Friday 18 January 2013

کتبِ امامِ اعظمؒ


امام ابوحنیفہ کی جانب یوں توپانچ کتابیں منسوب ہیں جس میں الفقہ الاکبر، العالم والمتعلم، الرسالہ الی عثمان البتی، الوصیة اور الفقہ الابسط بھی ہیں۔لیکن ان میں سب سے زیادہ مشہور الفقہ الاکبر ہے اوراسی کا سب سے زیادہ چرچاہے اوراسی کتاب کی علماء احناف نے زیادہ خدمت کی ہے یعنی اس پر شروحات اورحاشئے لکھے ہیں۔
الفقہ الاکبر کا امام ابوحنیفہ کی جانب انتساب کرنے کے جوحضرات منکر ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ کتاب کسی صحیح سند اورواسطے سے ان تک نہیں پہنچتی۔ اس کے رواة میں ضعیف مجہول اوروہ جن پر کذب اوروضع حدیث کی تہمت لگی ہے، موجود ہیں۔ اسی بناء پر وہ اس کے منکر ہیں۔
جب کہ جن لوگوں نے اس کتاب کاانتساب امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی جانب کیاہے ان کے دلائل زیادہ مضبوط اورقابل لحاظ ہیں۔ 
اس کتاب کو امام ابوحنیفہ کی تصنیف بتانے والوں میں سب سے پہلا نام ابن ندیم کا ہے۔ ابن ندیم کی کتاب "الفہرست" بہت مشہور اورمعروف ہے اس نے اپنے دورتک کے مصنفین اوران کی کتابوں کا ذکر کیاہے۔ وہ چونکہ چوتھی صدی ہجری کا ہے اور اس کا عہد بھی امام ابوحنیفہ سے بہت قریب ہے اس لئے اس کے بیان پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ چنانچہ وہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی تصنیفات کے ضمن میں لکھتاہے۔

" الفہرست " لابن الندیم ص285 : لہ (للامام ابی حنیفة)الفقہ الاکنر ورسالة ال البتِی 



مشہور اشعری عالم اورمتکلم امام ابو المظفر الاسفرائینی اپنی کتاب ''التبصیر فی الدین'' میں لکھتے ہیں
کتاب العالم والمتکلم لابی حنیفہ،فیہ الحجج القاہرة علی اہل الالحاد والبدعة ،وکتاب الفقہ الاکبر الذی اخبرنا بہ الثقة بطریق معتمد واسناد صحیح عن نصربن یحیی عن ابی حنیفة


علامہ مرتضی الزبیدیہ الحنفی ''اتحاف السادة المتقین'' میں لکھتے ہیں۔

ثم قال الزبیدی ولازال الکلام لہ ونحن نذکر لہ من نقل ھذہ الکتب واعتمد علیھا 
فمن ذلک فخرالاسلام البزدوی وقد ذکر فی اصولہ جملة من الفقہ الاکبر ،وکتاب العالم والمتعلم والرسالة وقابل اخیراوقد ذکر جملامن الکتب الخمسة ''الفقہ الاکبر والعالم والمتعلم ،الفقہ الاوسط،الرسالة ،الوصیة متقولا عنھا فی نحو ثلاثین کتابامن کتب الائمة وھذاالقدر کاف فی تلقی الامةلھابالقبول،واللہ اعلم (اتحاف السادة المتقین 14/2


جب کہ عبدالقاہر بغدادیؒ جن کی تصنیف ''الفرق بین الفرق'' بہت زیادہ مشہور ہے وہ اصول الدین میں لکھتے ہیں:


ان (ابا حنیفة) لہ کتاب فی الرد عل القدریة سماہ ''الفقہ الاکبر '' ، ولہ رسالة املاہا فی نصر ةقول اہل السنن: ان الاستطاعة مع الفعل... وعلی ہذا قوم من صحابنا ۔
(اصول الدین30)


علاوہ ازیں اس کتاب کی ایک شرح امام اہل السنة ابومنصور ماتریدی نے بھی لکھی ہے وہ چوتھی صدی کے ہیں۔333 ہجری میں ان کاانتقال ہوا۔ محض دواورتین واسطوں سے وہ امام ابوحنیفہ کے شاگرد ہیں انہوں نے الفقہ الاکبر کی شرح لکھی ہے اوراسی پر اپنی کتاب التوحید کی بنیاد رکھی ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ وہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی کتابوں کے تعلق سے سب سے زیادہ واقفیت رکھنے والے تھے اگر اس کتاب کی نسبت میں شک و شبہ ہوتا تو امام ابومنصور ماتریدی اس کی شرح کیوں لکھتے۔ اس کتاب کی سند اورشروحات کے بارے میں بات آگے آئے گی۔
اس کتاب کا ایک نسخہ (الفقہ الاکبر کا) مدینہ منورہ کے مکتبہ شیخ الاسلام حکمت عارف اللہ کے کتب خانہ میں موجود ہے جس کا نمبر 226 ہے۔



الفقہ الاکبر کی سند:
یہ کتاب جو مدینہ منورہ کے کتب خانہ میں ہے درج ذیل سند کے ساتھ منقول ہے۔ اس کتاب کے راوی علی بن احمد الفارسی ہے انہوں نے اس کتاب کی روایت نصربن یحیی سے انہوں نے ابومقاتل حفص بن سالم سے اورانہوں نے عصام بن یوسف سے اور انہوں نے حماد بن ابی حنیفہ سے اور انہوں نے اپنے والد امام ابوحنیفہ سے اس کتاب کی روایت کی ہے۔
لہذا یہ کہا جاسکتاہے کہ سندکے اعتبار سے بھی اس کتاب کی امام ابوحنیفہ سے روایت میں کوئی شک نہیں ہے۔
اس کتاب کا ایک نسخہ مصر کے کتب خانہ ازہر میں بھی موجود ہے۔



