Wednesday, 10 June 2015

مقاصدِ نزولِ قرآنِ مجید

1) تدبر(غور وفکر) اور تذکر(نصیحت) کے لئے
مبارک کتاب:
كِتٰبٌ أَنزَلنٰهُ إِلَيكَ مُبٰرَكٌ لِيَدَّبَّروا ءايٰتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُوا الأَلبٰبِ {38:29}
ایک کتاب ہے جو اتاری ہم نے تیری طرف برکت کی تا دھیان کریں لوگ اسکی باتیں اور تا سمجھیں عقل والے [۳۲]
یعنی جب نیک اور بد کا انجام ایک نہیں ہو سکتا تو ضرور تھا کہ کوئی کتاب ہدایت مآب حق تعالیٰ کی طرف سے آئے جو لوگوں کو خوب معقول طریقہ سے ان کے انجام پر آگاہ کر دے۔ چنانچہ اس وقت یہ کتاب آئی جس کو قرآن مبین کہتے ہیں۔ جس کے الفاظ، حروف، نقوش اور معانی و مضامین ہر چیز میں برکت ہے۔ اور جو اسی غرض سے اتاری گئ ہے کہ لوگ اس کی آیات میں غور کریں اور عقل رکھنے والے اسکی نصیحتوں سے منتفع ہوں چنانچہ اس آیت سے پہلے ہی آیت میں دیکھ لو کس قدر، صاف، فطری اور معقول طریقہ سے مسئلہ معاد کو حل کیا ہے کہ تھوڑی عقل والا بھی غور کرے تو صحیح نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے۔ (تنبیہ) شاید "تدبر" سے قوت علمیہ کی اور "تذکر" سے قوۃ عملیہ کی تکمیل کی طرف اشارہ ہو۔ یہ سب باتیں حضرت داؤدؑ کے تذکرہ کے ذیل میں آ گئ تھیں۔ آگے پھر ان کے قصہ کی تکمیل فرماتےہیں۔



فضائل قرآن اور مقام قُراء

Sunday, 7 June 2015

وصیت اور تقسیمِ میراث کی اہمیت وفضیلت

         زمانہ جاہلیت میں لوگ جس طرح کفر وشرک میں مبتلا تھے،طرح طرح کی ظالمانہ رسمیں رائج تھیں، غلاموں پر بے جاتشدد کرنا، لڑکیوں کو زندہ در گورکرنا،یتیموں اور بیواؤں کامال ہڑپ کرجانا،اورعورتوں کو ان کے جائزحقوق سے بھی محروم کرناعام تھا،اسی طرح اس وقت آج کے تہذیب یافتہ دور کی طرح یہ بھی رائج تھا کہ مرنے والے کا مال صرف اور صرف وہ مرد لیتے تھے جو جنگ کے قابل ہوں،باقی ورثا ،یتیم بچے اور عورتیں،روتے اور چلاتے رہ جاتیں،ان کے طاقتورچچااوربھائی ان کی آنکھوں کے سامنے تمام مال ومتاع پرقبضہ جما لیا کرتے تھے۔
          حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے جہاں کفر و شرک کافور ہوا اور دیگر تمام باطل رسموں کی اصلاح ہوئی ،اسی طرح یتیموں کے مال اور عورتوں کے حقوق ومیراث کے سلسلے میں بھی تفصیلی احکام نازل ہوئے،دنیائے انسانیت جاہلی تہذیب سے نکل کر اسلام کے پاکیزہ معاشرت میں زندگی گزارنے لگی۔

فضائلِ ماہِ رمضان اور اس کے مسنون اعمال


القرآن:
رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے سراپا ہدایت، اور ایسی روشن نشانیوں کا حامل ہے جو صحیح راستہ دکھاتی اور حق و باطل کے درمیان دو ٹوک فیصلہ کردیتی ہیں، لہذا تم میں سے جو شخص بھی یہ مہینہ پائے وہ اس میں ضرور روزہ رکھے، اور اگر کوئی شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے، اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا معاملہ کرنا چاہتا ہے اور تمہارے لئے مشکل پیدا کرنا نہیں چاہتا، تاکہ (تم روزوں کی) گنتی پوری کرلو، اور اللہ نے تمہیں جو راہ دکھائی اس پر اللہ کی تکبیر کہو اور تاکہ تم شکر گزار بنو۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 185]

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا:
أَتَاكُمْ رَمَضَانُ شَهْرٌ مُبَارَكٌ، ‏‏‏‏‏‏فَرَضَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ، ‏‏‏‏‏‏تُفْتَحُ فِيهِ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَتُغْلَقُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَحِيمِ، ‏‏‏‏‏‏وَتُغَلُّ فِيهِ مَرَدَةُ الشَّيَاطِينِ لِلَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، ‏‏‏‏‏‏مَنْ حُرِمَ خَيْرَهَا فَقَدْ حُرِمَ.
ترجمہ:
تمہارے پاس رمضان کا مبارک مہینہ آچکا۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض فرما دئیے۔ اس میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور اس میں شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے اس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو شخص اس کی خیر سے محروم ہوگیا تو وہ (پوری خیر) سے محروم ہوگیا۔
[سنن النسائی:210(2108)،.مسند احمد:7148، 8991، 9497، مسند اسحاق بن راهوية:1، شعب الایمان-للبيهقي:3600]
[تفسير الدر المنثور-للسيوطي:»سورة.البقرة:185][تفسير ابن كثير:»سورة القدر3]