Friday, 20 June 2025

کیسے قرآن، حدیث اور دین محفوظ ہے؟

 

*علمِ الٰہی کے محافظ کون؟*

القرآن:

*بےشک ہم نے ہی یہ ذکر (نصیحت) نازل کیا ہے، اور ہم ہی اس کی یقیناً حفاظت کرنے والے ہیں۔*

[سورۃ نمبر 15 الحجر، آیت نمبر 9]

قرآنی تفسیر:

اللہ نے (1)کتاب اور (2)حکمت(طریقہ) نازل کی ہے۔

[حوالہ«سورۃ البقرۃ:236، النساء:113]

رسول ﷺ کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دینے کیلئے بھیجا گیا۔

[حوالہ»سورۃ البقرۃ:129+151، آل عمران:164، الجمعۃ:2]

پچھلے انبیاء کو بھی کتاب اور حکمت عطا کی گئی تھی۔

[حوالہ»سورۃ الانعام:89، الجاثیۃ:16، آل عمران:48، النساء:54، المائدۃ:110]

تشریح:

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرمایا ہے کہ اگرچہ قرآن کریم سے پہلے بھی آسمانی کتابیں بھیجی گئی تھیں، لیکن چونکہ وہ خاص خاص قوموں اور خاص خاص زمانوں کے لیے آئی تھیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو قیامت تک محفوظ رکھنے کی کوئی ضمانت نہیں دی تھی، بلکہ ان کی حفاظت کا کام انہی لوگوں کو سونپ دیا گیا تھا جو ان کے مخاطب تھے، ﴿جیسا کہ سورة مائدہ:44 میں فرمایا گیا ہے﴾ لیکن قرآن کریم چونکہ آخری آسمانی کتاب ہے جو قیامت تک کے لیے نافذ العمل رہے گی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا خود ذمہ لیا ہے، چنانچہ اس میں قیامت تک کوئی رد و بدل نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت اس طرح فرمائی ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کے سینوں میں اسے اس طرح محفوظ کردیا ہے کہ اگر بالفرض کوئی دشمن قرآن کریم کے سارے نسخے (معاذ اللہ) ختم کردے تب بھی چھوٹے چھوٹے بچے اسے دوبارہ کسی معمولی تبدیلی کے بغیر لکھوا سکتے ہیں جو بذات خود قرآن کریم کا زندہ معجزہ ہے۔




تفسیر قرآن کے محافظ کون؟

القرآن:

یقین رکھو کہ اس کو یاد کرانا اور پڑھوانا ہماری ذمہ داری ہے۔ پھر جب ہم اسے (جبرائیل کے واسطے سے) پڑھ رہے ہوں تو تم اس کے پڑھنے کی پیروی کرو۔(7) پھر اس کی وضاحت بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ (8)

[سورۃ القيامة:17-19]

تفسیر:

(7) اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ اپنی توجہ الفاظ کو یاد رکھنے کے بجائے ان آیات کی عملی پیروی کرنے پر مرکوز رکھیں، اور یہ بھی کہ جس طرح حضرت جبرئیل ؑ پڑھ رہے ہیں، آئندہ آپ بھی اسی طرح پڑھا کریں۔

(8) یعنی آیاتِ کریمہ کی تشریح بھی ہم آپ کے قلب مبارک میں محفوظ کردیں گے۔




القرآن:

ہم آپ کو پڑھائیں گے، آپ بھول نہیں پائیں گے۔

[سورۃ الاعلیٰ:6]



(1)حافظِ قرآن کے فضائل»
حضرت علی بن ابی طالب ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ، ‏‏‏‏‏‏وَحَفِظَهُ أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ، ‏‏‏‏‏‏وَشَفَّعَهُ فِي عَشَرَةٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ كُلُّهُمْ قَدِ اسْتَوْجَبُوا النَّارَ .
ترجمہ:
جس نے قرآن پڑھا اور اسے یاد کیا، اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا، اور اس کے اہل خانہ میں سے دس ایسے افراد کے سلسلے میں اس کی شفاعت قبول کرے گا جن پر جہنم واجب ہوچکی ہوگی۔
[سنن ابن ماجہ:216، مسند احمد:1278، الشريعة للآجري:816، المعجم الأوسط-للطبراني:5130، الترغيب-لابن شاهين:189، شعب الایمان-للبيهقي:2436]
تشریح:

"جس نے قرآن پڑھا" یعنی زبانی یاد ہو یا نظر سے (مصحف دیکھ کر)، "اور اسے حفظ کیا" یعنی اس پر عمل کرنے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کی۔ یا "حفظ" سے مراد زبانی تلاوت کرنا ہے۔ "اور" (واو) ترتیب کی طرف اشارہ نہیں کرتی، لہذا ممکن ہے کہ معنی یہ ہو کہ جس نے قرآن کو حفظ کیا اور پھر اس کی تلاوت پر مداومت کی اور اسے ترک نہیں کیا۔ یا ممکن ہے کہ معنی یہ ہو کہ جس نے اس کی تلاوت پر مداومت کی یہاں تک کہ اسے حفظ کر لیا۔ دونوں صورتوں میں اس کے ساتھ عمل کرنا بھی ضروری ہے، کیونکہ بغیر عمل کے شخص کو جاہل شمار کیا جاتا ہے۔ ترمذی کی روایت اس بات کی صراحت کرتی ہے کہ زبانی تلاوت معتبر ہے اور اس کی تصدیق کرتی ہے۔ 

"اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا" یعنی ابتدائی طور پر، ورنہ ہر مومن آخر کار جنت میں داخل ہوگا۔ "اور اس کی شفاعت قبول کرے گا" (شفّعہ میں فاء مشدد ہے) یعنی اس کی شفاعت کو قبول فرمائے گا۔ "وہ جہنم کا مستحق ہو چکا تھا" یعنی گناہوں کی وجہ سے، کفر کی وجہ سے نہیں۔ ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔
[حاشية السندي على سنن ابن ماجة:289]






(دوسری سند کی  روایت)


حضرت علی بن ابی طالب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ ﴿تَعَلَّمَ﴾ قَرَأَ الْقُرْآنَ فاستظهره، ﴿وَحَفِظَهُ﴾ فَأَحَلَّ حَلَالَهُ وَحَرَّمَ حَرَامَهُ أَدْخَلَهُ اللَّهُ بِهِ الْجَنَّةَ، ‏‏‏‏‏‏وَشَفَّعَهُ فِي عَشْرَةٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ كُلُّهُمْ قَدْ وَجَبَتْ لَهُ النَّارُ۔

ترجمہ:

*"جس نے قرآن پڑھا اور اسے پوری طرح حفظ کرلیا، جس چیز کو قرآن نے حلال ٹھہرایا اسے حلال مانا اور جس چیز کو قرآن نے حرام ٹھہرایا اسے حرام مانا تو اللہ اسے اس قرآن کے ذریعہ جنت میں داخل فرمائے گا۔ اور اس کے خاندان کے دس ایسے لوگوں کے بارے میں اس (حافظِ قرآن) کی سفارش قبول کرے گا جن پر جہنم واجب ہوچکی ہو گی"۔

[مسند احمد:1268، سنن الترمذي:2905، شعب الایمان-للبيهقي:1795-1796]

تشریح:

'استظهره' کا مطلب ہے 'اسے حفظ کر لیا'۔

آپ کہہ سکتے ہیں: 'قَرَأْتُ الْقُرْآنَ عَنْ ظَهْرِ قَلْبِي' (میں نے قرآن اپنے دل کی پشت/یاد سے پڑھا)، یعنی میں نے اسے اپنے حفظ سے پڑھا۔"  

[جامع الاصول-ابن الاثیر:6289، قوت المغتذي على جامع الترمذي، السيوطي: 2/727]

نوٹ:

حقوقِ قرآنِ الٰہی: (1)سیکھنا (2)یاد رکھنا (3)احکام ماننا۔







حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے فرمایا:

يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ:‏‏‏‏ اقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْيَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ مَنْزِلَتَكَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَأُ بِهَا.

ترجمہ:

(قیامت کے دن) قرآن والے سے کہا جائے گا:  (قرآن)  پڑھتا جا اور  (بلندی کی طرف)  چڑھتا جا۔ اور ویسے ہی ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جس طرح تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر ترتیل کے ساتھ پڑھتا تھا۔ پس تیری منزل وہ ہوگی جہاں تیری آخری آیت کی تلاوت ختم ہوگی۔

[سنن ابوداؤد:1464]

قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. 

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔   

[سنن الترمذي:2914، صحیح ابن حبان:766]

تخریج:

{مصنف ابن ابی شیبہ:30055-30057، مسند احمد:6799، الترغیب لابن شاھین:205، مستدرک حاکم:2030، سنن بیھقی:2425، شرح السنۃ للبغوی:1178]





*(2) حدیث سیکھنے، الفاظ یاد رکھنے، درست الفاظ پہنچانے اور اس سے فقہ(گہری سمجھ)حاصل کرنے والوں(محدثین وفقہاء) کے فضائل:*


حضرت زید بن ثابت ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

«نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا، فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَيْسَ بِفَقِيهٍ»

ترجمہ:

*اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے "ہم" سے کوئی بات سنی، پھر اسے یاد رکھا، یہاں تک کہ اسے دوسروں تک پہنچا دیا، کیونکہ بہت سے حاملینِ فقہ(سمجھ رکھنے والے) ایسے ہیں جو فقہ کو اپنے سے زیادہ فقہ والے کو پہنچا دیتے ہیں، اور بہت سے فقہ رکھنے والے خود فقیہ(گہری سمجھ والے) نہیں ہوتے ہیں۔*

[سنن ابوداؤد:3660، سنن الترمذی:2656 سنن ابن ماجہ:1130]

نوٹ:

حقوقِ حدیثِ نبوی: (1)سیکھنا (2)یاد رکھنا (3)تبلیغ کرنا (4)اس میں فقہ۔۔۔۔یعنی عمل کا طریقہ اور موقع محل سمجھنا۔


*فقہِ دین سیکھنا فرضِ کفایہ ہے»*

القرآن:

