تو یہ الزام تو ان کو دیا جاسکتا ہے کہ اس کا بدلہ اس نے کیوں نہیں لیا ۔ اگر اتنا بڑا کام اس سے پوچھے بغیر ہوا تو ان کے قاتلوں سے انتقام کیوں نہیں لیا گیا ۔ دوسری بات مدینہ منورہ پر اس نے جو فوج کشی کرائی ، مدینہ منورہ کو تین دن تک فوج کے حوالے کیا کہ وہاں جو مرضی ہو وہ کرو ۔ اس کے علاوہ مسجد نبوی تین دن بند رہا ۔ اور وہاں ریاض الجنتہ میں گھوڑے باندھے گئے جو وہاں لید اور پیشاب کرتے رہے ، بہت سارے صحابہ کرام ؓاور صحابیات شہید ہوگئیں ، اور نعوذبااللہ بہت سارے صحابہ کرامؓ کی بیٹیوں کی عصمت دری ہوئی ۔ اصول یہ ہے کہ جس معیار کا جرم ہوتا ہے اسی معیار کی توبہ ہوتی ہے ۔ خفیہ گناہ کی توبہ خفیہ ہوسکتی ہے ، اور اعلانیہ گناہ کی توبہ اعلانیہ ہوتی ہے ۔عالم جب گناہ کرے گا تو وہ منبر پر بیٹھ کر اعلان کرے گا کہ یہ میں نے غلط کیا ہے ۔یہ نہیں کہ یہا ں منبر پر غلط بات کرلے اورجاکر کمرے میں کہہ دے کہ میں نے غلط بات کی ہے ۔ تو کیا وہ توبہ ہوگا ۔ کتاب میں کسی نے غلط لکھا ہے تو اس کو کتاب میں لکھنا پڑے گا کہ میں نے غلط لکھا ہے ۔ حضرت تھانوی ؓکی کتابیں دیکھ لیں ، جہاں جہاں غلطی ہوئی ، آگے جا کر کتاب شائع کرادی کہ یہاں یہاں پر غلطی ہوئی ہے ا س کو ٹھیک کردو ۔ حضرت سید سلیمان ندوی نے بھی ایسا کیا ۔ عالم کی توبہ اعلانیہ ہوتی ہے ۔ وہ علمی توبہ ہوتی ہے ۔ جس لیول پر غلطی ہوتی ہے اسی لیول کی توبہ ہونی چاہیے ۔ تو جو یزید کا حملہ تھا کیا اس کے بعد اس کا اس سے اس طرح کا توبہ ثابت ہے ؟کیونکہ اس کے فوراً بعد اس نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ جاو اب خانہ کعبہ پر سنگ باری کرو ۔ وہاں پر اس کی فوج نے سنگ باری کی اور اسی دوران یزید مر گیا ۔ حضرت عبد اﷲ بن زبیر ؓاس وقت ان کی فوج سے لڑ رہے تھے ۔ پتہ نہیں حضرت کو کشف ہوا یا اور کوئی بات ہوئی ، انہوںنے یزید کی فوج سے کہا جائو تمہارا فاسق امیر مر گیا ۔ تویہ فاسق کا لفظ بھی حضرت عبد اﷲ زبیرؓ کا ہے ۔ جب اسکی فوج نے پتہ کیا تو وہ واقعی مر گیا تھا ۔ تو وہ توبہ کیے بغیر مرا ہے ۔ اس لئے ان تین باتوں کی وجہ سے وہ فاسق ہے ۔ ابن حجر مکیؒ بھی الصواعق محرقہ میں بصراحت لکھتے ہیں ۔اور اس کو مسلمان کہنے کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ وہ فاسق تھا ، شریر تھا ، نشہ کا متوالا تھا اور ظالم تھا۔
ہاں البتہ فاسق کے لئے مغفرت کی دعا ہوسکتی ہے ۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں یا اللہ یزید کو بخش دے ۔ یہ دعا ہم بھی کرسکتے ہیں ۔ ہاں مسلما ن تھا،اس کے کفر کا کوئی یقینی ثبوت نہیں اور مسلمان چاہے کتنا ہی گناہگار کیوں نہ ہو اس کو کافر نہیں کہنا چاہیئے نیزاس کے لئے مغفرت کی دعا کرنی چاہیے ۔ کیونکہ اگر ایک مسلمان کو اللہ تعالیٰ جہنم لے جائے تو ہمیں کیا خوشی ہوگی ؟ بالکل نہیں ہوگی ۔ اور اگر یزید کو اللہ پاک جنتی بنا دے تو ہمیں خوشی ہوگی ۔ کیونکہ ہمیں اس کے ساتھ یہ دشمنی تو نہیں ہے ۔اگر اللہ پاک کسی کو معاف کرنا چاہیے بالکل صحیح ہے ، یہ اس کا کام ہے ۔ لیکن اصول تو نہیں بدلے جاسکتے ،فاسق کو فاسق کہنا چاہیے ۔ لیکن اللہ پاک فاسق کو بھی بخش سکتے ہیں ۔ اللہ پاک کی قدرت سے وہ نکلا ہوا نہیں ہے ۔ ہاں کافر کو نہیں بخشتا ۔ مشرک کو نہیں بخشتا ۔ یہ اللہ پاک کا قانون ہے ۔ یہاں سے اگر کوئی ایمان کے ساتھ چلا گیا تو اللہ پاک اس کو بخش سکتے ہیں ۔ لیکن ہم اپنے اصول کو تبدیل نہیں کریں گے ۔ ہم یزید کو رحمتہ اللہ علیہ نہیں کہہ سکتے ۔ اب جو لوگ یزید کو رحمتہ اللہ علیہ کہنے کے شوقیں ہوں ور اس کے مقابلے میں حسین ؓ کو باغی کہیں تو ان لوگوں کا مقام کیا ہوگا ۔وہ اس حدیث شریف جس میں یزید کو مغفور ثابت کیا جاتا لیکن علمی لحاظ سے یہ مشکوک ہے جیسا کہ بتایا گیا کی وجہ سے تو یزید کا کرام کرتے ہیں اور وہ جو احادیث شریفہ ہیں جن اممین کریمین ؓ کو نوجوانان جنت کا سردار کہا گیا اور حسین اور حسین رضی اﷲ عنھما دنیا میں میرے پھول ہیں اور اس طرح اور احادیث شریفہ سے صرف نظر کررہے ہیں ۔ان کو ناصبی نہ کہا جائے تو کن کو کہا جائے ۔ ان ہی کو ناصبی کہتے ہیں جن کو ازروئے حدیث گمراہ فرقہ کہا گیا ہے کیونکہ ایک فرقہ حضرت علی ؓ کی محبت کی غلو میں گمراہ ہوگیا ،ان کو شیعہ کہتے ہیں،انہوں نے اکثر حضرات صحابہ کرامؓ کو مرتد کہا،دوسرا فرقہ علی ؓ کی عداوت میں گمراہ ہوگیا ،ان کو ناصبی کہتے ہیں ۔درحقیقت یہ بھی شیعہ ہیں کیونکہ ان کا پرانا نام مروانی شیعہ ہے۔یہ بالکل شیعوں کی طرح تقیہ کرتے ہیں ۔اپنے آپ کو اہل سنت میں شامل کرتے ہیں اور موقع ملتے ہی یہ اپنا زہر اہل سنت کے قلوب میں پہنچا دیتے ہیں ۔ان سے بھی ہوشیار رہنا چاہیًے ۔یہ دونوں صحابہ ؓ کے دشمن ہیں۔ الحمد اللہ پورے بیان میں میری زبان سے کسی صحابیؓ کے بارے میں نعوذ بااللہ کوئی بات نکلی ہے ؟ اور مجھے اس کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ ۔ میں کیوں اپنی عاقبت خراب کرتا ۔کسی سنی کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ کسی صحابی ؓکے بارے میں کوئی غلط بات کرے ۔ الحمد اللہ ہم سب صحابہؓ کا دفاع کرتے ہیں ، محمود احمد عباسی کے لٹریچر کو اگر دیکھا جائے ، احمد حسین کمال کے لٹریچر کو دیکھا جائے ، اس میں کئی صحابہؓ پر ، خصوصاً حضرت علی ؓ پر کئی چوٹیں لگائی گئی ہیں ۔ تو آپ حضرات سے عرض ہے کہ اپنے ایمان کو ضائع نہیں کرنا چاہیے ۔ محرم کی مناسبت سے یہ بات اس لئے کہی گئی کہ صحابہ کرام ؓکے بارے میں اگر کوئی ایسی ویسی بات کرے گا تو غصہ تو آئے گا لیکن اس غصّے میں کوئی غلط حرکت نہیں کرنی۔ اگر عیسائی نعوذبااللہ حضور ﷺِکو گالی دیں تو کیا ہم اس کے مقابلے میں نعوذ بااللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گالی دے سکتے ہیں ؟ نہیں ، ہم نے اپنے آپ کو بچانا ہے ۔ کسی صحابی ؓکے خلاف بھی بات نہیں کرنی ۔ دونوں طرف کے صحابہ ؓ ہمارے ہیں ۔ تین راستے ہیں ایک راستہ عام صحابہ کا ہے ۔ اور ایک راستہ اہل بیت کا ہے جس سے گھر کی باتیں مروی ہیں ۔ اور ایک راستہ آپ ﷺِ کے ازواج مطہرات کا ہے جن سے خاص مخفی باتیں مروی ہیں ،ایسی باتیں کوئی اور نہیں کہہ سکتا تھا ۔ میاں بیوی کے تعلقات کے بارے میں کوئی بات کرسکتا ہے ؟ حضرت عائشہ ؓکو کم عمر میں آپ ﷺ کی عقد میں لایا گیا ، اس میں تکوینی حکمت تھی ۔ کیونکہ فرماتے ہیں کہ تقریباً آدھے علم کی امین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ہیں ۔ اس طرح ہمارے جتنے بھی صحابہ کرام ؓہیں وہ اپنے اپنے حصے کے دین کے امین ہیں ۔ اگر کسی کی رسائی باقی صحابہ ؓ تک تو ہے ، اہل بیت تک نہیں ہے تو نتیجتاً وہ اتنے ہی دین سے محروم ہوجائیں گے ۔ اگر ازواج مطہرات تک نہیں تو اتنی دین سے محروم رہ جائیں گے اور اگر ان کی مخالفت کریں گے تو پھر آپ ﷺ کی اﷲ اﷲ فی اصحابی والی بات کو یاد رکھا جائے ۔ حضرت امام مالک ؒ کا فتویٰ تو بالکل واضح ہے ۔امام مالک ؒ قرآن پاک سے استدلال کرتے ہیں ، فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام ؓسے بغض رکھنے والا کافر ہے ۔کیونکہ اللہ پاک نے قرآن میں کفر کی طرف ان کی نسبت کی ہے لیغیظ بھم الکفار تاکہ اس کے ذریعے کفار کے دل جلائیں ، اس کا براہ راست مفہوم تو یہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ کی تعریف سے کافروں کے دل جلتے ہیںاور یہی مفہوم جمہور کے نزدیک ہے لیکن امام مالک ؒ اس کے بالعکس کے بھی قایل ہیں کہ جن کا دل صحابہ ؓ کی تعریف سے جلتا ہے وہ کافر ہیں ۔یہ امام مالک ؒ کا فتویٰ ہے ۔ لہذا یہ معاملہ بہت خطرنا ک ہے ،پس اپنے آپ کو بچانا چاہیے ۔ہم ایک دفعہ ایک اجتماع میں شامل تھے ، کسی وجہ سے بھگدڑ مچ گئی ، سارے لوگ اٹھ گئے ۔ سٹیج والے بڑے ہوشیار تھے ، وہاں سے ایک ہی بات ہورہی تھی ، بزرگو اور دوستو اپنے آپ کو بٹھاؤ ، کسی اور کو نہ بٹھاؤ۔ یہی ایک بات مسلسل آرہی تھی اور پورا مجمع پانچ منٹ میں بیٹھ گیا ۔ کیا ایسا دوسرے مجمع میں ہوسکتا ہے ؟ جو دوسرے کو بٹھائیں گے تو کیا وہ خود بیٹھ سکتے ہیں ۔ بعض دفعہ دوسروں کو بٹھانے کے شوق میں لوگ کھڑے ہوجاتے ہیں ، نتیجتاً انتشار پیدا ہوجاتا ہے ۔ تو اس طرح نہیں کرنا چاہیے ۔ سب سے پہلے اپنے آپ کو تبلیغ ، سب سے پہلے اپنے آپ کو سمجھانا ۔ عقیدہ سب سے اہم چیز ہے ۔ خدا نخواستہ اگر ہمارا عقیدہ گڑ بڑ ہوگیا ، تو کچھ بھی باقی نہیں رہے گا ۔ عقیدہ سمت ہے ۔ اگر کوئی آدمی لاہور جانا چاہتا ہے اور کسی بس کی خوبصورتی کو دیکھ کر اس میں بیٹھ جائے یہ نہ دیکھے کہ یہ کہاں جارہی ہے ، اور بعد میں پتہ چلا کہ یہ تو پشاور جارہی ہے ۔ تو اب جس تیزی کے ساتھ یہ بس جائے گی اتنی تیزی سے وہ اپنی منزل سے دور ہوتا جارہا ہے ۔ نقصان میں جارہا ہے ۔ بالکل یہی بات ہے کہ جس کا عقیدہ خراب ہو ، چاہے وہ جتنے اچھے اعمال کرے گا وہ اتنا ہی خراب ہوتا جائے گا ۔ حضرت تھانوی ؒ فرماتے ہیں کہ جو مسلمان نہیں ہیں ان کو ذکر نہ سکھائو ، کیوں ؟ اس لئے کہ ذکر کے اپنے طبعی خواص ہیں ، مثلاً اس میں مزہ آتا ہے ، سکون ہوتا ہے،اطمینان ہوتا ہے ۔ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب ۔ یہ تو نہیں فرمایا کہ مسلمان کے دل کو اطمینان دیتا ہے اور کافر کے دل کو اطمینان نہیں دیتا ۔ یہ عام بات ہے ۔ تو یہ جودلوں کو ذکر سے اطمینان ملتا ہے تو اگر کافر کو ذکر سکھا دیا اور اس کے دل کو اس سے اطمینان نصیب ہوجائے تو وہ سمجھے گا بس یہ کافی ہے ۔ چونکہ اس اطمینان میں اوراس اطمینان میں فرق ہے ۔کسی ہیپنٹائز کرنے والے نے جو کہ عیسائی تھے نے مولانا اشرف صاحب ؒ سے پوچھا کہ ہم لوگ بھی یہ کرتے ہیں آپ لوگ بھی یہ کرتے ہیں ، فرق کیا ہے ؟ حضرت نے فرمایا ، پانی سے کسی گندی چیز کو دھونا اور پیشاب سے دھونا ، بظاہر نتیجہ ایک نظر آتا ہے لیکن یہ ایک جیسا نتیجہ نہیں ہے،ایک میں پاکی ہے دوسرے میں نہیں ۔ پیشاب سے بھی چیز دھل جاتی ہے ۔ پانی سے بھی چیز دھل جاتی ہے ۔ لیکن پانی کے ساتھ پاکی ہے اور پیشاب کے ساتھ نہیں ہے ۔ اس لئے ایمان بڑی اونچی چیز ہے ۔ اپنے ایمان کو ہم نے بچانا ہے ۔ آج کا دور بڑا خطرناک دور ہے ۔ آپ ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ صبح لوگ مسلمان ہونگے اور شام کو کافر ہونگے ، اور اگر شام کو مسلمان ہونگے تو صبح کو کافر ہونگے ۔ اور یہ فتنے ایسے کھل کر اور مسلسل آئیں گے جیسے تسبیح کے دانے بکھر کر ایک دوسرے کے اوپر گرتے ہیں ، تو ایسا وقت آنے والا ہے ، اور بظاہر لگتا ہے کہ ایسا وقت آگیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے ، ایسے وقت میں اپنے ایمان کو قبر تک لے جانا بہت بڑی بات ہے ۔ اور ایمان کو بچا کر لے گئے تو وہاں انشاء اللہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا ۔ اور وہاں ٹھیک ہونے کے بہت امکانات ہیں ۔ پتہ نہیں کس کی سفارش سے کس کی شفاعت سے کام بن جائے یہ پھر اللہ پاک کے بہت سے ذریعے ہیں جس کے ذریعے اللہ پاک معاف فرماسکتے ہیں ، تو ایمان کو بچانا لازمی ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں گناہوں پر جرأت ہوجائے ۔گناہوں سے بچنا بھی ضروری ہے،کیونکہ کبھی کبھی گناہوں کی کثرت کی وجہ سے ایمان سلب ہوجاتا ہے ۔ مثلاً حج نہ کرنا ، جس پر حج فرض ہے اور وہ حج نہ کرے تو اس کے سوئے خاتمہ کا اندیشہ ہے ۔ جو دنیا کے لئے اپنے مسلک کو بدل دے اس کا بھی سوئے خاتمہ کا اندیشہ ہے ۔ ایک دفعہ کسی صاحب نے ایک امام مسلک کو چھوڑ کر دوسرے امام کا مسلک اختیار کیا تھا ، اس وجہ سے کہ وہ وہاں شادی کرنا چاہتا تھا ۔ حالانکہ شادی کرنا اچھا فعل ہے لیکن اسوقت کے علمائ نے کہہ دیا تھا کہ اس آدمی کے سوئے خاتمہ کا اندیشہ ہے ، کیونکہ اس نے دنیاوی مقصد کیلئے اپنے مسلک کو بغیر تحقیق کے تبدیل کردیا ۔ مطلب یہ ہوا کہ انسان کو اس سلسلے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے ۔ اور کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے دین کی کوئی تخفیف ہوجائے ۔ ایمان کی حفاظت گناہوں سے بچنے کے ذریعے بھی ہوسکتی ہے ۔ ایک دفعہ ایک قادیانی ایک عالم کے پاس آئے ، اور کہا کہ حضرت پہلے میں نماز پڑھتا تھا تو اس میں بڑے وسوسے آتے تھے ، جب سے میں احمدی بن گیا ہوں اب تو مجھے وسوسے نہیں آتے ، اب تو میں بالکل سکون سے نماز پڑھتا ہوں ۔ تو حضرت نے پوچھا ، یہ بتائو کہ چور کہاں ڈاکہ ڈالتا ہے ۔ جہاں مال ہو یا جہاں اور کوئی گندوغیرہ ہو ؟ پہلے تمہارے پاس ایمان کا خزانہ تھا تو اس کو چوری کرنے کیلئے شیطان بار بار آتا تھا ۔ اب تو تمہارے پاس بول وبراز ہے ، اب شیطان کیوں آئے گا ۔ اب بے شک تو اعمال کے لحاظ سے آسمان تک بھی پہنچ جائے تمہارا آخری ٹھکانہ جہنم ہی ہے ۔ تو یہی والی بات ہے ۔ اعمال کو اعمال والا مقام اور عقائد کو عقائد والا مقام دینا چاہیے ۔صحیح عقائد کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں ۔ لیکن اعمال کو بھی کم نہ سمجھو ۔ کیونکہ بعض دفعہ اعمال کی کمی ایمان کے سلب ہونے کا بھی سبب بنتی ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو اپنی حفاظت میں لے لے ۔ آمین ۔
ازواج مطہرات اور دیگر اہل بیت کی علمی خدمات:
اسلام میں ”اہلِ بیت“ کی اصطلاح نہایت محترم اور معزز ہے۔ کلام الٰہی یعنی قرآن کریم میں دو مقامات پر اور حدیث پاک میں متعدد احادیث اور روایات میں اہل بیت کا ذکر ہے۔ قرآن کریم میں سورئہ ہود: آیت، ۷۳ اور سورہٴ احزاب: آیت:۳۳ میں اہل بیت کا صراحتاً ذکر ہے۔ سورہٴ ہوو میں ابوالانبیاء حضرت ابراہیم کے اہل بیت کا ذکر ہے، جبکہ سورہٴ احزاب میں خاتم النّبیین فخرالانبیاء والرسل نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کا ذکر ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اہل بیت سے متعلق آیت کے الفاظ اس طرح ہیں: ”قَالُوا أتَعْجَبِیْنَ مِنْ أمْرِ اللہِ رَحمةُ اللہِ وَبَرَکَاتُہ عَلَیْکُمْ أہْلَ الْبَیْتِ انَّہ حَمِیْدٌ مَجِید“ (سورہ ہود: آیت،۳۷) ترجمہ: (وہ بولے کیا تو تعجب کرتی ہے اللہ کے حکم سے، اللہ کی رحمت ہے اور برکتیں تم پر اے گھروالو! تحقیق اللہ ہے تعریف کیاگیا بڑائیوں والا)۔
اور سید خاتم النّبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے متعلق الفاظ قرآنی اس طرح ہیں: ”انَّمَا یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْراً“ (سورئہ احزاب: آیت،۳۳) ترجمہ: (اور اللہ یہی چاہتا ہے کہ دور کرے تم سے گندی باتیں۔ اے نبی کے گھر والو اور ستھرا کردے تم کو ایک ستھرائی)۔
