Friday, 11 January 2013

اسلوب حدیث


اسلوب حدیث

آنحضرتﷺ کا اندازِ بیان، لب ولہجہ

حدیث سے متعلق جاننا بھی ضروری ہے کہ آنحضرت   کا اسلوب بیان کیا تھا، قرآن کریم کی روشنی میں ہم کہہ سکتے  ہیں کہ آپ کا انداز بیان حکیمانہ اورلہجہ سخن بہت نرم تھا، قرآن کریم میں ہے کہ آپ قرآن کریم سنانے اورصحابہ کی تربیت کرنے کے ساتھ ساتھ معلم حکمت بھی ہیں،آپ نے امت میں اخلاق و حکمت کےپھول چنے، اپنے آپ کو معلم اخلاق بتلایا،قرآن کریم نے آپ کے وصف  "وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ" کی بھی خبردی ہے اورآپ کا لہجہ سخن یہ بتایا :

"فَبِمَارَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْكُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ"۔

 (آل عمران:۱۵۹)

ترجمہ:سویہ اللہ ہی کی رحمت ہے کہ آپ ان کے سامنے نرم دل رہےاور اگر آپ ہوتے سخت دل تندخو تو یہ آپ کے پاس سے متفرق ہوجاتے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں، حضورصلی اللہ علییہ وسلم نے فرمایا:

"أَنْزِلُوا النَّاسَ مَنَازِلَهُمْ"۔     

(سنن ابی داؤد،باب فی تنزیل الناس منازلھم،حدیث نمبر:۴۲۰۲)

ترجمہ :لوگوں کے سامنے اس طرح اترو جس درجہ کے وہ ہوں۔

آپ امت کے لیے شفقت مجسم تھے،بات نہایت آسان کرتے، مثالیں دے دے کر بات واضح کرتے اور اسے دلوں میں اتارتے، ایسی بات جس سے مغالطہ پیدا ہو،اس سے منع فرماتے ایک بات پر لمبی تقریر نہ فرماتے، جو بات فرماتے پختہ اورمحکم ہوتی،ہاں یہ بات ضرور ہے کہ جب کسی امر الہٰی کا بیان ہوتا تو اللہ رب العزت کے اجلال میں آپ کے چہرہ انور پر کبھی کچھ آثار جلال آجاتے، یہ خالق اور مخلوق کے درمیان ہوکر خالق کی طرف جھکنے کا ایک پیرایہ تھا۔
حدیث کا سرچشمہ بھی وحی خداوندی ہے،الفاظ خدا کی طرف سے مقرر ہوں تو یہ وحی قرآن ہے،حضور   کے اپنے ہوں تو یہ حدیث ہے،سو حدیث معنا شانِ اعجاز رکھتی ہے اوراسے کسی پہلو سے غلط ثابت نہیں کیا جاسکتا، لفظا یہ معجز نہیں؛ تاکہ قرآن کریم کی شان اعجاز واضح رہے،حضور   نے جس طرح قرآن کے مقابل مشرکین سے نظیر مانگی، اپنے الفاظ کو آپ نے کبھی بے مثل نہ ٹھہرایا، نہ کبھی یہ دعویٰ کیا کہ یہ حداعجاز کو چھورہے ہیں،ہاں یہ ضرورہے کہ آپ جوامع الکلم سے نوازے گئے اورانسانی کلام فصاحت اور بلاغت کی جس بلندی تک جاسکتا ہے، آپ اس میں بات کہتے تھے اوراس پہلوسے آپ کی بات بہت جامع ہوتی تھی۔

اسلوب بیان حالات کے آئینہ میں

انسان کی زندگی طرح طرح کے حالات سے گزرتی ہے،کہیں انسان غموں میں گھرا ہوتا اورکہیں خوشی کی لہروں میں گھومتا ہے،یعنی غم کے وقت اس سے خوشی کی بات نہیں نکلتی اورعین خوشی میں اس کے الفاظ کبھی غم آلود نہیں ہوتے،اس کا اسلوب گفتگو اس کے حالات کے ساتھ ساتھ بدلتا ہے اوراس کے خیالات کا مظہر ہوتا ہے۔
آنحضرت   پر قرآن اترتا تو اس کا اسلوب بیان اپنا ہوتا تھا، یہ کلام معجز تھا،حضور  کے حالات خوشی یا غمی سے گزرتے اورآپ کا لہجہ سخن ان کے مطابق ہوتا، آپ کے الفاظ میں آپ کے حالات کی جھلک ہوتی،پھر کبھی اچانک قرآن کریم کا نزول ہوتا جس کا پیرایہ آپ کے حالات سے بالکل مختلف ہوتا، ہنسنے والوں کو اس کے کلام الہٰی ہونے کا اور یقین ہوتا کہ اگر یہ واقعی آپ کا اپنا بنایا کلام تھا تو آپ کے خوشی یا غمی کے حالات میں کیوں نہیں جھلکتے، انہیں اسلوب حدیث اوراسلوب قرآن میں واضح فرق محسوس ہوتا تھا اورانہیں جب ایک ہی شخصیت سے دو مختلف اسلوب ملتے تو یہ وہ سچائی ہے جو مخالف سے مخالف کو بھی اپنا لوہا منوائے بغیر نہ رہی اوروہ بے اختیار کہنے لگتے، ہوسکتا ہے یہ کسی جن کا کلام ہو، جو آپ کے کلام سے بالکل علیحدہ اسلوب رکھتا ہو، وہ اپنے پہلے موقف پر کہ یہ کلام آپ کا اپنا بنایا ہوا ہے،قائم نہ رہتے، یہ اسی لیے ہوتا کہ آپ کا اپنا اسلوب بیان قرآن پاک کے اسلوب سے مختلف ہوتا تھا۔
آپ اپنی بات کہتے، بعض دفعہ اسے تین تین بار دہراتے،حدیث میں یہ تکرار بظاہر خلاف فصاحت نظر آتا ہے؛ لیکن جب حالات سامع پر نظر کی جائے تو آپ کا یہ کلام بلاغت پر پورا اترتا تھا اورمتقضائے حال کے بالکل مطابق ہوتا تھا۔
آپ غرائب الفاظ سے پرہیز فرماتے،لیکن عرب اسالیب کبھی خود ان کا تقاضا کرتے ہیں؛ سو آنحضرت   بھی بعض اوقات غرائب کا استعمال کرتے تھے،ان میں کچھ پیچیدگی تو ہوتی تھی،لیکن مغالطہ دہی نہیں،حدیث ام زرع کے بعض پیچیدہ الفاظ اسی قبیل سے ہیں اور یہ زبان کی دقیق راہوں سے گزرنا ہے،دقائق پر قابو پانا کسی جہت سے مخل فصاحت نہیں ہیں، آپ نے فرمایا: "لَايَدْخُلُ الْجَنَّةَ الْجَوَّاظُ وَلَاالْجَعْظَرِيُّ قَالَ وَالْجَوَّاظُ الْغَلِيظُ الْفَظُّ" (ابوداؤد، حدیث نمبر:۴۱۶۸،شاملہ، موقع الإسلام) علمائے حدیث کے ہاں غریب الحدیث ایک مستقل موضوع کلام ہے جویہاں زیرِبحث نہیں ہے؛ یہاں حدیث کے ان پیراؤں پرنظر کریں جنہیں آپ نے کمال شان جامعیت اورکبھی عجیب وغریب مثالوں سے واضح فرمایا اوربات دلوں میں اتاری؛ کبھی آپ نے اپنے ادبی ذوق میں قافیہ دار الفاظ بھی کہے اوراسے بھی آپ کے اسلوب بیان میں ایک اہم درجہ حاصل ہے، ذیل میں ہم احادیث سے آپ کے اسلوب بیان کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔

اسلوب جامعیت

دیانت کے تین محال ہیں:
۱۔ دیانت Honesty اور نفاق hypocracy مقابلے کے الفاظ ہیں:
(۱)زبان دیانت پر ہو تو اس سے سچ نکلتا ہے جھوٹ نہیں (۲)نیت دیانت پر ہو تو انسان آئندہ کے بارے میں کوئی ایسی بات نہیں کرتا کہ دل میں اس کے خلاف ہو (۳)عمل دیانت پر ہو تو انسان کسی کی امانت اوراس کے حق میں خیانت نہیں کرتا،ظاہر ہے کہ نفاق کے موضوع بھی تین ہی ہونگے، زبان، نیت اورعمل، آنحضرت   نے منافق کی علامات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

"آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ"۔

(بخاری،باب علامۃ المنافق،حدیث نمبر:۳۲)

ترجمہ:منافق کے تین نشان ہیں،بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو الٹ کرے (پہلے سے نیت ہو کہ پورا نہ کرونگا) اورجب اس کے پاس کسی کی امانت (یاحق) ہو تو وہ خیانت کرے)۔

جس شخص میں ان میں سے کوئی عیب ہو، اس میں یہ علامت نفاق ہے اورجس میں یہ سب صفات پائی جائیں اس کے پکا منافق ہونے میں کوئی شبہ نہیں، اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کتاب الایمان میں لائے ہیں، کتاب الادب میں نہیں۔
اس حدیث نے کس طرح نفاق کے مضامین کا احاطہ کیا ہے،یہ آپ کے سامنے ہے، اس جامعیت سے بات کرنا آپ کو کلام رسالت میں ہی ملے گا؛ یہی اسلوب حدیث ہے۔
۲۔ انسان خواہشات کا پتلا ہے،اپنی چیز دوسروں سے سمیٹ کر رکھتا ہے اپنے خیال، رائے کو پختہ سمجھتا ہے،خواہش نفسانی (ھوی)اپنے کو سمیٹ کر رکھنا(بخل) اور ہربات میں اپنی رائے دینا ہے،یہ انسان کی فطرت تھی،آنحضرت   نے اُن پرروک اورقد غن نہیں لگائی، یہ نہ فرمایاکہ اس میں خواہش نہ ابھرے جذبہ بخل نہ ابھرے اوروہ ہر بات میں اپنی رائے قائم نہ کرے، آپ نے فطری تقاضوں پر زنجیریں نہیں لگائیں، فرمایا:

"أماالمهلكات: فهوى متبع وشح مطاع واعجاب المرء بنفسه"۔

(مشکاۃ المصابیح،باب السلام،الفصل الاول،حدیث نمبر:۵۱۲۲)

ترجمہ: انسان کو ہلاک کرنے والی چیزیں تین ہیں،خواہش جب اس کی پیروی کی جائے،بخل جب انسان اس پر عمل کرے اوررائے جب انسان اسی کو اچھا سمجھے۔

غور کیجئے، نکیر ھویٰ پر نہیں اس کی اتباع پر ہے،بخل پر نہیں،اس کی پیروی پر ہے، رائےپر نہیں اس کے اعجاب پر ہے،اتنا محتاط اورجامع کلام صاحب جوامع الکلم کے سوا اورکس کا ہوسکتا ہے،یہ مہلکات کا بیان تھا،اب منجیات کو بھی دیکھ لیجئے:
انسانی زندگی دوحصوں میں منقسم ہے، پرائیوٹ زندگی اورپبلک زندگی؛ پھر ہر شخص کی زندگی پر دو حالتیں ضرور آتی ہیں،کبھی رضا مندی، کبھی غصہ اورپھر کبھی آسودگی اورپھر کسی وقت محتاجگی،زندگی کا کوئی حصہ ہو،پرائیویٹ یا پبلک، اللہ کا ڈر ہر حال میں ہونا چاہئے اورپھر رضا مندی پر یا غصہ،بات ہمیشہ حق ہونی چاہئے، اورحالت آسودہ ہو یا احتیاج کی میانہ روی ہرحال میں بہتر ہے، حضرت ابوہریرہرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"فأما المنجيات: فتقوى الله في السر والعلانية والقول بالحق في الرضى والسخط والقصد في الغنى والفقر"۔

(مشکوٰۃ، حدیث نمبر:۵۱۲۲، الناشر: المكتب الإسلامي،بيروت)

ترجمہ:منجیات (نجات دلانے والی اشیاء) باطن اورظاہر میں اللہ سے ڈرنا ہے،خوشی اورسختی ہر حال میں سچ بات کہنا ہے اوردولت مندی ہو یا محتاجگی ہر حال میں میانہ روی اختیار کرنا ہے۔

۳۔ادبی ملاحت کا اسلوب: آپ نے فرمایا:

"كَلِمَتَانِ حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ"۔

(بخاری،باب قول اللہ تعالی ونضع المواذین،حدیث نمبر:۷۰۰۸)

اسماء بنت عمیس کہتی ہیں،حضور   نے فرمایا:

"بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ تَخَيَّلَ وَاخْتَالَ وَنَسِيَ الْكَبِيرَ الْمُتَعَالِ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ تَجَبَّرَ وَاعْتَدَى وَنَسِيَ الْجَبَّارَ الْأَعْلَى بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ سَهَا وَلَهَا وَنَسِيَ الْمَقَابِرَ وَالْبِلَى بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ عَتَا وَطَغَى وَنَسِيَ الْمُبْتَدَا وَالْمُنْتَهَى بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ يَخْتِلُ الدُّنْيَا بِالدِّينِ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ يَخْتِلُ الدِّينَ بِالشُّبُهَاتِ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ طَمَعٌ يَقُودُهُ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ هَوًى يُضِلُّهُ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ رَغَبٌ يُذِلُّهُ"۔

(سنن الترمذی،باب ماجاء فی صفۃ اوانی الحوض،حدیث نمبر:۲۳۷۲)

ترجمہ: برا بندہ وہ ہے جو اپنے خیال میں لگا رہے اوراپنے کو بڑا سمجھے اوراللہ تعالی برتر و بالا کوبھول جاے، اور برا بندہ وہ ہے جو سختی کرے اور حد سے نکلے اور جبار اعلی کو بھول جائے کہ کوئی اس پر بھی سختی کرنے والا ہے، اور برا بندہ وہ ہے جو اطاعت الہٰی سے غافل ہوا اور لا یعنی میں مشغول ہو اور بھول جائے قبروں کو اور کفن کے پرانا ہونے کو اور برابندہ وہ ہے جو تکبر کرے اور سرکش ہو اور اپنے اول اورآخر کو بھول جائے اور برا بندہ وہ ہے جو دین کو دنیا کے ذریعہ طلب کرے اور برا بندہ وہ ہے جو دین کوشبہات کے ساتھ طلب کرے اور برا بندہ وہ ہے جس کو لالچ چلاتا رہے اور برا بندہ وہ ہے جسے خواہشات نے رستے سے بچلا رکھا ہو، اور برا بندہ وہ ہے جس کو اس کی رغبتیں (خواہشات ) ذلیل کراتی رہیں ،اوکما قال  ۔

آپ نے اس حدیث میں برے لوگوں کے نوعنوان ذکر فرمائے، نو سب سے بڑا عدد ہے، ان عنوانوں میں سے ہر ایک ادبی پارہ ہے اور ہدایت ربانی کا ایک اچھلتا فوارہ ہے، حدیث کا یہ ادبی اسلوب معاشرے کے ہر پہلو کو چھورہا ہے، احکام کی احادیث میں بات کی وضاحت آپ کے پیش نظر ہوتی ہے؛ لیکن نصائح کے موقعہ پر بات کی صحت کے علاوہ آپ کی قوت تاثیر بھی اسلوب میں لپٹی ہوتی ہے۔
۴۔مثال دیکر بات کو واضح کرنا اور شرعی امور کے کوئی نقشے سامنے لے آنا، یہ آپ کا نمایاں پیرائی ہدایت تھا، عرب کے امیوں میں اس خاص نہج پر کام کرنے کی بہت ضرورت تھی،آپ نے دقیق فسلفیانہ کلام کے بجائے عام اور فطری پیرایہ بیان اختیار فرمایا آپ کی زیادہ توجہ اس پر ہوتی تھی کہ حق کس طرح حق تعالی کے بندوں میں اتر آئے اوران کے دل و دماغ اسلام کی اس فطری روشنی سے منور ہوجائیں۔