اور نہیں ہے(مناسب)مومنوں کیلئے کہ وہ (ہمیشہ جہاد کیلئے) نکل کھڑے ہوں سب کے سب، لہٰذا کیوں نہیں نکلا کرتے ان کی ہر فرقہ (گروہ) میں سے ایک طائفہ(جماعت)، .....تاکہ وہ فقہ(گہری سمجھ) حاصل کریں دین میں، .....اور تاکہ وہ ڈرائیں اپنی قوم(لوگوں) کو جب وہ (جہاد سے) لوٹیں ان کی طرف، تاکہ وہ (لوگ گناہوں سے) بچ کر رہیں۔

[سورۃ التوبہ:122]

یہاں دین یعنی قرآن اور حدیث کی فقہ یعنی گہری سمجھ حاصل کرنا ہے۔ 







*کم از کم مقدار 40 احادیث»*

حضرت (1)انس بن مالک، (2)ابن عباسؓ، (3)معاذ بن جبل، (4)ابوھریرہ، (5)ابودرداء، (6)ابوسعید الخدری، (7)علی بن ابی طالب، (8)ابن عمرؓ، (9)ابن مسعودؓ، (10)سلمان فارسیؓ، (11)ابوامامہ۔۔۔۔۔۔۔۔سے روایات مروی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

«مَنْ حَفِظَ عَلَى أُمَّتِي ‌أَرْبَعِينَ ‌حَدِيثًا۔۔۔۔

ترجمہ:

جس نے یاد کرلیا، میری امت کے لیے، چالیس احادیث کو۔۔۔۔

اللہ کی رضا کی تلاش میں


...دینی احکام میں سے

...جس سے وہ اپنے دین میں فقہ(سمجھ) حاصل کرسکے

...میری سنت (کے موضوع) میں سے

...جنکی اسے ضرورت ہے

...جن سے وہ نفع اٹھائیں/جن سے انہیں اللہ نفع دے

...جس میں حلال اور حرام (کا بیان) ہو

...جن سے وہ حرام سے ڈراتا ہے اور حلال پر خوشخبری دیتا ہے


یہاں تک کہ وہ انہیں دے دے

تاکہ وہ انہیں تعلیم دے


تو

...وہ علماء میں سے ہے

...اللہ قیامت کے دن اسے فقیہ عالم بناکر (فقہاء وعلماء کے زمرہ میں) اٹھائے گا

...لکھ دیا جائے گا اسے علماء کے زمرہ میں اور جملہ شہداء میں حشر کیا جائے گا۔

...اللہ اس کا انبیاء اور علماء کے ساتھ حشر فرمائے گا قیامت کے دن۔

...میں قیامت کے دن اس کا سفارشی اور گواہ ہوں گا۔

...اس سے کہا جائے گا: جس بھی دروازے سے چاہو جنت میں داخل ہو جاؤ۔


اور عالم کی فضیلت عابد پر چالیس درجے زیادہ ہے اور اللہ زیادہ جانتا ہے کہ ہر دو درجے کے درمیان کیا ہے۔

[جامع الاحادیث-للسیوطی:22042-22050]

نوٹ:

سب سے روایت کردہ متفقہ بیان یہ ہے:

*جس نے یاد کرلیا، میری امت کے لیے، چالیس احادیث کو۔۔۔۔*




القرآن:

*....(اے کتاب والو!) تم اسے ضرور بیان کرنا لوگوں سے، اور نہ چھپانا اسے....*

[سورۃ آل عمران:187، تفسیرقرطبی:4/305]


القرآن:

اور جنہوں نے اپنے پروردگار سے تقویٰ کا معاملہ رکھا تھا انہیں جنت کی طرف گروہوں کی شکل میں لے جایا جائے گا *یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچیں گے جبکہ اس کے دروازے ان کے لیے پہلے سے کھولے جا چکے ہوں گے* (تو وہ عجیب عالم ہوگا۔) اور اس کے محافظ ان سے کہیں گے کہ : سلام ہو آپ پر، خوب رہے آپ لوگ ! اب اس جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے کے لیے آ جائیے۔

[سورۃ الزمر:73، تفسیر الدر المنثور:7/266]

شریعت کا دفاع کرنا:


عُلَماء اسلام، دین کے ٹھیکیدار نہیں، چوکیدار ضرور ہیں۔


حضرت ابراہیم بن عبد الرحمٰن العذريؒ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
يَحْمِل هَذَا الْعِلْمَ مِنْ كُل خَلَفٍ عُدُولُهُ يَنْفُونَ عَنْهُ تَحْرِيفَ الْغَالِينَ وَانْتِحَال الْمُبْطِلِينَ، وَتَأْوِيل الْجَاهِلِينَ
ترجمہ:
اٹھاتے (یعنی سینوں میں محفوظ رکھتے) رہیں گے اس علم (دین) کو خلف (یعنی سلفِ صالحین کے قابل جانشین جو) عادل (یعنی حق بیان کرنے اور انصاف کرنے میں اپنوں سے رعایت اور دشمنوں پر ظلم نہ کرنے والے) ہوں گے، وہ اس (علم) سے غُلُوّ کرنے (یعنی حد سے بڑھنے) والوں کی تحریفوں (وتبدیلیوں) کو، اور باطل (و جھوٹے) لوگوں کی غلط نسبتوں (یعنی کسی پر یا کسی کے نام جھوٹی بات پھیلانے) کو، اور جاہل (غیر عالم) لوگوں کی (غلط) تاویلات (یعنی اصل مطلب، تفسیر وتشریح  سے ہٹادینے) کو دور کریں گے۔

[البدع لابن وضاح:1+2، مسند البزار:9423، شرح مشكل الآثار:3884، الشريعة للآجري:1/268، مسند الشاميين للطبراني:599، الإبانة الكبرى لابن بطة:33، فوائد تمام:899، السنن الكبرى للبيهقي:20911، مصابيح السنة للبغوي:190]
﴿تفسیر ابن ابی حاتم:1606(8488)خلف﴾
﴿تفسیر البغوی»سورۃ مریم:59(فخلف)﴾
جامع الاحادیث، للسیوطی:26643، حديث إبراهيم بن عبد الرحمن العذرى عن الثقة من أشياخه: أخرجه البيهقى (10/209، رقم 20701) ، وابن عساكر (7/38) ، وعزاه الحافظ فى اللسان (1/77، ترجمة 210 إبراهيم بن عبد الرحمن) لابن عدى ، وأخرجه أيضًا: العقيلى (4/256، ترجمة 1854 معان بن رفاعة السلامى) .
حدیثِ علي: مسند(امام)زيد:599،1/342
حديث أسامة: أخرجه ابن عساكر (7/39) .
حديث أنس: أخرجه ابن عساكر (54/225) .
حديث ابن عمر: أخرجه الديلمى (5/537، رقم 9012) وأخرجه أيضًا: ابن عدى (3/31، ترجمة 593 خالد بن عمرو القرشى) .
حديث أبى أمامة: أخرجه العقيلى (1/9) .
حديث ابن عمرو وأبى هريرة معا: قال الهيثمى (1/140) : رواه البزار، وفيه عمرو بن خالد القرشى كذبه يحيى بن معين، وأحمد بن حنبل، ونسبه إلى الوضع. وأخرجه العقيلى (1/10) .
وللحديث أطراف أخرى منها: "يرث هذا العلم من كل خلف عدوله".]


المحدث : الإمام أحمد | المصدر : تاريخ دمشق: 7/39 - لسان الميزان: 1/312 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
المحدث : ابن حبان [الثقات: 4/10]
المحدث : السفاريني الحنبلي | المصدر : القول العلي: 227 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
المحدث : ابن الوزير اليماني | المصدر : العواصم والقواصم: 1/308 | خلاصة حكم المحدث : صحيح




علومِ انبیاء کے وارث:

القرآن:
پھر ان کے بعد ان کی جگہ ایسے جانشین آئے جو کتاب کے وارث بنے۔۔۔
[سورۃ الأعراف:169]
القرآن:
پھر ہم نے اس کتاب کا وارث اپنے بندوں میں سے ان کو بنایا جنہیں ہم نے چن لیا تھا پھر ان میں سے کچھ وہ ہیں جو اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہیں، اور انہی میں سے کچھ ایسے ہیں جو درمیانے درجے کے ہیں، اور کچھ وہ ہیں جو اللہ کی توفیق سے نیکیوں میں بڑھے چلے جاتے ہیں۔ اور یہ (اللہ کا) بہت بڑا فضل ہے۔
[سورۃ فاطر:32]






حفاظتِ حدیث وتفسیر»
غیر عالم کی تفسیر بالرائے۔

(1)حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اتقوا الحديث عَنِّي إِلا مَا عَلِمْتُمْ، فَإِنَّهُ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ۔
ترجمہ:
بچو مجھ سے کوئی حدیث بیان کرنے سے،سواۓ اس کے جس(کے صحیح ثبوت اور قابلِ اعتماد راویوں)کا تمہیں علم ہو، کیونکہ جس نے مجھ پر جھوٹ بولا جان کر تو اس نے اپنا ٹھکانہ جھنم بنالیا۔
[سنن ترمذی:2951، مسند احمد:3024، مسند ابویعلی:2338، مسند الشھاب:554]

"مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ"۔
ترجمہ:
جو شخص قرآن میں بغیر علم کے گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔

[ترمذی:2950، احمد:2069-2429-2974-3024، طبراني:12392، بغوی:118-119، البزار:4757-5083، تفسیر طبری:75، ابن بطة:799-805]

وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ۔
ترجمہ:
اور جو جھوٹ بولے مجھ پر، تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔ 
[شرح السنة للبغوي:117 حسن]

القرآن:
اور پیچھے نہ پڑو جس کا تمہیں علم(یقین) نہ ہو۔۔۔
[سورۃ الاسراء:36﴿تفسیر سفیان الثوري:1/6)]




