Saturday, 28 February 2015

The Virtues of LISTENING of The Glorious QURAN - قرآن مجید "سننے" کے فضائل



قرآن مجید سننے کی فضیلت»
حضرت ابن عباس کی روایت ہے:
«مَنِ اسْتَمَعَ آيَةً مِنْ كِتَابِ اللَّهِ كَانَتْ لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ»
ترجمہ:
جس نے کتاب اللہ(قرآن)کی ایک آیت بھی غور سے سنی تو یہ آیت قیامت کے دن اس کیلئے نور ہوگی۔
[مصنف(امام)عبد الرزاق» حدیث#6012]
[سنن الدارمي» حدیث#3410]
تفسیر روح البیان»سورۃ البینہ:7-8




قیامت کے دن نور کی ضرورت»
القرآن:
اس دن جب منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں سے کہیں گے کہ : ذرا ہمارا انتظار کرلو کہ تمہارے نور سے ہم بھی کچھ روشنی حاصل کرلیں۔ (10) ان سے کہا جائے گا کہ : تم اپنے پیچھے لوٹ جاؤ، پھر نور تلاش کرو۔ (11) پھر ان کے درمیان ایک دیوار حائل کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا جس کے اندر کی طرف رحمت ہوگی، اور باہر کی طرف عذاب ہوگا۔
[سورۃ نمبر 57 الحديد آیت نمبر 13]

تفسیر:
10: منافق لوگ چونکہ دنیا میں اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے، اس لیے شروع میں وہ آخرت میں بھی مسلمانوں کے ساتھ لگ جائیں گے، لیکن جب حقیقی مسلمان تیزی سے آگے نکل جائیں گے تو ان کے ساتھ وہ نور بھی آگے بڑھ جائے گا، اور منافق لوگ اندھیرے میں پیچھے رہ جائیں گے، اس وقت وہ اپنے ظاہری طور پر مسلمان ہونے کا حوالہ دے کر آگے جانے والے مسلمانوں کو آواز دیں گے کہ ذرا ہمارا انتظار کرلو، تاکہ تمہارے نور سے ہم بھی فائدہ اٹھاسکیں۔
 11: یعنی یہ فیصلہ پیچھے ہورہا ہے کہ کسی کو نور ملے، کس کو نہ ملے، اس لیے پیچھے جا کر نور حاصل کرنے کی درخواست کرو۔







قرآن مجید سننے کی فضیلت»
حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«مَنِ اسْتَمَعَ إِلَى آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ كَانَتْ لَهُ حَسَنَةٌ مُضَاعَفَةٌ»
ترجمہ:
جس نے قرآن کی ایک آیت کی طرف سننے کے لیے کان لگائے، اس کے لیے ایک ایسی نیکی لکھی جائے گی، جو چند در چند(کئی گناہ بہت) ہوتی جائے گی۔
[مصنف عبد الرزاق:6013، مسند أحمد:8494 الرسالة، تفسیر البغوی:17، الترغيب في فضائل الأعمال(امام)ابن شاهين:204]
تفسیر ابن کثیر»سورۃ الاعراف:204












قرآن مجید سننے کی فضیلت»
حضرت عائشہ اور حضرت علی سے روایت ہے:
ولمستمع آية من كتاب الله خير له من صبير ذهبًا
ترجمہ:
اور قرآن کی ایک آیت سننے والے کیلئے یہ(عمل)سونے کے (یمنی)پہاڑ سے بہتر ہے۔
[جامع الأحاديث-السيوطي» حدیث#15367]
[كنز العمال-المتقي الهندي» حدیث#2362]




قرآن مجید سننے کی فضیلت»
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنِ ‌اسْتَمعَ ‌حرْفًا ‌مِنْ ‌كتَابِ ‌الله طَاهِرًا، كُتِبتْ لَهُ عَشْرُ حَسنَاتٍ ومُحِيَتْ عنْهُ عَشْرُ سيِّئَاتِ، ورُفِعَتْ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ، ومنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ كِتَابِ الله في صلاةٍ قَاعِدًا كُتبتْ لَهُ خَمْسُونَ حَسَنَةً، ومُحِيَتْ عَنْهُ خَمْسُونَ سَيِّئَةً، ورُفِعَتْ لَهُ خَمْسُونَ دَرجَةً، ومَنْ قَرأ حَرْفًا مِنْ كِتَابِ الله في صلاة قَائِمًا، كُتِبَتْ لَهُ مِائَةُ حَسَنَةٍ، ومُحِيَتْ عنْهُ مائَةُ سيَئةٍ، ورُفِعتْ لَهُ مِائَةُ درجة، ومنْ قَرأَهُ فَخَتَمَهُ كَتَبَ الله عِنْدهُ دعْوةً مُجَابةً مُعجَّلَةً أَوْ مُؤَخَّرةً
ترجمہ:
جس نے کتاب اللہ کا ایک حرف سُنا، اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی، اور دس خطائیں مٹا دی جائیں گی، اور دس درجات بلند کیے جائیں گے۔ جس نے بیٹھ کر نماز میں قرآن پڑھا، اس کے لیے ہر حرف کے عوض پچاس نیکیاں لکھی جائیں گی اور پچاس خطائیں مٹا دی جائیں گی، اور پچاس درجات بلند کیے جائیں گے۔ اور جس نے حالت قیام میں نماز میں قرآن کا ایک حرف پڑھا، اس کے لیے اس کے عوض سو نیکیاں لکھی جائیں گی۔ سو خطائیں محو کی جائیں گی۔ سو درجات بلند کیے جائیں گے۔ اور جس نے اتنا پڑھا کہ ختم تک پہنچا دیا اللہ اس کی دعا قبول فرمائیں گے خواہ تاخیر کیوں نہ ہوجائے۔ 
[شعب الایمان-للبيهقي» حدیث#1918]
[جامع الأحاديث-السيوطي» حدیث#45718]
[كنز العمال-المتقي الهندي» حدیث#2429]





قرآن مجید سننے کی فضیلت»
حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنِ ‌اسْتَمَعَ ‌إِلَى ‌سُورَةِ ‌يَس عَدَلَتْ لَهُ عِشرِينَ دِينَارًا فِى سَبِيلِ الله، وَمَنْ قَرَأَهَا عَدَلتْ لَهُ عِشْرِينَ حَجَّةً مُتَقَبَّلَةً، وَمَنْ كَتَبَها ثُمَّ شَرِبَهَا أَدْخَلَتْ جَوْفَهُ أَلْفَ نُورٍ وَأَلْفَ رَحْمَةٍ وَألْفَ بَرَكَةٍ وَنَزَعَتْ مِنْ قَلبِهِ كُلَّ غِلٍّ وَدَاءٍ۔
ترجمہ:
جس نے سورة یٰس کو سُنا اس کے لیے راہِ خدا میں بیس دینار خرچ کرنے کا اجر لکھا جائے گا؛۔ اور جس نے سورة یس کو پڑھا اس کے لیے بیس مقبول حج کے برابر ہوگا اور جس نے سوہ یس کو لکھ کر پیا اس کے پیٹ میں سو نور، سو رحمتیں اور سو برکتیں لکھی جائیں گی اور اس کے دل سے ہر طرح کا کھوٹ اور بیماری نکال دی جائے گی۔ 
[جامع الأحاديث-السيوطي:33974+45718]
[كنز العمال 4074]

 


قرآن مجید سننے کی فضیلت»
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
((مَنْ قَرَأَ الْقُرآنَ في صَلاةٍ قَائِمًا كَانَ لَهُ بِكُلِّ حَرْف مِائَةُ حَسَنَةٍ، وَمَنْ قَرَأَهُ قَاعِدًا كَانَ لَهُ بِكُلِّ حَرْف خَمْسُونَ حَسَنَةً، وَمَنْ قَرَأَهُ في غَيرِ صَلاةٍ كَانَ لَهُ بكُلِّ حَرْف عَشْر حَسَنَات، وَمنْ اسْتَمَعَ إِلَى كِتَابِ اللهِ كَانَ لَهُ ‌بكُلِّ ‌حَرْف ‌حَسَنَةٌ))
ترجمہ:
’’جس آدمی نے نماز میں کھڑے ہو کر قرآن پڑھا اس کے لیے ہر حرف کے بدلہ میں سو نیکیاں ہیں اور جس نے اس کو (نماز میں) بیٹھ کر پڑھا اس کے لیے ہر حرف کے بدلہ میں پچاس نیکیاں ہیں‘ اور جس نے اس کو نماز سے باہر پڑھا اس کے لیے ہر حرف کے عوض دس نیکیاں ہیں‘ اور جس نے کتاب اللہ کو غور سے سنا اس کے لیے ہر حرف کے عوض ایک نیکی ہے۔‘‘
[مصاعد النظر للإشراف على مقاصد السور-برهان الدين البقاعي (٨٨٥:1/ 332]
[جامع الأحاديث-السيوطي» حدیث#23395]
[كنز العمال-المتقي الهندي» حدیث#2427]