آنحضرتؐ کا مثالوں سے احکامِ الہٰی کی وضاحت کرنا

آنحضرت   نے الہٰی ہدایت کے مختلف پہلوؤں کو کبھی مثالوں سے بھی واضح فرمایا،مثال سے بات ذہن میں پوری طرح جم جاتی ہے اورآسان ہو جاتی ہے، مثال اور ممثل لہ میں ہر جہت سے مطابقت نہیں ہوتی، جس غرض سے مثال دی جائے صرف اس جہت سے مطابقت کافی سمجھی جاتی ہے،اللہ تعالی نے بھی بندوں کی رعایت کرتے ہوئے قرآن کریم میں بہت سے مضامین مثالوں سے واضح فرمائے ہیں،قرآن کریم میں ہے:

"وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلَى وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ"۔                

(النحل:۶۰)

ترجمہ: اللہ کی مثال سب سے اوپر ہے اور وہ ہے زبردست، حکمت والا۔

آنحضرت   بھی اسی علمی اور ادبی راہ پر چلے، بہت سے مقامات پر آپ   نے اپنی بات مثالوں سے واضح فرمائی، سلیم بن عامرؒ تابعی کہتے ہیں، آنحضرت   نے فرمایا:

"نصرت بالرعب واوتیت جوامع الکلم واوتیت الحکمۃ وضرب لی من الامثال مثل القرآن"۔             

(الأمثال للرامهرمزي:حدیث نمبر:۶، صفحہ نمبر:۱/۸، موقع جامع الحدیث)

ترجمہ: میری (الہٰی)رعب سے مدد کی گئی،مجھے جامع کلمات دیئے گئے، میں حکمت دیا گیا اورجیسے قرآن میں مثالیں ہیں مجھے بھی مثال سے بیان کرنا عطا کیا گیا۔

حضرت عبداللہ بن عمروبن العاصؓ (۶۷ھ) وہ صحابی ہیں جنہوں نے حضور   کی زندگی میں حدیث لکھنے کی اجازت حاصل کرلی تھی اورحدیث لکھنی شروع کردی تھی،آپ کہتے ہیں:

"حفظت عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم الف مثل"۔        

(مسند احمد:۴/۲۰۳)

ترجمہ: میں نے آپ   سے ایک ہزار مثالیں یاد کررکھی ہیں۔

محدثین میں امثال حدیث ایک خاص موضوع سمجھا جاتا ہے، قاضی ابو محمد الحسن (۳۶۰ھ) جیسے بلند پایہ محدثین نے اسی دور میں اس موضوع کو اپنا یا اوراس پر کتابیں لکھیں، یہ وہ باب حدیث ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا علمی اور ادبی پیرایۂ بیان نکھر کر سامنے آتا ہے اورآپ   کے بیان اور مثالوں کے تحت مشبہ  اور مشبہ بہ کے لطیف حسی اور معنوی فاصلے بات کے اندر کی سطح کو عملی طور پر سامنے لے آتے ہیں اور طلبہ اور علماء افصح العرب والعجم کے مثال والے بے مثال پیرایۂ بیان پر پھڑک اُٹھتے ہیں، ذیل ہم اس بات کے چند مباحث انہی ائمہ فن کے بیانات کی روشنی میں آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں، فنی نقطہ نظر سے یہ ایک باب عظیم ہے جس نے علوم اسلامی میں علم معانی اور علم بیان کو ایک مستقل شعبہ کی جگہ دی ہے۔

پہلی مثال

"مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى بُنْيَانًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ مِنْ زَوَايَاهُ فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ وَيَعْجَبُونَ لَهُ وَيَقُولُونَ هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَةُ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ"۔

(مسلم،باب ذکرکونہ صلی اللہ علیہ وسلم،حدیث نمبر:۴۲۳۹)

"(وفی روایۃ)فَجَعَلَ النَّاسُ يُطِيفُونَ بِهِ يَقُولُونَ مَارَأَيْنَا بُنْيَانًا أَحْسَنَ مِنْ هَذَا إِلَّا هَذِهِ اللَّبِنَةَ فَكُنْتُ أَنَاتِلْكَ اللَّبِنَةَ"۔

(مسلم،باب ذکر کونہ  :حدیث نمبر:۴۲۳۷)

ترجمہ: میری اورمجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے گھر بنایا اوراس کو بہت آراستہ و پیراستہ کیا؛مگر اس کے گوشوں میں سے ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی لوگ اسے دیکھنے آتے رہے اور خوش ہوتے رہے اور کہتے کہ یہ اینٹ کی جگہ کیوں خالی رہی، آپؐ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں (جس سے اس قصرنبوت کی تکمیل ہوئی) اورمیں ہوں نبیوں کو ختم کرنے والا (خاتم النبیین

اس مثال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قصر نبوت کے دو مرحلے ذکر فرمائے ۔
(۱)بنی بنیانا (اس کی تعمیر)
(۲)فاحسنہ واجملہ (اس کی تحسین وتجمیل)۔
عمارات انہی دو مرحلوں سے گزرتی ہیں،پہلے مکان بناتا ہے پھر اس کی تحسین و تجمیلDecorationہوتی ہے،یہ وال پیپر کی صورت میں ہو یا سفیدی کی صورت میں، یہ مرحلہ مکان بننے کے بعد عمل میں آتا ہےاور اسی پر مکان کی تکمیل ہوتی ہے۔
اس مثال میں واضح ہے کہ قصر نبوت کی ہر پہلو سے تکمیل ہوئی ہے،تشریعی پہلو سے بھی اس کی تعمیر مکمل ہوئی اور غیر تشریعی نبوتوں کی تحسین و تجمیل ہوچکی، نبوت کا محل ما سوائے ایک اینٹ کے ہر پہلو سے مکمل تھا، خالی اینٹ کی جگہ آپ نے پرکی، فرمایا: ایک اینٹ کی جگہ باقی تھی وہ میرے آنے سے پر ہوگئی، یہ آخری اینٹ اپنی ذات میں  ہر پہلو سے کامل اور مکمل ہے؛ کسی مزید تجمیل کی محتاج نہیں اورحضور   قصر نبوت کے کامل طورپر مکمل (اسے تکمیل بخشنے والے) ہیں،آپ نے جس مثال سے اپنے پر نبوت کاختم ہونا بیان کیا ہے،یہ ہر نبوت کے ختم کا بیان ہے۔
جو نبوتیں نئی شریعت لاتی ہیں ان سے قصر نبوت کی تعمیر ہوتی ہے اور جو غیر تشریعی انبیاء ان شرائع پر لوگوں کو چلاتے ہیں،ان سے ان شرائع کی تحسین و تجمیل ہوتی ہے، وہ سابقہ تشریعی نبوت کا آلہ کار ہوتے ہیں،ان کے وجود سے اس سابقہ نبوت کا فیضان آگے پھیلتا ہے،آنحضرت   نے اس مثال میں نبوت کے دونوں سلسلوں کو لپیٹ لیاکہ اب آپ کے بعد کوئی تشریعی نبی یا غیر تشریعی نبی جو پچھلے فیضان کو آگے لے کر چلے ہرگز پیدا نہ ہوگا۔ آپ خاتم النبین ہیں اور آپ پرہر پہلو سے نبوت ختم ہوچکی،آپ یہاں بندوں پر خدا کی آخری حجت ہیں، آپ  کے بعد کسی سلسلہ وحی کا آغاز نہیں۔
غیر تشریعی نبی بھی اپنے وقت میں خداکی حجت ہوتا ہے اوراس پر وحی بھی آتی ہے، جب یہ حجت ہی ختم ہوگئی، حضور   ہی اللہ کے بندوں پر آخری حجت ٹھہرے اورسلسلہ وحی ہی منقطع ہوگیا تو اس یقین سے چارہ نہیں کہ اب آپ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی کبھی پیدا نہ ہوگا، آنحضرت   نے اس مثال میں ختم نبوت کو کس وضاحت سے پیش کیا ہے؟اسے مشہور محدث قاضی ابو محمد الحسن (۳۶۰ھ) کے الفاظ میں سنیے:

"قال أبو محمد هذا مثل نبوته صلى الله عليه و سلم وأنه خاتم الأنبياء وبه تتم حجة الله عز و جل على خلقه ومثل ذلك بالبنيان الذي يشد بعضه بعضا وهو ناقص الكمال بنقصان بعضه فأكمل الله به دینه وختم به وحيه"۔            

(امثال الحدیث، باب اول الکتاب:۱/۱۰)