اہل بیت کی علمی خدمات پر بحث کرنے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بذاتِ خود اہل بیت کی حقیقت کا تعین ہوجائے۔ قرآن کریم، احادیث نبوی اور علماء اسلام کی تصنیفات (جن میں حضرات صحابہٴ کرام، حضرات تابعین اور بہت سے علمائے متقدمین اورمتاخرین شامل ہیں) ان تمام حضرات کی تصنیفات کا خلاصہ یہ ہے کہ ظاہراً اہل بیت کی اصطلاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ یعنی زواجِ مطہرات و اولاد کے لیے خصوصاً اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عشیرہ اور عترت کے لیے عموماً استعمال ہوتی ہے۔ بعض علمائے کرام وسعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بنومطلب اور بنو ہاشم کو بھی اس اصطلاح میں شامل کرتے ہیں؛ لیکن اہل سنت والجماعت کے اس واضح موقف کے برخلاف اہل تشیع یعنی علمائے شیعہ کے نزدیک اہلِ بیت کی اصطلاح کا حامل، نہایت ہی محدود مفہوم جس میں وسعت کی کوئی گنجائش نہیں۔ بعض علمائے حق نے اہلِ بیت سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو لیا ہے، ان حضرات کے نزدیک بیت سے مراد رسول اللہ کا گھر اور اہل بیت سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروالے ہیں۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات۔
اپنے موقف کی حمات میں سورہٴ احزاب کی آیت پیش کی ہے: وَقَرْنَ فِی بُیُوتِکُنَّ وَلا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الجَاہِلِیَّةِ الأولٰی وَأقِمْنَ الصَّلاَةَ وَاٰتِیْنَ الزَّکوٰة وَاطعْنَ اللہَ وَرَسُولَہ انَّما یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أھْلَ البَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا“ (سورہٴ احزاب: آیت،۳۳) ترجمہ: (اور قرار پکڑو اپنے گھروں میں اور دکھاتی نہ پھرو جیسا کہ دکھانا دستور تھا پہلے جہالت کے وقت میں اور قائم رکھو نماز اور دیتی رہو زکوٰة اور اطاعت میں رہو اللہ کی اور اللہ یہی چاہتا ہے کہ دور کرے تم سے گندی باتیں۔ اے نبی کے گھر والو اور ستھرا کردے تم کو ایک ستھرائی سے) اور اس موقف کے سلسلہ میں اتنی شدت برتی ہے کہ حضرت عکرمہ بازار میں منادی کرتے تھے کہ آیت: ”انَّما یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أھْلَ البَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا“ (سورہٴ احزاب: آیت،۳۳) ترجمہ: (اور اللہ یہی چاہتا ہے کہ دو کرے تم سے گندی باتیں۔ اے نبی کے گھر والو اور ستھرا کردے تم کو ایک ستھرائی سے) میں اہل بیت سے مراد ازواج مطہرات ہی ہیں؛ کیوں کہ یہ آیت انھیں محترم ومعزز خواتین کے یہاں نازل ہوئی تھی، اور فرمایا کرتے تھے کہ میں اس معاملے میں مباہلہ کرنے کو تیار ہوں؛ لیکن حدیث شریف میں الفاظ اس طرح سے ہیں: ”اللّٰھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلی آل ابراھیم انک حمید مجید،․ اللّٰھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراھیم وعلی آل ابراھیم انک حمید مجید“ جس طرح سے قرآن کریم میں اہل بیت کی اصطلاح حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے استعمال ہوئی ہے، اسی طرح درودِ ابراہیمی میں بھی لفظ آل ابراہیم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اہل کی ایک شکل آل بھی ہے۔ امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں تحریر فرمایا ہے کہ بعض حضرات آل النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقارب مراد لیتے ہیں اور بعض حضرات کے نزدیک آل النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد اہل علم ہیں، جن کا آپ کے ساتھ خصوصی تعلق تھا، یا تعلق پایا جائے۔
امام راغب اصفہانی نے اہل دین کی دو قسمیں بیان کی ہیں: ایک قسم وہ ہے جن میں وہ لوگ شامل ہیں، جو علم وعمل کے لحاظ سے راسخ العقیدہ ہوئے ہیں، ان کے لیے آل النبی یا امت کے الفاظ استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ دوسری قسم وہ ہے، جن میں وہ لوگ شامل ہیں جن کا علم صرف تقلیدی ہوتا ہے، انھیں امتِ محمد کہا جاسکتا ہے؛ لیکن آل محمد نہیں کہا جاسکتا۔ اس سلسلہ میں امام راغب نے امام جعفر صادق سے منسوب ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ: کسی شخص نے حضرت جعفر صادق سے دریافت کیا کہ اس سلسلہ میں آپ کی رائے کیا ہے کہ بعض لوگ تمام مسلمانوں کو آل النبی میں داخل سمجھتے ہیں؟ حضرت جعفر نے فرمایا: ”یہ رائے صحیح بھی ہے اور غلط بھی۔ غلط تو اس لیے ہے کہ تمام امت آل النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں شامل نہیں ہے اور صحیح اس لیے کہ اگر تمام لوگ شریعت کے کما حقہ پابند ہوجائیں تو ان کو آل النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہا جاسکتا ہے۔ ابن خالویہ کے مطابق آل کی ۲۵ سے زائد اصناف ہیں، جیساکہ الجرائی کی کتاب ”منار الہوا“ میں مذکور ہے۔
لیکن شیعہ حضرات اہل بیت میں صرف اہل الکساء کو ہی شمار کرتے ہیں، یہ لقب حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین کو مجموعی اعتبار سے اس واسطے دیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ جب کہ اہل نجران کے نصاریٰ کا وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ہوا تھا، تو توحید اور تثلیث میں حق وباطل کے انتخاب کے سلسلہ میں مباہلے کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چاروں حضرات کو اپنی چادر میں لپیٹ لیا اور قرآن کریم کی آیت: ”انَّما یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أھْلَ البَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا“ (سورئہ احزاب: آیت،۳۳) ترجمہ: (اور اللہ یہی چاہتا ہے کہ دور کرے تم سے گندی باتیں۔ اے نبی کے گھر والو اور ستھرا کردے تم کو ایک ستھرائی سے)۔
ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حضرات حسنین کے علاوہ آپ نے حضرت عباس (چچا) اور ان کے بیٹوں کو بھی اہل بیت میں شامل کیا ہے؛ کیونکہ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس اور ان کے بیٹوں کے اوپر اپنی چادر ڈال دی تھی اور فرمایا تھا: اے اللہ! انھیں دوزخ کی آگ اسی طرح چھپائے رکھ جیسے میں نے انھیں اپنی چادر میں چھپالیا ہے (بعض علماء اہل الکساء کے لیے اہل العباء کی اصطلاح بھی استعمال کرتے ہیں)
خلاصہٴ کلام یہ کہ اگر ایک طرف قرآن کریم سے ازواج مطہرات کا اہل بیت میں شامل ہونا ثابت ہوتا ہے، تو دوسری طرف احادیث کثیرہ اور بہت سے روایات سے حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حضرات حسنین کا اہل بیت ہونا اظہر من الشمس ہے۔ اگر ان دونوں حقائق کو ملادیا جائے، تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اہل بیت میں ازواج مطہرات کے ساتھ حضرات حسنین اور ان کے والدین بھی شامل ہیں۔ اگر قرآن کریم کی آیات کا بغور مطالعہ کیا جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ آیات قرآنی سورہٴ احزاب ۷۳ ازواج مطہرات کی شان میں نازل ہوئی ہے اور اہل بیت سے وہی مراد ہیں؛ لیکن اہل بیت میں اور نفوس مقدسہ کا شامل ہونا قرآنی آیات کے منافی نہیں؛ کیوں کہ ”انَّما یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أھْلَ البَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا“ (سورہٴ احزاب: آیت،۳۳) ترجمہ: (اور اللہ یہی چاہتاہے کہ دور کرے تم سے گندی باتیں۔ اے نبی کے گھروالو اور ستھرا کردے تم کو ایک ستھرائی سے) والی آیت میں مذکر وموٴنث دونوں شامل ہیں۔ یعنی اگر اس آیت سے ماسبق اور مابعد والی آیات قرآنی ازواج مطہرات کی طرف مشیر ہیں، تو یہ آیت تمام اہل بیت مذکر وموٴنث دونوں کو شامل ہے؛ اس لیے حق یہ ہے کہ اہل بیت میں ازواج مطہرات کے ساتھ دوسرے حضرات بھی شامل ہیں اور حدیث شریف اور دیگر روایات اگر حضرت حسنین اوران کے والدین کو اہل بیت میں شمار کررہی ہیں تو احادیث سے یہ بات کہیں بھی ثابت نہیں ہوتی؛ بلکہ اشارہ بھی نہیں ملتا کہ اہل بیت میں حضرات حسنین اور ان کے والدین کے علاوہ کوئی دیگر شخص (ازواج مطہرات وغیرہ) شامل نہیں ہیں۔
شیعہ حضرات کا یہ موقف کہ اہل بیت میں صرف حضرات حسنین اور ان کے والدین ہی شامل ہیں، باقی اور کوئی نہیں۔ قرآنی آیت ۷۳ سورئہ احزاب کے سیاق وسباق کے منافی ہے؛ کیوں کہ مذکورہ آیت کے الفاظ قرآنی سے قبل اور بعد دونوں جگہ یا نساء النبی کے عنوان سے خطاب اور ان کے واسطے صیغہٴ موٴنث کا استعمال فرمایا گیا ہے۔ سابقہ آیات: ”فَلَا تَخْضَعْنَ بالقول“ سب صیغہ موٴنث استعمال ہوئے ہیں اورآگے پھر ”وَاذْکُرْ مَا یُتْلٰی“ میں بصیغہ تانیث خطاب ہوا ہے، اس درمیانی آیت کو سیاق وسباق سے کاٹ کر بصیغہٴ مذکر ”اِنَّکمْ“ اور ”یُطَھِّرَکُم“ فرمانا بھی اس پر شاہد ہے کہ اس آیت میں اہل بیت میں صرف ازواج مطہرات ہی داخل نہیں ہیں؛ بلکہ کچھ رجال بھی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شارع اور مفسر قرآن کی حیثیت سے کچھ رجال اور نساء کو اہل بیت میں شمار کرلیا ہے۔ مثلاً ازواج مطہرات کے ساتھ حضرت فاطمہ (عورت کی حیثیت میں اور کچھ رجال بھی مثلاً حضرت علی، حضرات حسنین، حضرت عباس اور ان کے بیٹے وغیرہ) واللہ اعلم بالصواب۔ اس طرح اسلامی مصادر دین کی اہمیت کے پیش نظر وہ اہل بیت جو قرآن کریم سے واضح طور پر ثابت ہیں، ان کو اس مضمون میں طبقہٴ اولیٰ میں رکھا جارہا ہے۔ یعنی ازواج مطہرات، اور وہ حضرات اہل بیت جو احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں، ان کو طبقہ ثانیہ میں رکھا جارہا ہے اور دیگر حضرات جو بعض دوسری روایات سے اہل بیت میں شامل نظر آتے ہیں، ان کو طبقہ ثالثہ میں رکھا جارہا ہے۔ مندرجہ ذیل سطور میں ان تینوں طبقات اہل بیت کی علمی خدمات کو نقل کیا جارہا ہے۔
اہلِ بیت کی خدمات (طبقہٴ اولیٰ- ازواجِ مطہرات)
اس طبقہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سبھی ازواج مطہرات شامل ہیں؛ لیکن حدیث شریف میں اور دیگر کتب میں حضرت عائشہ، حضرت ام سلمہ، حضرت حفصہ اور حضرت میمونہ کو اس طبقے میں شمار کیا ہے۔
حضرت عائشہ کی علمی خدمات
حضرت عائشہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جب نکاح ہوا، تو آپ کی عمر صرف ۶ سال تھی اور جب رخصتی ہوئی تو ۹ سال تھی اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو آپ کی عمر ۱۸ سال تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد آپ ۴۸ سال تک زندہ رہیں، اس دوران طویل عرصے میں یعنی تقریباً ۵۷ سال آپ شب وروز دین کی خدمت کرتی رہیں۔ علمِ دین کو پھیلاتی رہیں، صحابیات میں سب سے زیادہ احادیث آپ سے ہی مروی ہیں۔ آپ کا حافظہ نہایت قوی تھا، جو سنتی تھیں وہ صرف وقتی طور پر یاد ہی نہیں ہوجاتا تھا؛ بلکہ دل ودماغ میں نقش ہوکر رہ جاتا تھا۔ حدیث شریف سے آپ کو گہرا تعلق تھا، کسی حدیث کے سلسلے میں اگر اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی شبہ ہوتا تھا، تو آپ ہی کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔ آپ بڑی آسانی کے ساتھ مدلل طور پر شک وشبہ کو رفع کردیتی تھیں، مثلاً ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”لوگ قربانی کے گوشت کو ۳ دن سے زیادہ نہ رکھیں“ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوسعید خدری نے یہ سمجھا کہ یہ حکم دائمی ہے۔ حضرت عائشہ نے جب یہ بات سنی تو فرمایا کہ یہ حکم نہ تو دائمی ہے اور نہ ہی واجب ہے؛ بلکہ مستحب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ قربانی کے گوشت کو جمع نہ کریں؛ بلکہ دوسروں کو کھلائیں۔ حضرت عائشہ کی ایک قابل ذکر خوبی یہ تھی کہ جب آپ روایت کرتی ہیں تو ساتھ ہی ساتھ اس کی علم وحکمت پر بھی روشنی ڈالتی ہیں، مثلاً ابوسعید خدری اور عبداللہ بن عمر سے غسلِ جمعہ کے سلسلہ میں صرف اس قدر مروی ہے کہ جمعہ کے دن غسل کرلینا چاہیے؛ لیکن اس حدیث شریف کو حضرت عائشہ صدیقہ نے ذکر فرمایا تویہ بھی فرمایا کہ لوگ اپنے گھروں اور مدینہ کے آس پاس کی آبادیوں سے نماز جمعہ کو آیا کرتے تھے، وہ گردوغبار سے اٹے ہوئے اور پسینے سے تر ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک صاحب آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم آج کے دن غسل کرلیتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ حضرت عائشہ کے تفقہ فی الدین دقت نظر قوت حافظہ اور شوق حدیث کے موضوع پر بہت سے حضرات نے قلم اٹھایا ہے، ان میں حضرت علامہ سیوطی بھی ہیں۔ آپ نے ایک رسالہ ”عین الاصابہ“ میں اس قسم کی ۴۰ روایات کا تذکرہ کیا ہے، جس سے آپ کی دقیق نظر، تفقہ فی الدین، دور اندیشی اور دوربینی کا اندازہ ہوتا ہے۔
حضرت عائشہ کے شاگرد: آپ سے تقریباً ۱۰۰ صحابہ اور صحابیات نے روایت کی ہے، مثلاً عروہ بن زبیر، سعید بن المسیب، عبداللہ بن عامر، مسروق بن اجدع، عکرمہ جیسے جلیل القدر حضرات آپ کے تلامذہ میں شامل ہیں۔
مرویات کی تعداد: محدثینِ عظام کے مطابق حضرت عائشہ کا شمار ان حضرات میں ، جن سے کثیر تعداد میں حدیث شریف کی روایات ذکر کی گئی ہیں، چھٹے نمبر پر آتا ہے؛ بلکہ بعض حضرات کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرنے والوں میں آپ کا نمبر چوتھا ہے۔ صحابہ کرام کی مرویات کی فہرست دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ صرف حضرت ابوہریرہ، عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر کی مرویات آپ سے زیادہ ہیں۔ محدثین عظام نے آپ کی مرویات کی تعداد ۲۲۱۰ (دوہزار دو سو دس) بتلائی ہیں، ان میں تقریباً ۲۷۳ صحیحین یعنی بخاری شریف اور مسلم شریف میں موجود ہیں۔
حضرت ام سلمہ کی علمی خدمات
حضرت ام سلمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان ازواج مطہرات میں شامل ہیں، جن کو علم حدیث سے بہت ہی شغف تھا، آپ ہی کے حجرہ شریف میں اہل بیت سے متعلق آیات نازل ہوئیں، یعنی ”انَّما یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أھْلَ البَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا“ (سورہٴ احزاب: آیت،۳۳) آپ کی علمی اور دینی خدمات اتنی زیادہ ہیں کہ آپ کا شمار محدثین کے تیسرے طبقے میں ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کو سننے کے لیے اپنی ذاتی ضروریات کو بھی موٴخر کردیتی تھیں، مثلاً ایک مرتبہ آپ بال بندھوارہی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ کی آواز سنائی دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے ”أیھا الناس“ (اے لوگو!) یہ سنتے ہی آپ نے مشاطہ سے فرمایا کہ بس بال باندھ دو۔ مشاطہ نے کہا ایسی بھی کیاجلدی ہے، ابھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ”أیھا الناس“ فرمایا ہے، تو آپ نے یہ جواب دیا کہ کیاہم انسانوں میں شمار نہیں ہیں؟ یہ کہہ کر خود ہی بال باندھ کر کھڑی ہوگئیں اور خطبہ سننے میں مشغول ہوگئیں۔
آپ کے شاگرد: حضرت ام سلمہ کے شاگردوں میں اسامہ بن زید، سلیمان بن یسار، عبداللہ بن رافع، سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر، زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہما شامل ہیں۔