قال علي رضي الله عنه من قرأ القرآن وهو قائم في الصلاة كان له بكل حرف مائة حسنة ومن قرأه وهو جالس في الصلاة فله بكل حرف خمسون حسنة ومن قرأه في غير صلاة وهو على وضوء فخمس وعشرون حسنة ومن قرأه على غير وضوء فعشر حسنات۔
ترجمہ:
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے جس شخص نے نماز میں کھڑے ہو کر کلام پاک پڑھا اس کو ہر حرف پر سو نیکیاں ملیں گی اور جس شخص نے نماز (نفل) میں بلا عذر بیٹھ کر پڑھا اس کے لیے پچاس نیکیاں اور جس نے بغیر نماز کے وضو کے ساتھ پڑھا اس کے لیے پچیس نیکیاں اور جس نے بلا وضو پڑھا اس کے لیے دس نیکیاں اور جو شخص پڑھے نہیں بلکہ پڑھنے والے کی طرف کان لگا کر سنے اس کے لیے بھی ہر حرف کے بدلے ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔
[الغزالي ,إحياء علوم الدين ,1/275]
[ربيع الأبرار ونصوص الأخيار، الزمخشري (٥٣٨» حدیث#97]
[جامع الأحاديث-السيوطي» حدیث#23395]
[إسماعيل حقي، روح البيان، ٤٧٤/٦]
[محمد الأمين الهرري، تفسير حدائق الروح والريحان في روابي علوم القرآن، ٤٢١/٢١]




قرآن مجید سننے کی فضیلت»
حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
«مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ مِنَ الصَّلَاةِ، وَهُوَ قَائِمٌ فَلَهُ بِكُلِّ حَرْفٍ مِائَةُ حَسَنَةٍ، وَمَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِي الصَّلَاةِ قَاعِدًا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِكُلِّ حَرْفٍ خَمْسِينَ حَسَنَةٍ، وَمَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِي غَيْرِ الصَّلَاةِ، فَلَهُ بِكُلِّ حَرْفٍ عَشْرُ حَسَنَاتٍ، وَمَنِ اسْتَمَعَ إِلَى شَيْءٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ، وَهُوَ يُرِيدُ الْأَجْرَ كُتِبَ لَهُ بِكُلِّ حَرْفٍ حَسَنَةٌ، وَمَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ حَتَّى يَخْتِمَهُ، كَانَتْ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ إِمَّا مُعَجَّلَةٌ وَإِمَّا مُؤَجَّلَةٌ»
ترجمہ:
جس شخص نے نماز میں کھڑے ہو کر کلام پاک پڑھا اس کو ہر حرف پر سو نیکیاں ملیں گی اور جس شخص نے نماز (نفل) میں (بلا عذر) بیٹھ کر پڑھا اس کے لیے پچاس نیکیاں  ہیں اور جس نے اجر کے ارادے سے کتاب اللہ میں سے کچھ سنا تو اس کیلئے ہر حرف پر ایک نیکی ہے، اور جس نے قرآن پڑھا حتی کہ اس کا ختمہ پورا کیا تو اس کیلئے اللہ کے پاس ایک دعا قبول ہوگی چاہے جلدی ہو یا کچھ دیر سے۔ 
[تنبيه الغافلين بأحاديث سيد الأنبياء والمرسلين للسمرقندي» حدیث#656، صفحة ٤٢٢]




قرآن مجید سننے کی فضیلت»
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَأَعْرَبَهُ كُلَّهُ فَلَهُ بِكُلِّ حَرْفٍ أَرْبَعُونَ حَسَنَةً، فَإِنْ أَعْرَبَ بَعْضَهُ وَلَحَنَ فِي بَعْضِهِ فَلَهُ بِكُلِّ حَرْفٍ عِشْرُونَ حَسَنَةً، وَإِنْ لَمْ يُعْرِبْ مِنْهُ شَيْئًا فَلَهُ بِكُلِّ حَرْفٍ عَشْرُ حَسَنَاتٍ
ترجمہ:
جس نے قرآن پڑھا اور اچھا کرکے پڑھا اس کے لیے ہر حرف کے عوض چالیس نیکیاں ہوں گی۔ اور جس نے کچھ صحیح اور کچھ غلط پڑھا اس کے لیے ہر حرف کے عوض بیس نیکیاں ہوں گی۔ اور جس نے مجبورا سارا غلط پڑھا اس کے لیے ہر حرف کے عوض دس نیکیاں ہوں گی۔
[فضائل القرآن للمستغفري(٤٣٢» حدیث#114]
[فضائل القرآن وتلاوته للرازي(٤٥٤» حدیث#111]
[شعب الإيمان-البيهقي(٤٥٨)» حدیث#2097]
[ترتيب الأمالي الخميسية للشجري(٤٩٩)» حدیث#579]
[المنتقى من مسموعات مرو للضياء المقدسي» حدیث#209]
[الترغيب في فضائل الأعمال-لابن شاهين» حدیث#203]
[کنزالعمال» حدیث#2389]

آج کل کمپیوٹر/موبائل میں لائٹ نہ ہو تو پورا قرآن پاک ترجمہ سے سن سمجھکر حق و باطل میں فرق پہچاننا آسان ہے، اگر شوق/طلب ہو تو. علماۓ حق کو پہچاننا اور ان کی سمجھنا آسان ہوجاۓ. لیکن ہم نے بیج پھاڑ کر آسمان سے پانی اتارکر ہمارا رزق زمین سے نکالنے والے رب کریم کی نہ قدر کی اور نہ حیاء.
http://www.darsequran.com/index.php/quran-section

http://tauheed-sunnat.com/taxonomy/vocabulary/urdu-quran

سورۃ الواقعہ کی فضیلت کا ثبوت
************************


حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ  مجھ سے رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:
مجھے قرآن مجید پڑھ کر سناؤ۔ میں نے عرض کیا: کیا میں سناؤں؟ آپ ﷺ پر تو قرآن مجید نازل ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں کسی سے سننا محبوب رکھتا ہوں۔
[صحیح بخاری»حدیث نمبر: 5056]

بعض علماء کا فتویٰ ہے کہ قرآن پاک کا سننا پڑھنے سے زیادہ افضل ہے اس لیے کہ قرآن پاک کا پڑھنا نفل ہے اور سننا فرض ہے اور فرض کا درجہ نفل سے بڑھا ہوا ہوتا ہے۔


آج کل کمپیوٹر/موبائل میں جب بجلی نہ ہو تو بھی پورا قرآن پاک ترجمہ سے سن سمجھ کر حق و باطل میں فرق پہچاننا زیادہ آسان ہو چکا ہے.



قرآن مجید سننا رحمت کا موجب:
وَإِذا قُرِئَ القُرءانُ فَاستَمِعوا لَهُ وَأَنصِتوا لَعَلَّكُم تُرحَمونَ {7:204}
اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس کی طرف کان لگائے رہو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم ہو [۲۳۸]
So when the Qur'an is recited, listen thereto and keep silence, haply ye may be shewn mercy.
جب قرآن ایسی دولت بے بہا اور علم و ہدایت کی کان ہے تو اس کی قراءت کا حق سامعین پر یہ ہے کہ پوری فکرو توجہ سے ادھر کان لگائیں، اس کی ہدایات کو سمع قبول سے سنیں اور ہر قسم کی بات چیت، شور و شغب اور ذکر و فکر چھوڑ کر ادب کے ساتھ خاموش رہیں تاکہ خدا کی رحمت اور مہربانی کے مستحق ہوں۔ اگر کافر اس طرح قرآن سنے تو کیا بعید ہے کہ خدا کی رحمت سے مشرف بایمان ہو جائے اور پہلے سے مسلمان ہے تو ولی بن جائے۔ یا کم از کم اس فعل کے اجروثواب سے نوازا جائے۔ اس آیت سے بہت سےعلماء نے یہ مسئلہ بھی نکالا ہے کہ نماز میں جب امام قراءت کرے تو مقتدی کو سننا اور خاموش رہنا چاہئے جیسا کہ ابو موسٰی اور ابوہریرہ کی حدیث میں حضور  نےفرمایا { وَ اِذَاقَرَأَ فَانْصِتُوْا } (جب نماز میں امام قرأت کرے تو چپ رہو) یہاں اس مسئلہ کی تفصیل کا موقع نہیں۔ صحیح مسلم کی شرح میں ہم نے نہایت شرح و بسط سے اس کے مالہ و ما علیہ پر بحث کی ہے۔

When the Qur’ān is recited, listen to it and be silent, so that you may be blessed.
Tafsir al-Jalalayn :
And when the Qur’ān is recited, listen to it and pay heed, [refraining] from speech, so that you might find mercy: this was revealed regarding [the requirement of] refraining from speech during the [mosque] sermon, which here has been expressed by [the recital of] ‘the Qur’ān’, because it [the sermon] comprises it; others say that it was revealed regarding the [requirement of silence and attention during the] recitation of the Qur’ān in general.



