(1) مراد نبوت اور قوت اسلام:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: اللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبِّ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْكَ: بِأَبِي جَهْلٍ، أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ: وَكَانَ أَحَبَّهُمَا إِلَيْهِ عُمَرُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ.
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! ان دونوں یعنی ابوجہل اور عمر بن خطاب میں سے جو تجھے محبوب ہو اس کے ذریعہ اسلام کو طاقت و قوت عطا فرما ، آپ ﷺ نے فرمایا: تو ان دونوں میں سے عمر اللہ کے محبوب نکلے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابن عمر ؓ کی یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
[سنن الترمذی - مناقب کا بیان - حدیث نمبر 3681]
Sayyidina Ibn Umar (RA) reported that Allah’s Messenger (SAW) prayed, “0 Allah, strengthen Islam with whichever of these two men is dearer to you. Abu JahI or Umar ibn al-Khattab.” And, Umar (RA) was the one of the two dear to Allah.”
[Ahmed 57001]
تخريج الحديث
|
امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق ؓ کے مناقب و فضائل بیشمار ہیں ان کی عظیم ترین شخصیت و حیثیت اور ان کے بلند ترین مقام و مرتبہ کی منقبت میں یہی ایک بات کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پاک ﷺ دعا قبول کرکے ان کو اسلام قبول کرنے کی توفیق دی اور ان کے ذریعہ اپنے دین کو زبردست حمایت و شوکت عطا فرمائی۔ ان کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ منجانب اللہ راہ صواب ان پر روشن ہوجاتی تھی، الہام والقاء کے ذریعہ غیبی طور پر ان کی راہنمائی ہوتی تھی ان کے دل میں وہی بات ڈالی جاتی تھی جو حق ہوتی تھی اور ان کی رائے وحی الہٰی اور کتاب اللہ کے موافق پڑتی تھی اسی بناء پر علماء کرام نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے حق میں ان کی رائے خلافت صدیق کے حق ہونے کی دلیل ہے۔ جیسا کہ حضرت عمار یاسر کی شہادت کو حضرت علی مرتضی کے حق ہونے کی دلیل مانا جاتا ہے۔ ابن مردویہ نے حضرت مجاہد کا قول نقل کیا ہے کہ (کسی مسئلہ و معاملہ میں) حضرت عمر فاروق جو رائے دیتے تھے اسی کے موافق آیات قرآنی نازل ہوتی تھیں، ابن عساکر نے سیدنا علی مرتضی کے یہ الفاظ نقل کئے ہیں، قرآن حضرت عمر کی رائے میں سے ایک رائے ہے یعنی قرآنی آیات کا ایک بڑا حصہ حضرت عمر کی رائے کے موافق ہے۔ حضرت ابن عمر سے بطریق مرفوع روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر (کسی مسئلہ میں اختلاف رائے ہو کہ) تمام لوگوں کی رائے کچھ ہو اور عمر کی رائے کچھ اور پھر (اس مسئلہ سے متعلق قرآن کی آیت نازل ہو تو وہ عمر کی رائے کے مطابق ہوگی اس روایت کو سیوطی نے تاریخ الخلفاء میں نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ موافقات عمر (یعنی عمر کی رائے سے قرآن کریم میں جہاں جہاں اتفاق کیا گیا ہے ایسے مواقع) بیس ہیں۔
الشواهد
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " اللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَبِي جَهْلِ ابْنِ هِشَامٍ , أَوْ بِعُمَرَ " ، قَالَ : فَأَصْبَحَ فَغَدَا عُمَرُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ .
ترجمہ :
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دعا کی، اے ﷲ ! اسلام کو ابو جہل بن ہشام یا عمر بن خطاب کے ذریعے عزت دے۔ صبح ہوئی تو اگلے روز حضرت عمرؓ نے نبی کریم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا اور مسجد میں اعلانیہ نماز پڑھی۔
[تفسیر صافی (شیعہ کتاب) : صفحہ#٣٢٠ ، ترجمہ قرآن (مقبول احمد شیعہ) : صفحہ#٥١٦]
تخريج الحديث
|
تشریح:
دعوت اسلام کے ابتدائی زمانہ میں جب قریش مکہ نے داعی حق ﷺ اور حق کے نام لیواؤں کے خلاف ظالمانہ محاذ قائم کر رکھا تھا۔ اور اہل اسلام کو تشدد آمیز کار روائیوں کے ذریعے مجبور وہراساں کرتے تھے تو مکہ میں کوئی مسلمان علانیہ نماز نہیں پڑھ سکتا تھا۔ آنحضرت ﷺ دارارقم میں رہا کرتے تھے اور اسی مکان میں پوشیدہ طور پر اللہ کا نام لیا جاتا تھا، اللہ کی بندگی کی جاتی تھی اور اللہ کا رسول اللہ ﷺ کا دین زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی تدبیر میں لگا رہتا تھا۔ آنحضرت ﷺ جانتے تھے کہ زعماء قریش میں دو آدمی یعنی ابوجہل اور عمر اس حیثیت کے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی اسلام قبول کرکے ہمارے ساتھ آجائے تو اسلام جو آج قریش مکہ کے ظلم وستم کی وجہ سے دارارقم میں محدود ہو کر رہ گیا ہے اتنی طاقت پاجائے گا کہ مسلمانوں کو چھپ کر اللہ کا نام لینے اور اللہ کی عبادت کرنے پر مجبور نہیں ہونا پڑے گا، وہ علانیہ نماز پڑھنے لگیں گے اور کھلے طور اسلام کی دعوت پیش کرسکیں گے۔ چناچہ آپ ﷺ نے مذکورہ دعا کی یہ دعا کس طرح قبول ہوئی اور حضرت عمر کس طرح مشرف باسلام ہوئے اس کی تفصیل ایک روایت میں جس کو ابوحاکم عبداللہ نے دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ابوجہل نے اعلان کیا کہ جو شخص محمد ﷺ کو قتل کردے اس کو انعام میں اس سو اونٹنیاں اور ہزار چاندی میں دوں گا۔ عمر (یہ سن کر) بولے الضمان صحیح یعنی تاوان صحیح ہے! ابوجہل نے کہا ہان فورًا ادا کروں گا، ذرا بھی تاخیر نہیں ہوگی! عمر وہاں سے اٹھ کر چل پڑے۔ راستے میں اس ایک شخص مل گیا، اس نے پوچھا عمر! خیر تو ہے کہاں کے ارادے سے چلے؟ عمر نے جواب دیا، محمد ﷺ کی طرف جارہا ہوں، ارادہ ہے کہ آج ان کا کام تمام کردوں۔ اس شخص نے کہا کیا (محمد کے خاندان) بنی ہاشم (کے انتقام) کا کوئی خوف نہیں ہے؟ عمر بولے معلوم ہوتا ہے تم نے بھی اپنا دھرم تیاگ دیا (جبھی تو بن ہاشم کے انتقام سے ڈرا کر مجھے محمد کے قتل سے باز رکھنا چاہتے ہو) اس شخص نے کہا اس سے زیادہ حیرتناک بات تمہیں یہ بتاتا ہوں کہ تمہارے بہن اور بہنوئی نے اپنا پرانا مذہب چھوڑ دیا ہے اور محمد ﷺ کے ساتھ مل گئے ہیں (یہ سنتے ہیں) عمر اپنی بہن کے گھر کی طرف مڑ گئے، وہاں پہنچے تو اس وقت ان کی بہن گھر کے اندر قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول تھیں اور سورت طہ پڑھ رہی تھیں عمر نے کچھ دیر تو دروازے پر کھڑے ہو کر ان کو پڑھتے ہوئے سنا پھر دروازہ کھٹکھٹا یا جب اندر داخل ہوئے تو بہن کو دیکھتے ہی سوال کیا پڑھنے کی یہ آواز کیسی آرہی تھی؟ بہن نے ان کو پوری بات اور ان پر واضح کردیا کہ ہم صدق دل سے مسلمان ہوگئے ہیں (اب تم یا کوئی چاہے جتنی سختی کرے، جو دین ہم نے قبول کرلیا ہے اس سے دستبردار نہیں ہوں گے) عمر (کے لئے یہ صورت انتہائی پریشان کن اور اضطراب انگیز تھی، ایک طرف تو فوری اشتعال نے انہیں بیاہی بہن اور عزیزبہنوئی کو مارنے پیٹنے پر مجبور کردیا دوسری طرف خود ان کی زندگی میں آنے والا انقلاب ان کے دل و دماغ پر دستک دے رہا تھا، اس سخت) اضطرابی کیفیت میں رات بھر مبتلا رہے۔ ادھر رات میں ان کے بہن وبہنوئی (معمول کے مطابق) اٹھے اور عبادت الٰہی و تلاوت قرآن کریم میں پھر مشغول ہوگئے انہوں نے طہ ماانزلنا علیک القرآن لتشقی (طہ ہم نے آپ ﷺ پر قرآن مجید اس لئے نہیں اتار کہ آپ ﷺ تکلیف اٹھائیں) سے پڑھنا شروع کیا۔ (اب عمر سے رہا نہیں گیا، ایسا معلوم ہوا جیسے تلاوت قرآن کریم کی اس آواز نے ان کی روح کو آخری طور پر جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے) کلام اللہ ابدی صداقت ان کے دل و دماغ پر چھانے لگی، بڑی بےتابی کے ساتھ بولے لاؤ یہ کتاب مجھے دو ذرا میں بھی تو (پڑھ کر) دیکھوں۔ (بہن نے محسوس کرلیا کہ بھیا کا وہ سخت دل جس کو کفر وشرک نے پتھر بنادیا تھا، پگھل رہا ہے، خدائی پکار کی طرف متوجہ ہورہا ہے چناچہ انہوں نے کہا کہ ایسے نہیں، اس مقدس کتاب کو تو صرف پاکیزہ لوگ ہی چھوسکتے ہیں۔ عمر نے غسل کیا، پاک ہوئے اور کلام اللہ کو ہاتھ میں لے کر بیٹھ گئے جب طہ سے پڑھنا شروع کیا اور جب اس آیت (اَللّٰهُ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ لَهُ الْاَسْمَا ءُ الْحُسْنٰى) 20۔ طہ 8) (اللہ ایسا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اس کے اچھے اچھے نام ہیں) پر پہنچے تو بےاختیار بول اٹھے بار خدایا بلاشبہ تو ہی عبادت کا سزاوار ہے، تیرے علاوہ اور کوئی نہیں جس کو معبود بنایا جائے اشہد ان لاالہ الا اللہ واشہد وان محمد الرسول اللہ پھر وہ پوری رات انہوں نے اسی طرح جاگ کر گذاری کہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد واشوقاہ واشوقاہ کا نعرہ مارتے۔ جب صبح ہوئی تو خباب ابن ارت (جو اس گھر میں پہلے سے موجود اور عمر کے داخل ہوتے ہی کہیں چھپ گئے تھے، اب جو انہوں نے دیکھا کہ عمر کی دنیا ہی بدل چکی ہے، کفر وشرک کا اندھیرا چھٹ گیا ہے اور اسلام کی روشنی نے ان کے وجود کو جگمگا دیا ہے تو) عمر کے پاس آئے اور کہنے لگے عمر مبارک ہو اللہ نے تمہیں اپنے دین اسلام سے سرفراز کیا، شاید تمہیں معلوم نہیں کہ رسول کریم ﷺ نے پوری رات جاگ کر اس دعا میں گذاری تھی کہ الہٰی! ابوجہل یا عمر بن الخطاب کے ذریعے اسلام کو سربلند و غالب کردے! میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ یہ آنحضرت ﷺ کی دعا ہی تھی جو تمہارے قبول اسلام کا پیش خیمہ بنی ہے۔ اس کے بعد عمر تلوار گلے میں ڈال کر آنحضرت ﷺ کی قیام گاہ ( دارارقم) کی طرف روانہ ہوئے، وہاں پہنچے تو آنحضرت ﷺ نے بنفس نفیس باہر تشریف لا کر ان کا استقبال کیا اور دعوت اسلام پیش کی عمر! معبود ان باطل کو چھوڑ کر خدائے واحد کی چوکھٹ پر جھک جاؤ سرخروئی اسی میں ہے کہ اسلام قبول کرلو، ورنہ تم پر بھی دنیا وآخرت کی ذلت و رسوائی کا وہی عذاب نازل ہوگا جو ولید ابن مغیرہ پر نازل ہوا۔ عمر ( یہ پرُ جلال آواز رسالت سن کر) تھر تھر کانپنے لگے، لرزتے مونڈھوں اور تھر تھر اتے ہاتھوں سے تلوار گر پڑی بےساختہ زبان سے نکلا اشہد ان لا الہ الا اللہ وان محمد الرسول اللہ ﷺ اور پھر انہوں نے کہا جب ہم لات وعزیٰ کی پرستش کی پوجا پہاڑوں پر اور وادیوں میں (کھلم کھلا) کرتے تھے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ کی عبادت ہم ڈر چھپ کر کریں! انہیں، اللہ کی قسم آج کے بعد اللہ کی عبادت ہم چھپ کر ہرگز نہیں کریں گے۔ اس کے بعد عمر تمام مسلمانوں کو لے کر کعبہ اقدس میں پہنچے اور وہاں علی الاعلان نماز و عبادت ہوئی (اور اس طرح اللہ نے حضرت عمر کے ذریعے اسلام کو طاقت و شوکت عطا فرمائی )
[مشکوٰۃ المصابیح - حضرت عمر کے مناقب وفضائل کا بیان - حدیث نمبر 5992]
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو عالم اسباب بنایا ہے، یہاں ہر بڑے کام اور ہر عظیم مقصد کے لئے اس کے مطابق تدبیر اور عملی جدوجہد اور خاص صلاحیت رکھنے والے جانباز کارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے، ابو جہل بن ہشام اور عمر بن الخطاب رسول اللہ ﷺ اور آپ کے لائے ہوئے دین کے درجہ اول کے دشمن تھے، اسی کے ساتھ ان دونوں میں وہ صلاحیتیں جو کسی بڑے کام کے لئے درکار ہوتی ہیں، (راقم سطور کا خیال ہے کہ غالباً حضور ﷺ پر منکشف کر دیا گیا تھا کہ دونوں میں سے کسی ایک کو ہدایت دی جا سکتی ہے) تو آپ ﷺ نے ایک رات کو یہ دعا فرمائی جس کا حدیث میں ذکر ہے۔ تقدیر الہی میں یہ سعادت حضرت عمرؓ کے لئے مقدر ہو چکی تھی، ان کے حق میں دعا قبول ہو گئی اور ان کو توفیق مل گئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے جو کام لیا خاص کر خلافت کے دس سالوں میں وہ بلا شبہ امت میں ان کا اور صرف ان کا حصہ ہے۔ مسند احمد اور جامع ترمذی کی مندرجہ بالا روایت میں حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کا واقعہ بہت اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ مشکوٰۃ المصابیح کے بعض شارحین نے ابو عبداللہ حاکم کی "دلائل النبوۃ" کے حوالہ سے حضرت ابن عباسؓ ہی کی روایت سے یہ واقعہ مفصل روایت کیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ابو جہل جو مشرکین مکہ کا سردار اور بڑا سرمایہ دار بھی تھا اس نے اعلان کیا کہ جو کوئی محمد ﷺ کو قتل کر دے میں اس کو سو اونٹنیاں اور ایک ہزار اوقیہ چاندی بطور انعام دینے کی ذمہ داری لیتا ہوں۔ عمرؓ نے ابو جہل سے کہا کہ تمہاری یہ بات پکی ہے؟ ابو جہل نے کہا بالکل پکی، فوراً ادا کروں گا۔ اس کے بعد عمر تلوار لے کر اس ناپاک ارادہ سے نکلے، راستہ میں ایک شخص نے ان کو اس حال میں دیکھا تو پوچھا کہ عمر کہاں اور کس ارادہ سے جا رہے ہو ..... عمرؓ نے کہا محمد (ﷺ) کو قتل کرنے جا رہا ہوں ...... اس شخص نے کہا کیا تم ان کے کنبہ بنی ہاشم سے بےخوف ہو (وہ ان کی حمایت میں میدان میں آ جائیں گے اور پھر خونریز جنگ ہو گی) عمرؓ نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ تو نے بھی باپ دادا کا دین چھوڑ کے محمد کا دین قبول کر لیا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ میں تم کو بتلاتا ہوں کہ تمہاری بہن (فاطمہ) اور بہنوئی (سعید بن زید) نے بھی محمد ﷺ کا دین قبول کر لیا ہے۔ یہ سن کر عمرؓ سیدھے بہن کے گھر کی طرف گئے۔ وہ اس وقت سورہ طہ تلاوت کر رہی تھیں، عمرؓ نے دروازہ پر کھڑے ہو کر سنا، پھر دروازہ کھلوایا اور کہا کہ تم کیا پڑھ رہی تھیں؟ ان کی بہن نے بتایا کہ ہم لوگوں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور اس میں قرآن کی آیتیں پڑھ رہی تھی؟ عمرؓ نے کہا مجھے بھی پڑھ کر سناؤ! چنانچہ ان کی بہن نے سورہ طہ پڑھنی شروع کی ...... جب یہ آیت تلاوت کی "اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ" تو عمر کے دل کی دنیا میں انقلاب آ گیا اور بول اٹھے کہ بیشک وہی اور صرف وہی الٰہ اس لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے، اور کلمہ شہادت پڑھا پھر بہن ہی کے گھر میں رات گزاری اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضری کی تڑپ دل میں پیدا ہو گئی۔ بار بار کہتے تھے "وَا شَوْقَاهُ اِلَى مُحَمَّدٍ" اسی حال میں خباب بن الارت ان کے پاس آئے اور ان کو بتلایا کہ رسول اللہ ﷺ آج رات برابر دعا کرتے رہے کہ اے اللہ عمر بن خطاب یا ابو جہل بن ہشام کے ذریعہ اسلام کو عزت اور قوت عطا فرما! اور میرا خیال ہے کہ حضور ﷺ کی دعا تمہارے حق میں قبول ہو گئی۔ اس کے بعد صبح کو عمر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور اسلام قبول کیا۔ اور اسی وقت کہا کہ ہم لات اور عزیٰ کی پرستش کرتے تھے وادیوں کے نشیب میں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر اور خدا کی عبادت کریں ہم چھپ چھپا کر؟ ...... یہ نہیں ہو گا ..... خدا کی قسم ہم اللہ کی عبادت اعلانیہ خانہ کعبہ کے صحن میں کریں گے۔ (اس وقت تک مسلمان علانیہ مسجد حرام میں نماز ادا نہیں کرتے تھے)۔ حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری میں ابو جعفر بن ابی شیبہ کی تاریخ کے حوالہ سے ابن عباسؓ ہی کی روایت نقل کی ہے کہ حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کرنے کے فوراً بعد طے کیا کہ ہم ابھی چل کر اعلانیہ مسجد حرام میں نماز پڑھیں گے اور ایسا ہی کیا گیا ..... فتح الباری ہی میں ابن ابی شیبہ اور طبرانی کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن مسعود کا بیان نقل کیا گیا ہے۔ وَاللَّهِ مَا اسْتَطَعْنَا أَنْ نُصَلِّيَ حَوْلَ الْبَيْتِ ظَاهِرِينَ حَتَّى أَسْلَمَ عُمَرُ ترجمہ ..... خدا کی قسم عمر کے اسلام لانے سے پہلے ہماری طاقت نہ تھی کہ ہم بیت اللہ کے قریب میں علانیہ نماز پڑھ سکتے (عمر کے اسلام میں داخل ہونے کے بعد ہی ہمارے لئے یہ ہوا)۔ حافظ ابن حجرؒ نے حضرت عمر ؓ کی قبول اسلام کی بہت سی روایات مختلف صحابہ کرامؓ کی روایت سے حدیث کی مختلف کتابوں کے حوالوں سے نقل کی ہیں جن میں حضرتے عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت ابن عباسؓ، حضرت انسؓ، حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت ابن عمرؓ کے علاوہ حضرت علی مرتضیٰ بھی ہیں۔