مرویات کی تعداد اور افتاء: آپ کی مرویات کی تعداد محدثین عظام کے مطابق ۳۷۸ ہے، جن میں سے بہت سی احادیث بخاری اور مسلم وغیرہ کتب میں شامل ہیں۔ آپ مفتیہ بھی تھیں، آپ کے متعدد فتاویٰ موجود ہیں۔ حضرت ابن قیم کے مطابق اگر آپ کے فتاویٰ جمع کیے جائیں تو ایک رسالہ تیار ہوجائے۔
حضرت حفصہ کی علمی خدمات
آپ کوازواج مطہرات میں شامل ہونے کی وجہ سے آپ کو بلا واسطہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث مبارکہ سننے کا موقع ملا تھا۔ آپ کی مرویات کی تعداد ۶۰ ہے۔ آپ سے بڑے بڑے صحابہ نے حدیث شریف کی روایت کی ہیں۔
حضرت میمونہ کی علمی خدمات
آپ کو بھی ازواج مطہرات میں شامل ہونے کی وجہ سے بلاواسطہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث سننے کا موقع وقتاً فوقتاً فراہم ہوتا رہتا تھا۔
مرویات کی تعداد: آپ کی مرویات کی تعداد ۴۶ ہے۔
شاگرد: آپ کے شاگردوں میں یعنی آپ سے روایت کرنے والوں میں مشاہیر صحابہ اور علمائے حدیث شامل ہیں: مثلاً حضرت عبداللہ بن عباس، زید بن حاصم، عطا بن یسار۔
حضرت جویریہ کی علمی خدمات
آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں شامل ہیں۔ آپ سے حدیث شریف کی ۷ روایات مذکور ہیں۔
حضرت سودہ کی علمی خدمات
آپ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں شامل ہیں۔ آپ سے حدیث شریف کی ۸ روایات مذکور ہیں۔
اہل بیت طبقہ ثانیہ کی علمی خدمات
اس طبقہ میں حدیث شریف کے مطابق حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حضرات حسنین شمار ہوتے ہیں۔ شیعہ حضرات اس طبقہ کے صحابہ کو اہل الکساء یا اہل القباء بھی کہتے ہیں۔ اس طبقہ کی علمی خدمات احاطے سے باہر ہیں، لیکن پر بھی ثواب دارین کی تحصیل کے لیے اور تبلیغ دین کے واسطے سے اس طبقہ کی خدمات حدیث اجاگر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
حضرت علی کی علمی خدمات
آپ کا مبارک نام علی بن ابی طالب ہے۔ لقب اسداللہ اور اسد الرسول ہے۔ آپ جس طرح میدان جنگ میں بہادری کے جوہر دکھاتے تھے، اسی طرح تصنیف وتالیف میں بھی اعلیٰ درجہ کے صحابہ میں شمار ہوتے ہیں۔ خلافت فاروقی میں ایسے بہت سے مواقع آئے ہیں کہ جب خود حضرت عمر فاروق نے حضرت علی کی تعلمی تفہیم کو سراہا تھا، آپ کی علمی خدمات کا آغاز اس طرح سے ہوتا ہے کہ آپ لڑکوں میں سب سے پہلے اسلام میں داخل ہوئے اور بچپن سے ہی دامن نبوت میں تعلیم وتربیت پائی، آپ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گوناگوں تعلق تھا، جس کی وجہ سے آپ کو تحصیل علم کے بہت سے مواقع حاصل ہوئے؛ کیوں کہ اگر بچپن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلیم وتربیت کی سمت میں آگے بڑھے تو آغاز نبوت میں ہی آپ اسلام میں داخل ہوگئے، جس طرح مردوں میں حضرت ابوبکر صدیق کو اسلام میں داخلے میں اولیت حاصل ہے، اسی طرح لڑکوں میں آپ کو اسلام میں داخلے میں پہلا مقام حاصل ہے اور جب آپ نے شباب کی منزل میں قدم رکھا تو آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دامادی (مصاہرت) کا شرف حاصل ہوا اور جب غزوات کا دور شروع ہوا تو پوری دس سالہ مدنی دور نبوت میں آپ ہر غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے۔
اس بناء پر آپ کو اقوال نبوی کے سننے، اعمال نبوی کو دیکھنے اور منشا نبوت کو سمجھنے کے نادر مواقع نصیب ہوئے، جس کی وجہ سے آپ کا علمی درجہ نہایت بلند ہوگیا اور آپ مختلف علوم میں امامت کے درجہ پر فائز ہوگئے۔ بعض علماء کے مطابق (صاحب تہذیب الاسماء) ”کان من العلوم بالمحلل العالی“ اور عبداللہ بن عباس کے مطابق علوم کے دس درجوں میں سے ۹درجہ حضرت علی کے پاس تھے اور دسویں درجہ میں بھی ان کا کچھ حصہ تھا۔ حتی کہ ایک روایت کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انا مدینة العلم وعلی بابھا“ آپ کی علمی صفات میں سب سے پہلی صفت آپ کا قرآن کریم کا حافظ ہونا ہے؛ حتی کہ آپ یہاں تک فرمایا کرتے تھے کہ قرآن کریم کی کوئی بھی آیت ایسی نہیں ہے، جس کے متعلق مجھے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ اس بارے میں کہاں اور کب نازل ہوئی۔ آپ کو قرآن کریم اور اس کے احکام ومسائل کے استنباط میں مہارت حاصل تھی، تفسیر کے مضمون میں بحرالعلوم یعنی عبداللہ بن عباس کے علاوہ آپ کا کوئی ہمسر نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ نے قرآن کریم کی آیات اور سورتوں کے نزوال کے اعتبار سے ایک نسخہ تیار کیا جس کا تذکرہ ابن ندیم کی فہرست میں کیاگیا ہے۔
علم حدیث سے آپ کو اتنا شغف تھا کہ آج بھی تقریباً ۶۸۵ روایات حدیث آپ کی جانب منسوب ہیں، جو مختلف کتب حدیث میں موجود ہیں۔ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سماعت کے بعد ایک صحیفہ تیار کیا تھا، جس میں مختلف احکام ومسائل کے ساتھ ساتھ خطبہ حجة الوداع، حرمت حرمین شریفین وغیرہ کے احکام مندرج تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان دو چیزوں یعنی قرآن کریم اور صحیفہ علی کے علاوہ کچھ نہیں لکھا۔ آپ کو علم فقہ اور افتاء میں اس درجہ مہارت حاصل تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی آپ ان چند لوگوں کی مبارک جماعت میں شامل تھے، جن کو دور نبوت میں ہی فتویٰ دینے کی اجازت حاصل تھی، جب اہل یمن نے اسلام قبول کیا تو آپ ہی کو سب سے پہلے یمن کا قاضی مقرر کیاگیا تھا۔ آپ کو علم قضا میں اتنی مہارت حاصل تھی کہ حضرات صحابہ میں اس میدان میں آپ کا کوئی ہمسر نہ تھا، جس کے نتیجہ میں زمان نبوت میں ہی آپ کو ”اقضٰھم علی“ کا خطاب ملا تھا۔ آپ کو علوم شریعت میں صرف وسعت ہی حاصل نہیں تھی؛ بلکہ اعلیٰ درجہ کی ذہانت ودقیقہ سنجی حاصل تھی۔ اصول وکلیات سے فروعی اور جزوی احکام بڑی آسانی سے اخذ کرلیتے تھے۔ اکثر وبیشتر مشکل مسائل میں صحابہ کرام آپ ہی کی طرف رجوع فرمایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ حضرت عمر بذات خود امام ومجتہد ہونے کے باوجود آپ سے اکثر وبیشتر مسائل میں مشورہ کیاکرتے تھے، ایک بار حضرت عمر نے ایک پاگل زانیہ کو حد کی سزا دینی چاہی، تو حضرت علی نے سزا دینے سے روک دیا اور وجہ بتلائی کہ پاگلوں اور مجنونوں پر شریعت کے احکام لاگو نہیں ہوتے۔ موافقین تو آپ کی فقہ وافتاء کے مداح تھے ہی آپ کے مخالفین بھی شریعت کے معاملے میں آپ سے رجوع کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتے تھے، مثلاً امیر معاویہ جو چار پانچ سال تک آپ سے میدان جنگ میں اور میدان سیاست میں مدمقابل رہے وہ بھی آپ سے شرعی مسائل میں فتویٰ لیا کرتے تھے۔ فقیہ الامت حضرت عبداللہ بن مسعود جن کے تفقہ فی الدین کی بنیاد پر فقہ حنفی کا قصرعالیشان پچھلے سیکڑوں سالوں سے مسلمانوں کی شرعی حاجات کی تکمیل کررہا ہے، وہ بھی شرعی مسائل میں آپ سے رجوع فرمایا کرتے تھے۔ علم فرائض میںآ پ مدینہ کے ممتاز علماء میں شمار ہوتے تھے۔
علم الفقہ ہی میں نہیں؛ بلکہ تزکیہ نفس کے سلسلے میں یعنی تصوف کے میدان میں بھی تمام سلاسل تصوف حضرت حسن بصری کے واسطے سے آپ (حضرت علی) پر ہی منتہی ہوتے ہیں، اس سلسلے میں حضرت شاہ ولی اللہ اور حضرت احمد قشاشی بھی اس دعوے کے اسباب میں شامل ہوتے نظر آتے ہیں۔
علم ادب کے میدان میں بھی آپ کا کوئی ہمسر نہیں تھا۔ آپ فصحاء عرب میں شمار ہوتے تھے۔ خطابت (کلام وبلاغت) میں آپ حضرات صحابہ کرام میں صفِ اوّل کے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ جیساکہ بہت سے خطبات سے ظاہر ہے․․․․․․․․․․
آپ کو اشعار سے بھی کافی شغف تھا؛ لیکن گوناگوں مشغولیات کی وجہ سے خاص طور سے دور نبوی میں غزوات کی مشغولی اور دور خلافت میں خلافت کی مشغولی اور مخالفین کی مخالفت کی وجہ سے اس میدان میں نمایاں طور سے ظاہر نہ ہوسکے؛ البتہ آپ سے منسوب ایک دیوان ملتا ہے؛ لیکن اشعار اس کے اتنے غیر معیاری ہیں کہ آپ جیسے فصیح اللسان عالی مرتبت لوگوں کی طرف ان کو منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ آپ کے اشعار کا ایک نمونہ غزوہٴ خیبر کے رجز کی شکل میں بخاری شریف میں موجود ہے۔
فن لسان اللغات میں آپ صرف ونحو کے امام سمجھے جاتے ہیں۔ آپ نے مدینہ کے ایک بزرگ حضرت ابوالاسود دولی کو چند اصول بتلائے تھے، جن کو اس نے ترقی دے کر علم نحو کو مکمل فن کی حیثیت سے متعارف کروایا۔ شیعہ حضرات کے مطابق نہج البلاغة آپ کی علمی خدمات، مواعظ حسنہ پر مبنی مشہور ومعروف کتاب ہے جس کے مرتب علامہ شریف رضی ہیں۔
حضرت فاطمہ کی علمی خدمات
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں میں سب سے چھوٹی بیٹی حضرت فاطمہ تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری اولاد آپ کی زندگی میں ہی وفات پاچکی تھیں، صرف حضرت فاطمہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ۶ مہینے بعد تک زندہ رہیں۔ حضرت فاطمہ نکاح سے پہلے بھی اور نکاح کے بعد بھی آپ ہی کے قرب وجوار میں رہیں۔ علم فقہ کے میدان میں بھی آپ کی خدمات مسلم ہیں؛ لیکن حدیث شریف میں آپ کی زیادہ روایات موجود نہیں ہیں۔ قاضی عبدالصمد صارم کے مطابق حضرت فاطمہ الزہراء کی ۱۸ روایات مختلف کتب حدیث میں مذکور ہیں۔
حضرت حسن کی علمی خدمات
حضرت حسن بن علی، حضرت فاطمہ کے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو اس وقت حضرت حسن بن علی کی عمر تقریباً ۸ سال تھی۔ اس قلیل مدت میں بھی آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریباً ۱۳ روایات حدیث یاد کرلی تھی، جو آج تک کتب حدیث میں موجود ہیں۔ مثلاً فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے صدقہ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور اپنے منہ میں رکھ لی، جیسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کھجور کھاتے دیکھا تو فوراً کخ کخ کرکے میرے منہ سے نکال لی اور یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یعنی آل رسول کو صدقہ کا مال کھانے سے منع کردیا ہے۔
حضرت حسین کی علمی خدمات
حضرت حسین بن علی حضرت فاطمہ کے دوسرے بیٹے ہیں جن کی عمر شریف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت تقریباً ۷ سال تھی۔ آپ سے اتنی کم عمری میں تقریباً ۸ روایات مختلف کتب حدیث میں مذکور ہیں۔
طبقہ ثالثہ
حضرت عباس بن عبدالمطلب کی علمی خدمات
آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں۔ آپ غزوہ بدر کے بعداسلام میں داخل ہوئے، باطنا آپ مکی دور میں ہی مسلمان ہوگئے تھے، آپ سے حدیث شریف کی ۳۵ روایات مذکور ہیں۔
عبداللہ بن عباس کی خدمات
آپ حبرالامت کہلاتے ہیں۔ آپ علم تفسیر میں کمال رکھتے تھے۔ حضرت علی کے علاوہ کوئی آپ کا اس میدان میں ہمسر نہیں تھا۔ آپ تفقہ فی الدین کی وجہ سے حضرت عمر کے یہاں آپ کا خاص مقام تھا۔ حالانکہ آپ عمر میں چھوٹے تھے؛ لیکن پھر بھی آپ کی فہم وفراست کی وجہ سے آپ کو حضرت عمر اجلہٴ صحابہ میں جگہ دیتے تھے۔ آپ سے حدیث کے سلسلے میں ۱۶۶۰ احادیث کی روایات کی گئی ہیں۔ آپ کی تفسیر، تفسیر ابن عباس کے نام سے مشہور ہے، جس کے الفاظ تفسیر کی مختلف کتب میں پائے جاتے ہیں۔
حضرت ام ہانی
آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپی تھیں۔ رشتہ دار ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سماعت کے بہت سے مواقع نصیب ہوئے، آپ سے حدیث شریف میں تقریباً ۴۶ روایات منقول ہیں۔ ایک روایت اس طرح سے ہے کہ آپ نے ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاکہ یا رسول اللہ! میں بہت بوڑھی ہوگئی ہوں زیادہ عبادت وغیرہ نہیں کرسکتی، آپ مجھے کوئی ایسی چیز بتادیجیے جس کو آسانی سے انجام دے سکوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ روزانہ (۱۰۰) سوبار سبحان اللہ کہہ لیاکرو، اس کا ثواب اتنا ہے کہ جیسے کسی نے اللہ کے راستے میں ۱۰۰ اونٹ قربان کیے ہوں اور وہ سب قبول ہوگئے ہوں۔ ۱۰۰ بار الحمدللہ کہہ لیا کرو اس کا ثواب اتنا ہے کہ جیسے کسی نے ۱۰۰ گھوڑے جہاد فی سبیل اللہ کے لیے دیے ہوں اور وہ قبول ہوگئے ہوں اور ۱۰۰ بار اللہ اکبر کہہ لیا کرو اس کا ثواب اتنا زیادہ ہے جیساکہ کسی نے ۱۰۰ غلام اللہ کے لیے آزاد کیے ہوں اور ۱۰۰ بار لا الہ الا اللہ کہہ لیا کرو اس کا ثواب تو زمین وآسمان کے درمیان کے خلاء کو پر کردیتا ہے۔
عبداللہ بن جعفر
آپ حضرت جعفر بن ابی طالب کے بیٹے ہیں۔ آپ کے والد محترم غزوہٴ موتہ میں شہید ہوگئے تھے، اس وقت حضرت جعفر کی عمر ۳۳ سال تھی۔ حضرت عبداللہ بن جعفر اس وقت بچے ہی تھے۔ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سماعت کا زیادہ موقع نہیں ملا؛ لکن پھر بھی آپ سے ۲۵ روایات حدیث منقول ہیں۔
***
حوالہ وحواشی
(۱) قرآن کریم۔
(۲) مشکوٰة شریف۔
(۳) حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا: فضائل اعمال (حکایت صحابہ) باب: ۱۱۔
(۴) حافظ فروغ حسن: ازواج مطہرات، اسلامک بک فاؤنڈیشن نئی دہلی۔
(۵) مفتی محمد شفیع: معارف القرآن۔
(۶) فاروق خاں: حدیث کا تعارف۔
(۷) مولاناابوالاعلیٰ مودودی: تفہیم القرآن۔
(۸) دائرة المعارف الاسلامیہ (اردو)
رسائل
(۱) تہذیب الاخلاق مدیر پروفیسر ابوالکلام قاسمی
(۲) فکر ونظر مدیر مولانا احمد حبیب
(۳) تحقیقات اسلامی، علی گڑھ مدیر سید جلال الدین عمری
******حضور نبی اکرم ﷺ کے اہل بیت اور قرابت داروں کے مناقب
الْبَابُ الْأَوَّلُ : مَنَاقِبُ أَهْلِ الْبَيْتِ وَ قَرَابَةِ الرَّسُولِ عليهم السلام
(حضور نبی اکرم ﷺ کے اہل بیت اور قرابت داروں کے مناقب)
1. فَصْلٌ فِي وَصِيَّةِ النَّبِيِّ ﷺ بِأَهْلِ بَيْتِهِ
(حضور نبی اکرم ﷺ کی اپنے اھلِ بیت کے بارے میں وصیت کا بیان)
1 / 1. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : أَلاَ إِنَّ عَيْبَتِيَ الَّتِي آوِي إِلَيْهَا أَهْلُ بَيْتِي، وَ إِنَّ کَرَشِيَ الْأَنْصَارُ. فَاعْفُوْا عَنْ مُسِيْئِهِمْ وَاقْبَلُوْا مِنْ مُحْسِنِهِمْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
وَقَالَ أَبُوعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آگاہ ہو جاؤ! میرا جامہ دان جس سے میں آرام پاتا ہوں میرے اہل بیت ہیں اور میری جماعت انصار ہیں۔ ان کے بُروں کو معاف کر دو اور ان کے نیکوکاروں سے (اچھائی کو) قبول کرو۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔
الحديث رقم 1 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : في فضل الأنصار وقريش، 5 / 714، الرقم : 3904، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 399، الرقم : 32357، و الشيباني في الآحاد و المثاني، 3 / 332، الرقم : 1716، و ابن سعد في الطبقات الکبري، 2 / 252.
