|
|
تشریح:
دعوت اسلام کے ابتدائی زمانہ میں جب قریش مکہ نے داعی حق ﷺ اور حق کے نام لیواؤں کے خلاف ظالمانہ محاذ قائم کر رکھا تھا۔ اور اہل اسلام کو تشدد آمیز کار روائیوں کے ذریعے مجبور وہراساں کرتے تھے تو مکہ میں کوئی مسلمان علانیہ نماز نہیں پڑھ سکتا تھا۔ آنحضرت ﷺ دارارقم میں رہا کرتے تھے اور اسی مکان میں پوشیدہ طور پر اللہ کا نام لیا جاتا تھا، اللہ کی بندگی کی جاتی تھی اور اللہ کا رسول اللہ ﷺ کا دین زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی تدبیر میں لگا رہتا تھا۔ آنحضرت ﷺ جانتے تھے کہ زعماء قریش میں دو آدمی یعنی ابوجہل اور عمر اس حیثیت کے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی اسلام قبول کرکے ہمارے ساتھ آجائے تو اسلام جو آج قریش مکہ کے ظلم وستم کی وجہ سے دارارقم میں محدود ہو کر رہ گیا ہے اتنی طاقت پاجائے گا کہ مسلمانوں کو چھپ کر اللہ کا نام لینے اور اللہ کی عبادت کرنے پر مجبور نہیں ہونا پڑے گا، وہ علانیہ نماز پڑھنے لگیں گے اور کھلے طور اسلام کی دعوت پیش کرسکیں گے۔ چناچہ آپ ﷺ نے مذکورہ دعا کی یہ دعا کس طرح قبول ہوئی اور حضرت عمر کس طرح مشرف باسلام ہوئے اس کی تفصیل ایک روایت میں جس کو ابوحاکم عبداللہ نے دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ابوجہل نے اعلان کیا کہ جو شخص محمد ﷺ کو قتل کردے اس کو انعام میں اس سو اونٹنیاں اور ہزار چاندی میں دوں گا۔ عمر (یہ سن کر) بولے الضمان صحیح یعنی تاوان صحیح ہے! ابوجہل نے کہا ہان فورًا ادا کروں گا، ذرا بھی تاخیر نہیں ہوگی! عمر وہاں سے اٹھ کر چل پڑے۔ راستے میں اس ایک شخص مل گیا، اس نے پوچھا عمر! خیر تو ہے کہاں کے ارادے سے چلے؟ عمر نے جواب دیا، محمد ﷺ کی طرف جارہا ہوں، ارادہ ہے کہ آج ان کا کام تمام کردوں۔ اس شخص نے کہا کیا (محمد کے خاندان) بنی ہاشم (کے انتقام) کا کوئی خوف نہیں ہے؟ عمر بولے معلوم ہوتا ہے تم نے بھی اپنا دھرم تیاگ دیا (جبھی تو بن ہاشم کے انتقام سے ڈرا کر مجھے محمد کے قتل سے باز رکھنا چاہتے ہو) اس شخص نے کہا اس سے زیادہ حیرتناک بات تمہیں یہ بتاتا ہوں کہ تمہارے بہن اور بہنوئی نے اپنا پرانا مذہب چھوڑ دیا ہے اور محمد ﷺ کے ساتھ مل گئے ہیں (یہ سنتے ہیں) عمر اپنی بہن کے گھر کی طرف مڑ گئے، وہاں پہنچے تو اس وقت ان کی بہن گھر کے اندر قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول تھیں اور سورت طہ پڑھ رہی تھیں عمر نے کچھ دیر تو دروازے پر کھڑے ہو کر ان کو پڑھتے ہوئے سنا پھر دروازہ کھٹکھٹا یا جب اندر داخل ہوئے تو بہن کو دیکھتے ہی سوال کیا پڑھنے کی یہ آواز کیسی آرہی تھی؟ بہن نے ان کو پوری بات اور ان پر واضح کردیا کہ ہم صدق دل سے مسلمان ہوگئے ہیں (اب تم یا کوئی چاہے جتنی سختی کرے، جو دین ہم نے قبول کرلیا ہے اس سے دستبردار نہیں ہوں گے) عمر (کے لئے یہ صورت انتہائی پریشان کن اور اضطراب انگیز تھی، ایک طرف تو فوری اشتعال نے انہیں بیاہی بہن اور عزیزبہنوئی کو مارنے پیٹنے پر مجبور کردیا دوسری طرف خود ان کی زندگی میں آنے والا انقلاب ان کے دل و دماغ پر دستک دے رہا تھا، اس سخت) اضطرابی کیفیت میں رات بھر مبتلا رہے۔ ادھر رات میں ان کے بہن وبہنوئی (معمول کے مطابق) اٹھے اور عبادت الٰہی و تلاوت قرآن کریم میں پھر مشغول ہوگئے انہوں نے طہ ماانزلنا علیک القرآن لتشقی (طہ ہم نے آپ ﷺ پر قرآن مجید اس لئے نہیں اتار کہ آپ ﷺ تکلیف اٹھائیں) سے پڑھنا شروع کیا۔ (اب عمر سے رہا نہیں گیا، ایسا معلوم ہوا جیسے تلاوت قرآن کریم کی اس آواز نے ان کی روح کو آخری طور پر جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے) کلام اللہ ابدی صداقت ان کے دل و دماغ پر چھانے لگی، بڑی بےتابی کے ساتھ بولے لاؤ یہ کتاب مجھے دو ذرا میں بھی تو (پڑھ کر) دیکھوں۔ (بہن نے محسوس کرلیا کہ بھیا کا وہ سخت دل جس کو کفر وشرک نے پتھر بنادیا تھا، پگھل رہا ہے، خدائی پکار کی طرف متوجہ ہورہا ہے چناچہ انہوں نے کہا کہ ایسے نہیں، اس مقدس کتاب کو تو صرف پاکیزہ لوگ ہی چھوسکتے ہیں۔ عمر نے غسل کیا، پاک ہوئے اور کلام اللہ کو ہاتھ میں لے کر بیٹھ گئے جب طہ سے پڑھنا شروع کیا اور جب اس آیت (اَللّٰهُ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ لَهُ الْاَسْمَا ءُ الْحُسْنٰى) 20۔ طہ 8) (اللہ ایسا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اس کے اچھے اچھے نام ہیں) پر پہنچے تو بےاختیار بول اٹھے بار خدایا بلاشبہ تو ہی عبادت کا سزاوار ہے، تیرے علاوہ اور کوئی نہیں جس کو معبود بنایا جائے اشہد ان لاالہ الا اللہ واشہد وان محمد الرسول اللہ پھر وہ پوری رات انہوں نے اسی طرح جاگ کر گذاری کہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد واشوقاہ واشوقاہ کا نعرہ مارتے۔ جب صبح ہوئی تو خباب ابن ارت (جو اس گھر میں پہلے سے موجود اور عمر کے داخل ہوتے ہی کہیں چھپ گئے تھے، اب جو انہوں نے دیکھا کہ عمر کی دنیا ہی بدل چکی ہے، کفر وشرک کا اندھیرا چھٹ گیا ہے اور اسلام کی روشنی نے ان کے وجود کو جگمگا دیا ہے تو) عمر کے پاس آئے اور کہنے لگے عمر مبارک ہو اللہ نے تمہیں اپنے دین اسلام سے سرفراز کیا، شاید تمہیں معلوم نہیں کہ رسول کریم ﷺ نے پوری رات جاگ کر اس دعا میں گذاری تھی کہ الہٰی! ابوجہل یا عمر بن الخطاب کے ذریعے اسلام کو سربلند و غالب کردے! میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ یہ آنحضرت ﷺ کی دعا ہی تھی جو تمہارے قبول اسلام کا پیش خیمہ بنی ہے۔ اس کے بعد عمر تلوار گلے میں ڈال کر آنحضرت ﷺ کی قیام گاہ ( دارارقم) کی طرف روانہ ہوئے، وہاں پہنچے تو آنحضرت ﷺ نے بنفس نفیس باہر تشریف لا کر ان کا استقبال کیا اور دعوت اسلام پیش کی عمر! معبود ان باطل کو چھوڑ کر خدائے واحد کی چوکھٹ پر جھک جاؤ سرخروئی اسی میں ہے کہ اسلام قبول کرلو، ورنہ تم پر بھی دنیا وآخرت کی ذلت و رسوائی کا وہی عذاب نازل ہوگا جو ولید ابن مغیرہ پر نازل ہوا۔ عمر ( یہ پرُ جلال آواز رسالت سن کر) تھر تھر کانپنے لگے، لرزتے مونڈھوں اور تھر تھر اتے ہاتھوں سے تلوار گر پڑی بےساختہ زبان سے نکلا اشہد ان لا الہ الا اللہ وان محمد الرسول اللہ ﷺ اور پھر انہوں نے کہا جب ہم لات وعزیٰ کی پرستش کی پوجا پہاڑوں پر اور وادیوں میں (کھلم کھلا) کرتے تھے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ کی عبادت ہم ڈر چھپ کر کریں! انہیں، اللہ کی قسم آج کے بعد اللہ کی عبادت ہم چھپ کر ہرگز نہیں کریں گے۔ اس کے بعد عمر تمام مسلمانوں کو لے کر کعبہ اقدس میں پہنچے اور وہاں علی الاعلان نماز و عبادت ہوئی (اور اس طرح اللہ نے حضرت عمر کے ذریعے اسلام کو طاقت و شوکت عطا فرمائی )
|
|
|
|
|
|
|
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لَمَّا أَسْلَمَ عُمَرُ ، نَزَلَ جِبْرِيلُ ، فَقَالَ : " يَا مُحَمَّدُ لَقَدِ اسْتَبْشَرَ أَهْلُ السَّمَاءِ بِإِسْلَامِ عُمَرَ " .
|
|
حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِيفَةَ ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، " وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ (سورة التحريم آية 4) ، قَالَ : عُمَرُ " .
(2) لوگوں پر فضیلت:
عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ ، قَالَ : كُنْتُ أَرَى أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَفْضَلُ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ ، قُلْتُ : لَا وَاللَّهِ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ، إِنِّي لَمْ أَكُنْ أَرَى أَنَّ أَحَدًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْضَلُ مِنْكَ ، قَالَ : " أَفَلَا أُحَدِّثُكَ بِأَفْضَلِ النَّاسِ كَانَ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : قُلْتُ : بَلَى ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، فَقَالَ : أَفَلَا أُخْبِرُكَ بِخَيْرِ النَّاسِ كَانَ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ ؟ قُلْتُ : بَلَى ، قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ " .
السنة لعبد الله بن أحمد » سُئِلَ عَمَّنْ قَالَ : خَيْرُ هَذِهِ الأُمَّةِ بَعْدَ ... رقم الحديث: 1249
تاريخ دمشق لابن عساكر » حرف الضاد فارغ » حرف الخاء في آباء من اسمه عُمَر » عمر بن الْخَطَّاب بن نفيل بن عبد العزى بن رياح بن ... رقم الحديث: 46810
|
|
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ أَبْغَضَ عُمَرَ فَقَدْ أَبْغَضَنِي ، وَمَنْ أَحَبَّ عُمَرَ فَقَدْ أَحَبَّنِي ، وَإِنَّ اللَّهَ باهَى بِالنَّاسِ عَشِيَّةَ عَرَفَةَ عَامَّةً ، وباهَى بِعُمَرَ خَاصَّةً ، وَإِنَّهُ لَمْ يَبْعَثْ نَبِيًّا إِلا كَانَ فِي أَمَّتِهِ مُحَدَّثٌ ، وَإِنْ يَكُنْ فِي أُمَّتِي مِنْهُمْ أَحَدٌ فَهُوَ عُمَرُ " . قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، كَيْفَ مُحَدَّثٌ ؟ قَالَ : " تَتَكَلَّمُ الْمَلائِكَةُ عَلَى لِسَانِهِ " .
