دلیل 1
عن ابن عباس و عبداللہ بن مغفل قوله : (وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا) يعني : في الصلاة المفروضة.
ترجمہ :
حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور عبداللہ بن مغفلؓ سے روایت ہے کہ اللہ پاک نے فرمایا: (اور جب قرآن پڑھا جاۓ تو اسے غور سے سنو اور چپ رہو)۔ [سورۃ الاعراف:204] یعنی فرض نماز میں۔
[تفسیر ابن کثیر:3/537، تفسیر قرطبی:1/86، تفسیر طبری:15604(13/349)، فتح القدير للشوكاني:2/321، الدر المنثور للسيوطي:3/634]
لہٰذا فرض نماز(جسے رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتے ادا کرنا ہے) میں امام قرآن میں سے کچھ بھی پڑھے مقتدی کو نہ صرف قرآن کو غور سے سننا ہے بلکہ (ظہر وعصر جیسی سِری نمازوں میں بھی) چپ خاموش رہنا ہے کیونکہ امام قرآن کو آہستہ ہی سہی لیکن پڑھتا ہے۔
نماز میں امام کے پیچھے چپ رہنے کا حکم
حدیث نمبر 1
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ، رسول الله ﷺ سے مروی ہیں
وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا
ترجمہ:
اور جب وہ(امام) قرأت کرے تو تم خاموش رہو۔
[صحیح مسلم:404، سنن ابن ماجه:846، سنن أبي داود:604، سنن النسائي:921]
تفاسیر سورۃ الاعراف:204
امام کے ساتھ مقتدی کو بھی قرأت کا ثواب ملے گا۔
حدیث نمبر 2
ترجمہ:
جس کا کوئی امام ہو تو امام کی قِرأت ہی اسکی قِرأت ہے۔
[مسند ابي حنيفة.برواية.الحصكفي:25، مسند أبي حنيفة رواية أبي نعيم:ص226، موطا امام محمّد:124، مصنف عبدالرزاق:2797، مصنف ابن أبي شيبة:3779، +3802، مسند أحمد:14643، المنتخب من مسند عبد بن حميد:1048، القراءة خلف الإمام للبخاري:ص8+9، سنن ابن ماجه:850 ، الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف،ابن المنذر:1308+1309، شرح معانی الآثار،للطحاوي:1203، أحكام القرآن للطحاوي:479، سنن دارِ قطنی:1233+1238، القراءة خلف الإمام للبيهقي:336+343+345+347+352+386، سنن الکبریٰ،بيهقي:2897+2898]
دوسری روایت:
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے ، رسول الله ﷺ نے فرمایا:
«مَنْ صَلَّى خَلْفَ الْإِمَامِ، فَإِنَّ قِرَاءَةَ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ»
ترجمہ :
جو نماز پڑھے امام کے پیچھے، تو امام کی قرأت ہی اس کی قرأت ہے.
تفسير القرآن بالحديث :
ثنا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، أَنْبَأَ ابْنُ وَهْبٍ ، ثنا أَبُو صَخْرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ ، قَالَ : " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَرَأَ فِي الصَّلاةِ أَجَابَهُ مَنْ وَرَاءَهُ ، إِنْ قَالَ : بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ، قَالُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ ، حَتَّى تَنْقَضِيَ الْفَاتِحَةُ وَالسُّورَةُ ، فَلَبِثَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَلْبَثَ ، ثُمَّ نَزَلَتْ : وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْءَانُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ [سورة الأعراف آية 204 ] ، فَقَرَأَ وَأَنْصِتُوا " .
ترجمہ :
حضرت محمد بن کعب القرظیؒ فرماتے ہیں : پہلے آپ ﷺ نماز پڑھاتے تو پیچھے نماز پڑھنے والے بھی ساتھ ساتھ کلمات دہراتے جاتے، اگر آپ پڑھتے بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ ، تو پیچھے والے بھی بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ پڑھتے، یہاں تک کہ سورہ فاتحہ اور دوسری سورت مکمل ہوجاتی اور یہ سلسلہ جب تک الله نے چاہا چلتا رہا، پھر جب یہ آیتِ کریمہ: اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس کی طرف کان لگائے رہو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم ہو ﴿الاعراف: 204﴾ نازل ہوئی، تو آپ ﷺ قرأت فرماتے اور صحابہ کرام (رضی الله عنھم) خاموش رہتے.