قرآن سننا ایمان لانے کا موجب بنتا ہے:
وَإِذا سَمِعوا ما أُنزِلَ إِلَى الرَّسولِ تَرىٰ أَعيُنَهُم تَفيضُ مِنَ الدَّمعِ مِمّا عَرَفوا مِنَ الحَقِّ ۖ يَقولونَ رَبَّنا ءامَنّا فَاكتُبنا مَعَ الشّٰهِدينَ {5:83}
اور جب سنتے ہیں اس کو جو اترا رسول پر تو دیکھے تو ان کی آنکھوں کو کہ ابلتی ہیں آنسوؤں سے اس وجہ سے کہ انہوں نے پہچان لیا حق بات کو کہتے ہیں اے رب ہمارے ہم ایمان لائے سو تو لکھ ہم کو ماننے والوں کے ساتھ
And when they hear that which hath been sent down unto the apostle, then thou beholdest their eyes overflow, with tears because of the truth they have recognised. They say: Our Lord! we believe, so write us down with the witnesses

When they hear what has been sent down to the Messenger, you will see their eyes overflowing with tears because of the truth they have recognized. They say, “Our Lord, we have come to believe. So, record us along with those who bear witness.

Tafsir al-Jalalayn :
This [verse] was revealed when the Negus’s delegation from Abyssinia came to him (s): when the Prophet (s) recited sūrat Yā Sīn, they cried and submitted [to Islam], saying, ‘How similar this is to what used to be revealed to Jesus!’ God, exalted be He, says: And when they hear what has been revealed to the Messenger, of the Qur’ān, you see their eyes overflow with tears because of what they recognise of the truth. They say, ‘Our Lord, we believe, we accept the truth of your Prophet and your Book, so inscribe us among the witnesses, those who affirm their acceptance of the truth.

VIRTUES CHAPTERS OF THE HOLY QURAN:


************************
مومن ہی احکام دین سنتے رہتے ہیں:
ءامَنَ الرَّسولُ بِما أُنزِلَ إِلَيهِ مِن رَبِّهِ وَالمُؤمِنونَ ۚ كُلٌّ ءامَنَ بِاللَّهِ وَمَلٰئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لا نُفَرِّقُ بَينَ أَحَدٍ مِن رُسُلِهِ ۚ وَقالوا سَمِعنا وَأَطَعنا ۖ غُفرانَكَ رَبَّنا وَإِلَيكَ المَصيرُ {2:285}
مان لیا رسول نے جو کچھ اترا اس پر اس کے رب کی طرف سے اور مسلمانوں نے بھی سب نے مانا اللہ کو اور اس کے فرشتوں کو اور اس کی کتابوں کو اور اس کے رسولوں کو کہتے ہیں کہ ہم جدا نہیں کرتے کسی کو اس کے پیغمبروں میں سے اور کہہ اٹھے کہ ہم نے سنا اور قبول کیا تیری بخشش چاہتے ہیں اے ہمارے رب اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے [۴۶۰]
The apostle believeth in that which is sent down Unto him from his Lord, and so do the believers. Each one believeth in Allah and His angels and His Books and His apostles, saying: we differentiate not between any of His apostles. And they say: we hearken and obey; Thy forgiveness, Our Lord! and Unto Thee is the return!
پہلی آیت سے جب یہ معلوم ہوا کہ دل کے خیالات پر بھی حساب اور گرفت ہے تو اس پر حضرات صحابہ گھبرائے اور ڈرے اور ان کو اتنا صدمہ ہوا کہ کہ کسی آیت پر نہ ہوا تھا آپ  سے شکایت کی تو آپ  نے فرمایا { قولواسمعنا واطعنا } یعنی اشکال نظر آئے یا دقت مگر حق تعالیٰ کے ارشاد کی تسلیم میں ادنیٰ توقف بھی مت کرو اور سینہ ٹھوک کر { سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا } عرض کر دو آپ  کے ارشاد کی تعمیل کی تو انشراح کے ساتھ یہ کلمات زبان پر بیساختہ جاری ہو گئے مطلب ان کا یہ ہے کہ ہم ایمان لائے اور اللہ کے حکم کی اطاعت کی یعنی اپنی دقت اور خلجان سب کو چھوڑ کر ارشاد کی تعمیل میں مستعدی اور آمادگی ظاہر کی حق تعالیٰ کو یہ بات پسند ہوئی تب یہ دونوں آیتیں اتریں اول یعنی { اٰمَنَ الرَّسُوْلُ } الخ اس میں رسول کریم  اور انکے بعد صحابہ کہ جن کو اشکال مذکور پیش آیا تھا ان کے ایمان کی حق تعالیٰ نے تفصیل کے ساتھ مدح فرمائی جس سے ان کے دلوں میں اطمینان ترقی پاوے اور خلجان سابق زائل ہو اس کے بعد دوسری آیت { لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا } الخ میں فرما دیا کہ مقدور سے باہر کسی کو تکلیف نہیں دی جاتی اب اگر کوئی دل میں گناہ کا خیال اور خطرہ پائے اور اس پر عمل نہ کرے تو کچھ گناہ نہیں اور بھول چوک بھی معاف ہے غرض صاف فرما دیا کہ جن باتوں سے بچنا طاقت سے باہر ہے جیسے برے کام کا خیال خطرہ یا بھول چوک ان پر مواخذہ نہیں ہاں جو باتیں بندہ کے ارادے اور اختیار میں ہیں ان پر مواخذہ ہو گا اب آیت سابقہ کو سن کر جو صدمہ ہوا تھا اس کے معنی بھی اسی پچھلے قاعدہ کے موافق لینے چاہئیں چنانچہ ایسا ہی ہوا اور خلجان مذکورہ کا اب ایسا قلع قمع ہو گیا کہ سبحان اللہ ۔ {فائدہ} جدا نہیں کرتے کسی کو اس کے پیغمبروں میں سے یعنی یہود و نصاریٰ کی طرح نہیں کہ کسی پیغمبر کو مانا اور کسی پیغمبر کو نہ مانا۔

The Messenger has believed in what has been revealed to him from his Lord, and the believers as well. All have believed in Allah and His angels and His Books and His Messengers. “We make no division between any of His Messengers,” and they have said: “We have listened, and obeyed. Our Lord, (we seek) Your pardon! And to You is the return.”