|
تشریح :
"وَاَوْحَیْنَآ اِلٰٓى اُمِّ مُوْسٰٓى اَنْ اَرْضِعِیْہِ"
ہم نے موسی کی ماں کی جانب وحی کی کہ دودھ پلاتی رہو۔
(القصص:۷)
یہ وحی باتفاق مفسرین الہام ہے:
"وَعَنْ اِبْنِ عَبَّاسٍ وَقَتَادَۃَ:أَنَّہٗ کَانَ اِلْھَامًا"
"بِإِلْھَامٍ أَوْرُؤْیَا"
اسی طرح حضرت مریم کے متعلق قرآن میں ارشاد ہے:
"وَاِذْ قَالَتِ الْمَلٰائکَۃُ یٰمَرْیَمُ"
جب فرشتوں نے کہا:اے مریم!۔
(آل عمران:۴۲)
فرشتوں کا حضرت مریم سے خطاب فرمانا الہام کے قبیل سے ہے ، یہ دولت اللہ تعالی نسبت والوں کو عطا فرماتے ہیں۔
موطا امام مالک میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد نقل کیا گیا ہے:
"اَنَا عُمَرَ وَلَمْ أَحْرِصْ عَلیٰ أَمْرِکُمْ لَکِنَّ الْمُتَوَفَیٰ أَوْصَیٰ بِذَالِکَ وَاللہُ اَلْھَمَہٗ ذٰلِکَ"
آپ کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ ہے کہ کسی معاملے میں آپ جو مشورہ دیتے یا رائے پیش کرتے ، قرآن کریم آپ کی رائے کے موافق نازل ہوتا۔
|
|
تشریحی ترجمہ :
تشریح:
|
|
محدثین فرماتے ہیں کہ ان تین اُمُور(باتوں) میں حَصْر(شمار-تخصیص) کی وجہ انکی شہرت ہے ورنہ موافقت کی تعداد اس سے زائد ہے۔ حضرت عمرؓ کا ارشاد گرامی ہے کہ میرے رب نے مجھ سے اکیس (٢١) باتوں میں موافقت فرمائی ہے۔ جن کا تذکرہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے "تاریخ الخلفاء" میں کیا ہے۔ ان امور کی تفصیل حسب ذیل ہے:-
====================
(4) (حق و باطل میں فرق کرنے والا) فاروق اعظم:
|
[صحيح أبي داود:2962، صحيح ابن ماجه:88، صحيح الجامع:1834 ]
پہلی حدیث حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت سے ہے اور دوسری حضرت ابو ذر غفاریؓ کی روایت سے، دونوں کا حاصل اور مدعا یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمرؓ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جن خاص انعامات سے نوازا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کے دل میں جو کچھ آتا ہے اور جو کچھ وہ زبان سے کہتے ہیں وہ حق ہی ہوتا ہے، وہ حق ہی سوچتے اور حق ہی بولتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان سے اجتہادی غلطی بھی نہیں ہوتی ....اجتہادی غلطی تو حضرات انبیاء علیہم السلام سے بھی ہو جاتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو مطلع کر کے اصلاح کرا دی جاتی ہے، حضرت عمرؓ سے بھی کبھی کبھی اجتہادی غلطی ہو جاتی تھی، لیکن حق واضح ہو جانے پر رجوع فرما لیتے تھے، رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بارے میں اور اسی طرح منکرین زکوٰۃ سے جہاد و قتال کے خلاف ان کی جو رائے تھی وہ ان کی اجتہادی غلطی ہی تھی، بعد میں حق واضح ہو جانے پر انہوں نے رجوع اور حضرت صدیق اکبرؓ کی رائے سے اتفاق فرما لیا، بہرحال اجتہادی غلطی کے اس طرح کے چند استثنائی واقعات کے علاوہ (جن میں حق واضح ہو جانے پر انہوں نے رجوع فرما لیا) انہوں نے جو سوچا سمجھا اور جو احکام جاری کئے وہ سب حق ہی تھے۔ بلاشبہ یہ ان پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی انعام تھا ..... آئندہ درج ہونے والی بعض حدیثوں سے ان شاء اللہ حضرت فاروق اعظمؓ کی اس خصوصیت اور فضیلت پر مزید روشنی پڑے گی۔
|
|
|
|
|
|
|
|
خلاصة حكم المحدث: حسن [الجامع الصغير (السيوطي) - الصفحة أو الرقم:3826]
|
تشریح:
حضرت فاروق اعظمؓ نے عبداللہ بن عباسؓ کو جواب دیتے ہوئے آخر میں جو یہ فرمایا کہ تم جو مجھے بےچینی اور بےقراری کی حالت میں دیکھ رہے ہو یہ زخم کی تکلیف کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ یہ اس فکر اور اندیشہ کی وجہ سے ہے کہ میرے بعد تم لوگ فتنوں میں مبتلا نہ ہو جاؤ ..... اس کی بنیاد یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا تھا کہ عمر فتنوں کے لئے بند دروازہ ہیں۔ جب تک وہ ہیں امت فتنوں سے محفوظ رہے گی، جب وہ نہ رہیں گے، تو فتنوں کے لئے دروازہ کھل جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ان کی شہادت کے بعد سے شیاطین الجن والانس کی طرف سے فتنوں کی تخم ریزی شروع ہوئی اور حضرت عثمانؓ کے آخری دور خلافت میں فتنہ اس حد تک پہنچ گیا کہ اپنے کو مسلمان کہنے والوں ہی کے ہاتھوں وہ انتہائی مظلومیت کے ساتھ شہید ہوئے اور اس کے بعد خانہ جنگی کا جو سلسلہ شروع ہوا اس میں ہزارہا صحابہ و تابعین شہید ہوئے۔ یہی وہ فتنے تھے جن کی فکر اور اندیشہ سے اپنے زخم کی تکلیف کو بھلا کر فاروق اعظم بےچین اور مضطرب تھے اور آخر میں جو فرمایا "وَاللَّهِ لَوْ أَنَّ لِي طِلاَعَ الأَرْضِ ذَهَبًا الخ" (خدا کی قسم اگر میرے پاس زمین بھر بھی سونا ہو تو میں اللہ کا عذاب دیکھنے سے پہلے ہی اس سے بچنے کے لئے وہ سارا سونا فدیہ میں دے دوں) اس کا مقصد حضرت ابن عباسؓ کو یہ بتلانا ہے کہ میں جو اضطراب اور بتےچینی محسوس کر رہا ہوں اس کا ایک دوسرا سبب جو زیادہ اہم ہے وہ عذاب الہی کا خوف بھی ہے ...... راقم سطور عرض کرتا ہے، فاروق اعظم کا یہ خوف ان کے کمال ایمان اور کمال معرفت کی دلیل ہے، جس کا ایمان اور عرفان جس قدر کامل ہو گا اس پر اسی قدر خوف خدا کا غلبہ ہو گا۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے "انا اعلمكم بالله واخشاكم" مجھے اللہ تعالیٰ کے بارے میں علم اور معرفت تم سب سے زیادہ، اور اس کا خوف ڈر بھی مجھے تم سب سے زیادہ ہے۔ قرآن مجید میں بار بار یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کی خاص رحمت اور جنت کے مستحق وہ بندے ہیں جو اس کے خوف سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں سورہ "بينة" میں مومنین صالحین کا یہ انجام بیان فرما کر کہ وہ "خىر البرية" (اللہ کی مخلوق میں سب سے بہتر) ہیں، وہ آخرت میں ان غیر فانی جنتی باغات میں رہیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، ان کو رضائے خداوندی کی نعمت حاصل ہو گی؟ اور وہ اپنے اس خداوند سے راضی ہوں گے، آخر میں فرمایا گیا ہے "ذَٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ" (یہ سب ان مومنین صالحین کے لئے ہے جو خداوند تعالیٰ سے (یعنی اس کی پکڑ اور اس کے عذاب سے) ڈرتے رہے ہیں) ..... الغرض حضرت فاروق اعظمؓ کا یہ ارشاد ان کے کمال ایمان اور کمال معرفت کی دلیل ہے۔ قریباں را بیش بود حیرانی۔ شہادت اس حدیث میں حضرت فاروق اعظمؓ کے جس زخمی کئے جانے کا ذکر ہے وہ وہی ہے، جس کے نتیجہ میں آپ کی شہادت ہوئی ..... مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اختصار کے ساتھ انتہائی المناک واقعہ کا ذکر کر دیا جائے۔ فاروق اعظمؓ کے دور خلافت میں ہی ایران فتح ہوا، ایران کے جو مجوسی جنگی قیدیوں کی حیثیت سے گرفتار کر کے لائے گئے وہ شرعی قانون کے مطابق مسلمانوں میں تقسیم کر دئیے گئے کہ ان سے غلام اور خادم کی حیثیت سے کام لیں اور ان کے کھانے پینے وغیرہ ضروریات زندگی کی کفالت کریں اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں ..... ایران سے آئے ہوئے ان اسیران جنت میں ایک بدبخت ابو لؤلؤ نامی مجوسی بھی تھا جو مشہور صحابی مغیرہ بن شعبہ کے حوالے کیا گیا تھا اس نے فاروق اعظم کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا ایک خنجر تیار کیا اور اس کو بار بار زہر میں بجھایا اور اس کے بعد رات میں مسجد شریف کے محراب میں چھپ کر بیٹھ گیا، فاروق اعظمؓ فجر کی نماز بہت سویرے اندھیرے میں شروع کرتے اور بڑی بڑی سورتیں پڑھتے تھے، ذی الحجہ کی ستائیسویں تاریخ تھی وہ حسب معمول فجر کی نماز کے لئے تشریف لائے اور محراب میں کھڑے ہو کر نماز پڑھانی شروع کر دی ابھی تکبیر تحریمہ ہی کہی تھی کہ اس خبیث ایرانی مجوسی نے اپنے خنجر سے تین کاری زخم آپ کے شکم مبارک پر لگائے، آپ بےہوش ہو کر گر گئے، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے جلدی سے آپ کی جگہ آ کر مختصر نماز پڑھائی، ابو لؤلؤ نے بھاگ کر مسجد سے نکل جانا چاہا نمازیوں کی صفیں دیواروں کی طرف حائل تھیں، پھر اس نے اور نمازیوں کو زخمی کر کے نکل جانا چاہا اس سلسلہ میں اس نے تیرہ صحابہ کرام کو زخمی کیا جن میں سے سات شہید ہو گئے اتنے میں نما زختم ہو گئی اور ابو لؤلؤ کو پکڑ لیا گیا، تو اس نے اسی خنجر سے خودکشی کر لی نماز ختم ہو جانے کے بعد حضرت فاروق اعظمؓ کو اٹھا کر گھر لایا گیا، تھوڑی دیر میں آپ کو ہوش آیا تو اسی حالت میں آپ نے نماز ادا کی ..... سب سے پہلے آپ نے پوچھا کہ میرا قاتل کون ہے بتلایا گیا کہ ابو لؤلؤ مجوسی آپ نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے ایک کافر کے ہاتھ سے شہادت عطا فرمائی۔ آپ کو یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا کو قبولیت اس طرح مقدر فرمائی۔ آپ دعا کرتے تھے کہ اے اللہ مجھے شہادت نصیب فرما اور میری موت تیرے رسول پاک ﷺ کے شہر مدینہ میں ہو۔ ایک دفعہ آپ کی صاحبزادی ام المؤمنین حضرت حفصہؓ نے آپ کی زبان سے یہ دعا سن کر عرض کیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ فی سبیل اللہ شہید ہوں اور آپ کی وفات مدینہ ہی میں ہو (ان کا خیال تھا کہ فی سبیل اللہ شہادت کی صورت تو یہی ہے کہ اللہ کا بندہ میدان جہاد میں کافروں کے ہاتھ سے شہید ہو) آپ نے فرمایا کہ اللہ قادر ہے اگر چاہے گا تو یہ دونوں نعمتیں مجھے نصیب فرما دے گا بہرحال آپ کو اپنی شہادت کا یقین ہو گیا، آپ نے حضرت صہیبؓ کو اپنی جگہ امام نماز مقرر کیا اور اکابر صحابہ سے چھ حضرات کو (جو سب عشری مبشرہ میں سے تھے) نامزد کیا کہ وہ میرے بعد تین دن کے اندر مشورہ سے اپنے ہی میں سے ایک کو خلیفہ مقرر کر لیں۔ پھر آپ نے اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن عمر سے فرمایا کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ کے پاس جاؤ اور میری طرف سے سلام کے بعد عرض کرو کہ میری دلی خواہش یہ ہے کہ میں اپنے دونوں بزرگ ساتھیوں (یعنی آنحضرت ﷺ اور صدیق اکبرؓ) کے ساتھ دفن کیا جاؤں، اگر آپ اس کے لئے دل سے راضی نہ ہوں تو پھر جنت البقیع میرے لئے بہتر ہے ..... انہوں نے ام المومنین کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ پیام پہنچایا انہوں نے فرمایا کہ وہ جگہ میں نے اپنے لئے رکھی تھی، لیکن اب میں اپنے اوپر ان کو ترجیح دیتی ہوں۔ جب عبداللہ بن عمرؓ نے آپ کو یہ خبر پہنچائی تو فرمایا کہ میری سب سے بڑی تمنا یہی تھی اللہ کا شکر ہے کہ اس نے یہ بھی پوری فرما دی۔ ۲۷؍ ذی الحجہ بروز چہار شنبہ آپ زخمی کئے گئے تھے یکم محرم بروز یکشنبہ وفات پائی جب آپ کا جنازہ نماز کے لئے رکھا گیا تو حضرت علی مرتضیٰؓ نے آپ کے بارے میں وہ فرمایا جو ناظرین کرام آگے فضائل شیخین میں درج ہونے والی حدیث میں پڑھیں گے۔ نماز جنازہ حضرت صہیبؓ نے پڑھائی اور روضہ اقدس میں حضرت ابو بکر صدیقؓ کے پہلو میں آپ دن کئے گئے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ۔