2 / 2. عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنِّي تَارِکٌ فِيْکُمْ خَلِيْفَتَيْنِ : کِتَابَ اللهِ حَبْلٌ مَمْدُوْدٌ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ. أَوْ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَي الْأَرْضِ، وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي، وَإِنَّهُمَا لَنْ يَّتَفَرَّقَا حَتَّي يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
’’حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بے شک میں تم میں دو نائب چھوڑ کر جا رہا ہوں. ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب جو کہ آسمان و زمین کے درمیان پھیلی ہوئی رسی (کی طرح) ہے اور میری عترت یعنی میرے اہل بیت اور یہ کہ یہ دونوں اس وقت تک ہرگز جدا نہیں ہوں گے جب تک یہ میرے پاس حوض کوثر پر نہیں پہنچ جاتے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 2 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 181، الرقم : 21618، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 162.
3 / 3. عَنْ عَبْدِ الرحمٰن بْنِ عَوْفٍ قَالَ : افْتَتَحَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مَکَّةَ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَي الطَّاءِفِ فَحَاصَرَهُمْ ثَمَانِيَةً أَوْسَبْعَةً، ثُمَّ أَوْغَلَ غَدْوَةً أَوْ رَوْحَةً ثُمَّ نَزَلَ ثُمَّ هَجَرَ. ثُمَّ قَالَ : أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي لَکُمْ فَرَطٌ وَ إِنِّي أُوْصِيْکُمْ بِعِتْرَتِي خَيْرًا، وَإِنَّ مَوْعِدَکُمْ الْحَوْضُ . . . الحديث.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
’’حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے مکہ فتح کیا پھر طائف کا رخ کیا اور اس کا آٹھ یا سات دن محاصرہ کئے رکھا پھر صبح یا شام کے وقت اس میں داخل ہو گئے پھر پڑاؤ کیا پھر ہجرت فرمائی اورفرمایا : اے لوگو! بے شک میں تمہارے لئے تم سے پہلے حوض پر موجود ہوں گا اور بے شک میں تمہیں اپنی عترت کے ساتھ نیکی کی وصیت کرتا ہوں اور بے شک تمہارا ٹھکانہ حوض ہو گا ۔ ۔ ۔ الحديث۔‘‘ اِس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
الحديث رقم 3 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 131، الرقم : 2559.
4 / 4. عَنِ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي تَارِکٌ فِيْکُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوْا إِنِ اتَّبَعْتُمُوْهُمَا، وَهُمَا : کِتَابُ اللهِ، وَأَهْلُ بَيْتِي عِتْرَتِي. ثُمَّ قَالَ : أَ تَعْلَمُوْنَ أَنِّي أَوْلَي بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ قَالُوْا : نَعَمْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيُّ مَوْلَاهُ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : صَحِيْحٌ.
’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے لوگو! میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جانے والا ہوں اور اگر تم ان کی اتباع کرو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے اور وہ دو چیزیں کتاب اللہ اور میرے اہل بیت ہیں پھر آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو میں مؤمنین کی جانوں سے بڑھ کر ان کو عزیز ہوں آپ ﷺ نے ایسا تین مرتبہ فرمایا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : ہاں یا رسول اللہ! تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس کا میں مولی ہوں علی بھی اس کا مولی ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
الحديث رقم 4 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 118، الرقم : 4577.
5 / 5. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : لَمَّانَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ : (قُلْ لاَّ أَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمًوَدَّةَ فِي الْقُرْبَي) قَالُوْا : يَارَسُوْلَ اللهِ، مَنْ قَرَابَتُکَ هَؤُلاءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ : عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ وَابْنَاهُمَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت : (قُلْ لاَّ أَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمًوَدَّةَ فِي الْقُرْبَي) نازل ہوئی تو صحابہ کرام نے عرض کیا :
یا رسول اللہ! آپ کی قرابت کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : علی، فاطمہ اور ان کے دو بیٹے (حسن و حسین)۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 5 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 47، الرقم : 2641، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 168.
6 / 6. عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضي الله عنه في رواية طويلة : قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : انْظُرُوْا کَيْفَ تَخْلُفُوْنِي فِي الثَّقَلَيْنِ. فَنَادَي مُنَادٍ وَ مَا الثَّقَلاَنِ يَا رَسُوْلَ اللهِ، قَالَ : کِتَابُ اللهِ طَرَفٌ بِيَدِ اللهِ وَ طَرَفٌ بِأَيْدِيْکُمْ فَاسْتَمْسِکُوْا بِهِ لاَ تَضِلُّوْا، وَالآخَرُ عِتْرَتِي وَ إِنَّ اللَّطِيْفَ الْخَبِيْرَ نَبَّأَنِي أَنَّهُمَا لَنْ يَّتَفَرَّقَا حَتَّي يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ، سَأَلْتُ رَبِّي ذَلِکَ لَهُمَا، فَلاَ تَقَدَّمُوْهُمَا فَتَهْلِکُوْا، وَلاَ تَقْصُرْوا عَنْهُمَا فَتَهْلِکُوْا، وَلاَ تُعَلِّمُوْهُمْ فَإِنَّهُمْ أَعْلَمُ مِنْکُمْ ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ فَقَالَ : مَنْ کُنْتُ أَوْلَي بِهِ مِنْ نَفْسِي فَعَلِيٌّ وَلِيُّهُ اللَّهُمَّ، وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُِّ.
’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : پس یہ دیکھو کہ تم دو بھاری چیزوں میں مجھے کیسے باقی رکھتے ہو. پس ایک نداء دینے والے نے ندا دی یا رسول اللہ! وہ دو بھاری چیزیں کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کی کتاب جس کا ایک کنارا اللہ کے ہاتھ میں اور دوسرا کنارا تمہارے ہاتھوں میں ہے پس اگر تم اسے مضبوطی سے تھامے رہو تو کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے اور دوسری چیز میری عترت ہے اور بے شک اس لطیف خبیر رب نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں چیزیں کبھی بھی جدا نہیں ہوں گی یہاں تک کہ یہ میرے پاس حوض پر حاضر ہوں گی اور ایسا ان کے لئے میں نے اپنے رب سے مانگا ہے۔ پس تم لوگ ان پر پیش قدمی نہ کرو کہ ہلاک ہو جاؤ اور نہ ہی ان سے پیچھے رہو کہ ہلاک ہو جاؤ اور نہ ان کو سکھاؤ کیونکہ یہ تم سے زیادہ جانتے ہیں پھر آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا : پس میں جس کی جان سے بڑھ کر اسے عزیز ہوں تو یہ علی اس کا مولیٰ ہے اے اللہ! جو علی کو اپنا دوست رکھتا ہے تو اسے اپنا دوست رکھ اور جو علی سے عداوت رکھتا ہے تو اس سے عداوت رکھ۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 6 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 5 / 166، الرقم : 4971.
7 / 7. عَنْ مُصْعَبِ بْنِ عَبْدِ الرحمٰن بْنِ عَوْفٍ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : لَمَّا فَتَحَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مَکَّةَ انْصَرَفَ إِلَي الطَّائِفِ فَحَاصَرَهَا سَبْعَ عَشَرَةَ، أَوْتِسْعَ عَشَرَةَ، ثُمَّ قَامَ خَطِيْباً فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَي عَلِيْهِ. ثُمَّ قَالَ : أُوْصِيْکُمْ بِعِتْرَتِي خَيْرًا، وَأَنَّ مَوْعِدَکُمُ الْحَوْضُ. وَالَّذِيْ نَفْسِي بِيَدِهِ لتُقِيْمُنَّ الصَّلَاةَ وَلَتُؤْتُنَّ الزَّکَاةَ، أَوْ لَأَبْعَثَنَّ إِلَيْکُمْ رَجُلاً مِّنِّي. أَوْکَنَفْسِي يَضْرِبُ أَعْنَاقَکُمْ.ثُمَّ أَخَذَبِيَدِ علي رضي الله عنه فَقَالَ : بِهَذَا. رَوَاهُ الْبَزَّارُ.
’’حضرت مصعب بن عبدالرحمٰن بن عوف اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضور ﷺ نے مکہ فتح کیا اس کے بعد آپ ﷺ طائف کی طرف روانہ ہوئے اور آپ ﷺ نے سترہ دن یا انیس دن طائف کا محاصرہ کئے رکھا پھر آپ ﷺ خطاب کے لئے کھڑے ہوئے آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی پھر فرمایا : میں اپنی عترت کے بارے میں تمہیں بھلائی کی وصیت کرتا ہوں اور بے شک تمہارا ٹھکانہ حوض کوثر ہو گا اور نماز قائم کرو گے اور زکوٰۃ ادا کرو گے یا میں تمہاری طرف ایک ایسے آدمی کو بھیجوں گا جو مجھ میں سے ہے یا میری طرح کا ہے اور جو تمہاری گردنیں مارے گا پھر آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : اس آدمی سے میری مراد یہ ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام بزار نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 7 : أخرجه البزار في المسند، 3 / 258، 259، الرقم : 1050، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 163.
2. فَصْلٌ فِي حَثِّ النَّبِيِّ ﷺ عَلَي حُبِّهِمْ
(حضور نبی اکرم ﷺ کا لوگوں کو اھلِ بیت کی محبت پر اُبھارنے کا بیان)
8 / 8. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَحِبُّوْا اللهَ لِمَا يَغْذُوْکُمْ مِنْ نِعَمِهِ، وَأَحِبُّوْنِي بِحُبِّ اللهِ عزوجل. وَأَحِبُّوا أَهْلَ بَيْتِي لِحُبِّي.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ أَبُوعِيْسَي : هَذَا حَدَيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ سے محبت کرو ان نعمتوں کی وجہ سے جو اس نے تمہیں عطا فرمائیں اور مجھ سے محبت کرو اللہ کی محبت کے سبب اور میرے اہل بیت سے میری محبت کی خاطر محبت کرو۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔
الحديث رقم 8 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب أهل البيت النبي ﷺ، 5 / 664، الرقم : 3789، والحاکم في المستدرک 3 / 162، الرقم : 4716، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 366، الرقم : 408.
9 / 9. عَنِ الْعَبَاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي الله عنهما قَالَ : کُنَّا نَلْقَي النَّفَرَ مِنْ قُرَيْشٍ، وَهُمْ يَتَحَدَّثُوْنَ فَيَقْطَعُوْنَ حَدِيْثَهُمْ، فَذَکَرْنَا ذَلِکَ لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ، فَقَالَ : مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَتَحَدَّثُوْنَ فَإِذَا رَأَوْا الرَّجُلَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي قَطَعُوْا حَدِيْثَهُمْ وَاللهِ، لاَ يَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الإِيْمَانُ حَتَّي يُحِبَّهُمْ لِلّهِ وَلِقَرَابَتِهِمْ مِنِّي. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ وَالْحَاکِمُ.
’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم جب قریش کی جماعت سے ملتے اور وہ باہم گفتگو کررہے ہوتے تو گفتگو روک دیتے ہم نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں اس امر کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا : لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جب میرے اہل بیت سے کسی کو دیکھتے ہیں تو گفتگو روک دیتے ہیں؟ اللہ رب العزت کی قسم! کسی شخص کے دل میں اس قت تک ایمان داخل نہیں ہوگا جب تک ان سے اللہ تعالیٰ کے لیے اور میرے قرابت کی وجہ سے محبت نہ کرے۔‘‘ اسے امام ابن ماجہ اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 9 : أخرجه ابن ماجة في السنن، المقدمة، باب : فضل العباس بن عبد المطلب رضي الله عنه، 1 / 50، الرقم : 140، والحاکم في المستدرک، 4 / 85، الرقم : 6960، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 8 / 382، الرقم : 472، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 113، الرقم : 6350، والسيوطي في شرح سنن ابن ماجة، 1 / 13، الرقم : 140.
10 / 10. عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي الله عنه قَالَ : قُلْتُ : يَارَسُولَ اللهِ، إِنَّ قُرَيْشًا إِذَا لَقِيَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا لَقُوهُمْ بِبَشْرٍ حَسَنٍ، وَإِذَا لَقُوْنَا لَقُوْنَا بِوُجُوهٍ لاَ نَعْرِفُهَا. قَالَ : فَغَضِبَ النَّبِيُّ ﷺ غَضَبًا شَدِيْداً، وَقَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لاَ يَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الإِيْمَانُ حَتَّي يُحِبَّکُمْ لِلّهِ وَلِرَسُوْلِهِ وَ لِقَرَابَتِي. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالْبَزَّارُ.
و في رواية : قَالَ : وَاللهِ، لَا يَدْخُلُ قَلْبَ امْرِيءٍ إِيْمَانٌ حَتَّي يُحِبَّکُمْ لِلّهِ وَلِقَرَابَتِي.