تشریح:
"میری طرف سے حدیث بیان کرنے سے بچو" یعنی میرے بارے میں وہی بات بیان کرو جسے تم یقینی جانتے ہو (یعنی جس کی صحت کے بارے میں تمہیں یقین ہو)۔ طیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہاں "الحدیث" سے مراد "روایت" ہے، یعنی میری طرف سے حدیث بیان کرنے سے احتیاط کرو، سوائے ان باتوں کے جن (گواہوں اور ثبوتوں) کی صحت تمہیں معلوم ہو۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں "الحدیث" سے مراد "مقول" ہو، یعنی جو کچھ مجھ سے منسوب کیا جاتا ہے اس میں احتیاط کرو، لیکن جن باتوں کی صحت تمہیں معلوم ہو ان میں احتیاط کی ضرورت نہیں۔  
اصطلاحاً "حدیث" سے مراد وہ اقوال، افعال یا تقریرات ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ یا تابعین سے منسوب ہوں، لیکن بعض اوقات یہ خاص طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور تقریرات کے لیے بولا جاتا ہے۔  
"جو شخص جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولے" (یہاں "کذب" کے فاعل کی طرف ضمیر مستتر ہے جو "من" کی طرف لوٹتی ہے) "تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے" یعنی وہ اپنے لیے جہنم میں ایک مقام تیار کر لے۔ یہاں امر (حکم) درحقیقت خبر کے معنیٰ میں ہے۔ امام رافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یا یہ دعا کے معنیٰ میں ہے، یعنی اللہ تعالیٰ اسے جہنم میں ٹھکانہ عطا فرمائے۔ "تبوء" کا معنیٰ ہے ٹھکانا بنانا، اور "مقعد" وہ جگہ ہے جہاں بیٹھا جاتا ہے۔ یہاں امر(حکم) کے صیغے میں بیان کرنا زیادہ تاکیدی اور الزامی ہے۔ امام طیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہاں "تبوء" کا حکم درحقیقت طنز اور سخت وعید کے لیے ہے، کیونکہ اگر یہ کہا جاتا کہ "اس کا ٹھکانہ جہنم ہے" تو یہ اثر کم ہوتا۔
نبی ﷺ پر جھوٹ بولنا ان بڑے گناہوں میں سے ہے جو انسان کو ہلاکت میں ڈال دیتے ہیں، کیونکہ یہ دین کو نقصان پہنچاتا ہے اور ایمان کی بنیاد کو خراب کرتا ہے۔ آپ ﷺ پر جھوٹ بولنے والے بہت سے لوگ ہیں اور ان کے جھوٹ بولنے کے طریقے مختلف ہیں، جیسا کہ حدیث کی مبسوط کتب میں بیان کیا گیا ہے۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ وعید عام ہے اور دین کے علاوہ دیگر معاملات میں جھوٹ بولنے کو بھی شامل ہے، جبکہ بعض نے اسے صرف دینی معاملات تک محدود کیا ہے، لیکن اس کے لیے دلیل پیش کرنا ضروری ہے۔  
"اور جو شخص قرآن کے بارے میں اپنی رائے سے بات کرے" یعنی جو شخص تفسیرِ قرآن کا کام شروع کرے حالانکہ اسے عربی زبان کے اسالیب، حقیقت و مجاز، مجمل و مفصل، عام و خاص اور دیگر علوم قرآن و قواعد تفسیر سے واقفیت نہ ہو، "تو وہ بھی اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے" جو آخرت میں اس کے لیے تیار ہے۔ کیونکہ اگرچہ اس کی بات قرآن کے مفہوم کے موافق ہو، لیکن اس نے ایک بہت بڑا جرم کیا ہے، جس میں اس نے بغیر کسی(استاد کی سند) اجازت کے اللہ تعالیٰ کے کلام میں دخل اندازی کی ہے۔ جو شخص بغیر اجازت کے قرآن کے بارے میں بات کرتا ہے وہ غلطی پر ہے، چاہے اس کا قول صحیح ہی کیوں نہ ہو۔ امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: باطنیہ کا طریقہ کار، جو کہ شارع کے الفاظ کو ان کے ظاہری معنیٰ سے ہٹا کر ایسے معنیٰ مراد لیتے ہیں جو پہلے کسی کے ذہن میں نہیں آئے، بہت بڑی خرابی ہے۔ کیونکہ بغیر کسی نقلی دلیل یا عقلی ضرورت کے الفاظ کو ان کے ظاہری معنیٰ سے ہٹانا حرام ہے۔

[فيض القدیر شرح الجامع الصغیر للمناوی: 133]
---
توضیح:
1. "اتقوا الحديث عني إلا بما علمتم":
   - یہ حدیث روایت کرنے میں احتیاط کی تاکید ہے، خاص طور پر جب راوی کو یقین نہ ہو کہ یہ بات واقعی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔  

2. "فمن كذب علي متعمدا فليتبوأ مقعده من النار" 
   - نبی ﷺ پر جھوٹ بولنا کبیرہ گناہ ہے، کیونکہ یہ دین میں تحریف کا باعث بنتا ہے۔  

3. "ومن قال في القرآن برأيه فليتبوأ مقعده من النار": 
   - قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرنا ممنوع ہے، بلکہ اس کے لیے علمِ تفسیر، عربی زبان اور سلفِ صالحین کے اقوال کی معرفت ضروری ہے۔  
---
اخلاقی پیغام:
1. حدیث کی روایت میں احتیاط ضروری ہے، کیونکہ غلط بیانی دین کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔  
2. قرآن کی تفسیر محض رائے پر نہیں ہونی چاہیے، بلکہ علماء کے اصولوں کے مطابق ہونی چاہیے۔  
3. جھوٹی روایات سے بچنا ہر مسلمان کا فرض ہے، خاص طور پر جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہوں۔  

حفاظتِ حدیث وتفسیر»
غیر عالم کی تفسیر بالرائے۔
(2)حضرت جندب سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

"مَنْ قَالَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأ"۔
ترجمہ:
جو شخص قرآن کے معاملے میں (محض) اپنی رائے سے گفتگو کرے اور اس میں کوئی صحیح بات بھی کہہ دے تب بھی اس نے غلطی کی۔
[ابوداؤد:3652، ترمذی:2952، ابویعلی:1520، طبرانی:1672، ابن بطة:806، شعب الإيمان-للبيهقي:2081]

تشریح:
"جو شخص قرآن کے بارے میں (اپنی رائے سے بات کرے)"—اور ترمذی وغیرہ کی ایک روایت میں ہے: "جو شخص کتاب اللہ کے بارے میں (اپنی رائے سے کہے)"، اور ایک روایت میں ہے: "جو قرآن میں (بغیر علم کے) گفتگو کرے"—یعنی وہ بات جو اس کے ذہن میں آ جائے یا خیال میں گزر جائے، بغیر اصولِ تفسیر کی معرفت اور منقول علوم (قرآنی روایات) کے تجربے کے۔ "(اور اگر وہ صحیح بھی ہو)"—یعنی اس کی رائے اتفاقاً صحیح ہو جائے، لیکن علماء کے اقوال اور علمی قواعد کی مراجعت کے بغیر، نیز عربی زبان کے اسالیب (حقیقت، مجاز، مجمل، مفصل، عام، خاص) اور آیات کے اسبابِ نزول، ناسخ و منسوخ، نیز ائمہ کے اقوال و تأویلات سے ناواقف ہو—"(تو بھی وہ غلطی پر ہے)"—کیونکہ اس نے قرآن پر ایسا حکم لگایا جس کی اسے معرفت نہیں، اور اللہ تعالیٰ پر وہ بات منسوب کی جو اس کے مراد ہونے کا یقین نہیں۔
رہا وہ شخص جو دلیل کے ساتھ بات کرے یا تأویل کے اصولوں کے مطابق تفسیر کرے، تو وہ اس حدیث کے حکم میں داخل نہیں۔ بعض لوگ اس بات کو نہ سمجھ سکنے کی وجہ سے اس حدیث کی صحت پر اعتراض کرتے ہیں اور بغیر دلیل کے اسے رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔  

[فيض القدیر شرح الجامع الصغیر للمناوی: 8900]
---
توضیح:
1. تفسیر بالرأی کی مذمت:
   - یہ حدیث قرآن کی تفسیر میں بغیر علم کے اپنی رائے دینے کی سخت مذمت کرتی ہے۔ امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:  
     "قرآن کو اپنی خواہشات کے مطابق موڑنا تحریفِ کلام اللہ ہے، جو کبیرہ گناہوں میں سے ہے".

2. شرائط تفسیر:
   - تفسیر کے لیے عربی زبان، اسبابِ نزول، ناسخ و منسوخ، اور سلف صالحین کے اقوال: کا علم ضروری ہے۔ امام سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:  
     "تفسیر کی دو قسمیں ہیں: (1) نقل پر مبنی (2) اجتہاد پر مبنی۔ دوسری قسم صرف انہیں کے لیے جائز ہے جو تمام علومِ قرآن پر مکمل دسترس رکھتے ہوں".

3. اختلافِ روایات:
   - الفاظ کے اختلاف (مثلاً "في القرآن" یا "في كتاب الله") سے مراد یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر میں ہر قسم کی بے ضابطہ رائے زنی ممنوع ہے، خواہ وہ لفظی ہو یا معنوی.

4. تأویل کی گنجائش:
   - اگر کوئی عالم "دلیل اور اصولِ تفسیر" کے مطابق بات کرے تو وہ اس وعید سے مستثنیٰ ہے۔ امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:  
     "تأویلِ قرآن جائز ہے، بشرطیکہ وہ زبانِ عرب اور شرعی قواعد کے دائرے میں ہو"۔
---
اخلاقی پیغام:
1. قرآن کی تفسیر علمی ذمہ داری ہے، ہر شخص اپنی رائے نہیں دے سکتا۔  
2. بے علمی میں تفسیر کرنا گناہِ عظیم ہے، کیونکہ یہ اللہ کے کلام میں تحریف کے مترادف ہے۔  
3. علماء کے اقوال کو ترجیح دی جائے، خصوصاً صحابہ اور تابعین کے تفسیری آثار.  