------------------------------
تفسير بالحديث:
مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے متعلق منقول ہے.؛
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْب , قَالَ : ثنا الْمُحَارِبِيّ , عَنْ دَاوُد بْن أَبِي ھنْد , عَنْ بَشِير بْن جَابِر , قَالَ : صَلَّى اِبْن مَسْعُود , فَسَمِعَ نَاسًا يَقْرَءُونَ مَعَ الإِمَام , فَلَمَّا اِنْصَرَفَ , قَالَ : أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَفْقَهُوا ؟ أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَعْقِلُوا ؟ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآن فَاسْتَمِعُوا لَہ وَأَنْصِتُوا كَمَا أَمَرَكُمْ اللَّہ .؛
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے (ایک مرتبہ) نماز پڑھائی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قراة کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو جب قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہوتو اس کی طرف کان لگاو اور خاموش رہو جیسا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا حکم دیا۔
[تفسیر ابن جریر طبری : سورۃ اعراف /آیت 204، جلد 13 / صفحہ 346]
*******************
ہم نماز میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ کیوں نہیں پڑھتے ؟؟؟
حدیث نمبر 3
حضرت جابر بن عبداللهؓ (جابر بن طارقؓ اور عبدالله بن عباسؓ) سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
«مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ، فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا وَرَاءَ الْإِمَامِ»
ترجمہ:
جس نے نماز کی(ایک)رکعت بھی(ایسی)پڑھی جس میں اس نے نہیں پڑھی ام القرآن(یعنی سورۃ الفاتحہ) تو اس نے نماز(مکمل)نہیں پڑھی، لیکن امام کے پیچھے(مکمل ہوجاتی ہے)۔
[القرأۃ خلف الامام(امام)البخاري» حدیث#174]
[تفسير(امام)القرطبي:١/١١٩ سورة الفاتحة]
مؤطا(امام)مالك:38(233)
مؤطا(امام)محمد:113
نسخة عبدالله بن صالحة:1642
الجامع العلوم(امام)احمد:415
سنن الترمذي:313
فوائد ابي علي المدائني:27
شرح معاني الآثار(امام)الطحاوي:1300
القرأة خلف الإمام(امام)البيهقي:349+350+434
السنن الكبريٰ(امام)البيهقي:2899
نوٹ:
أُمِّ الْقُرْآنِ یعنی قرآن کی ماں، جب سورۃ الفاتحۃ کو قرآن کی ماں فرمایا تو یہ سورۃ قرآن سے (قرآن کی) ہوئی۔ لہٰذا بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ سورۃ الفاتحہ قرآن کا حصہ نہیں یا قرآن میں سے نہیں، علمِ حدیث سے ناواقفیت یا ناسمجھی کی دلیل ہے۔
کتاب کا افتتاح کرنے والی سورۃ الفاتحہ کا نماز میں حکم
دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ
كُلُّ صَلَاةٍ لَا يُقْرَأُ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَهِيَ خِدَاجٌ إلَّا وَرَاءَ الْإِمَامِ۔
ترجمہ:
ہر وہ نماز جس میں نہ پڑھی گئی ہو(سورۃ)فاتحہ کتاب(قرآن)کی تو وہ ناقص(نامکمل)ہے، سوائے پیچھے امام کے۔
[أحكام القرآن للجصاص:3/54، عوالي مالك رواية أبي أحمد الحاكم:58، علل الدارقطني:3281، القراءة خلف الإمام للبيهقي:350+351]
لہٰذا جو شخص امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہو اور وہ سورۃ الفاتحہ نہ پڑھ سکے تو بھی اسکی نماز ہوجاتی ہے۔
نوٹ:
فَاتِحَةِ الْكِتَابِ یعنی کتاب کا افتتاح کرنے-کھولنے والی-ابتدائی سورت، جب یہ سورت کتاب کی ہے تو کتاب میں سے ثابت ہوئی۔ لہٰذا بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ سورۃ الفاتحہ قرآن کا حصہ نہیں یا قرآن میں سے نہیں، علمِ حدیث سے ناواقفیت یا ناسمجھی کی دلیل ہے۔
لہٰذا رکوع مل جائے تو رکعت مل جاتی ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَدْرَکَ رَکْعَةً مِنْ الصَّلَاةِ فَقَدْ أَدْرَکَ الصَّلَاةَ۔
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس نے نماز میں ایک رکعت پالی تو اس نے نماز(یعنی رکعت) پالی۔
[صحیح بخاری:580، صحیح مسلم:607(1371)]
نوٹ:-
وحملوا لفظ «ركعة» على أن المراد الركوع.