’’حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ میں نے بارگاہِ رسالت ﷺ میں عرض کیا : یا رسول اللہ! قریش جب آپس میں ملتے ہیں تو حسین مسکراتے چہروں سے ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو ایسے چہروں سے ملتے ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے (یعنی جذبات سے عاری چہروں کے ساتھ) حضرت عباس فرماتے ہیں : حضور نبی اکرم ﷺ یہ سن کر شدید جلال میں آگئے اور فرمایا : اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کسی بھی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ اور میری قرابت کی خاطر تم سے محبت نہ کرے۔‘‘ اسے امام احمد، نسائی، حاکم اور بزار نے روایت کیا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ فرمایا : خدا کی قسم کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہ ہوگا جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ اور میری قرابت کی وجہ سے تم سے محبت نہ کرے۔‘‘
الحديث رقم 10 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 207، الرقم : 1772، 1777، 17656، 17657، 17658، والحاکم في المستدرک، 3 / 376، الرقم : 5433، 2960، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 51 الرقم : 8176، والبزار في المسند، 6 / 131، الرقم : 2175، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 188، الرقم : 1501، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 361، الرقم : 7037.
11 / 11. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُوْلُ عَلَي هَذَا الْمِنْبَرِ : مَا بَالُ رِجَالٍ يَقُوْلُوْنَ : إِنَّ رَحِمَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ لاَ تَنْفَعُ قَوْمَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، بَلَي وَاللهِ، إِنَّ رَحِمِي مَوْصُوْلَةٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ. وَأَنِّي أَيُّهَا النَّاسُ، فَرَطٌ لَکُمْ عَلَي الْحَوْضِ فَإِذَا جِئْتُمْ قَالَ رَجُلٌ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَنَا فُلَانٌ بْنُ فَلَانٍ وَقَالَ : يَتَحَقَّقُ أَنَا فُلَانٌ بْنُ فُلَانٍ وَ قَالَ لَهُمْ : أَمَّا النَّسَبُ فَقَدْ عَرَّفْتُهُ وَ لَکِنَّکُمْ أَحْدَثْتُمْ بَعْدِي وَ أَرْتَدَدْتُمْ الْقَهْقَرِيَّ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ الْحَاکِمُ.
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا ان لوگوں کا کیا ہو گا جو یہ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے نسبی تعلق قیامت کے روز ان کی قوم کو کوئی فائدہ نہیں دے گا کیوں نہیں! اللہ کی قسم بے شک میرا نسبی تعلق دنیا و آخرت میں آپس میں باہم ملا ہوا ہے اور اے لوگو! بے شک (قیامت کے روز) میں تم سے پہلے حوض پر موجود ہوں گا پس جب تم آ گئے تو ایک آدمی کہے گا یا رسول اللہ! میں فلاں بن فلاں ہوں پس حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس کا فلاں بن فلاں کہنا پایۂ ثبوت کو پہنچے گا اور رہا نسب تو تحقیق اس کی پہچان میں نے تمہیں کرا دی ہے لیکن تم میرے بعد تم احداث کرو گے اور الٹے پاؤں پھر جاؤ گے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور امام حاکم نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 11 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 18، الرقم : 11154، و الحاکم في المستدرک، 4 / 84، الرقم : 6958، و أبو يعلي في المسند، 2 / 433، الرقم : 1238، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 364.
12 / 12. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه : قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : خَيْرُکُمْ، خَيْرُکُمْ لِأَهْلِي مِنْ بَعْدِي. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَ أَبُوْ يَعْلَي.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے بہترین وہ ہے جو میرے بعد میری اہل کے لئے بہترین ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم اور امام ابویعلی نے بیان کیا ہے۔
الحديث رقم 12 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 352، الرقم : 5359، وأبو يعلي في المسند، 10 / 330، الرقم : 5924، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 616، الرقم : 1414، و الديلمي في مسند الفردوس، 2 / 170، الرقم : 2851، و الخطيب في تاريخ بغداد، 7 / 276، الرقم : 3765، و المناوي في فيض القدير، 3 / 497، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 174.
13 / 13. عَنْ عَبْدِ الرحمٰن بْنِ أَبِي لَيْلَي عَنْ أَبيْهِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لاَ يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّي أَکُوْنَ أَحَبَّّ إِلَيْهِ مِنْ نَفْسِهِ وَأَهْلِي أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَهْلِهِ وَعِتْرَتِي أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ عِتْرَتِهِ. وَذَاتِي أَحَبََّ إِلَيْهِ مِنْ ذَاتِهِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
’’حضرت عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی جان سے بھی محبوب تر نہ ہو جاؤں اور میرے اھلِ بیت اسے اس کے اہل خانہ سے محبوب تر نہ ہو جائیں اور میری اولاد اسے اپنی اولاد سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جائے اور میری ذات اسے اپنی ذات سے محبوب تر نہ ہو جائے۔‘‘ اسے امام طبرانی اور امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 13 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 7 / 75، الرقم : 6416، و في المعجم الأوسط، 6 / 59، الرقم : 5790، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 189، الرقم : 1505، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 154، الرقم : 7795، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 88.
14 / 14. عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : الْزِمُوْا مَوَدَّتَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ، فَإِنَّهُ مَنْ لَقِيَ اللهَ عزوجل وَ ُهوَ يَوَدُّنَا دَخَلَ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَتِنَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ : لاَ يَنْفَعُ عَبْدًا عَمَلُهُ إِلاَّ بِمَعْرِفَةِ حَقِّنَا.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہم اہل بیت کی محبت کو لازم پکڑو پس بے شک وہ شخص جو اس حال میں اللہ سے ملا کہ وہ ہمیں محبت کرتا تھا تو وہ ہماری شفاعت کے صدقے جنت میں داخل ہوگا اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کسی شخص کو اس کا عمل فائدہ نہیں دے گا مگر ہمارے حق کی معرفت کے سبب۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے بیان کیا ہے۔
الحديث رقم 14 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 360، الرقم : 2230، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 172.
15 / 15. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ : کَانَ لِآلِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ خَادِمٌ تَخْدُمُهُمْ يُقَالَ لَهَا : بَرِيْرَةُ، فَلَقِيَهَا رَجُلٌ فَقَالَ : يَابَرَيْرَةُ، غَطِّي شُعَيْفَاتِکِ، فَإِنَّ مُحَمَّدًا لَنْ يُغْنِيَ عَنْکِ مِنَ اللهِ شَيْئاً قَالَ : فَأَخْبَرَتِ النَّبِيَّ ﷺ : فَخَرَجَ يَجُرُّ رِدَاءَهُ مُحُمَّرَةً وَجْنَتَاهُ، وَکُنَّا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ نَعْرِفُ غَضَبَهَ بِجَرِّ رِدَاءِهِ وَ حُمْرَةِ وَجَنَتَيْهِ. فَأَخَذْنَا السِّلاَحَ، ثُمَّ أَتَيْنَاهُ فَقُلْنَا : يَارَسُوْلَ اللهِ، مُرْنَا بِمَا شِئْتَ، فَوَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ، لَوْ أَمَرْتَنَا بِأُمَّهَاتِنَا وَآبَاءِنَا وَأَوْلاَدِنَا، لَأَمْضَيْنَا قَوْلَکَ فِيْهِمْ، فَصَعِدَ ﷺ الْمِنْبَرَ فَحَمِدَ اللهَ عزوجل وَأَثْنَي عَلَيْهِ. وَ قَالَ : مَنْ أَنَا؟، فَقُلْنَا : أَنْتَ رَسُوْلُ اللهِ. قَالَ : نَعَمْ، وَلَکِنْ مَنْ أَنَا؟ فَقُلْنَا : مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ بْنِ هَاشِمٍ بْنِ عَبْدِ مُنَافٍ. قَالَ : أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ وَلاَ فَخْرَ، وَأَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ وَلاَ فَخْرَ، وَأَوَّلُ مَنْ يُنْفَضُ التُّرَابُ عَنْ رَأْسِهِ وَلاَ فَخْرَ، وَأَوَّلُ دَاخِلِ الْجَنَّةِ وَلاَ فَخْرَ، مَا باَلُ أَقْوَامٍ يَزْعَمُوْنَ أَنَّ رَحِمِي لاَ تَنْفَعُ. لَيْسَ کَمَا زَعَمُوْا، إِنِّي لَأَشْفَعُ وَأُشَفَّعُ، حَتَّي أَنَّ مَنْ أَشْفَعُ لَهُ لَيَشْفَعُ فَيُشَفَّعُ، حَتَّي إِنَّ إِبْلِيْسَ لَيَتَطَاوَلُ طَمْعًا فِي الشَّفَاعَةِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آل رسول ﷺ کی ایک خادمہ تھی جو ان کی خدمت بجا لاتی اسے ’’بریرہ‘‘ کہا جاتا تھا پس اسے ایک آدمی ملا اور کہا : اے بریرہ اپنی چوٹی کو ڈھانپ کر رکھا کرو بے شک محمد ﷺ تمہیں اللہ کی طرف سے کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ راوی بیان کرتے ہیں پس اس نے حضور نبی اکرم ﷺ کو اس واقع کی خبر دی پس آپ ﷺ اپنی چادر کو گھسیٹتے ہوئے باہر تشریف لائے درآنحالیکہ حضور نبی اکرم ﷺ کی دونوں رخسار مبارک سرخ تھے اور ہم (انصار کا گروہ) حضور ﷺ کے غصے کو آپ ﷺ کے چادر کے گھسیٹنے اور رخساروں کے سرخ ہونے سے پہچان لیتے تھے پس ہم نے اسلحہ اٹھایا اور حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس آ گئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ جو چاہتے ہیں ہمیں حکم دیں پس اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے! اگر آپ ہمیں ہماری ماؤں، آباء اور اولاد کے بارے میں بھی کوئی حکم فرمائیں گے تو ہم ان میں بھی آپ ﷺ کے قول کو نافذ کر دیں گے پس آپ ﷺ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی اور فرمایا : میں کون ہوں؟ ہم نے عرض کیا : آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں لیکن میں کون ہوں؟ ہم نے عرض کیا : آپ محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میں حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد کا سردار ہوں لیکن کوئی فخر نہیں، میں وہ پہلا شخص ہوں جس سے قبر پھٹے گی لیکن کوئی فخر نہیں اور میں وہ پہلا شخص ہوں جس کے سر سے مٹی جھاڑی جائے گی لیکن کوئی فخر نہیں اور میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والا ہوں لیکن کوئی فخر نہیں ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو یہ گمان کرتے ہیں کہ میرا رحم (نسب و تعلق) فائدہ نہیں دے گا ایسا نہیں ہے جیسا وہ گمان کرتے ہیں۔ بے شک میں شفاعت کروں گا اور میری شفاعت قبول بھی ہو گی یہاں تک کہ جس کی میں شفاعت کروں گا وہ یقیناً دوسروں کی شفاعت کرے گا اور اس کی بھی شفاعت قبول ہو گی یہاں تک کہ ابلیس بھی اپنی گردن کو بلند کرے گا شفاعت میں طمع کی خاطر (یا کسی طور اس کی شفاعت بھی کوئی کر دے)۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے بیان کیا ہے۔
الحديث رقم 15 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 203، الرقم : 5082، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 376.
16 / 16. عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ رضي الله عنهما : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : الْزِمُوْا مَوَدَّتَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ، فَإِنَّهُ مَنْ لَقِيَ اللهَ عزوجل وَهُوَ يَوَدُّنَا، دَخَلَ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَتِنَا. وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا يَنْفَعُ عَبْدًا عَمَلُهُ إلَّا بِمَعْرِفَةِ حَقِّنَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ہم اہل بیت کی محبت کو لازم پکڑو پس وہ شخص جو اس حال میں اللہ سے (وصال کے بعد) ملا کہ وہ ہم سے محبت کرتا ہو تو وہ ہماری شفاعت کے وسیلہ سے جنت میں داخل ہو گا اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں مجھ محمد کی جان ہے کسی بھی شخص کو اس کا عمل ہمارے حق کی معرفت حاصل کئے بغیر فائدہ نہیں دے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 16 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 360، الرقم : 2230، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 172.
17 / 17. عَنْ أَبِي رَافِعٍ رضي الله عنه : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ لِعَلِيٍّ رضي الله عنه : أَنْتَ وَشِيْعَتُکَ تَرِدُوْنَ عَلَيَّ الْحَوْضَ رُوَاءَ مُرَوَّييْنَ، مُبَيَّضَةً وُجُوْهُکُمْ. وَإِنَّ عَدُوَّکَ يَرِدُوْنَ عَلَيَّ ظُمَاءً مُقَبَّحِيْنَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اے علی! تو اور تیرے (چاہنے والے) مددگار (قیامت کے روز) میرے پاس حوض کوثر پر چہرے کی شادابی اور سیراب ہو کر آئیں گے اور ان کے چہرے (نور کی وجہ سے) سفید ہوں گے اور بے شک تیرے دشمن (قیامت کے روز) میرے پاس حوض کوثر پر بدنما چہروں کے ساتھ اور سخت پیاس کی حالت میں آئیں گے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 17 : أخرجه الطبراني فيالمعجم الکبير، 1 / 319، الرقم : 948، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 131.
18 / 18. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّمَا سَمَّيْتُ بِنْتِي فَاطِمَةَ لِأَنَّ اللهَ عزوجل فَطَمَهَا وَ فَطَمَ مُحِبِّيْهَا عَنِ النَّارِ.
رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.
’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بے شک میں نے اپنی بیٹی کا نام فاطمہ رکھا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس کے چاہنے والوں کو آگ سے چھڑا (اور بچا) لیا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 18 : أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 1 / 346، الرقم : 1385، و الخطيب في تاريخ بغداد، 12 / 331، و المناوي في فيض القدير، 3 / 432.
19 / 19. عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : حُبُّ آلِ مُحَمَّدٍ يَوْماً، خَيْرٌ مِنْ عِبَادَةِ سَنَة وَ مَنْ مَاتَ عَلَيْهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.
’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : اہل بیت مصطفیٰ ﷺ کی ایک دن کی محبت پورے سال کی عبادت سے بہتر ہے اور جو اسی محبت پر فوت ہوا تو وہ جنت میں داخل ہو گیا۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 19 : أخرجه الديلمي فی مسند الفردوس، 2 / 142، الرقم : 2721.
20 / 20. عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضي الله عنه مَرْفُوْعا. خَمْسٌ مَنْ أوْتِيَهُنَّ لَمْ يُقْدَرْ عَلَي تَرْکِ عَمَلِ الْآخِرَةِ زَوْجَةٌ صَالِحَةٌ وَ بَنُوْنَ أَبْرَارٌ وَ حَسَنُ مُخَالَطَةِ النَّاسِ وَ مَعِيْشَةٌ فِي بَلَدِهِ وَ حُبُّ آلِ مُحَمَّدٍ ﷺ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.
’’حضرت زید بن ارقم سے مرفوعاً روایت ہے کہ پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ اگر کسی کو نصیب ہو جائیں تو وہ آخرت کے عمل کا تارک نہیں ہو سکتا (اور وہ پانچ چیزیں یہ ہیں) : نیک بیوی، نیک اولاد، لوگوں کے ساتھ حسن معاشرت اور اپنے ملک میں روزگار اور آل محمد ﷺ کی محبت۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 20 : أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 2 / 196، الرقم : 2974.
21 / 21. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما رَفَعَهُ : أَنَا شَجَرَةٌ، وَ فَاطِمَةُ حَمْلُهَا، وَ عَلِيٌ لِقَاحُهَا وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ ثَمَرُهَا، وَ الْمُحِبُّوْنَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَرَقُهَا، هُمْ فِي الْجَنَّةِ حَقًا حَقًا. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں درخت ہوں اور فاطمہ اس کے پھل کی ابتدائی حالت ہے اور علی اس کے پھول کو منتقل کرنے والا ہے اور حسن اور حسین اس درخت کا پھل ہیں اور اہل بیت سے محبت کرنے والے اس درخت کے اوراق ہیں وہ یقیناً یقیناً جنت میں (داخل ہونے والے) ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 21 : أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 1 / 52، الرقم : 135.
22 / 22. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه رَفَعَهُ : أَرْبَعَةٌ أَنَا لَهُمْ شَفِيْعٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ : الْمُکْرِمُ ذُرِّيَّتِي، وَالْقَاضِي لَهُمْ حَوَائِجَهُمْ، وَ السَّاعِي لَهُمْ فِي أُمُوْرِهِمْ عِنْدَ مَا اضْطَرُّوْا إِلَيْهِ، وَ الْمُحِبُّ لَهُمْ بِقَلْبِهِ وَ لِسَانِهِ.
رَوَاهُ الْمُتَّقِيُّ الْهِنْدِيُّ.
’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : چار شخص ایسے ہیں قیامت کے روز جن کے لئے میں شفاعت کرنے والا ہوں گا (اور وہ یہ ہیں : ) میری اولاد کی عزت و تکریم کرنے والا، اور ان کی حاجات کو پورا کرنے والا، اور ان کے معاملات کے لئے تگ و دو کرنے والا جب وہ مجبور ہو کر اس کے پاس آئیں اور دل و جان سے ان کی محبت کرنے والا۔‘‘ اس حدیث کو امام متقی ہندی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 22 : أخرجه الهندي في کنز العمال، 12 / 100، الرقم : 34180.