علم کس طرح اٹھا لیا جائے گا؟

حضرت عبداللہ ابن عمروؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم  نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا ، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا "۔
ترجمہ:
اللہ تعالیٰ علم کو (آخری زمانہ میں) اس طرح نہیں اٹھالے گا کہ لوگوں (کے دل و دماغ) سے اسے نکال لے بلکہ علم کو اس طرح اٹھاے گا کہ علماء کو (اس دنیا سے) اٹھالے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے لہٰذا وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔"

معتبر گواہ: علماء»
القرآن:
....میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لیے اللہ کافی ہے، نیز ہر وہ شخص جس کے پاس کتاب کا علم ہے۔
[سورۃ الرعد:43(تفسیر الثعلبی:155)]


القرآن:
کیا ان لوگوں کو یہ حقیقت نظر نہیں آئی کہ ہم ان کی زمین کو چاروں طرف سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں؟۔۔۔
[سورۃ الرعد:41]

قِيلَ: هُوَ مَوْتُ العلماء.
کہا کہ وہ علماء کا مرنا ہے۔
[شرح السنۃ البغوی:147 تفسیرالبغوی:4/327)]





کیا علماء کے بغیر کتاب کا وجود کارآمد(فائدیمند) ہے؟

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «خُذُوا الْعِلْمَ قَبْلَ أَنْ يَذْهَبَ». قَالُوا: وَكَيْفَ يَذْهَبُ الْعِلْمُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، وَفِينَا كِتَابُ اللَّهِ؟ قَالَ: فَغَضِبَ، ثُمَّ قَالَ: «ثَكِلَتْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ أَوَلَمْ تَكُنِ التَّوْرَاةُ وَالْإِنْجِيلُ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمْ شَيْئًا؟ إِنَّ ذَهَابَ الْعِلْمِ أَنْ يَذْهَبَ حَمَلَتُهُ، إِنَّ ذَهَابَ الْعِلْمِ أَنْ يَذْهَبَ حَمَلَتُهُ» 
ترجمہ:
حضرت ابوامامہؓ نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: علم کے رخصت ہوجانے سے پہلے اسے حاصل کرلو۔ لوگوں نے دریافت کیا اے اللہ کے نبی علم کیسے رخصت ہوگا جبکہ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب موجود ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ ناراض ہوئے اور آپ نے ارشاد فرمایا: تمہاری مائیں تمہیں روئیں۔ کیا تورات اور انجیل بنی اسرائیل میں موجود نہیں تھیں۔ یہ دونوں ان کے کیا کام آسکیں؟ بےشک علم کا رخصت ہونا یہ ہے کہ اس کے رکھنے والے (عالم) رخصت ہوجائیں گے، بےشک علم کا رخصت ہونا یہ ہے کہ اس کے رکھنے والے 
(عالم) رخصت ہوجائیں گے۔
[سنن الدارمی:246]
تخریج: سنن ابن ماجہ:228، سنن ترمذی:2653





شواہد:

(1) عَنْ زِيَادِ بْنِ لَبِيدٍ، قَالَ: ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، فَقَالَ: «ذَاكَ عِنْدَ أَوَانِ ذَهَابِ الْعِلْمِ» ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ يَذْهَبُ الْعِلْمُ، وَنَحْنُ نَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَنُقْرِئُهُ أَبْنَاءَنَا، وَيُقْرِئُهُ أَبْنَاؤُنَا أَبْنَاءَهُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ: «ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ زِيَادُ إِنْ كُنْتُ لَأَرَاكَ مِنْ أَفْقَهِ رَجُلٍ بِالْمَدِينَةِ، أَوَلَيْسَ هَذِهِ الْيَهُودُ، وَالنَّصَارَى، يَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ، وَالْإِنْجِيلَ لَا يَعْمَلُونَ بِشَيْءٍ مِمَّا فِيهِمَا؟»
ترجمہ:
حضرت زیاد بن لبید انصاریؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا : نبی ﷺ نے کسی واقعے کا ذکر کیا اور فرمایا : یہ علم چلے جانے کے وقت ہوگا۔ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! علم کیسے اٹھ جائے گا جب کہ ہم قرآن پڑھتے ہیں، اپنے بیٹوں کو پڑھاتے ہیں اور ہمارے بیٹے اپنے بیٹوں کو پڑھائیں گے ؟ قیامت تک (اسی طرح سلسلہ جاری رہے گا۔) نبی ﷺ نے فرمایا : زیاد ! تیری ماں تجھے روئے، میں تو تجھے مدینے میں سب سے زیادہ سمجھدار آدمی خیال کرتا تھا۔ کیا یہ یہودی اور عیسائی تورات اور انجیل نہیں پڑھتے؟ لیکن وہ ان میں موجود کسی حکم پر عمل نہیں کرتے۔
[سنن ابن ماجہ:4048 کتاب الفتن، بَابُ ذَهَابِ الْقُرْآنِ وَالْعِلْمِ]
یعنی
بے عملی کا سبب علماء سے دوری ہے۔ قرآن ومسجد سے امت کو دور کرنے کیلئے شیطانی گروہ لوگوں کو تمام علماء یا ان کے بڑے کی تحقیر پر لگادیتا ہے۔ یہ تعمیر نہیں تخریب ہے۔




(2) عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَخَصَ بِبَصَرِهِ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ قَالَ: «هَذَا أَوَانُ يُخْتَلَسُ العِلْمُ مِنَ النَّاسِ حَتَّى لَا يَقْدِرُوا مِنْهُ عَلَى شَيْءٍ» فَقَالَ زِيَادُ بْنُ لَبِيدٍ الأَنْصَارِيُّ: كَيْفَ يُخْتَلَسُ مِنَّا وَقَدْ قَرَأْنَا القُرْآنَ فَوَاللَّهِ لَنَقْرَأَنَّهُ وَلَنُقْرِئَنَّهُ نِسَاءَنَا وَأَبْنَاءَنَا، فَقَالَ: «ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا زِيَادُ، إِنْ كُنْتُ لَأَعُدُّكَ مِنْ فُقَهَاءِ أَهْلِ المَدِينَةِ هَذِهِ التَّوْرَاةُ وَالإِنْجِيلُ عِنْدَ اليَهُودِ وَالنَّصَارَى فَمَاذَا تُغْنِي عَنْهُمْ؟»
ترجمہ:
حضرت ابودرداءُ سے بھی روایت ہے کہ ہم ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے کہ آپ ﷺ نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا پھر فرمایا: یہ ایسا وقت ہے کہ لوگوں سے علم کھینچا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ اس میں سے کوئی چیز ان کے قابو میں نہیں رہے گی۔ زیاد بن لبید انصاریؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! ہم سے کیسے علم سلب کیا جائے گا جب کہ ہم نے قرآن پڑھا ہے اور اللہ کی قسم ہم اسے خود بھی پڑھیں گے اور اپنی اولاد اور عورتوں کو بھی پڑھائیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں تم پر روئے اے زیاد ! میں تو تمہیں مدینہ کے فقہاء میں شمار کرتا تھا۔ کیا تورات اور انجیل یہود و نصاری کے پاس نہیں ہے۔ لیکن انہیں کیا فائدہ پہنچا؟
[صحيح الترمذي:2653، سنن الدارمی:296، حاکم:338]




اکثریت (بے علم-نافرمانوں) کا حال:
القرآن:
اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے اور تقوی اختیار کرتے تو ہم ضرور ان کی برائیاں معاف کردیتے، اور انہیں ضرور آرام و راحت کے باغات میں داخل کرتے۔
[سورۃ المائدہ65 (تفسیر ابن ابی حاتم:6595]

اور اگر وہ تورات اور انجیل اور جو کتاب (اب) ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے بھیجی گئی ہے اس کی ٹھیک ٹھیک پابندی کرتے تو وہ اپنے اوپر اور اپنے پاؤں کے نیچے ہر طرف سے (اللہ کا رزق) کھاتے۔ (اگرچہ) ان میں ایک جماعت راہ راست پر چلنے والی بھی ہے، مگر ان میں سے بہت سے لوگ ایسے ہی ہیں کہ ان کے اعمال خراب ہیں۔
[سورۃ المائدہ:65-66 (تفسیر ابن کثیر:3/135)]

اور اگر ہم چاہیں تو جو کچھ وحی ہم نے تمہارے پاس بھیجی ہے، وہ ساری واپس لے جائیں، پھر تم اسے واپس لانے کے لیے ہمارے مقابلے میں کوئی مددگار بھی نہ پاؤ۔

[سورۃ الإسراء:86 (تفسیر مظہری:5/488)]







ہر صدی میں مجددِ دین»
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ من يجدد لها دينها».
ترجمہ:
”اللہ اس امت کے لیے ہر صدی کی ابتداء میں ایک ایسے شخص کو مبعوث فرمائے گا جو اس کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا“۔
[سنن ابوداؤد:4291، المعجم الأوسط-للطبراني:6527، مستدرك الحاكم:8592-8593، 

القرآن:
....اور اس (اللہ) نے سکھایا اسے جو چاہا....
[سورۃ البقرۃ:251 (تفسیر الدر المنثور:1/768)]

....اور ہم نے سکھایا اسے اپنے طرف سے ایک علم۔
[سورۃ الکھف:65]
(تفسیر آلوسی:12/309)