(فتح الباری باب مناقب عمر پارہ نمبر ۱۴، ص ۳۷۳)
[معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2027]
بعض روایات میں تو خاص حضرت عمر کے مسلمان بنانے کی درخواست فرمائی.:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ : " اللَّهُمَّ أَعِزَّ الإِسْلامَ بِعُمَرَ " .
ترجمہ :
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی: اے ﷲ ! اسلام کو عمر بن خطاب کے ذریعے غلبہ عطا فرما۔
[مستدرک للحاکم » كِتَابُ مَعْرِفَةِ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ... » ذِكْرُ الرِّوَايَاتِ الصَّحِيحَةِ عَنِ الصَّحَابَةِ ... رقم الحديث: 4422]
حضرت عمرؓ کے لئے حضورؐ کی دعا:
عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " اللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ خَاصَّةً " .
ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! اسلام کو خاص طور سے عمر بن خطاب کے ذریعہ عزت و طاقت عطا فرما“۔
[سنن ابن ماجه » كِتَاب ابْنُ مَاجَهْ » أَبْوَابُ فِي فَضَائِلِ أَصَحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ... رقم الحديث: 105]تخريج الحديث
|
|
|
|
|
|
|
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لَمَّا أَسْلَمَ عُمَرُ ، نَزَلَ جِبْرِيلُ ، فَقَالَ : " يَا مُحَمَّدُ لَقَدِ اسْتَبْشَرَ أَهْلُ السَّمَاءِ بِإِسْلَامِ عُمَرَ " .
ترجمہ :
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت عمرؓ ایمان لائے تو حضرت جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کی، یا محمد ﷺ! یقیناً خوش ہوۓ ہیں آسمان والے حضرت عمرؓ کے ایمان لانے پر۔
تخريج الحديث
|
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ جب سے حضرت عمرؓ مسلمان ہوگئے اس وقت سے ہم مسلسل کامیاب ہوتے آرہے ہیں۔
(بخاری)
فضائلِ سیدنا عمرؓ ، قرآن میں:
أخرج البزار عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: لما أسلم عمر رضي الله عنه قال المشركون: قد انتصف القوم منا اليوم، وأنزل الله { يا أيها النبي حسبك الله ومن اتبعك من المؤمنين - الانفال:64}.
ترجمہ :حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت عمرؓ اسلام لائے تو مشرکین نے کہا، آج ہماری طاقت آدھی ہو گئی۔ اس وقت حضرت عمرؓ کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی: {اے نبی! کافی ہے تجھ کو اللہ اور جتنے تیرے ساتھ ہیں مسلمان - سورة الانفال :64}
تخريج الحديث
|
حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِيفَةَ ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، " وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ (سورة التحريم آية 4) ، قَالَ : عُمَرُ " .
ترجمہ :
حضرت سعید بن جبیر سے مروی ہے: وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ (سورة التحريم آية 4) ، فرمایا : (اس سے مراد خصوصاً) حضرت عمر ہیں."