3. فَصْلٌ فِي مَشْرُوْعِيَّةِ الصَّلَاةِ عَلَيْهِمْ تَبْعًا لِلنَّبِيِّ ﷺ
(حضور نبی اکرم ﷺ کی اِتباع میں آپ ﷺ کے اھلِ بیت پر درود بھیجنے کا بیان)
23 / 23. عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ رضي الله عنه : أَنَّهُمْ قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اللهِ، کَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْکَ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : قُوْلُوْا : اللَّهُمَّ، صَلِّ عَلَي مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، کَمَا صَلَّيْتَ عَلَي آلِ إِبْرَاهِيْمَ. وَبَارِکْ عَلَي مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرَّيَتِهِ، کَمَا بَارَکْتَ عَلَي إِبْرَاهِيْمَ إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
’’حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہم آپ پر کیسے درود بھیجیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : (یوں) کہو : اے اللہ تو درود بھیج محمد ﷺ اور آپ ﷺ کی ازواج مطہرات اور آپ ﷺ کی ذریت طاہرہ پر جیسا کہ تو نے درود بھیجا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آل پر اور برکت عطا فرما محمد ﷺ کو اور آپ ﷺ کی ازواج مطہرات کو اور آپ ﷺ کی ذریت طاہرہ کو جیسا کہ تو نے برکت عطا کی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بے شک تو حمید مجید ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
الحديث رقم 23 : أخرجه البخاريفي الصحيح، کتاب : الأنبياء، باب : يزفان النسلان في المشي، 3 / 1232، الرقم : 3189، ومسلم في الصحيح، کتاب : الصلاة، باب : الصلاة علي النبي ﷺ بعد التشهد، 1 / 306، الرقم : 407، و مالک في الموطأ، 1 / 165، الرقم : 395، و النسائي في السنن الکبري، 1 / 384، الرقم : 1217، و أبو عوانة في المسند، 1 / 546، الرقم : 4039، و البيهقي في السنن الکبري، 2 / 150، الرقم : 2685.
24 / 24. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَکْتَالَ بِالْمِکْيَالِ الْأَوْفَي إِذَا صَلَّي عَلَيْنَا أَهْلَ الْبَيْتِ، فَلْيَقُلْ : اللَّهُمَّ، صَلِّ عَلَي مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ وَأَزْوَاجِهِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِيْنَ وَذُرِّيَتِهِ وَأَهْلِ بَيْتِهِ. کَمَا صَلَّيْتَ عَلَي إِبْرَاهِيْمَ إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ. رَوَاهُ أَبُودَاوُدَ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جسے یہ خوشی حاصل کرنا ہو کہ اس کے نامہ اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے جب وہ ہم اہل بیت پر درود بھیجے تو اسے چاہئے کہ یوں کہے : اے اللہ! تو درود بھیج حضرت محمد ﷺ اور آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات امہات المومنین پر اور آپ ﷺ کی ذریت اور اہل بیت پر جیسا کہ تو نے درود بھیجا حضرت ابراہیم علیہ السلام پر بے شک تو بہت زیادہ تعریف کیا ہوا اور بزرگی والا رب ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابوداود نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 24 : أخرجه أبوداود فيالسنن، کتاب : الصلاة، باب : الصلاة علي النبي بعد التشهد، 1 / 258، الرقم : 982، و البيهقي في السنن الکبري، 2 / 151، الرقم : 2686، و في شعب الإيمان، 2 / 189، الرقم : 1504، والمزي في تهذيب الکمال، 5 / 348.
25 / 25. عَنْ أَبِي مَسْعُوْدٍ الْأَنْصَارِيِّ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : مَنْ صَلَّي صَلَاةً لَمْ يُصَلِّ فِيْهَا عَلَيَّ وَعَلَي أَهْلِ بَيْتِي، لَمْ تُقْبَلْ مِنْهُ. وَ قَالَ أَبُوْمَسْعُوْدٍ رضي الله عنه : لَوْ صَلَّيْتُ صَلَاةً لَا أُصَلِّي فِيْهَا عَلَي مُحَمَّدٍ، مَارَأَيْتُ أَنَّ صَلَاتِي تَتِمُّ. رَوَاهُ الدَّارُقُطْنِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
’’حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے نماز پڑھی اور مجھ پر اور میرے اہل بیت پر درود نہ پڑھا اس کی نماز قبول نہ ہوگی۔ حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر میں نماز پڑھوں اور اس میں حضور نبی اکرم ﷺ پر درود پاک نہ پڑھوں تو میں نہیں سمجھتا کہ میری نماز کامل ہو گی۔‘‘ اسے امام دارقطنی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 25 : أخرجه الدارقطني في السنن، 1 / 355، الرقم : 6.7، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 530، الرقم : 3969، و ابن الجوزي في التحقيق في أحاديث الخلاف، 1 / 402، الرقم : 544، والشوکاني في نيل الأوطار، 2 / 322.
26 / 26. عَنْ عَبْدِ الرحمٰن بْنِ أَبِي لَيْلَي قَالَ : لَقِيَنِي کَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ رضي الله عنه فَقَالَ : أَلاَ أُهْدِي لَکَ هَدْيَةً سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِيِّ ﷺ ؟ قُلْتُ : بَلَي، قَالَ : فَأَهْدِهَا إِلَيَّ قَالَ : سَأَلْنَا رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فَقُلْنَا : يَا رَسُوْلَ اللهِ، کَيْفَ الصَّلَاةُ عَلَيْکُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ؟ قَالَ ﷺ : قُوْلُوْا : اللَّهُمَّ، صَلِّ عَلَي مُحَمَّدٍ وَ عَلَي آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّيْتَ عَلَي إِبْرَاهِيْمَ وَ عَلَي آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّکَ حَمِيْدٌ مُّجِيْدٌ. وَ اللَّهُمَّ، بَارِکْ عَلَي مُحَمَّدٍ وَ عَلَي آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا بَارَکْتَ عَلَي إِبْرَاهِيْمَ وَ عَلَي آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ مجھے ملے اور کہا کیا میں تمہیں وہ (حدیث) ہدیہ نہ کروں جو میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سنی ہے؟ میں نے کہا کیوں نہیں۔ راوی بیان کرتے ہیں میں نے کہا کہ وہ مجھے ہدیہ کرو تو انہوں نے کہا : ہم نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا۔ سو ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ کے اہل بیت پر درود کیسے بھیجا جائے؟ تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : (یوں) کہو : اے اللہ تو (بصورت رحمت) درود بھیج۔ محمد ﷺ اور آپ ﷺ کی آل پر جیسا کہ تو نے درود بھیجا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کی آل پر بے شک تو حمید مجید ہے اور اے اللہ تو برکت عطا کر محمد ﷺ اور آپ ﷺ کی آل کو جیسا کہ تو نے برکت عطا کی ابراہیم علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کی آل کو بے شک تو حمید مجید ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 26 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 160، الرقم : 4710، وأشارالحاکم إلي أن البخاري خرَّجه بلفظه، ولکنْ علّةُ ذکرهِ کما ذکره هنا، لإفادة أن آل البيت والآل جميعاً هم. ولابن المفضل جزئٌ في طريق حديث ابن أبي ليلي عن کعب بن عجرة، و الطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 29، الرقم : 2368.
27 / 27. عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ قَالَ : خَرَجْتُ أَنَا أرِيْدُ عَلِيًّا فَقِيْلَ لِي هُوَ عِنْدَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَأَمَمْتُ إِلَيْهِمْ فَأَجِدَهُمْ فِي حَظِيْرَة مِّنْ قَصَبِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَ عَلِيٌّ وَ فَاطِمَةُ وَحَسَنٌ وَحُسَيْنٌ رضي الله عنهم قَدَ جَمَعَهُمْ تَحْتَ ثَوْبٍ فَقَالَ : اللَّهُمَّ، إِنَّکَ جَعَلْتَ صَلَوَاتِکَ وَرِضْوَانَکَ عَلَيَّ وَ عَلَيْهِمْ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تلاش میں باہر نکلا تو مجھے کسی نے کہا کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس ہیں پس میں نے (وہاں) ان (کے پاس جانے) کا ارادہ کیا (اور جب میں وہاں پہنچا) تو میں نے انہیں حضور نبی اکرم ﷺ کی چادر کے اندر پایا اور حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حسن اور حسین رضی اللہ عنھم ان سب کو حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک کپڑے کے نیچے جمع کر رکھا تھا پس آپ ﷺ نے فرمایا : اے اللہ! بے شک تو نے اپنے درود اور اپنی رضوان کو مجھ پر اور ان پر خاص کر دیا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 27 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 22 / 95، الرقم : 230، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 167.
4. فَصْلٌ فِي بِشَارَةِ النَّبِيِّ ﷺ لَهُمْ بِالْجَنَّةِ وَجَزَائِهِ ﷺ لِمَنْ أَحْسَنَ إِلَيْهِمْ
(حضور نبی اکرم ﷺ کا اپنے اھلِ بیت کو جنت کی بشارت دینے اور ان سے نیکی کرنے والوں کو جزاء دینے کا بیان)
28 / 28. عَنْ أَبِي رَافِعٍ : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ لِعَلِيٍّ رضي الله عنه : إِنَّ أَوَّلَ أَرْبَعة يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ، أَنَا وَأَنْتَ وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ، وَ ذَرَارِيْنَا خَلْفَ ظَهُوْرِنَا، وَ أَزْوَاجُنَا خَلْفَ ذَرَارِيْنَا، وَ شِيْعَتُنَا عَنْ أَيْمَانِنَا وَ عَنْ شَمَائِلِنَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت ابورافع بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : بے شک پہلے چار اشخاص جو جنت میں داخل ہوں گے وہ میں، تم، حسن اور حسین ہوں گے اور ہماری اولاد ہمارے پیچھے ہوگی (یعنی ہمارے بعد وہ داخل ہو گی) اور ہماری بیویاں ہماری اولاد کے پیچھے ہوں گی (یعنی ان کے بعدجنت میں داخل ہوں گی) اور ہمارے چاہنے والے (ہمارے مدد گار) ہماری دائیں جانب اور بائیں جانب ہوں گے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 28 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 1 / 319، الرقم : 950، 3 / 41، الرقم : 2624، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 131.
29 / 29. عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ قَالَ : سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ يَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ صَنَعَ إِلَي أَحَدٍ مِنْ وَلَدِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ يَدًا فَلَمْ يُکَافِئْهُ بِهَا فِي الدُّنْيَا فَعَلَيَّ مُکَافَأَتُهُ غَدًا إِذَا لَقِيَنِي. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت ابان بن عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے اولاد عبد المطلب میں سے کسی کے ساتھ کوئی بھلائی کی اور وہ اس کا بدلہ اس دنیا میں نہ چکا سکا تو اس کا بدلہ چکانا کل (قیامت کے روز) میرے ذمہ ہے جب وہ مجھ سے ملاقات کرے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا۔
الحديث رقم 29 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 120، الرقم : 1446، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 1 / 439، الرقم : 315، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 173.
30 / 30. عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ : أَنَّهُ ﷺ قَالَ : يَا عَلِيُّ، إِنَّ اللهَ قَدْ غَفَرَ لَکَ وَلِذُرِّيَّتِکَ وَ لِوَلَدِکَ وَ لِأَهْلِکَ، وَلِشِيْعَتِکَ وَ لِمُحِبِّي شِيْعَتِکَ. فَابْشِرْ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.
’’حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے علی! بے شک اللہ تعالیٰ نے تجھے اور تیری اولاد کو اور تیرے گھر والوں کو اور تیرے مددگاروں کو اور تیرے مددگاروں کے چاہنے والے کو بخش دیا ہے پس تجھے یہ خوشخبری مبارک ہو۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 30 : أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 5 / 329، الرقم : 8337.
5. فَصْلٌ فِي أَنَّهُمْ أَمَانٌ وَنَجَاةٌ لِأمَّتِهِ ﷺ
(اھلِ بیتِ اطہار کا آپ ﷺ کی امت کے لئے باعثِ امان اور نجات ہونے کا بیان)
31 / 31. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ : يَا أَيُّهاالنَّاسُ، إِنِّي قَدْ تَرَکْتُ فِيْکُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا : کِتَابَ اللهِ، وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي. رَوَاهُ التِرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ.
’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے سنا حضور نبی اکرم ﷺ فرما رہے تھے : اے لوگو! میں تمہارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم انہیں پکڑے رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ (ان میں سے ایک) اللہ تعالیٰ کی کتاب اور (دوسری چیز) میرے گھر والے ہیں۔‘‘ اسے امام ترمذی نے روایت کیا اور حسن قرار دیا ہے۔
الحديث رقم 31 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اللہ ﷺ، باب : في مناقب أهل بيت النبي ﷺ، 5 / 662، الرقم : 3786، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 89، الرقم : 4757، و في المعجم الکبير، 3 / 66، الرقم : 2680، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 114.
32 / 32. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ : رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فِي حَجَّتِهِ يَوْمَ عَرَفَةَ وَ هُوَ عَلَي نَاقَتِهِ الْقُصْوَاءِ يَخْطُبُ فَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : ياَ أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي قَدْ تَرَکْتُ فِيْکُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوْا، کِتَابَ اللهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو دورانِ حج عرفہ کے دن دیکھا کہ آپ ﷺ اونٹنی قصواء پرسوار خطاب فرما رہے ہیں۔ پس میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اے لوگو! میں نے تم میں وہ چیز چھوڑی ہے کہ اگر تم اسے مضبوطی سے تھام لو تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے اور وہ چیز کتاب اللہ اور میری عترت اہل بیت ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 32 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب أهل بيت النبي ﷺ، 5 / 662، الرقم؛ 3786، و الطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 89، الرقم : 4757، و في المعجم الکبير، 3 / 66، الرقم : 2680، والحکيم الترمذي في نوادر الأصول، 1 / 258، و القزويني في التدوين في أخبار قزوين، 2 / 266.
33 / 33. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : النُّجُوْمُ أَمَانٌ ِلأَهْلِ الْأَرْضِ مِنَ الْغَرْقِ وَ أَهْلُ بَيْتِي أَمَانٌ لِأمَّتِي مِنَ الإِخْتِلاَفِ، فَإِذَا خَالَفَتْهَا قَبِيْلَةٌ مِنَ الْعَرَبِ اخْتَلَفُوْا فَصَارُوْا حِزْبَ إِبْلِيْسَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ.
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ستارے اہل زمین کو غرق ہونے سے بچانے والے ہیں اور میرے اہل بیت میری امت کو اختلاف سے بچانے والے ہیں اور جب کوئی قبیلہ ان کی مخالفت کرتا ہے تو اس میں اختلاف پڑ جاتا ہے یہاں تک کہ وہ شیطان کی جماعت میں سے ہو جاتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا اور کہا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
الحديث رقم 33 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 162، الرقم : 4715.
34 / 34. عَنْ أَنَسٍ، قَالَ : قاَلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : وَعَدَنِي رَبِّي فِي أَهْلِ بَيْتِي مَنْ أَقَرَّ مِنْهُمْ بِالتَّوْحِيْدِ وُلِّيَ بِالْبَلاَغِ، أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے رب نے مجھ سے میرے اہل بیت کے بارے وعدہ کیا ہے کہ ان میں سے جو بھی میری توحید کا اقرار کرے گا اسے یہ بات پہنچا دی جائے کہ اللہ تعالیٰ اسے عذاب نہیں دے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
الحديث رقم 34 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 163، الرقم : 4718، و الديلمي في مسند الفردوس، 4 / 382، الرقم : 7112.
35 / 35. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ مَثَلُ أَهْلِ بَيْتِي مَثَلُ سَفِينَةِ نُوحٍ، مَنْ رَکِبَ فِيْهَا نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنَهَا غَرِقَ.
و في رواية : عَنْ عَبْدِ اللهَ بْنِ الزُّبَيْرِ رضي الله عنهما قَالَ : مَنْ رَکِبَهَا سَلِمَ، وَمَنْ تَرَکَهَا غَرِقَ. رَوَاهُ الطَّّبَرَانِيُّ وَالْبَزَّارُ وَالْحَاکِمُ.
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے اھلِ بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی سی ہے جو اس میں سوار ہوگیا وہ نجات پاگیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ غرق ہو گیا۔
اور ایک روایت میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ فرمایا : جو اس میں سوار ہوا وہ سلامتی پا گیا اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ غرق ہو گیا۔‘‘ اسے طبرانی، بزار اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 35 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 34، الرقم : 2388، 2638، 2638، 2636، و في المعجم الأوسط، 4 / 10، الرقم : 3478، 5 / 355، الرقم : 5536، 6 / 85، الرقم : 5870، في المعجم الصغير، 1 / 240، الرقم : 391، 2 / 84، الرقم : 825، والحاکم في المستدرک، 3 / 163، الرقم : 4720، والبزار في المسند، 9 / 343، الرقم : 3900، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 238، الرقم : 916، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 168.
36 / 36. عَنِ أَبِي ذَرٍّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَثَلُ أَهْلِ بَيْتِي مَثَلُ سَفِيْنَةِ نُوْحٍ : مَنْ رَکِبَ فِيْهَا نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِقَ، وَ مَنْ قَاتَلَنَا فِي آخِرِ الزَّمَانِ فَکَأَنَّمَا قَاتَلَ مَعَ الدَّجَّالِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے اہل بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی سی ہے جو اس میں سوار ہو گیا نجات پاگیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ غرق ہوگیا اور آخری زمانہ میں جو ہمیں (اہل بیت کو) قتل کرے گا گویا وہ دجال کے ساتھ مل کر قتال کرنے والا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے بیان کیا ہے۔
الحديث رقم 36 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 45، الرقم : 2637، و القضاعي في مسند الشهاب، 2 / 273، الحديث 1343، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 168.