ترجمہ: میں کہتا ہوں یہ آپ   کی مثال ہے اورآپ   بے شک خاتم النبیین ہیں اورآپ   کی ذات سے اللہ عزوجل کی حجت بندوں پر تمام ہوئی (آپ  کے بعد کوئی حجۃ اللہ نہیں) اورمثال اسے ایک تعمیر سے دی گئی ہے، جس کے اجزاء ایک دوسرے سے بندھے ہوتے ہیں کچھ بھی کمی ہو تو اس تعمیر کی تکمیل نہیں ہوتی، اللہ نے آپ   کے ذریعہ اپنے دین کو مکمل کیا اورآپ   پر سلسلہ وحی ہی ختم کردیا۔

دوسری مثال

فقیہ الامت سیدنا حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت   نے فرمایا:

"ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا وَعَلَى جَنْبَتَيْ الصِّرَاطِ سُورَانِ فِيهِمَا أَبْوَابٌ مُفَتَّحَةٌ وَعَلَى الْأَبْوَابِ سُتُورٌ مُرْخَاةٌ وَعَلَى بَابِ الصِّرَاطِ دَاعٍ يَقُولُ أَيُّهَا النَّاسُ ادْخُلُوا الصِّرَاطَ جَمِيعًا وَلَاتَتَفَرَّجُوا وَدَاعٍ يَدْعُو مِنْ جَوْفِ الصِّرَاطِ فَإِذَاأَرَادَ يَفْتَحُ شَيْئًا مِنْ تِلْكَ الْأَبْوَابِ قَالَ وَيْحَكَ لَاتَفْتَحْهُ فَإِنَّكَ إِنْ تَفْتَحْهُ تَلِجْهُ وَالصِّرَاطُ الْإِسْلَامُ وَالسُّورَانِ حُدُودُ اللَّهِ تَعَالَى وَالْأَبْوَابُ الْمُفَتَّحَةُ مَحَارِمُ اللَّهِ تَعَالَى وَذَلِكَ الدَّاعِي عَلَى رَأْسِ الصِّرَاطِ كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالدَّاعِي فَوْقَ الصِّرَاطِ وَاعِظُ اللَّهِ فِي قَلْبِ كُلِّ مُسْلِمٍ"۔

(مسنداحمد،باب حدیث النواس بن سمعان الکلابی،حدیث نمبر:۱۶۹۷۶)

ترجمہ :اللہ تعالی نے صراط مستقیم کی مثال ایک راہ سے دی ہے جس کے دونوں طرف دودیواریں ہوں ان میں دروازے کھلتے ہوں اور دروازوں پر پردے لٹکے ہوں،راستے کے سرپر ایک پکارنے والا کہہ رہا ہے۔رستے پر سیدھے چلے آؤ،ادھر ادھر نہ ہونا اوراس کے اوپر ایک اورآواز دینے والا ہے،جب بھی کوئی انسان ان دروازوں میں سے کسی دروازے کو کھولنے کا ارادہ کرتا ہے،وہ کہتا ہے اے تیری بربادی اسے تو نہ کھول اگر تو اسے کھولے گا تو اس میں پھنس کر رہ جائے گا پھر آنحضرت   نے اس کی تفسیر بیان فرمائی آپ نے کہا: راہ سے مراد اسلام ہے،کھلے دروازوں سے مراد اللہ کی حرمتیں ہیں،(جن امور کو اللہ تعالی نے ناقابل عبور ٹھہرایا ہے) لٹکے ہوئے پردوں سے مراد اللہ کی حدیں ہیں (جنہیں پھاندنے کی اجازت نہیں) راہ (صراط)کے سرپر پکارنے والا قرآن ہے اوراس کے اوپر آواز دینے والی اللہ تعالی کی طرف سے ایک ناصحانہ آواز ہے جو ہر قلب مومن پر دستک دے رہی ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مثال میں صراط مستقیم پر چلنے کی ہدایت فرمائی ہے،آپ نے اس کے دونوں طرف دیواریں ذکر کیں جن کے ورے اللہ کی حدیث لوٹتی ہیں اور انسان حرام کا مرتکب ہوتا ہے،صراط مستقیم پر چلنا ان سے بچ کر ہی میسر آسکتا ہے، یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے سورہ فاتحہ میں صراط مستقیم طلب کرنے کی ہدایت کی ہے اوراس میں مغضوب علیہم اورضالین سے بچ کر نکلنے کی بھی ہم دعا مانگتے ہیں، جو امور اکابر اسلام میں اجتہادی طور پر مختلف ہوگئے وہ ان اختلافات کے باوجود پوری وسعت سے صراط مستقیم میں ہی شامل رہیں گے۔
اجتہاد کی حضور   نے مذمت نہیں فرمائی اس میں خطا بھی ہو جائے تو مجتہد مخطئی کو اس پر ماجور بتلایا؛لیکن ٹیڑھی راہ اختیار کرنے کی حضور   نے مذمت فرمائی اوراس سے بچنے کا حکم دیا؛ پس! ٹیڑھی راہوں میں وہی راہیں شمار ہوں گی جو اصولا مختلف ہوں اور آپ  اس میں حق و باطل کا فاصلہ قائم کریں، مسالک اربعہ بتلانا اس حدیث سے کھلا تصادم ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اس مضمون کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان الفاظ میں بھی نقل کیا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں:

"خَطَّ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ  صلى الله عليه وسلم  يَوْماًخَطًّا ثُمَّ قَالَ: هَذَا سَبِيلُ اللَّهِ، ثُمَّ خَطَّ خُطُوطاً عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ ثُمَّ قَالَ: هَذِهِ سُبُلٌ،  عَلَى كُلِّ سَبِيلٍ مِنْهَا شَيْطَانٌ يَدْعُو إِلَيْهِ، ثُمَّ تَلاَوَأَنَّ هَذَا صِرَاطِى مُسْتَقِيماً"۔                    

(سنن الدارمی،باب فی کراھیۃ اخذ الرای،حدیث نمبر:۲۰۸)

ترجمہ: آنحضرت   نے ایک سیدھی لکیر کھینچی اور فرمایا یہ اللہ کی طرف جانے والی سیدھی راہ ہے، پھر آپ  نے اس کے دائیں بائیں بہت سے خطوط کھینچے اور فرمایا :یہ وہ راہیں ہیں جن میں سے ہر ایک پرایک شیطان بیٹھا ہے اور وہ لوگوں کو اس کی طرف بلاتا ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: "وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ"(الانعام:۱۵۳) ترجمہ:اوریہ راہ ہے میری سیدھی سو اس اس پر چلو اورنہ چلو اوررستوں پر وہ تمہیں جدا جدا کردیں گے۔

اس حدیث میں دائیں بائیں لڑنے والوں سے اجتہادی فاصلے مراد نہیں اعوجا جی فاصلےپیش نظر ہیں ورنہ اس حدیث:

"إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ فَأَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ وَإِذَا حَكَمَ فَأَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ وَاحِدٌ"۔

(سنن الترمذی،باب ماجاء فی القاضی یصیب ویخطئی،حدیث نمبر:۱۲۴۸)

سے کھلا تصادم لازم آئے گا۔
پھر اس مثال میں انسان کے ضمیر کو بڑا وقیع مقام دیا گیا ہے،پہلا داعی قرآن ہے جس کی دعوت انسان کو خارج سے پہنچتی ہے، دوسرا داعی وہ آواز ہے جو انسان کے اندر سے اٹھتی ہے، یہ اس کے ضمیر کی آواز ہے،یہ مضراب اللہ رب العزت کی طرف سے ہر مرد مومن کے دل پر لگتا ہے،غور کیجئے آنحضرتؐ نے کس شانِ بلاغت سے اسلام کے دین فطرت ہونے کا اثبات فرمایا اوراسے دل کی آواز قرار دیا ۔