دف کا لفظ زیادہ صحیح تو دال کے پیش کے ساتھ (دف) ہے لیکن بعض روایتوں میں دال کے زبر کے ساتھ (دف) بھی منقول ہوا ہے اور دف سے مراد وہ گول باجا ہے جو چھلنی کی وضع کا اور ایک طرف سے منڈھا ہوا ہو اور اس میں جھانج نہ ہو۔ اگر تم نے واقعی منت مان رکھی ہے یہ جملہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس نذر (منت) کا پورا کرنا کہ جس میں اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل ہوتی ہو واجب ہے۔ آنحضرت ﷺ کی مراجعت پر اور خصوصا اس سفر جہاد سے باعافیت مراجعت پر کہ جس میں جانیں چلی جاتی ہیں، مسرت و شادمانی کا اظہار کرنا یقینا ایسی چیز تھی جس سے اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔ ورنہ ایسا مت کرنا اس سے ثابت ہوا کہ ویسے تو دف بجانا جائز نہیں ہے لیکن اس طرح کے مواقع پر جائز ہے جن میں شارع (علیہ السلام) کی اجازت منقول ہوئی ہے جیسے مذکورہ نوعیت کی نذر پوری کرنا یا نکاح کا اعلان کرنا۔ پس بعض علاقوں (جیسے یمن) کے بعض مشائخ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ حالت ذکر میں دف بجاتے تھے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں کیا جانا چاہئے۔ ان کا وہ فعل حدیث کے بالکل معارض تھا واضح رہے کہ ملا علی قاری نے اس حدیث کے جملہ اور گاؤں گی کے تحت جو کچھ لکھا ہے کہ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عورت کا ایسا گانا (یا ترانہ) سننا کہ (جو نہ ساز کے ساتھ ہو نہ فحش اور غیر اخلاقی مضامین پر مشتمل ہو اور) اس سے کسی چھوٹی یا بڑی برائی میں مبتلا ہونے کا خدشہ بھی نہ ہو جائز ہے اور اسی طرح بعض حضرات نے عرسوں اور عید وغیرہ (جیسی تقریبات اور خوشی ومسرت کے مواقع پر) اس کو جائز و مختار کہا ہے، لیکن یہ بات فقہ حنفی کی روایتوں کے خلاف ہے کیونکہ بحسب ظاہر روایت فقہاء مطلق راگ (گانا) حرام ہے جیسے کہ درمختار اور بحرالرائق وغیرہ میں لکھا ہے بلکہ ہدایہ میں تو اس کو گناہ کبیرہ لکھا ہے اگرچہ وہ راگ محض اپنا دل خوش کرنے کے لئے ہو۔ ان فقہاء کے نزدیک جواز کی حدیثیں منسوخ ہیں۔ تم سے تو شیطان بھی خوفزدہ رہتا ہے میں شیطان سے یا مراد سیاہ فام چھوکری تھی، جس نے ایک شیطانی کام کرکے شیطان الانس (انسانی شیطان) کا مصداق بن گئی تھی۔ یا وہ شیطان مراد ہے جو اس چھوکری پر مسلط تھا جس نے اس کو ایک غیر مناسب اور مکروہ فعل پر ابھارا تھا اور وہ مکروہ فعل دف بجانے اور گانے میں وہ حد سے زائد انہماک تھا جس نے اس کو تفریح طبع کے لئے لہو کی حد تک پہنچا دیا تھا۔ ایک اشکال اور اس کا جواب یہ تو حدیث کی اجزائی وضاحت تھی اس سے قطع نظر اگر حدیث کے مجموعی سیاق وسباق میں دیکھا جائے تو ذہن میں ایک اشکال ابھر تا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس چھوکری نے آپ ﷺ کے سامنے دف بجانے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے اجازت دے دی پھر اس نے دف بجانا شروع کیا تو آپ ﷺ خاموش رہے۔ نہ پسندیدگی کا اظہار کیا اور نہ ناگواری کا (گویا وہ صورت رہی جس کو اصطلاح حدیث میں تقریر کہا جاتا ہے) اور یہی صورت اس وقت بھی رہی جب حضرت ابوبکر آئے پھر حضرت علی آئے اور پھر عثمان آئے لیکن جب حضرت عمر آئے اور اس چھوکری نے دف بجانا بند کردیا تو آخر میں آپ ﷺ نے اس کو شیطان سے تعبیر کیا، آخر ایسا کیوں؟ اسی خلجان کی راہ روکنے کے لئے علماء نے لکھا ہے بات یہاں سے چلی کہ آنحضرت ﷺ سفر جہاد کو نکلے تو اس چھوکری نے انتہائی عقیدت و محبت کے تحت آپ ﷺ کی فتح و سلامتی کی دعا مانگی، جب آپ ﷺ فتح و سلامتی کے ساتھ واپس لائے تو اس چھوکری نے اس باعافیت مراجعت کو اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت سمجھا جو اس کے نزدیک یقینا شکرگزاری کا موجب بھی تھی اور اظہار خوشی ومسرت کی متقاضی بھی۔ اسی بناء پر آنحضرت ﷺ نے اس کو نذر پوری کرنے کی اجازت دے دی۔ پس اس کے ایک اچھی نیت اور اچھے جذبے پر مبنی ہونے کی وجہ سے اور آنحضرت ﷺ کی مخصوص اجازت کے تحت، یہ دف بجانا لہو کے حکم سے نکل کر حقانیت کے حکم میں اور کراہیت کی صورت سے نکل کر استحباب کی صورت میں داخل ہوگیا لیکن ایسا ہونا اس پر منحصر تھا کہ یہ عمل (دف بجانا) بہت محدود وقت اور اتنی کم سے کم حد تک رہتا جس سے ایفاء نذر کا مقصد پورا ہوجاتا۔ مگر ہوا یہ کہ اس چھوکری نے دف بجانا شروع کیا تو اتنی منہمک ہوئی کہ اس حد سے گذر گئی اور اس کا یہ عمل کراہت کے دائرہ میں داخل ہوگیا لیکن اتفاق سے جس وقت وہ حد سے متجاوز ہوئی عین اسی وقت حضرت عمر آگئے۔ پس آنحضرت ﷺ نے مذکورہ الفاظ ارشاد فرمائے۔ جن میں اس طرف اشارہ تھا کہ یہ کام بس اتنا ہی جائز ہے جتنے کی اجازت دی گئی ہے اس سے زیادہ ممنوع ہے اور بلاضرورت بجانا (یعنی محض تفریح اور شوق کی خاطر تو) اس کی بالکل اجازت نہیں ہے۔ رہی یہ بات کہ آپ ﷺ نے صریحا ً اس چھوکری کو منع کیوں نہیں فرمایا تو اس میں یہ نکتہ تھا کہ صریحاً منع کردینے سے حد تحریم کو پہنچ جاتا۔ اس احتمال کو بھی بعید از قیاس قرار نہیں دیا جاسکتا کہ اس زمانہ میں ضرورت کے تحت جتنی دیر تک دف بجایا جاتا تھا ارجو جواز کے دائرہ میں آتا تھا، بس اتنے ہی وقت کے برابر تھا جو اس چھوکری کے دف بجانے کی ابتداء سے مجلس نبوی میں حضرت عمر کی آمد کے وقت تک پر مشتمل تھا، چناچہ حضرت عمر کی آمد سے پہلے تک اس دف کا بجانا چونکہ جواز کی حد میں تھا اس لئے آنحضرت ﷺ نے اتنی دیر تک تو خاموشی اختیار کئے رکھی لیکن جوں ہی وقت جواز کی حد ختم ہوئی اور کراہت کی حدشروع ہوگئی حضرت عمر کی آمد اس چھوکری کے لئے بروقت تنبیہ ثابت ہوئی۔ کچھ تو اس احساس کے تحت کہ وہ آنحضرت ﷺ کے سامنے حد سے متجاوز ہورہی تھی اور کچھ حضرت عمر کی ہیبت سے اس چھوکری نے گھبرا کر دف کو اپنے کو لہوں کے نیچے چھپالیا۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ عمر! تم سے تو شیطان بھی اتنا خوفزدہ رہتا ہے کہ جدہر کو تمہارے قدم اٹھے ادھر سے وہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے اب اسی وقت شیطان اس لڑکی کو ورغلا رہا تھا اور چاہتا تھا کہ یہ اتنی دیر تک دف بجاتی رہے جس سے اس کا یہ فعل برائی کے دائرہ میں داخل ہوجائے مگر تمہارے آتے ہی شیطان بھاگ کھڑا ہوا اور اس چھوکری نے دف بجانا فورا روک دیا۔ ایک توجیہہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ دراصل حضرت عمر اس مباح چیز کو بھی پسند نہیں کرتے تھے جو برائی کے مشابہ ہو اگرچہ کسی جہت سے اس میں اچھائی ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی تائید متعد دروایتوں سے ہوتی ہے جن کو صاحب مرقاۃ نے نقل کیا ہے۔ پس دف کے مسئلہ میں اگرچہ ضرورت کے تحت جواز کی گنجائش نکلتی ہے اور اسی لئے آنحضرت ﷺ نے اس چھوکری کو اجازت دی کہ وہ اپنی نذر پوری کرنے کے لئے دف بجا لے مگر دف بجانا بہر حال ایک ممنوع چیز (باجا بجانے) کی صورت رکھتا ہے اس لئے حضرت عمر اس کو کیسے گوارا کرلیتے یہی بات جانتے ہوئے اس چھوکری نے حضرت عمر کو آتا دیکھ کر نہ صرف یہ کہ دف بجانا روک دیا بلکہ اس دف کو ان کی نظروں سے چھپالیا اور آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر کی اسی خصوصیت کے پیش نظر مذکورہ الفاظ ارشاد فرمائے۔
========================
خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
تاریخِ عالم نے ہزاروں جرنیل پیدا کیے، لیکن دنیا جہاں کے فاتحین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے طفلِ مکتب لگتے ہیں اور دنیا کے اہلِ انصاف سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عدل پروری کو دیکھ کر جی کھول کر اُن کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔
امیرِ شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری ؒ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ: ’’عمر( رضی اللہ عنہ ) مرادِ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم )ہے۔ ‘‘ یعنی دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مُریدِ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں اور عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ مرادِ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ ایک عالم نے کیا خوب کہا کہ: ’’عمرؓ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عطائے خداوندی تھے۔‘‘ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے علمائے اسلام ،حکمائے اسلام اور مستشرقین نے اپنے اپنے لفظوں میں بارگاہِ فاروقی میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے ہیں۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کاشمار مکہ مکرمہ کے چند پڑھے لکھوں میں ہوتاتھا، لیکن وہ بھی اسی عرب معاشرے کا حصہ تھے، جہاں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو قبل از نبوت صادق وامین کہا جاتا تھا اور بعد از اعلانِ نبوت نعوذ باللہ! ساحر ،شاعر،کاہن ،اور نجانے کیا کیا کہا گیا۔
اہلِ مکہ کے جبر وستم بہت بڑھ چکے تھے ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سرِعام تبلیغ تو درکنار‘ عبادت بھی نہیں کرسکتے تھے، چھپ کر دین اسلام کی تبلیغ وعبادت کی جاتی تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد اس وقت اُنتالیس تھی۔ ایک رات بیت اللہ کے سامنے عبادت کرتے ہوئے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردِگار سے عجیب دعا کی، مانگی بھی تو عجب شئے مانگی۔ کسی کے وہم وگمان میں نہیں تھا کہ دعا میں یہ بھی مانگا جاتا ہے، اسلام کی بڑھوتری کی دعا کی جاتی، اہلِ مکہ کے ایمان لانے کی دعا کی جاتی، دنیائے عالم میں اسلام کی اشاعت کی دعا کی جاتی یا اہل مکہ کے ظلم وستم کی بندش کے لیے ہاتھ اُٹھائے جاتے، لیکن میرے عظیم پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ: ’’اے اللہ! عمر وابن ہشام اور عمر بن خطاب میں سے کسی کو اسلام کی عزت کا ذریعہ بنا ۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں دو لوگوں کو نامزد کیا اور فیصلہ خدائے علام الغیوب پر چھوڑ دیا کہ اللہ ! ان دونوں میں سے جو تجھے پسند ہو وہ دے دے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاکو شرفِ قبولیت سے نوازا اور اسباب کی دنیا میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا سبب یہ بنا کہ ایک روز تیغِ برہنہ لیے جارہے تھے، راستہ میں بنو زہرہ سے تعلق رکھنے والا ایک شخص ملا، جس نے پوچھا کہ عمر! خیریت! کہاں کا ارادہ ہے؟ کہنے لگے: محمد کو قتل کرنے جارہاہوں ،اس نے نئے دین کااعلان کرکے مکہ والوں میں تفریق کردی ہے، کیوں نہ اس قصہ کو ہی ختم کردوں۔ بنو زہرہ سے تعلق رکھنے والے شخص نے کہا کہ: عمر! اگر تم نے ایسا کیا تو کیا ’’بنو ہاشم وبنو زہرہ ‘‘تم سے انتقام نہیں لیں گے؟ کہنے لگے: لگتا ہے کہ تم بھی اس نئے دین میں شامل ہوچکے ہو ،انہوںنے کہا کہ پھر پہلے اپنے گھر کی خبر تو لو، تمہاری بہن وبہنوئی مسلمان ہوچکے ہیں ۔
جلال میں نکلنے والا عمر سیدھا بہن کے گھر پہنچتا ہے، یہاں سیدنا خباب بن الارت رضی اللہ عنہ ان کے بہنوئی وبہن کو سورۂ طہٰ پڑھا رہے تھے، باہر سے آواز سنی اور دروازہ پر دستک دی، اندر سے پوچھاگیا کون؟ عمر! نام سنتے ہی سیدنا خباب ؓ چھپ گئے، عمر نے آتے ہی پوچھا: تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟ انہوں نے بات ٹالتے ہوئے کہا کہ: ہم آپس میں باتیں کررہے تھے، کہنے لگے: میں نے سنا ہے تم نئے دین میں شامل ہوگئے ہو؟ بہنوئی نے کہا کہ: عمر! وہ دین تیرے دین سے بہتر ہے، تو جس دین پر ہے یہ گمراہ راستہ ہے، بس سننا تھا کہ بہنوئی کو دے مارا زمین پر، بہن چھڑانے آئی تواتنی زور سے اس کے چہرے پر طمانچہ رسید کیا کہ ان کے چہرے سے خون نکل آیا، بہن کے چہرے پہ خون دیکھ کر غصہ ٹھنڈا ہوا اور بہنوئی کو چھوڑ کر الگ ہو بیٹھے اور کہنے لگے کہ: اچھا! لائو، دکھائو، تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟ بہن نے کہا کہ: تم ابھی اس کلام کے آداب سے ناواقف ہو، اس کلامِ مقدس کے آداب ہیں، پہلے تم وضو کرو، پھر دکھائوں گی، انہوںنے وضو کیا اور سورۂ طہٰ پڑھنی شروع کی، یہ پڑھتے جارہے تھے اور کلامِ الٰہی کی تاثیر قلب کو متاثر کیے جارہے تھی۔ خباب بن ارت رضی اللہ عنہ یہ منظر دیکھ کر باہر نکل آئے اور کہنے لگے: عمرؓ! کل رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہِ خداوندی میں دعا کی تھی کہ: ’’اللّٰھمّ أعزّ الإسلام بأحد الرجلین إمّا ابن ھشام وإمّا عمر بن الخطاب‘‘ اور ایک دوسری روایت میں الفاظ کچھ اس طرح سے ہیں کہ: ’’اللّٰھم أید الإسلام بأبي الحکم بن ھشام وبعمر بن الخطاب۔‘‘ اے اللہ ! عمر وبن ہشام یا عمر بن خطاب میں سے کسی کو اسلام کی عزت کا ذریعہ بنا، یا ان میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کی تائید فرما۔‘‘ اے عمر! میرے دل نے گواہی دی تھی کہ یہ دعا ئے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم عمر بن خطاب کے حق میں پوری ہوگی۔ اسی طرح کی ایک روایت سیدنا سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ: ’’کان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا رأی عمر بن الخطاب أو أبا جھل بن ھشام قال: اللّٰھم اشدد دینک بأحبّہما إلیک‘‘ یعنی جب کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر بن خطاب یا ابوجہل کو دیکھتے تو رب العزت کے حضور دستِ دعا دراز کرتے ہوئے فرماتے: اے اللہ! ان دونوں میں سے جو تیرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے، اس سے اپنے دین کو قوت عطا فرما۔ (طبقات ابن سعد)
سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے سیدناعمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ: اچھا! تو مجھے بتائو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں، انہوں نے بتایا کہ: صفاپہاڑی پر واقع ارقم رضی اللہ عنہ کے مکان میں قیام پذیر ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ چل پڑے، دَرّے پر مقیم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب دیکھا کہ عمر آرہا ہے اور ہاتھ میں ننگی تلوار ہے، تو گھبرائے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا، وہیں اسداللہ ورسولہ سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بھی تھے، وہ فرمانے لگے: آنے دو، اگر ارادہ نیک ہے تو خیر ہے اور اگر ارادہ صحیح نہیں تو میں اس کی تلوار سے اس کاکام تما م کردوں گا۔
جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر نزولِ وحی جاری تھا، چند لمحوں بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر ؓ سے فرمایا:’’ اے عمر! تم کس چیز کا انتظا رکررہے ہو؟ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم اسلام قبول کرو؟!۔‘‘ بس یہ سننا تھا کہ فوراًکلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ اصحابِ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کی خوشی میں اس زور سے نعرۂ تکبیر بلند کیا کہ صحنِ کعبہ میں بیٹھے ہوئے کفار ومشرکین نے بھی سنا اور اس نعرے کی آواز سے وادیِ مکہ گونج اُٹھی۔ پھر نبی رئوف ورحیم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سینۂ مبارک پر دستِ اقدس رکھا اور دعا فرمائی: اَللّٰھُمَّ اخْرُجْ مَافِيْ صَدْرِہٖ مِنْ غِلٍّ وَأَیِّدْ لَہٗ إِیْمَانًا۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’یا اللہ ۔!اس کے سینے میں جو کچھ میل کچیل ہو وہ دور کردے اور اس کے بدلے ایمان سے اس کا سینہ بھردے ۔‘‘ (مستدرک للحاکم) قبولِ اسلام کے وقت بعض مؤرخین کے نزدیک آپ کی عمر تیس سال تھی اور بعض کہتے ہیں کہ عمر چھبیس سال تھی۔مصر کے ایک بہت بڑے عالم مفسرِ قرآن جناب علامہ طنطناویؒ نے عجیب جملہ کہا ہے کہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ عمرؓ اسی گھڑی پیدا ہوئے اور یہیں سے ان کی تاریخی زندگی کا آغاز ہوا ۔‘‘
مفسرِ قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ’’قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم : لما أسلم أتاني جبرائیل، فقال: استبشر أھل السماء بإسلام عمرؓ ‘‘ یعنی حضور سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’جبرئیل ؑ میرے پاس آئے اور کہا کہ: آسمان والے عمر ؓ کے قبولِ اسلام پر خوشیاں منا رہے ہیں۔‘‘ (مستدرک للحاکم و طبقات ابن سعد)
چند ہی لمحوں بعدسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: اے اللہ کے نبی! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثبات میں جواب دیا، تو فرمانے لگے کہ: پھر چھپ کر عبادت کیوں کریں؟ چلیے خانہ کعبہ میں چل کر عبادت کرتے ہیں، میں قربان جائوں اپنے آقا ومولا صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ انہوں نے ایسے ہی عمر ؓ کو نہیںمانگا تھا، بلکہ دوررس نگاہِ نبوت دیکھ رہی تھی کہ اسلام کو عزت وشوکت عمرؓ کے آنے سے ہی نصیب ہوگی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دو صفوں میں تقسیم کیا: ایک صف کے آگے اسد اللہ ورسولہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ چل رہے تھے اور دوسری صف کے آگے مرادِ رسولؐ، پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عطائے خداوندی یعنی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ چل رہے تھے۔ مسلمان جب خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو کفارِ مکہ نے دیکھا، نظر پڑی حمزہ ؓ پر اور عمر ؓ پر تو بڑے غمگین ہوئے، لیکن کس میں جرأت تھی کہ کوئی بولتا؟! اس دن سے مسلمانوں کے لیے تبلیغِ دین میں آسانی پیدا ہوئی اور یہی وہ دن تھا جب اللہ کے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ: ’’إن اللّٰہ جعل الحق علٰی لسان عمرؓ وقلبہ وھو الفاروق فرّق اللّٰہ بہٖ بین الحق والباطل۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اللہ تعالیٰ نے سچ کو عمرؓ کے قلب ولسان پر جاری کردیا اور وہ فاروق ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ حق وباطل میں فرق کردیا ہے ۔‘‘ (طبقات ابن سعد)
جناب سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ’’واللّٰہ ما استطعنا أن نصلّي عندالکعبۃ ظاھرین حتٰی أسلم عمرؓ‘‘۔۔۔۔ ’’اللہ کی قسم ! ہم کعبہ کے پاس کھلے بندوں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے، یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے۔‘‘ (مستدرک للحاکم)
اسی طرح حضرت صہیب بن سنان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ:جب عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو اسلام کو غلبہ نصیب ہوا، اور ہم کھلے بندوں اسلام کی دعوت دینے لگے اور ہم حلقہ بنا کر بیت اللہ میں بیٹھتے تھے، ہم بیت اللہ کا طواف کرنے لگے اور اب ہم پر اگر کوئی زیادتی کرتا تو ہم اس سے بدلہ لیتے تھے ۔
کچھ اسی قسم کے تأثرات فقیہ الامت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بھی ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ: ’’عمرؓ کا اسلام قبول کرنا ہماری کھلی فتح تھی، اور عمر ؓکا ہجرت کرنا ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی نصرتِ خاص تھی ، اور آپ ؓ کی خلافت تو ہمارے لیے سراپا رحمت تھی، میں نے وہ دن بھی دیکھے ہیں جب ہم بیت اللہ کے قریب بھی نماز ادا نہیں کرسکتے تھے، لیکن جب عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو آپ ؓ نے کفار سے مقابلہ کیا، یہاں تک کہ وہ ہمیں نماز پڑھنے دینے لگے۔ (طبقات ابن سعد)
سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شانِ رفیعہ میں چند فرامینِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرتا ہوں ۔
۱:-نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:
’’اے ابن خطاب !اس ذات پاک کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، جس راستے پہ آپ کو چلتا ہواشیطان پالیتا ہے وہ اس راستہ سے ہٹ جاتا ہے، وہ راستہ چھوڑ کر دوسراراستہ اختیار کرتا ہے ۔‘‘ (صحیح بخاری)
۲:-صحیح بخاری میں روایت ہے کہ :’’حضور پاک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے حالتِ خواب میں دودھ پیا، یہاں تک کہ میں اس سے سیر ہوگیا اور اس کی سیرابی کے آثار میرے ناخنوں میں نمایاں ہونے لگے، پھر میں نے وہ دودھ عمرؓ کو دے دیا، اصحابِ رسولؓ نے پوچھا: یارسول اللہ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’علم‘‘۔
۳:-اسی طرح امام بخاری ؒنے ایک اور روایت بھی اپنی صحیح میںدرج کی ہے کہ :
’’ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: میں نیند میں تھا، میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ میرے سامنے پیش کیے جارہے ہیں اور انہوںنے قمیصیں پہنی ہوئی ہیں، کسی کی قمیص سینے تک اور کسی کی اس سے نیچے تک ،اور پھر عمرؓ کو پیش کیا گیا، انہوں نے ایسی لمبی وکھلی قمیص پہنی ہوئی تھی کہ وہ زمین پر گھسٹتی جارہی تھی ،اصحابِ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے عرض کیا کہ: یارسول اللہ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’دین ‘‘۔
۴:-اسی طرح بڑی ہی مشہور ومعروف حدیث نبوی ہے کہ :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا۔‘‘یعنی اگر سلسلۂ نبوت جاری رہتا تو سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی منصبِ نبوت سے سرفراز کیے جاتے ۔
۵:-ایک حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ :’’رسول مکرم ومعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: تم سے پہلے جو اُمم گزری ہیں ان میں مُحدَث ہوا کرتے تھے اور میری امت میں اگر کوئی مُحدَث ہے تو وہ عمرؓ ہے۔‘‘
اسی حدیث مبارکہ میں لفظ’’مُحدَث‘‘کی تشریح میںصاحب فتح الباری علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ یوں تحریر فرماتے ہیں کہ :
’’المُحْدَث المُلْھَم وھو من ألقي في روعہ شيء من قبل الملاء الأعلٰی ومن یجری الصواب علیٰ لسانہٖ بغیر قصد۔‘‘
یعنی ’’محدث وہ ہے جس کی طرف اللہ کی طرف سے الہام کیاجائے، ملاء اعلیٰ سے اس کے دل میں القاء کیا جائے اور بغیر کسی ارادہ وقصد کے جس کی زبان پر حق جاری کردیا جائے۔‘‘ یعنی اس کی زبان سے حق بات ہی نکلے ۔
۶:-ایک بار سیدنا عمر رضی اللہ عنہ شفیع اعظم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عمرہ کی اجازت طلب کی تو نبی مکرم ومعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یا أخي أشرکنا في صالح دعاء ک ولا تنسنا‘‘ ۔۔۔ ’’اے میرے بھائی ! اپنی نیک دعائوں میں ہمیں بھی شریک کرنا اور بھول نہ جانا۔‘‘
۷:-سلسلۂ احادیث سے آخری حدیث پیش کرتا ہوں کہ یہ سلسلہ بہت دراز ہے اور دامنِ صفحات میں جگہ کم ،بخاری شریف میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ :’’ ایک دفعہ حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم اُحد کے پہاڑ پر تشریف لے گئے، ہمراہ ابوبکر ؓ ،عمرؓ اور عثمان ؓ بھی تھے، اُحد کاپہاڑ لرزنے لگا توحضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا قدم مبارک اُحد پر مارتے ہوئے فرمایا: ’’اے اُحد! ٹھہر جا، تجھ پر اس وقت نبی، صدیق اور شہید کے علاوہ اور کوئی نہیں۔‘‘اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ: ’’اللّٰھم ارزقني شھادۃ في سبیلک وموتا في بلد حبیبک‘‘ ۔۔۔ ’’اے اللہ! مجھے اپنی راہ میں شہادت کی موت دینا اور موت آئے تو تیرے حبیب( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے شہر میں آئے ۔‘‘
آخری ایامِ حیات میں آپؓ نے خواب دیکھا کہ ایک سرخ مرغ نے آپؓ کے شکم مبارک میں تین چونچیں ماریں، آپؓ نے یہ خواب لوگوں سے بیان کیا اور فرمایا کہ میری موت کا وقت قریب ہے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ ایک روز اپنے معمول کے مطابق بہت سویرے نماز کے لیے مسجد میں تشریف لے گئے، اس وقت ایک درّہ آپ کے ہاتھ میں ہوتا تھا اور سونے والے کو اپنے درّہ سے جگاتے تھے، مسجد میں پہنچ کر نمازیوں کی صفیں درست کرنے کا حکم دیتے، اس کے بعد نماز شروع فرماتے اور نماز میں بڑی بڑی سورتیں پڑھتے۔ اس روز بھی آپؓ نے ایساہی کیا، نماز ویسے ہی آپؓ نے شروع کی تھی، صرف تکبیر تحریمہ کہنے پائے تھے کہ ایک مجوسی کافر ابو لؤلؤ (فیروز) جو حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کا غلام تھا، ایک زہر آلود خنجر لیے ہوئے مسجد کی محراب میں چھپا ہوا بیٹھا تھا، اس نے آپؓ کے شکم مبارک میں تین زخم کاری اس خنجر سے لگائے، آپؓ بے ہوش ہوکر گر گئے اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر بجائے آپؓ کی امامت کے مختصر نماز پڑھ کر سلام پھیرا، ابولؤلؤ نے چاہا کہ کسی طرح مسجد سے باہر نکل کر بھاگ جائے، مگر نمازیوں کی صفیں مثل دیوار کے حائل تھیں، اس سے نکل جاناآسان نہ تھا، اس نے اور صحابیوںؓ کو بھی زخمی کرنا شروع کردیا، تیرہ صحابی زخمی ،جن میں سے سات جاں بر نہ ہوسکے، اتنے میں نماز ختم ہوگئی اور ابولؤلؤ پکڑ لیا گیا، جب اس نے دیکھا کہ میں گرفتار ہوگیا تو اسی خنجر سے اس نے اپنے آپ کو ہلاک کردیا ۔ (خلفائے راشدینؓ ،از لکھنویؒ)
بالآخر آپ کی دعائے شہادت کو حق تعالیٰ نے قبول فرمایا اور دیارِ حبیب صلی اللہ علیہ وسلم میں بلکہ مُصلائے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر آپ کو ۲۷ ذو الحجہ بروز چہار شنبہ (بدھ) زخمی کیا گیا اور یکم محرم بروز یک شنبہ (اتوار) آپ رضی اللہ عنہ نے شہادت پائی۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک تریسٹھ برس تھی ،حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور خاص روضۂ نبویؐ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں آپ ؓ کی قبر بنائی گئی۔ رضي اللّٰہ تعالٰی عنہ وأرضاہ
امیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓ کی بے مثال حکمرانی اور عظیم شہادت
عادل حکمران
سیدنا عمر ؓ نے اپنے دور خلافت میں عد ل و انصاف کی بہترین مثال قائم فرمائی ،اور عادل حکمران بن کر تعلیمات ِعدل کو دنیا میں پھیلادیا،مساوات و برابری ،اور حقوق کی ادائیگی کا حد درجہ اہتمام فرمایا۔ ابن عباسؒسے مروی ہے کہ : تم عمرؓ کا ذکر کیا کرو،کیوں کہ جب تم عمر کو یاد کرو گے تو عدل و انصاف یاد آئے گا اور عدل وانصاف کی وجہ سے تم اللہ کو یاد کروگے۔( اسدالغابہ :۴/ ۱۵۳ دار الکتب العلمیہ بیروت) ایک مرتبہ قیصر نے اپنا ایک قاصد حضرت عمر ؓ کے پاس بھیجا تاکہ احوال کا جائزہ لے اور نظام و انتظام کا مشاہد ہ کرے ،جب وہ مدینہ منورہ آیا تو اس کو کوئی شاہی محل نظر نہیں آیا ،اس نے لوگوں سے معلوم کیا کہ تمہارا بادشاہ کہاں ہے ؟صحابہ نے کہا کہ ہمارا کوئی بادشا ہ نہیں ہے ،البتہ ہمارے امیرہیں جو اس وقت مدینہ سے باہر گئے ہوئے ہیں ،قاصد تلاش کرتے ہوئے اس مقام پر آگیا جہاں امیر المؤمنین سیدنا عمر ؓدھوپ کی گرمی میں سخت ریت پر اپنے درہ کو تکیہ بنائے آرام فرمارہے تھے، پسینہ آپ کی پیشا نی سے ٹپک رہا تھا ،جب اس نے دیکھا تو سیدنا عمر ؓکا جاہ وجلال او ررعب سے وہ گھبراگیا اس نے کہاکہ ؛اے عمر ! واقعی تو عادل حکمران ہے ،اسی لیے تو آرام سے بغیر کسی پہرہ اور حفاظتی انتظامات کے تنہا خوف اور ڈر کے بغیر آرام کررہا ہے،اور ہمارے بادشاہ ظلم کرتے ہیں اس لیے خوف و ہراس ان پر چھایا رہتا ہے۔میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرا دین حق ہے ،میں اگر قاصد بن کر نہیں آتا تو مسلمان ہوجا تا ،لیکن میں جاکر اسلام قبول کروں گا۔( اخبار عمرؓ لعلی الطنطاوی:ـ۳۲۷)
زہد و سادگی
اللہ تعالی نے آپ کو جو بلند مقام ومرتبہ عطافرمایا تھا اور آپ کی حکمرانی کے چرچے طول وعرض میں پھیل چکے تھے لیکن اس کے باوجود بھی تواضع و سادگی اور زہد و تقوی میں غیر معمولی اضافہ ہی ہوتا گیا ،آپ ہر وقت اسی فکر میں رہتے کہ نبی کریم ﷺ نے جس حال میں چھوڑا اسی پر پوری زندگی گذرجائے ،عمدہ کھانوں ،بہترین غذاؤں اور اسبابِ تنعم سے ہمیشہ گریز ہی کیا کرتے تھے۔ایک مرتبہ اہل بصرہ کا ایک وفد حضرت عمرؓ کے پاس آیا ،ان لوگوں کے لیے روزانہ تین روٹیوں کا انتظام ہوتا، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے کبھی بطور سالن کے روغن زیتون پایا ،کبھی گھی ،کبھی دودھ ،،کبھی خشک کیا ہوا گوشت جو باریک کرکے ابال لیا جاتا تھا ،کبھی تازہ گوشت اور یہ کم ہوتا تھا۔انھوں نے ایک روز ہم سے کہا کہ اے قوم ! میں اپنے کھانے کے متعلق تم لوگوں کی ناگواری وناپسندیدگی محسوس کرتا ہوں ،اگر میں چاہوں تو تم سب سے اچھا کھانے والا،تم سب سے اچھی زندگی بسر کرنے والا ہوجاؤں میں بھی سینے اور کوہان کے سالن اور باریک روٹیوں کے مزے سے ناواقف نہیں ہوں؛لیکن میں نے اللہ تعالی کا یہ فرمان سن رکھاہے کہ : اذھبتم طیباتکم فی حیاتکم الدنیا واستمتعم بھا۔( طبقات ابن سعد:۲/۵۸)لباس و پوشاک میں بھی اسی طرح کی سادگی آپ نے اختیارکی جو ہر ایک کے لیے نہایت حیرت انگیز اور ایمان افروزہے۔حضرت حسن ؒ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ خطبہ دے رہے تھے اور آپ کے جسم پر جو لباس تھا اس میں بارہ پیوند لگے ہوئے تھے ( مناقب امیر المؤمنین عمربن الخطاب ؓلابن الجوزی:۱۳۱) اس طرح بے شمار واقعات آپ کی سیرت میں موجود ہیں۔
راتوں کو گشت
حضرت عمر ؓ نے حکمرانی کرنے اور نظام سلطنت کو چلانے کا بے مثال انداز دیا ہے ،ایک حاکم کی کیا فکریں ہونی چاہیے اور رعایا کی خبر گیری کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کرناچاہیے اس کو بہتر طور پر آپ نے پیش کیا اور بتایا کہ جس کے دل میں خوف ِخدا،اور آخرت کا احساس ہوتا ہے تو پھر وہ تخت اور حکومت کے ملنے کے بعد اپنی عوام کی فکروں سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔چناں چہ حضرت عمرؓ کا معمول تھا کہ آپ راتوں کو گلیوں میں گشت کرتے ،جب لوگ آرام وراحت کے لیے گھروں میں چلے جاتے آپ حالات سے آگہی حاصل کرنے اور پریشان حالوں کی پریشانیوں سے واقف ہونے کے لیے باضابطہ چکر لگاتے ،اور جوکوئی مصیبت زدہ ملتا ،پریشان حال نظر آتا، مسافر یا اجنبی غم کا شکار دکھائی دیتا تو خلیفہ وقت خاموشی سے کام انجام دے جاتے اور احساس تک ہونے نہیں دیتے کہ یہ وہی عمر جس کی عظمت کے ڈنکے عالم میں بج رہے ہیں۔ایک رات آپ گشت کررہے تھے کہ مدینہ کے تین میل فاصلہ پر مقام حراء پہنچے،دیکھا کہ ایک عورت پکارہی ہے اور دوتین بچے رورہے ہیں ،پاس جاکر حقیقت حال دریافت کی ،اس نے کہا بچے بھوک سے تڑپ رہے ہیں ان کو بہلانے کو خالی ہانڈی چڑھادی ہے ،حضرت عمر اسی وقت مدینہ آئے ،آٹا ،گھی ،گوشت اور کھجوریں لے کر نکلے ،ساتھ آپ کا غلام اسلم بھی تھا اس نے کہا کہ میں لیے چلتا ہوں ،مجھے دیدیجئے۔آپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن میرا بوجھ تم نہیں اٹھا ؤ گے۔پھر آپ خود ہی سامان لے کر اس عورت کے پاس آئے،اس نے کھانا پکانے کا انتظام کیا،حضرت عمر خود چولہا پھونکتے تھے ،کھانا تیار ہواتو بچے خوشی خوشی اچھلنے لگے ،حضرت عمر دیکھتے تھے اور خوش ہوتے تھے۔( خلفائے راشدین :۱۲۷)رات میں گشت کے دوران آپ نے بے شمار پریشانوں کی امداد کی اور آپ کا مقصد بھی یہی تھا کہ تنہائیوں میں ناجانے کتنے لوگ پریشانی سے دوچا ر ہوں گے تو ا ن کے کام آیا جائے ،اس سلسلہ میں بہت واقعات ہیں جس سے آپ کی ہمدردی اور فکرمندی اور رعایا کی خبر گیری کا جذبات نمایاں نظر آتے ہیں۔
ضرورت مندوں کی خدمت
حضرت عمر ؓ کے خدمت خلق کا انداز بھی بڑا نرالا تھا ،گلیوں میں گشت لگاتے ہی تھے ،نظام خلافت ایسا بنایا تھا کہ کوئی ضرورت مند محروم نہ رہنے پائے ،حکام اور عمال بھی ایسے متعین فرمائے تھے جو ہروقت راحت رسانی کی فکر میں کوشاں رہتے ،ساتھ میں خود امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقؓ بھی ضرورت مندوں کی حاجت پوری کرنے میں لگے رہتے ،بلکہ آپ کی زندگی پوری انسانیت کی خدمت میں گذری ،اسی میںآپ کو مزہ آتا اور دل کو سکون و راحت نصیب ہوتی۔حضرت طلحہؓ فرماتے ہیں کہ ایک تاریک رات میں میں نے حضرت عمر ؓکو دیکھا کہ ایک گھر میں داخل ہوگئے ،اس کے بعد دوسرے گھر میں داخل ہوئے ،صبح میں نے اس مکان میں داخل ہو کر دیکھا کہ ایک نابینا بوڑھی بیٹھی ہے،میں نے اس بوڑھی سے پوچھا کہ وہ کون تھے تجھے معلوم ہے ؟اس نے کہا کہ وہ اسی طرح میرے پاس آکر میری ضروریا ت کو پوری کرکے چلے جاتے ہیںاورصفا ئی ستھرائی کر کے واپس ہوجاتے ہیں۔میں نے کہا کہ وہ تو عمرؓ ہیں۔( مناقب عمر بن الخطاب:۶۸)ایک رات آپ مدینہ کے ایک راستے سے گذررہے تھے تو دیکھا کہ ایک خیمہ لگاہوا نظر آیا جو کل نہیںتھا ،اس کے باہر ایک بدوی بیٹھا ہوا ہے اور اندر سے رونے کی آواز آرہی ہے۔حضرت عمر ؓفوری اس کے قریب گئے ،حال دریافت کیا، رونے کا سبب معلوم کیا ،اس نے کہا کہ میری بیوی دردزہ میں مبتلا ہے اور کوئی خاتون نہیں جو اس مشکل وقت میں میر ی مدد کرسکے۔حضرت عمرؓ گھر تشریف لائے اہلیہ محترمہ حضرت ام کلثوم ؓ سے فرمایا کہ اللہ تعالی نے آج تمہیں نیکی کمانے کا ایک موقع دیا ہے، کیا تم اس سے فائدہ اٹھاؤ گی؟بیوی نے کہا کہ ضرور آپ بتلائیے! کیا کام ہے ؟آپ نے فرمایا کہ ایک اجنبی عورت دردزہ میں مبتلا ہے اس کے پاس کوئی عورت نہیں لہذا تم جلدی سے ضرورت کاسامان لے کر میرے ساتھ چلو،حضرت ام کلثوم آپ کے ساتھ نکل گئی ،حضرت عمر نے ہانڈی خود اٹھالی ،خیمہ آتے وہ اندر چلے گئی ،باہر آپ نے آگ جلا کر ہانڈی چڑھادی ،کچھ دیر بعد اندر سے آواز آئی کہ امیر المؤمنین !اپنے دوست کو بیٹے کی خوشخبری سنادیجئے۔جیسے اس دیہاتی نے امیر المؤمنین کا لفظ سنا تو گھبرا گیا،آپ نے فرمایا کہ گھبراؤ نہیں، اطمینان رکھو،پھر جو کھانا تیار ہوا تھا اندر دے دیا کہ اس خاتون کو کھلایا جائے ،اس کے بعد آپ نے اس بدوی سے کہا کہ تم بھی کھالو بہت دیر سے بھوکے ہو اور یہ کہہ کر رخصت ہوگئے کہ صبح آجاؤ،بچے کا روزینہ مقرر ہوجائے گا۔(اخبار عمرؓ:۳۴۶بیروت)سیدنا عمرؓ کی مبارک زندگی میں اس طرح کے کئی واقعات ہیں کہ آپ نے خاموشی کے ساتھ لوگوں کی مدد کی ،پریشان حالوں کی خدمت کی اور محتاجوں کی ضروریات کی تکمیل فرمائی۔
غلاموں کے ساتھ حسن سلوک
سیدنا عمرؓ جس طرح اپنی رعایا اور دوسرے افراد کی راحت رسانی کی فکر میں رہتے اور ان کی خدمت کرنے میں پیش پیش رہتے اسی طرح آپ خادموں اور غلاموں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے کہ غلام و آقا ،مالک و مملوک کا فرق نہیں ہوتا اور ان کو آرام پہنچانے میں آگے رہتے ،حضرت عمرؓ جن کی عظمت سے باطل کے دل لزرتے اور بدن کانپتے تھے وہ اتنے رحم دل اور خیر خواہ تھے کہ ان کی رحم دلی اور خیر خواہی سے غلام بھی سکون و اطمینان محسوس کرتے تھے۔حضرت عمر ؓ جب حج کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لائے تو صفوان بن امیہؓ نے دعوت دی ،اور کھانا ایسے بڑے برتن میں لایاگیا جس کو چا ر آدمی اٹھا سکتے تھے ،خادموں نے کھانا لاکر رکھ دیا اور واپس ہونے لگے ،حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ تم لوگ ہمارے ساتھ نہیں کھاؤ گے تو ان خادموں نے کہا کہ نہیں ہم بعد میں کھا لیں گے۔یہ بات سن آپ سخت ناراض ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ : اللہ تعالی لوگوں پر رحم کرے یہ ابھی تک طبقات میں بٹے ہوئے ہیں ؟پھر خدام کو حکم دیا کہ بیٹھ جاؤ چناںچہ سب نے کھانا کھا یا۔( سیدنا عمر فاروق کی زندگی کے سنہرے واقعات:۸۷)آپ نے عیسائی اور غیر مسلم خادموں اور غلاموں کے ساتھ بھی حسن سلوک اور خیر خواہی کا معاملہ فرمایا اور ان کی راحت کا پورا اہتمام فرمایا۔
جانوروں پر رحم
حضرت عمر فاروق ؓ دین کے معاملہ میں جتنے سخت اور مضبوط تھے ،رہن سہن کے لحاظ اور حقوق کی ادائیگی کے اعتبار سے اتنے ہی نرم اور رحم دل تھے ،ذمہ داری کو پورا کرنے ،اور انسانیت کی فلاح و بہبودی کے لیے تڑپنے والے تھے ،آپ کی رحم دلی اور خیر خواہی انسانوں کے علاو ہ جانوروں پر بھی تھی، جانوروں پر زیادہ بوجھ ڈالنا ،ان کو غیر ضروری استعمال کرنا،ان کے چارہ کا صحیح انتظام نہ کرنا آپ کو بہت ہی ناگوار گذرتا،اور کسی ایک جانور کا بھی مالک کی بے جا زیادتیوں کا شکار رہنا بھی آپ کو رنج و غم میں مبتلا کردیتا تھا ،خو ف و خشیت اور احساس ذمہ داری کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ فرمایا کہ:اگر بکری کا کوئی بچہ فرات کے کنارے مرگیاتو اللہ تعالی قیامت کے دن عمر سے سوال کرے گا۔ (مناقب عمرؓ: ۱۵۳)احنف بن قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم عمرؓ کو ایک بڑی فتح کی خو ش خبری دینے حاضر ہوئے، آپ نے پوچھا کہ تمہارا قیام کہا ہے؟ہم جگہ بتائی آپ ہمارے ساتھ اس مقام پر آئے اور ہماری سواریوں کے قریب آکر ان کو دیکھنے لگے،پھر فرمایا کہ کیا تم اپنی سواریوں کے بارے میں اللہ سے نہیںڈرتے؟تم جانتے ہو کہ ان کا بھی تمہارے اوپر حق ہے؟ان کو کھلا کیوں نہیں چھوڑدیا تاکہ یہ زمین پر چل پھر سکیں۔( سیدنا عمرکی زندگی کے سنہرے واقعات:۲۱۷)ایک مرتبہ آپ نے مچھلی کھانے کی خواہش ظاہر فرمائی ،آپ کے غلام یرفأ نے لمبا سفر کرکے مچھلی حاضر کی اور آکر اپنی سواری کا پسینہ پوچھنے لگا ،حضرت عمر نے دیکھ کر فرمایا کہ عمر کی خواہش پوری کرنے میں ایک جانور کو اس قدر تکلیف اٹھانی پڑے۔اللہ کی قسم !عمر اسے نہیں چکھے گا۔( حوالۂ سابق:۲۱۱)یہ حالت ہے اس عظیم المرتبت انسان کی اور اس بے مثال شخصیت کی کہ جو دین کے معاملہ میں شمشیر بے نیام ہوجا تی،اور حق کے سلسلہ میں آہنی تلوار لیکن مخلو ق کا مسئلہ ہو تا یا انسانوں کی بھلائی اور جانوروں کی خیر خواہی کا سوال تو پھر اپنے آپ کو اس درجہ مٹادیتے کہ دنیا والے ان کی اداؤں پر آج بھی رشک کرتے ہیں ،اللہ تعالی نے ان حضرات کو کچھ اس انداز میں تیار فرما یا تھا کہ دنیا ہر دور میں ان سے سبق سیکھے اور راہِ عمل کو استوار کرے۔
بیت المال کا استحکام