تشریح:
"علماء نے اس حدیث کی تفسیر میں کلام کیا ہے، ہر ایک نے اپنے زمانے میں، اور انہوں نے اس قائم (مجدد) کی طرف اشارہ کیا جو ہر سو سال کے سر پر لوگوں کے دین کی تجدید کرتا ہے۔ گویا ہر قائل اپنے مذہب کی طرف مائل ہوا اور حدیث کی تفسیر اسی پر محمول کی۔ حالانکہ اولیٰ یہ ہے کہ حدیث کو عموم پر محمول کیا جائے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمانا: «بے شک اللہ ہر سو سال کے سر پر اس امت کے لیے ایسا شخص اٹھاتا ہے جو ان کے دین کی تجدید کرتا ہے»، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ سو سال کے سر پر مبعوث ہونے والا صرف ایک شخص ہو۔ بلکہ وہ ایک بھی ہو سکتا ہے اور ایک سے زیادہ بھی، کیونکہ لفظ «مَنْ» واحد اور جمع دونوں پر دلالت کرتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی لازم نہیں کہ مبعوث سے مراد صرف فقہاء ہوں، جیسا کہ بعض علماء کا مسلک ہے۔ اگرچہ فقہاء سے امت کا فائدہ دین کے معاملات میں عام ہے، لیکن دوسرے طبقات جیسے اولوالامر، محدثین، قُرّاء، واعظین اور زاہدین(صوفیاء) سے بھی امت کو بڑا نفع پہنچتا ہے۔ ہر گروہ اپنے مخصوص فن سے وہ نفع پہنچاتا ہے جو دوسرا نہیں پہنچا سکتا۔ کیونکہ دین کی حفاظت کی بنیاد سیاست کے قوانین کی حفاظت، عدل و انصاف کے فروغ پر ہے جس سے خون بہنے سے بچتے ہیں اور شرعی قوانین قائم کرنا ممکن ہوتا ہے—یہ اولوالامر کا کام ہے۔ اسی طرح محدثین: احادیث کی حفاظت سے نفع پہنچاتے ہیں جو شرعی دلائل ہیں۔ قُرّاء: قراءات کے حفظ اور روایات کی ضبط سے نفع دیتے ہیں۔ زاہدین: وعظ و نصیحت اور تقویٰ و زہد کی ترغیب سے فائدہ پہنچاتے ہیں۔ ہر ایک کا نفع دوسرے سے الگ ہے۔ البتہ جو شخص سو سال کے سر پر مبعوث ہو، وہ ہر فن میں مشہور و معروف اور سب کی نگاہ میں ممتاز ہونا چاہیے۔ اگر حدیث کی تفسیر اسی طرح کی جائے تو یہ اولیٰ، الزام سے پاک اور حکمت کے زیادہ قریب ہے۔ کیونکہ ائمہ کا اختلاف رحمت ہے، اور مجتہدین کے اقوال کا اثبات ضروری ہے۔ اگر ہم کسی ایک مذہب کو خاص کر کے حدیث کی تفسیر اس پر کریں، تو دیگر مذاہب حدیث کے دائرے سے خارج ہو جائیں گے، جو ان پر طعن ہوگا۔ لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اس سے مراد ہر صدی کے سر پر مشہور اَکابر کی ایک جماعت کا ظہور ہے جو لوگوں کے دین کی تجدید کرتی ہے اور ان کے مذاہب کی حفاظت کرتی ہے جن میں وہ اپنے مجتہدین و ائمہ کی تقلید کرتے ہیں۔  
اب ہم اسلام کے مشہور مذاہب کا ذکر کرتے ہیں جن پر دنیا بھر کے مسلمانوں کا مدار ہے: شافعی، ابوحنیفہ، مالک، احمد اور امامیا کا مذہب۔ ہر صدی کے سر پر ان مذاہب اور دیگر طبقات میں سے جن کی طرف اشارہ کیا گیا، وہ درج ذیل ہیں:
1. شافعی مذہب  
2. ابوحنیفہ کا مذہب  
3. مالک کا مذہب  
4. احمد (بن حنبل) کا مذہب  
ہر صدی کے سر پر ان مذاہب اور دیگر طبقات میں ممتاز شخصیات درج ذیل تھیں:
---
پہلی صدی ہجری (قبل از مذاہب)
لوگ کسی ایک خاص امام کے مذہب پر مجتمع نہ تھے۔  
- اولوالامر: عمر بن عبدالعزیز (ان کی موجودگی ہی امت کے لیے کافی تھی)  
- مدینہ کے فقہاء: باقر، قاسم بن محمد، سالم بن عبداللہ  
- مکہ کے فقہاء: مجاہد بن جبر، عکرمہ، عطاء بن ابی رباح  
- علاقائی فقہاء:  
  - یمن: طاؤس  
  - شام: مکحول  
  - کوفہ: عامر شعبی  
  - بصره: حسن بصری، محمد بن سیرین  
- قاری: عبداللہ بن کثیر  
- محدثین: زہری اور بکثرت تابعین
---
دوسری صدی ہجری  
- اولوالامر: مامون الرشید  
- فقہاء:  
  - شافعی (امام)  
  - حسن بن زیاد (حنفی)  
  - اشہب (مالکی)  
  - احمد بن حنبل (مجتہد امام، 241ھ)  
- قاری: یعقوب حضرمی  
- محدث: یحییٰ بن معین  
- زہاد: معروف کرخی  
---
تیسری صدی ہجری  
- اولوالامر: مقتدر باللہ  
- فقہاء:  
  - ابن سریج (شافعی)  
  - طحاوی (حنفی)  
  - (... مالکی)  
  - خلال (حنبلی)  
- متکلمین: اشعری  
- قاری: ابن مجاہد  
- محدث: نسائی  
---
چوتھی صدی ہجری: 
- اولوالامر: قادر باللہ  
- فقہاء:  
  - اسفرائینی (شافعی)  
  - خوارزمی (حنفی)  
  - عبدالوہاب (مالکی)  
  - حسین بن حامد (حنبلی)  
- متکلمین: باقلاّنی، ابن فورک  
- محدث: حاکم نیشاپوری  
- قاری: حمامی  
- زاہد: دینوری  
---
پانچویں صدی ہجری:
- اولوالامر: مستظہر باللہ  
- فقہاء:  
  - امام غزالی (شافعی-زاہد)  
  - ارسابندی (حنفی)  
  - (... مالکی)  
  - زاغونی (حنبلی)  
- محدث: رزین عبدری  
- قاری: قلانسی  


[جامع الاصول-ابن الاثیر: حدیث 8881 (11/319)]






تشریح:
"بے شک اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر (ہجرت یا دیگر حساب سے، جیسا کہ پہلے بیان ہوا، تقریباً مراد ہے) اس امت کے لیے ایسے شخص(اشخاص) کو مبعوث فرماتا ہے جو اس کے دین کی تجدید کرے۔ یعنی: 

- سنت کو بدعت سے ممیز کرے 

- علم کی کثرت کرے 

- اہلِ علم کی نصرت کرے 

- اہلِ بدعت کو شکست دے اور ذلیل کرے۔ 

علماء کہتے ہیں: یہ مجدد ظاہری و باطنی دینی علوم کا عالم ہوتا ہے۔ 

امام ابن کثیر فرماتے ہیں: ہر گروہ نے اپنے امام کے بارے میں دعویٰ کیا کہ یہ حدیث اسی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ لیکن ظاہر یہ ہے کہ اس میں ہر طبقہ کے علماء شامل ہیں: مفسر، محدث، فقیہ، نحوی، لغوی وغیرہ۔ 

مصنف (حافظ سخاوی) نے نویں مجدد ہونے کا دعویٰ کیا ہے، اپنی قصیدہ میں فرماتے ہیں: 

>"لقد أتى في خبر مشتهر... رواه كل عالم معتبر"

(ایک مشہور حدیث آئی ہے جسے ہر معتبر عالم نے روایت کیا ہے کہ ہر صدی کے سر پر رب اس امت کے لیے ایک عالم مجدد بھیجتا ہے...) 

مجددین کی تاریخی فہرست (قصیدہ کے مطابق):  

1. پہلی صدی: عمر بن عبدالعزیز (خلیفۂ عدل) 

2. دوسری صدی: امام شافعی 

3. تیسری صدی: ابن سریج اور امام اشعری 

4. چوتھی صدی: باقلانی یا اسفرائینی 

5. پانچویں صدی: امام غزالی 

6. چھٹی صدی: امام رازی یا رافعی 

7. ساتویں صدی: ابن دقيق العيد 

8. آٹھویں صدی: بلقینی یا حافظ زین الدین عراقی 

9. نویں صدی: مصنف (سخاوی) خود 

مجدد کی شرائط:  

- صدی کا اختتام اور اس کی حیات 

- علم میں شہرت اور سنت کی نصرت 

- ہر فن میں مہارت (جامع العلوم) 

- اہلِ بیت سے نسبت (ترجیحی) 

- اکثر روایات میں فرد واحد ہونا 

اختتامی نکات:

دسویں صدی کے آخر میں حضرت عیسیٰؑ نزول فرمائیں گے جو دین کی تجدید کریں گے۔ 

-حدیث مذکور (أبو داود: 4291) کے راوی: أبو ہریرہؓ۔ 

-اسناد: امام زین الدین عراقی(ت806ھ) اور دیگر کے نزدیک اس حدیث کی سند  صحیح ہے۔ 

-تجدید کی تعریف (علقمی کے مطابق): کتاب وسنت کے متروک احکام کو زندہ کرنا اور ان پر عمل کا حکم دینا۔

[فيض القدير شرح الجامع الصغیر-للمناوي:1845 (2/281)]
---






قرآن کی حفاظت کے لیےاللہ کا حیرت انگیز انتظام


اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ”إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ إِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ“( سورة الحجر: پ۱۴/۹) ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ یہ پہلی وہ آسمانی کتاب ہے، جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود لیا، گویا اس کی حفاظت کے لیے یہ وعدہ الٰہی ہے اور قرآن کا اعلان ہے: ”إِنَّّّ اللَّہَ لَاْ یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ“(سورة آل عمران:پ۳/۹) اللہ کبھی بھی وعدہ خلافی نہیں کرتے۔ بس اللہ نے اپنا یہ وعدہ سچ کر دکھایا۔ اور کتاب اللہ کی حفاظت کا حیرت انگیز انتظام کیا۔ اس طور پر کہ اس کے الفاظ بھی محفوظ، اس کے معانی بھی محفوظ، اس کا رسم الخط بھی محفوظ، اس کی عملی صورت بھی محفوظ، اس کی زبان بھی محفوظ، اس کا ماحول بھی محفوظ، جس عظیم ہستی پر اس کا نزول ہوا اس کی سیرت بھی محفوظ، اور اس کے اولین مخاطبین کی سیَرْ بھی یعنی زندگیاں بھی محفوظ۔