37 / 37. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : إِنَّ لِلّٰهِ حُرُمَاتٍ ثَلَاثًا مَنْ حَفِظَهُنَّ حَفِظَ اللهُ لَهُ أَمْرَ دِيْنِهِ وَ دُنْيَاهُ، وَ مَنْ ضَيَّعَهُنَّ لَمْ يَحْفَظِ اللهُ لَهُ شَيْئًا فَقِيْلَ : وَ مَا هُنَّ يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ : حُرْمَةُ الإِسْلاَمِ، وَحُرْمَتِي، وَ حُرْمَةُ رَحِمِي. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ کی تین حرمات ہیں جو ان کی حفاظت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے اس کے دین و دنیا کے معاملات کی حفاظت فرماتا ہے اور جو ان تین کو ضائع کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی کسی چیز کی حفاظت نہیں فرماتا سو عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! وہ کون سی تین حرمات ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اسلام کی حرمت، میری حرمت اور میرے نسب کی حرمت۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 37 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 72، الرقم : 203، و في المعجم الکبير، 3 / 126، الرقم : 2881، 1 / 88، و الذهبي في ميزان الإعتدال، 5 / 294.
38 / 38. عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : النُّجُوْمُ أَمَانٌ لِأَهْلِ السَّمَاءِ. فَإِذَا ذَهَبَتِ النُّجُوْمُ ذَهَبَ أَهْلُ السَّمَاءِ. وَأَهْلُ بَيْتِي أَمَانٌ لِأَهْلِ الْأَرْضِ. فَإِذَا ذَهَبَ أَهْلُ بَيْتِي ذَهَبَ أَهْلُ الْأَرْضِ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ستارے اہل آسمان کے لئے امان ہیں پس جب ستارے چلے گئے تو اہل آسمان بھی چلے گئے اور میرے اہل بیت زمین والوں کے لئے امان ہیں پس جب میرے اہل بیت چلے گئے تو اہل زمین بھی چلے گئے۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 38 : أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 4 / 311، الرقم : 6913.
6. فَصْلٌ فِي تَحْذِيْرِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ بُغْضِهِمْ وَعَدَاوَتِهِمْ
(حضور نبی اکرم ﷺ کا اپنے اھلِ بیت سے بغض و عداوت رکھنے سے ڈرانے کا بیان)
39 / 39. عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : سِتَّةٌ لَعَنْتُهُمْ، لَعَنَهُمُ اللهُ، وَ کُلُّ نَبِيٍّ مُجَابٍ کَانَ : الزَّائِدُ فِي کِتَابِ الله، وَ الْمُکَذِّبُ بِقَدْرِ اللهِ وَ الْمُسَلِّطُ بِالْجَبَرُوْتِ لِيُعِزَّ بِذَلِکَ مَنْ أَذَلَّ اللهُ، وَ يُذِلُّ مَنْ أَعَزَّ اللهُ، وَ الْمُسْتَحِلُّ لِحُرُمِ اللهِ، وَ الْمُسْتَحِلُّ مِنْ عِتْرَتِي مَا حَرَّمَ اللهُ، وَ التَّارِکُ لِسُنَّتِي. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : چھ بندوں پر میں لعنت کرتا ہوں اور اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور ہر نبی مستجاب الدعوات ہے وہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے : جو کتاب اللہ میں زیادتی کرنے والا ہو اور اللہ تعالیٰ کی قدر کو جھٹلانے والا ہو اور ظلم و جبر کے ساتھ تسلط حاصل کرنے والا ہو تاکہ اس کے ذریعے اے عزت دے سکے جسے اللہ نے ذلیل کیا ہے اور اسے ذلیل کر سکے جسے اللہ نے عزت دی ہے اور اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنے والا اور میری عترت یعنی اہل بیت کی حرمت کو حلال کرنے والا اور میری سنت کا تارک۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی، ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 39 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : القدر، باب : منه، (17)، 4 / 457، الرقم : 2154، و ابن حبان في الصحيح، 13 / 60، الرقم : 5749، و الحاکم في المستدرک، 2 / 572، الرقم : 3941، و الطبراني في المعجم الکبير، 17 / 43، الرقم : 89، و البيهقي في شعب الإيمان، 3 / 443، الرقم : 4010.
40 / 40. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : وَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ : لاَ يُبْغِضُنَا أَهْلَ الْبَيْتِ رَجُلٌ إِلاَّ أَدْخَلَهُ اللهُ النَّارَ.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ.
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! ہم اہل بیت سے کوئی آدمی نفرت نہیں کرتا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اسے دوزخ میں ڈال کر دیتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 40 : أخرجه ابن حبان في الصحيح، 15 / 435، الرقم : 6978، و الحاکم في المستدرک، 3 / 162، الرقم : 4717، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 123، والهيثمي في موارد الظمان، 1 / 555، الرقم : 2246.
41 / 41. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنِّي سَأَلْتُ اللهَ لَکُمْ ثَلَاثًا أَنْ يُّثْبِتَ قَائِمَکُمْ وَ أَنْ يَّهْدِيَ ضَالَّکُمْ، وَ أَنْ يُّعَلِّمَ جَاهِلَکُمَ، وَ سَأَلْتُ اللهَ أَنْ يَجْعَلَکُمْ جُوَدَاءَ نُجَدَاءَ رُحَمَاءَ، فَلَوْ أَنَّ رَجُلًا صَفَنَ بَيْنَ الرُّکْنِ وَ الْمَقَامِ، فَصَلَّي وَ صَامَ ثُمَّ لَقِيَ اللهَ وَ هُوَ مُبْغِضٌ لِأَهْلِ بَيْتِ مُحَمَّدٍ ﷺ دَخَلَ النَّارَ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے بنو عبدالمطلب بے شک میں نے تمہارے لئے اللہ تعالیٰ سے دس چیزیں مانگی ہیں پہلی یہ کہ وہ تمہارے قیام کرنے والے کو ثابت قدم رکھے اور دوسری یہ کہ وہ تمہارے گمراہ کو ہدایت دے اور تیسری یہ کہ وہ تمہارے جاہل کو علم عطاء کرے اور میں نے تمہارے لیے اللہ تعالیٰ سے یہ بھی مانگا ہے کہ وہ تمہیں سخاوت کرنے والا اور دوسروں کی مدد کرنے والا اور دوسروں پر رحم کرنے والا بنائے پس اگر کوئی رکن اور مقام کے درمیان دونوں پاؤں قطار میں رکھ کر کھڑا ہوجائے اور نماز پڑھے اور روزہ رکھے اور پھر (وصال کی شکل میں) اللہ سے ملے درآنحالیکہ وہ اہل بیت سے بغض رکھنے والا ہو تو وہ دوزخ میں داخل ہو گا۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے نیز امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
الحديث رقم 41 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 161، الرقم : 4712، و الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 176، الرقم : 11412، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 171.
42 / 42. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : بُغْضُ بَنِي هَاشِمٍ وَ الْأَنْصَارِ کُفْرٌ، وَ بُغْضُ الْعَرَبِ نِفَاقٌ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُِّ.
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بنو ہاشم اور انصار سے بغض رکھنا کفر ہے اوراہل عرب سے بغض رکھنا منافقت ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 42 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 145، الرقم : 11312، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 172، و المناوي في فيض القدير، 3 / 205.
43 / 43. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ : خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَسَمِعْتُهُ وَهُوَ يَقُوْلُ : أَيَّهَا النَّاسُ، مَنْ أَبْغَضَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ حَشَرَهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَهُوْدِيًّا فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اللهِ، وَإِنْ صَامَ وَصَلَّي قَالَ : وَإِنْ صَامَ وَصَلَّي وَزَعَمَ أَنَّهُ مُسْلِمٌ. أَيَّهَا النَّاسُ، احْتَجَرَ بِذَلِکَ مِنْ سَفْکِ دَمِهِ وَأَنْ يُّؤَدِّيَ الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُوْنَ. مُثِّلَ لِي أمَّتِي فِي الْبَطْنِ فَمَرَّبِي أَصْحَابُ الرَّايَاتِ فَاسْتَغْفَرْتُ لِعَلِيٍّ وَشِيْعَتِهِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم ﷺ ہم سے مخاطب ہوئے پس میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : اے لوگو! جو ہمارے اہل بیت سے بغض رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے روز قیامت یہودیوں کے ساتھ جمع کرے گا تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اگرچہ وہ نماز، روزہ کا پابند ہی کیوں نہ ہو اور اپنے آپ کو مسلمان گمان ہی کیوں نہ کرتا ہو؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : (ہاں) اگرچہ وہ روزہ اور نماز کا پابند ہی کیوں نہ ہو اور خود کو مسلمان تصور کرتا ہو، اے لوگو! یہ لبادہ اوڑھ کر اس نے اپنے خون کو مباح ہونے سے بچایا اور یہ کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں درآنحالیکہ وہ گھٹیا اور کمینے ہوں پس میری امت مجھے میری ماں کے پیٹ میں دکھائی گئی پس میرے پاس سے جھنڈوں والے گزرے تو میں نے حضرت علی اور شیعان علی کے لئے مغفرت طلب کی۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 43 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 212، الرقم : 4002، و الذهبي في ميزان الإعتدال، 3 / 171، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 172.
44 / 44. عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ : أَنَّهُ قَالَ لِمُعَاوِيَةَ بْنِ خُدَيْجٍ : يَا مُعَاوِيَةَ بْنَ خُدَيْجٍ، إِيَّاکَ وَ بُغْضَنَا فَإِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : لاَ يُبْغِضُنَا أَحَدٌ، وَ لاَ يَحْسُدُنَا أَحَدٌ إِلاَّ ذِيْدَ عَنِ الْحَوْضِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِسَيَاطِ مِّنْ نَارٍ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے معاویہ بن خدیج سے کہا : اے معاویہ بن خدیج! ہمارے (اھلِ بیت کے) بغض سے بچو کیونکہ بے شک حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کہ ہم (اھلِ بیت) سے کوئی بغض نہیں رکھتا اور کوئی حسد نہیں کرتا مگر یہ کہ قیامت کے دن اسے آگ کے چابکوں سے حوض کوثر سے دھتکار دیا جائے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 44 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 39، الرقم : 2405، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 172
45 / 45. عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ لَمْ يَعْرِفْ حَقَّ عِتْرَتِي وَ الْأَنْصَارِ وَ الْعَرَبِ فَهُوَ لإِحْدَي ثَلاَثٍ : إِمَّا مُنَافِقٌ، وَ إِمَّا لِزِنْيَة، وَإِمَّا امْرَؤٌ حَمَلَتْ بِهِ أمُّهُ لِغَيْر طُهْرٍ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخض میرے اہل بیت اور انصار اور عرب کا حق نہیں پہچانتا تو اس میں تین چیزوں میں سے ایک پائی جاتی ہے : یا تو وہ منافق ہے یا وہ حرامی ہے یا وہ ایسا آدمی ہے جس کی ماں بغیر طہر کے اس سے حاملہ ہوئی ہو۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 45 : أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 2 / 232، الرقم؛ 1614، الديلمي في مسند الفردوس، 3 / 626، الرقم؛ 5955، و الذهبي في ميزان الإعتدال في نقد الرجال، 3 / 148.
46 / 46. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اللَّهُمَّ ارْزُقْ مَنْ أَبْغَضَنِي وَأَبْغَضَ أَهْلَ بَيْتِي، کَثْرَةَ الْمَالِ وَالْعَيَالِ. کَفَاهُمْ بِذَلِکَ غَيَّا أَنْ يَکْثُرَ مَالُهُمْ فَيَطُوْلَ حِسَابُهُمْ، وَ أَنْ يَکْثُرَ الْوِجْدَانِيَاتُ فَيَکْثُرَ شَيَاطِيْنُهُمْ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.
’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے اللہ جو مجھ سے اور میرے اہل بیت سے بغض رکھتا ہے اسے کثرت مال اور کثرت اولاد سے نواز یہ ان کی گمراہی کے لئے کافی ہے کہ ان کا مال کثیر ہو جائے پس (اس کثرت مال کی وجہ سے) ان کا حساب طویل ہو جائے اور یہ کہ ان کی وجدانیات (جذباتی چیزیں) کثیر ہو جائیں تاکہ ان کے شیاطین کثرت سے ہو جائیں۔‘‘ اس کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 46 : أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 1 / 492، الرقم : 2007.
47 / 47. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : ثَلاَثٌ مَنْ کُنَّ فِيْهِ فَلَيْسَ مِنِّي وَلَا أَنَا مِنْهُ : بُغْضُ عَلِيٍّ، وَ نَصْبُ أَهْلِ بَيْتِي، وَ مَنْ قَالَ : الإِيْمَانُ کَلَامٌ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.
’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تین چیزیں ایسی ہیں وہ جس میں پائی جائیں گی نہ وہ مجھ سے ہے اور نہ میں اس سے ہوں (اور وہ تین چیزیں یہ ہیں) : علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنا، میرے اہل بیت سے دشمنی رکھنا اور یہ کہنا کہ ایمان (فقط) کلام کا نام ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 47 : أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 2 / 85، الرقم : 2459.
7. فَصْلٌ فِي جَامِعِ مَنَاقِبِ أَهْلِ الْبَيْتِ وَ الْقَرَابَةِ
(حضور نبی اکرم ﷺ کے اھلِ بیت اور قرابت داروں کے جامع مناقب کا بیان)
48 / 48. عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضي الله عنه قَالَ : قَامَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَوْمًا فِيْنَا خَطِيْبًا. بِمَاءٍ يُدْعَي خُمًّا. بَيْنَ مَکَّةَ وَالْمَدِيْنَةِ. فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَي عَلَيْهِ، وَ وَعَظَ وَذَکَّرَ ثُمَّ قَالَ : أَمَّا بَعْدُ . أَلَا أَيُّهَاالنَّاسُ، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِکُ أَنْ يَأْتِيَ رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيْبُ، وَأَنَا تَارِکٌ فِيْکُمْ ثَقَلَيْنِ : أَوَّلُهُمَا : کِتَابُ اللهِ فِيْهِ الْهُدَي وَالنُّوْرُ فَخُذُوْا بِکِتَابِ اللهِ. وَاسْتَمْسِکُوْا بِهِ. فَحَثَّ عَلَي کِتَابِ اللهِ وَرَغَّبَ فِيْهِ، ثُمَّ قَالَ : وَأَهْلُ بَيْتِي. أُذَکِّرُکُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي أُذَکِّرُکُمْ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَکِّرُکُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.
’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن حضور نبی اکرم ﷺ ہمیں خطبہ دینے کے لئے مکہ اور مدینہ منورہ کے درمیان اس تالاب پر کھڑے ہوئے جسے خُم کہتے ہیں۔ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء اور وعظ و نصیحت کے بعد فرمایا : اے لوگو! میں تو بس ایک آدمی ہوں عنقریب میرے رب کا پیغام لانے والا فرشتہ (یعنی فرشتہ اجل) میرے پاس آئے گا اور میں اسے لبیک کہوں گا۔ میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، ان میں سے پہلی اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرو اور اسے مضبوطی سے تھام لو، پھر آپ نے کتاب اللہ (کی تعلیمات پر عمل کرنے پر) ابھارا اور اس کی ترغیب دی پھر فرمایا : اور (دوسرے) میرے اہل بیت ہیں میں تمہیں اپنے اہل بیت کے متعلق اللہ کی یاد دلاتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے متعلق اللہ کی یاد دلاتا ہوں. میں تمہیں اپنے اہل بیت کے متعلق اللہ کی یاد دلاتا ہوں۔‘‘ اسے امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 48 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة : من فضائل علي بن أبي طالب رضي اللہ عنه، 3 / 1873، الرقم : 2408، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 366، الرقم : 19265، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 148، الرقم : 2679، وابن حبان في الصحيح، 1 / 145، الرقم : 123، واللالکائي في إعتقاد أهل السنة، 1 / 79، الرقم : 88، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 487.
49 / 49. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ خَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ غَدَاةً وَ عَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ، مِنْ شَعَرٍ أَسْوَدَ. فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رضي الله عنهما فَأَدْخَلَهَ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ رضي الله عنه فَدَخَلَ مَعَهُ، ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ رضي الله عنها فَأَدْخَلَهَا، ثُمَّ جاَءَ عَلِيٌّ رضي الله عنه فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ قَالَ : (إِنَّمَا يُرِيْدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِرَکُمْ تَطْهِيْرًا) (الأحزاب، 33 : 33)
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالْحَاکِمُ.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ صبح کے وقت ایک اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے تو آپ کے پاس حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما آئے تو آپ ﷺ نے اُنہیں اُس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور وہ بھی ان کے ہمراہ چادر میں داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور آپ ﷺ نے انھیں بھی اس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ آئے تو آپ ﷺ نے اُنہیں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’اے اھلِ بیت! اللہ تعالیٰ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے اور تم کو (گناہوں سے) خوب پاک و صاف کر دے۔‘‘ اسے امام مسلم اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 49 : أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل أهل بيت النّبي ﷺ، 4 / 1883، 2424، والحاکم في المستدرک، 3 / 159، الرقم : 4707. 4709، وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 149، الرقم : 2680، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 370، الرقم : 32102، والطبري في جامع البيان، 22 / 6، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 486، والمبارکفوري في تحفة الأحوزي، 9 / 49.