ترجمہ:
یہاں لفظ رکعت سے مراد رکوع ہے۔
[صحیح فقه السنة وادلته: 1/ 557]
نوٹ:-
رکوع میں شامل ہونے والے کا قیام میں قرآن پڑھنا فوت ہوجاتا ہے، لیکن نماز ورکعت ہوجاتی ہے۔کیونکہ امام کی قرات مقتدی کیلئے کافی ہے۔
تخريج الحديث
|
[صحيح النسائي، الألباني:922، الصحيح المسند، الوادعي:1047 ، تخريج المسند، الأرناؤوط:27530، الوهم والإيهام، ابن القطان:5/692 (إرواء الغليل، الألباني:2/276 عن عبدالله بن عباس) ]
تخريج الحديث
|
عبد الله بن عمرؓ
حضرت نافعؒ سے روایت ہے کہ حضرت عبدللہ بن عمرؓ سے جب کوئی پوچھتا کہ : کیا سورہ فاتحہ پڑھی جاۓ امام کے پیچھے؟ تو فرماتے : جب کوئی تم میں نماز پڑھے امام کے پیچھے تو کافی ہے اس کو قرأت امام کی، اور جو اکیلے پڑھے تو پڑھ لے. فرمایا حضرت نافع رح نے کہ حضرت عبدللہ بن عمر نہیں پڑھتے تھے امام کے پیچھے.
تخريج الحديث
|
تخريج الحديث
|
تخريج الحديث
|
------------------------------
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ، رسول اللهﷺ سے مروی ہیں کہ امام اس لئے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جاتے، بس جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو تم خاموش رہو.
[سنن ابن ماجہ ، سنن نسائی : کتاب الصلاة، باب: آیتِ کریمہ - اور جب قرآن پڑھا جاۓ تو (١) اسے غور سے سنو اور (٢) چپ رہو، تاکہ تم پر رحم ہو - الاعراف:٢٠٤]
المحدث : الإمام أحمد
المصدر : الاستذكار الصفحة أو الرقم: 1/510 خلاصة حكم المحدث : صحيح
المحدث : مسلم
المحدث : ابن عبدالبر
المحدث : ابن حجر العسقلاني
المحدث : الشوكاني
المصدر : الفتح الرباني الصفحة أو الرقم: 6/2707 خلاصة حكم المحدث :ثابت، وصححه جماعة من الأئمة
المحدث : ابن باز
المحدث : الألباني
المصدر : صحيح أبي داود الصفحة أو الرقم: 604 خلاصة حكم المحدث : صحيح
المصدر : صحيح ابن ماجه الصفحة أو الرقم: 695 خلاصة حكم المحدث : حسن صحيح
المصدر : صحيح النسائي الصفحة أو الرقم: 920 خلاصة حكم المحدث : حسن صحيح
المصدر : صحيح الجامع الصفحة أو الرقم: 2359 خلاصة حكم المحدث : صحيح
المصدر : تخريج مشكاة المصابيح الصفحة أو الرقم: 818 خلاصة حكم المحدث :إسناده حسن
المصدر : أصل صفة الصلاة الصفحة أو الرقم: 1/349 خلاصة حكم المحدث :صحيح لغيره
المصدر : صحيح ابن ماجه الصفحة أو الرقم: 695 خلاصة حكم المحدث : حسن صحيح
المصدر : صحيح النسائي الصفحة أو الرقم: 920 خلاصة حكم المحدث : حسن صحيح
المصدر : صحيح الجامع الصفحة أو الرقم: 2359 خلاصة حكم المحدث : صحيح
المصدر : تخريج مشكاة المصابيح الصفحة أو الرقم: 818 خلاصة حكم المحدث :إسناده حسن
المصدر : أصل صفة الصلاة الصفحة أو الرقم: 1/349 خلاصة حكم المحدث :صحيح لغيره
تخريج الحديث
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْقَطَّانُ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي غَلَّابٍ ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا ، فَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ ، فَلْيَكُنْ أَوَّلَ ذِكْرِ أَحَدِكُمُ التَّشَهُّدُ " .