آپ نے خدمت خلق کے میدان میں جو اہم کام انجام دیئے اس میں نظام بیت المال کا استحکام بھی ہے ،حضرت ابوبکر ؓ نے اپنی خلافت میں جو بیت المال قائم فرمایا تھا ،حضرت عمر نے اس کے نظام کو مضبوط و مستحکم فرمایا اور اصول وضابطوں کے ساتھ اس کو جاری کیا ،اپنی اولاد کے مال و دولت کو اس میں لگا دیا اور خود سادگی کی زندگی گذاردی۔مولاناشاہ معین الدین ندویؒ رقم طراز ہیں کہ: ابن سعد کی ایک روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے ایک مکان بیت المال کے لیے خاص کرلیاتھا لیکن وہ ہمیشہ بند پڑا رہتا تھا اور اس میں کچھ داخل کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی تھی ،چناں چہ وفات کے وقت بیت المال کا جائزہ لیا گیا تو صرف ایک درہم نکلا۔حضرت عمر نے تقریباً ۱۵ھ میں ایک مستقل خزانہ کی ضرورت محسوس کی اور مجلس شوری کی منظوری کے بعد مدینہ منور میں بہت بڑا خرانہ قائم کیا، دارالخلافہ کے علاوہ تمام اضلاع اور صوبہ جات میں بھی اس کی شاخیں قائم کی گئیں اور ہر جگہ اس محکمہ کے افسرجداگانہ مقرر ہوئے۔صوبہ جات اور اضلاع کے بیت المال جس قدر رقم جمع ہوجاتی تھی وہ وہاں کے سالانہ مصارف کے بعداختتامِ سال صدر خزانہ یعنی مدینہ منور کے بیت الما ل میں منتقل کردی جاتی تھی ،صدر بیت المال کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ دار الخلافہ کے باشندوں کی جو تنخواہیں اور وظائف مقرر تھے صرف اس کی تعداد سالانہ تین کروڑدرہم تھی۔( خلفائے راشدین:۹۰)
سانحۂ شہادت
حضرت عمر فاروق ؓ نے دعا مانگی تھی کہ اے اللہ مجھے تیرے راستے میں موت آئے اورتیرے نبی ﷺ کا شہر نصیب ہو۔اللہ تعالی نے آپ کی دعا کو قبول فرمایا اور اس کا عجیب انتظام فرما۔حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کا ایک مجوسی غلام فیروز نامی تھا،اس نے ایک مرتبہ اپنے مالک حضرت مغیرہ کی شکایت کی کہ وہ مجھ سے زیادہ محصول طلب کرتے ہیں ،حضرت عمر ؓ نے اس بے جا شکایت پر کوئی توجہ نہیں دی ،اس نے غیض و غضب میں ایک تیز خنجر تیار کیا اور نمازِ فجر میں چھپ کر آکربیٹھ گیا،جب حضرت عمر ؓ نے تکبیرکہی، اس نے اس زورسے تین وار کیے جس سے امیر المؤمنین سیدناعمر فاروقؓ گر پڑے ،موت و حیات کی اس کشمکش میں حضرت عبد الرحمن بن عوف کو نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھایا ،نماز مکمل ہوئی تو آپ نے صحابہ کو کہا کہ قاتل کا پتہ لگاؤ کہ کس نے مارا ،ابولؤلؤ نے تقریبا تیرہ صحابہ کو زخمی کردیا اور جب وہ بالکل گرفت میں آچکا تو از خود خنجر مار کر ہلاک ہوگیا،حضرت عمرؓ کو ۲۶/ذی الحجہ۲۳ھ کو خنجرمارا گیااوریکم محرم الحرام ۲۴ھ کو شہادت عظمی کا سانحہ پیش آیااورتدفین عمل میں آئی ،آپ کی خلافت دس سال پانچ مہینے اکیس دن رہی۔(طبقات ابن سعد:۲/۱۲۳)آپ کی خواہش تھی کہ آپ کو اپنے دورفیقوں کے پہلو میں جگہ ملے ،حضرت عائشہ نے امیر المؤمنین کی اس تمنا کو پورا کیا اور حجرہ میں تدفین کی اجازت دی۔
حضرت عمرؓ
مناقب عمر ِفاروق رضی اللہ عنہ از مصادر شیعہ
نام ونسب :
عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزّٰی بن ریاح بن عبد اللہ بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوّیٰ بن فہربن مالک۔(كتاب المعارف، ابن قتيبةالدِّينَوري، ص : 179)
آپ کا لقب فاروق، کنیت ابو حفص، لقب و کنیت دونوں محمدﷺ کے عطا کردہ ہیں۔ آپ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم ﷺ سے جا ملتا ہے۔ آپ ﷺکی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ ﷺمرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ عمر عدی کی اولاد میں سے ہیں۔( الفاروق از شبلی نعمانی) حضرت عمر کاخاندان ایام جاہلیت سے نہایت ممتاز تھا، آپ کے جدا علیٰ عدی عرب کے باہمی منازعات میں ثالث مقرر ہواکرتے تھے اورقریش کو کسی قبیلہ کے ساتھ کوئی ملکی معاملہ پیش آجاتا تو سفیر بن کر جایا کرتے تھے(، الاستيعاب، ج 3، ص 145)
ولادت:
شیعہ مجتہد ملا باقر مجلسی لکھتے ہیں :
ولد عمر فی مكة بعد عام الفيل بثلاثة عشرة سنة
یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں عام الفیل کے تیرہ سال بعد پیدا ہوئے۔(بحار الأنوار ج31 ، ص:116)
كنيت:
حضرت عمر کی کنیت أبو حفص اور آپ کے والد کا نام الخطاب بن نُفَيل جوخاندان قریش سے تعلق رکھتے تھے ، (الإصابة، ج 4، ص 484)
والدہ :
والدہ کا نام خنتمہ تھا جو عرب کے مشہور سردار ہشام بن مغیرہ کی بیٹی تھیں ( الإصابة، ج 4، ص: 484)
حضرت عمر كا قبول اسلام
قریش کے سربرآوردہ اشخاص میں ابو جہل اورعمر اور بہادری میں سب سے مشہور تھے، اس لیےنبی کریم ﷺ نے خصوصیت کے ساتھ ان ہی دونوں کے لیے اسلام کی دعا فرمائی :
اللَّهمَّ أعزَّ الإسلامَ بأحبِّ هذينِ الرَّجُلَيْنِ إليكَ بأبي جَهْلٍ أو بعُمرَ بنِ الخطَّابِ قالَ: وَكانَ أحبَّهما إليهِ عمرُ
حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی : اے اﷲ! تو ابو جہل یا عمر بن خطاب دونوں میں سے اپنے ایک پسندیدہ بندے کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور عزت عطا فرما۔ راوی کہتے ہیں کہ ان دونوں میں اللہ کو محبوب حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے ۔(صحيح الترمذي: 3681) وأحمد (5696)
اس دعائے مستجاب کا اثریہ ہوا کہ کچھ دنوں کے بعد عمرکا دامن دولت ایمان سے بھر گیااوراسلام کا یہ سب سے بڑا دشمن اس کا سب سے بڑا دوست اور سب سے بڑا جاں نثار بن گیا۔
ملا باقرمجلسی نے بھی اپنی کتاب میں محمد باقر سے اس دعا کی روایت نقل کی ہے۔ ’’دیکھئے ! (بحارالانوار‘‘ ج 4کتاب السماء والعالم)۔
مشہور شیعہ مؤرخ مسعودی لکھتے ہیں :
اعتنق عمر للإسلام بعد إسلام 45 رجلا و11 امرأة، في سنة 6 أو 9 للبعثة النبوية.
یعنی حضرت عمرؓ نے نبوت کے چھٹے یا نویں سال اسلام قبول کیا، آپؓ سے پہلے 45 مرد اور 11 خواتین اسلام قبول کرچکی تھیں۔ ( مروج الذهب، ج 1، ص 299؛ الطبقات لابن سعد ، ج 4، ص 269؛ تاريخ الأمم والملوك،للطبری ج 3، ص: 270)
صحیح بخاری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانےکے واقعہ کے بیان میں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے یہ الفاظ موجود ہیں:”حضرت عمرؓ مسلمان ہوئے تو ایک ہنگامہ برپاہوگیا، مشرکین بکثرت ان کے مکان پرجمع ہو گئے اورکہنے لگے صبا عمر، عمر بے دین ہو گئے، حضرت عمرؓ خوف زدہ گھر کے اندر تھے اور میں مکان کی چھت پرتھا۔” (صحیح بخاری اسلام عمر ؓ)
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد آپ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ بنے۔ تقریباً 11 سالہ دور حکومت میں حضرت عمر نے اسلامی سلطنت کا دائرہ 22 لاکھ مربع میل تک پھیلادیا۔ آپ کے دور حکومت میں ہی پہلی بار مسلمانوں نے بغیر لڑائی کے یروشلم کو فتح کیا۔( الدولة العربية الإسلامية الأولى، دكتور عصام شبارو ،ص: 279 )
دین اسلام کا غلبہ اسلام ِ عمر ؓ میں
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے دینِ اسلام ایک نیے دور میں داخل ہوا ، اگرچہ حضرت عمرؓ سے قبل عرب کے مشہور بہادر حضرت امیر حمزہ ؓ بھی مسلمان ہوچکے تھے مگر مسلمان اپنے فرائضِ مذہبی اعلانیہ طور پر ادا نہیں کر سکتے تھے ، اسلام ِعمر ؓ کے بعد حالات یکسر بدل گئے اور مسلمانوں نے بیت اللہ میں جاکر نماز ادا کی ۔
چنانچہ شیعہ مجتہد اپنی کتاب ’’غزوات حیدری‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ جب دروازہ کھلا تو عمر ؓ بصد عذر خواہی خدمتِ رسالت پناہی میں حاضر ہوا ۔ حضرت نے بعد از تلقینِ مراتب ِاسلام اُس کو مرحباً کہا ، اور باعزاز پاس اپنے بٹھایا ،تب حضرت عمرؓ نے عرض کی ، یا نبی اللہ ! اب ہم کو اجازت دیجئے اور بے تکلف فرمایئے تاکہ حرمِ محترم میں جاکر آشکارا نماز پڑھیں اور اطاعت الہی بجماعت بجا لاویں ۔ ہرگاہ اصحابِ فضیلت انتساب نے جماعت پر اتفاق کیا ۔ محبوب ایزد خلّاق نے بھی شاداں وفرحاں طرف سجدہ گاہ آفاق کے قدم رنجہ فرمایا اور آگے سب کے عمرؓ تیغِ بکمر بجماعت وافر اور پیچھے اصحاب بصد کرّ وفرّ ہنستے اور باتیں کرتے بے خطر داخلِ خانہ وارد ہوئے ۔ یکبار جدارِ حرم نے بصد افتخار سر اپنا بعرش کود گار پہنچایا، کفار نا ہنجار نے جس وقت یہ حال دیکھا اور جاہ وجلال یاورانِ نیک افعال کا اس مرتبہ مشاہدہ کیا اور اس خود سر نے عمرؓ کے آگے کہا کہ ’’ اے عمر ؓ یہ کیا فتنہ دگر ہے اور اس گروہ پُرشکوہ میں کیوں تیغ بکمر ہے ؟ عمر ؓ نے یہ بات سن کر پہلے اپنا اسلام ظاہر کیا اور بصد طیش کہا : ’’ اے نابکار، ہفوت شعار، اگر تم میں سے ایک نے بھی اس وقت اپنی جگہ سے حرکت کی یا کوئی بات بے جا زبان پر آئی ، بخدا لایزال ایک کا سر بھی بدن پر نہ ہوگا ‘‘ پس دلاورانِ دین، اصحاب سید المرسلین مسجد میں آئے اور صف اسلام کو نبیت ِاقتداء جماکر برابر کھڑے ہوگئے ۔ خطیب مسجد اقصیٰ حبیب ِ کبریاﷺ نے قصدِ امامت کیا اور واسطے نیت ِنماز کے دست تا بگوش پہنچایا ۔
نبی گفت تکبیر چوں در حرم
فتادند اصنام بر رُ وئے ہم
اور اہلِ شریر ہر چند دیکھتے تھے لیکن کسی کو مجالِ مقاومت نہ تھی ‘‘ ( غزوات ِ حیدری، ص: 42 وقائع دوم )
مناقب عمر رضی اللہ عنہ از مصادر شیعہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مدح
جناب حضرت علی رضی اللہ عنہ جناب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی تعریف کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں :
لِلهِ بِلَاد فُلَانٍ ، فَقَدْ قَوَّمَ الْأَوَدَ، وَدَاوَي الْعَمَدَ ، وَأَقَامَ السُّنَّةَ وَخَلَّفَ الْفِتْنَةَ، ذَهَبَ نَقِيَّ الثَّوْبِ ، قَلِيلَ الْعَيْبِ ، أَصَابَ خَيْرَهَا وَسَبَقَ شَرَّهَا ، أَدَّي إِلَي اللهِ طَاعَتَهُ وَاتَّقَاهُ بِحَقِّهِ.
“فلاں آدمی تعریف کے مستحق ہےکہ اس نے ٹیڑے پن کو سیدھاکیا۔مرض کو دور کردیا ، فتنہ کو پیچھے چھوڑ دیا ، سنت کوقائم کیا، بہت کم عیوب والا تھا ، پاک دامن رخصت ہوا ، شر سے اجتناب کیا ، خیر کو پا لیا ، اللہ کی اطاعت کا حق ادا کر دیا ، اس کے حق کو ادا کرنے میں ہمیشہ تقوی سے کام لیا۔ ( نہج البلاغۃ ، تحقیق محمد عبدہ ، ج2 ص: 322 )
نہج البلاغہ کے شارح ابن ابی الحدید کہتے ہیں :
’’وفلان المكنّى عنه ، عمر بن الخطاب، وقد وجدت النسخة التي بخّط الرضي أبي الحسن جامع نهج البلاغة وتحت فلان: عمر، وسألت عنه النقيب أبا جعفر يحيى ابن زيد العلوي، فقال لي: هو عمر، فقلت له : أثنى عليه أمير المؤمنين ؟ فقال: نعم).
یعنی یہاں فلاں آدمی سے مراد عمر بن خطاب ہیں ، مجھے رضی ابو الحسن کے ہاتھوں کا لکھا ہوا نہج البلاغہ کا نسخہ مل گیا ، اس میں فلاں کے تحت عمرؓ لکھا ہوا تھا۔ میں نے اس کے بارے میں ابو جعفر یحیٰ بن ابی زید علوی سے پوچھا تو اس نے مجھ سے کہا : فلاں سے مراد عمر ؓ ہیں ، میں نے پوچھا : پھر تو امیر المؤمنین نے عمر کی تعریف کی ہے ؟ تو انہوں نے کہا:جی ہاں : امیر المؤمنین نے عمرؓ کی تعریف کی ہے ‘‘ ۔ (شرح نهج البلاغة – ابن أبي الحديد – ج ١٢ ، ص: ٣)
حضرت عمر ؓکو غزوۂ روم میں شریک نہ ہونے کا مشورہ
حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ حضرت فاروق اعظم ؓ کو اسلام کی قرار گاہ ، مرکز اور مسلمانوں کی جائے پناہ سمجھتے تھے ، چنانچہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ غزوہ روم میں جانے کے لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا تو آپ ؓ نے حضرت عمر ؓ کے اوصاف حمیدہ کا تزکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
إنك متى تسر إلى هذا العدو بنفسك، فتلقهم فتنكب، لا تكن للمسلمين كانفة دون أقصى بلادهم. ليس بعدك مرجع يرجعون إليه، فابعث إليهم رجلاً محرباً، واحفز معه أهل البلاء والنصيحة، فإن أظهر الله فذاك ما تحب، وإن تكن الأخرى، كنت ردأ للناس ومثابة للمسلمين”
اگر آپ بنفس نفیس دشمن كی طرف چلے گئے تو آپ اپنے مركز سے دور ہو جائیں گے ۔ مسلمانوں كے دوسرے شہرون كا محافط ونگہبان كوئی نہیں رہے گا ، آپ كے بعد كوئی نہیں جس كی طرف مسلمان جائیں ، آپ دشمن كی طرف كسی اور جنگجو كو قائد بناكر بهیج دیجیئے ۔ ان كے ساتھ شجاع اور نصیحت قبول كرنے والواں كو روانہ كر دیجئے ، اگر الله نے انہیں غلبہ دیا تو یهی آپ كی منشا ہے ، بصورت، دیگر آپ لوگوں كو سہارا دینے والے اور مسلمانوں كی جائے پناه ہوں گے ۔ (نهج البلاغة،تحقيق صبحي صالح، ص:193).