Tafsir al-Jalalayn :
The Messenger, Muhammad (s) believes in, affirms the truth of, what was revealed to him from his Lord, namely, the Qur’ān, and the believers (wa’l-mu’minūna is a supplement to al-rasūlu, ‘the Messenger’); each one (the tanwīn of kullun stands in place of the second noun in an annexation [sc. kullu wāhidin]) believes in God and His angels, and in His Books, all of them and each of them, and His messengers, and they say, ‘we make no distinction between any of His messengers’, believing in some and disbelieving in others, in the manner of the Jews and the Christians. And they say, ‘We hear, what we have been enjoined to hear and accept, and obey; we ask you: Your forgiveness, our Lord; to You is the homecoming’, that is, the return at the Resurrection. When the previous verse was revealed, the believers complained of evil whisperings and it grieved them that they should be taken to account according to [the principle expressed in] it, and so the following was revealed:







************************

تقویٰ و ہدایت کا موجب:
ذٰلِكَ أَدنىٰ أَن يَأتوا بِالشَّهٰدَةِ عَلىٰ وَجهِها أَو يَخافوا أَن تُرَدَّ أَيمٰنٌ بَعدَ أَيمٰنِهِم ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاسمَعوا ۗ وَاللَّهُ لا يَهدِى القَومَ الفٰسِقينَ {5:108}
اس میں امید ہے کہ ادا کریں شہادت کو ٹھیک طرح پر اور ڈریں کہ الٹی پڑے گی قسم ہماری ان کی قسم کے بعد [۲۵۵] اور ڈرتے رہو اللہ سے اور سن رکھو اور اللہ نہیں چلاتا سیدھی راہ پر نافرمانوں کو [۲۵۶]
That shall make it more likely that they shall produce the testimony according to the fact thereof or they shall fear that other oaths would be admitted after their oaths. And fear Allah and hearken; and Allah guideth not a transgressing people.
یعنی وارثوں کو شبہ پڑے تو قسم دینے کا حکم رکھا۔ اس لئے کہ قسم سے ڈر کر اول ہی جھوٹ نہ ظاہر کریں پھر اگر ان کی بات جھوٹ نکلے تو وارث قسم کھائیں۔ یہ بھی اسی واسطےکہ وہ قسم میں دغا نہ کریں۔ جانیں کہ آخر ہماری قسم الٹی پڑے گی۔ کذا فی موضح القرآن۔
خدا کی نافرمانی کرنے والا انجام کار رسوا اور ذلیل ہی ہوتا ہے حقیقی کامیابی کا چہرہ نہیں دیکھتا۔



Thus, it is more likely that the former people (i.e. the executors of the bequest) will bear witness in its proper way, or they will fear that oaths will be taken in rebuttal of their oaths. Fear Allah and listen. Allah does not lead sinning people to the right path.

Tafsir al-Jalalayn :
That, ruling mentioned, where the oath devolves to the inheritors, [makes it] likelier, brings closer [the eventuality], that they, the witnesses or the trustees, will bear the testimony in its true form, [the form] in which they have been charged to bear it, without distortion or breach of faith, or, it is likelier, that they will be afraid that after their oaths other oaths may be taken, from the inheritors, the plaintiffs, who would swear to the two men’s breach of faith or perjury, in which case they would be disgraced and would incur penalties, and so [because of this] they will not lie. Fear God, by refraining from betrayal and perjury, and listen, to what you have been commanded, listening in acceptance. God does not guide the wicked people, those rebelling against obedience to Him; [He does not guide the wicked] to the way of goodness.



****************************************

سنتے رہنے والے ہی قبول کرتے ہیں:
إِنَّما يَستَجيبُ الَّذينَ يَسمَعونَ ۘ وَالمَوتىٰ يَبعَثُهُمُ اللَّهُ ثُمَّ إِلَيهِ يُرجَعونَ {6:36}
مانتے وہی ہیں جو سنتے ہیں اور مردوں کو زندہ کرے گا اللہ پھر اسکی طرف لائے جاویں گے [۴۰]
Only those respond who hearken. And as to the dead, Allah will raise them, and thereafter unto Him they shall be returned.
یعنی سب سے توقع نہ رکھو کہ مانیں گے جن کے دل کان بہرے ہوگئے وہ سنتے ہی نہیں۔ پھر مانیں کس طرح؟ ہاں یہ کافر جو قلبی و روحانی حیثیت سے مُردوں کی طرح ہیں قیامت میں دیکھ کر یقین کریں گے اور ان چیزوں کو مانیں گے۔ جن کا انکار کرتے تھے۔

They say, “Why is it that no sign (of our choice) has been sent down to him from his Lord?” Say, “Allah is surely powerful enough to send down a sign.” But most of them do not know

Tafsir al-Jalalayn :
And they, the disbelievers of Mecca, say, ‘Why has a sign not been sent down to him from his Lord?’, [a sign] such as the she-camel [of the prophet Sālih] or the staff [of Moses] or the Table [of Jesus]. Say, to them: ‘Surely God has the power to send down (read yunazzil or yunzil) a sign, from among those they have requested, but most of them do not know’, that its sending down would be a trial for them, for if they then [still] denied it, they would necessarily be destroyed.

************************

امن اور علم کا موجب:
وَإِن أَحَدٌ مِنَ المُشرِكينَ استَجارَكَ فَأَجِرهُ حَتّىٰ يَسمَعَ كَلٰمَ اللَّهِ ثُمَّ أَبلِغهُ مَأمَنَهُ ۚ ذٰلِكَ بِأَنَّهُم قَومٌ لا يَعلَمونَ {9:6}
اور اگر کوئی مشرک تجھ سے پناہ مانگے تو اس کو پنادہ دیدے یاں تک کہ وہ سن لے کلام اللہ کا پھر پہنچا دے اسکو اسکی امن کی جگہ یہ اس واسطے کہ وہ لوگ علم نہیں رکھتے [۷]
And should one of the associators seek protection of thee grant him protection, that he may hear the word of Allah,then let him reach his place of security. That is because they are a people who know not.
پہلے فرمایا تھا کہ اگر اپنی کفریات سے توبہ کر کے اسلام میں داخل ہو جائیں تو مامون ہیں۔ ممکن تھا کہ کسی شخص کو اصول سلام سے آگاہی نہ ہو وہ تحقیق و رفع شکوک کی غرض سے مسلمانوں کے پاس آنا چاہے ، اس کی نسبت فرما دیا کہ اپنی پناہ اور حفاظت میں لے کر خدا کا کلام اور اسلام کے حقائق و دلائل سناؤ۔ اگر قبول نہ کرے تو اس کو قتل مت کرو بلکہ کہیں ٹھکانے پر امن کی جگہ پہنچا دو جہاں پہنچ کر وہ مامون و مطمئن ہو جائے ۔ اس کے بعد وہ سب کافروں کے برابر ہے۔ یہ امن دینے کا حکم اس لئے ہے کہ اسلامی اصول و حقائق سے ان لوگوں کو آگاہی نہیں ہے ۔ لہذا ان کے سامنے حق خوب طرح واضح کر دینا چاہئے ۔ اگر اس کے بعد بھی عناد برتے تو { تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیّْ } کے بعد دین میں کوئی اکراہ نہیں۔

And if any one of the Mushriks seeks your protection, give him protection until he listens to the Word of Allah, then let him reach his place of safety. That is because they are a people who do not know.

Tafsir al-Jalalayn :
And if any one of the idolaters (ahadun, ‘one’, is in the nominative because of the [following] verb [istajāraka, ‘seeks your protection’] that validates it) seeks your protection, requests security from you against being killed, then grant him protection, provide security for him, so that he might hear the words of God — the Qur’ān — and afterward convey him to his place of security, that is, the dwelling-places of his folk, if he does not believe, so that he might reflect upon his situation — that, which is mentioned, is because they are a people who do not know, the religion of God, and so they must [be made to] hear the Qur’ān in order to [come to] know [religion].



****************************************

وَاللَّهُ أَنزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَحيا بِهِ الأَرضَ بَعدَ مَوتِها ۚ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَءايَةً لِقَومٍ يَسمَعونَ {16:65}
اور اللہ نے اتارا آسمان سے پانی پھر اس سے زندہ کیا زمین کو اس کے مرنے کے پیچھے [۹۶]اس میں نشانی ہے ان لوگوں کو جو سنتے ہیں [۹۷]
And Allah hath sent down from the heaven water, then he reviveth the earth thereby after the death thereof; verily therein is a sign for a people who hearken.
یعنی خشک زمین کو آسمانی بارش سے سر سبز کر دیا گویا خشک ہونا زمین کی موت اور سر سبز و شاداب ہونا حیات ہے۔
یعنی اسی طرح قرآن سے جاہلوں کو عالم اور مردہ دلوں کو زندہ کر دے گا۔ اگر توجہ قلبی اور انصاف سے سنیں گے۔

Allah sent down water from the heavens and revived the land with it after it was dead. Surely, in that there is a sign for a people who listen.
Tafsir al-Jalalayn :
And God sends down water from the heaven and therewith revives the earth, with plants, after its death, [after] its drying up. Surely in that, which is mentioned, there is a sign, indicating the [truth of the] Resurrection, for a people who listen, listening and then reflecting.