[سنن ابن ماجه » كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا » بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا ... رقم الحديث: 838]
اعتراض نمبر1:
اس کی سند ایک راوی سلیمان التیمی ہے جو کہ ” مدلس” ہے اور مدلس کا عنعنہ صحت حدیث کے منافی ہوتا ہے۔
جواب1:
امام سلیمان التیمی م 143 ھ بخاری و مسلم کے ثقہ بالاجماع ،حافظ، متقن اور ثبت راوی ہیں ۔ ان کی تدلیس کی وجہ سے اس روایت کو ناقابل قبول قرار دینا درست نہیں۔ چند وجوہ سے۔۔۔
اولاً: اصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ صحیحین کے مدلس کی تدلیس عند المحدثین صحت حدیث کے منافی نہیں کیونکہ وہ دوسری جہت سے سماع پر محمول ہوتی ہیں۔ چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
واعلم أن ما كان فى الصحيحين عن المدلسين بعن ونحوها فمحمول على ثبوت السماع من جهة أخرى۔
(مقدمہ شرح صحیح مسلم للنووی ج1 ص18)
اور یہ روایت صحیح مسلم کی ہے ، لہذا تدلیس مضر نہیں۔
ثانیاً: امام سلیمان التیمی نے”حدثنا قتادۃ“ کے الفاظ سے سماع کی تصریح کر رکھی ہے۔ دیکھیے۔۔۔
1: حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ النَّضْرِ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ قَالَ سَمِعْتُ أَبِى(سليمان التيمي) حَدَّثَنَا قَتَادَةُ۔۔۔ (السنن لابی داود ؛ج1 ص147 باب التشہد)
2: حدثنا سليمان بن الأشعث السجستاني قال ثنا عاصم بن النضر قال ثنا المعتمر قال سمعت أبي (سليمان التيمي) قال ثنا قتادة۔۔۔ (صحیح ابی عوانہ ج؛1 ص؛360 رقم الحدیث 1339)
ثالثاً: عند الاحناف خیر القرون کی تدلیس صحتِ حدیث کے منافی نہیں۔ (قواعد فی علوم الحدیث:ص138)
لہذا اعتراض باطل ہے۔
اعتراض نمبر2:
اس روایت میں ”واذا قرء فانصتوا ” کی زیادت سلیمان التیمی کے علاوہ کسی اور راوی سے مروی نہیں، لہذا یہ زیادتی شاذہے۔ پس یہ روایت ناقابل قبول ہے ۔
جواب:
یہ اعتراض بھی چند وجوہ سے باطل ہے۔
اولاً: امام سلیمان التیمی بالاجماع ثقہ ہیں اور ”وإذا قرأ فأنصتوا“ کے بیان کرنے میں یہ جماعتِ ثقات کی مخالفت نہیں کر رہے بلکہ ایک زائد چیز کو بیان کر رہے ہیں جو کہ ”شاذ“ نہیں بلکہ ”زیادتہ ثقہ“ سے عبارت ہوتی ہے اور جمہور فقہا ء و محدثین کے نزدیک زیادتہ ثقہ مقبول ہے۔
1: والزیادۃ مقبولۃ،(صحیح البخاری ج1ص201 باب العشر فیما یسقی من ماء السماء والماء الجاری)
2:أن الزيادة من الثقة مقبولة(مستدرک علی الصحیحین للحاکم ج1ص307 کتاب العلم)
لہذا امام سلیمان التیمی کا ”واذاقرءفانصتوا ” کی زیادت روایت کرنا ان کے ثقہ ہونے کی وجہ سے مقبول ہے، پس اعتراض باطل ہے۔
ثانیاً: ”واذاقرءفانصتوا ” کی زیادت بیان کرنے میں امام سلیمان التیمی منفرد نہیں بلکہ دیگر روات نے بھی ان کی متابعت تامہ کر رکھی ہے۔مثلاً
امام ابو عبید ہ الحداد :
روی الإمام أبو عوانة يعقوب بن إسحاق الاسفرائني م316ھ :حدثنا سهل بن بحر الجُنْدَيْسابُورِي قال ثنا عبد الله بن رشيد قال ثنا ابوعبيدة عن قتادة عن يونس بن جبير عن حطان بن عبد الله الرقاشي عن أبي موسى الأشعري قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ( إذا قرأ الإمام فأنصتوا وإذا قال: (غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّين) فقولوا أمين )
(صحیح ابی عوانہ ج1ص360رقم1341بیان اجازۃ القراءۃ الخ، )
عمر بن عامر اور سعید بن ابی عروبہ:
حدثنا أبو حامد محمد بن هارون الحضرمي ثنا محمد بن يحيى القطعي ثنا سالم بن نوح ثنا عمر بن عامر وسعيد بن أبي عروبة عن قتادة عن يونس بن جبير عن حطان بن عبد الله الرقاشي قال صلى بنا أبو موسى فقال أبو موسى : إن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان يعلمنا إذا صلى بنا قال إنما جعل الإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا قرأ فأنصتوا۔
(سنن الدار قطنی ص217 رقم الحدیث 1235، السنن الکبر’ی للبیھقی ج2 ص155 باب من قال یترک المامون القراءۃ الخ)
لہذا شاذ ہونے والا یہ اعتراض باطل ہے۔
اعتراض نمبر3:
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی اس روایت کی سند میں دوسرا راوی ”قتادہ” ہے جو کہ مدلس ہے اور عن سے روایت کر رہا ہے، مدلس کا عنعنہ صحت حدیث کے منا فی ہوتا ہے ۔
جواب:
امام قتادہ بن دعامہ م 117ھ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کےثقہ بالاجماع راوی ہیں۔ ان کی تدلیس کی وجہ سے اس روایت کو ناقابل قبول قرار دینا درست نہیں۔ چند وجوہ سے۔۔۔
اولاً: اصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ صحیحین کے مدلس کی تدلیس عند المحدثین صحت حدیث کے منافی نہیں کیونکہ وہ دوسری جہت سے سماع پر محمول ہوتی ہیں۔ چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
واعلم أن ما كان فى الصحيحين عن المدلسين بعن ونحوها فمحمول على ثبوت السماع من جهة أخرى۔
(مقدمہ شرح صحیح مسلم للنووی ج1 ص18)
اور یہ روایت صحیح مسلم کی ہے ، لہذا تدلیس مضر نہیں۔
ثانیاً: امام قتادہ بن دعامہ نے حدیث ابی موسی اشعری میں تحدیثاً سماع کی تصریح کی ہے ۔ دیکھیے۔۔۔
حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ النَّضْرِ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ قَالَ سَمِعْتُ أَبِى حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَبِى غَلاَّبٍ يُحَدِّثُهُ عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِىِّ بِهَذَا الْحَدِيثِ زَادَ « فَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا»
(السنن لابی داود ج1 ص147 باب التشہد ، صحیح ابی عوانہ ج1 ص360 رقم الحدیث 1339 )
ثالثاً: امام قتادہ کا شمار ان مدلسین میں ہوتا ہے جن کی تدلیس کسی بھی کتاب میں صحت حدیث کے منافی نہیں ۔ امام حاکم فرماتے ہیں:
فمن المدلسين من دلس عن الثقات الذين هم في الثقة مثل المحدث أو فوقه أو دونه إلا أنهم لم يخرجوا من عداد الذين يقبل أخبارهم فمنهم من التابعين أبو سفيان طلحة بن نافع و قتادة بن دعامة وغيرهما۔
(معرفت علوم الحدیث للحاکم ص:103)
علامہ ابن حزم محدثین کا ضابطہ بیان کرتے ہوئے ان مدلسین کی فہرست بتاتے ہیں جن کی روایتیں باوجود تدلیس کے صحیح ہیں اور ان کی تدلیس سے صحت حدیث پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
منهم كان جلة أصحاب الحديث وأئمة المسلمين كالحسن البصري وأبي إسحاق السبيعي وقتادة بن دعامة وعمرو بن دينار وسليمان الأعمش وأبي الزبير وسفيان الثوري وسفيان بن عيينة۔
(الاحکام لابن حزم ج2،ص141 ،142 فصل من یلزم قبول نقلہ الاخبار)
لہذا حدیث ابی موسی اشعری رضی اللہ عنہ بالکل صحیح اور حجت ہے۔
فائدہ: زبیر علی زئی غیر مقلد نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:(( صحیح))۔ (نصر الباری از علی زئی ص283 )
اس روایت کو صحیح کہنے والے محدثین:
تخريج الحديث
اعتراض نمبر1:
اس کی سند ایک راوی سلیمان التیمی ہے جو کہ ” مدلس” ہے اور مدلس کا عنعنہ صحت حدیث کے منافی ہوتا ہے۔
جواب1:
امام سلیمان التیمی م 143 ھ بخاری و مسلم کے ثقہ بالاجماع ،حافظ، متقن اور ثبت راوی ہیں ۔ ان کی تدلیس کی وجہ سے اس روایت کو ناقابل قبول قرار دینا درست نہیں۔ چند وجوہ سے۔۔۔