حضرت عمر ؓکوجنگ فارس میں نہ جانے کا مشورہ
جنگ فارس میں جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خود لڑائی میں جانے کے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ فرماتے ہوئے روک دیا :
وعندما استشاره عمر بن الخطاب رضي الله عنه في الشخوص لقتال الفرس بنفسه، قال الإمام علي عليه السلام: «إن هذا الأمر لم يكن نصره ولا خذلانه بكثرة ولا قلة، وهو دين الله الذي أظهره، وجنده الذي أعده وأمده، حتى بلغ ما بلغ، وطلع حيث طلع، ونحن على موعود من الله، والله منجز وعده وناصر جنده، والعرب اليوم -وإن كانوا قليلاً، فهم- كثيرون بالإسلام، وعزيزون بالاجتماع، فكن قطباً، واستدر الرّحى بالعرب، وأصلهم دونك نار الحرب، فإنك إن شخصت – أي خرجت – من هذه الأرض انتقضت عليك العرب من أطرافها وأقطارها، حتى يكون ما تدع وراءك من العورات أهمّ إليك مما بين يديك. إن الأعاجم إن ينظروا إليك غداً يقولوا: هذا أصل العرب فإذا قطعتموه استرحتم، فيكون ذلك أشد لكَلَبِهم عليك، وطمعهم فيك»
ایسے امور میں فتح وشکست کا دار ومدار قلت وکثرت پر نہیں ہوتا ۔ یہ اللہ کا دین ہے ، اسی نے اسے غالب کیا ہے ، یہ اللہ کا لشکر ہے ، اسی نے اسے آمادہ وتیار کر لیا ہے ، جو پہنچ چکا سو پہنچ چکا ، جو ظاہر ہوچکا سو ظاہر ہوچکا ، ہمارے ساتھ اللہ کا وعدہ ہے ، اللہ تعالٰ اپنا وعدہ پورا کرنے والا ہے ، وہی اپنے لشکر کو کامرانی بخشنے والا ہے ، نگران کا کام موتیوں کی لڑی جیسا ہے جو سب موتیوں کو پرو لیتی اور جمع رکھتی ہے ۔ اگر لڑی ٹوٹ جائے تو موتی بکھر جاتے ہیں ( یعنی قوموں کا نظم وضبط تباہ ہوجاتا ہے ) پھر ان سب کبھی ایک رُخ پر جمع نہیں کیا جاسکتا ، آج عرب اگرچہ تھوڑے ہیں لیکن اسلام کی برکت سے بہت ہیں ، آج سب عرب اجتماع چاہتے ہیں ،آپ قائد بنیں ، عرب کو اپنے گرد جمع کر لیں ، جنگ کی آگ میں دوسروں کو جانے دیں ، اگر آپ نے یہ جگہ چھوڑ دی تو عرب کے اطراف واکناف میں بغاوتیں اٹھ کھڑی ہوں گی ۔ آپ اپنے پیچھے جن خطرات کو چھوڑ کر جائیں گے وہ پیش آمدہ خطرہ سے زیادہ زیادہ اہم اور توجہ کے قابل ہیں ۔ کل جب عجمی آپ کو دیکھیں گے تو کہیں گے : یہی عرب کی بنیاد اور جڑ ہے ۔ اگر تم اسے کاٹ ڈالو تو آرام پا جاؤگے ، وہ سب جمع ہوکر آپ پر ٹوٹ پڑیں گے ،آپ کے درپے ہو جائیں گے ، باقی آپ نے جو ذکر کیا ہے کہ دشمن مسلمانوں سے جنگ وقتال کے لیے نکل پڑا ہے ۔(نهج البلاغةج2 ، ص:320- 321).
خلاصہ
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی کو حضرت عمر ؓکی زندگی نہایت عزیز تھی ، اس لیے ایسے نازک موقع پر آپ ؓ نے صائب مشورہ دیا ، کیونکہ کوئی بھی نا مناسب مشورہ مسلمانوں کے لیے بڑی مصیبت کا باعث ہو سکتا تھا ، مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے امانت سمجھ کر دیانت داری کے ساتھ مسلمانوں کے مفاد عامہ کے مطابق مشورہ دیا ۔
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کا حضرت عمرؓ کی مدح
اہلِ بیت کے مشہور ترین اور ممتاز فرد، نبی علیہ السلام کے چچا زاد بھائی، حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما آپ رضی اللہ عنہ کی مدح و ثنا کرتے ہوئے کہتے ہیں:
رحم الله أبا حفص كان والله حليف الإسلام، ومأوى الأيتام، ومنتهى الإحسان، ومحل الإيمان، وكهف الضعفاء، ومعقل الحنفاء، وقام بحق الله صابراً محتسباً حتى أوضح الدين، وفتح البلاد، وآمن العباد”
’’اللہ ابو حفص (حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے والد، عمررضی اللہ عنہ) پر رحم کرے، اللہ کی قسم وہ اسلام کے حلیف تھے، یتیموں کی جائے قرار تھے، احسان کرنا آپ پر ختم تھا، صاحب ایمان تھے، کمزوروں کی جائے پناہ اور موحدین کا سہارا تھے، آپ نے اللہ کے حق کو صبر اور ذمہ داری سے پورا کیا ، حتی کہ دین نکھر گیا، ممالک فتح کرلیے گئے اور بندوں کو امن نصیب ہوا۔‘‘ (مروج الذهب،ج3 ، ص: 51، وناسخ التواريخ، ج 2 ص:144، ط إيران).
امت کے افضل ترین لوگ
شیعہ کی ایک مشہور کتاب میں حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان منقول ہے:
إن خير هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر وعمر
کہ اس امت میں نبی ﷺ کے بعد بہترین لوگ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں۔(كتاب الشافي، ج2 ص: 428).
کوڑوں کی سزا
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ کے منبر پر لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا:
لو أوتي برجل يفضلني على أبي بكر وعمر إلا جلدته حد المفتري
اگر میرے پاس کوئی ایسا شخص لایا گیا جو مجھے ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس پر حد قذف لاگو کروں گا۔(بحار الأنوار 10/344 ، رجال الكشي:393 ، عيون أخبار الرضا، 2/187 )
ابوبکرؓ میری سماعت اور عمرؓ میری بصارت
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
إن أبا بكر مني بمنزلة السمع، وإن عمر مني بمنزلة البصر
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ابو بکررضی اللہ عنہ کا درجہ میرے نزدیک ایسا ہے کہ گویا یہ میری سماعت ہیں اور عمر رضی اللہ عنہ کا درجہ میرے ہاں ایسا ہے کہ گویا میری بصارت ہیں۔(عيون أخبار الرضا، لابن بابويه القمي، ج1 ص:313 ، ومعاني الأخبار، للقمي ص:110 )
ابوبکر ؓ وعمر سے بغض رکھنا کفر ہے
مشہور شیعہ محقق وعالم ابو عمرو محمد بن عبد العزیز الکشی بیان کرتے ہیں :
’’ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے کہا : مجھے سفیان ثوری محمد بن المنکدر کے حوالے سے یہ روایت بیان کی کہ حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ میں منبر پر کھڑے ہوکرفرمایا: اگر میرے پاس ایسا شخص لایا گیا جو مجھے ابوبکر ؓ اور عمرؓ پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور سزا دوں گا جو بہتان لگانے والے کو دی جاتی ہے ، ابو عبد اللہ نے کہا : ہمیں مزید حدیث بیان کریں ، تو سفیان نے جعفر کے حوالے سے بیان کیا : ابوبکر ؓاور عمر ؓسے محبت رکھنا ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔( رجال الکشی ، ص: 338 طبع مؤسسة الأعلمی ، کربلا )۔
حضرت عمر رضی الله عنہ كو كن وجوہات كی بنا پر فضیلت ہے
ساتویں ہجری کے معروف بزرگ شیخ ابن أبی الحدید لکھتے ہیں :
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : حضرت عمر ؓکو جن وجوہات کی بنا پر لوگوں پر فضیلت حاصل ہے ، ان میں سےایک سبب یہ ہے کہ قرآن کریم نے بدر کے قیدیوں کے بارے میں حضرت عمر ؓکی رائے کی توثیق ان کلمات میں فرمائی :
مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ
سورۃ الانفال – 67
کسی نبی کے لیے یہ لائق نہیں کہ اس کے قبضہ میں قیدی ہوں حتی کہ وہ زمین میں ( کافروں کا ) اچھی طرح خون بہا دے ‘‘ ۔
ان کی فضیلت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ازواج کے حجاب کے متعلق ان کی رائے کے موافق یہ آیت نازل ہوئی :
وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ
الاحزاب – 53
اور جب تم نبی ﷺ کی ازواج سے کوئی سامان مانگو تو پردے کے پیچھےسے مانگو، ایسا کرنے سے تمہارے اور ان کے دل زیادہ پاکیزہ رہیں گے۔
ان کی فضیلت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان کے اسلام لانے کی دعا کی : اے اللہ ! ابن ہشام یا عمر بن خطاب میں سے کسی ایک کے ذریعہ اسلام کو غلبہ عطا فرما ‘‘ ( شرح نہج البلاغة ، ج 12 ، ص: 57، 58)
چنانچہ رسول اللہ ﷺکی اسی دعا ئے مستجاب کی برکت سے حضرت عمر ؓ ایمان لائے ، اسی لیے آپ ؓ کو مراد ِ رسول ﷺ کہا جاتاہے ۔
شارح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ : فلاں شخص سے حضرت عمر ؓکی ذات مرادہے( شرح نہج البلاغة، ج 12 ، ص: 3 )
نہج البلاغہ کے اردو مترجم رئیس احمد جعفری کہتے ہیں کہ یہ خطبہ حضرت عمر کے متعلق ہے ( نہج البلاغہ مترجم اردو ، ص: 541 )
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی گواہی
مِسور بن مخرمہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر ؓ قاتلانہ حملے میں زخمی ہوئے تو وہ بہت بے قرار تھے ،حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے کہا : امیر المؤمنین پریشانی والی کوئی بات نہیں ، آپؓ رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہے ، آپؓ نے نبی ﷺ کی صحبت اچھی طرح نبھائی ، پھر رسول اللہ ﷺ رضاندی کی حالت میں آپؓ سے رخصت ہوئے ، پھر آپ حضرت ابوبکر ؓکی صحبت میں رہے اور آپؓ نے ان کی صحبت اچھی طرح نبھائی ، وہ بھی آپؓ سے راضی ہوکر رخصت ہوئے ، پھر آپ مسلمانوں کے ساتھ رہے ، آپ نے ان کا اچھا ساتھ نبھایااور اب آپ ان سے اس حال میں رخصت ہو رہے ہیں کہ وہ آپ سے راضی ہیں ۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: آپ نے رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کی صحبت کا ذکر کیا ہے ، یہ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر احسان ہے کہ ، جو آپ میری بے قراری دیکھ رہے ہیں تو بخدا اگر میرے پاس تمام روئے زمین کے برابر سونا ہوتاتو میں اس کو اللہ کے عذاب سے بچنے کے لیے دے دیتا ‘‘ ایک روایت میں ہے : حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے فرمایا: امیر المؤمنین آپ کیوں گھبراتے ہیں ، بخدا آپ کا اسلام لانا مسلمانوں کا غلبہ تھا ، آپ کی حکمت مسلمانوں کی فتح تھی ، آپ نے روئے زمین کو عدل سے بھر دیا ۔ حضرت عمرؓ نے کہا : ابن عباس ! کیا تم اس کی گواہی دیتے ہو ؟ حضرت ابن عباس نے توقف کیا تو حضرت علی ؓ نے فرمایا: کہو ہاں ! میں بھی تمہارے ساتھ گواہی دیتا ہوں ، پھر انہوں نے فرمایا: ہاں! میں گواہی دیتا ہوں ۔ (شرح نہج البلاغہ ، لابن أبی الحدید ، ج12 ، ص: 191 ، 192 )
عمر رضی اللہ عنہ محبوب شخصیت
شیعہ حضرات کےامام محمد بن باقر بیان كرتے ہیں كہ حضرت جابر بن عبد الله ؓنے بیان كیا ؛
لما غسل عمر وكفن دخل علي عليه السلام فقال: ما على الأرض أحد أحب إلي أن ألقى الله بصحيفته من هذا المسجى(أي المكفون) بين أظهركم
جب شہادت كے بعد حضرت عمر ؓ كو غسل دے كر كفن پہنایا گیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور فرمانے لگے : ان پر الله تعالیٰ كی رحمت ہو ، میرے نزدیك تم میں سے كوئی شخص ان سے زیاده محبوب نہیں كہ میں ان جیسا نامہ اعمال لے كر بارگاه الہی میں حاضر ہوں۔ (کتاب الشافي، لعلم الهدى ص:171، وتلخيص الشافي للطوسي ج2 ص428 ط إيران، ومعاني الأخبار للصدوق، ص: 117 ط إيران)
الہامی اور پاکیزہ نفس والے شخص
علامہ باقر مجلسی نے اپنی کتاب میں حضرت ابوبکر و عمر کی تعریف میں امیر المومنین علیہ السلام کے ارشادات کی چند مثالیں نقل کی ہیں ، لکھتے ہیں :
«فاستخلف الناس أبابكر ثم استخلف أبوبكر عمر، فأحسنا السيرة و عدلا في الأمة … »
یعنی لوگوں نے ابوبکرؓ کو جانشین مقرر کیا، پھر ابوبکرؓ نے عمرؓ کو جانشین بنایا، چنانچہ ان دونوں نے امت کے اندر عمدہ اخلاق کا نمونہ پش کیا اور عدل وانصاف قائم کیا۔ (بحار الأنوار، ج32، ص456)
و قال أیضا: «فتولی ابوبکر تلک الأمور ، و سدّد و یسّر ، و قارب و اقتصد … و تولی عمر الأمر فکان مرضی السیرة میمون النقیبة».