****************************************
الله کی سننے والے الله کے پسندیدہ ہوتے ہیں:
وَأَنَا اختَرتُكَ فَاستَمِع لِما يوحىٰ {20:13}
اور میں نے تجھ کو پسند کیا ہے سو تو سنتا رہ جو حکم ہو [۱۰]
And I! I have chosen thee hearken thou then to that which shall be revealed.
"پسند کیا ہے" یعنی تمام جہان میں سے نبوت و رسالت اور شرف مکالمہ کے لئے چھانٹ لیا اس لئے آگے جو احکام دیے جائیں انہیں غور و توجہ سے سنو۔

I have chosen you (for prophet-hood), so listen to what is revealed:
Tafsir al-Jalalayn :
And I [Myself] have chosen you, from among [all of] your people, so listen to what is being revealed, to you from Me.

****************************************

يٰأَيُّهَا النّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاستَمِعوا لَهُ ۚ إِنَّ الَّذينَ تَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ لَن يَخلُقوا ذُبابًا وَلَوِ اجتَمَعوا لَهُ ۖ وَإِن يَسلُبهُمُ الذُّبابُ شَيـًٔا لا يَستَنقِذوهُ مِنهُ ۚ ضَعُفَ الطّالِبُ وَالمَطلوبُ {22:73}
اے لوگو ایک مثل کہی ہے سو اس پر کان رکھو [۱۰۸] جنکو تم پوجتے ہو اللہ کے سوائے ہرگز نہ بنا سکیں گے ایک مکھی اگرچہ سارے جمع ہو جائیں اور اگر کچھ چھین لے اُن سے مکھی چھڑا نہ سکیں وہ اس سے بودا ہے چاہنے والا اور جنکو چاہتا ہے [۱۰۹]
O Mankind! a similitude is propounded; so hearken thereto. Verily those whom ye call upon beside Allah will by no means create a fly, even though they assembled for that; and if the fly were to snatch away aught from them, they cannot recover it from him: weak the seeker and the sought!
یعنی مکھی بہت ہی ادنیٰ اور حقیر جانور ہے۔ جن چیزوں میں اتنی بھی قدرت نہیں کہ سب مل کر ایک مکھی پیدا کر دیں، یا مکھی ان کے چڑھاوے وغیرہ میں سے کوئی چیز لیجائے تو اس سے واپس لے سکیں ان کو "خالق السماوات و الارضین" کے ساتھ معبودیت اور خدائی کی کرسی پر بٹھا دینا کس قدر بے حیائی حماقت اور شرمناک گستاخی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مکھی بھی کمزور اور بتوں سے بڑھ کر ان کا پوجنے والا کمزور ہے جس نے ایسی حقیر اور کمزور چیز کو اپنا معبود و حاجت روا بنا لیا۔
یہ توحید کے مقابلہ میں شرک کی شناعت و قبح ظاہر کرنے کے لئے مثال بیان فرمائی جسے کان لگا کر سننا اور غوروفکر سے سمجھنا چاہئے۔ تا ایسی رکیک و ذلیل حرکت سے باز رہو۔

O people, here is a parable set forth to you, so listen to it carefully: All those whom you invoke besides Allah can never create (even) a fly, even though they all join hands together for that. And if a fly snatches something away from them, they cannot release it from its possession. (Equally) feeble are the invoker and the invoked.
Tafsir al-Jalalayn :
O mankind, that is to say, [O] people of Mecca, a similitude is being struck, so listen to it, and it is that: truly those on whom you call, [whom] you worship, besides God, that is, other than Him, and these are the idols, will never create a fly (dhubāb is a generic noun, the singular of which is dhubāba, for both the masculine and the feminine) even if they rallied together to do so, to create it. And if a fly should take away something from them, [such as a drop] of the scents or the saffron in which they drench themselves, they would not be able to recover that from it, because of their [complete] incapacity: so how can they worship those [whom they suppose to be] partners of God, exalted be He? An odd thing — which He has expressed by striking a similitude. Feeble is the seeker, the worshipper, and the [thing] sought, the [thing] worshipped!

****************************************
کامیابی پانے والے:
إِنَّما كانَ قَولَ المُؤمِنينَ إِذا دُعوا إِلَى اللَّهِ وَرَسولِهِ لِيَحكُمَ بَينَهُم أَن يَقولوا سَمِعنا وَأَطَعنا ۚ وَأُولٰئِكَ هُمُ المُفلِحونَ {24:51}
ایمان والوں کی بات یہی تھی کہ جب بلائیے انکو اللہ اور رسول کی طرف فیصلہ کرنے کو ان میں تو کہیں ہم نے سن لیا اور حکم مان لیا اور وہ لوگ کہ انہی کا بھلا ہے [۹۸]
The only saying of the faithful believers, when they are called to Allah and His Messenger, to judge between them, is that they say: "We hear and we obey''. And such are the successful.
یعنی سچے مسلمان کا کام یہ ہوتا ہے اور یہ ہونا چاہئے کہ جب کسی معاملہ میں ان کو خدا و رسول کی طرف بلایا جائے خواہ اس میں بظاہر ان کا نفع ہو یا نقصان۔ ایک منٹ کا توقف نہ کریں فی الفور "سمعًا و طاعۃً" کہہ کر حکم ماننے کے لئے تیار ہو جائیں۔ اسی میں ان کی اصلی بھلائی اور حقیقی فلاح کا راز مضمر ہے۔

The only reply of the (true) believers, when they are summoned to Allah and His messenger that he (the messenger) may judge between them, is that they say, “We listen and obey.” Such people are the successful.
Tafsir al-Jalalayn :
All that the believers say, when they are summoned to God and His Messenger, that he may judge between them, is that they say, in other words, the saying that befits them is [to say]: ‘We hear and we obey’, by responding [to the summons]. And those, then, are the successful, the ones who will be saved.

****************************************
سننے والے مسلم (فرمانبردار) ہوجاتے ہیں:
وَما أَنتَ بِهٰدِى العُمىِ عَن ضَلٰلَتِهِم ۖ إِن تُسمِعُ إِلّا مَن يُؤمِنُ بِـٔايٰتِنا فَهُم مُسلِمونَ {27:81}
اور نہ تو دکھلا سکے اندھوں کو جب وہ راہ سے بچلیں [۱۰۶] تو تو سناتا ہے اسکو جو یقین رکھتا ہو ہماری باتوں پر سو وہ حکمبردار ہیں [۱۰۷]
Nor canst thou lead the blind out of their error. Thou canst make none hear save these who believe in Our signs and who have submitted themselves.
یعنی جس طرح ایک مردہ کو خطاب کرنا یا کسی بہرے کو پکارنا خصوصًا جبکہ وہ پیٹھ پھیرے چلا جا رہا ہو اور پکارنے والے کی طرف قطعًا ملتفت نہ ہو ان کے حق میں سود مند نہیں، یہ ہی حال ان مکذبین کا ہے جن کے قلوب مر چکے ہیں اور دل کے کان بہرے ہو گئے ہیں اور سننے کا ارادہ بھی نہیں رکھتے کہ ان کے حق میں کوئی نصیحت نافع اور کارگر نہیں۔ ایک نپٹ اندھے کو جب تک آنکھ نہ بنوائے تم کس طرح راستہ یا کوئی چیز دکھلا سکتے ہو۔ یہ لوگ بھی دل کے اندھے ہیں اور چاہتے بھی نہیں کہ اندھے پن سے نکلیں۔ پھر تمہارے دکھلانے سے وہ دیکھیں تو کیسے دیکھیں۔
یعنی نصیحت سنانا ان کے حق میں نافع ہے جو سن کر اثر قبول کریں۔ اور اثر قبول کرنا یہ ہی ہے کہ خدا کی باتوں پر یقین کر کے فرمانبردار بنیں۔

nor can you show the right path to the blind against their wandering astray. You can make no one to listen (to you) except those who believe in Our verses, then submit themselves (to Allah).
Tafsir al-Jalalayn :
nor can you lead the blind out of their error. You can only make those hear — hear so as to comprehend and accept — who believe in Our signs — the Qur’ān — and have therefore submitted, [are therefore] sincere in their affirmation of God’s Oneness.