تیسری مثال

"جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ جَاءَتْ مَلَائِكَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ نَائِمٌ فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّهُ نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ فَقَالُوا إِنَّ لِصَاحِبِكُمْ هَذَا مَثَلًا فَاضْرِبُوا لَهُ مَثَلًا.... فَقَالُوا مَثَلُهُ كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى دَارًا وَجَعَلَ فِيهَا مَأْدُبَةً وَبَعَثَ دَاعِيًا فَمَنْ أَجَابَ الدَّاعِيَ دَخَلَ الدَّارَ وَأَكَلَ مِنْ الْمَأْدُبَةِ وَمَنْ لَمْ يُجِبْ الدَّاعِيَ لَمْ يَدْخُلْ الدَّارَ وَلَمْ يَأْكُلْ مِنْ الْمَأْدُبَةِ فَقَالُوا أَوِّلُوهَا لَهُ يَفْقَهْهَا فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّهُ نَائِمٌ وَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ فَقَالُوا فَالدَّارُ الْجَنَّةُ وَالدَّاعِي مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَنْ أَطَاعَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ وَمَنْ عَصَى مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَمُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرْقٌ بَيْنَ النَّاسِ"۔

(بخاری،باب الاقتداء بسنن رسول  ،حدیث نمبر:۶۷۳۸)

ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت   ایک دفعہ سورہے تھے کہ آپ کے پاس فرشتے آئے، ایک کہنے لگا آپ سوئے ہیں، دوسرے نے کہا: آپ کی آنکھ تو سورہی ہے ؛لیکن دل جاگتا ہے پھر انہوں نے کہا،آپ کے اس صاحب کے لیے ایک مثل ہے سو آپ کے مثال لاؤ ....... پھر کہا آپ کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے گھر بنایا اس میں ایک دسترخوان بچھایا اورایک بلانے والے کو بھیجا (جولوگوں کو یہاں آنے کی دعوت دے) جس نے اس داعی (بلانے والے) کی آواز کو لبیک کہا وہ گھر میں داخل ہوگیا اوراس نے دعوت میں خوب کھایا اورجس نے داعی کی بات نہ مانی وہ نہ گھر آیا نہ اس نے کچھ کھایا پھر انہوں نے کہا: مراد کلام واضح کرو؛ تاکہ آپ اسے سمجھ جائیں؛ پھر ایک نے کہا: آپ توسوئے ہوئے ہیں، دوسرے نے کہا آنکھ تو سوتی ہے؛ مگر آپ کا دل جاگتا ہے؛ پھر انہوں نے کہا: گھر سے مراد تو جنت ہے، اس کی طرف بلانے والے محمدؐ ہیں، جس نے آپ کی بات مانی اس نے اللہ کی بات مانی اور جن نے آپ کی نہ مانی اس نے خدا کی، نافرمانی کی آپ لوگوں کے درمیان نقطہ امتیاز ہیں۔

اس سے ملتی جلتی ایک روایت قاضی ابو محمد الحسن نے بھی روایت کی ہے،حضور  استراحت فرمارہے تھے کہ آپ کے پاس دو فرشتے آئے،ایک سرمبارک کی طرف کھڑا تھا اور دوسراپاؤں مبارک کی طرف، جو سرکی طرف کھڑا تھا وہ میری طرف جھکا اورکہاآپ کی آنکھ سوتی ہے، کان سنتے ہیں اور دل یادررکھتا ہے، حضور   اسے نقل کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ بات اسی طرح ہے؛ جیسا کہ اس نے کہا؛ پھر اس نے ایک اورمثال دی۔

"بركة فيها شجرة نابتة وفي الشجرة غصن خارج فجاء ضارب فضرب الشجرة فوقع الغصن ووقع معه ورق كثير كل ذلك في البركة لم يعدها ثم ضرب الثانية فوقع كثير وكل ذلك في البركة لم يعدها ثم ضرب الثالثة فوقع ورق كثير لا أدري ما وقع فيها أكثر أو ما خرج منها"۔

(امثال الحدیث،باب اول الکتاب:۱/۱۹)

ترجمہ: ایک تالاب ہے اس میں ایک درخت اگا ہوا ہے اور درخت سے ایک ٹہنی باہر نکلی ہوئی ہے،ایک شخص آیا اس نے درخت پر ایک ضرب لگائی ٹہنی گرپڑی اوراس کے ساتھ بہت سے پتے گرے اور وہ تمام پتے تالاب میں ہی گرے، کوئی باہر نہیں پڑا، پھر اس نے ایک اور ضرب لگائی اور اس کے ساتھ بھی بہت سے پتے گرے، کوئی باہر نہیں گرا پھر اس نے تیسری بار ضرب لگائی اوربہت سے پتے گرے، میں نہیں جانتا کہ جو پتے اندر گرے وہ زیادہ تھے یا جو باہر گرے وہ زیادہ تھے۔

پھر اس مثال کی اس فرشتے نے جوآپ کے پاؤں کی طرف تھا یوں شرح بیان کی:

"أماالبركة فهي الجنة وأماالشجرة فهي الأمة وأماالغصن فهو النبي   وأماالضارب فملك الموت ضرب الضربة الأولى في القرن الأول فوقع النبي   وأهل طبقته وضرب الثانية في القرن الثاني فوقع كل ذلك في الجنة ثم ضرب الثالثة في القرن الثالث فلا أدري ماوقع فيها أكثر او ما خرج منها

(امثال الحدیث،باب اول الکتاب:۱/۱۹)

ترجمہ: تالاب سے مراد جنت ہے اور درخت سے مراد امت ہے ٹہنی سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اس شخص سے جس نے ضرب لگائی مراد ملک الموت ہے، اس نے قرن اول میں پہلی ضرب لگائی تو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے عہد کے لوگ اس سے جھڑے (اورجنت میں گرے)پھر اس نے دوسرے قرن میں دوسری ضرب لگائی تو بھی سب پتے جنت میں گرے، پھر اس نے تیسری ضرب لگائی، اس پر نہیں کہا جاسکتا کہ باہر گرنے والے پتے زیادہ تھے یا اندر گرنے والے۔

صحابہؓ کے پاس یہ مثال کس نے بیان کی؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے، فرشتوں کو یہ باتیں کرتے کس نے سنا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی باتوں میں سے کسی کی تردید کی؟ نہیں! سو یہ ساری مثل ہمارے لیے ایک حدیث کے درجہ میں ہے، اس حدیث سے یہ دو باتیں مزید واضح ہوئیں۔
۱۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب سوتے تو آنکھ سوتی تھی دل نہ سوتا تھا، دل پوری طرح بیدا رہتا اور اسے اپنے جملہ احوال بدنیہ کی خبر رہتی وضو ہے یا نہیں، اس کا پورا دھیان رہتا، آپ کے پاس کوئی بات کرے تو آپ اسے سنتے اور سمجھتے، گو اس وقت ظاہرا سوئے ہوتے تھے، عام انسان نیند کی حالت میں دوسروں کی باتیں نہیں سن پاتے؛ مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سن لیتے تھے، اس سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سماع مبارک دوسرے لوگوں کی طرح نہیں، اس میں آپ کا دل پوری طرح بیدار رہتا تھا، نیند موت کی بہن ہے ۔سو اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بعد وفات بھی یہ شان سماع حاصل ہو تو تعجب نہیں روضہ مبارک کے پاس آپ پر درود بھیجا جائے تو آپ اسے سن لیتے ہیں اور دور سے پڑھا جائے تو پھر فرشتے اسے حضور   کے پاس پہنچاتے ہیں۔
۲۔اس مثال سے یہ واضح ہوا کہ حضور   کا زمانہ بہترین زمانہ تھا پھر تابعین کا دور، پھر تیسرے دور میں لوگ اس سج دھج پر نہ رہے (جھوٹ پھیلنے لگا اوراللہ کا خوف دلوں سے جاتا رہا) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ کرامؓ سب کے سب جنت میں گئے ان میں ایک بھی نہیں جس کا پتہ اس تالاب (جنت) کی حدود سے باہر گرا ہو، یہ سب لوگ اپنے وقت میں خیر امت تھے اور دوسروں کے لیے یہ دین حق کا کھلا نشان تھے۔

چوتھی مثال

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں، میں نے حضور   سے عرض کیاکہ آپ  نرم بستر پر آرام فرمایا کریں، سخت چٹائی سے بدن مبارک پر نشان پڑجاتے ہیں، حضور اکرم  نے فرمایا:

"مَالِي وَلِلدُّنْيَا إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُ الدُّنْيَا كَمَثَلِ رَاكِبٍ قَالَ فِي ظِلِّ شَجَرَةٍ فِي يَوْمٍ صَائِفٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا"۔