50 / 50. عَنْ سَعْدٍ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضي الله عنه قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ : (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَآءَنَا وَ أَبْنَآءَ کُم)، (آل عمران، 3 : 61)، دَعَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَلِيًّا وَ فَاطِمَةَ وَ حَسَنًا وَ حُسَيْنًا فَقَالَ : اللَّهُمَّ، هَؤُلَاءِ أَهْلِي. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَ التِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ أَبُو عِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیتِ مباہلہ نازل ہوئی : ’’آپ فرما دیں آؤ ہم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے۔‘‘ تو حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حسین علیہم السلام کو بلایا، پھر فرمایا : یا اللہ! یہ میرے اہل (بیت) ہیں۔‘‘ اسے امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
الحديث رقم 50 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل علي بن أبي طالب رضي اللہ عنه، 4 / 1871، الرقم : 2404، والترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن عن رسول اللہ ﷺ، باب : و من سورة آل عمران، 5 / 225، الرقم : 2999، وفي کتاب : المناقب عن رسول اللہ ﷺ، باب : (21)، 5 / 638، الرقم : 3724، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 185، الرقم : 1608، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 107، الرقم : 8399، والحاکم في المستدرک، 3 / 163، الرقم : 4719، والبيهقي في السنن الکبري، 7 / 63، الرقم : 13169.13170.
51 / 51. عَنْ زَيْدٍ بْنِ أَرْقَمَ رضي الله عنه : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : لِعَلِيٍّ وَ فَاطِمَةَ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ رضی الله عنهم : أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبْتُمْ، وَ سِلْمٌ لِمَنْ سَالَمْتُمْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَةَ.
’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھم سے فرمایا : تم جس سے لڑو گے میں اُس کے ساتھ حالت جنگ میں ہوں اور جس سے تم صلح کرنے والے ہو میں بھی اُس سے صلح کرنے والا ہوں۔‘‘ اسے امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 51 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول الله ﷺ، باب : فضل فاطمة بنت محمد ﷺ، 5 / 699، الرقم : 3870، وابن ماجة في السنن، المقدمة، باب : فضل الحسن والحسين ابنَي عَلِيِّ بْنِ أبي طالِبٍ رضي الله عنهم، 1 / 52، الرقم : 145، والحاکم في المستدرک، 3 / 161، الرقم : 4714، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 182، الرقم : 5015، وفي المعجم الکبير، 3 / 40، الرقم : 2620، والصيداوي في معجم الشيوخ، 1 / 133، الرقم : 85.
52 / 52. عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : إِنِّي تَارِکٌ فِيْکُم مَا إِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي، أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الْآخَرِ : کِتَابُ اللهِ حَبْلٌ مَمْدُوْدٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَي الْأَرْضِ وَ عِتْرَتِي : أَهْلُ بَيْتِي وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّي يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ فَانْظُرُوْا کَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيْهِمَا. رَوَاهُ التِّرمِذِيُّ وَحَسَنَّهُ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : میں تم میں ایسی دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر میرے بعد تم نے انہیں مضبوطی سے تھامے رکھا تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی رسی ہے اور میری عترت یعنی اھلِ بیت اور یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گی یہاں تک کہ دونوں میرے پاس حوض کوثر پر آئیں گی پس دیکھو کہ تم میرے بعد ان سے کیا سلوک کرتے ہو؟‘‘ اسے امام ترمذی، نسائی اور احمد نے روایت کیا اور امام ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
الحديث رقم 52 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول الله ﷺ، باب : في مناقب أهل بيت النبي ﷺ، 5 / 663، الرقم : 3788 / 3786، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 45، الرقم : 8148، 8464، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 14، 26، 59، الرقم : 11119، 11227، 11578، والحاکم في المستدرک، 3 / 118، الرقم : 4576، والطبراني عن أبي سعيد رضي الله عنه في المعجم الأوسط، 3 / 374، الرقم : 3439، و في المعجم الصغير، 1 / 226، الرقم : 323، و في المعجم الکبير، 3 / 65، الرقم : 2678، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 133، الرقم : 30081، وأبويعلي في المسند، 2 / 303، الرقم : 10267، 1140، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 644، الرقم : 1553، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 66، الرقم : 194، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 163.
53 / 53. عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ رَبِيْبِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ عَلَي النَّبِيِّ ﷺ : (إِنَّمَا يُرِيْدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِرَکُمْ تَطْهِيْرًا) (الأحزاب، 33 : 33)، فِي بَيْتِ أمِّ سَلَمَةَ فَدَعَا فَاطِمَةَ، وَ حَسَنًا، وَ حُسَيْنًا فَجَلَّلَهُمْ بِکِسَاءٍ وَ عَلِيٌّ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَجَلَّلَهُ بِکِسَاءٍ. ثُمَّ قَالَ : اللَّهُمَّ، هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي، فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَ طَهِرْهُمْ تَطْهِيْرًا، قَالَتْ أمُّ سَلَمَةَ : وَ أَنَا مَعَهُمْ يَا نَبِيَّ اللهِ، قَالَ : أَنْتِ عَلَي مَکَانِکِ وَ أَنْتِ عَلَي خَيْرٍ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ أَبُوعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضور نبی اکرم ﷺ کے پروردہ حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اُم المؤمنین اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر حضور نبی اکرم ﷺ پر یہ آیت ’’اے اہل بیت! اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح) کی آلودگی دور کر دے اور تمہیں خوب پاک و صاف کر دے‘‘ نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے سیدہ فاطمہ اور حسنین کریمین سلام اللہ علیہم کو بلایا اور انہیں اپنی کملی میں ڈھانپ لیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے پیچھے تھے، آپ ﷺ نے انہیں بھی اپنی کملی میں ڈھانپ لیا، پھر فرمایا : اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں، پس ان سے ہر قسم کی آلودگی دور فرما اور انہیں خوب پاک و صاف کر دے۔ سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی : اے اللہ کے نبی! میں (بھی) ان کے ساتھ ہوں، فرمایا : تم اپنی جگہ رہو اور تم تو بہتر مقام پر فائز ہو۔‘‘ اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
الحديث رقم 53 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن عن رسول اللہ ﷺ، باب : و من سورة الأحزاب، 5 / 351، الرقم : 3205، و في کتاب : المناقب عن رسول اللہ ﷺ، باب : فضل فاطمة بنت محمد ﷺ، 5 / 699، الرقم : 3871، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 134، الرقم : 3799.
54 / 54. عَنْ عَبْدِ السَّلامِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ أَبِي الصَّلْتِ الْهَرَوِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُوْسَي الرِّضَا، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنهم، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : الإِيْمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ وَ قَوْلٌ بِاللِّسَانِ وَ عَمَلٌ بِالْأَرْکَانِ. قَالَ أَبُو الصَّلْتِ : لَوْ قُرِءَ هَذَا الإِسْنَادُ عَلَي مَجْنُوْنٍ لَبَرَأَ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ وَ الطَّبَرَانِيُّ وَ الْبَيْهَقِيُّ.
’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ایمان نام ہے دل سے پہچاننے، زبان سے اقرار کرنے اور ارکان پر عمل کرنے کا۔ (راوی) ابو صلت ہروی فرماتے ہیں : اگر اس حدیث کی سند پاگل پر پڑھ کر دم کی جائے تو وہ ٹھیک ہو جائے۔‘‘ اسے امام ابن ماجہ، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 54 : أخرجه ابن ماجة في السنن، المقدمة، باب : في الإيمان، 1 / 25، الرقم : 65، والطبراني في العمجم الأوسط، 6 / 226، الرقم : 6254، و في المعجم الأوسط، 8 / 262، الرقم : 8580، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 47، الرقم : 16، والمروزي في تعظيم قدر الصلاة، 2 / 742، والسيوطي في شرح سنن ابن ماجة، 1 / 8، الرقم : 65، وابن القيم في حاشية علي سنن أبي داود، 2 / 294.
55 / 55. عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ فَاطِمَةَ أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا، فَحَرَّمَ اللهُ ذُرِّيَّتَهَا عَلَي النَّارِ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَزَّارُ وَأَبُونُعَيْمٍ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بے شک فاطمہ نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کی اولاد کو آگ پر حرام کر دیا۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا اور کہا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
الحديث رقم 55 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 165، الرقم : 4726، و البزار في المسند، 5 / 223، الرقم : 1829، و أبو نعيم في حلية الأولياء، 4 / 188، و المناوي في فيض القدير، 2 / 462.
56 / 56. عَنِ الْمِسْوَرِ : أَنَّهُ بَعَثَ إِلَيْهِ حَسَنُ بْنُ حَسَنٍ عليه السلام يَخْطُبُ ابْنَتَهُ فَقَالَ لَهُ : قُلْ لَهُ فَيَلْقَانِي فِي الْعَتَمَةِ، قَالَ : فَلَقِيَهُ فَحَمِدَ اللهَ الْمِسْوَرُ وَ أَثْنَي عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ : أَمَا بَعْدُ وَ أَيْمِ اللهِ مَا مِنْ نَسَبٍ وَلاَ سَبَبٍ وَلاَ صِهْرٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَسَبِکُمْ وَ سَبَبِکُمْ وَ صِهْرِکُمْ وَلَکِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي يَقْبِضُنِي مَا يَقْبِضُهَا وَ يَبْسُطُنِي مَا يَبْسُطُهَا، وَ إِنَّ الْأَنْسَابَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَنْقَطِعُ غَيْرَ نَسَبِي وَ سَبَبِي وَ صِهْرِي وَ عِنْدَکَ إِبْنَتُهَا وَلَوْ زَوَّجْتُکَ لَقَبَضَهَا ذَلِکَ فَانْطَلَقَ عَاذِرًا لَهُ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
وَقَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
’’حضرت عبید اللہ بن ابی رافع سے حضرت مسور رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت حسن بن حسن علیہ السلام نے انہیں بلا بھیجا اپنی بیٹی کی منگنی کرنے کے لئے آپ نے ان سے کہا کہ آپ رات کے وقت مجھے ملیں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ پس وہ ان سے ملے پھر حضرت مسور رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی پھر کہا : خدا کی قسم کوئی ایسا نسب اور نہ ہی سبب اور نہ ہی سسرالی رشتہ ایسا ہے جو مجھے آپ کے نسب، سبب اور سسرال سے بڑھ کر پیارا ہے مگر یہ کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جو چیز اسے پریشان کرتی ہے وہ مجھے بھی پریشان کرتی ہے اور جو چیز اسے خوش کرتی ہے وہ مجھے بھی خوش کرتی ہے اور بے شک انساب قیامت کے روز منقطع ہو جائیں گے سوائے میرے نسب، سبب اور سسرال کے اور تمہارے پاس حضرت فاطمہ کی بیٹی ہے (یعنی تمہاری بیٹی گویا ان کی بیٹی ہے) اور اگر میں اس سے شادی کرتا ہوں تو یہ چیز انہیں نا خوش کرے گی اور پھر وہ معذرت کرتے ہوئے چل پڑے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
الحديث رقم 56 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 172، الرقم : 4747.
57 / 57. عَنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ حَنْطَبٍ قَالَ : خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِالْجَحْفَةِ فَقَالَ : أَلَسْتُ أَوْلَي بِأَنْفُسِکُمْ؟ قَالُوْا : بَلَي يَا رَسُوْلَ اللهِ، قَالَ : فَإِنِّي سَائِلُکُمْ عَنِ اثْنَيْنِ : عَنِ الْقُرَآنِ وَعَنْ عِتْرَتِي. أَلاَ وَلاَ تَقَدَّمُوْا قُرَيْشًا فَتَضِلُّوْا وَلاَ تَخْلُفُوْا عَنْهَا فَتَهْلِکُوْا وَلاَ تُعَلِّمُوْهَا فَهُمْ أَعْلَمُ مِنْکُمْ قُوَّةَ رَجُلَيْنِ مِنْ غَيْرِهِمْ. لَوْلاَ أَنْ تَبْطُرَ قُرَيْشٌ لَأَخْبَرْتُهَا بِمَا لَهَا عِنْدَ اللهِ خِيَارُ قرَيْشٍ خِيَارُ النَّاِس. رَوَاهُ أَبُونُعَيْمٍ.
’’حضرت عبد اللہ بن حنطب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم ﷺ جحفہ کے مقام پر ہم سے مخاطب ہوئے اور فرمایا : کیا میں تمہاری جانوں سے بڑھ کر تمہیں عزیز نہیں ہوں؟ صحابہ نے عرض کیا : کیوں نہیں یا رسول اللہ! آپ ﷺ نے فرمایا : پس میں تم سے دو چیزوں کے بارے سوال کرنے والا ہوں. قرآن کے بارے اور اپنی عترت اہل بیت کے بارے۔ آگاہ ہو جاؤ کہ قریش پر پیش قدمی نہ کرو کہ تم گمراہ ہو جاؤ اور نہ انہیں سکھاؤ کہ وہ تم سے زیادہ جانے والے ہیں اور اگر قریش فخر نہ کرتے تو میں ضرور ان کو اللہ کے ہاں ان کے مقام کے بارے بتاتا قریش میں بہترین لوگ تمام لوگوں سے بہترین ہیں۔‘‘ اسے امام ابونعیم نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 57 : أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 9 / 64، و ابن الأثير في أسد الغابة، 3 / 147، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 5 / 195.
58 / 58. عَنْ عَلِيِّ رضي الله عنه : أَنَّهُ دَخَلَ عَلَي النَّبِيِّ ﷺ، وَقَدْ بَسَطَ شَمْلَةً، فَجَلَسَ عَلَيْها هُوَ وَفَاطِمَةُ وَعَلِيٌّ وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ، ثُمُّ أَخَذَ النَّبِيُّ ﷺ بِمَجَامِعِهِ فَعَقَدَ عَلَيْهِمْ ثُمَّ قَالَ : اللَّهُمَّ، ارْضَ عَنْهُمْ کَمَا أَنَا عَنْهُمْ رَاضٍ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ درآں حالیکہ آپ ﷺ نے چادر بچھائی ہوئی تھی۔ پس اس پر حضور نبی اکرم ﷺ (بنفسِ نفیس) حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین علیھم السلام بیٹھ گئے پھر آپ ﷺ نے اس چادر کے کنارے پکڑے اور ان پر ڈال کر اس میں گرہ لگا دی۔ پھر فرمایا : اے اللہ! تو بھی ان سے راضی ہو جا، جس طرح میں ان سے راضی ہوں۔‘‘ اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 58 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 348، الرقم : 5514، و الهيثي في مجمع الزوائد، 9 / 169.
59 / 59. عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ : کَانَ آخِرَ مَا تَکَلَّمَ بِهِ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَخْلِفُوْنِي فِي أَهْلِ بَيْتِي. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آخری چیز جو حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمائی وہ یہ تھی کہ مجھے میرے اہل بیت میں تلاش کرو۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 59 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 157، الرقم : 3860، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 163.
60 / 60. عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَوَّلُ مَنْ أَشْفَعُ لَهُ مِنْ أمَّتِي أَهْلُ بَيْتِي ثُمَّ الْأَقْرَبُ مِنَ الْقُرَيْشِ، ثُمَّ الْأَنْصَارُ، ثُمَّ مَنْ آمَنَ بِي، وَاتَّبَعَنِي مِنَ الْيَمَنِ، ثُمَّ سَائِرُ الْعَرَبِ ثُمَّ الْأَعَاجِمُ وَ أَوَّلُ مَنْ أَشْفَعُ لَهُ أوْلُوْا الْفَضْلِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اپنی امت میں سے سب سے پہلے جس کے لئے میں شفاعت کروں گا وہ میرے اہل بیت ہیں، پھر جو قریش میں سے میرے قریبی رشتہ دار ہیں، پھر انصار کی پھر ان کی جو یمن میں سے مجھ پر ایمان لائے اور میری اتباع کی، پھر تمام عرب کی، پھر عجم کی اور سب سے پہلے میں جن کی شفاعت کروں گا وہ اہل فضل ہوں گے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
الحديث رقم 60 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 421، و الديلمي في مسند الفردوس، 1 / 23، الرقم : 29، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 380.
61 / 61. عَنْ أَبِي بَرْزَةَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لاَ يَنْعَقِدُ قَدَمَا عَبْدٍ حَتَّي يُسْأَلَ عَنْ أَرْبَعَة : عَنْ جَسَدِهِ فِيْمَا أَبْلَاهُ، وَعُمْرِهِ فِيْمَا أَفْنَاهُ، وَ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اکْتَسَبَهُ وَ فِيْمَا أَنْفَقَهُ، وَعَنْ حُبِّ أَهْلِ الْبَيْتِ فَقِيْلَ يَا رَسُوْلَ اللهِ، فَمَا عَلاَمَةُ حُبِّکُمْ فَضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَي مَنْکَبِ عَلِيٍّ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت ابوبرزہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : آدمی کے دونوں قدم (روزِ قیامت) اس وقت تک استقامت نہیں پاتے جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے سوال نہ کر لیا جائے اس کے جسم کے بارے میں کہ کس چیز میں اس نے اس کو امتحان میں ڈالا اور اس کی عمر کے بارے میں کہ کس چیز میں اس نے اس کو فنا کیا اور اس کے مال کے بارے میں کہ کہاں سے اس نے اسے کمایا؟ اور کس چیز میں اس نے اس کو خرچ کیا؟ اور اہل بیت کی محبت کے بارے۔ پس عرض کیا گیا : یا رسول اللہ ﷺ ! آپ کی محبت کی کیا علامت ہے؟ تو آپ ﷺ نے اپنا دست اقدس حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کندھے پر مارا۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
No comments:
Post a Comment