غرضیکہ اللہ رب ا لعزت نے اس کی حفاظت کے لیے جتنے اسباب و وسائل اور طریقے ہوسکتے تھے، سب اختیار کئے، اور یوں یہ مقدس اور پاکیزہ کتاب ہر لحاظ اور ہر جانب سے مکمل محفوظ ہوگئی۔ الحمدللہ آج چودہ سو انتیس سال گذرنے کے بعد بھی اس میں رتی برابر بھی تغیر و تبدل نہ ہوسکا، لاکھ کوششیں کی گئیں، مگر کوئی ایک کوشش بھی کامیاب اور کارگر ثابت نہ ہوسکی، اور نہ قیامت تک ہوسکتی ہے۔

کتاب الٰہی کی، کیسے حفاظت کی گئی؟

ڈاکٹر محمود احمد غازی اپنی کتاب محاضرات حدیث میں تحریر فرماتے ہیں ”کتاب الٰہی کے تحفظ کے لیے اللہ رب العزت نے دس چیزوں کو تحفظ دیا، یہ دس چیزیں وہ ہیں، جو قرآن پاک کے تحفظ کی خاطر محفوظ کی گئی ہیں“ ۔

وہ کون سی چیزیں ہیں، جو قرآن کے خاطر محفوظ کی گئیں؟

قرآن کی حفاظت کی خاطر نو چیزیں محفوظ کی گئیں:

(۱) قرآن کی کا متن یعنی اس کے بعینہ وہ الفاظ جو اللہ رب العزت نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطہ سے یا وحی کے کسی اور طریق سے نبی آخرالزماں صلى الله عليه وسلم پر نازل کئے، آپ صلى الله عليه وسلم پر جب وحی نازل ہوتی، تو آپ فوراً کاتبین وحی میں سے کسی سے کتابت کروالے لیتے، پھر صحابہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی زبانِ اقدس سے بھی اُسے سنتے، اور جو تحریر کیا ہوا ہوتا، اُسے بھی محفوظ کرلیتے، اس طرح ۲۳/سال تک قرآن، نزول کے وقت ہی لکھا جاتا رہا، صحابہ نے اسے حفظ بھی یاد کیا، کیوں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے اس کے حفظ کی بڑی فضیلتیں بیان کی ۔ ایک روایت کے مطابق صحابہ میں سب سے پہلے حفظِ قرآن مکمل کرنے والے حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ ہیں۔

دورِ نبوی صلى الله عليه وسلم کے بعد دورِ ابی بکر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ، اور دیگر صحابہ کے کے مشورے سے اس کی تدوین عمل میں آئی، یعنی اس کو یکجا کر لیا گیا اور دورِ عثمانی میں اس کی تنسیخ‘ عمل میں آئی، یعنی اس کے مختلف نسخے بناکر کوفہ، بصرہ، شام، مکہ وغیرہ جہاں جہاں مسلمان آباد تھے بھیج دیے گئے، یہ تو تحریری صورت میں حفاظت کا انتظام ہوا، ا س کے علاوہ اس کو لفظ بلفظ یاد کرنے کا التزام کیا گیا، وہ الگ۔ اس طرح قرآن سینہ و سفینہ دونوں میں مکمل لفظاً محفوظ ہوگیا، اور یہ سلسلہ نسلاً بعد نسلٍ آج بھی جاری ہے، قیامت تک جاری رہے گا، انشاء اللہ، اللہم اجعل القرآن ربیع قلوبنا و جلاء اعیننا.

(۲) جہاں اللہ رب العزت نے اس کے متن کی حفاظت کی، وہیں اس کے معنی و مفہوم اور مراد کی حفاظت کا بھی انتظام کیا، اس لیے کہ صرف الفاظ کا محفوظ ہونا کافی نہیں تھا، کیوں کہ مراد اور معنی اگر محفوظ نہ ہو، تو ا س کی تحریف یقینی ہوجاتی ہے، کتب سابقہ کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا، کیوں کہ اس کے الفاظ اگرچہ کچھ نہ کچھ محفوظ رہے، مگر اس کے معانی و مفہوم تو بالکل محفوظ نہ رہے، اس لیے کہ انہوں نے اپنے انبیاء علیہم السلام کے اقوال و افعال و اعمال کو محفوظ رکھنے کا کوئی انتظام نہ کیا، جس کے نتیجہ میں الفاظ محفوظہ بھی کارگر ثابت نہ ہوسکے، مثلاً عیسائی مذہب ان کا کہنا ہے کہ ہمیں دو اصولوں کی تعلیم دی گئی، اور ہم اس کے علمبردار ہیں: نمبر ایک عدل و انصاف۔ نمبردو محبت و الفت۔ مگر اگر آپ، ان سے دریافت کریں کہ عدل و انصاف کس کو کہتے ہیں، تو وہ اس کا مفہوم نہیں بیان کرسکتے۔ یہی حال محبت کا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس عدل اور محبت کی پرواہ کیے بغیر لاکھوں نہیں، کروڑوں انسانوں کو عیسائیت کے فروغ کی خاطر قتل کر دیا گیا، اور یہ سلسلہ ابھی تک تھما نہیں۔ اسی طرح یہودیت کی اصل بنیاد اس اصول پر ہے،کہ تم اپنے پڑوسی کے لیے وہی پسند کرو،جو اپنے لیے پسند کرو۔ لیکن اگر آپ یہود کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا،کہ انہوں نے اپنے پڑوسیوں کو جتنا ستایا، اتنا دنیا میں کسی نے اپنے پڑوسیوں کو نہیں ستایا ہوگا، اور اب بھی اس کا سلسلہ جاری ہے، جو اسرائیل کی جارحیت سے عیاں ہے، مگر اسلام، الحمد للہ سنت نبوی کے پورے اہتمام کے ساتھ محفوظ رہنے کی وجہ سے، قرآن کی تعلیمات پر مکمل طور پر محفوظ چلا آرہا ہے۔ اس طرح اللہ نے سنتِ رسول جس کو احادیث رسول صلى الله عليه وسلم بھی کہا جاتا ہے، کے ذریعہ معانی و مفاہیم اور مراد الٰہی کو محفوظ رکھنے کا انتظام کیا۔ اس لیے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے قرآن کی جو تفسیر کی، جسے ”تفسیر بالمأثور“کہا جاتا ہے، جس پر امام سیوطی، امام ابن کثیر وغیرہ، بے شمار علماء نے تفسیر یں لکھیں، اور ہر آیت کی تفسیر، حدیث رسول سے کرکے دکھائی، وہ درحقیت اللہ ہی کی جانب سے ہے، کیوں کہ قرآن نے اعلان کیا ہے ”ان علینا بیانہ“ ( سورة القیٰمة: پ۲۹/۱۹)یعنی اس قرآن کی تفسیر بھی ہم نے اپنے ذمہ لے لی ہے۔ا یک جگہ پر”جمعہ وقرآنہ“ ہے، ایک جگہ ارشاد ہے ”وما ینطق عن الہویٰ ان ہو الا وحی یوحی“ آپ صلى الله عليه وسلم کوئی بات اپنے جی سے نہیں کرتے، بلکہ وحی خدا وندی ہی ہوتی ہے ۔ اسی کو کسی فارسی شاعر نے کہا:

گفتہٴ او گفتہ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

اس پوری گفتگو سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ ”تفسیر بالمأثور“ درحقیقت اللہ ہی کی، کی ہوئی تفسیر ہے، اور ظاہر ہے اللہ ہی اپنی مراد کو خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔ لہٰذا حدیث کی حفاظت سے معانی و مراد خداوندی بھی محفوظ ہوگئے؛ اللہ ہمیں کتاب اللہ اور سنت رسول پر مرمٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

(۳) قرآن کے الفاظ و معانی کے ساتھ ساتھ، وہ جس زبان میں نازل ہوا،وہ زبان یعنی عربی زبان بھی محفوظ۔ اس کے لیے بھی اللہ نے عجیب انتظام کیا، اس طور پر کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا ”احبوا العرب لثلاث انی عربی، ولسان أہل الجنة عربی، والقرآن عربی“ قرآن نے خود اعلان کیا ”بلسان عربی مبین“ ( سورة الشعراء: پ۱۹/۱۵۹)ہم نے قرآن کو صاف ستھری عر بی زبان میں نازل کیا۔اگر آپ لسانیات کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا دنیا کی کوئی زبان تین چار سو سال سے زیادہ محفوظ نہ رہ سکی، یا تو وہ ختم ہوگئی یا کسی دوسری زبان میں ضم ہوگئی، یا ایسے تغیر و تبدل کی شکار ہوگئی کہ اس کی پہلی ہیئت باقی نہ رہ سکی، مگر عربی زبان مسلمانوں کی توجہ و عنایت کا ایسا شہکار ہے، جو بیان سے باہر ہے؛ اولاً خود نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے صحابہ  كرام رضوان الله تعالى عليهم اجمعين کی تربیت میں عربی زبان کی نوک و پلک کی درستگی کو خوب اہمیت دی، آپ صلى الله عليه وسلم کے بعد حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے بھی، اپنی توجہ کو اس پر مبذول کیا، جیسا کہ حضرت ابوبکررضي الله تعالى عنه، حضرت عمررضي الله تعالى عنه اور دیگر صحابہ كرام رضوان الله تعالى عليهم اجمعين کی سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے ، یہاں تک کہ حضر ت علی کرم اللہ وجہہ رضی اللہ تعالی عنہ نے تو نحو عربی و صرف عربی کی بنیاد ڈال کر، اسے خاص توجہ کا مرکز بنایا، اور پھر آپ کے بعد اُمت کا ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا، جس نے اپنی زندگیاں اسی زبان کی حفاظت و ترویج میں وقف کردی، ابوالاسود الدُویلی ،امام سیبویہ، اما م خلیل فراہیدی، امام کسائی، امام فراء، امام مبرد، امام اخفش، امام یعصم، امام تغلب، امام ثعلب، امام یشکر، امام ابن حاجب، امام ابن ہشام، امام ابن عقیل، امام ابن جنی، امام نفطویہ، امام زازویہ، امام خالویہ، امام راہویہ وغیرہ نے اپنی پوری زندگیاں صرف و نحو ، علمِ بیان وغیرہ کی حفاظت کے لیے وقف کردیں، جس کی برکت سے آج بھی عربی زبان اسی اصل ہیئت پر باقی ہے، جس ہیئت پر وہ نزول قرآن کے وقت تھی، اور قیامت کے وقوع سے پہلے پہلے تک جب تک اس قرآن کو باقی رکھنے کی اللہ کی مشیت ہوگی، امت کی ایک جماعت اس کارِخیر میں مشغول رہے گی، انشاء اللہ۔