(مسند احمد،باب مسند عبداللہ بن مسعودؓ،حدیث نمبر:۳۹۹۱)

ترجمہ: میں کیا اور یہ دنیا کیا،میری اوردنیا کی مثال اس سوار کی ہے جو کسی صحرا سے گزرا،ایک درخت دیکھا اور وہ اس کے سائے تلے جابیٹھا پھر چلتا بنا اوراس نے اسے چھوڑدیا۔

یہ مثال دنیا کو جلد چھوڑنے کی ہے، اس میں بتلایا گیا کہ یہاں کی لذتیں اوربہاریں سب عارضی ہیں جو پیدا ہوا مرنے کے لیے اورجو عمارت بنی گرنے کے لیے، ہر ایک کو فنا کی گھائی پر آنا ہے اوریہاں کی ہر لذت کو چھوڑجانا ہے،حضور   نے دنیا کو ایک اورمثال سے واضح فرمایا:

پانچویں مثال

"ماالدنیا فی الاخرۃ الاکما یصنع احدکم اصبعہ فی الیم فلینظر بم ترجع الیہ"۔

(مسلم۔مسند احمد:۴/۲۲۹)

ترجمہ: آخرت کے مقابلہ میں دنیا اس طرح ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی انگلی دریا میں رکھے وہ دیکھے کہ انگلی پر کتنا پانی لگا۔



چھٹویں مثال

"إِنَّمَاأَجَلُكُمْ فِيمَا خَلَا مِنْ الْأُمَمِ كَمَابَيْنَ صَلَاةِ الْعَصْرِ إِلَى مَغَارِبِ الشَّمْسِ وَإِنَّمَامَثَلُكُمْ وَمَثَلُ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى كَرَجُلٍ اسْتَعْمَلَ عُمَّالًا فَقَالَ مَنْ يَعْمَلُ لِي إِلَى نِصْفِ النَّهَارِ عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ فَعَمِلَتْ الْيَهُودُ عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ فَقَالَ مَنْ يَعْمَلُ لِي مِنْ نِصْفِ النَّهَارِ إِلَى صَلَاةِ الْعَصْرِ عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ فَعَمِلَتْ النَّصَارَى عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ ثُمَّ أَنْتُمْ تَعْمَلُونَ مِنْ صَلَاةِ الْعَصْرِ إِلَى مَغَارِبِ الشَّمْسِ عَلَى قِيرَاطَيْنِ قِيرَاطَيْنِ فَغَضِبَتْ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى وَقَالُوا نَحْنُ أَكْثَرُ عَمَلًا وَأَقَلُّ عَطَاءً قَالَ هَلْ ظَلَمْتُكُمْ مِنْ حَقِّكُمْ شَيْئًا قَالُوا لَا قَالَ فَإِنَّهُ فَضْلِي أُوتِيهِ مَنْ أَشَاءُ"۔

(سنن الترمذی،باب ماجاء فی مثل ابن ادم واجلہ،حدیث نمبر:۲۷۹۷)

ترجمہ: تمہاری عمر پہلی امتوں کی نسبت ایسے ہے جیسے عصر اورمغرب کے درمیان کی مدت، تمہاری اور یہود ونصاریٰ کی مثال یوں ہے کہ ایک شخص نے مزدور طلب کئے اورکہا کون کون دوپہر تک کام کرے گا اسے ایک ایک قیراط مزدوری ملے گی، یہود اس پر کام کرتے رہے،مالک نے پھر کہا:کون کون دوپہر سے عصر تک قیراط قیراط پر کام کرے گا، سو نصاریٰ دوپہرسے عصر تک کام کرتے رہے؛ پھر اس نے کہا کون کون عصر سے مغرب تک دو دو قیراط مزدوری پر کام کرے گا (اے مسلمانو: )خبردار ہو تمہاری اجرت دوگنی ہوگئی،اس پر یہود ونصاریٰ غصے میں آگئے اور کہا: ہم نے کام زیادہ وقت کیا اورمزدور ی ہمیں کم ملی، اللہ تعالی نے فرمایا: میں نے کوئی تمہارا حق چھینا ہے؟انہوں نے کہا: نہیں، اس پر اللہ تعالی نے فرمایا: سویہ میرا فضل ہے جس کو چاہوں دوں۔

اس سے پتہ چلا کہ امت محمدیہ اللہ رب العزت کے ہاں بہت عزت یافتہ اور محبوب امت ہے، یہ اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ اس کا ہر اول دستہ(صحابہ کرامؓ) خیر امت ہوں دوسرے لوگوں کے لیے نشان راہ ہوں "أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ" اور "لِتَکُوْنُوْا شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ" کی شان سے ممتاز ہوں اوران سب امور کی تصدیق قرآن کریم میں موجودہے۔

ساتویں مثال

حضرت عبداللہ بن عمروبن العاصؓ (۶۷ھ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:

"ان رجلا کان فیمن کان قبلکم استضاف قوما فاضافوہ ولہم کلبۃ تنبح قال فقالت الکلبۃ واللہ لاانبح ضیف اھلی اللیلۃ قال فعوی جراء ھا فی بطنھا فبلغ ذلک نبیا لھم فقال مثل ھذہ مثل امۃ تکون بعدکم یقھر سفھاؤھا حلماء ھا ویغلب سفھاؤھا علماء ھا"۔

(مسند احمد:۲/۱۷۰۔ فیض القدیر شرح جامع صغیر:۴/۲۵۲۔ مجمع الزوائد:۷/۱۸۳،۲۸۰)

ترجمہ: پہلی امتوں میں ایک شخص تھا جوکسی قوم کا مہمان بنناچاہا،ان کی ایک کتیا تھی جو ہر آنے والے کوبھونکتی تھی،اس نے کہا میں آج رات اپنے گھر کے کسی مہمان کو نہ بھونکوں گی (آپ نے بتایا) پھر اس کے بچے جو اس کے پیٹ میں تھے (اندرہی) بھونکنے لگے، یہ بات اس دور کے نبی کو پہنچی،اس نے کہا یہ مثال ان لوگوں کی ہے جو تمہارے بعد آئیں گے ان کے بیوقوف اپنے برد بار لوگوں پر سختی کریں گے اوران کے جہلاء ان کے علماء پر چڑھ دوڑیں گے۔

اس مثال میں اس امت کی طرف اشارہ ہے جس کی ہلاکت ان کے نوجوانوں کے ہاتھوں سے ہوگی،دیکھئےنوجوان امیر المومنین حضرت عثمانؓ کے خلاف کس طرح اٹھ کھڑے ہوئے اورپھر انہوں نے کس طرح سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان کے عہد خلافت میں دبائے رکھا، اب بھی اس امت میں کتنے اصاغر ہیں جو امت کے اکابر پردن رات بھونکتے ہیں،کوئی صحابہؓ کی غلطیاں نکال رہا ہے، کوئی اہل بیت کرام پر تنقید کررہا ہے،کوئی امام ابو حنیفہؒ کو بھونک رہا ہے اور کوئی محدثین عظام کو عجمی سازش کے کارندے بتلارہا ہے،پچھلے پہلوں کو بیوقوف بناکر ترقی کے بھنور میں ڈوب رہے ہیں اوریہ نہیں جانتے کہ جب اس امت کے پہلے طبقے کو قرآن کریم میں خیرامت کہا گیا ہے تو کیا یہ شقاوت نہیں کہ پچھلے اپنی کامیابی پہلوں کو برا کہنے میں سمجھیں۔

اٹھویں مثال

حضرت نعمان بن بشیرؓ(۷۴ھ) کہتے ہیں کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا:

"ان مثل المدھن فی امراللہ کمثل رھط رکبواسفینۃ فاقترعوا علی المنازل فیھا فاصاب بعضھم اعلی السفینۃ واصاب بعضہم اسفلھا فاطلع مطلع من الذین اعلی السفینۃ فاذا بعض من فی اسفلھا یخرقھا، قال ماتصنع یافلان؟ قال اخرق مکانا فاستقی منہ، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فان غیرواعلیہ نجی ونجوا وان ترکوہ یخرقھا غرق وغرقوا"۔

(رواہ البخاری والترمذی واحمد:۴/۲۶۸،۲۷۰)