شروحات
اس کتاب (الفقہ الاکبر) کی بہت سی شروحات لکھی گئی ہیں۔ جس میں قابل ذکر درج ذیل ہیں۔
جیساکہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے کہ اس کتاب کی بہت سارے علماء احناف نے شرح لکھی ہے۔ سب سے پہلی شرح اس کتاب امام ابومنصور ماتریدی نے لکھی ہے۔ جو شرح الفقہ الاکبر کے نام سے مشہور ومعروف ہے اورطبع ہوچکی ہے۔ اس کتاب کے محقق عبداللہ بن ابراہیم الانصاری ہیں۔ اوریہ کتاب قطر کی وزارت امور اسلامی نے اپنی نگرانی میں شائع کیاہے۔ قبل ازیں یہ کتاب حیدرآباد کن کی دائرة المعارف النظامیہ نے 1321ہجری میں شائع کیاتھا۔



اس کتاب کی دوسری شرح محی الدین محمد بن بہاء الدین متوفی 956ہجری نے لکھی انہوں نے الفقہ الاکبر کی شرح میں علم کلام، علم تصوف دونوں سے کام لیاہے اورنہایت تفصیل سے ہرمسئلہ پر کلام کیاہے۔ انہوں نے اپنی شرح کانام رکھاہے القول الفصل



تیسری شرح لکھنے کی سعادت الیاس بن ابراہیم السیبوبی متوفی 891ہجری نے لکھی ہے انہوں نے مختصر شرح لکھی ہے۔



چوتھی شرح احمد بن محمد المغنیساوی متوفی نے لکھی ہے۔پھراپنی اس شرح کا اختصار بھی کیاہے۔



الفقہ الاکبر کو نظم کی شکل میں ڈھالا ہے ابو البقاء احمدی نے اور اس کا نام رکھا ہے ''عقد الجوہر نظم نثر الفقہ الاکبر'' ان کے ساتھ ایک دوسرے ابراہیم بن حسان الکرمیانی المعروف شریفی المتوفی  1016ہجری نے بھی الفقہ الاکبر کونظم کی شکل میں پیش کیاہے 


الفقہ الاکبر کی جو شرح مشہور اور اہل علم کے درمیان متداول اور مقبول ہے وہ ہے مشہور حنفی محدث اور فقیہہ ملا علی قاری کی شرح جو یوں تو شرح الفقہ الاکبر کے نام سے مشہور ہے لیکن اس اصل نام ہے۔ ''منح الروض الازہر '' جو دار الکتب العلمیة بیروت اور دیگر مکتبات سے شائع ہوچکی ہے۔
اس کی ایک شرح شیخ اکمل الدین نے بھی لکھی ہے اوراس کا نام رکھاہے ''الارشاد''؛



ایک اہم مسئلہ
ایک بات آخر میں جس کی وضاحت ضروری ہے وہ یہ کہ کیا امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی خود کی تحریر ہے یا انہوں نے اصول دین کے تعلق سے جو کچھ اپنے شاگردوں کو املاء کرایا تھا اسے ہی انہوں نے لکھ لیا ہے۔ اس بارے میں محقق قول یہی ہے کہ یہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی خود کی تحریر نہیں ہے بلکہ یہ ان کے محاضرات اورلکچرس ہیں جو انہوں نے اپنے شاگردوں کو دیئے اور ان کے شاگرد اسے ضبط تحریر میں لے آئے۔ چنانچہ امام زبیدی لکھتے ہیں۔

الصحیح ان ھذہ المسائل المذکورة فی ھذہ الکتب من امالی الامام التی املاھا علی اصحابہ کحماد وابی یوسف،وابی مطیع البلخی وابی مقاتل المسرقندی وتلقاھا عنھم جمع من الائمة کاسماعیل بن حماد(حفید الامام)ومحمد بن مقاتل الرازی ومحمد بن سماعة ونصیربن یحیی البلخی وشداد بن الحکم وغیرھم الی ان وصلت بالاسناد الصحیح الی الامام ابی منصورالماتریدی ،فمن عزاھن الی الامام صح لکون تلک المسائل من املائہ ومن عزاھن الی ابی مطیع البلخی اوغیرہ ممن ھو فی طبقتہ اورممن ھو بعدھم صح ونظیرذلک المسند المنسوب للامام الشافعی فانہ من تخریج ابی عمرو ومحمد بن عجفر بن محمد بن مطرالنیسابوری ،ابوالعباس الاصم ،من اصول الشافعی۔(المصدرالسابق)؛
================================
خناسوں کا وسوسہ:
امام صاحب کی کوئی حدیث کی (خود کی لکھی) کتاب نہیں ہے، ان کے شاگردوں نے لکھ کر ان کی طرف منسوب کردی ہیں؟
جواب:
جس طرح الله کے رسول صلی الله عالیہ وسلم نے خود قرآن نہیں لکھا، بلکہ جو یاد کیا وہ اپنے شاگرد (صحابہ) سے لکھواتے، تو شیعہ کی طرح کہنا کے یہ قرآن نبی والا نہیں کیونکہ یہ نبی نے نہیں لکھا بلکہ صحابہ (رض) کا لکھا (گھڑا) ہوا ہے، صحیح نہیں ہوگا. ایسے ہی امام صاحب نے جو احادیث صحابہ رضی الله عنہم سے حفظ کیں ان سے انکے شاگرد لکھ کر محفوظ کر گۓ.





















No comments:

Post a Comment