(۴) صرف الفاظ و معانی اور قرآنی زبان ہی کی حفاظت پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا، بل کہ اس کے الفاظ و معانی کی عملی صورت کی حفاظت کا بھی پورے پورے انتظام کیا گیا، اس طور پر کہ قرآن جس لفظ میں نازل ہوتا، نبی کریم صلى الله عليه وسلم اس کی مراد و حی کی روشنی میں صحابہ کو سمجھاتے، اور سمجھانے کے بعد اسکو عملاً بطور نمونہ، کرکے بھی بتلاتے تھے، جسکو آج کی زبان میں تھیوری (Theory)کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل (Practical)کا بھی اہتمام کیا جاتا، مثلاً نماز، قرآن نے صرف یہ الفاظ کہے ”اقیموا الصلوة“ (سورة البقرة: ۱/۴۳) نماز قائم کرو، مگر پورے قرآن میں کہیں اس کی پوری تفصیل بالترتیب نہیں بتائی گئی، ہاں کہیں قیام، کہیں رکوع، کہیں سجود کو متفرق طور پر بیان کیا گیا، جب کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے اس کا طریقہ بالترتیب صحابہ کو بتایا، اور پھر اس کو عملی طور پر کرکے دکھایا اور کہا ”صلوا کما رأیتمونی اصلی“ نماز ایسی ہی پڑھو جیسی مجھ کو پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ صحابہ نے ایسا ہی کیا، پھر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے بعد صحابہ نے بھی بدستور اس پر عمل جاری رکھا، اور تابعین بھی انہیں جیسا کرتے رہے ، گویا انہوں نے بھی ہوبہو ایسا ہی کیا، اس کے بعد تبعِ تابعین، اس طرح آج تک نسلاً بعد نسلٍ اور قرناً بعد قرنِ امت کا اس پر تعامل، اس طرح عملی صورت بھی محفوظ ہوگئی، یہ تو ایک مثال ہے، ورنہ صلوہ العید، صلوة الجنازة، زکوٰة، صدقہ، قربانی، تلاوت قرآن وغیرہ سب کی عملی صورت آج تک امت کے ذریعہ اللہ رب العزت نے محفوظ رکھی، اسی لیے جب کوئی قرآن کی تفسیر و تشریح میں من مانی کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو اُمت میں اس کو تلقی بالقبول (مقبولیت) حاصل نہیں ہوتا، البتہ کچھ افراد جو مفادپرست ہو یا ان کی اسلامی تربیت نہ ہوئی ہو، یا ضروری علم دین سے واقف نہ ہو، اس کے تابع ہو جاتے ہیں، اور ایسا تو دنیا میں ہوتا ہی ہے، عربی میں محاورہ مشہور ہے ”لکل ساقطة لاقطة“ ہرگری پڑی چیز کا کوئی نہ کوئی اٹھانے والا ہوتا ہے۔

 خلاصہٴ کلام یہ کہ قرآن کے مفاہیم و مرادوں کو بھی اللہ رب العزت نے تعامل کے ذریعہ محفوظ رکھا، یقینا دنیا کی کوئی طاقت اللہ کی مشیت کے لیے رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ واللہ غالب علی امرہ و لکن اکثر الناس لایعلمون(سورة یوسف:۱۲/۲۱)۔

(۵) میرے عزیزو! قربان جائیے اس رب کائنات پر ،جس نے اپنی کتاب کی حفاظت کے لیے ایسے ایسے انتظام کیے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، اور انسان اس کی کرشمہ سازیوں پر سر دھندتا رہ جاتا ہے، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جس ماحول میں قرآن کا نزول ہوا، جس سیاق و سباق میں آیتیں نازل ہوئی، اس ماحول کو بھی تحفظ اور دوام بخشا گیا، حدیث کے ذخیرے نے وہ پورا ماحول اس کی منظر کشی اور نقشہ کشی ہمارے سامنے رکھ دی، جب طالب حدیث اس کو پڑھتا ہے، تو اس کے سامنے چشم تصور میں وہ سارا منظر متشکل ہو کر آجاتا ہے، جس منظر میں قرآن کریم نازل ہوا، جس پس منظر اور پیش منظر میں، قرآن مقدس کے احکام و ہدایات پر صحابہٴ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے، صاحبِ وحی رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی حاضری اور موجودگی میں عمل درآمد شروع کیا، جس کو علم حدیث میں ”حدیثِ مسلسل“ کہا جاتا ہے، اس کی صورت یہ ہوئی کہ راوی نے، حدیث کو جب نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے سنا، یا دیکھا، تو اس وقت جو کیفیت تھی، راوی جس سے روایت بیان کرتا ہے، اس کے سامنے وہی انداز و اسلوب اختیار کرتا ہے، جس انداز سے اس نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے اس حدیث کو اخذ کیا ہو، اور وہ پوری کیفیت بعینہ کرکے دکھاتا ہے، جو نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے صادر ہوئی ہو، مثلاً ”حدیث مسلسل بالتشبیک“ اس کاو اقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو گناہ اور توبہ کے وقت ایمان کی کیفیت کو بیان کیا، کہ اگر بندہ گناہ کرتا ہے، تو ایمان اس کے دل سے نکل جاتا ہے، اور جب توبہ کرتا ہے تو وہ دوبارہ دل میں داخل ہو جاتا ہے، اور آپ نے اپنی انگلیوں کو پروکر علیحدہ کیا اور کہا ایمان گناہ کے وقت اس طرح نکل جاتا ہے، ا ور جب توبہ کرے تو دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے کے اندر پروکر (جس کو تشبیک الاصابع کہتے ہیں) بتایا، پھر اس صحابی نے بھی اس روایت کو بیان کرکے، اسی طرح کرکے بتایا، اس طرح یہ سلسلہ آج تک چلا آرہا ہے بظاہر ایسا کرنے سے کوئی فائدہ سمجھ میں نہیں آتا، اگر نہ بھی کیا جاتا تو بات سمجھ میں آجائی گی، مگر اس کا ایک اضافی فائدہ یہ ہوتا ہے، کہ نفسیاتی اور جذباتی طور پر انسان اس ماحول میں چلا جاتا ہے، جس ماحول میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اس بات کو بیان فرمارہے تھے، مسجد نبوی میں یا جس مقام پر حضور اقدس صلى الله عليه وسلم اس کو بیان فرمارہے تھے، تو روحانی طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں وہاں موجود ہوں، اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے اس عمل کو صحابہ، تابعین اور تبع تابعین اور حدیث کے اساتذہ اور طلبہ کے ذریعے دیکھتا چلا آرہا ہوں، بالکل اسی طرح کی کیفیت ”اسباب نزول آیات“ کے بولتے اور سنتے وقت ہوتی ہے۔

سبب نزول کہتے ہیں، حدیث میں وارد، اُن واقعات کو جوکسی آیت کے نزول کے وقت پیش آیا ہو، اس سے قرآن فہمی میں بڑی مدد ملتی ہے، کیوں کہ جب آیت کا سبب نزول معلوم ہو جائے، تو اس پرمرتب احکام کا درجہ بھی معلوم ہو جاتا ہے، اگرچہ یہ ضروری بھی نہیں قرار کیا گیا، کہ ہر آیت کا سبب نزول ہو، مستقلاً علماء نے اس پر تصانیف چھوڑی، مثلاً امام جلال الدین سیوطی، امام واحدی وغیرہ نے۔

(۶) قرآن کریم کی حفاظت کی غرض سے جہاں بہت ساری چیزوں کو تحفظ بخشا گیا، وہیں سیرت نبوی یعنی نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی زندگی کے حالات کو بھی محفوظ کیا۔ کیوں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے قرآنی مطالبات پر عمل کرکے بتایا تاکہ کل آکر کوئی ایسا نہ کہے ہم قرآنی مطالبات پر عمل نہیں کرسکتے، یہ تو بڑے شاق اور دشوار گذار ہیں، تو بطور نمونہ کے آپ نے عمل کرکے بتلایا اور عمل بھی ایسا، جیسا اس پر عمل کرنے کا حق ہے، اسی لیے حضرت عائشہ صدیقہ رضي الله تعالى عنه سے، حضور اقدس صلى الله عليه وسلم کے اخلاق کے بارے میں جب دریافت کیا گیا، تو آپ رضي الله تعالى عنها نے کہا کہ کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟ کہاں ہاں۔ تو آپ نے فرمایا ”کان خلقہ القرآن“ آپ قرآن کا چلتا پھرتا نمونہ تھے۔ جہاں کوئی امر نازل ہوا، فوراً عمل کرکے بتایا، اسی لیے قرآن نے اعلان کر دیا ”لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة“ (سورة الاحزاب:پ۲۱،آیت۲۱)آپ صلى الله عليه وسلم کی زندگی، اے مسلمانو! تمہارے لیے نمونہ ہے، دنیا میں کسی ہستی کی سیرت و حیات پر اتنا کام نہیں ہوا جتنا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی حیات مبارکہ پر ہوا، اور ہوتا چلا جارہا ہے، آج بھی اس کی افادیت میں کوئی کمی محسوس نہیں ہورہی ہے، بل کہ مزید اس کی افادیت میں اضافہ ہو رہا ہے، اللہم اجعلنا ممن یتبع الرسول و یطیعہ.