اولاً: اصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ صحیحین کے مدلس کی تدلیس عند المحدثین صحت حدیث کے منافی نہیں کیونکہ وہ دوسری جہت سے سماع پر محمول ہوتی ہیں۔ چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
واعلم أن ما كان فى الصحيحين عن المدلسين بعن ونحوها فمحمول على ثبوت السماع من جهة أخرى۔
(مقدمہ شرح صحیح مسلم للنووی ج1 ص18)
اور یہ روایت صحیح مسلم کی ہے ، لہذا تدلیس مضر نہیں۔
ثانیاً: امام سلیمان التیمی نے”حدثنا قتادۃ“ کے الفاظ سے سماع کی تصریح کر رکھی ہے۔ دیکھیے۔۔۔
1: حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ النَّضْرِ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ قَالَ سَمِعْتُ أَبِى(سليمان التيمي) حَدَّثَنَا قَتَادَةُ۔۔۔ (السنن لابی داود ؛ج1 ص147 باب التشہد)
2: حدثنا سليمان بن الأشعث السجستاني قال ثنا عاصم بن النضر قال ثنا المعتمر قال سمعت أبي (سليمان التيمي) قال ثنا قتادة۔۔۔ (صحیح ابی عوانہ ج؛1 ص؛360 رقم الحدیث 1339)
ثالثاً: عند الاحناف خیر القرون کی تدلیس صحتِ حدیث کے منافی نہیں۔ (قواعد فی علوم الحدیث:ص138)
لہذا اعتراض باطل ہے۔
اعتراض نمبر2:
اس روایت میں ”واذا قرء فانصتوا ” کی زیادت سلیمان التیمی کے علاوہ کسی اور راوی سے مروی نہیں، لہذا یہ زیادتی شاذہے۔ پس یہ روایت ناقابل قبول ہے ۔
جواب:
یہ اعتراض بھی چند وجوہ سے باطل ہے۔
اولاً: امام سلیمان التیمی بالاجماع ثقہ ہیں اور ”وإذا قرأ فأنصتوا“ کے بیان کرنے میں یہ جماعتِ ثقات کی مخالفت نہیں کر رہے بلکہ ایک زائد چیز کو بیان کر رہے ہیں جو کہ ”شاذ“ نہیں بلکہ ”زیادتہ ثقہ“ سے عبارت ہوتی ہے اور جمہور فقہا ء و محدثین کے نزدیک زیادتہ ثقہ مقبول ہے۔
1: والزیادۃ مقبولۃ،(صحیح البخاری ج1ص201 باب العشر فیما یسقی من ماء السماء والماء الجاری)
2:أن الزيادة من الثقة مقبولة(مستدرک علی الصحیحین للحاکم ج1ص307 کتاب العلم)
لہذا امام سلیمان التیمی کا ”واذاقرءفانصتوا ” کی زیادت روایت کرنا ان کے ثقہ ہونے کی وجہ سے مقبول ہے، پس اعتراض باطل ہے۔
ثانیاً: ”واذاقرءفانصتوا ” کی زیادت بیان کرنے میں امام سلیمان التیمی منفرد نہیں بلکہ دیگر روات نے بھی ان کی متابعت تامہ کر رکھی ہے۔مثلاً
امام ابو عبید ہ الحداد :
روی الإمام أبو عوانة يعقوب بن إسحاق الاسفرائني م316ھ :حدثنا سهل بن بحر الجُنْدَيْسابُورِي قال ثنا عبد الله بن رشيد قال ثنا ابوعبيدة عن قتادة عن يونس بن جبير عن حطان بن عبد الله الرقاشي عن أبي موسى الأشعري قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ( إذا قرأ الإمام فأنصتوا وإذا قال: (غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّين) فقولوا أمين )
(صحیح ابی عوانہ ج1ص360رقم1341بیان اجازۃ القراءۃ الخ، )
عمر بن عامر اور سعید بن ابی عروبہ:
حدثنا أبو حامد محمد بن هارون الحضرمي ثنا محمد بن يحيى القطعي ثنا سالم بن نوح ثنا عمر بن عامر وسعيد بن أبي عروبة عن قتادة عن يونس بن جبير عن حطان بن عبد الله الرقاشي قال صلى بنا أبو موسى فقال أبو موسى : إن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان يعلمنا إذا صلى بنا قال إنما جعل الإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا قرأ فأنصتوا۔
(سنن الدار قطنی ص217 رقم الحدیث 1235، السنن الکبر’ی للبیھقی ج2 ص155 باب من قال یترک المامون القراءۃ الخ)
لہذا شاذ ہونے والا یہ اعتراض باطل ہے۔
اعتراض نمبر3:
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی اس روایت کی سند میں دوسرا راوی ”قتادہ” ہے جو کہ مدلس ہے اور عن سے روایت کر رہا ہے، مدلس کا عنعنہ صحت حدیث کے منا فی ہوتا ہے ۔
جواب:
امام قتادہ بن دعامہ م 117ھ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کےثقہ بالاجماع راوی ہیں۔ ان کی تدلیس کی وجہ سے اس روایت کو ناقابل قبول قرار دینا درست نہیں۔ چند وجوہ سے۔۔۔
اولاً: اصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ صحیحین کے مدلس کی تدلیس عند المحدثین صحت حدیث کے منافی نہیں کیونکہ وہ دوسری جہت سے سماع پر محمول ہوتی ہیں۔ چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
واعلم أن ما كان فى الصحيحين عن المدلسين بعن ونحوها فمحمول على ثبوت السماع من جهة أخرى۔
(مقدمہ شرح صحیح مسلم للنووی ج1 ص18)
اور یہ روایت صحیح مسلم کی ہے ، لہذا تدلیس مضر نہیں۔
ثانیاً: امام قتادہ بن دعامہ نے حدیث ابی موسی اشعری میں تحدیثاً سماع کی تصریح کی ہے ۔ دیکھیے۔۔۔
حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ النَّضْرِ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ قَالَ سَمِعْتُ أَبِى حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَبِى غَلاَّبٍ يُحَدِّثُهُ عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِىِّ بِهَذَا الْحَدِيثِ زَادَ « فَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا»
(السنن لابی داود ج1 ص147 باب التشہد ، صحیح ابی عوانہ ج1 ص360 رقم الحدیث 1339 )
ثالثاً: امام قتادہ کا شمار ان مدلسین میں ہوتا ہے جن کی تدلیس کسی بھی کتاب میں صحت حدیث کے منافی نہیں ۔ امام حاکم فرماتے ہیں:
فمن المدلسين من دلس عن الثقات الذين هم في الثقة مثل المحدث أو فوقه أو دونه إلا أنهم لم يخرجوا من عداد الذين يقبل أخبارهم فمنهم من التابعين أبو سفيان طلحة بن نافع و قتادة بن دعامة وغيرهما۔
(معرفت علوم الحدیث للحاکم ص:103)
علامہ ابن حزم محدثین کا ضابطہ بیان کرتے ہوئے ان مدلسین کی فہرست بتاتے ہیں جن کی روایتیں باوجود تدلیس کے صحیح ہیں اور ان کی تدلیس سے صحت حدیث پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
منهم كان جلة أصحاب الحديث وأئمة المسلمين كالحسن البصري وأبي إسحاق السبيعي وقتادة بن دعامة وعمرو بن دينار وسليمان الأعمش وأبي الزبير وسفيان الثوري وسفيان بن عيينة۔
(الاحکام لابن حزم ج2،ص141 ،142 فصل من یلزم قبول نقلہ الاخبار)
لہذا حدیث ابی موسی اشعری رضی اللہ عنہ بالکل صحیح اور حجت ہے۔
فائدہ: زبیر علی زئی غیر مقلد نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:(( صحیح))۔ (نصر الباری از علی زئی ص283 )
اس روایت کو صحیح کہنے والے محدثین:
المحدث : الألباني
المصدر : صحيح الجامع الصفحة أو الرقم: 728 خلاصة حكم المحدث : صحيح
المصدر : صحيح الجامع الصفحة أو الرقم: 672 خلاصة حكم المحدث : صحيح
المصدر : أصل صفة الصلاة الصفحة أو الرقم: 1/352 خلاصة حكم المحدث :إسناده صحيح
المحدث : الإمام أحمد
المحدث : محمد ابن عبدالهادي
المصدر : المحرر الصفحة أو الرقم: 111 خلاصة حكم المحدث : رواه مسلم، وصححه الإمام أحمد، وتكلم في قوله: فإذا قرأ فأنصتوا الدارقطني وقد روي من حديث أبي هريرة وصححه مسلم، وتكلم فيه غير واحد
*****************************************
فاتحہ خلف الامام
ترجمہ :
حضرت جابر بن عبداللهؓ، رسول اللهﷺ سے مروی ہیں کہ جس نے ایک رکعت پڑھی اور اس میں ام القرآن(قرآن کی ماں یعنی سورۃ الفاتحہ) نہ پڑھی، تو اس نے نماز نہ پڑھی, مگر امام کے پیچھے(ہو تو ضرورت نہیں).