****************************************
سننے والے مسلم (فرمانبردار) ہوجاتے ہیں:
وَما أَنتَ بِهٰدِ العُمىِ عَن ضَلٰلَتِهِم ۖ إِن تُسمِعُ إِلّا مَن يُؤمِنُ بِـٔايٰتِنا فَهُم مُسلِمونَ {30:53}
اور نہ تو راہ سمجھائے ا ندھوں کو انکے بھٹکنے سے تو تو سنائے اسی کو جو یقین لائے ہماری باتوں پر سو وہ مسلمان ہوتے ہیں [۶۵]
Nor canst thou be a guide to the blind out of their error; thou canst make none to hear save those who believe in Our signs, and who have surrendered themselves.
یعنی اللہ کو سب قدرت ہے، مردہ کو زندہ کر دے، تم کو یہ قدرت نہیں کہ مردوں سے اپنی بات منوا سکو یا بہروں کو سنا دو، یا اندھوں کو دکھلا دو، خصوصًا جب وہ سننے اور دیکھنے کا ارادہ بھی نہ کریں پس آپ ان کے کفر و ناسپاسی سے ملول و غمگین نہ ہوں، آپ صرف دعوت و تبلیغ کے ذمہ دار ہیں کوئی بدبخت نہ مانے تو آپ کا کیا نقصان ہے آپ کی بات وہ ہی سنیں گے جو ہماری باتوں پر یقین کر کے تسلیم و انقیاد کی خو اختیار کرتے ہیں (تنبیہ) اسی قسم کی آیت سورہ "نمل" کے آخر میں گذر چکی، اس پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ سماع مَوتیٰ کا مسئلہ: مفسرین نے اس موقع پر "سماع مَوتیٰ" کی بحث چھیڑ دی ہے۔ اس مسئلہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے عہد سے اختلاف چلا آتا ہے اور دونوں جانب نصوص قرآن و حدیث پیش کی گئ ہیں۔ یہاں ایک بات سمجھ لو کہ یوں تو دنیا میں کوئی کام اللہ کی مشیت و ارادہ کے بدون نہیں ہو سکتا مگر آدمی جو کام اسباب عادیہ کے دائرہ میں رہ کر باختیار خود کرے وہ اس کی طرف منسوب ہوتا ہے اور جو عام عادت کے خلاف غیر معمولی طریقہ سے ہو جائے اسے براہ راست حق تعالیٰ کی طرف نسبت کرتےہیں۔ مثلاً کسی نے گولی مار کر کسی کو ہلاک کر دیا یہ اس قاتل کا فعل کہلائے گا اور فرض کیجئے ایک مٹھی کنکریاں پھینکیں جس سے لشکر تباہ ہو گیا، اسے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے تباہ کر دیا باوجودیکہ گولی سے ہلاک کرنا بھی اسی کی قدرت کا کام ہے۔ ورنہ اس کی مشیت کے بدون گولی یا گولہ کچھ بھی اثر نہیں کر سکتا۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ فرمایا { فَلَمْ تَقْتُلُوْ ھُمْ وَلٰکِنَّ اللہَ قَتَلَھُمْ وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللہَ رَمٰی } (انفال رکوع۲) یہاں خارق عادت ہونے کی وجہ سے پیغمبر اور مسلمانوں سے "قتل" و "رمی" کی نفی کر کے براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کی گئ۔ ٹھیک اسی طرح { اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی } کا مطلب سمجھو۔ یعنی تم یہ نہیں کر سکتے کہ کچھ بولو اور اپنی آواز مردے کو سنا دو۔ کیونکہ یہ چیز ظاہری اور عادی اسباب کے خلاف ہے البتہ حق تعالیٰ کی قدرت سے ظاہری اسباب کے خلاف تمہاری کوئی بات مردہ سن لے اس کا انکار کوئی مومن نہیں کر سکتا۔ اب نصوص سے جن باتوں کا اس غیر معمولی طریقہ سے سننا ثابت ہو جائے گا اسی حد تک ہم کو سماع مَوتیٰ کا قائل ہونا چاہئے۔ محض قیاس کر کےدوسری باتوں کو سماع کے تحت میں نہیں لا سکتے۔ بہرحال آیت میں "اسماع" کی نفی سے مطلقًا سماع کی نفی نہیں ہوتی۔ واللہ اعلم۔

Nor are you (able) to show the right path to the blind against their straying. You can make none to listen except those who believe in Our signs, hence they submit.
Tafsir al-Jalalayn :
Nor can you guide the blind out of their error. You can only make hear, in a way so as to understand and accept, those who believe in Our signs, [in] the Qur’ān, and have thus submitted, sincere in their affirmation of God’s Oneness.

****************************************
خوشخبری کے قابل ہدایت یافتہ عقلمند بندے:
وَالَّذينَ اجتَنَبُوا الطّٰغوتَ أَن يَعبُدوها وَأَنابوا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ البُشرىٰ ۚ فَبَشِّر عِبادِ {39:17}
اور جو لوگ بچے شیطانوں سے کہ انکو پوجیں اور رجوع ہوئے اللہ کی طرف انکے لئے ہے خوشخبری [۳۰] سو تو خوشی سنا دے میرے بندوں کو
And those who avoid the devils lest they should worship them and turn Unto Allah in penitence, for them are glad tidings. Wherefore give thou glad tidings Unto My bondmen,
یعنی جنہوں نے شیطانوں کا کہا نہ مانا اور سب شرکاء سے منہ موڑ کر اللہ کی طرف رجوع ہوئے، ان کے لئے ہے بڑی بھاری خوشخبری۔

الَّذينَ يَستَمِعونَ القَولَ فَيَتَّبِعونَ أَحسَنَهُ ۚ أُولٰئِكَ الَّذينَ هَدىٰهُمُ اللَّهُ ۖ وَأُولٰئِكَ هُم أُولُوا الأَلبٰبِ {39:18}
جو سنتے ہیں بات پھر چلتے ہیں اس پر جو اس میں نیک ہے [۳۱] وہی ہیں جن کو رستہ دیا اللہ نے اور وہی ہیں عقل والے [۳۲]
Who hearken Unto the word and follow that which is the exceLlent there of. These are they whom Allah hath guided, and those are men of understanding.
یعنی سب طرح کی باتیں سنتے ہیں۔ پھر ان میں جو بات اچھی ہو اس پر چلتے ہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ خدا کی بات سنتے ہیں اور اس میں جو ہدایات اعلیٰ سے اعلیٰ ہوں ان پر عمل کرتے ہیں۔ مثلًا ایک چیز رخصت و اباحت کی سنی، دوسری عزیمت کی، توعزیمت کی طرف جھپٹے ہیں۔ رخصتوں کا تتبع نہیں کرتے۔ یا یوں ترجمہ کرو کہ اللہ کا کلام سن کر اس کی بہترین باتوں کا اتباع کرتے ہیں۔ کیونکہ اس کی ساری باتیں بہتر ہی ہیں۔ کذا قال المفسرون۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے ایک اور طرح اس کا مطلب بیان کیا ہے ۔"چلتے ہیں اس کے نیک پر۔ یعنی حکم پرچلنا کہ اس کو کرتے ہیں۔ اور منع پر چلنا کہ اس کو نہیں کرتے۔ اس کا کرنا نیک ہے۔ اس کا نہ کرنا نیک ہے"۔
یعنی کامیابی کا راستہ ان ہی کو ملا ہے ۔ کیونکہ انہوں نے عقل سےکام لے کر توحید خالص اور انابت الی اللہ کا راستہ اختیار کیا۔

And those who abstain from worshipping the Tāghūt and turn fervently to Allah, for them there is good news. So, give the good news to My servants.
who listen to what is said, then, follow the best of it. Those are the ones whom Allah has guided, and those are the ones who possess understanding.
Tafsir al-Jalalayn :
As for those who steer clear of the worship of false deities, graven images, and turn penitently, apply themselves, to God, there are good tidings for them, of Paradise. So give [such] good tidings to My servants,
who listen to the words [of God] and follow the best [sense] of it, which is that which contains [the means to] righteousness for them. Those, they are the ones whom God has guided; and those, they are the people of pith, the possessors of intellect.