ترجمہ:اللہ کے دین میں مداہنت کرنے والے(بے دینی کو آرام سے برداشت کرنے والوں) کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو ایک کشتی میں سوار ہوئے اوراس کی مختلف منازل میں اترے، کچھ اوپر کے حصہ میں پہنچے اورکچھ نیچے کے حصہ میں،اوپر کے حصہ میں جو لوگ تھے ان میں سے کسی نے کسی نچلے والے کو کشتی میں سوراخ کرتے دیکھا،اس نے پوچھا کیا کررہے ہو؟ اس نے کہا مجھے پانی چاہئے اس لیے میں سوراخ کررہا ہوں، اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر انہوں نے اس کو ایسا کرنے سے روک دیا تو وہ بھی بچ گیا اوریہ بھی بچ گئے اور اگر انہوں نے ایسا کرنے سے نہ روکا تو وہ بھی ڈوبا اوریہ بھی ڈوبے۔

اس مثال میں بتایا گیا ہے کہ یہ امت ایک جسد واحد کی طرح ہے،اس کے جملہ افراد ایک کشتی میں سوار ہیں،کنارے پر پہنچنا یا ڈوبنا سب کے لیے یکساں رہے گا، جونہی کسی نادان نے کوئی نادانی کی اس کی افتاد ساری امت پر آئے گی، سو باقی افراد امت کا فرض ہے کہ جونہی کوئی اس کشتی میں سوراخ کرنے لگے وہ اپنی قومی ذمہ داری سے کام لیں اوراسے ہر ممکن طریق سے روکیں، یہ نہ کہیں کہ ہر شخص اپنے عملوں کاذمہ دار ہے، قومی زندگی میں انسان کبھی دوسرے انسانوں کے اعمال کے اعمال کا بھی ذمہ دار بنتا ہے، معاشرہ ایک اجتماعی زندگی کا نام ہے اوراسے افراد ہی بناتے ہیں؛ سو یہاں ہر فرد کے ذمہ ہے کہ وہ دوسرے افراد کے اعمال پر بھی ساتھ ساتھ نگاہ رکھے۔

نویں مثال

آنحضرتؐ نے صحابہؓ سے پوچھا تم جانتے ہو کہ تمہاری اورتمہارے اہل، مال اورعمل کی مثال کیا ہے؟ آپ   نے فرمایا:

"انما مثل احدکم ومثل مالہ واھلہ وولدہ وعملہ کمثل رجل لہ ثلاثۃ اخوۃ فلما حضرتہ الوفاۃ دعا بعض اخوتہ فقال انہ قد نزل من الامر ماتریٰ فمالی عندک ومالی لدیک؟"۔

ترجمہ: تمہاری اورتمہارے مال، اہل و عیال اور عمل کی مثال اس شخص کی سے ہے جس کے تین بھائی تھے، جب اس کی وفات کا وقت آیا اس نے ایک بھائی کو بلایا اورکہا تم میری حالت دیکھ رہے ہو تم سے میں کیا امید رکھوں۔

اس نے جواب دیا میں تمھیں غسل دوں گا، کفن پہناؤں گا اور دوسروں کے ساتھ مل کر تمہارا جنازہ اٹھاؤں گا،واپس ہونے پر جہاں تیرا ذکر کروں گا اچھائی سے تیراذکر کروں گا، یہ وہ بھائی ہے جسے اہل و عیال سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، پھر اس نے دوسرے بھائی کو بلایا اوریہی کہا، اس دوسرے نے جواب دیا، میرے پاس دولت اس وقت تک ہے جب تک تم زندہ ہو تمہاری وفات پر دولت تم سے چلی جائے گی اور مجھ سے بھی، یہ وہ بھائی ہے جسے مال سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
پھر اس نے تیسرے بھائی کو آواز دی، اس تیسرے نے جواب دیا، میں قبر میں بھی تیرے ساتھ رہوں گااور تیری پریشانی میں تیرا ساتھی ہوں گا؛ جس دن اعمال تولے جائیں گے میں ترازو میں بیٹھوں گا؛ تاکہ تیرا پلڑا بھاری رہے، یہ وہ بھائی ہے جسے عمل سے تعبیر کیا جاسکتا ہے،صحابہؓ نے اس پر کہا: "خیراخ وخیر صاحب یا رسول اللہ" (یا رسول اللہ یہ بہترین بھائی ہے اوربہترین دوست ہے) اس پر حضور   نے فرمایا: بات اسی طرح ہے جیسے تم کہہ رہے ہو، حضور   نے فرمایا:

"يَتْبَعُ الْمَيِّتَ ثَلَاثَةٌ فَيَرْجِعُ اثْنَانِ وَيَبْقَى وَاحِدٌ يَتْبَعُهُ أَهْلُهُ وَمَالُهُ وَعَمَلُهُ فَيَرْجِعُ أَهْلُهُ وَمَالُهُ وَيَبْقَى عَمَلُهُ"۔

(بخاری، كِتَاب الرِّقَاقِ،بَاب سَكَرَاتِ الْمَوْتِ،حدیث نمبر:۶۰۳۳۔ مسلم، كِتَاب الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ،حدیث نمبر:۵۲۶۰، شاملہ، موقع الإسلام۔ترمذی، حدیث نمبر:۲۳۰۱)

ترجمہ: میت کے ساتھ تین چیزیں جاتی ہیں، دو لوٹ آتی ہیں اورایک ساتھ رہتی ہے، اہل وعیال، مال اوراس کا عمل، اس کے اہل و عیال اورمال تو واپس لوٹ آتے ہیں اوراس کے اعمال اس کے ساتھ رہتے ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مثال میں عمل کے لازوال پہلو کو بیان کیا، اعمال انسان کے ساتھ رہتے ہیں اوریہ وہ رفیق ہے جوکسی وقت بھی انسان سے جدا نہیں ہوتا،انسان کا ان تینوں میں سب سے بڑا خیر خواہ یہی ہے۔

دسویں مثال

حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ حضور   نے فرمایا:

"مَنْ شَقَّ عَصَا المُسْلِمِیْنَ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ"۔

(مسند امام احمد:۵/۱۸۰، حدیث نمبر:۱۴۰۳۵، شاملہ، موقع الإسلام۔ ابوداؤد، حدیث نمبر:۴۱۳۱، شاملہ، موقع الإسلام)

ترجمہ: جو شخص مسلمانوں کی جماعت سے نکلا سو اس نے اسلام کا پٹکا اپنےگلے سے اتار پھینکا۔

حضور   نے اس حدیث میں مسلمانوں کی جماعتی زندگی اوران کے اتفاق واجماع کی اہمیت واضح کی ہے اور بتایا ہے کہ مسلمان کو دوسرے مسلمان سے کٹ کر نہ رہنا چاہئے؛بلکہ دیکھنا چاہئے کہ جماعۃ مسلمین کدھر جارہی ہے، اسے اپنی راہ علیحدہ نہ بتانی چاہئے،سبیل مومنین کی پیروی کرنی چاہئے، مسلمان ہمہ تن آزاد نہیں ہے،اس کے گلے میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ رہنے کا پٹکا ضرور ہونا چاہئے، پٹکا یہ ہے کہ مؤمن مسلمانوں کے اجماع سے بغاوت نہ کرے،اپنی راہ علیحدہ نہ چلے،کیوں کہ حوزۂ اسلام سے خروج کرنے والا بالآخر اسلام سے ہی نکل جاتا ہے۔
اس حدیث میں پٹکے کے لیے ربقہ کا لفظ آیا ہے، پٹکے کو قلادہ بھی کہتے ہیں اور مقلدین سے مراد پٹکے والے مسلمان ہیں جو دین میں آزاد راہوں پر نہیں چلتے،اسی راہ پر چلنے کی دعا کرتے ہیں جس پر پہلے انعام یافتہ لوگ چل چکے ہیں۔
قاضی محمد حسن(۳۶۲ھ) لکھتے ہیں: "الربقۃ القلادۃ" (امثال الحدیث:۱۸۴) تقلید کا لفظ کوئی ایسی تعبیر نہیں جس سے انسان وحشت کھانے لگے، حضور   نے ربقہ خود مسلمانوں کی گردن پر ڈالا ہے۔