تخريج الحديث
|
عبد الله بن عباس
تخريج الحديث
|
لہذا احناف کے نزدیک امام کے پیچھے مقتدی کو قراءت کرنا درست نہیں ہے،جس کا ثبوت قرآنِ کریم،احادیثِ صحیحہ،آثارِ صحابہ اور جلیل القدر صحابہ کرام ؓ وتابعینِ عظام کے عمل سے ثابت ہے۔اس مسئلہ کی مزیدتفصیل کے لئے درج ِ ذیل کتابوں کا مطالعہ فرمائیں:
(۱)امام الکلام فی القراءۃ خلف الامام از مولانا عبد الحی لکھنویؒ
(۲)الدلیل المحکم فی ترک القراءۃ للمؤتم از مولینامحمد قاسم نانوتوی ؒؒ
(۳) ہدیۃ المعتدی فی ترک القراءۃ للمقتدی ،از مولینا رشید احمد گنگوہیؒ
(۴)فاتحۃ الکلام فی القراءۃ خلف الامام ،از علامہ ظفر احمد تھانوی ؒؒ
(۵)احسن الکلام فی ترک القراءۃ خلف الإمام از مولینا سرفراز خان صفدرؒ.وغیرہ
(مأخوذ من التبویب وبعض الکتب الأخری )
=================
غیر مقلدین نے ہتھیار ڈال دئیے:
بزرگ غیر مقلد عالم ارشاد الحق اثری فاتحہ خلف الامام پر اپنی تحقیقی کتاب ”توضیح الکلام “ میں لکھتے ہیں:
”امام بخاری ؒ سے لے کر دورِ قریب کے محققین اہل حدیث تک کسی کی تصنیف میں یہ دعویٰ نہیں کیا گیا کہ فاتحہ نہ پڑھنے والے کی نماز باطل ہے اور وہ بے نماز ہے۔آج بعض حضرات نے جو قدم اُٹھایا ہے ، جماعت کے نامور اور ذمہ دار حضرات میں ان کا شمار نہیں ہوتا۔”
(توضیح الکلام ج۱۔ ص۳۴)
آگے اثری صاحب لکھتے ہیں:
” جو یہ سمجھے کہ فاتحہ خلف الامام فرض نہیں ، نماز خواہ جہری ہو یا سری اور اپنی تحقیق پر عمل کر لے (یعنی فاتحہ نہ پڑھے ) تو اس کی نماز باطل نہیں ہوتی ”۔
(توضیح الکلام ج۱ص۵۴)
اس سے ظاہر ہوا کہ فاتحہ کے بغیر مقتدی کی نماز ہو جاتی ہے اور جو غیر مقلد علماء بغیر فاتحہ کے نماز کو باطل کہتے ہیں وہ غیر ذمہ دار لوگ ہیں۔
'Ubada b. as-Samit reported from the Messenger of Allah (may peace be upon him ):
ReplyDeleteHe who does not recite Fatihat al-Kitab is not credited with having observed the prayer.
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، جَمِيعًا عَنْ سُفْيَانَ، - قَالَ أَبُو بَكْرٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، - عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم " لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ " .
Reference : Sahih Muslim 394 a
In-book reference : Book 4, Hadith 37
USC-MSA web (English) reference : Book 4, Hadith 771
(deprecated numbering scheme)
عالم اور خاص حکم کا فرق سمجھیں، یہ احادیث عام نماز کے متعلق ہیں، اور میری پوسٹ خاص ’جماعت‘ کی خاص نماز کے متعلق ہے، لہٰذا دونوں میں کوئی تعارض (ٹکراؤ) نہیں۔
Delete