****************************************
قرآن سنکر جنات کا مومن اور منذر(خبردار کرنے والے مبلغ  دین) ہونا:
وَإِذ صَرَفنا إِلَيكَ نَفَرًا مِنَ الجِنِّ يَستَمِعونَ القُرءانَ فَلَمّا حَضَروهُ قالوا أَنصِتوا ۖ فَلَمّا قُضِىَ وَلَّوا إِلىٰ قَومِهِم مُنذِرينَ {46:29}
اور جس وقت متوجہ کر دیے ہم نے تیری طرف کتنے اک لوگ جنوں میں سے سننے لگے قرآن پھر جب وہاں پہنچ گئے بولے چپ رہو پھر جب ختم ہوا الٹے پھرے اپنی قوم کو ڈر سناتے ہوئے [۵۲]
And recall what time We turned towards thee a company Of the Jinns hearkening Unto the Qur'an. So when they came in the presence thereof they said: give ear. Then when it was ended, they turned back to their people as warners.
بعثت محمدی سے قبل جنوں کو کچھ آسمانی خبریں معلوم ہو جاتی تھیں۔ جب حضور پر وحی آنا شروع ہوئی تو وہ سلسلہ تقریبًا بند ہو گیا اور بہت کثرت سے شُہُب کی مار پڑنے لگی۔ جنوں کو خیال ہوا کہ ضرور کوئی نیا واقعہ ہوا ہے جس کی وجہ سے آسمانی خبروں پر سخت پہرے بٹھلائے گئے ہیں۔ اسی کی جستجو کے لئے جنوں کے مختلف گروہ مشرق و مغرب میں پھیل پڑے۔ ان میں سے ایک جماعت "بطن نخلہ" کی طرف گذری۔ وہاں اتفاق سے اس وقت حضور پرنور اپنے چند اصحاب کے ساتھ نماز فجر ادا کر رہے تھے اللہ تعالٰی نے جنوں کی اس ٹکڑی کا رخ قرآن سننے کے لئے ادھر پھیر دیا۔ قرآن کی آواز انہیں بہت عجیب اور موثر و دلکش معلوم ہوئی اور اس کی عظمت و ہیبت دلوں پر چھا گئ۔ آپس میں کہنے لگے کہ چپ رہو اور خاموشی کے ساتھ یہ کلام پاک سنو۔ آخر قرآن کریم نے ان کے دلوں میں گھر کر لیا۔ وہ سمجھ گئے کہ یہ ہی نئی چیز ہے جس نے جنوں کو آسمانی خبروں سے روکا ہے۔ بہرحال جب حضور قرآن پڑھ کر فارغ ہوئے، یہ لوگ اپنے دلوں میں ایمان و ایقان لے کر واپس گئے اور اپنی قوم کو نصیحت کی۔ انکی مفصل باتیں سورہ "جِنّ" میں آئیں گی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مرتبہ حضور کو انکے آنے جانے اور سننے سنانے کا پتہ نہیں لگا۔ ایک درخت نے باذن اللہ کچھ اجمالی اطلاع آپ کو دی اور مفصل حال اس کے بعد وحی کے ذریعہ سے معلوم کرایا گیا کما قال تعالٰی { قُلْ اُوْحِیَ اِلَیَّ اَنَّہُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ } الخ (جن رکوع۱) بعدہٗ بہت بڑی تعداد میں جن مسلمان ہوئے اور حضور سے ملاقات کرنے اور دین سیکھنے کے لئے انکے وفود حاضر خدمت ہوئے۔ خفاجی نے روایت کی بناء پر دعوٰی کیا ہے کہ چھ مرتبہ آپ نے جنوں سے ملاقات کی۔ اس لئے روایات میں جو اختلاف انکے عدد یا دوسرے امور کے متعلق معلوم ہوتا ہے اسکو تعدد وقائع پر حمل کرنا چاہئے۔

And (recall) when We directed a group of Jinns towards you, listening to the Qur’ān. So, when they attended it, they said (to each other), “Keep quiet.” Then once it was over, they went back to their people as warners.
Tafsir al-Jalalayn :
And, mention, when We sent a company of jinn your way — the jinn of Nasībīn in Yemen, or the jinn of Nineveh, who were seven or nine, [and this was] while the Prophet (s) was leading the dawn prayer with some of his Companions at Batn Nakhla, as reported by the two Shaykhs [al-Bukhārī and Muslim] — to listen to the Qur’ān and, when they were in its presence, they said, that is, they said to one another: ‘Listen carefully!’, concentrate in order to hear it [carefully]. Then, when it was finished, [when] he was finished reciting it, they went back to their people to warn [them], to threaten their people with the chastisement [from God] if they do not believe — they had been Jews, but then become Muslims.
                                                                                                       
****************************************
سمجھنے اور سننے والے ہی نصیحت پکڑتے ہیں:
لَذِكرىٰ لِمَن كانَ لَهُ قَلبٌ أَو أَلقَى السَّمعَ وَهُوَ شَهيدٌ {50:37}
اس میں سوچنے کی جگہ ہے اُسکو جسکے اندر دل ہے یا لگائے کان دل لگا کر [۳۴]
Verily herein is an admonition Unto him who hath a heart, or giveth ear while he is heedful.
یعنی ان عبرتناک واقعات میں غوروفکر کر کے وہ ہی لوگ نصیحت حاصل کر سکتے ہیں جنکے سینہ میں سمجھنے والا دل ہو کہ ازخود ایک بات کو سمجھ، یا کم از کم کسی سمجھانے والے کے کہنے پر دل کو حاضر کر کے کان دھریں۔ کیونکہ یہ بھی ایک درجہ ہے کہ آدمی خود متنبہ نہ ہو تو دوسرے کے متنبہ کرنے پر ہشیار ہو جائے جو شخص نہ خود سمجھے نہ کسی کے کہنے پر توجہ کے ساتھ کان لگائے اس کا درجہ اینٹ پتھر سےزیادہ نہیں۔

Indeed, there is a lesson in all this for him who has a heart and gives ear (to the truth) attentively.
Tafsir al-Jalalayn :
Assuredly there is in that, which is mentioned, a reminder, an admonition, for him who has a heart, a mind, or gives ear, [or] listens to admonitions, in [full] witness, present in heart [and mind].

****************************************
تقویٰ کا پہلا قدم قرآن سننا:
فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا استَطَعتُم وَاسمَعوا وَأَطيعوا وَأَنفِقوا خَيرًا لِأَنفُسِكُم ۗ وَمَن يوقَ شُحَّ نَفسِهِ فَأُولٰئِكَ هُمُ المُفلِحونَ {64:16}
سو ڈرو اللہ سے جہاں تک ہو سکے اور سنو اور مانو [۲۱] اور خرچ کرو اپنے بھلے کو [۲۲] اور جسکو بچا دیا اپنے جی کے لالچ سے سو وہ لوگ وہی مراد کو پہنچے [۲۳]
Wherefore fear Allah as much as ye are able, and hearken and obey, and expend, for the benefit of your souls. And whosoever is protected from niggardliness of his soul - those! they are the blissful.
یعنی مراد کو وہ ہی شخص پہنچتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ اس کے دل کے لالچ سے بچادے اور حرص و بخل سے محفوظ رکھے۔
یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے تمہارا ہی بھلا ہوگا۔
یعنی اللہ سے ڈر کر جہاں تک ہوسکے اس جانچ میں ثابت قدم رہو اور اس کی بات سنو اور مانو۔

So, observe taqwā (total obedience to Allah in awe of Him) as far as you can, and listen and obey, and spend (in Allah’s way), it being good for you. And those who are saved from the greed of their hearts are the successful.
Tafsir al-Jalalayn :
So fear God as far as you can — this abrogates His saying: Fear God as He should be feared [Q. 3:102] — and listen, to what you have been enjoined to, listening disposed to accept, and obey and expend, in obedience [to Him]; that is better for your souls (khayran li-anfusikum is the predicate of an implied yakun, ‘[that] is’, and the response to the imperative). And whoever is shielded from the avarice of his own soul, such are the successful, the winners.

****************************************
قرآن سننا سمجھنا جہنمی ہونے سے بچنے کا موجب:
وَقالوا لَو كُنّا نَسمَعُ أَو نَعقِلُ ما كُنّا فى أَصحٰبِ السَّعيرِ {67:10}
اور کہیں گے اگر ہم ہوتے سنتے یا سمجھتے تو نہ ہوتے دوزخ والوں میں [۱۵]
And they will say: had we been wont to hearken or to reflect, we had not been among the fellows of the Blaze.
یعنی کیا خبر تھی کہ یہ ڈرانیوالے ہی سچے نکلیں گے۔ اگر ہم اس وقت کسی ناصح کی بات سنتے یا عقل سے کام لیکر معاملہ کی حقیقت کو سمجھ لیتے تو آج دوزخیوں کے زمرہ میں کیوں شامل ہوتے اور تم کو یہ طعن دینے کا موقع کیوں ملتا۔

And they will say, “Had we been listening or understanding, we would not have been among the people of the Hell.”
Tafsir al-Jalalayn :
And they will say, ‘Had we listened, that is, listening so as to understand, or comprehended, that is, comprehension entailing reflection [upon the truth], we would not have been among the inhabitants of the Blaze’.