(۷) نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی ذات اقدس کو اللہ رب العزت نے اپنی آخری کتاب قرآن کے نزول کے لیے منتخب کیا اور آپ کے لیے آخری دین، دین اسلام کو تجویز کیا، قرآن کی حقانیت کوباقی رکھنے کے لیے اس کے تقدس و علو مرتبت کو ثابت کرنے کے لیے صاحب قرآن کی عظمت اور تقدس کو باقی رکھنا بھی امرِ ناگزیر تھا، اللہ رب العزت نے اس کے لیے جو حیرت انگیز اور تعجب خیز انتظام فرمایا، اسی میں سے ایک یہ کہ آپ کے نسب مبارک کو بھی مکمل محفوظ کیا گیا، عرب جو امی ، اَن پڑھ تھے، مگر اس کے باوجود اقوام عالم میں ان کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ اپنے انساب کے یاد رکھنے کا بڑا اہتمام کرتے تھے یہی اہتمام بعد میں چل کر ایک فن کی حیثیت اختیار کر گیا، اور اس پر کتابیں بھی لکھی گئیں، مثلاً الانساب للامام السمعانی وغیرہ، علم الانساب کہتے ہیں اس ریکارڈ کو جس میں یہ محفوظ کیا جائے کہ کون سا قبیلہ کہاں سے وجود میں آیا، کس قبیلے کے کس آدمی کا باپ کون اس کا دادا کون، اسی طرح اوپر تک اس کی شادی کہاں ہوئی، اس کی اولاد کتنی تھی، عربی قبائل میں کس قبیلے کی کس قبیلے کے ساتھ رشتہ داری تھی وغیرہ۔

اب کہنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ عربوں کو ان موضوعات سے دلچسپی رہی ہوگی، یا انہیں اس طرح کی معلومات کے جمع کرنے کا شوق رہا ہوگا، لیکن بات اتنی کہنے سے نہیں ٹلتی، ڈاکٹر محمود احمد غازی ایک حیرت انگیز بات کا انکشاف کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں ” جب ہم انساب کی کتابوں کا جائزہ لیتے ہیں، اور ان کا مطالعہ کرتے ہیں، تو ایک عجیب و غریب بات سامنے آتی ہے، بہت عجیب وغریب، اتنی عجیب و غریب، کہ اس کو محض اتفاق نہیں کہا جاسکتا، وہ عجیب و غریب بات یہ سامنے آتی ہے کہ جتنی معلومات محفوظ ہوئیں، وہ مرکوز ہیں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی شخصیت پر حالاں کہ جس وقت انساب کی حفاظت کا کام شروع ہوا، اس وقت تو حضور صلى الله عليه وسلم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے“۔ مگر اللہ کو منظور تھا کہ آپ کا نسب مکمل محفوظ اور منسلک رہے تاکہ آپ کے آباء و اجداد کی علو شان، ان کی پاکبازی سے آپ کی خاندانی شرافت اور کرامت کا ثبوت فراہم ہو، اور یوں صاحب قرآن کی شان بھی قرآن کے شایان شان ہونے کا ثبوت مہیا ہو جائے، اور کسی بھی ذی ہوش و خرد مند کے لیے آپ کی تکذیب کا سوال باقی نہ رہے، اور آپ کی تصدیق دل و جان سے قبول کرلے، ہاں مگر یہ کہ اس میں حسد و عناد، شرکشی و شرارت ہو، اس طرح قرآن کی حفاظت اس کے وقار اور اس کی حقانیت کے ثبوت کے لیے اللہ رب العزت نے نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے نسب مبارک کو محفوظ کرلیا، واللّٰہ علی کل شئ قدیر. (سورة البقرة:پ۱،آیت۱۰۶) واللّٰہ غالب علی امرہ و لکن اکثر الناس لایعلمون.(سورة یوسف:پ۱۲،آیت۲۱)

(۸) قرآن کے نزول کے وقت اس کے اولین مخاطب اور اس کے اولین حاملین حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین جو براہِ راست مخاطب تھے، قرآن کی حفاظت کے لیے اللہ نے ایک انتظام اور بندوبست یہ بھی کیا کہ حضرات صحابہ کرام رضوان الله تعالى عليهم اجمعين کے حالات کو محفوظ کروالیا، ایک اندازے کے مطابق صحابہ کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز تھی، مگر ان میں سے اکثریت آخری دور میں قبولیت اسلام سے شرف یاب ہوئی، اس اولین حاملین، جنہیں قدیم الاسلام یا اولین موٴمنین کہا جاتا ہے، ان کی تعداد کم و بیش پندرہ بیس ہزار رہی ہوگی، اور جن صحابہ نے آپ سے زیادہ کسبِ فیض کیا، ان کے حالات کو بھی اللہ نے محفوظ کرلیا، تاکہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ ساتھ ان کے حالات کا علم ہو جائے اور انہوں نے ایمانی تقاضوں اور اسلامی مطالبات کو، جس حسن و خوبی کے ساتھ عملی جامہ پہنایا، اس کی معرفت بھی حاصل ہو جائے تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے، محمد عربی صلى الله عليه وسلم تو رسول تھے، ان کے ساتھ اللہ کی خاص عنایت و رحمت تھی، انہوں نے اگر عمل کیا، یہ ان کی امتیازی شان تھی، مگر جب صحابہ کی زندگیاں بھی اسی نقش قدم پر پائی، تو معلوم ہو جاتا کہ ایسا نہیں اگر انسان ارادہ کرلے، تو مکمل ایمانی تقاضوں کو پورا کرسکتا ہے، جیسا کہ صحابہ نے پورا کیا، اسی لیے قرآن نے کہا ”امنوا کما آمن الناس“ ایمان لاوٴ صحابہ جیسا ایمان لائے۔ اس میں الناس پرالف لام عہدِ خارجی کا ہے، یعنی حضرات صحابہ۔

صحابہ کے حالات میں ایک عجیب پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ جو صحابہ نبی کریم صلى الله عليه وسلمسے جتنا قریب تھے، ان کے حالات اتنے ہی زیادہ تفصیل کے ساتھ ملتے ہیں، صحابہ کے حالات کی حفاظت کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ صاحب قرآن کے اصحاب و احباب کا جب علم ہو تو اس سے آپ کے محبِ خیر بل کہ سراپا خیر ہونے کا اندازہ ہو، کیوں کہ آدمی اپنے دوستوں سے جانا جاتا ہے، حدیث شریف میں ”فانظر الی من یخالل“ کہ جب تم کسی کے بارے میں جاننا چاہو تو دیکھو کہ وہ کیسے لوگوں کے ساتھ رہتا ہے، تو اس سے معلوم ہو جائے گا کہ یہ کیسا ہے، انسانی تاریخ میں حضرات انبیاء کرام کے بعد اگر کوئی مقدس اور بہترین گروہ ہے تو وہ گروہِ صحابہ ہے، لہٰذا قرآن اور صاحب قرآن کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا بھی ضروری تھا کہ قرآن پر اجتماعی عمل کیسے ہو؟ سنت اور قرآن کی اجتماعی تشکیل کس طرح ہوں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں امت نے کیسے جنم لیا؟ اور ان سوالات کے جوابات مکمل نہیں ہو سکتے تھے، مگر صحابہ کے احوال کے جانے بغیر، لہٰذا اللہ نے انتظام کیا، اور اولین حاملین قرآن اور اولین عاملین میں سے تقریباً پندرہ ہزار نفوس قدسیہ کے حالات نام بہ نام نسل بہ نسل دستیاب ہیں، اور الحمد للہ امت تب سے لے کر اب تک اور قیامت تک ان کے نقوش و خطوط سے استفادہ کرتی رہے گی، اور قرآن پر عمل کرنے کے لیے اسے معاون سمجھتی رہے گی، و اللہ لطیف بالعباد۔

(۹) اب جب صحابہ جو قرآن کے الفاظ و معانی کے ساتھ ساتھ اس پر انفرادی و اجتماعی طور پر عمل کرنے والے اور دنیا کو یہ بتانے والے ٹھہرے کہ قرآن قابل عمل ہی نہیں دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی کا ضامن ہے، تو ان کے حالات کے جاننے کے لیے، ان کے اصحاب جن کو تابعین کہا جاتا ہے، کے حالات کا قلمبند ہونا بھی ضروری تھا، تاکہ صحابہ کے حالات ہم تک یعنی ان کے بعد والوں تک صحیح طور پر پہنچے، تو اس کے لیے، ان تابعین وتبعِ تابعین کے احوال کا تحفظ بھی ضروری تھا، کرشمہٴ الٰہی دیکھئے کہ ایسے چھ لاکھ افراد کے بارے میں پورا بایوڈاٹا یعنی مکمل معلومات کو بھی اللہ نے تحفظ بخشا اور وہ بھی سرسری نہیں بلکہ ان کی پوری تفصیلات کے ساتھ، کہ یہ کون تھے؟ کس زمانہ میں پیدا ہوئے؟ ان کی شخصیت کس درجہ کی تھی؟ ان کا علم وفضل کس درجہ کا تھا؟ انہوں نے کس کس سے کسبِ فیض کیا؟ ان کا حافظہ کیسا تھا؟ ان میں کیا اچھائیاں تھیں وغیرہ۔ غرضیکہ اس طور پر منقی و مصفی کرکے سامنے رکھ دیا گیا ہے، کہ آدمی ان کی شخصیت سے اطمینان بخش حد تک معلومات حاصل کرلے۔ اس کو فن ”اسماء رجال“ سے تعبیر کیا گیا۔ اور ڈاکٹر محمود احمد غازی فرماتے ہیں کہ یہ ایسا فن ہے کہ اس کی مثال دنیا کے کسی مذہبی و غیر مذہبی فن میں نہیں ملتی، نہ مذہبی علوم میں اس کی مثال اور نہ غیر مذہبی علوم میں۔

خلاصہٴ کلام یہ کہ وہ چیزیں ہیں، جس کو قرآن کی حفاظت کی خاطر اللہ رب العزت نے حیرت انگیز انداز میں تحفظ بخشا، اوراپنے کامل قدرت کا مظاہرہ کیا، اللہ ہمیں قرآن کی قدردانی کی توفیق عطافرمائے اور ہمارے ظاہر وباطن کو قرآن کے منشاء کے مطابق بنادے۔ آمین یا رب العالمین!

_______________________






No comments:

Post a Comment