امیر المؤمنین نے یہ بھی فرمایا کہ پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے تمام امور اپنی نگرانی میں لے لیے اور سب امور آسانی، درستگی، میانہ روی اور عمدہ طریقے پر سرانجام دینے لگے، پھر عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے ، آپ پسندیدہ سیرت اور پاکیزہ نفس والے شخص تھے۔) بحار الانوار، ج32، ج33، ص:568-569(
ابوبکرؓ وعمرؓ سے محبت کا حکم
شیعہ حضرات کے چھٹے امامِ معصوم جعفر بن محمد نہ صرف شیخین یعنی وبوبکر وعمر سے محبت رکھتے تھے، بلکہ محبت کی وجہ سے آپ دونوں کے احکامات کی تعمیل بھی کیا کرتے تھے۔چنانچہ ابوبصیر بیان کرتا ہے کہ:
كنت جالساً عند أبي عبد الله عليه السلام إذ دخلت علينا أم خالد التي كان قطعها يوسف بن عمر تستأذن عليه. فقال أبو عبد الله عليه السلام: أيسرّك أن تسمع كلامها؟ قال: فقلت: نعم، قال: فأذن لها. قال: وأجلسني على الطنفسة، قال: ثم دخلت فتكلمت فإذا امرأة بليغة، فسألته عنهما (أي أبي بكر وعمر) فقال لها: توليهما، قالت: فأقول لربي إذا لقيته: إنك أمرتني بولايتهما؟ قال: نعم”
’’میں ابوعبداللہ علیہ السلام کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک عورت ام خالد، جسے یوسف بن عمر نے علیحدہ کردیا تھا، آئی اور آپ کے پاس آنے کی اجازت مانگنے لگی، ابوعبداللہ علیہ السلام نے کہا: اس کی باتیں سننا چاہتے ہو؟ میں نے کہا ہاں! کہنے لگے کہ پھر اسے اجازت دے دو۔ اور مجھے آپ نے چٹائی پر بٹھالیا، پھر وہ آئی اور گفتگو شروع کی، وہ نہایت فصیح و بلیغ انداز میں گفتگو کر رہی تھی، میں نے ابوعبداللہ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا، آپ نے اس عورت سے کہا: ان دونوں سے محبت رکھو، کہنے لگی: میں جب اپنے رب سے ملوں گی تو کہوں گی، تونے مجھے ان دونوں سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے؟ ابوعبداللہ نے کہا: ہاں۔‘‘(الروضة من الكافي ، ج8 ، ص:101 ط إيران )
آپ رضی اللہ عنہ اچھی طرح جانتے تھے کہ عمر رضی اللہ عنہ ، رسول اللہ ﷺکی روایات کے بہت بڑے محدث ہیں، اس لیے آپ چھوٹے چھوٹے اور معمولی و غیر اہم کاموں میں بھی آپ کی سیرت و عمل کی مخالفت نہیں کیا کرتے تھے، شیعہ مصنف دینوری بیان کرتا ہے کہ جب علی رضی اللہ عنہ کوفہ آئے تو ’’آپ سے پوچھا گیا، یا امیر المومنین! کیا آپ محل میں ٹھہریں گے؟ آپ نے کہا: مجھے وہاں ٹھہرنے کی ضرورت نہیں جسے عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ناپسند کرتے تھے، میں کھلے میدان میں ٹھہروں گا، پھر آپ سب سے بڑی مسجد میں گئے، دو رکعت نماز ادا کی اور اس کے بعد کھلے میدان میں ٹھہرے۔
(الاخبار الطوال‘‘ لاحمد بن داؤد دینوری ص 152)۔
عمر رضی اللہ عنہ کی تابعداری
حضرت علی رضی اللہ عنہ اچھی طرح جانتے تھے کہ عمر رضی اللہ عنہ ، رسول اللہﷺکی روایات کے بہت بڑے محدث ہیں، اس لیے آپ چھوٹے چھوٹے اور معمولی و غیر اہم کاموں میں بھی آپ کی سیرت و عمل کی مخالفت نہیں کیا کرتے تھے، شیعہ مصنف دینوری بیان کرتا ہے کہ :
وعندما نزل الإمام علي عليه السلام الكوفة، فقيل له: يا أمير المؤمنين، أتنزلُ القصر؟، قال: “لا حاجة لي في نزوله، لأنَّ عمر بن الخطاب رضي الله عنه كان يبغضُه، ولكنِّي نازل الرحبة”، ثم أقبل حتى دخل المسجد الأعظم، فصلَّى ركعتين، ثم نزل الرحبة
جب علی رضی اللہ عنہ کوفہ آئے تو ’’آپ سے پوچھا گیا، یا امیر المومنین! کیا آپ محل میں ٹھہریں گے؟ آپ نے کہا: مجھے وہاں ٹھہرنے کی ضرورت نہیں جسے عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ناپسند کرتے تھے، میں کھلے میدان میں ٹھہروں گا، پھر آپ سب سے بڑی مسجد میں گئے، دو رکعت نماز ادا کی اور اس کے بعد کھلے میدان میں ٹھہرے۔ (الأخبار الطوال -ابنُ قتيبة الدينوري، ص: 152).
خلافت عمر رضی اللہ عنہ کی پیشن گوئی
خود نبی کریم ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے متعلق اللہ تعالی کی طرف سے خوشخبری سنا دی تھی جو شیعہ کی مختلف کتابوں سے ثابت ہے۔ چنانچہ شیعہ تفسیر قمی ، مجمع البیان اور تفسیر صافی میں موجود ہے کہ رسول کریم ﷺ کی اہلیہ محترمہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا ایک دفعہ پریشان تھیں، ان کو خوش کرنے کے لئے نبی کریم ﷺ نے یہ خوش خبری سنائی :
إن أبا بکر یلي الخلافة بعدي ثم بعده أبوك، فقالت من أنباك هذا ؟ قال نبأني العلیم الخبیر
ضرور بضرور میرے بعد خلافت کا والی ابو بکر ہوگا اور ابو بکر کے بعد تیرا باپ ( حضرت عمر) خلیفہ ہوگا، تو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ آپ کو اس بات کی خبر کس نے دی ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے دی ہے جو بہت جاننے اور باخبر ذات ہے ۔( تفسیر قمی ، ص: 354 ، تفسیر مجمع البیان ، ج 5 ، ص: 314 ، اور تفسیر صافی ، ص: 522 )
عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اپنے ایک خط میں، جو آپ نے مصر کے دوستوں کی طرف اپنے عامل مصر محمد بن ابی بکر کے قتل کے بعد لکھا، اس بات کا اقرار کر رہے ہیں۔ آپ رسول اللہ ﷺکی وفات کے بعد کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے امورِ (سلطنت) سنبھال لیے … جب آپ اس دنیا سے چلے گئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنی ذمہ داری میں لے لیا، ہم نے آپ کی بات سنی، اطاعت کی اور خیر خواہ رہے۔‘‘ اس کے بعد حسبِ عادت آپ رضی اللہ عنہ کی بے حد تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں… ’’اور عمر رضی اللہ عنہ نے اقتدار سنبھال لیا، آپ پسندیدہ سیرت اور بابرکت شخصیت کےمالک تھے۔ یعنی ہم نے آپ کی بیعت کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ کیونکہ آپ کی سیرت بہت پاکیزہ اور اعلیٰ تھی، آپ کی ذات بابرکت و متبرک تھی، آپ اپنے امور میں کامیاب رہے، اپنے مقاصد میں کامرانی حاصل کی۔ ہم نے آپ کی بیعت اسی طرح کی جیسے تم نے عمر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی، پھر میں نے اس بیعت کو پورا کیا اور نبھایا، پھر جب آپ رضی اللہ عنہ شہید کردیے گئے تو آپ رضی اللہ عنہ کی نامزد کردہ چھ افراد کی کمیٹی میں چھٹا نام میرا تھا۔
شیعہ کے شیخ طوسی نے بھی اپنی کتاب ’’الآمالی‘‘ میں یہی بات علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔
فبايعت أبا بكر كما بايعتموه ، وكرهت أن أشق عصا المسلمين ، وأن أفرق بين جماعتهم ، ثم أن أبا بكر جعلها لعمر من بعده فبايعت عمر كما بايعتموه ، فوفيت له ببيعته حتى لما قتل جعلني سادس ستة ، فدخلت حيث أدخلني
چنانچہ میں نے ابوبکر کی اسی طرح بیعت کی جس طرح تم نے بیعت کی تھی اور مجھے مسلمانوں کے اتحاد واتفاق کی لاٹھی کو توڑنا گوارا نہیں تھا ۔پھرمیں نےعمرؓ کی اسی طرح بیعت کی جس طرح تم نے بیعت کی ،پھر میں نے اس بیعت کو پورا کیا اور نبھایا، پھر جب آپ ؓ قتل کر دئے گئے تو مجھے چھ میں سے چھٹا فرد بنایا گیا ۔ میں اسی طرح شامل ہوگیا ، جیسے مجھے شامل کیا گیا تھا ۔(الأمالي- الشيخ الطوسي، ص: 507)
شیعہ حضرات کہتے ہیں کہ حضرت فاروق اعظمؓ نے حضرت علیؓ کی خلافت چھین لی تھی ،کیا یہ ممکن ہے کہ جس نے خلافت چھینی ہو ، ظلم کیا ہو ،امیر المؤمنین اس شخص کی تعریف کرے؟
اہل تشیع سے ایک سوال ہے؟
اگر اصحاب ثلاثہ مومن اور خلفائے برحق نہیں تھے تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے جو شیر خدا ہیں ان کی بیعت کیوں کی؟
اگر کوئی شیعہ کہے کہ انہوں نے ’’تقیّہ ‘‘کیا یعنی خوف کے باعث بہ امر مجبوری تو اوّل تو یہ حضرت علی جیسے’’اَشْجَعُ النَّاسِ‘‘ ’’فاتح خیبر‘‘ اور ’’شیر خدا‘‘کی شان کے خلاف ہے۔
دوسرے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نعوذباللہ اگر ایک ’’فاسق، غاصب اور خائن‘‘کی مجبوراً بیعت کرلینا ایک مستحسن فعل تھا تو پھر حضرت امام حسین ؓنے اپنے جلیل القدر والد کی اس اچھی سنت پر عمل کرکے کیوں یزید کی بیعت نہ کی؟ اپنی اور خاندان نبوت کے بیسیوں معصوموں کی جانیں کیوں قربان کروا ڈالیں؟
حالانکہ جہاں تک شجاعت اورمردانگی کا سوال ہے اس کے لحاظ سے حضرت حسین ؓ حضرت علی سے بڑھ کر نہ تھے۔ پس ثابت ہے کہ چونکہ حضرت امام حسینؓ کے نزدیک یزید خلیفہ برحق نہ تھا اس لئے انہوں نے جان دے دی لیکن ایسے شخص کی بیعت نہ کی لیکن چونکہ حضرت علیؓ کے نزدیک حضرات ابوبکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ خلفائے برحق تھے اس لئے انہوں نے ان کی بیعت کرلی۔
اصحاب ِرسول ﷺ کو گالی نہ دو
ملا باقر مجلسی نے طوسی کی سند سے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے ایک معتبر روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے اپنے اصحاب سے فرمایا:
أوصيكم في أصحاب رسول الله ، لا تسبوهم، فإنهم أصحاب نبيكم، وهم أصحابه الذين لم يبتدعوا في الدين شيئاً، ولم يوقروا صاحب بدعة، نعم! أوصاني رسول الله في هؤلاء
میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کے بارے میں نصیحت کرتا ہوں، ان کو گالی نہ دو، کیونکہ وہ تمہارے نبی کے اصحاب ہیں اورنبی کے وہ اصحاب ہیں جنہوں نے دین میں کوئی بدعت ایجاد نہیں کی، اور کسی بدعتی شخص کی تعظیم نہیں کی، ہاں! رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں مجھے وصیت کی۔(حياة القلوب للمجلسي” ج2 ص621).
شہادت
حضرت عمر رضی اللہ عنہ 26 ذوالحجہ کو معمول کے مطابق نماز فجر کی ادائیگی کے لیے مسجد نبوی میں تشریف لائے جہاں نماز فجر میں مسجد کی حالت میں ابو لولو نامی مجوسی غلام نے جو قتل کے ارادے سے محراب میں چھپا ہوا تھا۔ تین بے دردی سے وار کیے پہلا ہی وار بہت گہرا تھا جس سے آپ کا خون اتنا بہہ گیا کہ مسجد نبوی کے منبر و محراب خون فاروقی سے سرخ ہوگیا۔ تین روز یہی کیفیت رہی جو دوا دی جاتی وہ کٹی ہوئی آنتوں سے باہر آجاتی تھی۔ یکم محرم سنہ 24 ہجری کو آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے، آپ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے روضہ مبارک میں دفن کیا گیا۔
تاریخ وفات
حضرت عمر فاروق رضي الله عنہ کی وفات محرم کی پہلی تاریخ کو ہوئی تھی … اور یہی بات مشہور ہے …
ابن اثير جزرى اپنی سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ “حضرت عمر رضي الله عنہ کو جب زخمی کیا گیا تو وہ دن بدھ کا دن تھا، اور ماه ذو الحج ختم ہونے میں تین دن باقی تھے ، اور آپ کی تدفین اتوار کی صبح ہوئی اور اس دن محرم کا پہلا دن تھا ” ۔(اسد الغابة في معرفة الصحابة ، ج 4 ص 166) نوٹ: ابن اثیر نے آگے ایک اور روایت ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ “والاول اصح ما قيل في عمر” کہ پہلی بات جو حضرت عمر رض کے بارے میں کہی گئی ہے وہ زیاہ صحیح ہے (یعنی آپ کی تدفین یکم محرم کو ہوئی تھی)۔
ابو حفص الفلاس کی روایت ہے کہ “ذو الحجة کی چند راتیں باقی تھیں کہ حضرت عمر رضي الله عنہ حملے میں زخمی کیے گئے ، اس کے بعد آپ تین راتیں زندہ رہے اور سنہ 24 ہجری کے محرم کی پہلی تاریخ کو آپ کی وفات ہوئی” (تاريخ مدينة دمشق يعني تاريخ ابن عساكر ،ج 44 ص 478)
“حضرت عبدالله بن زبير رضي الله عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : حضرت عمر رضي الله عنه کو بروز بدھ جب ذو الحج کے تین دن باقی تھے زخمی کیا گیا پھر آپ تین دن تک زندہ رہے پھر اس کے بعد آپ کی وفات ہوئی” (كتاب المحن ، صفحه 66)
اور امام ابن الجوزیؒ نے “مناقب عمر رضی اللہ عنہ “میں لکھا ہے کہ:
طعن عمر رضي الله عنه يوم الأربعاء لأربع ليالٍ بقين من ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين، ودفن يوم الأحد صباح هلال المحرم سنة أربع وعشرين، فكانت ولايته عشر سنين وخمسة أشهر وإحدى وعشرين ليلة
یعنی 23 ہجری کے ذوالحجہ چھبیس تاریخ بدھ کے روزحضرت عمر ؓپر قاتلانہ حملہ ہوا، اور اتوار کے دن یکم محرم چوبیس ہجری کو دفن کئے گئے۔ آپ کی مدت خلافت دس برس ،پانچ ماہ اور اکیس دن تھی ۔
ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما پر سلام
سید مرتضی اپنی کتاب ’’ الشافی‘‘ میں شیعہ اثنا عشری کے چھٹے امام جعفر بن محمد یعنی امام جعفر صادق علیہ السلام کا عمل نقل کرتے ہیں :
ويروي السيد المرتضى عن جعفر بن محمد عليه السلام أنه «كان يتولاهما – أي أبا بكر وعمر رضي الله عنهما – ويأتي القبر فيسلم عليهما مع تسليمه على رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم»
یعنی سید مرتضی اپنی کتاب ’’ الشافی‘‘ میں جعفر بن محمد کے بارے میں بیان کرتا ہے کہ وہ ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما سے بڑی محبت کرتے تھے ، چنانچہ جب نبی کریم کی قبر مبارک پر آتے تو رسول اللہ ﷺ پر سلام پڑھنے کے ساتھ ابوبکر وعمر ؓ پر بھی سلام پڑھتے تھے۔ (كتاب الشافي، ص:238).
دعا ہے کہ جس طرح اہل بیتِ نبوت اور ائمہ کرام خلفاء ثلاثہ اور دیگر صحابہ کرام سے پیار ومحبت کرتے تھے ، عزت واحترام کرتے تھے، اللہ پاک اسی طرح تمام مسلمانوں کو بھی محبت اور احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
No comments:
Post a Comment