****************************************

نیک راہ کی ہدایت اور ایمان کا موجب:
قُل أوحِىَ إِلَىَّ أَنَّهُ استَمَعَ نَفَرٌ مِنَ الجِنِّ فَقالوا إِنّا سَمِعنا قُرءانًا عَجَبًا {72:1}
تو کہہ مجھ کو حکم آیا کہ سن گئے کتنے لوگ جنوں کے [۱] پھر کہنے لگےہم نے سنا ہے ایک قرآن عجیب
Say thou: it hath been revealed Unto me that a company of the Jinn listened, and said, verily we have listened to a Recitation wondrous.
جنوں کے وجود اور حقیقت پر حضرت شاہ عبدالعزیزؒ نے سورۃ ہذا کی تفسیر میں نہایت مبسوط و مفصل بحث کی ہے۔ اور عربی میں "آکام المرجان فی احکام الجان" اس موضوع پر نہایت جامع کتاب ہے جس کو شوق ہو مطالعہ کرے۔ یہاں گنجائش نہیں کہ اس قسم کے مباحث درج کئے جائیں۔

يَهدى إِلَى الرُّشدِ فَـٔامَنّا بِهِ ۖ وَلَن نُشرِكَ بِرَبِّنا أَحَدًا {72:2}
کہ سمجھاتا ہے نیک راہ سو ہم بھی اُس پر یقین لا۴ئے اور ہر گز نہ شریک بتلائیں گے ہم اپنے رب کا کسی کو [۲]
Guiding Unto rectitude; wherefore we have believed therein, and we shall by no means associate with our Lord anyone.
سورۃ "احقاف" میں گذر چکا کہ نبی کریم صبح کی نماز میں قرآن پڑھ رہے تھے کئ جنّ ادھر کو گذرے اور قرآن کی آواز پر فریفتہ ہوکر سچےدل سے ایمان لے آئے۔ پھر اپنی قوم سے جا کر سب ماجرا بیان کیا۔ کہ ہم نے ایک کلام سنا ہے جو (اپنی فصاحت و بلاغت، حسن اسلوب، قوت تاثیر، شیریں بیانی، طرز موعظت اور علوم و مضامین کے اعتبار سے) عجیب و غریب ہے، معرفت ربّانی اور رُشد و فلاح کی طرف رہبری کرتا ہے۔ اور طالبِ خیرکا ہاتھ پکڑ کر نیکی اور تقویٰ کی منزل پر پہنچا دیتا ہے اس لئے ہم سنتے ہی بلاتوقف اس پر یقین لائے اور ہم کو کچھ شک و شبہ باقی نہیں رہا کہ ایسا کلام اللہ کے سوا کسی کا نہیں ہوسکتا۔ اب ہم اس کی تعلیم و ہدایت کے موافق عہد کرتے ہیں کہ آئندہ کسی چیز کو اللہ کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ انکے اس تمام بیان کی آخر تک اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر وحی فرمائی۔ اس کے بعد بہت مرتبہ جن حضور سے آکر ملے ایمان لائے اور قرآن سیکھا۔

Say, “It has been revealed to me that a group from Jinn has listened (to the Qur’ān), and said (to their people), ‘Indeed we have heard an amazing Recital (Qur’ān)
that guides to the right way, so we have believed in it, and we will never associate a partner with our Lord.’

Tafsir al-Jalalayn :
Say, O Muhammad (s), to people: ‘It has been revealed to me, that is to say, I have been informed by way of revelation from God, exalted be He, that (annahu: the [suffixed] pronoun is that of the matter) a company of the jinn, the jinn of Nasībīn. This was at the time of the morning prayer at Batn Nakhla, a location between Mecca and Tā’if — these [jinn] being those mentioned in God’s saying, And when We sent a company of jinn your way…’ [Q. 46:29] — listened, to my recitation, then said, to their people upon returning to them: “We have indeed heard a marvellous Qur’ān, whose clarity, the richness of its meanings and other aspects one marvels at,
which guides to rectitude, to faith and propriety. Therefore we believe in it and we will never, after this day, associate anyone with our Lord.

****************************************
نقصان و زیادتی سے بے خوف ہوجانے کا موجب:
وَأَنّا لَمّا سَمِعنَا الهُدىٰ ءامَنّا بِهِ ۖ فَمَن يُؤمِن بِرَبِّهِ فَلا يَخافُ بَخسًا وَلا رَهَقًا {72:13}
اور یہ کہ جب ہم نے سن لی راہ کی بات تو ہم نے اُسکو مان لیا [۱۲] پھر جو کوئی یقین لائے گا اپنے رب پر سو وہ نہ ڈرے گا نقصان سے اور نہ زبردستی سے [۱۳]
And when we heard the Message of guidance, we believed therein; and whosoever believeth in his Lord, he shall fear neither diminution nor wrong.
یعنی سچے ایماندار کو اللہ کے ہاں کوئی کھٹکا نہیں۔ نہ نقصان کا کہ اس کی کوئی نیکی اور محنت یونہی رائگاں چلی جائے۔ نہ زیادتی کا کہ زبردستی کسی دوسرے کے جرم اس کے سر تھوپ دیئے جائیں، غرض وہ نقصان تکلیف اور ذلّت و رسوائی سب سے مامون و محفوظ ہے۔
یعنی ہمارے لئے فخر کا موقع ہے کہ جنّوں میں سب سے پہلے ہم نے قرآن سن کر بلا توقف قبول کیا اور ایمان لانے میں ایک منٹ کی دیر نہیں کی۔

and that when we heard the Guiding Discourse, we believed in it; so if one believes in his Lord, he will have no fear of either any curtailment (in his reward) or any excess (in his punishment),
Tafsir al-Jalalayn :

And that when we heard the guidance, the Qur’ān, we believed in it. For whoever believes in his Lord (read an implied huwa, ‘he’, [before fa-lā yakhāfu]) shall fear neither loss, a diminishing of his good deeds, nor oppression, [nor] injustice, by having his evil deeds increased.

****************************************

رَبَّنا إِنَّنا سَمِعنا مُنادِيًا يُنادى لِلإيمٰنِ أَن ءامِنوا بِرَبِّكُم فَـٔامَنّا ۚ رَبَّنا فَاغفِر لَنا ذُنوبَنا وَكَفِّر عَنّا سَيِّـٔاتِنا وَتَوَفَّنا مَعَ الأَبرارِ {3:193}
اے رب ہمارے ہم نے سنا کہ ایک پکارنے والا پکارتا ہے ایمان لانے کو کہ ایمان لاؤ اپنے رب پر [۲۹۲] سو ہم ایمان لے آئے [۲۹۳] اے رب ہمارے اب بخش دے گناہ ہمارے اور دور کر دے ہم سے برائیاں ہماری اور موت دے ہم کو نیک لوگوں کے ساتھ [۲۹۴]
Our Lord verily we heard a caller calling to belief: believe in your Lord, wherefore we have come to believe. Our Lord forgive us our sins, and expiate from us our misdeeds, and let us die along with the pious.
پہلے ایمان عقلی کا ذکر تھا، یہ ایمان سمعی ہوا جس میں ایمان بالرسول اور ایمان بالقرآن بھی درج ہو گیا۔
یعنی نبی کریم جنہوں نے بڑی اونچی آواز سے دنیا کو پکارا۔ یا قرآن کریم جس کی آواز گھر گھر پہنچ گئ۔
یعنی ہمارے بڑے بڑے گناہ بخش دے اور چھوٹی موٹی برائیوں پر پردہ ڈال دے اور جب اٹھانا ہو نیک بندوں کے زمرہ میں شامل کر کے دنیا سے اٹھا لے۔

Our Lord, We heard a herald calling towards Faith: ‘Believe in your Lord.’ So we believed.Our Lord, forgive us, then, our sins, and write off our evil deeds, and make us die only when we have joined the righteous.
Tafsir al-Jalalayn :

Our Lord, we have heard a caller calling, summoning people, to belief (li’l-īmān means ilā l-īmān) and this is Muhammad (s), or [summoning them] to the Qur’ān, saying, that, “Believe in your Lord!” And we believed, in Him. So, our Lord, forgive us our sins and absolve us of, conceal, our evil deeds, and so do not make them manifest by punishing us for them, and take us [in death], receive our spirits together, with the pious, the prophets and the righteous.
****************************************