گیارویں مثال

حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"مَنْ خَافَ أَدْلَجَ وَمَنْ أَدْلَجَ بَلَغَ الْمَنْزِلَ أَلَاإِنَّ سِلْعَةَ اللَّهِ غَالِيَةٌ أَلَاإِنَّ سِلْعَةَ اللَّهِ غَالِیَۃٌ"۔

(ترمذی، حدیث نمبر:۲۳۷۴، شاملہ، موقع الإسلام۔ مسند احمد:۵/۱۳۶)

ترجمہ: فکر مند انسان رات سے ہی سفر کے لیے اٹھتا ہے اورجو رات سے اٹھا منزل مراد پر پہنچ گیا، خبردار رہو خدا کی منڈی کا مال بہت قیمتی ہے، خبردار اس کا سودا سستے داموں ہاتھ لگنے کا نہیں۔

اس حدیث میں بتلایا گیا کہ آخرت کی فکر کے بغیر کبھی کوئی خدا کی بادشاہت میں داخل نہیں ہوا، خدا کی بستی ایسی دکان نہیں کہ جب اٹھو وہاں سے سودا لے لو، اس کے لیے پہلے سے ارادوں کو درست کرنا پڑتا ہے اور جزاء اعمال نیتوں پر ہی مرتب ہوتی ہے، تم حسب مراد اپنی منزلوں کو پہنچو گے۔

بارویں مثال

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"یوشک ان ینطوی الا سلام فی کل بلدالی المدینۃ کما تنطوی الحیۃ الی جحرھا"۔

(کنزالعمال، باب فی قلۃ الاسلام وغربتہ:۱۲۰۱،۲۴۰۔ بخاری، باب الایمان یأرزالی المدینۃ، حدیث نمبر:۱۸۷۶۔ مسلم، باب بیان ان الاسلام بدأغریباً وسیعود غریباً، حدیث نمبر:۳۹۱، شاملہ، موقع الإسلام، میں ان الفاظ کے ساتھ ہے "ان الایمان لیأرز الی المدینۃ کماتأرز الی حجرھا"۔ مسند احمد،:۲۸۶،۲۲۲،۴۹۶)

ترجمہ: وقت آنے والا ہے کہ اسلام ہر شہر سے سمٹتا ہوا مدینہ آرہے، جیسے سانپ ہر طرف سے بھاگ کر پھر اپنے بل کی طرف لپٹتا جاتا ہے۔

اس حدیث میں سانپ کی جارح حیثیت (کہ وہ کسی کو کاٹنے کے درپے ہو) مذکور نہیں ؛بلکہ اسے بھاگ کر پناہ لینے والے کی صورت میں ذکر کیا گیا ہے،سو یہ بات نہ کی جائے کہ اسلام کو سانپ سے کیوں تشبیہ دی، مشبہ اورمشبہ بہ میں ہر جہت سے تشبیہ نہیں ہوتی، یہ سانپ کی اس حالت سے تشبیہ ہے جب وہ کسی کے درپے آزار نہیں۔
اس حدیث میں بتلایا گیا کہ مدینہ منورہ قیامت تک مرکز اسلام رہے گا، جب اسلام کہیں نہ ہوگا مدینہ منورہ اس وقت بھی بقعہ اسلام ہوگا، علامات قیامت کے طورپر بھی حرمین شریفین کبھی مقبوضہ کفار نہ ہوں گے "جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ" کے اعلان سے اسلام وہاں بطور دوام آیا ہے، کفر وہاں سے بطورِ دوام نکلا ہے،نہ وہاں کوئی باطل نئے سرے سے آئے گا، نہ پہلا ہی عود کرے گا، قرآن کریم میں ہے:

"قُلْ جَاءَ الْحَـقُّ وَمَایُبْدِیُٔ الْبَاطِلُ وَمَا یُعِیْدُ"۔      

(السباء:۴۹)



تیرویں مثال

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ تبوک کے لیے نکلے تو حضرت علی مرتضیٰؓ کو گھروں کی دیکھ بھال کے لیے مدینہ چھوڑ گئے،حضرت علیؓ نے اسےاپنی منقصت جانا اورحضور   سے عرض کی،آپ مجھے عورتوں اوربچوں میں چھوڑ کر جارہے ہیں؟ اس پر حضور   نے آپ کو اس طرح مطمئن کیا:

"أَمَاتَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّاأَنَّهُ لَانُبُوَّةَ بَعْدِي"۔

(بخاری، كِتَاب الْمَنَاقِبِ،بَاب مَنَاقِبِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ الْقُرَشِيِّ الْهَاشِمِيِّ أَبِي الْحَسَنِ رَضِيَ،حدیث نمبر:۳۴۳۰۔ مسلم، حدیث نمبر:۴۴۲۰،شاملہ،موقع الإسلام۔ مشکوٰۃ:۵۶۳)

ترجمہ: کیا تم اس سے راضی نہیں کہ مجھ سے تمہاری وہی نسبت ہو،جو ہارون کی موسیٰ سے تھی؛ سوائے اس کے کہ ہارون تو موسیٰ کے بعد نبی ہوئے؛ مگر میرے بعد کسی قسم کی کوئی نبوت نہیں۔

حضرت ہارون کے موسیٰ کے بعد نبی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نبوت حضرت موسیٰ کوپہلے ملی اورحضرت ہارون کو بعد میں، وہ ان کے بعد نبی ہوئے، یہ مطلب نہیں کہ وہ حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد نبی بنے، بعدیت سے مراد نبوت ملنے میں بعدیت ہے، نہ کہ زندگی کی بعدیت،حضرت ہارون توحضرت موسیٰ کی زندگی میں ہی فوت ہوگئےتھے۔
حضورؐ نے اس مثال میں کیا سمجھا یا؟ حضرت ہارون کسی شرع جدید کے نبی نہ تھے، حضرت موسیٰ کی شریعت کے ماتحت تھے، حضورؐ نے ان کا ذکر کرنے بعد فرمایا:مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں، سو اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ میرے بعد غیر تشریعی نبوت بھی کسی کو نہ ملے گی، آپ پر ہرقسم کی نبوت ختم ہوچکی،اب اس امت میں کوئی حضرت ہارون جیسا غیر تشریعی نبی بھی نہ ہوگا۔
حضور   نے ہارون کی مثال دے کر اشارہ فرمادیا کہ جس طرح حضرت ہارون حضرت موسیٰ کے بعد خلیفہ نہ ہوئے (کیونکہ وہ فوت ہوچکے تھے) بلکہ یوشع بن نون آپ کے خلیفہ ہوئے، حضرت علی ؓ حضور   کے بعد خلیفہ بلا فصل نہ ہوں گے ؛بلکہ ابو بکر صدیقؓ خلیفہ ہوں گے، علم حساب میں کامل ترین عدد نو(۹) ہے، خلیفہ بلا فصل کامل ترین فرد ہوتاہے،یوشع بن نون کے حرف نوہیں تو ابوبکرصدیقؓ "تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ" کے مظہر تھے، دونوں اپنے آقا کے خلیفہ بلافصل تھے،حضرت ہارون کے بیٹوں کے نام شبراورشبیر تھے،یہ عبرانی لفظ ہیں ان کا ترجمہ عربی میں حسن اور حسین ہے۔
ذخیرہ حدیث میں متعدد اورامثال بھی ملتی ہیں،امثال ابی الشیخ اورقاضی ابو محمد حسن کی کتاب امثال حدیث میں دیکھیں،آنحضرت   نے کن کن مثالوں اورکس کس پیرایہ بیان میں ہدایت الہٰی قلوب مؤمنین میں اتاری ہے،یہ امثال ان کی منہ بولتی تصوریر ہیں،ان سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت   نے دین کی امانت اورالہٰی ہدایت کس آسان سے آسان پیرایہ میں امت کے سامنے رکھی، اس امت میں بھی کئی ایسے جہابذہ علم ہوئے جنہوں نے دین کے باریک سے باریک مسائل کو مثالوں سے آسان کردیا، ان میں امام غزالی، حضرت مجدد الف ثانی، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ،حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہم اللہ اجمعین بھی اپنی مثال آپ تھے، اس دورمیں حضرت مولانا محمد علی جالندھری دامت برکاتہم مثالوں کے بادشاہ سمجھے جاتے ہیں۔

۔(امثالوں کی مزید تفصیل دیکھیے،اٰثارالحدیث:۴۴۵)















No comments:

Post a Comment